Tuesday, November 28, 2017

Nov 2017: Higher education in KP, not so high!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام

چند آنسو!
خیبرپختونخوا حکومت میں ’بے سمت ترقی‘ کا لب لباب یہ ہے کہ کسی ایک بھی شعبے کی کارکردگی ’’سوفیصد‘‘ اطمینان بخش نہیں بالخصوص جب ہم ’اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن)‘ سے متعلق حکومتی ترجیحات کا جائزہ لیتے ہیں تو بلندوبانگ دعوؤں اور زمینی حقائق میں فاصلے دیکھ کر سوائے مایوسی اور شرمندگی کے چند آنسو‘ اظہار کی کوئی دوسری صورت دکھائی نہیں دیتی۔ عام آدمی (ہم عوام) کی حالت زار میں تبدیلی یعنی غربت کی دلدل سے نکلنے کا پائیدار ذریعہ ’اعلیٰ تعلیم‘ ہے جو غریبی کے چکر کا توڑ بھی ہے۔ 

بناء تعلیم و اعلیٰ تعلیم فلاح و نجات کی نہ تو کوئی صورت اور نہ ہی کوئی دوسرا وسیلہ کارگر ثابت ہو سکتی ہے! 

ضلع تورغر (کالا ڈھاکہ) سے اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے بذریعہ ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ موصول ہونے والے زمینی حقائق تصدیق کرنے پر درست ثابت ہوئے جیسا کہ خیبرپختونخوا کا ایک ضلع ایسا بھی ہے جہاں طلباء اور طالبات کے لئے ایک بھی اعلیٰ تعلیم (گرلز ڈگری کالج) نہیں۔ سرسری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صوبے کے چند اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں اِکادُکا کالجز (خانہ پُری کی حد تک) تو ہیں لیکن وہ آبادی کے تناسب اور حسب آبادی کی ضروریات کافی نہیں۔ ضلع طورغر کے شمال میں ضلع کوہستان کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں دو کالجز ہیں لیکن دونوں ہی طلباء کے لئے ہیں اور ضلع تورغر کے برعکس یہاں کالجز تو موجود ہیں لیکن طالبات کے لئے نہیں۔ بنیادی سوال وہیں کا وہیں ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں اعلیٰ تعلیم (کالجز) کی تعداد حسب آبادی (ضرورت) ہے یا معاملہ کچھ یوں ہے کہ ایسے خوش قسمت اضلاع (جن میں سے بیشتر کا تعلق وزیراعلیٰ کے آبائی علاقوں سے رہا ہو) ہیں جہاں جدید سہولیات سے آراستہ کالجز موجود ہیں۔ یہاں یہ بات قطعی طور پر نہیں کی جا رہی کہ جن علاقوں میں وہاں کے وزرائے اعلیٰ نے مقامی ضروریات سے بڑھ کر کالجز قائم کئے تو یہ ناانصافی ہوئی ہے۔ سیاسی حکمرانوں کی انتخابی مجبوریاں ہوتی ہیں اور انہیں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کے لئے ایسے ترقیاتی منصوبوں کی ضرورت رہتی ہے‘ جس سے اُن پر بیروزگاروں کا دباؤ کم ہو وگرنہ کالجز کا قیام اِس بات کی ضمانت نہیں کہ فارغ التحصیل ہونے والوں کو جامعات (یونیورسٹیز) میں داخلہ ملے گا یا وہ کالجز سے ’پاس آؤٹ‘ ہی برسرروزگار ہو جائیں گے۔ 

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن خیبرپختونخوا کا اصل مسئلہ ’معاشی طور پر غیریقینی ر مبنی صورتحال‘ ہے۔ نوجوان علم حاصل کرنے کے باوجود بھی ’خواندہ‘ قرار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اُنہیں نصابی کتب سے زیادہ مطالعے کی نہ تو ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ہی اساتذہ اُن کے لئے اِس قسم کا ’رول ماڈل‘ بنتے ہیں کہ اُن کی شخصیت میں نکھار آتا جائے۔ اُن میں تحقیق کی جستجو پیدا ہو۔ علوم کی دنیا میں وہ کسی ایک شاخ سے جڑ کر خلاؤں کو عبور کر جائیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ طلباء اور طالبات جس خوداعتمادی کے فقدان اور غیریقینی مستقبل کو لیکر کالجز یا جامعات میں داخل ہوتے ہیں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اُن کی اکثریت کو معلوم نہیں ہوتا کہ اب کھٹن بھری عملی زندگی کس راستے پر چلنا ہے اور اُن منزل کیا ہے! کوئی ہاتھ پکڑ کر کنارے لگا دے تو ٹھیک ورنہ لہروں پر ہچکولے اور غوطہ زنی کرتے ہوئے وہ افرادی قوت جو خیبرپختونخوا کا اثاثہ ہے کہیں بکھر رہی ہے تو کہیں ڈوب رہی ہے!

یادش بخیر خیبرپختونخوا میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق ’ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ‘ نے ایک جائزہ رپورٹ رواں برس (دوہزارسترہ) کے ’ماہ جولائی‘ میں شائع کی تھی جس کے مطابق صوبے میں کل 249 کالجز ہیں اور اِن میں طلباء کے لئے 148 جبکہ طالبات کے 101 کالجز ہیں۔ سب سے زیادہ کالجز ’ضلع پشاور‘ کی حدود میں ہیں جن کی تعداد 25 (طالبات کے لئے 13) بتائی گئی تھی۔ خوش آئند تھا کہ پشاور صوبے کے اُن چند اضلاع میں شامل ہے‘ کہ جہاں طالبات کے لئے زیادہ کالجز ہیں لیکن مردان جیسے بڑے ضلع میں جس کی آبادی بشمول قریبی دیہی علاقوں کو شامل کرکے کسی بھی طرح پشاور سے کم نہیں وہاں طلباء کے لئے 12 جبکہ طالبات کے لئے 10 کالجز ہیں۔ صوابی سترہ (طالبات کے لئے آٹھ)‘ بنوں سولہ (طالبات کے لئے چھ)‘ ایبٹ آباد سترہ (طالبات کے لئے گیارہ)‘ ڈی آئی خان تیرہ (طالبات کے لئے چار)‘ ہری پور تیرہ (طالبات کے لئے آٹھ)‘ سوات تیرہ (طالبات کے لئے پانچ)‘ مالاکنڈ بارہ (طالبات کے لئے چار)‘ چارسدہ گیارہ (طالبات کے لئے پانچ)‘ نوشہرہ گیارہ (طالبات کے لئے چار)‘ لوئر دیر گیارہ (طالبات کے لئے چار)‘ کرک گیارہ (طالبات کے لئے تین)‘ کوہاٹ نو (طالبات کے لئے چار)‘ مانسہرہ نو (طالبات کے لئے تین)‘ لکی مروت آٹھ (طالبات کے لئے دو)‘ اپر دیر پانچ (طالبات کے لئے ایک)‘ بونیر پانچ (طالبات کے لئے ایک)‘ چترال پانچ (طالبات کے لئے دو)‘ شانگلہ پانچ (طالبات کے لئے دو)‘ ٹانک تین (طالبات کے لئے ایک) اور بٹ گرام میں دو (جن میں طالبات کے لئے ایک) کالج شامل ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے بوریت محسوس کرنے کی بجائے توجہ مرکوز رکھی جائے تو علاؤہ ازیں حقیقت یہ بھی ہے کہ کوہستان اور تورغر کے اضلاع میں طالبات کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع موجود نہیں جنہیں میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے قریبی اضلاع کا سفر کرنا پڑتا ہے اور بالخصوص قبائلی ماحول میں ایسے گھرانوں کی تعداد نہایت کم ہے‘ جو لڑکیوں کودور دراز سفر کرکے کالجز جانے کی اجازت دیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی موجود نہیں! صوبائی حکومت اگر فی الفور طالبات کے کالجز قائم نہیں کر سکتی تو کالجز کو ٹرانسپورٹ (آمدورفت کا باعزت ذریعے) کی فراہمی کرکے یہ کمی ضرور دور کر سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ جیسا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

حالیہ مردم شماری (دوہزارسترہ) کے مطابق ضلع طورغر کی آبادی 1 لاکھ 71 ہزار 387 نفوس پر مشتمل ہے جن میں خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہے! مردم شماری میں خامیاں الگ موضوع ہے لیکن اگر ضلع تورغر کی بات کی جائے تو ’86 ہزار ایک سو ستاون‘ مردوں کے مقابلے خواتین کا شمار ’85 ہزار دوسو تین‘ ہے۔ اِسی طرح ضلع کوہستان کی کل آبادی ’7 لاکھ 84ہزار 702‘ جبکہ اِن میں خواتین (3 لاکھ 49ہزار746) کے لئے کوئی ایک بھی سرکاری کالج جیسی نعمت فراہم نہیں کی جاسکی۔ 

تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ اُن کے حکومت میں آنے سے قبل خیبرپختونخوا میں 170کالجز تھے جن کی تعداد بڑھا کر 249 کر دی گئی ہے اور یہ تاثر بھی حکومتی نکتۂ نظر سے منفی ہے کہ خواتین کے لئے کالجز کی تعداد کسی خاص حکمت عملی کی وجہ سے چند اضلاع میں نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال طلباء و طالبات کے لئے نہ صرف مزید کالجز کی ضرورت ہے بلکہ اعلیٰ تعلیمی مواقعوں کے ساتھ ’فنی و تکنیکی علوم‘ بھی شامل نصاب ہونا چاہئے‘ اِس سلسلے میں چین‘ بھارت اور بالخصوص جنوبی افریقہ کے تجربات سے فائدہ بھی اُٹھایا جا سکتا ہے جہاں فاصلاتی نظام تعلیم کو وسعت دیتے ہوئے ٹیلی ویژن چینلوں کے ذریعے گھر گھر کالجز بنا دیئے گئے ہیں!

Sunday, November 26, 2017

TRANSLATION: Constitutional democracy by Dr. Farrukh Saleem

Constitutional democracy
آئینی جمہوریت
اسلامی مملکت پاکستان ایک ’آئینی جمہوریت‘ ہے جس کی تعریف ایک ایسا طرزحکمرانی کا نظام ہوتا ہے جس میں عوام کی رائے (ووٹوں) سے منتخب ہونے والوں کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور وہ مملکت کے جملہ فیصلوں اور وسائل سے متعلق حکمت عملی مرتب کرتے ہیں لیکن یہ طرزحکمرانی ایک قانون کا پابند ہوتا ہے اور اگرچہ منتخب ہونے والے اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتے ہیں لیکن اُن کے فیصلے آئین کے پابند ہوتے ہیں اور اختیارات لامحدود ہونے کے باوجود بھی محدود ہوتے ہیں‘جن پر حاکم قانون ہوتا ہے۔

آئینی جمہوریت کا بنیادی جز آئین ہوتا ہے اور آئین کی پاسداری حکمرانی جیسی ذمہ داری ادا کرنے والوں کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اِسی سے حاصل ہونے والے اختیار کو سیاسی اختیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جسے حکومت کی طاقت بھی کہا جا سکتا ہے اور اِس کا احتساب کرنے کے لئے آئین سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ آئین کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اختیارات کا تعین کیا جاتا ہے اور اِسی کے تحت 1: حکومت کی طاقت کو بیان کیا جاتا ہے اور اس کی حدود مقرر ہوتی ہیں۔ 2: اِسی کے ذریعے سیاسی اختیار کی تعریف اور تعین ہوتا ہے جو کہ حکومت کا بنیادی و اہم کام ہے۔ سیاسی سماجیات کا پہلا اصول یہ ہے کہ حکومت کی حدود اور اختیارات کو طے کیا جائے اور پھر طے شدہ اصولوں کے مطابق حکومت کے جملہ ادارے کام کریں گے۔
آئینی جمہوریت کا دوسرا بنیادی حصہ ’جمہوری جزئیات‘ ہوتے ہیں۔ جن میں سیاسی اختیار کا استعمال کیا جاتا ہے اور دوسرا اِن اختیارات کے تعین اور حصول کو طے اور یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق اُن کرداروں پر ہوتا ہے جنہیں سیاسی اختیار حاصل ہوتا ہے۔

اسلامی مملکت پاکستان ایک آئینی جمہوریہ ہے۔ قانون کے تحت پاکستان کے ووٹرز (رائے دہندگان) اپنے رہنماؤں کا چناؤ بذریعہ عام انتخابات کرتے ہیں۔ آئین کے تحت عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عوام کے منتخب رہنماؤں کی کارکردگی اور کردار کا احتساب کریں اور اُنہیں نااہل قرار دے سکیں۔ وہ رہنما جنہیں عوام براہ راست منتخب کرتے ہیں اُنہیں عدالتیں نااہل قرار دے سکتی ہیں اور جن کو عدالتیں نااہل قرار دیں وہ بذریعہ ووٹ خود کو اہل قرار نہیں دلوا سکتے۔ آئینی جمہوریت میں رہنماؤں کا انتخاب بذریعہ ووٹ اور اِن منتخب رہنماؤں کا احتساب بذریعہ عدالت ہوتا ہے اور یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آئینی جمہوریت میں جہاں ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے کا عمل ضروری ہے اِسی طرح عدالت کے ذریعے منتخب رہنماؤں کو آئین کا پابند بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

پاکستان کی جمہوری آئینی ریاست کے انتظامی ڈھانچے پر غور کریں۔ 193 رکن ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ ایک عالمی ادارہ ہے اور اِس کے تمام رکن ممالک میں صرف ایک ملک ایسا ہے جس میں قانون ساز ایوانوں (پارلیمنٹ) نے ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت عدالتوں سے نااہل قرار پانے والا شخص سیاسی جماعت کی صدارت کرنے کے لئے اہل قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک ماسوائے پاکستان کے قانون ساز ایوانوں کے اراکین نے ایسا کوئی بھی قانون منظور نہیں کیا جو عدالتوں سے متصادم ہو۔ پاکستان کے لئے یہ منفرد اعزاز کسی بھی طرح قابل فخر نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں خود کو آئین و عدالتوں سے ماوراء سمجھتی ہیں اور جمہوریت ایک ایسے نظام کو کہا جاتا ہے جس میں سیاستدان خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہ سمجھیں اُن پر قوانین اور آئین کا اطلاق نہ ہو اور جو کچھ اُن کے جی میں آئے وہ کرتے پھریں اور کوئی بھی اُن سے پوچھنے والا نہ ہو۔ جمہوریت کی تالی کو صرف ایک ہاتھ سے بجانے کی کوشش کرنے والے پاکستانی سیاست دان جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں!

کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اِس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ اُس کا وزیرخزانہ (فنانس منسٹر) مفرور قرار دے دیا گیا ہو۔ ایک ایسا وزیرخزانہ جس پر مالی بدعنوانیوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے جیسے الزامات عائد ہیں اور جسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے اور جس کے اثاثے قومی تحویل میں لیکر ملک کا وہ قرض ادا کیا جائے‘ جو عوام کی بہبود پر خرچ نہیں ہوا۔ آئین ملکی امور کا اختیار وزیراعظم اور وفاقی وزراء کو دیتا ہے لیکن یہ عہدیدار اپنے حصے کی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں کر رہے اور اُس آئین کی پاسداری نہیں کی جا رہی‘ جو امور مملکت کے شفاف انداز میں چلنے کی ضمانت ہے۔ یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ پاکستان ایک آئینی جمہوریہ تو ہے لیکن یہاں آئین کے ساتھ ٹکراؤ جیسی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے اور عدالت کے اختیار اور آئین کی بالادستی کو سیاسی و ذاتی مفادات کے سرنگوں کر دیا گیا ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرجسین اِمام)

Nov 2017: The kingdom led "Islamic Military Alliance" declared as 'suicide mission', would Pakistan like to be part of another conflict?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تیر نیم کش!
’پندرہ دسمبر دوہزار پندرہ‘ میں ’اِکتالیس اسلامی ممالک (افغانستان‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ بینن‘ برونائی‘ برکینا فاسو‘ چاڈ‘ کومورس‘ کوتے ڈی لوویر‘ جبوتی‘ مصر‘ گابون‘ گمبیا‘ گونیا‘ کونیا باسو‘ اردن‘ کویت‘ لبنان‘ لیبیا‘ ملائشیا‘ مالدیپ‘ مالی‘ مارتنیا‘ مراکش‘ نائجیر‘ نائیجیریا‘ عمان‘ پاکستان‘ فلسطین‘ قطر‘ سعودی عرب‘ سینیگال‘ سری لیون‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ توگو‘ تیونسیا‘ ترکی‘ یوگینڈا‘ متحدہ عرب امارات اُور یمن) کی جانب سے ’عسکری اِتحاد‘ کے قیام پر اتفاق ہوا‘ جس کی قیادت ’پاک فوج‘ کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سپرد کی گئی تو اِس پاکستان نے اپنے لئے اعزاز قرار دیا۔ آج (چھبیس نومبر) کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض (Riyadh) میں ’عسکری اِتحاد‘ کے رکن ممالک بشمول پاکستان سے وزیردفاع کی سربراہی میں نمائندہ وفود شریک ہو رہے ہیں تاکہ مستقبل قریب میں اِس اتحاد سے کام لیا جا سکے جو امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید کر مسلح ہو چکا ہے۔ 

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مشرق وسطیٰ نے مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد ’نیٹو (NATO)‘ کی طرز پر تنظیم قائم کی ہے لیکن اِس کے اہداف اور مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہو سکے ہیں۔ 

اسلامی ممالک کے اِس عسکری اتحاد کے قیام کا بنیادی مقصد ہم خیال ممالک کے درمیان دہشت گردی کے خلاف مشترکات کی تلاش ہے تاکہ کسی مشترک دشمن و ہدف (دہشت گردی) کا متحد ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔ اِس مقصد کے لئے رکن ممالک کو ایک دوسرے سے نہ صرف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے پر رضامند ہونا پڑے گا بلکہ سعودی عرب کے بادشاہ کی بلاشرکت غیرے قیادت بھی تسلیم کرنا پڑے گی اور سعودی عرب کی نظر میں جو بھی دہشت گرد ہوگا‘ وہی اکتالیس رکن ممالک کی نظر میں بھی ممکنہ اور موجود خطرے کی علامت (مشترکہ ہدف) سمجھا جائے گا۔ مذکورہ عسکری اتحاد کی جانب سے وضاحت میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف دیگر اتحادوں کی طرح یہ بھی ایک قسم کا فوجی اتحاد ہی ہے‘ اِس بیان کادرپردہ مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص اسرائیل کو یقین دلایا جائے کہ وہ چاہے کسی بھی مسلم ملک پر فوج کشی کریں یا الزامات لگانے میں جس انتہاء تک بھی جائیں‘ اِس اتحاد کے اسلحے کا رخ اُن کی جانب نہیں ہوگا۔ 

اکتالیس اسلامی ممالک کا اتحاد درحقیقت بادشاہتوں اور اقتدار پر قابض شاہی خاندانوں کے تسلط کو برقرار رکھنا اُور مستقبل میں اگر بالخصوص عرب ممالک کے عوام شاہی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو اُنہیں دہشت گرد قرار دے کر کچلنے کا جواز فراہم کرے گا۔ توقع ہے کہ عسکری اتحاد کے پہلے اجلاس میں وہ لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جائے گا جس کا پوری دنیا کو انتظار ہے۔ علاؤہ ازیں اِس عسکری اتحاد آپریشن کمانڈ‘ فعالیت اور ممالک کی حصہ داری بارے حساس معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے کی راہ میں کوئی اختلافی نکتہ (رکاوٹ بظاہر) حائل نہیں! مذکورہ عسکری اتحاد کے رکن ممالک کے تحفظات موجود ہیں کیونکہ تشکیل سے لیکر اِس دوسال کے دوران اِن ممالک کو خود بھی علم نہیں کہ اِس پوری کوشش کا اصل (درپردہ) مقصد کیا ہے۔ 

’’میرسپاہ ناسزا‘ لشکریاں شکستہ صف ۔۔۔ 
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف (علامہ اقبالؒ )‘‘

سعودی عرب میں طلب کئے گئے ’اِسلامی اِنسداد دہشت گردی فوجی اِتحاد‘ کے سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی تقرری‘ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کے لئے ناقابل ہضم ہے کہ وہ پاکستان کا نام کسی ایسے دفاعی اِتحاد سے منسلک دیکھے جو ایک خاص اسلامی ملک کی خاص نظریاتی تعلیمات کے تابع ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پہلے ایسے کسی اِتحاد میں شمولیت سے معذرت کرتے ہوئے اِنکار کیا‘ پھر اقرار کیا اور ایک مرتبہ پھر اِنکار کرتے ہوئے ’ہاں میں ہاں‘ ملا دی ہے۔ 

جنرل راحیل شریف اِس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’’میں پوری دیانتداری سے اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ‘ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی کے کئی پہلو دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں آزمائے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ ممالک جو عملی طور پر دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہیں۔ میں یہ بات واضح کرناچاہتا ہوں کہ اِتحاد اِنسداد دہشت گردی کے لئے ہے اور یہ کسی ملک‘ فرقے یا مذہب کے خلاف نہیں۔‘‘ لیکن یہ ’’معلوم تعریف‘‘ اُور تعارف کم سے کم پیپلزپارٹی کے لئے قابل قبول نہیں۔ 

چوبیس نومبر کو ایوان بالا (سینیٹ) اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ’سینیٹر فرحت اللہ بابر‘ نے کہا کہ ’’اِس فوجی اتحاد کے دائرہ کار اور مستقبل کے منصوبوں پر کئی سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔ اِس لئے (سعودی عرب فوجی اتحاد کے پہلے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے والے) پاکستانی وزیردفاع سعودی عرب سے کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے پہلے اِس قانون ساز ایوان (سینیٹ کو ’’ضرور بالضرور‘‘ اعتماد میں لیں۔ فرحت اللہ بابر کا سینیٹ سے خطاب قومی نشریاتی رابطے کے ذریعے براہ راست دیکھا گیا اور یوں محسوس ہوا‘ جیسے ’ذوالفقار علی بھٹو‘ بول رہے ہوں۔ وہ گرجدار آواز میں اسپیکر (رضا ربانی) کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہہ رہے تھے اور بارہا تائید میں اسپیکر کی گردن ہلنے کے مناظر بھی دنیا نے دیکھے کہ اِس منطقی دلیل اور حقیقت حال سے اختلاف آسان نہیں۔ 

افغان جنگ کے بعد پاکستان کسی بھی ایسی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا جو اُس پر مسلط کی جائے۔ 

فرحت اللہ بابر نے کہا جو لفظ بہ لفظ کچھ یوں تھے کہ ’’مذکورہ اسلامی اتحاد کے نتائج انتہائی دور رس ہیں‘ کیونکہ اب اِس اتحاد کی حکمت عملی طے ہوگی؟ فیصلوں کااختیار کسے ہوگا؟ اس عسکری اتحاد منجملہ سرگرمیاں اور مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ جناب چیئرمین‘ اِس (معزز) ایوان کی جانب سے یہ بات اُن (سعودی حکمرانوں اُور اتحاد میں شریک ممالک) تک جانی چاہئے کہ جب ہمارا ’وزیردفاع‘ وہاں جائے اور اتنے (اہم) بنیادی مسائل کی وہاں بات ہو رہی ہو تو (پاکستان کی جانب سے تعاون کی کسی بھی یقین دہانی) کمٹمنٹ سے قبل وہ ’پلان‘ جو اِس ایوان کے سامنے رکھا جائے تاکہ بعد میں مشکلات نہ ہوں۔ سعودی عرب ہمارا دوست برادر ملک ہے لیکن جہاں تک (سعودی عرب کے) نظریات کا تعلق ہے‘ جناب چیئرمین‘ میں اِس پر بات کرنا نہیں چاہتا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ (سعودی عرب کی) آئیڈیالوجی سے بھی اُور دہشت گردی کی ’مالی سرپرستی‘ کرنے سے متعلق بھی بڑے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ 

فرحت اللہ بابر جس باریک نکتے کی جانب سینیٹ اِیوان‘ حکومت اُور پاکستانی قوم کی توجہ مبذول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اُس جانب علامہ اقبالؒ اشارہ کر گئے ہیں‘ صرف غور کرنے اور سمجھنے کی دیر ہے۔ ’’مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی: 
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف۔۔۔ 
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ: 
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف!‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-26

Friday, November 24, 2017

Nov 2017: Grey areas of the KP's "Claim Tribunal."

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کلیم ٹربیونل!؟
خیبرپختونخوا میں ’موٹروہیکل آرڈیننس‘ کے تحت ٹریفک حادثہ کا شکار ہونے والی‘ ایک خاتون جو کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی تھی کو 70 ہزار روپے نقد ادا کئے گئے ہیں۔ یہ اَدائیگی 148 صفحات پر مشتمل متعلقہ قانون میں کم سے کم 23 مقامات پر مذکور ’کلیم ٹربیونل‘ کے تحت عمل میں آئی ہے‘ جسے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فعال کیا گیا ہے۔ کسی قانون کو ’سرد خانے‘ سے نکالنے کی اِس عملی مثال کی جس قدر بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسا قانون جس کی موجودگی کے بارے خود متعلقہ محکمے اور وزارت کی اکثریت کو بھی علم نہیں تھا وہ اچانک فعال کیسے ہوگیا اور اُس کی فعالیت کی اطلاع پشاور سے لاہور سفر کرنے والی ایک مسافر خواتین تک کیسے جا پہنچی جس نے 90 روز کے اندر خود سے پیش آنے والے حادثے کے لئے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ستر ہزار روپے نقد وصول کئے۔ 

مذکورہ قانون کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والا کوئی بھی مسافر (خدانخواستہ) حادثے کی صورت میں تین لاکھ روپے تک کا تاوان طلب کر سکتا ہے اور صوبائی حکومت یہ معاوضہ ادا کرنے کی پابند ہوگی۔
اٹھارہ نومبر کو ’’چوری: سینہ زوری!‘‘ اور تیئس نومبر کے روز (روزنامہ آج کے ادارتی صفحات پر) شائع ہونے والے کالم بعنوان ’’قوت فیصلہ کا فقدان!‘‘کے تحت ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے عوامی مسائل کی مرحلہ وار نشاندہی کرنے کے سلسلے کی یہ تیسری کڑی ہے جس میں اُس قانون اور قواعد سے متعلق موضوع زیربحث ہے‘ جس کا تعلق خیبرپختونخوا کی اکثریت سے ہے لیکن اِسے ’نجی کاروباری طبقے‘ کے مفاد کے لئے سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر نجی شعبے کی اجارہ داری (تسلط) کے پیچھے کئی کردار کارفرما ہیں‘ جن میں قانون سازی اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سرکاری اہلکار شامل ہیں اور سبھی نے ذاتی مالی مفادات کے لئے عام آدمی کی زندگی کو ایک مستقل (ذلت بھرے) عذاب سے دوچار رکھا ہے‘ جس کی اصلاح ’تبدیلی لانے والوں‘ کے لئے کھلا چیلنج ہے۔

’قانونی اصطلاحات کی لغت (ڈکشنری)‘ (مطبوعہ دوہزار تین‘ علمی کتب خانہ لاہور) میں ’’کلیم (Claim)‘‘ کا لغوی مطلب ’دعویٰ کرنا۔ حق جتانا‘ تحریر ہے۔ اِسی اصطلاح کی ضمن میں 12 دیگر اصلاحات کے معانی و تفصیلات درج ہیں لیکن ’کلیم ٹربیونل‘ کا ذکر نہیں کیونکہ ’موٹروہیکل قانون‘ کی یہ اِصطلاح مذکورہ قانون کے اندر ہی دفن رکھا گیا۔ قانون دانوں کے لئے ’کلیم‘ اور ’ٹربیونل‘ الگ الگ اصطلاحات ہیں اور جب ’کلیم ٹربیونل‘ سے متعلق یکجا کر کے پوچھا جاتا ہے تو اعتراف کرتے ہیں کہ ’’وہ نہیں جانتے‘‘ کہ ۔۔۔ ’خیبرپختونخوا کے موٹروہیکل آرڈیننس 1965ء‘ کی 67ویں شق اے کی ذیل میں اِس بارے تفصیلات موجود ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ مذکورہ قانون کی 67-D‘ ذیلی شق 3 میں یہاں تک تحریر ہے کہ ۔۔۔ ’’کلیم ٹربیونل‘ کو ’سول کورٹ‘ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے۔ جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی حادثے سے متعلق عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کرنے کا اختیار رکھے گی۔ اِس بات کو قانوناً ممکن بنائے گی کہ عینی شاہدین عدالت سے تعاون کریں اور وہ تمام متعلقہ شواہد و ثبوت عدالت کے روبرو پیش کریں جن کا تعلق متعلقہ ٹریفک حادثے سے ہو۔‘‘

سال دوہزار گیارہ میں پولیس سے بہ عہدہ ’ڈی پی اُو (تیمرگرہ‘ لوئر دیر)‘ ریٹائر ہونے والے ممتاز زرین خان کی تمام زندگی (چالیس برس) محکمۂ پولیس میں خدمات سرانجام دیتے گزر گئی۔ وہ ایک فرض شناس آفیسر رہے جنہوں نے خیبرپختونخوا کے شورش زدہ علاقوں میں اپنی تعیناتی کے دوران امن و امان کے پُرخطرحالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ ریاست کی عمل داری بحال رکھی اُور فرائض منصبی کی بجاآوری سے سرکاری وسائل کے امانت و دیانت سے مصرف جیسے کسی بھی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ اِنہیں خدمات کے عوض اُنہیں تمغہ شجاعت اور دو مرتبہ ’قائد اعظم پولیس میڈلز‘ جیسے اِعزازات سے نوازہ جا چکا ہے۔ چالیس سالہ ملازمت کے دوران ممتاز زرین ’’اے ایس آئی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایس پی (ہنگو‘ ٹانک‘ بٹ گرام اُور لوئر دیر)‘‘ جیسے کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ اِس عرصے میں انہوں نے درجنوں ٹریفک حادثات کی بذات خود تفتیش کی یا اُن کی زیرنگرانی ٹریفک حادثات کا تفیشی عمل مکمل ہوا لیکن انہیں ’کلیم ٹربیونل‘ جیسی اصطلاح کا علم نہ ہوسکا۔ پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ممتاز زرین نے اپنی تعلیم ’ایل ایل بی‘ کی بنیاد پر بحیثیت وکیل اور پولیس میں ملازمتی تجربے کی بنیاد پر بطور ’چیف سیکورٹی آفیسر‘ اپنی خدمات ایک نجی تعلیمی ادارے کے سپرد کر رکھی ہیں‘ وہ ماضی کی طرح آج بھی ایک فعال اور کامیابی عملی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اُن کی ہمت و مستعدی دیکھ کر رشک آتا ہے کہ وہ کس طرح بعداز ریٹائرمنٹ بھی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے مختلف کرداروں میں فرائض منصبی اور کلیدی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بطور کانسٹیبل ریٹائرڈ ہونے والے پولیس اہلکار کو ساری زندگی فکر معاش نہیں رہتا اور اُس کی مالی حیثیت اِس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ ’باقی ماندہ زندگی‘ آرام سے بسر کرتا ہے لیکن پینسٹھ سالہ ممتاز زرین کے لئے زندگی ’جہد مسلسل‘ ہے جس کا نصاب صداقت و دیانت کے اصولوں پر مرتب ہے۔ 

ملک کے سیاسی و آئینی حالات پر گہری نظر رکھنے اور وسیع مطالعہ رکھنے والے دُرویش صفت ممتاز زرین سے جب ’کلیم ٹربیونل‘ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے تسلیم کیا کہ ایسے کسی قانون کے بارے میں ’’نہیں جانتے‘‘ اور نہ ہی بطور پولیس آفیسر (چالیس سالہ عملی) زندگی میں اُن کا واسطہ کسی ’کلیم ٹربیونل‘ سے پڑا۔ نہ ہی کسی سرکاری محکمے کی جانب سے اُنہیں ’کلیم ٹربیونل‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی یا اجلاس طلب کیا گیا یا اِس بارے تحریری و زبانی کلامی معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ اگر تمام زندگی پولیس اور ریٹائرمنٹ کے بعد عملاً وکلالت کرنے والے ’ممتاز زرین‘ جیسے فعال شخص کو ’کلیم ٹربیونل‘ کی موجودگی کا علم نہیں‘ تو ایسے کسی قانون کے بارے میں کسی عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات بارے اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ قوانین کتابوں میں دفن ہیں۔ سرکاری محکمے قوانین کے زور پر اپنی دھونس برقرار رکھے ہوئے ہیں اور انہی قوانین کی وجہ سے دھاندلی (کرپشن) بھی عام ہے۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کو قوانین کے بارے علم ہوجائے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ ہمیں اپنے حقوق اور سرکاری محکموں کی جملہ ذمہ داریاں معلوم ہو جائیں گی اور جب ذمہ داریاں معلوم ہوں گی تو کارکردگی کے بارے سوال اٹھاے (پوچھے) جائیں اور یہی وجہ مرحلہ ہے کہ سرکاری اعلیٰ و ادنی ملازمین (افسرشاہی)‘ قانون سازایوانوں کے اراکین (سیاست دان) نہیں چاہتے کہ عوام کے منہ میں زبان آئے اُور وہ کلام کر سکیں!
۔
Under the KP's Provincial Motor Vehicle Ordinance 1965,
the claim tribunal has been activated but the law needs to be
propagate and amend
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-11-24

Thursday, November 23, 2017

Nov 2017: Motor Vehicle Laws & the dark areas!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
قوت فیصلہ کا فقدان!
قوانین کی کمی نہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمین کا قحط ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک قانون اور اُسے لاگو کرنے کے لئے ضمنی قواعد و ضوابط (رولز) موجود ہیں‘ جن پر عمل درآمد کرنے والے ادارے‘ وزیر‘ مشیر‘ سیکرٹری سے لیکر درجہ چہارم ملازمین تک تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے وصول کرنے والے ملازمین کی ’فوج ظفر موج‘ موجود (اور سرکاری خزانے پر بوجھ) ہے لیکن اگر کسی ایک بنیادی چیز کا خسارہ ہے تو وہ ہے کارکردگی کا۔ 

قوانین کو عام آدمی (ہم عوام) کے حق میں مفید بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ قوانین و ضوابط کا اطلاق بلاامتیاز نہیں ہو رہا بلکہ ایک ایسا شعبہ بھی ہے جس میں تبدیلی نہیں آئی اور وہاں ماضی کی طرح آج بھی مخصوص انداز میں محدود پیمانے پر قوانین و قواعد کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کم سے کم ایک ایسا صوبائی محکمہ بھی ہے جس کی ہمدردیاں عوام کی بجائے تجارتی اور کاروباری طبقات کے مفادات کا تحفظ (احاطہ) کرتی ہیں! اِس سلسلے میں نہایت ہی عمدہ مثال خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں فعال ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کے ’بے ہنگم نظام‘ کی دی جا سکتی ہے‘ جس سے متعلق قانون اگرچہ ’’52 سال اور 5 ماہ‘‘ قدیم ہے لیکن اِس پر جدید مواصلاتی وسائل متعارف ہونے کے بعد‘ سے نظرثانی کی ضرورت ’’شدت سے محسوس‘‘ ہونے کے باوجود بھی قانون سازوں اور فیصلہ سازوں کی توجہ اگر مرکوز نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی نہ تو خود اور نہ ہی اُن کے اہل وعیال پبلک ٹرانسپورٹ استفادہ نہیں کرتا۔ المیہ ہے کہ سیاسی اور غیرسیاسی فیصلہ سازوں اور عوام کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن حیرت اُس بیوروکریسی پر بھی ہے جو متوسط طبقات سے اپنے تعلق کو اُس وقت بھول جاتی ہے جب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتی ہے۔ عام آدمی (ہم عوام) کی پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی مشکلات اور شکایات قانون سازی سے لیکر قانون کے اطلاق تک کثیرالجہتی ہیں۔

صوبائی (خیبرپختونخوا) موٹر وہیکل آرڈیننس (148 صفحات) ’’8 جون 1965ء‘‘ جبکہ صوبائی موٹروہیکل رولز (20 صفحات) ’’3 نومبر 1969ء‘‘ سے لاگو ہیں اُور نجی شعبے کی ملکیت ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ پابند ہے کہ وہ انہی دو قوانین و قواعد کے تحت کسی ضلع میں مقامی‘ بین الاضلاعی یا بین الصوبائی (طے شدہ راستوں) روٹس پر مسافر گاڑیاں چلائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی ہر مسافر گاڑی کے لئے لازم ہے کہ وہ روڈ پر آنے سے پہلے ’فٹنس سرٹیفکیٹ‘ حاصل کرے جس کا ’موٹروہیکل آرڈیننس‘ میں ’29 مقامات‘ پر ذکر ملتا ہے لیکن پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے زیراستعمال گاڑیوں (مسافر بسوں‘ وینز‘ ویگنز‘ منی بسوں‘ ہائی ایس‘ کوسٹرز وغیرہ) میں سفر کرنے کا عملی تجربہ رکھنے والے ’تحصیل یافتگان‘ سے پوچھیں کہ یہ گاڑیاں کتنی ’فٹ (موزوں)‘ ہیں۔ قانون میں انگریزی زبان کے لفظ (اصطلاح) ’فٹ (Fit)‘ استعمال کیا گیا ہے جن کے مطالب میں ’’مناسب‘ موافق‘ جچنا اور سائز ٹھیک ہونا‘‘ بھی شامل ہیں۔ کسی گاڑی کا صرف انجن ہی نہیں بلکہ اُس کی ظاہری داخلی و بیرونی حالت کا بھی اِسی زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ 

موٹروہیکل آرڈیننس کے تحت جن تین درجات میں گاڑیوں کے پرمٹ (اجازت نامے) جاری کئے جاتے ہیں‘ وہ گاڑی کی فٹنس (fitness) سے مشروط ہوتے ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ ہر ضلع میں ’موٹر وہیکل ایگزیمینر (Examiner)‘ جاری کرتا ہے۔ رولز کے تحت موٹروہیکل ایگزیمنر کا مطلب وہ آفیسر ہوتا ہے جس کی تقرری (اپوئٹمنٹ) انسپکٹر جنرل پولیس رول نمبر 35کے تحت کرتا ہے۔ اِس اہم عہدے پر تعینات ہونے والے شخص کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بیس صفحات پر مشتمل رولز میں ایگزیمینر کا ذکر 23 مقامات پر کیا گیا ہے لیکن کسی ایک ڈویژن میں ایک شخص (ایگزیمینر) کس طرح ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں کی فٹنس کس طرح عملاً ممکن بنا سکتا ہے!؟

پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کی عمومی ظاہری و ٹیکنیکل (چال چلن کی) ’فٹنس‘ اور اِس ’فٹنس کا معیار‘ بلند رکھنے کے لئے قانون تو موجود ہے لیکن اِس پر خاطرخواہ انداز میں عمل درآمد نہیں ہورہا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جب کبھی فرصت پائیں تو قریب ترین جنرل بس اسٹینڈ سے بین الاضلاعی و صوبائی روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کا ظاہری معائنہ اور چند کلومیٹر سفر کریں تو اُنہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے لیکر ضلعی حکومتوں تک ہر حکومتی ادارہ اپنی ذمہ داری دوسرے کے کندھوں پر ڈال رہا ہے اور کس طرح نجی ملکیت میں فعال ٹرانسپورٹ نہ صرف شرح کرایوں میں من مانی کرتی ہے بلکہ ’اَن فٹ‘ گاڑیاں اور بناء لائسینس ڈرائیورز کی اکثریت عوام کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ بارِدیگر تجویز ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے الیکٹرانک ٹکٹ گھر بنائے جائیں تاکہ اضافی شرح کرایہ وصول کرنے کی روک تھام ہو سکے۔ مذکورہ گاڑیوں کی ’فرنٹ اسکرین‘ پر گاڑی کا مقررہ روٹ‘ ڈرائیور کا نام‘ فٹنس لائسینس کی تفصیل اُور مسافر نشستوں کی کل تعداد درج ہونی چاہئے اور گاڑی کے روانہ ہونے سے قبل مسافروں کی جامہ اور ہمراہ سامان کی تلاشی ہونی چاہئے۔ 

صاف دکھائی دے رہا ہے اور اِس بارے سنجیدگی سے تحقیق ہونی چاہئے کہ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی روٹس پر چلنے والی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کا استعمال غیرقانونی سرگرمیوں میں ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہونے کے ساتھ ایک ایسا مافیا بن چکا ہے کہ اِس میں چند معروف اداروں کے نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ صوبائی حکومت ’’پبلک ٹرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ کے تحت ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع متعارف کروا سکتی ہے۔ توجہ مبذول رہے کہ جہاں قوانین و قواعد پر بلاامتیاز اور خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ 

متعلقہ حکومتی ادارے کے درجہ بہ درجہ اہلکار مستفید ہو رہے ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کے لئے آنکھیں موند رکھی ہیں! جس کے باعث پاک افغان تجارتی معاہدے کے تحت غیرقانونی درآمدی اشیاء بالخصوص پارچہ جات‘ نئے و استعمال شدہ الیکٹرانک سازوسامان‘ گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات اور منشیات کی اسمگلنگ بذریعہ پبلک ٹرانسپورٹ ہونے میں تعجب و حیرت کا اظہار کیسا!؟
۔
Provincial (KP) Motor Vehicle Ordinance 1965 need an overview
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-11-23

Sunday, November 19, 2017

TRANSLATION: President Mugabe by Dr. Farrukh Saleem

President Mugabe
موگابے: ایک شخصیت‘ ایک کردار!
زمبابوے کے وزیراعظم (1980ء سے 1987ء) اور اُس کے بعد عرصہ 30برس تک جنوبی افریقائی ملک کے صدر رہنے والے رابرٹ موگابے (Robert Mugabe) ملک کے زوال کا سبب رہے۔ 1997ء میں زمبابوے اقتصادی طور پر براعظم افریقہ کے اُن ممالک کی فہرست میں شامل تھا‘ جن کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی لیکن پھر یہی ملک اقتصادی طور پر کمزور ہوتا چلا گیا جس کی بنیادی وجہ صدر موگابے تھے جن سے منسوب ہے کہ کسی ملک کی تباہی وبربادی کیسے کی جاتی ہے‘ یہ جاننے کے لئے صدر موگابے کے اقدامات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

کسی ملک کا قتل کیسے کیا جاتا ہے؟ پہلا عمل: اُس ملک کی پیداوار کو ختم کردیا جائے اور اُس کا انحصار درآمدات پر منتقل کردیا جائے۔ اس تناظر میں اگر ہم زمبابوے سے 6 ہزار 957کلومیٹر دور پاکستان کا جائزہ لیں تو سال 2005ء میں پاکستان کا پیداواری شعبہ ملک کی مجموعی خام پیداوار کا 18.56فیصد تھا اور یہی تاریخ اعتبار سے پاکستانی پیداوار کی بلند ترین شرح بھی رہی لیکن سال 2006ء سے پیداوار کی کمی کا سلسلہ جاری رہا اور جب ہم 2017ء کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کی مجموعی خام پیداوار میں اندرون ملک پیداواری شعبے کی حصہ داری کم ہو کر 13.5 فیصد رہ گئی ہے۔

خطرے کی علامت: پاکستان کو صنعتی ترقی کی انتہاء تک نہیں لیجایا گیا حالانکہ اِس کی افرادی قوت سے بھرپور استفادہ ممکن ہے۔

کسی ملک کو کیسے قتل کیا جاسکتا ہے؟ دوسرا عمل: اُس سب سے متعلق قانون سازی کردی جائے جس کا حصول ناممکن ہو۔ زمبابوے کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں قوانین کی بھرمار ہے۔ اِس تناظر میں اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو دو اکتوبر کے روز پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے ایک قانون منظور کیا جس کا نام ’عام انتخابات اصلاحاتی بل 2017ء‘ ہے اور سینیٹ سے منظوری کے روز (دو اکتوبر) ہی کی تاریخ تبدیل ہونے سے پہلے فوری طور پر (راتوں رات) اِس بل پر صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی دستخط ثبت فرما کر اِسے رائج کردیا جس کانتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) نے جس شخص کو کوئی بھی سیاسی عہدہ رکھنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا وہ پاکستان کی سب سے بڑی اور ایک ایسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن گیا‘ جس کی وفاق اور صوبوں میں حکومت و نمائندگی موجود ہے۔

کسی ملک کو کیسے قتل کیا جاسکتا ہے؟ تیسرا عمل: نفرت عام کرنے سے بھی کسی ملک کا وجود ختم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم سے لے کر معاشرت تک انتہاء پسندی اور تشدد پر مبنی نصاب سے غیرمحتاط سیاسی و غیرسیاسی خیالات کا پرچار عام ہے۔ رائج نظام تعلیم جس میں پرائمری و سیکنڈری سطح شامل ہیں بالخصوص دانستہ طور پر اِس طرح مرتب کئے گئے ہیں کہ اِن سے متعصبانہ روئیے پروان چڑھیں۔ ہمارا نصاب تعلیم نفرتوں کی آبیاری کرتا ہے اور اُن انتہاء پسندوں کے نظریات کی حمایت کرتا ہے جو دنیا میں کہیں بھی خودکش حملوں اور انتہاء پسندی کے ذریعے اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں!

دہشت گردی سے متعلق اعدادوشمار اور تصورات پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ ’گلوبل ٹریرازم انڈکس‘ ترتیب دیتا ہے جس کے مرتب کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق سال 2011ء میں دنیا کے جو ممالک دہشت گردی کا شکار ہوئے اُن میں عراق‘ پاکستان‘ افغانستان‘ بھارت اور یمن شامل ہیں۔ پاکستان کے بارے میں اِس ادارے کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد واقعات میں ہلاک ہونیو الے افراد کی تعداد میں 12 فیصد کے تناسب سے نمایاں کمی آئی ہے اور سال 2006ء کے بعد سے دہشت گرد واقعات میں سب سے کم سالانہ اموات ہوئی ہیں جو کہ 956 ہیں۔

پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس ریٹ (کاروباری سرگرمیوں پر عائد محصولات کی شرح) 38فیصد ہے جو اگرچہ دنیا میں بلند ترین نہ بھی ہو لیکن یہ انتہائی بلند ضرور ہے۔ پاکستان میں رجسٹر ہونے والی کمپنیوں (پیداواری شعبے) کو مختلف اقسام کے 47 ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ ہانگ کانگ میں اِس شعبے پر عائد ٹیکسوں کی تعداد صرف تین ہے۔ پاکستان میں ٹیکس قواعد پر عمل درآمد کرنے میں اداروں کو سالانہ 311 گھنٹے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ لیگزمبرگ (Luxemburg) میں یہی کام (کم ٹیکسوں کی وجہ سے) صرف 55 گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔

10نومبر کے روز زمبابوے فوج کے جنرل چیونگا (Chiwenga) نے چین کے دارالحکومت بیجنگ کا دورہ کیا۔ 15نومبر کے روز زمبابوے میں فوج نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ’’دنیا نے پہلی مرتبہ حکومت کا تختہ الٹنے کا ایک ایسا واقعہ دیکھا ہے جو امریکہ کے سی آئی اے یا برطانیہ کے خفیہ ادارے ’ایم آئی سیکس‘ کی کارستانی نہیں بلکہ اِسے نہایت رازداری سے چین کی درپردہ حمایت سے ممکن بنایا گیا۔ یہ وہی چین ہے جو اکیسویں صدر میں ابھرتی ہوئی دنیا کی نئی عالمی طاقت ہے۔‘‘ اِس پوری کہانی کا اعزاز صدر موگابے کے نام ہے جن کے بیرون ملک اثاثوں کا حجم 1.5 (ڈیڑھ ارب) ڈالر بتایا جاتا ہے اور وہ دنیا کے ایسے پہلے صدر ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں جنہوں نے کسی ملک کی تباہی کا باقاعدہ نصاب (manual of national destruction) مرتب کردیا ہے! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, November 18, 2017

Nov 2017: Glossy picture of PUBLIC TRANSPORT not so glossy!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
چوری: سینہ زوری!
’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے دکھوں (مشکلات) میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صرف اُور صرف ’تھکی ہوئی مسافر گاڑیوں میں سوار عام آدمی (ہم عوام) کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے کہ اِنہی میں دہشت گردوں سے لیکر منشیات فروشوں اور غیرقانونی طور پر اشیاء کی نقل و حمل کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ 

مرغیوں کی طرح ڈبوں میں بند‘ کسی گاڑی کی گنجائش (seating capacity) سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنا ایک الگ سا معمول بن گیا ہے۔ بین الاضلائی راستوں (روٹس) پر پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی شکایات کو پانچ بنیادی درجات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1: ریجنل ٹرانسپورٹ اٹھارٹی کی جانب سے مقررہ کئے گئے (شرح) کرائے سے زیادہ وصولی کی جاتی ہے۔ 2: گاڑی کی ظاہری اور انجن کی حالت (fitness) لمبے سفر کے قابل نہ ہونے کے باوجود ایسی گاڑیوں کا استعمال عام ہو رہا ہے جو ’ماحول دوست‘ نہیں اور جن میں مسافروں کو دی جانے والی نشستیں نہ تو آرام دہ ہیں اور نہ ہی خواتین‘ بچوں اور ضعیف العمر افراد کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ 3: ڈیزل ایندھن کے تناسب سے مقررہ کرائے وصول کرنے والی گاڑیوں کو سستے ایندھن (سی این جی) سے چلانے کے باوجود بھی زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ ایسی ’سی این جی‘ گاڑیوں میں لمبی مسافت طے کرنے کے لئے ایک سے زیادہ گیس ٹینک نصب ہوتے ہیں۔ یوں مسافر کم یا زیادہ فاصلے کے سفر میں مستقل خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔ 4: پبلک ٹرانسپورٹرز مسافروں سے صرف زائد کرایہ ہی وصول نہیں کرتے بلکہ اُن کا رویہ اِنتہاء درجے کا مغرور اور ہتک آمیز بھی ہوتا ہے۔ مسافروں سے اُن کے دستی سامان کا الگ سے کرایہ وصول کرنا بھی ایک معمول ہے‘ جن پر بالخصوص تہواروں یا خصوصی ایام میں باقاعدگی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ 5: پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کے پاس چونکہ کوئی متبادل (option) ہی نہیں اِس لئے وہ ’نجی ٹرانسپورٹرز‘ کی کسی بھی ’جارحانہ اَدا (روئیوں)‘ کا (قطعی) بُرا نہیں مناتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ شکایت کریں گے تو کس سے اُور اگر انصاف چاہیں گے تو کون ہے جو عام آدمی (ہم عوام) کی فریاد جانب توجہ فرمائے۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ بین الاضلاعی و صوبائی روٹس پر ’’حاجی کیمپ‘ پشاور بس ٹرمینل‘ چارسدہ روڈ اور کوہاٹ روڈ جیسے بڑے ’بس اَڈوں‘ کے اصل حاکم کون ہیں؟ حکومتی اِدارے ’نجی ٹرانسپورٹرز‘ کے مفادات کا تحفظ کرنے میں فعال لیکن عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات اور درپیش مسائل کے بارے فکرمند کون ہے؟

خیبرپختونخوا کے کل ’’سات ڈویژنز (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈی آئی خان)‘‘ میں شامل تین اضلاع (چارسدہ‘ نوشہرہ اور پشاور) پر مشتمل ’’پشاور ڈویژن‘‘ سے مقامی اور بین الاضلاعی و بین الصوبائی روٹس پر چلنے والی مسافر گاڑیوں (پبلک ٹرانسپورٹ) کی کل تعداد ’’پندرہ سے سولہ ہزار‘‘ بتائی جاتی ہے (اس سلسلے میں درست اعدادوشمار کیوں موجود نہیں‘ یہ سوال اپنی جگہ لمحۂ فکریہ ہے)۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ کے مذکورہ نظام کو قواعد و ضوابط کا پابند رکھنے کے لئے پشاور میں ’’23 چھوٹے بڑے اَڈے‘‘ بنائے گئے ہیں جن میں سے صرف ایک (پشاور بس ٹرمینل) ’ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسپورٹ‘ جبکہ باقی ماندہ کا نظم و نسق اور جملہ انتظامات (مینجمنٹ) ہر ضلع کی طرح پشاور کی ’مقامی (بلدیاتی) حکومت‘ کے پاس ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے بظاہر سیدھے سادے لیکن اِس ’پیچیدہ نظام‘ کا ایک اُور اعلیٰ و بالا نگران ادارہ ’ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ ہے جس کے مذکورہ سات ڈویژنز میں الگ الگ دفاتر ہیں اُور اِنہیں ’’ریجنل ٹرانسپورٹ اٹھارٹیز (آر ٹی اے)‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’آرٹی اے‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے راستوں (روٹس) کے انتخاب‘ اِن راستوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے اجازت ناموں (روٹس پرمٹ) کے اجرأ‘ اُور فی مسافر (فی نشست) شرح کرائے کا تعین کرتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کسی بھی گاڑی کو ’روٹ پرمٹ‘ جاری کرنے کے لئے بنیادی طور پر ’چار روٹس‘ بھی تشکیل دیئے گئے ہیں جن کی درجہ بندی انگریزی حروف تہجی ’اے‘ بی اُور سی‘ سے کرتے ہوئے ’اے‘ نامی ’’روٹ پرمٹ‘‘ اُن گاڑیوں کو دیئے جاتے ہیں جن کی رجسٹریشن کی تاریخ 9 سال تک ہو۔ ’بی‘ نامی روٹ پرمٹ 11 سال تک کی رجسٹریشن رکھنے والی گاڑیوں جبکہ ’سی‘ نامی کٹیگری کے لئے ’عمر کی کوئی قید نہیں‘ بس گاڑی کا فٹ (fit) ہونا ضروری ہے اور یہ روٹ پرمٹ عموماً دیہی علاقوں کے درمیان چلنے والی گاڑیوں کو جاری کئے جاتے ہیں! 

’آر ٹی اے‘ افرادی قوت اور مالی وسائل نہیں رکھتی اُور اُسے زیادہ کرائے وصول کرنے اور گنجائش سے زیادہ مسافروں جیسی شکایت سے نمٹنے کے لئے ٹریفک پولیس کے تعاون ضرورت پڑتی ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی ایک بھی ایسا محکمہ نہیں کہ جسے ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے مسائل کے لئے ذمہ دار (قصوروار) قرار دیا جائے! جس سے بات کرو‘ وہ خود کو ’’بری الذمہ‘‘ قرار دیتا ہے! 

پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شکایات کے بارے میں ’ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی پشاور‘ کے ذمہ دار (سیکرٹری محمد ندیم اختر) کہتے ہیں کہ ’’اُن کے پاس قانون و قواعد کے اطلاق کے لئے درکار افرادی قوت اور مالی وسائل کی کمی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے ناموں کی جانچ پڑتال کے لئے تین افراد پر مشتمل ٹیم دفتری اوقات مخصوص ہے جس کی 23 مقامات پر بیک وقت موجودگی ممکن نہیں۔ ’آر ٹی اَے‘ حکام ’ٹریفک پولیس‘ کے محتاج رہتے ہیں‘ جن کی افرادی قوت کے ساتھ مل کر گشتی ٹیمیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ (اِکا دُکا) گاڑیوں کو روک کر مسافروں سے استفسار کیا جاتا ہے اور زائد کرایہ وصول کرنے والے ڈرائیوروں کو جرمانہ کرنے کے علاؤہ اضافی کرایہ واپس دلایا جاتا ہے۔‘‘ 

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن بس اڈوں میں کھلے عام اضافی کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور جہاں سے ’لوڈ‘ ہو کر گاڑیاں نکلتی ہیں وہاں ’آرٹی اے‘ حکام کی موجودگی دکھائی نہیں دیتی‘ حالانکہ سڑکوں کی خاک چھان کی بجائے کرائے ناموں پر حسب شرح کا اطلاق اور عملاً قواعد پر باآسانی عمل درآمد بس ٹرمینلز میں ممکن ہے! یہ امر قطعی تعجب خیز نہیں ہوگا کہ پشاور سمیت ہر ضلع میں ’آر ٹی اے‘ اہلکار اور نجی ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت سے عام آدمی (ہم عوام) کو لوٹنے کا سلسلہ تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں بھی پوری ’سینہ زوری‘ سے جاری ہے۔ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سے درخواست ہے کہ وہ مقامی‘ بین الاضلاعی اور بین الصوبائی روٹس پر ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے متعلقہ عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل و مشکلات جاننے کے لئے ’ہیلپ لائن‘ قائم کریں‘ جس میں فون کال‘ واٹس ایپ اُور ٹوئٹر کے ذریعے شکایت درج کرنے کی سہولت ہونی چاہئے۔ فوری طور پر ’بس ٹرمینلز‘ میں کمپیوٹرائزڈ ٹکٹوں کے اجرأ (ٹکٹ گھروں کے قیام) کا حکم دیں اور ہر روٹ پر مسافر گاڑیوں کی فرنٹ سکرین پر ایسے اسٹکرز چسپاں کروائیں جن میں گاڑی کی کٹیگری‘ روٹ کی نشاندہی‘ فی نشست کرایہ اور زیادہ سے زیادہ مسافروں کی تعداد (حسب گنجائش) جیسی تفصیلات (معلومات) درج ہو۔
۔
Issues regarding Public Transport on inter-district & inter-provincial routes
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-18

Thursday, November 16, 2017

Nov 2017: The count of negative impacts on (Free & Fair) Elections!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عام اِنتخابات: قومی ذمہ داری!
پاکستانی سیاست کا یہ پہلو فہم سے بالاتر ہے کہ قومی امور پر ’اتفاق رائے‘ نہ ہونے کے باوجود بھی مختلف النظریات سیاسی جماعتیں ’’اچانک‘‘ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے متحد ہو سکتی ہیں۔ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو یا صداقت و امانت کے اصولوں پر پورا نہ اُترنے والوں کو سیاسی جماعتوں کی سربراہی کے لئے اہل قرار دینے سے لیکر ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی جیسا انتہائی سنگین‘ متنازعہ و حساس معاملہ‘ آئین سازی اور آئینی ترامیم کرتے ہوئے ’غیرمعمولی جلدبازی‘ سے کام لیا جاتا ہے جس میں قوم کے جذبات و احساسات اور رائے عامہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُبھرنے والے کسی عمومی تاثر کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ 

عام آدمی (ہم عوام) کو ہر گھڑی ’’سرپرائز‘‘ دینے والے قانون سازوں کے کھانے اُور دکھانے کے ’دانت الگ الگ‘ ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ ہر دن سیاست ’ناممکنات‘ میں ’اِمکانات‘ اُور اختلافات کی تہہ میں ’اتفاق‘ کے پہلو تلاش کر رہی ہے۔ 

آئندہ برس (دوہزار اٹھارہ) کے پہلے چھ ماہ موجودہ قانون ساز اسمبلیاں اپنی وہ آئینی مدت پورا کریں گی جس کے اختتام یا قبل از وقت عام انتخابات کے چرچے عام ہیں‘ اِس سلسلے میں کس حد تک تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں؟‘ اِس بارے میں جب قانونی موشگافیوں سے آگاہ‘ روزنامہ ڈان کے رپورٹر وسیم اَحمد خان نے بنیادی سوال ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے ترجمان ’ہارون خان شینواری‘ سے پوچھا تو اِس کا جواب قومی مفاد میں طویل ہوسکتا تھا‘ جس میں قانون ساز ایوانوں کی کارکردگی پر تنقید سامنے آتی لیکن احتیاط سے کام لیتے ہوئے ترجمان نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے‘ جو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔‘‘ پندرہ نومبر کو ’پرل کانٹیننٹل ہوٹل پشاور کے ’زیور ہال (Zaver Hall)‘ میں ایک روزہ ’میڈیا ورکشاپ‘ کا انعقاد خوش آئند تھا‘ جس میں عام انتخابات کے حوالے سے نئے قانون اور انتخابی تیاریوں (حکمت عملی) کے بارے میں تکنیکی امور سے متعلق پانچ مقررین (ایڈیشنل سیکرٹری ظفراقبال حسین‘ ڈائریکٹر جنرل الیکشنز محمد یوسف خٹک‘ ڈائریکٹر آئی ٹی بابر ملک‘ ڈائریکٹر ’آئی ایم ایس‘ حیدر علی اُور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل جینڈر محترمہ نگہت صادق) نے سیرحاصل معلومات کا ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے تبادلہ کیا تاہم اگر ڈیڑھ سو منٹ دورانیئے کی ایک ہی مسلسل نشست کو کم سے کم تین حصوں (سیشنز) میں تقسیم کرتے ہوئے ’’آئینی‘ تکنیکی و خصوصی امور‘‘ کے حوالے سے موضوعات کا الگ الگ احاطہ کیا جاتا تو یہ عمل (کوشش) زیادہ مفید ثابت ہو سکتی تھی۔ 

الیکشن کمیشن اِس قسم کی ’میڈیا ورکشاپوں‘ کا انعقاد چاروں صوبائی اور وفاقی دارالحکومت میں کر رہا ہے اور اِس سلسلے میں اب تک اسلام آباد و لاہور کے بعد تیسری ورکشاپ پشاور میں منعقد ہوئی جبکہ ’بائیس نومبر‘ کراچی اور ’چودہ دسمبر‘ کوئٹہ میں ’ذرائع ابلاغ‘ کے چنیدہ نمائندوں کو مدعو کیا جائے گا تو اِس تربیتی و معلوماتی کوشش (میڈیا ورکشاپ) کے لئے کتابی شکل میں ’مینول (manual)‘ ازبس ضروری (لازمی) تھا‘ جس میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی اپنی اپنی ’پریزینٹیشنز‘ سے متعلق (اُردو اور انگریزی زبانوں میں) مقالہ جات شامل ہوتے۔ اِسی طرح دو اکتوبر دوہزار سترہ سے رائج‘ الیکشن کے متعلقہ قانون (الیکشن ایکٹ 2017ء) کے 130 صفحات کے اُردو ترجمہ کا اہتمام بھی اگر کر دیا جاتا تو اِس سے قومی و علاقائی سطح پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی انتخابی قواعدوضوابط کے بارے سمجھ بوجھ میں زیادہ اضافہ ہوتا۔ بہرحال اِس تاخیر کا ازالہ ممکن ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کی ’میڈیا ورکشاپوں‘ سے قبل یا بعدازاں اِن نشستوں سے متعلق جامع رپورٹ تیار کر کے انہیں ’ہارڈ یا سافٹ کاپیز‘ کی صورت ورکشاپ کے شرکاء میں تقسیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ یکے بعد دیگرے الگ الگ موضوعات کا تیزی سے احاطہ اور سوال و جواب کو ظہرانے سے قبل جلدی جلدی سمیٹنے کی کوشش میں سب سے اہم حصے (تبادلۂ خیال اُور سوال و جواب) کو صرف ’تیس منٹ‘ تک محدود کرنے سے تشنگی کا احساس بہرحال برقرار رہا!

الیکشن کمیشن ’قانون سازی‘ کی حد تک تو ’بے بس (معذور)‘ ہے لیکن وہ اپنے طور (آئندہ) عام انتخابات کے آزادانہ اُور شفاف انعقاد کو ممکن بنانے کے لئے ایسی ’قواعد سازی‘ کرنے میں ’مکمل بااختیار‘ بنا دیا گیا ہے‘ جس سے انتخابی عمل زیادہ بامعنی (بامقصد) نتائج کا حامل ہو۔ 

نئے قانون (الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ) کے تحت انتخابی فہرستوں میں ووٹرز بالخصوص خواتین کی تصاویر شامل کرنے اُور اِن کی محدود اشاعت کی بجائے ہر سیاسی جماعت‘ انتخابی اُمیدوار یا طلب کرنے والے کو فراہم کرنے کے یقیناًمنفی نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ بات صرف قبائلی علاقہ جات‘ خیبرپختونخوا اُور بلوچستان کی حد تک محدود نہیں جہاں پہلے ہی مستورات کو گھروں تک محدود رکھا جاتا ہے اور جہاں کی اکثریت سماجی و ثقافتی یا قبائلی و خاندانی دباؤ کے تحت حق رائے دہی سے محروم ہے تو جب باپردہ خواتین کی ’’بے حجاب تصاویر‘‘ ووٹر لسٹوں میں گردش کریں گی تو عین ممکن ہے کہ ’روشن خیال و تعلیم یافتہ‘ سمجھے جانے والے معاشروں میں بھی اِس بات کو معیوب سمجھتے ہوئے بہت سے خاندان اپنے ناموں کو انتخابی فہرستوں سے منہا (delete) کروا دیں۔ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی قومی شرح اگر اوسطاً چالیس فیصد سے کم ہے تو اِس میں اضافے کی بجائے غیرمعمولی کمی سے انتخابی عمل کی معنویت و مقصدیت پر حرف آئے گا اُور اِس سلسلے میں ’الیکشن کمیشن‘ کو برسرزمین حقائق ’سیاسی فیصلہ سازوں‘ کے سامنے نہ صرف پیش (گوش گزار) کرنے چاہیءں بلکہ سیاسی مخالفت برائے مخالفت کے تناؤ بھرے ماحول میں مختلف وسائل بالخصوص ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے قانون سازوں کو اِس بات پر قائل کرنا چاہئے کہ وہ خواتین کی ووٹر فہرستوں میں تصاویر کی اشاعت اور ان کی فراہمی (عام تشہیر) کے اپنے مؤقف سے رجوع کرتے ہوئے کوئی درمیانی راستہ اختیار کریں۔ 

نئی قانون سازی کی رو سے جس کی کسی انتخابی حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کا شمار 10فیصد سے کم ہوگا‘ وہاں پولنگ کا عمل دوبارہ ہوگا لیکن کیا ’وی وی آئی پیز‘ قانون سازوں کے سامنے یہ زمینی حقائق بھی پیش کئے گئے کہ ملک کی ’ساٹھ فیصد‘ سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے ’دو وقت کی روٹی‘ کا حصول ایک روزہ انتخابی عمل سے زیادہ بڑی ترجیح ہے اور جس معاشرے میں شرح خواندگی اِس لئے متاثر ہو رہی ہو کہ وہاں تعلیمی اداروں کا فاصلہ آبادی کے مراکز سے دور ہے تو وہاں کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے کہ عام لوگ (ہم عوام) جوق در جوق‘ گھنٹوں پیدل سفر کے بعد (دور دراز) پولنگ اسٹیشنوں تک ہمراہ خواتین پہنچیں گے!؟ 

قانون کے تحت انتخابی اُمیدواروں کے لئے ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر پابندی عائد ہے‘ انتخابی مہم پر زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد بھی مقرر کر دی گئی ہے اور جو خواتین اپنا چہرہ عیاں نہیں کرنا چاہتیں اُن کی تصاویر بھی مشتہر کر دی گئیں ہیں تو کیا اِس کا منفی ردعمل سامنے نہیں آئے گا؟ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے (حصہ لینے والوں) کی کم ہوتی شرح (پولنگ) فیصلہ سازوں کے لئے پریشانی کا باعث ہی نہیں۔ ووٹ بذریعہ پرچی ہو یا بائیومیٹرک تصدیق کے بعد الیکٹرانک وسائل سے‘ بہرصورت ہر ووٹر کو انتخابی عمل میں شامل کرنا اوّلین ترجیح ہونی چاہئے اور معروضی حالات‘ سماج و روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’انتخابی قوانین و قواعد‘ کے بارے میں قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا بھی الیکشن کمیشن ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ الیکشن کمیشن حکام خود کو ’بے بس‘ سمجھنے کی بجائے‘ قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے جرأت مندی سے‘ ڈٹ کر اور ’باآواز بلند‘ اُن قانونی و آئینی غلطیوں (سقم) کی نشاندہی کریں‘ جن کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہونے کے واضح آثار ہیں۔
۔

Wednesday, November 15, 2017

Nov 2017: Medical Management & Governance in KP exposed

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
’بے حسی‘ بمقابلہ ’بے بسی‘
پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال میں تین ماہ تک تعینات رہنے والے جعلی ڈاکٹر کا معاملہ نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں کے لئے ’دردسر‘ بنا ہوا ہے‘ جو الگ الگ مطالبہ کر چکے ہیں کہ مذکورہ سرکاری علاج گاہ سمیت خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں علاج معالجہ یا اِس سے متعلق مشاورت اُور فیصلہ سازی کرنے والوں کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے لیکن آخر یہ کام (کارِدارد) کون کرے گا؟ جن فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھاری تنخواہوں اور مراعات کے عوض ڈاکٹروں کی تعیناتیاں (خدمات سے استفادہ) اور ہسپتالوں کے دیگر انتظامی امور طے کریں‘ وہی اگر مطالبہ کر رہے ہیں توکس سے!؟ کیا یہ ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ سرکاری ہسپتالوں کے مالیاتی (فنانشیل) امور اُور کارکردگی (پرفارمنس) کا الگ الگ جائزہ (آڈٹ) کریں؟ عوام ہی متاثرین بھی ہیں‘ قصوروار اور ذمہ دار بھی کہ وہ معالجین اور معاون طبی و غیر طبی عملے کی تعلیمی و دیگر اسناد کا جائزہ لیں؟؟

’جعلی ڈاکٹر‘ کا انکشاف اور اِس سے متعلق عوامی حلقوں میں تشویش کا آغاز ’بیس اکتوبر‘ کے روز اُس وقت ہوا‘ جب ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ ہسپتال پشاور کی انتظامیہ نے پولیس میں رپورٹ (ایف آئی آر) کرائی کہ ’قدرت اللہ شاہ سکنہ بنوں‘ نامی ایک شخص ’جعلی ڈاکٹر‘ کے طور پر تعینات رہا ہے لیکن ابتدائی تفتیشی رپورٹ (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ‘ ایف آئی آر) درج ہونے کے فوراً بعد بھی پولیس مذکورہ جعل ساز کو گرفتار نہیں کر سکی جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پولیس کی نظر میں قدرت اللہ شاہ واحد ایسا ڈاکٹر نہیں جس نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں اُور تعیناتیوں کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں‘ کمزوریوں یا خرابیوں (سقم) کا فائدہ اُٹھایا ہے۔ جب تک ڈاکٹروں سمیت ہر سرکاری ملازم کے کوائف اور اسناد کی جانچ نہیں ہو جاتی‘ اُس وقت یہ بات وثوق (دعوے) سے نہیں کہی جا سکے گی کہ ’قدرت اللہ شاہ‘ ہی ایسا واحد ’قومی مجرم‘ ہے جو سرکاری وسائل لوٹتا رہا‘ جو انسانی جانوں سے کھیلتا رہا اُور یہ کھیل کسی دُور دراز ضلع (دیہی علاقے) میں نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے پشاور میں عرصہ تین ماہ تک جاری رہا! کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ عرصہ تین ماہ نہیں بلکہ دو سال سے اعلیٰ عہدے پر تعینات رہا۔

معمہ تاحال حل نہیں ہو سکا کہ ’قدرت اللہ شاہ‘ کون تھا‘ کیا تھا اور اُسے زمین نگل گئی یا آسمان؟ اِس سلسلے میں ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ کے ڈاکٹر شہزاد اکبر کا بیان ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ ۔۔۔ ’’بطور مبصر (آبزرور)‘ زیرتربیت میڈیکل ڈاکٹر (ٹرینی میڈیکل آفیسر ٹی ایم اُو) مذکورہ جعل ساز کی تعیناتی ’ہسپتال میں ڈاکٹروں کو علاج معالجے کی نجی سہولیات فراہم کرنے کی حکمت عملی ’’ہسپیٹل بیسڈ کلینک‘‘ پروگرام کے تحت ہوئی اور اُس کی تعیناتی متعلقہ شعبے (فیکلٹی) کے نگران ’ڈاکٹر نور وزیر‘ نے کی تھی۔‘‘ وہ ایک جعلی ڈاکٹر تھا‘ جسے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے وسائل استعمال کرنے کی اجازت دینے سے قبل خاطرخواہ تحقیق سے کام نہ لینے والے نگران (ڈاکٹر وزیر) بھی یکساں ’شریک جرم‘ ہیں بلکہ ڈاکٹر وزیر کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے والے محکمۂ صحت خیبرپختونخوا کے فیصلہ سازوں کو بھی سزا ملنی چاہئے کہ جنہوں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اُور ہسپتال کے معاملات کو اِس حد تک ’فرد واحد‘ کے سپرد کئے رکھا تھا کہ وہ سیاہ و سفید کا مالک بن کر جو چاہے کرتا رہا لیکن اُس کی جعل سازی‘ نااہلی اور کام چوری پر گرفت نہ کی جاسکی! خرابی نظام کی ہے‘ جس میں شخصیات بااختیار ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تبدیلی لانے کی دعویدار صوبائی حکومت کے دامن پر لگنے والا یہ داغ (قدرت اللہ شاہ) قطعی معمولی نہیں جس نے محکمۂ صحت کے پورے انتظامی ڈھانچے پر کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں! کون سا حکومتی اہلکار کس عہدے کے لئے اہل ہے‘ اِس کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے لیکن یہ تحقیق (بات) صرف نچلے درجے کے ملازمین سے نہیں بلکہ وزیر‘ سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے دفاتر سے شروع ہونی چاہئے اور اگرچہ (جعل ساز) ’قدرت اللہ شاہ‘ کے بارے میں سبھی حقائق سامنے نہیں آئے لیکن گندگی کو قالین کے نیچے چھپانے (رازداری سے معاملہ کرنے) کی بجائے صوبائی حکومت عوام شفافیت (سنجیدگی) سے کام لے کیونکہ یہ معاملہ قطعی طور پر سطحی نہیں۔ 

ایک غلطی کا ازالہ دوسری غلطی نہیں ہو سکتی!

قدرت اللہ شاہ (جعلی ڈاکٹر) کے منظرعام پر آنے کا واقعہ بھی کافی دلچسپ اور اتفاقی امر ہے۔ 17 اکتوبر (دوہزارسترہ) کے روز حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال (پشاور) کے ’شعبۂ امراض قلب‘ میں بطور تربیتی رجسٹرار کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے ہسپتال کے میڈیکل وارڈ کا دورہ کیا جہاں اُن کے کسی عزیز کو علاج معالجے کے لئے لایا گیا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے مریض کی حالت اور بیماری کے بارے میں تبادلۂ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر کو شک ہوا کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔ اِس بات کی تحریری اطلاع ہسپتال انتظامیہ کو بطور شکایت دی گئی‘ جس کے بعد حسب روایت معاملہ رفع دفع کرنے کے لئے ’تین رکنی‘ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی تاہم معاملہ ’ینگ ڈاکٹروں‘ کے ہتھے چڑھ گیا‘ جو بقول صوبائی حکومت سیاسی عزائم رکھتے ہیں! جعلی ڈاکٹر معاملے کی چھان بین کے دوران مزید حیران کن تفصیلات منظرعام پر آتی چلی گئیں۔ 

تحقیقاتی کمیٹی کو ’تین بنیادی‘ کام کرنا تھے۔ 1: قدرت اللہ شاہ کو کس نے تعینات (بھرتی) کیا؟ 2: اگر وہ بطور ’ٹرینی میڈیکل آفیسر‘ تعینات تھا تو کیا اِس عرصے میں اُس نے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مالی مراعات بھی لیں؟ اُور 3: کیا وہ اپنی تعیناتی کے دوران مریضوں کا علاج معالجہ بھی کرتا رہا؟ ’’میڈیکل اے یونٹ‘‘ کے نگران ڈاکٹر نور وزیر کہ جنہوں نے جعل ساز کو تعینات کیا‘ کو اُن کے عہدے سے الگ نہیں کیا گیا جنہوں نے اپنی بے گناہی (معصومیت) کا یقین دلاتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ ’’چند ماہ قبل دو ڈاکٹر اُن کے پاس آئے‘ جن میں سے ایک ’ہاؤس جاب‘ کے لئے درخواست گزار تھا اور ایسا عموماً و معمول کے مطابق ہوتا ہے‘ جس پر اُنہوں نے بیک وقت آنے والے دونوں ڈاکٹروں کو اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تعینات کر دیا‘ جن میں سے ایک اپنی ’ہاؤس جاب‘ مکمل کرنے کے بعد چلا گیا لیکن جعل ساز (قدرت اللہ شاہ) مقیم رہا۔‘‘ حقیقت حال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں صرف مریضوں ہی کا ہجوم نہیں رہتا بلکہ یہاں فی مریض مطلوبہ تعداد سے کم ڈاکٹروں کی وجہ سے ہر وقت ’ہنگامی حالت‘ نافذ رہتی ہے۔ ہلاگلہ کے ماحول میں اگر کسی جعل ساز نے ہسپتال کے انتظامی معاملات میں خامیوں کا فائدہ اُٹھایا تو اُن امور کی اصلاح (سدباب) بھی ضروری ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ سینیئر و جونیئر ڈاکٹر ہوں یا ہسپتال کے امور اور محکمۂ صحت کی انتظامیہ سبھی فیصلہ ساز ایک دوسرے کی کارکردگی پر نہ تو اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی اِن کی نظر میں کلیدی و عمومی عہدوں پر ’’اہل‘‘ افراد تعینات ہیں! 

دوہزار پندرہ میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے جعلی ڈاکٹر (قدرت اللہ شاہ) کے بارے میں یہ بھی انکشاف اپنی جگہ ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ اُس کی کم سے کم تین ماہ تعیناتی اور سرکاری وسائل و رہائش گاہ سے استفادہ ایک سینیئر ڈاکٹر کی پشت پناہی سے ممکن ہوئی۔ یہ امر بھی تشویش کا باعث ہے کہ بطور ’’سینیئر‘ ٹی ایم اُو‘‘ تعینات رہنے والا جعلی ڈاکٹر (قدرت اللہ شاہ) خواتین ڈاکٹروں کو ہراساں بھی کرتا رہا اُور نجانے کتنے ہی ’قدرت اللہ شاہ‘ (جعلی ڈاکٹر) اب بھی عام آدمی (ہم عوام) کی جانوں سے کھیلنے اور سرکاری وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہوں گے! 

شاید یہی وجہ ہے کہ صحت کا نظام پر اعتماد اُور اِسے درست (اصلاح) کرنے کی بجائے (بے حس) سیاست دان اِس بات کو زیادہ آسان (موزوں) سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اور عزیزواقارب کے علاج معالجے کے لئے بیرون ملک سہولیات سے استفادہ کریں۔ مسئلہ تو (بے بس) عام آدمی (ہم عوام) کا ہے جس کی جان و مال کو لاحق خطرات کا شمار ممکن نہیں۔ آخر اِس ملک کا عام آدمی (بیچارہ) کرے تو کیا کرے اُور جائے تو جائے کہاں؟
۔

Nov 2017: Remembering Habib ur Rehman (1940-2107)

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نایاب ہستیاں: حبیب الرحمان!
صدمے کا بیان ممکن نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ذمہ دار‘ باکردار اور صحافتی اقدار کو اک نئی شناخت (عروج) سے روشناس کرنے والے (حافظ) حبیب الرحمن ’تیرہ نومبر‘ کے روز خالق حقیقی سے جا ملے جنہیں ’چودہ نومبر‘ کی سہ پہر روالپنڈی میں اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں ’سپردخاک‘ کر دیا گیا۔ (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔

حبیب الرحمان اپنی ذات میں درسگاہ تھے۔ اُنہوں نے ’پشاور‘ سے محبت کی اور اپنا سب لٹا کر کچھ اِس طرح چلتے بنے کہ جس طرح اُن کی آمد غیرمحسوس رہی لیکن وہ پشاور کی ناگزیر ضرورت بن گئے بالکل اُسی طرح نہایت ہی خاموشی (عجز و انکساری) سے رخصت ہوئے جبکہ پشاور کا ہر صحافی اُن کی خدمات کا معترف اور گواہ ہے کہ وہ کامیاب و کامران رہے۔ 

تصور کیجئے ایک ایسے شہر کا‘ جہاں کے ’جامعہ پشاور‘میں شعبۂ صحافت (جرنلزم ڈیپارٹمنٹ) کا آغاز 1985ء میں ہوتا ہے لیکن اُس سے ٹھیک بیس برس قبل ایک شخص نہ صرف صحافت کی آبیاری کرتا ہے بلکہ صحافیوں کی بے لوث‘ عملی تربیت کا اپنے علم (نالج) اور کردار (کریکٹر) جیسی صلاحیتوں سے کرتا ہے۔ حبیب صاحب کی خواہش رہی کہ پشاور سے انگریزی زبان کا ایک معیاری روزنامہ شائع ہو سکے۔ ان کی عملاً زیرادارت پشاور کو ایک خصوصی روزنامہ بھی ملا‘ جس کی اہمیت و ضرورت آج بھی محسوس ہو رہی ہے۔

حبیب صاحب غیرمنقسم ہندوستان کے شہر ’انبالا‘ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ جس کا عکس اُن کی شخصیت سے تمام زندگی چھلکتا رہا۔ اُنہیں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ہی ادبی سرگرمیوں سے لگاؤ پیدا ہوا ‘ جس میں بالخصوص خطے کی سیاسی صورتحال اور احوال جاننے کے لئے اخبار بینی شامل تھی۔ آپ سات برس کی عمر میں (’تقسیم ہند‘ کے بعد) اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت اختیار کرنے کے بعد روال پنڈی پہنچے۔ وہیں میٹرک سے ایم اے (اردو) تک تدریسی درجات طے کرنے کے بعد عملی زندگی کے لئے صحافت کا انتخاب کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اُنہیں اگر زندگی بھر کسی ایک بات کا افسوس رہا تو وہ نجی زندگی کا ایک ایسا تلخ تجربہ تھا‘ جو اگر حسب توقع کامیاب ہو جاتا تو پاکستان بالخصوص پشاور میں اُردو صحافت کا معیار زیادہ بہتر ہوتا۔ حبیب صاحب نے روالپنڈی سے عملی صحافت کا آغاز کیا‘ اور اگست اُنیس سو پینسٹھ میں ’’روزنامہ انجام پشاور‘‘ سے وابستہ ہوئے۔ یکم اگست 1967ء کو روزنامہ انجام تحلیل ہونے کے بعد آپ ’روزنامہ مشرق‘ کا حصہ بن گئے‘ جہاں 1971ء میں نیوز ایڈیٹر بعدازاں 1989ء میں چیف نیوزایڈیٹر بنے۔ جو ’نیشنل پریس ٹرسٹ‘ کا اخبار تھا تاہم ہر دور کی طرح اُس وقت بھی منافع بخش قومی اداروں اور قومی وسائل پر سیاسی فیصلہ سازوں کی نظریں رہتی تھیں۔ حبیب صاحب نے اخبار بدلا لیکن مقصد و جدوجہد نہیں۔ 1998ء سے 2001ء تک آپ نے روزنامہ میدان کے چیف نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کیا۔ سال 2002ء میں ’روزنامہ آج پشاور‘ سے وابستہ ہوئے اور یہ تعلق تادم آخر سترہ برس تک رہا۔ ایک ’گمنام سپاہی‘ کی طرح آپ اُس ہراول دستے کے قائد رہے جس نے صوبائی اور قومی سطح معاشرے کے ہر محروم طبقے کے لئے آواز اٹھائی۔ آپ پشاور پریس کلب اور خیبریونین آف جرنلسٹس کا حصہ رہے اور اپنی تمام صلاحیتیں ’ذمہ دار اور باوقارصحافت‘ کی ترویج و اشاعت کے لئے بروئے کار لانے میں کبھی بھی مصلحتوں کا شکار (غافل) نہیں پائے گئے۔ آپ نے ہمیشہ اعلیٰ صحافتی اقدار کی نہ صرف تلقین (تعلیم) دی بلکہ عمل سے ثابت بھی کیا کہ ’حق کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔‘ 

دنیا معترف ہے کہ حبیب صاحب نے ذاتی مفادات کو صحافت اور صحافت کو ذاتی مفادات کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔آپ نے ہمیشہ غریبوں‘ مظلوموں‘ کسانوں‘ کاشتکاروں اور پاکستان میں جمہوریت کی بقاء اور ترقی کے لئے جدوجہد کرنے والی تحریکوں کے شانہ بشانہ اپنے قلم اور صحافتی علوم کے بہترین استعمال سے جہاد (جدوجہد) کی۔

خیبرپختونخوا‘ اور بالخصوص پشاور کی صحافتی برادری مرحوم و مغفور جناب حبیب الرحمن صاحب کے انتقال پر سوگوار‘ مغموم اور اگر صدمے کی کیفیت سے گزر رہی ہے تو یہ اُن کی شخصیت کے لئے خراج عقیدت بھی ہے جس کے سامنے حکومتی اعزازات کی کوئی وقعت نہیں۔ حبیب صاحب نے صحافت کو نہ صرف اپنے بچوں کی طرح پورے خلوص سے پروان چڑھایا بلکہ اُنہوں نے تمام زندگی اِس کی تعلیم و تربیت کا بھی بطورخاص اہتمام رکھا اُور یہی وجہ ہے کہ آج اُن کے شاگردوں کی ایک تعداد عملی صحافت (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) سے وابستہ ہونے کے ساتھ درس و تدریس کے شعبے میں بھی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ وہ موقع پرست (حادثاتی) صحافی نہیں بلکہ ’فطری اور فکری تحریک‘ کے تحت اُس پیغمبرانہ پیشے (امربالمعروف و نہی عن المنکر) سے وابستہ ہوئے جس کی اصطلاح آسمانی صحفیوں سے ماخوذ ہے۔ 

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خطۂ پشاور میں اُردو صحافت میں زبان اور اِس کی مزاج شناسی کی روایت کا آغاز حبیب صاحب سے ہوا‘ تو غلط نہیں ہوگا۔ انہوں نے کبھی بھی صحافتی اصولوں پر ’سودے بازی‘ نہیں کی اور کامیاب رہے۔ یہی اُن کا طرۂ امتیاز رہا اُور اُن کی تربیت سے فیض یاب بطور طالب علم گواہی دیتا ہوں کہ وہ انتہاء درجے کے نفیس‘ بااخلاق اور صوم و صلوۃ کے پابند رہے۔ اُنہوں نے نماز قائم کی اور صحافت کو ملازمت کا ذریعہ نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔ اے کاش پشاور نے حبیب صاحب کی قدردانی کی ہوتی تو جس لمحے اَبرآلود آسمان تلے ’جامعہ پشاور‘ کے ہاکی گراؤنڈ سے اُن کا جسد خاکی اُٹھایا جا رہا تھا تو کندھا دینے والوں میں اکثریت صحافیوں کی ہوتی لیکن جن ’پتھروں کو تراشنے اور دھڑکنیں دینے‘ میں اُنہوں نے اپنی پوری زندگی بسر کر دی‘ اُنہیں کی بڑی تعداد کو اتنی فرصت بھی ملی کہ حبیب صاحب کو پشاور سے الوداع کرنے کی زحمت کرتے! 

حبیب صاحب کی خاطرخواہ قدردانی کی گئی ہوتی تو پشاور کے صحافی اصرار کر کے اُنہیں ’پشاور پریس کلب‘ ہی میں سپردخاک کرتے کہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے آنے والے نے اگر شعوری طور پر ’’پشاور کا انتخاب‘‘ کیا تھااور اپنی زندگی کے پچاس برس (اگست 1965ء سے نومبر 2017ء) بطور معلم پشاور کو دیئے تھے تو کم سے کم اتنا حق تو بنتا تھا کہ انہیں چندگز زمین ہی نذر کی جاتی۔حسب حال قدردانی ہوتی‘ تو حبیب صاحب کی ’نماز جنازہ‘ پشاور پریس کلب میں ادا کی جاتی‘ جس کے لئے اُن کی خدمات کا شمار ممکن نہیں۔ 

حبیب صاحب کی کم سے کم قدردانی یہ بھی ہو سکتی تھیکہ اُنہیں پشاور میں سپردخاک کرکے روک لیا جاتا اور وہ پشاور سے یوں رخصت نہ ہوتے کہ اب پھر کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ 
’’تالمحۂ گزشتہ یہ جسم اُور سائے
زندہ تھے رائیگاں میں‘ جو کچھ تھا رائیگاں تھا(کیا؟)۔۔۔(جان ایلیا)۔‘‘




Monday, November 13, 2017

Nov 2017: The colors of Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رنگ باتیں کریں!
جس زوایئے اُور جس کسی بھی پہلو سے جائزہ لیا جائے‘ پشاور ’عالم میں انتخاب‘ ہی رہے گا۔ یہاں کے رہن سہن اور فن تعمیر کی ایک سے بڑھ کر ایک خوبی نمایاں دکھائی دے گی بس دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔ ’’عقل گو آستاں سے دور نہیں: اِس کی تقدیر میں حضور نہیں ۔۔۔ دل بینا بھی کر خدا سے طلب: آنکھ کا نور دل کا نور نہیں! (علامہ اقبالؒ )‘‘ ایسے ہی بینا‘ صاحب فن‘ علی ساجد نے ’واٹر کلرز‘ اور دیگر رنگوں کے استعمال سے پشاور کی بخوبی عکاسی کرتے ہوئے وہ قرض اَدا کیا ہے‘ جو‘ ہر پشاوری پر واجب ہے۔ علی ساجد کے فن پاروں اور مہارت کو عالمی سطح پر سراہا جا چکا ہے جنہوں نے ’واٹرکلر‘ جیسے مشکل اسلوب اور پھیکے رنگوں کے ذریعے بھی پشاور کی چاشنی (زندگی) کو بخوبی پیش کیا ہے۔ 

واٹرکلرز کے ذریعے مصوری کے علوم سے آشنا جانتے ہیں کہ اِس عشق میں کتنا سیاحت (محنت) کرنا پڑتی ہے۔ علی ساجد پشاور کا ایسا پہلا (واحد) نام نہیں جنہوں نے ’واٹرکلرز‘ کے ذریعے ’پشاور کو بیان‘ کیا ہو بلکہ اِن سے قبل (میڈم) طیبہ عزیز اور ڈاکٹر غلام شبیر کے علاؤہ کئی مصور یہاں کی زندگی کے بارے اپنی اپنی مہارت (ٹیلنٹ) کا بیان کر چکے ہیں جن میں ’ملٹی ٹیلنٹینڈ‘ ڈاکٹر سیّد امجد حسین بھی شامل ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پشاور کو ’محبوب نظروں‘ سے دیکھنے والے کو ہر دور میں اعزازات سے نوازہ گیا ہے۔ ’علی ساجد‘ نے ’واٹرکلرز‘ کے مشکل اور قدرے غیرمقبول ’طرز مصوری‘ کا انتخاب کرتے ہوئے جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندگی تاریخی شہر کو ایک نئے تعارف سے روشناس کیا تو انہیں بھی عالمی سطح پر ’پشاور شناساسی‘ اور ’پشاور آشنائی‘ جیسے موضوعات کی بنیاد پر پذیرائی ملی یقیناًاُن کی پیروی کرتے ہوئے نوجوان نسل بھی پشاور کو اپنی سوچ کے حصار میں لے گی اور پشاور کے قوس قزح (خوبیوں) میں شامل ہر رنگ کو مختلف پہلوؤں سے روشناس کیا جائے گا۔

’انٹرنیشنل واٹرکلر سوسائٹی‘ نامی تنظیم کے تحت حال ہی میں عالمی مقابلے کا انعقاد ہوا‘ جس میں علی ساجد کے ’’دی گولڈن لائٹ ‘‘ نامی فن پارے کو انعام سے نوازہ گیا۔ اِس مقابلے میں 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے قریب 500 مصوروں نے حصہ لیا لیکن فیصلہ سازوں کی ’نظرانتخاب‘ پشاور پر جا ٹھہری جس کے معروف تجارتی مرکز ’نمک منڈی بازار‘ کے اُس وقت کی عکاسی کی گئی‘ جب الصبح سورج کی سنہری کرنیں یہاں کی جادوئی زندگی کی کشش میں اضافے کا باعث بنتی ہیں! علی ساجد ایک دہائی سے زائد عرصے سے ’واٹرکلرز‘ کے ذریعے اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں اور اِس عرصہ میں انہوں نے مصوری کے قریب سبھی معلوم طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے قدیمی شہر اور یہاں کی بودوباش کو نئے (منفرد) حوالے سے محفوظ بنانے (پیش کرنے) کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ اُن کے فن پاروں میں پرہجوم بازار بھی دکھائی دیتے ہیں اور ’ژرف نگاہی‘ سے لکڑی کے استعمال سے بنی ہوئی عمارتوں کے اُن حصوں کو بالخصوص موضوع بنایا گیا ہے جن کے رنگ وقت گزرنے کے ساتھ تحلیل ہو رہے ہیں! 

اندرون پشاور ایسی قدیم عمارتوں کی تعداد ہر گزرتے دن کم ہو رہی ہے‘ جو کبھی پشاور کا مقبول فن تعمیر اور یہاں کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ سیمنٹ‘ سریا‘ ریت‘ بجری اور اینٹوں کی مدد سے ’کثیرالمنزلہ عمارتوں‘ کی تعداد میں مسلسل اِضافہ ہو رہا ہے لیکن اَندرون شہر کی پرانی (قدیمی) عمارتیں آج بھی پشاور کی ’سیاحتی کشش‘ کا حصہ ہیں‘ جن کا وجود اگر تادیر قائم نہ بھی رہے لیکن ’فن مصوری‘ اُور ’فوٹوگرافی‘ کے ذریعے اِنہیں (کم سے کم) آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ضرور کیا جاسکتا ہے جن کے ذریعے پشاور کے بارے میں تصور باندھنا آسان ہو جائے گا۔ وہ سبھی نوجوان جو ڈیجیٹل ایمجنگ (Digital Imaging) سے واقف ہیں یا عکاسی کے لئے ڈیجیٹل کیمرہ یا عکاسی کی سہولت سے لیس ’سمارٹ موبائل فون‘ استعمال کرتے ہیں اُنہیں اپنا کچھ نہ کچھ وقت اُور توانائیاں (وسائل) ’پشاور‘ کے لئے ضرور وقف کرنی چاہیءں۔ اِس سلسلے میں پندرہ ابواب (ضمنی موضوعات) میں تقسیم پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ’راسٹیس لیو کیک (Rastislav Lukac)‘ کی Perceptual Digital Imaging: Methods and Applications نامی جامع کتاب سے بطورِ خاص رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ جو اپنی جگہ اہم اور نہایت ہی محنت سے مرتب کی گئی ہے۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ بالخصوص جامعہ پشاور کا ’فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ‘ توجہ کرے گا۔ دیگر ادارے جن میں ذرائع ابلاغ کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بھی شامل ہیں ’سٹی ایمجنگ‘ کو ’صحافتی عکاسی (فوٹو ویڈیو جرنلزم)‘ کا حصہ بنانے میں بھی اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومتی اُور نجی اداروں کی سطح پر ’ڈیجیٹل ایمجنگ‘ کی بطور صنف سرپرستی کرنے سے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع بھی موجود ہے بلکہ اِس سلسلے میں پاکستان خطے کا مرکز بن سکتا ہے۔

چھتیس سالہ مصور ’علی ساجد‘ کے لئے ’رنگ صرف باتیں اُور خوشبو ہی ماحول کو معطر نہیں کرتی بلکہ اِسی پیرایئے سے زندگی کے نشیب و فراز (عروج و زوال) جیسی حقیقتیں بھی بیان ہوتی ہیں۔‘ کسی فنکار کا یقین‘ حقیقت ہے کہ ۔۔۔ ’’جن معاشروں میں ’فنون لطیفہ‘ کی اہمیت کا احساس زندہ ہوتا ہے وہاں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی اَفزائش نہیں ہو سکتی۔‘‘ پشاور کی ’در و دیواروں‘ سے چھلکتا ’امن‘ محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ پشاور شہر کا عجائب گھر ’گورگٹھڑی‘ کے اَحاطے میں ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہے تاہم اگر اِس کے ساتھ ’آرٹ گیلری‘ بھی قائم کر دی جائے‘ جس کی دیواریں نہ صرف ڈاکٹر غلام شبیر اُور علی ساجد جیسے بہت سے صاحبان نگاہ کے فن پاروں کا مستقل ’شوکیس‘ بن سکتا ہے بلکہ آرٹ گیلری کے ذریعے وقتاً فوقتاً مصوری و عکاسی کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ ’آج کے پشاور‘ کی رہی سہی خوبیوں اور شناختی علامات کے بارے غوروخوض اور انہیں محفوظ بنانے کے لئے جدید عصری علوم (وسائل) کا استعمال عملاً ممکن بنایا جا سکے۔ 

پشاور اگر خطے کا قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہے تو صرف یہی ایک حوالہ (سند) کافی نہیں بلکہ یہاں کے رہنے والے جہاں کہیں بھی ہوں اُنہیں اپنے زندہ ہونے کا عملاً ثبوت دینا ہوگا اور جس شہر پر اجنبیوں کا راج میں بھلے طویل ہو چکا ہو لیکن اگر ’قدردانی‘ متعارف کرائی جائے تو اِس سلسلے میں مصوری اور فوٹوگرافی کے ذرائع مددگار ثابت ہو سکتے ہیں جن سے پشاور سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہے گی بلکہ پشاور کے بارے میں بہت سے منفی روئیوں (تاثرات) کی اِصلاح بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
۔
Appreciated the role of a water-colorist
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-11-13

Sunday, November 12, 2017

TRANSLATION: Drawing board by Dr. Farrukh Saleem

Drawing board
سفر ہے شرط!
پاکستان کو آج جن گوناگوں مسائل کا سامنا ہے‘ اُن کا خلاصہ تین وجوہات کی صورت کرنا پڑے تو ’’سیاسی کلچر‘ طرزحکمرانی اور ادارہ جاتی بدعنوانی‘‘ ذمہ دار قرار پائیں گے۔ ہمارا سیاسی کلچر موروثی اور شاہانہ ہے اور جہاں کہیں بھی اِس قسم کا سیاسی ماڈل ہوتا ہے وہاں پانچ نمایاں چیزیں ہوتی ہیں۔ انتہاء کی غربت‘ صحت و تعلیم میں کم سرمایہ کاری‘ پانی بجلی اور انصاف کی عدم فراہمی‘ سیاسی جماعتیں جن میں داخلی سطح پر جمہوریت نہیں ہوتی اور سیاست سے جڑے موروثی شاہانہ سیاستدان جو انتہاء کے مالی فوائد حاصل کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں ایسی سیاست کی داغ بیل ڈالنے کی ضرورت ہے‘ جس میں بہترین اور موزوں افراد سیاسی عمل میں حصہ لیں۔ جو کچھ سردست ہمارے پاس ہے وہ سیاست دانوں سے ہرحال میں وفاداری کا اظہار کرنے والے گروہ ہیں جو اہلیت (میرٹ) کی بجائے شاہانہ مزاج رکھنے والی موروثی سیاست سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ہمیں سیاست میں ’سوچ بچار کرنے والے ایسے اہل افراد‘ کی ضرورت ہے جو ملک و قوم کی ترقی کے تصورات کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ فلپائن کی قانون ساز اسمبلی میں ایک مسودہ قانون (نمبر 3587) زیربحث ہے‘ تاکہ ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اِس سلسلے میں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے پاس قواعد و ضوابط کی صورت اختیارات ہیں جن کا استعمال کرتے ہوئے وہ ملک میں سیاسی کلچر تبدیل کرنے میں ’حسب ضرورت‘ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

پاکستان میں طرزحکمرانی بھی اصلاح چاہتا ہے۔ گذشتہ 47برس میں ہمارے ہاں 10مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ حالیہ مردم شماری (2017ء) کے عبوری نتائج کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ (30.2 ملین) خاندان ہیں جن میں سے صرف ایک ہزار ایک سو چوہتر (1,174) ایسے خاندان بھی شامل ہیں جن سے تعلق رکھنے والے افراد ہر عام انتخاب میں منتخب ہوتے آ رہے ہیں اور یہ اِن ’سیاست پر مسلط‘ اِن گیارسو چوہتر خاندانوں کی پاکستان کے قانون ساز ایوانوں قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ پر حکمرانی ہے۔
یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ گذشتہ 47 برس میں منتخب ہونے والے ہمارے سیاست دان اقتصادی ماہر ثابت نہیں ہوئے اور اُن کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی مشکلات کم ہونے کی بجائے ہر گزرتے دن بڑھتی ہی چلی گئیں۔ یاد رہے کہ 47 برس میں منتخب ہونے والے ہمارے قانون ساز خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ ہمیں ایسے پیشہ وروں اور بالخصوص متعلقہ شعبے کے ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو نظام اور اداروں کی اصلاح کرسکیں۔ اگرچہ سینتالیس برس میں ہم نے دس مرتبہ عام انتخابات کا تجربہ کیا لیکن اِس عرصے میں احتساب اور جمہوری حکومتوں کی عوام کے سامنے جوابدہی ممکن نہیں بنا سکے۔ عام انتخابات کے پے درپے تجربات سے ہم نے جو کچھ حاصل کیا وہ ایک تہائی جمہوریت ہے جبکہ ہماری ضرورت سوفیصد جمہوریت کی ہے کہ جس سے کچھ بھی کم ہمارے لئے کافی نہیں ہوسکتا۔

پاکستان میں احتساب کے اداروں کی کمی نہیں اور پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں انسداد بدعنوانی کا ادارہ جاتی ڈھانچہ موجود ہے۔ جن میں نیشنل اکاونٹی بیلٹی بیورو (نیب)‘ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اُور صوبائی سطح پر بھی انسداد بدعنوانی کے ادارے بھی شامل ہیں جن میں خیبرپختونخوا احتساب کمیشن‘ وفاقی محتسب‘ فیڈرل ٹیکس محتسب‘ محتسب اعلیٰ پنجاب‘ بلوچستان اور سندھ‘ بینکنگ محتسب‘ وفاقی انشورنس محتسب‘ خواتین کے خلاف ہراساں کرنے کے واقعات کے سدباب اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے وفاقی محتسب کا ادارہ موجود ہے۔ جب ہم ادارہ جاتی احتساب کی بات کرتے ہیں تو یہ عمل قانون سازی‘ قانون پر عمل درآمد کرنے والے اداروں (فزیکل انفراسٹکچر) اور ایک ایسی قیادت کا مجموعہ ہوتا ہے جو احتساب کو یقینی بناتے ہیں لیکن ہمارے ہاں احتساب کا عمل قانون سازی اور اداروں کی حد تک تو دکھائی دیتا ہے لیکن اِس کے عملی و بلاامتیاز اطلاق کو ممکن بنانے کے لئے قائدانہ سرپرستی (قوت ارادی) موجود نہیں۔ 

مؤثر سیاسی قیادت سے مقصود اجتماعی مفادات کا تحفظ اور سیاسی قوت ارادی ہوتی ہے۔

علوم و فنون کے ترقی یافتہ دور میں کسی بھی ملک کو عروج کی راہ پر گامزن کرنا قطعی مشکل نہیں رہا۔ ضرورت اِس امر کی ہوتی ہے کہ کسی ملک میں جمہوریت ہر سطح پر فعال ہو۔ سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات بھی جمہوری انداز میں طے پائیں۔ قانون سازی کرنے والوں کی ذات میں اختیارات محدود نہ ہوں۔ اقتدار صرف اور صرف اختیارات حاصل کرنے کا نام نہ رہے۔ اقتدار کرنے والے قانون و احتساب سے بالاتر نہ ہوں۔ ادارے اپنے وجود کا ثبوت عملی فعالیت سے دیں۔ 

پاکستان کے تناظر میں کیا یہ سب کچھ ممکن نہیں؟

کسی ملک کے عروج کے لئے سیاسی قوت ارادی‘ متعلقہ شعبوں کے ماہرین‘ ایک لائحہ عمل اور اُس کے اطلاق کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر پاکستان کے تناظر میں کسی ایک چیز کی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ ’سیاسی قوت ارادی‘ ہے۔ کیا آپ اِس سیدھے سادے نتیجۂ خیال سے اِتفاق کرتے ہیں؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, November 11, 2017

Nov 2017: Medical Education Standard in KP at it's own, at the lowest level!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرومِ مراتب!
طب کے شعبے میں ’بیچلرز آف ڈینٹسٹری (بی ڈی ایس)‘ کا تعلق منہ اور دانتوں کے امراض سے ہے اور اِس کی سند ’ایف ایس سی‘ کے بعد ’چار سالہ کورس‘ اور ’ایک سالہ‘ عملی تربیت (ہاؤس جاب)‘ کے مکمل کرنے پر طلباء و طالبات کو دی جاتی ہے۔ انسانی صحت میں دانتوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ صحت مند مسوڑوں اور دانتوں عمومی جسمانی صحت کا انحصار رہتا ہے۔ 

دانتوں کی صفائی اُور دیکھ بھال کے بارے میں اسلام کے ہاں بھی خصوصی احکامات ملتے ہیں‘ جن میں مسواک کے استعمال کی بطور خاص تلقین شامل ہے۔ دانتوں کی تعلیم اور بعداز تعلیم متعلقہ ڈاکٹروں کو پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع اُور اُن کی خدمات سے کماحقہ استفادہ کے حوالے سے امور صوبائی حکومت کی توجہات کے متقاضی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا میں تین سرکاری (پبلک) ڈینٹل کالجز ہیں جن میں ’خیبر کالج آف ڈینٹسٹری پشاور‘ باچا خان ڈینٹل کالج مردان اور ایوب میڈیکل کالج (ڈینٹل سیکشن) ایبٹ آباد‘ شامل ہیں جہاں بالترتیب پچاس‘ پچیس اور پچیس طلبہ و طالبات کو ہر سال داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ نجی شعبے میں چھ ڈینٹل کالجز ہیں‘ اِن میں سردار بیگم ڈینٹل کالج پشاور (75 طلبہ سالانہ)‘ فرنٹیئر میڈیکل کالج ( 50 طلبہ سالانہ)‘ پشاور ڈینٹل کالج ( 50 طلبہ سالانہ)‘ ویمن میڈیکل کالج (50 طالبات سالانہ)‘ ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج (50 طلبہ سالانہ) اور ’رحمان کالج آف ڈینٹیسٹری پشاور‘ میں سالانہ 50 طلبہ کو داخلے دیئے جاتے ہیں۔ یوں خیبرپختونخوا میں سالانہ تقریباً ’425 طلباء و طالبات‘ ڈینٹل کی تعلیم کا وہ اِبتدائی مرحلہ عبور کرتے ہیں‘ جس کے بعد اِس شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے مزید مراحل بھی مکمل کئے جاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قریب ’تین کروڑ آبادی‘ کے لئے خیبرپختونخوا میں ’ڈینٹل ایجوکیشن‘ کے مواقع (حسب آبادی و ضرورت) کم ہیں اور سرکاری سرپرستی میں ’ڈینٹل کالجز‘ کی تعداد اُور نشستوں میں کم سے کم اِس قدر اِضافہ ہونا چاہئے کہ سرکاری اُور نجی شعبے میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کی تعداد مساوی ہو جائے۔ 

فی الوقت ’سرکاری کالجز‘ میں ایک سو اُور نجی کالجوں میں سالانہ ’تین سو پچیس‘ طلباء و طالبات زیرتعلیم رہتے ہیں جبکہ ’ایم بی بی ایس‘ میں طلباء و طالبات کی سالانہ مجموعی تعداد 1800 ہے۔ دوسری اہم ضرورت ’ڈینٹل کالجز‘ سے فارغ التحصیل اور ایک سال کی عملی تربیت (ہاؤس جاب) مکمل کرنے والے ’ڈاکٹروں‘ کا موازنہ اگر میڈیسن بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ حسن اِتفاق ہے کہ خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی ضلعی سطح پر سہولیات کے نگرانوں (ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز) کی تعیناتیاں کرتے ہوئے نظر انتخاب ہمیشہ ’اِیم بی بی ایس‘ ڈاکٹروں پر ہی ٹھہرتی ہے! جس سے ’بی ڈی ایس‘ ڈاکٹروں میں ایک خاص قسم کا ’احساس محرومی‘ پایا جاتا ہے اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی یکساں مقام دیا جائے۔

خیبرپختونخوا میں ’ڈینٹل اِیجوکیشن‘ کا شعبہ جن چند بنیادی مسائل سے دوچار ہے اُن میں سرکاری و نجی کالجوں کا الگ الگ معیار تعلیم بھی ہے۔ سرکاری کالجوں کا الحاق ’خیبرمیڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو)‘ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے اُن کے امتحانات کی براہ راست نگرانی اور مارکنگ ’کے ایم یو‘ کرتا ہے جہاں تعلیم و قابلیت کے مطابق دیئے جانے والے نمبر نجی کالجوں کے مقابلے کم ہوتے ہیں۔ 

نجی کالج اپنے طلباء و طالبات کی قابلیت کا تعین چونکہ خود کرتے ہیں‘ اِس لئے اُن کے ہاں زیرتعلیم طلبہ اِمتیازی نمبروں سے کامیاب قرار پاتے ہیں اُور ملازمتوں میں نمبروں کی بنیاد پر میرٹ طے ہونے کی وجہ سے سرکاری کالجوں سے تعلیم حاصل کرنے والے پیچھے لیکن نجی کالجوں والے آگے نکل جاتے ہیں لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ نجی کالجوں کا اِلحاق بھی ’’خیبرمیڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو)‘‘ سے کیا جائے تاکہ ڈینٹل کے شعبے میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کے مابین یکساں مقابلے کی فضاء پیدا ہو اُور ’ڈینٹل تعلیم‘ کا معیار بلند ہو۔ ڈینٹل کالجز کا امتحانی نگران ادارہ ’کے ایم یو‘ ہونا چاہئے اور امتحان کا مرکزی نظام (سنٹرلائز) ہونا چاہئے۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے میدانی اور بالائی علاقوں میں موسموں کا فرق ہے‘ جس کی وجہ سے میڈیکل و ڈینٹل کالجز کے نصابی سال الگ الگ تاریخوں پر شروع اور ختم ہوتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ میدانی و بالائی (پہاڑی) علاقوں کے لئے الگ الگ نگران میڈیکل یونیورسٹیز مقرر کی جائیں کیونکہ میدانی علاقوں میں چار ماہ جبکہ پہاڑی علاقوں میں ڈیڑھ سے دو ماہ کی تعطیلات ہوتی جس کی وجہ سے میدانی علاقوں کے طلباء و طالبات کو تیاری کے لئے زیادہ وقت (فرصت) میسر آتی ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو ہزارہ ڈویژن کے لئے الگ میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کا جلد اعلان کرنا چاہئے جو عرصہ دراز سے زیرغور ہے اور ایک قابل عمل منصوبہ ناگزیر وجوہات کی بناء پر سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ سیاسی فیصلہ سازوں کو عقاب کی نظر سے معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا کیونکہ افسرشاہی (بیوروکریسی) نہ تو کسی کے آگے جوابدہ ہے اور نہ ہی اُسے آئندہ عام انتخابات یا کسی بھی مرحلے پر کارکردگی کے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی جانب سے رواں برس (دوہزارسترہ کے لئے) میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں داخلے کے لئے کم سے کم نمبروں کی شرط ’’83.4 فیصد‘‘ مقرر کی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں اِس اہلیت پر پورا اُترنے والے ہزاروں طلبہ و طالبات باوجود خواہش و کوشش بھی داخلہ حاصل نہیں کر رہے تو یہ بات صوبائی حکومت کے لئے چیلنج ہونی چاہئے کہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہزاروں طلباء و طالبات کے لئے ’میڈیکل کے متعلقہ شعبوں میں تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔‘ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مالی سکت رکھنے والے ہی نجی میڈیکل کالجز میں داخلہ لے سکتے ہیں! کرپشن (مالی بدعنوانیوں) بھی اس لئے عام ہیں کیونکہ معاشرے میں ہر خوبی حتی کہ تعلیم بھی خریدی جا سکتی ہے! 

اے کاش تعلیم کاروبار اور صنعت نہ ہوتا۔ کیا صوبائی مالیاتی ادارے ’بینک آف خیبر‘ کے ذریعے ’اعلیٰ تعلیم کے لئے بناء سود قرضہ جات کا اجرأ‘ نہیں کیا جاسکتا؟ اگر ہم اپنی نوجوان نسل پر بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تو کیا سڑکیں‘ گلیاں اور نالیاں تعمیر کرنے سے ہمارا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے؟
۔