ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مولوی جیؒ : ایک مجاہد
پیرطریقت‘ سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی اَلمعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (1920ء - 2004ء) کا ’عرس مبارک‘ ہر سال ’تیرہ رمضان المبارک‘ منایا جاتا ہے‘ اِس دن کی مناسبت سے ’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ کوچہ آقا پیر جان‘ اَندرون یکہ توت شریف اُور آپ کے مزار پُراَنوار سیّد حسن بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کوہاٹ روڈ پر ختم قرآن کریم‘ محافل حمد و نعت‘ منقبت اُور دعائیہ تقاریب کی صورت پہلی برسی (دوہزارپانچ) سے انعقاد ایک معمول ہے‘ جن میں ’سلسلہ قادریہ حسنیہ‘ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ہزاروں مرید اور عقیدت مند اندرون و بیرون ملک سے بطور خاص شریک ہو کر تصوف کے اِس سرتاج گھرانے سے اظہار وابستگی اور اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ پشاور کا یہ روحانی اُور علمی گھرانہ اُس سلسلۂ نور (نسب) کی ایک کڑی ہے‘ جو پیران پیر حضرت شیخ محی الدین اَبو محمد عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ (1077ء سے 1166ء)‘ سے ہوتا ہوا‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم (خانوادہ رسالت اہلبیت اَطہار علیہم السلام) تک مسلسل ہے۔
علمی‘ اَدبی‘ صحافتی اُور سیاسی و سماجی خدمات کے علاؤہ مولوی جیؒ نے اپنے گھرانے کی اُن ’روشن روایات‘ کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی‘ جن کا مرکزی نکتہ ’’مسلکِ اہلسنت والجماعت کے فقہ حنفی عقیدے کا تحفظ اور اِس کی روشنی میں تربیت و رہنمائی‘‘ تھا۔ مولوی جیؒ پشاور کی پہچان اُور سرتاج شخصیت تھے۔ رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے لیکر اندرون پشاور کی سیاست میں اُن کا کردار آج بھی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب‘ آستانہ عالیہ کے حمایت یافتگان کی کامیابی یقینی رہتی ہے۔
مولوی جیؒ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو، اُن کے ہاں پایا جانے والا تحریر و تحقیق کا ذوق اور شوق تھا۔ بناء فروعی اختلافات میں الجھے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کو عصری مسائل اور حالات کی روشنی میں بیان کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ بات کہ پشاور کو مولوی جیؒ اور مولوی جیؒ کو پشاور پر اعتماد تھا اور اِس اعتماد و بھروسے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جبکہ مولوی جیؒ کے فرزند ارجمند سیّد نورالحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا جی خاندان عالیہ کی روایات کے محافظ بھی ہیں اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف بھی کئے ہوئے ہیں۔ سلطان آغا جی ہی کی زیرنگرانی اور کوششوں سے مولوی جیؒ کی تحریر کردہ ’40کتب‘ دروس قرآن و حدیث کی آڈیو ویڈیو اور خدمات کے حوالے سے کوششوں کا احوال ویب سائٹ http://alameer.org پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جس کے جاری کرنے کا بنیادی مقصد ’اُمت مسلمہ‘ میں اُس اخوت و اتحاد کے پیغام کو فروغ دینا ہے‘ جس کے لئے مولوی جیؒ تمام زندگی اپنے قول و فعل سے جہاد کرتے رہے۔ آپ کی محافل میں علم کے موتی (اللہ کی رحمت) تقسیم ہوتی اور طالب علموں کو اُس کی استعداد کے ’سخی کے دربار‘ سے مطابق رہنمائی ملتی۔
مولوی جیؒ ہندکو زبان و ثقافت کے بھی محافظ رہے۔ آپ کی رہنمائی‘ دعا اور سربراہی میں ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ قائم ہوا‘ جس کی ترقی یافتہ شکل ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ اندرون و بیرون ملک ’ہندکووانوں‘ کا ترجمان اِدارہ ہے۔
مولوی جیؒ ہندکو زبان و ثقافت کے بھی محافظ رہے۔ آپ کی رہنمائی‘ دعا اور سربراہی میں ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ قائم ہوا‘ جس کی ترقی یافتہ شکل ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ اندرون و بیرون ملک ’ہندکووانوں‘ کا ترجمان اِدارہ ہے۔
مولوی جیؒ کی بہ طور خاص اکثر اِس بات پر زور دیا کرتے کہ ’’اسلام لانے کے بعد سب سے زیادہ قیمتی شے ’عقیدہ‘ ہے جسے درست رکھنے اُور جس کی حفاظت ازحد ضروری ہے۔‘‘ نرم و شائستہ انداز بیان و کلام کے ذریعے سرزمین پشاور اور شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) میں اصول فقہ اور تصوف کے بیج بوئے‘ جو آج سایہ دار اور پھل دار شجر ہیں۔ مولوی جیؒ کا اِس بات پر زور رہا کہ تمام اِنسانی مشکلات کا حل ’تزکیۂ نفس‘ میں مضمر ہے اُور یہ ہدف (تزکیۂ نفس) اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان اپنے کے اندر سے لالچ و خودغرضی کی صفائی نہیں کر لیتا۔ اپنی ذات میں در آنے والی اِن الائشوں (آمیزشوں) سے چھٹکارہ نہیں پا لیتا۔ مولوی جیؒ کا پیغام عمل ’اپنی ذات اور نفس پر غور تھا کیونکہ جب تک اِنسان (مرد و عورت) اپنے نفس کے ساتھ اُلجھے رہیں گے یعنی اپنے آپ اور اپنی ذات میں مگن رہیں گے‘ اِن کے روحانی درجات کی بلندی و ترقی ممکن نہیں ہوگی۔ مولوی جیؒ جدید عصری و دنیاوی علوم کے مخالف نہ تھے‘ وہ علم کو مومن کی گمشدہ میراث قرار دیتے لیکن وہ علم کے ساتھ اغیار کی ثقافت اپنانے سے گریز کی تلقین کرتے۔ اُن کی آنکھوں میں ہمیشہ خاک مدینہ و نجف کا سرمہ رہا اُور وہ دوسروں کو بھی اِس بات کی تلقین کرتے رہے کہ ’’جلوۂ دانش فرنگ‘‘ سے خیرہ ہونے کی بجائے اپنے نفس اور اسلام کے حقیقت آشنا ہو جائیں جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے چاہتے تھے کہ ’’مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی ۔۔۔ اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف۔‘‘
بنیادی نکتہ ’’تزکیۂ نفس‘‘ہے جس کے بغیر اخلاقی اقدار کی سربلندی و تقویت ممکن نہیں۔ ذمہ داری اور احساس ذمہ داری کے بیدار ہونے کا بھی امکان بناء ’تزکیۂ نفس‘ ممکن نہیں۔ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا تو بہت دور کی بات بناء تزکیہ و احتیاط خالق کائنات کی ذات و صفات پر کامل یقین اور فرائض و احکامات کی بجاآوری باعث نجات و فلاح نہیں ہوسکتی۔
مولوی جیؒ انسانی زندگی کا خلاصہ اور ترقی کا دارومدار ’تزکیۂ نفس‘ پر قرار دیتے اور یہی اُن کی کامیابی تھی کہ آج سلسلۂ قادریہ حسنیہ کا پشاور میں آستانہ سدا بہار‘ شاد و آباد دکھائی دیتا ہے۔ تصوف کی کتب میں معروف صوفی بزرگ کا واقعہ درج ہے کہ وہ اپنے مریدوں کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک آبی گزرگاہ آئی‘ جسے عبور کرنے سے اُن گھوڑے نے انکار کر دیا۔ کوشوں کے باوجود بھی کوئی جتن کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا اُور یہ بات ہمراہ مریدوں کے لئے تعجب خیز بھی تھی کہ گھوڑے نے نہایت ہی کم گہرے اور معمول سے رواں صاف و شفاف پانی میں اُترنے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر شیخ نے حکم دیا کہ ’’پانی کو گدلا (میلا) کر دو۔‘‘ مریدوں نے پانی میں اُتر کر ہاتھ مارے‘ جس سے پانی کی رنگت تبدیل ہو گئی تو اب دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑا پانی میں چلتا چلا گیا۔ مریدوں کے اِستفسار پر شیخ نے کہا کہ ’’جب تک اِس گھوڑے کو پانی میں اپنا عکس نظر آ رہا تھا‘ وہ اِس میں اُترنے سے گریزاں تھا۔‘‘ بس یہی مثال اِنسان کی ہے کہ جب تک یہ اپنا عکس اپنے نفس (کے آئینے) میں دیکھتا رہے گا‘ اِس کی روحانی ترقی اور درجات کی بلندی ممکن نہیں ہو گی۔
---
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-05-29 |