?Why do nations fail
قوموں کا زوال: وجوہات
سوال بہت ہیں اور اُن کے جوابات پاکستان کے قومی تناظر میں سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا ایک مالدار ملک کیوں ہے اور وہاں فی کس سالانہ آمدنی 25ہزار ڈالر کیوں ہے جبکہ پاکستان غریب کیوں ہے اور اِس کی فی کس آمدنی 11 سو ڈالر فی کس کیوں ہے؟ 1960ء میں جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 900 جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 300 ڈالر تھی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ گذشتہ 57 برس کے دوران‘ جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی میں 28 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی اِن 57 برس کے دوران 3.6فیصد ہی بڑھ سکی؟ پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کے اسباب ثقافتی‘ موسمی یا جغرافیائی ہیں؟
سال 2012ء کے دوران‘ ترکش امریکن ماہر اقتصادیات ڈارون ایکیموگلو (Daron Acemoglu) اور برطانوی ماہر سیاسیات جیمز رابنسن (James Robinson) نے 546 صفحات کی ایک کتاب لکھی‘ جس کا نام تھا ’’قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں: اقتدار خوشحالی اور غربت کے اسباب کیا ہیں‘‘(Why Nations Fail: The Origins of Power, Prosperity and Poverty.) بنیادی سوال یہی ہے کہ جنوبی کوریا اَمیر جبکہ پاکستان غریب کیوں ہے؟ کتاب میں اِس کا جواب موجود ہے۔ زوال کے اسباب میں ثقافت‘ موسم یا پھر جغرافیائی محل وقوع کا کتنا عمل دخل ہے‘ اِس سے متعلق جوابات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ جس کے مطابق اقوام کا عروج اور زوال اُن کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی اُن کی ثقافت کے سبب ہوتا ہے بلکہ یہ اُن کے مذہب کی وجہ سے ہے۔
قوموں کے زوال کے اسباب ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم پاکستان میں دستیاب قدرتی وسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ’ریکوڈک‘ میں 5.9 ملین (اُنسٹھ لاکھ) ٹن تانبے کے ذخائر ہیں۔ اِسی مقام پر 41.5 ملین (چار کروڑ پندرہ لاکھ) ٹن سونے جیسی قیمتی دھات کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چنیوٹ کے مقام پر لوہے کے وسیع ذخائر دریافت ہیں۔ تھر میں کوئلے کے 175ارب ٹن کوئلے کے ذخائر بھی غیرمعمولی ہیں۔ قوموں کے زوال کو قطر سے ’16 ارب ڈالر‘ مالیت کی ’مائع گیس (ایل این جی) کا درآمدی معاہدہ بھی نہیں روک سکتا اور سینڈک تابنے و سونے کی کان کنی کے منصوبے تحت 412 ملین (41 کروڑ 20 لاکھ) ٹن مائع دھات کے ذخائر بھی کسی کام کے نہیں۔
قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
اس کی وجوہات قوموں کے فیصلہ سازوں کے غلط فیصلے اور اقدامات ہیں یہ زوال تقدیر کی وجہ سے نہیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ کسی ملک کی سیاسی قیادت میں یہ تین خوبیاں ہونی چاہیءں کہ وہ لالچی‘ خودغرض اور تاریخ سے بے بہرہ نہ ہوں۔ پاکستان کی کا مستقبل اور اقتصادی خوشحالی بھی قیادت کی انہی تین خوبیوں کے گرد گھومتی ہے۔ قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ کیا پاکستان کے سیاسی قیادت لالچی ہے؟ کیا پاکستان کی سیاسی قیادت خود غرض ہے؟ پاکستان کے سیاسی قائدین کو تاریخ سے کتنی دلچسپی ہے؟
ماہرین اقتصادیات اور سیاسیات کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جب ہم پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ’’عوام سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں کس قدر شریک ہے۔ وہ لوگ جو سیاسی اداروں کو چلا رہے ہیں کیا وہ تبدیلی اور اصلاحات کی راہیں ہموار کرتے ہیں اور کیا ہمارے سرکاری ادارے ایک دوسرے سے مربوط عوام کی خدمت اولین ترجیح رکھتے ہیں یا اُن کی کارکردگی اور حکمت عملی محدود اور حکمراں طبقے کی فرماں برداری کی حد تک محدود ہے‘‘
پاکستان میں موروثی سیاست حاوی دکھائی دیتی ہے اور اس قسم کی سیاست کا براہ راست تعلق غربت سے ہوتا ہے کیونکہ سیاسی فیصلہ سازی پر چند خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد حاوی رہتے ہیں۔ اِسی موروثی سیاست اور ناخواندگی بھی براہ راست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
سال 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کل 30.2ملین خاندان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تین کروڑ سے زائد اِن خاندانوں کا ملک کی سیاسی فیصلہ سازی میں کتنا حصہ ہے جبکہ سیاست پر 1174 خاندانوں کی اجارہ داری بنی ہوئی ہے؟
پاکستان میں گذشتہ 45 برس کے دوران 10 مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں موروثی جمہوریت پائی جاتی ہے اُن میں پاکستان کے علاؤہ بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ بھارت اُور سری لنکا شامل ہیں۔ عملی یا تجرباتی طرز حکمرانی کے طور پر کئی ممالک میں موروثی سیاست جاتی ہیں‘ جیسا کہ امریکہ میں چھ فیصد‘ ارجنٹینیا میں دس فیصد‘ بھارت میں اٹھائیس فیصد‘ میکسیکو میں چالیس فیصد اور فلپائن میں ’ستر فیصد۔‘ عالمی تنظیم ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک الٹرنیٹیویز‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے دو تہائی منتخب قانون سازوں کا تعلق قریب اُنہی 400 خاندانوں سے ہوتا ہے جو بار بار عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔
پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کی وجہ ’’تقدیر‘‘ نہیں بلکہ یہ فیصلہ سازوں کے طرز انتخاب اور اُن کے لالچی اور خودغرض روئیوں کی بدولت ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور عوام مربوط نہیں رہے اور سرکاری اداروں کو اجتماعی مفاد کی بجائے چند سو خاندانوں کا غلام بنا دیا گیا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)