ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
چند آنسو!
خیبرپختونخوا حکومت میں ’بے سمت ترقی‘ کا لب لباب یہ ہے کہ کسی ایک بھی شعبے کی کارکردگی ’’سوفیصد‘‘ اطمینان بخش نہیں بالخصوص جب ہم ’اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن)‘ سے متعلق حکومتی ترجیحات کا جائزہ لیتے ہیں تو بلندوبانگ دعوؤں اور زمینی حقائق میں فاصلے دیکھ کر سوائے مایوسی اور شرمندگی کے چند آنسو‘ اظہار کی کوئی دوسری صورت دکھائی نہیں دیتی۔
عام آدمی (ہم عوام) کی حالت زار میں تبدیلی یعنی غربت کی دلدل سے نکلنے کا پائیدار ذریعہ ’اعلیٰ تعلیم‘ ہے جو غریبی کے چکر کا توڑ بھی ہے۔
بناء تعلیم و اعلیٰ تعلیم فلاح و نجات کی نہ تو کوئی صورت اور نہ ہی کوئی دوسرا وسیلہ کارگر ثابت ہو سکتی ہے!
ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ) سے اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بذریعہ ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ موصول ہونے والے زمینی حقائق تصدیق کرنے پر درست ثابت ہوئے جیسا کہ خیبرپختونخوا کا ایک ضلع ایسا بھی ہے جہاں طلباء اور طالبات کے لئے ایک بھی اعلیٰ تعلیم (گرلز ڈگری کالج) نہیں۔ سرسری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صوبے کے چند اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں اِکادُکا کالجز (خانہ پُری کی حد تک) تو ہیں لیکن وہ آبادی کے تناسب اور حسب آبادی کی ضروریات کافی نہیں۔ ضلع طورغر کے شمال میں ضلع کوہستان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں دو کالجز ہیں لیکن دونوں ہی طلباء کے لئے ہیں اور ضلع تورغر کے برعکس یہاں کالجز تو موجود ہیں لیکن طالبات کے لئے نہیں۔ بنیادی سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں اعلیٰ تعلیم (کالجز) کی تعداد حسب آبادی (ضرورت) ہے یا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایسے خوش قسمت اضلاع (جن میں سے بیشتر کا تعلق وزیراعلیٰ کے آبائی علاقوں سے رہا ہو) ہیں جہاں جدید سہولیات سے آراستہ کالجز موجود ہیں۔ یہاں یہ بات قطعی طور پر نہیں کی جا رہی کہ جن علاقوں میں وہاں کے وزرائے اعلیٰ نے مقامی ضروریات سے بڑھ کر کالجز قائم کئے تو یہ ناانصافی ہوئی ہے۔ سیاسی حکمرانوں کی انتخابی مجبوریاں ہوتی ہیں اور انہیں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے لئے ایسے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت رہتی ہے‘ جس سے اُن پر بیروزگاروں کا دباؤ کم ہو وگرنہ کالجز کا قیام اِس بات کی ضمانت نہیں کہ فارغ التحصیل ہونے والوں کو جامعات (یونیورسٹیز) میں داخلہ ملے گا یا وہ کالجز سے ’پاس آؤٹ‘ ہی برسرروزگار ہو جائیں گے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن خیبرپختونخوا کا اصل مسئلہ ’معاشی طور پر غیریقینی ر مبنی صورتحال‘ ہے۔ نوجوان علم حاصل کرنے کے باوجود بھی ’خواندہ‘ قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اُنہیں نصابی کتب سے زیادہ مطالعے کی نہ تو ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ہی اساتذہ اُن کے لئے اِس قسم کا ’رول ماڈل‘ بنتے ہیں کہ اُن کی شخصیت میں نکھار آتا جائے۔ اُن میں تحقیق کی جستجو پیدا ہو۔ علوم کی دنیا میں وہ کسی ایک شاخ سے جڑ کر خلاؤں کو عبور کر جائیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ طلباء اور طالبات جس خوداعتمادی کے فقدان اور غیریقینی مستقبل کو لیکر کالجز یا جامعات میں داخل ہوتے ہیں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُن کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا کہ اب کھٹن بھری عملی زندگی کس راستے پر چلنا ہے اور اُن منزل کیا ہے! کوئی ہاتھ پکڑ کر کنارے لگا دے تو ٹھیک ورنہ لہروں پر ہچکولے اور غوطہ زنی کرتے ہوئے وہ افرادی قوت جو خیبرپختونخوا کا اثاثہ ہے کہیں بکھر رہی ہے تو کہیں ڈوب رہی ہے!
بناء تعلیم و اعلیٰ تعلیم فلاح و نجات کی نہ تو کوئی صورت اور نہ ہی کوئی دوسرا وسیلہ کارگر ثابت ہو سکتی ہے!
ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ) سے اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بذریعہ ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ موصول ہونے والے زمینی حقائق تصدیق کرنے پر درست ثابت ہوئے جیسا کہ خیبرپختونخوا کا ایک ضلع ایسا بھی ہے جہاں طلباء اور طالبات کے لئے ایک بھی اعلیٰ تعلیم (گرلز ڈگری کالج) نہیں۔ سرسری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صوبے کے چند اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں اِکادُکا کالجز (خانہ پُری کی حد تک) تو ہیں لیکن وہ آبادی کے تناسب اور حسب آبادی کی ضروریات کافی نہیں۔ ضلع طورغر کے شمال میں ضلع کوہستان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں دو کالجز ہیں لیکن دونوں ہی طلباء کے لئے ہیں اور ضلع تورغر کے برعکس یہاں کالجز تو موجود ہیں لیکن طالبات کے لئے نہیں۔ بنیادی سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں اعلیٰ تعلیم (کالجز) کی تعداد حسب آبادی (ضرورت) ہے یا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایسے خوش قسمت اضلاع (جن میں سے بیشتر کا تعلق وزیراعلیٰ کے آبائی علاقوں سے رہا ہو) ہیں جہاں جدید سہولیات سے آراستہ کالجز موجود ہیں۔ یہاں یہ بات قطعی طور پر نہیں کی جا رہی کہ جن علاقوں میں وہاں کے وزرائے اعلیٰ نے مقامی ضروریات سے بڑھ کر کالجز قائم کئے تو یہ ناانصافی ہوئی ہے۔ سیاسی حکمرانوں کی انتخابی مجبوریاں ہوتی ہیں اور انہیں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے لئے ایسے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت رہتی ہے‘ جس سے اُن پر بیروزگاروں کا دباؤ کم ہو وگرنہ کالجز کا قیام اِس بات کی ضمانت نہیں کہ فارغ التحصیل ہونے والوں کو جامعات (یونیورسٹیز) میں داخلہ ملے گا یا وہ کالجز سے ’پاس آؤٹ‘ ہی برسرروزگار ہو جائیں گے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن خیبرپختونخوا کا اصل مسئلہ ’معاشی طور پر غیریقینی ر مبنی صورتحال‘ ہے۔ نوجوان علم حاصل کرنے کے باوجود بھی ’خواندہ‘ قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اُنہیں نصابی کتب سے زیادہ مطالعے کی نہ تو ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ہی اساتذہ اُن کے لئے اِس قسم کا ’رول ماڈل‘ بنتے ہیں کہ اُن کی شخصیت میں نکھار آتا جائے۔ اُن میں تحقیق کی جستجو پیدا ہو۔ علوم کی دنیا میں وہ کسی ایک شاخ سے جڑ کر خلاؤں کو عبور کر جائیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ طلباء اور طالبات جس خوداعتمادی کے فقدان اور غیریقینی مستقبل کو لیکر کالجز یا جامعات میں داخل ہوتے ہیں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُن کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا کہ اب کھٹن بھری عملی زندگی کس راستے پر چلنا ہے اور اُن منزل کیا ہے! کوئی ہاتھ پکڑ کر کنارے لگا دے تو ٹھیک ورنہ لہروں پر ہچکولے اور غوطہ زنی کرتے ہوئے وہ افرادی قوت جو خیبرپختونخوا کا اثاثہ ہے کہیں بکھر رہی ہے تو کہیں ڈوب رہی ہے!
یادش بخیر خیبرپختونخوا میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق ’ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ‘ نے ایک جائزہ رپورٹ رواں برس (دوہزارسترہ) کے ’ماہ جولائی‘ میں شائع کی تھی جس کے مطابق صوبے میں کل 249 کالجز ہیں اور اِن میں طلباء کے لئے 148 جبکہ طالبات کے 101 کالجز ہیں۔ سب سے زیادہ کالجز ’ضلع پشاور‘ کی حدود میں ہیں جن کی تعداد 25 (طالبات کے لئے 13) بتائی گئی تھی۔ خوش آئند تھا کہ پشاور صوبے کے اُن چند اضلاع میں شامل ہے‘ کہ جہاں طالبات کے لئے زیادہ کالجز ہیں لیکن مردان جیسے بڑے ضلع میں جس کی آبادی بشمول قریبی دیہی علاقوں کو شامل کرکے کسی بھی طرح پشاور سے کم نہیں وہاں طلباء کے لئے 12 جبکہ طالبات کے لئے 10 کالجز ہیں۔ صوابی سترہ (طالبات کے لئے آٹھ)‘ بنوں سولہ (طالبات کے لئے چھ)‘ ایبٹ آباد سترہ (طالبات کے لئے گیارہ)‘ ڈی آئی خان تیرہ (طالبات کے لئے چار)‘ ہری پور تیرہ (طالبات کے لئے آٹھ)‘ سوات تیرہ (طالبات کے لئے پانچ)‘ مالاکنڈ بارہ (طالبات کے لئے چار)‘ چارسدہ گیارہ (طالبات کے لئے پانچ)‘ نوشہرہ گیارہ (طالبات کے لئے چار)‘ لوئر دیر گیارہ (طالبات کے لئے چار)‘ کرک گیارہ (طالبات کے لئے تین)‘ کوہاٹ نو (طالبات کے لئے چار)‘ مانسہرہ نو (طالبات کے لئے تین)‘ لکی مروت آٹھ (طالبات کے لئے دو)‘ اپر دیر پانچ (طالبات کے لئے ایک)‘ بونیر پانچ (طالبات کے لئے ایک)‘ چترال پانچ (طالبات کے لئے دو)‘ شانگلہ پانچ (طالبات کے لئے دو)‘ ٹانک تین (طالبات کے لئے ایک) اور بٹ گرام میں دو (جن میں طالبات کے لئے ایک) کالج شامل ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے بوریت محسوس کرنے کی بجائے توجہ مرکوز رکھی جائے تو علاؤہ ازیں حقیقت یہ بھی ہے کہ کوہستان اور تورغر کے اضلاع میں طالبات کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع موجود نہیں جنہیں میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے قریبی اضلاع کا سفر کرنا پڑتا ہے اور بالخصوص قبائلی ماحول میں ایسے گھرانوں کی تعداد نہایت کم ہے‘ جو لڑکیوں کودور دراز سفر کرکے کالجز جانے کی اجازت دیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی موجود نہیں! صوبائی حکومت اگر فی الفور طالبات کے کالجز قائم نہیں کر سکتی تو کالجز کو ٹرانسپورٹ (آمدورفت کا باعزت ذریعے) کی فراہمی کرکے یہ کمی ضرور دور کر سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ جیسا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
حالیہ مردم شماری (دوہزارسترہ) کے مطابق ضلع طورغر کی آبادی 1 لاکھ 71 ہزار 387 نفوس پر مشتمل ہے جن میں خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہے! مردم شماری میں خامیاں الگ موضوع ہے لیکن اگر ضلع تورغر کی بات کی جائے تو ’86 ہزار ایک سو ستاون‘ مردوں کے مقابلے خواتین کا شمار ’85 ہزار دوسو تین‘ ہے۔ اِسی طرح ضلع کوہستان کی کل آبادی ’7 لاکھ 84ہزار 702‘ جبکہ اِن میں خواتین (3 لاکھ 49ہزار746) کے لئے کوئی ایک بھی سرکاری کالج جیسی نعمت فراہم نہیں کی جاسکی۔
تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اُن کے حکومت میں آنے سے قبل خیبرپختونخوا میں 170کالجز تھے جن کی تعداد بڑھا کر 249 کر دی گئی ہے اور یہ تاثر بھی حکومتی نکتۂ نظر سے منفی ہے کہ خواتین کے لئے کالجز کی تعداد کسی خاص حکمت عملی کی وجہ سے چند اضلاع میں نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال طلباء و طالبات کے لئے نہ صرف مزید کالجز کی ضرورت ہے بلکہ اعلیٰ تعلیمی مواقعوں کے ساتھ ’فنی و تکنیکی علوم‘ بھی شامل نصاب ہونا چاہئے‘ اِس سلسلے میں چین‘ بھارت اور بالخصوص جنوبی افریقہ کے تجربات سے فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے جہاں فاصلاتی نظام تعلیم کو وسعت دیتے ہوئے ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے گھر گھر کالجز بنا دیئے گئے ہیں!
تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اُن کے حکومت میں آنے سے قبل خیبرپختونخوا میں 170کالجز تھے جن کی تعداد بڑھا کر 249 کر دی گئی ہے اور یہ تاثر بھی حکومتی نکتۂ نظر سے منفی ہے کہ خواتین کے لئے کالجز کی تعداد کسی خاص حکمت عملی کی وجہ سے چند اضلاع میں نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال طلباء و طالبات کے لئے نہ صرف مزید کالجز کی ضرورت ہے بلکہ اعلیٰ تعلیمی مواقعوں کے ساتھ ’فنی و تکنیکی علوم‘ بھی شامل نصاب ہونا چاہئے‘ اِس سلسلے میں چین‘ بھارت اور بالخصوص جنوبی افریقہ کے تجربات سے فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے جہاں فاصلاتی نظام تعلیم کو وسعت دیتے ہوئے ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے گھر گھر کالجز بنا دیئے گئے ہیں!