Sunday, May 31, 2015

May2015: Negligence of Election Commission

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پہلی بات: دوسری بات
آغاز کلام ہے کہ ’مقامی حکومت کے نام سے ’بنیادی (اصل) حکومت‘ کا قیام چند دنوں کی بات ہے اور وہ پہلا مرحلۂ عبور ہو چکا جس کے بعد خیبرپختونخوا میں اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو جائے گا لیکن دوسری بات یہ ہے کہ عام انتخابات میں انتظامی بے قاعدگیوں نے بھی ایک ’نئی تاریخ‘ رقم کی ہے جس کے لئے ذمہ دار ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کو قرار دینے والے اپنی سیاسی وفاداریوں کا حق بخوبی ادا کررہے ہیں حالانکہ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری خالصتاً ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی تھی۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کا مؤقف واضح ہے کہ ’’اگر مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری خیبرپختونخوا کو سونپی جاتی تو وہ ایک ہی دن پورے صوبے میں انتخابات کرانے کی بجائے مختلف اضلاع میں انتخابی عمل مرحلہ وار انداز میں مکمل کراتی لیکن الیکشن کمیشن نے یہ کام خود سے انجام دینے کی ٹھانی۔‘‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے وضاحت کے بعد الیکشن کمیشن حکام کی ’خودسری‘ عیاں ہو گئی ہے۔ عجب ہے کہ صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات جس میں 41ہزار 7سو62 (بیالیس ہزار کے قریب) نشستوں پر عام انتخابات ہوئے جس کے لئے 88 ہزار افراد اُمیدوار تھے لیکن اِس انتخابی عمل کی حفاظت (سیکورٹی) کے لئے صرف 86 ہزار 115 اہلکار تعینات کئے گئے۔ یہ بات صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن تک پہنچا دی گئی تھی کہ چھیاسی ہزار پولیس کی افراد قوت کا استعمال کرتے ہوئے ہر پولنگ مرکز پر چھ سے آٹھ اہلکار ہی تعینات ہو سکیں گے جو کافی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 11ہزار 2سو 11پولنگ اسٹیشنز بنائے اُور سیکورٹی خدشات کے تحت2ہزار 8سو 37 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جبکہ 3 ہزار 9سو 40حساس اور صرف 4 ہزار 3سو 40 کو معمول کے مطابق (نارمل) قرار دیا لیکن اِس بارے میں صوبائی حکومت سے بات کرنا پسند نہیں کی کہ دو ہزار آٹھ سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز اگر ’’انتہائی حساس‘‘ ہیں تو ان کی حفاظت کیسے اور کیونکر ممکن بنائی جائے گی!

کیا یہ بات الیکشن کمیشن کے مرکزی یا صوبائی سربراہ کے شایان شان نہیں تھی کہ وہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے ملاقات کرتے یا کم سے کم ایک ٹیلی فون کال ہی کر لیتے یا اِی میل و مکتوبات کے ذریعے تحریری تبادلہ خیال کر لیتے اور اِس بارے میں اُن کی رائے بھی معلوم کر لی جاتی جو صوبے میں امن وامان کے لئے اصل ذمہ دار ہیں۔ اب جبکہ مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا اور تیس مئی پولنگ کے اختتام و غیرحتمی نتائج کے بعداز اعلانات فائرنگ و لڑائی جھگڑوں میں کم سے کم چھ ہلاکتیں اور پچاس سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اُن کوتاہیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس سے اُس کا تعلق ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کیا یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی تھی کہ وہ بیلیٹ پیپرز (ووٹ) شائع کرتی؟ اگر بیلٹ پیپرز کی اشاعت کم تعداد میں ہوئی یا اُمیدواروں کے نشانات یا اُن کے نام شائع ہونے میں غلطیاں ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟ اگر کسی حلقے میں بیلٹ پیپرز پر اُمیدواروں کے انتخابی نشانات تو موجود تھے لیکن اُُن پر نام شائع نہیں ہو سکے یا ناموں میں غلطیاں تھیں تو یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟

اگر کہیں پولنگ مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوئی‘یا انتخابی عملے نے پولنگ کا عمل معطل کیا تو کیا یہ صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے؟ اگر پولنگ اسٹیشن مقرر کرنے اور وہاں عملہ تعینات کرنے میں سیاسی ترجیحات ملحوظ رکھی گئیں تو کیا اِس کے لئے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ زرد رنگ کے تھیلوں میں پولنگ کی جملہ ضروریات ڈالنا کیا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اور اگر تھیلے کھلنے پر انتخابی ضروریات کم تعداد میں برآمد ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت کی طرف انگلیاں اُٹھائی جائیں؟ بیلٹ پیپر پر مہریں لگانے کے لئے گتے کی (عارضی) دیواریں پولنگ بوتھ کے تناسب سے نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے پولنگ کے مراحل وقت مقررہ شام 5 بجے کی بجائے دیر رات تک جاری رہے تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟

بیک وقت چار سے سات ووٹوں پر مہریں لگانا اور فی گھنٹہ چوبیس سے تیس ووٹ پول ہونے کی اوسطاً شرح کے بارے میں سوچنا کیا صوبائی حکومت کا کام تھا؟

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے الیکشن کمیشن حکام سے کہا ہے کہ ’’اگر وہ خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لئے ہوئے عام انتخابات میں کسی ایک یا بہت سے حلقوں میں دھاندلی یا مکروہ فعل میں صوبائی حکومت کے ملوث ہونے کے بارے تحقیقات کرانا چاہتے ہیں تو بصدشوق کریں اور اس کے لئے اُن سے غیرمشروط اورمکمل تعاون کیا جائے گا۔ جن حلقوں میں پولنگ مقررہ وقت کے بعد بھی جاری رہی اُس کی اجازت خود الیکشن کمیشن حکام نے دی تھی تو اُنہیں دھاندلی کے امکانات اور الزامات کا جواب بھی دینا چاہئے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تیس مئی کے عام انتخابات میں جو بدانتظامیاں دیکھنے میں آئیں‘ اُسے نظرانداز کرنے کی بجائے آئندہ دیگر صوبوں میں ہونے والے انتخابی تجربے کو زیادہ شفاف‘ محفوظ اور خوشگوار بنایا جائے۔

خیبرپختونخوا کی سطح پر تو صرف اکتالیس ہزار سے زائد نشستیں تھیں لیکن صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نشستوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے کیا ایسے ہی بدانتظامیوں سے بھرپور اور خوفناک قسم کی عام انتخابات وہاں پر بھی کرائے جائیں گے؟ خیبرپختونخوا کے ماحول میں سیاسی بے چینی کے اضافہ کا مقصد کہیں ’سیاسی بغض‘ تو نہیں؟ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنی مقبولیت کا بھرپور دفاع کیا‘ جس کی حتمی شکل ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت کئی اضلاع میں ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور متفقہ اُمیدواروں کا مقابلہ ڈٹ کر کیا گیا اور خود وزیراعلیٰ کے الفاظ میں ’’دھاندلی نہ تو تحریک کے وہم و گمان میں تھی اور نہ ہی اس کے لئے کسی مرحلے پر سوچا گیا۔

صوبائی حکومت نے انتخابی عمل کے دوران صرف اُن مقامات پر مداخلت کی جہاں سے پرتشدد واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں اور وہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات دیئے گئے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو ممکن و یقینی بنائیں۔‘‘ دوسری بات یہ بھی ہے کہ پشاور‘ پبی اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے ہزارہ ڈویژن تک تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے علاؤہ بڑی تعداد میں ایسے آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جو تحریک کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر ناراض تھے اور اُنہوں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کے فیصلوں سے کھل کر اختلاف کیا لہٰذا ’تحریک انصاف کی پارٹی پوزیشن‘ پر مبنی موجودہ اَعدادوشمار پر اکتفا نہ کیا جائے کیونکہ بطور ’آزاد‘ منتخب ہونے والے بہت سے مقامی حکومتوں کے نمائندوں کا جلد ہی ’تحریک انصاف‘ میں شمولیت کا امکان ہے۔ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کی طرح تیس مئی دو ہزار پندرہ کے دن تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا کی سطح پر فیصلہ کن اُور واضح برتری پہلے ہی حاصل کر لی ہے‘ جس میں اضافہ تو ممکن ہے لیکن کمی نہیں!

TRANSLATION: NAP 20 Points

NAP's 20 points
بیس نکات: نیشنل ایکشن پلان
وزیراعظم میاں نواز شریف نے چوبیس دسمبر دو ہزار چودہ کے روز قوم سے خطاب میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ایک جامع ’نیشنل ایکشن پلان (حکمت عملی)‘ کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے کہا: ’’ہمیں مزید وقت ضائع کئے بناء فوری عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔‘‘ اُنہوں نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ کن گھڑی ہے جس میں پاکستان سے عسکریت پسندوں کاخاتمہ کرنے کے لئے یک سو ہونا پڑے گا۔‘‘

انسداد دہشت گردی کے لئے اختیار کی جانے والی قومی حکمت عملی پر اب تک ہوئی پیشرفت کچھ یوں ہے کہ 1: دہشت گردی کے الزامات ثابت ہونے والے ایک سو ایسے مجرموں کو کہ جنہیں سزائے موت دی گئی تھی اُنہیں پھانسی کردیا گیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ چار برس کے دوران14 ہزار 115افراد دہشت گردی سے جڑے مقدمات میں ناکافی شواہد کی بناء پر عدالتوں سے بری ہو چکے ہیں جبکہ 10 ہزار 387 دیگر کو عدالتوں نے ضمانت پر رہا کر رکھا ہے۔ تصور کیجئے کہ صرف ایک سو کو پھانسی دی گئی جبکہ 45ہزار 502 یا تو بری ہوگئے یا پھر اُنہیں ضمانت پر عدالتوں نے رہائی دے دی۔ 2: دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی تیزرفتار سماعت کرنے کے لئے فوج کی زیرنگرانی عدالتیں بنائی گئیں۔ نتیجہ: خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ 3: قومی حکمت عملی کے تحت اس بات کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ عسکریت پسنداور مسلح گروہوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 4: وزیراعظم نے کہا کہ ’’انسداد دہشت گردی کا قومی ادارہ ’نیکٹا (NACTA)‘ کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘‘ نیکٹا کو سالانہ 92 ملین (9 کروڑ 20 لاکھ) دیئے جاتے ہیں جن میں سے 6 کروڑ تیس لاکھ روپے عملے کی تنخواہوں و دیگر مراعات کی نذر ہوجاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 5: ایسی تمام اشاعتوں بشمول اخبارات و جرائد کے خلاف ’سخت کاروائی‘ کی جائے گی جو نفرت انگیز‘ شرانگیز اور مذہبی منافرت پھیلانے والا مواد شائع کرتے ہیں۔ نتیجہ: قصور سے تعلق رکھنے والے قاری ابوبکر کو پانچ سال کی قید سنائی گئی جس نے ایک مجمعۂ عام میں نفرت پھیلانے والی تقریر کی تھی۔ صوبہ پنجاب کی سطح پر نفرت انگیز تقاریر پھیلانے والے 21 افراد کو سزائیں دی گئیں۔ 6: وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ’’عسکریت پسندوں اور اُن کی متعلقہ تنظیموں کو ملنے والے مالی وسائل منجمند کئے جائیں گے۔‘‘ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔7: کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کو نام بدل کر فعال رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 8: قانون نافذ کرنے والی ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے گی جو انسداد دہشت گردی کی کاروائیاں کرے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔9: مذہبی انتہاء پسندی اور اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 10: مذہبی مدارس کی رجسٹریشن کی جائے گی اور اُن کے معاملات پر نظر رکھی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 11: عسکریت پسندوں اور عسکریت پسند تنظیموں کے قدکاٹھ میں اضافہ کرنے والی نشرواشاعت پر پابندی عائد کی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 12: قبائلی علاقوں میں انتظامی و ترقیاتی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔13: عسکریت پسندوں کا باہم مواصلاتی رابطہ درہم برہم کر دیا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 14: انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عسکریت پسندی و انتہاء پسندی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انٹرنیٹ کا منفی استعمال کرنے والوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 15: انتہاء پسندی پھیلانے کی ملک کے کسی بھی حصے میں اجازت نہیں دی جائے گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 16:کراچی میں جاری کاروائی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 17: بلوچستان کی حکومت کو اختیارات دیئے جائیں گے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 18: ایسے عناصر کے خلاف کاروائی کی جائے گی جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔ 19: افغان مہاجرین کا معاملہ سلجھانے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ نتیجہ: جب قومی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 30لاکھ افغان مہاجرین آباد تھے جن میں سے 55 ہزار وطن واپس جا چکے ہیں۔ 20: عدالتی نظام (کرئمنل کورٹ سسٹم) میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حالات جوں کے توں ہیں۔

جنوری 2015ء میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے ایک خصوصی اعلیٰ اختیاراتی ’ایپکس کمیٹیاں‘ بنائی گئیں۔ یاد رہے کہ مجموعی طورپر 15کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ نتیجہ: کوئی حکومتی اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ کوئی طریقۂ کار وضع نہ ہوسکا۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی پر نظر کون رکھے گا اور جملہ کمیٹیوں کا نگران کون ہوگا‘ اِس بارے میں کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔

زمینی حقائق: پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان فاصلے پائے جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ فوج کے انتظامی چھاؤنیوں سے نکل کر عسکریت پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن سیاست دانوں کو خوف ہے کہ فوج چھاؤنیوں سے نکل کر ملک پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, May 30, 2015

May2015: Personal cum Political Objectives & Elections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات
اہل خیبرپختونخوا کو مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے عام انتخابات کا انعقاد مبارک ہو تاہم اگر اِس انتخابی تجربے کا بنیادی مقصد ’اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘ تھا‘ تو ابھی ہم اِس ہدف (اُور سوچ) سے بہت دور ہیں۔ اِس سلسلے میں کی جانے والی قانون سازی ہی کو لے لیجئے جس کی تشکیل میں اِس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ قانون ساز اراکین اسمبلی کو حاصل اختیارات کم نہ ہوں۔ سالانہ بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں کے لئے جو مالی وسائل مختص کئے جائیں‘ اُن کا بڑا حصہ ضلع‘ تحصیل یا دیہی و ملحقہ کونسلوں کی سطح پر نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کے ’انتخابی حلقوں‘ پر اجارہ داری رکھنے والوں میں تقسیم ہوں۔ اسی طرح انتظامی معاملات کا نگران ڈپٹی کمشنر اگرچہ ضلعی ناظم کے احکامات کو سنے گا لیکن وہ ’مقامی حکومتوں کا فرمان تابع یا نمائندوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگا۔‘ کیا ضلعی ناظم اپنے ضلع میں اپنی مرضی کے شخص کی بطورکمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈی آئی جی یا بڑے شہر کے لئے پولیس سربراہ کی تقرری کرسکے گا جبکہ اِس ’لابنگ‘ کے ذریعے افسرشاہی کے نازک و شاہانہ مزاج کا بھی اُتنا ہی خیال رکھا گیا ہے جس قدر قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے مفادات اُور اُن کے استحقاق و اہمیت وغیرہ کا۔ آنے والے دنوں میں مقامی حکومتیں ’شریک اقتدار‘ ہوں گی‘ ایسا بظاہر ممکن نہیں اور یہ امر بھی کھٹن ہی ہوگا کہ اُن تمام اضلاع میں ’مقامی حکومتوں‘ کے نمائندے کچھ بہت ہی خاص یا منفرد کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں جہاں اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے پہلے ہی سے قدم جما رکھے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں ’انتخابی حلقوں‘ کی بڑی اہمیت ہے اور سیاست دان اپنے ’انتخابی حلقوں کا دفاع‘ کرنے یا اپنے ’انتخابی حلقوں‘ میں دوسروں کے عمل دخل کو اچھی نظر سے دیکھنا تو دُور کی بات‘ کسی بھی صورت‘ اپنے علاقوں میں کسی دوسرے کا پھلنے پھولنے والا ’اثرورسوخ‘ برداشت ہی نہیں کرتے۔ ماضی کے بلدیاتی نظام کا حاصل بھی یہی تھا کہ جن ضلعی ناظمین کی صوبائی حکومت حتیٰ کہ گورنر صاحب تک رسائی تھی‘ اُن کے اضلاع میں مثالی ترقی دیکھنے میں آئی۔ افسرشاہی بھی اُن اضلاع کے ارسال کردہ ترقیاتی منصوبوں میں ’کیڑے نکالنے سے گریز کرتی رہی۔‘ آمدنی اور اخراجات پر مبنی سالانہ حسابات کی منظوری میں بھی ایسے اضلاع کو دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا‘ جن کے سروں پر سیاسی عافیت سایہ کئے ہوتی تھی۔ یوں ایک حادثاتی قیادت اُبھر کر سامنے آئی جس نے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کم ازکم خیبرپختونخوا کی حد تک فیصلہ کن کردار ادا کیا لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔

سردست سمجھ لیجئے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول اور سیاسی ثقافت میں پائے جانے والے ’احترام اُور تعلقات‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ پیشے کے لحاظ سے مختلف اندرون ملک کاروبار‘ بین الصوبائی و اضلاعی یا بیرون ملک تجارت اور چھوٹی بڑی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے گروہ ہر سیاسی و غیرسیاسی بنیادوں پر منتخب ہونے والی صوبائی‘ قومی اور سینیٹ میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں تاکہ ایسی قانون سازی نہ ہوسکے‘ جس سے اُن کے مفادات پر ضرب لگے یا کسی دن خدانخواستہ ایسی قانون سازی ہی نہ ہو جائے کہ ۔۔۔’’آج تک بنائے گئے جملہ قوانین کا عام آدمی (ہم عوام) کی طرح خواص پر بھی عملاً اطلاق ہو گا!‘‘ ملک کی اکثریت انگریزی زبان کی ماہر نہیں لیکن مرقع و مرصع انگلش میں احتساب کے ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے‘ جن کی عام آدمی کو بس اتنی ہی سمجھ آ رہی ہے کہ اگر کوئی بڑا ’مگرمچھ‘ گرفت میں آ بھی جائے تو اربوں روپے لوٹنے کے الزامات میں گرفتار ہونے والا لاکھوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو سکے! پھر وصول ہونے والے لاکھوں روپوں سے ’ادارہ جاتی کمیشن‘ منہا کر لی جائے! ہمارے ہاں رائج سیاسی ثقافت اور سیاسی نظام کی ناقابل تردید بلکہ تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کو آزاد و خودمختار ادارہ بنا کر اس کے فیصلوں کو انتظامی ’ریموٹ کنٹرول‘ کے تابع کر دیا گیا ہے‘ جس کی ایک بیٹری حکمراں جماعت اور دوسری حزب اختلاف اپنے پاس رکھتی ہے اور دونوں کے اپنے اپنے الگ لیکن ایک جیسے مفادات ہیں: مثال کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہلیت کی ’کڑی شرائط‘ قواعد و ضوابط اور قانون کا حصہ بنا دی گئیں ہیں لیکن انتخابی اُمیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل ’بیان حلفی‘ اور ’اعتراض‘ پر موقوف ہے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ‘ منظم جرائم کی پشت پناہی یا منشیات فروشی وغیرہ جیسے گھناؤنے جرائم میں براہ راست ملوث افراد بھی رسمی ’بیان حلفی‘ دے کر عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح آمدن کے لحاظ سے ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بھی نااہل ہونا چاہئے بلکہ اُن کی اسمبلی رکنیت تک ختم کرنے کے قواعد موجود ہیں‘ جن پر خاطرخواہ انداز میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

بات صرف ایک‘ دو یا چند سرکاری اِداروں کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ووٹ کی طاقت سے اِقتدار پر حاوی کرداروں نے اِس پورے عمل کو نہ صرف محدود کرکے رکھ دیا ہے بلکہ اسے ’’مہنگا‘ پُرخطر اُور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے شرفاء کی پہنچ سے دُور‘ کرنے کا درپردہ و ظاہری مقصد بس یہی ہے کہ ’صرف اُور صرف‘ اُنہی افراد کو ’شریک اقتدار‘کیا جائے جو کسی مرحلے پر ’احترام و تعلقات کی بنیادوں پر استوار مفادات کی ’سیاسی و روائتی ثقافت‘ کے لئے خطرہ ثابت نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں وہاں سیاست دان تو بہت دکھائی دیتے ہیں لیکن اِس اصطلاح کو عملی جامہ پہنانے والے ’اصلاح کاروں‘ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ خود پر انقلاب‘ نظریات‘ قوم پرستی یا اِصلاح کا جنون اور مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کے خلاف جہاد جیسے عزائم طاری کرنے والوں کو یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جاتا ہے یا ضمیر کے قیدی اِس عمل میں عافیت محسوس کرتے ہیں کہ ’اقتدار و ایوانوں تک محدود سیاست‘ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جو اپنے اصولی مؤقف سے ’رجوع‘ کرتے ہوئے ’سیاسی احترام اُور تعلقات‘ کی ’بہتی گنگا‘ میں ہاتھ دھو کر اُس معاہدے اور فہرست میں بناء تحریر اپنا نام ثبت کروا دیتے ہیں‘ جسے ’استحصالی کلب‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اِس کلب کا ’یک نکاتی مقصد‘ یہ ہے کہ کسی بھی صورت اور صورتحال میں ذاتی یا سیاسی مفادات پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ ملک گیرسطح پر ’سیاست اور جرائم‘ میں خاص تعلق (بھائی چارہ) عام ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ صرف اور صرف سیاست ہی کی کارستانی ہے کہ جس کے سبب ایک طرف علوم و فنون‘ تحریروتحقیق‘ تعلیم وصحت اُور زراعت جیسے شعبوں میں ترقی نہیں ہو پا رہی تو دوسری طرف اِنسانی حقوق کی ادائیگی‘ بلااِمتیاز قانون و انصاف تک رسائی اور عام آدمی کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا احساس تک نہیں رہا! سیاست نے ہمیں طبقات در طبقات تقسیم کر رکھا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ’اجتماعی قومی ترجیحات‘ کے تعین یک سوئی کا فقدان ہے۔ ہمیں ایک ایسے متفقہ و مشترکہ قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو بالخصوص توانائی و اقتصادی شعبوں میں درپیش
بحرانوں کا پائیدار حل ثابت ہو۔ ’وائے ناکامی‘ یہ بھی ہے کہ ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات کے لئے آبادی کو ’حلقوں (ووٹر لسٹوں)‘ میں تقسیم کرکے بالغ حق رائے دہی دے دیا گیا ہے لیکن کلیدی فیصلہ سازی میں عام آدمی کا کردار محدود سے محدود رکھا گیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں کئی ایک بیرونی دشمنوں سے واسطہ ہو لیکن اصل تباہی تو داخلی طور پر موجودہ نظام سے ہے‘ جس میں ریاست و سیاست عام آدمی کے حقوق اَدا نہیں کر رہی۔ عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے تو کیوں؟ اُور سماعتوں کے لئے خوشگوار ’مقامی حکومت ہی بنیادی حکومت‘ جیسا نام (سبب تسمیہ) اُدھار تو لے لیا گیا ہے لیکن اِس سے جڑے تقاضوں‘ ذمہ داریوں‘ فکری‘ شعوری اُور معنوی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا رہا‘ آخر کیوں؟
Expectation from #LGPolls & ground realities

ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات
خیبرپختونخوا کو مقامی حکومتوں کے عام انتخابات کا انعقاد مبارک ہو تاہم اگر اِس انتخابی تجربے کا بنیادی مقصد ’اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘ تھا تو ابھی ہم اِس ہدف (اُور سوچ) سے کوسوں دور ہیں۔ اِس سلسلے میں کی جانے والی قانون سازی ہی کو لے لیجئے جس کی تشکیل میں اِس بات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ قانون ساز اراکین اسمبلی کو حاصل اختیارات و مراعات پر کاری ضرب نہ لگے اُور سالانہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ ضلع‘ تحصیل یا دیہی و ملحقہ کونسلوں کی سطح پر نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کے ’انتخابی حلقوں‘ پر اجارہ داری رکھنے والوں میں تقسیم ہو! اسی طرح کسی ضلع میں انتظامی معاملات کا نگران ڈپٹی کمشنر اگرچہ ضلعی ناظم کے احکامات سنے گا لیکن وہ ’مقامی حکومتوں کا فرمان تابع یا نمائندوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگا۔‘ کیا ضلعی ناظم اپنے ضلع میں اپنی مرضی کے شخص کی بطورکمشنر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈی آئی جی یا بڑے شہر کے لئے پولیس سربراہ کی تقرری کرسکے گا جبکہ اِس ’لابنگ‘ کے ذریعے افسرشاہی کے نازک و شاہانہ مزاج کا بھی اُتنا ہی خیال رکھا گیا ہے جس قدر قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے مفادات اُور اُن کے استحقاق و اہمیت وغیرہ کا۔
مستقبل قریب میں مقامی حکومتیں ’شریک اقتدار‘ ہوں گی‘ ایسا بظاہر ممکن نہیں اور یہ امر بھی کھٹن ہی ہوگا کہ اُن تمام اضلاع میں ’مقامی حکومتوں‘ کے نمائندے خاص کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں جہاں اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے پہلے ہی سے قدم جما رکھے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں ’انتخابی حلقوں‘ کی بڑی اہمیت ہے اور سیاست دان اپنے ’انتخابی حلقوں کا دفاع‘ کرنے یا اپنے ’انتخابی حلقوں‘ میں دوسروں کے عمل دخل کو اچھی نظر سے دیکھنا تو دُور کی بات‘ کسی بھی صورت‘ اپنے علاقوں میں کسی دوسرے کا پھلنے پھولنے والا ’اثرورسوخ‘ برداشت ہی نہیں کرتے۔ ماضی کے بلدیاتی نظام کا حاصل بھی یہی تھا کہ جن ضلعی ناظمین کی صوبائی حکومت حتیٰ کہ گورنر صاحب تک رسائی تھی‘ اُن کے اضلاع میں مثالی ترقی دیکھنے میں آئی۔ افسرشاہی بھی اُن اضلاع کے ارسال کردہ ترقیاتی منصوبوں میں ’کیڑے نکالنے سے گریز کرتی رہی۔‘ آمدنی اور اخراجات پر مبنی سالانہ حسابات کی منظوری میں بھی ایسے اضلاع کو دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا‘ جن کے سروں پر سیاسی عافیت سایہ کئے ہوتی تھی۔ یوں ایک حادثاتی قیادت اُبھر کر سامنے آئی جس نے مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں کم ازکم خیبرپختونخوا کی حد تک فیصلہ کن کردار ادا کیا لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔
سردست سمجھ لیجئے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول اور سیاسی ثقافت میں پائے جانے والے ’احترام اُور تعلقات‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ پیشے کے لحاظ سے مختلف اندرون ملک کاروبار‘ بین الصوبائی و اضلاعی یا بیرون ملک تجارت اور چھوٹی بڑی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے گروہ ہر سیاسی و غیرسیاسی بنیادوں پر منتخب ہونے والی صوبائی‘ قومی اور سینیٹ میں اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں تاکہ ایسی قانون سازی نہ ہوسکے‘ جس سے اُن کے مفادات پر ضرب لگے یا کسی دن خدانخواستہ ایسی قانون سازی ہی نہ ہو جائے کہ ۔۔۔’’آج تک بنائے گئے جملہ قوانین کا عام آدمی (ہم عوام) کی طرح خواص پر بھی عملاً اطلاق ہو گا!‘‘ ملک کی اکثریت انگریزی زبان کی ماہر نہیں لیکن مرقع و مرصع انگلش میں احتساب کے ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے‘ جن کی عام آدمی کو بس اتنی ہی سمجھ آ رہی ہے کہ اگر کوئی بڑا ’مگرمچھ‘ گرفت میں آ بھی جائے تو اربوں روپے لوٹنے کے الزامات میں گرفتار ہونے والا لاکھوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو جاتا ہے! پھر وصول ہونے والے لاکھوں روپوں سے ’ادارہ جاتی کمیشن‘ منہا کر لی جائے!
طرز حکمرانی کی اِصلاح‘ طرز انتخاب میں اِصلاحات کے بناء ممکن نہیں۔ جب تک عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اُمیدوار کی اہلیت اور کاغذات کی جانچ پڑتال کا عمل ’بیان حلفی‘ اور کسی کے ’اعتراض‘ پر موقوف رکھا جاتا ہے اُس وقت تک نظام سے جڑی توقعات پوری نہیں ہوں گی۔کیا عام انتخابات میں حصہ لینا کسی متوسط یا غریب آدمی کے بس کی بات رہی ہے؟ ہمارے ہاں مزید سیاست دانوں یا متبادل سیاسی قیادت کی نہیں بلکہ ’اِصلاح کاروں‘ کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ملک گیرسطح پر ’سیاست اور جرائم‘ میں خاص تعلق (بھائی چارہ) صرف اور صرف مفادات پر مبنی سیاسی فکروعمل کی کارستانی ہے‘ جس کے سبب قیادت و اقدار زوال پذیر ہیں۔ قدرت کی عنایات اور وسائل کی کمی نہیں لیکن تحریروتحقیق‘ درس و تدریس‘ صحت اُور زراعت جیسے شعبوں میں ترقی نہ ہونے کی وجہ سے خودکفالت کا حصول ممکن نہیں رہا۔ اِنسانی حقوق کی ادائیگی‘ قوانین کا بلااِمتیاز اطلاق‘ تیزرفتار اور عام آدمی کو اپنی جان و مال کے تحفظ کا احساس نہیں تو اِس کی ذمہ داری بھی حکمراں طبقات پر عائد ہوتی ہے۔
سیاست نے ہمیں طبقات در طبقات تقسیم کر رکھا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ’اجتماعی قومی ترجیحات‘ کے تعین میں یک سوئی کا فقدان ہے۔ ہمیں ایک ایسے متفقہ قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو بالخصوص توانائی و اقتصادی شعبوں میں درپیش بحرانوں کا پائیدار حل ثابت ہو۔ ’وائے ناکامی‘ یہ بھی ہے کہ ذاتی‘ سیاسی اُور اِنتخابی مفادات کے لئے آبادی کو ’حلقوں (ووٹر لسٹوں)‘ میں ’تقسیم‘ تو کر دیا گیا ہے لیکن کلیدی فیصلہ سازی میں عام آدمی کے مسائل کا حل ترجیح نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں کئی ایک بیرونی سازشوں اور دشمنوں سے واسطہ ہو لیکن اصل تباہی کا سبب تو داخلی محاذ پر درپیش طرز حکمرانی ہے‘ جس میں ریاست و سیاست کے ذمے واجب الادأ ذمہ داریاں اُور عہدوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں۔ عوام کی اکثریت اگر بنیادی ضروریات سے محروم ہے‘ تو کیوں؟ اُور ’مقامی حکومت ہی بنیادی حکومت‘ کا نعرہ سماعتوں کے لئے تو خوشگوار ہے لیکن اِس سے جڑے تقاضے بھی اگر پورے نہیں ہو پا رہے تو سوچئے کہ طرز سیاست‘ طرز انتخاب اور قیادت کے طرزعمل میں کیا کچھ تبدیل ہونا چاہئے۔

Friday, May 29, 2015

May2015: LG Polls & Technology

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حکمت و دانش کے تقاضے
خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ’مقامی حکومت‘ کے لئے ہونے والے عام انتخابات کا طلسم ’ہزارہ ڈویژن‘ کو بھی اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے‘ جہاں گلی محلے اُور گاؤں کی سطح پر سیاسی و آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے اُمیدوار اور اُن کی حمایت کرنے والوں کے جوش و خروش میں جس ایک بات کا سب سے کم خیال رکھا گیا وہ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے وضع کئے گئے ’ضابطۂ اخلاق‘ کی وہ شقیں تھیں‘ جن کا تعلق ’قبل از انتخابات ہدایات‘ سے تھا۔ حسب سابق الیکشن کمیشن نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کئے رکھا‘ جس سے انتخابی مقابلے کے آزاد اُمیدواروں کو ’نکتۂ اعتراض‘ اُٹھانا چاہئے تھا۔ بہرکیف اُمید کی جاتی ہے کہ انتخابات (پولنگ) کے دن اور بعدازاں نہ صرف اُمیدواروں بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض کی ادائیگی میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

ہزارہ ڈویژن کے پانچ اضلاع میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اِداروں کی کڑی نگرانی میں 23 لاکھ 85 ہزار 298 مرد و خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یوں تو ہزارہ ڈویژن کے 6 اضلاع ہیں لیکن مقامی حکومت کے لئے انتخابات اِن میں سے پانچ اضلاع ہری پور‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام اُور تورغر میں ہو رہے ہیں جبکہ کوہستان کو چونکہ دو حصوں (اپر اینڈ لوئر کوہستان) میں تقسیم کیا گیا تھا‘ جس پر پلاس اور ملحقہ علاقوں کے رہنے والوں نے ’پشاور ہائی کورٹ‘ سے رجوع کر رکھا ہے اور عدالت کا فیصلہ آنے تک وہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ضلع کوہستان کے علاؤہ تیئس لاکھ پچاسی ہزار سے زیادہ ووٹروں کو 15 ہزار 667 انتخابی اُمیدواروں میں سے چناؤ کرنا ہے اور یہ قطعی طورپر آسان مرحلہ نہیں۔ ماضی میں کبھی بھی ’مقامی (بلدیاتی نظام) حکومت‘ کے لئے اس قدر جوش و خروش دیکھنے میں آیا اور نہ ہی اس قدر بڑی تعداد میں اُمیدوار دیکھے گئے۔ ہر ووٹر کو سات مختلف رنگوں کی پرچیوں کے ذریعے اپنی پسند کا اظہار کرنا ہے اور چونکہ روایت رہی ہے کہ ہم ہاں ہر ریکارڈ توڑا جاتا ہے تو آئندہ انتخابات میں اس سے کہیں گنا زیادہ تعداد میں اُمیدوار انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ووٹ دینے کے موجودہ طریقۂ کار (عمل) کو سادہ و آسان بنایا جائے اور اس کے لئے ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔

ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹ دینے کا عمل شفاف بھی ہے اور اس سے ووٹوں کے ضائع ہونے کا امکان بھی نہیں رہتا۔ چونکہ بات ایک یا دو بیلٹ پیپرز سے سات تک جا پہنچی ہے‘ اِس لئے ارباب اختیار کو ’ٹیکنالوجی گریز‘ رویئے اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سوچنا چاہئے کہ عام انتخابات پر اُٹھنے والے خطیر اخراجات اور اِس عمل سے متعلق پیدا ہونے والے شکوک شبہات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ سردست ’بائیومیٹرک شناخت‘ اور ’الیکٹرنک ووٹنگ‘ سے متعلق ٹیکنالوجی درآمد کرنا پڑے گی‘ اِس لئے انتخابی عمل کو موجودہ حکمت عملی کے تحت مرحلہ وار انداز میں مکمل کرایا جاسکتا ہے‘ جبکہ نتائج کا اعلان ملک گیر سطح پر الیکٹرانک پولنگ کی تکمیل پر کیا جائے۔ اِس سلسلے میں انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’آن لائن ووٹنگ‘ بھی متعارف کرائی جا سکتی ہے‘ جس میں دھاندلی کے امکانات کم کئے جاسکتے ہیں اور وہ لوگ جو سیکورٹی خدشات یا دیگر وجوہات کی بناء پر ’پولنگ اسٹیشنز‘ پر قطاروں میں لگنا پسند نہیں کرتے انہیں گھر بیٹھے ووٹ پول کرنے کی سہولت فراہم کی جانی چاہئے۔ اس سلسلے میں فراڈ سے بچنے کے لئے شناختی طریقۂ کار اور موبائل فون سے بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ اضافی تصدیق کا طریقہ وضع کیا جاسکتا ہے (الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کسی ایک موبائل فون نمبر سے منسلک ووٹر ایک ہی ووٹ ڈال سکے) جبکہ ’آن لائن‘ ووٹ ڈالنے کے لئے بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ کوڈ کا حصول قومی شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون سے منسلک کئے جاسکتے ہیں۔ اس سہولت سے شہری علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت فائدہ اُٹھانا چاہے گی اور اگر ووٹ ڈالنے کی پانچ یا دس روپے تک قیمت بھی مقرر کر دی جائے تو اِس سے ٹیکنالوجی پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پہلے مرحلے ہی میں وصول کر لیا جائے گا۔ اِسی طرح بینک اکاونٹ رکھنے والے ’اے ٹی ایم‘ کارڈ کے ذریعے اپنا ووٹ پول کر سکتے ہیں اور ایسی لاکھوں مشینیں پورے ملک میں نصب ہیں‘ جنہیں سافٹ وئر کے معمولی ردوبدل سے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں جرمن حکومت کی جانب سے تکنیکی امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ اُور امریکی عوام کی نمائندہ ’یو ایس ایڈ‘ کو توجہ دینی چاہئے کہ مقامی (بلدیاتی) حکومتیں صرف اُسی صورت فعال کردار ادا کر سکیں گی جبکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل ہوگی۔ اگر تیس سے چالیس فیصد ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں تو اِن کا ازالہ ہونا چاہئے۔

مقامی حکومت ہی اگر ’بنیادی حکومت‘ ہے تو اِس نظام سے بطور اُمیدوار یا ووٹر سپورٹر وابستہ ہونے والوں کو ’یورپین یونین (28 ترقی یافتہ مغربی ممالک)‘ کے وضع کردہ اُس متفقہ اصطلاحی مفہوم کو سمجھنا ہوگا‘ جس میں مؤثر‘ فعال اور حقیقی نمائندگی کو 12 اصولوں پر عمل درآمد سے مشروط کرتے ہوئے ٹیکنالوجی سے استفادہ تجویز کیا گیا ہے۔ 1: شفاف انتخابات اُور اس عمل میں ووٹروں کی بھرپور شرکت۔ 2: نظام اور نمائندوں کی کارکردگی سے جڑی عوام کی توقعات کا پورا ہونا۔ 3: بلدیاتی نظام کے اصولوں پر عمل درآمد اور اُنہیں عملاً مؤثر ثابت کرنا۔ 4: مقامی حکومتوں کے مالی و انتظامی معاملات میں شفافیت۔ 5: وضع کردہ قواعد و قوانین کا بلاامتیاز اطلاق اور انصاف۔ 6: اخلاقی پابندیاں۔ ہر نمائندہ اپنی ضمیر کی عدالت میں خود کو ہمہ وقت حاضر سمجھے۔ 7: اِداروں کی صلاحیت اُور کارکردگی میں بتدریج اِضافہ اُور اِرتقاء۔ 8: نظام کی اِصلاح کے لئے نت نئے تصورات اور حسب ضرورت لائحہ عمل اپنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیاجائے۔ 9: عوام دوست‘ ماحول دوست اُور پائیدار ترقی متعارف کرائی جائے۔ 10: سخت گیر قسم کا مالی نظم وضبط لاگو کیا جائے۔ 11: اِنسانی حقوق‘ شخصی آزادی اُور اِظہار رائے کا احترام کیا جائے۔ آثار قدیمہ‘ ثقافت اور لوک ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے امانت سمجھا جائے اُور 12: فیصلہ سازی کے مراحل یا مالی وسائل کے اِستعمال کی صورت اِحتساب کو رہنما اَصول سمجھا جائے۔

Thursday, May 28, 2015

May2015: LG Polls & Women Participation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب آلود حقائق
مقامی حکومتوں کا قیام‘ فیصلہ کن مرحلے تک آ پہنچا ہے اور آئندہ چوبیس گھنٹے (تیس مئی کا دن) انتہائی اہم ہے جب خیبرپختونخوا کے رہنے والے اُس قیادت کا انتخاب کر رہے ہوں گے جس نے اقتدار کو نچلی سطح پر منظم اور اُس بنیادی حکومت کے تصور کو عملی شکل دینا ہوگی جو ملک کے جمہوری نظام کے لئے ایک ستون جیسا کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مثال کے طور پر دیہی و ہمسائیگی کونسل کی وجہ سے عام آدمی فیصلہ سازی کے عمل میں فعالیت کے ساتھ شریک اُور حصہ دار بن جائے گا۔ یہی وہ خواب تھا جس کے لئے کئی دوست ممالک بشمول امریکہ حکومت کے اِمدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ اور اُن کے مقامی شریک کار ’اسکائنز‘ نے سالہا سال سے کوششیں کیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت سے متعلق نہ صرف شعور اُجاگر کیا بلکہ اِس مطالبے کو زندہ بھی رکھا اور یہی ثمر ہے کہ مقامی حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں لیکن کیا اِس نظام سے جڑی وہ تمام ’توقعات‘ پوری ہوپائیں گی‘ جس کا خواب یا خلاصہ خیرخواہوں اور منصوبہ سازوں کے تخیل و تصورات کی دنیا کو آباد کئے ہوئے ہے؟

مقامی حکومتوں کا نظام اُس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوگا جب تک اس میں ’خواتین کی بھرپور یا مکمل شراکت داری‘ عملاً دکھائی نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ خواتین کی مردوں سے زیادہ اور بڑھ چڑھ کر شراکت ناگزیر ہے‘ جو موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور اُن کے فیصلوں پر مردوں کی اجارہ داری کے باعث ممکن نہیں ہوسکی۔ سیاسی جماعتوں نے سمجھ لیا ہے کہ اُنہوں نے خواتین کے لئے مخصوص نشستیں مقرر کرکے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے وہ کافی ہے جبکہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی مخصوص خواتین کا ایوانوں میں کردار نہ ہونے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو مرد اراکین کی طرح نہ تو مساوی بنیادوں پر وزارتیں‘ عہدے اور ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی کی سطح پر وہ اتنی بااختیار ہوتی ہیں کہ اگر اُن کا تعلق برسراقتدار جماعت سے ہے تو وہ کسی حکومتی فیصلے پر مستورات کے نکتۂ نظر سے اظہار خیال ہی کرسکیں۔ جب تک خواتین کے ساتھ ’مخصوص‘ اور اُن کی قانون ساز ایوانوں میں موجودگی سیاسی جماعتوں کے رحم وکرم پر ہے‘ اِس پورے منظرنامے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ خواتین کو سوچنے‘ سمجھنے‘ بولنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ سیاسی جماعتوں کی سطح پر خواتین کی اکادکا موجودگی اور برائے نام شرکت (مشاورت) کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے کے بعد ہی مقامی حکومتوں کی سطح تک اِس کے ثمرات منتقل ہو سکتے ہیں۔

اِس مرحلۂ فکر پر انتخابات کے نگران ادارے ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خواتین کے حق رائے دہی پر ضرب لگانے اور انہیں برائے نام استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جن انتخابی حلقوں میں خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھا جاتا ہے وہاں کے انتخابی نتائج کسی صورت تسلیم نہیں ہونے چاہیءں بلکہ خواتین کے کل رجسٹرڈ شدہ ووٹوں کا تناسب پچاس فیصد سے کم ہونے کی صورت میں دوبارہ پولنگ کی شرط اگر قانون ساز نہیں کر رہے تو اسے انتخابی قواعد کا حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے تاکہ سیاسی جماعتیں بہ امر مجبوری ہی سہی لیکن خواتین کو پس پشت رکھنے کی بجائے اُنہیں آگے آنے کا موقع دیں۔ سماجی‘ خاندانی اور ذات پات کی روایات نے ہمیں جس انداز میں جھکڑ رکھا ہے‘ اُس سے خواتین بطور معاشرے کے ایک کمزور طبقے متاثر ہورہی ہیں اور باوجود اِس حقیقت کا ادراک ہونے کے بھی ’سلے سلائے (ریڈی میڈ)‘ انتظامات‘ اقدامات اُور احکامات سے کام چلایا جا رہا ہے۔
توجہ کیجئے کہ خیبرپختونخوا کے لئے سال 2013ء میں وضع کردہ ترمیم شدہ ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کے تحت صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ اور ’4 عدد ٹاؤنز‘ ہوں گے جس کے بعد ’پشاور ڈسٹرکٹ کونسل‘ اور ’میونسپل کارپوریشن‘ ختم ہو جائیں گی۔ اسی طرح 23 اضلاع میں سے ہر ایک میں ’ضلعی حکومتیں‘ قائم ہو جائیں گی جہاں 61 میونسپل کمیٹیاں بنیں گی اور یہ سب کی سب ’تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز)‘ کے سانچوں میں ڈھل جائیں گی۔ اِسی طرح کل 69 ’ٹی ایم ایز‘ بنیں گے اور اِن اضافی بننے والے ’ٹی ایم ایز‘ کی منطق یہ ہے کہ ’طورغر‘ بنوں اور دیر کے اضلاع میں نئی تحصیلوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نئے نظام کے تحت ضلعی سربراہ ناظم ہوگا‘ جس کے ماتحت ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول حکومتی محکمے ہوں گے۔ ضلعی ناظم بذریعہ ڈپٹی کمشنر ہی حکومتی محکموں بشمول صحت و تعلیم کی کارکردگی کے حوالے بازپرس کر سکے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام وضع کرتے ہر ایک کو خوش یا مطمئن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور بطور خاص اِس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ افسرشاہی ناراض (یا گلہ مند) نہ ہو۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کئے بیٹھے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے بعد بھی صوبائی و قومی اسمبلیوں کے اراکین کا اپنے اپنے اضلاع میں رعب‘ دبدبہ و جلال بدستور (حسب سابق) قائم رہے گا لیکن اِس پورے نظام میں اگر کہیں کوئی کمی بلکہ بہت بڑی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ خواتین کی محدود پیمانے پر فیصلہ سازی میں شرکت ہے۔

زیادہ دور نہ جائیں۔ پشاور جیسے مرکزی شہر میں آپ کو مقامی حکومتوں کے لئے ایسی خواتین اُمیدواروں کے پوسٹرز دکھائی دیں گے‘ جنہوں نے اپنی تصاویر تو کیا اپنا اصل نام تک شائع نہیں کیا۔ ایسی خواتین اُمیدوار اپنے باپ‘ خاوند‘ یا بیٹے کے نام کا حوالہ اور اپنے انتخابی نشان کی تشہیر کرتی ہیں۔ سابقہ مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے تحت بیرون لاہوری گیٹ سے ’اسماعیل کی والدہ‘ شاید واحد خاتون تھی‘ جنہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز رہیں لیکن آج کئی ایک ایسی خواتین ہیں‘ جن کے نام اور چہرے نہیں‘ جو اپنی شناخت سے بہ امر مجبوری محروم ہیں‘ جن میں اعتماد کے ساتھ اُن ہم عصروں کی اکثریت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں‘ جو اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت بنائے بیٹھے ہیں۔ ویلج کونسل ’کرا خیل‘ جو کہ پشاور کے نواحی علاقے ’ماشوخیل‘ کا حصہ ہے وہاں سے خاتون انتخابی اُمیدوار کا خاوند ’رابطہ عوام مہم‘ چلاتے ہوئے انتخابی نشانوں پر مشتمل جو کارڈ تقسیم کرتے پایا گیا‘ اُن پر تحریر ہے ’’ووٹ ولی خان کی اہلیہ کو دیجئے!‘‘
For effective Local Government System, women participation is must & fundamental need

Wednesday, May 27, 2015

May2015: Concision takes precision

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔دیکھا نہ جائے!
کتاب سے رشتہ توڑ کر ہم نے معاشرے کو جس راستے پر ڈال دیا ہے‘ اُس نے ہمیں ’جہالت کی وادی‘ کے کنارے لاکھڑا کیا اور آگے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ کیا یہ عجب نہیں ایبٹ آباد کی شہری علاقے کی حدود میں 6 لائبریریاں (کتب خانے) ہوا کرتے تھے جنہیں یکے بعد دیگرے ختم یا اِس حد تک محدود کر دیا گیا کہ اُن کا نام و نشان ہی باقی نہیں! مرکزی لائبریری (جلال بابا آڈیٹوریم) چھاؤنی کی حدود میں شہر کے وسطی علاقوں سے دور بنا دی گئی تو رفتہ رفتہ کتب خانہ یاداشتوں سے محو ہوتا چلا گیا۔ ’یاد ماضی‘کا بوجھ لئے ماحول دوست رضاکار محمود اسلم کا کہناہے کہ ’’ایبٹ آباد کے جی ٹی ایس اڈے کی جگہ پر خواتین کی لائبریری ہوا کرتی تھی‘ جسے ختم کر دیا گیا۔ برطانوی راج کے دوران رات 10بجے تک کتب خانے کھلے رہتے تھے اور یہی طرز عمل آج بھی یورپ و امریکہ میں دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے انگریز بہادر کی باقی ساری عادات و روایات تو اپنا لیں لیکن اُن اچھی باتوں کو چھوڑ دیا جن کی بدولت اُس کے اقتدار کا سورج غروب بھی نہیں ہوتا تھا۔ رات دیر تک کتب خانہ کھلے رکھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تاجر طبقہ اپنے دن کے اختتام پر کتب خانے سے رجوع کرے۔ اپنی دلچسپی کے مطابق مطالعہ کرنے کو اپنے معمولات کا حصہ بنائے۔ یورپ و امریکہ کے کتب خانے ایک وقت میں ہر رکن (ممبر) کو اکیس (21) عدد کتابیں جاری کرتے ہیں اور یہ عمل اب بھی جاری ہے لیکن ہمارے ہاں تین سے چھ کتابیں جاری کرنے والے اپنی جگہ محدود سوچ اور کتب کا ناکافی ذخیرہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کینیڈا کی کسی ’محلہ لائبریری‘ سے رجوع کرنے والا عام شہری اگر کوئی ایسی کتاب مانگے جو لائبریری میں موجود نہ ہو تو حکومت کے خرچ پر مطلوبہ کتاب کسی دوسری لائبریری سے منگوا کر اُس رکن کی ’خواہش‘ پوری کی جاتی ہے۔‘‘

ایبٹ آباد کے ’ٹاؤن ہال‘ میں ’نیشنل سنٹر لائبریری‘ ہوا کرتی تھی اس سے ملحقہ باغات میں ہزاروں لوگ آتے تھے جنہیں صاف ستھرے ماحول میں پنکھے و نشست گاہ اور دیگر آرام دہ سہولیات میسر تھیں تو وہ کسی بھی وجہ سے لائبریری آ جاتے تھے جہاں اور کچھ نہیں تو اخبار ہی کا مطالعہ کر لیتے۔ وفاقی حکومت کے زیراہتمام یہ کتب خانے ایک عرصے تک قائم رہے لیکن وفاقی حکومت کی یہ اہم موجودگی ختم کر دی گئی۔ عجائب گھر (میوزئم) ہونا چاہئے لیکن ’ٹاؤن ہال‘ ہی میں کیوں؟ عجائب گھر اور کتب خانہ دونوں ہی اہم و ناگزیر ضروریات ہیں اُور دونوں ہی کی الگ الگ اہمیت ہے۔ آخر ہمیں کس چیز نے روک رکھا ہے کہ ہم ہندو اوقاف کی عمارتیں فروخت تو کر رہے ہیں لیکن اس میں لائبریریاں قائم نہیں کرتے؟ حویلیاں میں ایک مندر فروخت کیا گیا جس کا رقبہ 8 مرلے تھا اُور اس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے رکھی گئی لیکن وہاں لائبریری نہیں بنائی گئی! ایبٹ آباد کی ’گوردوارہ گلی‘ میں کئی ایک ہندو عمارتیں بشمول ’گوردوارہ‘ ہے۔ قواعد کے مطابق اوقاف کی عمارت کا کرایہ اتنا ہی وصول کیا جائے گا جو اس کی تعمیر و مرمت و دیکھ بھال کے لئے کافی ہو لیکن ہمارے ہاں خطیر ماہانہ کرایہ وصول کیا جارہا ہے اور تعمیر و مرمت یا دیکھ بھال پر مالی وسائل خرچ نہیں کئے جا رہے۔ ایبٹ آباد کے ٹانچی چوک‘ کیہال یا سپلائی میں ہر جگہ سرکاری عمارتیں موجود ہیں جہاں کتب خانے بنائے جا سکتے ہیں۔ گرین بیلٹ ہیں جن پر قبضہ کر لیا گیا ہے لیکن وہاں کتب خانے نہیں بنائے جاتے۔ کچہری میں پرانے ’ایس پی آفس‘ میں قائم ’ٹریفک کورٹ‘ کالے پتھر کی بنی ہوئی عمارت بھی ضلعی انتظامیہ نے اجارے (لیز) دی ہے جبکہ اس عمارت کے ہر کونے میں عرضی نویس ڈیرے ڈالے دکھائی دیں گے اور یہ ایک عمدہ تعمیراتی شاہکار بھی ہے لیکن ایسی درجنوں سرکاری عمارتیں منہدم کر کے آئیں بائیں کر دی گئیں! ایبٹ آباد میں تعمیرات کا یہ قانون تھا کہ دو منزلہ سے زیادہ عمارت بنانے کی اجازت نہیں۔ جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ مقام زلزلہ آنے والے مقامات میں شامل ہے اور دوسرا اس سے ایبٹ آباد کے پہاڑوں (شملہ اور سربن) کا دلفریب نظارہ چھپ جاتا تھا لیکن اب ہر طرف آسمان سے باتیں کر رہی عمارتیں ہر منظر اور نظارے کو روکے ہوئی ہیں۔ آخر ان کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے قبل نقشے کس نے منظور کئے؟
اور یہ نقشے کس قانون کے تحت منظور کئے؟ پلازے کسی نے بنائے‘ ’’فیس‘‘ کی نے وصول کی اور ’’قیمت (خمیازہ)‘‘ آنے والی ہماری نسلیں ادا کریں گی!

ہم سب تین وقت روٹی کھاتے ہیں لیکن کیا ہم اس کا حق بھی کر رہے ہیں؟ سب سے آسان کام گپ شپ لگانا ہے اور یہی ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ جب ہم کسی کو ذمہ داری سونپتے ہیں تو وہ اِسے آگے منتقل کر دیتا ہے۔ عوام الناس کی اس کمزوری سے افسرشاہی آگاہ ہے جو عوام کی نااتفاقی سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں! فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’مال روڈ‘ کو کشادہ (دو سے تین رویہ) کرنے کا ہے۔ کئی بوڑھے شہری اور بچے تیزرفتار ٹریفک کی زد میں آ چکے ہیں اور جب یہی دو رویہ بڑھائی جائے گی‘ تو ٹریفک کی رفتار لامحالہ بڑھے گی۔ سب سے اہم ضرورت انسانی زندگی کا خیال ہے کہ بھلے ہی ٹریفک سست ہو لیکن کسی انسانی جان کا نقصان نہیں ہونا چاہئے۔

عمررسیدہ افراد کے لئے ’زیبرا کراسنگ‘ ہونی چاہئے۔ 80سالہ معمر شخص بھلا کیسے ’اُوور ہیڈ برج‘ کے ذریعے سڑک عبور کر سکے گا؟ دنیا کے پانچ شہروں کو ’عوام دوست‘ قرار دیا گیا‘ جہاں گاڑٖیوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے سے شروعات کی گئی ہے۔ ماحول دوستی اور انسان دوستی ہی نہیں بلکہ مغربی معاشروں کی تہذیب یہ ہے کہ وہاں جانوروں کا بھی اپنی ذات سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ مہذب معاشرہ وہی ہوتا ہے جس میں اپنی ذات کی بجائے دوسروں کا خیال رکھا جائے۔ کیا ہم کسی بھی لحاظ سے ’مہذب‘ ہیں‘ منظم ہیں اور کیا ہم نے بانئ پاکستان کے اُس پیغام کے الفاظ میں چھپے معانی کو سمجھ لیا ہے کہ ’’اتحاد اُور نظم و ضبط‘‘ کی اہمیت کیا ہے؟ جس کی گاڑی پر جھنڈا لگا ہوتا ہے وہ خود کو قانون و ضوابط سے بالاتر سمجھتا ہے اور جب تک قانون بلاامتیاز لاگو نہیں ہوں گے‘ جب تک قواعد کا اطلاق عوام کی طرح خواص پر نہیں ہوگا اور جب تک مالی و انتظامی بدعنوانیاں کرنے والوں کا احتساب ’اوپر‘ سے شروع نہیں ہوگا‘ نہ تو سوچ بدلے گی‘ نہ عمل کا ارتقاء ہو پائے گا۔ تبدیلی کا خواب اُس نیند کے ٹوٹنے سے ممکن ہے جس نے ہمیں اپنی اپنی ’خوابگاہوں‘ تک محدود کر رکھا ہے!
Environmentalist Mahmood Aslam speaks about Abbottabad, culture of book reading and importance of it preservation

Tuesday, May 26, 2015

May2015: Signs of intellect

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
علامات دانش
مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں کے عزائم اُور توقعات آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ انتخابی وعدوں کے انبار بھی پہاڑ جتنے بلند ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ صرف اتنے ہی وعدے کئے جاتے جن کا ایفاء کرنا بعدازاں عملاً ممکن ہوں لیکن ’سیاسی شعبدہ بازی‘ کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ جو جتنا ’چرب زبان‘ ہوتا ہے لوگ اُسے ہی زیادہ سننا اور اُس کی باتوں محظوظ ہو کر اپنا ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ بناء سانس لئے‘ باآواز بلند‘ مسلسل (موسلادھار) بولنا اُور بے تھکان بولتے رہنا‘ دنیا کی کسی دوسری تہذیب کا نہ تو خاصہ ہے اور نہ ہی اسے پذیرائی دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ خاموش رہنے کو ’علم وحکمت‘ اُور ’دانش‘ کی علامت سمجھتا ہے جبکہ ہمارے ہاں وحشت کا یہ عالم ہے کہ اصطلاحی اور معنوی نظام کی گنگا الٹ بہہ رہی ہے۔

 کسی دانا کا قول ہے کہ ’’جو برتن خالی ہو‘ اُس پر ٹھوک بجانے سے تیز آواز پیدا ہوتی ہے‘‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اِردگرد برپا ’روائتی انتخابی شورشرابہ‘ سے بہتری کی توقع رکھنا خودفریبی کی انتہاء ہوگی؟ کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے ہاں اُلو (owl) نامی پرندے کو بیوقوفی کی علامت قرار دیا جاتا ہے جبکہ مغربی دنیا کی کئی ایک نامور جامعات کی علامت خاموش طبع‘ ژرف نگاہ ’اُلو‘ ہے اور اِن جامعات سے تحصیل یافتہ افراد میں پاکستان کی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے والوں سمیت سیاسی جماعتوں کے کئی ایک قائدین شامل ہیں! یوں تو دنیا میں ’اُلو‘ کی قریب 200 اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ہمیں مشرقی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے تصور والے ’اُلو‘ جیسی خصوصیات رکھنے والوں کی ضرورت ہے‘ جو اپنے مشاہدے‘ علم اور حکیمانہ سوچ سے قوم کی تقدیر بدل دیں۔ جو اپنے ساتھ خوش قسمتی ہی نہیں بلکہ عام آدمی کے لئے وہ خوشخبری لائیں‘ جسے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یونانی اُور بدھ مت تعلیمات کے فلسفے میں ’اُلو‘ ایک ایسا مقدس پرندہ ہے‘ جس کا حوالہ ’ذہانت اُور مالی طور پر خوشحالی‘ لانے کے لئے دیا جاتا ہے! اُور کاش کہ ہمارے معاشرے کی یہی دو ضرورتیں پوری ہو جائیں!

صورتحال اِس قدر تاریک بھی نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مثال لیں‘ جو اپنے نام کے لحاظ سے بظاہر ’دین اسلام‘ کے ماننے والوں کی نمائندگی کرتی ہے لیکن اپنی ذات میں (داخلی طور پر) منظم و جمہوری ترین جماعت کی جانب سے جس فقیدالمثال طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے‘ وہ محتاج بیان و توصیف ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ضلع پشاور سے جماعت اسلامی نے اقلیت سے تعلق رکھنے والے 57 اُمیدواروں کو نامزد کیا ہے اور یہ تعداد دیگر ہم عصر جملہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ خود کو سیکولر‘ قوم پرست اور آزاد خیال سمیت نجانے کیا کچھ کہنے والی جماعتوں کے ہاں بھی اس بات کی مثال نہیں ملتی کہ اُنہوں نے اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے اِس قدر باریک بینی سے سوچا ہو۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ جماسلامی پاکستان کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی ضلعی‘ صوبائی اور مرکزی تنظیم اِس قدر فعال ثابت ہوئی ہے‘ جس نے ایک طرف ’جماعت‘ کے لئے نیک نامی کمائی ہے اور دوسری جانب اِس منفی کو بھی زائل کیا ہے کہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق بارے احکامات سے کتابیں بھری ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عملدرآمد نہیں کیا جاتا! یاد رہے کہ جماعت اسلامی کی جانب سے کونسلر کے لئے 47 اقلیتی افراد کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں جبکہ 10 جماعت کی جانب سے ٹاؤن اور ضلعی نشستوں کے لئے اُمیدوار ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ۔۔۔ پشاور کی اقلیتی برادری عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قریب تھی لیکن بشیر احمد بلور کے قتل اور بعدازاں اُن کی سیاسی وارثوں نے مختلف (منطقی) وجوہات کی بناء پر فعال سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ پشاور نے بشیر بلور کی طرح نڈر سیاست دان بھی نہیں دیکھا جن کا بیشتر وقت اپنے انتخابی حلقے میں بالخصوص اور پشاور کی سڑکوں پر بالعموم گزرتا تھا۔ ’اے این پی‘ ضلع پشاور کی جانب سردمہری کی وجہ سے عیسائی اقلیت ’تحریک انصاف‘ کے قریب ہو گئی اور اِس برادری سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کا یہ طرز عمل بھی رہا ہے کہ جس کی حکومت ہو اُسی کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تحریک انصاف ضلع پشاور کی سطح پر عیسائی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کو زیادہ ٹکٹ جاری کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا جاسکا جس وجہ تحریک ذرائع کے مطابق کم تعداد میں ملنے والی درخواستیں تھیں تو یہ کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ مالی طور پر کمزور عیسائی اقلیت کی اکثریت میں مخلص کارکنوں کی کمی نہیں۔ اقلیتوں کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی سوچ کا انداز اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پشاور سے پاکستان پیپلزپارٹی نے 11‘ تحریک انصاف نے 17 اور جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے 13 افراد کو مقامی حکومتوں کے لئے نامزدگیاں عنایت کی ہیں۔ جماعت اسلامی کی جانب سے جاری ہونے والے ٹکٹوں میں اکثریت مسیحیوں کو دی گئی ہے جبکہ تین سکھ اقلیتی افراد بھی جماعت اسلامی کے ٹکٹ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناطے ’ضلع پشاور‘ میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح اقلیتی برادری سے معاملہ کیا ہے‘ اُس کا عکس دیگر اضلاع میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

Sunday, May 24, 2015

May2015: LG Polls and surveillance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خوشگوار و دلخراش
حقوق اِنسانیت کے عالمی منشور کے آرٹیکل نمبر اکیس کی تیسری شق میں تحریر ہے (ترجمہ) ’’عوام کی رائے حکومت کے اختیار کی اساس ہوگی۔ اِس رائے کا اظہار معیادی (مقررہ وقفہ کے بعد) اور حقیقی انتخابات میں ہوگا جو کہ برابری‘ بالغ رائے دہی اور خفیہ ووٹ (ڈالنے) کے (عمل کے) ذریعے ہوں گے۔‘‘ اصطلاحی ومعنوی اور جمہوری نظام کے ثمرات سے ہر طبقے کے مستفید ہونے کے لئے عالمی سطح پر چناؤ کے عمل کی تعریف و وضاحت تو کر دی گئی ہے‘ لیکن اِسے مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔ اِس تصور کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ’عام انتخابات کے ذریعے جو نمائندے چنے جائیں گے‘ اُن سے مقامی حکومت بنے گی لیکن ’رائے دہی‘ کا اظہار خفیہ اور کسی دھونس‘ دھمکی یا تشدد یا خوف کے بغیر ہونا چاہئے جبکہ نتائج کا اعلان بھی بلاتاخیر اور سوفیصد درست ہونے چاہیءں۔ اِس مقصدکے لئے ’الیکشن کمیشن‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جو آزادانہ و منصافانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ذمہ دار ہے لیکن اگر انتخابات کی نگرانی کا عمل اُمیدواروں کی جانب سے کیا جائے تو اس کی وجہ سے 1: غلطیوں یا دھاندلی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔2: انتخابی عمل اور نتائج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ 3: بعدازاں فیصلہ سازی کرتے ہوئے جمہوری طریقوں سے کام لیا جائے گا۔ 4: اگر تنازعہ پیدا ہوا تو اُس کے پرامن حل کی راہ موجود ہوگی اور 5: طرزحکمرانی میں عام آدمی کے حقوق کا تحفظ‘ حقوق انسانی کا احترام اور مالی و انتظامی ضوابط پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

سیاسی و انتخابی تجربہ کاروں نے ’مقامی حکومتوں‘ کے انتخابات کو نادر موقع سمجھ لیا ہے‘ جس کے ذریعے وسائل اور فیصلہ سازی کا عمل بھی اُنہی طاقتوں کے ’تابع فرمان‘ بنا دیا جائے‘ جن کا منصب اگرچہ قانون سازی ہے لیکن اِس کے علاؤہ دیگر امور میں اُن کی دلچسپی نے پورے منظرنامے کو چند خاندانوں کے لئے خوشگوار اور عوام کی اکثریت کے لئے دلخراش تجربہ بنادیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے نامزدگیاں حاصل کرنے والوں میں وہی لوگ شامل ہیں جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں۔ کسان کونسلر بننے میں وہ دلچسپی لے رہے ہیں جن کا زراعت سے دور کا بھی تعلق یا واسطہ نہیں! دوسری جانب حیرت انگیز امر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرح سیاسی جماعتوں نے بھی پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمندوں سے بھاری فیسیں وصول کیں ہیں اور جن درخواست دہندگان کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے گئے اُنہیں نہ تو فیس واپس کی گئی اور نہ ہی اُن سینکڑوں کروڑوں روپے کا حساب دیا جائے گا‘ جو ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ’پارٹی ٹکٹوں‘ کی مد میں وصول کئے گئے۔ یہی ماضی کی بھی روایت رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں داخلی طور پر ’سوال کرنے‘ کی ممانعت رہتی ہے۔ ’سرتسلیم خم‘ کرنے اور پارٹی سربراہ یا اُن کے اہل خانہ سے تعلقات کی بنیاد کتنے اہم اور کسی سیاسی کارکن کے مستقبل کے لئے کتنے اہم ہوتے ہیں‘ یہ بات ’تہہ در تہہ مفادات‘ کی پرتوں میں بند ہے اور اِس گرداب سے نکلنے کی واحد صورت ’عام انتخابات‘ ہیں جس کے درپیش مرحلے پر اُن ناتجربہ کاروں سے درخواست ہے کہ وہ ’پولنگ کے دن‘ کے لئے ابھی سے تیاری و منصوبہ بندی کریں۔ یاد رکھیں کہ غلطیاں انسانوں سے سرزد ہوتی ہیں۔ اگر کسی پولنگ بوتھ پر انتخابی عملے سے غلطی سرزد ہو بھی جائے‘ تو جذبات پر قابو رکھیں اور پولنگ کے مقررہ اوقات میں خلل کسی بھی صورت نہ آنے دیں۔ پولنگ اسٹیشن کو کسی بھی صورت خالی نہ چھوڑیں اور نہ ہی اپنی نگرانی کی ذمہ داری کسی دوسرے کو سونپ کر اطمینان محسوس کریں۔ انتخابات کے دن ووٹ ڈالنے کے عمل کی نگرانی سے زیادہ کوئی دوسرا اہم کام ہو ہی نہیں سکتا۔ بطور ’پولنگ ایجنٹ‘ اپنے اُمیدوار کے مفادات کا تحفظ ایک ایسی ذمہ داری ہے‘ جو زیادہ محنت و توجہ طلب ہے۔ جب تک ایک کی جگہ دوسرا ’پولنگ ایجنٹ‘ نہیں لے لیتا‘ نمائندے خود کو پولنگ بوتھ میں محصور رکھیں۔ کسی بے قاعدگی کی صورت میں بذریعہ فون کال یا ٹیکسٹ میسج (ایس ایم ایس پیغام) کے ذریعے اپنے نمائندے کو مطلع کریں۔ ایسے سمارٹ فون کا استعمال کریں جس میں کیمرہ موجود ہو‘ تاکہ کسی بے قاعدگی کی تصویر یا فلم بنا سکیں۔

انتخابی اُمیدواروں کی پہلی ترجیح ایسے پولنگ ایجنٹ ایجنٹس کا انتخاب ہونی چاہئے جنہیں انٹرنیٹ کے استعمال اور ’واٹس ایپ‘ سے واقفیت ہو تاکہ صوتی و تصویری مواد فوری طور پر جاری کیا جاسکے۔ انتخابی اُمیدوار واٹس ایپ (What's App) پر ’پولنگ ایجنٹس کے ’گروپ (Group)‘ بنا کر باہم رابطہ کاری کی مشق کریں۔ ٹیکنالوجی سے دھاندلی کو ظاہر بھی کیا جاسکتا ہے اور اس طوفان کو روکنا بھی ممکن ہے۔ ایک دن کے لئے موبائل انٹرنیٹ کی سہولت دس روپے جیسی معمولی ادائیگی کے عوض حاصل کی جاسکتی ہے۔ بطور پولنگ ایجنٹ جب تک ثبوت محفوظ نہ کر لئے جائیں اُس وقت تک الزام تراشی سے گریز کریں بلکہ توجہ اور توانائیاں زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھا کرنے پر مرکوز و صرف کریں۔ اپنے ساتھ پانی کی بوتل‘ کھانے پینے کی اشیاء‘ موبائل فون کی اضافی بیٹری یا چارجر‘ ایک عدد ڈائری اور قلم ضرور رکھیں تاکہ یاداشتیں ترتیب وار درج کرتے رہیں۔

 انتخابات کی نگرانی صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہیں جبکہ قواعد وضوابط کے بارے میں ہر پولنگ ایجنٹ کا مطالعہ وسیع ہو۔ اگر ایک ووٹ چیلنج کرنے کی فیس 2 روپے مقرر ہے تو آپ کے پاس مقررہ فیس ادا کرنے کے لئے سکے ایک تھیلی میں ہونے چاہیءں۔ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں ایسے متنازعہ ووٹوں کا شمار اور اُن کی الگ گنتی میں غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد جب تک گنتی کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا اور کسی پولنگ بوتھ کے نتیجے پر تحریری طورپر تمام پولنگ ایجنٹس دستخط کرکے آپ کو ایک عدد کاپی (نقل) فراہم نہیں کر دی جاتی‘ اُس وقت تک کامیابی کی خوشی یا کم ووٹ ملنے کے افسوس میں ’پولنگ بوتھ‘ سے رخصت نہ لیں کیونکہ انتخاب کا نتیجہ کسی ایک پولنگ بوتھ پر منحصر نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں کہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کا مقابلہ ایسے تجربہ کاروں سے ہے جو صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اُن کا مقابلہ صرف اور صرف بیدار (فوکس) رہنے ہی سے ممکن ہے

TRANSLATION: Operation Stalemate

Operation Stalemate
بحالی اَمن:ممکنہ  اَہداف
واقعات کا تسلسل ملاحظہ کیجئے۔ رواں برس ماہ جنوری میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ’قومی سطح پر حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان)‘ وضع کی گئی۔ جنوری ہی میں پاک فوج کی معاونت سے ایک اعلیٰ سطحی ذیلی مجلس (اپیکس کمیٹی) تشکیل دی گئی‘ جس کی بنیادی ذمہ داری ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد ممکن بنانا اور مہمات کی رفتار کا جائزہ لینا تھا۔ مارچ میں متحدہ قومی موومنٹ کے صدر دفتر (نائن زیرو) پر چھاپہ مارا گیا‘ جہاں سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور انتہائی مطلوب مجرم گرفتار کئے گئے۔ ماہ اپریل کے دوران کراچی میں ’اپیکس کمیٹی‘ کا ایک اجلاس طلب کیا گیا‘ جس میں صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نگرانوں نے شرکت کی۔ اِس غیرمعمولی اجلاس کے بعد یہ تاثر لیا جانے لگا کہ سیاسی شخصیات اُور قانون نافذ کرنے والے اِداروں پر مشتمل ’اَپیکس کمیٹی‘ کا وجود غیراعلانیہ طور پر ختم کردیا گیا ہے؟ ماہ مئی کے دوران لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کہا کہ ’’سندھ حکومت بے صلاحیت (نااہل) ثابت ہوئی ہے۔‘‘

پس منظر: 14مئی 2006ء کو پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے درمیان ’بقائے جمہوریت‘ کے لئے سیاسی تعاون کی ایک یاداشت (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر اتفاق اُور دستخط ہوئے جس میں تحریر ہے کہ فوج کے ماتحت سرکاری اداروں کا اختیار حکومت اپنے ہاتھ میں لے گی۔ خفیہ اداروں کی سیاسی شاخوں (پولیٹیکل سیل) ختم کئے جائیں گے اور اِس یاداشت کے اختتام پر دونوں جماعتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ’عسکریت پسندی آمرانہ ادوار کا حاصل (ذیلی پیداوار) ہے۔‘

وزیراعظم نواز شریف کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ سندھ حکومت کے معاملات سے کنارہ کش رہا جائے جہاں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور تمام کلیدی فیصلے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی منظوری سے نافذ العمل ہوتے ہیں۔ دوسری جانب شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا سیاسی لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے تندوتیز حملوں اور جنونی یلغار کا مقابلے کرنے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا ساتھ ڈھال کی صورت دے رہے ہیں۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین اپنے ایک بیان میں اشارتاً کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی شعبدہ گری سے معیوب ہونے والے نہیں اور نہ ہی سندھ حکومت کے چلے جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کی نظر میں سندھ حکومت کے معاملات خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین (پیپلزپارٹی) کراچی کی صورتحال میں متحدہ قومی موومنٹ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ چھٹا نکتہ یہ ہے کہ شریک چیئرمین کے خیال میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اُن کے خلاف جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ کسی کے اشارے یا حکم کی تعمیل ہے۔

پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل راحیل شریف کے دور میں پاک فوج کی ساکھ اُور کارکردگی گذشتہ چار دہائیوں کے مقابلے بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ حالیہ چند دہائیوں کے دوران اُن کے ہم منصب کسی دوسرے فوج کے سربراہ کو اِس قدر عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔ اگر ہم پاک فوج کے سربراہ کی اختیار کردہ حکمت عملی اور اُن کے اقدامات و ترجیحات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی ترجیح قبائلی علاقوں میں جاری فوجی کاروائی ضرب عضب کی کامیابی سے تکمیل اور اس کاروائی سے جڑے ہوئے جملہ اہداف کا حصول ہے۔ دوسری ترجیح کراچی میں سیاست اور جرائم کے درمیان تعلق داری کو ختم کرنا ہے۔ تیسری ترجیح دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان‘ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا اور اِس حکمت عملی انجام تک پہنچانا ہے۔ چوتھی ترجیح ’ایپکس کمیٹی‘ کے فعالیت کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور ساحلی شہر سے عسکریت پسندوں کے قدم اکھاڑے جا سکیں۔ پانچویں ترجیح فوجی عدالتوں کے قیام میں تعاون فراہم کرنا ہے تاکہ فوری انصاف کے ذریعے سماج دشمن عناصر کو بلاتاخیر انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اب تک کی جانے والی کاروائیوں سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں اہم کاروائی کو ایک جبکہ کاروائی کی راہ میں حائل چار رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ یہ رکاوٹیں اور ان کی بنیادی وجوہات کا مرکزی نکتہ ’اعتماد و بھروسے کا فقدان‘ ہے یعنی فوج کے ادارے اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک دوسرے کی کوششوں اور نیت پر مکمل اعتماد نہیں پایا جاتا۔ فوج کا اصرار ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے۔ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ فوج عسکریت پسندوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کاروائی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے جو اقتدار میں آنے کی وجوہ بھی ہو سکتی ہے۔ سیاست دان روائتی طرز حکمرانی کو جاری و ساری رکھنا چاہتے ہیں اور فوج اس تسلسل کا خاتمہ چاہتی ہے۔ پاکستان کئی ایک بحرانوں سے گزر رہا ہے جس میں ایک طرف عسکریت پسندوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ جاری ہے اور دوسری طرف سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان اعتماد کی کمی کے سبب معاملات میں پیچیدگیاں آ رہی ہیں۔ توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سازی اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ وقت کا دانشمندانہ اور درست استعمال کسی بھی محاذ پر کامیابی کا حصول ممکن بنا سکتی ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیر حسین  اِمام)

Saturday, May 23, 2015

May2015: Language of our media

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اُردو: قوس قزح کے رنگ!
حبیب الرحمان صاحب کی فون کال آئی حکم ملا کہ ’ٹھوس گندگی‘ کی بجائے ’کوڑا کرکٹ‘ استعمال کیا جائے۔ وہ ’اہلیان‘ کی جگہ ’اہل‘ کا لفظ استعمال کرنے کی بھی تلقین کرتے ہیں اور یہ اُن کی اپنے پیشے سے دیانتداری کا منہ بولتا اظہار ہے کہ وہ ہر موقع پر اصلاح کرتے ہیں بلکہ اصلاح کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ (اللہ اُن کا سایہ تادیر سلامت رکھے) سوچئے کہ ہمارے ہاں ایسے کتنے اخبارات ہیں جن کے ایڈیٹرز خود کو صحافت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں؟

خلدآشیاں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (مرحوم) کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں جب وہ جامعہ پشاور کے شعبہ اُردو میں لیکچر دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے کہ ’’یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔‘‘ چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا (ذرائع ابلاغ) اُردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ کاش ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے اور زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کے غلط استعمال کی اصلاح کرتے جو الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناًاہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لئے انتہائی تشویش (تکلیف) کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے‘ حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں!

غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں‘ اشتہارات‘ سیاسی و معاشرتی مباحثوں‘ خبروں اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔ سرکاری ٹی وی (پاکستان ٹیلی ویژن) پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھنے کی روایت موجود ہے‘ تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور‘ عبیداللہ بیگ‘ ضیاء محی الدین‘ طارق عزیز‘ مستنصر حسین تارڑ‘ انور مقصود‘ لئیق احمد‘ فراست رضوی‘ مختار علی نیئر جیسے شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔ تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اُردو کے علاؤہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات ’ق‘ کو ’ک‘ اور فارسی بان ’ق‘ کو ’غ‘ پڑھتے ہیں۔ گجراتی بولنے والے ’س‘ کو ’ش‘ اور ’ش‘ کو ’س‘ تلفظ کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے ’آپ کیا کرتے ہو‘ ۔۔۔ ’آپ جاؤ گے‘ ۔۔۔ ’آپ چائے پیو گے‘ یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔ لڑکیوں کے لئے لفظ ’بیٹی‘ کی جگہ ’بیٹا‘ استعمال کرنا ’’غلط العام‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لئے ان جملوں کا استعمال کہ ’بیٹا آپ کہاں جارہے ہو‘ یا ’آپ کیسے ہو‘ وغیرہ نہ صرف قواعد کی رو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں!

اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ ’عوام‘ کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے‘ ۔۔۔ عوام تو بے اختیار ہوتی ہے وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں! کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جیسے لفظ ’گڑبڑ‘ کی جگہ ’پنگے‘ کو استعمال کرنا۔ اسی طرح ’کہا‘ کے بجائے ’بولا‘ ۔۔۔ ’مجھے‘ کی جگہ ’ میرے کو‘ ۔۔۔ ’کیا‘کی جگہ ’کرا‘ وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔ چاہے پرنٹ میڈیا (اخبارات و جرائد) ہوں یا الیکٹرانک صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے‘ تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اُردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہئے!

معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول ’’بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں‘ ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل ہے جو ازخود وقوع پذیر ہوتا ہے مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

 اُردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لئے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان‘ سکول اور ان کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قومی المیہ دانستہ عمل نہیں بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے!
Mind your language

TRANSLATION: Weddings & our society!

Social Issues & weddings
شادی بیاہ رسومات اور خرابیاں
’’سارہ! بیٹا تیار ہو جاؤ‘ تمہاری خالہ لڑکے والوں کو لے کر آتی ہی ہوں گی۔ دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے‘ اوپر سے کھانے پینے کے انتظامات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔‘‘ گذشتہ نا خوشگوار تجربوں سے اکتائی ہوئی سارہ کہتی ہے: ’’جی امی! ہوجاتی ہوں تیار۔ ان لوگوں نے کون سا مجھے دیکھتے ہی پسند کرلینا ہے‘ ہر بار کی طرح آئیں گے‘ اپنی تواضع کروائیں گے‘ اور پھر کوئی نہ کوئی خامی نکال کر چلے جائیں گے۔‘‘ ایک سارہ ہی نہیں جو آئے روز اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرتی ہے اور رشتے کے لئے آنے والوں کے چبھتے سوالات کے نشتر سہتی ہے۔

پاکستان کا متوسط طبقہ (مڈل کلاس) گھرانوں میں یہ رجحان تعلیم اور ترقی کے باوجود ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کے ان حالات سے گزرنے کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں‘ جن میں سے ایک اہم وجہ پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا بھی ہے۔ اسی لئے یہاں لڑکیوں کی شادیاں مناسب وقت پر ہونا اور ان کے لئے مناسب رشتے کی تلاش کرنا لڑکی کے ماں باپ کے لئے کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے اور کم و بیش ہر گھر میں ہی لڑکیوں کو ان دشوار اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے شدید کوفت کا باعث بنتے ہیں۔

لڑکی دیکھنے کے لئے آنے والوں کے سوالات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں: ’’کتنی عمر ہے‘ قد کتنا ہے‘ تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے۔‘‘ اس موقع پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے بیٹے کے لئے لڑکی دیکھنے آئے ہیں‘ کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا طے کرنے نہیں! ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لڑکیوں کی مائیں اس موقع پر اپنی بیٹی کی خوبیاں گنوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں‘ جبکہ دوسری جانب لڑکوں کی مائیں بھی اپنے فرزند کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتیں۔ شہزادے کے لئے شہزادی کی تلاش میں وہ لڑکیوں کا ہر زاویے سے جائزہ لیتی ہیں اور اس جانچ پڑتال میں وہ ذرا بھی شرم یا عار محسوس نہیں کرتیں۔ لڑکی پر ایسے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے جو بعض اوقات اسے شرم سے پانی پانی کردیتے ہیں۔ لڑکی پسند کرنے کے دوران نہ صرف لڑکے کے اہل خانہ‘ بلکہ خود لڑکے کا بھی دماغ بھی آسمان پر ہوتا ہے۔ اس سوچ کو دوہرا معیار کہیں یا خودپسندی کہ لڑکا کتنا ہی نکما‘ بدشکل‘ یا ان پڑھ ہو‘ اسے ہونے والی دلہن خوب صورت اور تعلیم یافتہ چاہئے ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں نے اپنی سوچ کو بھی ڈھال لیا ہے‘ مگر لڑکی پسند کرنے کے پیمانے پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی پرانی روایتی سوچ پر قائم ہیں۔

ہمارے اس قدامت پسند معاشرے میں لڑکے کی ماں ہونا اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت لڑکے کی ماں ہونے کے زعم میں یہ تک بھول جاتی ہے کہ جو امتحان وہ دوسروں کی بیٹیوں کے لے رہی ہے‘ ان کا سامنا ماضی میں وہ خود بھی کرچکی ہے‘ جنہیں نہ بھولتے ہوئے دوسروں کی بیٹیوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے مگر یہاں لڑکے کی ماں کا اپنے ماضی کے تجربوں کو دہراتے ہوئے مطالبہ ہوتا ہے: ’’میری ہونے والی بہو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر طرح کے گھریلو امور میں طاق ہونی چاہئے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر شوہر کے ساتھ معاشی معاملات میں بھی ہاتھ بٹا سکے‘ مگر عمر کی زائد نہ ہو۔‘‘ ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کم عمر بھی ہو؟ یہ تضاد نجانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں سیاہی سے سفیدی لے آتا ہے اور وہ والدین کے گھر میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑکے والوں کا یہ حوصلہ شکن رویہ بے بس والدین کی اپنی بیٹی بیاہنے کی خواہش کو ماند کرتا چلا جاتا ہے! بعض دفعہ لڑکے کے والدین بے رحم خریدار کی شکل میں لڑکی کا وزن‘ قد‘ اور چہرے کے خدوخال کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں‘ یہ بھولتے ہوئے کہ ان کا بیٹا کوہ قاف سے آیا شہزادہ نہیں‘ یا اس لڑکی نے اپنے خدوخال خود تخلیق نہیں کیے ہیں جو اس کا اتنا کڑا امتحان لیا جارہا ہے۔اگر لڑکے والے اپنی کڑی شرائط پر پورا اترنے والی لڑکی پسند کر بھی لیتے ہیں‘ تو اس کے بعد اگلا مرحلہ لڑکی کے والدین کے لئے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

 شادی کے انتظامات کی طویل فہرست ان کے سپرد کر دی جاتی ہے‘ جسے ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لہٰذا بیٹی کو رخصت کرنے کے لئے والدین قرض لیتے ہیں‘ یا اپنی عمر بھر کی جمع پونجی بیچ دیتے ہیں‘ اس بات کا ڈر دل میں بٹھائے کہ کہیں ان کی بیٹی گھر نہ بیٹھی رہ جائے‘ زمانہ کیا کہے گا‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر مجبور والدین کا مقصد ہر مشرقی سوچ رکھنے والے ماں باپ کی طرح جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونا اور اسے اپنے گھر آباد دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے معاشرے سے اس فرسودہ طریقے سے لڑکی پسند کرنے کی سوچ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں خود سے شروعات کرنی ہوگی‘ کیونکہ یہ فرسودہ سوچ ہمارے معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنانے کے بجائے مزید تنزلی کی جانب لے جارہی ہے۔

لڑکے والوں کے ان اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لئے پہلا قدم لڑکی کے والدین کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ اپنی بیٹی کو شو پیس (نمائشی چیز) کی طرح سجا کر لڑکے والوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لڑکے والوں کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوتا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں کے ماں باپ کسی بھی صورت میں جلد سے جلد لڑکی کی شادی چاہتے ہیں‘ لہٰذا وہ بھی ہر طرح کا جائز و ناجائز مطالبہ منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس لئے بیٹی کو بوجھ کے بجائے رحمت سمجھیں‘ جب اس کی شادی کا درست وقت آئے گا‘ تو خدا کی مدد سے یہ مرحلہ بخوبی سر ہوجائے گا۔دوسری جانب لڑکے والوں کو بھی اپنا لڑکی پسند کرنے کا پیمانہ تبدیل کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے گھر کی بہو اور بیٹے کی بیوی تلاش کرتے یہ پہلو مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ لہٰذا لڑکی کے منفی پہلوؤں کے بجائے مثبت پر زیادہ غور کریں‘ اسی سوچ پر چل کر ان کا گھرانہ ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے گا اور ان کی آنے والی نسلیں بلند اخلاق اور اعلیٰ روایات کی حامل ہوں گی۔
 
(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: مدیحہ خالد۔ ترجمہ:شبیر حسین اِمام)

May2015: Galiyat Ayubia Chairlift

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلیات: سیاحت و ترقی کے امکانات
خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’ہزارہ ڈویژن‘ میں گلیات کو خاص مقام حاصل ہے جہاں کے قابل دید مقامات میں ’ایوبیہ چیئرلفٹ‘ بھی شامل ہے جو 22 مئی سے غیراعلانیہ طور پر بند کر دی گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عرصہ دو برس کے لئے 6 کروڑ روپے کے عوض جو ٹھیکہ دیا گیا تھا وہ 19اپریل کو ختم ہوا‘ جس کے بعد معاہدے میں ایک ماہ کی توسیع کی گئی لیکن 30 دن گزرنے کے باوجود کسی نئی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں جا سکا اور نتیجہ یہ نکلا کہ 22 مئی سے چیئرلفٹ بند کر دی گئی۔ اِس سلسلے میں داخلی حالات سے واقف کار کا کہنا ہے کہ ’’جب حکومتی ادارے آکشن (نیلامی) ہی نہیں کریں تو کوئی بھی ازخود ٹھیکے دار کیسے بولی میں حصہ لے سکتا ہے!‘‘ متعلقہ حکومتی اِداروں (گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ) کی جانب سے اِس بات کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی کہ وہ ’چیئرلفٹ‘ کے لئے گھنٹوں کی مسافت طے کر کے آنے والے سیاحوں کو آگاہ کرتی کہ اگر وہ وادیوں کی سیر کے لئے ’عازم ایویبہ‘ ہیں تو زحمت نہ کریں۔

ایوبیہ کی سیر کے لئے آنے والوں نے گھر سے چلتے ہوئے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ ایک ایسے پہاڑی مقام پر جا رہے ہیں جہاں اُنہیں ’’کھولی جائے کھولی جائے۔۔۔چیئرلفٹ کھولی جائے‘‘ کے نعرے لگانے پڑیں گے۔ تیئس مئی کے روز احتجاج کرنے والوں میں شامل نوجوانوں کی بڑی تعداد صوبائی محکمے ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)‘ کی سردمہری سے گلہ مند دکھائی دیئے جنہوں نے ’چیئرلفٹ‘ بند کرنے کی اطلاع نہ تو ذرائع ابلاغ میں شائع کی اور نہ ہی لفٹ کے مقام پر کسی قسم کا کوئی اطلاعیہ بورڈ آویزاں کیا گیا کہ ’’چیئرلفٹ کب تک کے لئے بند ہے؟ کب کھولی جائے گی اور لفٹ بند کرنے کی وجوہات کیا ہیں۔‘‘ ایوبیہ کی چیئرلفٹ کے مقام پر تیس سے چالیس کیبن (عارضی دکانیں) ہیں جن سے وابستہ مقامی تاجر اور مزدور سارا سال موسم گرما کے سیزن (مئی سے اگست تک) کا انتظار کرتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ایوبیہ میں سیزن کے دوران لاکھوں کی تعداد میں خاندان آتے ہیں لیکن صوبہ پنجاب کے بالائی سیاحتی مقامات کی نسبت خیبرپختونخوا کے بالائی علاقے انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ایبٹ آباد سے ایوبیہ تک گلیات کی سیرگاہیں چالیس کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہیں‘ جہاں سیزن کے آغاز سے قبل تجاوزات کے خلاف کاروائی ختم نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے نتھیاگلی بازار کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے جبکہ نتھیاگلی سے ایوبیہ تک سڑک کی توسیع کے کام کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ بھی معطل رہتا ہے۔ ایوبیہ کے مقام پر 1964ء سے جاسمین ہوٹل کے مالک پچاس سالہ نیاز محمد کا کہنا ہے کہ ’’چیئرلفٹ 1965ء میں قائم ہوئی لیکن اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ محض ٹھیکہ ختم ہونے کی وجہ سے چیئرلفٹ یوں بند کردیگئی ہو۔ نئے ٹھیکے کے لئے ’جی ڈی اے‘ نے 8 جون کا دن مقرر کیا ہے جس کے بعد کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے مزید چند دن درکار ہوں گے یوں پورا ایک مہینہ چیئرلفٹ بند رہے گی۔ پہلے ٹھیکیدار نے کم وبیش 6 کروڑ 1 لاکھ روپے کے عوض ٹھیکہ لیا تھا لیکن چیئرلفٹ کی تعمیرو مرمت اور ترقی پر ایک روپے بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ صرف چیئرلفٹ ہی کی حالت اچھی نہیں بلکہ راہداریاں اور سیڑھیاں تک ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ایویبہ کے چیئرلفٹ کی جگہ پر سات سے آٹھ ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ یہاں آٹھ سے دس فٹ برف کی وجہ سے تین ماہ تک زندگی مفلوج رہتی ہے اور مقامی افراد کے لئے موسم گرما کے یہی دن کمائی کے ہوتے ہیں جن پر انہیں پورا سال گزارہ کرنا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کو دردمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ایک تو چیئرلفٹ کو کمائی کا ذریعہ نہ سمجھا جائے کہ اس سے کروڑوں روپے کمائے جائیں اور نہ تو ایوبیہ کی تعمیر و ترقی ہو اُور نہ ہی سیاحوں کے لئے سہولیات کا خاطرخواہ بندوبست کیا جاتا ہے۔‘‘ گلیات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کا موسم قابل بھروسہ نہیں ہوتا۔ موسم کی پیشنگوئیاں اگر کسی نے غلط ثابت ہوتے دیکھنی ہیں تو وہ یہی مقام ہے۔ پل میں بارش اور پل میں دھوپ رہتی ہے۔ یکایک سردی ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لئے نہ تو خاطرخواہ رہائش و طعام کی سہولیات ہیں اور نہ ہی اُن کی رہنمائی یا مدد کے لئے حکومت کی جانب سے بندوبست کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت جنت نظیر وادیوں میں سیاحت کے امکانات سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ ایوبیہ سمیت گلیات کی حسین وادیاں سرمایہ داروں کی پرتعیش رہائشگاہوں کے لئے مخصوص کردینا انصاف نہیں۔

 متوسط اور کم آمدنی والے طبقات اگر بال بچوں کے ساتھ چند گھڑیاں ایوبیہ چیئرلفٹ کے ذریعے کل تین کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد جس پہاڑی پر پہنچا جاتا ہے اُسے ’ٹاپ اسٹیشن‘ کہا جاتا ہے جہاں تین پارک (سبزہ زار) ہیں۔ جہاں 10 کیبن اور ’جی ڈی اے‘ کا ایک ہوٹل ہے جہاں قیام کی سہولت تو نہیں لیکن وہاں اشیائے خوردونوش باآسانی مل جاتی ہیں۔ چیئرلفٹ صبح دس سے شام چھ بجے تک چلتی ہے جس سے استفادہ کرنے کی فیس 160 روپے مقرر ہے۔ دو افراد کو 320 روپے فی ٹرپ (ایک چکر) دینا پڑتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مری کے مقابلے ایوبیہ چیئرلفٹ کے مقابلے نسبتاً سستی ہے۔ مری کی چیئرلفٹ میں دو افراد کا کرایہ 460روپے مقرر ہے لیکن کم کرایہ ہونے کے باوجود چونکہ چیئرلفٹ فعال ہی نہیں‘ اِس لئے سیاح اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھا پا رہے۔نجی شعبے کے تعاون سے ایبٹ آباد (ٹاؤن شپ) سے ٹھنڈیانی کے لئے چیئرلفٹ کا منصوبہ بھی ایک عرصے سے التوأ کا شکار ہے اور اگر ہزارہ ڈویژن میں سیاحتی امکانات کو ترقی دی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف روزگار کا پائیدار حصول ممکن ہوگا بلکہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کی آمدورفت سے خیبرپختونخوا کے بارے میں یہ منفی تاثر بھی زائل ہو جائے گا کہ اِس صوبے میں سوائے انتہاء پسندی و عسکریت پسندی کچھ نہیں پایا جاتا۔ مہمان نوازی کی طرح خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات بھی ایک مستند حوالہ ہے جنہیں ترقی دے کر نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر نیک نامی اُور زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
Ayubia Chairlift closed down because of the lease expired

Friday, May 22, 2015

May2015: LG Polls Training by PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیر حسین اِمام
مقامی حکومتیں‘ تربیتی مواقع
ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام حکومت) کے قیام کو زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے اور اس بات کا ثبوت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جاری وہ تربیتی عمل ہے جس میں بالخصوص خواتین کی شرکت ترجیح رکھی گئی ہے۔ پہلی تربیتی نشست اٹھارہ اپریل کے دن صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہوئی‘ جس سے 32خواتین مستفید ہوئیں۔ جس کے بعد بائیس مئی کو ہزارہ ڈویژن کی سطح پر تربیت کا انتظام پرفضا ’ایبٹ آباد‘ کے خیبرپختونخوا ہاؤس میں کیا گیا جس میں مجموعی طور پر 47 ایسی خواتین نے حصہ لیا جو یا تو بذات خود ’مقامی حکومتوں‘ کے انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے رہی ہیں یا پھر وہ دیگر اُمیدواروں کے لئے پولنگ کی نگرانی کا عمل سرانجام دیں گی۔ تاکہ ’ووٹ ڈالنے والے دن (پولنگ) کے مراحل‘ طے کرنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ اصولی طور پر اِس قسم کی نشست کا انتظام ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کو کرنا چاہئے تھا لیکن یہ ذمہ داری کئی ایک غیرسرکاری تنظیموں بشمول ’سکائینز‘ کو دی گئی ہے‘ جو ’کم وقت اُور مقابلہ سخت کی ماحول‘ میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی جانب سے پولنگ سے متعلق تربیت کی سہولت کار ’ٹریننگ ونگ کی نگران‘ معروف سماجی کارکن ڈاکٹر رخشندہ پروین نے کی‘ جو ذرائع ابلاغ کی بھی ماہر ہیں اور اُنہوں نے اپنی اِس مہارت کا فراخدلی سے استعمال کیا۔ اِس موقع پر تحریک انصاف کی نائب صدر برائے شعبہ خواتین نورین ابراہیم نے خواتین پر زور دیا کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابی مراحل میں خاطرخواہ دلچسپی اور دانستہ طور پر عملی حصہ لیں۔ ضلعی سیکرٹری برائے خواتین طلعت یاسمین‘ ایبٹ آباد تحصیل کی نائب صدر عظمیٰ ریاض جدون بھی بطور میزبان بھاگ دوڑ میں مصروف دکھائی دیں۔ یاد رہے کہ پشاور میں ہوئی تربیت میں سینیٹر ثمینہ عابد جبکہ ایبٹ آباد میں رکن قومی اسمبلی نفیسہ خٹک کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اُور اِن دونوں قانون ساز اسمبلیوں کی اراکین نے کارکن خواتین سے ملاقات اور براہ راست بات چیت میں بہت سے پارٹی کے داخلی و انتظامی اُور متعلقہ سیاسی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا‘ جو عرصہ دراز سے وضاحت طلب تھے۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین نے خواتین پر زور دیا کہ وہ ’’سست روی کی بجائے مستعدی کا مظاہرہ کریں۔ مشاہدے کی تقویت کے لئے گردوپیش پر نگاہ رکھتے ہوئے خواتین اظہار رائے سے زیادہ سننے کی صلاحیت کا استعمال کریں۔ ’باڈی لینگویج (طرز عمل)‘ کو حسب حال رکھیں اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ حاضر دماغی اور حاضر جوابی کا مظاہرہ کریں۔ تاثرات کا برملا اظہار کرنے میں مصلحت یا خاموشی سے کام نہ لیں بلکہ ضرورت کے مطابق بولیں اور دوسروں پر اپنا مؤقف مسلط کرنے سے گریز کریں۔ بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے سختی سے نہیں لیکن مضبوطی سے اپنی بات کہنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر حزب مخالف کو مجبور نہیں بلکہ قائل کرنے کے لئے دلیل اور منطق کی آمیزش سے کام لینا ضروری بلکہ کامیابی کی کنجی ہوتا ہے۔ خواتین خود کو زیادہ باخبر رکھیں۔ انتخابات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ مثال کے طور پر انتخابات کب ہو رہے ہیں۔ پولنگ کے اوقات کیا ہوں گے۔ پولنگ کے مراکز کہاں کہاں ہوں گے۔ ایک ووٹر کو کتنے ووٹ ڈالنا ہوں گے۔ خواتین کو متعلقہ پولنگ مراکز کے بارے میں آگاہ کرنے سے قبل تربیت کاروں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔ اخبارات کا مطالعہ اور بالخصوص مقامی سطح پر شائع ہونے والے روزناموں اور اُن خبروں‘ تجزئیوں پر نظر رکھیں جو انتخابی عمل سے متعلق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر رخشندہ نے پولنگ کے مراحل‘ تقاضوں اُور اُن ضروریات کی وضاحت کرتے ہوئے پولنگ کے دن دھاندلی روکنے کے لئے ’بیدار طرز عمل‘ اختیار کرنے کو سب سے اہم قرار دیا۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارا سیاسی نظام جمہوریت ہے لیکن قیام پاکستان سے آج تک کے سفر میں زیادہ عرصہ آمریت رہی۔ بعدازاں قومی سطح پر دو جماعتوں کے درمیان ’میوزک چیئر‘ کی طرح اقتدار ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا‘ جس کی وجہ سے ایک خلأ پیدا ہوا اور ’تحریک انصاف‘ ملک گیر سطح بن کر اُبھری اور ایک متبادل سیاسی جماعت (قوت) کے طور پر بھرپور کردار اَدا کر رہی ہے۔ پاکستان میں بلدیاتی نظام حکومت بھی تعطل کا شکار رہا‘ جس کی وجہ سے اقتدار ایک خاص طبقے اور چند حکمراں خاندانوں (جاگیرداروں) تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ خواتین کا طبقہ متاثر ہوا جن کے کردار کو کہیں رسم و رواج اور کہیں سماجی اقدار کے نام پر محدود کر دیا گیا۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ ترقی مقامی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے۔ ترقیاتی حکمت عملیوں کا تعین کرنے میں خواتین بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں اور اگر اِس نظام کا تسلسل باقی رہتا ہے تو مقامی حکومتیں ہی بنیادی طرز حکومت کے طور پر جملہ مسائل کا حل ثابت ہوں گی۔ طرز حکمرانی کی اصلاح سے قبل یہ باریک نکتہ سمجھنا ہے کہ وفاق یا صوبوں سے اختیارات ضلع کو منتقل ہوتے ہیں‘ جس کے بعد تحصیل اور پھر دیہی و ہمسائیگی کونسلوں کو فیصلہ سازی کا اختیار مل جاتا ہے لیکن یہ عمل اتنا سادہ و آسان ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد اُن کی گنتی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ ’مقررہ فارم (طریقۂ کار)‘ کو منظم انداز میں مکمل کیا جائے۔

تحریک انصاف کی جانب سے جو ’متبادل سیاسی نظام‘ متعارف کرایا گیا‘ اُس سے قبل ’سیاست‘ میں آنے والے چند ایک خاندانوں اور تجربہ کاروں کے علاؤہ کوئی نہیں آتا تھا بلکہ سیاست کا حوالہ اچھے معنوں میں نہیں دیا جاتا تھا۔ جیسے اگر کوئی شخص عملی زندگی میں دوہرے معیار کا مظاہرہ کرے تو سب کہتے ہیں کہ ’’بڑا سیاسی ہو گیا ہے یا بڑا سیاسی بیان دیا ہے۔‘‘ پاکستان میں سیاست کو بامقصد اور اصلاح کا ذریعہ بنانے کے لئے ’تحریک انصاف‘ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی بالخصوص جس انداز میں خواتین کو سیاسی عمل میں شریک کیا گیا ہے اور جس انداز میں اُن کی تربیت کا اہتمام و انتظام کیا جا رہا ہے وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے قابل تقلید (فقیدالمثال) عمل ہے کیونکہ خواتین کی ’بھرپور شمولیت‘ کے بغیر مقامی حکومتوں کے قیام کا (انتخابی) عمل تو ’مکمل‘ ہو جائے گا لیکن وہ ضرورت اور اُس کے تقاضے کماحقہ پورے نہیں ہوں گے‘ جن کی غربت کے خاتمے‘ ترقی کے عمل کو پائیدار بنانے اور خواتین کے کردار کو محدود رکھنے کی سوچ‘ عمل اور روایت پرستی سے نجات کے لئے اشد ضروری ہیں۔

Tuesday, May 19, 2015

May2015: LG Polls & the Hurdles

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
بلدیاتی انتخابات: درپیش مشکلات
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے بارے میں کئی ایسے امور کی وضاحت کی ہے جو نہایت ہی کلیدی نوعیت کی ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ ’دیہی وہمسائیگی کونسل‘ کو سالانہ 20 لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے‘ جو منتخب نمائندے اپنے اپنے علاقے سے متعلق وضع کردہ ترجیحات کے مطابق خرچ کریں گے۔ ’خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے قانون 2013ء‘ کے مکمل اطلاق کے احکامات جاری کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس امر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری ادارے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں اور قانون کی روح یہ ہے کہ مقامی حکومتیں بااختیار ہوں گی۔صوبائی حکومت کی جانب سے بارہا اِس بات کا بیان کیا جاچکا ہے کہ صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد مقامی حکومتوں کے ذریعے خرچ ہوگا جس میں سے ضلع کو ساٹھ فیصد‘ تحصیل کو 30فیصد اور دیہی و ہمسائیگی کونسل کو صوبائی ترقیاتی بجٹ میں سے مختص کئے گئے وسائل کا 10فیصد دیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت ضلعی حکومت اس بات کے لئے بھی پابند ہوں گی کہ وہ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کریں جو زیادہ سے زیادہ عرصہ 2 برس میں مکمل ہو سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت پہلے ہی 2.87 ارب روپے جاری کر چکی ہے جس سے مقامی حکومتوں کے لئے دفاتر کی تعمیر یا پہلے سے موجود دفاتر کی تزئین و آرائش اور دفاتر کے لئے درکار سرکاری ملازمین و دیگر وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے پرامن و شفاف انعقاد کے لئے پاک فوج کے 11 دستوں (کمپینوں) کی خدمات سے استفادہ کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر معاون اداروں میں 8100 اہلکاروں کا تعلق فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری سے ہوگا۔ 2500 آزاد جموں و کشیر پولیس کے اہلکار‘ 500 گلگت بلتستان پولیس کے اہلکار خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم کل 11 ہزار 117 پولنگ اسٹیشنوں پر حفاظتی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان کے علاؤہ 500 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خواتین کے تھانہ جات میں تین دن کے لئے تعینات کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ پولنگ بوتھ قائم کرے تاکہ حفاظتی انتظامات کرنے میں متعلقہ اداروں کو آسانی رہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے ’انتخابی عمل‘ کو محفوظ بنانے کے لئے کئی ایسے انتظامات کئے گئے ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کچھ حفاظتی انتظامات سے عام آدمی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے لیکن کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں کیونکہ دشمن کا بھیس ایسا ہے کہ اُس کی شناخت ممکن نہیں!‘‘

سیاسی بنیادوں پر ’مقامی حکومتوں‘ کے قیام سے خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول میں انقلابی تبدیلی آئے گی اور تیس مئی سے قبل اور بعد کا سیاسی ماحول بہت مختلف ہوگا۔ خیبرپختونخوا کی واحد ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (ضلعی حکومت)‘ کا قیام پشاور میں ہوگا جس کے لئے کل 92 وارڈوں (یونین کونسلوں) کے 852 افراد منتخب ہوں گے جن میں سے 336نشستوں کے لئے سیاسی جماعتوں نے اُمیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔ اگر حسب توقع سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پانچ سو باون اُمیدواروں میں سے تین سو چھتیس ساسی اراکین کا پلڑہ باقی آزاد اُمیدواروں کے مقابلے بھاری ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں یہ لچک بھی ہوتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل یا بعداز انتخابات اتحاد کر لیتی ہیں اور ایسی صورت میں آزاد اُمیدواروں کے لئے سوائے اپنی وفاداریاں کسی ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی جس کے پاس اختیارات‘ فیصلہ سازی اور سرکاری مالی وسائل ہوں! آزاد اُمیدوار یہ بھی چاہیں گے کہ اُنہوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں جن ترقیاتی کاموں کے لئے وعدوں کا اعلان کیا ہے‘ انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں اور ایسا کرنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعت سے خود کو وابستہ کر لیں! یہ صورتحال اُن موقع پرستوں کے لئے زیادہ سودمند دکھائی دے رہی ہے‘ جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں ’سرمایہ کاری‘ کررہے ہیں اور زیادہ منظم و بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پشاور کی سٹی ڈسٹرکٹ کونسل کی 138 نشستیں ہوں گی‘ جن میں 92 نشستیں جنرل‘ 31 مخصوص برائے خواتین‘ 5 مخصوص برائے غیرمسلم‘ 5مخصوص برائے مزدور کسان اُور پانچ نشستیں نوجوانوں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ پشاور سے جنرل کونسلرز کے لئے کل 582اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف 4 خواتین ہیں۔ آزاد اُمیدوار نیلوفر باسط (خالصہ ون)‘ عوامی نیشنل پارٹی کی نائلہ جہانزیب (اندر شہر)‘ آزاد اُمیدوار فخرالنساء (حیات آباد ٹو) اور آزاد ہی حیثیت سے نیلم نواز (ڈاگ) سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لئے اُمیدواروں کے ذہن میں سب سے زیادہ اِبہام اُن کے ماہانہ وظائف و مراعات سے متعلق ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کی ماہانہ تنخواہ تو نہیں دی جائے گی البتہ جن اجلاسوں میں وہ شریک ہوں گے اُن کے اخراجات کی مد سے انہیں کچھ نہ کچھ آمدورفت کے اخراجات پورا کرنے کے لئے مالی وسائل دیئے جا سکتے ہیں تاہم یہ فیصلہ منتخب نمائندے خود اتفاق رائے سے کریں گے چونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مالی وسائل خالصتاً ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے‘ لہٰذا اصولی طور پر اُن کا استعمال غیرترقیاتی امور کی انجام دہی بشمول خدمات کے معاوضے کے لئے نہیں کیا جا سکے گا۔

آنے والے دنوں میں عام آدمی کے لئے اِس بات کو ’خوشخبری‘ کہا جائے یا نہیں کہ مقامی حکومتوں کو اَپنے اَخراجات پورا کرنے کے لئے آمدنی کے نت نئے وسائل تلاش کرنا ہوں گے جن میں ’نئے ٹیکس‘ لگانا بھی اِیک اِمکان ہے‘ تو ’ووٹ دینے اور اپنے کسی انتخابی اُمیدوار کی حمایت کرنے سے زیادہ آنے والے وقت کے اُس امتحان کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے‘ جو زیادہ کھٹن ثابت ہوگا۔

LG Polls & Difficulties

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
بلدیاتی انتخابات: درپیش مشکلات
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کے بارے میں کئی ایسے امور کی وضاحت کی ہے جو نہایت ہی کلیدی نوعیت کی ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ ’دیہی وہمسائیگی کونسل‘ کو سالانہ 20 لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے‘ جو منتخب نمائندے اپنے اپنے علاقے سے متعلق وضع کردہ ترجیحات کے مطابق خرچ کریں گے۔ ’خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے قانون 2013ء‘ کے مکمل اطلاق کے احکامات جاری کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس امر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ سرکاری ادارے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں اور قانون کی روح یہ ہے کہ مقامی حکومتیں بااختیار ہوں گی۔صوبائی حکومت کی جانب سے بارہا اِس بات کا بیان کیا جاچکا ہے کہ صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا 30فیصد مقامی حکومتوں کے ذریعے خرچ ہوگا جس میں سے ضلع کو ساٹھ فیصد‘ تحصیل کو 30فیصد اور دیہی و ہمسائیگی کونسل کو صوبائی ترقیاتی بجٹ میں سے مختص کئے گئے وسائل کا 10فیصد دیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت ضلعی حکومت اس بات کے لئے بھی پابند ہوں گی کہ وہ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کریں جو زیادہ سے زیادہ عرصہ 2 برس میں مکمل ہو سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت پہلے ہی 2.87 ارب روپے جاری کر چکی ہے جس سے مقامی حکومتوں کے لئے دفاتر کی تعمیر یا پہلے سے موجود دفاتر کی تزئین و آرائش اور دفاتر کے لئے درکار سرکاری ملازمین و دیگر وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے پرامن و شفاف انعقاد کے لئے پاک فوج کے 11 دستوں (کمپینوں) کی خدمات سے استفادہ کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر معاون اداروں میں 8100 اہلکاروں کا تعلق فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری سے ہوگا۔ 2500 آزاد جموں و کشیر پولیس کے اہلکار‘ 500 گلگت بلتستان پولیس کے اہلکار خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم کل 11 ہزار 117 پولنگ اسٹیشنوں پر حفاظتی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ ان کے علاؤہ 500 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خواتین کے تھانہ جات میں تین دن کے لئے تعینات کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت پہلے ہی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ پولنگ بوتھ قائم کرے تاکہ حفاظتی انتظامات کرنے میں متعلقہ اداروں کو آسانی رہے۔ خیبرپختونخوا کے محکمۂ داخلہ کی جانب سے مقامی حکومتوں کے لئے ’انتخابی عمل‘ کو محفوظ بنانے کے لئے کئی ایسے انتظامات کئے گئے ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا لیکن عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کچھ حفاظتی انتظامات سے عام آدمی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے لیکن کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے انتظامیہ کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہیں کیونکہ دشمن کا بھیس ایسا ہے کہ اُس کی شناخت ممکن نہیں!‘‘

سیاسی بنیادوں پر ’مقامی حکومتوں‘ کے قیام سے خیبرپختونخوا کے سیاسی ماحول میں انقلابی تبدیلی آئے گی اور تیس مئی سے قبل اور بعد کا سیاسی ماحول بہت مختلف ہوگا۔ خیبرپختونخوا کی واحد ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ (ضلعی حکومت)‘ کا قیام پشاور میں ہوگا جس کے لئے کل 92 وارڈوں (یونین کونسلوں) کے 852 افراد منتخب ہوں گے جن میں سے 336نشستوں کے لئے سیاسی جماعتوں نے اُمیدوار نامزد کر رکھے ہیں۔ اگر حسب توقع سیاسی جماعتوں کے نامزد اُمیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پانچ سو باون اُمیدواروں میں سے تین سو چھتیس ساسی اراکین کا پلڑہ باقی آزاد اُمیدواروں کے مقابلے بھاری ہوگا۔ سیاسی جماعتوں میں یہ لچک بھی ہوتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل یا بعداز انتخابات اتحاد کر لیتی ہیں اور ایسی صورت میں آزاد اُمیدواروں کے لئے سوائے اپنی وفاداریاں کسی ایسی سیاسی جماعت سے وابستہ کرنا ہی دانشمندی ہوگی جس کے پاس اختیارات‘ فیصلہ سازی اور سرکاری مالی وسائل ہوں! آزاد اُمیدوار یہ بھی چاہیں گے کہ اُنہوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں جن ترقیاتی کاموں کے لئے وعدوں کا اعلان کیا ہے‘ انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں اور ایسا کرنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ برسراقتدار آنے والی سیاسی جماعت سے خود کو وابستہ کر لیں! یہ صورتحال اُن موقع پرستوں کے لئے زیادہ سودمند دکھائی دے رہی ہے‘ جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں ’سرمایہ کاری‘ کررہے ہیں اور زیادہ منظم و بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پشاور کی سٹی ڈسٹرکٹ کونسل کی 138 نشستیں ہوں گی‘ جن میں 92 نشستیں جنرل‘ 31 مخصوص برائے خواتین‘ 5 مخصوص برائے غیرمسلم‘ 5مخصوص برائے مزدور کسان اُور پانچ نشستیں نوجوانوں کے لئے مخصوص ہوں گی۔ پشاور سے جنرل کونسلرز کے لئے کل 582اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف 4 خواتین ہیں۔ آزاد اُمیدوار نیلوفر باسط (خالصہ ون)‘ عوامی نیشنل پارٹی کی نائلہ جہانزیب (اندر شہر)‘ آزاد اُمیدوار فخرالنساء (حیات آباد ٹو) اور آزاد ہی حیثیت سے نیلم نواز (ڈاگ) سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے لئے اُمیدواروں کے ذہن میں سب سے زیادہ اِبہام اُن کے ماہانہ وظائف و مراعات سے متعلق ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کی ماہانہ تنخواہ تو نہیں دی جائے گی البتہ جن اجلاسوں میں وہ شریک ہوں گے اُن کے اخراجات کی مد سے انہیں کچھ نہ کچھ آمدورفت کے اخراجات پورا کرنے کے لئے مالی وسائل دیئے جا سکتے ہیں تاہم یہ فیصلہ منتخب نمائندے خود اتفاق رائے سے کریں گے چونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مالی وسائل خالصتاً ترقیاتی کاموں کے لئے ہوں گے‘ لہٰذا اصولی طور پر اُن کا استعمال غیرترقیاتی امور کی انجام دہی بشمول خدمات کے معاوضے کے لئے نہیں کیا جا سکے گا۔ آنے والے دنوں میں عام آدمی کے لئے اِس بات کو ’خوشخبری‘ کہا جائے یا نہیں کہ مقامی حکومتوں کو اَپنے اَخراجات پورا کرنے کے لئے آمدنی کے نت نئے وسائل تلاش کرنا ہوں گے جن میں ’نئے ٹیکس‘ لگانا بھی اِیک اِمکان ہے‘ تو ’ووٹ دینے اور اپنے کسی انتخابی اُمیدوار کی حمایت کرنے سے زیادہ آنے والے وقت کے اُس امتحان کے بارے میں بھی سوچنا ضروری ہے‘ جو زیادہ کھٹن ثابت ہوگا۔

Monday, May 18, 2015

May2015: LG Polls & Expenses

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی اِدارے: توقعات و حسابات
مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا‘ وہیں سے بحال ہونے جا رہا ہے اور اِس موقع پر انتخابی اُمیدواروں میں کہنہ مشق انتخابات اِنتخابات کھیلنے والے گرو بھی ہیں‘ جنہیں ’سب معلوم ہے‘ لیکن ایسے ناتجربہ کار کھلاڑیوں کے لئے جو سماجی خدمت سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور جنہیں کسی سیاسی جماعت کی آشیرباد بھی حاصل نہیں‘ صورتحال زیادہ موافق نہیں۔ درحقیقت قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات پر سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری کے بعد بلدیاتی انتخابات بھی اُنہی کے نام ہوں گے جو انتخابات کے اخراجات اور اس کے کبھی ختم نہ ہونے والی ضروریات پورا کرنے کا ’حوصلہ‘ رکھتے ہیں۔ آزاد حیثیت سے مقامی حکومتوں کے اِنتخابات میں حصہ لینے والوں کو صرف مدمقابل اُمیدوار کا ہی بلکہ کئی سیاسی جماعتوں کے ’اِنتخابی اِتحاد‘ کا سامنا ہے‘ جو اپنے اپنے ووٹ بینک کی قیمت پر نشستوں کو پہلے ہی مل بانٹ چکی ہیں تو کیا آزاد اُمیدوار ایسے ’ہیوی ویٹ‘ انتخابی اتحادوں کا مقابلہ کر پائیں گے‘ جن کے پاس مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری وسائل کا استعمال کرکے ترقیاتی کام کرنے والے اپنے اپنے ناموں کی تختیاں لگاتے ہیں۔ پیسہ عوام کے ٹیکسوں سے خرچ ہو رہا ہوتا ہے لیکن نیک نامی کسی ایک سیاسی جماعت اور اُس سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے کے نام لکھ دی جاتی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ اگر کسی مقام پر بجلی کی فراہمی کا نظام توسیع چاہتا ہے‘ ٹرانسفارمر یا کھمبوں کی ضرورت ہے تو یہ کام بجائے متعلقہ حکومتی اِدارہ منتخب نمائندے اپنی ذاتی یا سیاسی ترجیح کے مطابق کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے کے ’ترقیاتی فنڈز‘ خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو ’ترقی کا معیار‘ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اِس سے اَکثریت کی ضروریات پوری ہو پائیں ہیں۔ قانون ساز اسمبلیوں کے اَراکین حلف اُٹھانے کے بعد اِس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ متعلقہ اضلاع میں زیادہ سے زیادہ مالی وسائل‘ سرکاری ملازمتیں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں پر اختیار حاصل کر سکیں تاکہ اُس ’ووٹ بینک‘ کی توقعات پر پورا اُترا جا سکے جو اُن کی انتخابی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اب بھلا ’فکروعمل‘ کے ایسے منظم اور مفاد پرستوں کی اکثریت کا مقابلہ ’آزاد حیثیت‘ سے انتخابات میں حصہ لینے والے کیسے کر پائیں گے جن کے پاس نہ تو رنگ برنگے پوسٹرز شائع کرنے کے لئے مالی وسائل ہیں اور نہ ہی کاروباری اور سرمایہ دار طبقات ایسے آزاد اُمیدواروں کو کامیاب ہونے کے لئے درکار ’سپورٹ‘ فراہم کرتے ہیں جن کی جیت کے اِمکانات روشن نہ ہوں۔ ’سیاست‘ اُور ’سیاسی جماعتوں‘ کے مفہوم کو جس طرح ہمارے ہاں محدود کرکے سمجھا گیا ہے‘ اُس کے ’فیوض و برکات‘ میں یہ منفی رجحان بھی شامل ہے کہ ’’آزاد حیثیت انتخابی اُمیدواروں کی اکثریت کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی!‘

سیاست اور سیاسی ذمہ داریوں کے بارے میں آگہی کے ساتھ اِنتخابی طریقۂ کار کے بارے میں اُمیدواروں کی رہنمائی کے لئے اَمریکہ کے اِمدادی اِدارے ’یو ایس ایڈ‘ نے ملک گیر سطح پر آگہی پھیلانے کے لئے مقامی نجی سرکاری اداروں کی مدد لی ہے لیکن چھبیس فروری سے جاری یہ عمل اِس لئے کافی نہیں کیونکہ اِس کا دائرۂ کار انتخابی اُمیدواروں تک محدود رکھاگیا ہے۔ دراصل امریکہ و یورپی ممالک اِس سے قبل ’مقامی حکومتوں کے انتخابات‘ کرانے کی وکالت (ایڈوکیسی) کرتے رہے۔ عام آدمی کے ذریعے حکومت پر مسلسل دباؤ رکھا گیا کہ وہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کی آئینی ذمہ داری پوری کرے۔ جب رواں برس سولہ فروری کو چیف الیکشن کمشنر نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تین صوبوں (خیبرپختونخوا‘ پنجاب و سندھ) میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی منظوری دی تو شعور اُجاگر کرنے والوں نے اپنی توجہات کو انتخابی اُمیدواروں کی رہنمائی پر مرکوز کر لیا جسے بعدازاں ووٹروں تک پھیلایا گیا لیکن کچھ بھی منظم نہیں ہے۔بہت سے حلقوں میں خواتین‘ اقلیتوں اور نوجوانوں کی نمائندگی کرنے کے لئے کسی نے کاغذات ہی جمع نہیں کرائے! جنہوں نے خود کاغذات جمع کرائے اُنہوں نے لڑ جھگڑ کر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ حاصل کر لئے۔ دیرینہ کارکنوں سے سیاسی جماعتوں نے پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا کہ وہ کیوں انتخابی اُمیدوار نہیں۔ یہ بات ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہی نہیں کہ غریب کارکن کو اہمیت حاصل ہو‘ جو خودنمائی نہ کرتے اُن کی سیاسی جماعتوں میں حیثیت کیا ہوتی ہے؟ جن کا سیاسی قبلہ اور عقائد توحیدی ہوں‘ کیا اُنہیں اہمیت دی جاتی ہے؟ اِن حقائق کا اِحساس خود ’الیکشن کمیشن‘ کو بھی ہے لیکن وہ قانون ساز ادارہ نہیں۔ مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے جو کچھ ہورہا ہے وہ اگرچہ تاخیر سے ہے لیکن اس کے انعقاد کے لئے ضروری ہے کہ شرح پولنگ کم سے کم قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں (تیس سے چالیس فیصد) کے درمیان ہونی چاہئے چونکہ انتخابی قواعد یا عوام کی نمائندگی کے منصب کی وضاحت کرنے والی آئین کی شق میں ایسی کوئی شرط ہی نہیں لکھی گئی کہ کسی انتخابی حلقے کے کم سے کم کتنے فیصد ووٹ حاصل کرنے والے کو وہاں سے منتخب قرار دیا جائے گا‘ اِس لئے کم شرح پولنگ سے بھی اُمیدواروں کے درمیان جیت و ہار کا فیصلہ تو ہو جائے گالیکن ایسی جمہوریت چاہے اُوپری سطح کی ہو یا نچلی سطح کی‘ اِس سے عام آدمی کی بہتری‘ غربت کے خاتمے اور پائیدار تعمیر و ترقی پر مبنی توقعات‘ اُمیدیں یا خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تعمیر و ترقی کے لئے مختص ہر ایک سو روپے میں سے تیس روپے ضلع کونسل کو منتقل ہوں گے‘ جو اپنے انتظامی اخراجات (تنخواہیں‘ عمارتوں کی تزئین و آرائش‘ بجلی و گیس اور ٹیلی فون بل وغیرہ سمیت روزمرہ خرچے) منہا کر کے باقی پیسے تحصیل کی سطح پر نمائندوں کے حوالے کر دے گی‘ جہاں کے چیئرمین اور پرہجوم اَراکین پر مبنی اسمبلی کے اخراجات ادا کرنے کے باقی ماندہ پیسے ’دیہی و ہمسائیگی کونسلز‘ کے کھاتوں میں منتقل کر دی جائیں گی‘ جن کی نگرانی ایک کمیٹی کرے گی اور ایک سے پانچ دیہات (دو ہزار آبادی) پر مشتمل اِن کونسلز کے پاس اُس وقت تک ترقی کے لئے درکار مالی وسائل نہیں آئیں جب تک مقامی حکومتیں مقامی سطح پر نئے ٹیکس نہیں لگاتی یا اپنی آمدن بڑھانے کے لئے میلے ٹھیلوں کا اِنتظام نہیں کرتی۔ پانچ سطحی جمہوریت (قومی‘ صوبائی‘ ضلع‘ تحصیل‘ دیہی و ہمسائیگی کونسلز) کس کام کی‘ جس میں ترقیاتی فنڈز‘ غیرترقیاتی اَمور کی نذر ہوجائیں؟ 

Sunday, May 17, 2015

May2015: LG Polls & Difficulties

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بلدیاتی انتخابات: حالات و مشکلات
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے انتظامات کو جس قدر ’کریدا‘ جائے اُتنی ہی خول در خول پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں‘ جس سے پورا عمل پہلی مرتبہ ہونے جا رہے اُس تجربے جیسا ہے‘ جس کے نتائج سے بہتری کے لئے پراُمید نہ ہونے والے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ تسلسل بہرحال جاری رہنا چاہئے کیونکہ منظم اَنداز میں مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے انتخابات کا سلسلہ بہتر ہوتا چلا جائے گا یقیناًاگر قسمت ساتھ دے تو ایسا ہی ہوگا لیکن سب جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے داخلی حالات ملک کے دیگر تین صوبوں سے کتنے مختلف ہیں۔ یہاں قبائلی علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے نہ تو امن و امان کی صورتحال مثالی ہے اور نہ ہی شہری و دیہی علاقوں میں بنیادی سہولیات کے ڈھانچے پر افغان مہاجرین و قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کا بوجھ قابل برداشت رہا ہے۔ ایسی صورت میں مقامی حکومتوں سے وابستہ توقعات اور اُمیدیں تین قسم کی ہیں۔ سب سے پہلے تو قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہونے کے بعد اپنے اپنے انتخابی حلقوں کو بھول جاتے ہیں‘ تو وہاں کے رہنے والوں کی رائے کلیدی فیصلوں‘ باہمی تنازعات و مسائل کے حل‘ ترقیاتی حکمت عملیاں اُور‘ روزمرہ کے دیگر اَمور کے بارے مقامی سطح پر ہی غوروخوض ہو۔ مقامی حکومتوں سے وابستہ دوسری اُمید امن و امان کے قیام کی ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد ہر ضلع و تحصیل اور دیہی و ہمسائیگی کونسل کی سطح پر پائی جانے والی اجنبیت کا خاتمہ ہوگا جبکہ تیسری اُمید قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ جن علاقوں کو عسکریت پسندوں یا انتہاء پسندوں سے خالی کرایا جاتا ہے وہاں کی نگرانی کا نظام انتظامیہ اور مقامی افراد اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سماج دشمن عناصر پھر سے متحد و فعال ہو جاتے ہیں۔

ماضی کی مقامی حکومتوں کے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ قیام (تجربے) کا حاصل یہ رہا کہ جن ناظمین کے صوبائی یا وفاقی حکومت سے تعلقات بہتر تھے‘ اُنہیں اپنے اپنے ضلع کے لئے نہ تو مالی وسائل حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتیں اور نہ ہی اُن کے وضع کردہ ترقیاتی منصوبوں میں کیڑے نکالے جاتے۔ ماضی کے نظام میں اختیارات ’پرنسپل اکاونٹ آفیسر‘ کے پاس تھے‘ جنہوں نے ناظمین کو انگلیوں پر نچایا اور یہی وجہ تھی کہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں اِس حد تک سنگین ہوئیں کہ پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دینا پڑی۔ مستقبل کی مقامی حکومتوں پہلے دو تجربات سے مختلف ہوں گی اور ’سیاسی وابستگیاں‘ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کریں گی‘ اِس کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرنے میں مضائقہ نہیں لیکن چونکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ’سیاسی بنیادوں‘ پر ہو رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کا پلڑہ بھاری کرنے کے لئے ہر کوئی اپنی اپنی ’مہارت اور انتخابی ہنر‘ کا استعمال کر رہا ہے‘ اِس لئے زیادہ فعال معتبر ادارے الیکشن کمیشن کو ادا کرنا ہوگا‘ جس نے ضابطۂ اخلاق تو جاری کر دیا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو شکایات پر منحصر رکھ چھوڑا ہے کہ اگر کسی انتخابی حلقے میں کوئی اُمیدوار انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کہ مخالف اِنتخابی اُمیدوار اِس بارے میں شکایت کر سکتے ہیں! مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر شائع کرنے کا ایک زیادہ سے زیادہ سائز مقرر کردیا گیاہے لیکن جب سبھی انتخابی اُمیدوار اس کی خلاف ورزی کر رہے تو شکایت کون کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد بھی مقرر ہے جسے یکساں خاطر میں نہیں لایا جارہاتو اِس کی شکایت بھی کوئی نہیں کرے گا۔

ماضی کی بلدیاتی اور مستقبل کی مقامی حکومتوں کے درمیان صرف نام ہی کا فرق ہے‘ جس سے زیادہ ضروری اِن کے مقاصد کو سمجھنا ہے کہ کس طرح ’منتخب مقامی حکومت کا جمہوریت اور نظم ونسق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔‘ منتخب مقامی حکومت عوامی اختیارات کی وہ سطح ہے کہ جہاں روزمرہ مسائل کے فوری حل کے لئے رجوع کیا جائے گا اور یہ جمہوری نظام کی وہ پرت ہوگی جس سے مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں براہ راست اور بھرپور انداز میں شرکت کا موقع میسر آئے گا لیکن اِس مرحلۂ فکر پر انتخاب کے روز پیش آنے والی اُس مشکل کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جو 7 مختلف رنگوں کے بیلٹ پیپرز کی صورت پیش آئے گی۔ جنرل نشست کے لئے سفید‘ خاتون نشست کے لئے گلابی‘ کسان و مزدور نشست کے لئے ہلکا سبز‘ غیرمسلم کے لئے بھورا‘ نوجوان (یوتھ) نشست کے لئے پیلا‘ تحصیل یا ٹاؤن کونسل کی جنرل نشست کے لئے ہلکا سرمئی (سیاہی مائل سفید) جبکہ سٹی ڈسٹرکٹ یا ڈسٹرکٹ کونسل کی جنرل نشست کے لئے نارنجی (سرخی مائل سفید) رنگ کا بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ اب بیلٹ پیپرز کی اِس قوس قزح (سات رنگوں) کا یاد رکھنا بالخصوص کم خواندہ افراد یا کم شرح خواندگی رکھنے والے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کے لئے کیونکر اور کیسے ممکن ہوگا‘ یہ سوال سنجیدہ توجہ اور ووٹرز کی عملی تربیت کا متقاضی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ذرائع ابلاغ اور مختلف علاقوں کی سطح پر تربیت کا انتظام بھی کرے۔ یوں تو ووٹ کی قدر ہر عام انتخاب کے موقع پر اہم بیان کی جاتی ہے لیکن اِس ’ایک ووٹ‘ کی اہمیت ’مقامی حکومتوں‘ کی سطح پر کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ اب فیصلہ صرف اور صرف ووٹ سے ہونا طے ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔