Friday, October 30, 2015

Oct2015: Attachment with Past

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ماضی: اظہار نفرت و بیزاری!
گندھارا تہذیب کی نشانیاں پشاور (گورگٹھڑی) سے چارسدہ‘ مردان‘ براستہ سوات‘ ٹیکسلا یا پھر حاکم رہے ارباب اختیار کے ڈرائنگ رومز تک بکھری پڑی ہیں! قدرتی آفات سے نمٹنے ہوئے اگر ہمارے فیصلہ سازوں کے لئے انسانوں کی مشکلات و مصائب ترجیح نہیں تو ایسے میں بظاہر بے زبان آثار قدیمہ کی کیا وقعت و اہمیت ہو سکتی ہے لیکن قدیم سے جدید پشاور تک‘ اگر ایک عالم اپنی شناخت کھونے کے غم میں مبتلا نہیں تو کیا متعلقہ اداروں کا رویہ بھی اسی تجاہل عارفانہ پر مبنی ہونا چاہئے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ و ثقافت‘ اقدار اُور سماجی اِرتقاء سے متعلق علوم کی حفاظت اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے ذمہ دار ریاستی ادارے خاطرخواہ حساسیت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ اُنہیں بجٹ میں ملنے والے وسائل کا بڑا حصہ تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہورہا ہے۔ زندہ قومیں اپنی شاندار تاریخ پر فخر کرتی ہیں‘ اپنے ماضی کو تاریخ کی گمنام گلیوں میں کھونے کے بجائے اسے محفوظ کرتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس ہم ایسی کسی تحریک اور جذبات سے نابلد ہیں۔ ہم درودیوار اور یہاں وہاں بکھری تاریخ کو نہ تو جمع (یکجا) کر پائے اور انہیں محفوظ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنا تو بہت دور کی بات ہے!

سردست صورتحال یہ ہے کہ برطانوی عہد کے شاہی نظام کی حفاظت ہی ریاست نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے جس کی وجہ سے تاریخی ورثے کھنڈرات میں تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور کسی کے ماتھے پر بل نہیں۔ ہم نے مغربی جمہوریت کا نظام بناء ترمیم اپنا لیا لیکن جھوٹ‘ دھوکہ دہی اُور مکر و فریب کو نہیں چھوڑا‘ جس کی وجہ سے جمہوریت بدترین آمریت کا روپ دھار گئی ہے جس میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ آمر سے زیادہ سفاک مزاج رکھتے ہیں۔ حقیقی جمہوریت کی خواہش میں پورے نظام کی اصلاح ممکن ہو پائے گی‘ جبکہ ذاتی مفادات کے اسیر رہنماؤں کی نیت شوق کسی سبب ازخود بھر نہیں جاتی!

یادش بخیر انقلابِ فرانس سے پہلے یورپ‘ ایشیاء‘ افریقہ اُور دنیا کے دیگر خطوں میں بادشاہی نظام رائج تھا اور پہلی بار جمہوری حکومت کا تصور یورپ میں انقلابِ فرانس کے بعد سامنے آیا۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد دنیا بھر میں قومی جمہوریتوں کا نیا دور شروع ہوا اور اس کے بعد عالمی سطح پر بادشاہی نظام کی جگہ جمہوریت کی نمائندہ پارلیمنٹ نے لی۔انہی انوکھے و اچھوتے تصورات کے تحت یورپ اور مشرقی ممالک میں نئی حکومتوں کا وجود سامنے آیا۔ عالمی سطح پر کم و بیش دو سو سال تک برطانیہ اور فرانس نے اپنی نوآبادیات قائم کیں اور تاریخ میں درج ہے کہ سلطنت برطانیہ کا حجم اتنا بڑا تھا کہ یہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر برطانوی نوآبادیاتی دور اختتام پذیر ہوا۔ دو سو سالہ عالمی طاقت کے اس دور میں برطانیہ کا جمہوری نظام‘ شاہی نظام کے متوازی چلتا رہا‘ اگرچہ شاہی نظام کو یا تو بے اثر کر دیا گیا یا صرف حتمی اختیار ان کے پاس رکھا گیا جبکہ فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا گیا۔ درسگاہوں‘ درسی کتب اور دانشوروں نے شاہی نظام کو آمریت کے ساتھ جوڑا‘ اُور اس پر بے شمار کتابیں تحریر ہوئیں۔ حکمرانی سے جڑے مسائل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا اُور معاشی و اقتصادی پہلوؤں پر ماہرین نے غوروخوض کرتے ہوئے جمہوریت کو مضبوط بنایا۔اگر ہم یہ کہیں کہ جمہوریت کسی ایک ملک میں جامع طور پر موجود ہے تو شاید ایسا کوئی ایک ملک بھی نہیں تو بھلا کم ترین شرح خواندگی اور غربت و افلاس کا شکار ہمارے ہاں کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ جمہوریت کا شجر بے سایہ ثمر دینے لگے گا! تاریخی شواہد ہیں کہ برصغیر کے بادشاہی نظام کے خلاف بہت سارے ابہامات مؤرخین کی جانب سے پھیلائے گئے جس کا بنیادی ہدف بادشاہی نظام سے عوامی سطح پر بیزاری پیدا کرنا تھا۔ اسی کا اثر ہوا کہ برصغیر نے آزادی (بھارت و پاکستان‘ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے) کے بعد خود کو جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کرایا اور اگر طرز حکمرانی کو ایک طرف رکھ کر آثار قدیمہ کی رو سے مطالعہ کریں تو ہم نے اپنے حصے میں آنے والی تاریخی عمارات کی تاریخی حیثیت کو مٹانے کی کاوشیں سرکاری سطح پر کرنی شروع کیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اپنے شاندار ماضی کے ساتھ ہم نے جو برتاؤ روا رکھا ہے وہ کسی بھی طور دانشمندانہ و پائیدار نہیں۔ شاہی نظام کے خاتمے کے دعویدار برطانیہ نے ریاستی سرپرستی میں شاہی نظام کی باقیات کو زندہ رکھا ہوا ہے اور ان کی حفاظت پر سالانہ کروڑوں پاؤنڈز باقاعدگی سے خرچ کئے جاتے ہیں۔ برطانوی جمہوری نظام آج اپنے شاہی ورثے کو پال رہا ہے۔ ملکۂ برطانیہ جو برطانوی شاہی خاندان کی موجودہ سربراہ ہیں‘ آج عالمی سطح پر شاہی نظام کم و بیش ختم ہونے کے بعد بھی ملکہ ہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے تاج میں جڑا کوہِ نور ہیرا شاہی خزانے کا اہم ترین حصہ ہے۔ برطانوی بکنگھم پیلیس (شاہی محل) کی نمائندہ سرکاری ویب سائٹ کے مطابق محل میں کمروں کی مجموعی تعداد سات سو پچھتر ہے، جن میں ایک سو اٹھاسی ملازمین کی خوابگاہیں (بیڈ روم)‘ بانوے دفاتر‘ اُنیس سرکاری کاموں کے لئے استعمال ہونے والے کمرے‘ باون شاہی مہمان خانے جبکہ 78باتھ رومز کے ساتھ یہی بکنگھم پیلس شاہی نظام کا مرکزی صدر دفتر (ہیڈ کوارٹر) ہے۔ برطانوی ریاست اس شاہی خاندان کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے‘ ملکہ برطانیہ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جو عالمی دورے کئے ہیں صرف ایک سال میں ان دوروں پر پینتیس لاکھ گیارہ ہزار سے زیادہ پاؤنڈز خرچ ہوئے ہیں۔ ان دوروں میں چارٹرڈ جہازوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ یہ رقم ریاست نے خرچ کی۔صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی جمہوری نظام ہر سال ملکہ برطانیہ کو اعزازی طور پر پارلیمنٹری الاؤنس بھی فراہم کرتا ہے۔ شاہی محل میں جو بھی سربراہان مملکت دورہ کرتے ہیں ان کی مہمان نوازی کے اخراجات بھی برطانوی حکومت نے اپنے سر لے رکھے ہیں‘ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال کم و بیش پچاس ہزار افراد کی مہمان نوازی ملکہ برطانیہ کے اسی محل میں کی جاتی ہے۔ برطانوی شاہی نظام کی یادگار کو زندہ رکھنے کے لئے ریاست کو بہت سارے جتن کرنا پڑتے ہیں۔ شاہی دولت خانے میں جو ملکیتی عمارتیں‘ باغات‘ عجائب گھر ہیں ان کی مالیت سات ارب تیس کروڑ پاؤنڈز ہے۔ ان تمام عمارات بشمول محل کی نگرانی پر ہونے والے تمام اخراجات بھی برطانوی حکومت کے ذمے ہیں۔ برطانوی شاہی نظام کے اس شاندار شاہکار محل کو دیکھنے کے لئے ہر سال ستر لاکھ افراد آتے ہیں اور ان افراد کو شاہی محل میں رکھے نوادرات اور تصویری گیلریوں کی جھلک بھی دکھائی جاتی ہے۔ ملکہ برطانیہ کو ریاست کا سربراہ یعنی ہیڈ آف سٹیٹ اور کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور یہ عہدہ کسی بھی اور برطانوی شہری کو نہیں دیا جا سکتا۔اِن حقائق کو جاننے کے بعد ایک عجیب سی کیفیت عیاں ہوتی ہے جس میں یورپی منصفین اور دانشوروں نے شاہی نظام کو رد کرنے اور اس کو آمریت سے منسوب کرنے کی خاطر سینکڑوں کتابیں لکھ ڈالیں لیکن خود برطانیہ عملی طور پر شاہی نظام کو علامتی ہی سہی مگر آئینی طور پر باقی رکھے ہوئے ہے اور اس شاہی نظام کی رکھوالی خود ریاست کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے حکمرانوں کی دوراندیشی کا مظاہرہ ملاحظہ کیجئے کہ بادشاہی نظام کی یادگاریں جو ہمیں ورثے میں ملیں‘ کھنڈرات بن چکی ہیں جن کی دیواروں بوسیدہ حالت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پشاور کی گورگٹھڑی کم سے کم تین زمانوں مغلیہ‘ سکھ اور انگریز ادوار کی نمائندہ ہے جہاں سے پشاور کی پہلی اینٹ رکھے جانے کی تاریخ بھی اخذ کی گئی! لیکن تاریخی ورثے کے بارے میں ہماری توجہ کم ترین سطح پر ہے۔ قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہم پاکستانی تو ہیں لیکن صرف حال میں زندہ ہیں اور ماضی سے تعلق توڑ کر اُس تاریخ سے ناآشنا ہیں‘ جس میں مہذب بول چال‘ بودوباش اور رکھ رکھاؤ سمیت حفظ مراتب کو خاص اہمیت حاصل تھی‘ اور یہ خواص اگر آج کی نئی نسل میں دکھائی نہیں دیتے تو اس کے لئے مغربی تہذیب اور طرز حکمرانی کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں ’ماضی گریز و اظہار نفرت و بیزاری پر منبی‘ اپنی غلطیاں و کوتاہیاں تسلیم کرنی چاہیئں۔

Oct2015: Books on footpath

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بکھرے موتی!
فٹ پاتھ پر کتابیں فروخت ہونے کے منظر سے آنکھ آشنا اور قدرشناس دل مغموم کا مغموم ہونا ایک معمول کی بات ہے تاہم صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور میں تعطیل کے روز فٹ پاتھ پر چند درجن یا سینکڑوں کتابیں نہیں بلکہ پورے کتب خانے سج جاتے ہیں اور یقین نہیں آتا کہ ہمارے معاشرے میں کتابوں کی اہمیت اِس قدر رہ جائے گی! صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو انارکلی بازار کا رخ کیا‘ جہاں بغلی گلیوں اور اطراف میں بند دکانوں کے سامنے زمین پر کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ سیاست‘ ادب اور تاریخ کے حوالے سے کتابیں دیکھ کر قطعی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے ہاں اِن تینوں موضوعات پر لکھنے والوں کے قلم ہمیشہ حکمرانوں کے ساتھ رہے جس کی وجہ سے اُن کی کتب اگر فٹ پاتھوں پر فروخت ہو رہی تھیں تو فرمائشی توصیف پر مبنی تصانیف کا یہی حشر ہونا بھی چاہئے لیکن چلتے چلتے اور یہاں وہاں ورق گردانی کرتے ہوئے اچانک سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی کیونکہ زمین پر ایک ایسی کتاب بھی رکھی ہوئی تھی‘ جس کے مصنف پر اِس کتاب لکھنے کی پاداش میں اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ جانبر نہ ہوسکے اور وصیت کے مطابق زخمی حالت میں مکۃ المکرمہ لیجائے گئے جہاں آپ مقتولاً شہید ہوئے اور صفامروہ کے مابین مدفون ہوئے۔ یہ مصنف احمد بن شعیب بن یحییٰ بن سنان بن دینار نسائی خراسانی المعروف امام نسائی ہے۔ آپ نے سنن نسائی کے علاؤہ ’خصائص علی (رضی اللہ عنہ)‘ نامی کتاب لکھی جس کا عام فہم اُردو اور شرح پشاور کی معروف روحانی شخصیت سیّد محمد امیرشاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ نے ’انوار علی (کرم اللہ وجہہ الکریم)‘ کے نام سے کی۔ فٹ پاتھ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل امام نسائی (متوفی 303ہجری) کی کتاب کا اُردو ترجمہ پڑا تھا‘ جو ایک ناقابل یقین منظر تھا۔ احادیث نبوی پر مشتمل کئی دیگر کتب حتیٰ کہ قرآن کریم کے تراجم بھی چند اینٹوں پر سڑک سے کچھ بلند کرکے رکھے گئے تھے لیکن کیا ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ ابھی آنکھوں کے آگے تاریکی اور امام نسائی کی شخصیت کے خدوخال‘ علوم احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عبور‘ علمی و تحقیقی مرتبہ اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ سے قلبی و روحانی تعلق بطور تعارف ذہن میں تازہ ہو رہا تھا کہ مجھے ایک کتاب پر مرکوز دیکھ کر صحافی محمود جان بابر نے فوراً وہ کتاب اُٹھائی‘ دکاندار کو قیمت ادا کی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’میری طرف سے تحفہ قبول کیجئے۔‘‘ کتاب کا وہ نسخہ امام نسائی کی دیگر تصانیف کے ہمراہ میری زندگی کا حصہ ہے لیکن افسوس اِس بات کا رہا کہ فٹ پاتھ پر پڑی ہوئی تمام اسلامی کتب محفوظ اور حسب شان مسند پر نہیں رکھی جاسکیں!

ہمارے ہاں ہر قسم کے مصنف اور شاعر پائے جاتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لکھنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور اپنے بعد سینکڑوں کتابیں چھوڑ گئے لیکن جس معاشرے میں کتاب کا مقام نہ ہو‘ وہاں لکھنے والے اہمیت بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ عجب ہے کہ جن شہرۂ آفاق کتب کا دیگر زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیا گیا وہ بھی خاطرخواہ مقام حاصل نہیں کرسکیں کیونکہ ہم اِس بات پر زیادہ فخر کرتے ہیں کہ ہمارا بچہ غیرملکی زبان میں نظمیں پڑھے! یہ الگ موضوع ہے کہ برصغیر (پاکستان اور بھارت) کے اہلِ ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی نئی بات نہیں‘ قرض کی مے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی‘ یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔ کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا؟ نجانے کب فن‘ فنکار اور ادیب کی قدرواہمیت کو سمجھا جاسکے گا؟ فیصل آباد کا ایک ناول نگار جو زندگی گزارنے کے لئے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد ہی کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے‘ یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں‘ کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہئے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری نہیں آ جانی چاہئے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں‘ جہاں جذبات کی قدر و قیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی!

جس طرح سبزی منڈی میں آڑتھیوں کی حکمرانی ہے جن سے بچارے کاشتکار کو اتنی رقم بھی نہیں ملتی جن سے فصل کے پیداواری اخراجات پورے ہو سکیں‘ بالکل اسی طرح پاکستان میں پبلشرز (اشاعتی ادارے) مصنفین کو اُن کا جائز حق دینے سے کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر پندرہ سے بیس فیصد پر گھیر لیتے ہیں یعنی ایک ایڈیشن پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مصنف کو ملیں گے اور کم سے کم ساٹھ سے اسی ہزار پبلشر کمائے گا! پبلشرز ایڈیشنز کی تعداد میں بھی بناء بتائے اضافہ کر دیتے ہیں‘ جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن شائع ہوا ہے! اگر کوئی مصنف اپنی کتاب خود شائع کرے تو کتاب بیچنے والے اپنا منافع چالیس سے پچاس فیصد وصول کرتے ہیں یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے گی وہ بیچنے والے کو ایک سو بیس سے لے کر ایک سو پچاس روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کتاب کی اشاعت‘ لکھنے والے کا حصہ صرف ڈیڑھ سو روپے ہوگا اور اس میں وہ اخراجات بھی شامل ہوں گے جو اس کتاب کی اشاعت پر خرچ ہوئے لیکن کتاب بیچنے والا بناء محنت‘ بناء کسی قسم کی سرمایہ کاری ڈیڑھ سو روپے کمائے گا‘ تو کیا اِس قسم کا منافع اور حاکمیت جائز ہے؟ اُردو لکھنے والے اگر ذرائع ابلاغ کا سہارا لیں تو بھی انہیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا‘ جس سے اُن کی باعزت گزراوقات ممکن ہو۔ خیبرپختونخوا حکومت اُردو زبان و ادب کے ساتھ علاقائی زبانوں کی بھی سرپرستی کرکے بکھرے موتیوں کو یکجا کر سکتی ہے کیونکہ اپنی اقدار‘ روایات اور ادب کی بجائے اگر ہم اغیار کی اَندھا دھند پیروی کرتے رہے تو اس سے علم دوستی‘ قومی تشخص اور ملی وحدت نہیں اُبھرے گی‘ جس کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

Thursday, October 29, 2015

Oct2015: Disasters & our handling!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قدرتی آفت: سیاسی و نمائشی تقاضے!
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی پارکنگ میں گاڑی کھڑا کرنے کی جگہ نہیں رہی‘ کیونکہ اِن دنوں وہاں ایک تو ٹیلی ویژن چینلوں کی اُو بی وینز (ڈی ایس این جی گاڑیاں) مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اہم شخصیات (وی وی آئی پیز) کی آمدورفت کی وجہ سے سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑے ہیں۔عجب ہے کہ سیاسی رہنما تو اپنی جگہ بیچارے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن اُن کی بیگمات بھی اس ’نادر موقع‘ پر گھروں سے نکل آئیں ہیں اور ضروری سمجھتی ہیں کہ پہلے رش زدہ ہسپتالوں کی رونقوں میں اضافہ کریں! یقیناًسیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ کسی آفت کے موقع پر یہ بات کتنی ضروری ہوتی ہے کہ وہ عملی طور پر کچھ کریں یا نہ کریں لیکن ذرائع ابلاغ میں اُن کی موجودگی برقرار رہنی چاہئے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس دفعہ بھی ڈاکٹروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ’’زخمیوں کو ہرممکن علاج کی سہولیات فراہم کریں‘‘ جیسا کہ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو ڈاکٹر زیرعلاج مریضوں کی نگہداشت کی بجائے اُنہیں ہسپتالوں سے باہر پھینک دیتے! خدارا دکھوں کی ماری قوم سے مذاق بند کیا جائے۔ درد سے کراہتے ہوئے مریضوں کے سراہانے کھڑے ہوکر تصاویر اور فلمیں بناے والوں کو خوف خدا بھی نہیں رہا! کسی مریض پر جھک کر قوم کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کتنے دردمند ہیں حالانکہ اُنہوں نے سانس روک رکھی ہوگی کہ مبادا بدبو اُن کے نتھنوں سے نہ ٹکرائے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ حضور آپ جس وارڈ میں کھڑے ہیں کیا کبھی یہاں علاج کے لئے آنا پسند کریں گے؟ ہسپتال انتظامیہ بھی معاون بنی ہوئی ہے جو ہاتھ باندھے منتظر رہتی ہے اور چند ایسے مریضوں کوصاف ستھرے بیڈوں اور سلیقے سے رکھی ہوئی ادویات والے ایک وارڈ کو سجا کر رکھا جاتا ہے تاکہ سیاست دان تصاویر بنانے کا اپنا شوق اور ایک سیاسی ضرورت پوری کرسکیں۔

کسی سرکاری ہسپتال کے لئے انتظامی نگران اور مختلف شعبہ جات کی سربراہی کا فیصلہ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر قابلیت اور اہلیت کوئی معنی رکھتی تو ہمیں سرکاری ہسپتالوں کی اکثریت میں میڈیکل ڈاکٹر بطور نگران تعینات نہ ملتے بلکہ وہ تو اپنے تجربے اور طب پر دسترس کا فائدہ مریضوں کوپہنچا رہے ہوتے لیکن ہمارے ہاں عجب ہے کہ سرکاری ہسپتال میں بطور نگران بن کر وسیع و عریض کمرہ‘ مراعات و اختیارات جن میں حکومت سے ملنے والے کروڑوں روپے کی گرانٹ‘ ہسپتال کی اپنی آمدنی‘ ہزاروں کروڑوں روپے کی ادویات اور آلات کی خریداری وغیرہ جیسے امور شامل ہوتے ہیں پر حاکمیت برقرار رکھی جائے۔ یہ معاملہ صرف سرکاری ہسپتالوں ہی کا نہیں بلکہ ہر حکومتی ادارے کے انتظامی معاملات کو ایک ایسے نظام سے جوڑ دیا گیا ہے جس میں حکمراں سیاسی جماعت کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے لیکن کسی ادارے کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری نہ تو انتظامیہ قبول کرتی ہے اور نہ اُن کا انتخاب کرنے والے۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں ایک ایسے ہسپتال کا جہاں جدید ڈیجیٹل ایکسرے مشینیں اور تشخیص میں معاون آلات نہ ہوں۔ چھبیس اکتوبر کے زلزلے نے ایک مرتبہ پھر ہماری علاج گاہوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جہاں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ مریضوں کاعلاج ہوتا ہے اور کسی ہنگامی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ مریض ہوتے ہیں جن کے طبی عملے کا رخ دیگر مریضوں کی جانب موڑ دیا جاتا ہے!

چھبیس اکتوبر کے زلزلے کے بعد ہر کوئی ذرائع ابلاغ میں اپنی اپنی ساکھ بنانے کے چکر میں ایک دوسرے پر برتری لیجانے کی کوشش میں ہے۔ عجب ہے کہ اگر کسی کو امداد دینی ہے تو یہ عمل رازداری اور ’’مبنی بر نمائش‘‘ نہیں ہونا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پاک فوج کا ادارہ فوری ردعمل کا مظاہرہ نہ کرتا تو زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ جانی نقصان ہوتا اور یہ نقصان کسی عمارت کے ملبے تلے دبنے یا اس قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں بلکہ موسم کی شدت اور بھوک و پیاس سے ہوتا۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں زلزلہ متاثرین بے سروسامانی کی حالت میں ہیں۔ انہیں گرم کپڑوں سمیت سر چھپانے کے لئے چھت کی ضرورت ہے۔امدادی اداروں کی جانب سے فراہم کئے جانے والے خیمے برفباری اور بارش جیسے شدید موسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں خریدے گئے۔ پالیسی سازوں کی فہم و فراست کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ موسمی شدت والے علاقوں کے لئے الگ قسم کے خیمے خرید کر نہیں رکھے گئے۔ پاک فوج جیسے منظم ادارے کے پاس ملبہ ہٹانے‘ عارضی پل‘ ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی تلاش کے لئے الیکٹرانک آلات‘ ہیلی کاپٹر‘ ترسیل کے لئے طاقتور گاڑیاں (ٹرک) اور کیمونیکشن (رابطہ کاری) کا ایک ایسا مستعد و مؤثر نظام ہے‘ جو کسی بھی موسم اور درجۂ حرارت میں کام کر سکتا ہے۔ اس قسم کی تکنیکی صلاحیت امدادی اداروں بالخصوص ریسکیو 1122 کے پاس بھی ہونی چاہئے تھی۔ خیبرپختونخوا حکومت کو سوچنا چاہئے کہ انہیں ترجیح بنیادوں پر ’ریسکیو 1122‘ کی خدمات کو کم از کم اضلاع کی سطح تک توسیع دے۔ چند بڑے شہروں کی حد تک ’ریسکیو کا ادارہ‘ کافی نہیں۔

قدرتی آفت چھوٹی ہو یا بڑے پیمانے پر اس کے وسیع منظرنامے اور پہلوؤں پر غور کرنے سے پہلے سیاسی و نمائشی تقاضوں کو الگ رکھنا ہوگا۔ جہاں دس برس بعد بھی زلزلے سے متاثرہ سکول تعمیر نہیں ہوسکے۔ جہاں 2005ء کے زلزلہ متاثرین کو بحالی کے لئے امداد ملنے کا سلسلہ پانچ برس بعد شروع کرنا ممکن ہوا ہو‘ وہاں اُنہی حکومتی اداروں سے یہ توقع کرنا کہ ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا کے دکھوں پر مرہم رکھیں گے‘ یہ بات اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ چھبیس اکتوبر کا زلزلہ نہ تو آخری تھا اور نہ ہی اس کے بعد قدرت کے مقرر کردہ ماحولیاتی توازن میں بگاڑ کی وجہ سے تغیرات کا سلسلہ رک جائے گا۔ جس ملک میں ’ماحولیات‘ کے محکمے کو ’ماخولیات‘ سمجھا جائے۔ جہاں انتخابات میں کامیاب ہونے کے ماہرین کو فیصلہ سازی سونپ دی جائے وہاں ذاتی و سیاسی ترجیحات کے تحفظ پر حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ زلزلہ متاثرین کی امداد اور متاثرہ علاقوں میں معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو زحمت کرنے کی قطعی ضرورت نہیں بلکہ یہ کام زیادہ بہتر انداز میں بلدیاتی نمائندے کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کی موجودگی ہر گاؤں‘ تحصیل اور ضلع کی سطح پر موجود ہے۔ نہایت مناسب وقت ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں بلدیاتی نمائندوں کی شرکت اور تعمیروترقی کے حوالے سے ترجیحات کے تعین میں اُن کی رائے کو خاطرخواہ اہمیت دی جائے۔

Wednesday, October 28, 2015

Oct2015: Cell phone in emergencies!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام 
ہنگامی حالات: ناقابل بھروسہ موبائل فون
کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی موبائل صارف ’پندرہ منٹ‘ دروانیئے میں 200 ایس ایم ایس (شارٹ میسیجنگ سروس) پیغامات اِرسال کرے تو ایک سو ساٹھ الفاظ پر مشتمل مختصر پیغام رسانی کی یہ سہولت اُس سے چھین لی جاتی ہے!َ؟ پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے یہ قاعدہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں لاگو کیا گیا جس کا مقصد اُس وقت کے انتہائی غیرمقبول صدر آصف علی زرداری کے خلاف چلنے والی وہ ’ایس ایم ایس مہم‘ جس میں اُن کی ذات‘ کردار‘ مالی حیثیت‘ بیرون ملک اثاثہ جات حتیٰ کہ اُن کی نجی زندگی کو موضوع بنایا جاتا تھا لیکن پیپلزپارٹی سمیت زرداری صاحب کے پاکستان میں ’غروب‘ ہونے کے باوجود یہ پابندی بدستور موجود ہے‘ جو جمہوریت‘ آزادی اظہار سمیت موبائل فون صارفین کے اُس بنیادی حق کو بھی ضبط کئے ہوئے ہے‘ جس میں وہ اپنے پیسوں سے خریدے ہوئے فون‘ اور اپنی ہی جیب سے ادائیگی کرتے ہوئے ’ایس ایم ایس‘ کرتے ہیں۔ پی ٹی اے کی اصطلاح میں پندرہ منٹ میں دو سو ایس ایم ایس کرنے والا ’سپام (Spam)‘ یعنی فضولیات پھیلا رہا ہوتا ہے یعنی ایسے پیغامات بھیج رہا ہوتا ہے جس سے دیگر موبائل صارفین ذہنی کوفت سے دوچار ہوں اور مذکورہ قاعدہ اِس لئے تشکیل دیا گیا تاکہ ایک موبائل صارف کے شر سے دوسرا موبائل صارف محفوظ رہے! بظاہر یہ منطقی دلیل خامیوں کا مرکب ہے۔ مثال کے طور پر 1: سمارٹ فونز کے علاؤہ تیسری اور چوتھی جنریشن کے تمام موبائل ہینڈسیٹس سافٹ وئرز میں ’بلیک لسٹ (black list)‘ کا آپشن شامل ہوتا ہے‘ جسے اینڈرائرڈ صارفین الگ سے بھی اپنے فون کا حصہ بنا سکتے ہیں اور اِس سہولت کے ذریعے اگر چاہیں تو لاتعداد موبائل نمبروں سے فون کالز یا ایس ایم ایس پیغامات ملنے کے سلسلے کو روک (block) کر سکتے ہیں۔یہی سہولت موبائل فون کمپنیاں بھی فراہم کرتی ہیں تاہم اُس صورت میں صارف کو ہفتہ وار اور مہینہ وار ایک خاص رقم (قیمت) اَدا کرنا پڑتی ہے جبکہ مفت اور آسان حل یہی ہے کہ اپنے فون میں موجود ’بلیک لسٹ‘ کی سہولت کا استعمال کیا جائے اور اگر یہ سہولت دستیاب نہ ہو تو اسے بلاقیمت حاصل (download) یا انٹرنیٹ کی معلومات نہ ہونے کی صورت کسی موبائل ڈیلر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ 2: ایک وقت تھا کہ پیغام رسانی کے لئے صرف موبائل (GSM) نیٹ ورکس پر انحصار کیا جاتا تھا لیکن اب انٹرنیٹ نے رابطہ کاری کی ایک نئی دنیا متعارف کرادی ہے جس میں جغرافیائی سرحدوں و ٹائم زونز کی قید اُور بیرون ملک پیغام بھیجنے یا فون کال کی صورت میں فی منٹ قیمت ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ پاکستان میں بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کاری (ip communication)کی پانچ سرفہرست اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپس (apps) میں سکائپ‘ وائبر‘ واٹس ایپ‘ فیس بک مسینجز اُور گوگل چیٹ شامل ہیں جن کے ذریعے تحریری بات چیت کرتے ہوئے 160 الفاظ فی پیغام کی حد (قید) بھی مقرر نہیں اور یہ ’جی ایس ایم نیٹ ورکس‘ کے مقابلے زیادہ برق رفتار اور قابل بھروسہ ہے۔ جب ہم الیکٹرانک طریقوں سے پیغام رسانی کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے لئے ’قابل بھروسہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں جبکہ بیک وقت ہزاروں لاکھوں صارف موبائل فون استعمال کرنا شروع کرتے ہیں تو پورا نظام ہی بیٹھ جاتا ہے اور فون سگنلز ہونے کے باوجود بھی رابطہ کاری ممکن نہیں ہو پاتی تو ایسے میں انٹرنیٹ دھوکہ نہیں دیتا!

چھبیس اکتوبر کے روز پاکستان کی تاریخ کے بدترین زلزلہ نے جہاں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی ہماری عمومی صلاحیت پر سوال اُٹھایا‘ وہیں رابطہ کاری کے وسائل میں شامل ’جی ایس ایم موبائل نیٹ ورکس‘ کی استعداد بڑھانے اور کسی متبادل‘ زیادہ قابل بھروسہ نظام اپنانے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ شہری علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت عام ہونے سے پہلے ہی بھرپور فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے لیکن اِس سہولت کو دیہی علاقوں اُور بالخصوص بالائی و پہاڑی علاقوں تک وسعت دینے کے لئے ’سیٹلائٹ کیمونیکیشن‘ میں سرمایہ کاری ایک ایسا پائیدار حل ثابت ہوسکتا ہے‘ جس سے عمومی حالات میں درس و تدریس‘ شعور و اگہی‘ موسمی ردوبدل کے بارے معلومات کی فراہمی‘ آبپاشی کے وسائل کا بہترین استعمال اور دیگر خصوصی یا ہنگامی حالات میں رہنمائی کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن سردست وفاقی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ موبائل نیٹ ورکس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیغامات ارسال کرنے پر عائد پابندی ختم کرے کیونکہ جو لوگ ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے مارکیٹنگ (کاروبار) کرتے ہیں وہ ہر چودہ منٹ میں 200 پیغامات ارسال کرکے ایک منٹ کا وقفہ لے لیتے ہیں جس کے بعد انجان موبائل نمبروں پر مزید دو سو پیغامات ارسال کر دیئے جاتے ہیں۔ یقیناًہر موبائل صارف کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور لاکھوں روپے کی لاٹری (انعامات) نکلنے کی خوشخبری والے ’ایس ایم ایس‘ ملتے ہی رہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ جو لوگ ’سپام (spam)‘ یعنی ’ایس ایم ایس‘ کا تجارتی و غلط (بیجا) استعمال کر رہے ہوتے ہیں‘ وہ تو اِس پابندی سے متاثر نہیں ہو رہے اُور انہوں نے کمپوٹر کے ایسے سافٹ وئرز استعمال کرنا شروع کر رکھے ہیں جو ’ایس ایم ایس‘ کی ترسیل اور انہیں ہر پندرہ منٹ پر تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں شامل عوام کے منتخب نمائندوں اور بالخصوص خیبرپختونخوا اسمبلی کی جانب سے ایک قرارداد کی صورت وفاقی حکومت سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ پندرہ منٹ میں زیادہ سے زیادہ دو سو ایس ایم ایس پیغامات کی ترسیل پر عائد پابندی ختم کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موبائل صارفین کی اکثریت اِس قاعدے سے لاعلم ہے اور انجانے میں جب اُن سے خلاف ورزی سرزد ہوتی ہے تو فوراً ہی انہیں ’پی ٹی اے‘ کی جانب سے ایک ’ایس ایم ایس‘ موصول ہوتا ہے کہ آپ سے ایس ایم ایس کی سہولت چھین لی گئی ہے جس کے نیچے دو فون نمبر اور ایک ای میل ایڈریس درج ہوتا ہے۔ پی ٹی اے حکام نے کمپیوٹرائزڈ (خودکار) طریقے سے پابندی تو عائد کر دی لیکن ’ایس ایم ایس‘ کی سہولت واگزار (بحال) کرنے کا طریقہ خودکار نہیں رکھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیصلہ سازوں نے اپنے اور اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کے نمبر ’اہم‘ قرار دے کر اُنہیں اِس پابندی سے مستثنیٰ رکھا ہواہے! اصولی طور پر پہلی بار دو سو ایس ایم ایس ارسال کرنے والے کو خبردار (وارننگ) کیا جائے اور دوسری بار اُس پر پابندی کا اطلاق ہونا چاہئے۔

قابل ذکر ہے کہ ماحولیاتی تنوع سے متعلق ہمارا عمومی رویہ‘ ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ یا تحفظ کے حوالے سے ہماری کم ترین ترجیحات کی موجودگی میں مزید قدرتی آفات کا نزول خارج ازامکان نہیں۔ افغانستان میں زمین کے اندر گہرائی میں جاکر دھماکہ کرنے والے بموں کے استعمال سے ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ زیرزمین تہہ در تہہ متاثر ہوا ہے جو ماہرین کے بقول پے درپے زلزلوں کا مؤجب بن رہا ہے۔ موسم سرما کے آغاز ہی میں شدید برفباری سے کاغان و ناران اور چترال کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں سمجھنا ہے کہ ہماری معیشت و معاشرت‘ ثقافت اور تاریخ (بقاء) موسموں پر منحصر ہے اور اگر مون سون بارشوں کے مزاج یا اوقات میں خدانخواستہ غیرمعمولی تبدیلی رونما ہوئی تو اُس کے منفی اثرات سب سے زیادہ خیبرپختونخوا پر مرتب ہوں گے‘ جہاں ہنگامی حالات کی صورت رابطہ کاری کے وسائل تو موجود ہیں لیکن کچھ بھی قابل بھروسہ نہیں۔

Tuesday, October 27, 2015

Oct2015: Fact not to be ignored

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
غورطلب حقائق!
نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این اے ایچ) کے مطابق ناران کے راستوں پر برف کی 4فٹ تہہ ہٹا دی گئی ہے تاہم اندرون ناران کی سڑکوں پر پھنسے ہوئے سیاحوں کی وجہ بے ہنگم ٹریفک اور سڑک کنارے کھڑی (پارک کی گئیں) گاڑیاں ہیں‘ جنہیں ہٹائے بناء معمول کے مطابق آمدورفت کی روانی ممکن نہیں بنائی جا سکتی۔ قابل ذکر ہے کہ ناران میں پچاس غیرملکی سیاح بھی چند فٹ برف کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق غیرملکی سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔ غیرملکی سیاح حیران ہوں گے کہ اگر ناران میں پہلی مرتبہ برفباری نہیں ہو رہی اُور محکمۂ موسمیات نے مطلع (خبردار) بھی کر رکھا تھا تو پھر حکومتی اداروں نے ایک ایسے سیاحتی مقام تک رسائی اور آمدورفت کو بحال کیوں نہیں رکھا‘ جہاں صرف کم و بیش پانچ ہزار سیاحوں کا نہیں بلکہ مقامی آبادی کی ضروریات کا بھی انحصار ہے!

پاک فوج کے ادارے ’ایف ڈبلیو اُو‘ نے برف ہٹانے کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور بٹہ کنڈی سے ناران تک سڑک کا حصہ صاف کیا‘ تاہم سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال میں ’قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے ’پی ڈی ایم اے‘ کا کردار کیا ہے؟ پی ڈی ایم اے کے نگران عامر آفاق کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس بھاری مشینری نہیں اور ہم قدرتی آفات کی صورت دیگر اداروں سے کورآرڈینشن (رابطہ کاری) کی ذمہ داری نبھاتے ہیں!‘‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے سیاحتی امور امجد آفریدی کے بقول صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن کیا ’ناران زدگان‘ کی فریادیں اور انتظامات پر غور نہیں ہونا چاہئے؟ اگر جملہ سیاحتی مقامات پر الگ ایف ایم ریڈیو‘ شمسی توانائی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے منسلک کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن نصب ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ناران کی چند فٹ برف اتنی بڑی خبر بنتی۔ سیاحتی مقامات کی سیر کے لئے جانے والوں کی رہنمائی کس کی ذمہ داری ہے؟ محکمۂ موسمیات کی پیشگوئیوں سے سیاحوں کو مطلع کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟

ڈی پی اُو مانسہرہ نجیب الرحمن کی منطق ملاحظہ کیجئے جن کا کہنا ہے کہ ’’محرم الحرام کی تین چھٹیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں سیاح ناران پہنچے جہاں پارکنگ گنجائش سے زیادہ ہونے کی وجہ سے سڑک کا استعمال کیا گیا۔ سیاحوں نے تین قطاروں میں گاڑیاں کھڑی کیں جس سے وہ پھنس کر رہ گئے۔ جہاں تک موسمی حالات کا تعلق ہے تو عموماً اس قسم کی شدید برفباری ماہ دسمبر میں ہوتی ہے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہے اور ذرائع ابلاغ نے اِس مسئلے کو جس قدر اُچھالا ہے‘ درحقیقت یہ اُتنا بڑا نہیں۔ محکمہ پولیس اور انتظامیہ برفانی تودہ میں پھنسے ہوئے پندرہ مزدوروں کو نکالنے میں بھی مصروف تھی جن میں ایک ہلاک ہوا جبکہ باقی کو زندہ بچا لیا گیا۔ یوں بیک وقت دو الگ الگ محاذوں پر توجہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو شکایت رہی‘ جس کا ازالہ کیا جارہا ہے۔‘‘ لیکن یخ بستہ رات اور پورا دن کھلے آسمان تلے بسر کرنے والے چھبیس اکتوبر کی سہ پہر تک پھنسے ہوئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ چوبیس سے چھتیس گھنٹے برفباری اور بارش کا سلسلہ جاری رہے گا! علاقے میں سردی کی شدید لہر‘ مزید برفباری‘ پانچ کلومیٹر لمبی گاڑیوں کی قطار‘ پیٹرول اور ڈیزل دستیاب نہ ہو‘ ہوٹل مالکان نے ناجائز منافع خوری کے لئے رہائشی سہولیات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہو اور اشیائے خوردونوش الگ سے مہنگی کر دی ہوں‘ بیشتر علاقوں میں موبائل فون رابطہ کاری بھی معطل ہو تو کیا یہ معمول کی صورتحال ہے؟ مہذب ملک ہوتا تو سیاحت کے وزیرومشیر اور معاونین معطل ہو چکے ہوتے لیکن چونکہ عام لوگ پریشانی و اذیت سے گزر رہے ہیں‘ اِس لئے حکام کے لب ولہجے سے تشویش عیاں نہیں!
سیکورٹی خدشات کی موجودگی میں ’محرم الحرام‘ کا پہلا عشرہ مجموعی طور پر پرامن انداز میں گزرا۔ دس روز میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات میں جیکب آباد سندھ کے ایک ماتمی جلوس پر ہوا حملہ شدید ترین تھا‘ جس سے متاثرہ تشویشناک حالت والے زخمیوں کو کراچی منتقل کرنا پڑا کیونکہ علاقائی و ضلعی سطح علاج معالجے کی سہولیات ناکافی تھیں۔ ہسپتالوں کی عمارتیں موجود لیکن ڈاکٹرز اور ادویات دستیاب نہیں تھیں۔ 26 اکتوبر کے روز آغا خان ہسپتال میں زیرعلاج اِس دھماکے کی ایک زخمی بچی دم توڑ گئی جس سے مرنے والوں کی تعداد 28 ہو گئی جبکہ اس حملے کے 38 زخمیوں میں سے 8کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ صوبہ سندھ کے اِس واقعہ کو دیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا میں صحت کی سہولیات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کیونکہ جب تک دیہی علاقوں اور اضلاع کی سطح پر ہسپتالوں کا نیٹ ورک وسیع‘ مستعد و فعال نہیں بنا دیئے جاتے‘ ضلعی اور مرکزی ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ برقرار رہے گا‘ بالخصوص کسی ہنگامی صورتحال میں زیادہ بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا اندیشہ موجود ہے اور رہے گا۔ محکمۂ صحت کے فیصلہ سازوں سے التجا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے ہسپتالوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے ’فرصت کے چند لمحات‘ میں دیہی و بالائی پہاڑی علاقوں کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ غورطلب حقائق میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ جب تک کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوتا‘ روایت رہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ شعبوں کے ذمہ دار اُس جانب توجہ نہیں کرتے۔ سردست صحت کے ذمہ داروں کی کارکردگی سے حاصل ’خوش خبری‘ یہ ہے کہ ’’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور میں شام کے اوقات میں ’سرجیکل اور گائنی سمیت 9 شعبوں‘ میں ’اُو پی ڈی‘ کا آغاز 26اکتوبر کی ’اَبرآلود صبح‘ کر دیا گیا ہے‘‘ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اِس سرکاری ہسپتال میں ’’تیسری مرتبہ‘‘ ہونے والا یہ تجریہ کس حد تک کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں اِسی قسم کی کوششیں اس لئے ناکام ہوئیں کیونکہ ڈاکٹر شام کے اوقات میں اپنے نجی کلینک چلاتے ہیں اور اُن کی ترجیح ’ذاتی کاروبار‘ رہے جو محض مریضوں کے معائنے کی حد تک محدود نہیں بلکہ ان کے ساتھ تجزیہ گاہوں اور ادویات فروشی کے کاروبار بھی جڑے ہوئے ہیں‘ جن کا حجم کروڑوں روپے ماہانہ ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجیکی معیاری و ہمہ وقت سہولیات کی فراہمی محض نیک نیتی یا خواہشات کے ذریعے ممکن نہیں۔ مریضوں سے پہلے ڈاکٹروں کی اُس اکثریت کا علاج ضروری ہے‘ جو ذاتی مفادات کے سامنے قواعد و ضوابط حتیٰ کہ انسانی جان کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دیتے۔ مادی دنیا کی ضروریات اپنی جگہ لیکن مسیحاؤں کو ضمیر کی عدالت میں اپنے کردار کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں انواع و اقسام نے امراض نے مستقل ڈیرے جما رکھے ہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مرض کی تشخیص اور علاج کے درمیان دانستہ طور پر اتنا طول رکھا گیا ہے کہ جب تک مریض کسی ڈاکٹر کے نجی کلینک سے رجوع نہ کرے‘ اُسے نہ تو تسلی ہوتی ہے اور نہ ہی شفایابی۔ خوداحتسابی سے کام لیتے ہوئے کم آمدنی والے طبقات کی مشکلات و پریشانیوں کے بارے میں صرف ڈاکٹروں ہی کو نہیں بلکہ صوبائی حکومت کو بھی دردمندی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا‘ تاکہ اُن سے وابستہ توقعات پوری ہو سکیں۔
Tourism & Health,how badly both are ignored

Monday, October 26, 2015

Education Quality Performance & outcome!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: معیار‘ کارکردگی اُور وحشت
خیبرپختونخوا میں ’فروغ تعلیم‘ کی کوششوں کے حجم اُور خوشنما اَلفاظ پر مبنی حکمت عملیاں متقاضی ہیں کہ نہ صرف ’عمل درآمد‘ کی رفتار تیز کی جائے بلکہ درس و تدریس کے شعبوں میں جہاں کہیں اصلاحات اور بالخصوص تکنیکی و افرادی وسائل کی کمی ہے اُسے دور کیا جائے۔ زبانی کلامی باتوں سے وقت تو کٹ سکتا ہے جو کٹ رہا ہے لیکن جس تبدیلی کی اُمید تھی‘ اُس سحر کے ظہور میں ابھی کئی پہر باقی ہیں۔ ایک غیرسرکاری تنظیم (پاکستان کولیشن فار اَیجوکیشن) نے خیبرپختونخوا کے پانچ اَضلاع (مردان‘ ملاکنڈ‘ نوشہرہ‘ صوابی اُور سوات) کے سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات اور تدریسی عمل کا جائزہ لیا تو حسب توقع صرف حیران کن ہی نہیں بلکہ تشویشناک اعدادوشمار سامنے آئے۔ مثال کے طور پر 10فیصد سکول ایسے پائے گئے جہاں پورے سکول میں صرف ایک معلم تعینات تھا! اور ایسے سکولوں کی تعداد 30فیصد ہے جہاں پورے سکول کو صرف 2 استاد پڑھا رہے ہیں!

محکمۂ ابتدائی و ثانوی تعلیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہفتہ وار اور دیگر ایام کی تعطیلات کے علاؤہ جس ایک چیز کی سب سے زیادہ پابندی کی گئی وہ تنخواہیں اور مراعات کی وصولی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے زیادہ مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجود نہ تو تعلیم کا معیار بلند ہوسکا ہے اور نہ ہی کوئی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ ایسی مثالی حالت میں پیش کیا جاسکتا ہے‘ جہاں کوئی نہ کوئی کمی یا خامی موجود نہ ہو! ساکھ کے لحاظ سے کم ترین تعلیمی اداروں کے انتظامات کرنے والے بڑے بڑے نام ہیں‘ جو اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے۔ سرکاری اداروں کے مرکزی دفتر (سول سیکرٹریٹ) کا دورہ کریں‘ در و دیوار سے غرور و تکبر اور رعونت چھلکتی دکھائی دے گی لیکن اگر عالیشان دفاتر اور شاہانہ اخراجات کرنے والوں کی کارکردگی بصورت حاصل شدہ نتائج دیکھیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ سڑکیں ہیں تو وہ بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہیں۔ نکاسی آب کے نالے نالیاں ہیں تو وہ اُبل رہی ہیں۔ سکول ہیں تو اُن سے نتائج کے علاؤہ ہر قسم کے کام لئے جا سکتے ہیں۔ کھیل کی سہولیات ہیں تو اُن پر مسلط گروہ سالہا سال سے مسلط ہیں۔ اگر ہم کسی ایک جملے میں حکومتی اداروں کی کارکردگی بشمول عہد بہ عہد حکومتوں کا احاطہ کریں تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم نے کوئی بھی کام سنجیدگی سے نہیں کیا۔ سیاسی اتحادوں سے لیکر وزارتیں اور محکمے تک اِسی ’سنجیدگی کے فقدان‘ کا مظہر ہیں۔

بات صرف سکولوں میں اساتذہ کی کمی سے متعلق نہیں بلکہ کئی ایسے سرکاری محکمے بھی ہیں جن کے لئے موجودہ حکومت نے سیکرٹریز ہی تعینات نہیں کئے اور دیگر محکموں کے منظورنظر سیکرٹریوں کو اضافی ذمہ داری سونپی گئیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تنخواہ میں دو یا دو سے زیادہ ملازمتیں کون کرے گا جبکہ ہمارا حب الوطنی کا معیار ملی نغمے سننے اور قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونے تک محدود ہو۔ بڑے عہدوں پر مسلط افراد کے لئے تنخواہ کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ اختیارت کے متمنی ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ فیصلہ سازی کے منصب میں اُن کا کردار کسں طرح ’مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‘ زیادہ سے زیادہ اختیارات کے ساتھ مراعات کی لالچ نے جو گل کھلائے ہیں اُس سے پورا صوبہ گل و گلزار دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری وسائل کا اسراف اِنسانیت کی تذلیل سے بھی کئی ہاتھ آگے کی بات ہو چکی ہے۔ صحت و تعلیم کے شعبے خواص و عوام کے لئے الگ الگ ہیں۔ قوانین اُور قواعد عام آدمی (ہم عوام) کے لئے تشکیل اور لاگو کئے جاتے ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصروف دفتری اُوقات میں سڑکیں بند نہ کی جاتیں۔ احتجاج کرنے والوں کے خلاف سیکورٹی ادارے لاٹھی چارج نہ کرتے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں پانے والے پولیس اہلکاروں کے دستے اہم شخصیات کے آگے پیچھے حصار کئے سڑک پر چلنے تک کے حق کو بندوق کی نوک نہ چھینتے!

تلخ حقیقت یہ ہے کہ جس تھانہ کچہری کے طورطریقوں (کلچر) کی اصلاح کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہاں کے حالات اُس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتے جب تک 1: سالہا سال سے ایک ہی عہدے پر تعینات پٹوار خانے اور تھانہ جات کے ملازمین کے اثاثہ جات کی تفصیلات اکٹھا نہیں کی جاتیں۔ 2: اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے آج بھی ’لینڈریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر صوبائی حکومت تاریخ میں اپنا نام لکھوانا چاہتی ہے تو لینڈریکارڈ (اراضی کے محل وقوع اور متعلقہ تفصیلات) کی کمپیوٹرائزیشن اُور ریکارڈز (کوائف) ڈیجیٹائزیشن (ڈیٹابیس) مرتب کرنے میں مزید وقت ضائع نہ کرے کیونکہ اُس وقت نہ تو اراضی کے نئے اور زیرسماعت (دیوانی) مقدمات ختم ہوں گے اور نہ روزمرہ کی بنیادوں پر اٹھنے والے ایسے تنازعات کو روکنا ممکن ہوسکتا ہے‘ جن کا انجام خونیں تصادم کی صورت ہوتا ہے! بہرکیف یہ ایک ضمنی بات ہے زیرتوجہ موضوع تو پانچ اضلاع (مردان‘ ملاکنڈ‘ نوشہرہ‘ صوابی اُور سوات) کے اُن 100 سکولوں سے متعلق ہے جہاں کے اساتذہ کی اکثریت درس و تدریس کا بس اتنا ہی رجحان (میلان) رکھتی ہے کہ یہ ایک ’سیاسی باعزت و منافع بخش ملازمتی و نادر موقع‘ ہے! چونکہ اساتذہ کی تعیناتیاں عام انتخابات میں بطور نگران عملہ کی جاتیں ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خزانہ (پہلی ترجیح) تعلیم (دوسری ترجیح) اور بلدیات کی وزارت (تیسری ترجیح) کے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو کسی مستقبل کے کارآمد استعمال کے لئے کھپایا جاسکے! اس اندھا دھند طرزعمل میں سرکاری سرپرستی میں ’معیاری تعلیم وتربیت‘ کم ترین ترجیح رہی ہے۔ جن اضلاع میں سروے کی بات کی گئی وہاں تعینات 1943 اساتذہ میں 24فیصد بی اے‘ 39فیصد ایم اے‘ 22 فیصد ایف اے پاس اور 14فیصد ایسے بھی برآمد ہوئے جنہوں نے صرف میٹرک یعنی 10جماعتیں ہی پڑھ رکھی ہیں! تصور کیجئے کہ ماضی کے حکمرانوں جن میں چند آج بھی کلیدی عہدوں پر فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں محکمۂ تعلیم کا بیڑا غرق کرنے میں کتنی دلجمعی اور خلوص نیت سے عہد بہ عہد اپنا حصہ شامل کیا۔ یہ باور کرنا قطعی غیرمنطقی نہیں کہ ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ’جمہوریت کے نام لیوا‘ ہمارے سیاستدان ہی کافی ہیں‘ جن کی ذاتی‘ سیاسی و انتخابی ترجیحات کی وجہ سے سرکاری اداروں کے انتظامی معاملات تہس نہس بلکہ نہس تہس ہو چکے ہیں!

Sunday, October 18, 2015

Oct2015: Sexual Harassment & Justice!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قوئ شواہد: کمزور حافظے!
خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی پولیس نے ایک صحافی کی شکایت پر پچاس سالہ ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں ’تین دفعات‘ کے تحت علاج کے لئے آنے والی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ اس مقدمے کے شواہد متاثرہ خواتین کے بیانات نہیں بلکہ پچیس سے زائد ایسے مختلف دورانیئے کے ویڈیو کلپس (عکسی دستاویزات) ہیں‘ جن میں مریض خواتین بالخصوص کم عمر لڑکیوں کو معائنہ کرنے کے بہانے جنسی طور پر حراساں کیا جاتا رہا۔ ’کنگ عبداللہ ہسپتال‘ نامی اِدارے میں یہ سلسلہ کب سے جاری تھا اور کیا اِس میں صرف ایک ہی ڈاکٹر ملوث رہے‘ کہ جس کے کرتوتوں کا پردہ ہسپتال انتظامیہ کی جانب نصب سیکورٹی کیمروں کی مدد سے نہیں بلکہ کسی ایسے نامعلوم شخص کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘ جس نے مریض کے معائنہ کرنے والے کمرے میں وہ کیمرہ نصب کیا اور بعدازاں دو درجن سے زائد عکسی شواہد (ویڈیوز) سہیل نامی صحافی کو فراہم کر دیئے لیکن کیا یہ عکسی شواہد ڈاکٹر شعیب کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے کافی ثابت ہوں گی؟ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خفیہ کیمرے کی ریکارڈنگ عدالت میں قابل بھروسہ شہادت نہیں اور جب تک متاثرہ خواتین میں سے کوئی بیان دینے سامنے نہیں آتا‘ اُس وقت تک ’میڈیکل آفیسر ڈاکٹر شعیب‘ پر لگایا گیا الزام ثابت نہیں کیا جاسکے گا اُور ہمارے معاشرے میں اِس بات کا امکان کم تو کیا‘ سرے سے موجود ہی نہیں کہ خواتین پولیس تھانوں میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی رپورٹ درج کرانے جائیں۔ اگر ہمارے ہاں خواتین کے منہ میں زبان ہوتی تو نوبت اِس انتہاء تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک معروف و معتبر علاج گاہ میں اِس قسم کے واقعات پیش آتے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ پولیس ڈاکٹر شعیب کو گرفتار نہیں کرسکی لیکن وہ باآسانی ضمانت بھی کروا سکتا ہے اور بعدازاں ’باعزت بری‘ بھی ہو جائے گا یا زیادہ سے زیادہ اُسے چند ماہ کی قید ہو گی کیونکہ عکسی دستاویزات جیسے قوئ شواہد کے بارے میں عدالتی نکتۂ نظر اور قومی حافظہ کمزور ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ فوری طورپر ڈاکٹر شعیب کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا جاتا۔ اُن کی میڈیکل اسناد سمیت دیگر تمام تعلیمی دستاویزات‘ بینک اکاونٹس‘ موبائل نمبر‘ اُن کے نام پر لگے ہوئے بجلی گیس فون کے کنکشنز‘ کمپیوٹررائزڈ قومی شناختی کارڈ و پاسپورٹ معطل کر دیئے جاتے لیکن ملزم کو جس قدر مہلت دی گئی ہے‘ اُس سے امکان ختم ہو رہا ہے کہ وہ کیفرکردار کو پہنچے گا۔ ہمارے ہاں قوانین میں سقم (بہت سی خامیاں) موجود ہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا ڈاکٹر کسی وکیل کو لاکھوں روپے فیس ادا کرکے ’ہتک عزت‘ کے ایسے کیس بھی دائر سکتا ہے‘ جس سے اِس ملزم کی بجائے رپورٹ کرنے والا صحافی گرفت میں آ جائے گا اور بالآخر حق کی آواز بننے والا مجبوراً ڈاکٹر سے صلح کر لے گا اور پولیس درج شکایت سردخانے کی نذر کر دے گی! المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کمزور طبقات (خواتین‘ بچوں‘ بزرگوں‘ ذہنی و جسمانی معذور افراد اور کم مالی وسائل رکھنے والوں) کے ساتھ زیادتیاں معمول کی بات ہیں‘ ذرائع ابلاغ اصلاح کی بجائے ایسے واقعات کا تماشہ بناتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے رویئے تبدیل ہوتے۔ مثال کے طورپر ایسی کئی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جب خود قانون نافذ کرنے والے ادارے کے باوردی اہلکاروں نے ملزموں کی اندھا دھند مارپیٹ کرکے اُن کی چمڑیاں ادھیر ڈالیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ایک طبقہ یا گروہ حالات سے مجبور ہو کر سڑکوں پر نکلتا ہے تو اُس کی تواضع لاٹھی چارج اور آنسوگیس سے کی جاتی ہے۔ کیا عوام کی نمائندگی پر فخر کرنے والے قانون ساز ایوانوں کے باہر احتجاج کرنے والوں پر‘ تشدد نہیں ہوتا؟ جب تک قوم کا حافظہ کمزور رہے گا‘ قوئ سے قوئ شواہد بھی ’’ناکافی‘‘ ثابت ہوتے رہیں گے!

مانسہرہ کے ایک مسیحا (ڈاکٹر) نے صرف اپنے مقدس پیشے ہی سے بددیانتی نہیں کی بلکہ اُس نے اپنے خون کی شرافت اور گھریلو تربیت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ مریض خواتین کے ساتھ شرمناک حرکتیں کرنے کا ارتکاب کرنے والا کیا یہ پہلا اور آخری کردار ہے؟ جس معاشرے کا فخر‘ انتہائی تعلیم یافتہ‘ عملی زندگی کے کامیاب ترین افراد اِس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوں وہاں کے اخلاقی معیار کی بلندی و پستی کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں! اگر تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیمات‘ اخلاقی تربیت اُور اقدار شامل نصاب ہوتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ماں کی گود سے پہلا قدم اُٹھانے والے معصوم اشرف المخلوقات عملی زندگی میں ایسا روپ اختیار کرلیتے جن سے شیطان بھی پناہ مانگتا۔

خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن‘ ایک دورافتادہ شمالی حصے میں پیش آنے والے واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ جملہ سرکاری و نجی ہسپتالوں سیکورٹی کیمروں کی طرح مریضوں کی معائنہ جگہوں‘ ڈاکٹرز رومز اور رہداریوں میں کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے (سی سی ٹی ویز) نصب کرے کیونکہ خطرہ صرف مریضوں یا اُن کے ساتھ آنے والی تیماردار خواتین کو نہیں بلکہ اُن لیڈی ڈاکٹرز‘ اور معاون طبی عملے میں شامل خواتین کو بھی لاحق ہے‘ جنہیں جنسی طور پر حراساں کرنے والے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ خواتین ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے لئے صرف طالبات کے لئے مخصوص طب کے تعلیمی ادارے بنائے جائیں کیونکہ اگر ایسے مخصوص تعلیمی ادارے تجارتی بنیادوں پر نجی شعبے میں قائم ہو سکتے ہیں تو سرکاری سطح پر کیوں نہیں؟ چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایوب میڈیکل کالج (ایبٹ آباد) کے ہاسٹل میں مقیم ایک خوش شکل طالبہ سے جب اُس کی ساتھیوں نے زار و قطار رونے کا سبب پوچھا تو اُس نے ایک معلم کا نام لیا‘ جو اُسے چھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور تنہائی میں ملاقات کا تقاضا کر رہا ہے۔ کسی شریف زادی کے لئے یہ صورتحال کس طرح قابل قبول ہو سکتی ہے جبکہ اُس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ اگر وہ اپنے اہل خانہ کو بتائے تو سب سے پہلے تو اُس کی تعلیم کا سلسلہ روک دیا جائے گا اور اگر کالج انتظامیہ تک بات پہنچائے تو وہ کچھ بھی ثابت نہیں کرسکے گی‘ جس سے بدنامی کا اندیشہ اور اُس کے ڈاکٹر بننے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت بھی ہے خواتین کی بات کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ پشاور یونیورسٹی اور دیگر کئی سرکاری و نجی اداروں میں ایسی محکمانہ تحقیقات سارا سال ہی ہوتی رہتی ہیں جس میں ’مرد کا جرم ثابت نہیں ہوتا!‘ اُور ملزم مزید سینہ تان کر جبکہ شکایت کرنے والی خاتون کا سر مزید جھک جاتا ہے!

’مانسہرہ ڈاکٹر سکینڈل‘ صرف قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں اور بالخصوص محکمۂ صحت (خیبرپختونخوا) کے لئے بھی ’ٹیسٹ کیس‘ ہونا چاہئے‘ جنہیں علاج معالجے کی معیاری سہولیات کے ساتھ مستورات کے تقدس و حرمت کو ہرممکن ممکن بنانا ہے۔ یاد رکھیں کہ کسی قاعدے قانون کو توڑنا یا جرم کا ارتکاب کسی فرد کا انفرادی فعل نہیں ہوتا بلکہ اُس کے پیچھے چھوٹے بڑے گروہ کارفرما ہوتے ہیں جو قواعد و ضوابط اور قوانین میں موجود خامیوں (رعائتوں‘ اختیارات)کا فائدہ اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ وزیر صحت شہرام تراکئی نے ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر نعیم کو بھی برطرف کر دیا ہے جبکہ ڈپٹی میڈیکل سپرٹینڈنٹ کے مطابق ڈاکٹر شعیب کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی نگرانی اعلیٰ سطحی اہلکار ڈائریکٹر ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ کریں گے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر مذکورہ ہسپتال کے تمام دفاتر میں لگے ہوئے پردے ہٹا دیئے گئے ہیں اور اس بات کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ اگر کسی خاتون مریض کا معائنہ مرد ڈاکٹر کرے تو اُس خاتون کے ساتھ آنے والا مرد یا عورت معائنے کے اختتام تک اُس کے ساتھ موجود رہنی چاہئے اور اگر کوئی خاتون اکیلی معائنہ کے لئے آئے تو ہسپتال کے معاون طبی عملے کا کوئی ایک اہلکار کمرے میں موجود رہے گا! محکمۂ صحت کی جانب سے یہ ہدایات صرف ایک ہسپتال کے لئے جاری کی گئیں ہیں‘ ضرورت اِس امر کی ہے کہ صوبے کے دیگر چھوٹی بڑی علاج گاہوں میں بھی اسی قسم کے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کئے جائیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو جنسی ہراساں کرنے کی شکایات درج کرانے کے لئے ٹیلی فون‘ ایس ایم ایس اُور اِی میل کا طریقۂ کار متعارف کرانا چاہئے‘ کیونکہ بات صرف کسی ایک ہسپتال یا شعبے تک محدود نہیں۔ حقیقت کا اِنکار‘ وقتی اِقدامات اُور محکمانہ تحقیقات ایسی تلخیوں اور امراض کا علاج نہیں ہو سکتے‘ جو سرطان سے بھی زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔

Wednesday, October 7, 2015

Oct2015: Sustainable legislation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پائیدار قانون سازی
احساس‘ توجہ اور پیار بھرے تعلق کے بناء نہ تو رشتے پروان چڑھتے ہیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ ارتقاء‘ توانائی اور استحکام پاتا ہے۔ سماجی ترقی و خوشحالی کا تعلق بھی اُس سیاسی سکون سے ہوتا ہے‘ جس میں ادارے پریشانیوں میں کمی کا سبب بنتے ہیں۔ آسانیاں بانٹتے ہیں۔ آسانیاں عام کرنے کی عمل سے ترغیب دیتے ہیں۔ اجتماعی عبادات کا فلسفۂ بھی یہی ہے کہ کندھے سے کندھا ملا کر ’صف بندی‘ کرنے والے ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے اتنے ’تعلق دار‘ بن جائیں کہ ’اجنبیت‘ باجود کوشش بھی اُن کے درمیان حائل نہ ہوسکے۔
آشنامسائل کے ناآشناحل عملاً ممکن نہیں ہوسکتے۔سماجی ذمہ داریوں سے متعلق شعور اُجاگر کئے بناء بذریعہ قانون سختی (سزائیں اُور جرمانہ) کرنے سے اَندیشہ ہے کہ صرف وہی لوگ گرفت میں آئیں گے جو ناخواندگی کے سبب نہ تو ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کرتے ہیں اُور نہ محنت مشقت میں شبانہ روز مصروفیات کی وجہ سے اُنہیں اِس قدر فرصت ہی ملتی ہے کہ وہ نئی قانون سازی یا قواعد و ضوابط میں ہوئی تبدیلی سے خود کو باخبر رکھ سکیں۔ کیا کسی عام آدمی کے لئے ’قانون ساز ایوان‘ کی بلندوبالا چاردیواری کے اندر جھانکھنا تک ممکن ہے؟ اگر قانون سازوں نے خود کو اتنا الگ اور بلندوبالا سمجھ لیا ہے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر برسرزمین حقائق کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔ اگر عام آدمی (ہم عوام) کی معاشی مشکلات اور مہنگائی جیسے عوامل سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا احساس نہیں کیا جائے گا تو بذریعۂ طاقت حکمرانی ’ظلم‘ کہلائے گی‘ جس سے متعلق سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کفر سے قائم رہ سکتی ہے‘ لیکن ظلم سے نہیں!پارلیمانی سیاسی تاریخ کے ماضی پر نظر کیجئے ایک سے بڑھ کر ایک قانون سازی کی گئی‘ لیکن قوانین پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ قوانین کے بارے میں عام آدمی کو علم بھی نہیں کہ اُن کی ساخت کتنی پُرپیچ بنائی گئی ہے اور کئی ایسے سقم رکھے گئے ہیں‘ جن کی وجہ سے بذریعہ عدالت ’انصاف تک رسائی‘ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔
پانچ اکتوبر کے روز خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان میں ایک ایسی آئینی ترمیم پیش اور متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جس کی رو سے ’نہروں اُور نکاسئ آب‘ کے موجودہ قانون کو زیادہ سخت بنا دیا گیا ہے‘ اُور اگر نالے نالیوں یا نہر میں پلاسٹک کی بنی ہوئی اشیاء بشمول ایک عدد شاپنگ بیگ بھی پھینکا جاتا ہے تو یہ ایک ایسا جرم ہوگا جس پر 50 ہزار سے 20 ہزار روپے تک جرمانہ اور ایک سال تک کی قید یا دونوں سزائیں بیک وقت ہو سکیں گی! کیا ترمیم سے قبل اُور موجودہ صورت میں اِس قانون پر عمل درآمد عملاً ممکن ہو پائے گا جبکہ ہم خیبرپختونخوا کے طول و عرض اور بالخصوص پشاور کے مضافاتی اُور اَندرون شہر کے علاقوں میں یہ مناظر عام دیکھتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے کیونکہ اِس کے متبادل کوئی دوسرا ذریعہ متعلقہ اداروں کی طرف سے فراہم ہی نہیں کیا گیا۔ سرکی گیٹ سے سٹی سرکلر روڈ کے ساتھ ہزار خوانی تک میلوں پر پھیلے ہوئے رہائشی و تجارتی علاقے کے لئے نکاسی آب کا واحد ذریعہ وہ ’نہر‘ ہے‘ جو آبپاشی کے مقاصد کے لئے بنائی گئی تھی اور ایک وقت تک پشاور کے رہنے والے پینے کا صاف پانی اِسی نہر سے حاصل کیا کرتے تھے لیکن آج وہی نہر ایک بہت بڑے ’گندے نالے‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں بیت الخلأ کی گندگی سے لیکر ہر قسم کی ٹھوس پھینک دی جاتی ہے۔ نہر کے پانی پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگز‘ ٹیٹرا پیک اور خالی بوتلیں تیرتی دکھائی دیتی ہیں! سرعام ہونے والی اِس ’قانون شکنی‘ کے لئے اہل علاقہ کو کیونکر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ اُنہیں نکاسی آب یا گندگی ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی متبادل ذریعہ فراہم نہیں کیا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد کیا پشاور کے اِس پورے علاقے کے رہنے والوں کو جرمانہ کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا؟ اگر نہیں تو پھر قوانین اُور قانون سازی جیسے سنجیدہ عمل کو مذاق بنانے سے گریز کیا جائے۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین کا برسرزمین حالات سے موازنہ کرتے ہوئے جائزہ لیا جائے کہ کہاں قوانین کو اِس قدر حقیقی بنایا جائے کہ وہ اپنے وجود کا ثبوت خود دیں۔ قانون سازی سے پہلے ذرائع ابلاغ میں بحث مباحثہ‘ نماز جمعہ کے اجتماعات میں ان سے متعلق خطبات اور گلی محلوں کی سطح پر شعور اُجاگر کرنے کے لئے رابطۂ عوام مہمات کا اِنعقاد ضروری ہیں۔ یوں اگر کسی ایک قانون یا ترمیم کے بارے شعور عام کرنے میں چند برس لگ بھی جائیں لیکن نتیجہ بہت ہی پائیدار ہوگا‘ اِس کا اطلاق سہل ہوگا اُور وہ ایک ایسا مثالی قانون بن جائے گا جس کے نتائج بصورت ’اصلاح معاشرہ‘ دیگر صوبوں کے لئے فقیدالمثال ہوگی۔ کم سے کم وقت میں’تن آسانی‘ پر مبنی قانون سازی کرنے والوں کو کم اَز کم اس کے ممکنہ اطلاق کے بارے بھی سوچنا چاہئے کیونکہ محض قانون سازی اور ترامیم ہی اُن کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ بھی تو کرنی ہے۔ جملہ اراکین صوبائی اسمبلی کو یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے ’عوام کے منتخب نمائندے‘ ہیں اور بعد میں کچھ اُور۔
Sustainable legislation and implementation must also needed to be consider

Oct2015: Muharram Security Plan need revision

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیکورٹی پلان: نیا باب!
محرم الحرام 1437ہجری کی مناسبت سے ’پشاور پولیس‘ نے ’حفاظتی حکمت عملی (سیکورٹی پلان)‘ کو حتمی شکل دے دی ہے اُور رواں برس حساس و نیم حساس عبادتگاہوں سمیت پہلے ’عشرۂ محرم سے آٹھ ربیع الاوّل تک (ایام عزأ) کے جلسے اجتماعات (جلسے جلوسوں) کی نگرانی کے لئے ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن‘ کیمروں کی تنصیب کے علاؤہ ’الیکٹرانک آلات‘ سے نگرانی کے لئے خصوصی ’کمانڈ اینڈ مانیٹرنگ سسٹم‘ بھی ’چوبیس گھنٹے‘ فعال رہیگا۔ یادش بخیر محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران‘ 27 جنوری 2007ء کے روز ’قصہ بازار‘ سے متصل ماتمی جلوس کے برآمد ہونے سے قبل خودکش حملے میں پشاور پولیس کے سربراہ ملک سعد اُور ڈی ایس پی (سٹی) خان رازق سمیت ایک درجن سے زائد افراد شہید ہوئے! ایک دن میں دو اہم فرض شناس اہلکاروں کی شہادت صرف محکمۂ پولیس ہی کے لئے بلکہ پشاور کے لئے صدمہ تھا‘ بالخصوص خان رازق شہید جیسا نظم و ضبط کا پابند‘ ملنسار اُور تنظیمی خداداد صلاحیتوں سے مالامال بیدار و مستعد فکروعمل والا اہلکار نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی آج تک اُن کا ثانی مل پایا ہے۔ یہ وہی خان رازق تھے جنہوں نے اندرون کوہاٹی گیٹ 12جولائی 1992ء (یوم عاشور)کا فرقہ ورانہ سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اُور بعدازاں محرم سیکورٹی پلان کے نام سے حکمت عملی مرتب کی جبکہ اِس سے قبل مرکزی دفتر سے متعلقہ تھانہ جات کو صرف چند سطروں پر مشتمل ہدایات جاری کر دی جاتی تھیں۔ جس وقت پشاور کا سیکورٹی پلان مرتب کیا گیا‘ وہ نہایت ہی پرخطر دور تھا اُور کم و بیش ہر روز ہی دہشت گرد واقعات رونما ہوتے تھے۔ پشاور کے داخلی راستوں‘ بازاروں اور عبادتگاہوں کے آس پاس آمدورفت محدود کرنے کے باوجود بھی دہشت گرد اپنے اہداف کو چن چن کر نشانہ بنا رہے تھے۔ خان رازق نے تمام ماتمی جلوسوں کے راستوں‘ جلسہ گاہوں کے مقامات کی نشاندہی پر مبنی نقشے مرتب کئے۔ ہر جلسے جلوس اور نماز کی ادائیگی کو وقت کا پابند بنایا اُور کئی برس تک مشاہدے کے بعد ان میں شرکت کرنے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کے بارے میں اعدادوشمار بھی سیکورٹی پلان میں شامل کردیئے جس سے پولیس (نفری) کی تعیناتی بہت ہی آسان ہوگئی۔ علاؤہ ازیں انہوں نے سفید کپڑوں میں پولیس اہلکار تعینات کئے اور مخصوص الفاظ (کوڈ ورڈ) کے ذریعے پولیس کی باہمی بات چیت و شناخت کی اصطلاحات مرتب کیں جو اُن کے اقوام متحدہ امن مشن میں تعینات رہنے کے دوران تجربات کا حاصل تھا۔ بہرکیف خان رازق کا مرتب کردہ سیکورٹی پلان آج بھی ’من و عن‘ زیراستعمال ہے اور اس کی پیشانی پر تاریخوں سمیت آخری صفحات پر رابطہ نمبروں میں تبدیلی کر دی جاتی ہے چونکہ آج کے سیکورٹی حالات (چیلنجز) ماضی سے بہت مختلف ہیں اور بقول انسپکٹرجنرل پولیس ناصر درانی دہشت گردی کے واقعات (امکانات) میں 56 فیصد جیسی غیرمعمولی کمی آئی ہے اُور پشاور سے متصل قبائلی علاقوں تک آپریشن ضرب عضب کا دائرۂ کار بھی پھیلا دیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں تو حالات میں آئی بہتری کی جھلک رواں برس محرم الحرام کے دوران عملاً نظر آنی چاہئے۔

کرفیو جیسے سخت انتظامات کی وجہ سے پشاور کے مرکزی علاقوں کو ایک دوسرے سے اس حد تک کاٹ دیا جاتا ہے کہ اندرون شہر کے مختلف حصوں میں دودھ اُور دیگر ضروریات کی اشیائے خوردونوش تک کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں سے وابستہ چھوٹے بڑے افراد بشمول مریضوں کو الگ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود اندرون شہر کے رہنے والوں کو سات سے دس محرم الحرام کے ایام میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پولیس ناکوں پر بحث و تکرار معمول ہوتا ہے‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حفاظتی ناکوں پر غیرمقامی پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے‘ جو مقامی افراد کے لب و لہجے‘ لباس اور معمولات سے واقفیت نہیں ہوتی۔ پشاور پولیس ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سمیت طبی و میونسپل خدمات فراہم کرنے والوں کو ’سیکورٹی کارڈز (خصوصی اجازت نامے)‘ جاری کرتی ہے اگر اسی قسم کے اجازت نامے متعلقہ تھانہ جات سے نجی و کمرشل گاڑیوں‘ موٹرسائیکلوں اور آٹو رکشاؤں سمیت دیگر سفری وسائل استعمال کرنے والوں کو جاری کر دیئے جائیں تو ہر مکتبہ فکر ’سیکورٹی انتظامات‘ کا خیرمقدم کرے گا۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اُور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے مستقل نگرانی اپنی جگہ اہم لیکن سفید کپڑوں میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ اور پشاور کے اندرونی حصوں میں خفیہ معلومات کی بناء پر ’سرچ آپریشنز‘ کئے جائیں کیونکہ صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اُن سے ہمدردی رکھنے والے سہولت کاروں اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی پشاور کے لئے کسی ’ٹائم بم‘ سے کم نہیں۔

خیبرایجنسی میں ’فوجی کاروائی (ضرب عضب)‘ کا منطقی انجام ’پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کی خصوصی مہم تک وسیع ہونا چاہئے۔‘ رنگ روڈ کے مضافاتی علاقوں میں چند ایک کاروائیاں کی گئیں لیکن اندرون شہر کے علاقے تاحال کسی غفلت یا مصلحت کی وجہ سے خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اِداروں کو چاہئے کہ وہ پشاور کو اُس کا امن‘ اخوت اُور بھائی چارہ واپس دلانے کے لئے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اور عوام کے منتخب کردہ اَراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کو فعال کردار اَدا کرنے کی ترغیب دیں۔ سال 1992ء سے قبل کے پشاور کی یاد آ رہی ہے‘ جب محرم الحرام سمیت مذہبی مواقعوں پر نہ تو آمدورفت محدود کی جاتی تھی اور نہ ہی گلیاں کوچے اور بازار (تجارتی مراکز) بند کئے جاتے تھے۔ سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے اُن یومیہ مزدوری کرنے والے محنت کشوں کا بھی احساس کرنا چاہئے جن کی بیروزگاری کا ایک دن اُن کے کنبے کے لئے فاقوں کا مؤجب بنتا ہے۔ ’سیکورٹی پلان‘ پر نظرثانی کرتے ہوئے امن وامان کی مستقل و پائیدار بحالی کے لئے ’نئے باب کا اِضافہ‘ بھی ہونا چاہئے جس کے لئے صرف ماہ محرم ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں کے دوران بھی غوروخوض ضروری ہے۔

Tuesday, October 6, 2015

Oct2015: LG Sys: Finacial Burden

ژرف نگاہ۔۔۔شبیرحسین اِمام
مجرمانہ کوتاہی!
کسی ایک کام کو کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں اُور سب سے بہتر طریقہ وہی ہوتا ہے‘ جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ماضی کے اُن تمام تجربات کی روشنی میں مرتب کیا جائے‘ جب ملتے جلتے حالات میں ایسے ہی کسی فیصلے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اگر ہمیں معلوم ہے کہ تارکول کی آمیزش سے بنی ہوئی سڑک اُس وقت تک پائیدار ثابت نہیں ہوگی جب تک کہ اُس سڑک کے اطراف میں نکاسئ آب کا بندوبست نہ کیا جائے اور سڑک کی تعمیر کا زاویہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اُس کی سطح پر بارش یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے گرنے والا خودبخود ڈھلوان یعنی نالے نالیوں کی طرف بہہ جائے لیکن باوجود یہ علم ہونے کے بھی اگر ہمارے ہاں شاہراؤں کی تعمیر سے زیادہ وقتاً فوقتاً اُن گڑھوں کوبند کرنے (بلیک ٹاپنگ) پر زیادہ اخراجات آتے رہیں اور یہ عمل ہر مالی سال میں جاری رہے تو یہ کوتاہی معصومانہ نہیں بلکہ مجرمانہ کہلائے گی کیونکہ مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں انجنیئرز کی کمی ہے یا ہمیں تعمیرات کے جدید علوم سے آگہی نہیں بلکہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اذہان عالیہ کی ذاتی و سیاسی ترجیحات نے ترقی کے عمل کو معکوس بنا رکھا ہے اور جلدازجلد افتتاح اور کم سے کم وقت میں میگا منصوبوں کی تکمیل تو گویا ہمارے سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ (طرۂ امتیاز بن چکا) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹرو بس جیسے فی کلومیٹر ملک کے مہنگے ترین منصوبے سے لیکر گلی محلے کی نالیوں تک کی تعمیر پر ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب کا سب پیسہ پانی کی طرح بہایا اور پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے!

سرکاری خزانے سے غیرمحتاط انداز میں اسراف کی طرح پیسہ خرچ کرنا کوئی ایسا مشکل نہیں کہ اس عمل کا تذکرہ بطور اعزاز یا کسی خوبی کی صورت کیا جائے۔ اگر مجھے کوئی چیز چاہئے اُور میری جیب میں پیسے ہوں تو پھر خریداری کیا مشکل ہے۔ ہمارے ہاں نظام حکومت کا خلاصہ یہ ہے کہ صوبائی ہوں یا وفاقی‘ اور اب تو بلدیاتی حکومتیں بھی صرف اُور صرف مالی اخراجات کے زور سے چل رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ادارے کا ترقیاتی بجٹ اُس کے غیرترقیاتی اخراجات (عملے کی ماہانہ تنخواہوں‘ مراعات‘ زیراستعمال عمارتوں کی دیکھ بھال‘ تعمیرومرمت اور ریٹائر ملازمین کی پینشن) کی نذر ہو رہا ہے۔ صرف یہی ایک ستم نہیں بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ قانون و قواعد سازی کی ذمہ داری جس کسی کو‘ جب کبھی بھی سونپی جاتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے اور اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والوں (پیٹی بندوں) کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور یوں اگر اجتماعی مفاد کا اتفاقاً حاصل ہو تو ہو‘ اِس کے حصول کے لئے دانستہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آتیں۔ کیا یہ بات عام آدمی کے مفاد میں ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی جگہ اُسی کے عزیز کو نوکری دی جائے جبکہ اُس کے اہلیت کا معیار ایک ایسی بے زبان تعلیمی سند ہو‘ جس کی درجہ بندی کا طریقۂ کار ہی موجود نہ ہو۔ اگر امتحان میں کم نمبر حاصل کرنے والوں کو مزید تعلیم کے لئے داخلہ حاصل کرنے کی صورت مقابلے کے امتحانی مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے تو سرکاری نوکری دینے کے لئے مقررکردہ امتحان کا معیار بھی زیادہ بلند و شفاف ہونا چاہئے؟

عام آدمی (ہم عوام) کے ٹیکسوں یا ان کی کھال گروی رکھ کر بھاری سود پر قرضوں سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کی ہر ایک پائی‘ اِحتیاط کی بجائے ’’ذاتی و سیاسی نیک نامی‘‘ کے لئے خرچ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ایک سے بڑھ کر ایک معزز موجود ہے‘ جن کے خرچے اور چرچے (فکروعمل) ’خوداحتسابی‘ سے عاری ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے لئے ’رولز آف بزنس‘ جو کہ کام کاج کے طریقۂ کار اور ذمہ داریوں پر مبنی ہونا چاہئے تھا‘ اُس کا محورومرکز یہ بات ہے کہ نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو ماہانہ کتنی تنخواہ اور مراعات کے ساتھ مالی وسائل حاصل فراہم کئے جائیں گے۔ سارے کا سارا زور اُور بنیادی خیال یہی ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) پر حکومت کرنے والے بلدیاتی نمائندوں کی جو نئی فوج صفیں بنائی کھڑی ہے اُن کے منہ کیسے بند کئے جائیں! ماضی کے بلدیاتی نمائندوں کو بھی اسی طور مالی و انتظامی اختیارات‘ مراعات اور وسائل مہیا کئے گئے اور ہم بھول گئے کہ جب یونین کونسلوں اور ضلع کا آڈٹ ہوا تو مالی بدعنوانیوں کے انبار لگ گئے۔

ماضی کے بلدیاتی نمائندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کے درمیان تعلقات بشمول قبضہ مافیا کی سرپرستی کے حوالے سے کارکردگی بھی آج ہمارے سامنے نہیں۔ کمزور ترین حافظے اور ماضی کو ایک گڑھے میں دفن کرکے دوسرا گڑھا کھودنے جیسی ’مصروفیت‘ کی بھاری قیمت ایک مرتبہ پھر اُس عام آدمی (ہم عوام) کو اَدا کرنا پڑے گی‘ جس کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے! تصور کیجئے کہ بناء کسی ذہنی و تعلیمی قابلیت و اہلیت کے معیار چند سو افراد کی تائید سے منتخب قرار پانے والوں کی تنخواہیں طے کر لی گئیں ہیں۔ ضلعی ناظم ساٹھ ہزار‘ ضلعی نائب ناظم پچاس ہزار‘ تحصیل ناظم چالیس ہزار‘ تحصیل نائب ناظم تیس ہزار‘ ویلیج یا نیبرہڈ کونسل کا ناظم بیس ہزار اور نائب ناظم کو پندرہ ہزار روپے ماہانہ ادا کرنے کی منظوری صوبائی دارالحکومت پشاور میں بیٹھ کر نہیں بلکہ ’’خیبرپختونخوا ہاؤس‘ اسلام آباد‘‘ میں منعقدہ اجلاس میں دی گئی‘ جس میں صوبائی وزیرخزانہ شریک ہوئے لیکن اُنہیں ’اجلاس کے ایجنڈے‘ کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی! پورے صوبے میں تین سطحی بلدیاتی نظام کے باقی ماندہ دیگر نمائندوں (کونسلروں) کو بھی کچھ نہ کچھ مالی مراعات ’عنایت‘ کر دی جائیں گی‘ تاکہ اعتراض کرنے والا اور کوئی جواز باقی نہ رہے! قابل ذکر ہے کہ ’’جب ناظمین اُور نائب ناظمین کی تنخواہیں طے کرنے کے لئے غوروخوض مکمل ہوا‘ تو مالی امور کے نگران صوبائی فنانس ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا گیا کہ وہ محکمۂ بلدیات کو بلاتاخیر (فوری طورپر) 42 ارب روپے جاری کرے!‘‘ اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدالی و جلدبازی کا اس حد تک مظاہرہ کیا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں درج شرط کے مطابق ’صوبائی (پروانشیل) فنانس کمیشن‘ کا اجلاس پہلے طلب ہونا چاہئے تھا لیکن یہاں مالی وسائل پہلے مختص ہوئے اور آئندہ چند روز میں فیصلہ کیا جائے گا کہ اِن مالی وسائل کے ساتھ شرائط کیا ہوں گی یعنی مختص مالی وسائل کے ساتھ ’مالی نظم و ضبط کا ہدایات نامہ‘ کیا ہوگا! تاوقت ہوئے فیصلے کے مطابق ’’ناظمین اور اُن کے نائب خودمختار ہوں گے لیکن اُن کی نگرانی ڈپٹی کمشنروں‘ اسسٹنٹ کمشنروں‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں اُور مختلف معاملات میں اِنجنیئرز کو سونپ دی گئی ہے۔ ضلعی ناظم ہر ضلع کی سطح پر ’ڈسٹرکٹ ایڈوائزری کمیٹی (ڈیڈک)‘ کا رکن ہوگا جو متعلقہ ضلع میں رکن صوبائی اسمبلیوں کو ملنے والے مالی وسائل کا نگران ہوگا لیکن کسی رکن صوبائی قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ضلعی ناظم کی مرتب کردہ ترقیاتی حکمت عملی کے بارے میں سوال یا اِعتراض اُٹھا سکے!

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان چاہتے ہیں اور کیا خوب خواہش رکھتے ہیں کہ ایم این ایز‘ ایم پی ایز یا سینیٹرز کا کردار صرف اور صرف قانون سازی کی حد تک محدود ہونا چاہئے اور جملہ ترقیاتی کام بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے سرانجام پائیں! کیا ایسا عملاً ممکن ہو پائے گا؟ جناب عالیٰ‘ تبدیلی (تاحال) نہیں آئی۔ کانچ کی طرح اِستحقاق کے ساتھ قانون سازی کے مرتبے پر فائز آج بھی مالی و انتظامی طور پر زیادہ طاقتور‘ زیادہ بااختیار اور زیادہ مراعات یافتہ ہیں!

Monday, October 5, 2015

Oct2015: Downfall of LG System

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زمیں بوس بلدیاتی نظام!
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام متعارف کرانے میں کم و بیش سات برس کی تاخیر ایک ایسا بوجھ تھا‘ جسے اُتارنے میں کچھ اِس قدر جلدبازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا کہ نئی قانون سازی میں ماضی کے برعکس صرف ضلع اُور تحصیل کی حد تک ہی نہیں بلکہ اختیارات کو ’دیہی و ہمسائیگی کونسلوں (ویلیج اینڈ نیبرہڈ کونسلز) کی حد تک تقسیم ہی نہیں بلکہ زمین بوس کردیا گیا۔ ایک جیسا کام کرنے کے لئے ایک سے زیادہ بلدیاتی نمائندوں کے انتخاب کا مرحلہ بھی کہے لیجئے کہ مجموعی طور پر ’خوش اسلوبی‘ سے طے پا گیا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا بلدیاتی نمائندوں کی اکثریت تنخواہ یا مالی فوائد حاصل کئے بناء عوام کی ’بے لوث خدمت‘ کریں گے؟ جبکہ یہی کام اگر منتخب یا سیاسی جماعتوں کے نامزد اراکین صوبائی و قومی اسمبلی یا سینیٹرز کرتے ہیں تو انہیں بھاری تنخواہوں کے علاؤہ کی قسم کی مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں! کم از کم تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے یہ اعلان کرکے دوسروں کے لئے ’عمدہ مثال‘ بن سکتے ہیں کہ ’’وہ رضاکارانہ طور پر ہر قسم کی تنخواہ یا مالی مراعات و فوائد سے دستبردار ہوتے ہیں!‘‘

ماضی کے بلدیاتی اداروں اُور موجودہ صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ نظام میں زیادہ فرق نہیں صرف ہر یونین کونسل کو ایک سے زیادہ مزید حصوں میں تقسیم کرکے ویلیج یا نیبرہڈ کونسلیں تشکیل دے دی گئیں ہیں تو کیا یہ سوچا سمجھا اقدام تھا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب یونین کونسلوں کو مزید انتظامی ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا تھا اور ہر انتظامی ٹکڑے کا الگ ناظم‘ نائب ناظم اور دیگر نمائندے حتیٰ کہ اقلیت و خواتین کی نمائندگی بھی مخصوص کر دی گئی تو پھر تحصیل کی سطح پر نمائندے منتخب کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ ویلیج و نیبرہڈ کونسلوں کے نمائندے ’تحصیل کا مؤثر نعم البدل‘ ثابت ہو سکتے تھے۔ ایک ہی کام یعنی تعمیروترقی سے متعلق ترجیحات کے تعین‘ خدمات کے شعبے میں سرکاری اداروں کی کارکردگی نکھارنے اور میونسپل سروسیز کا معیار بہتر بنانے جیسے تین بنیادی کام ضلع اور ویلیج و نیبرہڈ کونسلوں کے ذریعے باآسانی ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ اِس قدر میلے‘ ٹھیلوں اُور جھمیلوں (نمائشی اقدامات) کی آخر ضرورت ہی کیا تھی؟

صرف بلدیاتی قوانین مرتب کرتے ہوئے ہی نہیں بلکہ بنیادی خرابی ہر قسم کی قانون سازی کے مراحل میں غیرضروری رازداری کی وجہ سے ہے۔ عوامی سطح پر‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے یا مشاورتی اجلاسوں کے پلیٹ فارم سے اگر ’بحث و مباحثے‘ کی روایت موجود ہوتی‘ اگر حکومتی اراکین اور بعدازاں صوبائی اسمبلی کی چھت تلے بیٹھے خود کو ’عقل کل‘ نہ سمجھتے تو آج اتنی پیچیدگیاں پیدا نہ ہوتیں اور اندیشہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام سے عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات پوری ہوں یا نہ ہوں صوبائی حکومت نومنتخب اراکین کو ’خوش‘ کرنے کے لئے فراخدلی کا مظاہرہ ضرور کرے گی‘ جس کا باقاعدہ اعلان آئندہ چند روز میں نوٹیفیکیشن کی صورت منظرعام پر آ جائے گا اور اسی ضمن میں 3 اکتوبر کی شام خیبرپختونخوا ہاؤس (اسلام آباد) میں ایک متعلقہ اعلیٰ حکام کا خصوصی اجلاس طلب منعقد ہوا‘ جس کی صدارت خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت کے سربراہ عمران خان نے بذات خود فرمائی۔ اِس غیرمعمولی اجلاس کا ایک مقصد اُن ’رولز آف بزنس (آئینی طریقۂ کار)‘ میں ترامیم و اضافے کا جائزہ لینا تھا‘ جس کے بعد ہر ضلع‘ ہر تحصیل اور ہر دیہی و ہمسائیگی کونسل کے ناظم و نائب ناظم کو ایک مستقل رقم بطور ماہانہ وظیفہ (تنخواہ) اَدا کی جائے گی لیکن مسئلہ اُور اندیشہ اُن 40 ہزار نومنتخب کونسلروں کے شدید ردعمل کا ہے‘ جن کی تنخواہیں اگر مقرر کی جاتی ہیں تو بلدیاتی حکومتوں کے لئے مختص تمام کے تمام مالی وسائل ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کی نذر ہو جائیں گے اور پھر ترقیاتی کاموں کے لئے ایک پیسہ بھی دستیاب نہیں ہوگا!

مقامی حکومتوں کا نظام مرتب کرتے وقت سوچنا چاہئے تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کی فوج کے اخراجات کہاں سے اَدا ہوں گے اور جب ہر منتخب نمائندے کو حکومت نے ماہانہ تنخواہ ہی اَدا کرنی ہے تو پھر اہلیت کا کوئی نہ کوئی ایسا معیار بھی مقرر کیا جاتا کہ جس کے تحت کسی نہ کسی تعلیمی قابلیت یا ذہانت و تجربے کے کم سے کم معیار پر پورا اُترنے والے ہی عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لے سکتے۔ یوں ہر بے روزگار اور فارغ البال چند سو ووٹوں کے عوض ’منتخب نمائندہ‘ ہونے کا ’اعزاز‘ نہ پاتا۔ جسے اب یہ بھی معلوم نہیں کہ منتخب ہونے کے بعد اُس کی ذمہ داریاں کیا ہیں! خیبرپختونخوا حکومت نے ترامیم کے ساتھ ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ‘ شائع کردیا ہے جو نہ صرف انگلش زبان میں دستیاب ہے بلکہ اس میں استعمال ہونے والی آئینی اصطلاحات سمجھنا ہر بلدیاتی نمائندے کے بس کی بات نہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت سے درخواست ہے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کے حوالے سے قانون کا سلیس اُردو ترجمہ بمعہ شرح (حاشیے پر تفصیلات) کے ساتھ مرتب کرے اور اسے قسط وار انداز میں بذریعہ اخبارات شائع کیا جائے۔ یہی کام اشاعتی ادارے اپنے طور پر بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اُن کے قارئین کی بڑی تعداد اِس موضوع میں دلچسپی رکھتی ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کے تحت کسی منتخب نمائندے کا دائرہ اختیار اور اس دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے اُس کی پورے نظام میں بطور اکائی حیثیت کیا ہوگی۔ جب منتخب نمائندوں کو اپنی حیثیت اور عہدوں سے جڑی ذمہ داریوں کا علم ہی نہیں تو اُن سے ’اجتماعی مفاد‘ میں کسی بھی غیرمعمولی یا معمولی کارکردگی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔

Sunday, October 4, 2015

Oct2015: TRANSLATION: Rs8,500,000,000,000

Rs8,500,000,000,000
ساڑھے آٹھ کھرب روپے!
پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں خردبرد کئے جانے والے سرکاری مالی وسائل کا حجم ساڑھے آٹھ کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ اندازہ کم سے کم مالی بدعنوانی جاننے کے لئے ایک عالمی فارمولے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس فارمولے کے خالق ڈاکٹر رابرٹ کلٹگارڈ (Dr. Robert Klitgaad) ہیں جس کے مطابق اختیارات کے عوض برسرحکومت سیاسی شخصیات فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر رابرٹ دنیا بھر میں مالی بدعنوانیوں کی کھوج لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اُن کے وضع کردہ طریقۂ کار سائنسی اعتبار سے مستند تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی منتخب عوامی نمائندے یا چنیدہ افراد کو فیصلہ سازی یا حکومت کا منصب دیا جاتا ہے اور اُنہیں صوابدیدی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ بدعنوانی کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ جہاں کہیں احتساب کا ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے ذریعے احتساب کا عمل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا جائے وہاں مالی بدعنوانیاں کرنے والے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقتور اور حکومتی معاملات پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالمی درجہ بندی میں امریکہ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اُور پاکستان کا شمار کیا گیا ہے جہاں اختیارات کے ذریعے سیاسی و غیرسیاسی حکمران اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ اور ذاتی مالی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی اکثریت غریب جبکہ گنتی کے چند خاندان امیر ہو جاتے ہیں!

پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان میں کل 100کھرب روپے کے مساوی پیداوار ہوئی اور اگر اِس کا صرف 8.5 فیصد ہی کے حصے میں خردبرد کی گئی تو یہ کم سے کم اور محتاط اندازے کے مطابق 8.5کھرب روپے کی بدعنوانی بنتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے آٹھ کھرب سے زیادہ کی مالی بدعنوانی کیسے کی ہو گی لیکن پانچ برس کا عرصہ اور کم سے کم ساڑھے آٹھ فیصد کے تناسب سے اوسط بدعنوانی کی گئی ہے۔ اِس ساڑھے آٹھ کھرب روپے سے زائد کی مالی بدعنوانی کو مزید آسان بنا کر بھی سمجھایا جاسکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی مردوعورت‘ بوڑھے و جوان اور بچے سے 50 ہزار روپے چھینے گئے۔ اعدادوشمار کو مزید آسان کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی خاندان سے 3لاکھ 50 ہزار روپے جیسی خطیر رقم لوٹی گئی ہے!

پاکستان میں نہ تو انسداد بدعنوانی اور احتساب کے قوانین و قواعد کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے مخصوص ادارے ہی تعداد میں کم ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ادارہ موجود ہے لیکن اگر آپ اِن اداروں کی سالانہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہوگی کہ انہوں نے نہایت ہی کم شرح سے مالی بدعنوانوں کو انجام تک پہنچایا ہے اور لوٹا ہوا سرکاری مال واپس خزانے میں جمع کرایا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی ممالک کی کئی ایک ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے احتساب و انسداد بدعنوانی کے سخت قوانین بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے نتائج اُن کی ترقی کی صورت پوری دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور اُن معاشروں میں ہونے والی علمی و فکری ترقی سے فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔

سال 2014ء کے دوران پاکستان کے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو مالی بدعنوانیوں کی 18 ہزار 818 شکایات موصول ہوئیں جن کی جانچ کے بعد 887 درخواستوں پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور سال 2014ء میں نیب نے بدعنوانوں کے خلاف 819 مقدمات درج کرائے جن میں سے صرف 44 مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف بدعنوانی کا جرم ثابت کیا جاسکا! اگر ہم سنگاپور کی مثال لیں تو وہاں کا ’نیب‘ ہر سال موصول ہونے والی شکایات پر کاروائی کرتا ہے اور 95فیصد کی شرح سے ملوث ملزمان کو سزائیں ہوتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں یہی شرح 85فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 80فیصد جبکہ بھارت کی ایک ریاست مہاراشٹر میں نیب حکام نے مالی بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں سالانہ 30فیصد کے تناسب سے کامیابی حاصل کی ہے!

میرے یہ الفاظ یاد رکھئے گا کہ ہمارے ہاں انسداد بدعنوانی اور قومی احتساب بیورو سمیت جملہ انتظامی ڈھانچہ ’بدعنوان عناصر‘ کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اُنہیں تحفظ دینے کے لئے تشکیل و مرتب کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر عاصم حسین سے بھی کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہیں!

سال 2008ء میں جب آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار شروع ہوا تو اُس وقت حکومت کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ 2013ء میں جب اُن کا دور حکومت ختم ہوا تو حکومت کا قرض 8 کھرب روپے یعنی اس میں 2 کھرب روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ مالی نظم و ضبط اور احتساب و انسداد بدعنوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں قرض لیکر پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے کو کھڑا رکھنا پڑتا ہے۔ اگر مالی نظم و ضبط نافذ ہو جائے‘ مالی بدعنوانی کے امکانات تک باقی نہ ہوں اور بدعنوانوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے ہی وسائل کو ترقی کے ذریعے اقتصادی طور پر مستحکم ہوتا چلا جائے اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں سال بہ سال اضافے کی بجائے کمی ہوتی چلی جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)Rs8,500,000,000,000
ساڑھے آٹھ کھرب روپے!

پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں خردبرد کئے جانے والے سرکاری مالی وسائل کا حجم ساڑھے آٹھ کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ اندازہ کم سے کم مالی بدعنوانی جاننے کے لئے ایک عالمی فارمولے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اِس فارمولے کے خالق ڈاکٹر رابرٹ کلٹگارڈ (Dr. Robert Klitgaad) ہیں جس کے مطابق اختیارات کے عوض برسرحکومت سیاسی شخصیات فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ ڈاکٹر رابرٹ دنیا بھر میں مالی بدعنوانیوں کی کھوج لگانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اُن کے وضع کردہ طریقۂ کار سائنسی اعتبار سے مستند تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں بھی منتخب عوامی نمائندے یا چنیدہ افراد کو فیصلہ سازی یا حکومت کا منصب دیا جاتا ہے اور اُنہیں صوابدیدی اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ بدعنوانی کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رابرٹ یہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ جہاں کہیں احتساب کا ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے ذریعے احتساب کا عمل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کیا جائے وہاں مالی بدعنوانیاں کرنے والے ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقتور اور حکومتی معاملات پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس عالمی درجہ بندی میں امریکہ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اُور پاکستان کا شمار کیا گیا ہے جہاں اختیارات کے ذریعے سیاسی و غیرسیاسی حکمران اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ اور ذاتی مالی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں! نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک اور عوام کی اکثریت غریب جبکہ گنتی کے چند خاندان امیر ہو جاتے ہیں!

پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان میں کل 100کھرب روپے کے مساوی پیداوار ہوئی اور اگر اِس کا صرف 8.5 فیصد ہی کے حصے میں خردبرد کی گئی تو یہ کم سے کم اور محتاط اندازے کے مطابق 8.5کھرب روپے کی بدعنوانی بنتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے آٹھ کھرب سے زیادہ کی مالی بدعنوانی کیسے کی ہو گی لیکن پانچ برس کا عرصہ اور کم سے کم ساڑھے آٹھ فیصد کے تناسب سے اوسط بدعنوانی کی گئی ہے۔ اِس ساڑھے آٹھ کھرب روپے سے زائد کی مالی بدعنوانی کو مزید آسان بنا کر بھی سمجھایا جاسکتا ہے اور وہ کچھ یوں ہے کہ پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی مردوعورت‘ بوڑھے و جوان اور بچے سے 50 ہزار روپے چھینے گئے۔ اعدادوشمار کو مزید آسان کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر پیپلزپارٹی دور حکومت میں ہر پاکستانی خاندان سے 3لاکھ 50 ہزار روپے جیسی خطیر رقم لوٹی گئی ہے!
پاکستان میں نہ تو انسداد بدعنوانی اور احتساب کے قوانین و قواعد کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے مخصوص ادارے ہی تعداد میں کم ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ادارہ موجود ہے لیکن اگر آپ اِن اداروں کی سالانہ کارکردگی پر نظر ڈالیں تو مایوسی ہوگی کہ انہوں نے نہایت ہی کم شرح سے مالی بدعنوانوں کو انجام تک پہنچایا ہے اور لوٹا ہوا سرکاری مال واپس خزانے میں جمع کرایا ہے۔ ہمارے سامنے مغربی ممالک کی کئی ایک ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے احتساب و انسداد بدعنوانی کے سخت قوانین بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد بھی کیا گیا جس کے نتائج اُن کی ترقی کی صورت پوری دنیا دیکھ بھی رہی ہے اور اُن معاشروں میں ہونے والی علمی و فکری ترقی سے فائدہ بھی اُٹھا رہی ہے۔

سال 2014ء کے دوران پاکستان کے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو مالی بدعنوانیوں کی 18 ہزار 818 شکایات موصول ہوئیں جن کی جانچ کے بعد 887 درخواستوں پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور سال 2014ء میں نیب نے بدعنوانوں کے خلاف 819 مقدمات درج کرائے جن میں سے صرف 44 مقدمات میں نامزد ملزمان کے خلاف بدعنوانی کا جرم ثابت کیا جاسکا! اگر ہم سنگاپور کی مثال لیں تو وہاں کا ’نیب‘ ہر سال موصول ہونے والی شکایات پر کاروائی کرتا ہے اور 95فیصد کی شرح سے ملوث ملزمان کو سزائیں ہوتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں یہی شرح 85فیصد ہے۔ ملائیشیا میں 80فیصد جبکہ بھارت کی ایک ریاست مہاراشٹر میں نیب حکام نے مالی بدعنوانی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں سالانہ 30فیصد کے تناسب سے کامیابی حاصل کی ہے!

میرے یہ الفاظ یاد رکھئے گا کہ ہمارے ہاں انسداد بدعنوانی اور قومی احتساب بیورو سمیت جملہ انتظامی ڈھانچہ ’بدعنوان عناصر‘ کو ختم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اُنہیں تحفظ دینے کے لئے تشکیل و مرتب کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مجھے ڈاکٹر عاصم حسین سے بھی کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہیں!

سال 2008ء میں جب آصف علی زرداری کا دورِ اقتدار شروع ہوا تو اُس وقت حکومت کا قرض 6 کھرب روپے تھا۔ 2013ء میں جب اُن کا دور حکومت ختم ہوا تو حکومت کا قرض 8 کھرب روپے یعنی اس میں 2 کھرب روپے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ مالی نظم و ضبط اور احتساب و انسداد بدعنوانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں قرض لیکر پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے کو کھڑا رکھنا پڑتا ہے۔ اگر مالی نظم و ضبط نافذ ہو جائے‘ مالی بدعنوانی کے امکانات تک باقی نہ ہوں اور بدعنوانوں کو قرار واقعی سزائیں دے کر نشان عبرت بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے ہی وسائل کو ترقی کے ذریعے اقتصادی طور پر مستحکم ہوتا چلا جائے اور ملک پر قرضوں کے بوجھ میں سال بہ سال اضافے کی بجائے کمی ہوتی چلی جائے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین  اِمام)

Saturday, October 3, 2015

Oct2015: LG System: The tussle of powers!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کوئی سنے گا تو کیا کہے گا؟
بلدیاتی (مقامی) حکومتوں کے قیام میں اَگر غیرضروری اُور طویل تعطل پیش نہ آیا ہوتا تو خیبرپختونخوا کی تین انتظامی اکائیوں (حکومت‘ نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اور افسرشاہی) کے درمیان اپنے اپنے دائرہ کار بالخصوص مالی و انتظامی اختیارات کے حوالے سے پائی جانے والی موجودہ بداعتمادی اُور ایک دوسرے سے سنگین نوعیت کے گلے شکوے‘ تشکر کے محل کو یوں بدمزا نہ کرتے لیکن موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے جس میں صوبائی حکومت کے وزرأ کو شکایت ہے کہ ناظمین‘ نائب ناظمین اور دیگر نمائندے ہلڑبازی اور جلدبازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اُنہوں نے اپنے ذمہ داریوں سے متعلق آئین میں لکھی ہدایات پڑھنے اور سمجھنے سے قبل ہی معاملات ہاتھ میں لینا شروع کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف ’اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے نومنتخب بلدیاتی نمائندے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو یاد دلاتے ہیں کہ جناب آپ تو قانون ساز ایوان کے رکن ہیں اور آپ کا کام تو صرف اور صرف قانون سازی ہونا چاہئے‘ یہ ترقیاتی فنڈز آپ کے اختیار میں کیوں ہیں؟‘‘ تصادم و ٹکڑاؤ کے اِس ماحول میں دیوار سے لگی افسرشاہی مسکرا رہی ہے اُور جمہوری اکائیوں کے آپسی ٹکڑاؤ سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے! ’’باہر آتے ہیں آنسو اَندر سے۔۔۔ جانے اَندر کہاں سے آتے ہیں!‘‘

نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اُور سرکاری ملازمین کے درمیان ’تو تو میں میں (بحث وتکرار)‘ کے واقعات خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پیش آ رہے ہیں‘ جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اعلیٰ و ادنی عہدوں پر فائز ’سرکاری ملازمین کے دستے‘ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور بالخصوص اُنہوں نے طے کر لیا ہے کہ کسی بھی صورت نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنے اُوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے اور شروع دن سے اپنی ’آزادی و خودمختاری‘ کا ہرممکن نہیں بلکہ مکمل دفاع کریں گے۔ دوسری طرح بلدیاتی نمائندے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق اُس پسے ہوئے طبقے سے ہے جو سرکاری ملازمین کی چال چلن سے بخوبی آگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نئے انتظامی بلدیاتی نظام کے فعال ہوتے ہی سب سے پہلا کام خدمات (سروسیز) کے شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’سرکاری ملازمین کا قبلہ درست‘ کرنے کو ضروری سمجھا گیا‘ جس کی یقیناًضرورت ایک عرصے بلکہ انتہائی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ہوں یا اَدنی‘ سرکاری ملازمین متحد ہیں۔گذشتہ ہفتے نومنتخب بلدیاتی نمائندوں نے جب ایک ’کلاس فور ملازم‘ کی کھڑے کھڑے طبیعت صاف کی تو اگلے ہی روز وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے نومنتخب نمائندوں کو اپنے دفتر تواضع کے بہانے طلب کیا اور باتوں باتوں میں کہا کہ ’’اگر آپ لوگ سرکاری ملازمین کی عزت و احترام نہیں کریں گے‘ تو تلخ کلامی‘ ہاتھا پائی یا کسی قسم کی بدمزگی پیش آنے کی صورت انتظامیہ آپ کی مدد نہیں کر سکے گی‘ لہٰذا باعزت بننے کے لئے آپ کو بہرصورت سرکاری ملازمین کی عزت کرنا ہوگی!‘‘
اختیارات کی یہ جنگ صرف کسی ایک ضلع تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی شدت و گہرائی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2 اکتوبر کو ہوئے صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران جب ’قومی وطن پارٹی‘ کے اَراکین حزب اختلاف کی بجائے حزب اقتدار کے ساتھ براجمان ہوئے تو انہوں نے ’صبر یا مصلحت‘سے کام لینے کی بجائے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اپنے خدشات ایوان میں بیان کرڈالے۔ رکن صوبائی اسمبلی بخت بیدار خان نے ’’ناظمین بننے کے لئے اہلیت کے کسی معیار سے متعلق سوال اٹھایا‘ جو اس بات کا بین ثبوت تھا کہ اراکین اسمبلی کو بلدیاتی نمائندے ایک آنکھ نہیں بھا رہے! ابھی اجلاس کا آغاز ہوا ہی تھا کہ بخت بیدار کے علاؤہ منور خان (جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن)‘ شاہ حسین (عوامی نیشنل پارٹی) بھی بحث میں کود پڑے اور اُنہوں نے ضلع وتحصیل کی سطح پر انتظامی مسائل کا ذکر کرنا شروع کردیا۔ ایک موقع پر تو اراکین اسمبلی نے اسپیکر اسد قیصر کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ جناب ۔۔۔ ’’صوبائی اسمبلی ہال میں بلدیاتی نمائندوں کے لئے بھی نشستوں کا اضافہ کردیا جائے!‘‘

نظام حکومت جو بھی ہو اُور چاہے جتنا بھی پرانا یا نیا ہو‘ حقیقت حال تو یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی اِس تہہ در تہہ حکمرانی کرنے والوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہیں! وہ کون سی آئینی ذمہ داریاں ہیں‘ جنہیں پورا کیا جارہا ہو؟ پینے کے صاف پانی‘ علاج معالجے اُور معیاری تعلیم کی فراہمی‘ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مصنوعی مہنگائی‘ حتیٰ کہ جعلی اور زائدالمعیاد ادویات کی کھلے عام فروخت روکنا تو دُور کی بات سرکاری وسائل کا اسراف اُور ملازمین کی کارکردگی تک تسلی بخش بنانے کے لئے سنجیدہ عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔

 اَراکین صوبائی اسمبلی کا اِنتخاب کیا گیا کہ وہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ کریں گے لیکن سب کچھ انتخابی سیاست کی نذر ہو گیا۔ مختلف النظریات سیاسی جماعتوں نے حکومت کرنے کے لئے وزارتوں کو مل بانٹ کر دائرے بنا لئے گئے اور غیرتحریری طور پر طے کر لیا گیا کہ کوئی ایک دوسرے کی کارکردگی کے بارے سوال (اعتراض) نہیں کرے گا! ضلعی نظام آیا تو پشاور جیسے مرکزی شہر کے پہلے بجٹ میں 7 ارب روپے سے زائد کے مالی وسائل غیرترقیاتی اخراجات کے لئے مختص کر دیئے گئے! کیا پہلے ہی صوبائی حکومت کی صورت ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کرنے والے نفوس و اذہان عالیہ کم تھے کہ ’’بلدیاتی نمائندوں نے بھی ’مال مفت دل بے رحم‘ کی روش برقرار رکھی!‘‘ پشاور کی ’سٹی ڈسٹرکٹ حکومت‘ کے 24 شعبہ جات ہیں۔ رواں مالی سال کے باقی ماندہ عرصہ کے دوران ان چوبیس شعبوں کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے کم وبیش 70 لاکھ روپے جبکہ ’’دیگر جاری اخراجات‘‘کی مد میں (ماشاء اللہ) 38 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں! عجب ہے کہ برسرزمین ترقی سے زیادہ اخراجات صرف اور صرف انتظامی مصروفیات (حیلوں بہانوں)کی نذر کرنے کی روایت ماضی کی طرح جوں کی توں برقرار ہے۔ آخری خبریں آنے تک صوبائی اسمبلی ہو یا ضلعی و تحصیل کے ایوان نمائندگان‘ زیادہ سے زیادہ مالی و انتظامی اختیارات حاصل کرنے کی کوششیں‘ جدوجہد‘ سردجنگ‘ رسہ کشی اُور چھینا چھپٹی کا سلسلہ جاری ہے! ’’بھنور میں مجھ کو جو ڈال آتے تو بات تم پر کبھی نہ آتی ۔۔۔ یوں مجھ کو ساحل پہ لا ڈبونا‘ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا!‘‘

Friday, October 2, 2015

Oct2015: IDPs & Possibilities of Corruption

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
بدعنوانیوں کے امکانات
چند ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں بلکہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں نے آٹھ برس جس کرب و اذیت میں بسر کئے ہیں‘ اُن کا الفاظ میں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ مختصراً بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والوں کے لئے یہ عرصہ کسی بھی طرح خوشگوار یادوں کا مجموعہ نہیں۔ وہ کونسی مصیبت‘ تکلیف یا مشکل ہے‘ جو دربدری کے اِس تلخ تجربے کے دوران خیبر‘ جنوبی وزیرستان‘ شمالی وزیرستان‘ اُورکزئی اُور کرم ایجنسی کے رہنے والے ہزاروں قبائلی خاندانوں نے نہ جھیلی ہو! قبائلی علاقوں کے رہنے والے غیور افراد کی آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں اور شاید ہی اُن کی مسکراہٹیں کبھی لوٹ سکیں لیکن اگر اُنہیں دعاؤں کی قبولیت کا یقین ہو تو خبر یہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی باعزت واپسی اور شورش زدہ علاقوں میں معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے حکومتی سطح پر غوروخوض کا عمل سنجیدہ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اُور پہلے مرحلے میں اُورکزئی ایجنسی کے 700 خاندانوں کو واپس بھیجنے کے لئے 6 اکتوبر کے روز سہولیات بشمول حفاظتی حصار مہیا کیا جائے گا۔ زریں اور مرکزی اُورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والوں کی نقل مکانی ’توغ سرائے (ہنگو)‘ کے مقام سے کی جائے گی۔ یاد رہے کہ خیبرایجنسی سے تعلق رکھنے والے 97ہزار 81‘شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 ہزار 590 اور جنوبی وزیرستان کے 19ہزار 728 افراد پہلے ہی اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔ واپسی کے اِس عمل میں معاونت کرنے کے لئے لاگت کا تخمینہ کم و بیش 2 ارب روپے لگایا گیا ہے!
نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے عمل میں حکومت کے ہم پلہ کلیدی کردار ’غیرملکی امدادی اداروں (انٹرنیشنل این جی اُوز) بھی ادا کر رہی ہیں لیکن یکم اکتوبر کو وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس نے غیرملکی این جی اُوز کے نگرانوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے‘ جنہیں حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے دھواں دھار بیانات تو سننے کو مل رہے ہیں لیکن نہ تو این جی اُوز کی پالیسی میں اچانک ردوبدل کے حوالے سے صوبوں یا این جی اُوز سے مشاورت کی گئی ہے اور نہ ایسے این جی اُوز کی تفصیلات ظاہر کی گئیں ہیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ وزیرداخلہ نے دوسری مرتبہ ’غیرملکی این جی اُوز‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ جملہ خرابیوں کی وجہ یہی ادارے ہیں‘ حالانکہ صورتحال قطعی مختلف ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان میں بناء ٹیکس ادا کئے مشکوک ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی کی بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والے کوئی اُور نہیں بلکہ ہمارے معزز و محترم سیاستدان ہی ہیں۔ وزیر داخلہ کو ایسے تمام افراد سیکورٹی کے لئے خطرہ نہیں لگ رہے جو حکومت میں آنے کے لئے پہلے انتخابات اُور پھر وزارت یا عہدہ پانے کے لئے قیادت کو اُن کے اطمینان و تسلی کے مطابق ’’خوش‘‘ رکھنے کا ہنر جانتے ہیں! قوم کی نظروں میں ’ملکی و غیرملکی این جی اُوز‘ کو مشکوک بنانے سے کونسا قومی مفاد حاصل کیا گیا ہے‘ یہ علم نہیں ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ’این جی اُوز کی رجسٹریشن و دیگر معاملات اگر ’اکنامک ڈویژن‘ سے ’وزارت داخلہ‘ کو منتقل کردیئے گئے ہیں تو اس کا فائدہ بھی قوم کو بتایا جاتا اور اگر کسی قاعدے و ضابطے میں کمی تھی تو محض اُسے دور کرنا کیوں ممکن نہیں تھا؟

قبائلی علاقوں میں ملکی و غیرملکی این جی اُوز کے اہلکاروں بالخصوص خواتین ورکرز کی فعالیت کبھی بھی آسان نہیں رہی اور بالخصوص موجودہ حالات میں جبکہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل جاری ہے‘ غیرملکی این جی اُوز سے امدادی پروگراموں کے لئے ذمہ داریان حاصل کرنے والے مقامی این جی اُوز بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ ضلع بنوں جیسے بندوبستی علاقے میں کئی این جی اُوز ورکرز کو عسکریت پسندوں کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں کے بعد بہت سے دفاتر پشاور منتقل کر دیئے گئے ہیں اور این جی اُوز کے ملکی و غیرملکی اہلکار پشاور سے باہر قدم رکھنے کو محفوط نہیں سمجھتے۔ اِس پورے منظرنامے میں ایک طبقہ خوشحال ہے جس کے ہاتھ میں مالی وسائل ہیں کیونکہ این جی اُوز کی صورت اُن کی نگرانی کا عمل ہو رہا ہوتا ہے اور جب ملکی یا غیرملکی غیرسرکاری تنظیمیں کسی علاقے میں فعال ہوں وہاں امدادی وسائل میں خردبرد کا امکان کم رہتا ہے! کئی ایسے فیصلہ ساز بھی ہیں جنہوں نے ’این جی اوز‘ کو کام کرنے کی اجازت دینے کے عوض اپنی جائیدادیں یا گاڑیاں بھاری کرائے پر دے رکھی ہیں! علاؤہ ازیں این جی اُوز کو سفر یا کام کرنے کے لئے الگ سے ’این اُو سی‘ جاری کرنے کا طریقۂ کار بھی اصلاح چاہتا ہے‘ جس میں افسرشاہی نے خود اپنے لئے ایسے اختیارات رکھ چھوڑے ہیں جس سے بدعنوانی کے امکانات موجود رہیں! عجب ہے کہ ہمیں ایک ہاتھ غیرملکی امداد کی بھی ضرورت ہے اور ہم اِن اداروں کو اُن کے اپنے اپنے انتظامی طریقۂ کار کے مطابق کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے! نجانے ہمارے ہاں کی سیکورٹی کو ہر دیکھی اَن دیکھی چیز سے خطرات کیوں لاحق رہتے ہیں! خودداری و غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے ہی لوگوں کی آبادکاری خود اپنے وسائل سے کرتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ کیا جائے لیکن ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے میں بندوق تان کر بات منوانا کسی بھی صورت مبنی برانصاف اور منطقی طرزعمل نہیں۔

Thursday, October 1, 2015

Oct2015: Colorful Urdu

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
انٹرنیٹ موبائل: رنگ برنگی اُردو!
اُردو زبان سے محبت اور اس کے فروغ کے لئے دانستہ کوششوں کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نوجوان نسل میں مختصر نویسی کے رجحانات دیکھ کر اندیشہ ہے کہ اُردو زبان کا وہ خالص مزا‘ رنگ روپ اور چاشنی جاتی رہے گی‘ جس کا لطف الفاظ پڑھ کر نہیں اٹھایا جاسکتا۔ یہ مرحلۂ فکر ’ٹیکنالوجی گریز‘ ترغیب نہیں بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ’موبائل فون‘ کے ذریعے پیغامات (ٹیکسٹ میسیجز) کے ذریعے جس طرح اُردو زبان کو تہہ و بالا کرنے کی دانستہ کوشش میں اضافہ ہوا اور جس طرح ذرائع ابلاغ (نجی ٹیلی ویژن چینلوں) نے جلتی پر تیل ڈالا تو اس کی وجہ سے بالخصوص نوجوان نسل اُردو کے غلط الفاظ اور لہجے اختیار کر بیٹھی ہے‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ ’راسخ‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ پندرہ بیس برس پہلے اگر کوئی غلط اُردو بولتا تو اُس سے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ ’گلابی اُردو‘ بول رہا ہے۔ ’’گلابی اُردو‘‘ بولنے والے عموماً اُردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش کیا کرتے تھے یعنی ان کا ہر جملہ مکمل اُردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے تحلیل شدہ ہوتا تھا۔ وہ زمانہ گزر گیا اور اب جبکہ سماجی رابطہ کاری (انٹرنیٹ کے وسائل) کا مادر پدر آزاد دور ہے اور ہر شخص اپنی پسند کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ آسانی سے کر رہا ہے تو یہاں ایک نیا قضیہ ’’گلابی اُردو‘‘ کی جگہ ’رومن اُردو‘ کا درپیش ہے!

انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید میں ہونے کی وجہ سے یہ اب رومن اُردو عام ہوتی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اُردو کی ابتدأ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہوئی چونکہ جنرل ایوب اُردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے‘ اس لئے ان کی تقریر رومن اُردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لئے بھی یہی بات مشہور ہے۔ اس کے علاؤہ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اُردو‘ میں پیش کی گئی۔ انٹرنیٹ کے عام استعمال سے قبل کمپیوٹر میں اُردو زبان لکھنے کی سہولت یا صلاحیت موجود نہیں ہوا کرتی تھی‘ اس لئے رومن اُردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لئے رومن اُردو کا استعمال شروع ہوا‘ اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اُردو میں پوسٹ عام ہونے لگی لیکن جب فیس بک‘ اسکائپ‘ سنیپ چیٹ‘ ٹوئٹر‘ واٹس ایپ وائبر یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا‘ تو اس وقت رومن اُردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔ شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اُردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اُردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاؤہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اُردو ٹائپنگ (اُردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لئے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنے اُردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اُردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے! بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی‘ حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی‘ جرمن نہیں آتی‘ فرانسیسی نہیں آتی‘ ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اُردو کے فروغ‘ ترقی‘ تحفظ اور بقاء کے لئے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اُردو کے فروغ اور بقا کے لئے ’’دن رات‘‘ ایک کئے ہوئے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)‘ مجلس ترقی ادب‘ اُردو سائنس بورڈ‘ قومی لغت بورڈ‘ اکادمی ادبیات‘ نظریۂ پاکستان فاؤئڈیشن‘ اُردو لغت پاکستان‘ اقبال اکادمی‘ قائد اعظم اکادمی‘ مرکز تحقیقات اُردو پروسیسنگ‘ وغیرہ وغیرہ اور نجانے کتنے ہی وغیرہ ادارے اُور بھی ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟ خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام چار اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ’اُردو‘ کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لئے حکومت کو سفارشات پیش کرے‘ نیز مختلف علمی‘ تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اُردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی‘ اس کا فیصلہ ہونا چاہئے!

اُردو زبان کا سوشل میڈیا یا کسی بھی کمپیوٹر پر استعمال اب قطعی مشکل نہیں رہا۔ آپریٹنگ سسٹم (OS) میں صرف اُردو زبان ’کی بورڈ (keyboard)‘ اِنسٹال (install) کرنا چند منٹ کا کام ہے اُور بس۔ کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ (unicode)‘ کے آنے سے پہلے اُردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا لیکن اَب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ وئر ’یونی کوڈ‘ کو سپورٹ کرتے ہیں‘ لہٰذا ’’رومن (رنگ برنگی) اُردو‘‘ کی بجائے اگر موبائل فونز یا کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ اِنسٹال کر لیا جائے تو اِس کے استعمال کو عام کیا جائے تو اس سے نہ صرف پیغام رسانی میں وضاحت رہے گی بلکہ اُردو کے مستقبل پر بھی احسان عظیم ہوگا۔ ’’عجب تناسب سے ذہن و دل میں خیال تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ مگر محبت سی ہو گئی ہے‘ تمہیں محبت سکھا سکھا کے!‘‘