Sunday, August 28, 2016

Aug2016 Resources of Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ صرف پشاور!
خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت میں گزراوقات آسان نہیں۔ درپیش چینلنجز (مشکلات) کی اگر درجہ بندی کی جائے تو سب سے پہلی ترجیح اُن وسائل کی ترقی ہونی چاہئے جن سے آمدنی کے وسائل میں اضافہ مقصود و مطلوب یا حاصل ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں بلدیہ کی قیمتی جائیداد کی حالت زار بہتر بنانے اُور اونے پونے ماہانہ وصولیوں پر نظرثانی (ماہانہ کرائے میں ردوبدل) سے نہ صرف ضلع پشاور میں تعمیر و ترقی کے لئے زیادہ مالی وسائل دستیاب ہوسکتے ہیں بلکہ جن کرائے داروں نے اپنی حدود یا اختیار سے تجاوز یا جائیداد کے حصّے کرکے غیرقانونی طور پر یومیہ یا ماہوار (مستقل بنیادوں پر) کرائے پر دے رکھے ہیں تو ایسی جملہ بے قاعدگیوں کی نشاندہی اور اصلاح (عملاً) ممکن ہو جائے گی۔ عجب ہے کہ ذاتی فائدے کے لئے پشاور کے وسائل فروخت کرنے اور اُن کے غیرقانونی استفادے کی اجازت دینے والے انفرادی حیثیت میں تو ’کروڑ پتی‘ بن گئے لیکن پشاور ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب ہوتا چلا گیا۔ تاجر برادری کی نمائندگی اُور ترجمانی کا دعویٰ کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے ’مفاد پرستوں‘ کی ہے جنہوں نے سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے نہ صرف ’پشاور کے وسائل‘ سے ’ناجائز اِستفادہ‘ کیا بلکہ سیاسی اثرورسوخ اُور ذاتی تعلقات کو پشاور کے مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومت کی بحالی سے اُمید تھی کہ پشاور کی ضلعی حکومت مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی تحقیقات کرکے ایسے تمام عناصر سے ذیلی اداروں کو پاک کرے گی‘ جن کی بصورت ’ناسور‘ موجودگی اُور طرز واردات کا تسلسل اگر برقرار رہتا ہے تو ’حسب وعدہ عملی تبدیلی‘ کے نفاذ کی کوششیں اور خواہشات (بیانات) کسی بھی صورت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گے۔

کیا یہ امر باعث حیرت (قابل مذمت) نہیں ہونا چاہئے کہ گذشتہ پندرہ بیس برس سے پشاور میں ضلعی حکومت کی جائیدادوں کے کرائے میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ اِس عرصے میں کم سے کم اگر دس فیصد‘ ہی کرائے میں اضافہ ہوتا تو اب تک ضلعی حکومت کی ایک سو پچاس سے دوسو فیصد آمدنی بڑھ چکی ہوتی! لیکن اگر ضلع پر حکومت کرنے والے آج کی تاریخ میں یہ عزم کر بیٹھے ہیں کہ وہ جائیدادوں کے کرائے میں بہرصورت اضافہ کریں گے‘ تو کیا ناظم ارباب عاصم اہل پشاور کو اِس بات کی یقین دہانی کرا سکتے ہیں کہ کرائیوں کی شرح میں ’مارکیٹ ریٹ‘ کے مطابق اضافہ کیا جائے گا؟ چھبیس اگست کو ضلعی ناظم کی زیرصدارت اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی ضلعی کونسل سے منظوری درکار ہوگی‘ جہاں حزب اختلاف کا رویہ ’پشاور دوست‘ نہیں اور ماضی کی طرح آج بھی عوام کے بلدیاتی نمائندوں کو سیاست سے جتنا دور ہونا چاہئے وہ پشاور کی ترقی کی بجائے اُتنا ہی اپنے اپنے سیاسی ایجنڈوں یا ذاتی نمودونمائش پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں! برسراقتدار ہو یا حزب اختلاف کا حصّہ‘ ہر منتخب نمائندے کو اپنے اپنے نمائندہ ایوان ’عوامی اور اجتماعی مفاد‘ کا محافظ بن کر ایک ایسا تعمیری کردار ادا کرنا چاہئے‘ جس کی مثال دیگر اضلاع اور صوبوں کے لئے بھی مشعل رہا ہوں۔ ضلعی انتظامیہ پشاور کی جائیداد کو اجارے (لیز) پر دینے کی مدت 33برس سے کم کرکے 5 برس کرنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل 99سال کی لیز مدت کم کرکے 33 کی گئی تھی۔ دوسرا اہم فیصلہ جی ٹی روڈ پر پچیس کنال رقبے سے متعلق ہے جہاں کثیرالمنزلہ عمارت اور سبزہ زار کی تعمیر سے ضلعی آمدنی میں اضافہ مقصود ہے لیکن کیا پشاور کو اُس کے باغات واپس دلائے جائیں گے‘ جو ’سیاسی بنیادوں‘ پر لیز کر دیئے گئے اور وہ تاریخی باغات کہ جنہیں اُن کے ناموں کی طرح شایان شان خوبصورت اور ترقی یافتہ ہونا چاہئے تھا‘ لیکن کی رگوں میں کنکریٹ بھر دیا گیا!! تیسرا اصولی فیصلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی قیام گاہ (بس اسٹینڈ) سے متعلق کیا گیا‘ جہاں نہ تو چاردیواری ہے اور نہ ہی داخلی و خارجی گیٹ ہیں۔ ملازمین واردیاں نہیں پہنتے تو اِس بات کو بھی ممکن بنایا جائے گا کہ عوام کے لئے رابطہ دفتر‘ ملازمین کی شناخت اور سیکورٹی سمیت بس اسٹینڈ کی چاردیواری توڑ کر راستے بنانے والی کالونیوں کی آمدورفت روکی جائے گی۔ 

شکر خدا کا مسافروں کے لئے پینے کے صاف پانی کی قلت کا بھی نوٹس لے ہی لیا گیا ہے اور ’بس اسٹینڈ‘ کی حدود میں پانی کا فلٹریشن پلانٹ نصب کرنے پر اتفاق اپنی جگہ نعمت سے کم نہیں۔ کیا بیت الخلأ پر بھی توجہ دی جائے گی‘ جہاں صفائی کا بدبودار ماحول کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں؟ ضلعی ناظم ارباب عاصم‘ ضلعی نائب ناظم سیّد قاسم علی شاہ اور ڈائریکٹر کوآرڈینیٹر صاحبزادہ طارق کی موجودگی میں بلدیہ کی جائیداد کے موجودہ ماہانہ کرائیوں اور مارکیٹ ریٹ کا جائزہ لینے کے لئے سروے کی منظوری دی گئی ہے‘ تو پشاور کو اُمید رکھنی چاہئے کہ اُس کی منتخب قیادت کے حسب حکم یہ تمام معلومات زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں اکٹھا کرنے کے بعد ’فائلوں‘ میں دفن نہیں ہوں گی! بلدیاتی نمائندے خود اِس ’تلخ حقیقت‘ کا اعتراف کرتے ہیں کہ ضلعی حکومت کی 70فیصد جائیداد اصل کرائے داروں کے پاس نہیں اور یہیں سے موجودہ ضلعی حکومت کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ کیا قواعد کے تحت ایسی تمام جائیداد ضبط کی جائے گی‘ جو ایک کرائے دار سے دوسرے کرائے دار کو (غیرقانونی حق ملکیت رکھنے والوں نے) منتقل کر رکھی ہے یا ماضی کی طرح کوئی چور دروازہ بنایا جائے گا! اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ پشاور کے وسائل ہضم کر کے ڈکار تک نہ لینے والی ’تاجر برادری‘ کے چند ایک نمائندوں کو جس اِعتماد میں لینے کی بات کی گئی ہے تو یہ ’اعتماد سازی‘ درحقیقت اِس یقین سے کی جائے گی کہ ہر مصلحت اور قواعد پر عمل درآمد یا ترمیم کی صورت ’’پشاور اور صرف پشاور‘‘ ہی کا مفاد بالاتر (مقصود و مطلوب) رہے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, August 27, 2016

Aug2016: Inspiration motivation and possibilities for success

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آشنائے ناموس سخن!

جستجو اور تحقیق کا موضوع اگر ’انسان‘ کی ذات ہو تو اِس کا اصطلاحی تعارف ’’حیوانِ ناطق‘‘ کرنے والوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ’’یہ جانور منطقی قوت ادراک رکھتا ہے۔‘‘ منطقی فکر کی صلاحیت رکھتا ہے اور منطقی فکر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ معلوم سے غیرمعلوم (نامعلوم) کو معلوم بنا دیا ہے یعنی معلوم بات سے غیرمعلوم حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے۔ چاہے بولے یا بہتر ہے کہ خاموش رہے امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک قول بھی اِسی جانب اشارہ ہے کہ ’’اُس وقت کلام کرو‘ جب تمہارا بولنا‘ تمہاری خاموشی سے زیادہ بہتر ہو۔‘‘ 

مثال کے طور پر ہمیں کوئی بات معلوم ہے جیسا کہ ’دو جمع دو‘ برابر ہے ایکس جمع تین۔ اِس کا جواب ’ون (ایک)‘ دینے والوں نے ایک معلوم سے دوسرے نامعلوم کو معلوم (دریافت) کر لیا۔ یہ بات ذہن نشین رکھتے ہوئے انسان ہونے کے امتیازات بھی پیش نظر رہنے چاہیئں کہ پہلا تقاضا (امتیاز) یہ ہے کہ انسان کو ’ناموسِ سخن‘ سے آشنا ہونا چاہئے اور دوسرا لازمی امتیاز کہ اُس کا ہر چھوٹا بڑا عمل ’منطق‘ کی کسوٹی پر پھونک پھونک کر قدم رکھنے (سوچ سمجھ) سے ہٹنے نہ پائے لیکن ہمیں روزمرہ کے مشاہدے میں ’حیوان ناطق‘ ہونے کے امتیازات کو سمجھنے والوں کی اکثریت سے واسطہ پڑتا ہے جنہوں نے خود کو اتنا ہی پابند (صاحب امتیاز) بنا رکھا ہے کہ ہر کام میں اِحتیاط اُور سوچ سمجھ کر بولنے‘ خاموش رہنے یا عمل میں جلدبازی سے کام نہیں لیتے؟ نتیجۂ فکر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ تک لے جاتا ہے جنہوں ے کہا تھا ’’بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔۔۔آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘ (یعنی کمال اِنسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں)۔ 



زندگی کی مشکلات (دشواریوں) کو آسانیوں سے تبدیل کرنے کے ماہر‘ عبدالواحد میر العمروف ’واحد سراج‘ ایک ایسا ہی (ہمہ گیر) ’اِنسان‘ ہے‘ جس کی تجربہ گاہ میں شعوری تحریک کے سانچوں میں خاموشی کو زبان اور درس و تدریس کو (امتحانی ضرورت کے مطابق) نصاب کے تابع رکھتے ہوئے علم کی روح کو نصابی اسباق کی قید سے آزاد کردیا گیا ہے جہاں اُن کے زیرسایہ علم کی طلب رکھنے والے ذہن درختوں کی مانند سایہ اور ثمربار ہو رہے ہیں! یقیناًوہ نئی نسل جو لفظ کی حرمت‘ مطالب‘ معانی اُور حقیقت آشنا ہوگی تو وہی مستقبل میں فکری و شعوری انقلاب برپا کر سکے گی۔ واحد میر کو مختصر نویسی میں بھی ملکہ حاصل ہے جیسا کہ انہوں نے 20الفاظ کی کہانیاں لکھ کر ہم عصروں کو ’زیادہ سوچنے اور کم لکھنے‘ کی ترغیب دی ہے۔ ’’تمہارے چلے جانے سے میں بالکل مفلس ہو گیا ہوں‘ اب میرے پاس دولت اُور شہرت کے سوأ کچھ نہیں!‘‘ اُور اُکساتے ہیں کہ ’’بولتے رہو‘ چپ کیوں ہو گئے ہو؟ ایک سانپ کے لئے زہریلا نہ ہونا کوئی فخر کی بات تھوڑی ہے!‘‘ اُن کے ہاں (اَندھی) تقلید نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ درس و تدریس کا نصابی اسلوب ہو یا روائتی ہم نصابی سرگرمیاں‘ کوئی ایک فعل بھی سوچا سمجھا‘ ارتقاء پذیری اور بناء تبدیلی دکھائی نہیں دیتا۔ 

مشرقی اقدار‘ روایات اُور سوج بوجھ کو برتر مانتے ہوئے بہرصورت اُور بہرحال ترجیح اُن کی فکر اور جدوجہد کی راہیں متعین کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ جاپان کی علمی‘ فنی‘ تکنیکی اور صنعتی شعبوں میں ترقی کا باریک بینی سے مطالعہ اُن کا محبوب مشغلہ ہے کیونکہ اپنے واضح اہداف کی وجہ سے وہ خوفزدہ نہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں محض زندہ رہنا ہی کافی (کمال) نہیں ہوتا بلکہ علم کے محافظوں اور اِس کی نسل در نسل منتقلی کے ذمہ داروں کو کم سے کم اِتنا صاحب بصیرت تو ہونا ہی چاہئے کہ وہ ’زمانی حیات‘ (ذمہ داریوں) کو مستقبل کے تقاضوں کی روشنی میں دیکھ (پرکھ) سکیں۔ 

’ماڈرن ایج‘ نامی نجی سکولوں کے نیٹ ورک کی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے واحد میر اُس ’پیغام اقبالؒ ‘ کی عمدہ تشریح بھی ہیں جس میں ’اَپنی ملت پر قیاس اَقوام مغرب سے نہ کر‘ بطورخاص تاکید کے ساتھ سمجھایا گیا ہے۔ واحد میر سے تعارف کے شرف سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس ہوا۔ وہ اُس پہلی نسل کا حصّہ ہیں جس نے ’الیکٹرانک (آن لائن) میسیجنگ‘ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے ہیں‘ لیکن اُنہیں اعصاب (فیصلوں) پر حاوی ہونے نہیں دیا۔ کم لکھنے اُور زیادہ سوچ کے داعی‘ نابیناؤں کے شہر میں خوابوں کا سوداگر ہے۔ وہ اَقوال زریں میں پوشیدہ اَسباق کو عملی زندگی (روزمرہ معمولات کی اصلاح و بیان) سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ثابت کر رہے ہیں کہ ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی!‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, August 12, 2016

Aug2016: Domain of Literature!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
علاقائی سوچیں!

مزاحیہ شاعری کو سنجیدہ موضوعات سے متعارف کرانے والے منفرد لب و لہجہ اور معیار کے شاعر اَنور مسعود نے کہا تھا کہ ’’میرے نزدیک مزاحیہ شاعری وہ ہوتی ہے جسے اگر نچوڑ جائے تو اُس سے آنسو ٹپکیں! اُور میرا مزاح تو مکئی کی طرح ہے کہ جب جلنے لگتی ہے تو مسکرا اُٹھتی ہے! ’مزاح‘ درحقیقت (ایک نکتے کے اضافے سے) ’مزاج‘ ہوتا ہے۔‘‘ معلوم ہوا مزاح ہماری زندگی (مزاج) کا حصّہ ہے لیکن اِس کی موجودگی بسا اوقات محسوس نہ ہونے کے باوجود بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ جیسا کہ ناشتے کی میز پر ایک بزرگ کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو کچن سے آئی مانوس آواز نے اُن سے پوچھا ’’بابا آپ کو انڈہ بنا دوں؟‘‘ جواب دیا نہیں بیٹا‘ مجھے انسان ہی رہنے دو!‘‘ اِس طرح کے مکالمے ہمارے اردگرد پھولوں کی طرح بکھرے رہتے ہیں‘ جنہیں چن کر گلدستے میں سجانے کا شوق اور ذوق ہر کسی کے ’مزاج‘ کا حصّہ نہیں ہوتا۔ 

انور مسعود کو یاد کرنے کی دوسری وجہ اُن کا اپنے معاشرتی روئیوں بشمول رہن سہن کے بارے میں صاف ستھرا اُور سچائی پر مبنی اعتراف ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ والدین و بچوں کی مادری زبانیں مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ والدین پنجابی لیکن بچوں کی مادری زبان اُردو ہوتی ہے اور یوں ایک ہی شخصیت کے اندر دو انسان جب پرورش پاتے ہیں تو کسی ایک زبان کا رنگ اور ثقافت غالب نہیں آتی بلکہ ایسے بچوں کی ساری زندگی اپنی شناخت قول و فعل سے ثابت کرنے ہی میں گزر جاتی ہے۔ 

35برس تک فارسی زبان کی تدریس کرنے والے انور مسعود کا شمار پاکستان کے چند ایک ایسے دانشوروں میں ہوتا ہے جو ہر بات مذاق میں اُڑا کر (کسرنفسی سے کام لیتے ہوئے) خود کو ’ہیوی ویٹ‘ ثابت نہیں کرتے لیکن ہمارے ہاں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جو بظاہر ’ہیوی ویٹ‘ ہوتے ہوئے بھی اندر سے خالی ہیں۔ مادری زبان اور آبائی علاقہ کوئی بھی ہو لیکن زبان یا علاقے کی بنیاد پر تعصب نہیں ہونا چاہئے جس کی طرف اشارہ انور مسعود کے ایک شعر سے ملتا ہے کہ ’’ہاں مجھے اُردو‘ پنجابی سے بھی ہے بڑھ کر ہے عزیز۔۔۔ شکر ہے اَنورؔ میری سوچیں علاقائی نہیں!‘‘ 

اِس قدر تمہید کا مقصد توجہ اِس اَمر کی جانب مبذول کرانا ہے کہ ’فکری و علمی یا عملی ترقی کا عمل عملاً رُک جاتا ہے اگر سوچ کا دائرہ محدود کر دیا جائے۔ ایک خاص اخبار کی ہفتہ وار ادبی سرگرمیوں کے مجموعے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے محترم اُستاد گرامی نے بذریعہ فون کال جن اَمور کی طرف توجہ دلائی اُن میں بار بار ’اَٹک پار‘ سے شاعری اُور نثری ادب کے انتخاب کی پشاور سے ’متواتر اشاعت‘ ہے۔ سوفیصدی جائز گلہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے ادبی منظرنامے کا اِحاطہ کون کرے گا؟

فکروبحث کا یہ نازک مرحلہ اور ایک اہم ضرورت کی نشاندہی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے لیکن ذرا ٹھہریئے چونکہ کسی ایک دل میں دو محبتیں بیک وقت نہیں رہ سکتیں یعنی کہ وہ حق تعالیٰ سے بھی محبت رکھے اور بیک وقت شیطان اور شیطانی قوتوں کا بھی تابع فرمان ہو۔ اِسی طرح ادب سے ذوق رکھنے والوں کے دل بھی حسد‘ نفرت‘ بغض یا عداوت جیسے احساسات سے عاری ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیءں لیکن اگر ایسا نہیں تو اِس کا ذمہ دار کسی بھی طرح ’فرد واحد‘ کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ عین ممکن ہے کہ ہم جسے ادیب سمجھ رہے ہیں وہ بھروپیا ہو!؟ خیبرپختونخوا کے ادب و ادیبوں کو نظرانداز کرنے کی اصل ذمہ داری آزادی دینے والوں پر عائد ہوتی ہے‘ جنہیں تحریر و تقریر کے معیار‘ خیبرپختونخوا کے ادیبوں کی حق تلفی اُور اپنے وسائل کا ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کرنے کے رجحان کا بہت پہلے نوٹس لے لینا چاہئے تھا تاکہ قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی ایک بھی ادیب (قارئین) کی دل شکنی نہ ہوتی۔ اَدب کے ساتھ جس قدر بے اَدبی کا سلوک آج ہو رہا ہے‘ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو! خود کو ادیب‘ شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کمپیئر اُور نجانے کیا کچھ ثابت کرنے والے کالم نگاری میں اپنی بیوی‘ بہو‘ بیٹے اور خاطر مدارت کرنے والے دوستوں کا ذکر جس خلوص اور ’حسن اتفاق‘ سے متواتر کرتے ہیں‘ اُس سے اُن کی ذہنی حالت‘ زیرمطالعہ مواد اُور ترجیحات عیاں بہرحال ہیں تو پھر گلہ مند ہونے کی بجائے افسوس و تعزیت کے ساتھ ایسے مریضوں کے علاج معالجے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ 

جہاں تک کسی اِشاعتی ادارے کے کردار کی بات ہے تو اِصلاح کرنے کی لگن (گنجائش) تو بہرحال ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ کسی اخبار کے لئے حتی الوسع غیرجانبدار رہتے ہوئے ہر طبقے کے حقوق کا خیال (ترجمانی) اُسی احتیاط سے کرنی چاہئے‘ جس قدر بزنس (آمدن و حساب کتاب کے گوشوارے)‘ انکم ٹیکس اور ملازمین کے حقوق کی ادائیگی و ترتیب کرتے ہوئے اَپنا زیادہ سے زیادہ منافع برقرار رکھنے کے لئے باریکیوں (اِحتیاط) سے کام لیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, August 6, 2016

Aug2016: Ghandhara by Khalid Khan Kheshgi

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تہذیبی سفر: پوشیدہ اَسباق!

’گندھارا تہذیب‘ پر پشتو زبان میں شائع ہونے والی ’پہلی کتاب‘ صحافی خالد خان خویشگی کی اُن مسلسل کاوشوں کا حصّہ ہے جو وہ انسانیت کے احترام‘ انسانی حقوق کی پاسداری اور بناء تفریق کسی بھی رنگ و نسل کی حق تلفی کے خلاف آواز اُٹھانے سے شروع ہوتی ہے‘ کسی صحافی کے لئے غیرجانبدار رہتے ہوئے صرف اور صرف سچائی اور حقائق کے لئے خود کو وقف کرنے کی اِس سے عمدہ عملی مثال ڈھونڈے نہیں مل سکتی کہ باوجود پیشہ ورانہ مصروفیات اُنہوں نے خیبرپختونخوا اُور ملحقہ خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سمیت خطے کی تاریخ‘ رہن سہن‘ رسم و رواج‘ بول چال اُور تعمیر و ترقی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے سلیس بول چال کے انداز میں تحریر کردہ کتاب کی صورت محسوس کی جانے والی کمی پوری کر دی ہے۔ 

’غار سے گندھارا تہذیب کے مرکز‘ بننے تک کا سفر خوبصورتی سے پیش کرنے والے خالد خان ’ریڈیو فری یورپ‘ المعروف ’مشال ریڈیو‘ سے وابستہ ہیں اُور انہوں نے دیگر تاریخ دانوں کی طرح ماضی کے حقائق اُور واقعات کی ’صحافیانہ اَصولوں (غیرجانبداری کی کسوٹی)‘ پر کڑی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُنہیں اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ خالد خان نے اپنی رائے شامل کرنے کی بجائے حقائق کا حقائق سے منطقی موازنہ اور اُن کی رونما ہونے کی ترتیب کا لحاظ رکھا جس سے کتاب نہ صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے لائق مطالعہ بن گئی بلکہ اِس سے مزید تحقیق کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ تاریخ کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی یہ کاوش ہرلحاظ سے کامیاب اُور پشتو زبان میں تحریر ہونے والے تاریخ و ادب میں خوبصورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

صحافت کا کلی انحصار دوسروں سے بات چیت (انٹرویوز) پر ہوتا ہے اور اپنی اِسی مہارت و تجربے اور وسائل کا بخوبی اِستعمال کرتے ’گندھارا‘ تصنیف کے مرکزی خیال اُور موضوع پر تحقیق کے لئے خیبرپختونخوا کے مختلف لوگوں سے بات چیت کو کتابی صورت میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ ’تاریخ دانی‘ کرتے ہوئے اپنی رائے اور تجزیئے کو موضوع پر حاوی نہ ہونے دینے کی یہ عمدہ مثال ہے جس کے اسباق سے نہ صرف محکمہ تعلیم بلکہ بالخصوص شعبۂ صحافت کے لئے نصاب مرتب کرنے والے بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں‘ کیونکہ صحافت نہ صرف حقائق کے بیان اور اُن کی روشنی میں نامساعد حالات و خطرات سے نمٹنے یا پیشگی تیاری کی تحریک پیدا کرتی ہے بلکہ اِس کے ذریعے تاریخ کے اُن حقائق کا بیان بھی اگر ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں ’صحافت ایک لازمی مضمون‘ کے طور پر سچائی کھوجنے کا ’مستقل اصول‘ قرار پائے۔ 

’گندھارا‘ اکیس ابواب پر مشتمل کتاب ہے جس میں تین ہزار سال پرانی اُن غاروں سے شروع ہونے والے ’تہذیب کے سفر‘ کا پیچھا کیا گیا ہے جس کے نشانات و آثار آج بھی مردان‘ تخت بھائی اور سوات کے علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اٹک قلعہ سے لیکر درہ خیبر (خیبرایجنسی) تک پھیلے خطے کی خاک چھانتے ہوئے کتاب میں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ تصاویر کے ذریعے بھی بہت کچھ سمجھانے اور شناخت کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں بالخصوص ’گندھارا تہذیب‘ کے اُن پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کا تذکرہ اِس حوالے سے تحریر کی گئیں دیگر کتابوں یا ابواب میں یا تو نہیں ملتا‘ یا پھر سرسری طور پر اُن کا سطحی ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف خالد خان کو کتاب لکھنے کا ’بنیادی خیال‘ ہی خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی اُس حالیہ اور جدید ترین تحقیق و کھدائی سے ملنے والے نتائج سے آیا‘ جو مردان کے گاؤں ’سانگاؤ‘ میں کی گئی۔ اگرچہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ مردان اور باجوڑ کے علاقوں میں آج سے کم وبیش تین ہزار سال پہلے لوگ غاروں میں رہا کرتے تھے لیکن ’آثار قدیمہ‘ سے لوگوں کے رہن سہن اور اقدار و روایات تک پہنچنے کی ہر کوشش دلچسپ اور نئے حقائق سامنے لاتی ہے۔ گندھارا تہذیب صرف رہن سہن یا بودوباش کا مجموعہ نہیں بلکہ اس کے علمی و ادبی پہلو بھی لائق توجہ و مطالعہ ہیں۔ غاروں میں رہنے والے اگر غوروتفکر سے عاری ہوتے اور اگر وہ آج سے زیادہ اپنی اعمال کی اصلاح کرنے کا ذوق و شوق نہ رکھتے تو شہروں تک ترقی کا موجودہ سفر ممکن ہی نہ ہوتا کیونکہ انسانی تاریخ ’حادثاتی‘ نہیں کہ جس میں سب کچھ خودبخود رونما ہوا ہو بلکہ انسان نے دنیا کو سجانے اور سنوارنے کے لئے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں اور علم ودانش کا استعمال کیا ہے‘ قربانیاں دی‘ جس پر یقین نہ کرنے والوں کو ’گندھارا‘ نامی پشتو زبان کی اِس کتاب کا کم سے کم ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ خالد خان اپنی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے جڑی الگ الگ صحافیانہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر دو سو صفحات پر مشتمل اپنی کتاب کو اُردو‘ اور انگریزی پڑھنے والوں کے لئے بھی پیش کریں گے‘ جن کا ’گندھارا تہذیب‘ کے بارے مطالعہ اب تک ایک خاص زوایئے پر مرکوز رہا ہے۔ اِس سلسلے میں ویب سائٹ کا وسائل زیادہ ماحول دوست اور تشہیری امکانات رکھے گا۔ 

خیبرپختونخوا میں ’تاریخ و آثار قدیمہ‘ کے وسیع و عریض خزانے پوشیدہ ہیں جیسا کہ رحمان ڈھیری میں کی گئی کھدائی سے ملنے والے ’وادئ گومل‘ کے آثار سے پتہ چلا ہے کہ یہ مقام پورے جنوب ایشیاء میں ایسا ’پہلا شہر‘ ہے جسے باقاعدہ منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا۔ المیہ ہے کہ علوم‘ وسائل اور تعمیراتی شعبوں میں آلات و ہنرمند افرادی قوت ہونے کے باوجود بھی ہمارے شہر اور دیہات بے ہنگم انداز میں کچھ اس طرح پھیل رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں مسائل میں اُلجھ گیا ہے لیکن اگر ’گندھارا تہذیب‘ کا ’مطالعہ‘کیا جائے تو کہیں اُور کی نہیں بلکہ خود ہماری تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرے کو کس عمدگی و خوبصورتی سے ترتیب دیا جاتا تھا۔ اگرچہ ’گندھارا‘ میں جو تاریخ اُور واقعات بیان کئے گئے ہیں اُن میں کچھ بھی نیا نہیں اور اُن سب کا ذکر کہیں نہ کہیں دیگر کتب میں بھی ملتا ہے لیکن ’پشتو زبان‘ میں اِس موضوع پر پہلی اور صحافیانہ اصولوں پر مرتب ہونے والی اِس پہلی کتاب کو ضرور پذیرائی ملنی چاہئے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت یا جامعہ پشاور اُور بالخصوص ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ جیسے ادارے اِس پشتو کتاب کو زیادہ بڑے پیمانے پر عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ خالد خان نے صحافت کے ساتھ جس دوسرے کھٹن کام کا بیڑا اُٹھایا ہے اگر وہ اُس کے اگلے مرحلے میں تحقیق کے لئے متعلقہ ماہرین کو رضامند کر لیتے ہیں اور خیبرایجنسی (دوسری سے پانچویں صدی میں خوشاہان حکومت کا حصّہ رہے اِس علاقے) میں پھیلے گندھارا تہذیب کے آثار معلوم کرنے کے لئے کھدائی ممکن کی جاتی ہے تو ’گندھارا‘ کو ’نئی جان (جہت) مل جائے گی لیکن قبائلی سرزمین پر ’امن و امان کی بہتری شرط ہے۔‘ 

گندھارا تہذیب کے موضوع پر لکھا ہوا ہر لفظ ’پشاور شناسی کا ذوق‘ رکھنے والوں کے لئے بھی خاص دلچسپی کا منبہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے سولہ دروازوں میں آباد رہن سہن کا شمار جنوب ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ کاش کہ پشاور کی چاردیواری کے اندر اُور اطراف میں پھیلے اُن آثار قدیمہ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس کر لیا جاتا‘ کاش یہاں کے قدیمی باغات اُور اُن سے جڑے تہذیبی و ترقی کے ایک طویل سفر کو سمجھا جاتا تو زبانوں یا تہذیبوں کے درمیان اجنبیت کا احساس نہ ہوتا اور انسانی ترقی کے لئے اقتصادی و سماجی مسائل سے نمٹنے والوں کو اِسقدر مشکلات درپیش نہ ہوتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Aug2016: Ghandhara by Khalid Khan Kheshgi

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمامتہذیب کا سفر
’گندھارا تہذیب‘ پر پشتو زبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب صحافی خالد خان خویشگی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خیبرپختونخوا اُور ملحقہ خیبرایجنسی کے قبائلی علاقے سمیت خطے کی تاریخ‘ رہن سہن‘ رسم و رواج‘ بول چال اُور تعمیر و ترقی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ’غار سے گندھارا تہذیب کے مرکز‘ بننے تک کا سفر خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ خالد خان ’ریڈیو فری یورپ‘ المعروف ’مشال ریڈیو‘ سے وابستہ ہیں اُور انہوں نے دیگر تاریخ دانوں کی طرح ماضی کے حقائق اُور واقعات کی ’صحافیانہ اصولوں (غیرجانبداری کی کسوٹی)‘ پر کڑی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُنہیں اپنی تصنیف میں شامل کیا ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ خالد خان نے اپنی رائے شامل کرنے کی بجائے حقائق کا حقائق سے منطقی موازنہ اور اُن کی رونما ہونے کی ترتیب کا لحاظ رکھا جس سے کتاب نہ صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے لائق مطالعہ بن گئی بلکہ اِس سے مزید تحقیق کے دروازے بھی کھل گئے ہیں۔ تاریخ کو ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی یہ کاوش ہرلحاظ سے کامیاب اُور پشتو زبان میں تحریر ہونے والے تاریخ و ادب میں خوبصورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

صحافت کا کلی انحصار دوسروں سے بات چیت (انٹرویوز) پر ہوتا ہے اور اپنی اِسی مہارت کا بخوبی استعمال کرتے ’گندھارا‘ تصنیف کے مرکزی خیال اُور موضوع پر تحقیق کے لئے خیبرپختونخوا کے مختلف لوگوں سے بات چیت کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’تاریخ دانی‘ کرتے ہوئے اپنی رائے اور تجزیئے کو موضوع پر حاوی نہ ہونے دینے کی یہ عمدہ مثال ہے جسے شعبۂ صحافت کے نصاب میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ صحافت نہ صرف حقائق کے بیان اور اُن کی روشنی میں نامساعد حالات و خطرات سے نمٹنے یا پیشگی تیاری کی تحریک پیدا کرتی ہے بلکہ اِس کے ذریعے تاریخ کے اُن حقائق کا بیان بھی اگر ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں یہی سچائی کھوجنے کا مستقل اصول قرار پائے۔ ’گندھارا‘ اکیس ابواب پر مشتمل ہے جس میں تین ہزار سال پرانی اُن غاروں سے شروع ہونے والے ’تہذیب کے سفر‘ کا پیچھا کیا گیا ہے جس کے نشانات و آثار آج بھی مردان‘ تخت بھائی اور سوات کے علاقوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اٹک قلعہ سے لیکر درہ خیبر (خیبرایجنسی) تک پھیلے خطے کی خاک چھانتے ہوئے کتاب میں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ تصاویر کے ذریعے بھی بہت کچھ سمجھانے اور شناخت کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس میں بالخصوص ’گندھارا تہذیب‘ کے اُن پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے جن کا تذکرہ اِس حوالے سے تحریر کی گئیں دیگر کتابوں میں یا تو نہیں ملتا‘ یا پھر سرسری طور پر اُن کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف خالد خان کو کتاب لکھنے کا ’بنیادی خیال‘ ہی خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی اُس حالیہ اور جدید ترین تحقیق و کھدائی سے ملنے والے نتائج سے آیا‘ جو مردان کے گاؤں ’سانگاؤ‘ میں کی گئی۔ اگرچہ یہ حقیقت معلوم ہے کہ مردان اور باجوڑ کے علاقوں میں آج سے کم وبیش تین ہزار سال پہلے لوگ غاروں میں رہا کرتے تھے لیکن ’آثار قدیمہ‘ سے لوگوں کے رہن سہن اور اقدار و روایات تک پہنچنے کی ہر کوشش دلچسپ اور نئے حقائق سامنے لاتی ہے۔ گندھارا تہذیب صرف رہن سہن یا بودوباش ہی نہیں بلکہ اس کے علمی و ادبی پہلو بھی ہیں۔ 

غاروں میں رہنے والے اگر غوروتفکر سے عاری ہوتے اور اگر وہ آج سے زیادہ اپنی اعمال کی اصلاح کرنے کا ذوق و شوق نہ رکھتے تو شہروں تک ترقی کا سفر ممکن ہی نہ ہوتا کیونکہ انسانی تاریخ ’حادثاتی‘ نہیں کہ جس میں سب کچھ خودبخود رونما ہوا ہو بلکہ انسان نے دنیا کو سجانے اور سنوارنے کے لئے بھی اپنی بہترین صلاحیتوں اور علم ودانش کا استعمال کیا ہے‘ جس پر یقین نہ کرنے والوں کو ’گندھارا‘ نامی پشتو زبان کی اِس کتاب کا کم سے کم ایک مرتبہ ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ خالد خان خویشگی اپنی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے جڑی الگ الگ صحافیانہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر دو سو صفحات پر مشتمل اپنی کتاب کو اُردو‘ اور انگریزی پڑھنے والوں کے لئے پیش کریں گے‘ جن کا ’گندھارا تہذیب‘ کے بارے مطالعہ اب تک ایک خاص زوایئے پر مرکوز رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تاریخ و آثار قدیمہ‘ کے وسیع و عریض خزانے پوشیدہ ہیں جیسا کہ رحمان ڈھیری میں کی گئی کھدائی سے ملنے والے ’وادئ گومل‘ کے آثار سے پتہ چلا ہے کہ یہ مقام پورے جنوب ایشیاء میں ایسا ’پہلا شہر‘ ہے جسے باقاعدہ منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا۔ 

المیہ ہے کہ علوم‘ وسائل اور تعمیراتی شعبوں میں آلات و ہنرمند افرادی قوت ہونے کے باوجود بھی ہمارے شہر اور دیہات بے ہنگم انداز میں کچھ اس طرح پھیل رہے ہیں کہ انسان اپنے ہی ہاتھوں مسائل میں الجھ گیا ہے لیکن اگر گندھارا تہذیب کا مطالعہ کیا جائے تو کہیں اُور کی نہیں بلکہ خود ہماری تاریخ گواہ ہے کہ انسانی معاشرے کو کس عمدگی و خوبصورتی سے ترتیب دیا جاتا تھا۔ اگرچہ ’گندھارا‘ میں جو تاریخ اُور واقعات بیان کئے گئے ہیں اُن میں کچھ بھی نیا نہیں اور اُن سب کا ذکر کہیں نہ کہیں دیگر کتب میں بھی ملتا ہے لیکن ’پشتو زبان‘ میں اِس موضوع پر پہلی اور صحافیانہ اصولوں پر مرتب ہونے والی اِس پہلی کتاب کو ضرور پذیرائی ملنی چاہئے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت یا جامعہ پشاور اُور بالخصوص ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ جیسے ادارے اِس پشتو کتاب کو زیادہ بڑے پیمانے پر عام کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ 

خالد خان نے صحافت کے ساتھ جس دوسرے کھٹن کام کا بیڑا اُٹھایا ہے اگر وہ اُس کے اگلے مرحلے میں تحقیق کے لئے متعلقہ ماہرین کو رضامند کر لیتے ہیں اور خیبرایجنسی (دوسری سے پانچویں صدی میں خوشاہان حکومت کا حصّہ رہے اِس علاقے) میں پھیلے گندھارا تہذیب کے آثار معلوم کرنے کے لئے کھدائی کی جاتی ہے تو ’گندھارا‘ کو ’نئی جان (جہت) مل جائے گی لیکن قبائلی سرزمین پر ’امن و امان کی بہتری شرط ہے۔‘ 

گندھارا تہذیب کے موضوع پر لکھا ہوا ہر لفظ ’پشاور شناسی کا ذوق‘ رکھنے والوں کے لئے بھی خاص دلچسپی کا منبہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں کے سولہ دروازوں میں آباد رہن سہن کا شمار جنوب ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہروں میں ہوتا ہے۔ کاش کہ پشاور کی چاردیواری کے اندر اُور اطراف میں پھیلے اُن آثار قدیمہ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس کر لیا جاتا‘ کاش یہاں کے قدیمی باغات اُور اُن سے جڑے تہذیبی و ترقی کے ایک طویل سفر کو سمجھا جاتا تو زبانوں یا تہذیبوں کے درمیان اجنبیت کا احساس نہ ہوتا اور انسانی ترقی کے لئے اقتصادی و سماجی مسائل سے نمٹنے والوں کو اِسقدر مشکلات درپیش نہ ہوتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, August 4, 2016

Aug2016 Israel no more an enemy?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دوست دشمن کی پہچان!

فضائی جہاز رانی کے شعبے میں خبروں اور تجزئیات کی معروف ویب سائٹ ایویشنسٹ (Aviationist) نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مشقوں میں حصہ لینے کے لئے پاکستانی ایف سولہ طیاروں کا پہلا پڑاؤ‘ پرتگال میں امریکی اڈے پر تھا‘ جہاں جہازوں میں تیل بھرنے کے علاؤہ مہمان پائلٹوں کی تواضع کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے محکمۂ دفاع نے ابھی تک پاکستان کے ساتھ جنگی مشقوں کے بارے سرکاری بیان جاری نہیں کیا تاہم رواں برس کے آغاز پر اسرائیل ائرفورس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا تھا کہ دوہزار سولہ میں جنگی مشقوں کے علاؤہ سفارتکاری کے نئے امکانات سے بھی فائدہ اُٹھائے گا۔ 

تصور کیجئے کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں لیکن اِن دونوں مسلمان ممالک کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مشقوں کے ذریعے قریب لانے کی حکمت عملی کے کتنے ضمنی پہلو ہیں! کیا پاکستان اور اسرائیل ایک دوسرے کی طرف دوستی (سفارتی تعلقات) کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور اِس سلسلے میں فیصلہ بھی ہو چکا ہے جس کا پہلا ہدف اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا ہے اور دانستہ یا غیردانستہ طور پر پاکستان کی ذہین قیادت ایسا کر چکی ہے! 

یادش بخیر ’ویکی لیکس‘ کے ذریعے امریکہ کی خفیہ سفارتی خط و کتابت ظاہر ہوئی تھی جس کے ایک مکتوب میں پاکستان فوج اور اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان براہ راست ملاقاتوں کا ذکر موجود تھا۔ جن پر خاموشی اختیار کرنے والوں کا موجودہ طرزعمل (جنگی مشقیں) اِن روابط پر تصدیق کی مہر ثبت کر رہا ہے! اگر اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی کوئی پالیسی زیرغور یا اس سلسلے میں عالمی دباؤ ہے تو اِس بارے میں اب تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا ہم دوست و دشمن کی پہچان کرنے میں بھی دوسروں کی رہنمائی کے محتاج ہیں؟

پاکستان فضائیہ کے لڑاکا طیارے اور پائلٹ امریکہ میں ہونے والی ایسی ’جنگی مشقوں‘ کے سفر (عزم) پر ہیں‘ جس میں اُن کا فرضی مقابلہ اسرائیل سے ہونے جا رہا ہے۔ ’ریڈ فلیگ (سرخ جھنڈا)‘ کہلانے والی یہ سالانہ جنگی مشقیں معمول ہیں‘ جن کا مقصد امریکہ کے اتحادی ممالک کی دفاعی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ 

رواں ماہ کے آخر میں امریکہ کے صحرائی علاقے ’نواڈا (Nevada) میں ہونے والی مشقوں میں چھ برس بعد گذشتہ برس اسرائیل فضائیہ نے حصہ لیا اور وہ اِس مرتبہ بھی فضاء سے فضاء میں ہونے والی اِن جنگی مشقوں کی میزبانی اور نگرانی کرے گی۔ طریقۂ کار یہ ہوگا کہ پاکستان اور اسرائیل کے جنگی جہازوں کو دو الگ الگ ٹیمیں تصور کرنے کے بعد ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اِن مشقوں میں اصل گولہ بارود کی جگہ ایسے ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں جن سے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صورت وہ تباہ نہیں ہوتے۔ کچھ مشقیں جہازوں کی بجائے مشینوں پر بھی کی جاتی ہیں جن میں فرضی طور پر اُڑان بھری جاتی ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق رواں برس (دوہزارسولہ)کے دوران ’چار ایسی جنگی مشقیں‘ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جن میں سے پہلی جنوری و فروری میں ہوئی۔ دوسری فروری مارچ اور تیسری ولائی جبکہ اِس سلسلے کی آخری جنگی مشق پندرہ سے چھبیس اگست ہونے جا رہی ہے۔ 

پاکستان اور اسرائیل کے درمیان ماضی میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں ہوئیں جن میں ترکی نے کلیدی کردار ادا کیا تاہم درپردہ سفارتکاری میں پاکستان اور اسرائیل کو ایک دوسرے کے قریب کرنے میں امریکہ پہلی مرتبہ ظاہری طور پر فعال کردار ادا کر رہا ہے اور اس سے یقیناًکچھ نہ کچھ پاکستان کی فضائی حدود کا دفاع کرنے والوں کی صلاحیت میں اضافے کی صورت ثمر ملے گا لیکن زیادہ فائدہ اسرائیل کا ہے جس نے رواں ماہ نہ صرف سعودی عرب سے سفارتی تعلقات کے قیام میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ ماحول میں جنگی مشقوں کے انعقاد پر اسرائیلوں کی نظر میں اُن کی قیادت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل ایک ذمہ دار ملک ہے جو اگرچہ تباہ کن اور مہلکجدید ترین ہتھیاروں کی ایجادات میں اپنا ثانی نہیں رکھتا لیکن اُس کے عزائم خطرناک نہیں۔ 

دوسری بات امریکہ اِس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے جوہری پروگرام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ 

تیسری بات جمہوری اسلامی ایران کو اسرائیل مخالفت اور اُسے ’ناجائز غاصب اُور مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے والی شیطانی قوت‘ قرار دینے میں تنہا کرنا ہے‘ تاکہ اگر انقلاب اسلامی ایران کو سرنگوں نہیں کیا جاسکتا تو کم سے کم اُس کے پیغام اور مقصد کے ایک جز سے مسلم دنیا کو لاتعلق تو بنایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت امریکہ اُور اسرائیل ایک تیر سے تین شکار کرنے جا رہے ہیں‘ جس کے لئے ایک طرف پاکستان کو دفاعی امداد کی بحالی کا یقین دلایا جارہا ہے اور دوسری طرف کانگریس کے اراکین پاکستان کو آنکھیں دکھاتے ہیں۔ امریکہ کی بھارت دوستی‘ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اُور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 

قوم کی نظر میں پاکستان کی نظریاتی اساس اور جغرافیائی تحفظ کے نام پر کسی بھی ایسے ’دلفریب تعلق‘ کی رتی بھر گنجائش نہیں‘ جس کا دامن مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
A group of Israeli air force pilots is supposed to participate in a three-week training exercise in the United States, which will reportedly also include Pakistani pilots. 
The Red Flag exercise which will feature the F-16 fighter plane is set to begin in about two weeks in Nevada.United Arab Emirates would also participate in the exercise.

Monday, August 1, 2016

Aug2016: Future of Pak Turk Schools


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

شعبۂ تعلیم: اغیار و عیار اداروں کا مستقبل؟

پاکستان میں (ری پبلک آف) ترکی کے نام سے منسوب تعلیمی اِداروں کی شاخیں مختلف شہروں میں فعال ہیں جن کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ارسال کردہ ’اِی میل پیغام‘ کے ذریعے درس و تدریس کے شعبے میں کامیابیوں اور کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایسا کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کیونکہ ترک حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر رابطوں میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’ترک سکولوں کو بند کیا جائے‘‘ اگرچہ وجہ تو بیان نہیں کی گئی لیکن سب جانتے ہیں کہ اپنے سیاسی تسلط و مؤقف کو برقرار رکھنے کے لئے ترکی کے موجودہ حکمران کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں اور وہ اِن سکولوں کے تصور اور قیام کے ذمہ دار (جلاوطن) فتح اللہ گولن نامی رہنما کو اپنا ’دشمن‘ تصور کرتے ہیں!

کیا ترکی کی موجودہ حکومت کے مطالبے پر پاکستان کو یہ تعلیمی ادارے بند کردینا چاہئیں جن میں ہزاروں پاکستانی طلباء و طالبات زیر تعلیم اور سینکڑوں کی تعداد میں افراد کو روزگار وابستہ ہے؟ پندرہ جولائی کو ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے ناکام ہونے والی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے آئندہ کسی ایسی بغاوت کے امکانات کو روکنے کے بہت سے اقدام شروع کر رکھے ہیں‘ جن میں فوج‘ عدلیہ‘ انتظامیہ کے افراد کی گرفتاری اور برطرفی کے علاؤہ بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کی بندش‘ جامعات‘ کالجوں‘ طبی مراکز‘ مزدور و طلباء تنظیموں میں مختلف عہدوں پر فائز افراد کو بے رحمی سے برطرف کرنے کے جاری سلسلے میں حزب اختلاف کی اُس جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ جس کی سربراہی پچھتہر سالہ فتح اللہ گولن کے ہاتھ ہے اُور وہ عرصۂ دراز سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گولن نے دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جو اُن کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔ پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ کوئٹہ‘ کراچی‘ جیسے مرکزی شہروں کے علاؤہ نسبتاً چھوٹے شہروں میں موجود اٹھائیس سکولوں کی شاخیں (نیٹ ورک) سے وابستہ ملازمین کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ جبکہ پرائمری سے ’اے لیول‘ تک زیرتعلیم طلباء و طالبات کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیا اِن تعلیمی کو بند کردینا چاہئے‘ جن سے ہزاروں کی تعداد میں ’ترک‘ نہیں بلکہ پاکستانی فائدہ اُٹھا رہے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ترک صدر جناب رجب طیب اژدگان کے درمیان ’ذاتی دوستانہ‘ تعلقات ہیں اور اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ نواز حکومت اژدگان حکومت کے دباؤ کو نظر انداز نہ کریں لیکن ترک سکولوں کے خلاف کسی بھی قسم کے انتہائی اقدام سے پہلے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور ضروری ہے کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے اور اگر پابندی عائد کی جاتی ہے تو یہ عمل کس پاکستانی قانون یا قواعد کے تحت کیا جائے گا؟

ترکی میں انسانی حقوق‘ ذرائع ابلاغ کی آزادی حتیٰ کہ آزادئ اظہار کا معیار دنیا سے مختلف ہے۔ تین ماہ کے لئے نافذ ایمرجنسی (ہنگامی حالت) کے تحت ترک صدر پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی رائے کے بغیر صدارتی حکم کے تحت حکومت کر سکتے ہیں۔ اس دوران کسی بھی شخص کو صرف گرفتار ہی نہیں بلکہ اُس کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط بھی کی جا سکتی ہے مگر ایمرجنسی تو ترکی میں ہے‘ پاکستان میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کا ترک حکومت کے ساتھ اس قسم کا کوئی بین الاقوامی معاہدہ ہے کہ اگر ترکی میں ایمرجنسی لگے گی تو پاکستان پر بھی اس کا یکساں اطلاق ہوگا! پاک ترک اسکولز کا مؤقف ہے کہ ’’انہوں نے پاکستان کے اندر کوئی جرم نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے کسی بھی پاکستانی یا بین الاقوامی قانون کی خلاف وزری کی ہے۔‘‘ حکومت پاکستان نے 1995ء سے ترک اسکولز کو کام کرنے اجازت دی تھی جس کی آڑ میں کوئی ایسی نظریاتی فورس بھی تیار نہیں کی جا رہی جو ترکی کی سلامتی کے لئے خطرہ بنے گی اور نہ ہی یہ سکول کوئی غیر منظور شدہ یا اپنا تیار کردہ نصاب پڑھاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ترک سکولز پاکستان اور ترکی کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور ایک دوسرے کو زیادہ قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور ایسے سکولوں کی تعداد زیادہ ہونی چاہئے بلکہ سعودی عرب‘ ایران اور دیگر مسلم ممالک کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ پاکستان کے نظام تعلیم کو نظم و ضبط اور جدید طرزتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے سرمایہ کاری کریں۔ عجب ہے کہ حکومت نظام تعلیم کو عصری تقاضوں کے مطابق نئی دنیاؤں سے آشنا بھی نہیں کرنا چاہتی اُور اُن مواقعوں کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے عوام کو عالمی معیار کی تعلیم تعلیم کا موقع میسر ہے۔

ترک سکول ’’اُو‘‘ اُور ’’اَے لیول‘‘ کے علاؤہ وفاقی تعلیمی (فیڈرل) بورڈ اسلام آباد کے نصاب کے مطابق تعلیم دے رہے ہیں اور اِن سکولز کے سالانہ امتحانات بھی وفاقی تعلیمی بورڈ ہی لیتا ہے۔ جو نصاب پاک ترک سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ بہت سارے دیگر مقامی تعلیمی اداروں میں بھی رائج ہے تو پھر پابندی عائد کرنے کا منطقی و اخلاقی اور قانونی جواز کیا ہے؟ 

اُمید ہے پاکستان حکومت ترکی کی داخلی سیاست اور جھمیلوں کو پاکستان کے اندر لانے سے گریز کرے گی اور اگر پابندی عائد ہونا ہی ہے تو پھر امریکہ اور برطانیہ کے ناموں سے قائم (اغیار) اداروں پر بھی ہونی چاہئے جن کی تاریخ و ثقافت اور اخلاقی قدریں‘ روایات یا تہذیب کے ہم سے رشتے نہیں لیکن وہ عیار ہیں اور بھاری فیسوں کے عوض ہماری نسلوں کو تعلیم کے نام پر اپنی زبان و ثقافت کا گرویدا بنارہی ہیں!

یقیناًاگر پابندی عائد کی گئی تو طلباء و طالبات کے والدین عدالتوں سے رجوع کریں گے‘ خود سکول کی انتظامیہ بھی قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتی ہے تو اِس سے پیدا مضحکہ خیز صورتحال جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے گا کیونکہ مذہب کی بنیاد پر الگ تشخص کے لئے آزادی کا حصول (قیام پاکستان) منزل نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کے لئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے جس کا خواب اور تعبیر کے لئے قربانیاں دی گئیں۔ پاکستان علم کی طاقتور فصیلوں کے ساتھ اسلام کے مضبوط مرکز (قلعہ) کی صورت پوری امت کا قائد ہو لیکن ہمیں اپنے حقیقی دوست و دشمن کی پہچان اور اُن کے بارے اپنے روئیوں پر نظرثانی سے ابتدأ کرنا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Pak Turk Schools under pressure for political and personal reasons but these or other such schools must be kept away from politics and self interests of the rulers of both the countries.