Sunday, August 27, 2017

TRANSLATION: Policy capture by Dr. Farrukh Saleem

Policy capture
خواص بمقابلہ اجتماعی مفادات!
پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد سے کم حصہ ڈیفینس‘ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ گلبرگ‘ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ جیسی بیش قیمت کالونیوں (ہاؤسنگ سوسائٹیز) میں رہتا ہے۔ اِسی طرح ایک فیصد سے کم پاکستان کی آبادی جمخانہ‘ گالف کلبوں‘ کنٹری کلبوں اور اسلام آباد کلب کی رکنیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرز کی مجموعی تعداد ’1 ہزار 174‘ ہے جن میں سے قریب پچاس فیصد کا تعلق 450 خاندانوں سے ہیں اور یہ خاندان ہر دور میں کسی نہ کسی صورت حکومت میں رہتے ہیں۔
حقائق: 84 فیصد پاکستانی کو ملنے والا پینے کا پانی صاف نہیں ہوتا اور ملک کی اس قدر بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے! کیوں؟ پاکستان کے 55فیصد بچے خون کی کمی سے لاحق ہونے والے امراض کا شکار ہیں‘ کیوں؟ 44فیصد پاکستانی بچوں کی نشوونما اُن کی عمروں کے مطابق نہیں ہو رہی کیوں؟ کم سے کم 33فیصد بچے فولاد کی کمی کے باعث لاغر جسم رکھتے ہیں کیوں؟ پاکستان کے کل 131 اضلاع میں سے 80 اضلاع ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کو غذائی تحفظ حاصل نہیں‘ کیوں؟ اور چار کروڑ پاکستانی ایسے بھی ہیں جنہیں حاجت ضروریہ کے لئے بیت الخلاء میسر نہیں‘ آخر ایسا کیوں ہے؟ اِن سوالات کے جوابات پاکستان کے طرزحکمرانی اور حکمرانوں کی ترجیحات کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے لئے ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ گلبرگ‘ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ بحریہ ٹاؤن اُور اِس جیسی دیگر باسہولت رہائشی کالونیوں میں رہنے والوں کے مفادات اور سہولیات زیادہ اہم ہیں۔ 

پاکستان میں پالیسیاں بنانے والے صرف اُنہی کے خدمت گزار ہیں جن کے پاس جمخانہ‘ گالف کلبس‘ کنٹری کلبس اور اسلام آباد کلبس جیسے اداروں کی رکنیت ہے! اِس طرزحکمرانی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آمدنی کے لحاظ سے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اور آمدنی کے لحاظ ہی سے یہاں طبقات میں فرق ہر گزرے دن بڑھ رہا ہے اُور دولت (مالی وسائل) ایک خاص طبقے کے پاس مرتکز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو صورتحال مزید بگڑتی چلی جائے گی اور ایک خاص مراعات یافتہ طبقہ جو پہلے ہی فیصلہ سازی سے بنیادی طور پر مستفید ہو رہا ہے مزید حاوی ہوتا چلا جائے گا۔ اُس کا فیصلہ سازی میں کردار بڑھتا جائے گا اور یوں قومی فیصلہ سازی سے عوام کے اجتماعی مفاد کے بارے غوروخوض کم ہوتا چلا جائے گا۔ عوام اور فیصلہ سازوں (حکومت) کے درمیان اعتماد کا فقدان اور فاصلے مزید بڑھتے چلے جائیں گے جس سے نہ صرف حکومتیں عوام کی نظروں سے گر جائیں گی بلکہ جمہوریت کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ کیا اِس اَمر کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اپنے حقوق سے محرومی کو محسوس کرے اور انتہاء پسندی کی طرف مائل ہو جائے!

پاکستان میں عوامی پالیسیوں پر ایک فیصد سے کم لوگوں کا راج ہے! انہی ایک فیصد سے کم لوگوں پر مشتمل 450خاندان حکمران بن کر اپنے اور اپنے جیسے خاص طبقے کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔

جب کسی ملک کے وسائل اور فیصلہ سازی پر چند خاندان مسلط ہو جاتے ہیں تو اُس سے قومی و نجی وسائل سے استفادہ اجتماعی بہبود کے منصوبوں پر نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ’پبلک پالیسی‘ پر حاوی خاندانوں اور افراد کی وجہ سے پانچ طریقوں سے نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو غربت کی شرح بلند ترین ہے۔ دوسرا صحت کے شعبے میں غیرمعمولی حد تک کم سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ تیسرا تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری درکار شرح سے کم ہے۔ چوتھا مالی وسائل کا بڑا حصہ عوام کو بنیادی سہولیات و ضروریات کی فراہمی کی بجائے سڑکوں اور دیگر تعمیرات پر خرچ ہو رہا ہے اور پانچویں خرابی یہ ہے کہ ریاست عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں عملاً ناکام ثابت ہوئی ہے۔

پالیسی سازی میں ترجیحات کے غلط تعین سے سماجی سطح اور اقتصادی طور پر عدم مساوات پیدا ہوتا ہے۔ جن طبقات کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے تو نظام پر مسلط ہونے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور یوں اُن کا تسلط برقرار رہتا ہے جس سے اُن کی مالی حیثیت اور طاقت و اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
پاکستان میں پبلک پالیسی پر حاوی خاندانوں اور افراد کے طرز عمل کی وجہ سے سیاست ایک ترجیح جبکہ قومی اداروں کی مضبوطی و فعالیت کم ترین درجے پر چلی گئی ہے۔ کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ کوئی بھی دور ہو پچاس فیصد سے زائد عوام کے منتخب نمائندوں کا تعلق 450 خاندانوں ہی میں سے کسی نہ کسی سے ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں قومی ادارے کمزور و ناتواں ہوتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سامنے اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ مسابقتی کمیشن آف پاکستان‘ نیپرا‘ اُوگرا‘ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی‘ پیمرا اور دیگر ایسے حکومتی ادارے شام ہیں جو 99فیصد عوام کے نہیں بلکہ ایک فیصد حکمراں طبقے کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں طرزحکمرانی پر مسلط چند خاندان اور استحصال کو برقرار رکھنے والا سیاسی نظام ’قومی سلامتی‘ کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ سیاست کے اِس طرزعمل کی اصلاح ناگزیر ہے۔ اداروں کو مضبوط و فعال بنانے کے لئے حکمرانوں کو ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑے گی۔ قانون و اِنصاف کی سستی‘ فوری اُور بلاامتیاز فراہمی کو ممکن بنانے کے لئے چند افراد کے مفادات کے محافظ طرزعمل کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ صوابدیدی اختیارات کو دفن کرنا ہوگا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Wednesday, August 23, 2017

August 2017: Defeating the Dengue. a challenge!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ڈینگی: اُداسیاں مقدر کیوں!؟

پشاور کو خدا جانے کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ایک کے بعد ایک مصیبت ’پھولوں کے شہر‘ میں ڈیرے ڈال رہی ہے۔ وہ سبھی قدرتی آفات جو ماضی میں صرف دستک دے کر گزر جاتی تھیں‘ اب کے ’در‘ آئیں ہیں اُور ’ڈینگی بخار‘ نے تو محکمۂ صحت کی کارکردگی کا گویا بھانڈا ہی پھوڑ دیا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ قدرتی آفت جیسے اِمتحان کی صورت جس کسی بھی سرکاری محکمے سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کی کارکردگی سے سوائے مایوسی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ موجودہ صورتحال سے اگر سیاست کو الگ کر کے دیکھا جائے تو پنجاب حکومت کی جانب سے طبی و تکنیکی امداد کی فراہمی کی بدولت ’ڈینگی‘ سے متاثرہ مریضوں تک علاج معالجے کی سہولیات پہنچانا عملاً ممکن ہوا ہے بصورت دیگر صوبائی حکومت تو ایسی کسی وباء کی موجودگی ہی سے انکاری تھی۔ بائیس اگست کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے ڈینگی سے ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس پانچ پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ضلع پشاور میں ڈینگی کی وباء‘ علاج معالجے کی صورتحال اُور متعلقہ سرکاری اِداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے مقدمے کی سماعت کے دوران ’عدم اطمینان‘ کا اِظہار کیا۔ اگرچہ کیس کی سماعت ’24 اگست‘ تک ملتوی کر دی گئی ہے تاہم اِس بات کا امکان کم ہے کہ آئندہ چند روز میں ’ڈینگی کی وباء‘ پر قابو پا لیا جائے گا‘ جو ایک علاقے سے پھیلتے ہوئے پشاور کی کم سے کم پانچ یونین کونسلوں اور دیگر متعدد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ دس روز میں عیدالاضحیٰ کا مذہبی تہوار آنے والا ہے‘ جس کی سرکاری تعطیلات شروع ہونے سے رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ صوبائی کابینہ کے اراکین جو فی الوقت ڈینگی کے حوالے سے صورتحال کا نوٹس لئے ہوئے ہیں اور سرکاری اطلاعات پر اگر اعتبار کیا جائے تو وزیراعلیٰ کو یومیہ بنیادوں پر ’ڈینگی صورتحال سے متعلق بریفنگ‘ دی جا رہی ہے! پشاور کی تین بڑی سرکاری ہسپتالوں (حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ خیبر ٹیچنگ اُور لیڈی ریڈنگ) میں ڈینگی کے مریض زیرعلاج ہیں لیکن اِن ہسپتالوں کے وسائل پر پہلے ہی ضرورت سے زیادہ مریضوں کا بوجھ ہے۔ 

ہسپتالوں کی وارڈوں‘ راہداریوں‘ کارپارکنگ‘ گردونواح میں صفائی کی صورتحال اور بدبو (تعفن) اِن اربوں روپے بجٹ رکھنے والی ہسپتالوں کے قطعی شایان شان نہیں! ڈینگی وائرس کے کسی اِنسان سے اِنسان میں منتقلی کا عمل ایک خاص مچھر کے ذریعے مکمل ہوتا ہے لیکن جب ہم ہسپتالوں کے اندر مکھیوں اُور مچھروں کی بھرمار دیکھتے ہیں جہاں ڈینگی کے مریض بھی زیرعلاج ہیں تو ہر مچھر اور ہر مکھی سے خوف آنا ایک فطری عمل ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں پشاور کی ضلعی حکومت کے سربراہ (ناظم) کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے جنہوں نے چند اِجلاسوں کی صدارت کے دوران اپنی تشویش کا اظہار کیا جو بیماری سے متاثرہ اور ممکنہ خوف محسوس کرنے والے اہل پشاور کی تسلی و تشفی کے لئے یقیناًکافی نہیں اُور نہ ہی اُن کے عہدے (نظامت) کے شایان شان ہے۔

پشاور میں ڈینگی کی وباء پر ’عالمی اِدارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن)‘ نے بھی اپنی تشویش کا اِظہار کیا ہے۔ سری لنکا کے دورے میں ’اقوام متحدہ کے اِس ذیلی ادارے‘ کے چند اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا‘ جو بالخصوص ’ڈینگی‘ کو شکست دینے کے لئے دارالحکومت ’کولمبو‘ میں اپنا مرکزی آفس بنائے ہوئے تھے۔ یکم جنوری سے سات جولائی دوہزار سترہ تک سری لنکا میں ’ڈینگی سے متاثرہ 80ہزار 732‘ اَفراد اُور 215 اَموات ایک ایسا چیلنج ہے‘ جو حکومت اُور عالمی اِداروں کے لئے یکساں پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ’سال دوہزار دس‘ سے ڈینگی کا منظم مقابلہ کرتے ہوئے سری لنکا میں صفائی کی صورتحال بہتر بنائی گئی جس سے اِس مرض پر قابو پانا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ 

بیرونی قرضہ جات کی وجہ سے جزیرہ ’سری لنکا‘ کی معیشت پاکستان سے بھی کمزور ہے اور وہاں کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کے پاس مالی وسائل پاکستان کے مقابلے نصف سے بھی کم ہیں لیکن اُنہوں نے صفائی کی صورتحال بہتر بنانے اور ڈینگی کے بارے میں عوامی شعور میں اِضافے سے وہ اہداف حاصل کئے ہیں‘ جو دنیا کے دیگر ممالک کے لئے مثال ہیں اور جن کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ سری لنکا کے تجربات رکھنے والے ’عالمی ادارۂ صحت‘ نے پشاور میں ڈینگی کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ڈینگی وائرس پھیلنے کی وجہ گھروں کی چھتوں پر پانی ذخیرہ کرنے والی وہ ٹینکیاں بھی ہیں‘ جن میں سے اکثر کو ڈھانپا نہیں جاتا اور نہ ہی سالہا سال اُن کی صفائی کی جاتی ہے۔ گھر کی تعمیر کے وقت نصب ہونے والے پلاسٹک کے یہ ’’واٹر ٹینک‘‘ صرف رہائشی گھروں ہی میں نہیں بلکہ ورکشاپوں (کارخانوں اور صنعتوں) میں بھی عام استعمال ہو رہے ہیں۔ عالمی اِدارۂ صحت کی مذکورہ رپورٹ ’پانچ رکنی ٹیم‘ نے تحریر کیا ہے‘ جنہوں نے شہر کے مختلف حصوں بالخصوص تہکال اُور گجران محلہ کے علاقوں سے نمونے اکٹھا کئے‘ اُن کی لیبارٹری میں جانچ کی گئی جن سے حاصل ہونے والے نتائج تشویشناک ہیں۔ تہکال کے علاقے میں 23 پانی کی ٹینکیوں سے حاصل کئے گئے پانی کے نمونوں میں سے 87فیصد میں ’ڈینگی وائرس‘ کی ترسیل والے مچھروں کی اَفزائش پائی گئی۔ 

ڈینگی مچھر آلودہ پانی کی بجائے شفاف پانی میں انڈے دیتا ہے اور صاف پانی چاہے تھوڑی مقدار میں بھی کھڑا ہو‘ اُس کا استعمال کرتاہے۔ عالمی اِدارۂ صحت کے ماہرین نے پشاور کے تہکال و دیگر علاقوں میں آٹو ورکشاپوں اور لکڑی کے کارخانوں میں ایسے مقامات کی نشاندہی کی‘ جہاں پانی کھڑا تھا اور مالکان کو اِس بات کا شعور بھی نہیں تھا کہ اِس بے احتیاطی کی وجہ سے خود اُن کی اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’لیڈی ہیلتھ ورکرز (طبی عملے)‘ کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے ڈینگی سے متاثرہ علاقوں میں ہر خاص و عام بالخصوص زیرتعلیم بچوں کو ایسے محلول فراہم کئے جائیں جن کی جسم پر مالش کرنے سے مچھر قریب نہیں آتے۔ مچھردانی کا استعمال متعارف کرانا بھی اشد ضروری ہے۔ کیا یہ اَمر باعث تشویش نہیں کہ ’خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں 14 جون سے 17 اگست تک 4 ہزار 390 افراد کے خون کے نمونوں کی جانچ کی گئی‘ جن میں سے 699 افراد ڈینگی سے متاثر پائے گئے اور دوران علاج اِن میں سے پانچ کی ہلاکتیں بھی ہوئیں! ضلع پشاور ہی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی حکومتی سرپرستی میں علاج معالجے کی سہولیات کا معیار اُور مقدار بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ 

عوام میں صحت وصفائی سے متعلق اَمور کے حوالے سے آگاہی‘ شعور اُجاگر کرنے کے لئے سیاست دانوں کو اپنے اپنے ’خرابوں‘ سے برآمد ہوں۔ ذرائع ابلاغ‘ مساجد اُور تعلیمی اِداروں کے کردار سے اِستفادہ صرف ڈینگی ہی نہیں بلکہ دیگر ایسے اَمراض کے پھیلاؤ اور اِن سے بچاؤ کی مؤثر تدبیر ہو سکتی ہے۔


Monday, August 21, 2017

Aug 2017: The goal of effective policing with expensive management wouldn't work!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیسنگ: اَندھی آنکھیں!
تیس مارچ (دوہزارسترہ) کے روز وزیراعظم کے حکم سے ’صلاح الدین خان محسود‘ کو خیبرپختونخوا کا ’’پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل پولیس)‘‘ مقرر کیاگیا‘ جس کے بعد سے پولیس کی کارکردگی اور اِحتساب سے متعلق بیانات داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 

ماضی کی طرح ’انسپکٹر جنرل‘ کی آنکھوں میں سلیوٹ مار مار کر دھول جھونکنے والا چاق و چوبند ٹولہ بھی سرگرم دکھائی دیتا ہے اور پھر ایسا کون ہوگا جسے ’خوشامد‘ پسند نہ ہو!؟ صدافسوس کہ ’مؤثر پولیسنگ‘ کے حصول کے لئے ’بنیادی ذمہ داری کی بجاآوری‘ کی بجائے ثانوی‘ سطحی اور نمائشی اقدامات پر زیادہ توانائیاں اور مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں! خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں کو ’انگریزی زبان‘ میں بول چال اور پڑھنے لکھنے کی تربیت کا مقصد اگر خدمت خلق‘ فرض شناسی اُور جاں نثاری کے ساتھ‘ خوش اخلاقی کا حصول ہے تو یہ اہداف کسی ’خارجی زبان‘ کی کم یا زیادہ سمجھ بوجھ سے مشروط نہیں۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پولیس اہلکاروں کو انگریزی زبان نہیں آتی لیکن وہ معاشرے کے لئے عمومی و خصوصی طور پر اگر مفید ہیں تو اُنہوں نے ادارہ جاتی فرائض و مقاصد کو سوفیصد حکمرانوں یا ذاتی مفادات کے تابع نہیں کر رکھا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اہم شخصیات کی اردگرد حفاظتی حصار بنائے رکھنے والی ’پولیس فورس‘ کے اہلکاروں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ حکمرانوں کے غلام نہیں اور نہ ہی اُن کے ذاتی محافظ (باڈی گارڈز) ہیں بلکہ وہ ریاست کی خدمت کا عہد کئے مسلح‘ باوردی اور ایک ایسی طاقت (فورس) کا حصہ ہیں جنہیں قانون کی حکمرانی اور اِس کا رعب و دبدبے کا عملاً قیام ممکن بنانا ہے۔ عجیب صورتحال حال یہ ہے کہ معاشرے میں شریف اُسے سمجھا جاتا ہے جو پولیس سے کسی بھی قسم کا واسطہ نہ رکھتے ہوئے تھانے کچہری کے معاملات سے کوسوں دور رہیں یا پھر وہ عمائدین اور شرفاء کہلاتے ہیں جو ’پولیس فورس‘ کو اپنی لونڈی بنائے رکھیں۔


خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ’انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی)‘ ایبٹ آباد تشریف لائے اور شہری مرکز سے دور پہاڑ کی چوٹی پر تعمیر خیبرپختونخوا (کے پی) ہاؤس میں عشایئے پر عمائدین شہر کو مدعو کیا جن میں اکثریت ایسے افراد پر مشتمل تھی جو پولیس کے محکمے کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے‘ اِسے بدعنوان اور غیرفعال کرنے کی خاص مہارت رکھتے ہیں۔ مہمانوں کی فہرست میں ذرائع ابلاغ کے ہم نوالہ ہم پیالہ نمائندے بھی شامل تھے‘ جن کی پرتکلف تواضع کے لئے درجنوں اقسام کے کھانوں کی خوشبو پوری وادی میں پھیلی ہوئی تھی! ذائقے دار ٹھنڈے اور گرم مشروبات کا شمار الگ سے ممکن نہیں تھا۔ بہرحال اٹھارہ اگست بروز جمعۃ المبارک کی شب ’’جنگل میں اِس منگل‘‘ اور تاحد نظر اسراف ہی اسراف دیکھتے ہوئے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ خیبرپختونخوا کسی ایسے محکمے کی تقریب ہے‘ جو حالت جنگ میں ہونے کے باوجود بھی نہ تو خاطرخواہ افرادی وسائل رکھتی ہے اور نہ ہی جدید اسلحے سے لیس ہے۔ تھانہ جات کے پاس گشتی گاڑیاں کی مرمت اور ایندھن کے علاؤہ ٹیلی فون بلوں کی بروقت ادائیگی کے لئے اکثر پیسے نہیں ہوتے۔ ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والوں کو پورے اعزاز سے دفن کرنے کے بعد اُن کے لواحقین و پسماندگان کو گلہ رہتا ہے کہ حسب اعلانات حقوق کی کماحقہ ادائیگی نہیں کی جاتی۔ 

مدعوین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت سے زیادہ بلکہ زیادہ سے بھی زیادہ مقدار میں مرغن کھانے چن دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ شرکاء کی بڑی تعداد زندگی کی چالیس اور پچاس بہاریں دیکھنے کے بعد عمر کے اُس حصے میں داخل تھی‘ جہاں ڈاکٹر بالخصوص گھی‘ چینی‘ میٹھے اُور مرغن غذاؤں سے پرہیز تجویز کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اِس اسراف کی شکایت اپنے آپ کے علاؤہ کس سے کی جائے؟ ہر طرف مسرور و مطمئن چہرے اور اُن پر لگی ’اَندھی آنکھیں‘ تھیں! ماضی کی طرح موجودہ انسپکٹر جنرل پولیس ایسے ماتحتوں کے نرغے میں نظر آئے‘ جو اُن کی ہر مسکراہٹ پر قربان اور ہر اشارے پر تعمیل کے منتظر تھے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خصوصی عزت افزائی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تحائف کا تبادلہ ہوا۔ سروں پر پگڑیاں اور چادریں ڈالی گئیں۔ قہقہے گونجتے رہے۔ جیسے پولیس کی کارکردگی اُس حد تک ’اطمینان بخش‘ ہو چکی ہے کہ اب عام آدمی (ہم عوام) کی عزت و آبرو اور چادروچاردیواری کا تحفظ ممکن ہو چکا ہے!

اٹھارہ اگست کی رات گئے تک ’کے پی ہاؤس‘ میں ہونے والے استقبالیے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر نئے انسپکٹر جنرل کی مختلف مکاتب فکر سے تعارفی نشست‘ ضلعی حالات و واقعات کے بارے میں تبادلۂ خیال کے لئے بامقصد نشست مقصود ہوتی‘ تو اِس کا انعقاد مغرب سے عشاء کے درمیان ’ڈسٹرکٹ اسمبلی کے ٹاؤن ہال‘ میں بھی ہوسکتا تھا جو شہر کے وسطی حصے میں واقع ہے‘ جس تک پہنچنے کے لئے سرکاری و نجی وسائل سے لاکھوں روپے کا ایندھن الگ سے ضائع کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ سادگی میں بڑی حکمت ہے اور سادگی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پولیس کے پاس مالی وسائل لامحدود نہیں۔ کیا یہ مطالبہ ناجائز ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے پیسے کی ہر ایک پائی سوچ سمجھ کر اور دردمندی کے ساتھ خرچ ہونی چاہئے؟ 


انسپکٹر جنرل صاحب بہادر اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ’کالی بھیڑوں‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کرتے اور یہی وجہ تھی کہ اٹھارہ اگست کی شب اُنہوں نے ایک ایسے حیران کن ’تجرباتی اقدام‘ کا اعلان کیا‘ جو پہلے ہی ایک سے زیادہ قوانین و قواعد میں موجود ہے یعنی پولیس کی کارکردگی پر نظر عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے رکھی جائے گی۔ لطیفہ نہیں تو کیا ہے لیکن صاحب بہادر کا بیان سرآنکھوں پر کہ ’’پولیس ایکٹ 2017ء کی منظوری اور نفاذ کے بعد ممکن ہو جائے گا کہ عام آدمی (ہم عوام) پولیس کا احتساب کر سکیں گے!‘‘ جس محکمے کا احتساب خود اُس کے اپنے فیصلہ ساز نہ چاہتے ہوں‘ وہاں عام آدمی (ہم عوام) کی جرأت ہی کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز‘ ہوٹل و گیسٹ ہاؤس مالکان‘ جائیدادوں کی خریدوفروخت کے بڑے حصہ داروں اور سب سے بڑھ کر سیاسی شخصیات کے منظورنظر‘ پولیس اہلکاروں سے اُن کی مالی حیثیت کے بارے پوچھ سکیں!؟

 آئی جی پی کے لئے عشایئے میں ایک ایسے رکن قومی اسمبلی بھی موجود تھے‘ جن پر 29 دسمبر 2016ء کے روز‘ جلال بابا آڈیٹوریم ایبٹ آباد میں منظم (coordinated) حملہ ہوا جس میں پولیس‘ صحافی اور فوج کے ایک ریٹائرڈ اہلکار نے سیاسی و خاندانی مخالفت کی آڑ میں وار کیا۔ خیبرپختونخوا میں پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے نادر موقع تھا کہ وہ اختیارات و قانونی مہارت کا غلط استعمال کرنے والے کو پولیس اہلکاروں ہی کو بے نقاب کرتے‘ جن کے ناقابل تردید ثبوت بصورت ’ٹیلی فون ریکارڈ (سی ڈی آر ڈیٹا)‘ موجود تھا۔ مذکورہ حملے کی ادنیٰ و اعلیٰ سطحی تحقیقات در تحقیقات میں سات ماہ (تیس ہفتوں) سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کسی ایک بھی کردار کو تاحال سزا نہیں ہوئی یعنی احتساب نہیں ہوا۔ وہی پولیس کے اختیارات‘ سادگی‘ مستعدی کا مظاہرہ جس میں فرسودہ نظام کے ذریعے معاملہ ’دفعات کے حوالے‘ کر دیا گیا ہے۔ بھلا جس حکومت میں خود اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی کو انصاف نہ مل سکا ہو‘ وہ ’تحریک انصاف‘ کیسے ہو سکتی ہے اور اُس کی حکمرانی میں تھانہ و کچہری کلچر (نظام) سے وابستہ ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کی توقعات کیونکر پوری ہوسکتی ہیں!؟

Sunday, August 20, 2017

Aug 2017: Dengue fever surfaced in Peshawar & KP again exposing the health system & priorities!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
آفات: پیشگی تیاریاں اور سیاسی حل!
سیاست کہاں نہیں۔ بیماریاں پھوٹ پڑیں یا قدرتی آفات کا نزول ہو‘ ہمارے سیاستدانوں کو مہارت حاصل ہے کہ وہ ’پوائنٹ سکورنگ‘ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پشاور میں ڈینگی بخار کی وباء صوبائی کابینہ میں زیرغور لائی گئی۔ وزیراعلیٰ نے حسب سابق اِس مرتبہ بھی ’’فوری‘‘ اُور ’’خصوصی‘‘ اقدامات کا حکم دیا لیکن ظاہر ہے کہ جب آفات سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیاری نہیں کی گئی ہوتی تو پھر چھوٹے پیمانے پر رونما ہونے والے ہنگامی حالات سے پیدا ہونے والی بڑے افراتفری سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کی پشاور میں مقبولیت کبھی بھی کسی بلند سطح پر مستقل نہیں رہی اور اِس میں مسلسل کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ڈینگی کی وباء سے نمٹنے میں تاخیر اُور صوبائی حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے احتجاجی مظاہرے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ طرزحکمرانی اور انتخابی حلقوں کی سیاست میں توازن برقرار نہیں رکھا گیا۔ محکمۂ صحت سے عوام کی توقعات پوری نہیں ہو رہیں تو اِس حقیقت کا انکار کرنے کی بجائے اِسے تسلیم کرنا چاہئے۔ سرکاری ہسپتالوں کے معاملات مالی و انتظامی خودمختاری دینے کے بعد بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئے ہیں تو اِس حقیقت کا بھی انکار کرنے کی بجائے حقائق تسلیم کرنے چاہیئں۔ 

’اَیوب میڈیکل کمپلیکس‘ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس روز وزیراعلیٰ نے ڈینگی کی وباء سے نمٹنے کا اعلان کیا اُسی روز ’ایوب میڈیکل کمپلیکس‘ کے ’بورڈ آف گورنرز‘ کی اَزسرنو تشکیل کا حکم دیا اور کہا کہ ’’مذکورہ ہسپتال میں ہوئی بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے بارے میں ’صوبائی انسپکشن ٹیم‘ کی سفارشات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ ایوب میڈیکل کالج میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کے خلاف ڈاکٹروں ایک سال تک احتجاج کرتے رہے جس کا نوٹس لیتے ہوئے پشاور سے ایک خصوصی ٹیم ایبٹ آباد بھیجی گئی۔ ٹیم نے تحقیقات کے بعد بدعنوانی کے مرتکب کرداروں کی نشاندہی کی لیکن جب عمل درآمد کے لئے ہسپتال کے (خودمختار اِنتظامی نگرانوں) ’بورڈ آف گورنرز (بی اُو جی)‘ کو رپورٹ اِرسال کی گئی تو اُنہوں نے بجائے سزا دینے کے اپنے طور پر محکمانہ تحقیقات کروائیں اور ’صوبائی انسپکشن ٹیم‘ کے نامزد ملزمان کو معاف کردیا۔ کئی ماہ بعد یہ بات ایبٹ آباد سے پشاور پہنچی اور پھر کئی ماہ بعد وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں اِس بے قاعدگی کا نوٹس لیا گیا لیکن فوری طور پر ’بنی گالہ‘ سے مداخلت پر معاملہ ایک مرتبہ پھر سردخانے کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے! سرکاری اِداروں کی کارکردگی اُس وقت تک بہتر نہیں بنائی جا سکتی جب تک ’سزأ و جزأ کی کسوٹی‘ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ’’بلااِمتیاز اُور بے رحم اِحتساب‘‘ نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کو عوام ووٹ سرکاری اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے دیتے ہیں‘ اُنہیں ’عدم مداخلت‘ کے لئے ووٹ نہیں دیا جاتا بلکہ عوام کے مفاد میں مداخلت کے لئے ووٹ دیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت اِس اِمکان سے تو انکار نہیں کرتی کہ ’’بدعنوان عناصر ہر دفتر میں موجود ہیں‘‘ لیکن ایسے بدعنوانوں (کالی بھیڑوں) سے معاملہ کیا عوام کو خود (قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے) کرنا چاہئے؟‘

عیدالاضحی سے قبل مال مویشیوں سے اِنسانوں کو منتقل ہونے والی بیماریاں عموماً پھیل جاتی ہیں۔ اِس مرتبہ بھی ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ اِضافی مصیبت مرغیوں کو لاحق ایک بیماری کی صورت میں بھی ظاہر ہوئی ہے اور صوبائی حکومت اِن دونوں سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیار نہیں جبکہ ذمہ داری ضلعی حکومت پر اور ضلعی حکومت صوبائی حکومت پر ڈال رہی ہے۔ کوتاہی کا اِرتکاب دونوں ہی سے ہوا ہے کیونکہ دونوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے اور اگر کسی ایک سیاسی جماعت کے ضلعی ناظم کی اپنے ہم جماعتوں سے رابطے نہیں تو اِس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں انتظامی افراتفری سے آگاہ پنجاب حکومت نے اِس صورتحال کا ’سیاسی فائدہ‘ اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پہلے ٹوئٹر (twitter) پیغام اُور بعدازاں پنجاب حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کو تحریری طور پر پیشکش کی کہ ’’ڈینگی اور دیگر وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے پنجاب کی استعداد (مہارت) اور وسائل حاضر ہیں۔‘‘ نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے۔ 

حسن ظن سے کام لیتے ہوئے صوبائی حکومت وزیراعلیٰ پنجاب کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کا ذہن رکھتی ہے کیونکہ اگر اِس طرح انسانی جانیں بچائی جا سکتی ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں اب تک ڈینگی بخار سے 10 اموات ہو چکی ہیں جبکہ صوبائی حکومت پشاور میں 831 افراد مچھر کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی اِس بیماری سے متاثر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت اِس ہنگامی صورتحال میں کیا کر رہی ہے؟ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے بعد کسی بھی ضلع میں صحت کی ترجیحات کے لئے مالی وسائل بلدیاتی نمائندوں کو دیئے جاتے ہیں۔ 

’دس افراد‘ کی اموات کے بعد ڈینگی کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضلعی حکومت نے اب تک 60 لاکھ روپے جاری کئے ہیں جن میں سے 50لاکھ اٹھارہ اگست کو جاری ہوئے اور ظاہر ہے چند روز میں اِن ناکافی مالی وسائل سے ڈینگی پر سوفیصد قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ پشاور کی 92 میں سے تین یونین کونسلیں ’اَڑتیس (تختہ آباد)‘ اُنتالیس (خزانہ) اُور چالیس (ہریانہ پایان)‘ میں ڈینگی کی وباء پھیلی ہوئی ہے جبکہ مضافاتی یونین کونسل پشتہ خرہ کے رہنے والے بھی اِس بیماری کی زد میں ہیں۔ اگر صوبائی کابینہ کی ناک کے نیچے پشاور میں ہنگامی حالات میں عمومی و خصوصی بیماریوں سے متعلق حکمت عملی ’ناکافی‘ ہے تو دور دراز اَضلاع کے رہنے والوں کا اللہ حافظ ہے۔

TRANSLATION: State capture by Dr. Farrukh Saleem

State capture
قومی وسائل اُور قابضین!
سرکاری وسائل بمقابلہ نجی لالچ۔ پاکستان کے ریاستی وسائل قبضہ ہو چکے ہیں۔ 3 کروڑ خاندانوں کا مسکن ملک‘ جس پر ایک ہزار خاندانوں کی حکمرانی کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا! سوال یہ ہے کہ آخر ریاستی وسائل اور ریاستی وسائل پر اختیار کس طرح مسلط ہوتا ہے؟ طریقۂ واردات یہ ہے کہ جب حکمراں اشرافیہ اور کاروباری طبقات مل کر یا الگ الگ حیثیتوں میں قانون و قواعد سازی کو اپنے مفادات کے تابع بنا دیتے ہیں۔ جب قوانین و قواعد کے اطلاق پر اثرانداز ہوا جاتا ہے اور خاص طبقات کے لئے استثنیٰ (رعائت) رکھی جاتی ہے بالخصوص قوانین اور اقتصادی و کاروباری قواعد میں تو اِس سے کسی ملک و معاشرے میں حکمرانی بصورت ’سیاہ و سفید کی بادشاہت‘ سرمایہ داروں اور بااثر اشرافیہ تک محدود و مطلق العنان حاکم ہوتی چلی جاتی ہے۔

پاکستان کی اقتصادیات پر بھی چند ہزار خاندانوں کا قبضہ دکھائی دیتا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایک ایسے مخمصے میں الجھ گئی ہے جہاں حکمت عملیاں (پالیسیاں) وضع کرنے اور قومی ادارہ جاتی اصلاحات سرمایہ داروں اور بااثر اشرافیہ کے مفادات کی محافظ بن چکی ہے۔ اقتصادی حکمت عملی میں عوام کی بجائے خواص کا ٹولہ مستفید ہو رہا ہے۔ قومی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات ترجیح بنے ہوئے ہیں!

پاکستان کے مرکزی ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں جہاں کے تابع فرمان ملک سے زیادہ اپنا اور چند شخصیات کے مفاد کے بارے زیادہ فکرمند رہتے ہیں۔ یہی حال ’’سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘‘ کا بھی ہے۔ ’مسابقتی کمیشن (Competition Commission)‘ کے چیئرمین خالد مرزا ہیں‘ جن کے ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ’عوامی مفاد‘ کے محافظ رہیں لیکن یہاں بھی بالعموم ریاست کی بجائے حکمرانوں اور نجی اداروں کے مفادات کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔

جن قومی اداروں کو دیکھ کر اِس دکھ کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ وہ چند ہزار افراد کے خدمت گزار بنے ہوئے ہیں اُن میں ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کا اِدارہ بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)‘ کا چال چلن اور جھکاؤ بھی قومی مفادات کی بجائے نجی افراد کے حق میں زیادہ مختلف نظر نہیں آتا۔
اقتصادی امور کے ماہر ’ڈاکٹر عشرت حسین‘ نے اپنی کتاب ’(Pakistan: An Elitist Economy)‘ میں احاطہ کیا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی نظام میں اشرافیہ کے مفادات کا مجموعہ ہے جس کا مرکز عوام نہیں بلکہ نگاہ اعلیٰ و بالا ہیں! ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ جب سے اشرافیہ پاکستان کی ریاست پر مسلط ہوئی ہے اس سے قومی اداروں کی فعالیت و کارکردگی محدود ہوئی ہے جبکہ دولت اور وسائل کی غیرمساویانہ غیرمنصفانہ تقسیم ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار (بزنس) یہ دکھائی دیتا ہے کہ ’ریاستی امور پر حکمراں بن کر مسلط ہوا جائے۔‘ پاکستان کی ریاست کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ یہاں زمین ہے‘ تیل ہے۔ معدنی ذخائر سے مالا مال پہاڑی سلسلے ہیں جہاں کان کنی ہوتی ہے اور مزید کھوج ممکن ہے۔ یہاں زیرزمین قدرتی گیس کے ذخائر کھوج نکالنے کے منتظر ہیں۔ اِن سبھی وسائل کی اصل مالک3 کروڑ پاکستانی خاندان ہیں لیکن کاروبار اور سیاست نے قومی وسائل سے استفادے کو چند ہزار خاندانوں کی حد تک محدود کر رکھ دیا ہے۔
پاکستان پر چند درجن کارخانہ داروں کے گٹھ جوڑ (Cartels) کی حکمرانی ہے جنہیں میں ’مافیا‘ نہیں کہہ رہا۔ ہمارے ہاں تیل کی کمپنیوں کا گٹھ جوڑ دکھائی دیتا ہے اور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ مفادات کے لئے بنائے گئے اِن گروہوں کا آپسی تعلق ہوتا ہے وہ قوم کو تو سیاست اور رنگ و نسل‘ مذہب و اختلافات میں الجھائے رکھتے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کا محافظ بنے رہتے ہیں اور ایسا کوئی بھی کام نہیں کرتے جس سے کسی ہم عصر کاروباری کے مفادات پر ضرب لگے۔ 

تصور کیجئے کہ پاکستان کے سرمایہ دار‘ صرف قومی اداروں کی پالیسی سازی ہی پر اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ افسرشاہی کو شامل حال کر کے غیرمعیاری پیٹرولیم مصنوعات کے ذریعے سالانہ 400 ارب روپے کما رہے ہیں اور 3 کروڑ خاندانوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی طرح گاڑیاں (آٹوموبائل) کا شعبہ بھی سیاست دانوں اور افسرشاہی (بیوروکریسی) کے گٹھ جوڑ سے عوام دن دیہاڑے لوٹ رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ بھارت میں جس سوزوکی ماروتی کی قیمت 2 لاکھ 37 ہزار روپے ہے پاکستانی کرنسی میں اُس کی مساویانہ قیمت 3 لاکھ 89 ہزار روپے کیوں ہے؟ اِسی قسم کی کارکردگی سیمنٹ اور چینی بنانے کے صنعتی مالکان اور اداروں کی بھی ہے جنہیں اپنے کاروباری مفادات عزیز ہیں اور وہ بہرصورت حکومت میں اپنی نمائندگی رکھتے ہیں تاکہ کوئی ایسی قانون سازی یا قواعد سازی ممکن نہ ہوسکے جن سے اُنہیں خسارہ ہو۔

حکومتی پالیسیاں بنانے والے سیاسی‘ ذاتی اور کاروباری ترجیحات رکھتے ہیں اور ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جن سے سرمایہ دار اور بااثرافراد طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو فائدہ ہو۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ریاست اور نجی مفادات کا آپس میں تصادم ہوتا ہے اور وقت آگیا ہے کہ اِس بات پر زور دیا جائے کہ ریاست اور حکمرانی کرنے والوں کے مفادات الگ الگ ہونے چاہیءں۔ یہ بات کسی بھی صورت انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کہ ’تین کروڑ‘ پاکستانی خاندانوں کی ملکیت وسائل پر چند ہزار خاندانوں کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتی چلی جائے کیونکہ اگر اِس قسم کا استحصالی نظام جاری و ساری رہتا ہے تو اِس سے ’پاکستان کی ریاست‘ کو لاحق سنجیدہ خطرے کی شدت بڑھے گی۔

جنوبی افریقہ نے حال ہی میں ایک ’جوڈیشل کمیشن‘ بنایا تاکہ اِس بات کی تحقیقات کی جا سکیں کہ ریاستی وسائل پر قابضین کون ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ وسیع پیمانے پر ریاستی وسائل کا استعمال چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا جا رہا ہو۔ اِس تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ’تھولی میڈونسیلا (Thuli Madonsela)‘ تھے جن کے ہمراہ اُن کی ٹیم نے ایک اپنی تحقیقات سے متعلق ایک حقائق نامہ شائع کیا جس میں جنوبی افریقہ کے صدر ’زوما (Zuma)‘ اور اُن کے ریاستی وزرأ کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بیان کیا گیا کہ کس طرح جنوبی افریقہ کی پانچ کروڑ پچاس لاکھ آبادی کی ملکیت ’قومی وسائل‘ پر سیاسی فیصلہ ساز مسلط ہیں اور وہ کس طرح ’بدنیتی‘ سے قومی اداروں کو اپنے حق (مفاد) میں استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ کس طرح ریاست یعنی عوام کی ملکیت وسائل اور اثاثوں سے اجتماعی مفاد میں استفادہ کیا جائے اور اُس گٹھ جوڑ کو توڑا جائے جس سے سیاسی و کاروباری اور افسرشاہی پر مشتمل طبقات فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان میں روائتی طرز حکمرانی کو جاری و ساری رکھنے والوں کا تعلق بھی اِنہی مسلط و غاصب طبقات سے ہے جن کی کوشش ہے کہ روائتی سیاست کا سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے۔ جنوبی افریقہ کی طرز پر پاکستان کی ریاست کو بھی ایک ’جوڈیشل تحقیقاتی کمیشن‘ بنانا چاہئے جو برسرزمین معلوم حقائق اور اِس کے ذمہ داروں کا دستاویزی تعین کرے تاکہ قومی وسائل کو چند ہزار گھرانوں کی قید سے آزاد کیا جاسکے اور ریاستی وسائل اِس کے اصل مالکان یعنی کم وبیش بیس کروڑ پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے بروئے کار لائے جا سکیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, August 19, 2017

Aug 2017: Artist Iftikhar Qaiser - pleading for love!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِفتخار قیصر: اَیک میں ہر کسی کو بُھول گیا!
پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر پشاور سے ہندکو زبان کے معروف پروگرام ’دیکھدا جاندا رے‘ سے شہرت پانے والے ’افتخار قیصر‘ نے دیگر علاقائی زبانوں کے علاؤہ اُردو زبان میں بھی فن اداکاری کے جوہر دکھائے اور قومی سطح پر نامور فنکاروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے شاعری‘ گلوکاری اور سٹیج اداکاری کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ ایک ذات میں کئی فنکاروں کا مجموعہ تھا۔ بلندوبالا قدکاٹھ‘ مردانہ وجاہت‘ مثالی حافظہ‘ تاثرات طاری کر لینے کا بادشاہ اُور حد درجے ملنسار‘ مرنجاں مرنج طبیعت میں پشاور کا ہر وہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے‘ جو اِس خطے سے تعلق رکھنے والے چنیدہ خوش قسمت لوگوں کے حصے میں آیا جن میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار بھی شامل ہیں۔ افتخار قیصر کو اگر ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اُنہوں نے 45 برس ریڈیو ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے ذریعے معاشرتی‘ سماجی اور اخلاقی برائیوں کے خلاف شعور اُجاگر کیا۔ اپنی ذات مٹا دی۔ اپنی ضروریات بھلا دیں لیکن دوسروں کو محظوظ کیا۔ باتوں باتوں میں لوگوں کو سنجیدہ موضوعات پر سوچنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کی ترغیب احساس اور حوصلہ دیا۔ پشاور میں مذہبی رواداری اور جمہوریت و جمہوری قدروں کے فروغ میں اُن کا الگ نمایاں کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اِن جملہ خصوصیات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے اُنہیں ’’تمغہ حسن کارکردگی‘‘ سے بھی نوازہ گیا لیکن سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اعزازات آج ’افتخار قیصر‘ کے کسی کام نہیں آ رہے‘ جو عرصہ دراز سے مختلف بیماریوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ایک عرصے سے بسترعلالت پر ہیں۔ معیاری علاج معالجے کے لئے کافی مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر فالج کا حملہ بھی ہو چکا ہے جبکہ ذیابیطس کے باعث اُن کے نچلے دھڑ میں جان باقی نہیں رہی۔ 

افتخار قیصر کی مالی حیثیت خیبرپختونخوا کے دیگر فنکاروں اور فنون لطیفہ کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے والوں سے زیادہ مختلف نہیں لیکن اُن کی موجودہ حالت دیکھتے ہوئے اگر فوری امداد اور اندرون یا بیرون ملک انتہائی نگہداشت میں طبی امداد نہ پہنچائی گئی تو ایک سریلی آواز‘ مسکراتا چہرہ اور پشاور کی پہچان رہا ایک حوالہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا۔ افتخار قیصر کے اہل خانہ کی کفالت اور مشکل کی اِس گھڑی میں سہارا دینے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ایک سے زیادہ محکموں کو ازخود فعال ہوجانا چاہئے تھا۔ ہندکو پر دل و جان سے نثار‘ فدا اور صدقے واری ہونے والے بیرون ملک مقیم پاکستانی متوجہ ہوں۔ علمی ادبی تنظمیں جن میں مالی وسائل رکھنے والا گندھارا ہندکو بورڈ‘ گندھارا ہندکو اکیڈمی اُور پشتو اکیڈمی جیسے معروف ادارے اِس نازک موقع (مرحلے) پر افتخار قیصر کے زعم اور اُس کے اِفتخار کو بلند نہ سہی کم سے کم بحال تو کر سکتے ہیں لیکن تعجب خیز ہے کہ صرف انسان ہی زندہ دکھائی دیتے ہیں احساس نہیں۔ فنکاروں کی بہبود اُور علاج معالجے کے علاؤہ خیبرپختونخوا حکومت کا ’’انصاف صحت کارڈ‘‘ اور وفاقی حکومت کا ’’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ جیسے فعال منصوبوں کے باوجود بھی ’افتخار قیصر‘ جیسے ایک مستحق کی آنکھوں سے موسلادھار ٹپکنے والے آنسوؤں کا شمار ممکن نہیں! ’’قیدِ حیات و بندِ غم‘ اَصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔ موت سے پہلے آدمی‘ غم سے نجات پائے کیوں۔ (میرزا اسد اللہ خان غالبؔ )۔‘‘

سال 2016ء کے اوائل میں اِفتخار قیصر کو لاحق ذیابیطس (شوگر) کے مرض میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تو اُس وقت بھی ذرائع ابلاغ نے حکومت کی توجہ اِس جانب مبذول کرنے کی کوشش کی۔ وقتاً فوقتاً اُن کی صحت و مالی حالت کے بارے میں خبریں اور مضامین شائع ہوتے رہے۔ فنکار تنظیموں کی جانب سے افتخار قیصر کی صحت یابی کے لئے دعاؤں کے ساتھ اُن کی مالی و طبی امداد کے لئے مطالبات بھی دہرائے جاتے رہے لیکن کسی کان پر جوں نہیں رینگی! افتخار قیصر کی بیماری وہ شدت اختیار کر گئی ہے کہ اب وہ زندگی اور موت جیسی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ اُنہیں نظام ہضم اور معدے کی چند ایک بیماریوں کا سامنا رہا‘ لیکن معیاری علاج نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے عارضے شدت اختیار کر چکے ہیں! 

قومی وسائل اگر اِن جیسے مستحقین کے لئے مختص نہیں تو کس کے لئے ہیں؟ افتخار قیصر کی غربت‘ بیماری‘ لاچاری اور کسمپرسی دیکھ کر اُن اراکین صوبائی و قومی اسمبلیوں کی یاد آتی ہے جنہیں سرکاری خرچ پر اندرون و بیرون ملک علاج کی سہولیات میسر ہیں۔ وفاقی حکومت کے ترجمان قومی نشریاتی ادارے ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ اور ’پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن‘ کے مراعات یافتہ ملازمین اُور متعلقہ وزیروں مشیروں کے لئے تو ’فنڈز (مالی وسائل)‘ دستیاب ہوتے ہیں لیکن اِن اداروں کو مقبول بنانے اور اِن کے لئے نشری و نشریاتی مواد تخلیق کرنے والوں کے حقوق وقتی اور محدود مقرر کئے گئے ہیں۔ 

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین‘ وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک سے درخواست ہے کہ وہ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک مسکراہٹیں بکھیرنے والے خیبرپختونخوا کے افتخار ’جناب افتخار قیصر‘ سمیت اُس جملہ ٹیلنٹ کی کماحقہ سرکاری سرپرستی کرنے کے لئے قانون سازی کریں‘ جس کے ذریعے مستقل وظیفے اور بیمے (انشورنس) کا بندوبست کیا جا سکے اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو سہارا ہو کہ وہ بھی معاشرے میں مساوی و باعزت زندگی بسر کرنے کے یکساں حقدار ہیں۔ خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف سیاحت کے فروغ میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن ہزارہ ڈویژن کے جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ و بقاء پر مبنی ’سیاحت‘ کے ساتھ ’ثقافتی پالیسی‘ پر بھی نظرثانی ہونی چاہئے کیونکہ زمین کا ’’اصل حسن‘‘ تو انسان ہیں اُور بالخصوص معاشرے کے وہ حساس طبقات جو دوسروں کی نسبت زیادہ باشعور ہوتے ہیں اور اپنی زندگیاں کسی ایک مقصد کے لئے وقف کر دیتے ہیں تو اُنہیں صرف اور صرف اِعزازات سے نوازنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ’مالی طور پر سہارا‘ دینا بھی حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

1971ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر متعارف ہونے والے ’افتخار قیصر‘ کو نہ سہی کم سے کم اُس ’تمغۂ حسن کارکردگی‘ ہی کی توقیر و افتخار کو پیش نظر رکھ لیا جائے‘ جس کی اہمیت کسی انسانی جان سے زیادہ نہیں اور جس کے حاصل کرنے والے کو عملاً یہ اِحساس دلایا جائے کہ وہ ’فراموش نہیں ہوا۔‘ افتخار قیصر کی فنی خدمات اُور صلاحیتوں کا اعتراف اپنی جگہ اہم لیکن اُس کی باقی ماندہ زندگی کے ایام اِس اطمینان اور سکون سے گزرنے چاہیءں کہ پشاور‘ پشاور کے باسی اُور بالخصوص ہندکو زبان سے محبت کرنے والوں نے اُس کی ناقدری نہیں کی۔ 

’’کیوں نہ ہو ناز اِس ذہانت پر ۔۔۔ ایک میں ہر کسی کو بھول گیا: 
سب سے پُرامن واقعہ یہ ہے۔۔۔آدمی آدمی کو بھول گیا۔ (جان ایلیا۔)‘‘

18 اگست 2017ء (جمعۃ المبارک) ایبٹ آباد۔ 

Thursday, August 17, 2017

Aug 2017: Minorities talks!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ذرا سا ’گردش دوراں‘ سکوں لینے دے!
سردار سورن سنگھ کا قتل تحریک انصاف کے لئے دھچکا تھا۔ جس کے بعد سے اُن کی خیبرپختونخوا میں نشست قریب ’سولہ ماہ‘ خالی رہی اور اُن تمام ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار کم ہوتی چلی گئی‘ جو اقلیتوں کی بہبود کے بارے میں سردار سورن سنگھ نے شروع کئے تھے۔ کئی ایک منصوبوں کے لئے تو مختص مالی وسائل دیگر انتخابی حلقوں کی نذر ہوگئے۔ ہماری سیاست کا اَلمیہ یہ ہے کہ یہاں صرف اُور صرف برسراقتدار افراد کی قدرواہمیت ہوتی ہے اُور چڑھتے ’سورج کی پجاریوں‘ کا تو شمار ہی ممکن نہیں۔ خیبرپختونخوا کی تین اقلیتی نشستیں خالی ہیں اُور ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت اِن تین نشستوں سے متعلق ’ایک خاص ووٹ بینک‘ کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہی‘ جس کا منفی اَثر آئندہ عام انتخابات پر بھی پڑے گا۔ 

سردار سورن سنگھ ملنسار اُور ہنس مکھ شخصیات کے مالک تھے‘ جس کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی کی مرکزی اور صوبائی کے قریب ہوتے چلے گئے اور اِس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں 8 کروڑ روپے اقلیتی امور کے لئے مختص کروا لئے۔ صوبے کی تاریخ میں کسی ایک مالی سال کے لئے اس قدر مالی وسائل کبھی بھی اقلیتوں کو نہیں دیئے گئے اور یہ اُن کی شخصیت ہی کا کمال تھا کیونکہ اُن کے بعد مالی سال 2017-18ء میں اقلیتوں کی بہبود کے لئے 5 کروڑ روپے مختص ہوئے تھے۔ پشاور کی اقلیتوں کو اِس بات کا بہت دُکھ ہے‘ بالخصوص سکھ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی ایک تعداد سمجھتی ہے کہ اقلیتوں کے لئے مالی امداد تین کروڑ روپے کم کرکے ایک دینی مدرسے کو دے دی گئی! یہ محض اِتفاق ہو سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نے تین کروڑ روپے ایک دینی مدرسے کو دیئے لیکن یہ منفی تاثر بہرحال موجود ہے اور اِس ناانصافی کے بارے میں ’سوشل میڈیا‘ پر بھی ایک بڑی تعداد میں تبصرے اور تنقید ملتی ہے۔ سردار سورن سنگھ کے قتل سے ’شمشان گھاٹ (قبرستان)‘ کا منصوبہ اِلتوأ کا شکار ہو چکا ہے جو کوہاٹ اُور بونیر میں تعمیر ہونا تھا۔ اِسی طرح اُنہوں نے مسیحوں کے قبرستانوں کی چاردیواریوں کے بھی فنڈز مختص کئے جس پر تیزی سے عمل درآمد ایک حد پر پہنچ کر رُک چکا ہے۔ خوش قسمت تھے جنہوں نے پہلے ہی مالی سال میں منصوبے مکمل کروا لئے اور باقی ماندہ رہنے والے ترقیاتی کام ادھورے یا التوأ کا شکار ہو کر رہ گئے! سورن سنگھ نے ’’گردواڑہ جوگا شاہ (ڈبگری گارڈن پشاور)‘‘ کی تعمیرومرمت کے لئے بھی مالی وسائل مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ تاہم یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ پیربابا ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سورن سنگھ کا قتل 22 اپریل 2016ء کے روز ہوا جس کے بعد صوبائی حکومت نے 5 مئی 2016ء کو ’روی کمار‘ کو اقلیتی امور کا مشیر برائے وزیراعلیٰ مقرر کر رکھا ہے اور اب اقلیتی بہبود سے متعلق جملہ امور کے نگران ’روی کمار‘ ہیں‘ جنہیں اقلیتوں کا وہ اعتماد اور اپنائیت حاصل نہیں جیسا کہ سردار سورن سنگھ کو حاصل تھی۔ بہرحال سورن سنگھ کے قتل سے پیدا ہونے والا خلأ تاحال پُر نہیں ہو سکا ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ پہلی فرصت میں اقلیتوں کے حقوق کی ادائیگی (بہبود) پر توجہ دے اور ایک ایسے مستقل نمائندے کا انتخاب کیا جائے جسے جملہ اقلیتوں کی حمایت (تائید) حاصل ہو کیونکہ اقلتیوں میں پائی جانے والی بے چینی کسی بھی صورت نیک شگون نہیں۔ اقلیتیں ’پاکستان سے محبت‘ کے اظہار کا کوئی بھی موقع جانے نہیں دیتیں تو حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اقلیتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔ یاد رہے کہ سردار سورن سنگھ کے قتل کے بعد ’تحریک انصاف‘ کے اگلے نمائندہ ’بلدیو کمار‘ تھے تاہم وہ سردار سورن سنگھ قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام پر زیرحراست ہیں اور تیسرے درجے پر ’روی کمار‘ تھے جنہیں وزیراعلیٰ کا مشیر بنایا گیا ہے۔

چودہ اگست (پاکستان کی قیام کی 70ویں سالگرہ) کے روز پہلی مرتبہ (بڑے پیمانے پر) پشاور کی سکھ براداری نے ’یوم آزادی کی مناسبت سے موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں پر مشتمل ریلی‘ نکالی جس کے شرکاء نے شہر کے مختلف حصوں سے ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے سامنے پہنچ کر بھنگڑا‘ ڈانڈیا اُور لڈی ڈانس کے ذریعے اپنی خوشی کا اِظہار کیا۔ سبز اُور رنگ برنگی پگڑیوں میں زندہ دلان سکھ برادری اپنے بال بچوں کو ہمراہ لانا نہیں بھولی‘ جنہوں نے جشن میں بھرپور حصہ لیا۔ سکھوں کی طرح پشاور کی ہندو براداری بھی جشن آزادی میں شریک ہوئی اور گورگٹھڑی کے احاطے میں واقع ’شیومندر‘ میں رات گئے تک پاکستان کے گیت اور بھجن گونجتے رہے۔ سرپنج کاکا رام‘ چیئرمین رامیش گلو‘ چوہدری کشن لال‘ چوہدری کشور داس‘ چوہدری ثمرچند چوہان‘ گرو گورگھ ناتھ سیوک سبھا کے صدر ابدیش چوہان‘ نائب صدر شہزاد‘ جنرل سیکرٹری چیتن چوہان‘ جائنٹ سیکرٹری عامر‘ مکیش کالو اُور بنواری لال انتظامیہ کمیٹی میں پیش پیش تھے‘ جنہیں ذرائع ابلاغ کی اگرچہ خاطرخواہ توجہ نہیں ملی لیکن اُن کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ گورگٹھڑی کے احاطے میں مندر کی تعمیرومرمت اُور سہولیات میں اِضافہ کیا جائے۔

ایک عرصے بعد ’یوم آزادی‘ کا جشن ’مثالی جوش و خروش‘ سے منایا گیا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں اَمن واَمان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری ملحقہ قبائلی علاقوں میں فوجی اور اندرون و مضافاتی پشاور میں پولیس کاروائیاں (آپریشنز) ہیں لیکن پولیس کی صفوں میں ایسے عناصر (کالی بھیڑوں) کی موجودگی خارج ازامکان نہیں جو دیگر شہروں سے پشاور آ کر قبضہ مافیا کا کردار اَدا کرنے والے منظم جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار ہیں اور ایسے عناصر قریب ہر تھانے کی حدود میں پائے جاتے ہیں‘ جن کا دھندا (گھناؤنا کاروبار) پولیس تھانہ جات کی ملی بھگت کے بناء ممکن نہیں۔ پولیس کو غیرسیاسی بنانے کے دعویداروں کو چاہئے کہ ہر اعلیٰ و ادنیٰ پولیس اِہلکار کی مالی حیثیت (اثاثہ جات) کی چھان بین کرے۔ چہرے پر معصومیت اُور سینہ تان کر ’سلوٹ‘ مارنے والوں نے کس طرح اِختیارات کا ناجائز استعمال کیا اُور کس طرح پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر ’پراپرٹی ڈیلنگ‘ کے تانے بانے کسی نہ کسی پولیس اہلکار پر جا ملتے ہیں! آزادی کے ستر سال بسر ہوئے کیا یہ عرصہ ایک شعوری عمل تھا؟ آزادی اور حب الوطنی کے مفہوم ومعانی تلاش کرنے کی کبھی دانستہ کوشش بھی کی گئی؟

Sunday, August 13, 2017

TRANSLATION: Economic security by Dr. Farrukh Saleem

Economic security
اِقتصادی تحفظ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فعالیت سے داخلی و خارجہ چیلنجز (حملہ آور عوامل) سے نمٹنے کے لئے ’’قومی سلامتی (نیشنل سیکورٹی)‘‘ کی حکمت تشکیل دی جاتی ہے۔ اگر ہم ’نیشنل سیکورٹی‘ کے لفظی و اصطلاحی مفہوم کو دیکھیں تو اِس کا مطلب ہوگا ’’قوم کو لاحق خطرات سے بچانے کی حکمت عملی۔‘ اِس مرحلۂ فکر پر ’خطرات (threats)‘ کے اصطلاحی مفہوم پر بھی غور کیجئے جس کا مطالب میں شامل ہے کہ ’’کوئی ایسا فعل یا عمل (action) جس کے ذریعے دوسروں کو تکلیف‘ درد‘ زخم‘ جانی و مالی نقصانات یا دیگر ایسے اشتعال انگیز اقدامات کرنا۔‘‘ اگر ہم خطرات کے سانچے (matrix) اور اِس کی ساخت کو سمجھنا چاہیں تو کچھ یوں ہوگی کہ ’’ملکی سلامتی کو لاحق خطرات (چیلنجز) سے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر نمٹنے کی ایک ایسی حکمت عملی جس میں داخلی و خارجی محاذوں پر خطرات اور اُن کے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہو۔‘‘

موجودہ صورتحال میں پاکستان کی ساری توجہ داخلی و خارجی محاذ پر درپیش خطرات کے یہ پانچ پہلو ہیں۔ فوج‘ جوہری صلاحیت‘ دہشت گردی‘ سائبر اثاثے اور اقتصادیات لیکن اِن سب سے زیادہ عدم توجہی کا شکار (neglected) پہلو ’ملک کے اقتصادی مفادات کا تحفظ‘ ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اجتماعی بہبود کے نکتۂ نظر سے ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ جس میں ہر مالی حیثیت‘ آمدن و رہن سہن محفوظ ہوں اور مستقبل میں درپیش چینلجز کا بروقت اُور قبل اَزوقت (پیشگی) اِحساس کر لیا جائے۔ ایک عرصے سے پاکستان کی دفاعی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ترجیحات کا تعین کیا جاتا رہا ہے جن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ’اقتصادی تحفظ‘ بھی ایک اہم ضرورت ہے‘ جس پر خاطرخواہ توجہ دینی چاہئے۔
اقتصادی تحفظ کے چھ حصے ہیں۔ کمرشل‘ فنانشیل‘ توانائی‘ صنعتی‘ تکنیکی (ٹیکنیکل) اور خوراک کا تحفظ یقینی بنانا۔ پاکستان کی کمرشل سیکورٹی کی بنیاد دو امور پر ہے۔ درآمدی و برآمدی توازن اور درآمدی و برآمدی تنوع۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اقتصادی سیکورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ اُور اِن کی جس قدر شدت آج ہے‘ ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری درآمدات 52 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہوں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا جس طرح گذشتہ پانچ برس کے دوران ہماری برآمدات میں 20فیصد کمی ہوئی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہو۔

پاکستان کا ’اقتصادی تحفظ‘ دو عوامل پر منحصر ہے۔ قومی قرض اور آمدن و اخراجات میں عدم توازن کی وجہ سے مالی خسارہ (bugetary deficit)۔ تصور کیجئے کہ 1971ء میں پاکستان پر واجب الادأ قرضہ جات کا مجموعی حجم 30ارب روپے تھا جو 46 برس میں بڑھ کر ’’22 ہزار ارب روپے‘‘ ہو چکا ہے۔ مالی سال 2016-17ء کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکسوں (محصولات) سے حاصل ہونے والی پاکستان کی کل قومی آمدنی کا دو تہائی حصہ قرضہ جات پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوا۔ مشرف دور (سال 2005ء) میں ایک قانون (Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act) بنایا گیا جس کا مقصد مالی نظم و ضبط قائم کرنا تھا۔ اِس قانون کے تحت قومی آمدنی کے ساٹھ فیصد حصے سے زیادہ قرض نہیں لئے جا سکتے۔ پاکستان پر موجودہ قرضوں کا بوجھ مجموعی قومی خام آمدنی کے 75فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

بجٹ خسارہ کم کرنے کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت پیپلزپارٹی دور میں بجٹ خسارے سے اقتصادی موازنہ کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت تین اہم اور بنیادی حقائق نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کمرے میں تین ہاتھی گھس گئے ہوں اور کوئی اُن کی موجودگی کا انکار کر رہا ہو۔ پہلا ہاتھی (پہلی حقیقت) یہ ہے کہ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو کم سے کم 400 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ دوسرا ہاتھی (دوسری حقیقت): حکومت نے نجی شعبے کے 300ارب روپے دینے ہیں جو ٹیکس کی صورت جمع کئے جاتے ہیں۔ یہ دونوں ادائیگیاں بجٹ خسارے کا حصہ ہونا چاہیءں لیکن جب وفاقی وزارت خزانہ اعدادوشمار مرتب کرتی ہے تو اِن دو مدوں میں واجب الادأ ادائیگیوں کو شمار نہیں کرتی جس کا مقصد ’بجٹ خسارہ‘ کم ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔

سال 1984ء سے 2004ء کے دوران بھارت نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی‘ جس کی ناکامی کے بعد 2004ء سے 2014ء زمینی دراندازی کی بجائے دیگر محاذوں پر پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی جس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے ’’حتف IX (نصر)‘‘ نامی بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا جو جوہری بم لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کے عزائم خاک میں مل گئے لیکن دشمن کو کبھی بھی غافل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ ہتھیاروں اور دراندازی کی بجائے دیگر محاذوں کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔

چھبیس مئی دوہزار چودہ کے روز ’نریندرہ مودی‘ نے بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور تب سے اُن کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی و سلامتی کے لئے چیلنجز میں اضافہ کریں۔ ہتھیار دفاعی ضرورت ہیں لیکن اِسے یقینی بنانے کے لئے دیگر محاذوں جیسا کہ اقتصادی تحفظ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یادش بخیر 1991ء میں روس کے پاس 7 ہزار جوہری ہتھیار تھے لیکن یہ بالادستی اُسے ٹکڑے ہونے سے نہ بچا سکی اور اُس کی ریاستیں 15 ممالک (آرمینیا‘ آزربائیجان‘ بیلاروس‘ ایستونیا‘ جورجیا‘ قزقستان‘ کرغستان‘ لٹوویا‘ لیتھونیا‘ مالدیویا‘ رشیا‘ تاجکستان‘ ترکمنستان‘ یوکرئن اُور ازبکستان) میں تقسیم ہوگئیں۔ پاکستان کے ’اقتصادی تحفظ‘ کو لاحق موجودہ خطرات پہلے سے بڑھ کر ہیں لیکن قومی سلامتی میں اقتصادی تحفظ کے عنصر کو خاطرخواہ اہمیت (توجہ) حاصل نہیں! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, August 6, 2017

TRANSLATION: Alarm bells by Dr. Farrukh Saleem

Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
پانامہ پیپرز کی صورت منظرعام پر آنے والی دستاویزات کے بعد سے پورا پاکستان گزشتہ پندرہ ماہ سے حقائق کی کھوج اور سیاست میں ذاتی مفادات پر مبنی ترجیحات پر بحث کر رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’کاروبارِ حیات‘ رُک گیا ہو اور ماسوائے پانامہ پاکستان میں کچھ بھی نہ ہو رہا ہو لیکن توجہ طلب یہ امر ہے کہ جب ہم ’پانامہ کھیل‘ میں مصروف ہیں تو پس پردہ پاکستان کی اقتصادیات تیزی سے روبہ زوال ہیں! ہمارے سامنے یورپی ملک اٹلی کی مثال موجود ہے جہاں وزیراعظم کو یوں تبدیل کیا جاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی جرابوں کے جوڑے تبدیل کرتا ہے اور یہی صورتحال جاپان کے سیاسی نظام کی بھی ہے کہ وہاں حکمرانی کسی ایک خاندان یا فرد کی میراث نہیں ہے۔ اِن ممالک میں سیاسی حکمرانوں کی ’آمدورفت‘ سے ملک کی اقتصادی ترقی کا عمل متاثر نہیں ہوتا کیونکہ ادارے پالیسیوں کے تابع ہوتے ہیں اور پالیسیاں مرتب کرنے خودمختار ہونے کے ساتھ قومی اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں کی جاتی۔ سیاست دانوں کو اپنی حدود کا علم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قومی اِداروں کی مضبوطی حد درجہ ضروری ہے لیکن ہمارے (بدقسمتی سے) ہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی وزیراعظم یا سیاسی حکومت مشکل میں پھنستی ہے تو ملک کا ہر ادارہ اُس کے حق یا مخالف ہو کر اپنی بنیادی ذمہ داریاں پس پشت ڈال دیتا ہے اور اِس طرزعمل سے برآمد ہونے والا نتیجہ‘ 
پانامہ کیس کی ذیل میں ملک کی صورتحال سے واضح ہے۔

تجارتی خسارہ: پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملک کی درآمدات ’52 ارب ڈالر‘ تک جا پہنچی ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کی برآمدات اِس تیزی سے کم ہوئی ہوں جیسا کہ گذشتہ 6 سال کے دوران ہوئی ہیں! پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اقتصادی خسارہ 32 ارب ڈالر کو چھو رہا ہو! اِس قومی اقتصادی خسارے کو کم کرنے کے لئے ہمارے پاس یہی صورتیں باقی رہ گئی ہیں کہ ہم مزید قرضوں کی صورت بھیک مانگیں۔ ادھار لیں یا پھر چوری کر کے کہیں نہ کہیں سے مالی ضروریات کو پورا اور اقتصادی خسارہ کم کرنے کی تدبیر کریں۔ ذہن نشین رہے کہ ’’اقتصادی خسارہ‘‘ ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی برآمدات (باہر سے آنے والی اشیاء) اُس کی درآمدات (اُس کی پیداوار کی بیرون ملک فروخت) سے زیادہ ہو جائیں! موجودہ حالات میں پاکستان میں اشیاء و اجناس کی پیداوار کے مقابلے بیرون ملک سے اشیاء و اجناس کی درآمدات زیادہ ہو رہی ہیں۔

اقتصادی بحران کا ایک رخ ’پاکستانی روپے (کرنسی)‘ پر برقرار اور بڑھتا ہوا دباؤ بھی ہے۔ ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح پھر سے نظرثانی کی متقاضی ہے۔ کیا ہم اِس ناکام حکمت عملی سے کام لیتے رہیں گے کہ باہر سے درآمدات کرتے رہیں؟ آخر ہم کیسے 32 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم اور اِس قدر سرمائے کا بندوبست کریں گے کیونکہ درآمدات و برآمدات کے درمیان فرق کا موجودہ تناسب زیادہ عرصہ برقرار رکھنا (جھیلنا) ممکن نہیں ہوگا۔ اقتصادی بحران کی شدت میں بڑھتے ہوئے اضافے سے نمٹنے کے لئے سوچ بچار کا عمل کس کی ذمہ داری ہے اُور اِس میں اِضافہ ہماری سوچ سے زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے تو درست اقتصادی فیصلے کون کرے گا۔

بجٹ خسارہ: وزارت خزانہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی آمدن و اخراجات عدم توازن کا شکار ہے اور وفاقی بجٹ کا خسارہ 1.5(ڈیڑھ کھرب) ٹریلین روپے ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وزارت خزانہ (ایف بی آر) جائز قابل واپسی محاصل جن کی مالیت 300 ارب روپے ہے ادا نہیں کر رہی۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے ذمے بجلی پیدا کرنے والے نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے 400 ارب روپے واجب الادأ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایف بی آر چاہتا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کا پیشگی ٹیکس ادا کریں! ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قومی ادارے جیسا کہ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل اور پاکستان ریلویز خسارے میں ہیں اور ہرسال سینکڑوں ارب روپے اِن اداروں کو فعال رکھنے پر خرچ ہو رہے ہیں!

لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حکومت کھربوں روپے کے اقتصادی خسارے کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے یہ بالکل ایسی ہی کوشش ہے کہ جیسے کوئی ہاتھی کمرے میں گھس آیا ہو اور کوئی اُسے چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ پاکستان کا خسارہ مجمومی قومی آمدنی کے آٹھ فیصد کے قریب ہے لیکن حکومت اِسے چار فیصد کے قریب ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ قومی آمدنی اور قومی اخراجات زیادہ عرصہ تک برقرار رکھنا عملاً ممکن نہیں ہوگا۔

ملکی قرضہ جات: 1971ء میں (قریب 46 برس قبل) پاکستان کا قومی قرض 30 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 22 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ ہم قرض کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ گذشتہ چار برس کے دوران حکومت نے 35 ارب ڈالر مالیت کے نئے غیرملکی قرضے حاصل کئے اِن میں 17 ارب ڈالر مالیت کے نئے قرضے اِس لئے حاصل کئے گئے تاکہ پرانے قرضہ جات کی اقساط ادا کی جائیں! علاؤہ ازیں حکومت نے مقامی مالیاتی اداروں سے اضافی 3 کھرب روپے کے نئے قرضے لئے۔ وزارت خزانہ نے قومی ضروریات کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضہ جات کی اصطلاح تبدیل کرکے عوام کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے! اگر ’اقتصادی خسارہ‘ بے قابو رہتا ہے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر وفاقی بجٹ کا خسارہ بھی بڑھتا چلا گیا تو اِس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر قومی قرضے می

Friday, August 4, 2017

Aug 2017: Gulalai episode and role of media in politics framework!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحافت: سیاسی روبہ زوال اَقدار!
’تحریک اِنصاف پاکستان‘ کی مرکزی قیادت اِس بات کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے کہ اُنہوں نے ملک کو ایسے نئے ’سیاسی کلچر‘ سے روشناس کرایا‘ جس میں غریب و متوسط طبقات کی طرح ایک معقول تعداد میں سرمایہ دار اور اُن روشن خیال طبقات سے تعلق رکھنے والے گھرانے بھی ’نئے پاکستان‘ کی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنے‘ جو قبل اَزیں جلسے جلوسوں اُور بالخصوص عام انتخابات جیسی ہنگامہ آرائیوں سے الگ رہنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ تحریک انصاف ہی ہے جس نے عوامی اجتماعات میں ملی نغموں‘ پارٹی کی تعریف میں تحریر و نغمائے گئے ترانوں اور سیاسی اجتماعات کے اختتام پر قومی ترانے کا ’استعمال‘ کیا۔ اِسی طرح سیاسی پیغامات کی ترسیل و تشہیر کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل بالخصوص ’ٹوئٹر (twitter)‘ کے اِستعمال کا سہرا بھی تحریک انصاف ہی کے سر ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کے سربراہ (وزیراعلیٰ) تک ’عوام و خواص کی رسائی‘ کا ذریعہ ’شکایات سیل ویب سائٹ‘ کا مطالعہ اور خاطرخواہ نتائج حاصل نہ ہونے کے محرکات اگرچہ الگ موضوع ہے تاہم کوشش ضرور کی گئی اور طرزحکمرانی کو حتی الوسع شفاف رکھنے کے لئے بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی پر انحصار کیا گیا۔

خیبرپختونخوا حکومت کی موبائل فون اینڈرائرڈ ایپ (Phone App) بطور خاص قابل ذکر ہے جس کے ذریعے نہ صرف سالانہ ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد کی رفتار اور حکومت کی ترقیاتی ترجیحات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اِس بارے صارفین اپنی آرأ و تجاویز سے بھی صوبائی حکمرانوں کو مطلع کر سکتے ہیں لیکن چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بنیادی تصور ’ون وے‘ کیمونیکشن نہیں ہوتا‘ اِس لئے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ تحریک انصاف نے طرز حکمرانی کی اصلاح کے لئے ’اِی گورننس‘ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے وسائل پر ایک خاص حد تک بھروسہ کیا لیکن بہت سے کاموں کی تکمیل ہونا ابھی باقی ہے جیسا کہ پورے خیبرپختونخوا کے ’لینڈ ریکارڈ‘ کی کمپیوٹرائزیشن۔ ترجیحات کی درجہ بندی درست اقدام ہوتا اگر اِسے پایا تکمیل تک بھی پہنچایا جاتا۔ بہرحال بالائی ہزارہ ڈویژن کے علاقوں پر مشتمل سیاحتی علاقے ’گلیات‘ میں جنگلات و اراضی کا سروے بذریعہ ’گوگل میپ‘ کرکے نئی حد بندیاں جاری کرنا غیرمعمولی عملی کوشش ہے‘ جس پر اعتراض کی ’گنجائش‘ باقی نہیں رہی لیکن ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے ’بے حدوحساب (غیرمحتاط)‘ استفادے میں تحریک انصاف کسی بھی دوسری جماعت سے پیچھے نہیں!

تحریک ویب سائٹ اُور سوشل میڈیا سے لیکر ’اینڈرائڈ ایپ‘ تک پھیلی ہوئی ہے لیکن قواعد و ضوابط کا نام و نشان نہیں ملتا۔ جس کی جو مرضی ہے لکھ رہا ہے اور پارٹی کے دفاع میں ترجمانی سے کم درجے پر خود کو فائز نہیں سمجھتا! تحریک کا ’مرکزی میڈیا سیل‘ بھی موجود ہے لیکن ہر رہنما اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاونٹ سے بیانات داغنے کے لئے ملی آزادی سے خوب محظوظ ہو رہا ہے۔ سیاست سے اخلاقیات کے رخصت ہونے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن جس طرح عمومی و خصوصی آپسی رابطوں سے لیکر ’سوشل میڈیا‘ تک پھیلے ’مواصلاتی الیکٹرانک آلات‘ کا استعمال رازداری کے لئے ہوا ہے‘ اِس کا منفی اَثرات سیاسی اخلاقیات پر مرتب ہوئے ہیں کیونکہ حفظ مراتب کا لحاظ (پاس) نہیں رہا۔

تحریک انصاف سے چار سال تک وابستہ اور خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بننے کا اعزاز رکھنے والی ’محترمہ عائشہ گلالئی‘ کی مثال موجود ہے‘ جنہیں اور جن کے اہل خانہ کو نہ صرف تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کی حددرجہ تنقید کا سامنا ہے بلکہ اُنہیں ذرائع ابلاغ بھی اپنی ’ریٹنگ‘ اور کسی سیاسی مؤقف کی حمایت میں دل کھول کر گھسیٹ رہے ہیں! عائشہ گلالئی تو رول ماڈل ہونی چاہئے کہ ہمارے جیسے ملک میں کسی بھی خاتون کے لئے اس قسم کی بات کرنا کمزور حوصلہ رکھنے والوں کے بس کی بات نہیں ہوتی! گلالئی کا یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اور جب مناسب سمجھے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بیان کرے‘ لہٰذا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ انہوں نے پارٹی قیادت کے ہراساں کرنے پر مبنی رویئے کو کم سے کم چار سال تک برداشت کیوں کیا! دیکھنا تو یہ چاہئے کہ مبینہ طور پر زیادتی ہوئی ہے یا نہیں اور اِس کا فیصلہ کرنے کے قومی ادارے موجود ہیں۔ کردار کشی اور تنقید کا استعمال ’زیادتی پر زیادتی‘ کرنے کے مترادف اقدام ہے۔ درحقیقت الزامات عائد کرنے والی گلالئی پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیان کے حق میں ناقابل تردید ثبوت فراہم کریں۔ گلالئی پر الزام ہے کہ اُنہوں نے تحریک انصاف کے مخالفین سے پیسے لیکر چیئرمین تحریک انصاف پر ’جنسی ہراساں‘ کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں اگر اِس بیان کو درست مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے سب کچھ پیسوں کے لئے کیا ہے پھر بھی موبائل فون پیغامات کے ذریعے ’ہراساں‘ ہونے پر مبنی اُن کا اقدام غلط نہیں ہوسکتا۔

گلالئی پاکستان کی صحافت کے لئے بھی ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے۔ پانامہ کیس کی طرح نجی ٹیلی ویژن چینلز بھی ’گلالئی‘ کے معاملے پر واضح تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی اختلافات پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے تقسیم ہونے کی سمجھ تو آتی ہے لیکن کسی خاتون کے خود کو ہراساں کئے جانے کے بیان کو بھی ’سیاسی تناظر اور حالات‘ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنے والوں سے دانستہ غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ تین اگست کی صبح سینیئر صحافی و تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی سے ٹیلی فونک بات چیت میں درخواست کی گئی کہ وہ پاکستان میں ’نجی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا‘ کے کردار اُور غیرجانبداری کے اَصولوں پر مبنی صحافتی اَخلاقیات کو اُجاگر کریں‘ کیونکہ پاکستان میں جس طرح صحافت فعال بصورت ’روبہ زوال‘ ہے اِس کی واپسی ’اَزخود‘ نہیں ہوگی۔ ہر ’نیوز چینل‘ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ’اِدارتی پالیسی‘ رکھے‘ جس کا اِظہار (عکس) اُس کی ’نیوز کوریج‘ میں دکھائی دے لیکن ’بحث و مباحثوں (ٹاک شوز)‘ میں سوالات و جوالات پہلے ہی سے سوچ کر کسی خاص سیاسی جماعت کے مؤقف کو آگے بڑھانا کہاں کی صحافت‘ عدل و اِعتدال ہے۔ یہ اَمر بھی لائق توجہ ہے کہ پاکستان کے سینئر صحافیوں میں صرف ’رحیم اللہ یوسفزئی‘ ہی کے کندھوں پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی لیکن وہ ’مشعل بردار‘ کا کردار اَدا کرتے ہوئے صحافت کو کھوئی ہوئی ساکھ (عزت و وقار) ضرور واپس دلا سکتے ہیں۔

آج اگر دیگر شعبوں کے مقابلے صحافتی پیشے سے وابستہ افراد کے بارے عمومی و اکثریتی رائے قابل ذکر نہیں تو اِس کے لئے صرف اور صرف (اکلوتا) ’ذمہ دار‘ میڈیا ہاؤسیز کی ’کاروباری سوچ‘ کو قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اِس ’کارخیر‘ میں صحافیوں کی ایک تعداد بھی شامل رہی ہے‘ جنہوں نے اپنے رہن سہن اور مالی حیثیت کو راتوں رات بڑھانے کے لئے علم و محنت (تجربے) کی بجائے ’شارٹ کٹ‘ اِختیار کیا۔ اِدارے کے لئے اشتہارات اکٹھا کرنے سے ’ائرٹائم‘ کی فروخت تک کو ممکن بنانے والوں نے صحافت سے زیادہ اداروں کے مفادات کو پیش نظر رکھا اور پھر توازن برقرار نہ رکھ پائے تو نتیجہ سب کے سامنے ہے لیکن اگر اِن روئیوں اُور کاروباری طریقۂ کار کی اِس مرحلے پر اِصلاح نہ کی گئی تو موجودہ اُور آنے والی نسل (روائتی عمومی اَندھی تقلید میں) اِسی ’کاروباری طرز عمل‘ کو صحافت سمجھ کر اِختیار کرتی چلی جائے گی! پاکستان میں ’صحافت برائے صحافت تحریک‘ کے لئے جہاں نظریں متعلقہ تعلیمی اِداروں کی طرف اُٹھتی ہیں‘ وہیں ہر سینئر کو اَپنا ’رہنما کردار‘ اَدا کرنے کے لئے ’دامے درہمے سخنے‘ کوشش کرنا ہوگی کیونکہ ’’برائی کے خلاف دل میں کراہت محسوس کرنے کا شمار بھی ’ایمان کے کم ترین درجے‘ میں کیا جاتا ہے۔

‘‘ صحافت کی واپسی اُور صحافت کی طرف واپسی‘ کے لئے ماضی کی طرح ’بے لوث کوششیں‘ درکار ہیں‘ جس طرح آمرانہ اَدوار میں ’آزادئ اظہار‘ کے لئے قربانیاں دے کر ’خودمختار و آزاد پریس کلبس اُور یونین آف جرنلسٹس‘ حاصل کئے گئے‘ والعصر متقاضی ہے کہ صحافت کو غیرسیاسی (depoliticize) کیا جائے اُور مزید بحث اُور تنازعہ میں اُلجھنے کی بجائے عالمی طور پر مسلمہ (رائج) صحافتی اَخلاقیات و اَقدار کے اَصولوں کو رائج یا کم سے کم انہیں ’لائق مطالعہ و عمل بنا کر‘ متعارف کیا جائے۔ صحافت کے مستقبل کے لئے فکرمند ’’صائب الرائے سینئرز‘‘ چونکہ میڈیا ہاؤسیز کے مالکان تک براہ راست رسائی اور تجربے کی بنیاد پر اپنی بات میں وزن رکھتے ہیں‘ اِس لئے صحافتی نشاۃ ثانیہ‘ اِس کی غیرجانبداری اُور فعالیت کی بحالی میں‘ اُن سے رہنما (کلیدی) کردار اَدا کرنے کی توقع (التجا) ہے۔


Thursday, August 3, 2017

Aug 2017: PM Election - a view from the Gallery!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی اسمبلی: نعرے اُور نظارے!
آئین پاکستان میں ’عبوری وزیراعظم‘ کے نام سے کسی ’عہدے‘ کا ذکر نہیں ملتا۔ قومی اسمبلی کے ایوان سے کثرت رائے کی بنیاد پر منتخب ہونے کی شرط کے ساتھ کوئی بھی رکن (ایم این اے) وزیراعظم بن سکتا ہے لیکن وہ ’عبوری‘ نہیں ہوگا۔ اِس اصطلاحی و آئینی وضاحت کی ضرورت اِس لئے بھی پیش آئی کیونکہ ’یکم اگست‘ کے روز قومی اسمبلی میں مہمانوں کی گیلری میں بُراجمان اور اکثر نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے نمائندے موبائل فونز پر چیخ چیخ کر ’عبوری‘ کا لاحقہ متواتر استعمال کر رہے تھے۔ 

چیخنے کی ضرورت اِس لئے پیش آ رہی تھی کہ قومی اسمبلی ایوان کے شایان شان خاموشی اور سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آ رہی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب جب کبھی بھی ہوتا ہے تو اکثریتی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے انتخابی حلقے اور سیاسی جماعت کے سرگرم کارکنوں کی بڑی تعداد اِس موقع پر مدعو ہوتی ہے اور انہیں قومی اسمبلی میں داخلے کے خصوصی اجازت نامے (پاسیز) جاری کئے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں داخلے کا اجازت نامہ کسی عام پاکستانی کے لئے حاصل کرنا ’ناممکن‘ حد تک دشوار ہے اور اِس بارے میں رہنمائی بھی دستیاب نہیں۔ اصولی طور پر ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی ووٹرز لسٹ (ووٹ دینے کے اہل افراد کی فہرست) میں جس کسی کا بھی نام درج ہو‘ وہ اہل ہونا چاہئے کہ جب چاہے قومی اسمبلی یا اِس کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا بطور مہمان مشاہدہ و مطالعہ کر سکے اور جان سکے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا ہے۔ 

بھارت میں قومی اُور ریاستی صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں کی براہ راست نشریات کے لئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینلز فعال ہیں جو ’دور درشن (ڈی ڈی فری ڈش)‘ کی ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ کے ذریعے ’93.5 ڈگری‘ مشرق کی سمت صرف پانچ سو روپے مالیت کے اضافی ’2 فٹ‘ ڈش اِنٹینا کی مدد سے موصول کئے جا سکتے ہیں۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھا جاتا اُور عمومی تصور بھی یہی ہے کہ منتخب نمائندوں کے اِحتساب کا واحد ذریعہ صرف ’عام انتخابات‘ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ موجودہ قومی اسمبلی سے قبل اراکین اسمبلی کی حاضری ’خفیہ‘ رکھی جاتی تھی لیکن اب اِسے مختلف ویب سائٹس پر باقاعدگی سے جاری کیا جاتا ہے۔

یکم اگست کو موجودہ قومی اسمبلی کا ’44واں یک نکاتی اِجلاس‘ طلب کیا گیا ہے‘ جس کا کل دورانیہ تین گھنٹے تیس منٹ رہا۔ جب پاکستان کے وزیراعظم کا انتخاب ہونا تھا اور پوری دنیا کی نظریں ہماری قومی اسمبلی پر لگی ہوئی تھیں‘ تب طلب کردہ اجلاس سہ پہر تین بجے کی بجائے اکیاون منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ ہمارے منتخب نمائندوں نے قوم کو وقت کی پابندی کا کیا اچھا درس دیا۔ واہ واہ۔ ملک کے 28ویں وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر جب اِجلاس شروع ہوا‘ تو ’257 اراکین‘ قومی اسمبلی (75فیصد) موجود تھے لیکن اِختتام کے وقت اِن کی تعداد کم ہوکر صرف ’27فیصد (94 اراکین)‘ رہ گئی تھی یعنی اَراکین قومی اسمبلی نہ تو بروقت حاضری یقینی بناتے ہیں اور نہ ہی اجلاس کے اختتام تک ایوان میں موجود رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اِس پر بھی ’واہ واہ‘ تو بنتی ہے! قومی اسمبلی کی پرہجوم گیلری سے نظارے اور قومی اسمبلی اجلاس میں شریک اراکین کے نعرے بیان تھے کہ ’یکم اگست‘ کا دن سیاسی وابستگیوں کے اظہار کا موقع سمجھا گیا۔ 

انتخاب ملک کے وزیراعظم کا ہو رہا تھا اور ’’زندہ باد و مردہ باد‘‘ کے نعروں کی گونج میں ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اشارے کئے جا رہے تھے! خواتین اراکین اسمبلی اپنے ساتھ ’نواز شریف‘ کی تصاویر لے آئیں تھیں‘ جنہوں نے یہاں وہاں آویزاں کر دیا گیا۔ جن صحافیوں کو ماضی میں وزیراعظم کے انتخاب کا نظارہ کرنے کا شرف مل چکا ہے اُن کے لئے ’یکم اگست‘ اِس لئے مختلف تھا کہ اِس مرتبہ ’وزیٹرز گیلری‘ سے اراکین اسمبلی پر نعروں اور غیراخلاقی زبان میں ’باآواز بلند‘ تنقید کی بارش کی گئی! ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ مہمانوں نے اس قدر شور شرابا کیا ہو۔ اِسی طرح یہ بھی کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں میں حزب اختلاف سے زیادہ حزب اقتدار والے پیش پیش ہوں۔ خود اسپیکر کو ایک مرحلے پر کہنا پڑا کہ اگر وزیراعظم کے اُمیدوار شیخ رشید کی تقریر کے دوران ہنگامہ ختم نہ کیا گیا تو انہیں ڈیوٹی پر موجود محافظوں کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی لیکن ایسا عملاً کیا نہیں گیا۔ 

صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی شورشرابا کرنے والوں کی حمایت کر رہے ہیں بصورت دیگر وہ اجلاس کی کاروائی روک کر ’وزیٹرز گیلری‘ خالی کرنے کا حکم دے سکتے تھے جہاں سے ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تھا! وزیراعظم کے انتخاب کا خصوصی موقع ہو یا عمومی اجلاس ماسوائے ’پی ٹی وی‘ اور اسمبلی ملازمین ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’فلور آف دی ہاؤس‘ جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور جملہ ذرائع ابلاغ کو ’پاکستان ٹیلی ویژن‘ کی نشریات یا پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والی نشریات و تصاویر پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ’پی ٹی وی‘ نے وزیراعظم کے کسی اُمیدوار کی تقریر نشر کرنے سے روک لی ہو۔ شاہد خاقان عباسی کے بعد ’نوید قمر‘ نے ایوان کا شکریہ اَدا کیا بطور وزیراعظم اگرچہ شاہد خاقان کی تقریر کا معیار بلند نہیں تھا لیکن چونکہ (منطقی ضرورت تھی کہ) اُنہیں اور دیگر اراکین اسمبلی کو ’نواز شریف سے اپنی سیاسی وابستگی اُور وفاداری‘ کا زبانی و عملی مظاہرہ کرنا تھا اِس لئے وہ ہر حد سے گزرتے چلے گئے لیکن اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں تھا کہ دوسروں سے ’فلور آف دی ہاؤس خطاب‘ کا حق چھین لیا جاتا۔ قوم دیکھ رہی تھی کہ شیخ رشید احمد کا خطاب جاری ہے اور وہ ابھی تمہید سے آگے ہی بڑھے تھے کہ ’پی ٹی وی‘ نے پہلے اُن کا مائیکروفون (صوتی نشریات) بند کی اور بعد میں ٹرانسمیشن ہی ختم کر دی گئی! 

شیخ رشید احمد کے بیان کردہ یہ حقائق اور اعتراضات درست ہیں کہ ’’پاکستان ٹیلی ویژن‘ قومی اِدارہ ہے جس کے اَخراجات پوری قوم بجلی کے ماہانہ بلوں میں ’لائسینس فیس‘ کی صورت برداشت کرتی ہے لیکن جس طرح یہ ’قومی اِدارہ‘ صرف اُور صرف ’حکمراں جماعت‘ کا ترجمان بنا ہوا ہے‘ وہ قطعی طور پر اَصولی طرزعمل نہیں۔ قومی اسمبلی پاکستان کا نمائندہ اِدارہ ہے۔ وزیراعظم کسی ایک سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے مفادات کے محافظ ہیں۔ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو اور پی آئی ڈی‘ بھی پاکستان کے مؤقف اُور اِداروں کے ترجمان ہیں لیکن کیا ایسا عملی طور پر ہوتا بھی ہے؟

Wednesday, August 2, 2017

Aug 2017: The solo flight of PTI might hurt its struggle of Naya Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عظیم مقصد: سیاسی تنہائی!
سپرئم کورٹ اگر کمال مہربانی کا مظاہرہ نہ کرتی تو ’پانامہ کیس‘ کا فیصلہ‘ زیادہ سخت بھی ہوسکتا تھا کیونکہ عدالت کے سامنے صرف ’صداقت و امانت‘ ہی کے تحت نہیں بلکہ بیرون ملک اثاثوں کی ملکیت‘ آمدن کے ذرائع‘ ظاہری وپوشیدہ جائیدادوں کی خریداری کے لئے مشکوک مالی وسائل اُور اُن اِن وسائل کی بیرون ملک نامعلوم طریقوں سے منتقلی جیسے چند ناقابل تردید حقائق موجود تھے۔ عدالت کے مسلسل استفسار (اصرار) کے باوجود بھی شریف خاندان تسلی بخش ثبوت اور مطلوبہ دستاویزات فراہم نہیں کرسکا تو اب ’نوازلیگ‘ کی جانب سے سپرئم کورٹ کا فیصلہ عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سپرئم کورٹ سے ’نواز شریف کی نااہلی سے متعلق فیصلے پر نظرثانی‘ کرنے پر مشاورت اُور ذرائع ابلاغ میں بحث و مباحثے جاری ہیں۔ پانامہ پیپرز کی صورت بیرون ملک (آف شور) کمپنیوں کی ملکیت کے ثبوت ظاہر ہوئے۔ شریف خاندان سے جب مذکورہ بیرون ملک جائیداد کی ملکیت کے بارے سوال کیا گیا تو ملکیت تسلیم کرنے کے باوجود وہ دستاویزی ثبوتوں کی تصدیق یا تردید نہ کر سکے اُور جس سرمائے سے یہ اثاثے خریدے گئے‘ اُن کی حقیقت اور خریداری میں استعمال ہونے والے سرمائے یا مالی وسائل کی منتقلی (منی ٹرائل) سے متعلق بھی مطلوبہ دستاویزات پیش نہ کرسکے۔ 

سپرئم کورٹ اور چھ رکنی ’تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کے سامنے ’نواز لیگ‘ کے بیانات ’عدالتی ریکارڈ‘ کا حصہ ہیں اور خفیہ بھی نہیں جنہیں کوئی بھی حاصل کرکے مطالعہ کر سکتا ہے۔ نواز لیگ کی قیادت نے عدالت کے روبرو جو کچھ پیش کیا‘ اُن میں عرب ملک قطر کے شہزادے کی جانب سے فراہم کئے گئے مالی وسائل کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اِن قطری خطوط کے اصل (درست) ہونے کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔

نواز شریف کا دفاع کرتے ہوئے ’پانامہ کیس فیصلے‘ پر جو ’عمومی اعتراض‘ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ’’نوازشریف نے جو تنخواہ وصول نہیں کی گئی اُس کی اُنہیں سزا کیوں دی گئی ہے؟‘‘ جبکہ عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی شخص کی کسی اِدارے کے ذمے ’واجب الادأ تنخواہ‘ بھی اُس کی آمدنی (اثاثہ) ہوتی ہے۔ تین ضمنی سوالات یہ ہیں کہ 1: نوازشریف نے متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی خریداری‘ کاروبار اور بینک اکاونٹ رکھنے کے لئے ’اَقامہ‘ کیوں حاصل کیا؟ 2: اپنے ہی بیٹے کی کمپنی میں انہیں ملازمت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اُور 3: اِس ملازمت کے عوض جو مخصوص رقم باقاعدگی کے ساتھ ہر ماہ اُن کے ذاتی ’بینک اکاونٹ‘ میں جمع ہوتی رہی‘ کیا اُس بینک اکاونٹ کی تفصیلات انہوں نے عدالت کے طلب کرنے کیوں پیش نہیں کیں؟ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کی اکثریت کسی دوسرے ملک بالخصوص روزگار اور کاروبار کے لئے موافق ممالک کے ویزے حاصل کرنے کے اِکا دُکا جھوٹی دستاویزات سے کام لیتی ہے لیکن کسی ملک کے ’ویزے‘ اُور عرب ممالک کے ’اقامے‘ میں فرق یہ ہے کہ اقامہ رکھنے والے کو رہائش و کاروبار کرنے کی وہی سہولیات میسر ہوتی ہیں جو اُس ملک کے دیگر باشندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ وزیراعظم کے ’اقامہ‘ میں درج اُن کا عہدہ بھی ایک ایسا قابل گرفت جرم (جھوٹ) ہے‘ جس کا عدالت کے روبرو اُن کے وکلاء دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں! لیکن اِس سچ کو بیان نہیں کیا جاتا۔

سپرئم کورٹ کے صادر کردہ ’پانامہ کیس فیصلے‘ سے ملک کی ایک بڑی سیاسی اور قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کی ’تاحیات نااہلی‘ نہ ہوتی اگر پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اِداروں اُور بالخصوص احتساب کا اِدارہ کماحقہ فعال ہوتا۔ اِداروں کی کمزوری سے صرف کسی ایک سیاسی خاندان ہی نے نہیں بلکہ بہت سے دوسرے موقع پرستوں نے بھی فائدہ اُٹھایا ہے۔ شریف خاندان پاکستان کا ایسا پہلا حکمراں خاندان ہے جو سیاست میں آیا اور تیس برس سے زائد اُس عوام کے حقوق کا محافظ بنا ہوا ہے جن کی 60فیصد سے زیادہ تعداد ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے! قومی وسائل ذاتی اثاثوں میں تبدیل نہ ہوں اِس کے لئے قومی اِداروں کو مضبوط بنائے بغیر بذریعہ سپرئم کورٹ ’حالت حال‘ درست نہیں ہو گی۔ جملہ قومی اداروں کو بااختیار و خودمختار بنانا ہوگا۔ کیا کسی جمہوری ملک میں سپرئم کورٹ ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مالی و انتظامی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں سمیت ہر معاملے کو درست کرے؟ کیا پاکستان میں قومی اداروں کو داخلی اصلاحات کی ضرورت نہیں؟ کیا اِداروں کو اپنے بارے تاثر تبدیل نہیں کرنا کہ وہ حکمرانوں کے نہیں بلکہ ملک کے ملازم اور قومی مفادات کے محافظ ہیں؟ اداروں کے لئے سربراہوں کی تعیناتی کا عمل اگر سیاسی مقاصد کے تابع اور محدود ہو چکاہے‘ تو اِس سلسلے میں بھی اصلاحات ہی اُس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے‘ جو بحرانی شکل اختیار کر چکا ہے۔

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد ’پاکستان تحریک انصاف‘ ایسی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے جو تنظیمی طور پر مثالی نظم و ضبط نہیں رکھتی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پارٹی کی مرکزی پالیسیاں مرتب کرنے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی پر مبنی ’جمہوری طرزعمل‘ کا فقدان عام ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دیگر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کئے بناء ’بیٹھے بیٹھائے‘ شیخ رشید کا نام ’وزارت عظمیٰ کے لئے بطور اُمیدوار‘ نامزد نہ کر دیا جاتا اُور یہ اعلان خود شیخ رشید کے لئے بھی باعث حیرت نہ ہوتا جنہوں نے اظہار تشکر کے طور پر کہا کہ ’’عمران خان نے مجھے خرید لیا ہے‘‘ لیکن کس قیمت پر؟ پس منظر یہ ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کی صورت آئینی محاذ پر تین سیاسی جماعتوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ سراج الحق (چھبیس اگست اُنیس سو اکتالیس سے فعال جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ سربراہ)‘ شیخ رشید (جون دوہزار آٹھ سے عوامی مسلم لیگ کے بانی) اُور عمران خان (پچیس اپریل اُنیس سو چھیانوے کو قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کے منتخب چیئرمین) نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ’دامے درہمے سخنے‘ جدوجہد کی لیکن اِن تینوں میں ’شیخ رشید‘ ہی سب سے زیادہ فعال دکھائی رہے اور اُن کی چٹخارے دار تبصروں نے نہ صرف ملک کے سیاسی ماحول کو گرمائے رکھا بلکہ ایک سال سے زائد چلنے والے مقدمے کو عوام کے ذہنوں میں زندہ بھی رکھا‘ وگرنہ تو ایک وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر ’آن دی ریکارڈ‘ کہا تھا کہ ’’قوم ’پانامہ‘ جلد بھول جائے گی۔‘ اور شیخ رشید نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ 

پانامہ مقدمے کے اہم فریق سراج الحق چونکہ قانون ساز اِیوان بالا (سینیٹ) کے رُکن ہیں اور وہ وزیراعظم کا اِنتخاب لڑنے کے لئے اہل نہیں‘ اِس لئے پی ٹی آئی کی جانب سے ’شیخ رشید‘ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ ’اعزاز‘ زیادہ باوقار اُور شیخ رشید کے لئے زیادہ باعث افتخار ہوسکتا تھا‘ اگر اِس میں حزب اختلاف کی جملہ سیاسی جماعتیں شریک ہوتیں۔ کہیں ’سولو فلائٹ‘ کی خواہش ’تحریک انصاف‘ کو لے ڈوبنے کا سبب ہی نہ بن جائے؟

Tuesday, August 1, 2017

July 2017: The uncertainty after the Panama Verdict.

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام

بے یقینی سے یقین کا سفر!

اب کیا ہوگا؟ 
عبوری وزیراعظم کے لئے نامزد امیدوار کا نام نامی اسم گرامی بھی اُس فہرست میں شامل ہے جس میں ’دوسوبیس ارب روپے جیسی خطیر ’مالی بدانتظامی‘ کی ہوئی اور یہ معاملہ سال دوہزار پندرہ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے زیرغور ہے بطور وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے قطر سے’’لیکویفائڈ نیچرل گیس (ایل این جی)‘‘ درآمد کرنے کا معاہدہ کیا اور وہ اِس معاملے میں ’مرکزی ملزم‘ ہیں! جبکہ دیگر ملزمان میں سابق سیکریٹری پٹرولیم عابد سعید‘ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) کے مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) مبین صولت‘ نجی کمپنی اینگرو کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر عمران الحق اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر ظہیر احمد صدیقی شامل ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر زیرگردش نیب دستاویزات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سال دوہزار تیرہ کے دوران ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا معاہدہ ’اینگرو‘ کی ذیلی کمپنی ‘ایلینجی ٹرمینل‘ کو دیا گیا تھا اور یہ معاہدہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے ضوابط اور متعلقہ قوانین کے خلاف تھا۔ اس معاہدے کے خلاف ’نیب‘ نے ’اُنتیس جون دوہزارپندرہ‘ کو کیس رجسٹر کیا‘ جس کی تحقیقات تاحال جاری ہیں‘ جو چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ ان کی متعارف کروائی گئی حکمت عملی کے تحت شکایت کی تصدیق‘ انکوائری اور ریفرنس دائر ہونے کا عمل ’دس ماہ‘ میں مکمل ہوجاتا ہے۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف دیگر کئی مقدمات کی طرح نیب اس کیس کو بھی نظرانداز کرچکی ہے۔ یہ مقدمہ ماہر توانائی اور پلاننگ کمیشن کے سابق رکن شاہد ستار و دیگر کی شکایت پر درج کیا گیا تھا‘ جس میں شاہد خاقان عباسی پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے پندرہ سال میں قومی خزانے کو دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ نیب دستاویزات میں یہ بھی تحریر ہے کہ ’ایل این جی‘ معاہدے کے حوالے سے جاری اس کیس کے تمام ملزمان کے نام ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)‘ میں ڈالنے کی تجویز دی جاچکی ہے جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک انصاف کی ہم آواز ہو کر جب یہ کہتی ہیں کہ قومی اداروں کو کمزور کیا گیا تو ایسی مثالوں سے بات کا ’سیاق و سباق‘ سمجھ میں آ جاتا ہے۔


حزب اختلاف کی جماعتیں ’نواز لیگ‘ پر سیاسی و آئینی دباؤ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ حکمت عملی یہی ہے کہ مزید مقدمات درج کئے جائیں۔ ’نیب‘ کے تحت درج ہونے والے نئے اور ماضی کے مقدمات سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ عدالتیں اِس وقت مرکز نگاہ بنی ہوئی ہیں۔ نواز لیگ کے لئے شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کرنے کے پیچھے کارفرما محرک یہ ہوگا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں واپسی اور نوازلیگ کو بچایا جا سکے۔ حکمت عملی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ’پانامہ کیس‘ کے فیصلے پر شکوک و شبہات اُٹھائے جائیں اور اِسے عوام کی نظروں میں مشکوک بنا دیا جائے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جب پرویز مشرف نے ملک سے باہر جانے کے بعد راحیل شریف اور عدالتوں کا شکریہ ادا کیا اور انٹرویو میں کہا کہ ’’پاکستان میں عدالت جھکاؤ رکھتی ہے۔‘‘ پرویز مشرف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے نواز لیگ کا مؤقف ہے کہ فوج پانامہ کیس کے فیصلے پیچھے ہے لیکن ماضی میں فوج کے ادارے اور آج کی عسکری قیادت کو ایک عینک لگا کر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ عدلیہ پر اندھا اعتماد کرنے نواز لیگ کے منہ سے پشیمانی کے الفاظ سن کر حیرانی سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ سیاسی مفادات کے لئے قومی اداروں کی ساکھ کو خاطر میں نہیں لایا جاتا!


پانامہ کیس کے فیصلے کو ’عدالتی بغاوت‘ قرار دینے والے اگر اپنے ہی ماضی کو دیکھیں تو خاموشی اختیار کر لیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار وہی ’محترم‘ ہیں جو ماضی میں نواز شریف کے لئے بااعتماد وکالت کرنے کا شرف رکھتے ہیں اور جب (31دسمبر2016ء) ثاقب نثار 25ویں چیف جسٹس بنے تو تحریک انصاف کے چند وکلاء (جن کے کسی سبب عدلیہ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے) اُنہوں نے عمران خان کو اُکسایا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کی مخالفت کریں لیکن وہ باتوں میں نہ آئے اور درحقیقت بال بال بچ گئے۔ نواز لیگ کو چاہئے کہ شہباز شریف کو اگر وزارت عظمی کا اُمیدوار بنا دیا گیا ہے تو اب اُن کے لئے داخلی اور خارجی محاذ پر مشکلات کھڑی نہ کریں۔ ایسے بیانات تو ہرگز ہرگز نہ دیں جس سے اداروں یا اُن کے فیصلوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہو کیونکہ اداروں سے محاذ آرائی کی سیاست کسی کے لئے مفید نہیں ہوگی۔ نواز شریف کو چاہئے کہ باقی ماندہ پارٹی کو ناعاقبت اندیش ساتھیوں کے ’شر سے محفوظ‘ رکھیں اور جملہ پارٹی رہنماؤں کو اِس بات کا پابند بنائیں کہ صرف اُس وقت لب کشائی کریں جبکہ اُن کے الفاظ خاموشی سے بہتر ہوں اور یہ بھی لازم بنائیں کہ پارٹی رہنماؤں کو پریس کانفرنس کی صورت مؤقف کی پیشگی اجازت لینا ہوگی۔



پانامہ کیس فیصلہ آنے سے پہلے اور بعد میں پاک فوج کا ادارہ خود کو سیاست سے الگ رکھے ہوئے ہے۔ آخری کور کمانڈر میٹنگ میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ عدلیہ کی بہرحال و بہرصورت حمایت کی جائے گی۔ پانامہ کیس کے فیصلے پر سازش کا الزام تو عائد کیا جاتا ہے لیکن اِس کے ثبوت نہیں دیئے جاتے۔ اگر چھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) سازش تھی تو یہ فیصلہ سپرئم کورٹ کا تھا۔ 

آئی ایس آئی اور ایم آئی کی شمولیت پر فوج کے کچھ حلقوں نے تحفظات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے حق پر آیا تو بھی فوج مشکل میں ہوگی لیکن جب بعدازاں انہیں بتایا گیا کہ سپرئم کورٹ فیصلے کے سامنے شرکت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہا تو پاک فوج کے سربراہ کی منظوری سے ’ڈان لیکس‘ معاملے کی تحقیقات کرنے اُور مریم نواز کو بے گناہ قرار دینے والے دو افسروں کو منتخب کیا گیا۔ اگر کسی کو ’جے آئی ٹی‘ پر اعتراض ہے تو وہ سوچ لے کہ ہر انگلی اور ہر لفظ کا نشانہ سپرئم کورٹ ہو گی جو پہلے ہی حد سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے! سپرئم کورٹ بشمول ’جے آئی ٹی‘ جس طرح ایک امتحان میں پوری اُتری ہے اسی طرح اب احتساب عدالتوں اور ’نیب‘ کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ 

احتساب اہم لیکن احتساب پر سمجھوتہ نہ کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ خود فریبی کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔ اقوام کے لئے افراد کبھی بھی ناگزیر نہیں ہوتے۔ اگر کوئی مالی معاملات میں ’امانت و دیانت کے اَصولوں (کم سے کم آئینی تقاضوں)‘ پر پورا نہیں اُترتا‘ تو ایسے کردار یا کرداروں کو کس طرح قومی فیصلہ سازی اور دیگر اَہم بشمول مالی ذمہ داریاں سونپ کر اِطمینان حاصل کیا جاسکتا ہے کہ وہ قوم کی توقعات پر پورا اُتریں گے؟