Thursday, October 29, 2020

Realities of CRIMES in Khyber Pukhtunkhwa

خوشنما دعوے ‘تلخ حقائق

پیشرفت لائق توجہ ہے۔ خیبر پختونخوا قانون ساز اسمبلی کے اَراکین کو محکمہ پولیس کی کارکردگی سے متعلق فراہم کردہ معلومات (بریفنگ) میں منفرد نوعیت کے 2 دعوے سامنے آئے‘ جو ناقابل یقین اُور زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔ پولیس فورس کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ .... ”پورے صوبے میں (موثر پولیسنگ کے ذریعے) عوام کی خدمات تک رسائی (عملاً) ممکن بنا دی گئی ہے“ اُور دوسرا دعویٰ قانون کے غیرجانبدارانہ اطلاق کا ہے کہ ....”محکمہ پولیس نے ”بروقت اِنصاف کی فراہمی یقینی بنا دی ہے۔“ تعجب خیز ہے کہ جب اِن دونوں دعووں کی گونج اسمبلی کے ’ائر ٹائٹ‘ ایوان میں بیٹھے افراد کی سماعتوں سے ٹکرائی تو کسی رکن اسمبلی نے ’نکتہ اعتراض‘ نہیں اُٹھایا جو عمومی طرز عمل ہے اُور جب بھی کسی رکن اسمبلی کو ایوان میں کی جانے والی کوئی بات خلاف معمول اُور حقائق کے منافی لگتی ہے تو وہ فوری طور پر اپنا نکتہ نظرپیش کرنے کے لئے باری یا اجازت کا انتظار بھی نہیں کرتا لیکن کوئی ایک بھی آواز نہیں اُٹھی اُور نہ ہی ’شیم شیم‘ کے نعرے لگے کہ پولیس کی جانب سے مذکورہ دونوں دعووں کا حقیقت سے تعلق نہیں اُور پولیس کا ایک سینئر اہلکار کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ قانون ساز ایوان کے سامنے زمینی حقائق کے مخالف تصویر پیش کرے۔ کوئی ایک نکتہ اعتراض اِس حوالے سے بھی نہیں اُٹھا کہ گمراہ کن اعدادوشمار اُور دروغ گوئی پر مبنی زمینی حقائق پیش کرنے والے آخر کس دنیا کی بات کر رہے ہیں!؟ سوال تو بنتا تھا کہ پاکستان اُور بالخصوص خیبرپختونخوا کا وہ کونسا ضلع یا گاوں یا علاقہ ہے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت کو یقین ہو کہ بوقت ضرورت (خدانخواستہ) پولیس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی؟ مظلوم کی داد رسی کی جائے گی اُور قانون کی حکمرانی سے انصاف کی فراہمی تک کے مراحل میں حکومتی ادارے اِمتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کریں گے! 

قانون کا اِطلاق یکساں ہوگا اُور قانون کی حمایت مالی حیثیت یا سیاسی اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کا یہ کہنا کہ پینتیس ہزار سے زیادہ عوامی شکایات اُور نو لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ درخواستوں پر عوام کو ریلیف پہنچایا گیا اپنی جگہ ’حیرت انگیز‘ ہے کہ اگر پولیس کی کارکردگی واقعی بہتر ہوتی تو قریب دس لاکھ شکایات کا انبار نہ لگتا اُور جس انداز میں قریب دس لاکھ شکایات نمٹائی گئیں ہیں اُور حقیقت میں ایسا ہی کیا گیا ہے تو پھر خیبرپختونخوا پولیس کا نام تو ’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں درج ہونا چاہئے۔ شاید ہی دنیا کی کسی بھی دوسری پولیس فورس نے اِس قدربڑی تعداد میں عوامی شکایات نمٹائی ہوں اُور وہ بھی اِس صفائی کے ساتھ کہ کوئی ایک بھی پولیس اہلکار نشان عبرت نہیں بنا اُور نہ ہی نظام میں دس نہیں تو پانچ لاکھ اصلاحات ہوئی ہیں۔ 

کیا آج کا تھانہ کلچر تبدیل ہے؟ 

کیا عام آدمی کے نکتہ نظر سے پولیس فورس‘ بوقت ضرورت‘ اُس کے کام آئے گی؟

خیبرپختونخوا پولیس نے دس ہزار سات سو سے زیادہ منشیات فروش پکڑے ہیں تو پھر جگہ جگہ منشیات کے اڈوں کو سپلائی کہاں سے ہو رہی ہے اُور لگتا یوں کہ ایک منشیات فروش کو پکڑتے ہی دوسرا اُس کی جگہ لے رہا ہے۔ درحقیقت خیبرپختونخوا میں منشیات فروشی کی صورتحال اِس حد تک خطرناک اُور بگڑی ہوئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور شہر کی مرکزی شاہراہ جی ٹی روڈ پر ’گل بہار پولیس اسٹیشن‘ کے سامنے اُوور ہیڈ پل کے نیچے منشیات فروشوں اُور منشیات استعمال کرنے والوں کے جھنڈ دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں لیکن اگر گل بہار پولیس اسٹیشن کے اہلکار کھڑی کھول کر ہی نظارہ کریں تو چند گھنٹے نگرانی کریں تو اُنہیں منشیات فروش اُور استعمال کرنے والوں کا علم ہو جائے گا لیکن یہ سب کچھ پولیس کی نہیں بلکہ عوام اُور عوام کے منتخب نمائندوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے پر مبنی طرزعمل ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 200دہشت گرد گرفتار کئے گئے اُور یہ عدد پیش کرتے ہوئے اِس کے ساتھ مشتبہ یا مبینہ کا صیغہ بھی نہیں لگایا گیا تو سمجھا یہی جائے کہ خیبرپختونخوا پولیس اہلکاروں نے جان پر کھیلتے ہوئے دو سو مطلوب دہشت گرد گرفتار کئے ہیں ایسا کس طرح عملاً ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہ سوال بھی اراکین اسمبلی کی جانب سے نہیں اُٹھایا گیا! کیا اسمبلی اراکین پر اِس بات کا خوف طاری تھا کہ اگر وہ پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے یا سوالات (اعتراضات) اُٹھاتے تو جواب میں (مبادا) اُن سے اسمبلی کی کارکردگی پوچھ لی جاتی! 

پولیس اصلاحات کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (داخلی احتساب ’انٹرنل اکاﺅنٹبلیٹی‘) سلمان چوہدری کی جانب سے خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کے میدان (فلور) پر اراکین کو محکمہ پولیس میں متعارف شدہ اصلاحات‘ دہشت گردی اور دیگر جرائم کے خلاف اقدامات‘ درپیش چیلنجوں اُور اِن سے نمٹنے کی حکمت عملی نیز مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق جو معلومات (تفصیلات) فراہم کی گئیں اُن میں ایک مرحلے پر تمہیداً پولیس اصلاحات کے مقاصد بھی بیان کئے گئے جن میں شامل تھا کہ خدمت کے معیار پر پورا اُترنے کے لئے پولیس کو خودمختار اور جوابدہ بنایا گیا ہے حالانکہ نہ تو مکمل خودمختاری حاصل ہوئی ہے اُور نہ ہی پولیس جوابدہ ہے۔ تحریک انصاف حکومت میں اگر کوئی ایک تبدیلی بطور مثال و اصلاح پیش کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ پولیس فورس میں اہلیت (میرٹ) پر بھرتیاں ہوتی ہیں اُور اِس مقصد کے لئے ’ٹیسٹنگ اِیجنسی‘ کی خدمات سے استفادہ ہو رہا ہے تاہم بھرتی کے بعد پوسٹنگز اُور اہم عہدوں پر تعیناتیاں خاطرخواہ شفاف نہیں اُور بظاہر دکھائی نہ دینے والی سیاسی مداخلت کہیں نہ کہیں کارفرما ہے! 

پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’اراکین صوبائی اسمبلی‘ نے مذکورہ بریفنگ میں ”گہری دلچسپی“ لی (مطلب غور سے سنا) اور محکمہ پولیس میں اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت کئے گئے اقدامات کو ”زبردست الفاظ“ میں خراج تحسین پیش کیا (مطلب مزید کسی اصلاح کی ضرورت نہیں) اور محکمہ پولیس کو اپنی ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا (مطلب پولیس کا کام کاج جہاں اُور جیسا ہے جاری رہنا چاہئے۔) اراکین اسمبلی کی جانب سے ’کلین چٹ‘ ملنے سے یقینا پولیس کے صوبائی فیصلہ سازوں کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے لیکن بنیادی نکتہ تو عوام ہیں‘ جن کے اطمینان اُور اعتماد کی بحالی کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے طول وعرض اُور بالخصوص پشاور ’غیرقانونی اسلحے‘ کا مرکز ہے۔ 

ستائیس اَکتوبر کو دیرکالونی میں ہوئے دہشت گرد حملے کے اگلے روز (اٹھائیس اَکتوبر) ملحقہ علاقوں میں چند گھروں کی تلاشی لی گئی جس دوران غیرقانونی اِسلحہ برآمد ہوا اُور اگر گھر گھر تلاشی کا دائرہ وسیع کیا جائے تو پشاور کو اسلحے کے پاک بنایا جا سکتا ہے‘ جس کا مطالبہ ’ہوائی فائرنگ‘ کا انسداد کرنے والے ایک عرصے سے کر رہے ہیں لیکن ہوائی فائرنگ کے واقعات (سانحات) سے ناقابل تلافی جانی نقصانات مسلسل ہو رہے ہیں‘ جس کی حوصلہ شکنی کرنے کی مہمات اگر ناکام (ناکافی) ثابت ہو رہی ہیں تو وقت ہے کہ خیبرپختونخوا اُور پشاور کو غیرقانونی اسلحے سے پاک کرنے کی مہم چلائی جائے۔

....


Monday, October 26, 2020

Strategy for a smooth traffic

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

سلام و کلام

اُمید پر دنیا قائم ہے۔ پشاور کے ’چیف ٹریفک آفیسر (عباس مجید مروت) تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے‘ جنہوں نے ’ٹریفک پولیس (اِہلکاروں)‘ کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ ’پہلے سلام (اُور) پھر کلام‘ کریں۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے ”خوش اِخلاقی“ کی مہمات اِس سے قبل بھی سننے میں آئیں لیکن ضرورت یہ ہے کہ اِن ہدایات (گائیڈلائنز) پر عمل دیکھنے میں بھی آئے اُور ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو ”اِنسان“ سمجھتے ہوئے اُن سے ڈیوٹی لی جائے۔ 12سے 14 اُور سولہ گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے والے پولیس اہلکار اپنے چہروں پر مسکراہٹ کہاں سے لائیں جبکہ مسلسل ڈیوٹی دینے سے اُن کے اِعصاب (محسوسات) شل ہو چکے ہیں۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر اہل پشاور کو بھی توجہ دینی چاہئے کہ جب خوشی یا غم کے تہواروں کے موقع پر اُنہیں ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں بھی احترام کا مظاہرہ کرنا چاہئے اُور یہ کلیہ (پہلا سلام پھر کلام) صرف ٹریفک اہلکاروں ہی کے لئے مخصوص و محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ وہ پہلے سلام اُور پھر کلام کرے۔ بنیادی خامی‘ کمی اُور کمزوری ”تربیت کے فقدان“ کی ہے جس کی وجہ سے عمومی سماجی رویئے ’ناشکری‘ کی مبنی ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ خوبیاں خاطرخواہ پروان نہیں چڑھ رہیں۔ 

ترقی پذیر ممالک (مغربی معاشروں) کے ہاں ہر چھوٹی بڑی بات پر ’شکریہ (تھینک یو)‘ اُور ’معافی چاہتا ہو (ایکسکیوز می)‘ کا کلمہ سننے کو ملتا ہے۔ جہاں اجنبی ہوں یا جاننے والے‘ اکثریت ایک دوسرے سے بات کرنے سے پہلے مودبانہ انداز اختیار کرتی ہے کیونکہ یہ اخلاقی بات اگرچہ اُن کے ہاں نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں لیکن وہاں کے تعلیمی اداروں سے لیکر گھروں کے ماحول تک ”سماجی آداب“ پھیلے دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے ہوں یا دوسروں کے بچے‘ کوئی بھی شخص بچوں کے سامنے نہ تو اُونچی آواز میںبات (چیخ و پکار) کرتا ہے اُور نہ ہی بچوں کی موجودگی میں ایسے (غیرمہذب) الفاظ کا استعمال کیاجاتا ہے‘ جن سے بچوں کے لہجے اُور سوچ کرخت ہو۔ سماجی تربیت میں صرف بڑے ہی نہیں بلکہ بچے بھی شریک ہوں تو اِس سے اُبھرنے والی اجتماعی خیرخواہی بصورت حساسیت و سماجیت سامنے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں اگر کہیں بچوں کی موجودگی کو محسوس نہ کیا جا رہا ہو اُور بچوں کو احترام نہ بھی دیا جا رہا ہو تو پولیس طلب کر لی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں صورتحال اُلٹ ہے اُور ہم اِس بات کو فخر سمجھتے ہیں کہ بچوں اُور عورتوں کے سامنے اپنے غصے اُور جذبات (مردانگی) کا مظاہرہ کریں جو درحقیقت بدتمیزی کے زمرے میں آتی ہے اُور صرف یہی نہیں کہ اکثر ”سرعام بدتمیزی“ دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ دوسروں کو ایسا کرتے دیکھ کر ہم لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اُور یہ دونوں رویئے مثبت (تعمیری) سوچ کے عکاس (اظہار) نہیں۔ کسی گاڑی یا سواری میں بڑوں کے ہمراہ بیٹھے بچے اُور خواتین جب عملاً اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن کے والدین یا بڑے بوڑھے پولیس اہلکاروں سے ’پہلے سلام اُور پھر کلام‘ کر رہے ہیں تو وہ بھی عملی زندگی میں ایسا ہی کریں گے۔ ٹریفک پولیس سربراہ نے معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اُور اُن سے مودبانہ عرض ہے کہ اخلاقی تربیت اُور تہذیب کے اسباق کسی ایک فریق کی کوششوں سے ازبر نہیں ہوں گے کیونکہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

جوانسال مروت قبل ازیں سال 2016ءمیں پشاور کے ’ایس ایس آپریشنز‘ جیسے اہم عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں جبکہ نئی ذمہ داریاں (چیف ٹریفک آفیسر) سنبھالنے کے بعد روائتی طور پر ’ٹریفک پولیس کے صدر دفتر میں دربار (ماتحت اہلکاروں کی نشست) سے خطاب کیا اُور شاید روائتی ہی کے طور پر پشاور سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے مہم ’از سر نو‘ شروع کرنے کا بھی حکم دیا اُور تجاوزات ہی پشاور کے مسائل کی ”بنیادی وجہ“ ہے۔ خوش اخلاقی کے مظاہرے کے بعد ٹریفک روانی بحال رکھنے کے لئے تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے لیکن شاید یہ بات اُن کے علم میں نہیں کہ اِس قسم کی مہمات ہر چند ہفتوں بعد شروع کی جاتی ہیں اُور اِس کے لئے پشاور کے چاروں ٹاونز میں نہ صرف خصوصی دستے موجود ہیں بلکہ ’اَحیائے پشاور‘ کے نام سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا (محمود خان) کی جانب سے دی گئی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ پشاور سے تجاوزات ختم کی جائیں۔ مذکورہ ’اَحیائے پشاور‘ نامی حکمت عملی کا اعلان ہوئے ’10 ماہ‘ مکمل ہونے والے ہیں لیکن پشاور کے کسی ایک بھی حصے سے تجاوزات ختم نہیں ہو سکیں! اُمید تھی کہ اِس سلسلے میں گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر (قریب پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی ثقافتی راہداری) کو تجاوزات سے پاک کر کے بطور مثال (نمونہ) پیش کیا جائے گا لیکن تجاوزات سے مچھلی منڈی تک کچھ بھی دیکھنے لائق نہیں۔ مذکورہ ثقافتی راہداری ’ون وے‘ قرار دی گئی تھی یعنی یہ ’یک طرفہ آمدورفت‘ کے لئے مخصوص ہو گی تو کیا ٹریفک پولیس کے سربراہ ’ٹیسٹ کیس‘ سمجھتے ہوئے پورے پشاور کو نہ سہی صرف اُور صرف ثقافتی راہداری اُور اِس سے جڑے علاقوںکو مرکزی بازاروں کو تجاوزات سے پاک کر سکتے ہیں؟ ون وے ٹریفک کا احترام‘ اندرون پشاور کے لئے ٹریفک سگنلز اُور پشاور شہر کے لئے خصوصی ٹریفک پولیس دستے کی تشکیل بھی ضروری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گورگٹھڑی (ایک مربع کلومیٹر پر محیط پشاور کی سرتاج تاریخی و ثقافتی عمارت) کے اردگرد (یونین کونسل گنج اُور یونین کونسل کریم پورہ کی حدود میں) تجاوزات کی بھرمار ہے۔ مذکورہ ’ضیا جعفری روڈ‘ گورگٹھڑی کا جنوبی حصہ ہے جہاں مقامی سیاسی و مالی بااثر غیرمقامی افراد نے (محلہ تیلیان سے تاحد نظر لمبی پٹی پر) اربوں روپے کی سرکاری اراضی قبضہ کر رکھی اُور بہت جلد دیواریں لگا کر مذکورہ سڑک کے حصے کو رہائشگاہوں کا حصہ بنا دیا جائے گا اُور یہاں دکانیں اُور کثیر المنزلہ عمارتیں راتوں رات کھڑی ہو جائیں گی جو کسی رہائشی علاقے میں نہیں ہونی چاہیئں لیکن 

”پشاور کی کہانی“ تجاوزات سے شروع اُور تجاوزات پر ختم ہوتی ہے۔ 

عباس مجید مروت بھی پشاور کے مقامی نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ اُن کے سامنے پشاور کا درخشاں ماضی نہیں کہ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اِسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا لیکن یہاں کے باغات اُور شاہرائیں قبضہ ہو رہی ہیں۔ اِس پورے عمل (لاقانونیت) میں متعلقہ بلدیاتی اداروں کے اہلکار‘ تھانہ جات اُور ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز بھی شریک جرم ہیں۔ اب اِس حقیقت کو جھوٹ کرنے کا وقت آ چکا ہے کہ سیاسی ہوں یا غیرسیاسی جہاں کہیں ”غیرمقامی فیصلہ ساز“ تعینات ہوں گے‘ وہاں اِسی قسم کی نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ 

اُمید ہے کہ تجاوزات ختم کرنے کے لئے پرعزم ’عباس مجید مروت‘ ماضی کے ٹریفک پولیس سربراہوں سے قطعی مختلف ثابت ہوں گے اُور اِن کا نام پشاور کی تاریخ میں ’سنہرے حروف‘ سے لکھا جائے گا یقینا وہ جانتے ہیں کہ پشاور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرق ایشیا کا سب سے قدیم اُور زندہ تاریخی شہر ہے اُور اگر اِنہوں نے ”پشاور سے وفا“ کی‘ تو اِن کی خدمات کا دائمی اعتراف اُن سبھی سول اعزازات پر بھاری ثابت ہوگا‘ جو یہ اب تک وصول کر چکے ہیں یا کریں گے۔ تازہ دم ’ٹریفک پولیس سربراہ‘ کے خیرمقدم کے ساتھ دعوت فکر ہے کہ ماہ و سال کے حساب کتاب جاری رہے گا لیکن ’تاریخ میں اَمر ہونا ہی دراَصل زندگی (پائندگی) ہے۔‘

....