Sunday, May 19, 2019

US Coup Manual by Dr Farrukh Saleem

US 'coup manual'
اَمریکہ: غیرروائتی جنگی ہتھیار!

اکتوبر 2016: جویلین آسانج نے ویکی لیکس (WikiLeaks) نامی غیرسرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی‘ جس کے قیام کامقصد یہ تھا کہ دنیا کے وسائل پر تسلط رکھنے والی قوتوں کے استحصال اُور حکمت عملیوں سے متعلق ’خفیہ دستاویزات (classified media)‘ یعنی ایسے ناقابل تردید ثبوت ہر خاص و عام کے لئے شائع کئے جائیں‘ جو نامعلوم ذرائع سے حاصل ہوں۔ 29 جنوری2019ءکے روز ’ویکی لیکس‘ نے امریکہ کی ’حربی حکمت عملی سے متعلق نصابی ہدایات نامہ (Coup Manual) شائع کیا‘ جس کا دستاویزی نمبر FM3-05.130 تھا اُور یہ امریکہ کی خصوصی فوجی کاروائیاں کرنے والے دستوں (ARSOF) کے لئے مرتب کیا گیا تھا جو ’غیرروائتی جنگوں‘ سے متعلق ’خاص حکمت عملی‘ ہے۔ مذکورہ دستاویز کے ایک حصے (Appendix A) میں لکھا تھا ”(کسی ملک کے خلاف) امریکی سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اُور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے استفادہ کیا جائے گا۔“

غیرروائتی حربی حکمت عملی کے دوسرے باب میں اقتصادی جنگ کی تفصیلی وضاحت موجود ہے جس کے مطابق ”امریکہ ایسی صورت میں اپنی مالیاتی طاقت کا استعمال بطور ہتھیار کرے گا جبکہ روائتی انداز میں جنگ ختم ہونے کا نام نہ لے رہی ہو۔ اقتصادی سرگرمیوں کی طرح اِس حکمت عملی کو لاگو کرنے میں معمول اور پرامن انداز سے کام کیا جائے گا۔

امریکہ اپنی اقتصادی طاقت کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک میں مالیاتی نظم و ضبط اور سرگرمیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے اُور اِس کے لئے اُس نے ورلڈ بینک‘ عالمی مالیاتی فنڈ‘ آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ اُور بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹس قائم کر رکھے ہیں۔ یہ سبھی ادارے امریکہ کے سفارتکاروں کی حسب ضرورت مدد کرتے ہیں تاکہ وہ امریکی مفادات اور سیاسی اہداف حسب خواہش حاصل کر سکیں۔
امریکی غیر روائتی جنگی حکمت عملی کے کئی پہلو ہیں‘ جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے کئی الگ الگ اِدارے مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔

خفیہ دستاویزات کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ مالیاتی اِداروں کے ذریعے کسی قوم کی اقتصادی آزادی اُور فیصلوں پر نہ صرف اثرانداز ہوا جاتا ہے بلکہ غیرمحسوس انداز میں یہ فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے جاتے ہیں۔ بظاہر حکومت کسی اُور کی ہوتی ہے لیکن فیصلے امریکہ کی مرضی سے ہو رہے ہوتے ہیں! اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ورلڈ بینک اُور آئی ایم ایف کی پاکستان میں اہمیت اُور اِن پر انحصار دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے خلاف غیرروائتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور وہ اِس جنگ میں اقتصادیات کو غیرروائتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

ویکی لیکس کے ذریعے دنیا کو امریکہ کے غیرروائتی جنگی عزائم سے آگاہی ہوئی‘ تو یہ بات بہت سی اقوام کے لئے ’نئی خبر‘ نہ تھی بلکہ اُن کے فیصلہ ساز کسی نہ کسی سطح پر محسوس کر رہے تھے کہ وہ امریکہ کے اقتصادی جال میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ مذکورہ دستاویز کے فرضی یا جعلی ہونے سے متعلق امریکہ نے آج تک ایک لفظ نہیں کہا لیکن اُس نے ’ویکی لیکس‘ کے بانی کو گرفتار ضرور کر لیا ہے‘ جن پر قومی راز افشاءکرنے اور امریکہ کی قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات کے علاو ¿ہ اُن کی نجی زندگی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

29 جولائی 2018ءامریکہ کے سیکرٹری اسٹیٹ ’مائیک پمپیو (Mike Pompeo) نے ’سی این بی سی (CNBC)‘ نامی معروف نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”بناءکوئی غلطی کئے‘ ہم (امریکہ) اِس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ کیا کر رہا ہے۔ امریکہ کبھی بھی نہیں چاہے کہ عوام کے ٹیکسوں کا وہ پیسہ جس سے ’آئی ایم ایف‘ کو چلایا جاتا ہے وہ امریکی مفادات کے خلاف استعمال ہو۔“ اِس موقع پر اُنہوں نے بطور خاص چین کی مثال دی‘ جس پر حال ہی میں امریکہ نے تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں اُور ’مائیک پمپیو‘ کے بقول وہ ایسا کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ’آئی ایم ایف‘ چین کو اقتصادی مشکلات سے نکلنے میں مدد فراہم کرنے میں امریکی عوام کے دیئے گئے پیسے کا استعمال کرے۔

آج کی دنیا کو جس طرح جوہری ہتھیاروں سے خطرہ ہے بالکل اِسی طرح اقتصادی غیرروائتی ہتھیار بھی یکساں تباہ کن ہیں۔ یہ ہتھیار اگرچہ امریکہ کی جنگی حکمت عملی کا حصہ نہیں لیکن بہرحال اِن کے ذریعے امریکی مفادات کا تحفظ اور دفاع کیا جا رہا ہے۔ جس طرح کسی جنگ میں ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ذریعے دشمن ملک پر حملہ کیا جاتا ہے بالکل اِسی طرح غیرروائتی جنگ میں اقتصادی ہتھیار برسائے جاتے ہیں اُور یہ عمل مسلسل برسائے جانے والے بموں (carpet bombing) جیسا ہی اثر رکھتا ہے جسے امریکی فوج نے دو دہائیاں قبل متعارف کروایا تھا اُور اِس کا استعمال نائن الیون کے بعد افغانستان میں بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آیا تھا۔

دنیا بدل رہی ہے۔ جنگی‘ دفاعی اُور اقتصادی حکمت عملیاں روائتی اور غیرروائتی طریقوں میں تقسیم کر دی گئی ہیں لیکن اِن سب کا آپس میںتعلق قائم ہے۔ اگر امریکہ بیک وقت مختلف محاذوں پر حملہ آور ہے اور وہ اقتصادی ہتھیار کو بھی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہا تو پاکستان جیسے ملک کے فیصلہ سازوں کو سب سے پہلے تو اِس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ امریکہ نے پاکستان کے خلاف غیرروائتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور دوسرا حملے کو ناکام بنانے کے لئے اُن غیرروائتی جنگی چالوں سے خود کو بچانا ہوگا‘ جو مالیاتی امداد کے نام پر مسلط کی جاتی ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, May 12, 2019

Weaponized finance by Dr. Farrukh Saleem

Weaponized finance
اِقتصادی ہتھیار: مسلط جنگ!
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اَمریکہ کا محکمہ ¿ خزانہ دنیا بھر میں ایک خاص حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہوئے عالمی سطح پر امریکی دفاعی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ اقتصادی امور کے ماہر اُور ’ایرایشیاءگروپ‘ کے بانی اِیان بریمر (Ian Bremmer) نے اِس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”امریکہ ممالک کے ساتھ روائتی جنگ میں الجھنے کی بجائے اُن کے اقتصادی فیصلوں اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اِس اقتصادی حملے کے نتیجے میں کسی ہدف ملک کی اقتصادیات کو تباہ کر دیتا ہے۔“ ”یاہو فنانس (Yahoo Finance)“ نامی ویب سائٹ سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”آج کی دنیا میں حقیقت یہ ہے کہ ڈالر (امریکی کرنسی) کسی بھی جوہری بم سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمت عملیاں مختلف رہی ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں امریکی صدر جارج واشنگٹن (George Washington) اور فرینکلن روزویلٹ (Franklin Roosevelt) کے ادوار میں عالمی سطح پر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے اور امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل و حصول کے لئے مختلف حکمت عملیاں اختیار کی گئیں جبکہ موجودہ دور میں ’اقتصادیات سے بطور ہتھیار‘ کام لیا جا رہا ہے!“
امریکہ کے 76ویں وزیر خزانہ نے اقتصادیات اُور قومی مفادات کے حوالے سے منعقدہ ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اقتصادی طور پر کسی ملک پر گرفت کرنے کی حکمت عملی سے ایک نیا میدان جنگ معرض وجود میں آیا ہے۔ اب امریکہ کے فوجیوں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے تاریخ کی نظروں میں مجرم بننے کی ضرورت رہی ہے۔“
اقتصادی جنگ مسلط کرنے کی اصطلاح سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کسی ملک کے اقتصادی فیصلوں کو اِس حد تک اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے کہ اُس کے تمام فیصلے بشمول دفاع بھی مفلوج ہو کر رہ جائے۔ دنیا میں اِس قسم کی جنگ صرف امریکہ ہی نہیں مسلط کر رہا بلکہ مالی طور پر مستحکم ممالک اپنے اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور اپنی قومی سلامتی کو ممکن بنانے کے لئے ’اقتصادی ہتھیاروں‘ ہی کا استعمال کر رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں کئی دستاویزات اور خود امریکی حکام کے بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں‘ جنہوں نے کہیں اشارے کنائیوں تو کہیں واضح الفاظ میں اِس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اقتصادی ہتھیار کے استعمال سے دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جو ایک غیرروائتی ہتھیار ہے اُور یہ روائتی ہتھیاروں سے زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے۔ 29 جنوری کے روز ’ویکی لیکس (WikiLeaks)‘ نامی ویب سائٹ نے امریکی فوج کی چند خفیہ دستاویزات منظرعام پر لائیں۔ اِن دستاویزات میں ایک دستاویز جس کا نمبر FM3-05-130 تھا‘ وہ ’غیرروائتی جنگی حکمت عملی‘ سے متعلق تھی اُور اِس میں تحریر تھا کہ .... ”امریکہ کی فوج ’عالمی مالیاتی ادارے (IMF)‘ اُور ’ورلڈ بینک (World Bank)‘ کو غیرروائتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔“ اِس خفیہ حکمت عملی کے عیاں ہو جانے یعنی بھانڈا پھوٹ جانے کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا اُور بالخصوص مسلمان ممالک بشمول پاکستان خود کو ’آئی ایم ایف‘ اُور ’ورلڈ بینک‘ کے چنگل میں مزید پھنسنے کی بجائے اِس سے جلد از جلد چھٹکارہ پانے کی کوشش کرتے۔ اقتصادیات کو بطور ہتھیار استعمال کرنے سے متعلق امریکی فوجی حکمت عملی ظاہر ہونے کے بعد بھی اگر دنیا ہوش کے ناخن نہیں لے رہی تو یہ دانشمندانہ طرزعمل نہیں۔
امریکہ کی وزارت خزانہ اُور مرکزی خفیہ ادارہ (CIA) بظاہر دو الگ الگ حکومتی محکمے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریب رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے وزیر خزانہ رہے ’ڈیوڈ کوہن (David Cohen)‘ کے عہدے کی مدت مکمل ہونے کے فوراً بعد اُنہیں ڈپٹی ڈائریکٹر ’سی آئی اے‘ تعینات کر دیا تھا‘ جس سے امریکی محکمہ ¿ خزانہ اُور خفیہ ادارے کے درمیان قربت (ایک جیسی حکمت عملی) کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وہ زمانہ اب نہیں رہا جب کسی ملک پر بم برسائے جاتے ہیں۔ وہاں فوجیں اُتاری جاتی تھیں یا اُن پر زمینی فوجی دستے حملہ آور ہوتے تھے۔ آج کی دنیا میں امریکہ اقتصادی ہتھیار کو فتوحات کے لئے کامیابی سے استعمال کر رہا ہے‘ جس کے لئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی انٹرنیٹ پر منحصر ’ڈیجیٹل‘ اسلوب بھی رکھتی ہے اور یہ کسی معیشت کو روائتی (قدیمی) طریقے سے چلانے والے نظام کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ اِس جدید ہتھیار سے جنگ میں دشمن ملک کا دفاع کرنے والوں کے جانی نقصانات نہیں ہوتے بلکہ مالی نقصانات اُور معاشی نظام پر دسترس حاصل کرکے کامیابی اپنے نام کی جاتی ہے۔
اقتصادی ہتھیاروں سے مسلط جنگ کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی میں کسی ریاست کے سبھی حصہ داروں پوری عوام‘ پوری سیاسی قیادت‘ فوجی قیادت‘ اقتصادی امور کے نگران فیصلہ سازوں اُور ہر سطح پر کاروباری طبقات کو مل جل کر حکمت عملی بنانا ہوگی کیونکہ اِس جنگ میں قومی وسائل اور افرادی قوت کی ترقی کو محدود جبکہ معیشت کو آسان فیصلوں سے بیرونی وسائل (عیاشیوں) کا عادی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ اِس لئے اقتصادی طور پر مسلط جنگ کے ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کے لئے الگ الگ دفاعی حکمت عملیاں وقت کی ضرورت اُور پاکستان کے محفوظ مستقبل کے ناگزیر ہو چکی ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, May 5, 2019

TRANSLATION: What went wrong? by Dr Farrukh Saleem

What went wrong?

دانستہ‘ غیردانستہ غلطیاں

دنیا کی سب سے سبک (برق) رفتار جنس ’سرمایہ‘ ہے۔ اِس کے پر نہیں ہوتے لیکن یہ طاقت پرواز رکھتی ہے۔ یہ آن کی آن میں اپنا ٹھکانہ بدل سکتی ہے اور اِس کی پرواز اُس بلندی سے بھی بلند ہو سکتی ہے‘ جس تک ہر جنس کو رسائی حاصل نہ ہو بالکل شاہین کی طرح جو آسمان کی وسعتوں اُور بلندیوں میں پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی ہوا ہے۔ تحریک انصاف نے ایسا ماحول پیدا کیا جس سے گھبرا کر سرمایہ کاروباری سرگرمیوں سے نکل کر کہیں بلندیوں میں روپوش ہو گیا۔ خوف اِس قدر تھا کہ سرمائے کو امریکی ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسیوں میں تبدیل کر کے ذخیرہ کر لیا گیا اُور یوں وہ سرمایہ جس کے بل بوتے پر پاکستان میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں جاری تھیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے (آن 
کی آن میں) پرواز کر گیا۔


قومی سطح پر حساس فیصلہ سازی کرنے والوں سے آخر ایسی کونسی دانستہ او غیردانستہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں‘ جن کی وجہ سے سرمایہ داروں نے کنارہ کشی اختیار کی؟ گیس کی قیمت میں اضافہ اور یہ اضافہ تین ہندسوں تک کر دیا گیا۔ بجلی کی قیمت بڑھی اُور یہ قیمت دو ہندسوں میں پہنچا دی گئی۔ ڈالر کی قدر بھی دو ہندسوں میں بڑھا دی گئی۔ اِن سبھی اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانیوں کی آمدنی میں غیرمعمولی کمی آئی۔ قوت خرید تیزی سے کم ہوئی۔ ماضی کی طرح اب گھر سے باہر کھانا کھانے کے لئے جانے والوں کا ہجوم نہیں ہوتا۔ شاپنگ مالز میں خریدوفروخت کرنے والوں کی تعداد بھی غیرمعمولی طور پر کم ہوئی ہے اور لوگ خریدنے کی بجائے مائل بہ فروخت ہیں۔ یہ سبھی محرکات حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے اثرات ہیں!


پاکستان کی اقتصادیات کا پہیہ رک گیا ہے۔ سرمایہ کاری اور لین دین نہیں ہو رہی۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں یا اُن کی سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ ادارے اپنے افراد بوجھ کو اُتار رہے ہیں۔ کم سے کم 1.1 ملین (گیارہ لاکھ) پاکستانی ایسے ہیں‘ جنہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ کم سے کم 4.1 ملین (41 لاکھ) پاکستانیوں کا شمار خط غربت سے نیچے زندگی بسر ہونے لگا ہے اُور یہ سب حکومت کی دانستہ و غیردانستہ غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔


فاقی حکومت کے سامنے پہاڑ کی صورت کھڑے مسائل میں ’1600 ارب روپے‘ کا گردشی قرضہ‘ سرکاری اِداروں کا 1100 اَرب روپے‘ خسارہ اُور گیس کے شعبے میں کئی ارب ڈالر جیسے مستقل نقصانات شامل ہیں‘ جن سے چھٹکارہ حاصل کئے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔


تحریک انصاف سے دانستہ اور غیردانستہ طور پر سرزد ہونے والی غلطیوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حکومت کے اقتصادی فیصلہ ساز خاطرخواہ اہل یا صاحب بصیرت نہ تھے۔ وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ ٹیکس کی وصولی اقتصادی سرگرمی کا حاصل ہوتی ہے۔ اگر اقتصادی سرگرمیاں محدود ہو جائیں گی تو ٹیکس وصولی نہیں بڑھے گی۔ فیصلہ سازوں کی دانستہ اور غیردانستہ غلطیوں کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوئیں جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر جا پہنچی یعنی رواں مالی سال میں لگائے گئے تخمینہ جات سے ’485 ارب روپے‘ کم ٹیکس وصول ہوا۔


پاکستان کی اقتصادیات ایک ”بحرانی دور“ سے گزر رہی ہے اُور اِس صورتحال سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار دیکھنے والے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کی جنگیں ’سوشل میڈیا‘ کے میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں جہاں مفروضوں پر مبنی گمراہ کن معلومات عام کی جاتی ہیں‘ جس سے رائے عامہ متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا محاذ پر حملہ آور ہونے والوں کی کوشش ہے کہ وہ عوام اُور فوج کے اِدارے کے درمیان غلط فہمیاں اُور فاصلے پیدا کریں کیونکہ سوشل میڈیا اکیسویں صدی کا ہتھیار ہے۔ اِس کے ذریعے سیاسی بے چینی اور ابتری کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غلط معلومات کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جس سے ملک کی اقتصادیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ دشمن پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے حملہ آور ہے۔ یہ صورتحال ’وینزویلا‘ نامی ملک جیسی ہے‘ جہاں بیرونی طاقتوں نے حکومتی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلوں (عدم اعتماد) کے ذریعے اِسی طرح کے حالات پیدا کئے۔


ئے وزیر خزانہ‘ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے لئے مشکلات کی کمی نہیں۔ اُنہیں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو حالت سکون میں لانا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے بات چیت کے ذریعے اُس قرض کے حصول کی کوشش کرنا ہے جو ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ بجلی اُور گیس کے شعبوں میں ہونے والے اَربوں ڈالر کے نقصانات پر قابو پانا ہے جبکہ اِس جیسے دیگر کئی ایک ’سنگین اِقتصادی چیلنجز‘ درپیش ہیں‘ جن کی فہرست طویل ہے۔ ایک بات جو پورے وثوق سے کہی اور حالات کے تناظر میں سمجھی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اُور اِن مالیاتی اداروں کے تربیت یافتہ اہلکار کتابوں میں درج نظریات سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ’لکیر کے فقیر‘ ہوتے ہیں‘ جو کسی اِقتصادی مشکل کا وہی حل پیش کرتے ہیں‘ جو کتابوں میں درج ہوتی ہے اُور اگر پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو درست کرنے کے لئے ’کتابی نظرئیوں‘ پر اکتفا کیا گیا تو اِس سے صورتحال سنبھلنے کی بجائے مزید بگڑ جائے گی۔ 


(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Friday, May 3, 2019

Peshawar: Reality and sarcastic turn!

تین مئی دوہزار اُنیس
پشاور: طعنہ اُور حقیقت!
اہل پشاور نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے دیا ہے۔ ’21 اپریل‘ کی شب بیرون کوہاٹی گیٹ‘ سٹی سرکلر روڈ پر ’فصیل شہر‘ کا 57 فٹ حصہ منہدم کرنے کے خلاف ہر سطح پر غیرمعمولی احتجاج دیکھنے میں آیا‘ جس کا ذکر ’ذرائع ابلاغ‘ سے ہوتا ہوا ’سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) پر پھیلتا چلا گیا اُور پشاور کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ ’بااثر‘ سرمایہ دار اُور قبضہ مافیا جیسی خصوصیات رکھنے والے طبقے اُور سوچ کے خلاف ’اہل پشاور‘ کی جیت ہوئی ہو‘ جسے اپنی نوعیت کی ’پہلی کامیابی‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’22 اپریل‘ کو پولیس مقدمہ درج ہونے کے بعد ’یکم مئی‘ سے دیوار کے مذکورہ حصے (57x12 فٹ) کی اَزسرنو تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔ متعلقہ بلدیاتی اہلکار اُور نمائندوں نے جس ’کارکردگی‘ اُور ’تشویش‘ کا عملاً اظہار کیا ہے اگر یہ طرزعمل شروع دن سے اختیار کیا جاتا تو ’فصیل شہر‘ کا 200فٹ حصہ اُور چند ٹکڑے ہی باقی نہ رہتے‘ نہ ہی 16 میں سے 14 دروازے راتوں رات غائب ہو کر اربوں روپے کی سرکاری اراضی قبضہ نہ ہو چکی ہوتی!

یہ طعنہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اہل پشاور نے اپنے آباو و اجداد کی نشانیاں اُونے پونے داموں فروخت کرتے وقت کیوں نہیں سوچا کہ تاریخ و ثقافت پر مبنی آثار قدیمہ کے نمونے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے؟ وہ تاریخ میں مجرم قرار پائیں گے اور جب جائیدادیں اپنی رضامندی سے فروخت کر دی گئی ہیں تو مگرمچھ کے آنسو کیوں بہائے جا رہے ہیں؟ ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ کی جانب سے ’فصیل شہر‘ مہندم کئے جانے کی واردات بارے احتجاج کیا گیا جس کی تصاویر اُور ویڈیوز جب ’فیس بک (facebook)‘ پر شیئر (share) کی گئیں تو ایک معزز قاری ’ہمایوں اَخوند‘ نے ’رومن پشتو‘ زبان میں کئے گئے اپنے تبصرے میں لکھا ”خوری ڈاغرے‘ خاریانو ہم دَاسے خہ اَے“ (ترجمہ) ”دھکے کھاو۔ اہل پشاور تم لوگ ایسے ہی اچھے ہو۔“ پٹھان قبائل اہل پشاور کو ”خارے (شہری)“ کہتے ہیں جو کسی بھی طرح ’بُرا تخلص‘ نہیں بلکہ اِس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ’شہر میں رہنے والے علمی و ادبی طور پر نسبتاً زیادہ تحصیل یافتہ اُور تہذیب و تمدن اور طور طریقوں کے ساتھ زیادہ رکھ رکھاو ¿ پر مبنی معاشرت کے عادی ہوتے ہیں۔ ”شہری“ ہونا اپنی جگہ اعزاز ہے اُور اگر ایسا نہ ہوتا تو پہاڑوں‘ غاروں اور دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت ’اچھی (باسہولت و بامعنی) زندگی‘ کے لئے شہروں کو رخ نہ کرتے!

گرامی قدر ہمایوں اخوند (بحوالہ فیس بک تاریخ پیدائش 26 ستمبر 1965) کا شمار علمی ادبی حلقوں میں ہوتا ہے۔ آپ معلم ہیں اُور آج بھی اُن کی رائے تاریخ و ادب کے حوالے سے مستند مقام رکھتی ہے۔ آپ گردوپیش سے بے نیاز نہیں بلکہ وسیع مطالعے اور مشاہدے پر منحصر تاریخ و ثقافت جیسے موضوعات اُور اِس حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ہمایوں اخوند حقیقت پسند اِنسان ہیں‘ جن کی لغت میں نفرت نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ پشاور کی محبت اُن کی ذات کا حوالہ ہے اُور اُنہوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی یا اظہار مروت میں ’پشاور کا لبادہ‘ نہیں اُوڑھ رکھا بلکہ پشاور اور پشاوریوں کے مزاج آشنا ہیں۔ اِسی لئے ’اہل پشاور (خاریانوں) کو طعنہ دیا کہ اگر اُنہیں اچانک پشاور کی تباہی کا احساس ہو گیا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہے لیکن شاید یہ استعارہ 100فیصد درست نہیں۔

دیر تو ہوئی ہے لیکن ’بیداری کی لہر‘ اُٹھنے میں بہت دیر بہرحال نہیں ہوئی اُور یہی وجہ ہے کہ فصیل شہر کا منہدم ہونے والے ٹکڑے کی ’اَزسرنو تعمیر‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا چند برس قبل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مئی 2013ء اور جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں تبدیلی کے جس سورج کی کرنیں پھیلی ہیں‘ اُن کی روشنی میں منظرنامہ کچھ نہ کچھ تبدیل ضرور لگ رہا ہے۔ ”ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے .... میں اُور تو کیا چیز ہیں‘ تنکے پتے ایک نشان .... عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں اِنسان .... کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان (جیلانی کامران)“

درحقیقت پشاور کی دریافت تو ہو چکی لیکن اِس تلاش کا سفر (عمل) جاری ہے۔ جیسے جیسے لوگ ’پشاور آشنا‘ ہو رہے ہیں ویسے ویسے اُس ’بیداری کا حصہ‘ بن رہے ہیں جو پشاور کے اثاثوں کی حفاظت سے متعلق ہے۔

منہدم فصیل شہر کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو پھر سے اینٹ اینٹ کر کے جوڑا جا رہا ہے۔ قابل ذکر اور لائق غور ہے کہ پشاور کی تاریخ میں اِس قسم کی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں راتوں رات منہدم ہونے والی ’فصیل شہر‘ کے کسی بھی حصے کی اِس طرح فوری تعمیر کر دی گئی ہو۔ آج کوئی ایک بھی اعلیٰ سے ادنیٰ فیصلہ ساز ایسا نہیں ملتا جو ماضی کی طرح کے آثار قدیمہ سے اِظہار بیزاری کرتا ہو۔ جو باتیں ماضی میں ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی تھیں آج وہ باتیں دلوں اُور اِستعاروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

ایک وقت وہ تھا کہ جب پشاور کی ماضی میں اِس قسم کی ’بے قاعدگیاں‘ اُور اُن کے بارے میں ’رسمی تحقیقات‘ فائلوں میں دب کر ختم ہو جایا کرتی تھیں۔ ذرائع ابلاغ چند دن واویلا کرنے کے بعد خاموش ہو جایا کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے زمانے میں نیند محال ہے۔ وہ سبب اَسباب اُور وجوہات کہ جن کے باعث ماضی میں ’فصیل شہر‘ ضلع و ٹاون ناظمین کے کاروباری مفادات کی نذر ہوئیں اُور آج بھی ایسی جائیدادیں (ثبوت) موجود ہیں کہ جن کے مالک و وارث ماضی و حال میں پشاور کے سیاہ و سفید (فیصلوں) کے مالک رہے ہیں! تو اُمید ہے اہل پشاور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں فیصلہ سازی کے منصب پر ایسے کرداروں کو ’فائز (منتخب)‘ کریں گے جن کے ذاتی و کاروباری مفادات پشاور سے متصادم نہ ہوں۔ سطحی صورتحال کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لیا جائے تو سیاست اُور مفادات پر مبنی طرز سیاست و حکمرانی ایسا ”المیہ“ ہے کہ جو صرف پشاور کی حد تک محدود نہیں بلکہ قومی و صوبائی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کے اکثر فیصلے اُن کے ذاتی اَثاثوں میں اِضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ تو یہ بھی تبدیلی کا ثمر ہی ہے کہ آج صرف پشاور نہیں بلکہ اُس طرزحکمرانی کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا جا رہا ہے‘ جس سے لاحق خطرات کا شمار ممکن نہیں!
........