ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پہلی بات: دوسری بات
پہلی بات: دوسری بات
آغاز کلام ہے کہ ’مقامی حکومت کے نام سے ’بنیادی (اصل) حکومت‘ کا قیام چند
دنوں کی بات ہے اور وہ پہلا مرحلۂ عبور ہو چکا جس کے بعد خیبرپختونخوا میں
اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہو جائے گا لیکن دوسری بات یہ ہے کہ عام انتخابات
میں انتظامی بے قاعدگیوں نے بھی ایک ’نئی تاریخ‘ رقم کی ہے جس کے لئے ذمہ
دار ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کو قرار دینے والے اپنی سیاسی وفاداریوں کا حق
بخوبی ادا کررہے ہیں حالانکہ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری خالصتاً
’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی تھی۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کا مؤقف واضح ہے کہ ’’اگر مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری خیبرپختونخوا کو سونپی جاتی تو وہ ایک ہی دن پورے صوبے میں انتخابات کرانے کی بجائے مختلف اضلاع میں انتخابی عمل مرحلہ وار انداز میں مکمل کراتی لیکن الیکشن کمیشن نے یہ کام خود سے انجام دینے کی ٹھانی۔‘‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے وضاحت کے بعد الیکشن کمیشن حکام کی ’خودسری‘ عیاں ہو گئی ہے۔ عجب ہے کہ صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات جس میں 41ہزار 7سو62 (بیالیس ہزار کے قریب) نشستوں پر عام انتخابات ہوئے جس کے لئے 88 ہزار افراد اُمیدوار تھے لیکن اِس انتخابی عمل کی حفاظت (سیکورٹی) کے لئے صرف 86 ہزار 115 اہلکار تعینات کئے گئے۔ یہ بات صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن تک پہنچا دی گئی تھی کہ چھیاسی ہزار پولیس کی افراد قوت کا استعمال کرتے ہوئے ہر پولنگ مرکز پر چھ سے آٹھ اہلکار ہی تعینات ہو سکیں گے جو کافی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 11ہزار 2سو 11پولنگ اسٹیشنز بنائے اُور سیکورٹی خدشات کے تحت2ہزار 8سو 37 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جبکہ 3 ہزار 9سو 40حساس اور صرف 4 ہزار 3سو 40 کو معمول کے مطابق (نارمل) قرار دیا لیکن اِس بارے میں صوبائی حکومت سے بات کرنا پسند نہیں کی کہ دو ہزار آٹھ سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز اگر ’’انتہائی حساس‘‘ ہیں تو ان کی حفاظت کیسے اور کیونکر ممکن بنائی جائے گی!
کیا یہ بات الیکشن کمیشن کے مرکزی یا صوبائی سربراہ کے شایان شان نہیں تھی کہ وہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے ملاقات کرتے یا کم سے کم ایک ٹیلی فون کال ہی کر لیتے یا اِی میل و مکتوبات کے ذریعے تحریری تبادلہ خیال کر لیتے اور اِس بارے میں اُن کی رائے بھی معلوم کر لی جاتی جو صوبے میں امن وامان کے لئے اصل ذمہ دار ہیں۔ اب جبکہ مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا اور تیس مئی پولنگ کے اختتام و غیرحتمی نتائج کے بعداز اعلانات فائرنگ و لڑائی جھگڑوں میں کم سے کم چھ ہلاکتیں اور پچاس سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اُن کوتاہیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس سے اُس کا تعلق ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کیا یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی تھی کہ وہ بیلیٹ پیپرز (ووٹ) شائع کرتی؟ اگر بیلٹ پیپرز کی اشاعت کم تعداد میں ہوئی یا اُمیدواروں کے نشانات یا اُن کے نام شائع ہونے میں غلطیاں ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟ اگر کسی حلقے میں بیلٹ پیپرز پر اُمیدواروں کے انتخابی نشانات تو موجود تھے لیکن اُُن پر نام شائع نہیں ہو سکے یا ناموں میں غلطیاں تھیں تو یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟
اگر کہیں پولنگ مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوئی‘یا انتخابی عملے نے پولنگ کا عمل معطل کیا تو کیا یہ صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے؟ اگر پولنگ اسٹیشن مقرر کرنے اور وہاں عملہ تعینات کرنے میں سیاسی ترجیحات ملحوظ رکھی گئیں تو کیا اِس کے لئے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ زرد رنگ کے تھیلوں میں پولنگ کی جملہ ضروریات ڈالنا کیا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اور اگر تھیلے کھلنے پر انتخابی ضروریات کم تعداد میں برآمد ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت کی طرف انگلیاں اُٹھائی جائیں؟ بیلٹ پیپر پر مہریں لگانے کے لئے گتے کی (عارضی) دیواریں پولنگ بوتھ کے تناسب سے نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے پولنگ کے مراحل وقت مقررہ شام 5 بجے کی بجائے دیر رات تک جاری رہے تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟
بیک وقت چار سے سات ووٹوں پر مہریں لگانا اور فی گھنٹہ چوبیس سے تیس ووٹ پول ہونے کی اوسطاً شرح کے بارے میں سوچنا کیا صوبائی حکومت کا کام تھا؟
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے الیکشن کمیشن حکام سے کہا ہے کہ ’’اگر وہ خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لئے ہوئے عام انتخابات میں کسی ایک یا بہت سے حلقوں میں دھاندلی یا مکروہ فعل میں صوبائی حکومت کے ملوث ہونے کے بارے تحقیقات کرانا چاہتے ہیں تو بصدشوق کریں اور اس کے لئے اُن سے غیرمشروط اورمکمل تعاون کیا جائے گا۔ جن حلقوں میں پولنگ مقررہ وقت کے بعد بھی جاری رہی اُس کی اجازت خود الیکشن کمیشن حکام نے دی تھی تو اُنہیں دھاندلی کے امکانات اور الزامات کا جواب بھی دینا چاہئے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تیس مئی کے عام انتخابات میں جو بدانتظامیاں دیکھنے میں آئیں‘ اُسے نظرانداز کرنے کی بجائے آئندہ دیگر صوبوں میں ہونے والے انتخابی تجربے کو زیادہ شفاف‘ محفوظ اور خوشگوار بنایا جائے۔
خیبرپختونخوا کی سطح پر تو صرف اکتالیس ہزار سے زائد نشستیں تھیں لیکن صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نشستوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے کیا ایسے ہی بدانتظامیوں سے بھرپور اور خوفناک قسم کی عام انتخابات وہاں پر بھی کرائے جائیں گے؟ خیبرپختونخوا کے ماحول میں سیاسی بے چینی کے اضافہ کا مقصد کہیں ’سیاسی بغض‘ تو نہیں؟ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنی مقبولیت کا بھرپور دفاع کیا‘ جس کی حتمی شکل ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت کئی اضلاع میں ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور متفقہ اُمیدواروں کا مقابلہ ڈٹ کر کیا گیا اور خود وزیراعلیٰ کے الفاظ میں ’’دھاندلی نہ تو تحریک کے وہم و گمان میں تھی اور نہ ہی اس کے لئے کسی مرحلے پر سوچا گیا۔
صوبائی حکومت نے انتخابی عمل کے دوران صرف اُن مقامات پر مداخلت کی جہاں سے پرتشدد واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں اور وہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات دیئے گئے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو ممکن و یقینی بنائیں۔‘‘ دوسری بات یہ بھی ہے کہ پشاور‘ پبی اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے ہزارہ ڈویژن تک تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے علاؤہ بڑی تعداد میں ایسے آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جو تحریک کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر ناراض تھے اور اُنہوں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کے فیصلوں سے کھل کر اختلاف کیا لہٰذا ’تحریک انصاف کی پارٹی پوزیشن‘ پر مبنی موجودہ اَعدادوشمار پر اکتفا نہ کیا جائے کیونکہ بطور ’آزاد‘ منتخب ہونے والے بہت سے مقامی حکومتوں کے نمائندوں کا جلد ہی ’تحریک انصاف‘ میں شمولیت کا امکان ہے۔ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کی طرح تیس مئی دو ہزار پندرہ کے دن تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا کی سطح پر فیصلہ کن اُور واضح برتری پہلے ہی حاصل کر لی ہے‘ جس میں اضافہ تو ممکن ہے لیکن کمی نہیں!
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کا مؤقف واضح ہے کہ ’’اگر مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری خیبرپختونخوا کو سونپی جاتی تو وہ ایک ہی دن پورے صوبے میں انتخابات کرانے کی بجائے مختلف اضلاع میں انتخابی عمل مرحلہ وار انداز میں مکمل کراتی لیکن الیکشن کمیشن نے یہ کام خود سے انجام دینے کی ٹھانی۔‘‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی جانب سے وضاحت کے بعد الیکشن کمیشن حکام کی ’خودسری‘ عیاں ہو گئی ہے۔ عجب ہے کہ صوبے کی تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات جس میں 41ہزار 7سو62 (بیالیس ہزار کے قریب) نشستوں پر عام انتخابات ہوئے جس کے لئے 88 ہزار افراد اُمیدوار تھے لیکن اِس انتخابی عمل کی حفاظت (سیکورٹی) کے لئے صرف 86 ہزار 115 اہلکار تعینات کئے گئے۔ یہ بات صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن تک پہنچا دی گئی تھی کہ چھیاسی ہزار پولیس کی افراد قوت کا استعمال کرتے ہوئے ہر پولنگ مرکز پر چھ سے آٹھ اہلکار ہی تعینات ہو سکیں گے جو کافی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 11ہزار 2سو 11پولنگ اسٹیشنز بنائے اُور سیکورٹی خدشات کے تحت2ہزار 8سو 37 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جبکہ 3 ہزار 9سو 40حساس اور صرف 4 ہزار 3سو 40 کو معمول کے مطابق (نارمل) قرار دیا لیکن اِس بارے میں صوبائی حکومت سے بات کرنا پسند نہیں کی کہ دو ہزار آٹھ سو سے زائد پولنگ اسٹیشنز اگر ’’انتہائی حساس‘‘ ہیں تو ان کی حفاظت کیسے اور کیونکر ممکن بنائی جائے گی!
کیا یہ بات الیکشن کمیشن کے مرکزی یا صوبائی سربراہ کے شایان شان نہیں تھی کہ وہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے ملاقات کرتے یا کم سے کم ایک ٹیلی فون کال ہی کر لیتے یا اِی میل و مکتوبات کے ذریعے تحریری تبادلہ خیال کر لیتے اور اِس بارے میں اُن کی رائے بھی معلوم کر لی جاتی جو صوبے میں امن وامان کے لئے اصل ذمہ دار ہیں۔ اب جبکہ مقامی حکومتوں کے لئے عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا اور تیس مئی پولنگ کے اختتام و غیرحتمی نتائج کے بعداز اعلانات فائرنگ و لڑائی جھگڑوں میں کم سے کم چھ ہلاکتیں اور پچاس سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں تو تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اُن کوتاہیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جس سے اُس کا تعلق ہی نہیں۔ مثال کے طور پر کیا یہ ذمہ داری صوبائی حکومت کی تھی کہ وہ بیلیٹ پیپرز (ووٹ) شائع کرتی؟ اگر بیلٹ پیپرز کی اشاعت کم تعداد میں ہوئی یا اُمیدواروں کے نشانات یا اُن کے نام شائع ہونے میں غلطیاں ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟ اگر کسی حلقے میں بیلٹ پیپرز پر اُمیدواروں کے انتخابی نشانات تو موجود تھے لیکن اُُن پر نام شائع نہیں ہو سکے یا ناموں میں غلطیاں تھیں تو یہ ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟
اگر کہیں پولنگ مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوئی‘یا انتخابی عملے نے پولنگ کا عمل معطل کیا تو کیا یہ صوبائی حکومت کی کوتاہی ہے؟ اگر پولنگ اسٹیشن مقرر کرنے اور وہاں عملہ تعینات کرنے میں سیاسی ترجیحات ملحوظ رکھی گئیں تو کیا اِس کے لئے صوبائی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ زرد رنگ کے تھیلوں میں پولنگ کی جملہ ضروریات ڈالنا کیا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اور اگر تھیلے کھلنے پر انتخابی ضروریات کم تعداد میں برآمد ہوئیں تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت کی طرف انگلیاں اُٹھائی جائیں؟ بیلٹ پیپر پر مہریں لگانے کے لئے گتے کی (عارضی) دیواریں پولنگ بوتھ کے تناسب سے نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے پولنگ کے مراحل وقت مقررہ شام 5 بجے کی بجائے دیر رات تک جاری رہے تو کیا اس کے لئے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے؟
بیک وقت چار سے سات ووٹوں پر مہریں لگانا اور فی گھنٹہ چوبیس سے تیس ووٹ پول ہونے کی اوسطاً شرح کے بارے میں سوچنا کیا صوبائی حکومت کا کام تھا؟
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے الیکشن کمیشن حکام سے کہا ہے کہ ’’اگر وہ خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے لئے ہوئے عام انتخابات میں کسی ایک یا بہت سے حلقوں میں دھاندلی یا مکروہ فعل میں صوبائی حکومت کے ملوث ہونے کے بارے تحقیقات کرانا چاہتے ہیں تو بصدشوق کریں اور اس کے لئے اُن سے غیرمشروط اورمکمل تعاون کیا جائے گا۔ جن حلقوں میں پولنگ مقررہ وقت کے بعد بھی جاری رہی اُس کی اجازت خود الیکشن کمیشن حکام نے دی تھی تو اُنہیں دھاندلی کے امکانات اور الزامات کا جواب بھی دینا چاہئے۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تیس مئی کے عام انتخابات میں جو بدانتظامیاں دیکھنے میں آئیں‘ اُسے نظرانداز کرنے کی بجائے آئندہ دیگر صوبوں میں ہونے والے انتخابی تجربے کو زیادہ شفاف‘ محفوظ اور خوشگوار بنایا جائے۔
خیبرپختونخوا کی سطح پر تو صرف اکتالیس ہزار سے زائد نشستیں تھیں لیکن صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نشستوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے کیا ایسے ہی بدانتظامیوں سے بھرپور اور خوفناک قسم کی عام انتخابات وہاں پر بھی کرائے جائیں گے؟ خیبرپختونخوا کے ماحول میں سیاسی بے چینی کے اضافہ کا مقصد کہیں ’سیاسی بغض‘ تو نہیں؟ تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنی مقبولیت کا بھرپور دفاع کیا‘ جس کی حتمی شکل ابھی ظاہر ہونا باقی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت کئی اضلاع میں ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور متفقہ اُمیدواروں کا مقابلہ ڈٹ کر کیا گیا اور خود وزیراعلیٰ کے الفاظ میں ’’دھاندلی نہ تو تحریک کے وہم و گمان میں تھی اور نہ ہی اس کے لئے کسی مرحلے پر سوچا گیا۔
صوبائی حکومت نے انتخابی عمل کے دوران صرف اُن مقامات پر مداخلت کی جہاں سے پرتشدد واقعات کی اطلاعات موصول ہوئیں اور وہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات دیئے گئے کہ وہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو ممکن و یقینی بنائیں۔‘‘ دوسری بات یہ بھی ہے کہ پشاور‘ پبی اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے ہزارہ ڈویژن تک تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے علاؤہ بڑی تعداد میں ایسے آزاد اُمیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جو تحریک کی جانب سے پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر ناراض تھے اور اُنہوں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کے فیصلوں سے کھل کر اختلاف کیا لہٰذا ’تحریک انصاف کی پارٹی پوزیشن‘ پر مبنی موجودہ اَعدادوشمار پر اکتفا نہ کیا جائے کیونکہ بطور ’آزاد‘ منتخب ہونے والے بہت سے مقامی حکومتوں کے نمائندوں کا جلد ہی ’تحریک انصاف‘ میں شمولیت کا امکان ہے۔ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کی طرح تیس مئی دو ہزار پندرہ کے دن تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا کی سطح پر فیصلہ کن اُور واضح برتری پہلے ہی حاصل کر لی ہے‘ جس میں اضافہ تو ممکن ہے لیکن کمی نہیں!