Economic strategy
اقتصادی حکمت عملی
اٹھارہ اگست (دوہزاراٹھارہ) کے روز عمران خان نے بطور 22ویں وزیراعظم پاکستان عہدے کا حلف لیا۔ اُسی روز ایک انگریزی اخبار کی شہ سرخی تھی کہ پاکستان کے ذمے مالی واجب الادأ بوجھ 30 کھرب روپے یعنی 83 فیصد زیادہ ہو چکا ہے۔ سال 1971ء میں پاکستان کا کل قرض 30 ارب روپے تھا۔
نئی حکومت کے لئے پہلا کام یہ تھا کہ وہ مزید (نئے) قرض لیکر (پرانے) قرضوں کی اقساط بمعہ سود ادا کریں اور اس سلسلے میں عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانا بھی قدرے آسان حل تھا‘ کہ ’آئی ایم ایف‘ کی ہر شرط قبول کرتے چلے جائیں لیکن حکومت نے قدرے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور وزیراعظم پاکستان نے دوست ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانے کی بجائے دوست ممالک سے فائدہ اٹھایا جائے۔
23 اکتوبر کے روز پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں نے 6 ارب ڈالر کے امدادی پیکچ کا اعلان کیا۔ اطلاعات کے مطابق ’’سعودی امدادی پیکج سے پاکستان اِس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنے مالیاتی اصلاحات نافذ کر سکے۔‘‘ چوبیس اکتوبر کے روز ’کے ایس سی 100 انڈکس‘ میں 1556 پوائنٹس کا اضافہ ہوا‘ جو 4.13 فیصد کے مساوی غیرمعمولی اضافہ تھا۔ کراچی اسٹاک ایکسچیج کی تاریخ میں ایسا دوسری مرتبہ ہو رہا تھا کہ کسی ایک دن میں انڈکس 1550 پوائنٹس بڑھی ہو۔
اچھی خبر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر اقتصادی دباؤ میں کمی آئے گی اور یہ کمی بتدریج بڑھنے سے پاکستان کے بیرونی کھاتوں (ایکسٹرنل اکاونٹ) پر دباؤ بھی کم ہوگا۔
تحریک انصاف حکومت کی اقتصادی پالیسی تین درجاتی ہے۔ جس میں اقتصادی شرح نمو میں اضافہ کرنے کے لئے گھروں کی تعمیر (ہاؤسنگ) اور زراعت (ایگری کلچر) کو ترقی دی جائے گی۔ ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن سے برآمدات کو فروغ ملے اور بناء قرض لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔
پانچ سال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اپنے لئے مقرر کردہ ایک مشکل ہدف ہے۔ گھروں کی اِس قدر بڑے پیمانے پر تعمیر کے لئے حکومتیں گذشتہ تین دہائیوں سے کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ اِس شعبے کے ساتھ کم سے کم 3 درجن صنعتوں کی ترقی وابستہ ہے اور یہی وہ ہدف ہے جس پر ماضی کے حکمرانوں کی نظریں بھی مرکوز رہیں۔
پاکستان کا زرعی شعبہ 60 ارب ڈالر کی صنعت ہے‘ لیکن بدقسمتی سے کاشتکاروں کے منافع میں ہر دن کمی آ رہی ہے۔ حکومت نے زراعت کو پھر سے منافع بخش بنانے کے لئے پہلے ہی ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی کے نرخوں میں کمی کی ہے۔ نئی شرح کے مطابق ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی 10.35 پیسے فی یونٹ سے کم کر کے 5.35 روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے۔ حکومت اِس بات کے لئے کوشاں ہے کہ کاشتکاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور زیادہ رقبے کو قابل کاشت بنانے کے لئے کاشتکاروں کو مالی امداد دینے کی صورت حوصلہ افزائی کی جائے۔
گذشتہ پانچ سال میں پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کی کل سالانہ برآمدات کا حجم 25 ارب ڈالر ہوا کرتا تھا جس میں کمی ہو کر یہ 20 ارب ڈالر رہ گیا ہے لیکن اگر ہم بنگلہ دیش کی برآمدات کا جائزہ لیں تو وہ 24 ارب ڈالر سے بڑھ کر 37 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ برآمدات میں اضافے اِس صورت بھی ممکن ہے کہ اگر ہم پیداواری اخراجات میں کمی لائیں۔ برآمدکنندگان کو شکایت رہی ہے کہ پیداواری اخراجات زیادہ ہونے اور حکومت کی جانب سے ’ری فنڈ (refund)‘ روکے جانے کی وجہ سے برآمدکنندگان مالی مشکلات کا شکار رہیت ہیں۔ اِس سلسلے میں موجودہ حکومت ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے جا رہی ہے‘ جس کا نام ’سٹریٹیجک ٹریڈ اپلیسی فریم ورک 2018-23 ء رکھا گیا ہے اور اِس کے تحت حکومت برآمدات کو 20 ارب ڈالر سے بڑھا کر 46 ارب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کرنا چاہتی ہے۔ محصولات کے وزیر حماد اظہر کے مطابق برآمدکنندگان کو مراعات اور رعائت دینے کے علاؤہ اُن کے دیرینہ مطالبات پورے کئے جائیں گے۔
اگر ہم گذشتہ پانچ برس کی بات کریں تو پاکستان کا قرض اِس کی مالی برداشت سے زیادہ بڑھایا گیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں پائیدار طریقوں سے اضافہ کرے اور بیرون ملک سے ترسیلات زر کرنے والوں اور بالخصوص براہ راست سرمایہ کاروں کو راغب کرے۔ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئی اُو ایم)‘ نے ایک مرتبہ اِس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کو ہونے والے ترسیلات زر کا صرف ایک تہائی حصہ ہی بینکنگ کے ذریعے آتا ہے۔ اگر حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے مراعات کا اعلان کرتی ہے تو اِس سے ترسیلات زر کے لئے قانونی ذرائع اختیار کرنے والوں کے لئے کشش پیدا ہوگی اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو ترسیلات زر میں ’20 ارب ڈالر‘ کا اضافہ مشکل نہیں۔ جہاں تک میری ذاتی معلومات کا تعلق ہے اِس سلسلے میں حکومت نے تاحال کوئی عملی اقدامات نہیں کئے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)