Policy capture
خواص بمقابلہ اجتماعی مفادات!
پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد سے کم حصہ ڈیفینس‘ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ گلبرگ‘ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ جیسی بیش قیمت کالونیوں (ہاؤسنگ سوسائٹیز) میں رہتا ہے۔ اِسی طرح ایک فیصد سے کم پاکستان کی آبادی جمخانہ‘ گالف کلبوں‘ کنٹری کلبوں اور اسلام آباد کلب کی رکنیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرز کی مجموعی تعداد ’1 ہزار 174‘ ہے جن میں سے قریب پچاس فیصد کا تعلق 450 خاندانوں سے ہیں اور یہ خاندان ہر دور میں کسی نہ کسی صورت حکومت میں رہتے ہیں۔
حقائق: 84 فیصد پاکستانی کو ملنے والا پینے کا پانی صاف نہیں ہوتا اور ملک کی اس قدر بڑی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے! کیوں؟ پاکستان کے 55فیصد بچے خون کی کمی سے لاحق ہونے والے امراض کا شکار ہیں‘ کیوں؟ 44فیصد پاکستانی بچوں کی نشوونما اُن کی عمروں کے مطابق نہیں ہو رہی کیوں؟ کم سے کم 33فیصد بچے فولاد کی کمی کے باعث لاغر جسم رکھتے ہیں کیوں؟ پاکستان کے کل 131 اضلاع میں سے 80 اضلاع ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کو غذائی تحفظ حاصل نہیں‘ کیوں؟ اور چار کروڑ پاکستانی ایسے بھی ہیں جنہیں حاجت ضروریہ کے لئے بیت الخلاء میسر نہیں‘ آخر ایسا کیوں ہے؟ اِن سوالات کے جوابات پاکستان کے طرزحکمرانی اور حکمرانوں کی ترجیحات کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے لئے ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ گلبرگ‘ کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ بحریہ ٹاؤن اُور اِس جیسی دیگر باسہولت رہائشی کالونیوں میں رہنے والوں کے مفادات اور سہولیات زیادہ اہم ہیں۔
پاکستان میں پالیسیاں بنانے والے صرف اُنہی کے خدمت گزار ہیں جن کے پاس جمخانہ‘ گالف کلبس‘ کنٹری کلبس اور اسلام آباد کلبس جیسے اداروں کی رکنیت ہے! اِس طرزحکمرانی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آمدنی کے لحاظ سے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے اور آمدنی کے لحاظ ہی سے یہاں طبقات میں فرق ہر گزرے دن بڑھ رہا ہے اُور دولت (مالی وسائل) ایک خاص طبقے کے پاس مرتکز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو صورتحال مزید بگڑتی چلی جائے گی اور ایک خاص مراعات یافتہ طبقہ جو پہلے ہی فیصلہ سازی سے بنیادی طور پر مستفید ہو رہا ہے مزید حاوی ہوتا چلا جائے گا۔ اُس کا فیصلہ سازی میں کردار بڑھتا جائے گا اور یوں قومی فیصلہ سازی سے عوام کے اجتماعی مفاد کے بارے غوروخوض کم ہوتا چلا جائے گا۔ عوام اور فیصلہ سازوں (حکومت) کے درمیان اعتماد کا فقدان اور فاصلے مزید بڑھتے چلے جائیں گے جس سے نہ صرف حکومتیں عوام کی نظروں سے گر جائیں گی بلکہ جمہوریت کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ کیا اِس اَمر کو خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ اپنے حقوق سے محرومی کو محسوس کرے اور انتہاء پسندی کی طرف مائل ہو جائے!
پاکستان میں عوامی پالیسیوں پر ایک فیصد سے کم لوگوں کا راج ہے! انہی ایک فیصد سے کم لوگوں پر مشتمل 450خاندان حکمران بن کر اپنے اور اپنے جیسے خاص طبقے کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔
جب کسی ملک کے وسائل اور فیصلہ سازی پر چند خاندان مسلط ہو جاتے ہیں تو اُس سے قومی و نجی وسائل سے استفادہ اجتماعی بہبود کے منصوبوں پر نہیں ہوتا۔ پاکستان میں ’پبلک پالیسی‘ پر حاوی خاندانوں اور افراد کی وجہ سے پانچ طریقوں سے نقصان ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے تو غربت کی شرح بلند ترین ہے۔ دوسرا صحت کے شعبے میں غیرمعمولی حد تک کم سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ تیسرا تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری درکار شرح سے کم ہے۔ چوتھا مالی وسائل کا بڑا حصہ عوام کو بنیادی سہولیات و ضروریات کی فراہمی کی بجائے سڑکوں اور دیگر تعمیرات پر خرچ ہو رہا ہے اور پانچویں خرابی یہ ہے کہ ریاست عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں عملاً ناکام ثابت ہوئی ہے۔
پالیسی سازی میں ترجیحات کے غلط تعین سے سماجی سطح اور اقتصادی طور پر عدم مساوات پیدا ہوتا ہے۔ جن طبقات کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے تو نظام پر مسلط ہونے کے لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اور یوں اُن کا تسلط برقرار رہتا ہے جس سے اُن کی مالی حیثیت اور طاقت و اثرورسوخ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
پاکستان میں پبلک پالیسی پر حاوی خاندانوں اور افراد کے طرز عمل کی وجہ سے سیاست ایک ترجیح جبکہ قومی اداروں کی مضبوطی و فعالیت کم ترین درجے پر چلی گئی ہے۔ کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ کوئی بھی دور ہو پچاس فیصد سے زائد عوام کے منتخب نمائندوں کا تعلق 450 خاندانوں ہی میں سے کسی نہ کسی سے ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں قومی ادارے کمزور و ناتواں ہوتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سامنے اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ مسابقتی کمیشن آف پاکستان‘ نیپرا‘ اُوگرا‘ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی‘ پیمرا اور دیگر ایسے حکومتی ادارے شام ہیں جو 99فیصد عوام کے نہیں بلکہ ایک فیصد حکمراں طبقے کے مفادات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں طرزحکمرانی پر مسلط چند خاندان اور استحصال کو برقرار رکھنے والا سیاسی نظام ’قومی سلامتی‘ کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ سیاست کے اِس طرزعمل کی اصلاح ناگزیر ہے۔ اداروں کو مضبوط و فعال بنانے کے لئے حکمرانوں کو ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑے گی۔ قانون و اِنصاف کی سستی‘ فوری اُور بلاامتیاز فراہمی کو ممکن بنانے کے لئے چند افراد کے مفادات کے محافظ طرزعمل کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ صوابدیدی اختیارات کو دفن کرنا ہوگا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)