Thursday, November 3, 2016

Nov2016: Thinking process in PTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

تشکر سے تفکر تک!


پاکستان کے سیاسی نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ عمران خان ہے‘ جو ماضی و حال کے حکمرانوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی بدعنوانی کے امکانات ختم کرنا چاہتا ہے! لیکن کیا کوئی بڑا کام کرنے کے لئے ’ترتیب‘ کی ضرورت نہیں ہوتی؟ فکری بحث کا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح ملک کی عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے‘ اگر اِسی طرز فکروعمل کا مظاہرہ ’پارلیمان‘ کو اہمیت دینے کی صورت بھی کیا جاتا تو آج پاکستان کا سیاسی منظرنامہ زیادہ جمہوری اُور تبدیل دکھائی دے رہا ہوتا! کون جانتا تھا کہ ’دو نومبر‘ کا ’اسلام آباد دھرنا‘ احتجاج سے تشکر میں تبدیل ہو جائے گا لیکن یہ مرحلہ تشکر سے زیادہ تفکر اور اُن محرکات پر غور کرنے کا ہے‘ جس کی وجہ سے ’’شفاف‘ بلااِمتیاز اُور فوری طور پر ’احتساب کا عمل‘ شروع کرنے کا مطالبہ (ہدف) بھی اپنی جگہ موجود ہے‘ لیکن لائحہ عمل تبدیل کرنے ہی میں عافیت سمجھی گئی ہے۔ دو نومبر کے حوالے سے ’بنی گالہ‘ میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے سامنے جو اَمور غوروخوض کے لئے پیش کئے جاتے رہے‘ اُن میں حکومت اور ریاستی اداروں پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی جاری رکھنا سرفہرست لیکن خاطرخواہ تعداد میں احتجاجی مظاہرین جمع نہ کرنے پر تشویش کا اظہار سب سے نمایاں رہا۔ 

’بنی گالہ‘ میں ڈیرے ڈالنے سے زیادہ ضروری تھا کہ ہر مرکزی رہنما اپنے اپنے آبائی حلقے سے کارکنوں کے قافلے ترتیب دیتا۔ ایسی حکمت عملی تیار کی جاتی جو روائتی راستوں پر حائل رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہونے سے قبل پرامن احتجاجی کارکنوں کو کسی ایک مقام پر جمع کیا جاتا لیکن سب کچھ ذرائع ابلاغ کے سامنے کھول کر رکھ دیا گیا۔ ہر وقت بولنے کی عادت نے تحریک انصاف کی قیادت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور حالیہ نقصان تو سب سے زیادہ ہے‘ کہ ایک مرحلے پر احتجاج جاری رکھنا ہی محال دکھائی دینے لگا تھا!

تحریک انصاف کی کمزوری سے ’ٹیلی ویژن ٹاک شوز‘ اُور لمحہ بہ لمحہ نت نئی خبر کی تلاش کرنے والے ماہرین نہ صرف خوب فائدہ اُٹھا رہے ہیں بلکہ اُن کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والوں کو بھی ’بنی گالہ‘ کے بند کمروں میں ہوئے اجلاس میں ہوئی بات چیت‘ اختلاف اور متفقہ لائحہ عمل جاننے میں ذرا مشکل پیش نہیں آتی۔ ذرائع ابلاغ کے اس قدر فعال کردار نے ’مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات‘ میں تحریک انصاف کی کامیابی کو خیبرپختونخوا میں یقینی بنایا جس کے بعد ضرورت اِس امر کی تھی کہ ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے فوج کی طرح ’تین رنگی پراپگنڈہ‘ سے کام لیا جاتے۔ خیبرپختونخوا کی سطح پر ہونے والے ہر ایک اصلاح کی مسلسل تشہیر کی جاتی۔ طرزحکمرانی میں بہتری اور مالی و انتظامی نظم و ضبط لاگو کرنے کی کوششوں کو عوام کے روبرو رکھا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا میں کارکردگی کے حوالے سے مرکزی قیادت کو جو طعنے سننے پڑتے ہیں‘ اُن کا لب و لہجہ اتنا تلخ نہ ہوتا۔

تحریک انصاف کی مرکزی فیصلہ ساز قیادت میں بھی ردوبدل ناگزیر ہے۔ عمران خان کے اردگرد ’کور کمیٹی‘ کہلانے والے رہنماؤں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی آواز پر ایک ہزار تو کیا چند سو افراد ہی جمع ہو سکیں لیکن وہ دھرنوں اور احتجاج کے فیصلے ٹھونس ٹھونس کر خیبرپختونخوا کی اُس قیادت کو مسلسل امتحان میں ڈالے رہتے ہیں جس کی توجہ اور تمام تر مصروفیت اصلاحاتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے پر مرکوز ہونی چاہئے تھی۔ تصور کیجئے کہ جب وزیراعلیٰ‘ کابینہ کے اراکین حتیٰ کہ اضلاع کے ناظمین و بلدیاتی نمائندے بیک وقت عازم سفر ہو جائیں تو کیا نظریاتی گھر کی حفاظت اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد متاثر نہیں ہوگا؟ ’دو نومبر‘ کے دھرنے کا اعلان کرنے سے پہلے اگر خیبرپختونخوا میں ’سٹوڈنٹس اور خواتین ونگز‘ کو منظم کیا جاتا تو بھی نتائج مختلف ہوتے۔ حال ہی میں ہوئے خواتین ونگ کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کم و بیش سبھی مقررین نے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاسی امور زرگل خان اور چیئرمین عمران خان کے مشیر افتخار حسین شاہ کی توجہ خواتین ونگ کی بحالی کی جانب مبذول کرائی لیکن جب اُن کے خطاب کی باری آئی تو موصوف نے کرخت لہجے میں کہا کہ ’’جو پارٹی کے فیصلوں کی پابندی نہیں کرتا اُسے نکال دیا جائے گا۔‘‘

 کسی جمہوری پارٹی کے داخلی نظام میں اگر کارکنوں کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں ہوگی تو کیا اِس سے کارکنوں میں احساس محرومی اور تناؤ پیدا نہیں ہوگا؟ فوج کو سیاسی جماعت کی طرح تو چلایا جاسکتا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کو فوج کی طرح نہیں چلایا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ سابق گورنر کی بطور مشیر شمولیت سے زیادہ اُن کی علیحدگی خبروں میں جگہ بنائے گی! لازماً تحریک انصاف کو اُن تمام غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے جو وہ خود ماضی میں کرتی آئی ہے یا اُس سزا پر نظر رکھے جو دیگر سیاسی جماعتیں بھگت رہی ہیں جنہوں نے اپنے کارکنوں کی رائے اور اُن عوامی نمائندوں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی!
انتخابی سیاست کے لئے سرمایہ کار مل ہی جاتے ہیں جن کی پاکستان میں کبھی بھی کمی نہیں رہی! لیکن کسی سیاسی جماعت کا ’’اصل اثاثہ‘‘ اُس کے نظریاتی کارکن ہوتے ہیں‘ جو قیادت کے فیصلوں کا مان رکھنے کے لئے ’دامے درہمے سخنے‘ جدوجہد کرتے ہیں‘ مصائب و مشکلات جھیلتے ہیں اور اُنہیں عہدوں یا نمودونمائش کی لالچ بھی نہیں ہوتی! تحریک انصاف کو ایسے بہت سے کارکنوں کی ’’گمنامی‘‘ ختم کرنا ہوگی۔ 

’کور کمیٹی‘ میں خیبرپختونخوا سے منتخب ہونے والے اُن خاموش کارکنوں کو شامل کرنا ہوگا‘ جن کا اپنا کچھ نہ کچھ ’ووٹ بینک‘ موجود ہے اور وہ جانتے بھی ہیں کہ اگر مقامی یا ملکی سطح پر کسی احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا جائے گا تو اُسے کامیاب بنانے کے لئے افرادی قوت کا بندوبست اور جملہ ضروریات کہاں سے اور کیسے پوری کی جا سکیں گی۔ دو نومبر کی احتجاجی تحریک کے فیصلے سے سبق سیکھتے ہوئے سوچنا ہوگا کہ تحریک کے مرکزی فعال ’’سوشل میڈیا سیل‘‘ کے بل بوتے پر احتجاج کا اعلان تو کیا جا سکتا ہے لیکن اِس کی کامیابی یقینی (گارنٹی) نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, November 2, 2016

Nov2016: Outcome of the PTI's Islamabad Dharna


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِحتجاج: تشکیل و تکمیل کے مراحل!


پاکستان تحریک اِنصاف کے اِحتجاجی دھرنے کو ’ناکام‘ بنانے کے لئے وفاقی اُور صوبہ پنجاب کی حکومتیں ہر ممکنہ طاقت کا ’غیرمحتاط و غیر ضروری‘ استعمال کر رہی ہیں‘ جو پاکستان کے حق میں مفید نہیں کیونکہ اِس سے نہ صرف خیبرپختونخوا کے رہنے والوں کی ایک بڑی اکثریت (بالخصوص تحریک انصاف کے حامیوں) میں پایا جانے والا ’احساس محرومی‘ بڑھا ہے بلکہ آبادی کے لحاظ سے بڑے ایک صوبے (پنجاب) کی ملکی وسائل پر اختیار (حاکمیت) سے پیدا ہونے والی صورتحال (خرابیوں) کو دیکھتے ہوئے یہ ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل ہونی چاہئے تاکہ انتظامی طور پر پاکستان کی صوبائی اکائیاں برابری کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور جمہوری عمل میں شریک ہو سکیں۔

اکتیس اکتوبر کی سہ پہر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا صوابی پہنچتے ہیں‘ جہاں مختلف اضلاع سے آئے ہوئے تحریک انصاف کے منتظر کارکنوں کے قافلے گرمجوش نعروں سے اُن کا استقبال کرتے ہیں۔ چند منٹ کی تقریر میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کارکنوں کو پرامن اور غیرمسلح رہنے کی بار بار تلقین کرتے ہیں۔ بدعنوانی سے پاک پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں کا قافلہ چلتا ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑیوں میں سوار اُور پیدل چلنے والوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے لیکن صوبہ خیبرپختونخوا اور صوبہ پنجاب کی سرحد ’ہارون آباد‘ کے مقام پر اسلام آباد جانے والوں کو راستے میں نصب رکاوٹیں ملتی ہیں‘ جنہیں بھاری مشینری کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس اِس دوران آنسوگیس کے گولے برساتی ہے اور کارکن دستیاب پانی و نمک کے ذخیرے سے ایک دوسرے کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

’صوابی (خیبرپختونخوا)‘ سے ’ہارون آباد (پنجاب)‘ تک کم وبیش ’بیس کلومیٹر‘ کا فاصلہ طے کرنے میں ’چار گھنٹے‘ اذیت و مشکلات بھرے ثابت ہوتے ہیں۔ قافلہ سالار وزیراعلیٰ کالے شیشوں والی ائرکنڈیشن گاڑی میں قیادت کرتے ہوئے برہان تک آ پہنچتے ہیں جو صوبہ پنجاب کی حدود ہے اور یہاں بھی اُن کا سامنا پنجاب پولیس کے چاک و چوبند دستوں سے ہوتا ہے۔ سفید دھواں اگلتے آنسو گیس شیل نہتے اُور پرامن احتجاجی مظاہرین کی ’صوبہ پنجاب آمد‘ پر استقبال کرتے ہیں اور تمام رات وقفے وقفے سے آنسو گیس گولے پھینکنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مہمان نوازی کا یہ انداز پاکستان کی سیاسی تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا کہ جب کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کی قیادت کے باوجود بھی پولیس راستہ نہیں دیتی! تحریک انصاف کے قافلے میں موجود کارکن نماز مغرب و عشاء کے اوقات میں صفیں بنا لیتے ہیں لیکن آنسوگیس کی گولہ باری جاری رہتی ہے۔ یکم نومبر کا صبح نماز فجر کے بعد آنسوگیس کے گولے پھر سے ’یہاں وہاں‘ گرنے لگتے ہیں تو تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے پیغام ملتا ہے کہ کارکن واپس صوابی (خیبرپختونخوا) کی حدود میں چلے جائیں اور اگلے حکم کا انتظار کریں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت لائحہ عمل بدل لیتی ہے۔ انسانی حقوق اور مستحکم جمہوریت کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں پاکستان میں جاری اِس پولیس تشدد اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہیں کہ ’’نواز لیگ کی حکومت برداشت سے کام لے اور سیاسی کارکنوں کو غیض و غضب کا نشانہ نہ بنایا جائے۔‘‘ دوسری طرف وفاقی حکومت کی جانب سے یکم نومبر کی صبح وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ حکومت یہی چاہتی ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کے بدلے اُس احتجاج کو ختم کیا جائے جو خیبرپختونخوا سے صوبہ پنجاب کے راستے اسلام آباد پہنچنا چاہتے ہیں! لیکن لب و لہجہ میں پائی جانے والی فرعونیت محسوس کی جا سکتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق مذاکرات کی دعوت کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’تحریک انصاف‘ کے کارکن اگر مہینہ بھر بھی کسی مقررہ جگہ پر بیٹھ کر احتجاج کرنا چاہیں تو وفاقی حکومت کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اُنہیں تحریک انصاف کے کارکنوں کے اسلام آباد داخلے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دکھائی نہیں دیتیں!

اکتیس اکتوبر سے یکم نومبر تک پشاور اُور اسلام آباد کے درمیان جو کچھ بھی رونما ہوا‘ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ احتجاج سے تعلق نہ رکھنے والوں کو جس طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی افراتفری کی وجہ سے جس طرح کئی عالمی کانفرنسیں ملتوی ہوئیں‘ اُس کا حساب کون دے گا؟ خیبرپختونخوا کی قیادت میںآنے والے کارکنوں کو جس انداز میں ’خوش آمدید‘ کہا گیا اور جس طرح طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا‘ وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے جس سے قبل ابواب میں تحریر ملتا ہے کہ جس کسی جمہوری یا جمہوری آمرانہ یا آمرانہ حکومت نے مخالفین کی آواز ’’طاقت‘‘ کے ذریعے دبانے کی کوشش کی اُسے منہ کی کھانی پڑی اور ہر ایک آنسو گیس کا گولہ‘ ہر ایک ربڑ کی گولی اور ہر ایک لاٹھی جو کسی نہتے‘ پرامن سیاسی کارکن کے سر یا کمر پر برسائی گئی اُس کی چوٹ بعدازاں ظلم کرنے والوں یا اُن کے ہمراں فیصلہ سازوں و مشیروں کو جھیلنا پڑی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن قصور وار ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے وسائل لوٹنے والوں کے احتساب کا زبانی کلامی مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر آج ہی کے دن تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر وفاقی حکومت سے ’ڈیل (معاہدہ)‘ کر لیتی ہے اور شریک اقتدار ہو کر خود بھی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا حصّہ بن جاتی ہے تو راتوں رات ’سب ٹھیک‘ ہو جائے گا۔ وزارتیں‘ عہدے اُور مالی فوائد کے ساتھ آئندہ وفاقی حکومت میں زیادہ بڑی حصہ داری ملنے کی یقین دہانی تحریک انصاف کی منتظر ہے لیکن آج کا پاکستان سیاسی کارکنوں کی قربانیوں پر سودا بازی کرنے کا نہیں۔ 

ذرائع ابلاغ ہر بال کی طرح ہر ایک لفظ کی کھال اُتار رہے ہیں۔ الفاظ کے مفہوم اور اُن کی باریک بینی سے تشریح ہو رہی ہے‘ جس میں ’موقع پرستی‘ کی گنجائش نہیں رہی۔ 

پاکستان ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کی جانب قدم قدم بڑھ رہا ہے۔ ہر رکاوٹ اُور ہر ایک پرتشدد اقدام ’سیاسی و جمہوری انقلاب‘ کی منزل کو مزید قریب کر رہا ہے کیونکہ یہ سب ایک ایسی شعوری تحریک کا حصہ ہے‘ جس نے 20برس سے زائد کی جدوجہد میں عوام کو ’ایک نئے پاکستان‘ کی تشکیل کی ضرورت سے آشنا اور پاکستان کی تکمیل کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عملاً آمادہ کیا ہے۔ اب تبدیلی (انقلاب) آ کر رہے گا۔ حکمرانوں کی طرح یہ لمحے جنون کے امتحان کی گھڑیاں بھی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔