Tuesday, November 23, 2021

The sole-concept of life, is life!

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین امام

حیات اُور مقصد ِحیات 

اُردو ادب میں ”علم ِبدیع“ پر عبور رکھنے والے لفظی معنیِ کلام سے نت نئے مطالب پیدا کرتے ہیں یعنی وہ ایسی اچھوتی بات کہتے ہیں جس سے عمومی جملے یا الفاظ کے نئے معنی اُور زاویئے پیدا ہوں۔ معلم ’واحد سراج میر‘ بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت ہیں‘ جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں اُور اِن کا چناؤ کرتے ہوئے وہ عمومی (روائتی) اسلوب سے قطعی مختلف پہلوؤں کا احاطہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہنر معمولی نہیں اُور نہ ہی مشقت یا ریاضت سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اُنیس نومبر (صبح آٹھ بجکر اٹھائیس منٹ) پر میر صاحب نے صبح بخیر کے اختتامیے کے ساتھ جو دعا ارسال کی وہ صرف معروف کلمہ نہیں بلکہ انسان کی تخلیق و ارتقا (کرہ ارض پر جدوجہد) سے متعلق ایک بہت بڑی بحث کا نچوڑ ہے۔ میر ِمحترم نے لکھا ”اللہ (تعالیٰ) آپ کی زندگی کو بامقصد بنائے۔“ آج کی تاریخ میں اگر کہیں مادہ پرستی ملتی ہے یا انسان پریشانیوں‘ مشکلات اُور مسائل میں مبتلا نظر آتے ہیں تو اِس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ اِس نے یا تو اپنے لئے مقصد کا تعین کر رکھا ہے یا پھر دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی مقصد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیا زندگی اِس حالت و احساس کے ساتھ نہیں گزر سکتی کہ اِس کا زندگی کے بغیر کوئی دوسرا مقدس یا غیرمقدس (مادی یا نظری) مقصد نہ ہو؟ زندگی کو بس زندگی کے طور پر بسر کیا جائے۔ اِس سے لطف اُٹھاتے ہوئے دوسروں کی زندگی میں مداخلت کئے بغیر سکون کا باعث بنا جائے؟ خرابیوں کا مجموعہ وہ نظام ِتعلیم اُور دانشوروں کے وہ عمومی رویئے بھی ہیں جو زندگی کو عرفاً ”بامقصد“ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اِس کی مقصدیت سے ہونے والے نقصانات کو شمار نہیں کرتے۔ یہی وہ توجہ طلب منزل ہے کہ جہاں انسانی سوچ اُس درجے پر نظر آتی ہے کہ جہاں عبادات بھی مقصدیت کے سانچے میں قید (بے معنی) دکھائی دے رہی ہیں!

فلسفے سے شاہ نشین سے اُتر کر پائین ِباغ ِعوام میں بات کی جائے اُور انسانی عقل کے لئے کشش کا باعث مصدقہ سائنسی علوم (مثالوں) سے ’زندگی اُور اِس کے مقصد‘ کو سمجھنے کی کوشش میں سائنس اُور قبل اسلام انسان کے مقصد و ارتقا کے تصورات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ معروف برطانوی ماہر حیاتیات چارلس ڈارون (پیدائش 12 فروری 1809ئ۔ وفات 19 اپریل 1882ئ) نے ’انسانی زندگی کے آغاز و اِرتقا‘ سے متعلق دلچسپ نظریہ (تصور) پیش کیا‘ جو ’قدرت کے انتخاب یعنی زندگی کے طبیعی انتخاب (نیچرل سیلیکشن)‘ کے اصول پر انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ عمومی تصور یہی ہے کہ ڈارون نے انسان کے وجود سے متعلق جو نظریہ پیش کیا‘ یہ اِس سلسلے (اپنی نوعیت) کا پہلا تصور تھا جو درست نہیں بلکہ اِس سے ہزاروں سال قبل انسان کی وجہ¿ تخلیق کے بارے نظریات پیش ہو چکے تھے۔ ڈارون کے بقول ”کسی ایک قسم (نوع) کے جانور اپنی خوراک‘ رہائش‘ اور افزائشِ نسل کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں‘ یہ مقابلہ (تنازع البقا) ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس میں ’بہترین‘ کی بقا یعنی اَفزائشِ نسل ہوتی ہے اُور صرف افزائش ِنسل ہی نہیں بلکہ اس طرح ان کی اچھی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں“ یہی مقام ہے جہاں ٹھہرنا ہے۔ ڈارون کہتا ہے کہ جانداروں کی خصوصیات آنے والوں نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں لیکن یہ تصور ڈارون سے 15 ہزار سال ’ویدا (یوگی) نظریات‘ میں یہ تصور اِس اضافے کے ساتھ تحریر ملتا ہے کہ اِنسانوں میں ایک الگ قسم کی ’اِرتقائی یاداشت (حافظے کی خصوصیت)‘ بھی پائی جاتی ہے جو اپنے اندر محفوظ و موجود ’ارتقائی یاداشت‘ تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اُس پر الگ دنیا اُور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ اِسی خود ”خودآگہی“ کی جانب علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے ہاں بھی اشارہ ملتا ہے ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی .... تو اگر میرا نہیں بنتا‘ نہ بن‘ اپنا تو بن۔“

یوگی نظریات میں ”تنتر“ پائے جاتے ہیں اُور یہ اصطلاح وسیع معنوں کی حامل‘ مخصوص متون‘ نظریات‘ نظام اُور طریقہ¿ کار‘ تکنیک اُور آلات سب پر حاوی ہے۔ اِن اوتار کے مطابق جانداروں سے انسان بننے کے سفر میں انسان 9 حالتوں (مراحل) سے گزرا۔ یہ نو مراحل متشا‘ کورما‘ وراہا‘ نرسمہا‘ وامانا‘ پریشوراما‘ راما‘ کرشنا اُور بدھا ہیں۔ ہندو مذہب اُور بعدازاں بدھ مت میں اوتار کی صورت شخصیات کو نہیں بلکہ انسانوں کی خصوصیات سے بحث کی جاتی ہے اُور اِنہی خصوصیات سے مختلف ادوار کو جوڑ کر انسان کی تاریخ و ارتقا کی تصویر پیش کی جاتی ہے‘ جس کے مطابق پہلی زندگی کی قسم زیرآب تھی۔ دوسری آدھی زیرآب اُور آدھی برسرزمین حالت تھی۔ تیسری حالت میں جانداروں نے پوری طرح ہوا میں سانس لینا سیکھا جس میں قوی جسامت رکھنے والے سخت جان جاندار سامنے آئے کہ جن کی جان لینا انسانوں کی طرح آسان نہیں ہوتا۔ اِس قسم کے حالت ایک قسم کے جانوروں (سورو¿ں) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ویتاروں کے مطابق جانداروں کی اگلی حالت آدھے انسان اُور آدھے جانور کی تھی۔ اِس کے بعد پست قدر تھے۔ اِس کے بعد دراز قد جاندار بصورت انسان ہوا‘ جو اپنی فطرت میں انتہائی جذباتی تھا۔ اس کے بعد ’راما‘ کے نام سے امن پسند انسان سامنے آیا۔ جس کی ترقی یافتہ شکل ’کرشنا‘ سراپا محبت ہے اُور اِس کے بعد (اب تک کی آخری حالت) گردوپیش پر غوروفکر کرنے والا ’بدھا‘ ہے جو نفسانی خواہشات کو ترک کرتا ہے اُور دوسروں کے انجام (مسائل و مصائب) میں اپنا انجام دیکھتے ہوئے خالق کائنات اُور کائنات سے لیکر اپنے وجود کے اندر چھپے مقصد کو تلاش کرتا ہے۔ اُس کے لئے خالق کہیں دور نہیں بلکہ شہ رگ سے قریب ہے۔ اِس کے بعد انسان کی آخری حالت ’روحانی‘ عرفانی یا صوفیانہ (mystical)‘ شخص کی صورت ہوگی جس کی دنیا منتظر ہے (”اُور انتظار کرو‘ ہم بھی منتظر ہیں۔“ سورۂ ھود۔ آیت ایک سو بائیسں)۔ 

ہندو مذہب (ویدا) کے نظریات میں انسان کی جن 9 حالتوں کا ذکر ملتا ہے‘ پندرہ ہزار سال بعد حیاتیاتی سائنسدان ڈارون نے اُسی کے بارے میں نظریہ پیش کیا اُور نہ صرف داد وصول کی بلکہ اُن کے نظریئے کو آج بھی دریافت مانا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے ارتقائی سفر جو بھی رہا‘ اُس مشقت سے گزرتے ہوئے انسان نے بالآخر وہ مقام حاصل کر لیا ہے جہاں اِس کی ساخت و ہیت میں اب تبدیلی نہیں ہو گی اُور یہ چاہے کچھ بھی کرے‘ کچھ بھی کھائے‘ پیئے لیکن یہ انسان ہی رہے گا تو وقت ہے کہ یہ اپنا مقصد یعنی زندگی کو کسی دوسرے مقصد کے ترازو میں نہ تولے اُور نہ ہی اِس کے مقصدیت کی تلاش کرتا پڑے بلکہ حقیقت کی تلاش میں اِسے اپنے ہی اندر موجود (پنہاں) حیات و بقا کو کریدنا ہے۔ یہی منزل ہے کہ کسی مقصد کی خواہش نہ کرتے ہوئے خودشناس بنے۔ یہی خودی ہے۔ یہی خوداحتسابی ہے۔ یہی ایمان تقویٰ اُور یقین کی منزلیں ہیں اُور یہی وہ اوجھل مقصد ہے جسے ظاہر کرنے کے عوامل خارجی نہیں اُور نہ ہی کوئی خارجی محرکات (تحریک) اِس کی کامیابی کی دلیل ہو سکتی ہے۔ انسان اُور اِس کے فلسفے پر زندگی حاوی ہے‘ جو بذات خود مقصد ہے جسے فنا نہیں اُور اِسی حالت میں اُس کا سفر جاری رہنا ہے۔ ”اے صاحب ِاطمینان‘ اپنے رب کی طرف لوٹ چل۔ یوں کہ وہ تجھ سے اُور تو اُس سے راضی ہو (اُور) شامل ہو جا اُن خاص بندوں کے حلقے میں جو مقام ِجنت میں ہیں۔ (سورۂ فجر۔ آیات ستائیس تا تیس۔)“

....



Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 23 Nov. 2021


Monday, November 22, 2021

Housing the Housing Sector!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

ہاؤسنگ: سعی لاحاصل

متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان نے جس اہم مسئلے کی جانب قانون ساز ایوان کے ذریعے خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ مبذول کروائی ہے وہ مکانات کی کمی ہے اُور اِس بات کو صوبائی حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت گھروں کی تعمیر کے متعدد منصوبے شروع کئے ہوئے ہے لیکن صوبے میں مجموعی طور پر سات لاکھ سے نو لاکھ (قریب ایک ملین) گھروں کی کمی ہے۔ ہاؤسنگ کے صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد علی خان صوبائی اسمبلی ایوان کو (ستمبر دوہزار اکیس) میں مطلع کر چکے ہیں کہ رہائشی مکانات کی کمی سے نمٹنے کے لئے حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے لیکن اُن کی جانب سے ایوان کو دی جانے والی یقین دہانی پر حزب اختلاف کی جماعتوں کو زیادہ اطمینان نہیں اُور وہ صوبائی حکومت سے اِس مسئلے میں 2 طرح کے اُور فوری اقدامات (کوئیک ایکشن) کے خواہاں ہیں۔

حزب اختلاف چاہتی ہے کہ ہر ضلع کی سطح پر گھروں کی کمی کے بارے میں اعدادوشمار مرتب کر کے حکمت عملی وضع کی جائے کیونکہ جب حکومت زیادہ بڑے پیمانے پر گھروں کی کمی پورا کرنے کے لئے منصوبے بناتی ہے تو اِس سے دو طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تو لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے منصوبوں کو آئندہ مالی سالوں کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے لئے اُٹھا رکھا جاتا ہے اُور محکمہ خزانہ سے سفارشات طلب کی جاتی ہیں‘ جو صوبائی محصولات (ٹیکسوں) میں اضافے کی تجویز دیتی ہے اُور نئے ٹیکس کسی بھی صورت ناقابل قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ عام آدمی (ہم عوام) پہلے ہی مہنگائی کے سبب کم ہوتی قوت ِخرید کی وجہ سے پریشان ہیں اُور عوام کو نئی پریشانی میں مبتلا کرنا منطقی نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت جب بڑے پیمانے پر گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ شہری آبادی کے قریب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دیہی و مضافاتی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے یعنی جس رجحان کی حکومت کو خود حوصلہ شکنی کرنی چاہئے لیکن وہ غیرمحسوس انداز میں خود اِس بات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ لوگ شہروں کی جانب نقل مکانی کریں۔ یہ پہلو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی وفاقی حکومت کی مہربانی سے مشروط ہے اُور گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی آئینی حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی‘ جس کے لئے جدوجہد میں ماضی کی طرح موجودہ صوبائی حکومت بھی مصلحتوں سے کام لے رہی ہے کیونکہ سیاسی حکومتوں کی مجبوریوں میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انہیں وفاق سے اپنے تعلقات بنائے رکھنے ہوتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وفاق ہی کی حمایت سے صوبائی حکومت قائم و برقرار رہتی ہے۔

رہائشگاہوں کی تعمیر کے لئے بڑے پیمانے پر سوچنے اُور اقدامات کرنے سے بہتر ہے کہ ضلعی وسائل (مقامی آمدنی) اُور اضلاع کی ترقی کے لئے مختص وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کیا جائے اُور اِس سلسلے میں سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر کام صوبائی حکومت اپنے ذمے لینے کی بجائے بلدیاتی اداروں کو قائم کرے‘ اُنہیں مضبوط بنائے اُور ترقی کے عمل میں بلدیاتی اداروں کی سطح پر ہونے والی مشاورت یا غوروخوض سے کام لے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نامزد منتخب اُمیدوار جب صوبائی اُور قومی سطح پر اپنے اپنے انتخابی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو وہ علاقائی مسائل سے زیادہ قومی سیاست (سیاسی مفادات) سے متعلق سوچ بچار میں اپنی توانائیاں زیادہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اُور یہی وہ مرحلہ فکر ہے‘ جسے سیاست کا منفی پہلو قرار دیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو غیرسیاسی رکھنے کی حمایت کی جاتی ہے لیکن شاید شعور کی موجودہ سطح پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔

خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان میں ’ہاؤسنگ کی ضروریات‘ کمی اُور اِس سے جڑے دیگر مسائل‘ کئی مرتبہ زیرغور آ چکے ہیں اُور ہر موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے جس ایک نکتے پر بطور خاص زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”صوبائی حکومت زراعت کے لئے زیراستعمال اُور قابل کاشت اراضی پر رہائشی بستیاں آباد کرنے کی اجازت نہ دے۔“ اُور اِس تجویز و معاملے سے خود حکومتی اراکین بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رہائشی ضروریات اِس قدر زیادہ ہیں اُور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اِن کی طلب میں اِس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ حکومت زرعی اراضی پر نئی رہائشی بستیوں کے قیام کو روکنا چاہے بھی تو نہیں روک سکتی کیونکہ اِس کے لئے متعلقہ اداروں سے اجازت کے لئے اُس وقت رابطہ کیا جاتا ہے جب یہ بستیاں تقریباً آباد ہو چکی ہوتی ہیں۔ قانون شکنی کے اِس انداز کی پشت پناہی کرنے والے کون ہیں اُور اِس میں عوام کے منتخب نمائندوں اُور اِنتخابی حلقوں کی سیاست کا کس قدر عمل دخل ہے‘ یہ بیان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح قانون بااثر طبقات اُور عوام سے الگ الگ معاملہ کرتا ہے اُور جب تک قانون کی ’یکساں بلاامتیاز اُور بنا مصلحت حکمرانی‘ عملاً قائم نہیں ہو گی اُس وقت تک ہاؤسنگ کی ضروریات اُور زرعی اراضی کا تحفظ ہی نہیں بلکہ دیگر بحران کی صورت اختیار کئے سماجی مسائل بھی حل نہیں ہوں گے‘ بھلے کتنی ہی زبانی و کلامی کوشش کر لی جائے۔ ”وہ جس کی تاب و توانائی کا جواب نہیں .... ابھی وہ سعی جنوں خیز کامیاب نہیں (مجاز)۔“

....





Tuesday, November 16, 2021

Burn Hall: Parents Day vs Appreciation Day

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
مقصد تعلیم: قوت اخوت عوام

پاکستان میں بہت ہی کم ”نجی تعلیمی“ اِدارے ایسے ہیں جہاں تعلیم میں پنہاں ”قومی خدمت“ جیسے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’درس و تدریس‘ میں بہتری کے کم سے کم معیار کو حاصل کرنے کا بیانیہ (عہد) بھی ملتا ہے اُور روائتی تدریسی عمل کے ساتھ طلاب کو تحصیل ِعلم کے ساتھ نظم و ضبط سے روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں اپنے قومی ترانے میں دیئے گئے اِس تصور کی منہ بولتی تصویر کے طور پر ”قوت ِاخوت ِعوام“ کا مظاہرہ کریں۔ ایسے ہی ’نیک نام‘ اُور ’معروف‘ اداروں میں ایبٹ آباد کا ’آرمی برن ہال‘ بھی شامل ہے‘ جس کا قیام مسیحی خدمتگاروں (مشنریوں) نے 1943ء(78 برس قبل) کیا تھا اُور اُن کا بنیادی مقصد ’تعلیم بصورت خدمت و عبادت‘ تھی۔

 قیام پاکستان کے بعد ’برن ہال‘ نامی تعلیمی ادارے کے بانی اراکین فادر برمن تھجیسن (Fr. Herman Thijssen)‘ فادر جارج شانکس (Fr.George Shanks) اُور فادر فرانسیس اسکینین (Fr. Francis Scanion) نے ہند سے نقل مکانی کرکے ایبٹ آباد کا انتخاب کیا۔ برن (Burn) اسکاٹش اُور انگریزی زبان کا لفظ ہے‘ جس کا مطلب کسی دریا کی چھوٹی شاخ جبکہ ہال Hall کا مطلب کسی وسیع و پرسکون احاطے میں بنے گھر کے ہیں۔ یوں برن ہال سے مراد ’فیض کا چشمہ‘ ہے جس کا مقصد و نصب العین بھی اِسی سوچ کا مظہر ہے اُور یہی انسان کو ’اشرف المخلوقات‘ کے مقصد سے قریب کرتا ہے جہاں اِنسان امتیازات و تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانیت کو بلندیوں سے روشناس کرانے میں خدا کا فضل مقصود رہے۔ قیام پاکستان کے بعد برن ہال کے بانی جو پہلے ”سینٹ جوزف مشنری سوسائٹی مل ہل“ کے نام تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے ادارے کا نام ’سینئر کیمبرج سکول‘ اُور بعدازاں ’برن ہال‘ رکھا لیکن چونکہ پاکستان آنے کے بعد اُنہوں نے حکومت سے زمین اجارے (لیز) پر حاصل کی تھی جس کا اجارہ ختم ہونے کے بعد 1977ءمیں ’برن ہال‘ کا تعلیمی بندوبست اُور جملہ وسائل (ترقی یافتہ شکل میں) ایجوکیشن کور کے تحت ’آرمی برن ہال‘ کا حصہ (اثاثہ) بن گئے اُور یوں برن ہال کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا‘ جو کامیاب کاروباری حکمت ِعملی کے ساتھ جاری ہے اُور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب ایشیا میں اشرافیہ کے لئے مخصوص تعلیمی اداروں میں ’برن ہال‘ کا نام معروف ہے۔ حکومت ِپاکستان نے ’آرمی برن ہال‘ کی خدمات کے اعتراف میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔ ’مارچ 2018ئ‘ میں جاری ہونے والے اِس ڈاک ٹکٹ پر برن ہال کالجر برائے طلبہ شاخ کی عمارت اُور ادارے کا نصب العین (Moto) شائع کیا گیا جس پر لاطینی زبان کا جملہ ’Quo non ascendam‘ درج ہے جس کا مطلب ہے کہ ”وہ کونسی بلندی ہے جسے حاصل نہیں کیا جا سکتا؟“ یقینا جب انسان پرعزم ہو جائے اُور اُسے رہنما و رہنمائی میسر آئیں تو وہ کونسی بلندی ہے جسے یہ حاصل نہیں کر سکتا! بقول علامہ اقبالؒ ”زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست .... صحرا است کہ دریاست تہ بال و پر ماست (ترجمہ: شاہین نے بلندی سے آواز دی کہ میرا زمیں پر کیا کام .... صحرا ہو یا دریا میں سب سے بلند ہوں۔)

قیام پاکستان سے قبل ’برن ہال‘ کا نصب العین لاطینی زبان و ادب سے لیا گیا اُور سکول کی نئی انتظامیہ کے چالیس سال بعد بھی یہی لاطینی نصب العین مقرر ہے حالانکہ برن ہال میں لاطینی زبان نہیں پڑھائی جاتی اُور نہ ہی یہاں وفاقی امتحانی بورڈ اُور برطانوی تعلیمی ادارے ’آکسفورڈ یونیورسٹی پریس‘ کی شائع کردہ نصابی کتب میں شامل زبانوں کے علاؤہ دیگر خارجی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایبٹ آباد میں خیبرپختونخوا کا تعلیمی امتحانی بورڈ موجود ہے لیکن برن ہال کا الحاق وفاقی امتحانی بورڈ سے ہے‘ جسے ایبٹ آباد اُور خیبرپختونخوا کے تعلیمی بندوبست کا پابند کرنے کے لئے صوبائی فیصلہ سازوں کو ’ایجوکیشن کور‘ سے بات کرنی چاہئے کیونکہ طلاب کی اکثریت کو وفاقی بورڈ سے اسناد کی تصدیق‘ حصول اُور ثانوی امتحانات یا دیگر معاملات میں رجوع کرنے کے لئے پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ جب مقامی طور پر امتحانی بورڈ موجود ہے تو اِس کی سہولت سے اُن عمومی طلاب کا فائدہ اُٹھانے کا موقع کیوں فراہم نہیں ہونا چاہئے جو آمدورفت کے اضافی اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ تعلیم کو کم خرچ بالا نشیں بنانے کے لئے سوچ بچار اُور بات چیت کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ 

برن ہال حال کے زیراہتمام حال ہی محدود سطح پر چینی زبان کی کلاسیز شروع کی گئیں لیکن اُن کے معمولات بھی اِس طرح رکھے گئے ہیں کہ یہ بوائز اُور گرلز الگ الگ شاخوں میں یکساں نہیں اُور جہاں چینی زبان سیکھنے کی سہولت ہے تو وہ بھی اِس قدر سطحی ہے کہ اِن پر بنیادی تدریسی سرگرمیاں (نصابی دورانیہ) حاوی ہے۔ فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ دنیا کے ’گلوبل ویلیج‘ بننے اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں خارجی زبانوں کی اہمیت روائتی اسلوب سے بڑھ گئی ہے اُور اِس سلسلے میں مغربی یا افریقیائی ترقی یافتہ ممالک کے تصورات ِتعلیم کو دیکھنا چاہئے جہاں بچوں کو تعلیم کے ابتدائی برس میں قومی زبان کے علاؤہ کم سے کم تین دیگر زبانیں پڑھائی جاتی ہیں اُور تعلیمی اداروں (سکول‘ کالج یا جامعات) کو اِن کی چاردیواری تک محدود نہیں سمجھا جاتا بلکہ خارجی زبانیں سیکھنے والوں کو سالانہ تعطیلات کے دوران اُن ممالک کے سہ ماہی دورے کروائے جاتے ہیں جن زبانوں میں طلاب نے مہارت حاصل کی ہوتی ہے تاکہ وہ اُن زبانوں سے جڑی ثقافت‘ رہن سہن اُور معاشرتی بودوباش کو قریب سے مشاہدہ (محسوس) کر سکیں اُور اِس طرح حاصل ہونے والے شعوری علم سے نہ صرف عالمی دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ طلاب اپنے تعلیمی اُور پیشہ ورانہ مستقبل کا تعین کرنے میں بھی سوچ کی محدودیت (خول) سے باہر جھانک کر دیکھنے کے صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کو اُس کنویں سے باہر نکالا جائے جس کے باہر تعلیمی اداروں کے ناموں کے بورڈ نصب ہیں۔ تعلیم کے حقیقی مقاصد اُور درپیش عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جس قسم کی سرمایہ کاری درکار ہے اُس کے بیشتر حصے کا تعلق سوچ بچار (فیصلہ سازی) سے ہے۔ توجہ طلب ہے کہ درس و تدریس کو روایت سے ایک درجہ بلند کرنے کے لئے تجربات صرف ترقی یافتہ یعنی مالی وسائل رکھنے والے ممالک ہی میں نہیں ہو رہے بلکہ سری لنکا جیسے ترقی پذیر اُور پاکستان سے زیادہ پسماندہ ملک میں بھی تعلیم اُور نوجوانوں میں سرمایہ کاری پاکستان کے مقابلے کہیں گنا بہتر بلکہ بہترین دکھائی دیتی ہے۔

برائے طالبات‘ آرمی برن ہال (سکول و) کالج میں ”یوم والدین“ کی پروقار تقریب کے موقع پر ’پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول)‘ کے کمانڈنٹ میجر جنرل عمر بخاری مہمان خصوصی تھے جنہوں نے پرنسپل بریگیڈئر ڈاکٹر نوید کے ہمراہ اساتذہ اُور طلبہ کو حالیہ میٹرک اُور انٹرمیڈیٹ درجات کے بورڈ امتحانات میں ’سو فیصدی نتائج‘ پر مبارکباد دی۔ ذہن نشین رہے کہ برن ہال کی 57 طالبات نے ’اے پلس گریڈ‘ جبکہ 32 طالبات1000 سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ یوم والدین کے موقع پر سکول و کالج میں زیرتعلیم طلبہ کے تمام والدین کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ مساوی فیسیں اُور واجبات (تعلیمی اخراجات) ادا کرنے والے والدین بھی اِس عزت افزائی کے مستحق تھے۔ برن ہال انتظامیہ اگر تعلیم کے ذریعے‘ اب بھی‘ امتیازات اُور تعصبات ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے تو ’یوم والدین‘ اُور ’یوم ستائش‘ کا الگ الگ اہتمام کرنا ہوگا۔

 ’یوم والدین‘ ایک ایسا حق ہے جس کے ذریعے سال میں صرف ایک مرتبہ والدین کی اساتذہ اُور سکول انتظامیہ سے براہ راست سال ملاقات ممکن ہوتی ہے اُور اِس موقع پر نہ صرف بچوں کی ایک سالہ کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک ہی درجے میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کو ایک دوسرے سے ملنے اُور بچوں کے سکول میں روئیوں و کارکردگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے اُور جن تقاریب کے اخراجات والدین سے وصول کئے جاتے ہیں لیکن اگر والدین اُن میں شریک نہیں تو یہ خوش ذائقہ پکوان نہیں۔ ”اے اہل نظر‘ ذوق ِنظر خوب ہے لیکن .... جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ ہنر کیا (علامہ اقبالؒ)۔“

.... 

Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated Nov 16, 2021




Sunday, November 14, 2021

Political (LG) Polls: Yet another mistake!

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

.... پھر شہر ’کم نگہ‘ کی بصارت پہ رائے دو

مشکل در مشکل اُور انتخابات در انتخابات مراحل (مقامات ِتفکر) زیادہ فرق نہیں اُور یہی حاصل ِکلام ہے کہ اِس عمل سے وابستہ اُمیدیں پوری نہیں ہو رہیں لیکن بار بار ایک ہی غلطی (تجربہ) دہرانے سے توقع ہے کہ نتیجہ الگ برآمد ہوگا! خبر ہے کہ خیبرپختونخوا میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اُور خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع (پشاور‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ خیبر‘ مہمند‘ مردان‘ صوابی‘ کوہاٹ‘ کرک‘ ہنگو‘ بنوں‘ لکی‘ ٹانک‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہری پور‘ باجوڑ اُور بونیر) کے لئے مقرر کردہ ریٹرنگ آفیسرز نے وصول شدہ کاغذات الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیئے ہیں۔ یہ کاغذات مجموعی طور پر 66 تحصلیوں کے لئے ہیں جن میں سب سے زیادہ تحصیلیں پشاور میں سات‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ بونیر اُور بنوں میں چھ چھ۔ مردان میں پانچ‘ صوابی‘ کوہاٹ اُور لکی میں چار چار۔ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ خیبر‘ مہمند‘ کرک اُور ہری پور میں تین تین جبکہ ہنگو اُور بونیر میں دو دو تحصیلیں ہیں۔ سب سے زیادہ کاغذات نامزدگی بھی پشاور ہی میں جمع ہوئے ہیں جن میں جنرل نشست کے لئے تین ہزار چار‘ خواتین کی نشستوں کے لئے پانچ سو چھپن‘ مزدور کسان نشستوں کے لئے ایک ہزار بیاسی‘ نوجوان (یوتھ) نشستوں کے لئے نو سو چودہ اُور اقلیتی نشستوں کے لئے ایک سو اڑتالیس اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ اِس قدر بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور اُور صوبے کے دیگر اضلاع میں انتخابی گہما گہمی کس قدر برپا ہونے والی ہے اُور کس قدر کانٹے دار (پرہجوم) مقابلے متوقع ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں ’16 جنوری دوہزاربائیس‘ تک بلدیاتی انتخابات اُور بلدیاتی کا عمل مکمل کرنا ہے اُور اِس سلسلے میں سترہ مذکورہ اضلاع میں پہلے مرحلے کی پولنگ کے لئے ’اُنیس دسمبر دوہزاراکیس‘ کی تاریخ مقرر ہے۔ اِن بلدیاتی انتخابات کو مؤخر (فی الوقت ملتوی) کرنے کی استدعا کرتے ہوئے خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا کہ ایک ہی دن تحصیل‘ سٹی کونسل‘ ویلیج کونسل اُور نیبرہڈ کونسلوں کے لئے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے جائیں تاہم الیکشن کمیشن نے اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اُور چار سے آٹھ نومبر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لئے تاخیر مقرر کی گئی۔ دس نومبر سے بارہ نومبر کاغذات کی جانچ پڑتال (سکورٹنی) کا عمل مکمل کیا جائے گا جس کے بعد کاغذات نامزدگیوں کی منظوری یا اُنہیں مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف تیرہ سے سولہ نومبر اعتراضات سنے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں حتمی فیصلے کی تاریخ اُنیس نومبر مقرر ہے جس کے بعد اُمیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی جائے گی جس کے بعد بائیس نومبر تک اُمیدواروں کے کاغذت نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ ہے۔ اِس کے بعد تیئس نومبر کو انتخابی نشانات جاری کئے جائیں گے اُور اُسی دن اُمیدواروں کے نام بمعہ انتخابی نشانات کی حتمی فہرست جاری ہو جائے گی اُور یوں یہ پورا انتخابی عمل چوبیس دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے ضابطہ اخلاق بھی وضع کیا گیا ہے جو ماضی سے زیادہ مختلف نہیں اُور حسب توقع اِس مرتبہ بھی اِس پر سوفیصدی عمل درآمد نہیں ہوگا جیسا کہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حد پر عمل درآمد اُور انتخابی حلقوں میں صوبائی یا وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی کام نہ ہونا شامل ہے۔ اِس بات پر بھی پابندی ہے کہ نئے ترقیاتی کاموں کا اعلان (وعدہ) بھی نہیں کیا جائے گا۔ بات واضح ہے کہ صدر مملکت‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ‘ گورنر‘ وفاقی اُور صوبائی وزرا،انتخابی عمل کے دوران (پولنگ سے قبل) کسی بھی بلدیاتی انتخابی حلقے کا دورہ نہیں کریں گے جس کا مقصد یہ ہے کہ حکومتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے عوام کی رائے پر اثرانداز نہ ہوا جائے۔

بلدیاتی انتخابات ایک مرتبہ پھر سیاسی بنیادوں پر ہوں گے لیکن حسب ِسابق کاغذات جمع کرانے والوں میں اکثریت غیرسیاسی اُمیدواروں کی ہے اُور اصولاً دیکھا جائے تو بلدیاتی انتخابات غیرسیاسی ہی ہونے چاہیئں۔ کامیاب بلدیاتی نمائندوں کو جس سطح اُور جس درجہ فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینا ہوتا ہے اُس میں سیاسی ترجیحات اُور سیاسی مفادات عوامی مفادات سے متصادم رہتے ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ خدمت کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔ ماضی کے کئی تجربات اُور مثالیں موجود ہیں جس میں بلدیاتی نظام پر سیاسی جماعتوں کا غلبہ ہونے کی وجہ سے باشعور طبقات نے تحفظات کا اظہار کیا اُور اِس سلسلے میں شکایات درج کروائیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک انتخابات سے دوسرے انتخابات تک تیاریوں میں مصروف رہتی ہیں اُور اُن کے پاس انتخابات میں کامیاب ہونے کے لئے درکار وسائل اُور تجربہ بھی ہوتا ہے جس کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایک عام آدمی اگر آزاد حیثیت سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو اُس بیچارے کے الیکشن کمیشن دفاتر کے چکر لگانے ہی میں سارا وقت گزر جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنے نامزد اُمیدوار کی تشہیر کے لئے مالی وسائل کسی آزاد اُمیدوار کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں اُور اُن کے انتخابی نشانات بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوتے ہیں‘ جن کی بدولت وہ نفسیاتی طور پر برتری رکھتے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لئے ضابطہ اخلاق وضع کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری نہیں کیا گیا حالانکہ یہ نہایت ہی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس نہایت ہی منظم ”سوشل میڈیا سیل“ پہلے سے موجود ہیں جن کا اِس موقع پر بھرپور استعمال کیا جائے گا جبکہ ایک عام بلدیاتی اُمیدوار اگر دوڑ دھوپ کر کے ووٹروں کی فہرستیں حاصل کر بھی لے تو اُس میں موبائل فون نمبر نہیں ہوتے جن کا وہ استعمال کر سکے لیکن سیاسی جماعتیں سالہا سال کے تجربات کی بنیاد پر ایسے کوائف اپنے طور پر جمع رکھتی ہیں‘ جن سے ووٹروں کی رائے پر اثرانداز ہوا جا سکے اُور سیاسی جماعتیں زیادہ منظم انداز میں انتخابی مہمات مرتب و فعال رکھنے کا ہنر (خواندگی) بھی رکھتی ہیں۔ چوتھی بات سیاسی جماعتیں طاقتور سماجی و مذہبی حلقوں کا مقابلے کرنے کی الگ سے حکمت عملیاں وضع کرتی ہیں اُور ووٹوں کی گنتی اُور تقسیم کے لائحہ عمل کے مطابق اپنے ہی خلاف ایسے اُمیدواروں کو بطور بلدیاتی اُمیدوار لایا جاتا ہے جو مخالف اُمیدوار کے ووٹ تقسیم کر کے کم کر سکے۔ یہ نہایت ہی سوچی سمجھی اُور نپی تلی حکمت عملی ہوتی ہے جس کے پیچھے بہت ساری عوامل سوچ بچار یا ہوم ورک کارفرما ہوتا ہے اُور یوں سارے کا سارا بلدیاتی انتخابی عمل سیاسی جماعتوں کے نام رہتا ہے‘ جو آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والوں کی حمایت بھی واجبی یا وقتی مراعات یا وعدوں کے عوض حاصل کر لیتی ہیں۔ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں‘ جن میں آزاد اُمیدواروں کو گلے شکوے رہے۔ اِس بات کا تصور کرنا زیادہ مشکل نہیں کہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ¿ اخلاق پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے جس کے بعد آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں سے بلواسطہ اُور بلاواسطہ صوبائی فیصلہ سازوں کی ملاقاتوں کا اہتمام کروایا جاتا ہے جو اُن سے ترقیاتی فنڈز اُور دیگر مراعات کے وعدے کرتے ہیں اُور یوں پانسہ اُن کے حق میں پلٹ جاتا ہے جن کا منشور انتخابات میں عوام کی اکثریت مسترد کر چکی ہوتی ہے۔ عام آدمی کے لئے اِس قسم کا انتخابی بندوبست اُور انتخابی اتحادی حکمت عملیاں ناقابل سمجھ ہیں کہ جن سیاسی مخالفین کو وہ مسترد کرتے ہیں لیکن اُن کی جماعت اُنہی کی اتحادی بن کر عددی اکثریت کی بنیاد پر ضلعی یا تحصیل میں حکومت بنا لیتی ہے۔ بہرحال انتخابی نظام کے یہ پہلو الگ موضوع ہیں۔

موجودہ حالات میں مہنگائی کے سبب پیدا ہوئی معاشی مشکلات بلدیاتی انتخابی مہمات کا خاص نکتہ رہے گا‘ جو حزب اختلاف اُور آزاد حیثیت سے اِن انتخابات میں حصہ لینے والے حکومتی جماعت کے نامزد اُمیدواروں کے خلاف عوام کی عدالت میں زور و شور سے پیش کریں گے اُور چونکہ یہ مؤقف زیادہ فلسفیانہ نہیں‘ اِس لئے ووٹروں کو قائل کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی منصوبہ بندی کون زیادہ بہتر انداز میں کرتا ہے جبکہ امکان یہی ہے کہ اِس مرتبہ بھی انتخابی منصوبہ بندی ہی کامیاب (سرخرو) ٹھہرے گی۔

اِس کی نظر میں پنہاں محبت پہ رائے دو 

 پھر شہر کم نگہ کی بصارت پہ رائے دو (زریں منور)

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar Abbottabad dated 14 November 2021

Editorial Page Daily Aaj dated 14 November 2021

Daily Aaj 14 November 2021