ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ماضی: اظہار نفرت و بیزاری!
ماضی: اظہار نفرت و بیزاری!
گندھارا تہذیب کی نشانیاں پشاور (گورگٹھڑی) سے چارسدہ‘ مردان‘ براستہ سوات‘
ٹیکسلا یا پھر حاکم رہے ارباب اختیار کے ڈرائنگ رومز تک بکھری پڑی ہیں!
قدرتی آفات سے نمٹنے ہوئے اگر ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے انسانوں کی مشکلات و
مصائب ترجیح نہیں تو ایسے میں بظاہر بے زبان آثار قدیمہ کی کیا وقعت و
اہمیت ہو سکتی ہے لیکن قدیم سے جدید پشاور تک‘ اگر ایک عالم اپنی شناخت
کھونے کے غم میں مبتلا نہیں تو کیا متعلقہ اداروں کا رویہ بھی اسی تجاہل
عارفانہ پر مبنی ہونا چاہئے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ و ثقافت‘ اقدار
اُور سماجی اِرتقاء سے متعلق علوم کی حفاظت اور اسے آنے والی نسلوں تک
پہنچانے کے لئے ذمہ دار ریاستی ادارے خاطرخواہ حساسیت نہیں رکھتے اور یہی
وجہ ہے کہ اُنہیں بجٹ میں ملنے والے وسائل کا بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات
کی نذر ہورہا ہے۔ زندہ قومیں اپنی شاندار تاریخ پر فخر کرتی ہیں‘ اپنے ماضی
کو تاریخ کی گمنام گلیوں میں کھونے کے بجائے اسے محفوظ کرتی ہیں لیکن
افسوس صد افسوس ہم ایسی کسی تحریک اور جذبات سے نابلد ہیں۔ ہم درودیوار اور
یہاں وہاں بکھری تاریخ کو نہ تو جمع (یکجا) کر پائے اور انہیں محفوظ کرکے
دنیا کے سامنے پیش کرنا تو بہت دور کی بات ہے!
سردست صورتحال یہ ہے کہ برطانوی عہد کے شاہی نظام کی حفاظت ہی ریاست نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے جس کی وجہ سے تاریخی ورثے کھنڈرات میں تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور کسی کے ماتھے پر بل نہیں۔ ہم نے مغربی جمہوریت کا نظام بناء ترمیم اپنا لیا لیکن جھوٹ‘ دھوکہ دہی اُور مکر و فریب کو نہیں چھوڑا‘ جس کی وجہ سے جمہوریت بدترین آمریت کا روپ دھار گئی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ آمر سے زیادہ سفاک مزاج رکھتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی خواہش میں پورے نظام کی اصلاح ممکن ہو پائے گی‘ جبکہ ذاتی مفادات کے اسیر رہنماؤں کی نیت شوق کسی سبب ازخود بھر نہیں جاتی!
یادش بخیر انقلابِ فرانس سے پہلے یورپ‘ ایشیاء‘ افریقہ اُور دنیا کے دیگر خطوں میں بادشاہی نظام رائج تھا اور پہلی بار جمہوری حکومت کا تصور یورپ میں انقلابِ فرانس کے بعد سامنے آیا۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد دنیا بھر میں قومی جمہوریتوں کا نیا دور شروع ہوا اور اس کے بعد عالمی سطح پر بادشاہی نظام کی جگہ جمہوریت کی نمائندہ پارلیمنٹ نے لی۔انہی انوکھے و اچھوتے تصورات کے تحت یورپ اور مشرقی ممالک میں نئی حکومتوں کا وجود سامنے آیا۔ عالمی سطح پر کم و بیش دو سو سال تک برطانیہ اور فرانس نے اپنی نوآبادیات قائم کیں اور تاریخ میں درج ہے کہ سلطنت برطانیہ کا حجم اتنا بڑا تھا کہ یہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برطانوی نوآبادیاتی دور اختتام پذیر ہوا۔ دو سو سالہ عالمی طاقت کے اس دور میں برطانیہ کا جمہوری نظام‘ شاہی نظام کے متوازی چلتا رہا‘ اگرچہ شاہی نظام کو یا تو بے اثر کر دیا گیا یا صرف حتمی اختیار ان کے پاس رکھا گیا جبکہ فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ درسگاہوں‘ درسی کتب اور دانشوروں نے شاہی نظام کو آمریت کے ساتھ جوڑا‘ اُور اس پر بے شمار کتابیں تحریر ہوئیں۔ حکمرانی سے جڑے مسائل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا اُور معاشی و اقتصادی پہلوؤں پر ماہرین نے غوروخوض کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنایا۔اگر ہم یہ کہیں کہ جمہوریت کسی ایک ملک میں جامع طور پر موجود ہے تو شاید ایسا کوئی ایک ملک بھی نہیں تو بھلا کم ترین شرح خواندگی اور غربت و افلاس کا شکار ہمارے ہاں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ جمہوریت کا شجر بے سایہ ثمر دینے لگے گا! تاریخی شواہد ہیں کہ برصغیر کے بادشاہی نظام کے خلاف بہت سارے ابہامات مؤرخین کی جانب سے پھیلائے گئے جس کا بنیادی ہدف بادشاہی نظام سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا کرنا تھا۔ اسی کا اثر ہوا کہ برصغیر نے آزادی (بھارت و پاکستان‘ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے) کے بعد خود کو جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کرایا اور اگر طرز حکمرانی کو ایک طرف رکھ کر آثار قدیمہ کی رو سے مطالعہ کریں تو ہم نے اپنے حصے میں آنے والی تاریخی عمارات کی تاریخی حیثیت کو مٹانے کی کاوشیں سرکاری سطح پر کرنی شروع کیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اپنے شاندار ماضی کے ساتھ ہم نے جو برتاؤ روا رکھا ہے وہ کسی بھی طور دانشمندانہ و پائیدار نہیں۔ شاہی نظام کے خاتمے کے دعویدار برطانیہ نے ریاستی سرپرستی میں شاہی نظام کی باقیات کو زندہ رکھا ہوا ہے اور ان کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں پاؤنڈز باقاعدگی سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ برطانوی جمہوری نظام آج اپنے شاہی ورثے کو پال رہا ہے۔ ملکۂ برطانیہ جو برطانوی شاہی خاندان کی موجودہ سربراہ ہیں‘ آج عالمی سطح پر شاہی نظام کم و بیش ختم ہونے کے بعد بھی ملکہ ہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑا کوہِ نور ہیرا شاہی خزانے کا اہم ترین حصہ ہے۔ برطانوی بکنگھم پیلیس (شاہی محل) کی نمائندہ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق محل میں کمروں کی مجموعی تعداد سات سو پچھتر ہے، جن میں ایک سو اٹھاسی ملازمین کی خوابگاہیں (بیڈ روم)‘ بانوے دفاتر‘ اُنیس سرکاری کاموں کے لئے استعمال ہونے والے کمرے‘ باون شاہی مہمان خانے جبکہ 78باتھ رومز کے ساتھ یہی بکنگھم پیلس شاہی نظام کا مرکزی صدر دفتر (ہیڈ کوارٹر) ہے۔ برطانوی ریاست اس شاہی خاندان کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے‘ ملکہ برطانیہ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جو عالمی دورے کئے ہیں صرف ایک سال میں ان دوروں پر پینتیس لاکھ گیارہ ہزار سے زیادہ پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں۔ ان دوروں میں چارٹرڈ جہازوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ یہ رقم ریاست نے خرچ کی۔صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی جمہوری نظام ہر سال ملکہ برطانیہ کو اعزازی طور پر پارلیمنٹری الاؤنس بھی فراہم کرتا ہے۔ شاہی محل میں جو بھی سربراہان مملکت دورہ کرتے ہیں ان کی مہمان نوازی کے اخراجات بھی برطانوی حکومت نے اپنے سر لے رکھے ہیں‘ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال کم و بیش پچاس ہزار افراد کی مہمان نوازی ملکہ برطانیہ کے اسی محل میں کی جاتی ہے۔ برطانوی شاہی نظام کی یادگار کو زندہ رکھنے کے لئے ریاست کو بہت سارے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ شاہی دولت خانے میں جو ملکیتی عمارتیں‘ باغات‘ عجائب گھر ہیں ان کی مالیت سات ارب تیس کروڑ پاؤنڈز ہے۔ ان تمام عمارات بشمول محل کی نگرانی پر ہونے والے تمام اخراجات بھی برطانوی حکومت کے ذمے ہیں۔ برطانوی شاہی نظام کے اس شاندار شاہکار محل کو دیکھنے کے لئے ہر سال ستر لاکھ افراد آتے ہیں اور ان افراد کو شاہی محل میں رکھے نوادرات اور تصویری گیلریوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ کو ریاست کا سربراہ یعنی ہیڈ آف سٹیٹ اور کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور یہ عہدہ کسی بھی اور برطانوی شہری کو نہیں دیا جا سکتا۔اِن حقائق کو جاننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت عیاں ہوتی ہے جس میں یورپی منصفین اور دانشوروں نے شاہی نظام کو رد کرنے اور اس کو آمریت سے منسوب کرنے کی خاطر سینکڑوں کتابیں لکھ ڈالیں لیکن خود برطانیہ عملی طور پر شاہی نظام کو علامتی ہی سہی مگر آئینی طور پر باقی رکھے ہوئے ہے اور اس شاہی نظام کی رکھوالی خود ریاست کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے حکمرانوں کی دوراندیشی کا مظاہرہ ملاحظہ کیجئے کہ بادشاہی نظام کی یادگاریں جو ہمیں ورثے میں ملیں‘ کھنڈرات بن چکی ہیں جن کی دیواروں بوسیدہ حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پشاور کی گورگٹھڑی کم سے کم تین زمانوں مغلیہ‘ سکھ اور انگریز ادوار کی نمائندہ ہے جہاں سے پشاور کی پہلی اینٹ رکھے جانے کی تاریخ بھی اخذ کی گئی! لیکن تاریخی ورثے کے بارے میں ہماری توجہ کم ترین سطح پر ہے۔ قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہم پاکستانی تو ہیں لیکن صرف حال میں زندہ ہیں اور ماضی سے تعلق توڑ کر اُس تاریخ سے ناآشنا ہیں‘ جس میں مہذب بول چال‘ بودوباش اور رکھ رکھاؤ سمیت حفظ مراتب کو خاص اہمیت حاصل تھی‘ اور یہ خواص اگر آج کی نئی نسل میں دکھائی نہیں دیتے تو اس کے لئے مغربی تہذیب اور طرز حکمرانی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں ’ماضی گریز و اظہار نفرت و بیزاری پر منبی‘ اپنی غلطیاں و کوتاہیاں تسلیم کرنی چاہیئں۔
سردست صورتحال یہ ہے کہ برطانوی عہد کے شاہی نظام کی حفاظت ہی ریاست نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے جس کی وجہ سے تاریخی ورثے کھنڈرات میں تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور کسی کے ماتھے پر بل نہیں۔ ہم نے مغربی جمہوریت کا نظام بناء ترمیم اپنا لیا لیکن جھوٹ‘ دھوکہ دہی اُور مکر و فریب کو نہیں چھوڑا‘ جس کی وجہ سے جمہوریت بدترین آمریت کا روپ دھار گئی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ آمر سے زیادہ سفاک مزاج رکھتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی خواہش میں پورے نظام کی اصلاح ممکن ہو پائے گی‘ جبکہ ذاتی مفادات کے اسیر رہنماؤں کی نیت شوق کسی سبب ازخود بھر نہیں جاتی!
یادش بخیر انقلابِ فرانس سے پہلے یورپ‘ ایشیاء‘ افریقہ اُور دنیا کے دیگر خطوں میں بادشاہی نظام رائج تھا اور پہلی بار جمہوری حکومت کا تصور یورپ میں انقلابِ فرانس کے بعد سامنے آیا۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد دنیا بھر میں قومی جمہوریتوں کا نیا دور شروع ہوا اور اس کے بعد عالمی سطح پر بادشاہی نظام کی جگہ جمہوریت کی نمائندہ پارلیمنٹ نے لی۔انہی انوکھے و اچھوتے تصورات کے تحت یورپ اور مشرقی ممالک میں نئی حکومتوں کا وجود سامنے آیا۔ عالمی سطح پر کم و بیش دو سو سال تک برطانیہ اور فرانس نے اپنی نوآبادیات قائم کیں اور تاریخ میں درج ہے کہ سلطنت برطانیہ کا حجم اتنا بڑا تھا کہ یہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برطانوی نوآبادیاتی دور اختتام پذیر ہوا۔ دو سو سالہ عالمی طاقت کے اس دور میں برطانیہ کا جمہوری نظام‘ شاہی نظام کے متوازی چلتا رہا‘ اگرچہ شاہی نظام کو یا تو بے اثر کر دیا گیا یا صرف حتمی اختیار ان کے پاس رکھا گیا جبکہ فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ درسگاہوں‘ درسی کتب اور دانشوروں نے شاہی نظام کو آمریت کے ساتھ جوڑا‘ اُور اس پر بے شمار کتابیں تحریر ہوئیں۔ حکمرانی سے جڑے مسائل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا اُور معاشی و اقتصادی پہلوؤں پر ماہرین نے غوروخوض کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنایا۔اگر ہم یہ کہیں کہ جمہوریت کسی ایک ملک میں جامع طور پر موجود ہے تو شاید ایسا کوئی ایک ملک بھی نہیں تو بھلا کم ترین شرح خواندگی اور غربت و افلاس کا شکار ہمارے ہاں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ جمہوریت کا شجر بے سایہ ثمر دینے لگے گا! تاریخی شواہد ہیں کہ برصغیر کے بادشاہی نظام کے خلاف بہت سارے ابہامات مؤرخین کی جانب سے پھیلائے گئے جس کا بنیادی ہدف بادشاہی نظام سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا کرنا تھا۔ اسی کا اثر ہوا کہ برصغیر نے آزادی (بھارت و پاکستان‘ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے) کے بعد خود کو جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کرایا اور اگر طرز حکمرانی کو ایک طرف رکھ کر آثار قدیمہ کی رو سے مطالعہ کریں تو ہم نے اپنے حصے میں آنے والی تاریخی عمارات کی تاریخی حیثیت کو مٹانے کی کاوشیں سرکاری سطح پر کرنی شروع کیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اپنے شاندار ماضی کے ساتھ ہم نے جو برتاؤ روا رکھا ہے وہ کسی بھی طور دانشمندانہ و پائیدار نہیں۔ شاہی نظام کے خاتمے کے دعویدار برطانیہ نے ریاستی سرپرستی میں شاہی نظام کی باقیات کو زندہ رکھا ہوا ہے اور ان کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں پاؤنڈز باقاعدگی سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ برطانوی جمہوری نظام آج اپنے شاہی ورثے کو پال رہا ہے۔ ملکۂ برطانیہ جو برطانوی شاہی خاندان کی موجودہ سربراہ ہیں‘ آج عالمی سطح پر شاہی نظام کم و بیش ختم ہونے کے بعد بھی ملکہ ہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑا کوہِ نور ہیرا شاہی خزانے کا اہم ترین حصہ ہے۔ برطانوی بکنگھم پیلیس (شاہی محل) کی نمائندہ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق محل میں کمروں کی مجموعی تعداد سات سو پچھتر ہے، جن میں ایک سو اٹھاسی ملازمین کی خوابگاہیں (بیڈ روم)‘ بانوے دفاتر‘ اُنیس سرکاری کاموں کے لئے استعمال ہونے والے کمرے‘ باون شاہی مہمان خانے جبکہ 78باتھ رومز کے ساتھ یہی بکنگھم پیلس شاہی نظام کا مرکزی صدر دفتر (ہیڈ کوارٹر) ہے۔ برطانوی ریاست اس شاہی خاندان کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے‘ ملکہ برطانیہ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جو عالمی دورے کئے ہیں صرف ایک سال میں ان دوروں پر پینتیس لاکھ گیارہ ہزار سے زیادہ پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں۔ ان دوروں میں چارٹرڈ جہازوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ یہ رقم ریاست نے خرچ کی۔صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی جمہوری نظام ہر سال ملکہ برطانیہ کو اعزازی طور پر پارلیمنٹری الاؤنس بھی فراہم کرتا ہے۔ شاہی محل میں جو بھی سربراہان مملکت دورہ کرتے ہیں ان کی مہمان نوازی کے اخراجات بھی برطانوی حکومت نے اپنے سر لے رکھے ہیں‘ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال کم و بیش پچاس ہزار افراد کی مہمان نوازی ملکہ برطانیہ کے اسی محل میں کی جاتی ہے۔ برطانوی شاہی نظام کی یادگار کو زندہ رکھنے کے لئے ریاست کو بہت سارے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ شاہی دولت خانے میں جو ملکیتی عمارتیں‘ باغات‘ عجائب گھر ہیں ان کی مالیت سات ارب تیس کروڑ پاؤنڈز ہے۔ ان تمام عمارات بشمول محل کی نگرانی پر ہونے والے تمام اخراجات بھی برطانوی حکومت کے ذمے ہیں۔ برطانوی شاہی نظام کے اس شاندار شاہکار محل کو دیکھنے کے لئے ہر سال ستر لاکھ افراد آتے ہیں اور ان افراد کو شاہی محل میں رکھے نوادرات اور تصویری گیلریوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ کو ریاست کا سربراہ یعنی ہیڈ آف سٹیٹ اور کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور یہ عہدہ کسی بھی اور برطانوی شہری کو نہیں دیا جا سکتا۔اِن حقائق کو جاننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت عیاں ہوتی ہے جس میں یورپی منصفین اور دانشوروں نے شاہی نظام کو رد کرنے اور اس کو آمریت سے منسوب کرنے کی خاطر سینکڑوں کتابیں لکھ ڈالیں لیکن خود برطانیہ عملی طور پر شاہی نظام کو علامتی ہی سہی مگر آئینی طور پر باقی رکھے ہوئے ہے اور اس شاہی نظام کی رکھوالی خود ریاست کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے حکمرانوں کی دوراندیشی کا مظاہرہ ملاحظہ کیجئے کہ بادشاہی نظام کی یادگاریں جو ہمیں ورثے میں ملیں‘ کھنڈرات بن چکی ہیں جن کی دیواروں بوسیدہ حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پشاور کی گورگٹھڑی کم سے کم تین زمانوں مغلیہ‘ سکھ اور انگریز ادوار کی نمائندہ ہے جہاں سے پشاور کی پہلی اینٹ رکھے جانے کی تاریخ بھی اخذ کی گئی! لیکن تاریخی ورثے کے بارے میں ہماری توجہ کم ترین سطح پر ہے۔ قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہم پاکستانی تو ہیں لیکن صرف حال میں زندہ ہیں اور ماضی سے تعلق توڑ کر اُس تاریخ سے ناآشنا ہیں‘ جس میں مہذب بول چال‘ بودوباش اور رکھ رکھاؤ سمیت حفظ مراتب کو خاص اہمیت حاصل تھی‘ اور یہ خواص اگر آج کی نئی نسل میں دکھائی نہیں دیتے تو اس کے لئے مغربی تہذیب اور طرز حکمرانی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں ’ماضی گریز و اظہار نفرت و بیزاری پر منبی‘ اپنی غلطیاں و کوتاہیاں تسلیم کرنی چاہیئں۔