ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین امام
حیات اُور مقصد ِحیات
اُردو ادب میں ”علم ِبدیع“ پر عبور رکھنے والے لفظی معنیِ کلام سے نت نئے مطالب پیدا کرتے ہیں یعنی وہ ایسی اچھوتی بات کہتے ہیں جس سے عمومی جملے یا الفاظ کے نئے معنی اُور زاویئے پیدا ہوں۔ معلم ’واحد سراج میر‘ بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت ہیں‘ جن کے ہاں الفاظ ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں اُور اِن کا چناؤ کرتے ہوئے وہ عمومی (روائتی) اسلوب سے قطعی مختلف پہلوؤں کا احاطہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ہنر معمولی نہیں اُور نہ ہی مشقت یا ریاضت سے سیکھا جا سکتا ہے۔ اُنیس نومبر (صبح آٹھ بجکر اٹھائیس منٹ) پر میر صاحب نے صبح بخیر کے اختتامیے کے ساتھ جو دعا ارسال کی وہ صرف معروف کلمہ نہیں بلکہ انسان کی تخلیق و ارتقا (کرہ ارض پر جدوجہد) سے متعلق ایک بہت بڑی بحث کا نچوڑ ہے۔ میر ِمحترم نے لکھا ”اللہ (تعالیٰ) آپ کی زندگی کو بامقصد بنائے۔“ آج کی تاریخ میں اگر کہیں مادہ پرستی ملتی ہے یا انسان پریشانیوں‘ مشکلات اُور مسائل میں مبتلا نظر آتے ہیں تو اِس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ اِس نے یا تو اپنے لئے مقصد کا تعین کر رکھا ہے یا پھر دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی مقصد کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کیا زندگی اِس حالت و احساس کے ساتھ نہیں گزر سکتی کہ اِس کا زندگی کے بغیر کوئی دوسرا مقدس یا غیرمقدس (مادی یا نظری) مقصد نہ ہو؟ زندگی کو بس زندگی کے طور پر بسر کیا جائے۔ اِس سے لطف اُٹھاتے ہوئے دوسروں کی زندگی میں مداخلت کئے بغیر سکون کا باعث بنا جائے؟ خرابیوں کا مجموعہ وہ نظام ِتعلیم اُور دانشوروں کے وہ عمومی رویئے بھی ہیں جو زندگی کو عرفاً ”بامقصد“ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اِس کی مقصدیت سے ہونے والے نقصانات کو شمار نہیں کرتے۔ یہی وہ توجہ طلب منزل ہے کہ جہاں انسانی سوچ اُس درجے پر نظر آتی ہے کہ جہاں عبادات بھی مقصدیت کے سانچے میں قید (بے معنی) دکھائی دے رہی ہیں!
فلسفے سے شاہ نشین سے اُتر کر پائین ِباغ ِعوام میں بات کی جائے اُور انسانی عقل کے لئے کشش کا باعث مصدقہ سائنسی علوم (مثالوں) سے ’زندگی اُور اِس کے مقصد‘ کو سمجھنے کی کوشش میں سائنس اُور قبل اسلام انسان کے مقصد و ارتقا کے تصورات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ معروف برطانوی ماہر حیاتیات چارلس ڈارون (پیدائش 12 فروری 1809ئ۔ وفات 19 اپریل 1882ئ) نے ’انسانی زندگی کے آغاز و اِرتقا‘ سے متعلق دلچسپ نظریہ (تصور) پیش کیا‘ جو ’قدرت کے انتخاب یعنی زندگی کے طبیعی انتخاب (نیچرل سیلیکشن)‘ کے اصول پر انسانی زندگی کے ارتقائی مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ عمومی تصور یہی ہے کہ ڈارون نے انسان کے وجود سے متعلق جو نظریہ پیش کیا‘ یہ اِس سلسلے (اپنی نوعیت) کا پہلا تصور تھا جو درست نہیں بلکہ اِس سے ہزاروں سال قبل انسان کی وجہ¿ تخلیق کے بارے نظریات پیش ہو چکے تھے۔ ڈارون کے بقول ”کسی ایک قسم (نوع) کے جانور اپنی خوراک‘ رہائش‘ اور افزائشِ نسل کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں‘ یہ مقابلہ (تنازع البقا) ہمہ وقت جاری رہتا ہے جس میں ’بہترین‘ کی بقا یعنی اَفزائشِ نسل ہوتی ہے اُور صرف افزائش ِنسل ہی نہیں بلکہ اس طرح ان کی اچھی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں“ یہی مقام ہے جہاں ٹھہرنا ہے۔ ڈارون کہتا ہے کہ جانداروں کی خصوصیات آنے والوں نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں لیکن یہ تصور ڈارون سے 15 ہزار سال ’ویدا (یوگی) نظریات‘ میں یہ تصور اِس اضافے کے ساتھ تحریر ملتا ہے کہ اِنسانوں میں ایک الگ قسم کی ’اِرتقائی یاداشت (حافظے کی خصوصیت)‘ بھی پائی جاتی ہے جو اپنے اندر محفوظ و موجود ’ارتقائی یاداشت‘ تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اُس پر الگ دنیا اُور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ اِسی خود ”خودآگہی“ کی جانب علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے ہاں بھی اشارہ ملتا ہے ”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی .... تو اگر میرا نہیں بنتا‘ نہ بن‘ اپنا تو بن۔“
یوگی نظریات میں ”تنتر“ پائے جاتے ہیں اُور یہ اصطلاح وسیع معنوں کی حامل‘ مخصوص متون‘ نظریات‘ نظام اُور طریقہ¿ کار‘ تکنیک اُور آلات سب پر حاوی ہے۔ اِن اوتار کے مطابق جانداروں سے انسان بننے کے سفر میں انسان 9 حالتوں (مراحل) سے گزرا۔ یہ نو مراحل متشا‘ کورما‘ وراہا‘ نرسمہا‘ وامانا‘ پریشوراما‘ راما‘ کرشنا اُور بدھا ہیں۔ ہندو مذہب اُور بعدازاں بدھ مت میں اوتار کی صورت شخصیات کو نہیں بلکہ انسانوں کی خصوصیات سے بحث کی جاتی ہے اُور اِنہی خصوصیات سے مختلف ادوار کو جوڑ کر انسان کی تاریخ و ارتقا کی تصویر پیش کی جاتی ہے‘ جس کے مطابق پہلی زندگی کی قسم زیرآب تھی۔ دوسری آدھی زیرآب اُور آدھی برسرزمین حالت تھی۔ تیسری حالت میں جانداروں نے پوری طرح ہوا میں سانس لینا سیکھا جس میں قوی جسامت رکھنے والے سخت جان جاندار سامنے آئے کہ جن کی جان لینا انسانوں کی طرح آسان نہیں ہوتا۔ اِس قسم کے حالت ایک قسم کے جانوروں (سورو¿ں) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ویتاروں کے مطابق جانداروں کی اگلی حالت آدھے انسان اُور آدھے جانور کی تھی۔ اِس کے بعد پست قدر تھے۔ اِس کے بعد دراز قد جاندار بصورت انسان ہوا‘ جو اپنی فطرت میں انتہائی جذباتی تھا۔ اس کے بعد ’راما‘ کے نام سے امن پسند انسان سامنے آیا۔ جس کی ترقی یافتہ شکل ’کرشنا‘ سراپا محبت ہے اُور اِس کے بعد (اب تک کی آخری حالت) گردوپیش پر غوروفکر کرنے والا ’بدھا‘ ہے جو نفسانی خواہشات کو ترک کرتا ہے اُور دوسروں کے انجام (مسائل و مصائب) میں اپنا انجام دیکھتے ہوئے خالق کائنات اُور کائنات سے لیکر اپنے وجود کے اندر چھپے مقصد کو تلاش کرتا ہے۔ اُس کے لئے خالق کہیں دور نہیں بلکہ شہ رگ سے قریب ہے۔ اِس کے بعد انسان کی آخری حالت ’روحانی‘ عرفانی یا صوفیانہ (mystical)‘ شخص کی صورت ہوگی جس کی دنیا منتظر ہے (”اُور انتظار کرو‘ ہم بھی منتظر ہیں۔“ سورۂ ھود۔ آیت ایک سو بائیسں)۔
ہندو مذہب (ویدا) کے نظریات میں انسان کی جن 9 حالتوں کا ذکر ملتا ہے‘ پندرہ ہزار سال بعد حیاتیاتی سائنسدان ڈارون نے اُسی کے بارے میں نظریہ پیش کیا اُور نہ صرف داد وصول کی بلکہ اُن کے نظریئے کو آج بھی دریافت مانا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے ارتقائی سفر جو بھی رہا‘ اُس مشقت سے گزرتے ہوئے انسان نے بالآخر وہ مقام حاصل کر لیا ہے جہاں اِس کی ساخت و ہیت میں اب تبدیلی نہیں ہو گی اُور یہ چاہے کچھ بھی کرے‘ کچھ بھی کھائے‘ پیئے لیکن یہ انسان ہی رہے گا تو وقت ہے کہ یہ اپنا مقصد یعنی زندگی کو کسی دوسرے مقصد کے ترازو میں نہ تولے اُور نہ ہی اِس کے مقصدیت کی تلاش کرتا پڑے بلکہ حقیقت کی تلاش میں اِسے اپنے ہی اندر موجود (پنہاں) حیات و بقا کو کریدنا ہے۔ یہی منزل ہے کہ کسی مقصد کی خواہش نہ کرتے ہوئے خودشناس بنے۔ یہی خودی ہے۔ یہی خوداحتسابی ہے۔ یہی ایمان تقویٰ اُور یقین کی منزلیں ہیں اُور یہی وہ اوجھل مقصد ہے جسے ظاہر کرنے کے عوامل خارجی نہیں اُور نہ ہی کوئی خارجی محرکات (تحریک) اِس کی کامیابی کی دلیل ہو سکتی ہے۔ انسان اُور اِس کے فلسفے پر زندگی حاوی ہے‘ جو بذات خود مقصد ہے جسے فنا نہیں اُور اِسی حالت میں اُس کا سفر جاری رہنا ہے۔ ”اے صاحب ِاطمینان‘ اپنے رب کی طرف لوٹ چل۔ یوں کہ وہ تجھ سے اُور تو اُس سے راضی ہو (اُور) شامل ہو جا اُن خاص بندوں کے حلقے میں جو مقام ِجنت میں ہیں۔ (سورۂ فجر۔ آیات ستائیس تا تیس۔)“
....
Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 23 Nov. 2021 |