Wednesday, February 17, 2021

Computerization of Land Record

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

لینڈ ریکارڈ کمپوٹرائزیشن

بھارت کے خبررساں اِدارے ’پریس ٹرسٹ آف اِنڈیا‘ کی جاری کردہ ایک خبر کے مطابق یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے پشاور میں اپنا آبائی گھر ’وقف‘ کرنے کی وصیت کر رکھی ہے اُور اِس سلسلے میں پشاور میں مقیم اُن کے قریبی عزیز (اِیوان ہائے صنعت و تجارت کے سابق صدر اُور معروف صنعتکار) کے نام مختار نامہ (پاور آف اٹارنی) بھی کئی سال پہلے جاری کیا جو اُن کی جائیداد کی خریدوفروخت سے متعلق کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے میں خودمختار ہیں۔ صنعتکار فواد اِسحاق سے بات چیت پر مبنی مذکورہ خبر میں کہا گیا ہے کہ ”دلیپ کمار نے مذکورہ مختار نامہ سال 2012ءمیں تحریر کیا تھا جس میں اُنہوں نے اپنی جائیداد اہل پشاور کے نام وقف کر دی تھی۔“ ذہن نشین رہے کہ محمد یوسف خان گیارہ دسمبر اُنیس سو بائیس پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے۔ 1944ءمیں فلم ’جوار بھٹہ‘ سے فلمی اداکاری کے شعبے میں عملی زندگی کا آغاز کیا اُور آخری فلم قلعہ 1988ءکے ساتھ مجموعی طور پر 65 فلموں میں کام کیا۔ وہ اِن دنوں علیل ہیں اُور طویل علالت کے باعث 98 برس کی عمر میں خود کو گھر تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔ سولہ مارچ دوہزاربیس کے روز اُن کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@TheDilipKumar) سے جاری ہونے والے پیغام میں کہا گیا تھا کہ ”کورونا وبا کے سبب سماجی مصروفیات ترک کر دی گئی ہیں“ جبکہ دوسرے پیغام میں اُنہوں نے اپنے مداحوں سمیت تمام لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ خود کو ’کورونا وبا‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت گھروں کے اندر رہتے ہوئے بسر کریں۔“

13جولائی 2013ءکے روز اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے دلیپ کمار کے گھر کو ’قومی ورثہ (National Heritage) قرار دیا تھا لیکن تب سے آج تک ہر دور حکومت میں اِس گھر کی اہمیت کو تسلیم تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کی تعمیرنو‘ بحالی اُور حفاظت و ترقی کے لئے خاطرخواہ عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ 5 مرلہ سے کم اراضی پر اِس 3 منزلہ عمارت کی تعمیر میں بیشتر لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے جو انتہائی خشک اُور بوسیدہ حالت میں ہونے کی وجہ سے مکان کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی ہے۔ چھتیں منہدم ہیں جبکہ اِس بھوت بنگلے کی قسمت کب جاگے گی نہیں معلوم لیکن ہر دورِ حکومت میں دلیپ کمار کے آبائی گھر کا ذکر بلندبانگ دعووں کے ساتھ سننے میں آتا ہے۔ اِس سلسلے (کڑی) کی تازہ ترین خبر 10فروری (دوہزاراکیس) کے روز سامنے آئی تھی جب محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں کو خریدنے کے لئے مالی وسائل صوبائی خزانے سے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ کپور حویلی کی قیمت ڈیڑھ کروڑ جبکہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کی قیمت 80 لاکھ روپے لگائی گئی اُور مجموعی طور پر 2 کروڑ 35 لاکھ 70 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) کو فراہم کی جائے گی جو اِن مکانات کی خریداری کریں گے۔ صوبائی حکومت مذکورہ دونوں مکانات کو خرید کر اُنہیں ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ اِن کے ذریعے پشاور میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ایک طرف دلیپ کمار کی جانب سے دیا جانے والا مختار نامہ ہے جس کے مطابق اُنہوں نے اپنا آبائی مکان اہل پشاور کے نام وقف کر دیا ہے اُور مختار نامہ صرف اُسی صورت جاری ہوتا ہے جبکہ کسی جائیداد یا اراضی کی ملکیت موجود ہو جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت اُس مکان کو خرید رہی ہے جس دلیپ کمار سے نسبت رکھتا ہے لیکن اِس کی ملکیت کسی اُور کے پاس ہے۔ جن قارئین کے لئے یہ نکتہ سمجھ سے بالاتر ہو‘ اُنہیں ’پٹوار خانے‘ اُور ’مال خانے‘ کے نظام کو دیکھنا چاہئے جہاں جائیداد کی ملکیت کے کاغذات بنائے جاتے ہیں اُور جعلی کاغذات اُور فرضی مالکان کے نام پشاور کی اراضی منتقل ہونا ایک ایسا عمومی فعل ہے جو آج تک جاری ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے تھانہ اُور پٹوار خانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعده کیا تھا لیکن یہ دونوں وعدے پورے نہیں کئے۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ’اِی گورننس‘ کے تجربات جاری ہیں جبکہ پشاور میں جائیدادوں اُور اراضی کا ڈیٹا ’کمپیوٹرائزڈ‘ کرنے کا عمل 8 سال سے جاری ہے اُور مکمل نہیں ہو رہا تو اِس التوا کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک خاص گروہ (مافیا) ”لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن“ کی راہ میں حائل ہے۔ اِس سلسلے میں پنجاب کی مثال موجود ہے جس کے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے اُور اُس پورے عمل کی تفصیلات متعلقہ محکمے (پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی) کی ویب سائٹ (punjab-zameen.gov.pk)پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ لینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (LRMIS) کیا ہے‘ کیسے بنایا گیا‘ کیسے کام کرتا ہے اُور اِس کے ذریعے کس طرح جعل سازی اُور سرکاری و نجی املاک کو قبضہ کرنے کی کوششیں ناکام بنائی جا رہی ہیں یہ سب سمجھنے کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے تجربات اُور اُن کے نتائج سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا عمل (پہلا مرحلہ) 2013ءمیں 7 اضلاع (پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈیرہ اسماعیل خان) سے شروع ہوا جبکہ دوسرے مرحلے کا آغاز 2015ءمیں کیا گیا جس میں سوات‘ شانگلہ‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ ہنگو‘ کرک‘ ہری پور‘ صوابی‘ لکی مروت اُور ٹانک میں کیا گیا لیکن اِن سبھی اضلاع میں فرد نمبروں کا اجرا اُسی روائتی انداز میں (حسب سابق) جاری ہے۔ ناقابل فہم ہے کہ جو کام چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ مہینوں میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا‘ اُس کی تکمیل میں اِس قدر تاخیر کا باعث اَمر کیا ہے۔ اُمید ہے اِس بارے میں وفاقی اُور صوبائی فیصلہ ساز ’خصوصی توجہ‘ دیں گے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت 2013ء سے جاری ہے لیکن 8 سالہ دور مکمل ہونے اُور حکمرانی کے اِس تسلسل کے باوجود بھی حکومتی فیصلوں‘ اقدامات اُور اعلانات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

....




Tuesday, February 16, 2021

PTI's Senate Nominations & Hazara Reservation

 شبیرحسین اِمام

ہزارہ در سینیٹ: حقیقی نمائندگی سے محروم

تحریک انصاف کو سینیٹ محاذ پر نیا اِمتحان درپیش ہے جہاں زیرغور معاملہ (قضیہ) ”واجبی نمائندگی“ کا نہیں بلکہ ”حقیقی نمائندگی“کا ہے۔ سینیٹ اِنتخابات (3 مارچ) کے لئے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزدگیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جن میں خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی سے سب سے زیادہ تعداد میں یعنی 10سینیٹرز کا انتخاب ہونا ہے چونکہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا اسمبلی کی اکثریتی جماعت ہے اِس لئے سب کی نظریں اُس انصاف کی جانب مبذول تھیں کہ اِس مرتبہ صوبے کے 35 اَضلاع پر مشتمل 7 ڈویژنز (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اُور ڈیرہ اسماعیل خان) سے کتنا اِنصاف کیا جاتا ہے بالخصوص تحریک اِنصاف کے دیرینہ کارکن سینیٹ نامزدگیوں سے متعلق فیصلوں سے کس قدر اتفاق کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے 13 فروری کی شام سینیٹ کے لئے نامزد اراکین کی فہرست جاری کی گئی جس کے مطابق جنرل نشستوں پر شبلی فراز‘ محسن عزیز‘ ذیشان خانزادہ‘ فیصل سلیم اُور نجی اللہ خٹک۔ ٹیکنوکریٹ نشستوں پر دوست محمد محسود اُور ڈاکٹر ہمایوں مہمند۔ خواتین کی نشستوں پر ثانیہ نشتر اُور فلک ناز چترالی جبکہ اقلیتی نشست پر گردیپ سنگھ نامزد ہوئے ہیں اُور 15 فروری (کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ) تک اِن ناموں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی حالانکہ خیبرپختونخوا کے مختلف ڈویژنوں سے تحریک انصاف کے کارکنوں کا احتجاج (تیرہ فروری کی شام ہوئے اعلان سے) جاری ہے۔

سینیٹ کے لئے نامزدگیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا (فیس بک اُور ٹوئیٹر) کے علاوہ واٹس ایپ گروپوں میں تحریک انصاف ہزارہ ڈویژن کے کارکن شدید ردعمل (ناپسندیدگی) کا اظہار کر رہے ہیں۔ فیس بک کے ایسے ہی ایک پیغام (پوسٹ) میں کہا گیا ہے کہ ”سینیٹ نامزدگیاں کرتے ہوئے تحریک ِانصاف نے ہزارہ ڈویژن کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا اُور ہزارہ سے قریب دو درجن اراکین اسمبلیوں کے باوجود بھی سینیٹ کے لئے نئے (تازہ دم) رکن پر نگاہ نہیں کی گئی جبکہ ضلع مردان سے 2 افراد کو سینیٹ کے لئے نامزد کرنے کو اہل ہزارہ اپنی حق تلفی سمجھتے ہیں۔“ کارکنوں کی جانب سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے سخت تبصرے بھی کئے گئے ہیں اُور قیام پاکستان کی تحریک میں ہزارہ ڈویژن کے تاریخی کردار‘ واقعات و کارکردگی کے حوالے دیئے گئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا کے اسلوب سے ’کلام نرم و نازک‘ اُس قیادت پر ’اثر‘ نہیں کرے گا جو اِس وقت اقتدار میں ہے اُور اقتدار کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اِس میں پاوں زمین پر نہیں رہتے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں کارکنوں کی بے قدری کی یہ پہلی مثال نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق اُس جمہور کی رائے اُور جذبات کا احترام نہیں کرتیں جن سے جمہوریت تخلیق پاتی ہے۔

دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سرسبز پہاڑی (بالائی) اُور زرخیز میدانی (زریں) علاقوں پر مشتمل ہزارہ ڈویژن میں اِیبٹ آباد‘ بٹ گرام‘ ہری پور‘ لوئر کوہستان‘ مانسہرہ‘ تورغر‘ کولائی پلاس اُور اَپر کوہستان نامی اضلاع شامل ہیں‘ جن کی سینیٹ میں ہزارہ ڈویژن کی نمائندگی سینیٹر اعظم سواتی 2006ءسے کر رہے ہیں لیکن یہ نمائندگی سیاسی و نظریاتی نہیں بلکہ وہ اپنے ذاتی اثرورسوخ اُور کاروباری مفادات و معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ تقاضا یہ ہو رہا ہے کہ ’سینیٹ میں ہزارہ ڈویژن کو نمائندگی ملنی چاہئے‘ جو (برائے نام) نمائندگی ہونے کے باوجود بھی محروم ہے!“ سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی ایک ڈویژن کو سینیٹ میں 2 لیکن دوسرے ڈویژن کو سینیٹ میں ”حقیقی نمائندگی“ نہ دی جائے جس سے دور افتادہ اُور بیشتر غربت زدہ اضلاع میں پائے جانے والے ’احساس محرومی‘ میں اضافہ منطقی ردعمل ہے اُور سیاسی شعور رکھنے والوں کے علاوہ عوامی حلقے بھی اِس امتیازی سلوک کی مذمت کر رہے ہیں۔

  شخصیات کے ذاتی مفادات نہ ہوتے تو سیدھا سادا حساب تھا کہ تحریک ِانصاف نے خیبرپختونخوا کے 7 ڈویژنز سے 10 سینیٹ نامزدگیاں کرنا تھیں اُور یہ قطعی مشکل نہ تھا کہ ہر ڈویژن کو نمائندگی دی جاتی۔ اگر مردان سے دو سینیٹرز کا اضافہ ہو سکتا ہے تو ہزارہ ڈویژن سے کیوں نہیں؟ لیکن ایسا نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے اُور وہ یہ کہ خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف کسی بھی ضلع یا ڈویژن میں منظم نہیں اُور جماعتی فیصلے اُنہی رہنماوں کے ہاتھ میں ہیں اُور یہی کردار صوبے یا وفاق میں بیٹھ کر سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔
 
خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف کا پہلا دور (مئی دوہزارتیرہ سے جون دوہزار اٹھارہ) اُور دوسرا دور (جولائی دوہزار اٹھارہ سے) تاحال جاری ہے۔ اِس دوران اگر سب سے کم توجہ کسی ایک شعبے پر دی گئی ہے تو وہ ”تنظیم سازی“ ہے جبکہ خیبرپختونخوا کی برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کسی بھی ڈویژن‘ ضلع‘ تحصیل حتیٰ کہ یونین کونسل کی سطح پر بھی منظم نہیں اُور اِس کا تنظیمی ڈھانچہ برائے نام موجود ہے۔ المیہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو اپنی ذات میں جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن اُن کی تنظیم سازی کو کمزور رکھا گیا ہے جس سے کارکنوں کی خاطرخواہ اہمیت نہیں رہی اُور اب کارکنوں کی ضرورت صرف اُور صرف عام اِنتخابات تک محدود ہو گئی ہے۔ جہاں سیاسی تنظیم سازی نہ ہو‘ وہاں سیاسی کارکنوں (عوام) کی رائے کو بھی توجہ نہیں دی جاتی اُور سینیٹ کے لئے نامزدگیاں کرتے ہوئے یہی ہوا کہ تحریک ِانصاف نے نہ صرف خیبرپختونخوا کے سات اضلاع پر مشتمل ہزارہ ڈویژن کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت کو نظرانداز کیا بلکہ یہاں کے سیاسی کارکنوں کو بھی ”صفر سے ضرب دی۔“ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ہزارہ ڈویژن وہی ہے جس نے ایک ارب شجرکاری مہم (بلین ٹری سونامی) سے لیکر سیاحتی ترقی کے ذریعے تحریک انصاف کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا اُور پوری دنیا میں تحریک انصاف کو پذیرائی ملی۔ وقت گزر جائے گا لیکن سوشل میڈیا پر کارکنوں کے تبصرے موجود رہیں گے جن پر نظر رکھے مورخین تحریک انصاف کی غلطیوں کو شمار کر رہے ہیں کہ وہ ملک کے لئے متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی لیکن طاقت کے سرچشمے عوام کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی۔ ”اے دل خود ناشناس ایسا بھی کیا .... آئینہ اُور اِس قدر اندھا بھی کیا (اُمید فاضلی)۔

مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 23 لاکھ 41 ہزار 782 (مرد ووٹرز 13 لاکھ 31ہزار 518 اُور خواتین ووٹرز 10لاکھ 10ہزار 264) تھی جبکہ جولائی 2018ءکے عام اِنتخابات کے موقع پر جہاں ملک گیر سطح پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 2013ءکے عام انتخابات کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ ہوا‘ وہیں ہزارہ ڈویژن کے ووٹرز کی تعداد 35 لاکھ تک جا پہنچی۔ اِن اعدادوشمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہزارہ ڈویژن سینیٹ میں حقیقی نمائندگی نہیں رکھتی تو درحقیقت اِس سے مراد 35 لاکھ سے زائد ووٹرز کی آواز ہوتی ہے جن کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹ میں تو موجود ہیں لیکن 3 مارچ کے بعد قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ہزارہ ڈویژن کی ”حقیقی و معنوی نمائندگی“ نہیں ہوگی۔