ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تشکر سے تفکر تک!
پاکستان کے سیاسی نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ عمران خان ہے‘ جو ماضی و حال کے حکمرانوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی بدعنوانی کے امکانات ختم کرنا چاہتا ہے! لیکن کیا کوئی بڑا کام کرنے کے لئے ’ترتیب‘ کی ضرورت نہیں ہوتی؟ فکری بحث کا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح ملک کی عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے‘ اگر اِسی طرز فکروعمل کا مظاہرہ ’پارلیمان‘ کو اہمیت دینے کی صورت بھی کیا جاتا تو آج پاکستان کا سیاسی منظرنامہ زیادہ جمہوری اُور تبدیل دکھائی دے رہا ہوتا! کون جانتا تھا کہ ’دو نومبر‘ کا ’اسلام آباد دھرنا‘ احتجاج سے تشکر میں تبدیل ہو جائے گا لیکن یہ مرحلہ تشکر سے زیادہ تفکر اور اُن محرکات پر غور کرنے کا ہے‘ جس کی وجہ سے ’’شفاف‘ بلااِمتیاز اُور فوری طور پر ’احتساب کا عمل‘ شروع کرنے کا مطالبہ (ہدف) بھی اپنی جگہ موجود ہے‘ لیکن لائحہ عمل تبدیل کرنے ہی میں عافیت سمجھی گئی ہے۔ دو نومبر کے حوالے سے ’بنی گالہ‘ میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے سامنے جو اَمور غوروخوض کے لئے پیش کئے جاتے رہے‘ اُن میں حکومت اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی جاری رکھنا سرفہرست لیکن خاطرخواہ تعداد میں احتجاجی مظاہرین جمع نہ کرنے پر تشویش کا اظہار سب سے نمایاں رہا۔
’بنی گالہ‘ میں ڈیرے ڈالنے سے زیادہ ضروری تھا کہ ہر مرکزی رہنما اپنے اپنے آبائی حلقے سے کارکنوں کے قافلے ترتیب دیتا۔ ایسی حکمت عملی تیار کی جاتی جو روائتی راستوں پر حائل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہونے سے قبل پرامن احتجاجی کارکنوں کو کسی ایک مقام پر جمع کیا جاتا لیکن سب کچھ ذرائع ابلاغ کے سامنے کھول کر رکھ دیا گیا۔ ہر وقت بولنے کی عادت نے تحریک انصاف کی قیادت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور حالیہ نقصان تو سب سے زیادہ ہے‘ کہ ایک مرحلے پر احتجاج جاری رکھنا ہی محال دکھائی دینے لگا تھا!
تحریک انصاف کی کمزوری سے ’ٹیلی ویژن ٹاک شوز‘ اُور لمحہ بہ لمحہ نت نئی خبر کی تلاش کرنے والے ماہرین نہ صرف خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ اُن کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والوں کو بھی ’بنی گالہ‘ کے بند کمروں میں ہوئے اجلاس میں ہوئی بات چیت‘ اختلاف اور متفقہ لائحہ عمل جاننے میں ذرا مشکل پیش نہیں آتی۔ ذرائع ابلاغ کے اس قدر فعال کردار نے ’مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات‘ میں تحریک انصاف کی کامیابی کو خیبرپختونخوا میں یقینی بنایا جس کے بعد ضرورت اِس امر کی تھی کہ ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے فوج کی طرح ’تین رنگی پراپگنڈہ‘ سے کام لیا جاتے۔ خیبرپختونخوا کی سطح پر ہونے والے ہر ایک اصلاح کی مسلسل تشہیر کی جاتی۔ طرزحکمرانی میں بہتری اور مالی و انتظامی نظم و ضبط لاگو کرنے کی کوششوں کو عوام کے روبرو رکھا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا میں کارکردگی کے حوالے سے مرکزی قیادت کو جو طعنے سننے پڑتے ہیں‘ اُن کا لب و لہجہ اتنا تلخ نہ ہوتا۔
تحریک انصاف کی مرکزی فیصلہ ساز قیادت میں بھی ردوبدل ناگزیر ہے۔ عمران خان کے اردگرد ’کور کمیٹی‘ کہلانے والے رہنماؤں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی آواز پر ایک ہزار تو کیا چند سو افراد ہی جمع ہو سکیں لیکن وہ دھرنوں اور احتجاج کے فیصلے ٹھونس ٹھونس کر خیبرپختونخوا کی اُس قیادت کو مسلسل امتحان میں ڈالے رہتے ہیں جس کی توجہ اور تمام تر مصروفیت اصلاحاتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے پر مرکوز ہونی چاہئے تھی۔ تصور کیجئے کہ جب وزیراعلیٰ‘ کابینہ کے اراکین حتیٰ کہ اضلاع کے ناظمین و بلدیاتی نمائندے بیک وقت عازم سفر ہو جائیں تو کیا نظریاتی گھر کی حفاظت اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد متاثر نہیں ہوگا؟ ’دو نومبر‘ کے دھرنے کا اعلان کرنے سے پہلے اگر خیبرپختونخوا میں ’سٹوڈنٹس اور خواتین ونگز‘ کو منظم کیا جاتا تو بھی نتائج مختلف ہوتے۔ حال ہی میں ہوئے خواتین ونگ کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کم و بیش سبھی مقررین نے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور زرگل خان اور چیئرمین عمران خان کے مشیر افتخار حسین شاہ کی توجہ خواتین ونگ کی بحالی کی جانب مبذول کرائی لیکن جب اُن کے خطاب کی باری آئی تو موصوف نے کرخت لہجے میں کہا کہ ’’جو پارٹی کے فیصلوں کی پابندی نہیں کرتا اُسے نکال دیا جائے گا۔‘‘
کسی جمہوری پارٹی کے داخلی نظام میں اگر کارکنوں کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں ہوگی تو کیا اِس سے کارکنوں میں احساس محرومی اور تناؤ پیدا نہیں ہوگا؟ فوج کو سیاسی جماعت کی طرح تو چلایا جاسکتا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کو فوج کی طرح نہیں چلایا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ سابق گورنر کی بطور مشیر شمولیت سے زیادہ اُن کی علیحدگی خبروں میں جگہ بنائے گی! لازماً تحریک انصاف کو اُن تمام غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے جو وہ خود ماضی میں کرتی آئی ہے یا اُس سزا پر نظر رکھے جو دیگر سیاسی جماعتیں بھگت رہی ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں کی رائے اور اُن عوامی نمائندوں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی!
انتخابی سیاست کے لئے سرمایہ کار مل ہی جاتے ہیں جن کی پاکستان میں کبھی بھی کمی نہیں رہی! لیکن کسی سیاسی جماعت کا ’’اصل اثاثہ‘‘ اُس کے نظریاتی کارکن ہوتے ہیں‘ جو قیادت کے فیصلوں کا مان رکھنے کے لئے ’دامے درہمے سخنے‘ جدوجہد کرتے ہیں‘ مصائب و مشکلات جھیلتے ہیں اور اُنہیں عہدوں یا نمودونمائش کی لالچ بھی نہیں ہوتی! تحریک انصاف کو ایسے بہت سے کارکنوں کی ’’گمنامی‘‘ ختم کرنا ہوگی۔
’کور کمیٹی‘ میں خیبرپختونخوا سے منتخب ہونے والے اُن خاموش کارکنوں کو شامل کرنا ہوگا‘ جن کا اپنا کچھ نہ کچھ ’ووٹ بینک‘ موجود ہے اور وہ جانتے بھی ہیں کہ اگر مقامی یا ملکی سطح پر کسی احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا جائے گا تو اُسے کامیاب بنانے کے لئے افرادی قوت کا بندوبست اور جملہ ضروریات کہاں سے اور کیسے پوری کی جا سکیں گی۔ دو نومبر کی احتجاجی تحریک کے فیصلے سے سبق سیکھتے ہوئے سوچنا ہوگا کہ تحریک کے مرکزی فعال ’’سوشل میڈیا سیل‘‘ کے بل بوتے پر احتجاج کا اعلان تو کیا جا سکتا ہے لیکن اِس کی کامیابی یقینی (گارنٹی) نہیں ہوگی۔