Wednesday, June 28, 2023

Preserving Peshawar's Cultural Legacy

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : غروب ِآفتاب 

گنجان آباد پشاور کے اندرونی علاقوں (مرکزی شہر) کی پہچان و شناخت خطرے میں ہیں۔ دوسری طرف شہر کے رہنے والوں کو جن انواع و اقسام کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اُن کی ’بحرانی شکل و صورت‘ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”رہائشی و کاروباری علاقوں“ میں تمیز نہیں رہی۔ 

گلی کوچوں میں دکانیں اُور کثیرالمنزلہ تجارتی مراکز تعمیر ہونے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے رہائشی مکانات کے منہ مانگے دام مل رہے ہیں اُور یہی سبب ہے کہ اندرون شہر سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ محلے جن کی رونقیں اُور خصوصیت ’ایک خاندان‘ کی طرح رہنے والوں کی مشترک زبان و ثقافت ہوا کرتی تھی‘ آج اُن کی در و دیوار سے ’اَجنبیت‘ سے چھلک و جھلک رہی ہیں۔ پشاور کا سورج تو ابھی غروب نہیں ہوا لیکن اِس کے رہنے والوں نے منہ موڑ لیا ہے اُور کم رقبے کے مکانات زیادہ قیمت کے عوض فروخت کر کے نئی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ وہ ہستیاں اُور گھرانے جن میں پشاور آباد (مزین) تھا‘ جن سے پشاور آباد (معطر) تھا اُنہوں نے گمنامی کا انتخاب بہ امر مجبوری کیا ہے تو اِس کے ذمہ دار صرف معاشی مسائل نہیں بلکہ وہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کے تحت پشاور کو ایک ایک کر کے اِس کی خوبیوں سے الگ کیا جا رہا ہے جیسا کہ پشاور کا تعارف آج بھی ’پھولوں کے شہر‘ کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اِس کے سبھی چھوٹے بڑے باغات اُور سبزہ زاروں کی اراضی یا تو قبضہ ہو چکی ہے یا پھر تجاوزات کی زد میں ہے اُور کئی ایسی بدنما مثالیں بھی موجود ہیں جن میں باغات کی اراضی پر سرکاری دفاتر قائم کئے گئے ہیں اُور باغات کی اراضی کو ’لامتناہی عرصے کے لئے‘ اجارے (لیز) پر دیدیا گیا ہے! 

پشاور سے دشمنی (مفاد پرستی) کا یہ طویل سلسلہ باغات سے قبرستانوں (شہر ِخاموشاں) تک پھیلنے کے بعد اُن تعمیراتی نشانیوں کو بھی مٹانے پر تُلا ہوا ہے جو پشاور کی مرحلہ وار تعمیروترقی (ارتقائی مراحل) کے گواہ اُور ثبوت ہیں۔ صدیوں پر محیط پشاور کے اِس سفر میں ’ماضی کی یادگاروں‘ کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے‘ جس کے لئے خصوصی اِدارہ (محکمہ آثار قدیمہ اُور عجائب گھر) اُور سیاحت و ضلعی انتظامیہ و مقامی حکومت شامل ہیں اُور اِن سبھی الگ الگ ناموں سے حکومتی اداروں کے قیام کا مقصد پشاور کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسی طاقت اُور حاصل قانونی اختیارات کے باوجود ’پشاور کے مفادات‘ کا خاطرخواہ تحفظ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ہر دن پشاور کے نقشے سے کسی ایک عمارت کے منہدم ہونے کی صورت کسی ایک تاریخی باب کا اختتام ہو رہا ہے! 

جس رفتار سے پشاور کے نقوش مٹ رہے ہیں‘ اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ چند دہائیوں بعد پشاور شہر کی شکل و صورت یکسر مختلف ہوگی۔ اِس کی آب و ہوا پر آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اُور اِس کے وسائل کے دیدہ دلیرانہ استحصال کی وجہ سے ’وادی پشاور‘ کی شناختی علامت تبدیل ہو جائیں گی۔ اِس ظالمانہ سلوک کو روکنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی‘ باقی ماندہ نشانیوں کی حفاظت اُور بالخصوص تھانے اُور پٹوارخانے کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا کا ہر قانونی و سماجی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اِتفاق رائے سامنے آیا ہے۔ ’پشاور شہر‘ کے حقیقی (فطری) وارثوں میں شامل 2 معروف خاندانوں (سیٹھی اُور خواجگان) کے نمائندوں نے تنظیم سازی کے ذریعے ضلعی انتظامیہ‘ مقامی و صوبائی حکومت‘ پشاور سے قومی و صوبائی اسمبلی اُور سینیٹ اراکین و دیگر بااثر افراد سے بالمشافہ اُور بذریعہ سوشل میڈیا رابطے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پشاور کے بارے میں اِس منفی تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ ”پشاور کا کوئی بھی والی وارث نہیں رہا۔“

’پشاور جاگ اُٹھا‘ تو اِس کے سیاسی اثرات (و مضمرات) بھی ہوں گے اُور وہ انتخابی سیاست جو پشاور کے چودہ صوبائی اُور پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں سے ہوتی ہوئی 92 یونین کونسلوں میں تقسیم ہے اُس کے نتائج سیاسی‘ خاندانی و گروہی وابستگیوں سے بالاتر‘ توقعات سے قطعی مختلف (اندازوں سے برخلاف) برآمد ہوں گے اُور یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سیٹھی و خواجہ خاندان کی جانب سے پشاور کے لئے دردمند مؤقف کی وجہ سے سیاسی دباؤ بھی آئے گا جو اِس خاندان کے نمائندوں کے لئے ایک امتحان ثابت ہوگا کہ وہ یہ دامے درہمے سخنے خود کو پشاور کے کس حد تک وقف کرتے ہیں۔ 

پیش نظر رہنا چاہئے کہ مدمقابل ’پشاور کو غروب‘ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے اُور ’پشاور شناسی‘ کی صورت ’نئی سحر‘ کے متلاشی ہیں جو فی الوقت اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن اہل پشاور کا اتحاد ناممکن نہیں اُور اِس اتفاق میں برکت کے وسیع (لامحدود) امکانات موجود ہیں۔ یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ پشاور صرف مقامی لوگوں کے ’قابل فخر ورثہ‘ اُور ’اثاثہ‘ نہیں بلکہ پشاوری دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں اُور پھر پاکستان کا وہ کونسا بڑا شہر ہو گا جہاں ’پیشوری‘ آباد نہ ہوں۔ 

’ستائیس جون دوہزارتیئس‘ کے روز شروع ہونے والی مجوزہ ’تحفظ ِپشاور تحریک (ٹی پی ٹی)‘ کے دور رس نتائج و اثرات پہلا قدم اُٹھاتے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اُور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس میں صرف سیٹھی و خواجگان ہی نہیں بلکہ پشاور کی دیگر اقوام (برادریوں) کو بھی رنگ‘ نسل اُور مذہب و مسلک جیسے حوالوں سے بالاتر ہو کر ’شریک ِسفر‘ کیا جائے بالخصوص اُس نوجوان نسل کو پشاور شناس بنایا جائے جس کے ہاتھ میں ’سوشل میڈیا‘ کے ہتھیار ہیں اُور جو سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پشاور کے مسائل اُور اِس کے ماضی و حال کو زیادہ بہتر و مربوط انداز میں مقامی اُور عالمی سطح پر اُجاگر کر سکتے ہیں۔

....




Sunday, June 25, 2023

With each step at dawn, nature's secrets unfold

ژرف نگاہ        شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: چہل قدمی

تندرستی ہزار نعمت ہے۔ طب کے نکتہئ نظر سے ہفتے کے زیادہ تر دنوں میں یعنی ہر دن کم سے کم ’تیس منٹ‘ یا اِس سے زیادہ ’چہل قدمی‘ جسمانی اعضا کی فعالیت‘ خون کی گردش‘ جسم سے فاسد مادوں کے اخراج‘ بھوک پیاس کے احساس کو بڑھانے‘ نظام ہضم کی درستگی‘ ذہنی تناؤ اُور دباؤ (ڈپریشن) سے نجات الغرض مجموعی صحت کی بہتری یا اِسے برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ (ذریعہ) ہے‘ جسے ’تیر بہ ہدف نسخہ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ مصروفیات کی صورت ہر دن کم سے کم نصف گھنٹہ ’واک‘ اگر کسی جانے انجانے شخص کے ہمراہ کی جائے تو یہ ’آسان کسرت (ورزش)‘ ایک خوشگوار اُور حیرت انگیز اثرات رکھنے والی سماجی سرگرمی میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ اِس (چلتے چلتے) مختلف موضوعات پر تبادلہئ خیال سے بہت کچھ سیکھا اُور گردوپیش میں مشاہدہ کے بارے میں ہم عصروں کی رائے معلوم کی جا سکتی ہے۔ 

پیدل چلنے کی کم سے کم حد ’4 سے 6 ہزار قدم‘ مقرر ہے جبکہ معالجین تجویز کرتے ہیں کہ تیز اُور ہلکے قدموں سے ہر روز ’10 ہزار‘ قدم چلنے والے نسبتاً زیادہ صحت مند زندگی بسر کرتے ہیں۔ 

پیدل چلنے کے لئے بہترین مقام سبزہ زار‘ باغ یا ایسی ہموار سطحیں ہوتی ہیں جو پُرپیچ اُور اُونچی نیچی ہوں‘ جہاں علی الصبح تازہ ہوا میں گہرے سانس لینے سے حاصل ہونے والے خوشگوار احساس کا نعم البدل ممکن نہیں۔

 ’اہل پشاور‘ کے لئے پیدل چلنے کے تلخ و شریں تجربات پر شہری زندگی کے کچھ اِس انداز سے مسائل حاوی ہو چکے ہیں کہ ہر قدم ایک الگ کوفت سے واسطہ پڑتا ہے اُور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ صبح ہو یا شام‘ ماسوائے چند ایک علاقوں کے‘ خواتین کے لئے پیدل چلنے کے مواقع انتہائی محدود اُور پُرخطر ہیں۔ ایک ایسا شخص (مرد یا عورت) جو اپنے گھر اُور کام کاج کی جگہ (دفتر یا دکان) کے درمیان روزانہ تیس سے چالیس منٹ پیدل چلتا ہے اُسے تندرست رہنے کے لئے کسی اضافی مشقت کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اِس دوران وہ جن حقائق کا براہ راست مشاہدہ کرتا ہے اُنہیں باآسانی خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔

 ’صبح کی سیر کا پہلا نظارہ‘ جا بجا ڈھیروں ڈھیر گندگی (کوڑا کرکٹ) نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ کوڑاکرکٹ سے اُٹھنے والا تعفن اُور مکھیاں مچھر ہر راہ گیر کا پیچھا کرتی ہیں! پشاور کی کل 92 یونین کونسلوں میں سے بمشکل نصف میں گندگی اُٹھانے کا باقاعدہ انتظام موجود ہے جس میں اندرون شہر کے گنجان آباد علاقے بھی شامل ہیں لیکن ہر صبح گلی کوچوں میں گھر گھر سے گندگی اکٹھا کرنے اُور جھاڑو لگانے کے چند گھنٹے بعد صفائی برقرار نہیں رہتی اُور مقررہ مقامات اُور مقررہ اوقات کے علاؤہ کوڑا کرکٹ پھینکنے کا سلسلہ دن کے آغاز سے رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں گندگی پھینکنے‘ گندگی اُٹھانے اُور گندگی تلف کرنے جیسے تینوں طریق و فریق مربوط و منظم نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ شہری زندگی کا نظارہ ”گندگی و تعفن“ کی وجہ سے ناخوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ صبح کا دوسرا نظارہ بے ہنگم ٹریفک کا نظام ہے جو شہر کے جاگنے کے ساتھ ہی گرد اُڑاتے فعال ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پشاور کی سڑکوں پر 1960 اُور 1970ء کی دہائیوں میں ساختہ بسیں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں‘ جن کے اِنجنوں سے اُگلتا ہوا کثیف دھواں مٹی اُور گردوغبار کے بادلوں کو یہاں سے وہاں اُور وہاں سے یہاں لئے پھرتا ہے اُور اِس آلودگی بھری ہوا میں سانس لینا‘ کسی بھی طرح صحت مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ توجہ طلب ہے کہ پیدل چلنے کا رجحان دن بہ دن کم ہو رہا ہے اُور اِس کی وجوہات میں تیسری بڑی وجہ ’سٹریٹ کرائمز‘ ہیں۔

پشاور کی صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ الصبح سے رات گئے تک کوئی ایک بھی وقت اُور کوئی ایک بھی علاقہ ایسا نہیں رہا جہاں کے رہنے والے گھروں سے باہر خود کو محفوظ سمجھتے ہوں! پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2023ء کے پہلے دو ماہ کے دوران پشاور میں 74 راہزنی کی وارداتیں ہوئیں جن میں 41 وارداتوں کے دوران راہزنوں نے فائرنگ بھی کی۔ اِس دوران 34 موٹرسائیکل چھینی گئیں اُور 25 موٹرسائیکل چوری ہوئے۔“ چہل قدمی کسی بھی طرح مفلسی کی علامت نہیں البتہ بچت کا ذریعہ ہے اُور اِس بامقصد سرگرمی کے فرد‘ افراد اور سماج کے لئے متعدد فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن سبھی محرکات کی اِصلاح ضروری ہے جو پیدل چلنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ چہل قدمی کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنے کے لئے پشاور کے اُن سبھی باغات کو تجاوزات سے واگزار کرنا ضروری ہے جنہیں بنام ترقی غصب کیا گیا ہے اُور پشاور سے دشمنی رکھنے والی ’ایک خاص سوچ‘ اُور ’نظریئے‘ نے یہاں کے تاریخی و ثقافتی اَثاثوں اُور سماجی خوبیوں کے نقوش ایک ایک کر کے مٹانے شروع کر رکھے ہیں۔

چہل قدمی کے ذریعے ’پشاور شناسی‘ کو اِس صورت فروغ دیا جا سکتا ہے کہ اِس سے وہ خودغرضی اُور لاتعلقی پر مبنی رویئے عیاں ہو جائیں گے جن کی اِصلاح ضروری ہے۔ پشاور کے حقوق اَدا کرنے سے متعلق اِتفاق رائے اُور خوداِحتسابی ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہئ خیال میں بڑھتی چلی جائے گی‘ جو وقت کی ضرورت ہے۔ 

چہل قدمی کی وجہ سے ٹریفک کے دباؤ میں نمایاں کمی اضافی ثمر اُور باآسانی ممکن ہے جس سے پشاور کے ’کاربن فٹ پرنٹ (فضائی آلودگی)‘ میں خاطرخواہ کمی آ سکتی ہے اُور جس کا نتیجہ صاف آب و ہوا کی صورت برآمد ہو سکتا ہے۔ پشاور جو کبھی پھولوں کا شہر کہلاتا تھا لیکن اِس کے کچھ حصوں میں فضائی آلودگی کی شرح‘ اُس خطرناک سطح کو بھی عبور کر چکی ہے جو انسانی صحت کے لئے خطرناک و برداشت کی آخری حد ہے۔ ضروری ہے کہ کم فاصلے کے لئے گاڑی یا کسی سواری کا انتخاب کرنے کی بجائے پیدل چلنے کا انتخاب کیا جائے‘ اِسی میں صحت کی صورت انفرادی اُور پشاور کے مسائل پر غور کرنے جیسی اجتماعی بھلائی پوشیدہ ہے۔ 

  • With each step at dawn, nature's secrets unfold
  • Morning walk's embrace, a tranquil story untold



Thursday, June 15, 2023

Sethi Houses vanishing, like memories, with each curtain's fall

ناقابل اشاعت ……  شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: خاموش اِحتجاج

زوال اُور تبدیلی مستقل عمل ہے لیکن اِس کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے حساس معاشروں میں ’آثار قدیمہ‘ کے تحفظ پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ ’پشاور کہانی‘ مختلف ہے کہ یہاں تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر نشانی زوال پذیر ہے اُور انتہائی مخدوش حالت میں دیکھی جا سکتی ہے جبکہ متعلقہ حکومتی ادارے (محکمۂ آثار قدیمہ) اُور قانون نافذ کرنے والے ادارے (متعلقہ تھانہ جات) کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ ایک ایک کر کے پشاور کی نشانیاں مٹ رہی ہیں! بقول ’یحییٰ سیٹھی‘ پشاور کا یہ منظرنامہ‘ یہ حال احوال‘ یہ اجنبیت‘ جو آج نظر آ رہی ہے‘ پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی گئی اُور اِس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ پشاور کے آباؤاجداد کی نشانیاں ایک ایک کر کے مٹ رہی ہیں!“ پشاور کے مٹتے نقوش میں ’سیٹھی خاندان‘ کے گھر‘ سیٹھی خاندان کا قبرستان اُور سیٹھی خاندان کے نمایاں ترین فلاحی منصوبے کی اراضی بھی زیادہ دنوں کی مہمان دکھائی نہیں دے رہی!

تازہ ترین  واردات میں ’بازار کلاں‘ سے متصل ’محلہ سیٹھیان‘ کا قدیمی مکان راتوں رات منہدم کر دیا گیا ہے۔
 گھر کے مالک سیٹھی خاندان کے باقی ماندہ بزرگ یا تو انتہائی ضعیف ہیں یا پھر اِس خوف سے سامنے نہیں آ رہے کیونکہ قبضہ مافیا مسلح اُور سینہ زو رہے‘ جسے قانون یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف نہیں۔ یہ مافیا ،اپنے سامنے کھڑے ہونے والے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ گالیاں بکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ’معزز و برتر‘ شریف سیٹھی گھرانے کے بزرگ اُور نوجوان تھانہ کچہری نہیں کریں گے۔ یہ شریف اُور شرفا کی ایک نشانی اُن کی کمزوری سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ کام صوبائی حکومت اُور پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا ہے کہ وہ سیٹھی خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو اُور اِس بات کو یقینی بنائے کہ پشاور میں اگر کوئی کمزور و ناتواں ہے تو وہ ’قانون شکن‘ ہونا چاہئے۔ 

محلہ سیٹھیان کا تازہ ترین نشانہ بننے والا مکان افتخار سیٹھی (مرحوم) اُور اُن کی ہمشیرہ مسماۃ شمیم (ریٹائرڈ ڈاکٹر) کے نام پر مکان ہے۔
افتخار سیٹھی کے بھائیوں کو اِس سے دلچسپی نہیں۔ دونوں عمر کے اُس حصے میں ہیں جہاں وہ تھانہ کچہری نہیں کرنا چاہتے اُور نہ ہی ایک مکان کے لئے اپنے بال بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اِسی محلے کا دوسرا مکان لب سڑک (قریب دو کنال) جو ’اقبال سیٹھی‘ کی عدالت سے تسلیم شدہ ملکیت ہے لیکن وہ بھی قبضہ ہے‘ اگرچہ سیٹھی خاندان اِس مکان کی ملکیت کا مقدمہ جیت چکا ہے لیکن گھر کا قبضہ حاصل نہیں کر سکا۔

سیٹھی ہاؤس ہو یا کوئی بھی تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل عمارت ، اِس راتوں رات ملبے کا ڈھیر بنانے والے عموماً ہفتہ و اتوار کی درمیان شب واردات کرتے ہیں جب سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوتی ہے اُور اِس تعطیل کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی سے درخواست ہے کہ وہ اِس جاری بے قاعدگی اُور لاقانونیت کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر آرکیالوجی اُور اُ ن کے عملے کو طلب کریں اُور اِس بات کی بھی الگ سے تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جن اہلکاروں کو پشاور کی تاریخ و ثقافت کے نایاب نقوش بطور امانت سونپے گئے تھے اُنہوں نے اپنی ذمہ داریاں (فرائض منصبی) کس حد تک ایمانداری سے ادا کئے ہیں اُور یہ بھی دیکھا جائے کہ اِن اہلکاروں کے مالی اثاثے کہیں اِن کی آمدنی کے جائز و معلوم ذرائع سے زیادہ تو نہیں ہیں۔

تازہ ترین واردات میں  پشاور کے 2 تعمیراتی فن پاروں (سیٹھی ہاؤسیز) کے نقوش مٹا دیئے گئے ہیں لیکن  کوئی روکنے یا بچانے یا اِس نقصان پر مگرمچھ کے آنسو تک بہانے نہیں آیا! (انا للہ و انا علیہ راجعون)۔

سیٹھی ہاؤسیز کے ظاہری شان و شوکت (لکڑی کے ستون ، دروازے اُور کھڑکیاں، روشن دان، فرش اُور قیمتی پتھروں سے سجی چھتیں) مسمار ہونے کے بعد متعلقہ تھانہ اُور علاقے کی سیاسی نمائندگی کرنے والے بلدیاتی نمائندے حرکت میں آئے۔ موقع پر کام کرنے والے چند مزدوروں کو پکڑ لیا گیا جبکہ قریب ہی بازار کلاں میں بیٹھے اِس پورے منصوبے کے ’ماسٹر مائنڈ‘ پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

توجہ طلب ہے کہ صرف ’محلہ سیٹھیان‘ ہی نہیں بلکہ پشاور میں سیٹھی خاندان کا قبرستان جس کا کل رقبہ 20 کنال سے زیادہ ہے اُور اِس کی ملکیت کے کاغذات بھی موجود ہیں لیکن اِس کا رقبہ بھی قبضہ ہو چکا ہے یا قبضہ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ معاملہ ماضی میں جب عدالت تک پہنچا تو سیٹھی خاندان کے حق میں فیصلہ ہوا تھا اُور چار سال تک سماعتیں ہوتی رہیں جس کے بعد عدالت نے فیصلہ سیٹھی خاندان کے حق میں دیا لیکن سیٹھی خاندان کو اپنا حق آج تک نہیں مل سکا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ قبضہ مافیا نے ایک اُور چال چلتے ہوئے ’سیٹھی قبرستان‘ کو بدھ مت کا قدیمی مرکز قرار دینے کی مہم ’سوشل میڈیا‘ پر شروع کر رکھی ہے اُور اِس حوالے سے جس درخت اُور چبوترے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ سیٹھی خاندان کے بزرگ قرآن کریم کی تلاوت‘ درس قرآن اُور فاتحہ خوانی کی اجتماعی محافل کے اِنعقاد کے لئے کیا کرتے تھے! پاکستان بننے کے وقت یہاں ’سرخ پوشوں‘ نے پناہ بھی لی تھی‘ جنہیں بطور مہمان رکھا گیا تھا اُور اُن کی میزبانی کی گئی تھی۔ سیٹھی خاندان اِس علاقے میں خیرات و زکوۃ بھی دیا کرتا تھا اُور یہی خاندان صرف پشاور ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے کئی ممالک کی مدد کیا کرتا تھا۔

المیہ نہیں تو کیا ہے کہ ہے کہ پشاور کی تاریخ پر آج اُن لوگوں کو زیادہ عبور ہونے کا دعویٰ ہے جن کی اپنی کوئی تاریخ نہیں!

سیٹھی قبرستان (کم و بیش بیس کنال) کے گردچاردیواری بنانے کی ہر کوشش اب تک ناکام رہی ہے! ماضی میں قبرستان چاردیواری کے تعمیراتی منصوبے پر لاگت کا تخمینہ ’40 لاکھ‘ روپے تھا جو بڑھ کر ’ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے‘ ہو چکا ہے اُور اب اِس قدر خطیر رقم کہاں سے آئے گی‘ یہ سوال اپنی جگہ حکومت کو متوجہ کر رہا ہے کہ اگر سیٹھی قبرستان کے گرد چاردیواری نہ بنائی گئی تو شاید چند مرلے زمین بھی باقی نہ رہے اُور سیٹھی خاندان کے اجداد کی قبروں پر رہائشی بستی آباد ہو جائے جسے حکومتی فنڈ سے ٹیوب ویل‘ جنازہ گاہ‘ مسجد اُور سکول تعمیر کر کے قانونی شکل دیدی جائے گی اُور یہی طریقۂ واردات پشاور کی دیگر اقوام کے قبرستانوں کے ساتھ بھی ہو چکا ہے!

کیا یہ بات قابل مذمت نہیں کہ سیٹھی قبرستان کے ساتھ ملحقہ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی قبضہ ہو چکا ہے! 

اَلمیہ نہیں تو کیا ہے کہ سیٹھی خاندان عدالت میں تو ہر مقدمہ جیت جاتا ہے لیکن عدالتی احکامات کو عملی جامہ پہنانے والوں کی دلی ہمدردیاں سیٹھی خاندان کے ساتھ نہیں! وہ کہ جنہیں حقیقی محافظ ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے اِس پورے معاملے سے لاتعلق ہیں۔ سیٹھی خاندان کے لوگ انتہائی شریف النفس ہیں وہ قبضہ مافیا کا مقابلہ اُور اُن کا تن تنہا سامنا نہیں کر سکتے اُور ایسی صورت میں صوبائی و ضلعی حکومت کو سیٹھی خاندان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے۔

سیٹھی خاندان کی پشاور میں ’تیسری نشانی‘ اندرون یکہ توت گیٹ (محلہ جٹان) کا ’دارالمساکین‘ ہے جو آج بھی اِسی (سیٹھی) خاندان کی ملکیت ہے اُور جسے ماضی و حال میں کئی مرتبہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ ’دارالمساکین‘ وقف اراضی نہیں تو پھر اِس کا انتظام و ملکیت سیٹھی خاندان کے پاس کیوں نہیں اُور اِس میں حکومتی تعمیرات کس قانون یا اخلاقی جواز کے تحت کی گئی ہیں؟ دارالمساکین سیٹھی خاندان کے آباؤاجداد کی ملکیت تھی اُور ہے اُور صرف ملکیت نہیں بلکہ دارالمساکین پشاور اُور اہل پشاور سے سیٹھی خاندان کی ’دلی محبت‘ کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ افسوس کہ سیٹھی خاندان کے گھر‘ سیٹھی خاندان کا قبرستان اُور سیٹھی خاندان کی طرف سے اہل پشاور کی فلاح و بہبود کا مرکز (دارالمساکین) پر ایک ایسی سوچ رکھنے والے قابض ہیں جن کے لئے پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ یہاں کے شریف و محسن خاندانوں کی کوئی اہمیت نہیں!

پشاور کبھی بھی اِس قدر ’بے سروسامان‘ اُور ’بے آسرا‘ نہیں تھا کہ دیگر خیبرپختونخوا کے قبائلی و بندوبستی اضلاع اُور جعلی شناختی دستاویز کے ذریعے پاکستان کی شہریت حاصل کرنے والے افغان جرائم پیشہ گروہوں کے اراکین جنہوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں یہاں کی ہر نشانی اُور ہر خوبی کو ایک ایک کر مٹا رہے ہیں اُور پشاور تماشا دیکھ رہا ہے۔

صرف سیٹھی ہاؤسیز ہی نہیں بلکہ کئی دیگر نایاب گھر جو فن تعمیر کا نمونہ تھے‘ پشاور کی تاریخ و ثقافت کے گواہ تھے لیکن ملبے کی صورت راتوں رات ’لوٹ‘ لئے گئے ہیں! قبضہ مافیا کے ہاتھ لمبے ہیں جبکہ اہل پشاور بے بس ہیں کیونکہ وہ حقیقی سیاسی و سماجی نمائندگی سے محروم ہیں۔ اِن کی آنکھوں میں آنسوؤں اُور دل غم سے نڈھال ہیں۔ دُکھ بھرے بوجھل وجود کے ساتھ‘ آنسوؤں کی برسات ’خاموش احتجاج‘ کی صورت جاری ہے۔
پشاور کو کون سمجھے گا؟
اہل پشاور کے دُکھ کو کون سمجھے گا؟
پشاور کی مسیحائی کون کرے گا؟

 ”فکر مجھے گلزاروں کی ہے مولا خیر …… بارش تو انگاروں کی ہے مولا خیر
 اُلجھ رہے ہیں سارے مسیحا آپس میں …… فکر کسے بیماروں کی ہے مولا خیر (شمیم فرحت)۔“

……



SethiHouse
In Peshawar's embrace, Sethi House stands tall
Yet vanishing, like memories, with each curtain's fall