Wednesday, November 20, 2019

Dua_e_Kumail

دعائے کمیل معہ اردو ترجمہ
...
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنام خدائے رحمن و رحیم

اٴَللّٰھُمَّ اِنّيِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ،
وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ
خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر محیط ھے۔ اس قوت کے واسطہ سے ھے جو ھر چیز پر حاوی ھے

بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ،وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،
وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،
وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ
اور اس کے لئے ھر شے خاضع اور متواضع ھے۔ اس جبروت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر غالب ھے اور اس عزت کے واسطہ سے ھے

بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ،
وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ
جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نھیں ھے۔اس عظمت کے واسطہ سے ھے جس نے ھر چیز کو پر کردیا ھے

شَيْءٍ، وَ بِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ، وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ،
اور اس سلطنت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے سے بلند تر ھے۔اس ذات کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ھے

وَبِاٴَسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ،
وَبِعِلْمِکَ الَّذي اٴَحٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ،
اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ھے جن سے ھر شے کے ارکان معمور ھیں ۔اس علم کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کا احاطہ کئے ھوئے ھے

وَبِنُورِ وَجْھِکَ الَّذي اٴَضٰاءَ لَہُ کُلُّ شَيْءٍ،
یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ،یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،
 اور اس نور ذات کے واسطہ سے ھے جس سے ھر شے روشن ھے۔اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر۔

وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ۔ اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَھْتِکُ الْعِصَمَ ۔
اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ۔
خدایا میرے گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ھوتے ھیں۔

اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَیِّرُالنِّعَمَ۔
اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ
ان گناھوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتے ھیں ۔ان گناھوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ھیں ۔

الدُّعٰآءَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔
اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلي کُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ، وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اٴَخْطٰاٴْتُھٰا۔
ان گناھوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں۔ خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوٴں کو بخش دے۔

اٴَللّٰھُمَّ إِنِّي اٴَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ،
وَاٴَسْتَشْفِعُ بِکَ إِلٰی نَفْسِکَ،وَاٴَسْاٴَلُکَ
خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ھو رھاھوں اور تیری ذات ھی کو تیری بارگاہ میں شفیع بنا رھا ھوں تیرے کرم کے سھارے میرا سوال ھے

بِجُودِکَ اٴَنْ تُدْنِیَني مِنْ قُرْبِکَ،
وَاَنْ تُوزِعَنِي شُکْرَکَ،وَاَنْ تُلْھِمَنِي ذِکْرَکَ،اٴَللّٰھُمَّ إِنّي اٴَسْاٴَلُکَ
کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الھام کرامت فرما۔خدایامیں نھایت درجہ

سُوٴٰالَ خٰاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خٰاشِعٍ اٴَنْ تُسٰامِحَنيوَ
تَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً
خشوع ،خضوع اور ذلت کے ساتھ یہ سوال کرر ھاھوں کہ میرے ساتھ مھربانی فرما۔مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میں ھے مجھے

قٰانِعاً،وَفي جَمیعِ الْاٴَحْوٰالِ مُتَوٰاضِعاً۔
اسی پر قانع بنادے۔ مجھے ھر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرما۔

اٴَللّٰھُمَّ وَاٴَسْاٴَ لُکَ سُوٴٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُہُ،وَاٴَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ الشَّدٰائِدِ
خدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ھے جس کے فاقے شدید ھوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ھوں

حٰاجَتَہُ،وَعَظُمَ فیمٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ۔
اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ،وَعَلٰا مَکٰانُکَ،وَخَفِيَ
اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ھو۔خدایا تیری سلطنت عظیم۔ تیری منزلت بلند۔تیری تدبیر مخفی ۔

مَکْرُکَ،وَظَہَرَ اٴَمْرُکَ،وَغَلَبَ قَہْرُکَ،
وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ،وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ۔
تیرا امر ظاھر۔تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ھے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ھے۔

اٴَللّٰھُمَّ لاٰاٴَجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،
وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،
وَلاٰلِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ
خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال

بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ،
لاٰإِلٰہَ إِلاَّ اٴَنْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِي،ُ
کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نھیں ھے۔ تو وحدہ لا شریک، پاکیزہ صفات اور قابل حمد ھے۔ خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے۔

وَتَجَرَّاٴْت بِجَھْلي،
وَسَکَنْتُ إِلٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي،وَمَنِّکَ عَلَيَّ
۔
اپنی جھالت سے جسارت کی ھے اور اس بات پر مطمئن بیٹھا ھوں کہ تونے مجھے ھمیشہ یا د رکھا ھے اور ھمیشہ احسان فرمایا ھے۔

اٴَللّٰھُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَہُ،
وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اٴَقَلْتَہُ،وَکَمْ مِنْ
خدایا میرے کتنے ھی عیب ھیںجنھیں تونے چھپا دیا ھے اور کتنی ھی عظیم بلائیں ھیں جن سے تونے بچایا ھے۔ کتنی ٹھوکریں ھیں

عِثٰارٍوَقَیْتَہُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ،
وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ اٴَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ
۔
جن سے تونے سنبھالا ھے اور کتنی برائیاں ھیں جنھیں تونے ٹالا ھے۔کتنی ھی اچھی تعریفیں ھیں جن کا میں اھل نھیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ھے ۔

اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَاٴَفْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،
وَقَصُرَتْ بياٴَعْمٰالِي،وَقَعَدَتْ
خدایا میری مصیبت عظیم ھے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ھوئی ھے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ھے۔ مجھے کمزوریوں

بِياٴَغْلاٰلِي،وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِي بُعْدُ اٴَمَلِي
وَخَدَعَتْنِي الدُّنِّیٰا بِغُرُورِھٰاوَنَفْسي بِجِنٰایَتِھٰا
کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ھے اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ھے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ھے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ھے ۔

 وَمِطٰالي یٰاسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِعِزَّتِکَ اٴَنْ لاٰیَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،
میرے آقا و مولا! تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوٴں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں

وَلاٰتَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّي،وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُہُ
اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ھونے پاوٴں۔میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ھیں ان کی سزا فی الفور نہ

فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَإِسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطي وَجَھٰالَتِي، وَکَثْرَةِ شَھَوٰاتي وَ غَفْلَتِي۔
ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ھو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ھو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت۔

وَکْنِ اللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاٴَحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ
خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما۔خدایا۔پروردگار۔میرے پاس

عَطُوفاً،إِلٰھيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اٴَسْاٴَلُہُ کَشْفَ ضُرّي، وَالنَّظَرَ فياٴَمْرِي۔
تیرے علاوہ کون ھے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے۔

إِلٰھي وَمَوْلاٰيَ اٴَجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً اتَّبَعْتُ فیہِ ھَویٰ نَفْسي،وَلَمْ اٴَحْتَرِسْ فیہِ مِنْ
خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن

تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااٴَھْویٰ وَاٴَسْعَدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ
(شیطان) مجھے فریب دے رھا ھے۔
نتیجہ یہ ھوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دے دیا

ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اٴَوٰامِرِکَ۔
اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا ۔

فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیہِ قَضٰاوُٴکَ،
بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ھے اور اب تیری حجت ھر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ھے اور میرے پاس

وَاٴَلْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوٴُکَ،وَقَدْ اٴَتَیْتُکَ یٰاإِلٰھِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَإِسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،
تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نھیں ھے۔اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں

مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً
مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً، لاٰ اٴَجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي
،
کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ھو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی

وَلاٰمَفْزَعاًاٴَتَوَجَّہُ إِلَیْہِ فياٴَمْرِي
غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَإِدخٰالِکَ إِیّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ
۔
جائے فرار نھیں ھے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نھیں ھے۔صرف ایک ھی راستہ ھے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے۔

اٴَللّٰھُمَّ فَاقْبَلْ عُذْري،
وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّ وَثٰاقِي،یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي
،
لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،

وَرِقَّةَ جِلْدي،
وَدِقَّةَ عَظْمي،
یٰامَنْ بَدَاٴَخَلْقِي وَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِي وَبِرِّي وَتَغْذِیَتي ھَبْني لِابْتِدٰاءِ
میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما۔اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔

کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي۔
اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے۔

یٰاإِلٰھِيوَسَیِّدِي وَرَبِّي،
اٴَتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،وَبَعْدَمَاانْطَویٰ
پروردگار!
کیا یہ ممکن ھے کہ میرے عقیدہٴ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے

عَلَیْہِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،
وَلَھِجَ بِہِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،وَاعْتَقَدَہُ ضَمیرِي مِنْ
دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابراسے برباد بھی کردے ،

حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافِيوَدُعٰائِيخٰاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ،ھَیْھٰاتَ،
اٴَنْتَ اٴَکْرَمُ مِنْ اٴَنْ تُضَیِّعَ
تیری محبت جاگزیں رھی ھے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ھوں۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ جسے تونے پالا ھے

مَنْ رَبَّیْتَہُ،اٴَوْ تُبْعِدَ مَنْ اٴَدْنَیْتَہُ،
اٴَوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ،اٴَوْتُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ
۔
جسے تونے قریب کیا ھے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ھے اسے راندہٴ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ھے اسے بلاوٴں کے حوالے کردے۔

وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَإِلٰھي
وَمَوْلٰايَاٴَتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ
میرے سردار۔ میرے خدامیرے مولا! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ھیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا

سٰاجِدَةً،وَعَلٰی اٴَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً،
وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ
اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ھیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ھیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی

اعْتَرَفَتْ بِإِلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،
وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ
کا اقرار ھے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ھیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ھیں یا جواعضاء و جوارح تیر ے مراکز

عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ إِلٰی اٴَوْطٰانِ تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،
وَاٴَشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذْعِنَةً
۔
عبادت کی طرف ھنسی خوشی سبقت کرنے والے ھیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ھیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔

مٰاھٰکَذَا الظَّنُّ بِکَ،
وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ یٰارَبِّ،وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ
ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نھیں ھے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ھے ۔

ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰا وَ عُقُوبٰاتِھٰا،
وَمٰا یَجْرِي فیھٰامِنَ الْمَکٰارِہِ عَلٰی اٴَھْلِھٰا،
پروردگار اتو جانتا ھے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نھیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں

عَلٰی اٴَنَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ وَمَکْرُوہٌ قَلیلٌمَکْثُہُ،
یَسیرٌ بَقٰائُہُ، قَصِیرٌ مُدَّتُہُ، فَکَیْفَ احْتِمٰالِي لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ،
قابل تحمل ھیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ھے۔تو میں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا

وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِہِ فیھٰا،
وَھُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ،وَیَدُومُ مَقٰامَہُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ
جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ھے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نھیں ھے اس لئے کہ یہ بلائیں

اٴَھْلِہِ،لِاٴَنَّہُ لاٰیَکُونُ إِلاّٰ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقٰامِکَ وَسَخَطِکَ،وَھٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَہُ السَّمٰاوٰاتُ
تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ھیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نھیں لاسکتے ،تو میں ایک بندہٴ ضعیف و ذلیل

وَالْاَرْضُ، یا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لِي وَاٴَنٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ۔
و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ھوں؟!

یٰاإِلٰھي وَرَبّي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ،لِاٴَيِّ الْاُمُورِإِلَیْکَ اٴَشْکُو،وَلِمٰامِنْھٰااٴَضِجُّ
خدایا۔ پروردگارا۔
میرے سردا۔ میرے مولا!
میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور

وَاٴَبْکي،لِاٴَلیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِہِ،اٴَمْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِہِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ
گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تو نے

اٴَعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْني وَ بَیْنَ اٴَہْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِي وَبَیْنَ اٴَحِبّٰائِکَ
ان سزاوٴں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اھل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور

وَاٴَوْلِیٰائِکَ،فَھَبْنِِي یٰاإِلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ
ولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی ۔تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ھے کہ اگر میں

اٴَصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَھَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِإِلٰی
تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو

کَرٰامَتِکَ،اٴَمْ کَیْفَ اٴَسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ۔
برداشت نھیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوٴں ۔

فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَنينٰاطِقاً،لَاٴَضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ
 تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اھل جھنم کے درمیان بھی

اٴَھْلِھٰا ضَجیجَ الْآمِلینَ،وَلَاٴَصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَاٴَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ
امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ “کی طرح تیری دوری

الْفٰاقِدینَ،وَلَاُنٰادِیَنَّکَ اٴَیْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُوْٴمِنینَ،یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ
پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ھوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس۔

الْمُسْتَغیثینَ،یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا إِلٰہَ الْعٰالَمینَ۔
صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ھے۔

اٴَفَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰاإِلٰھي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیھٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیھٰا
اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ھے کہ تواپنے بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں

بِمُخٰالَفَتِہِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِھٰا بِمَعْصِیَتِہِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا بِجُرْمِہِ وَجَریرَتِہِ وَھُوَ یَضِجُّ
گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے

إِلَیْکَ ضَجیجَ مُوٴَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اٴَھْلِ تَوْحیدِکَ،وَ یَتَوَسَّلُ
اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اھل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ھے اور تو اس کی آواز

إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ۔
نھیں سنتا ھے۔

یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَھُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،اٴَمْ کَیْفَ تُوْٴلِمُہُ
خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ

النّٰارُوَھُوَیَاٴْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،
اٴَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھیبُھٰاوَاٴَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰی
کرنے والا کس طرح جھنم کے الم و رنج کا شکار ھوگا۔ جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تو اس کی آواز کو سن رھا ھو

مَکٰانَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،
اٴَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا
اور اس کی منزل کو دیکھ رھا ھو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ھوگا۔

وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،
اٴَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِیَتُھٰاوَھُوَ یُنٰادیکَ یٰارَبَّہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ
وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ھے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرح جھڑکیں گے

فيعِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰا،ھَیْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ
جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ھوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ھوگا ،ھرگز تیرے بارے

فَضْلِکَ،وَلامُشْبِہٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاٴِحْسٰانِکَ۔
میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نھیں ھے ۔ تو نے جس طرح اھل توحید کے ساتھ نیک برتاوٴ کیا ھے اس کی کوئی مثال نھیں ھے۔

فَبِا لْیَقینِ اٴَقْطَعُ لَوْلاٰمٰاحَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذیبِ جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ إِخْلاٰدِ
میں تو یقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ تو نے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ھوتا اور اپنے دشمنوں کو ھمیشہ جھنم

مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ النّٰارَکُلَّھٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاٴَحَدٍ فیھٰا مَقَرّاً وَلاٰ مُقٰاماً، لٰکِنَّکَ
میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ھوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ھوتا۔

تَقَدَّسَتْ اٴَسْمٰاوٴُکَ اٴَقْسَمْتَ اٴَنْ تَمْلَاٴَھٰا مِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اٴَجْمَعینَ،وَ اٴَنْ
لیکن تو نے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ھے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا  اور معاندین کو اس میں

تُخَلِّدَ فیھٰاالْمُعٰانِدینَ،وَاٴَنْتَ جَلَّ ثَنٰاوٴُکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ بِالْإِنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،اٴَفَمَنْ
ھمیشہ ھمیشہ رکھے گا۔اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ھے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ھے کہ ”مومن

کٰانَ مُوٴْمِناًکَمَنْ کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ۔
اور فاسق برابر نھیں ھو سکتے“۔

إِلٰھي وَسَیِّدِي،
فَاٴَسْاٴَلُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَھٰا، وَ بِالْقَضِیَّةِ الَّتي
تو خدایا ۔مولایا۔ میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت اور ھر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر

حَتَمْتَھٰا وَ حَکَمْتَھٰا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ اٴَجْرَیْتَھٰا،اٴَنْ تَھَبَ لِي فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَفي ھٰذِہِ السّٰاعَةِ
تجھ سے سوال کرتاھوں کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری

کُلَّ جُرْمٍ اٴَجْرَمْتُہُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اٴَسْرَرْتُہُ،وَکُلَّ جَھَلٍ عَمِلْتُہُ،کَتَمْتُہُ
ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان ،چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ھے اور میری

اٴَوْاٴَعْلَنْتُہُ،اٴَخْفَیْتُہُ اٴَوْ اٴَظْھَرْتُہُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اٴَمَرْتَ بِإِثْبٰاتِھاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ وَکَّلْتَھُمْ
تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ھے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ھے اور میرے

بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداًعَلَيَّمَعَ جَوٰارِحِي،
وَکُنْتَ اٴَنْتَ الرَّقیبَ عَلَيَّ
اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ھے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ھے

Monday, November 18, 2019

From Cricketer to Preacher, 'Saeed Anwar' emphasized on education!

شبیرحسین اِمام

دعوت و تبلیغ!
دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں کسی انسان کی پیدائش (جنم) صرف ایک ہی مرتبہ ہوتا ہے لیکن تاریخ کے حافظے میں ایسی کئی عہد ساز شخصیات کا تذکرہ محفوظ ہے‘ جنہوں نے اپنے حال کو کچھ اِس اَنداز سے بدلا کہ وہ ایک بالکل نئے انسان کی صورت میں جلوہ گر ہوئے اُور یہی وہ مقام ہے جہاں اِنسان اپنی خلقت کے مقصد کو پا لیتا ہے۔ کرکٹر سعید انور کا شمار بھی عصر حاضر کی اُن چند گرامی قدر شخصیات میں ہوتا ہے‘ جنہوں نے اپنے ماضی پر نازاں رہنے کی بجائے اپنے حال اور مستقبل کی بہتری کے لئے سوچا‘ عمل کیا اُور وہ کر دکھایا جو بظاہر ناممکن ہے! یہی وجہ ہے کہ اُن سے ملاقات‘ اُن کی معیت و صحبت ’باعث شرف و فخر‘ سمجھی جانے لگی ہے۔

سعید انور کون ہیں؟
پاکستان کی ’ٹیسٹ‘ اُور ’ون ڈے‘ کرکٹ ٹیموں کے سابق کپتان سعید انور (پیدائش 6 ستمبر1968) نے 1989ءسے 2003ءکے درمیان جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا‘ وہ صرف شائقین کرکٹ ہی کے لئے نہیں بلکہ کرکٹ کے کھیل میں انقلاب ثابت ہوا۔ اُنہوں نے ون ڈے میں 20 مرتبہ 100 سے زیادہ رنز بنائے۔ یہ ریکارڈ پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی آج تک نہیں توڑ سکا ہے۔ اُنہوں نے 55 ٹیسٹ میچ کھیلے{‘ جن میں 4052 رنز اُور 11 سنچریاں 45.52 رنز کی اوسط سے سکور کیں جبکہ ’ون ڈے کرکٹُ میں انہوں نے مجموعی طور پر 8824 رنز 39.21 کی اوسط سے بنائے۔ اُن کے نام کئی اعزازات ہیں تاہم ایک اعزاز ایسا بھی ہے جو کرکٹ کا کوئی بھی کھلاڑی حاصل نہیں کرنا چاہے گا اُور وہ یہ کہ 1991ءمیں ویسٹ انڈیز کے خلاف فیصل آباد میں ہوئے ٹیسٹ میچ کے دوران سعید انور دونوں اننگز میں ’صفر‘ پر آو ¿ٹ ہوئے‘ جسے ’پیئر ایٹ دی ٹیسٹ ڈیبیو‘ کہا جاتا ہے اُور 14 مئی 2018ءسے اب تک 44 بیٹسمین اِس طرح آو ¿ٹ ہو چکے ہیں‘ جن میں پاکستان کے صرف سعید انور کا نام شامل ہے لیکن شائقین کرکٹ بالخصوص پاکستانیوں کے لئے ’سعید انور‘ آج بھی ”ہیرو“ ہیں جنہوں نے 1997ءمیں بھارت کے کھلاڑیوں کو بھارت ہی کے ایک میدان (ہوم کراوڈ اُور ہوم گراونڈ) پر ناکوں چنے چبوائے۔ چینئی میں ہوئے مذکورہ ’ون ڈے مقابلے‘ میں اُنہوں نے 146 گیندوں پر 194 رنز بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا اُور اِسی بہترین کارکردگی کی وجہ سے پاکستان وہ مقابلہ 35 رنز سے جیتا تھا۔ سعید انور کا یہ ریکارڈ 12برس تک برقرار رہا جسے 16 اگست 2009ئ‘ زمبابوے کے کھلاڑی ’چارلیس کوونٹری (Charles Coventry)‘ نے بنگلہ دیش کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے برابر کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سعید انور اِس عالمی اعزاز میں کسی دوسرے کھلاڑی کے شریک ہونے پر بھی رب کے ہاں یہ کہتے ہوئے شکرگزار پائے گئے کہ ”دنیا کی کوئی بھی کامیابی رب تعالیٰ کے حضور فرمانبرداری سے زیادہ قابل وقعت اعزاز نہیں ہوسکتی۔“

سعید انور کیا ہیں؟
اکیاون سالہ ’سعید انور‘ آج ایک بالکل مختلف انسان ہیں۔ اُنہوں نے اسلام کو سمجھا اُور اِس گہرائی سے سمجھا کہ دنیا اُن کی سمجھ بوجھ اُور بیان و کلام سے استفادہ کر رہی ہیں اُور کیا یہ اعزاز کم ہے کہ سعید انور کئی مردہ دل زندہ کر چکے ہیں! خود کو اسلام (دعوت و تبلیغ) کے لئے وقف کرنے جیسا شرف اُور سعادت اپنی جگہ ’ورلڈ ریکارڈ‘ ہے کہ اُن کے ہاتھ پر کئی غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا‘ جن میں پاکستان کے مایہ ناز اُور معروف کرکٹر محمد یوسف (سابقہ نام یوسف یوحنا) بھی شامل ہیں۔ 18 نومبر کے روز‘ ایبٹ آباد (نواں شہر) کے ’ویمن میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج‘ میں سعید انور بطور مہمان مدعو کئے گئے‘ جہاں اُنہوں نے قریب ایک ہزار اساتذہ‘ طالبات اُور ملازمین کے سامنے کرکٹ کے کھیل (اپنے ماضی کے تجربات) پر نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر بات کی۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات سمیت اِس موقع پر موجود ہر شخص اِس بات کو اپنے لئے اعزاز سمجھ رہا تھا کہ وہ پاکستان کے ایک ہیرو کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ جو انتہائی سادہ لباس اُور عاجزی کی تصویر بنے اُن کے سامنے تشریف فرما یہ سمجھا رہے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کے کچھ حصے کو دین کے لئے وقف کرنے سے ابتداءکرنی چاہئے! ایک گھنٹے سے زائد دورانیئے کے خطاب میں سعید انور نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق‘ تربیت اُور اسلام کے عقائد و عبادات کو منطقی (حکیمانہ) لیکن قابل فہم انداز میں اِس قدر سادہ الفاظ اُور مثالوں سے مزین کر کے پیش کیا کہ شاید ہی اُن کا کہا ہوا کوئی ایک لفظ بھی ضائع گیا ہو۔ اسلام کی اِس سے زیادہ مختصر اُور جامع تعریف کوئی دوسری ممکن ہی نہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو 40 برس کی عمر میں اسلام متعارف کرنے کا حکم ملا تو اُنہوں نے ابتدائی 23 برس ’ایمانیات اُور یقین‘ کے بیج بوئے۔ عملی زندگی میں امانت و دیانت سے خود کو ایسی مثال بنایا کہ مشرک بھی اُن کی تعریف و توصیف کرتے تھے اُور پھر اِسی نیک نامی کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے معاشرے میں توحید پر مبنی عقائد کا نظام متعارف کروایا۔ جب 62 برس کی عمر میں ہجرت کی تو مدنی زندگی کے 10 برس (دنیا سے پردہ فرمانے تک) اپنے قول و فعل سے عبادات اُور امربالمعروف و نہی عن المنکر کی تعلیم کرتے رہے اُور یہی طریق آپ کے بعد آنے والے اہل بیت اطہار‘ اُمہات المومنین‘ حضرات صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اُور بزرگان دین رضوان اللہ اجمعین کا رہا کہ اُنہوں خالص دین کو پورے خلوص کے ساتھ منتقل کرتے ہوئے اصول دیا کہ دین کی دعوت و تبلیغ میں نرمی اُور سلوک پر مبنی ’درمیانی راستہ‘ اختیار کیا جائے۔

سعید انور نے کیا کہا؟
نظر کی حفاظت اُور بدنظری سے بچنے کے ساتھ سعید انور نے بچوں کے تربیتی مراحل (عمر کے ابتدائی 13 برس) کے دوران اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے اُور اُنہیں اپنے عمل سے دین پر کاربند رہنے کا عادی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ”دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح دین میں بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اُور اِس کے لئے صرف زبانی کلامی باتیں ہی کافی نہیں بلکہ دنیاوی وسائل کے ساتھ بروئے کار ’دعوت و تبلیغ‘ کے لئے وقت مختص کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ ”حقیقی کامیابی“ زیادہ سے زیادہ دنیاوی وسائل (مال و دولت) اپنے نام کرنا نہیں بلکہ دنیا کو امن و محبت پر مبنی اسلام کا پیغام دینا ہے‘ تاکہ غیبت‘ بُڑائی‘ نسلی‘ لسانی‘ گروہی‘ مسلکی تفرقے اُور سیاسی و غیرسیاسی اختلافات کی گنجائش نہ رہے۔ تعلیم کے ساتھ بچوں کی تربیت کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہئے کیونکہ بچے جو کچھ بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں اُس میں اُن کے مشاہدے کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
.....



Sunday, November 17, 2019

TRANSLATION: The gap by Dr Farrukh Saleem

The gap
فرق و تضاد

حکومت کی ترجیحات اُور عوام کی توقعات کے درمیان ’زمین آسمان کا فرق‘ نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر زمین پر جب ٹماٹروں کی فی کلوگرام قیمت 320 روپے تھی تب حکومت کے اہم رکن نے کہا کہ یہ 17 روپے فی کلوگرام ہیں۔ اِسی طرح جب زمین پر موسمی سبزی مٹر کی فی کلوگرام قیمت 100 روپے تھی تو حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ یہ 5 روپے فی کلوگرام ہے۔ اِسی طرح اہل زمین کو عام گاڑی سے سفر کرنے میں جتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے حکومت کی نظر میں ہیلی کاپٹر سے فی کلومیٹر 55 روپے میں سفر ہوتا ہے۔ یہ سبھی مثالیں اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ برسراقتدار طبقے اُور عوام کو مختلف قسم کے حالات درپیش ہیں اُور دونوں ہی کے لئے حالات سے نمٹنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

حکومت کے لئے پاکستان کی معاشی واقتصادی نظام کو درست کرنا ایک ضرورت اُور مشکل ہے جس کے لئے اُس نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بھاری سود اُور سخت مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنے جیسی شرائط پر قرض حاصل کیا ہے جبکہ عام آدمی کی مشکل یہ ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط کے نام پر کئے گئے اقدامات سے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ حکومت خوش ہے کہ اُس نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دی ہیں اُور عوام فکرمند ہے کہ اُن کا معاشی مستقبل پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ روزگار کو تحفظ حاصل نہیں جبکہ مہنگائی کی شرح اِس کے علاو ¿ہ اضافی بوجھ ہے۔ خلاو ¿ں میں رہنے والوں پر زمین کی سطح پر پائی جانے والی ’کشش ثقل‘ کا اثر نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ وفاقی کابینہ کے اراکین جب چھانگ مارتے ہیں تو وہ زیادہ بلندی تک ہوا میں اُڑتے ہیں اُور سمجھتے ہیں کہ اہل زمین (ہم عوام) بھی ایسی ہی صورتحال سے محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ حکومت کے لئے بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ معمولی سی بات ہے اُور یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں گیس کے بلوں میں ڈھائی سے چھ روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا کیونکہ کابینہ کے کسی رکن کے لئے ڈھائی سے چھ روپے اضافہ معمولی سی بات ہے لیکن ایک ایسا شخص جس کی یومیہ آمدنی ہر دن کم ہو رہی ہے اُور اُسے ایک بڑے کنبے کی کفالت کرنی ہے لیکن اُس کی مالی ذمہ داریوں میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے!

خلاوں میں رہنے والوں کے لئے موسمیاتی تبدیلی‘ فضائی آلودگی اُور آب و ہوا کی خرابی کوئی مسئلہ نہیں لیکن زمین پر رہنے والوں کو آلودہ ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔ زراعت و کاشتکاری کو الگ سے خطرات لاحق ہیں جبکہ پاکستان کے کئی شہروں کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شمار کر لیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں سیاحت کی ترقی کیونکر ممکن ہو گی جبکہ پاکستان کے مرکزی شہروں کی فضا آلودہ ترین ہیں!؟

1700 کے اواخر کی بات ہے جب ملکہ ماری (Queen Marie Antoinette) سے کہا گیا کہ عوام روٹی نہ ملنے کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں تو اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟ فرانس کے حکمرانوں کا یہ رویہ اُنہیں لے ڈوبا تھا اُور 14جولائی 1789ءکو ’فرانسیسی انقلاب‘ میں شریک عوام نے بادشاہت کا تختہ اُلٹا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی انقلاب 1789ءمیں شروع ہوا تھا۔

پاکستان میں مہنگائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اُور اِس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہوئے کوئی حل نکالنا چاہئے۔ حال ہی میں ہوئے گیلپ و گیلانی سروے (Gallup & Gilani Poll) سے معلوم ہوا کہ 53فیصد پاکستانیوں کے لئے مہنگائی 23 فیصد کے لئے بیروزگاری جبکہ صرف 4فیصد کے لئے بدعنوانی بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کا ایک تعلق بجلی و گیس اُور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت کم سے کم بجلی و گیس کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے گریز کرے تو اِس سے مارکیٹ میں ایک طرح کا استحکام دیکھنے میں آئے گا۔ حکومت قریب 2 کھرب روپے بجلی و گیس کی قیمت میں اضافے اُور اضافی ٹیکسوں سے حاصل کر رہی ہے‘ جس کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں مسلسل کمی کا رجحان ہے اُور جب قوت خرید کم ہوتی ہے تو پیداواری اداروں کو اپنی پیداوار کم کرنا پڑتی ہے جس کے لئے مزدوروں کی تعداد گھٹانا پڑتی ہے اُور یوں معیشت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مہنگائی کے محرکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے عوام سے متعلق فیصلہ سازی اُسی سطح پر کی جائے جہاں عوام رہتے ہیں۔ اِس کے لئے فیصلہ ساز کو زمین پر اُترنا ہوگا جہاں پاکستان کے معاشی حالات اُن کی سوچ سے زیادہ مختلف اُور گھمبیر ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)


Sunday, November 10, 2019

TRANSLATION Wrong focus by Dr Farrukh Saleem

Wrong focus
غلط ترجیحات
پہلی ترجیح‘ ٹیکس وصولی: اِصطلاحی طور پر ٹیکس وصولی ایک ایسی اقتصادی سرگرمی کا نام ہے جس کی وجہ سے اقتصادی ترقی ہو اُور اِس ترقی کے نتیجے میں ٹیکس وصول ہونے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تو سکڑ رہی ہوں لیکن وہاں کی حکومت ٹیکس وصولی کے زیادہ بڑے اہداف مقرر کر کے بیٹھی ہو۔ پاکستان حکومت بھی ایک ایسا ہی غلط گمان کئے بیٹھی ہے کہ اِسے اقتصادی بحران کے حالات میں عوام اُور کاروباری طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو غور کرنا چاہئے کہ اصل ضرورت ’اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے‘ کی ہے‘ جس سے ٹیکس وصولی کی شرح میں خودبخود اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ٹیکس لاگو کرنے سے پہلے آمدن کے لحاظ سے طبقات کو تقسیم کرنے کا ہے۔ فیصلہ سازوں کو تین سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں۔
1: ٹیکس کون ادا کرے گا؟
2: ٹیکس کتنا ادا کرے گا اُور
3: ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کے کتنے فیصد حصے کا حکومت اپنے اخراجات کے لئے استعمال کر سکتی ہے؟

مساوات اُور انصاف یہ ہے کہ ٹیکس مالی حیثیت کے مطابق نافذ ہو یعنی ملک کے سرمایہ دار طبقات کو نسبتاً زیادہ اُور کم آمدنی یا کم مالی حیثیت رکھنے والوں پر اِسی شرح سے ٹیکسوں کا کم بوجھ لادا جائے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے اہداف اُور ٹیکسوں سے متعلق حکومت کی پالیسی کا جائزہ لیں تو صورتحال بالکل متضاد اُور مختلف نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں طرزحکمرانی عوام دوست نہیں بلکہ اِس میں خواص کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ زیادہ آمدنی اُور زیادہ مالی حیثیت رکھنے والوں کی نسبت کم آمدنی اُور کم مالی حیثیت رکھنے والے طبقات سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔
دوسری ترجیح‘ ماضی کی غلامی: پاکستان کی حکومت آگے (مستقبل) کی جانب دیکھنے کی بجائے پیچھے (ماضی) کی جانب دیکھتے ہوئے سفر کر رہی ہے۔ ایسا سفر حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔ حکومت کی ساری کوشش یہ جاننے میں لگی ہوئی ہے کہ ماضی کے حکمرانوں میں شامل کرداروں میں سے کس نے کتنے قومی وسائل ذاتی اثاثوں میں منتقل کئے۔ اگر یہ طرزعمل جاری رہا کہ حکومت آگے کی بجائے پیچھے کی جانب دیکھتی رہی تو اِس کا انجام یا تو یہ ہوگا کہ آگے کی جانب سفر رک جائے یا اگر سفر جاری رہا تو یہ حادثے کا سبب بنے گا۔ حکمراں جماعت کو انسداد بدعنوانی اُور اقتصادی حکمت عملی میں تمیز کرنا ہوگی۔ پاکستان کی ضرورت ایک ایسے تربیت یافتہ‘ اہل ادارے کی ہے جو ملک میں ’انسداد بدعنوانی‘ جیسے انتظامات کر سکے۔ قومی احتساب بیورو یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے کیونکہ اِس کی خاطرخواہ تربیت نہیں۔ اِس کی خاطرخواہ صلاحیت نہیں اُور اِسے خاطرخواہ آزادی حاصل نہیں۔

تیسری ترجیح‘ غیرملکی سرمایہ کار: پاکستان کی نظریں غیرملکی سرمایہ کاروں پر لگی ہوئی ہیں اُور اِس ماحول میں انہیں ملکی سرمایہ کار دکھائی نہیں دے رہے جو سالانہ قریب 5000 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اُور یہ سرمایہ کاری بیرونی سرمایہ کاری سے زیادہ ہے۔ اِس لئے حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے مواقع اور مراعات کی تشکیل سے زیادہ ملکی و مقامی سرمایہ کاروں کے بارے میں سوچنا چاہئے اُور اُنہیں ایسا ماحول دینا چاہئے کہ جس میں وہ حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے پہلے کی نسبت زیادہ سرمایہ کاری کریں۔

چوتھی ترجیح‘ شرح سود: حکومت نے آمدن بڑھانے کے لئے شرح سود میں اضافہ کیا ہے جو فی الوقت دس فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اِس کا نقصان یہ ہے کہ کم وقت کے لئے سرمایہ کاری کرنے والے زیادہ منافع کما کر چلتے بنیں گے اُور ملک کے اقتصادی مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے اُور دوسرا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک میں کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے نئے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے اُور اِس کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پانچویں ترجیح‘ درآمدات میں کمی: حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کی درآمدات میں کمی ہو۔ اِس مقصد کے لئے اب تک کئے گئے اقدامات میں پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ اصولاً درآمدات میں کمی سے زیادہ برآمدات میں اضافے پر توجہ دینی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات (تیل‘ کوئلہ‘ مائع گیس اُور مشینری) درآمد کرنے پر سالانہ 30ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جبکہ ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد پر سالانہ 4 ارب ڈالر اُور لوہے (iron) و سٹیل (steel) کی درآمدات پر سالانہ 3 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔

برآمدات میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ کم و بیش ’5 برس‘ قبل بنگلہ دیش اُور پاکستان ایک جیسی مالیت کی برآمدات کرتا تھا یعنی بنگلہ دیشی اُور پاکستانی برآمدی حجم 25 ارب ڈالر تھا لیکن پانچ برس بعد کی صورتحال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی برآمدات سالانہ 25 ارب ڈالر سے بڑھ کر سالانہ 40 ارب ڈالر ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہیں! اگر پاکستان 40 ارب ڈالر کی برآمدات کرے اُور اِسے ترسیلات زر سے 24 ارب ڈالر ملیں تو اِس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کم ہو گا اُور ملک کی اقتصادی صورتحال ایک ایسے توازن پر آن کھڑی ہو گی‘ جس کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
............