ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی : غروب ِآفتاب
گنجان آباد پشاور کے اندرونی علاقوں (مرکزی شہر) کی پہچان و شناخت خطرے میں ہیں۔ دوسری طرف شہر کے رہنے والوں کو جن انواع و اقسام کے مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اُن کی ’بحرانی شکل و صورت‘ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”رہائشی و کاروباری علاقوں“ میں تمیز نہیں رہی۔
گلی کوچوں میں دکانیں اُور کثیرالمنزلہ تجارتی مراکز تعمیر ہونے کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے رہائشی مکانات کے منہ مانگے دام مل رہے ہیں اُور یہی سبب ہے کہ اندرون شہر سے نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ وہ محلے جن کی رونقیں اُور خصوصیت ’ایک خاندان‘ کی طرح رہنے والوں کی مشترک زبان و ثقافت ہوا کرتی تھی‘ آج اُن کی در و دیوار سے ’اَجنبیت‘ سے چھلک و جھلک رہی ہیں۔ پشاور کا سورج تو ابھی غروب نہیں ہوا لیکن اِس کے رہنے والوں نے منہ موڑ لیا ہے اُور کم رقبے کے مکانات زیادہ قیمت کے عوض فروخت کر کے نئی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ وہ ہستیاں اُور گھرانے جن میں پشاور آباد (مزین) تھا‘ جن سے پشاور آباد (معطر) تھا اُنہوں نے گمنامی کا انتخاب بہ امر مجبوری کیا ہے تو اِس کے ذمہ دار صرف معاشی مسائل نہیں بلکہ وہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جس کے تحت پشاور کو ایک ایک کر کے اِس کی خوبیوں سے الگ کیا جا رہا ہے جیسا کہ پشاور کا تعارف آج بھی ’پھولوں کے شہر‘ کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ اِس کے سبھی چھوٹے بڑے باغات اُور سبزہ زاروں کی اراضی یا تو قبضہ ہو چکی ہے یا پھر تجاوزات کی زد میں ہے اُور کئی ایسی بدنما مثالیں بھی موجود ہیں جن میں باغات کی اراضی پر سرکاری دفاتر قائم کئے گئے ہیں اُور باغات کی اراضی کو ’لامتناہی عرصے کے لئے‘ اجارے (لیز) پر دیدیا گیا ہے!
پشاور سے دشمنی (مفاد پرستی) کا یہ طویل سلسلہ باغات سے قبرستانوں (شہر ِخاموشاں) تک پھیلنے کے بعد اُن تعمیراتی نشانیوں کو بھی مٹانے پر تُلا ہوا ہے جو پشاور کی مرحلہ وار تعمیروترقی (ارتقائی مراحل) کے گواہ اُور ثبوت ہیں۔ صدیوں پر محیط پشاور کے اِس سفر میں ’ماضی کی یادگاروں‘ کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے‘ جس کے لئے خصوصی اِدارہ (محکمہ آثار قدیمہ اُور عجائب گھر) اُور سیاحت و ضلعی انتظامیہ و مقامی حکومت شامل ہیں اُور اِن سبھی الگ الگ ناموں سے حکومتی اداروں کے قیام کا مقصد پشاور کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسی طاقت اُور حاصل قانونی اختیارات کے باوجود ’پشاور کے مفادات‘ کا خاطرخواہ تحفظ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے ہر دن پشاور کے نقشے سے کسی ایک عمارت کے منہدم ہونے کی صورت کسی ایک تاریخی باب کا اختتام ہو رہا ہے!
جس رفتار سے پشاور کے نقوش مٹ رہے ہیں‘ اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ چند دہائیوں بعد پشاور شہر کی شکل و صورت یکسر مختلف ہوگی۔ اِس کی آب و ہوا پر آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ اُور اِس کے وسائل کے دیدہ دلیرانہ استحصال کی وجہ سے ’وادی پشاور‘ کی شناختی علامت تبدیل ہو جائیں گی۔ اِس ظالمانہ سلوک کو روکنے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی‘ باقی ماندہ نشانیوں کی حفاظت اُور بالخصوص تھانے اُور پٹوارخانے کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا کا ہر قانونی و سماجی محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اِتفاق رائے سامنے آیا ہے۔ ’پشاور شہر‘ کے حقیقی (فطری) وارثوں میں شامل 2 معروف خاندانوں (سیٹھی اُور خواجگان) کے نمائندوں نے تنظیم سازی کے ذریعے ضلعی انتظامیہ‘ مقامی و صوبائی حکومت‘ پشاور سے قومی و صوبائی اسمبلی اُور سینیٹ اراکین و دیگر بااثر افراد سے بالمشافہ اُور بذریعہ سوشل میڈیا رابطے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پشاور کے بارے میں اِس منفی تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ ”پشاور کا کوئی بھی والی وارث نہیں رہا۔“
’پشاور جاگ اُٹھا‘ تو اِس کے سیاسی اثرات (و مضمرات) بھی ہوں گے اُور وہ انتخابی سیاست جو پشاور کے چودہ صوبائی اُور پانچ قومی اسمبلی کے حلقوں سے ہوتی ہوئی 92 یونین کونسلوں میں تقسیم ہے اُس کے نتائج سیاسی‘ خاندانی و گروہی وابستگیوں سے بالاتر‘ توقعات سے قطعی مختلف (اندازوں سے برخلاف) برآمد ہوں گے اُور یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ سیٹھی و خواجہ خاندان کی جانب سے پشاور کے لئے دردمند مؤقف کی وجہ سے سیاسی دباؤ بھی آئے گا جو اِس خاندان کے نمائندوں کے لئے ایک امتحان ثابت ہوگا کہ وہ یہ دامے درہمے سخنے خود کو پشاور کے کس حد تک وقف کرتے ہیں۔
پیش نظر رہنا چاہئے کہ مدمقابل ’پشاور کو غروب‘ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے اُور ’پشاور شناسی‘ کی صورت ’نئی سحر‘ کے متلاشی ہیں جو فی الوقت اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن اہل پشاور کا اتحاد ناممکن نہیں اُور اِس اتفاق میں برکت کے وسیع (لامحدود) امکانات موجود ہیں۔ یہ پہلو بھی لائق توجہ ہے کہ پشاور صرف مقامی لوگوں کے ’قابل فخر ورثہ‘ اُور ’اثاثہ‘ نہیں بلکہ پشاوری دنیا کے ہر ملک میں آباد ہیں اُور پھر پاکستان کا وہ کونسا بڑا شہر ہو گا جہاں ’پیشوری‘ آباد نہ ہوں۔
’ستائیس جون دوہزارتیئس‘ کے روز شروع ہونے والی مجوزہ ’تحفظ ِپشاور تحریک (ٹی پی ٹی)‘ کے دور رس نتائج و اثرات پہلا قدم اُٹھاتے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں اُور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس میں صرف سیٹھی و خواجگان ہی نہیں بلکہ پشاور کی دیگر اقوام (برادریوں) کو بھی رنگ‘ نسل اُور مذہب و مسلک جیسے حوالوں سے بالاتر ہو کر ’شریک ِسفر‘ کیا جائے بالخصوص اُس نوجوان نسل کو پشاور شناس بنایا جائے جس کے ہاتھ میں ’سوشل میڈیا‘ کے ہتھیار ہیں اُور جو سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پشاور کے مسائل اُور اِس کے ماضی و حال کو زیادہ بہتر و مربوط انداز میں مقامی اُور عالمی سطح پر اُجاگر کر سکتے ہیں۔
....