خوشنما دعوے ‘تلخ حقائق
پیشرفت لائق توجہ ہے۔ خیبر پختونخوا قانون ساز اسمبلی کے اَراکین کو محکمہ پولیس کی کارکردگی سے متعلق فراہم کردہ معلومات (بریفنگ) میں منفرد نوعیت کے 2 دعوے سامنے آئے‘ جو ناقابل یقین اُور زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔ پولیس فورس کا پہلا دعویٰ یہ ہے کہ .... ”پورے صوبے میں (موثر پولیسنگ کے ذریعے) عوام کی خدمات تک رسائی (عملاً) ممکن بنا دی گئی ہے“ اُور دوسرا دعویٰ قانون کے غیرجانبدارانہ اطلاق کا ہے کہ ....”محکمہ پولیس نے ”بروقت اِنصاف کی فراہمی یقینی بنا دی ہے۔“ تعجب خیز ہے کہ جب اِن دونوں دعووں کی گونج اسمبلی کے ’ائر ٹائٹ‘ ایوان میں بیٹھے افراد کی سماعتوں سے ٹکرائی تو کسی رکن اسمبلی نے ’نکتہ اعتراض‘ نہیں اُٹھایا جو عمومی طرز عمل ہے اُور جب بھی کسی رکن اسمبلی کو ایوان میں کی جانے والی کوئی بات خلاف معمول اُور حقائق کے منافی لگتی ہے تو وہ فوری طور پر اپنا نکتہ نظرپیش کرنے کے لئے باری یا اجازت کا انتظار بھی نہیں کرتا لیکن کوئی ایک بھی آواز نہیں اُٹھی اُور نہ ہی ’شیم شیم‘ کے نعرے لگے کہ پولیس کی جانب سے مذکورہ دونوں دعووں کا حقیقت سے تعلق نہیں اُور پولیس کا ایک سینئر اہلکار کی جرات کیسے ہوئی کہ وہ قانون ساز ایوان کے سامنے زمینی حقائق کے مخالف تصویر پیش کرے۔ کوئی ایک نکتہ اعتراض اِس حوالے سے بھی نہیں اُٹھا کہ گمراہ کن اعدادوشمار اُور دروغ گوئی پر مبنی زمینی حقائق پیش کرنے والے آخر کس دنیا کی بات کر رہے ہیں!؟ سوال تو بنتا تھا کہ پاکستان اُور بالخصوص خیبرپختونخوا کا وہ کونسا ضلع یا گاوں یا علاقہ ہے جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت کو یقین ہو کہ بوقت ضرورت (خدانخواستہ) پولیس مظلوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی؟ مظلوم کی داد رسی کی جائے گی اُور قانون کی حکمرانی سے انصاف کی فراہمی تک کے مراحل میں حکومتی ادارے اِمتیازی سلوک کا مظاہرہ نہیں کریں گے!
قانون کا اِطلاق یکساں ہوگا اُور قانون کی حمایت مالی حیثیت یا سیاسی اثرورسوخ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جائے گا۔ پولیس کا یہ کہنا کہ پینتیس ہزار سے زیادہ عوامی شکایات اُور نو لاکھ بائیس ہزار سے زیادہ درخواستوں پر عوام کو ریلیف پہنچایا گیا اپنی جگہ ’حیرت انگیز‘ ہے کہ اگر پولیس کی کارکردگی واقعی بہتر ہوتی تو قریب دس لاکھ شکایات کا انبار نہ لگتا اُور جس انداز میں قریب دس لاکھ شکایات نمٹائی گئیں ہیں اُور حقیقت میں ایسا ہی کیا گیا ہے تو پھر خیبرپختونخوا پولیس کا نام تو ’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں درج ہونا چاہئے۔ شاید ہی دنیا کی کسی بھی دوسری پولیس فورس نے اِس قدربڑی تعداد میں عوامی شکایات نمٹائی ہوں اُور وہ بھی اِس صفائی کے ساتھ کہ کوئی ایک بھی پولیس اہلکار نشان عبرت نہیں بنا اُور نہ ہی نظام میں دس نہیں تو پانچ لاکھ اصلاحات ہوئی ہیں۔
کیا آج کا تھانہ کلچر تبدیل ہے؟
کیا عام آدمی کے نکتہ نظر سے پولیس فورس‘ بوقت ضرورت‘ اُس کے کام آئے گی؟
خیبرپختونخوا پولیس نے دس ہزار سات سو سے زیادہ منشیات فروش پکڑے ہیں تو پھر جگہ جگہ منشیات کے اڈوں کو سپلائی کہاں سے ہو رہی ہے اُور لگتا یوں کہ ایک منشیات فروش کو پکڑتے ہی دوسرا اُس کی جگہ لے رہا ہے۔ درحقیقت خیبرپختونخوا میں منشیات فروشی کی صورتحال اِس حد تک خطرناک اُور بگڑی ہوئی ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور شہر کی مرکزی شاہراہ جی ٹی روڈ پر ’گل بہار پولیس اسٹیشن‘ کے سامنے اُوور ہیڈ پل کے نیچے منشیات فروشوں اُور منشیات استعمال کرنے والوں کے جھنڈ دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں لیکن اگر گل بہار پولیس اسٹیشن کے اہلکار کھڑی کھول کر ہی نظارہ کریں تو چند گھنٹے نگرانی کریں تو اُنہیں منشیات فروش اُور استعمال کرنے والوں کا علم ہو جائے گا لیکن یہ سب کچھ پولیس کی نہیں بلکہ عوام اُور عوام کے منتخب نمائندوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے پر مبنی طرزعمل ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 200دہشت گرد گرفتار کئے گئے اُور یہ عدد پیش کرتے ہوئے اِس کے ساتھ مشتبہ یا مبینہ کا صیغہ بھی نہیں لگایا گیا تو سمجھا یہی جائے کہ خیبرپختونخوا پولیس اہلکاروں نے جان پر کھیلتے ہوئے دو سو مطلوب دہشت گرد گرفتار کئے ہیں ایسا کس طرح عملاً ممکن ہو سکتا ہے لیکن یہ سوال بھی اراکین اسمبلی کی جانب سے نہیں اُٹھایا گیا! کیا اسمبلی اراکین پر اِس بات کا خوف طاری تھا کہ اگر وہ پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے یا سوالات (اعتراضات) اُٹھاتے تو جواب میں (مبادا) اُن سے اسمبلی کی کارکردگی پوچھ لی جاتی!
پولیس اصلاحات کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (داخلی احتساب ’انٹرنل اکاﺅنٹبلیٹی‘) سلمان چوہدری کی جانب سے خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کے میدان (فلور) پر اراکین کو محکمہ پولیس میں متعارف شدہ اصلاحات‘ دہشت گردی اور دیگر جرائم کے خلاف اقدامات‘ درپیش چیلنجوں اُور اِن سے نمٹنے کی حکمت عملی نیز مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق جو معلومات (تفصیلات) فراہم کی گئیں اُن میں ایک مرحلے پر تمہیداً پولیس اصلاحات کے مقاصد بھی بیان کئے گئے جن میں شامل تھا کہ خدمت کے معیار پر پورا اُترنے کے لئے پولیس کو خودمختار اور جوابدہ بنایا گیا ہے حالانکہ نہ تو مکمل خودمختاری حاصل ہوئی ہے اُور نہ ہی پولیس جوابدہ ہے۔ تحریک انصاف حکومت میں اگر کوئی ایک تبدیلی بطور مثال و اصلاح پیش کی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ پولیس فورس میں اہلیت (میرٹ) پر بھرتیاں ہوتی ہیں اُور اِس مقصد کے لئے ’ٹیسٹنگ اِیجنسی‘ کی خدمات سے استفادہ ہو رہا ہے تاہم بھرتی کے بعد پوسٹنگز اُور اہم عہدوں پر تعیناتیاں خاطرخواہ شفاف نہیں اُور بظاہر دکھائی نہ دینے والی سیاسی مداخلت کہیں نہ کہیں کارفرما ہے!
پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’اراکین صوبائی اسمبلی‘ نے مذکورہ بریفنگ میں ”گہری دلچسپی“ لی (مطلب غور سے سنا) اور محکمہ پولیس میں اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت کئے گئے اقدامات کو ”زبردست الفاظ“ میں خراج تحسین پیش کیا (مطلب مزید کسی اصلاح کی ضرورت نہیں) اور محکمہ پولیس کو اپنی ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا (مطلب پولیس کا کام کاج جہاں اُور جیسا ہے جاری رہنا چاہئے۔) اراکین اسمبلی کی جانب سے ’کلین چٹ‘ ملنے سے یقینا پولیس کے صوبائی فیصلہ سازوں کے حوصلے بلند ہوئے ہوں گے لیکن بنیادی نکتہ تو عوام ہیں‘ جن کے اطمینان اُور اعتماد کی بحالی کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے طول وعرض اُور بالخصوص پشاور ’غیرقانونی اسلحے‘ کا مرکز ہے۔
ستائیس اَکتوبر کو دیرکالونی میں ہوئے دہشت گرد حملے کے اگلے روز (اٹھائیس اَکتوبر) ملحقہ علاقوں میں چند گھروں کی تلاشی لی گئی جس دوران غیرقانونی اِسلحہ برآمد ہوا اُور اگر گھر گھر تلاشی کا دائرہ وسیع کیا جائے تو پشاور کو اسلحے کے پاک بنایا جا سکتا ہے‘ جس کا مطالبہ ’ہوائی فائرنگ‘ کا انسداد کرنے والے ایک عرصے سے کر رہے ہیں لیکن ہوائی فائرنگ کے واقعات (سانحات) سے ناقابل تلافی جانی نقصانات مسلسل ہو رہے ہیں‘ جس کی حوصلہ شکنی کرنے کی مہمات اگر ناکام (ناکافی) ثابت ہو رہی ہیں تو وقت ہے کہ خیبرپختونخوا اُور پشاور کو غیرقانونی اسلحے سے پاک کرنے کی مہم چلائی جائے۔
....