Sunday, January 28, 2018

TRANSLATION: Why do nations fail by Dr. Farrukh Saleem

?Why do nations fail
قوموں کا زوال: وجوہات
سوال بہت ہیں اور اُن کے جوابات پاکستان کے قومی تناظر میں سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا ایک مالدار ملک کیوں ہے اور وہاں فی کس سالانہ آمدنی 25ہزار ڈالر کیوں ہے جبکہ پاکستان غریب کیوں ہے اور اِس کی فی کس آمدنی 11 سو ڈالر فی کس کیوں ہے؟ 1960ء میں جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 900 جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 300 ڈالر تھی۔ 

آخر کیا وجہ ہے کہ گذشتہ 57 برس کے دوران‘ جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی میں 28 فیصد اضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی اِن 57 برس کے دوران 3.6فیصد ہی بڑھ سکی؟ پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کے اسباب ثقافتی‘ موسمی یا جغرافیائی ہیں؟

سال 2012ء کے دوران‘ ترکش امریکن ماہر اقتصادیات ڈارون ایکیموگلو (Daron Acemoglu) اور برطانوی ماہر سیاسیات جیمز رابنسن (James Robinson) نے 546 صفحات کی ایک کتاب لکھی‘ جس کا نام تھا ’’قومیں ناکام کیوں ہوتی ہیں: اقتدار خوشحالی اور غربت کے اسباب کیا ہیں‘‘(Why Nations Fail: The Origins of Power, Prosperity and Poverty.) بنیادی سوال یہی ہے کہ جنوبی کوریا اَمیر جبکہ پاکستان غریب کیوں ہے؟ کتاب میں اِس کا جواب موجود ہے۔ زوال کے اسباب میں ثقافت‘ موسم یا پھر جغرافیائی محل وقوع کا کتنا عمل دخل ہے‘ اِس سے متعلق جوابات بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ جس کے مطابق اقوام کا عروج اور زوال اُن کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی اُن کی ثقافت کے سبب ہوتا ہے بلکہ یہ اُن کے مذہب کی وجہ سے ہے۔

قوموں کے زوال کے اسباب ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم پاکستان میں دستیاب قدرتی وسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ’ریکوڈک‘ میں 5.9 ملین (اُنسٹھ لاکھ) ٹن تانبے کے ذخائر ہیں۔ اِسی مقام پر 41.5 ملین (چار کروڑ پندرہ لاکھ) ٹن سونے جیسی قیمتی دھات کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ چنیوٹ کے مقام پر لوہے کے وسیع ذخائر دریافت ہیں۔ تھر میں کوئلے کے 175ارب ٹن کوئلے کے ذخائر بھی غیرمعمولی ہیں۔ قوموں کے زوال کو قطر سے ’16 ارب ڈالر‘ مالیت کی ’مائع گیس (ایل این جی) کا درآمدی معاہدہ بھی نہیں روک سکتا اور سینڈک تابنے و سونے کی کان کنی کے منصوبے تحت 412 ملین (41 کروڑ 20 لاکھ) ٹن مائع دھات کے ذخائر بھی کسی کام کے نہیں۔

قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ 
اس کی وجوہات قوموں کے فیصلہ سازوں کے غلط فیصلے اور اقدامات ہیں یہ زوال تقدیر کی وجہ سے نہیں۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ کسی ملک کی سیاسی قیادت میں یہ تین خوبیاں ہونی چاہیءں کہ وہ لالچی‘ خودغرض اور تاریخ سے بے بہرہ نہ ہوں۔ پاکستان کی کا مستقبل اور اقتصادی خوشحالی بھی قیادت کی انہی تین خوبیوں کے گرد گھومتی ہے۔ قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟ کیا پاکستان کے سیاسی قیادت لالچی ہے؟ کیا پاکستان کی سیاسی قیادت خود غرض ہے؟ پاکستان کے سیاسی قائدین کو تاریخ سے کتنی دلچسپی ہے؟

ماہرین اقتصادیات اور سیاسیات کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جب ہم پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ’’عوام سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں کس قدر شریک ہے۔ وہ لوگ جو سیاسی اداروں کو چلا رہے ہیں کیا وہ تبدیلی اور اصلاحات کی راہیں ہموار کرتے ہیں اور کیا ہمارے سرکاری ادارے ایک دوسرے سے مربوط عوام کی خدمت اولین ترجیح رکھتے ہیں یا اُن کی کارکردگی اور حکمت عملی محدود اور حکمراں طبقے کی فرماں برداری کی حد تک محدود ہے‘‘

پاکستان میں موروثی سیاست حاوی دکھائی دیتی ہے اور اس قسم کی سیاست کا براہ راست تعلق غربت سے ہوتا ہے کیونکہ سیاسی فیصلہ سازی پر چند خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد حاوی رہتے ہیں۔ اِسی موروثی سیاست اور ناخواندگی بھی براہ راست ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

سال 2017ء کی مردم شماری کے عبوری نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کل 30.2ملین خاندان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تین کروڑ سے زائد اِن خاندانوں کا ملک کی سیاسی فیصلہ سازی میں کتنا حصہ ہے جبکہ سیاست پر 1174 خاندانوں کی اجارہ داری بنی ہوئی ہے؟ 

پاکستان میں گذشتہ 45 برس کے دوران 10 مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں موروثی جمہوریت پائی جاتی ہے اُن میں پاکستان کے علاؤہ بنگلہ دیش‘ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ بھارت اُور سری لنکا شامل ہیں۔ عملی یا تجرباتی طرز حکمرانی کے طور پر کئی ممالک میں موروثی سیاست جاتی ہیں‘ جیسا کہ امریکہ میں چھ فیصد‘ ارجنٹینیا میں دس فیصد‘ بھارت میں اٹھائیس فیصد‘ میکسیکو میں چالیس فیصد اور فلپائن میں ’ستر فیصد۔‘ عالمی تنظیم ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اینڈ اکنامک الٹرنیٹیویز‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے دو تہائی منتخب قانون سازوں کا تعلق قریب اُنہی 400 خاندانوں سے ہوتا ہے جو بار بار عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔

پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کی وجہ ’’تقدیر‘‘ نہیں بلکہ یہ فیصلہ سازوں کے طرز انتخاب اور اُن کے لالچی اور خودغرض روئیوں کی بدولت ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور عوام مربوط نہیں رہے اور سرکاری اداروں کو اجتماعی مفاد کی بجائے چند سو خاندانوں کا غلام بنا دیا گیا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, January 21, 2018

TRANSLATION: Another amnesty by Dr Farrukh Saleem

Another amnesty
ٹیکس معافی: ایک مرتبہ پھر!؟
پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں‘ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سال 1958ء کے دوران پہلی مرتبہ محصولات (ٹیکسوں) کی وصولی میں ’عام معافی‘ کا اعلان کیا اُور اِس سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت 71 ہزار 289 افراد کو ’ٹیکس دھندگان (ٹیکس ادا کرنے والوں) میں شامل کر لیا گیا‘ جس کے بعد ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 1.3 ارب ہو گئی۔

سال 1969ء میں جنرل آغا محمد یحیی خان جو کہ پاکستان کے دوسرے فوجی حکمران تھے اُنہوں نے بھی ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لئے ٹیکسوں کی وصولی میں عام معافی کا اعلان کیا اور اِس طرح مزید 19 ہزار 600 افراد کو ٹیکس ادا کرنے والوں میں شامل کر لیا گیا جنہوں نے 92 کروڑ روپے مالیت کے اپنے اثاثے ظاہر کئے۔

سال 1976ء میں پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو‘ جو کہ ملک کے 10ویں وزیراعظم بھی تھے‘ نے ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا جس سے قومی خزانے کو 27 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔
سال 1986ء میں جنرل محمد ضیاء الحق جو کہ پاکستان کے تیسرے فوجی آمر تھے اُنہوں نے بھی ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا لیکن یہ حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت نہ ہو سکی۔ سال 1997ء میں اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف جو کہ پاکستان کے پہلے ایسے وزیراعظم بھی تھے کہ جن کا تعلق کاروباری طبقے تھا‘ ماضی کے حکمرانوں کی طرح ’ٹیکس معافی‘ کے ذریعے 14 کروڑ روپے محاصل لا سکے۔ سال 1999ء میں پاکستان کے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے ملک کی پانچویں ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا جو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ سال 2008ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کا دور حکومت آیا تو اُس کے قیادت اُس وقت کے صدر پاکستان‘ آصف علی زرداری کر رہے تھے اور اُنہوں نے بھی ’ٹیکس معافی‘ کا اعلان کیا لیکن اِس کی ناکامی کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف اور صرف 128 پاکستانیوں کا ملک کے ’ٹیکس نیٹ‘ میں اضافہ ہوا۔

سوال یہ ہے کہ مختلف فوجی اور غیرفوجی حکومتوں کے ادوار میں ٹیکس معافی کے اعلانات ہوتے رہے لیکن اِس کے باوجود یہ حکمت عملیاں ناکام کیوں ہوئیں؟ اِس سوال کا کوئی ایک جواب نہیں ہوسکتا بلکہ اِس کے کئی ایک پہلو ہیں جن میں یہ ’مالی بدعنوانیوں‘ سے جمع کیا جانے والا سرمایہ بھی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں ٹیکس چوری کی مالیت کو سالانہ کھربوں روپے بیان کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک پاکستانیوں کے 90فیصد اثاثوں کا تعلق مالی بدعنوانیوں سے حاصل کردہ سرمائے سے ہے اور یہ اثاثے ٹیکس چوری سے نہیں بنائے گئے ہیں اور جہاں کہیں بدعنوانی سے اثاثے بنائے جاتے ہیں اُنہیں کبھی بھی ظاہر نہیں کیا جاتا چاہے ٹیکسوں کی معافی کی حکمت عملی کتنی ہی وسیع اور مفید ہو۔ مالی بدعنوانیوں کے ذریعے اثاثہ جات بنانے والوں کی ایک مجبوری یہ بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اثاثہ جات ظاہر نہیں کرتے کہ اگر وہ اپنے اثاثے ظاہر کردیں تو یہ مالی بدعنوانی ایک قابل سزا جرم ہے۔

ٹیکس معافی کی حکمت عملی ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں پے در پے ٹیکس معافی کے اعلانات کئے گئے۔ جب لوگوں کو پتہ ہو کہ ہر چند برس بعد ٹیکس معافی کا اعلان ہونا ہے تو وہ کیوں اپنے اثاثے ظاہر کریں بلکہ ہر ٹیکس معافی اعلان کے بعد وہ آئندہ کے اعلان کے منتظر رہتے ہیں اور ٹیکس چوری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ ٹیکس معافی کی حکمت عملی ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ٹیکس دھندگان کا حکومت پر اعتماد نہیں ہوتا اور اُن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ چاہے ٹیکس معافی ہو یا نہ ہو لیکن اُن کے ادا کردہ ٹیکس حکمرانوں کی بدعنوانیوں‘ غلط فیصلوں اور خردبرد کی نذر ہو جائیں گے۔ پاکستان میں حکومت اور ٹیکس ادا کرنے والوں میں عدم اعتماد کی خلیج ہر گزرتے دن وسیع ہورہی ہے اور جس طرح سرمایہ داروں کی ایک تعداد امن و امان کے حوالے سے پاکستان میں رہنے کو محفوظ نہیں سمجھتی بالکل اِسی طرح اپنے سرمائے کو بھی پاکستان میں رکھنا اُنہیں غیرمحفوظ محسوس ہوتا ہے اور پھر جب ٹیکس ادا کرنے کی بات ہوتی ہے تو کوئی عوام اور ملک کی بجائے صرف اور صرف فیصلہ سازوں کی آسائش کے لئے ٹیکس کیوں ادا کرے؟

جس ملک کے سرمایہ دار حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کرتے وہاں ٹیکسوں کا بوجھ اُن طبقات پر منتقل ہو جاتا ہے جن کی مالی حیثیت پہلے ہی کمزور ہوتی ہے۔ حکومتیں اگر ٹیکس معافی کی بجائے ٹیکس وصولی کے قواعد اور ٹیکس وصولی کے اداروں کی فعالیت پر توجہ کریں اور معاشرے کے سرمایہ داروں‘ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں پر بلاامتیاز قواعد لاگو کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بناء ٹیکس معافی کے بھی ٹیکس دھندگان کی تعداد بڑھائی جا سکے لیکن ایسا کرنے کے لئے موجودہ نظام میں موجود خامیوں اور اِن خامیوں کا فائدہ اٹھانے والوں سے بلاامتیاز معاملہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

کیا پاکستان حکومت نے ماضی کی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ 

کیا پاکستان حکومت نے ٹیکس معافی کے طور پر دی جانے والی بار بار کی رعایت کی ناکامی سے کچھ قابل ذکر حاصل کیا ہے؟ اِس سلسلے میں رہنما اور کامیاب اصول موجود ہیں کیا ہمارے حکمران دوسرں کی فہم و فراست اور علم و دانش سے فائدہ اٹھانا پسند فرمائیں گے؟ 

کیا ٹیکس نیٹ بڑھانے اور مالیاتی حکمت عملیاں وضع کرنے کے لئے بیرون ملک ہونے والی تحریر و تحقیق کا مطالعہ کیا جائے گا؟ اِس بارے میں صرف اُمید ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ اُمید پر دنیا قائم ہے! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Friday, January 19, 2018

Jan 2018: Trendy protest as solution!

مہمان کالم
اِحتجاج بر اِحتجاج!
آخر اِحتجاج کے لئے ’شاہراۂ عام‘ بند کرنا ہی کیوں ضروری ہوتا ہے؟ 
یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا تعلق طرزحکمرانی سے زیادہ اُن معاشرتی روئیوں سے ہے‘ جس میں ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں آتیں لیکن ہم دوسروں پر تنقید کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سڑکیں بند کرنے میں پاکستان کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں بلکہ مخالفین پر اپنی طاقت اور عوامی مقبولیت کا رعب ڈالنے کے سڑکیں بند کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں ہی قصوروار نہیں بلکہ ’معاشرتی حیثیت‘ کا تعین بھی اِس بات سے ہوتا ہے کہ کون کتنی بڑی اور اہم شاہراہ بند کرسکتا ہے۔ 

عمومی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی بیاہ‘ خوشی و غم کے تہواروں کے موقع پر شاہرائیں اور مصروف و معروف گلی کوچوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے اور ہونا تو یہ چاہئے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں لیکن وہ سڑکیں بند کرکے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں کہ خلاف ورزی یا سڑک احتجاج کرنے پر احتجاج کرنے والوں سے نمٹا جائے۔ افسوس کہ ہم اپنی خوشی‘ غم اور احتجاج کے موقع پر حواس کھو دیتے ہیں ورنہ کئی ایسے طریقے (حل) بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں‘ جن کے ذریعے سانپ بھی مر سکتا ہے اور لاٹھی بھی بچ سکتی ہے! اپنے پاؤں پر اپنی ہی کلہاڑی مارنا کہاں کی دانشمندی ہے اور اپنے ہی لوگوں کو پریشانی سے دوچار کرنے سے سوائے نفرت اور کیا حاصل ہوسکتا ہے‘ اِس بارے سوچنا بھی تو معمول بنایا جا سکتا ہے۔ جس معاشرے سے سوچنے اور اِس معاشرتی خرابیوں کا پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے غوروخوض کا عمل اٹھ جائے وہاں کے مسائل ہر گزرتے دن بڑھتے چلے جاتے ہیں‘ جیسا کہ ہم اپنے اردگرد مشاہدہ کرتے ہیں۔ سڑکیں بند نہ ہوں‘ راستے بہرحال کھلے رہیں اور معمولات زندگی متاثر کرنے والوں سے بلاامتیاز قانون کے مطابق معاملہ کیا جائے تو اِس سلسلے میں سب سے زیادہ تعاون اور قربانی اُن سیاسی جماعتوں کو دینا ہوگی جن کی قانون ساز ایوانوں میں نمائندگی موجود ہے کیونکہ جب تک قانون کا احترام قانون سازوں کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آئے گا‘ عام آدمی (ہم عوام) اِس جانب متوجہ نہیں ہوں گے۔ رہنمائی کے لئے سپرئم کورٹ آف پاکستان (عدالت عظمیٰ) کے چیف جسٹس کی ایک رولنگ آن دی ریکارڈ ہے کہ ’’سڑک بند کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سترہ جنوری کو ’مال روڈ لاہور‘ پر احتجاجی جلسۂ عام کے انعقاد کی مشروط اجازت دی تو یہ مصلحت تھی کیونکہ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے مشترکہ احتجاج کے لئے پہلے ہی سے سڑک بند کی جا چکی تھی اور تصادم سے بچنے کے لئے عدالت کو ایک ایسا فیصلہ کرنا پڑا‘ جس سے سب کو اُن کی دلی مراد مل جائیں۔ ’پاکستان عوامی تحریک‘ کے مال روڈ پر مذکورہ احتجاجی جلسے میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت شریک ہوئی جو انوکھی بات تھی۔ اس موقع پر لاہور میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان پوسٹرز اور بینرز لگانے کے حوالے سے مقابلہ بھی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا۔ یہ (غیرترقیاتی) اخراجات اگر اِن جماعتوں نے خود سے کئے ہیں تو بڑے دل گردے کی بات ہے۔ 

مذکورہ احتجاج انتہائی افسوسناک ’’سانحۂ ماڈل ٹاؤن‘‘ کے چودہ شہداء کے لئے انصاف کی پکار ہے مگر اِس سانحے پر آنسو بہانے والے برقی قمقموں اور رنگ برنگی روشنیوں جلا کر احتجاج کیوں کرتے ہیں؟ احتجاج میں موسیقی (ترانے اور نغمے) کیوں بجائے جاتے ہیں اور احتجاج کے شرکاء کا لہو گرمانے کے لئے بلند ترین آواز میں جدید ساؤنڈ سسٹم کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے!؟

لاہور ہائی کورٹ سال دوہزارگیارہ میں شاہراۂ قائداعظم پر مفاد عامہ کے تحت جلسوں جلوسوں پر پابندی عائد کرچکی ہے لیکن اِس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی بجائے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا جس سے آئین و قانون پر عملداری کا تاثر پختہ نہیں ہوا‘ بلکہ ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ہے! پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی قابل ذکر اور بڑی جماعتیں شامل ہوئیں‘ اُن کے آپسی نظریات میں سیاسی یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے۔ 

سیاست میں پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف اور نواز لیگ ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت کی ایک تکون بنی ہوئی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک پہنچے ہوئے ہیں لیکن لاہور میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے مل کر احتجاج میں شرکت کی‘ جبکہ عین اسی موقع پر بدین میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری‘ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو للکار رہے تھے!

پاکستان کی سیاست تضادات کا مجموعہ ہے۔ 
سیاست دان ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن درپردہ اُن کے مفادات اور مقصد ’اقتدار کا حصول‘ ہے‘ جس پر اُنہیں کوئی ندامت یا شرمندگی بھی نہیں۔ کیا پاکستان کا عام آدمی (ہم عوام) خاموش تماشائی بن کر قومی وسائل کی تباہی و بربادی کا نظارہ یونہی کرتا رہے گا؟ کیا ہمیں اِس ’’طرزِ اِحتجاج‘‘ پر ’’اِحتجاج‘‘ نہیں کرنا چاہئے‘ جس سے مسائل حل نہیں بلکہ اُن کی شدت بڑھ رہی ہے۔ حب الوطنی کے تقاضے عملی اِظہار چاہتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ سے توقع ہے کہ پاکستان میں انصاف کی ’’بلاامتیاز‘‘ فراہمی‘ قانون کے ’’بلاامتیاز‘‘ نفاذ اور ’’بلاامتیاز‘‘ تعمیروترقی کے ذریعے ملک سنوارنے جیسے اہداف بھی پیش نظر رکھیں۔
۔

Jan 2018: Weapons and peace in society!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جان کی اَمان!
حکومتِ پاکستان نے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے علاؤہ ممنوعہ بور کا ’خودکار‘ اسلحہ رکھنے کو ’’ممنوع‘‘ قرار دیا ہے اور اِس سلسلے میں ’چھبیس دسمبر دوہزار سترہ‘ کو جاری کئے گئے حکمنامے کے ذریعے پورے ملک میں ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس منسوخ کر دیئے گئے ہیں جبکہ اِن لائسینسوں کی تبدیلی کی حتمی تاریخ رواں ماہ کا اختتام مقرر کی گئی ہے۔ 

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے اِس انتہائی اقدام کے سب سے زیادہ منفی اثرات خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں پر مرتب ہوں گے کیونکہ یہاں امن و امان کی صورتحال ملک کے دیگر حصوں کی نسبت مثالی و یقینی نہیں لیکن کیا ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنا اِس بات کی ضمانت ہو سکتا ہے کہ منظم جرائم پیشہ عناصر یا عسکریت پسند اپنی وارداتیں ترک کر دیں گے؟ اگر معاشرے کے ہر شخص کو اپنا دفاع خود ہی کرنا ہے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کس مرض کی دوا ہیں؟ کیا معاشرے میں صرف اُنہی افراد کو محفوظ رہنے کا حق حاصل ہے جو لاکھوں روپے مالیت کا خودکار اسلحہ اور بھاری فیسوں کے عوض انہیں رکھنے کی مالی سکت رکھتے ہیں؟ وہ عام لوگ (ہم عوام) جن کے پاس اسلحہ خریدنے کی مالی سکت ہی نہیں‘ اُن کی جان و مال کا محافظ کون ہے؟ ایسے بہت سے سوالات سنجیدہ غوروخوض کے متقاضی ہیں!

ایک ایسے پاکستان کا تصور کیجئے جو ہر قسم کے اسلحے سے پاک ہو۔ آبادی کے مراکز امن و امان کی مثال ہو۔ شہر ’’مدینۃ الفاضلہ‘‘ ہوں لیکن اِس مشکل کام کی بجائے فیصلہ سازوں نے اِس بات کو زیادہ آسان سمجھ لیا کہ بااثر اور سرمایہ داروں کو ممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس جاری کر دیئے جائیں اور یوں اسلحہ رکھنا کسی شخصیت کے معاشرے میں اہم (وی آئی پی) ہونے کی نشانی بھی بن گیا!

وفاقی حکومت نے تمام ممنوعہ بور اسلحہ لائسینس رکھنے والوں کو حکم دے دکھا ہے کہ وہ منظورشدہ اسلحہ ڈیلرز یا اسلحہ سازوں کے ذریعے اپنا خودکار اسلحہ تبدیل کروائیں۔ اِس سلسلے میں اسلحہ فروخت کرنے والوں اور اسلحہ سازوں کو بھی حکم دیا گیا تھا کہ وہ متعلقہ ضلعی پولیس آفیسر‘ ڈپٹی کمشنر‘ ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر‘ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا پھر پولیٹیکل ایجنٹ سے اجازت لینے کے بعد اسلحہ تبدیلی کریں اور یہ عمل رواں ماہ کے اختتام (31 جنوری2018ء) تک بہرصورت مکمل ہو جانا چاہئے۔ 

حکومت کی جانب سے خودکار بندوق کی قیمت 50 ہزار جبکہ خودکار پستول یا ہینڈ گن کی قیمت 20ہزار روپے مقرر کی گئی۔ اگر خودکار اسلحہ کے مالک مذکورہ متعلقہ حکام میں سے کسی کے دفتر میں اپنا خودکار اسلحہ جمع کرواتے ہیں تو اُنہیں یہ قیمت ادا کی جائے گی۔ تعجب خیز ہے کہ خودکار درآمد شدہ بندوق کی قیمت پانچ سے دس لاکھ کے درمیان تک ہو سکتی ہے لیکن اُسے حکومت کو واپس کرنے کی صورت پچاس ہزار روپے ادا کئے جائیں گے۔ اِسی طرح کون پسند کرے گا کہ وہ ایک سے پانچ لاکھ روپے مالیت کا خودکار پستول بیس ہزار روپے کے عوض حکومت کے حوالے کر دے! 

اسلحہ لائسینسوں کی تبدیلی اور اُن کی ردوبدل کا اختیار ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کو دیا گیا ہے۔ یہ پورا قضیہ اِن دنوں ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے دو رکنی بینچ (جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس محمد ایوب خان) کے سامنے پیش نظر ہے جنہوں نے ’سترہ جنوری دوہزاٹھارہ‘ کے روز ’وفاقی وزارت داخلہ‘ سے ممنوعہ بور اسلحہ لائسینسوں کو ممنوع قرار ختم کرنے آئندہ دو ہفتوں میں وضاحت طلب کی ہے۔

پاکستان میں قریب 90 ہزار ممنوعہ بور کے خودکار ’اسلحہ لائسینس ہولڈز‘ ہیں لیکن چونکہ اِن لوگوں نے باضابطہ اور قانون کے مطابق اسلحے کی ملکیت رکھنے کے اجازت نامے حاصل کر رکھے ہیں‘ اِس لئے اِنہیں سماج دشمن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جان کی امان چاہتے ہوئے عرض ہے کہ معاشرے میں اسلحہ رکھنے کا رجحان اور طلب کی وجہ وہ افراد (عناصر) ہیں‘ جنہوں نے اسلحہ جرائم اور دہشت گردی کے لئے خرید رکھا ہے اور خیبرپختونخوا و ملحقہ قبائلی علاقوں میں آج بھی ممنوعہ سے انتہائی ممنوعہ اور بھاری ہتھیاروں کی خریداری ناممکن یا مشکل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ اسلحے کی فروخت کی یہ منڈیاں اور امکانات ختم کئے جا سکیں۔ یقیناًایک مرحلے پر پہنچ کر پورے پاکستان میں ہر قسم کا اسلحہ ممنوع قرار دینے میں کوئی حرج (مضائقہ) نہیں لیکن اُس سے قبل وفاقی حکومت کو اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ’اسلحے کی خریدوفروخت کے اُس غیرقانونی کاروبار پر پوری قوت سے ہاتھ ڈالنا ہوگا‘ جو اربوں روپے مالیت کا دھندا ہے اور اِس میں ملوث افراد سیاسی اثرورسوخ و غیرمعمولی مالی حیثیت کے مالک ہو چکے ہیں۔ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری اہلکاروں کی مالی حیثیت کا اگر احتساب کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ ذاتی مفادات کے لئے پاکستان کو غیرمحفوظ بنانے والوں میں کتنے اعلیٰ سرکاری اہلکار شامل ہیں۔ 

ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے والے اگر رواں ماہ کے اختتام سے قبل اپنا اسلحہ لائسینس ممنوعہ بور سے تبدیل نہیں کراتے تو اُن کے لائسینس منسوخ کرنے جیسے انتہائی اقدام کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جبکہ سانحۂ آرمی پبلک سکول (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کے بعد بڑے پیمانے پر صرف تعلیمی اِداروں کے محافظین ہی کو نہیں بلکہ مالکان اُور اساتذہ کرام کو بھی اسلحہ استعمال کرنے کی خصوصی تربیت اور لائسینس جاری کئے گئے تھے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ تھا جبکہ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں کو اِس قسم کے کسی موقع غنیمت کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ اراکین اسمبلی کے ذریعے ممنوعہ بور کے خودکار لائسینس حاصل کر لیتے ہیں۔ 

اُنیس سو اٹھاسی سے قومی سیاست میں حصہ لینے والے شاہد خاقان عباسی جب ’اگست دوہزار سترہ‘ میں وزیراعظم بنے تو اُنہوں نے جن اہم مسائل کے بارے میں قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کیا‘ اُن میں ممنوعہ و غیرممنوعہ بور کے اسلحہ لائسینس کا معاملہ بھی شامل تھا اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ’آرمز فری‘ ملک ہو‘ جہاں اسلحہ صرف اور صرف قانون نافذ کرنے کے اِداروں کے اہلکاروں کے پاس ہونا چاہئے۔ یہ تعمیری اور خوش آئند تصور ہے کیونکہ پاکستان کے تناظر میں بات ہو رہی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ اَسلحہ ساخت کے لحاظ سے چاہے ممنوعہ ہو یا غیرممنوعہ‘ بہرصورت اِس کی ملکیت و نمائش ’ممنوع‘ ہونی چاہئے اور یہی امر وسیع بنیادوں پر امن کی ضمانت بن سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر خاص و عام‘ کی زبان اور اسلحے کی شرانگیزیوں سے دوسرے محفوظ و مامون رہیں۔
۔

Thursday, January 18, 2018

Jan 2018: Ever changing political ideas!

مہمان کالم
نت نئے سیاسی تصورات!
گردش زندگی کی علامت ہے اور سیاست کا محور مفادات ہوتے ہیں! 

پاکستان عوامی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی نظریں صوبہ پنجاب کے طول و عرض میں اُس ’بریلوی ووٹ بینک‘ پر جمی ہیں‘ جو رواں برس متوقع عام انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب تک کے ضمنی انتخابی نتائج سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ اگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں اتحاد کر لیں تو ’بریلوی ووٹ بینک‘ کسی بھی انتخابی مقابلے کے نتائج اُلٹ پلٹ سکتا ہے۔ 

غیرفطری انتخابی اتحاد میں پاکستان کے لئے ’’اچھی خبر‘‘ تلاش کرنے والے عام آدمی (ہم عوام) کو آئندہ عام انتخابات سے بھی مایوسی ہی ہاتھ آئے گی کیونکہ موجودہ انتخابی و پارلیمانی نظام سے اُمیدیں وابستہ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے اور نت نئے سیاسی تصورات سے کوئی اِتفاق کرے یا نہ کرے لیکن آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اُن میں ’بھٹو‘ کی روح منتقل ہو چکی ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا یہ دعویٰ غیرمعمولی ہے گویا بھٹو کی ’روح‘ وہ آخری ’قیمتی چیز‘ تھی جس کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا مگر اب اُس پر بھی آصف علی زرداری کی دعویداری سامنے آگئی ہے اور ایک طبقے کا خیال ہے کہ ’’بھٹو کی جائیداد اور خاندان کی طرح اُن کی روح پر بھی قبضہ ہوگیا ہے۔‘‘ اِس سے پہلے بھٹو کی سیاست‘ ملک گیر بڑی سیاسی جماعت‘ آبائی ملکیت و جائیداد‘ بھٹو کی ذات‘ نعرے‘ بھٹو کے شیدائی‘ حتیٰ کہ جیالے بھی زرداری کے قابو آچکے ہیں!

بھٹو کی روح کسی انسان میں آنے سے کئی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ کیا پتہ اِسی روح کی بدولت مستقبل قریب میں ’آصف علی بھٹو زرداری‘ جیسا نام سننے کو ملے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ چند ہفتوں‘ مہینوں یا ایک دو سال روح کی سینیارٹی دیکھ کر آصف علی زرداری خود کو پورے کا پورے ذوالفقار بھٹو ہی سمجھ بیٹھیں اور کسی دن اسٹیج سے اعلان ہوکہ ہم نہ کہتے تھے کہ ’’بھٹو زندہ ہے‘‘ لو جی میں وہی بھٹو ہوں جو آپ کے سامنے زندہ کھڑا ہے!

آصف علی زرداری کو پاکستان کے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خودساختہ اعزاز اُن کے وسیع مطالعے کا نچوڑ ہے۔ جنوبی افریقہ کے لوگ ’منڈیلا‘ کو ادب سے ’مادیبا (معزز بزرگ)‘ پکارتے ہیں۔‘ پچانوے برس کی عمر میں ’5 دسمبر 2013ء‘ کے روز فوت ہونے والے ’سیاہ فام مادیبا‘ کی تدفین آبائی گاؤں ’’کونو (Qunu)‘‘ میں کی گئی جبکہ شہید ذوالفقار بھٹو گڑھی خدا بخش میں مدفون ہیں۔ اب یہ معلوم نہیں کہ جب زرداری (پاکستانی مادیبا) بھٹو کی روح سے متعلق اِعلان کر رہے تھے تو جنوبی اَفریقہ کے مادیبا اُور گڑھی خدا بخش کی قبروں میں زیادہ بھونچال کہاں آیا ہوگا!

کسی سیاست دان میں سیاستدان ہی کی روح کا سرائت کرنا نئی بات نہیں‘ کچھ اِس کا اعلان کردیتے ہیں اور کچھ اپنے اعمال سے ظاہر کردیتے ہیں مثلاً میاں نواز شریف میں کس کی روح ہے؟ جی بالکل آپ کا جواب درست ہے لیکن میاں صاحب اب اِس روح سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں‘ جسے ’’چودھری نثار‘‘ نے مرشد بنا رکھا ہے۔ اِس تناظر میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کی روحیں بھی تحقیق چاہتی ہیں‘ جن کا سیاسی سفر نظریاتی تضادات کا مجموعہ ہے! سچ تو یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جس نے سیاست کو پیروں کی گدیوں‘ وڈیروں کی خوابگاہوں‘ نوابوں کے ڈیروں‘ سرداروں کے بنگلوں اُور بڑے بڑے ڈرائنگ رومز سے نکال کر گلی کوچوں میں عام کردیا۔ وہ بھٹو جس نے عوام کو زبان دی‘ ووٹ کا حق دیا‘ پاکستان کو آج بھی اُس بھٹو کی ضرورت محسوس کرنے والوں نے جس جسم کا اِنتخاب کیا ہے وہ عوامی سیاست کو پھر سے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دے گا۔ 

بھٹو کی محنت اور قربانیوں کا یہ صلہ ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ہم اُنہیں کسی ایسے شخص کے روپ میں دیکھیں جو پانچ سال تک صدر ہونے کی وجہ سے استثنیٰ کی چھتری تلے چھپا رہا اور اندرون و بیرون ملک اثاثہ جات اور وسائل سے بڑھ کر مالی حیثیت کے مالک ہیں۔ بھٹو وہ عظیم سیاسی کردار تھا‘ جس پر لفظ سیاست دان کا پورا اطلاق ہوتا تھا۔ اُنہوں نے ’اقتدار اور کرسی کو لات مار کر‘ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا لیکن اُن کی ذات اور روح کی ترجمانی کے دعویدار ایوانِ صدر میں پانچ برس تک عوام سے روپوش رہے۔ اِس ’مرحلۂ فکر‘ پر جس ’بے چین وجود‘ کی بات ہو رہی ہے‘ اُس نے پیپلز پارٹی کو ’کراچی سے کشمیر‘ تک پھیلانے کے بعد سمندر کوزے میں بند کردیا ہے اور اب پیپلز پارٹی کی حالت سب کے سامنے ہے‘ جسے طاہرالقادری جیسے کندھے کی ضرورت پڑ گئی ہے!

’بھٹو کا نعرہ‘ گونج رہا ہے‘ روح بھی آ گئی ہے لیکن وہ منشور‘ فکر‘ پروگرام اُور دانش کہاں چلی گئی‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کا مفاد اور اُمیدیں وابستہ ہیں!؟ 

سیاست کی سیڑھی ہے‘ جھوٹے وعدے ہیں‘ جھانسے اور تمام راستوں کا اختتام ایوانِ اقتدار پر ہوتا ہے۔ اِس کے لئے اقدار‘ اصول سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ اب تو پیپلز پارٹی پر ایسا وقت آگیا ہے کہ بھٹو کی روح کے دعویدار کے سامنے طاہر القادری بھی اِس دور کے نوابزادہ نصراللہ بن چکے ہیں‘ یہ وہ تیسری روح ہے جو اِن دنوں تڑپ اُٹھی ہوگی۔ طاہر القادری کسی تعارف کے محتاج نہیں جنہیں ماڈل ٹاؤن سانحے کی صورت ایک نادر موقع ہاتھ آ گیا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آصف علی زرداری تو خود اپنا جسم عطیہ کرچکے ہیں‘ تو اُن کی رحلت کے بعد بھٹو کی روح کا کیا بنے گا؟
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-01-18

Jan 2018: Justice for APS

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سفر در سفر: انصاف کی تلاش!
’سانحہ دَر سانحہ‘ یہ ہے کہ ’سولہ دسمبر دوہزار چودہ‘ سے ’سولہ جنوری دوہزار اَٹھارہ‘ (تین سال ایک ماہ یا ایک ہزار ایک سو ستائیس دن) کے سفر میں ’آرمی پبلک سکول ’اے پی ایس‘ (پشاور)‘ پر دہشت گرد حملے کے حقائق منظرعام پر نہیں آ سکے ہیں! متاثرہ والدین کے زخم تازہ اور غم زدہ خاندانوں کے آنسو خشک نہیں ہو رہے کیونکہ تفتیشی اِدارے ’پراسرار خاموشی‘ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اِس سکوت کو توڑنے کی کوشش میں ’پشاور ہائی کورٹ (عدالت عالیہ)‘ سے رجوع کیا گیا تو دو رکنی بینچ (جسٹس روح الامین اور جسٹس یونس تھیم) نے سولہ جنوری دوہزار اٹھارہ کے روز خیبرپختونخوا حکومت اور صوبائی پولیس کے ادارے کو حکم دیا ہے کہ وہ اکتیس جنوری تک ’سانحۂ اے پی ایس‘ کے حوالے سے ہوئی تحقیقاتی پیشرفت عدالت میں پیش کریں۔‘‘ جسٹس روح الامین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اے پی ایس حملے سے متعلق تفتیشی عمل کو یہ کہتے ہوئے ’معطل‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ یہ حساس معاملہ ہے۔‘ حقیقت تو یہ ہے کہ حساس معاملات زیادہ تفتیش اور تحقیقات کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن جس ایک سانحے میں ایک سو سے زائد معصوم بچوں کو قتل کر دیا گیا ہو اور جس انداز میں خاص تعلیمی ادارے کونشانہ بنایا گیا ہو‘ اُس حملے کے جملہ کردار‘ منصوبہ بندی اور عملی جامہ پہنانے میں سہولت کار عوامل کے بارے میں تفصیلات جاننا نہ صرف متاثرہ والدین بلکہ ہر اُس پاکستانی کا حق ہے‘ جس نے بچوں کے اِس ’’قتل عام‘‘ کا دُکھ اپنے دل کے نہایت ہی قریب محسوس کیا اور آج بھی بچوں کی یاد میں اُس کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ’سانحۂ اے پی ایس‘ کے بعد کئی ہفتے ذرائع ابلاغ اُس بدقسمت دن کی یاد میں شریک رہے۔ قومی سطح پر رونے دھونے کا عمل جاری رہا۔ تفریحی ٹیلی ویژن کے ’مارننگ شوز‘ سے لیکر صحافتی ٹیلی ویژن کے نشرئیوں تک‘ ہر پروگرام کا اختتام حقائق جاننے کے مطالبے پر ختم ہوتا تھا لیکن افسوس کہ ابھی معصوم قبروں پر پڑی ہوئی مٹی پوری طرح خشک بھی نہیں ہوئی کہ اُن قربانیوں کو بھلا دیا گیا‘ جو انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لئے رہنما ثابت ہو سکتیں تھیں۔ اَصولی طور پر ’سانحۂ اے پی ایس‘ کی برسی کے موقع پر ہی تفصیلی تفتیشی رپورٹ جاری کر دینی چاہئے تھی لیکن شاید یہ سوچتے ہوئے وقت گزارنے کو ترجیح دی گئی کہ دیگر سانحات کی طرح قوم اِسے بھی (جلد یا بدیر) بھلا ہی دے گی!

جسٹس روح الامین کے یہ الفاظ حقائق کی پورے پاکستان کی ترجمانی کرتے ہیں کہ ’’اے پی ایس میں شہید ہونے والے ’قوم کے بچے‘ تھے جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا اور قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اب تک متاثرہ خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟‘‘ عدالت عالیہ کے روبرو درخواست گزاروں (اجون خان اور فضل خان) کی جانب سے سینیئر وکیل عبدالطیف آفریدی نے مؤقف پیش کیا کہ ’’سانحۂ اے پی ایس کی بذریعہ ’جوڈیشل کمیشن‘ تفتیش چاہتے ہیں‘ اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر نیا مقدمہ (ایف آئی آر) درج کیا جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر کم سے کم متاثرہ خاندانوں کے بیانات ہی قلمبند کئے جائیں۔‘‘ 

سچ تو یہ ہے کہ اب تک متاثرہ خاندان کے کسی ایک بھی فرد کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا اور اِس کوتاہی کی صرف صوبائی ہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی یکساں ذمہ دار ہے۔ بنیادی سوال اب بھی وہی ہے کہ اگر حملہ آوروں کی تعداد صرف سات تھی تو اُن پر قابو پانے میں اس قدر وقت کیوں لگا؟ حملہ آور سکول کے اندر گھنٹوں کس طرح دہشت گردی کرتے رہے اور وہ اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کا باعث کیسے بنے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ایک سے زائد اِدارے مبینہ طور پر چند منٹ میں اُن کے سروں پر پہنچ چکے تھے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر فوج کا اپنا تعلیمی ادارہ اِس قدر غیرمحفوظ تھا تو دیگر تعلیمی ادارے کس طرح سیکورٹی کے اُس کم سے کم معیار پر پورا اُترتے ہیں‘ جہاں ہم انہیں محفوظ قرار دیا جا سکے؟

’سانحۂ اے پی ایس‘ نے پشاور پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے ہدف کے انتخاب سے کئی ہفتوں تک منصوبہ بندی اور بعدازاں حملہ آوروں کو سکول تک پہنچنے کی رہنمائی اور معاونت کو عملی جامہ پہنایا لیکن ہمارے خفیہ ادارے اِس پوری منصوبہ بندی سے لاعلم رہے! اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دہشت گرد ہمارے تربیت یافتہ اور ہر قسم کے وسائل‘ اختیارات و مراعات رکھنے والوں اہلکاروں سے ’زیادہ منظم‘ ہیں‘ جن کے ’نیٹ ورک (پنجے)‘ ہمارے شہری علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں! 

’سانحۂ اے پی ایس‘ کے بارے میں تفتیش نہ کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ اِس سے پولیس اور بالخصوص خفیہ اداروں کی نااہلی دستاویزی طور پر ظاہر ہو جائے گی۔ دہشت گردوں نے تو جو کچھ ثابت کرنا تھا وہ کرچکے ہیں‘ محل تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اِدارے اپنی صلاحیت‘ اہلیت اور قابلیت ثابت کرتے اور اے کاش کہ ایسا ہوتا۔ متاثرہ والدین یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ عمومی پولیس کے علاؤہ ’انسداد دہشت گردی‘ کے لئے خصوصی تربیت یافتہ دستے اُس بدقسمت دن (سولہ دسمبر دوہزار چودہ) کہاں تھے؟ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس کے چاق و چوبند اور انتہائی تربیت یافتہ اہلکاروں کو اہم شخصیات (وی وی آئی پیز)‘ اُن کے اہل خانہ اور رہائشگاہوں کی سیکورٹی کی حد تک محدود رکھا گیا ہے؟ سوالات کی جو گونج ’عدالت عالیہ‘ میں جا پہنچی ہے اُس میں سرکاری اِداروں کا شرمناک کردار بھی واضح ہے کہ متاثرہ والدین کو اَب تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ’سانحۂ اَے پی اَیس‘ کی تفتیش ’دراصل کس کی ذمہ داری ہے۔‘ صوبائی حکومت خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ وفاق معاملے کو صوبائی حکومت کی طرف اُچھال چکا ہے اور خصوصی فوجی عدالتیں جو کہ انسداد دہشت گردی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں‘ عام آدمی کی دسترس میں نہیں کہ اُن سے کچھ بھی پوچھا جا سکے۔ کیا ’اے پی ایس‘ کے شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں تصور کی جائیں؟ کیا متاثرہ خاندانوں کی تسلی و تشفی ہو پائے گی؟ اِنصاف کے منتظر صرف ’سانحہ اے پی ایس کے متاثرین نہیں بلکہ پورا پاکستان ہے!

’’خنجر بیداد کو کیا دیکھتے ہو دم بدم ۔۔۔ 
چشم سے انصاف کی سینے ہمارے دیکھیے۔ (میر تقی میرؔ )‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-01-18

Wednesday, January 17, 2018

Jan 2018: Crimes against kids - SOLUTION is education!

کالم کہانی
خاموشی: علاج غم!
پاکستان اَبھی ’قصور سانحے‘ کے صدمے ہی سے باہر نہیں آیا کہ اِس قسم کے مزید افسوسناک واقعات تسلسل سے رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں! جس کی بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی ہے۔ ماضی میں اِس قسم کے واقعات رپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے تاثر عام ہوا کہ جیسے سب ٹھیک ہے لیکن بچوں کے خلاف جرائم ہر حد سے تجاوز کر چکے ہیں!

منڈی بہاؤ الدین میں نوعمر لڑکوں سے زیادتی کی ویڈیو بنانے والے گروہ کا انکشاف‘ جو بچوں سے زیادتی کے بعد بھتہ وصول کرتا تھا۔ سانگلہ ہل میں دس سالہ لڑکے سے زیادتی‘ کراچی میں پانچ انسان نما درندوں کی تیرہ سالہ لڑکی سے تین روز تک زیادتی‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کنجوال‘ سیالکوٹ اور کامونکے میں آٹھ سالہ لڑکی اور تین لڑکے ہوس کا نشانہ بنے۔ ایک ہفتے کے دوران منظرعام پر آنے والے اِن چند واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچے محفوظ نہیں اور یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہوچکا ہے جو سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔

تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ماضی کی طرح بچوں کے خلاف جرائم پر خاموشی اختیار کرکے اِس معاملے کو حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ حکومتی اداروں‘ پولیس اور سماجی مصلحین کو مل بیٹھ کر کوئی ایسا قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا‘ جو اسلامی تعلیمات‘ روایات و ثقافت اور ایک ایسے کم خواندہ معاشرے میں مزید تخریب (خرابی) کا باعث نہ بنے‘ کیونکہ مغربی افکار سے متاثر افراد کی کوشش ہے کہ فوری طور پر جنسی موضوعات سے متعلق تعلیم کو نصاب کاجز بنا دیا جائے لیکن ایسا کرنے کے اثرات اور مضمرات بھی دیکھنا ہوں گے اور کیا ہمارے ہاں معلم اس قدر تربیت یافتہ ہیں کہ وہ اپنا کردار ادا کرسکیں؟

سوچنا ہوگا کہ ماضی میں مغربی اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے تیارکردہ پروگراموں کو پاکستان میں کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے تشہیر کی اجازت دی گئی۔ ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) غیرقانونی ہونے کے علاؤہ سرعام فروخت ہوتا رہا۔ بھارتی نشریات آج بھی پورے ملک میں دیکھی جا رہی ہیں اور اب جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے بظاہر پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن پاکستانی تفریحی چینلز پھر بھی بھارتی ثقافت اور اُن موضوعات کو عام کر رہے ہیں‘ جو ایک خاص معاشرے‘ خاص آمدن اور خواندگی کی ایک خاص سطح پر رہنے والوں سے متعلق ہیں۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ’ڈی ٹی ایچ‘ پر پابندی کے اطلاق کو کس طرح مؤثر بناتی ہے اور جو پاکستانی چینلز بھارتی مواد (پروگرام) نشر کر رہے ہیں‘ اُنہیں کس طرح قواعد و ضوابط کے سخت گیر اطلاق سے باز رکھا جا سکتا ہے۔

بچوں کے خلاف عمومی و خصوصی جرائم کا تعلق کسی ایک صوبے‘ شہر یا طبقے سے نہیں بلکہ یہ ملک گیر مسئلہ ہے‘ جس کا تعلق ’تربیت‘ سے ہے اور ہمارے ہاں سارے کا سارا زور ’تعلیم‘ پر مرکوز ہے۔ معاشرے کی کسی بھی سطح پر ’بچوں کی تربیت‘ اور انہیں لاحق خطرات کے بارے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کی جاتی۔ بچوں کو تحفظ دینے کے لئے جہاں خصوصی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی ہونے لگی ہے وہیں پولیس کی اصلاح کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔

ماضی میں جرائم پیشہ عناصر کو پولیس کا خوف ہوا کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں رہا بلکہ منظم جرائم میں پولیس اہلکاروں اور وسائل کے ملوث ہونے کی خبریں معمول بن چکی ہیں۔ کئی ایسے پولیس اہلکاروں کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے‘ جنہوں نے اپنے پیشے کی تعظیم نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر تھانے‘ کچہری اور جیل کا خوف محسوس نہیں کر رہے۔ پولیس ایسی ہونی چاہئے کہ وہ مستعدی سے مجرم کو عین اس وقت دبوچنے کی صلاحیت رکھتی ہوجب جرم کا ارتکاب ہورہا ہو۔ اِس سلسلے میں خفیہ اداروں کے نیٹ ورک کی فعالیت اور کسی علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں پر مستقل نظر رکھنے کو ماضی کی طرح معمول بنانا ہوگا۔

صوبائی دارالحکومت لاہور سے قریب چالیس منٹ کے فاصلے پر قصور شہر کا ’’زینب کیس‘‘ آٹھ روز گزرنے کے باوجود بھی حل نہیں ہوسکا جبکہ ایک سے زیادہ ’سی سی ٹی وی‘ ویڈیوز بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں مجرم کا چہرہ شناخت کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلتی برائیوں کی روک تھام اور بالخصوص بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سماجی سطح پر رویئے تبدیل کرنے کے لئے مساجد‘ عمومی تعلیمی درسگاہوں اور ذرائع ابلاغ سے استفادہ ہونا چاہئے۔ قابل غور ہے کہ چند عشرے پہلے تک معاشرے کی ہر سطح پر جو اُنس پایا جاتا تھا وہ اَب دیکھنے میں آرہا۔ برسوں ساتھ رہنے کے باوجود بھی آج ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہمسائے میں کون رہائش پذیر ہے یا اُس کا ذریعۂ معاش کیا ہے۔

ماضی کے گلی محلوں میں ایسے بزرگ ہوا کرتے تھے‘ جن کی ہر آنے جانے والے اور گردوپیش پر نظر رہتی بلکہ ایسے بزرگوں کی موجودگی پورے سماج کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی تھی اور لوگ مشکل میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے لیکن پھیلتے شہروں نے رشتوں اور رشتے داریوں کو سمیٹ دیا ہے۔ آج بھرے بازار‘ دن دیہاڑے اور آنکھوں کے سامنے وارداتیں ہورہی ہیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا‘ جب تک اس سلسلے میں معاشرتی اور ریاستی سطح پر ہمہ گیر اقدامات نہیں کئے جائیں گے۔

بچے اور بچیاں زیادتی کا شکار اور زندگی سے ہاتھ دھوتی رہیں گی۔ جمہوری اسلامی ایران کی طرح بچوں کے خلاف جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے جیسی عبرت ناک سزا رائج کرکے بھی قانون کا خوف مستحکم بنایا جا سکتا ہے جس کے لئے قانون سازی بہرصورت حکومت کی معاونت سے ہماری مقننہ ہی نے کرنی ہے لیکن افسوس کہ قانون ساز ایوانوں کے اراکین کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا پھر اپنی اپنی سیاست بچانے سے آگے سوچنے کی فرصت نہیں!
۔

Jan 2018: Tourism & Tourism Development

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیاحت: بحالی اُور ترقی!
خیبرپختونخوا میں ’سیاحتی ترقی‘ کے لامحدود اِمکانات تو موجود ہیں‘ تاہم نئے مقامات متعارف کرانے کی بجائے ہم تاحال اِس قابل نہیں ہو سکے کہ پہلے سے موجود مقامات ہی کو اُن کی اہمیت کے مطابق مکمل بحال کر سکیں‘ بالخصوص وہ سیاحتی مقامات جنہوں ماضی میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا‘ اُن کی بحالی تو اوّلین ترجیح ہونی چاہئے تھی۔ اِس موقع پر امریکہ کی جانب سے دی جانے والی وہ ’’33 ارب ڈالر‘‘ کی اِمداد بھی یاد آ رہی ہے‘ جس کا ایک بڑا حصہ دہشت گردی سے ہوئے نقصانات کے ازالے کے لئے ادا کیا گیا لیکن بدقسمتی سے یہ معلوم ہوسکا کہ اِس قدر خطیر رقم کس کنویں میں ڈال دی گئی!

سوات کا معروف سیاحتی و تفریحی مقام ’مالم جبہ‘ اپنی نوعیت کا منفرد اور قدرتی طور پر ایسی خوبیوں کا مجموعہ ہے کہ یہاں کی ایک مرتبہ سیر کرنے والے بار بار آنے سے خود کو نہیں روک سکتے۔ ’مالم جبہ‘ کی بحالی کا وعدہ تو پورا کر دیا گیا ہے جہاں کی رونقیں بھی بحال ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں اور سیاحوں کی بھیڑ اِس قدر دیکھنے میں آ رہی ہے کہ سکون اور خاموشی کی تلاش میں یہاں آنے والوں کومایوسی ہوتی ہے۔ درحقیقت ہمارے معاشرتی رویئے اِس قسم ہیں کہ جہاں لکھا ہو کہ یہاں ہارن بجانا منع ہے‘ وہیں سب سے زیادہ ہارن بجائے جاتے ہیں۔ جہاں ’نو پارکنگ‘ لکھا ہو وہیں گاڑیاں کھڑی ملتی ہیں! ایسی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی ہیں جن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جسمانی معذوروں کے لئے پہلے تو جگہیں مختص نہیں کی جاتیں اور جہاں ایسا کیا بھی جاتا ہے تو اُس کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ 

مالم جبہ سمیت صوبائی حکومت گلیات اور دیگر سیاحتی مقامات پر جہاں کہیں بھی ترقی کر رہی ہے اُس میں خصوصی (معذور) افراد کی ضروریات اور سہولیات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہئے۔

سوات میں امن و امان کی بحالی سے معمولات زندگی تیزی سے بہتر ہو رہے ہیں۔ مقامی لوگوں کے ساتھ سیاحوں کا اعتماد بھی بڑھ رہا ہے اور اِس کارنامے کا سہرا ’پاک فوج‘ کے سر ہے‘ جس کی منظم منصوبہ بندی سے عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز ختم ہوئے لیکن وہ منتشر ہیں اور بہرحال ننگی تلوار کی طرح سروں پر منڈلا رہے ہیں! مقام شکر ہے کہ سوات کی پہچان اب عسکریت پسند نہیں رہے بلکہ وہاں کے سیاحتی مقامات ہیں‘ جہاں اسلحے کی بجائے بیش قیمت موبائل فون لئے سیاح لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور اچھی یادیں بطور سوغات اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں!

وادئ سوات میں چند ماہ سے سیاحوں کی آمد اور بالخصوص مینگورہ شہر اور مضافاتی علاقوں میں سیاحوں کی مصروفیات نیک شگون ہے۔ یہاں سے ملک کا زمینی رابطہ بھی پہلے سے زیادہ وسیع ہو چکا ہے اور اب قریب چوبیس گھنٹے سفری سہولیات دستیاب رہتی ہیں۔ پولیس اور فوج کی نگرانی ہر طرف موجود ہے‘ جو رش کی اوقات میں ٹریفک جام کا سبب بنتی ہے لیکن اگر وسیع النظری سے سوچا جائے تو امن اور انسانی جانوں کے لئے خطرہ بننے والوں کو کوئی بھی چال چلنے کا موقع نہ دینا ہی دانشمندی ہے۔ سوات میں حالات معمول پر آ گئے ہیں‘ یہ بات سوفیصد درست نہیں ہوگی لیکن یہ کہنا کہ حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں سوفیصد درست ہے اور اِس کے کئی ایک محرکات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہاں کے مقامی باشندوں نے اپنی ہمدردیاں اور تعلق پر ’’نظرثانی‘‘ کر لی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی کے دُکھ کیا ہوتے ہیں اور وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق بھی سیکھ چکے ہیں۔

کثیرالثقافتی علاقہ ہونے کی وجہ سے ’’مالم جبہ‘‘ سیر و سیاحت کے لئے نہایت ہی موزوں علاقہ تصور کیا جاتا ہے تاہم رابطہ سڑک کی خستہ حالی سارے مزے کو خراب کر دیتی ہے۔ خود کو قدرت کے قریب پانے والے سیاح سہولیات کے فقدان کا شکایت کرتے ہیں اور ایسی بہت سی شکایات کا ازالہ صرف اور صرف ایک ہی صورت ممکن ہے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو ہمراہ لئے ’مالم جبہ‘ کا اچانک دورہ کریں اور بذریعہ ہیلی کاپٹر قدم رنجہ نہ فرمائیں بلکہ سڑک کے راستے سفر کریں تاکہ اُنہیں حقیقت حال کا علم ہو سکے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں برفانی کھیل جن میں ’اسکینگ‘ سرفہرست ہے کا واحد مرکز ’مالم جبہ‘ ہے‘ جس کی سیر و استفادے کے لئے ہر ماہ قریب یہاں ایک لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔ کسی ایک مقام پر اگر ہر روز قریب ’تین ہزار‘ سیاح اور اختتامِ ہفتہ پر یہ تعداد بڑھ کر پانچ سے سات ہزار تک پہنچ جائے تو اُس مقام کی اہمیت اور کشش کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں۔ اُمید ہے کہ حسب اعلان رواں سال ماہ جون تک مالم جبہ میں زیر تعمیر ’فائیو سٹار ہوٹل‘ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے گا۔ یہ وہی ہوٹل ہے جسے عسکریت پسندوں نے غیراسلامی قرار دے کر بموں سے اُڑا دیا تھا۔ مالم جبہ کے آس پاس قریب دو درجن چھوٹے بڑے ہوٹل اور چائے کے کیبن ملتے ہیں۔ یہ سہولیات ماضی میں دستیاب نہیں تھیں یا پھر صرف موسم گرما ہی میں میسر ہوتی تھیں لیکن اب تو سردی اور برفباری دیکھنے کے لئے زیادہ لوگ اُمڈ آتے ہیں اور یوں ’’مالم جبہ سدا بہار سیاحتی مقام‘‘ بن چکا ہے جس سے مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ یہی سیاحت کا حسن ہے کہ اِس کی وجہ سے بہت جلد معاشی استحکام آتا ہے۔ 

سال دوہزار سترہ کے موسم گرما میں سوات کا رخ کرنے والے قریب دس لاکھ سیاحوں کی وجہ سے ہوٹل کی صنعت فائدہ ہوا تاہم یہ شعبہ حکومت کی مالی سرپرستی اور ہوٹلنگ سے متعلق ’میزبانی کے علوم‘ سے آگاہی چاہتا ہے۔ 

سوات اگر سیاحت کا مرکز ہے تو یہاں ہوٹلنگ کی تعلیم کے لئے خصوصی دانشگاہ کا قیام ضروری ہے‘ جہاں سے تعلیم یافتہ نوجوان ڈپلومہ حاصل کرسکیں۔ اگرچہ مالاکنڈ ڈویژن میں غیرملکی سیاحوں کے لئے پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط ختم کی جا چکی تاہم ماضی میں ہونے والی شدت پسندی کی وجہ سے وہ اب بھی غیرملکی یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ اُمید ہے کہ ملکی سیاحوں کا اِعتماد بحال ہونے کے بعد غیرملکی سیاحوں کی توجہ بھی سوات اُور بالخصوص مالم جبہ کی جانب مرکوز ہو جائے گی‘ جس کے لئے سوشل میڈیا مہم جو ماہرین‘ عالمی ذرائع ابلاغ اور غیرملکی نشریاتی اداروں کے نمائندوں کو مدعو کر کے اگر مالم جبہ ہی کے مقام پر ’عالمی میڈیا کانفرنس‘ کا انعقاد کیا جائے تو اِس کے زیادہ مثبت اور فوری نتائج برآمد ہوں گے۔ 

سوات سے متعلق فیصلہ سازی میں ’ویٹو پاور‘ رکھنے والے پاک فوج کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ ’عالمی میڈیا کانفرنس‘ کے اِنعقاد کو ممکن بنانے پر غور کریں۔
۔

Tuesday, January 16, 2018

Jan 2018: Shattered Dreams!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب ریزہ ریزہ!
پاکستان تحریک انصاف نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد اُن کی اولین ترجیح ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام ہوگا لیکن بات اِس وعدے کی بارہا زبانی تائید سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ اٹھائیس نومبر دوہزار سترہ کے روز وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا تھا کہ ’’ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنائی جائے!‘‘ تحریک انصاف کا وعدہ درحقیقت سرکاری اور نجی شعبے کے تعاون سے جامعات بنانے کا تھا جو بہترین تصور تھا لیکن اِسے معیاری اور قابل عمل بنانے کے لئے خاطرخواہ دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز اُن کی جامعات میں ہونے والی تحقیق ہے. ہمارے ہاں تحقیق سب سے زیادہ نظرانداز شعبہ ہے۔ تصور کیجئے پاکستان کی اکیس کروڑ آبادی کے لئے 85 جامعات اور اِن میں سے بھی 8 سرکاری اور 18 نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں صرف اور صرف تعلیمی اسناد بانٹنے کا کام ہو رہا ہے۔ تحقیق کون کرے گا؟ اور تحقیق کس کی سرپرستی میں ہونی چاہئے؟

تحریک انصاف سے قبل عوامی نیشنل پارٹی نے خیبرپختونخوا پر حکومت کی اور اپنے دور میں 10 جامعات قائم کرکے ریکارڈ بنا ڈالا‘ جن میں اسلامیہ کالج کی اَپ گریڈیشن‘ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ‘ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان‘ یونیورسٹی آف صوابی‘ شہید بینظیر یونیورسٹی اپر دیر‘ یونیورسٹی آف ہری پور‘ خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کرک‘ ویمن یونیورسٹی صوابی اور عبدالولی خان یونیورسٹی کے لوئردیر اور چترال کیمپ آفسیز شامل تھے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم چونکہ صوبوں کی ذمہ داری ٹھہری لیکن خیبرپختونخوا کے حصے میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ایسا وزیر آیا‘ جس نے کبھی خود یونیورسٹی سے استفادہ نہیں کیا تھا! نئی یونیورسٹیز کے قیام کے لئے ’پیٹ کاٹ کر‘ مالی وسائل حسب وعدہ فراہم نہ کرنے میں کوتاہی کی وجہ بھی یہی تھی کہ غیرمتعلقہ سیاسی کردار کو اعلیٰ تعلیم کا قلمدان سونپا گیا‘ جس کے لئے منظورنظر افراد میں ملازمتیں بانٹنے سے زیادہ اِن جامعات (اداروں) کی کوئی اہمیت نہیں تھی! موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم اداروں کے لئے غیرمعمولی مالی گرانٹ سال دوہزارسولہ سترہ کے دوران دیکھنے میں آئی جو 90 کروڑ روپے تھے جس میں سے 10 کروڑ ’ویمن یونیورسٹی مردان‘ کو دیئے گئے۔ المیہ رہا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کئے جانے والے بیشتر فنڈز فراہم نہیں کئے جا سکے!
خیبرپختونخوا حکومت کی ’اَعلیٰ تعلیم‘ سے متعلق حکمت عملی پر مبنی اِس سرسری روداد (یاد دہانی) کا مقصد یہ ہے کہ پندرہ جنوری کے روز جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ’کرک (خوشحال خان خٹک) یونیورسٹی‘ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے تو اُن کے سامنے یہ حقائق پیش نہیں کئے گئے کہ ’جناب آپ کی قیادت میں صوبائی حکومت ہر ضلع میں جامعات کے قیام سے متعلق اپنے انتخابی وعدے پورے نہیں کر پائی ہے۔‘ بالخصوص جب عمران خان یہ فرما رہے تھے کہ ’’سال دوہزار اٹھارہ تحریک انصاف کے (وفاقی) حکومت میں آنے کا سال ہے‘‘ تو اِس بلندبانگ دعوے کو سننے والے اُن کی توجہ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کی جانب مبذول کروا سکتے تھے۔ یوں ایک نادر موقع گنوا دیا گیا۔ 

عمران خان شاید ہی آئندہ پانچ دس سال میں کرک کا دورہ کر پائیں گے جن کی موجودگی سے ’وسیع البنیاد فائدہ‘ نہیں اٹھایا جاسکا!

تحریک انصاف صرف جامعات کے قیام ہی سے متعلق غفلت کی مرتکب نہیں بلکہ کئی دیگر امور بھی نظرانداز رہے جن کا تعلق خیبرپختونخوا کے حقوق سے ہے اور اِن حقوق کے تحفظ میں خاطرخواہ دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں اگر آبپاشی کا بندوبست کیا جائے تو اِس سے زرعی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ زیتون کی کاشت ایک الگ موضوع ہے لیکن پیاسے دشت و بیانوں میں حسرت و یاس اور غربت و افلاس گردوغبار کے ساتھ اُڑتی دکھائی دیتی ہے! دوہزار بارہ میں قائم ہونے والی ’خوشحال خان خٹک (کرک) یونیورسٹی‘ میں تقریب کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے نہایت ہی پرسکون اَنداز میں چند منٹ کھڑے کھڑے بات کرتے ہوئے عمران خان نے اِس بات پر تعجب کا اِظہار کیا کہ ’’علاقے میں یورینیم (Uranium) آلودگی سے سرطان (کینسر) جیسا خطرناک مرض پھیل رہا ہے۔‘‘ انہوں نے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے قیام سے متعلق مطالبے سے زیادہ ضروری اِس بات کو قرار دیا کہ ’یورینیم کا پھیلاؤ روکا جائے‘ جس کے لئے چیف سیکرٹری سے رپورٹ طلب کی یقین دہانی بھی کرائی کہ ’’آخر مقامی لوگ ’یورینیم سے آلودہ پانی‘ پینے پر مجبور کیوں ہیں؟‘‘ عمران خان صاف گو ہیں اُنہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ اِس قسم کی شکایت اُنہیں کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔ 

اَصولی طور پر اُنہیں اپنے ہمراہ صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان سے پوچھنا چاہئے تھا کہ اِس قدر اہم مسئلے سے اُنہیں آگاہ کیوں نہیں کیا گیا اور ساڑھے چار سال کے عرصے میں وہ جس ایک بات لاعلم رہے وہ اِس قدر اہم تھی کہ ذرائع ابلاغ میں بارہا رپورٹ بھی ہو چکی ہے تو اُس کے حل سے متعلق صوبائی حکومت کی کوششوں سے اُنہیں (پارٹی چیئرمین) کو بے خبر رکھنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ’ایف ایس سی‘ میں سائنس کا مضمون پڑھنے والا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ تابکاری کے لحاظ سے یورینیم (اَٹامک نمبر 92) نہایت ہی کمزور کیمیائی عنصر ہے تاہم اِس کی عمر ایک لاکھ ساٹھ ہزار سال سے ساڑھے چار ہزار ارب سال تک ہو سکتی ہے۔ یہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے اور اگر انسانی جسم میں کسی بھی ذریعے سے داخل ہوجائے تو کینسر کا ہونا یقینی امر ہے۔ خیبرپختونخوا کا ضلع کرک تیل و گیس اور نمک کے علاؤہ یورینیم جیسے قیمتی کیمیائی مادے کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے لیکن اس سے صوبے کو جس قدر فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ 

وفاقی حکومت کی اجازت سے کرک میں قدرتی وسائل حاصل کرنے کے عمل میں خاطرخواہ احتیاط نہ برتنے سے اہل علاقہ جوہری تابکار مادے سے متاثر ہو رہے ہیں تو یہ ذمہ داری کسی اُور کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہی کی بنتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے! وفاقی حکومت نے مالی سال 2016-17ء میں ضلع کرک کی یورینیم کانوں کے لئے 1 ارب 75 کروڑ روپے مختص کئے تھے لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہوئی‘ تو اِس بارے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ ایوانوں میں سوال (اعتراض) اب بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔
۔

Jan 2018: Terror and Terrorism continues for good!

مہمان کالم
دہشت اُور دہشت گردی!
امریکہ کی زد میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ وہ تمام مسلم ممالک آ چکے ہیں‘ جن سے کسی نہ کسی صورت اسرائیل کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں یا مستقبل قریب و بعید میں ہو سکتے ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس فکرمندوں میں شامل ہیں‘ جن کے لئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنا‘ مشرق وسطی میں امن کوششوں کے منہ پر ’طمانچہ‘ ہے۔ طاقت کے نشے میں فی الوقت امریکہ کو کسی عالمی معاہدے کی پرواہ نہیں جیسا کہ ’’اوسلو سمجھوتہ‘‘ جس کے تحت سال 1995ء میں فلسطین و اسرائیل کے درمیان تنازعات کے حل اور قیام امن کا عمل شروع ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے صدر جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں یا اُن کے بیانات کے پیچھے امریکی سیاسی و فوجی قیادت کی سوچ چھپی ہوئی ہے؟ پاکستان کے نکتۂ نظر سے امریکی رویہ (بہار و خزاں) غیرضروری طور پر سخت تو ہے لیکن غیرمتوقع نہیں لیکن زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ٹرمپ کا کرخت لہجہ اور سخت الفاظ کا انتخاب بدل نہیں رہا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ زبان ایک متحرک دریا کی طرح ہے‘ جس میں اِدھر اُدھر سے نت نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں جو فصاحت و بلاغت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ عمل عمومی و ارتقائی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا اور اِسی کے ذریعے کئی نئی اصلاحات اور الفاظ دیگر زبانوں کی طرح ’اردو‘ میں بھی آئے اور مانوس ہوتے چلے گئے۔ ’’دہشت گردی‘‘ بھی ایک ایسا ہی لفظ (اصطلاح) ہے۔ فیروزاللغات میں اس کے معنی ’’بڑے پیمانے پر خوف و ہراس‘‘ پھیلانے کے درج ہیں۔ ابتدأ میں یہ لفظ صرف چھپکلی سے منسوب ہوتا تھا‘ جو رات کے کسی پہر روشندان کے سوراخ سے اندر رینگ آ تی اور پھر خاموشی سے کسی نکڑ میں بیٹھ کر خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتی کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے‘ کیسے اُس کی دہشت سے چیختا چلاتا‘ تکیے اچھالتا‘ اِدھر سے اُدھر دوڑا پھرتا ہے لیکن پھر اچانک ایک روز یہ لفظ کتابوں کے سرمئی صفحوں سے نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا۔ 

امریکہ پر دہشت گرد حملوں (نائن الیون) کے بعد دنیا کو بنیاد پرستی کے ہم وزن نیا لفظ ’’دہشت گردی‘‘ ملا جو ’حشرات العرض‘ کی موجودگی سے پیدا ہونے والی کھلبلی سے مختلف نوعیت کے خطرے کی نشاندہی کرتا تھا۔ معلوم ہوا کہ کچھ گروہ دنیا میں دہشت پھیلا رہے ہیں اُور اب ساری دنیا کا فرض ہے کہ اِن ’دہشت گردوں‘ سے ایسا ہی سخت گیر معاملہ کیا جائے۔ دہشت گردوں کا ماضی کیا ہے یہ کون ہیں؟ اچانک کہاں سے وارد ہوئے؟ اِن کی تربیت کس نے کی؟ اَسلحہ اُور مالی وسائل کس نے کیوں دیئے اور اب اِن سے نجات (چھٹکارہ) حاصل کرنا کیوں ضروری ہے؟ ایسے بہت سے سوالات کرنے والی زبانیں لب بستہ ہیں!

دہشت گردی روشناس (متعارف) کرانے والوں نے افغانستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا اور پاکستان سمیت دنیا نے تسلیم کر لیا پھر ایک ایسی جنگ شروع ہوئی‘ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور اب تو اِس جنگ کے اتحادی بھی ایک دوسرے سے متنفر ہو گئے ہیں‘ جس کی وجہ سے کامیابی کے امکانات مزید معدوم دکھائی دیتے ہیں! بہرحال ’اُنیس سو اسی‘ کی دہائی میں جن لوگوں کو ’’افغان جہاد‘‘ کے نام پر بھرتی کیا گیا‘ اُنہیں روسی افواج کے انخلاء کے بعد اپنے حال پر چھوڑنے کے نتائج سب کے سامنے ہیں! پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے لئے دیکھے گئے خواب بھیانک ثابت ہوئے‘ جس کے لئے ذمہ داروں کا تعین یکساں اہم ہے۔ امن ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے۔ کسی پڑوسی ملک کے صحن میں آ گ لگانے والا بھلا کب تک اور کیسے اُس آگ کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ آگ کا کام تو جلانا ہوتا ہے اور جب یہ پھیل جاتی ہے تو یہ اہداف میں تمیز نہیں کرتی۔ نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف عالمی جنگ کو اختیار کرنے سے پاکستان نے اپنا جس قدر نقصان کیا‘ اُس کا ازالہ غلطی تسلیم کئے بناء ممکن نہیں۔

امریکہ یا موجودہ صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے سے زیادہ اِس بات پر غور ہونا چاہئے کہ پاکستان اپنی سوچ اور عمل کی اصلاح کے لئے کن اصولوں پر ہمسایہ ممالک سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ فیصلوں کے نتائج اور ماضی و حال کے فیصلہ سازوں کی کارکردگی کا احتساب بھی ضروری ہے‘ جس کی وجہ سے ’دہشت گردی‘ کے خلاف صف اول کا کردار ادا کرنے والے ملک کو ’دہشت گرد‘ کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ 

پاکستان کے قومی وسائل اور ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا بے رحم احتساب ہونا چاہئے۔ کیا آج کی تاریخ میں پاکستانی قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ’مبینہ دہشت گردی‘ کے خلاف عالمی جنگ سے پاکستان کو حاصل ہونے والے مالی فوائد کا استعمال کہاں کیا گیا؟ عوام بخوبی سمجھ چکی ہے کہ دہشت گردی کیا ہے اور دہشت پھیلانے کے درپردہ مقاصد کیا ہیں! امریکہ کی جانب سے ’’33ارب ڈالر‘‘ وصول ہونے کا انکار نہیں کیا جا رہا ہے لیکن ہر ڈالر کا حساب دینے سے گریزاں خوف اور دہشت کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ عالمی طاقت سے تصادم برقرار رہے۔ پاکستان کو اقتصادی ’دہشت گردوں‘ سے لاحق خطرات اپنی جگہ غور طلب ہیں۔
۔

Sunday, January 14, 2018

TRANSLATION: The terror concerns by Rahimullah Yusufzai

Terror concerns
اَمریکی تحفظات!
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں بلکہ ماضی میں بھی جبکہ یہ دونوں ممالک روس کے خلاف سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) جیسے اتحادوں کا حصہ رہے اور اُس سرد جنگ کے دور میں ایک دوسرے کے اتحادی تھے تب بھی کئی مرتبہ اِن کے درمیان مختلف معاملات پر اختلافی نکتۂ نظر سامنے آتا رہا۔ ایسا ہی ایک موقع وہ بھی تھا جب امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی امداد بند کر دی اور اقتصادی پابندیاں بھی عائد کردیں جس سے پاکستان کی دل شکنی ہوئی کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکہ جیسا اتحادی ملک اُس کے ساتھ اِس قسم کا سلوک روا رکھ سکتا ہے تاہم ماضی میں ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات کا ازالہ وقت کے ساتھ ہوتا رہا لیکن حالیہ چند برس میں جس انداز سے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ دیکھا گیا ہے یہ نہ صرف تیز رفتار ہے بلکہ اُس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے قطع تعلق ہی کرلیں۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں عدم اعتماد کی خلیج کبھی بھی اس قدر گہری نہیں رہی اور اِس کا آغاز امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اِس مطالبے سے ہوا کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گرد گروہوں کے خلاف اُن کی تسلی و تشفی کے مطابق کاروائیاں کرے بصورت دیگر اُسے کڑے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ 

پاکستان نے اِن امریکی الزامات کا فوری جواب دیا اور ماضی میں امریکہ پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کرتا آیا ہے تاہم اِس مرتبہ پاکستان نے امریکہ سے ایسا ہی کرنے کو کہا ہے جو ایک غیرمعمولی جرأت اظہار بھی ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کا سبب عسکریت پسند ’حقانی نیٹ ورک‘ ہے۔ امریکہ کو قوی یقین ہے کہ ’حقانی نیٹ ورک‘ کا مرکز پاکستان میں ہے اور اِسے خفیہ اِدارے ’انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی)‘ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ کی کئی شخصیات اِسی قسم کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں جن کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کی ہے اور امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر اُس کے پاس اپنی اِس بات کے کوئی ثبوت ہیں تو وہ پیش کرے تاکہ پاکستان میں مبینہ طور پر موجود ’حقانی نیٹ ورک‘ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے مختلف فوجی کاروائیوں کے ذریعے عسکریت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائیاں کی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک جون دوہزارچودہ تک شمالی وزیرستان میں اپنا وجود رکھتا تھا‘ جس کی طاقت کے مرکز اور افرادی قوت پر وار کیا گیا تو دیگر عسکری گروہوں کی طرح اُنہوں نے بھی اپنا مرکز تبدیل کر لیا ہے۔ پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں شمالی وزیرستان میں فوجی کاروائی نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ پاکستان کے پاس ایسا کرنے کے لئے وسائل نہیں تھے اور فوج اندرون ملک دیگر محاذوں پر ڈٹی ہوئی تھی۔

امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکہ کی تسلی و تشفی کے مطابق کاروائیاں نہ کیں تو سخت اقدامات کئے جائیں گے‘ جس میں یہ بھی شامل ہوگا کہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی پاکستان کی حدود میں گھس کر زمینی کاروائیاں کریں جیسا کہ انہوں نے مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں کیا تھا جہاں مبینہ طور پر القاعدہ تنظیم کا سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکہ فوجیوں نے تلاش اور قتل کرنے کا دعوی کیا۔ اگر امریکہ کو ایسی معلومات میسر آ جاتی ہیں جن کے مطابق وہ حقانی نیٹ ورک کے سراج الدین حقانی اور افغان طالبان کے سپرئم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوند زادہ پاکستان میں کہاں روپوش ہیں تو وہ اِن کے خلاف کاروائی کرسکتا ہے۔ اِسی طرح جماعت الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے حافظ سعید بھی امریکہ کا نشانہ ہو سکتے ہیں جس کے سر کی قیمت امریکہ نے نومبر 2008ء کے بمبئی حملوں کے بعد مقرر کر رکھی ہے کیونکہ اُن حملوں میں امریکی باشندے بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اَمریکہ کو اِن دنوں بھارت کی قربت حاصل ہے۔

امریکہ پاکستان کی حدود میں ڈرون طیاروں سے حملے کرسکتا ہے۔ پاکستان کی ’نان نیٹو اتحادی‘ حیثیت ختم کرسکتا ہے۔ افغانستان اور دنیا کے مختلف حصوں میں روپوش پاکستان مخالف عسکریت پسندوں بالخصوص بلوچ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کرسکتا ہے اور افغان و بھارتی خفیہ اداروں کو شہ دے سکتا ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ بنائے رکھیں تاکہ وہ امریکہ کے ہر جائزوناجائز مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دے۔ امریکہ پہلے ہی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے اِسے ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کرچکا ہے جہاں مذہبی آزادی محدود ہے اور مذہبی آزادی کو دنیا میں انسانی حقوق کی آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان جواب میں امریکہ کی افغانستان میں موجود 20ہزار غیرملکی افواج کو سامان رسد کی فراہمی کے لئے راہداری معطل کرسکتا ہے جو بلاقیمت (قریب مفت) ہی فراہم کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی راہداری افغان فوجوں کے لئے بھی سامان رسد کا سستا اور کم وقت کا ذریعہ ہے۔ پاکستان نیٹو سپلائی (رسد) نومبر 2011ء میں آٹھ ماہ تک معطل کر چکا ہے جب مہمند ایجنسی میں سلالہ چیک پوسٹ پر افغانستان کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا اور اُس حملے میں 24 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے تھے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکراتی عمل سے فاصلہ اختیار کرسکتا ہے‘ جس کے لئے اُس کی سنجیدہ کوششوں کو فراموش کردیا گیا ہے اور اگر پاکستان افغانستان میں قیام امن کی کوششوں سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو امریکہ کے لئے وہاں امن کا قیام زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان کی جانب سے سنجیدہ اور بار ہا تحفظات کے اظہار کے باوجود بھی امریکہ نے بھارت کو افغانستان میں کلیدی کردار دیا ہے جبکہ امریکہ اگر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے تو اُس سے قیام امن کے لئے مذاکراتی عمل کو دھچکا لگے گا۔ پاکستان اِس بات کی وکالت کرتا آیا ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے وہاں متحارب دھڑے جنگ بندی کریں اور بات چیت کے عمل کو موقع دیا جائے۔ پاکستان کا یہ مؤقف بھی ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی صرف اُس کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ تمام حصہ داروں کا اجتماعی فریضہ ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

امریکہ کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کو 7 ستمبر 2012ء کے روز دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا جو قریب دو دہائیوں سے پہلے روسی اور بعدازاں نیٹو افواج کے خلاف عسکری مہمات کا حصہ رہی ہے۔ امریکہ نے اب تک حقانی نیٹ ورک کے کئی اہم رہنماؤں کو قتل کیا ہے اور موجودہ رہنماؤں کے سر کی قیمت بھی مقرر کر رکھی ہے۔ امریکہ حقانی نیٹ ورک کے خاتمہ کی شاید ایک بھرپور کوشش کرنا چاہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اِس مقصد کے لئے پاکستان اُس کی مدد کر سکتا ہے۔ اگر پاکستان اور امریکہ اِس بات پر متفق بھی ہو جائیں کہ وہ مل کر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کا خاتمہ کریں گے تب بھی یہ تعاون اِس بات کی ضمانت نہیں ہوگا کہ یہ دونوں ممالک مل کر اپنے مقاصد حاصل کر سکیں گے اور اِس بات کی ضمانت بھی نہیں کہ انہیں بہرصورت اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوگی۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Jan 2018: Priority health without priorities!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سبز باغ!
’پارو‘ اُور ’آرزو‘ کا تعلق پشاور کے اُن چنیدہ ’خوش نصیب‘ خواجہ سراؤں میں ہوتا ہے‘ جنہیں صوبائی حکومت کی جانب سے ’’صحت اِنصاف کارڈ‘‘ فراہم کئے گئے ہیں اُور اب وہ مخصوص سرکاری و نجی ہسپتالوں سے ’سالانہ‘ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپے تک ’علاج معالجے کی سہولیات‘ مفت حاصل کر سکتے ہیں۔ 

خواجہ سراؤں کو ’صحت اِنصاف کارڈز‘ کی فراہمی کا عمل مرحلہ وار انداز میں مکمل کیا جائے گا جبکہ پہلے مرحلے میں پشاور سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں کو کارڈز فراہم کر دیئے گئے ہیں اور بعدازاں اِس منصوبے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے دیگر تمام ’خواجہ سراء‘ بھی صوبائی حکومت کی جانب سے ’صحت کا بیمہ‘ حاصل کر لیں گے۔ 

انصاف صحت کارڈ حاصل کرنے کا طریقۂ کار کسی عام فرد کے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہے‘ جس میں اُس کی ضرورت اور مالی حیثیت کا تعین وفاقی حکومت کی جانب سے کئے گئے سروے (جائزے) کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر صوبائی حکومت کو اپنے وسائل سے ’غربت کا سروے‘ کرنا چاہئے تھا اور یہ عمل اضلاع یا ڈویژنز کی سطح پر مکمل ہونے کے بعد ’صحت انصاف کارڈز‘ کا اجرأ عمل میں لایا جاتا لیکن چونکہ سیاسی حکومتوں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں اور سرکاری افسروں کو ’برق رفتار کارکردگی‘ دکھانے کا شوق ہوتا ہے تاکہ وہ اعلیٰ و ادنی انتظامی عہدوں پر فائز رہیں اور اُنہیں ملنے والی مراعات میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری رہے اِس لئے کامیابی اِسی میں ہے کہ سیاسی حکمرانوں کے مزاج کے مطابق اُنہیں ’’سبز باغ‘‘ دکھائے جائیں۔ یہی طریقۂ واردات ’صحت انصاف کارڈ‘ نامی اُس حکمت عملی سے بھی روا رکھا گیا‘ جسے اگر سوچ سمجھ اور منصوبہ بندی سے عملی جامہ پہنایا جاتا تو بھلے ہی یہ حکمت عملی عام انتخابات کے قریب منظرعام پر آتی لیکن اِس سے زیادہ بڑے پیمانے پر مستحقین مستفید ہو سکتے تھے۔ بہرحال دنیا کی نظروں میں آنے کے لئے‘ عام مستحقین کے مقابلے ’صحت انصاف کارڈ‘ کی رجسٹریشن کا عمل ’خواجہ سراؤں‘ کے لئے ’آسان تر‘ رکھا گیا ہے اور اِس پوری کوشش کے پیچھے ’بلیووینز‘ نامی اُس غیرسرکاری تنظیم کی کوششوں کا بڑا عمل دخل ہے‘ جو ’خواجہ سراؤں‘ کے حقوق کے تحفظ اور انہیں سماجی و آئینی انصاف کی فراہمی ممکن بنانے کے لئے غیرملکی (بیرونی مالی) امداد حاصل کرتی ہے۔ یوں خواجہ سراؤں کے دم کرم سے خیبرپختونخوا میں کئی ’این جی اُوز‘ اُور اِن تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے چولہے جل رہے ہیں! خواجہ سراؤں کو دھوم دھام اور پورے اہتمام سے ’صحت انصاف کارڈ‘ دیئے گئے اور وہ سرکاری اہلکار جنہیں دفتری کاموں سے فرصت نہیں ہوتی اور جن کے دفتروں اُن کے منتظر رہتے ہیں! ایک ایسی تقریب کی زینت بنے رہے‘ جس کی کئی ایک وجوہات کی بناء پر ضرورت نہیں تھی۔ تصور کیجئے کہ خیبرپختونخوا میں مکحمۂ صحت کے نگران ’ڈائریکٹر جنرل‘ ڈاکٹر ایوب روز‘ سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر عابداللہ کاکا خیل‘ پراجیکٹ ڈائریکٹر امتیاز تنولی‘ بلیو وینز کے پروگرام کوآرڈینیٹر قمر نسیم اور خواجہ سراؤں کی تنظیم کے صوبائی صدر فرزانہ جان حاضر جناب رہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے بقول ’’پاکستان میں خواجہ سراؤں کی کل تعداد بیس ہزار ہے جن میں سے دو ہزار کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ پشاور میں رہنے والے 229 خواجہ سراؤں کو پہلے مرحلے میں ’صحت انصاف کارڈز‘ فراہم کئے گئے ہیں جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع میں رہنے والوں کو بھی اِن کارڈز کی فراہمی کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا۔‘‘

’صحت انصاف کارڈ‘ نامی ’ہیلتھ انشورنس‘ اکتیس اگست دوہزارسولہ روز کو جاری کی گئی تھی۔ اِس دوسالہ حکمت عملی کے لئے مالی وسائل (پانچ ارب‘ چھتیس کروڑ بائیس لاکھ روپے) جرمنی کے مالیاتی ادارے ’کے ایف ڈبلیو‘ نے فراہم کئے تھے اور طے یہ ہوا تھا کہ اِس کے ذریعے خیبرپختونخوا کے 18لاکھ گھرانوں (فی گھرانہ آٹھ افراد) کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اندازہ تھا کہ اس سے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو فائدہ ہوگا تاہم جلد ہی اِس منصوبے میں لاکھوں سرکاری ملازمین کو بھی شامل کر لیا گیا جو پہلے ہی آمدنی کا مستقل اور پائیدار ذریعہ رکھتے تھے اور وہ کسی بھی صورت اہل (مستحق) نہیں تھے۔ اب خواجہ سراؤں کو شامل کرنے کے بعد باقی ماندہ خیبرپختونخوا کو بھی شامل کر ہی لیا جائے کیونکہ ویسے بھی سرمایہ دار اور خود سیاست دان اپنا علاج معالجہ اپنے صوبے یا ملک میں علاج کروانا پسند نہیں کرتے اور جن کے پاس تھوڑے بہت مالی وسائل ہوتے ہیں وہ اپنا یا اپنے پیاروں کا علاج نجی ہسپتالوں سے کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں سے بہ اَمر مجبوری رجوع کرنے والوں کی حالت زار کسی بھی ضلعی یا پشاور کے مرکزی ہسپتالوں میں مشاہدہ کی جاسکتی ہے! 

انصاف صحت کارڈ کوئی تعویذ نہیں کہ اِسے حاصل کرنے والے کی شفایابی یقینی ہوگی‘ حکومت اگر سرکاری ہسپتالوں کا قبلہ درست کرنے پر توجہ مرکوز کرتی تو ایسے کسی کارڈ (اضافی اخراجات) کی ضرورت ہی پیش نہ آتی! 

بہرحال اِس مرحلے پر صرف یہی مقصود ہے کہ ’انصاف صحت کارڈ‘ سے متعلق خیبرپختونخوا حکومت کی کوششیں اصلاحات کی متقاضی ہیں۔ اِس حکمت عملی کے تحت سیاسی بنیادوں پر کئی نجی ہسپتالوں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ یہ بات آج کی تاریخ میں کوئی تسلیم نہیں کرے گا لیکن مستقبل میں جب بدعنوانی کے مقدمات قائم ہوں گے تو کئی معززین کے نام آئیں گے جن کی عدالتوں کے باہر قطاریں لگی دکھائی دیں گی‘ یہ وہی ہوں گے جنہوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اور ایسے نجی ہسپتالوں کو پینل پر لیا‘ یا اُن کے پینل پر لانے کی غیرتحریری سفارش کی یا پینل پر لانے کے بعد اُن پر اعتراض نہیں اٹھایا‘ جس کا اُنہیں اختیار نہ بھی ہوتا لیکن غریبوں کے علاج معالجے کے لئے مختص وسائل کی یوں لوٹ مار پر خاموش تماشائی رہنے والوں کو بھی جرم میں یکساں (برابر کا) شریک سمجھا جائے گا۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں!

Jan 2018: Injustice continue with FATA

مہمان کالم
نااِنصافیاں
زندہ قوموں کی نشانی اُن کے ’زندہ عزم‘ اور اجتماعی قومی بہبود سے متعلق فیصلوں پر ڈٹ کر ’عمل درآمد‘ ہوتا ہے‘ جس سے عوام الناس کو درپیش مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور سیاسی حکمران کوئی بھی ہو‘ ریاستی نظام اور اداروں کا ارتقائی عمل اور مسلسل سوچ کا سفر جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی و غیرسیاسی حکمرانوں اور فیصلہ سازوں (افسرشاہی) کا طرزِ ’فکروعمل‘ ذاتی یا پھر اِنتخابی (سیاسی) مفادات کا اسیر رہا ہے‘ جس کی وجہ سے مسائل کی معلوم اور بڑھتی ہوئی شدت کے باوجود ’سیاسی مصلحتوں‘ آڑے آ رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں ’قبائلی علاقوں‘ کی مثال موجود ہے‘ جنہیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح مساوی حیثیت دینے کے لئے ’قومی سطح پر پایا جانے والا اتفاق رائے‘ بھی کسی کام نہیں نہیں آ رہا اور ایسے نمائشی اور واجبی اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ جن کا مقصد عوام اور تاریخ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بارہ جنوری کے روز وفاقی حکومت نے عدالتی دائرہ کار کو قبائلی علاقوں تک وسعت دی جہاں نہ تو تفتیشی ادارے موجود ہیں اور نہ ہی پولیس کا تہہ دار نظام‘ جس کا بغیر عدالت کی موجودگی کس طرح اپنی افادیت ثابت کر پائے گا؟

قومی اسمبلی میں سپرئم کورٹ (عدالت عظمیٰ) اور پشاور ہائی کورٹ (عدالت عالیہ) کا دائرہ کار وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) تک بڑھانے کا قانون ’’کثرت رائے‘‘ سے منظور کیا تو قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی ’’شاہ جی گل آفریدی‘‘ نے جوشیلے انداز میں کہا کہ ’’ہم حکومت اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے مشکور ہیں کہ انہوں نے مذکورہ قانون (بل) کی منظوری دی ہے‘ (جو درحقیقت) پاکستان کے مقصد کی تکمیل ہے اور آج (بارہ جنوری دوہزارسترہ) حقیقی معنوں میں قیام پاکستان یعنی ’’چودہ اگست‘‘ جیسا اہم دن ہے۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کی ’فاٹا‘ کے علاقوں تک توسیع عوام کی امنگوں کے مطابق فیصلہ ہے اور اب ’فاٹا‘ تیزی سے ترقی کرے گا۔‘‘ جو بات قانون ساز قومی اسمبلی ایوان کے اسپیکر ایاز صادق اور وفاقی وزیر قانون انصاف محمود بشیر ورک نے بھی محسوس کی اُس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’فاٹا میں عدل و انصاف کی فراہمی اصل ضرورت ہے‘ ترقی کے نام پر دیگر ضروریات اور بنیادی سہولیات کی فراہمی مرحلہ وار بہتر بنائی جا سکتی ہے اور اِس میں تاخیر کا زیادہ نقصان بھی نہیں ہوگا لیکن اگر انصاف کی فراہمی اور عدل کا قیام ممکن نہیں بنایا جاتا تو اِس کے بغیر باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ خوشگوار حیرت کا باعث نظارہ تھا جب فاٹا تک عدالتوں کا دائرہ کار بڑھانے کا بل منظور ہونے پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کھل اُٹھے اور انہوں نے ایک دوسرے کو گلے مل مل کر مبارکبادوں کا تبادلہ کیا‘ یقیناًآنکھوں میں آنسو بھی ہوں گے کہ اب کم سے کم فاٹا کے رہنے والوں کو دیگر پاکستانیوں کی طرح عدل و انصاف کا مستحق سمجھا جائے گا! 

اُمید ہے کہ قومی اسمبلی کے جاری اجلاس (سیشن) میں ’’فاٹا انضمام بل‘‘ بھی ایوان میں پیش کر دیا جائے گا جو حقیقی ضرورت اور جامع اقدام ہوگا۔

فاٹا کی امتیازی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق قانون سازوں کی کوششیں ناکافی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ پولیس کی عدم موجودگی کی صورت صرف عدالتوں کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک پھیلانے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور اِس سے قبائلی علاقوں کا انضمام (اصل معاملہ) سرد خانے کی نذر ہو جائے گا‘ جو سیاسی مفادات رکھنے والوں کی خواہش اور سرتوڑ کوشش ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نوازشریف کے ہاتھ ایک نادر (سنہرا) موقع آیا جس کے ذریعے وہ قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت تبدیل کرکے تاریخ میں اُسی طرح اپنا نام درج کروا سکتے تھے جیسا کہ ’شمال مغربی سرحدی صوبے (این ڈبلیو ایف پی)‘ کا نام ’خیبرپختونخوا‘ سے تبدیل کرنا پیپلزپارٹی سے منسوب ہے۔ 

نواز لیگ کی خوش قسمتی تھی کہ خیبرپختونخوا حکومت نے دیگر امور پر اُن سے اپنے شدید سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قبائلی علاقوں کے انضمام کی غیرمشروط حمایت کی لیکن تحریک انصاف سے قربت کا یہ نادر موقع ضائع کر دیا گیا جو دونوں سیاسی جماعتوں کوایک دوسرے کے قریب لا سکتا تھا۔ بہرحال نواز لیگ نے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جیسی دو مختلف النظریات سیاسی شخصیات کے مؤقف کو اکثریتی رائے پر ترجیح دے رکھی ہے اُور ایک ایسے معاملے کو اُلجھا دیا جو سیدھا سادا تھا۔ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں بلاتاخیر انضمام ہونا چاہئے اور ایسا اب بھی ممکن ہے اگر نواز شریف اجازت (حکم بہ معنی گرین سگنل) دیں تو یہ کارہائے نمایاں اُن کے نام ہوسکتا ہے۔ شاید وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اگر تاریخ شخصیات کو زندہ رکھتی ہے تو یہی تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی معاف بھی نہیں کرتی جو قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ ’کون نہیں جانتا‘ اُور ’کون نہیں چاہتا‘ کہ ۔۔۔ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں اِنضمام (اَزحد) ضروری (واحد حل) ہے اور اِس میں جس قدر بھی تاخیر کی جائے گی‘ اُس سے بہتری پیدا نہیں ہوگی۔ اگر نواز شریف خود اپنی ہی جماعت کے اراکین ہی کی رائے معلوم کریں تو اکثریت قبائلی علاقوں کے بارے میں اُس تذبذب کا شکار نہیں ہوگی جس سے وہ خود گزر رہے ہیں!

TRANSLATION: Without the US? by Dr. Farruhk Saleem

?Without the US
بناء اَمریکہ‘ خوداِنحصاری؟

پاکستان بھکاری نہیں لیکن اِسے بھکاری بنایا گیا ہے۔ پاکستان غریب نہیں لیکن اِس کی دولت اور قومی وسائل ایک منظم سازش کے تحت غصب کئے جا رہے ہیں۔ 

پاکستان ایک زرخیز ملک ہے۔ اس کی زمینیں اور یہاں کے رہنے والوں کے ذہن زرخیز ہیں۔ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا اور نوجوان ملک ہے کیونکہ اِس کی 63 فیصد آبادی کی عمر پچیس سال سے کم ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے ہاتھوں (افرادی قوت) کی کمی نہیں جو پاکستان کو خوشحال اور خودمختار و آزاد رکھنے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ پاکستان کی 63فیصد آبادی حکومت پر بوجھ نہیں بلکہ وہ اپنی جسمانی طاقت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر قومی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے وسائل اور دستیاب افرادی قوت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور اِس فائدہ نہ اٹھانے کے پیچھے جو واحد محرک کارفرما رہا وہ سیاسی فیصلہ سازوں کی نااہلی رہی۔ جنہوں نے پاکستان کی ترقی کو ہر بات سے زیادہ مقدم نہیں سمجھا۔ 

پاکستان کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر کچھ نہیں تو اِس کی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان‘ منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے میں کوتاہی‘ قرض لینے جیسے آسان فیصلے‘ معیشت کی نظرانداز ترقی اور خوشحالی جیسے محرکات شامل ہیں جن کی اصلاح ممکن ہے۔

پاکستان کو لاحق سب سے بڑا خطرہ اقتصادیات کا ہے اور اِس اقتصادی خطرے کے دو حصے ہیں۔ ایک قومی آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن (بجٹ خسارہ) اور دوسرا قومی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن (تجارتی خسارہ) اور انہی دو خطرات کے باعث پاکستان کو بھکاری بنا دیا گیا۔ انہی کے باعث پاکستان کی قومی دولت لوٹ لی گئی! مالی سال 2017-18ء کے دوران مالی خسارہ 1.5 (یعنی ڈیڑھ) کھرب روپے کے مساوی ہو چکا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ہر پاکستانی فرد اور خاندان کو اپنی بقاء کے لئے سالانہ پچاس ہزار روپے بھیک مانگنا پڑتی ہے!

پاکستان کو قرض دینے والے ممالک اور مالی امدادی اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی جائے جن سے قومی آمدنی میں اضافہ ہو لیکن یہ تجربہ اور خواہش ہر مرتبہ ناکام ثابت ہوتی ہے اور قومی اداروں کی کارکردگی قومی خزانے پر سوائے بوجھ کے کچھ نہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں بجلی کا پیداواری شعبہ سالانہ 400 ارب روپے کا خسارہ کر رہا ہے۔ قومی ترقی کے لئے سالانہ 600 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن یہ ترقی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور کاموڈیٹی آپریشنز کا قرض 400 ارب روپے کے مساوی ہوتا ہے۔ صرف اِن چار مدوں میں پاکستان کے سالانہ اخراجات 1.8 کھرب روپے ہیں! ایک اعشاریہ آٹھ کھرب روپے کے یہ اخراجات (خسارہ) ختم کرنا قطعی مشکل نہیں لیکن اگر ایسا کرنے کی خواہش اور قومی قیادت میں جذبہ تعمیر زندہ ہو۔

پاکستان حکومت کے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کبینٹ ڈویژن پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 80 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں آخر کیوں؟ وزیراعظم پاکستان کے بیرون ملک دورے پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 50 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں آخر کیوں؟ وزیراعظم کے دفتری اخراجات پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 20 لاکھ روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں آخر کیوں؟ صدر پاکستان پر سال کے بارہ ماہ‘ ہر دن 13 لاکھ روپے یومیہ خرچ ہوتے ہیں آخر کیوں؟

پاکستان کی برآمدات تیزی سے کم ہو رہی ہیں اور موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں یہ کمی سب سے زیادہ اور غیرمعمولی رفتار سے ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ 35 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے! پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء عالمی منڈیوں میں مقابلہ اِس لئے بھی نہیں کر سکتیں کیونکہ اِن پر لاگت زیادہ آتی ہے اور پاکستان میں بجلی و گیس سمیت پیداواری اخراجات بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔

فوری طور پر پاکستان کو اپنی درآمدات میں کمی لانا ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود ہم سالانہ 25 کروڑ ڈالر کی ڈیری مصنوعات کیوں درآمد کر رہے ہیں؟ آخر ہمیں سالانہ 2.5 ارب ڈالر کی گاڑیاں درآمد کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ سالانہ 2 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ایک ارب روپے کی دالیں کیوں درآمد کی جاتی ہیں؟ اور ہم 550 ارب ڈالر مالیت کی چائے کیوں درآمد کر رہے ہیں؟

پاکستان کی غربت خود اپنے ہی ہاتھوں غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے اور یہی محرک ہے جس کی وجہ سے پاکستان قرض کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اگر قیادت میسر آ جائے تو حب الوطن اور نوجوان افرادی قوت کی کمی نہیں جو پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل کا حل نکال سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں ایسے فیصلہ ساز میسر نہیں جو قومی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کر سکیں اور اپنے مفادات کی قربانی دیتے ہوئے ایک ایسی قوم کو عروج سے روشناس کرائیں جس کے پاس وسائل کی کبھی بھی اور قطعی کوئی کمی نہیں! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
۔

Saturday, January 13, 2018

Jan 2018: Pakistan Study - Zainab a test case!

مہمان کالم
مطالعۂ پاکستان!
زینب قصور کی ہو یا کہیں کی بھی‘ اِن کا صرف اُور صرف یہی ’قصور‘ ہوتا ہے کہ وہ خواص کی نہیں بلکہ عوام کی بیٹیاں ہیں جنہیں حکومتیں اُور حکومتی ادارے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ آخر پاکستان کے قانون ساز اور عدل و انصاف کی فراہمی کے ادارے مل بیٹھ کر اجتہاد کیوں نہیں کر لیتے کہ جب تک قانون کی یکساں عمل داری ممکن نہیں ہوجاتی اُس وقت تک عوام کو اجازت ہوگی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کریں۔ کم سے کم اُن کے ساتھ جنسی زیادتی‘ آئے روز بے حرمتی اور تشدد سے اموات تو نہیں ہوں گی! ’قصور‘ کا نام آتے ہی بچوں سے جنسی زیادتی کے مسلسل رونما ہونے والے اَن گنت واقعات یاد آتے ہیں‘ جن پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ورنہ تو ایک سانحہ بھی حکومت کو جگانے کے لئے کافی تھا! اپنے شعور پر دستک دینے اور خود سے سوال پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ ۔۔۔ پاکستان میں جنسی زیادتی (ریپ) کا جب کبھی اور جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو بلاتاخیر مذمتی بیانات ضرور جاری کئے جاتے ہیں۔ ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ میں درج ملا کہ سب سے زیادہ زیربحث ’مختاراں مائی‘کا معاملہ تھا‘ لیکن اُس کے مجرموں کو بھی سزا نہ دی جاسکی جو مالی و سیاسی اثرورسوخ کے مالک تھے!

سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی ویڈیو منظرعام پر آئی تب بھی غم و غصے کا اظہار صرف اور صرف عام آدمی (ہم عوام) کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔ دن دیہاڑے قتل اور اُن کی ویڈیوز منظرعام پر آنے کے باوجود بھی ایسے کئی واقعات کا انجام سزائیں نہیں تھیں۔ کیا کسی کو کوئی ایسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ یا ’’شہ سرخی‘‘ بھی یاد ہے جس میں ’گلوبٹ‘ کو قرار واقعی سزا ہوئی ہو؟

کراچی کا ’’سرفراز شاہ‘‘ کس کس کو یاد ہے‘ جس کے گرد رینجرز کی وردیاں پہنے افراد بندوقیں تانے کھڑے تھے وہ جوان لڑکا ہاتھ باندھے معافیاں مانگ رہا تھا۔ رکوع کی حالت میں جھک کر کھڑا تھا کہ پھر گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ وہ گر گیا اور ویڈیو کو غور سے سننے پر اُس کا آخری جملہ یہی تھا کہ ’’اللہ کے لئے‘ مجھے ہسپتال لے چلو۔‘‘ لیکن اُس پر فائرنگ کرنے والوں کا ضمیر ’اللہ کا واسطہ‘ سننے کے بعد بھی جاگ نہ سکا اور نہ ہی اُنہیں سزا دی گئی کہ وہ بندوق اور اختیار رکھنے والے ہم عصروں کے لئے ’نشان عبرت‘ بن جاتے! لاہور کی سڑک پر امریکہ کے لئے جاسوسی کرنے والا ’ریمنڈ ڈیوس‘ دیت دے کر پاکستان کے نظام انصاف و قانون حتی کہ شرعی قوانین کا مذاق اُڑاتے ہوئے اپنے وطن واپس جا پہنچا اور نجانے کتنے ہی ’ریمنڈ ڈیوس‘ بھیس بدل کر فیصلہ سازی کے منصب پر آج بھی فائز ہیں! کیا صرف حلف اٹھانے سے کوئی حب الوطن ہوسکتا ہے؟ جن لوگوں نے اپنے بچوں کو بیرون ملک انصاف پسند معاشروں میں رکھا ہوا ہے اور خود پاکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں اُن سے انصاف کی توقع کیونکر رکھی جاسکتی ہے؟ کیا اِس شعوری گھڑی ہم یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’دہری شہریت رکھنے والے پاکستان میں سیاست اور سرکاری ملازمتیں کرنے کے اہل نہیں ہونے چاہئیں؟‘‘

شاہ رخ جتوئی کس کس کو یاد ہے؟ 
مثالوں اور مقدمات کے احوال سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آج کی عدالت کر بھی دے لیکن تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وکلاء بھاری فیسوں کے عوض اپنی مہارت‘ تجربے سے جان بوجھ کر ملزموں کا ساتھ دیتے ہیں! کس میں ہمت ہے کہ ’’مطالعۂ پاکستان‘‘ کر سکے۔ پاکستان جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور اِس مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کا ضرورت سے زیادہ انتظام تو کر رکھا ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے لئے پولیس کا وجود صرف نمائشی اُور باعث آزار ہے!
خود سے پوچھیں کہ ۔۔۔ گذشتہ پندرہ بیس برس میں بچوں اور بڑوں سے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات اور غیرت کے نام پر ہوئے کتنے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دی گئیں؟ کتنی مرتبہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں نے عوام کے مفاد میں اِن جرائم پر آواز اٹھائی؟ ہماری عدالتیں اُور وکلاء پر مشتمل انصاف کی آنکھیں کتنی بار اشک بار ہوئیں؟ اگر ’مطالعۂ پاکستان‘ خاموش ہے تو پھر عام آدمی (ہم عوام) قصور کی بے قصور زینب پر ہوئے ظلم کے خلاف ’انصاف انصاف‘ کی رٹ کیوں لگائے ہوئے ہیں؟ 

’زینب کے لئے انصاف؟ کیسا انصاف اور کون سا انصاف؟ نجانے زینب نے کتنی بار ’ہائے امّی‘ پکارا ہوگا۔ ’چار جنوری‘ کو اغوأ اور ’نو جنوری‘ کو ’کوڑہ دان‘ سے ملنے والی ’زینب بنت محمد امین‘ کے حلق میں نجانے کتنی سسکیاں دب گئی ہوں گی۔ اُس کی آنکھوں میں پتھر سوال بھی کیا اُس کے ساتھ ہی دفن کر دیئے گئے؟ زینب کا دُکھ ختم لیکن اُس کے والدین اور بہن بھائیوں کے دکھوں کا مداوا کیسے ممکن ہوگا؟ 

کیا کوئی ایسا انصاف بھی ہے جو اُس کے ماں باپ کو صرف ایک بار معصوم لہجے اور چہکتی آواز میں ’ماما پاپا‘ کی آواز سنا سکے؟ تلخ مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ تو ایسا پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار۔ 

ایسے معاشرے پر لعنت بھیجنے کا بھی محل نہیں جو موجودہ حکمرانوں کو آئندہ عام انتخابات میں پھر سے ووٹ دے گا۔ یہی قصور کے لوگ پھر سے اُنہی کو ووٹ دیں گے جنہوں نے پاکستان کو جہنم بنا دیا ہے۔ مطالعۂ پاکستان کرنے کے لئے ہمیں کسی دور ویرانے جا کر جتنی اونچی آواز میں ممکن ہو‘ چیچنا چاہئے۔ یہ گھڑی جی بھر کے رونے کی ہے اُور ہم رونے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے! 

’’تدفین کرچکے ہیں‘ ہر خوبی و خواہش کی۔۔۔ 
معمول بے حسی ہے ۔۔۔ مقتول ہے زینب!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan 2018: Medical Education Standard in Pakistan, a road to nowhere!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مستقبل کی سوچ!
پاکستان میں جس طرح رہائشی اور کاروباری علاقوں کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے بالکل اِسی طرح خالصتاً کاروباری نکتۂ نظر سے نجی اِداروں کی حاکمیت کے خلاف ریاست کا وجود بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ طب (میڈیکل) جیسے حساس شعبے میں ’اعلیٰ تعلیم‘ کی صورتحال بھی ناقابل بیان ہے جس کا ’اَزخودنوٹس‘ کی سماعت کے دوران (بارہ جنوری کے روز) سپرئم کورٹ نے ’’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ( پی ایم ڈی سی)‘‘ نامی نگران ادارے کو تحلیل کرتے ہوئے ’’سات رکنی عبوری کمیٹی‘‘ تشکیل دی ہے جو آئندہ کسی حکمنامے تک روزمرہ امور کی انجام دہی کرے گی۔ 

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ایم ڈی سی کے وجود اور ’سنٹرل ایڈمیشن پالیسی‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جو سات رکنی عبوری کمیٹی تشکیل دی اُس کی سربراہی جسٹس شاکر اللہ جان کریں گے جبکہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف ’پی ایم ڈی سی‘ سے متعلق قانون سازی میں معاونت کی غرض سے کمیٹی کا حصہ بنائے گئے ہیں۔ اِس اعلیٰ اختیاراتی عبوری کمیٹی کو نجی میڈیکل کالجوں کی جانچ پڑتال (انسپکشن) کا اختیار بھی حاصل ہوگا‘ جو خوش آئند اقدام ہے اُور اُمید ہے کہ سپرئم کورٹ کی اِس دلچسپی اور باریک بین خلوص نیت کوشش سے خاطرخواہ بہتری آئے گی۔ ’’سمجھ میں زندگی آئے کہاں سے۔۔۔ پڑھی ہے یہ عبارت درمیاں سے۔ (جان ایلیا)۔‘‘

پاکستان میں رجسٹرڈ طبی معالجین کی تعداد ایک لاکھ چونسٹھ ہزار اور ماہر (اسپیشلسٹ) ڈاکٹروں کی تعداد سینتالیس ہزار ہے جبکہ پچیس ہزار ماہر ڈاکٹر پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں! 

زوال نہیں تو کیا ہے کہ معاشرے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ذہین‘ باشعور‘ مفید اور زمینی حقائق کو سمجھنے والوں نے خود کو انجان بنا رکھا ہے اور وہ ایک ایسے ماحول سے دل برداشتہ ہیں جسے ٹھیک کرنا خود اُنہی کی ذمہ داری ہے۔ ’طب کی تعلیم کا انتظام اور اِس کا معیار برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ اِس سے آئینی فرض سے انکار ممکن نہیں لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم نے سب کچھ حکومت پر ڈال دیا ہے۔ سرکاری خرچ پر ڈاکٹری کی عملی تربیت اور مہارت حاصل کرنے کے بعد جو ڈاکٹر پاکستان کو چھوڑ کر جاتے ہیں‘ انہیں اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دینا چاہئے کہ اُن پر مٹی کا کتنا قرض واجب الاداء ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ پچیس ہزار سے زائد ڈاکٹر بیرون مل جانے کے باوجود بھی حکومت کو نہیں بلکہ عدالت عظمی کو لاحق تشویش سامنے آئی ہے۔ اگر مذکورہ پچیس ہزار ڈاکٹر بیرون ملک نہ بھی گئے ہوتے تب بھی پاکستان میں ماہر ڈاکٹروں کی تعداد حسب آبادی کم ہے جس پر قابو پانے کے لئے حکومت کے پاس منصوبہ بندی نہیں۔ ڈاکٹر اگر بیرون ملک جا رہے ہیں تو اس کی وجہ وہاں کے بہتر ملازمتی طریقۂ کار اور حالات کار ہیں جن میں اُنہیں مالی طور پر کشش دکھائی دیتی ہے۔ 

پاکستان میں ڈاکٹروں کو جان و مال اور ملازمتی تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ اہلیت کی بنیاد پر اگر محکمانہ ترقی کا نظام وضع کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ کوئی اپنا ملک اور آبائی شہر چھوڑ کر چلا جائے۔
سپرئم کورٹ کے سامنے زیرغور معاملہ ’طب کی تعلیم‘ اور ’نجی اداروں کی من مانیوں‘ کا ہے۔ عدالت عظمی نے بظاہر عزم کر رکھا ہے کہ میڈیکل کی تعلیم دینے کے لئے مقرر کردہ فیسوں سے زائد وصولیاں کرنے اور ایڈمیشنز دینے کے لئے عطیات پر عائد پابندی کا کھلم کھلا مذاق اڑانے والوں سے نمٹا جائے گا اُور اِس عدالتی مؤقف کی حمایت خود ’پی ایم ڈی سی‘ کے وکیل نے بھی کی ہے کہ ’نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے مقررہ شرح کے مطابق داخلہ فیسیوں اور اِن کے علاؤہ عطیات کے نام پر وصولیاں غلط اقدام ہے۔‘ پی ایم ڈی سی کی جانب سے میڈیکل کی سالانہ فیس 6 لاکھ 42 ہزار روپے مقرر ہے جبکہ نجی میڈیکل کالجز فی طالب علم سالانہ فیس کی مد میں 9 سے 15 لاکھ روپے وصول کر رہے ہیں۔ سالانہ فیسوں اور دیگر مدوں میں اضافی وصولیاں کرنے والے باقاعدہ رسیدیں دی جاتی ہیں۔ 

پاکستان میں طب کی تعلیم کا معیار اُور نجی اداروں کی حاکمیت و سرپرستی بدقسمتی سے دانستہ طور پر کی جا رہی ہے اور حکومتوں نے ہمیشہ عوام کے مقابلے سرمایہ داروں کے مفادات کا زیادہ تحفظ کیا ہے۔ یہ طرزعمل ناقابل قبول ہے۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو عملی زندگی میں جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے نجی میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات اُن کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اگر پاکستان میں ڈاکٹروں اور ماہر ڈاکٹروں سمیت آبادی کے تناسب سے طبی سہولیات کی کمی ہے تو اِس میں اضافہ حکومتی وسائل سے خود حکومت ہی کو کرنا چاہئے۔ 

عمومی تعلیم کی طرح طب کی پیشہ وارانہ تعلیم بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے سے پیدا ہونے والی خرابیوں پر تعجب کا اظہار کرنے کی بجائے غلطی سے رجوع ضروری ہے اور ایسے تمام نجی میڈیکل کالجز جو ’پی ایم ڈی سی‘ کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اُترتے اُنہیں بناء رعایت ختم میں تاخیر و کوتاہی کا ازالہ ہونا چاہئے! معاملہ سالانہ فیسوں کی زائد وصولی سے زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ طب کی تعلیم کا معیار بھی گر رہا ہے۔ 

ذرائع ابلاغ میڈیکل کی تعلیم سے جڑی بے قاعدگیوں کی مسلسل رپورٹ کرتے آ رہے ہیں لیکن ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینیٹرین) سے تعلق رکھنے والے اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دست راست (ڈاکٹر) عاصم حسین اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ میں کسی کا احتساب کا خوف نہیں۔ جب تک اربوں کی اِس مالی و انتظامی بدعنوانیوں کی جڑ تک نہیں پہنچا جائے گا اور ماضی و حال میں کی گئی خردبرد (فنانشیل کک بیکس) ضبط نہیں کئے جائیں گے‘ اُس وقت تک معاملات کی درستگی محض عدالتی سماعتوں اور عبوری انتظامیہ تعینات کرنے سے ممکن نہیں ہوگی۔ 

سمجھ لیجئے کہ خواہش اور عدالت چاہے جتنی اور جس قدر بھی بڑی ہو لیکن بناء ’سزا و جزا‘ اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کے کڑے احتساب‘ مالی بدعنوانیوں اور انتظامی بے قاعدگیوں کے جاری سلسلے روکے نہیں جا سکیں گے۔
۔