ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ صرف پشاور!
خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت میں گزراوقات آسان نہیں۔ درپیش چینلنجز (مشکلات) کی اگر درجہ بندی کی جائے تو سب سے پہلی ترجیح اُن وسائل کی ترقی ہونی چاہئے جن سے آمدنی کے وسائل میں اضافہ مقصود و مطلوب یا حاصل ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں بلدیہ کی قیمتی جائیداد کی حالت زار بہتر بنانے اُور اونے پونے ماہانہ وصولیوں پر نظرثانی (ماہانہ کرائے میں ردوبدل) سے نہ صرف ضلع پشاور میں تعمیر و ترقی کے لئے زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوسکتے ہیں بلکہ جن کرائے داروں نے اپنی حدود یا اختیار سے تجاوز یا جائیداد کے حصّے کرکے غیرقانونی طور پر یومیہ یا ماہوار (مستقل بنیادوں پر) کرائے پر دے رکھے ہیں تو ایسی جملہ بے قاعدگیوں کی نشاندہی اور اصلاح (عملاً) ممکن ہو جائے گی۔ عجب ہے کہ ذاتی فائدے کے لئے پشاور کے وسائل فروخت کرنے اور اُن کے غیرقانونی استفادے کی اجازت دینے والے انفرادی حیثیت میں تو ’کروڑ پتی‘ بن گئے لیکن پشاور ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب ہوتا چلا گیا۔ تاجر برادری کی نمائندگی اُور ترجمانی کا دعویٰ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے ’مفاد پرستوں‘ کی ہے جنہوں نے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے نہ صرف ’پشاور کے وسائل‘ سے ’ناجائز اِستفادہ‘ کیا بلکہ سیاسی اثرورسوخ اُور ذاتی تعلقات کو پشاور کے مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومت کی بحالی سے اُمید تھی کہ پشاور کی ضلعی حکومت مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرکے ایسے تمام عناصر سے ذیلی اداروں کو پاک کرے گی‘ جن کی بصورت ’ناسور‘ موجودگی اُور طرز واردات کا تسلسل اگر برقرار رہتا ہے تو ’حسب وعدہ عملی تبدیلی‘ کے نفاذ کی کوششیں اور خواہشات (بیانات) کسی بھی صورت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے۔
کیا یہ امر باعث حیرت (قابل مذمت) نہیں ہونا چاہئے کہ گذشتہ پندرہ بیس برس سے پشاور میں ضلعی حکومت کی جائیدادوں کے کرائے میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ اِس عرصے میں کم سے کم اگر دس فیصد‘ ہی کرائے میں اضافہ ہوتا تو اب تک ضلعی حکومت کی ایک سو پچاس سے دوسو فیصد آمدنی بڑھ چکی ہوتی! لیکن اگر ضلع پر حکومت کرنے والے آج کی تاریخ میں یہ عزم کر بیٹھے ہیں کہ وہ جائیدادوں کے کرائے میں بہرصورت اضافہ کریں گے‘ تو کیا ناظم ارباب عاصم اہل پشاور کو اِس بات کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں کہ کرائیوں کی شرح میں ’مارکیٹ ریٹ‘ کے مطابق اضافہ کیا جائے گا؟ چھبیس اگست کو ضلعی ناظم کی زیرصدارت اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی ضلعی کونسل سے منظوری درکار ہوگی‘ جہاں حزب اختلاف کا رویہ ’پشاور دوست‘ نہیں اور ماضی کی طرح آج بھی عوام کے بلدیاتی نمائندوں کو سیاست سے جتنا دور ہونا چاہئے وہ پشاور کی ترقی کی بجائے اُتنا ہی اپنے اپنے سیاسی ایجنڈوں یا ذاتی نمودونمائش پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں! برسراقتدار ہو یا حزب اختلاف کا حصّہ‘ ہر منتخب نمائندے کو اپنے اپنے نمائندہ ایوان ’عوامی اور اجتماعی مفاد‘ کا محافظ بن کر ایک ایسا تعمیری کردار ادا کرنا چاہئے‘ جس کی مثال دیگر اضلاع اور صوبوں کے لئے بھی مشعل رہا ہوں۔ ضلعی انتظامیہ پشاور کی جائیداد کو اجارے (لیز) پر دینے کی مدت 33برس سے کم کرکے 5 برس کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل 99سال کی لیز مدت کم کرکے 33 کی گئی تھی۔ دوسرا اہم فیصلہ جی ٹی روڈ پر پچیس کنال رقبے سے متعلق ہے جہاں کثیرالمنزلہ عمارت اور سبزہ زار کی تعمیر سے ضلعی آمدنی میں اضافہ مقصود ہے لیکن کیا پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جائیں گے‘ جو ’سیاسی بنیادوں‘ پر لیز کر دیئے گئے اور وہ تاریخی باغات کہ جنہیں اُن کے ناموں کی طرح شایان شان خوبصورت اور ترقی یافتہ ہونا چاہئے تھا‘ لیکن کی رگوں میں کنکریٹ بھر دیا گیا!! تیسرا اصولی فیصلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی قیام گاہ (بس اسٹینڈ) سے متعلق کیا گیا‘ جہاں نہ تو چاردیواری ہے اور نہ ہی داخلی و خارجی گیٹ ہیں۔ ملازمین واردیاں نہیں پہنتے تو اِس بات کو بھی ممکن بنایا جائے گا کہ عوام کے لئے رابطہ دفتر‘ ملازمین کی شناخت اور سیکورٹی سمیت بس اسٹینڈ کی چاردیواری توڑ کر راستے بنانے والی کالونیوں کی آمدورفت روکی جائے گی۔
شکر خدا کا مسافروں کے لئے پینے کے صاف پانی کی قلت کا بھی نوٹس لے ہی لیا گیا ہے اور ’بس اسٹینڈ‘ کی حدود میں پانی کا فلٹریشن پلانٹ نصب کرنے پر اتفاق اپنی جگہ نعمت سے کم نہیں۔ کیا بیت الخلأ پر بھی توجہ دی جائے گی‘ جہاں صفائی کا بدبودار ماحول کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں؟ ضلعی ناظم ارباب عاصم‘ ضلعی نائب ناظم سیّد قاسم علی شاہ اور ڈائریکٹر کوآرڈینیٹر صاحبزادہ طارق کی موجودگی میں بلدیہ کی جائیداد کے موجودہ ماہانہ کرائیوں اور مارکیٹ ریٹ کا جائزہ لینے کے لئے سروے کی منظوری دی گئی ہے‘ تو پشاور کو اُمید رکھنی چاہئے کہ اُس کی منتخب قیادت کے حسب حکم یہ تمام معلومات زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں اکٹھا کرنے کے بعد ’فائلوں‘ میں دفن نہیں ہوں گی! بلدیاتی نمائندے خود اِس ’تلخ حقیقت‘ کا اعتراف کرتے ہیں کہ ضلعی حکومت کی 70فیصد جائیداد اصل کرائے داروں کے پاس نہیں اور یہیں سے موجودہ ضلعی حکومت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ کیا قواعد کے تحت ایسی تمام جائیداد ضبط کی جائے گی‘ جو ایک کرائے دار سے دوسرے کرائے دار کو (غیرقانونی حق ملکیت رکھنے والوں نے) منتقل کر رکھی ہے یا ماضی کی طرح کوئی چور دروازہ بنایا جائے گا! اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ پشاور کے وسائل ہضم کر کے ڈکار تک نہ لینے والی ’تاجر برادری‘ کے چند ایک نمائندوں کو جس اِعتماد میں لینے کی بات کی گئی ہے تو یہ ’اعتماد سازی‘ درحقیقت اِس یقین سے کی جائے گی کہ ہر مصلحت اور قواعد پر عمل درآمد یا ترمیم کی صورت ’’پشاور اور صرف پشاور‘‘ ہی کا مفاد بالاتر (مقصود و مطلوب) رہے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔