Tuesday, May 29, 2018

May 2018: Remembering Molvee Gee on 13th Ramazan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مولوی جیؒ : ایک مجاہد
پیرطریقت‘ سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی اَلمعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (1920ء - 2004ء) کا ’عرس مبارک‘ ہر سال ’تیرہ رمضان المبارک‘ منایا جاتا ہے‘ اِس دن کی مناسبت سے ’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ‘ کوچہ آقا پیر جان‘ اَندرون یکہ توت شریف اُور آپ کے مزار پُراَنوار سیّد حسن بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کوہاٹ روڈ پر ختم قرآن کریم‘ محافل حمد و نعت‘ منقبت اُور دعائیہ تقاریب کی صورت پہلی برسی (دوہزارپانچ) سے انعقاد ایک معمول ہے‘ جن میں ’سلسلہ قادریہ حسنیہ‘ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں ہزاروں مرید اور عقیدت مند اندرون و بیرون ملک سے بطور خاص شریک ہو کر تصوف کے اِس سرتاج گھرانے سے اظہار وابستگی اور اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ پشاور کا یہ روحانی اُور علمی گھرانہ اُس سلسلۂ نور (نسب) کی ایک کڑی ہے‘ جو پیران پیر حضرت شیخ محی الدین اَبو محمد عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ (1077ء سے 1166ء)‘ سے ہوتا ہوا‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم (خانوادہ رسالت اہلبیت اَطہار علیہم السلام) تک مسلسل ہے۔

علمی‘ اَدبی‘ صحافتی اُور سیاسی و سماجی خدمات کے علاؤہ مولوی جیؒ نے اپنے گھرانے کی اُن ’روشن روایات‘ کو ذاتی مفادات پر ترجیح دی‘ جن کا مرکزی نکتہ ’’مسلکِ اہلسنت والجماعت کے فقہ حنفی عقیدے کا تحفظ اور اِس کی روشنی میں تربیت و رہنمائی‘‘ تھا۔ مولوی جیؒ پشاور کی پہچان اُور سرتاج شخصیت تھے۔ رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے لیکر اندرون پشاور کی سیاست میں اُن کا کردار آج بھی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور قومی و صوبائی اسمبلی کے لئے عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب‘ آستانہ عالیہ کے حمایت یافتگان کی کامیابی یقینی رہتی ہے۔ 

مولوی جیؒ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو، اُن کے ہاں پایا جانے والا تحریر و تحقیق کا ذوق اور شوق تھا۔ بناء فروعی اختلافات میں الجھے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کو عصری مسائل اور حالات کی روشنی میں بیان کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ بات کہ پشاور کو مولوی جیؒ اور مولوی جیؒ کو پشاور پر اعتماد تھا اور اِس اعتماد و بھروسے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جبکہ مولوی جیؒ کے فرزند ارجمند سیّد نورالحسنین گیلانی المعروف سلطان آغا جی خاندان عالیہ کی روایات کے محافظ بھی ہیں اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف بھی کئے ہوئے ہیں۔ سلطان آغا جی ہی کی زیرنگرانی اور کوششوں سے مولوی جیؒ کی تحریر کردہ ’40کتب‘ دروس قرآن و حدیث کی آڈیو ویڈیو اور خدمات کے حوالے سے کوششوں کا احوال ویب سائٹ http://alameer.org پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جس کے جاری کرنے کا بنیادی مقصد ’اُمت مسلمہ‘ میں اُس اخوت و اتحاد کے پیغام کو فروغ دینا ہے‘ جس کے لئے مولوی جیؒ تمام زندگی اپنے قول و فعل سے جہاد کرتے رہے۔ آپ کی محافل میں علم کے موتی (اللہ کی رحمت) تقسیم ہوتی اور طالب علموں کو اُس کی استعداد کے ’سخی کے دربار‘ سے مطابق رہنمائی ملتی۔

مولوی جیؒ ہندکو زبان و ثقافت کے بھی محافظ رہے۔ آپ کی رہنمائی‘ دعا اور سربراہی میں ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ قائم ہوا‘ جس کی ترقی یافتہ شکل ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ اندرون و بیرون ملک ’ہندکووانوں‘ کا ترجمان اِدارہ ہے۔

مولوی جیؒ کی بہ طور خاص اکثر اِس بات پر زور دیا کرتے کہ ’’اسلام لانے کے بعد سب سے زیادہ قیمتی شے ’عقیدہ‘ ہے جسے درست رکھنے اُور جس کی حفاظت ازحد ضروری ہے۔‘‘ نرم و شائستہ انداز بیان و کلام کے ذریعے سرزمین پشاور اور شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) میں اصول فقہ اور تصوف کے بیج بوئے‘ جو آج سایہ دار اور پھل دار شجر ہیں۔ مولوی جیؒ کا اِس بات پر زور رہا کہ تمام اِنسانی مشکلات کا حل ’تزکیۂ نفس‘ میں مضمر ہے اُور یہ ہدف (تزکیۂ نفس) اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان اپنے کے اندر سے لالچ و خودغرضی کی صفائی نہیں کر لیتا۔ اپنی ذات میں در آنے والی اِن الائشوں (آمیزشوں) سے چھٹکارہ نہیں پا لیتا۔ مولوی جیؒ کا پیغام عمل ’اپنی ذات اور نفس پر غور تھا کیونکہ جب تک اِنسان (مرد و عورت) اپنے نفس کے ساتھ اُلجھے رہیں گے یعنی اپنے آپ اور اپنی ذات میں مگن رہیں گے‘ اِن کے روحانی درجات کی بلندی و ترقی ممکن نہیں ہوگی۔ مولوی جیؒ جدید عصری و دنیاوی علوم کے مخالف نہ تھے‘ وہ علم کو مومن کی گمشدہ میراث قرار دیتے لیکن وہ علم کے ساتھ اغیار کی ثقافت اپنانے سے گریز کی تلقین کرتے۔ اُن کی آنکھوں میں ہمیشہ خاک مدینہ و نجف کا سرمہ رہا اُور وہ دوسروں کو بھی اِس بات کی تلقین کرتے رہے کہ ’’جلوۂ دانش فرنگ‘‘ سے خیرہ ہونے کی بجائے اپنے نفس اور اسلام کے حقیقت آشنا ہو جائیں جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے چاہتے تھے کہ ’’مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی ۔۔۔ اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لاتخف۔‘‘ 

بنیادی نکتہ ’’تزکیۂ نفس‘‘ہے جس کے بغیر اخلاقی اقدار کی سربلندی و تقویت ممکن نہیں۔ ذمہ داری اور احساس ذمہ داری کے بیدار ہونے کا بھی امکان بناء ’تزکیۂ نفس‘ ممکن نہیں۔ رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا تو بہت دور کی بات بناء تزکیہ و احتیاط خالق کائنات کی ذات و صفات پر کامل یقین اور فرائض و احکامات کی بجاآوری باعث نجات و فلاح نہیں ہوسکتی۔ 

مولوی جیؒ انسانی زندگی کا خلاصہ اور ترقی کا دارومدار ’تزکیۂ نفس‘ پر قرار دیتے اور یہی اُن کی کامیابی تھی کہ آج سلسلۂ قادریہ حسنیہ کا پشاور میں آستانہ سدا بہار‘ شاد و آباد دکھائی دیتا ہے۔ تصوف کی کتب میں معروف صوفی بزرگ کا واقعہ درج ہے کہ وہ اپنے مریدوں کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک آبی گزرگاہ آئی‘ جسے عبور کرنے سے اُن گھوڑے نے انکار کر دیا۔ کوشوں کے باوجود بھی کوئی جتن کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا اُور یہ بات ہمراہ مریدوں کے لئے تعجب خیز بھی تھی کہ گھوڑے نے نہایت ہی کم گہرے اور معمول سے رواں صاف و شفاف پانی میں اُترنے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر شیخ نے حکم دیا کہ ’’پانی کو گدلا (میلا) کر دو۔‘‘ مریدوں نے پانی میں اُتر کر ہاتھ مارے‘ جس سے پانی کی رنگت تبدیل ہو گئی تو اب دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑا پانی میں چلتا چلا گیا۔ مریدوں کے اِستفسار پر شیخ نے کہا کہ ’’جب تک اِس گھوڑے کو پانی میں اپنا عکس نظر آ رہا تھا‘ وہ اِس میں اُترنے سے گریزاں تھا۔‘‘ بس یہی مثال اِنسان کی ہے کہ جب تک یہ اپنا عکس اپنے نفس (کے آئینے) میں دیکھتا رہے گا‘ اِس کی روحانی ترقی اور درجات کی بلندی ممکن نہیں ہو گی۔
---
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-05-29

Sunday, May 27, 2018

TRANSLATION PTI's 100-days agenda by Dr. Farrukh Saleem

PTI's 100-days agenda
تحریک اِنصاف: ’’100 دن کا لائحہ عمل‘‘
دنیا عمل کا نام ہے۔ یہاں انعامات اور نتائج کوششوں اور جدوجہد سے ملتے ہیں خواہشات سے نہیں۔ معروف بات ہے کہ اگر خواہشات گھوڑے ہوتے تو گھڑ سواروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق بھیکاریوں سے ہوتا۔ باالفاظ دیگر اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر محض خواہش کرنے سے اہداف حاصل ہو سکتے تو زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ کسی فرد واحد یا گروہ (سیاسی جماعت) کی جانب سے لائحہ عمل (ایجنڈا) درحقیقت اُس کے عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں (ایک معلوم عرصے کے دوران) یہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لائحہ عمل دو جزئیات یعنی قول و فعل کا مرکب ہوتا ہے۔ قول کے تحت فیصلہ جبکہ فعل کے ذریعے اُسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے لیکن اگر ہم ’لائحہ عمل (agenda)‘ کا موازنہ ’خواہش (wish)‘ سے کریں تو لائحہ عمل میں اُمید کی کرن پوشیدہ ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے بھی ایک ایسے ہی ’لائحہ عمل‘ کا اعلان کیا گیا ہے جو اِس کے وفاق میں برسراقتدار آنے کے ’پہلے 100 ایام (100-days)‘سے متعلق ہے۔ اِس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہ ملک کے سیاسی اور نہ ہی اقتصادی حالات سازگار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی سوچا سمجھا یہ منصوبہ خواہشات کے بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔

’پی ٹی آئی‘ پاکستان میں اقتصادی ترقی چاہتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے اُس کی جانب سے ’’10نکات‘‘ پر مبنی لائحہ عمل تحریک کے چیئرمین عمران خان نے پیش کیا ہے۔

پہلا نکتہ: پاکستان میں ایک کروڑ ملازمتیں تخلیق کی جائیں گی۔ اِس پہلے نکتے کو اگر سب سے زیادہ بلندبانگ دعویٰ قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ’پی ٹی آئی‘ کی خواہش ہے کہ ملک میں ایک کروڑ افراد کو روزگار ملے لیکن اِسے عملاً ممکن بنانے کے لئے حکمت عملی کہاں ہے؟

دوسرا نکتہ: پاکستان میں صنعتی پیداواری شعبے کو بحال کیا جائے گا لیکن اِس کے لئے توانائی کہاں سے آئے گی اور توانائی کی قیمتیں کم کیسے کی جائیں گی تاکہ پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہیں۔ صنعتوں کی بحالی سے متعلق بھی ’پی ٹی آئی‘ کی خواہش کا زمینی حقائق سے تعلق دکھائی نہیں دیتا اور یہ عمل کس طرح ممکن بنایا جائے گا‘ اِس بارے میں لائحہ عمل کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

تیسرا نکتہ: پچاس لاکھ گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ کیا ’پی ٹی آئی‘ نے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے کہ اِس پر کل لاگت کیا آئے گی؟ محتاط اندازے کے مطابق پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے 10 کھرب روپے درکار ہوں گے اور 10کھرب روپے معمولی رقم نہیں۔ اگر ہم 10کے ہندسے کے ساتھ 12 صفر لگائیں تو یہ رقم 10کھرب کو عددی اعتبار سے بیان کرے گی۔ ’پی ٹی آئی‘ کو اُمید ہے کہ وہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ نجی شعبے کی مدد سے مکمل کرے گا لیکن کیا ’پی ٹی آئی‘ کے فیصلہ ساز جانتے ہیں کہ نجی شعبے کی کل مالی سکت 5 کھرب روپے ہے؟

چوتھا نکتہ: سیاحت کو ترقی دی جائے گی۔ بہت اچھی بات ہے۔ فی الوقت پاکستان کی سیر کے لئے آنے والوں کی تعداد قریب 10لاکھ ہے اُور سیاحت سے سالانہ 30 کروڑ ڈالر آمدنی حاصل ہو رہی ہے لیکن سیاحت کو ترقی دینے کے لئے عملی اقدامات (طریقۂ کار) کیا ہوگا؟

پانچواں نکتہ: ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کی اصلاح کی جائے گی۔ بہت خوب لیکن کیسے؟ کیا اِس لائحہ عمل کا مطلب ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)‘ میں ایک ایسا سربراہ مقرر کرنا ہے جو ادارے کی کارکردگی اور ساکھ میں اضافہ کرے؟ یہ تو کوئی حکمت عملی نہ ہوئی بلکہ یہ تو ایک پیچیدہ مسئلے کا زیادہ پیچیدگی سے حل کرنے سے متعلق خواہش ہے۔

چھٹا نکتہ: پاکستان کاو ایک ایسا ملک بنایا جائے گا‘ جس میں کاروبار کرنا آسان اور کاروباری سرگرمیاں نسبتاً پرکشش ہوں لیکن یہ ہدف حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ اِس کے راستے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں جیسا کہ بجلی کی کمی‘ ٹیکسوں کا پیچیدہ نظام‘ جائیداد اور اراضی کی رجسٹریشن میں سقم‘ معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے میں خامیاں‘ سرحد پار تجارت‘ قرضہ جات کا حصول اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے مفادات کا عدم تحفظ۔ اِن سب سے متعلق ’پی ٹی آئی‘ کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

ساتوں نکتہ: قومی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں گی لیکن کیا یہ اصلاحات خیبرپختونخوا میں پانچ سالہ حکومتی دور کے دوران لائی گئیں جہاں کم سے کم 16 صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا ماضی و حال ایک جیسا ہے!

آٹھواں نکتہ: پاکستان کو درپیش توانائی بحران کو ختم کیا جائے گا۔ اگر اِس نکتے کو دس نکاتی ایجنڈے کا دوسرا سب سے خطرناک جز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

نواں نکتہ: چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے جڑے فوائد کو عملاً ممکن بنایا جائے گا کہ اِس سے پاکستان خاطرخواہ فائدہ اٹھائے لیکن تحریک انصاف کو سمجھنا ہوگا کہ اگر کوئی چیز پاکستان کو تبدیل کرسکتی ہے تو وہ کسی دوسرے ملک کی سرمایہ کاری و دلچسپی نہیں ہوگی بلکہ یہ کام پاکستان کے اندر موجود وسائل کی ترقی ہی سے ممکن ہے۔

دسواں نکتہ: عوام اور کاروباری و صنعتی طبقات کے لئے مالی وسائل کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔ مجھے اُمید ہے کہ ’پی ٹی آئی‘ کے فیصلہ سازوں کو علم ہوگا کہ وہ اوسطاً ہر پاکستانی اپنی آمدنی کا 41.4فیصد کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ کے رہنے والے بمشکل 6.5فیصد اشیائے خوردونوش کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ فی کس آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور ایسا کرنے سے قومی بچت بڑھے گی۔

تحریک انصاف نے ’10نکاتی لائحہ عمل‘ دے کر اپنے حصے کی ایک ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اِس سیاسی جماعت کے منشور میں سرفہرست بدعنوانی کا خاتمہ بھی ہے۔ اگر تحریک انصاف اُور کچھ بھی نہ کرے اور صرف پاکستان سے مالی بدعنوانی کو ختم کر دے تو اِس سے ہر پاکستانی کی جیب میں اوسطاً سالانہ 70 ہزار روپے آنے کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Wednesday, May 23, 2018

May 2018: Guest in town - A biker with thoughts and love for Pakistan!

میری خواہش ہے کہ یادوں کے ساتھ اِس دنیا سے رخصت ہوں‘ خوابوں کے ساتھ نہیں!
موٹرسائیکل پر جنوب ایشیاء کی سیر کرنے والے برطانوی نوجوان کی پاکستان یاترا: ایبٹ آباد پہنچ گئے!
پاکستان کے لوگ مہمان نوازی اور یہاں کی شاہراہیں بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہیں!
شمالی علاقہ جات سے زیادہ خوبصورتی کہیں نہیں دیکھی‘ ویزا پالیسی اور ٹریفک نظام سمجھ سے بالاترہیں

شبیرحسین اِمام

موٹرسائیکل پر جنوب اِیشیاء کی سیر کرنے والے پینتس سالہ برطانوی شہری ’جون اُو برائن (John O' Brien)‘ پاکستان پہنچے ہیں اور لاہور کے بعد اُنہوں نے ایبٹ آباد میں مختصر قیام کے بعد شمالی علاقہ جات کی سیر مکمل کر لی ہے۔ دسمبر 2017ء میں برطانیہ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے پینتیس سالہ ’جون اُو برائن‘ اَب تک تھائی لینڈ‘ ویتنام‘ لاؤ اُور کمبوڈیا دیکھ چکے ہیں اور اٹھارہ اپریل سے پاکستان وارد ہوئے جہاں سے ہزارہ ریجن و شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کی خوبصورتی کو اپنی یادوں اور کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر رہے ہیں۔ اُن کے سفرمیں ممکنہ اگلے پراؤ چین اور منگولیا ہوں گے۔

موٹرسائیکل پر سیر کے شوقین ’جون اُو برائن‘ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے‘ انہوں نے طب کے شعبے میں بیچلرز کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈیڑھ برس تک مختلف ملازمتیں کیں اور پھر سب کچھ چھوڑ کر کل جمع پونجی سے جنوب ایشیاء کی سیر کے لئے نکل پڑے۔ وہ جس ملک جاتے ہیں وہاں موٹرسائیکل خرید کر چند ماہ سفر اور قیام کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہوٹلوں کا کرایہ اور قیام و طعام کے معیار پر انہوں نے اطمینان کا اظہار تو کیا لیکن خدمات کے معاوضے پر سوال اٹھایا‘ جس پر حکومتی اداروں کا کنٹرول نہیں۔ وہ کسی ملک میں سفر کے بعد وہاں موٹرسائیکل فروخت کرکے بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ موٹرسائیکل کی پشت پر سفر کرنے والے عمومی بائیکرز (bikers) کے مقابلے ’جان اُو برائن‘ مختلف سفری حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں‘ جس میں اُنہیں آرام کا موقع بھی مل جاتا ہے اور وہ انجان مقامات سے گزرنے اور قیام و طعام سے جڑے خطرات سے دوچار بھی نہیں ہوتے۔

’جان اُو برائن‘ کے لئے پاکستان کی ٹریفک بطور خاص ’ویتنام‘ سے کم لیکن ’’خطرناک ترین‘‘ زمرے ہی میں شمار ہوتی ہے۔ اُن کے خیال میں اگر پاکستان میں شاہراؤں (مواصلاتی ذرائع) کا نظام وسیع اور بہتر بنا دیا جائے تو بڑی حد تک ٹریفک کے نظام کی اصلاح ہو سکے گی۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے شمالی علاقہ جات کو ’’حسین ترین اور نایاب‘‘مقام قرار دیا اور کہا کہ ’’پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دنیا میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔‘‘

برطانیہ کے شہر بورن ماؤتھ (Bournemouth) سے تعلق رکھنے والے موٹرسائیکلسٹ امریکہ میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والدین کچھ عرصہ مقیم رہے تھے اور اِسی وجہ سے انہیں امریکہ کی شہریت مل گئی لیکن وہ بعدازاں برطانیہ منتقل ہوئے اور اُن کی تعلیم و رہائش جنوبی برطانیہ کے ساحلی شہر بورن ماؤتھ میں ہے جو سات میل طویل ساحلی پٹی اور وکٹورین (شاہی) فن تعمیر کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ سالانہ 70 لاکھ سے زائد سیاح برطانوی شہر ’بورن ماؤتھ‘ کی سیر کے لئے آتے ہیں جبکہ پاکستان آنے والے کل سیاحوں کی تعداد دس لاکھ سے کم ہے۔ ’جان اُو برائن‘ نے پاکستانی نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موسم گرما کی تعطیلات میں شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی کا قریب سے مشاہدہ کرنے موٹرسائیکل پر نکل کھڑے ہوں کیونکہ ’’اِنسان کی زندگی میں بہتر یہی ہے کہ وہ خوابوں کی بجائے اچھی یادیں جمع کرے۔‘‘ امریکہ اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے ’جون اُو برائن‘ کی آنکھوں میں ایک ایسی دنیا کا نقشہ اور پاؤں میں سفر ہیں جو ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہونی چاہئے! وہ خود کو ’’آزاد دنیا‘‘ کا ’’آزاد باشندہ‘‘ قرار دیتے ہیں‘ ایک ایسی دنیا جو سرحدوں میں تقسیم نہ ہو۔ 

سیاحت کے فروغ کے لئے ’ویزا پالیسی‘ میں نرمی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ’جون اُو برائن‘ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں وہ سب کچھ ہے‘ جو غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد کو یہاں کھینچ کر لا سکتا ہے‘ لیکن اِن سیاحتی وسائل سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔‘‘
۔۔۔








Sunday, May 20, 2018

TRANSLATION: The PML-N manifesto by Dr. Farrukh Saleem

The PML-N manifesto
نواز لیگ (اِنتخابی) منشور
پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ’مئی دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات کے لئے ’’7 مارچ 2013ء‘‘ کے روز اپنا انتخابی منشور جاری کیا تھا جس کے بنیادی اور اہم نکات پر نظر کرنے سے ’نواز لیگ‘ کی پانچ سالہ کارکردگی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلا انتخابی وعدہ: بجلی کے پیداواری اور ترسیلی نظام کو کم سے کم اِس حد تک بہتر بنایا جائے گا کہ اِن عوامل میں ضائع ہونے والی بجلی کی شرح 10 فیصد کی سطح پر لائی جائے۔ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کی جانب سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی کی 37.9فیصد‘ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کی 32.6 فیصد اور حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی سالانہ 30.6فیصد بجلی ضائع یا چوری ہو جاتی ہے! حقیقت یہ ہے کہ سال 2018ء کے آغاز پر بجلی کے پیداواری اور تقسیم کار نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کی وجہ سے حکومت کا خسارہ 360 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا‘ جس میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسرا انتخابی وعدہ: ہم گردشی قرضے کا مسئلہ حل کریں گے اور اُن محرکات کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جائے گا‘ جن کی وجہ سے گردشی قرضے کا بوجھ پیدا ہوتا ہے لیکن پانچ سال کی حکومت کے بعد حقیقت یہ رہی کہ بقول وفاقی سیکرٹری برائے پانی و بجلی (واپڈا) یوسف نسیم کھوکھر گردشی قرضے کا حجم ایک کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔

تیسرا انتخابی وعدہ: قومی اداروں میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے گی۔

چوتھا انتخابی وعدہ: اہلیت اور متعلقہ شعبوں کے تجربہ کار اور اچھی ساکھ رکھنے والوں کو قومی خودمختار اداروں کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سال 2013ء میں پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کا کل خسارہ 192 ارب روپے سالانہ تھا جو گذشتہ پانچ سال میں بڑھ کر 360 ارب روپے سالانہ ہو چکا ہے۔ اِسی طرح قومی اداروں میں جو سربراہ تعینات کئے گئے اُن کی وجہ سے قومی خزانے کو ’پانچ سال‘ میں 3.7 کھرب روپے خسارہ ہوا۔

پانچواں انتخابی وعدہ: پولیس کو غیرسیاسی کیا جائے گا۔

چھٹا انتخابی وعدہ: تعلیم کے فروغ کے لئے قومی سطح پر ہنگامی حالات (نیشنل ایجوکیشن ایمرجنسی) کا نفاذ کیا جائے گا۔ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا۔

ساتواں انتخابی وعدہ: انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیزرفتار بنانے کے لئے منصفوں (ججوں) کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا بھی نہیں کیا گیا۔

آٹھواں انتخابی وعدہ: عدالتی نظام انصاف کی اصلاح کرتے ہوئے ’پاکستان پینل کوڈ‘ پر نظرثانی کی جائے گی۔ حقیقت یہ رہی کہ پانچ سال میں یہ کام بھی نہ ہوسکا۔

نواں انتخابی وعدہ: عدالتی کاروائیوں سے متعلق کوائف (کورٹ ریکارڈ) کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے گا۔ حقیقت یہ رہی کہ پانچ سال میں ایسا نہ کیا جاسکا۔

دسواں انتخابی وعدہ: عدالتوں میں دعویداری اور بذریعہ عدالتی کاروائی کسی نتیجے پر پہنچنے کے عمل کو تیزرفتار بنایا جائے گا لیکن اِس سلسلے میں عملی کوششیں بالکل نہیں کی گئیں۔

گیارہواں انتخابی وعدہ: پاکستان میں جاری بڑے ترقیاتی منصوبوں کا احتساب کیا جائے گا۔ حقیقت یہ رہی کہ نواز لیگ حکومت کی پانچ سالہ مدت (دورانیئے) کے آخری 6 ماہ کے دوران سپرئم کورٹ (عدالت عظمی) اُور احتساب کے قومی ادارے ’نیشنل اکاونٹی بیلٹی بیورو (نیب)‘ نے یہی کام کرنے کی کوشش کی۔

بارہواں انتخابی وعدہ: قومی سطح پر احتساب کے ادارے کو زیادہ فعال بنانے کے لئے خودمختار اور حکومتی عمل دخل سے آزاد کیا جائے گا۔ حقیقت یہ رہی کہ نوازلیگ کے پانچ سالہ دور اقتدار کے آخری چھ ماہ میں ’نیب‘ اپنے طور پر خود کو آزاد اور خودمختار سمجھتے ہوئے قومی وسائل لوٹنے والوں کے احتساب کی کوشش کر رہا ہے۔

تیرہواں انتخابی وعدہ: محتسب کے کردار کو مضبوط کیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا عملاً نہیں کیا گیا۔
چودہواں انتخابی وعدہ: توانائی اور قدرتی وسائل کی ایک نئی وزارت تخلیق (تشکیل) کی جائے گی۔ حقیقت یہ رہی کہ یہ کام نہ ہوسکا۔

پندرہواں انتخابی وعدہ: ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) اور محصولات (ٹیکسوں) سے حاصل ہونے والی آمدنی کا باہم تناسب پندرہ فیصد پر لایا جائے گا۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے سے متعلق یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا جاسکا اور حقیقت حال یہ ہے کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک کی مجموعی آمدنی میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی شرح 11.2فیصد (بارہ فیصد سے کم) ہے۔ اگرچہ نوازلیگ کے پانچ سالہ دور اقتدار میں وفاقی حکومت ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کسی حد تک کامیاب ضرور ہوئی ہے اور یہ اپنے مقرر کردہ ہدف (پندرہ فیصد) سے اب بھی 3.8 فیصد کم ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ ایک وعدہ جزوی طور پر پورا کیا گیا ہے۔

سولہواں انتخابی وعدہ: ملک کے چاروں صوبوں میں جائیداد (اراضی کی ملکیت) کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی جائے گی۔ حقیقت یہ رہی کہ یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا جاسکا۔ اصولی طور پر یہ کام ہر صوبائی حکومت کو کرنا چاہئے تھا اور یہ صوبائی ذمہ داری ہی قرار دی جاسکتی ہے۔

سترہواں انتخابی وعدہ: اہلیت (میرٹ) کی بنیاد پر نظام تشکیل دیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں کیا جاسکا۔

اٹھارہواں انتخابی وعدہ: ایسے نئے قوانین متعارف کروائے جائیں گے جو 2002ء میں متعارف ہوئے بلدیاتی نظام کی جگہ لے سکے۔ (بلدیاتی نظام کو ملک گیر سطح پر مضبوط بنایا جائے گا)۔ یہ وعدہ پورا کیا گیا۔

اُنیسواں انتخابی وعدہ: حکومت میں آنے کے ’چھ ماہ‘ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اگرچہ بلدیاتی انتخابات فوری طور پر نہیں کروائے جا سکے لیکن اِس وعدے کی تکمیل بڑی حد تک کی گئی۔

بیسواں انتخابی وعدہ: کوئلے اور مائع گیس (ایل این جی) کی درآمد و ترسیل (ٹرانسپورٹیشن) کے لئے نظام وضع کیا جائے گا اور یہ وعدہ بھی پورا کیا گیا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹرفرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, May 17, 2018

May 2018: Break downs!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بریک ڈاؤن!
پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام اِنتخابات کے موقع پر بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن عرصہ 5 سال (قریب) مکمل ہونے کے باوجود بھی طلب اُور رسد کے درمیان فرق بدستور (جوں کا توں) موجود ہے۔ علاؤہ ازیں بجلی کا پیداواری اُور ترسیلی نظام بھی قابل بھروسہ نہیں‘ جس پر دھند‘ بارش‘ گرمی یا شدید سردی جیسے بیرونی دباؤ ایک عرصے سے مسلسل اثرانداز ہو رہے ہیں۔ نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی اور نواز لیگ ہی کے موجودہ تاحیات قائد نواز شریف نے اپنی اپنی وزارت عظمیٰ کے اَدوار میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا‘ لیکن اِس کے باوجود نہ صرف لوڈشیڈنگ برقرار رہی بلکہ آئے روز ’بریک ڈاؤنز‘ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ایسے 3 بڑے ’بریک ڈاؤن‘ ہوئے ہیں‘ جن کی وجہ سے پاکستان کے دو یا دو سے زائد صوبوں میں گھریلو اُور صنعتی صارفین حتی کہ ہسپتال بھی بیک وقت متاثر ہوئے۔

چار نومبر دوہزار سترہ: حکومت کی جانب سے ’فرنس آئل‘ سے چلنے والے پیداواری پلانٹس کی بندش کے فیصلے کے بعد پنجاب اُور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ’بجلی کا طویل‘ غیرمعمولی اور خوفناک بریک ڈاؤن‘ ہوا۔ متاثرہ پاور پلانٹس میں حبکو پاور پلانٹ (950میگاواٹ)‘ مظفر گڑھ پاور پلانٹ(1000میگاواٹ)‘ جامشورو پاور پلانٹ (400میگاواٹ) اور کیپکو کا پاور پلانٹ (700میگاواٹ) شامل تھے۔ علاؤہ ازیں چھوٹے پاور پلانٹس نشاط پاور‘ نشاط چھنیاں پاور‘ لبرٹی‘ حبکو‘ ناروال‘ اٹلس اور کیل پاور پلانٹس جو مجموعی طور پر بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اُن سے بھی بجلی حاصل ہونا بند ہوئی۔
یکم مئی دوہزار اٹھارہ: ’نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی‘ کی ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرنے سے ’چھ ہزار میگاواٹ‘ کی کمی سے ’بحران‘ پیدا ہوا‘ جس کی بنیادی وجہ صوبہ پنجاب میں حویلی بہادر شاہ‘ بلوکی اور بھکی میں موجود ’تین ہزار چھ سو میگاواٹ‘ کے تین ’ایل این جی‘ پاور پلانٹس تھے‘ جنہوں نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا۔ جس کے بعد لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ فیڈرز پر بھی چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی گئی۔ بعداز تحقیق پتہ چلا کہ موسم کی تبدیلی اور درجۂ حرارت (گرمی) میں اِضافے کے باعث بجلی کی طلب اچانک بڑھ گئی تھی‘ جس کی وجہ سے بریک ڈاؤن ہوا۔

سولہ مئی دوہزار اٹھارہ:تربیلا‘ منگلا اُور دیگر پاور پلانٹس میں ’’فنی خرابی‘‘کے باعث ایک مرتبہ پھر ’بریک ڈاؤن‘ ہوا‘ جس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر کے متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی اچانک منقطع ہوگئی۔ ماہ رمضان المبارک (1439ہجری) کے آغاز سے ایک روز قبل ہوئے اِس ’بریک ڈاؤن‘ نے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ رواں برس ماہ رمضان کے دوران بالخصوص خیبرپختونخوا کے صارفین تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کریں گے!

پاکستان میں ہنگامی حالات (ایمرجنسی) سے نمٹنے کی کوئی ایسی جامع حکمت عملی موجود نہیں‘ جس کے ذریعے عوام کو فوری طور پر اصل حقائق سے آگاہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر اگر بجلی کا ’بریک ڈاؤن‘ ہوتا ہے تو ایسی صورتحال میں ’ایف ایم ریڈیو‘ عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ قومی یا صوبائی ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ کے ادارے موبائل فون کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) جاری کر کے عوام کی تشویش میں کمی لا سکتے ہیں۔ ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ کے ذریعے فوری طور پر ہر موبائل نمبر پر پیغام ارسال کر کے بھی تشویش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر عوام کو معلومات فراہم کرکے اور اعتماد میں لیکر درپیش بحرانوں کا حل تلاش کیا جائے تو یہ زیادہ پائیدار اور مفید عمل ثابت ہوگا۔ بجلی کی پیداوار اور فراہمی وفاقی حکومت نے اپنے ذمے لے رکھی ہے تو کسی بھی وجہ سے ہونے والے بریک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی ’ہنگامی صورتحال کی وضاحت‘ بھی وفاق ہی کو کرنی ہے۔ شرپسند عناصر اور بناء تحقیق افواہوں کو آگے پھیلانے (شیئر کرنے والے) ایسے مواقعوں کا فائدہ اٹھا کر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت کی جانب سے برق رفتار ’ذرائع ابلاغ‘ کے جملہ وسائل سے بھرپور اِستفادہ ہونا چاہئے۔
بجلی کی کمی سے پاکستان میں معمولات زندگی اُور بالخصوص کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اِس سلسلے میں صرف ایک مثال سے پوری صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بجلی بحران اُن صنعتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جو روزگار کی فراہمی اُور پاکستانی برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ’’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن‘‘ کے رہنماؤں نے ہنگامی پریس کانفرنس میں ماہ رمضان المبارک کے دوران صنعتوں کے لئے جاری کئے گئے بجلی اُور گیس کی فراہمی کے اُوقات کار (شیڈول) بارے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ۔۔۔ ’’اگر صنعتوں کے لئے روزانہ دس گھنٹے بجلی بند ہوئی اور ہفتے میں صرف دو روز گیس فراہم کی گئی تو اِس سے ’’10لاکھ افراد‘‘ بے روزگار ہو جائیں گے۔‘‘ 

کون نہیں جانتا کہ ’وافر مقدار‘ میں بجلی و گیس کی فراہمی صنعتوں کی فعالیت (باالفاظ دیگر بے روزگاری میں کمی) کے لئے ضروری ہے لیکن پاکستان نہ تو بجلی و گیس کی اپنی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کر سکا ہے اور نہ ہی ہمسایہ ملک جمہوری اسلامی ایران سے بجلی اور گیس حاصل کی گئی‘ جبکہ حالات موافق تھے اور ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں قدرے نرم (لچکدار) تھیں! فیصلہ سازوں کے ’تجاہل عارفانہ‘ کی بدولت بجلی میں کمی اُور توانائی کا بحران شدت اِختیار کر کے اُس انتہاء کو پہنچ چکا ہے کہ جہاں اب حکومتوں کا بننا اُور مٹنا (عام انتخابات کے نتائج) اِس سے جڑ گئے ہیں۔ ’سال دوہزارتیرہ‘ کا عام انتخاب ’’لوڈشیڈنگ خاتمے‘‘ کے نعرے پر لڑا گیا اور بجلی کی طلب اور رسد میں فرق صفر پر لانے‘ پیداواری لاگت میں کمی (سستی بجلی)‘ ترسیل اُور تقسیم کے عمل میں ہونے والے نقصانات‘ بجلی چوری کم کرنے جیسے بلند بانگ دعوے کئے گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد نواز لیگ کی قیادت نے متعدد مواقعوں پر ملک میں وافر بجلی موجود ہونے کی نوید بھی سنائی لیکن ایک طرف طلب سے زائد (سرپلس) بجلی کی پیداوار کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف رمضان المبارک میں صنعتوں کے لئے بجلی اور گیس کی فراہمی کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے‘ جو کہ حکومتی دعوؤں کی سراسر نفی اور قول و فعل کا ’’کھلا تضاد‘‘ ہے۔ 
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا‘ جہاں پر تضاد تھا (یاسمین حمید)۔
۔۔۔

Sunday, May 13, 2018

TRANSLATION: "Fundamental rights" by Dr. Farrukh Saleem

Fundamental rights
بنیادی حقوق
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ’زندہ رہنے کا حق‘ دے لیکن اِس آئینی ذمہ داری سے عہدہ برآء ہونے کی بجائے سیاسی و غیرسیاسی (منتخب و غیرمنتخب) حکومتوں نے دیگر ایسے اَمور کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا جو کم اہم تھیں جیسا کہ ملک کے مختلف شہروں میں ’میٹرو بس‘ کے منصوبے جاری یا مکمل ہیں لیکن وہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی خاطرخواہ سہولیات میسر نہیں!

آئین پاکستان یہ کہتا ہے کہ ’’ہر پاکستانی کو زندہ رہنے کا حق ہے لہٰذا کسی بھی شخص بشمول حکومت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کی زندگی ختم کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ آئین کی اِس شق سے بھی یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لئے خاطرخواہ اقدامات و انتظامات کرے۔

سوال: پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد کتنی ہے جو آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہر سال اسہال یعنی ڈائریا (دستوں کی بیماری) کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں؟ جواب: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر سال 53 ہزار بچے ’ڈائریا‘ کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں سالانہ 53 ہزار ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں سے محروم ہو رہے ہیں کیونکہ اُنہیں پینے کے صاف پانی جیسی نعمت متروکہ میسر نہیں! اِس قدر بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں سے ’سال 2017ء‘ کے دوران 1 ہزار 260 افراد ہلاک ہوئے لیکن پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے 53 ہزار بچے دیکھتے ہی دیکھتے موت کے منہ میں چلے گئے اُور یہ موت کا یہ تماشا جاری ہے!
عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آلودہ پانی کی وجہ سے ملک کی مجموعی خام آمدنی کا 4 فیصد یعنی سالانہ 12 ارب ڈالر خرچ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں آلودہ پانی پینے سے صرف بچے ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ ہر عمر کے لوگ ٹائیفائیڈ‘ کلوریا‘ ہیپاٹائٹس (یرقان) اور قے و دست کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی سالانہ ہلاکتوں میں آلودہ پانی سے ہونے والی ہلاکتوں کا شمار 30 سے 40 فیصد ایک غیرمعمولی اور مختلف بیماریوں سے ہونے والی ’انتہائی بلند شرح اموات‘ ہے!
پاکستان حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی صحت و تندرستی کی ضمانت فراہم کرے۔ اُنہیں پینے کا صاف پانی مہیا کرے لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کر رہی تو آخر یہ کام کون کرے گا؟ سوال: اقوام متحدہ (تنظیم) کے رکن ممالک کی تعداد 153 ہے جن وہ ملک کونسا ہے جہاں سب سے زیادہ نومولود بچے پیدائش کے چند ہفتوں بعد ہی مر جاتے ہیں؟ جواب: اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں ہر 22 میں سے ایک بچہ پیدائش کے چند ہفتوں بعد مر رہا ہے۔ اِس شرح کا موازنہ اگر جاپان سے کیا جائے تو وہاں ہر 1 ہزار 111 بچوں میں سے ایک نومولود بچے کی ہلاکت کا امکان ہوتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان عوام کی جان اور صحت و تندرستی کی ضامن نہیں بنے گی تو پھر یہ آئینی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟

صحت کی طرح تعلیم بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی جمہوریہ آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کے ہر بچے کے لئے مفت اور لازماً تعلیم فراہم کرے لیکن برسرزمین (تلخ) حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کل 2 کروڑ 30 لاکھ بچوں میں سے 1 کروڑ 80 لاکھ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں! ایک کروڑ اَسی لاکھ بچوں کی یہ تعداد دس سے سولہ سال کے درمیان ہے۔ اگر حکومت پاکستان عوام کی جان‘ صحت و تندرستی اور درس و تدریسکی ضامن نہیں بنے گی تو پھر یہ آئینی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟

سوال: پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد کتنی ہے؟ جواب: عالمی تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر سالانہ ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 276 خواتین ہلاک ہو رہی ہیں اور بچے کی پیدائش کے عمل میں ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات پسماندہ صوبے‘ اضلاع اور علاقوں میں زیادہ ہو رہی ہیں۔ کیوبا کی مثال لیں جہاں زچگی کے عمل سے گزرنے والی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 39 کی اموات ہوتی ہیں اور کیوبا حکومت نے ہر ایک ہزار باشندوں کے لئے 5.9 ڈاکٹر فراہم کئے ہیں جبکہ پاکستان میں ہر ایک ہزار افراد کے لئے 0.7 ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ حکومت پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان‘ صحت و تندرستی اور تعلیم کی ضامن بنے لیکن اگر حکومت ہی اپنی اِس آئینی ذمہ داری کو اَدا نہیں کرے گی تو پھر یہ کون کرے گا؟ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ پینے کا صاف پانی اُور صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات کے مقابلے ’میٹرو بسیں‘ فراہم کرنے سے کن آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی پوری ہوئی ہے اور کون کون سے ضروری کام باقی رہ گئے ہیں؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Wednesday, May 9, 2018

May 2018: Supreme Court of Bahria Town, effort to reform the real estate business!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عوامی مفاد: متضاد کردار!
پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کے سلسلے کو نئے اِمکانات سے روشناس کرانے والے ایک اِدارے نے ’بحریہ ٹاؤن‘ کے نام سے ’اُنیس سو چھیانوے‘ میں رہائشی و تجارتی منصوبے کا آغاز کیا جو پھلتے پھولتے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے ایشیاء میں جائیداد کی خریدوفروخت کا سب سے بڑا نجی اِدارہ اُور فقیدالمثال بن گیا۔ کون نہیں جانتا کہ ’اُنیس سو نوے‘ میں چھوٹے پیمانے پر جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والے ’ملک ریاض حسین‘ نے کس طرح ملکی اداروں‘ قوانین اور قواعد کو ذاتی مفاد کے لئے پائمال کرتے ہوئے اپنے اثاثہ جات میں اضافہ کیا۔ جس طرح ہر خوش بختی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے بالکل اِسی طرح پاکستان میں ہر کامیاب کاروبار کے درپردہ لازمی کوئی نہ کوئی قانون شکنی ہوتی ہے اُور ’بحریہ ٹاؤن‘ کے معاملے میں یہ قانون شکنی ہر حد کو عبور کر گئی!

بحریہ ٹاؤن منصوبے کے لئے اراضی کے حصول میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے بارے میں جب پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے معاملہ زیرغور آیا تو اُن تمام اطلاعات کی تصدیق ہو گئی جن میں کہا گیا تھا کہ بلاتفریق و امتیاز سیاسی فیصلہ سازوں نے اِس نجی ادارے کو فائدہ پہنچایا جس پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کا ردعمل منطقی ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ’بحریہ ٹاؤن‘ سے متعلق تین الگ الگ فیصلے سنائے۔ اکثیریتی فیصلے کے مطابق ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز میں بڑا نام رکھنے والے ’بحریہ ٹاؤن‘ نے غیرقانونی طور پر اراضی حاصل کی جو کالعدم قرار دے دی گئیں اُور بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس پر عدالتی فیصلے کے مطابق ’پلاٹ‘ عمارت‘ اپارٹمنٹ وغیرہ‘ کی خرید و فروخت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ریئل اسٹیٹ کی یہ زبردست اسکیم ’’تیس ہزار ایکڑ‘‘ تک پھیلی ہے۔ دوسرے فیصلے میں عدالت نے بحریہ ٹاؤن اور محکمۂ جنگلات کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غیر قانونی ٹھہرایا‘ جس کے نتیجے میں اسلام آباد کی تقریباً دو ہزار کنال جنگل کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔ اسی طرح‘ عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق ’’نیو مری دویلپمنٹ اسکیم‘‘ کے لئے حاصل کی گئی اراضی بھی قانون کے منافی ہے۔ اِس فیصلے میں اُن تمام سرکاری محکموں کی سرزنش کی گئی ہے جنہوں نے خاموشی کے ساتھ بحریہ کو بڑے بڑے فوائد دیکھ کر سرکاری زمین کو تھوک کے حساب سے ناجائز طور پر فراہم کرنے میں سہولیات فراہم کیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں‘ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کردار کی مذمت شامل ہے جس نے ’’ریاست اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی‘‘ جبکہ سندھ حکومت کو اِن بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کا ’مددگار‘ قرار دیا گیا۔ منافع بخش بحریہ کو کم قیمت والی ہاؤسنگ اسکیم کی قیمت کے برابر کم ترین داموں میں سرکاری زمین فروخت کی گئی‘ جس میں شامل افراد کی رشوت خوری کا اندازہ کرنا مشکل نہیں!

خیبرپختونخوا کو ’بحریہ ٹاؤن‘ کیس عدالتی فیصلے پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ بحریہ سے ملتی جلتی کئی رہائشی اسکیمیں اُنہی کاروباری اصولوں پر یہاں بھی پھل پھول رہی ہیں! بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں جن اہم نکات پر بات کی گئی‘ ان میں سے چند تشویش کا باعث ہیں۔ اربوں روپے کے مذکورہ تعمیراتی منصوبے نے دیہی علاقوں میں نسلوں سے آباد لوگوں سے اُن کا حق چھینا۔ اس ظلم میں شریک اسٹیبلشمنٹ‘ سیاسی اَشرافیہ اُور سرکاری اَفسران میں شامل بااثر افراد نے پہلے سے دیوار سے لگے حقیقی رہائیشیوں کو اُن کی جگہوں سے جبری طور پر ہٹانے کے لئے ریاستی جابرانہ اختیارات استعمال کئے تاہم مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں شامل افراد کے خلاف کاروائی کے لئے قومی احتساب بیور (نیب) کو حکم تو دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں پیدا ہونے والے تھرڈ پارٹی انٹرسٹ کو تسلیم کرتے ہوئے‘ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے سرمایہ کاری کرنے والوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ عدالت بھی کیا سادا ہے اگر نیب کا اِدارہ ’’زندہ (فعال)‘‘ ہوتا تو کیا بحریہ ٹاؤن کی اس قدر بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ممکن ہوتیں؟

آخر ہم نے بحریہ ٹاؤن کو کیوں واحد ادارہ سمجھ لیا ہے؟

عدالت نے ’نیب‘ کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے جن سرمایہ کاروں کے حقوق کو محفوظ بنانے کا حکم دیا ہے تو اِس سے عدالتی کاروائی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ اس طرح سے غیر قانونی طریقوں پر محیط بحریہ ٹاؤن کراچی کے منصوبے کو قانونی تحفظ اور جواز مل جائے گا۔ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ جن مقامی افراد کو اُن کی اراضی سے بیدخل کیا گیا‘ جن کا زمین پر پہلا حق ہے تو اُنہیں اِس پورے معاملے سے کیا ملے گا؟

کیا پاکستانی ’نیب‘ کے ماضی (خراب ٹریک ریکارڈ) سے واقف نہیں مگر اس کے باوجود ایک بار پھر اس معاملے پر تحقیقات کا کام اُسی ادارے کو سونپا گیا ہے جو ریاست اور عوام کی بجائے بااثر افراد کے مفادات کا محافظ رہا ہے!

بحریہ ٹاؤن کراچی کا معاملہ صرف کراچی کی حد تک ہی محدود نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ’’ٹیسٹ کیس (کسوٹی)‘‘ ہے اُور پاکستان میں جائیداد کی خریدوفروخت کے کاروبار میں اربوں کی سرمایہ کاری کرکے کھربوں کمانے والوں کے ’’کاروباری طریقۂ واردات‘‘ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ بحریہ ٹاؤن میں ریٹائرڈ فوجی اُور پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اَفسروں کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اُور پُرکشش دیگر مراعات کے عوض ملازم کیوں رکھا گیا؟ بحریہ ٹاؤن کے پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نواز اُور تحریک اِنصاف کے سربراہ سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذرائع ابلاغ کے لئے کام کرنے والوں سے قریبی تعلقات ہیں‘ جنہیں مالی مراعات کے علاؤہ پلاٹ اور گھر بھی دیئے گئے۔ حتی کہ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے کو بیرون ملک قیام و طعام اور خریداری کا معاملہ بھی سامنے آیا‘ جس کے اخراجات بحریہ ٹاؤن نے برداشت کئے تھے! بحریہ ٹاؤن کے معاملے پر میڈیا کا کردار اَفسوسناک ہے‘ جنہوں نے اپنا فرض نبھانے اُور عوامی مفاد کا محافظ بننے کی بجائے ’’بزنس ٹائیکون‘‘ سے مراسم بڑھائے اُور ذاتی فائدے اُٹھانے کو ترجیح دی! لیکن ’’عوامی اعتماد کو ٹھیس‘‘ صرف میڈیا ہی نے نہیں بلکہ سیاستدانوں اُور سرکاری اِداروں کے اعلیٰ انتظامی اِہلکاروں نے بھی پہنچائی ہے!

چونسٹھ سالہ ملک ریاض خالی ہاتھ ہیں‘ اُن کی دولت اور عزت داؤ پر لگی ہے۔ کاش وہ خود ہی سے پوچھیں کہ جس وسیع و عریض بدعنوانی کے ذریعے پیپلزپارٹی‘ نواز لیگ اُور تحریک اِنصاف کے سربراہوں کو وہ خوش کرتے رہے‘ جس طرح قومی اِداروں اُور ذرائع ابلاغ کی قیمت لگائی تو ذاتی طور پر اُنہیں کیا حاصل ہوا کیونکہ ذلت و رسوائی میں تو اُن کا کوئی بھی شراکت دار نہیں!؟

عدالت نے جہاں ملک ریاض کے ’بحریہ دسترخوان‘ کی تعریف کی ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ ’’عوام کو لوٹنے اُور دو متضاد کردار رکھنے والے شخص کو معاف نہیں کیا جاسکتا!‘‘
۔

Sunday, May 6, 2018

TRANSLATION: The defence budget by Dr. Farrukh Saleem

The defence budget
دفاعی بجٹ
پہلا تاثر: پاکستان دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت ہے‘ درست نہیں۔ دنیا میں کم سے کم ایسے 64 ممالک ہیں جن کی فوجی افرادی قوت پاکستان کی آبادی اور آمدن کے تناسب سے زیادہ ہے۔ اِن میں ترکی‘ ایران‘ عراق‘ سوئزرلینڈ‘ اٹلی‘ ناروے‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا‘ روس‘ سری لنکا‘ مصر‘ لیبیا‘ کویت‘ تھائی لینڈ‘ سعودی عرب‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ اسرائیل‘ اسٹونیا‘ ویت نام‘ سلووینیا‘ بوسٹوانا‘ منگولیا‘ یمن‘ قزاقستان‘ کیوبا‘ مورتانیا‘ کروشیا‘ چلی‘ صومالیہ‘ البانیہ‘ ساو ٹوم اور پرنسیپ‘ نمیبیا‘ انگولا‘ کمبوڈیا‘ یورگوئے‘ بلوویا‘ رومانیا‘ موروکو‘ لیتھونیا‘ پرتگال‘ برما‘ الجیریا‘ آزدبائیجان‘ بھوٹان‘ برونڈی‘ بلغاریہ‘ کولمبیا‘ سربیا اور مونٹی نیگرو‘ سائپرس‘ یونان‘ آرمینیا‘ جی بوتی‘ مالدیپ‘ عمان‘ بیلاروس‘ اُردن‘ شام‘ لاؤس‘ بحرین‘ برونائی‘ ایریٹیریا اُور شمالی کوریا شامل ہیں۔

نتیجۂ خیال: کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اِس بات پر نہیں ہوتا کہ اُس کے پاس فوجی قوت کا حجم کتنا ہے۔ اگر ہم سوئزرلینڈ کی مثال دیکھیں تو اُس کی فوج ’فی کس آمدن‘ کے تناسب سے زیادہ بڑی ہے جبکہ وہاں کی فی کس آمدنی 79 ہزار ڈالر ہے۔ اِسی طرح جنوبی کوریا‘ سنگاپور‘ اٹلی‘ ترکی اُور تھائی لینڈ بھی بڑی فوجی قوتیں ہیں۔ گھانا (Ghana) ایک ایسا ملک ہے جس کی فوج اُس کی فی کس آمدنی کے تناسب سے کم ہے اور گھانا کی فی کس آمدنی (per capita income) 1500 ڈالر ہے۔ علاؤہ ازیں بورکینا فاسو‘ ہیٹی‘ نائیجر‘ پاپا نیو گینو اُور گیمبیا کمزور معیشت کے حامل ممالک ہیں اور اِن کی فوجی قوت فی کس آمدنی کے تناسب سے کم ترین ہیں۔

دوسرا تاثر: پاکستان اپنی آمدنی اُور مالی وسائل کا بڑا حصہ فوج کے اِدارے پر خرچ کرتا ہے‘ درست نہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد کم سے کم 43 ہے جو پاکستان کی نسبت اپنی مجموعی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی) کا زیادہ بڑا حصہ دفاع کے لئے مختص کرتے ہیں۔ پاکستان اپنی فی کس آمدنی کے حساب سے دفاع پر 24.80 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہی چاہئے کہ دنیا میں ایسے کم سے کم 87 ممالک ہیں جو پاکستان سے زیادہ مالی وسائل اپنے دفاع کے لئے مختص کرتے ہیں۔

فی کس آمدنی کے لحاظ سے اِسرائیل اپنے دفاع پر ’1 ہزار 316 ڈالر‘ خرچ کرتا ہے جہاں فی کس آمدنی 37 ہزار 500 ڈالر ہے۔ ناروے کی فی کس آمدن 70 ہزار 800 ڈالر ہے اور ناروے فی کس آمدنی کے تناسب سے فوج پر 883 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اِس تناسب کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں کہ پاکستان میں فی کس آمدنی کے تناسب پر فوج پر 24.80 ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔

نتیجۂ خیال: کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اِس بات پر نہیں ہوتا کہ اُس کے پاس فوجی قوت کا حجم کتنا ہے۔ امریکہ میں فی کس آمدنی 57ہزار 500ڈالر ہے جو اپنی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) سے حاصل ہونے والی کل آمدنی کا 3.4 فیصد دفاع کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اِسی طرح سنگاپور‘ چین اور جنوبی کوریا بھی اِسی زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ اسرائیل اپنی مجموعی خام پیداوار کا 7.3 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ پاکستان اِس کا نصف خرچ کرنے کے باوجود بھی اسرائیل امیر لیکن پاکستان غریب ملک ہے۔
پہلا حقیقت: دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد 100 سے زیادہ ہے‘ جو دفاع کے مقابلے اپنے عوام کی صحت پر نسبتا زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے ہر باشندے پر ’’4 ہزار 271 ڈالر‘‘ خرچ کرتا ہے۔ پاکستان 18 ڈالر فی کس صحت پر خرچ کرتا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران پاکستان سے بہتر ہے جو اپنے ہر شہری کی صحت کے لئے 128 ڈالر مختص کرتا ہے۔ سری لنکا‘ برما‘ اُور زمبیا بھی پاکستان کے مقابلے اپنے باشندوں کی صحت پر زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

دوسری حقیقت: پاکستان اپنی مجموعی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی) کا 1.8 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو دنیا میں کم ترین ہے۔ مثال کے طور پر کیوبا اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 18.7 فیصد‘ خرچ کر رہا ہے۔
خلاصۂ کلام: پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم اور صحت کے لئے سب سے کم خرچ کرتا ہے اُور ایسا اِس لئے ہو رہا ہے کیونکہ صحت و تعلیم کبھی بھی ہماری حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہیں۔ جس کی وجوہات میں یہ شامل ہے کہ ہماری حکومت کو قریب ایک کھرب روپے کے گردشی قرضے ادا کرنے ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے قومی اداروں جن میں پی آئی اے اور ریلویز شامل ہیں کو فعال رکھنے کے لئے سالانہ 500 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ علاؤہ ازیں 400 ارب روپے دیگر سرکاری کاموں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اِن سبھی اخراجات کے علاؤہ پاکستان کو سالانہ ڈیڑھ کھرب روپے سے زیادہ قومی قرضوں پر سود بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)