Sunday, October 28, 2018

TRANSLATION Economic strategy by Dr. Farrukh Saleem

Economic strategy
اقتصادی حکمت عملی
اٹھارہ اگست (دوہزاراٹھارہ) کے روز عمران خان نے بطور 22ویں وزیراعظم پاکستان عہدے کا حلف لیا۔ اُسی روز ایک انگریزی اخبار کی شہ سرخی تھی کہ پاکستان کے ذمے مالی واجب الادأ بوجھ 30 کھرب روپے یعنی 83 فیصد زیادہ ہو چکا ہے۔ سال 1971ء میں پاکستان کا کل قرض 30 ارب روپے تھا۔

نئی حکومت کے لئے پہلا کام یہ تھا کہ وہ مزید (نئے) قرض لیکر (پرانے) قرضوں کی اقساط بمعہ سود ادا کریں اور اس سلسلے میں عالمی مالیاتی ادارے ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانا بھی قدرے آسان حل تھا‘ کہ ’آئی ایم ایف‘ کی ہر شرط قبول کرتے چلے جائیں لیکن حکومت نے قدرے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور وزیراعظم پاکستان نے دوست ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا تاکہ ’آئی ایم ایف‘ کے پاس جانے کی بجائے دوست ممالک سے فائدہ اٹھایا جائے۔

23 اکتوبر کے روز پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے سعودی حکمرانوں نے 6 ارب ڈالر کے امدادی پیکچ کا اعلان کیا۔ اطلاعات کے مطابق ’’سعودی امدادی پیکج سے پاکستان اِس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنے مالیاتی اصلاحات نافذ کر سکے۔‘‘ چوبیس اکتوبر کے روز ’کے ایس سی 100 انڈکس‘ میں 1556 پوائنٹس کا اضافہ ہوا‘ جو 4.13 فیصد کے مساوی غیرمعمولی اضافہ تھا۔ کراچی اسٹاک ایکسچیج کی تاریخ میں ایسا دوسری مرتبہ ہو رہا تھا کہ کسی ایک دن میں انڈکس 1550 پوائنٹس بڑھی ہو۔

اچھی خبر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر اقتصادی دباؤ میں کمی آئے گی اور یہ کمی بتدریج بڑھنے سے پاکستان کے بیرونی کھاتوں (ایکسٹرنل اکاونٹ) پر دباؤ بھی کم ہوگا۔

تحریک انصاف حکومت کی اقتصادی پالیسی تین درجاتی ہے۔ جس میں اقتصادی شرح نمو میں اضافہ کرنے کے لئے گھروں کی تعمیر (ہاؤسنگ) اور زراعت (ایگری کلچر) کو ترقی دی جائے گی۔ ایسے اقدامات کئے جائیں گے جن سے برآمدات کو فروغ ملے اور بناء قرض لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے۔

پانچ سال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اپنے لئے مقرر کردہ ایک مشکل ہدف ہے۔ گھروں کی اِس قدر بڑے پیمانے پر تعمیر کے لئے حکومتیں گذشتہ تین دہائیوں سے کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ اِس شعبے کے ساتھ کم سے کم 3 درجن صنعتوں کی ترقی وابستہ ہے اور یہی وہ ہدف ہے جس پر ماضی کے حکمرانوں کی نظریں بھی مرکوز رہیں۔

پاکستان کا زرعی شعبہ 60 ارب ڈالر کی صنعت ہے‘ لیکن بدقسمتی سے کاشتکاروں کے منافع میں ہر دن کمی آ رہی ہے۔ حکومت نے زراعت کو پھر سے منافع بخش بنانے کے لئے پہلے ہی ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی کے نرخوں میں کمی کی ہے۔ نئی شرح کے مطابق ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی 10.35 پیسے فی یونٹ سے کم کر کے 5.35 روپے فی یونٹ کر دی گئی ہے۔ حکومت اِس بات کے لئے کوشاں ہے کہ کاشتکاری کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور زیادہ رقبے کو قابل کاشت بنانے کے لئے کاشتکاروں کو مالی امداد دینے کی صورت حوصلہ افزائی کی جائے۔

گذشتہ پانچ سال میں پاکستان کی برآمدات میں مسلسل کمی کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کی کل سالانہ برآمدات کا حجم 25 ارب ڈالر ہوا کرتا تھا جس میں کمی ہو کر یہ 20 ارب ڈالر رہ گیا ہے لیکن اگر ہم بنگلہ دیش کی برآمدات کا جائزہ لیں تو وہ 24 ارب ڈالر سے بڑھ کر 37 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔ برآمدات میں اضافے اِس صورت بھی ممکن ہے کہ اگر ہم پیداواری اخراجات میں کمی لائیں۔ برآمدکنندگان کو شکایت رہی ہے کہ پیداواری اخراجات زیادہ ہونے اور حکومت کی جانب سے ’ری فنڈ (refund)‘ روکے جانے کی وجہ سے برآمدکنندگان مالی مشکلات کا شکار رہیت ہیں۔ اِس سلسلے میں موجودہ حکومت ایک جامع حکمت عملی وضع کرنے جا رہی ہے‘ جس کا نام ’سٹریٹیجک ٹریڈ اپلیسی فریم ورک 2018-23 ء رکھا گیا ہے اور اِس کے تحت حکومت برآمدات کو 20 ارب ڈالر سے بڑھا کر 46 ارب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کرنا چاہتی ہے۔ محصولات کے وزیر حماد اظہر کے مطابق برآمدکنندگان کو مراعات اور رعائت دینے کے علاؤہ اُن کے دیرینہ مطالبات پورے کئے جائیں گے۔

اگر ہم گذشتہ پانچ برس کی بات کریں تو پاکستان کا قرض اِس کی مالی برداشت سے زیادہ بڑھایا گیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں پائیدار طریقوں سے اضافہ کرے اور بیرون ملک سے ترسیلات زر کرنے والوں اور بالخصوص براہ راست سرمایہ کاروں کو راغب کرے۔ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئی اُو ایم)‘ نے ایک مرتبہ اِس بات کی نشاندہی کی تھی کہ پاکستان کو ہونے والے ترسیلات زر کا صرف ایک تہائی حصہ ہی بینکنگ کے ذریعے آتا ہے۔ اگر حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے مراعات کا اعلان کرتی ہے تو اِس سے ترسیلات زر کے لئے قانونی ذرائع اختیار کرنے والوں کے لئے کشش پیدا ہوگی اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو ترسیلات زر میں ’20 ارب ڈالر‘ کا اضافہ مشکل نہیں۔ جہاں تک میری ذاتی معلومات کا تعلق ہے اِس سلسلے میں حکومت نے تاحال کوئی عملی اقدامات نہیں کئے ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, October 21, 2018

TRANSLATION: Moving forward by Dr. Farrukh Saleem

Moving forward
اِرتقائی مراحل!
بُری خبر یہ ہے کہ ۔۔۔ پاکستان کا وہ مالی خسارہ جو سال 2013-14ء کے دوران ’3.1 ارب ڈالر‘ تھا بڑھ کر ’18 ارب ڈالر‘ ہو چکا ہے۔ بجلی کے شعبے میں ’گردشی قرضہ‘ 1200 ارب روپے سے زیادہ ہے جس میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں 500 ارب اور بعدازاں نواز لیگ حکومت 700 ارب روپے کرکے آنے والی حکومت کو تحفہ دے دیا گیا۔

اِن حقائق سے انکار نہیں کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار مہنگی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کی ایک غیرمعمولی مقدار چوری ہو جاتی ہے اور قومی اداروں کے لئے فیصلہ سازی کرنے والے اکثر ذاتی مفادات کے اسیر (عادی) ہیں!

تحریک انصاف کو فوری طور پر تمام خسارے کا بوجھ برداشت کرنے کے علاؤہ مراعات بھی دینا ہوں گی جس کی وجہ سے بجلی کے نرخ بڑھائے گئے ہیں اور اِس سے حاصل ہونے والی رقم سے اُن گناہوں کا کفارہ ادا کیا جائے گا‘ جو ماضی کے حکمرانوں سے سرزد ہوئے ہیں۔ وسط مدتی اور طویل مدتی حکمت عملیوں کے لئے اہداف یہ ہیں کہ 1: بجلی کی پیداواری لاگت (فی یونٹ بجلی کی قیمت) میں کمی لائی جائے۔ 2: بجلی کے ترسیلی نظام کی خرابیاں دور کی جائیں‘ جس کی وجہ سے بجلی کی ایک خاص مقدار ضائع ہو جاتی ہے اور 3: بجلی کی چوری کا سدباب کیا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف وسط مدتی اور طویل المدتی تین اہداف حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے؟ اِس کا جواب تو وقت ہی بتائے گا کہ تحریک انصاف نے ورثے میں ملے گھمبیر مسائل کا حل نکالنے کے لئے کس کس محاذ پر کتنی سنجیدگی سے عملی کوششیں کیں۔

ایک اُور بُری خبر یہ بھی ہے کہ ۔۔۔ گردشی قرضے کا سامنا حکومت کو صرف بجلی ہی کے شعبے میں نہیں کرنا پڑ رہا بلکہ گیس کے شعبے میں بھی 370 ارب روپے جیسا بڑا مالیاتی بوجھ حکومت کے کندھوں پر ہے! لائق توجہ ہے کہ اِس گردشی قرضے کا بڑا حصہ ’پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ کے آخری دور حکومت میں اختیار کی گئی حکمت عملی اُور فیصلوں کا نتیجہ ہے!

گیس کے ترسیلی نظام میں بھی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے سال 2001ء میں ہونے والی قومی پیداوار کا ’7 فیصد‘ ضائع ہو جاتا تھا جس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتے ہوئے یہ خسارہ 15فیصد سالانہ تک جا پہنچا ہے۔ عالمی سطح پر گیس کے ترسیلی نظام میں ضائع ہونے کی شرح 3 فیصد ہے۔ اب یہ تحریک انصاف کی ذمہ داری ٹھہری ہے کہ وہ ماضی کی حکومتوں میں ہونے والی گیس چوری اور ترسیلی نظام کی خرابیوں کی قیمت بھی ادا کرے اور ایسا کرنے کے لئے اِس کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں لیکن گیس قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’تحریک انصاف‘ گیس کے شعبے میں گردشی قرضے اور گیس کے ترسیلی نظام میں خرابیاں دور کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی یا منصوبہ بندی رکھتی ہے۔ اگر رکھتی ہے تو کیا اُس پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات بھی آنے والا وقت ہی دے گا کہ ’تحریک انصاف‘ بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی‘ ترسیلی نظام کی خرابی اور بجلی چوری کی طرح گیس کے ترسیلی نظام کی خرابیوں بشمول گیس چوری کا سدباب کس حد تک کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

اب تک 3 بُری خبریں سنائی گئیں جو پاکستان کا مالی اور بجلی و گیس کے شعبے میں خسارے سے متعلق تھیں۔ اب اچھی یہ ہے کہ حکومت نے مختلف پیداواری شعبوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے جامع اور سوچی سمجھی حکمت عملیاں وضع کی ہیں۔ پہلی ترجیح برآمدات میں اضافہ ہے۔ پاکستان ’ٹیکسٹائل‘ کے شعبے میں سب سے زیادہ (دو تہائی) برآمدات کرتا ہے اِس لئے حکومت نے ٹیکسٹائل کے شعبے کے لئے الگ گیس نرخوں کا اعلان کیا ہے۔ نئے نرخوں کا اطلاق ٹیکسٹائل کے علاؤہ قالین بافی‘ چمڑے کی صنعتوں‘ کھیلوں کا سامان بنانے کی صنعتوں اُور سرجری آلات کی صنعتوں پر ہوگا۔ اِن صنعتوں کو ترجیحی بنیادوں پر گیس کی فراہمی بھی کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں ’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن پنجاب‘ کے چیئرمین عادل بشیر کا یہ بیان لائق توجہ ہے جنہوں نے کہا کہ ’’حکومت کی جانب سے سستی اور مسلسل گیس کی فراہمی سے ٹیکسٹائل کا شعبہ فعال چھ ماہ کے اندر فعال ہو جائے گا۔‘‘

برآمدات میں اضافے کے لئے اقدامات کے بعد حکومت کی دوسری ترجیح ’ہاؤسنگ سیکٹر‘ کو ترقی دینا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں سالانہ 1 کروڑ نئے گھروں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن خاطرخواہ گھر تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے گھروں کی کمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گھروں کی تعمیر کے باعث کم سے کم تین درج صنعتوں سے جڑے شعبوں میں ترقی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں مصر‘ کینیا‘ نائیجریا اور جنوبی افریقہ کی مثالیں موجود ہیں۔ تصور کیجئے کہ بینکوں سے قرض لیکر گھروں کی خرید (مورگیج) کی پاکستان میں شرح ’’صفر اعشاریہ پچیس فیصد‘‘ جبکہ بھارت میں 11 فیصد‘ ملائیشیا میں 33 فیصڈ‘ امریکہ میں 80فیصد ہے۔ اگر دنیا میں ہر جگہ بالخصوص ہمارے ہمسایہ ملک میں ’مورگیج‘ کامیابی سے چل سکتا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان میں ’مورگیج‘ کے لئے ایک ارب ڈالر دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

برآمدات میں اضافے کے لئے صنعتوں کے لئے مراعات‘ ہاؤسنگ سیکٹر کی سرپرستی کے بعد ’تحریک انصاف حکومت‘ کی ترجیحات کا تیسرا جز ملک ایسی سرمایہ کاری کا فروغ ہے جو براہ راست کی جائے اور جس کا تعلق قرضوں سے نہ ہو۔ اِس حکمت عملی میں بیرون ملک پاکستانیوں سے بینکاری کے ذریعے (قانونی ذرائع سے) زیادہ مقدار بیس ارب ڈالر ترسیلات زر کا حصول اور سیاحتی شعبے کی ترقی شامل ہے۔ مسلم لیگ (نواز) کی آخری حکومت (2013-18ء) کے پانچ سالہ دور میں قرضوں پر منحصر سرمایہ کاری لانے پر زیادہ توجہ دی گئی جس کے مقابلے ’تحریک انصاف‘ حکومت بناء قرض پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات سے استفادہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, October 14, 2018

TRANSLATION: White-collar crime by Dr. Farrukh Saleem

White-collar crime
جرم کہانی: خاص لوگوں کے کرتوت!
اَنگریزی زبان میں ’وائٹ کالر کرائم‘ کی اِصطلاح ایسے جرائم کے لئے استعمال کی جاتی ہے‘ جن کا اِرتکاب معاشرے کے معززین کرتے ہیں۔ خاص لوگ جب خصوصی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں تو اِس سے معاشرے میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں یہ منفی تاثر بھی شامل ہوتا ہے کہ عام آدمی کا قانون‘ قانون کے ذریعے انصاف تک رسائی کے عمل اُور بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار و کارکردگی سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ ’وائٹ کالر کرائم‘ کرنے والے اپنی سماجی اور قانونی حیثیت سے غلط (ناجائز) فائدہ اٹھاتے ہوئے اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اِس طریقۂ واردات کی تین نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں اور اِس میں دیگر جرائم کی طرح تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ اِس قسم کے جرائم کا تعلق زیادہ تر مالی معاملات (خردبرد یا بدعنوانی) سے ہوتا ہے اُور اِس کا ارتکاب کرنے والی سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز یا کاروباری شخصیات ہوتی ہیں لیکن یہ عمومی تاثر کہ خصوصی افراد کی جانب سے جرائم پرتشدد نہیں ہوتے‘ سوفیصد درست نہیں کیونکہ تشدد کی تعریف محدود پیمانے پر مختصر کی جاتی ہے۔ اگر ہم تشدد کی اصطلاح کو کھول کر بیان کریں تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال 2لاکھ90 ہزار ’’نومولود بچے‘‘ دنیا میں آنے کے پہلے ہی مہینے مر جاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ 1 لاکھ 75 ہزار پاکستانی بچے ہر سال اِس لئے مر جاتے ہیں کیونکہ اُن کی پیدائش وقت سے پہلے ہو جاتی ہے اُور 53 ہزار پاکستانی بچوں کی ہلاکت ایسی بیماریوں سے ہوتی ہے جو پینے کا صاف پانی میسر نہ آنے کے سبب ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نہایت ہی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان دنیا میں ’نومولود بچوں‘ کے لئے نہایت ہی پرخطر ملک ہے۔

کیا ’وائٹ کالر کرائم‘ واقعی پُرتشدد نہیں ہوتے؟ اسلام آباد ائرپورٹ کی مثال لیں۔ اِس ترقیاتی منصوبے کی لاگت کا کل تخمینہ 23 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن جب اِس کی تکمیل ہوئی تو 100 ارب خرچ ہو چکے تھے یعنی ’’77 ارب روپے‘‘ زیادہ خرچ ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سرطان (کینسر) کا علاج کرنے کے لئے ایک شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر کرنے کے لئے ’’4 ارب روپے‘‘ درکار ہوتے ہیں یعنی ’’77 ارب روپے‘‘ سے پاکستان کے طول و عرض میں 19 ایسے ہسپتال قائم ہو سکتے تھے‘ جہاں کینسر سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ ممکن ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سٹیزن فاؤنڈیشن نامی ایک غیرسرکاری‘ غیرمنافع بخش تنظیم پاکستان میں تعلیمی ادارے قائم کرتی ہے۔ اِس تنظیم کے زیرانتظام پاکستان کے کسی بھی حصے میں ایک ’’پرائمری سکول‘‘ کی تعمیر کے لئے کل ’1 کروڑ 70 لاکھ‘ روپے درکار ہوتے ہیں یوں ’’77 ارب روپے‘‘ سے پاکستان کے طول و عرض میں ’’4500 پرائمری سکول‘‘ قائم کئے جا سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ’’77 ارب روپے‘‘ کتنے ہوتے ہیں؟ سال 2016-17ء مرتب کردہ سرکاری اَعدادوشمار (پاکستان ایجوکیشن اِسٹے ٹسٹکس رپورٹ) کے مطابق ’’پاکستان میں 2 کروڑ 28 لاکھ (22.84 ملین) سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ’’ 77ارب روپے‘‘ سے 50 لاکھ بچوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں ’ایف آئی اے‘ اور ’نیب‘ نامی وفاقی ادارے ملک سے ’وائٹ کالر جرائم‘ کا خاتمہ (انسداد بدعنوانی) کرنے کے لئے ذمہ دار ہیں لیکن اگر ہم اِن اداروں کے تفتیشی اور تحقیقی طریقۂ کار (کارکردگی) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’ایف آئی اے‘ کا جرائم کی تہہ تک پہنچ کر ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں حاصل ہونے والی کامیابی کی شرح صرف 6.6 فیصد ہے۔ سال2017ء میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو 26 ہزار 551 بدعنوانی کی شکایات موصول ہوئیں‘ جن میں سے 456 شکایات پر کاروائی کی گئی جو کہ کل موصول ہونے والی شکایات کا 2 فیصد بنتا ہے۔ جن 456 شکایات پر کاروائی کی گئی اُن میں سے بھی صرف 215 کے حوالے سے تحقیقات ممکن ہوئیں اُور اِن 215 میں سے صرف 112 کو سزا ہو سکی!

سوال: کیا نیب کا ادارہ اپنے ’بنیادی مقصد‘ کے مطابق (خاطرخواہ) کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے؟ جواب: شاید نہیں۔ نیب کی کارکردگی محدود ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اِس ادارے کی صلاحیت محدود ہے اور اِسے زیادہ افرادی مالی اور تکنیکی وسائل کی ضرورت ہے۔ ’نیب‘ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اِس کے فیصلہ سازوں کی نیت (ارادہ) اور صلاحیت (عمل) دونوں ہی ضروری ہیں۔ مجھے نیب یا ’ایف آئی اے‘ حکام کی نیت میں تو کوئی شک نہیں لیکن اِنہیں حاصل وسائل اور اِن اداروں کی صلاحیت ضرور ایک ایسی رکاوٹ ہے‘ جس کی وجہ سے کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں ’وائٹ کالر کرائم‘ کرنے والوں کو سزائیں دلوانا آسان نہیں اور جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو یہ عمل زیادہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
’وائٹ کالر جرائم‘ قاتل ہیں اور یہ پاکستان میں ترقی و تبدیلی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوانین کے مطابق سزائیں دلوانے کے لئے جس عمل سے گزرنا پڑتا ہے اُس میں بااثر عناصر مختلف وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یا تو صاف بچ نکلتے ہیں یا پھر اپنے جرائم کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہونے نہیں دیتے۔ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے نیب اور ایف آئی اے کی صلاحیت و استعداد میں اضافہ ناگزیر ہے جو قلیل اور طویل مدتی اصلاحات کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ قلیل مدتی حل کے لئے عمومی اُور روائتی سے ہٹ کر کوئی متبادل (آؤٹ آف باکس) حل ڈھونڈنا ہوگا۔ وائٹ کالر کرائم (خصوصی جرائم) ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے خاص افراد سے نمٹنے کے لئے ’خاص حکمت عملی‘ وضع کرنا ہوگی۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, October 7, 2018

Translation: Change by Dr. Farrukh Saleem

Change
تبدیلی
عالمی بینک کی جانب سے ’’بدعنوانی‘‘ کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ۔۔۔ ’’کوئی فیصلہ ساز اپنے عہدے سے جڑے اختیارات کا ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرے تو ایسے عمل کو بدعنوانی کہا جائے گا۔‘‘ چند برس قبل کی بات ہے جب ورلڈ بینک نے پاکستان میں کی جانے والی سرکاری (حکومتی) خریداری سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے تھے اور اُن کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی آمدنی کا 19.8 فیصد یعنی قریب 60 ارب ڈالر مختلف قسم کی خریداریوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ امر اِس لئے لائق توجہ ہے کہ سالانہ خریداری کا حجم تیس سے ساٹھ فیصد کے درمیان ہے اور یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ خریداری کے اِس عمل میں سالانہ کم سے کم ’18 ارب ڈالر‘ اور زیادہ سے زیادہ ’36 ارب ڈالر‘ خردبرد ہوتی ہے۔

پاکستان پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے بانی نگران (فاؤنڈنگ منیجنگ ڈائریکٹر) کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو کسی بھی ملکی یا غیرملکی مالیاتی ادارے یا حکومت سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اگر ہم صرف اپنی قومی سرکاری خریداری کے عمل کو شفاف بنائیں اور اِس عمل میں ہونے والی بدعنوانیوں کو روک لیں۔‘‘ تصور کیجئے کہ امریکی حکومت کی جانب سے عالمی سطح پر انسداد منشیات کی حکمت عملی سے متعلق (نارکوٹکس کنٹرول اسٹریٹیجی) رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے سالانہ 10 ارب ڈالر کے مساوی سرمایہ غیرقانونی ذرائع (منی لانڈرنگ) سے بیرون ملک منتقل ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ کسی بھی طور معمولی رقم نہیں کیونکہ اگر ہم گذشتہ 10 برس کے دوران ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگائیں تو یہ رقم 100 ارب ڈالر بن جاتی ہے!

پاکستان سے ہونے والی سالانہ اس قدر بڑی چوری کو سمجھنے کے لئے بڑا حساب داں ہونا ضروری نہیں بلکہ ریاضی کے ابتدائی قواعد سے آشنائی رکھنے والا بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جو سرمایہ پاکستان سے ہر سال چوری ہو رہا ہے دراصل یہی پاکستان میں پائی جانے والی غربت اور اقتصادی مسائل کا سبب ہے۔ رواں برس پاکستان کو درآمدات کے لئے 26 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس قدر نہیں۔ دوسری طرف پاکستان اپنی قومی ضروریات کے لئے جن اشیاء کی خریداری کرتا ہے اُس میں ہونے والی خردبرد درآمدات کے مجموعی حجم سے زیادہ بنتی ہے۔ پاکستان پر بیرونی قرضے کا بوجھ 95 ارب ڈالر ہے اور 10 برس میں 100 ارب ڈالر غیرقانونی ذرائع (منی لانڈرنگ) سے بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر پاکستان سرکاری خریداریوں میں ہونے والی مالی بے قاعدگیوں کو روک لے اور غیرقانونی ذرائع (منی لانڈرنگ) کے ذریعے یہاں سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی نہ ہو‘ تو پاکستان کے اقتصادی مسائل ختم ہو جائیں گے اور یہ ایک ایسا ملک بن جائے گا جس کا خزانہ اُس کی ضروریات سے زیادہ سرمائے سے بھرا ہوگا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت ایک ایسی سیاسی جماعت کو ملی ہے جو ’’نظام کی تبدیلی‘‘ اور ’’طرزحکمرانی میں اصلاح‘‘ کا عزم رکھتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پر عزم ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرے گی اور بدعنوانی کا خاتمہ موجودہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ صرف سیاسی حکومت ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ بات بھی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بھی ’بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘ اصل تبدیلی یہی ہے کہ 71 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم اور پاکستان کا چیف جسٹس (حکومت کے دو اہم جز) ایک جیسا لائحہ عمل رکھتے ہیں کہ وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ بات بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہی ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بدعنوانی کا معمہ حل کر رہی ہے اور اب تک ایسے 77 بینک اکاونٹس کا بھانڈا پھوڑا گیا ہے‘ جن کے ذریعے پاکستان سے باہر سرمایہ منتقل کیا گیا اور یہ کام کرنے والوں میں جن بااثر افراد کا نام آ رہا ہے اُن میں سابق صدر پاکستان‘ آصف علی زرداری کا نام نامی بھی شامل ہے جنہوں نے ممکنہ اور مبینہ طور پر جعل سازی سے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کئے!

جن لوگوں کو تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی وہ کراچی کے حالات پر نظر کریں جو پاکستان کی آمدنی کا سب سے بڑا مرکز ہے اور اب اِس تجارتی و صنعتی اور کاروباری مرکز کے فیصلے برطانیہ یا کسی دوسرے ملک میں بیٹھنے والوں کے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہی غنڈا راج ہے‘ جو کراچی کے وسائل اور عوام پر حکمرانی کرے۔ فیصلہ ساز تبدیلی کے خواہاں ہیں اور قومی ادارے تبدیلی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ اصل مجرم وہ ہیں جو بااثر ہیں اور جنہوں نے اپنے آپ کو سرمائے اور سیاست کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ عوام کی نظر میں تبدیلی اُس دن آئے گی جب مالی بدعنوانوں اور پاکستان کے مالیاتی نظام کو تباہ و برباد کرنے والوں کو سزائیں ملیں گی اور بدعنوانی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کئے گئے سرمائے سمیت پاکستان کے اندر موجود مشکوک آمدنی سے حاصل کردہ اثاثے ضبط کئے جائیں گے۔ جب قوانین سے استثنیٰ رکھنے والوں کا احتساب ہوگا جب حکومت بڑے چوروں کو سزائیں دے گی۔ عوام ایسی حقیقی اور عملی تبدیلی کے منتظر اور متمنی ہیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Oct 2018: Couplet on Peshawar


Oct 2017: Peshawar on death row!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: مر رہا ہے!؟
خیبرپختونخوا محکمۂ آثار قدیمہ کو ’پشاور‘ میں تاریخی اہمیت کی عمارتوں سے متعلق تفصیلات جمع کرنے میں 3 سال کا عرصہ لگا‘ جس کے بعد ’’1 ہزار 865‘‘ ایسی ’قدیم تعمیرات‘ کو فہرست کر لیا گیا‘ جن سے پشاور کے شاندار ماضی کی عکاسی ہوتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ پشاور کے ماضی کا سورج کبھی غروب نہ ہو۔ علمی تحقیق کے ذریعے کوشش یہ تھی کہ فن تعمیر کے نادر اور موجود اُن تمام حقیقی نمونوں (مثالوں) کو ہر ممکن حد تک محفوظ رکھا جائے‘ جو اہل پشاور کی بودوباش کے گواہ ہیں‘ بلکہ اِن کی موجودگی ’پشاور شہر کی سیاحت‘ کے فروغ میں اہم کردار اَدا کر سکتی ہے اُور اگر مستقبل میں بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کو خیال آتا ہے کہ وہ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر‘ پشاور کو خاطرخواہ توجہ دے اور امن و امان کی صورتحال میں بھی اِس قدر بہتری آئے کہ غیرملکی سیاح پھر سے پشاور کا رخ کرنے لگیں تو اُس وقت کم سے کم پشاور میں ایسی عمارتیں تو ضرور موجود ہوں‘ جنہیں بطور نمونہ پیش کیا جا سکے۔ اِس کوشش کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پشاور کی تاریخ و ثقافت‘ رہن سہن اور فن تعمیر کی آئینہ دار اِن ’یادگار عمارتوں‘ کو ’’جہاں ہیں‘ جیسا ہیں‘‘ کی بنیاد پر محفوظ کر لیا جائے اُور اِنہیں منہدم کرنا تو بہت دُور کی بات اِن سے چھیڑچھاڑ بھی نہ ہو اور آثار قدیمہ کے قوانین و قواعد کی رو سے ایسا کرنا ’قابل سزا جرم‘ قرار پائے لیکن ماہرین آثار قدیمہ کی عملی کوششیں‘ خواہشات اُور تیاریاں اپنی جگہ دھری کی دھری رہ گئیں جب یہ اطلاع ملی کہ ’’محلہ مغلاں‘ بازار کلاں (اندرون پشاور)‘‘ میں ’سکھ دور‘ میں تعمیر ہونے والے ایک مکان کے اُس بڑے حصے کو منہدم کر دیا گیا‘ جو تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور اب دوبارہ تعمیر نہیں ہو سکے گا یعنی ’ناقابل تلافی نقصان‘ ہو چکا ہے جس پر آثار قدیمہ کے ماہرین کی تشویش کے 2 رُخ ہیں۔ اوّل: مذکورہ مکان ’پشاور کے اُس ’تاریخی و ثقافتی ورثہ راہداری (Culture Heritage Trail) کا حصہ تھا‘ جسے خیبرپختونخوا حکومت نے خطیر رقم (30 کروڑ روپے) سے 4ماہ میں مکمل کیا اور ابھی اِس منصوبے کو مکمل ہوئے گنتی کے چند مہینے ہی گزرے ہیں کہ اِس ’تاریخی و ثقافتی ورثہ راہداری‘ کا ایک نگینہ توڑ کر الگ کر دیا گیا ہے۔ دوئم: کہیں پشاور کے آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں نہ چلی جائیں!کیونکہ اگر ’ورثہ راہداری‘ کی حدود میں لب سڑک‘ ایک مکان محکمۂ آثار قدیمہ کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مسمار کر دیا گیا ہے تو دیگر مقامات اور بالخصوص گلی کوچوں میں موجود ’تعمیراتی اثاثوں‘ کی حفاظت کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ فیصلہ سازوں کو مجوزہ ’’پشاور والڈ سٹی اتھارٹی‘‘ جلد از جلد قائم کرنا ہوگی تاکہ آثارقدیمہ قرار دی جانے والی عمارتوں کا تحفظ عملاً یقینی بنایا جا سکے۔ سردست ’سانحۂ محلہ مغلاں‘ کا نوٹس لیتے ہوئے محکمۂ آثار قدیمہ نے مالک مکان کے خلاف ضابطے کی کاروائی کے طور پر ’ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR)‘ درج کرنے کی درخواست دی ہے لیکن ظاہر ہے کہ چند ہفتے قبل گھر خریدنے والے کے عزائم پہلے ہی دن سے یہ تھے کہ وہ پہلے سے گنجان آباد علاقے میں کثیرالمنزلہ تجارتی تعمیرات کرے‘ حالانکہ تجارتی اُور رہائشی علاقے میں تیزی سے مٹتی تمیز پر کئی ادارے پابندیاں تو لگا چکے ہیں‘ لیکن عملدرآمد کا نام و نشان نہیں!؟ آثار قدیمہ کاروائی کے خوف سے مذکورہ مکان سستے داموں فروخت کیا گیا اور خریدار کسی بھی طرح معمولی شخص نہیں‘ جس نے ممکنہ خطرات کا پہلے سے حساب لگا لیا ہوگا۔ ماضی میں جب جی ٹی روڈ پر فصیل شہر کے ایک جدید حصے کو بااثر مالک نے مسمار کرنے کا منصوبہ بنایا تو اُس نے پشاور کے نامور وکیل اور گورنر خیبرپختونخوا سے دوستی رکھنے والے کالم نگار کو ’کاروبار‘ میں شریک کر لیا۔ مذکورہ وکیل کا دفتر (مالکانہ حقوق کے ساتھ) آج بھی اُسی عمارت کا حصہ ہے‘ جس کا مقدمہ لڑتے ہوئے اُنہوں نے پشاور کو ’فصیل شہر‘ سے ہمیشہ سے محروم کردیا۔ پشاور سے بددیانتی اور خیانت کرنے والے صاحبان علم و دانش اور اہل سیاست کی ایسی درجنوں مثالیں قلم بند کی جا سکتی ہیں! محلہ مغلاں‘ بازار کلاں میں مسمار ہونے والا مکان ’ایسا پہلا شکار‘ نہیں بلکہ چند قدم آگے شاہین بازار کے بلمقابل آج اُن گھروں کا نام و نشان بھی نہیں جہاں کبھی پشاور کے یہودی خاندان آباد تھے اور جن کا فن تعمیر سکھ دور سے کہیں زیادہ قیمتی (قدیم) تھا تب بھی قانون شکنی ہوئی لیکن بااثر اُور ہروقت مسلح دستے کے ہمراہ رہنے والے مالکان کے خلاف کسی حکومتی ادارے کو ایک لفظ بولنے کی جرأت نہ ہو سکی!

گلی کوچوں‘ در و دیوار میں گم
فراموشی‘ کہیں اِظہار میں گم
سکوں گرداں‘ سکوں بازار میں گم
پشاور ہو گیا‘ اغیار میں گم

مرض لاحق ہے ایسا ڈر‘ رہا ہے!
پشاور گھٹ کے دیکھو مر رہا ہے!

خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ’آثار قدیمہ‘ کے ’لعل و جوہرات‘ بکھرے پڑے ہیں۔ سال 2017ء میں ’ہری پور‘ کے قریب بدھ مت کی ایک عبادت گاہ ’بہامالا اسٹوپہ (Bhamala Stupa) دریافت ہوا‘ جس کے آثار کی کھدائی 1929ء میں شروع ہوئی اور اِس چوتھی صدی عیسوی کے مقام کو اقوام متحدہ کی ’ثقافتی ورثہ مقامات‘ کی فہرست (ہیریٹیج سائٹس) میں شامل کرنے کی درخواست بھی کر دی گئی ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی یادگار ہے جسے اصل شکل و صورت میں محفوظ اُور بحال رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے اور مارکیٹنگ بھی ہو جاتی ہے تو ’بدھ مت‘ کے ماننے والے پوری دنیا سے پاکستان کا رُخ کر سکتے ہیں۔ مذہبی‘ تاریخی و ثقافتی اہمیت کے اِن مقامات کی اندرون و بیرون ملک تشہیر عام کرنا ضروری ہے تاکہ ’قدر شناسی‘ میں اضافہ ہو۔ اِس سلسلے میں ’تحریک انصاف حکومت کے پہلے دور (2013-2018ء) کے دوران دلچسپی دکھائی اُور چونکہ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ کا تعلق ’سوات‘ سے ہے‘ جہاں بدھ مت کے معلوم و موجود آثار و باقیات کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘ اِس لئے اُمید ہے کہ صوبائی حکومت (پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے) اِس مرتبہ ’’آثار قدیمہ‘‘ سے جڑے مقامات کو بھی ’سیاحتی ترقیاتی حکمت عملی‘ کا حصہ بنائے گی‘ جو قیمتی زرمبادلہ کے حصول‘ روزگار کے مواقعوں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی معیشت و معاشرت کو عروج عطا کر سکتی ہے۔ سیاحتی اَمور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ’’ایک سیاح اپنے ساتھ کم سے کم پانچ ملازمتیں اُور اوسطاً پانچ ہزار ڈالر لاتا ہے۔‘‘
۔