ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور: آثار قدیمہ اور مقدمہ!
جنوب مشرقی ایشیاءکا قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ہونے کی وجہ سے پشاور میں سینکڑوں کی تعداد میں تاریخی و ثقافتی اِہمیت کی ایسی نشانیاں موجود ہیں‘ جن میں سے ہر ایک کی اہمیت دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن ’شاندار ماضی‘ سے متعلق اِن نشانیوں (آثار) کا وجود ’مستقل نشانے‘ پر ہے اُور یہ خطرہ اُن آخری حدوں کو چھو رہا ہے‘ جہاں مذکورہ آثار قدیمہ کی گنتی کر لی گئی ہے لیکن ’کاغذی کاروائی‘ سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکا اُور کاغذی کاروائی (بشمول قانون سازی) بھی بس اُسی حد تک کی گئی ہے جس سے ملازمتی اُوقات پر زیادہ بوجھ نہ پڑے! حقیقت حال یہ ہے کہ ’پشاور کے ثقافتی اثاثوں‘ کے ایک سے زیادہ حکومتی اِدارے اُور ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہلکار محافظ تو ہیں جو عملاً اِن تاریخی شاہکاروں کو بچانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ تو کیا سزا ¿ و جزا ¿ اُور کارکردگی کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟
پشاور کے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کے رجحان اُور درپردہ ”بنیادی عوامل“ یہ ہیں کہ ’اہل پشاور‘ اپنے ورثے اور میراث سے لاتعلقی ہو چکے ہیں۔ پشاور کے والی وارث وہ ہیں‘ جو کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت اِس شہر وارد ہوئے اُور مختلف زمانوں میں آنے والے مہاجر پھر یہیں ٹھہرتے چلے گئے ہیں۔ چونکہ پشاور کا دسترخوان اور مہمان نوازی وسیع تھی‘ اِس لئے جو ایک مرتبہ یہاں آیا‘ وہ خود کو اِس کی کشش سے بچا نہ سکا۔ اہل پشاور نے بھی توجہ نہیں دی اُور اپنی ’نئی نسل‘ کو مغربی زبان و تہذیب آشنا بنا دیا گیا ہے‘ جس میں اُن کے آباءو اجداد کے طریقوں‘ بودوباش‘ رہن سہن‘ زبان و تہذیب کی اہمیت مرکزی نہیں رہی۔ خوش آئند (بیداری کی لہر) ہے کہ ”پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل“ کے نام سے ’پشاور کی محبت‘ میں سرشار ’سول سوسائٹی‘ ایک قدم آگے آئی ہے‘ جس کی صفوں میں اگرچہ جانے پہچانے نام زیادہ ہیں لیکن اِن کے ’تازہ دم حوصلوں‘ سے اُمید ہے کہ ”پشاور کی بھلائی اور خیر کے کئی پہلو نکلیں گے۔“
پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل کے اِجلاس (27اپریل2019ئ) میں اِس معاملے کے مختلف قانونی و سماجی پہلوو ¿ں پر غور ہوا کہ ”پشاور شہر کے گرد تعمیر ہونے والی دیوار (فصیل شہر) کے باقی ماندہ حصوں میں سب سے بڑا ٹکڑا جو کوہاٹی گیٹ سے متصل تھا اُور جس کی لمبائی قریب ”200 فٹ“ تھی‘ اُس کا 57فٹ لمبا اُور 12 فٹ اونچا ٹکڑا راتوں رات منہدم کر دیا گیا ہے اُور اِس بات کی بھی ضمانت نہیں دی جا رہی کہ ”کوہاٹی گیٹ سے گنج گیٹ اُور چند دیگر مقامات پر ’فصیل شہر‘ کے باقی ماندہ ٹکڑے یا اُن کے آثار کو بچایا اُور مستقبل کے لئے محفوظ کیا جا سکے گا یا نہیں۔ تشویش کا اظہار اپنی جگہ منطقی ہے کہ فصیل شہر اور دروازوں کے حوالے (ذکر) صرف دستاویزات‘ کتابوں یا اخبارات کے کالموں کی حد تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے!
اِس ’لمحہ فکریہ‘ پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ کے پلیٹ فارم سے اِن مطالبات پر زور ہونا چاہئے۔
1: پشاور کی فیصل شہر کو آثار قدیمہ کے اُس درجے میں شامل کیا جائے‘ جنہیں محفوظ (protected) حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ فی الحال محکمہ آثار قدیمہ اِس دیوار کی تاریخی و ثقافتی اہمیت سے انکار تو نہیں کر رہا لیکن اِسے ”PROTECTED“ ڈیکلیئر نہیں کیا گیا۔
2: پشاور شہر کے 16 دروازوں میں سے جو 2 دروازے اصل حالت میں باقی ہیں‘ اُنہیں بھی ”پروٹیکٹیڈ“ قرار دیا جائے۔
3: پشاور کی ضلعی حکومت نے ماضی میں جن 16میں سے 14 دروازوں کی ازسرنو تعمیر کی‘ اُس میں نہ تو قدیمی فن تعمیر کا لحاظ پاس رکھا گیا اور نہ ہی اِن دروازوں کے ڈیزائن بارے متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کو مشاورتی یا نگرانی کے عمل میں شریک کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دروازے تو قائم ہو گئے لیکن وہ صرف اور صرف سیاسی اشتہارات آویزاں کرنے کے لئے وقف دکھائی دیتے ہیں‘ جن پر حکمرانوں نے اپنے ناموں کی تختیاں بھی نصب کر رکھی ہیں۔ سرکاری خزانے کے استعمال سے نیک نامی اور سستی و سیاسی شہرت حاصل کرنے کی مذمت ہونی چاہئے اُور پشاور کے دروازوں کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لئے انہیں ’محکمہ آثار قدیمہ‘ کے حوالے کر دیا جائے۔
4: آثار قدیمہ کے قانون (2016ئ) کے تحت کسی تاریخی اہمیت کے حامل اثاثے کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ سزا 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دو سال قید مقرر ہے‘ اِس پر نظرثانی کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والے کے جملہ اثاثہ جات کی ضبطگی اُور جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کا دو گنا جرمانہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ ’آثار قدیمہ‘ کو نقصان کبھی بھی کم مالی حیثیت والا شخص نہیں پہنچاتا بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ سب کے سب غیرمعمولی سیاسی و مالی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
5: پشاور جیسے تاریخی شہر میں تعمیراتی نقشوں کی منظوری کے عمل میں محکمہ ¿ آثار قدیمہ سے اجازت (NOC) حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔
6: فصیل شہر اور دروازوں سے متصل عمارتوں میں تہہ خانوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے۔
7: کئی مقامات پر فصیل شہر تو موجود ہے لیکن وہاں اِس کی چوڑائی کو کم کیا گیا ہے۔ ایسی تجاوزات (جرات) کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔
8: رواں ہفتے (اکیس اپریل) کے روز فصیل شہر کا جو حصہ منہدم ہوا‘ وہ متعلقہ اداروں (ٹاو ¿ن ون اُور ضلعی انتظامیہ) کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انتظامی عہدوں پر فائز ٹاو ¿ن ون اور پشاور کی ضلعی حکومت کے تمام متعلقہ اہلکاروں کو معطل کر کے اُن کے اثاثہ جات (مالی حیثیت) بارے خفیہ اداروں سے تفتیش کروائی جائے کہ کس طرح ذاتی‘ سیاسی اور مالی فوائد کے لئے پشاور کے اثاثے ’برائے فروخت‘ ہیں۔
9: گوگل اَرتھ (Google Earth) کے ذریعے پشاور کی فصیل اُور دروازوں کا سروے اُور تاریخی مقامات کی نشاندہی پر مبنی تازہ ترین نقشہ جات (maps) مرتب کئے جائیں تاکہ اہل پشاور اور بالخصوص پٹوار خانے اور مستقبل میں تعمیراتی نقشے منظور کرنے والے حکام کے پاس جدید معلومات ہونی چاہیئں۔ اِس سلسلے میں یونیورسٹی آف پشاور کے جیالوجی (Geology) ڈیپارٹمنٹ کی تکنیکی و افرادی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 25 اپریل 2019ءکے روز اِسی ڈیپارٹمنٹ نے حیات آباد پشاور میں 2200 سال پرانے آثار دریافت کئے جو ہند یونانی (Indo-Greek) زمانے کے ہیں۔
10: پشاور شناسی کے مضامین نصاب کا حصہ بنانے کے لئے تحریک کی بھی ضرورت ہے‘ جس کے لئے سماجی طور پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ اُور سیاسی طور پر ”پاکستان ہندکوان تحریک‘ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بہت سے دیگر ضروریات بھی فہرست کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی بات (خلاصہ کلام) ”پشاور شناسی“ عام کرنے کی ہے‘ جن رگوں میں ’پشاور کی محبت‘ دوڑ رہی ہے اُن کی توجہات (یاد دہانی) معمولی کوشش سے راغب و مرکوز کی جا سکتی ہیں لیکن اِن کوششوں سے سوفیصد کامیابی کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے اور ”خاطر جمع رہے“ کہ جو دل مردہ ہو چکے ہیں‘ اُن پر پشاور کی محبت جیسی بہار کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔
اِس ’لمحہ فکریہ‘ پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ کے پلیٹ فارم سے اِن مطالبات پر زور ہونا چاہئے۔
1: پشاور کی فیصل شہر کو آثار قدیمہ کے اُس درجے میں شامل کیا جائے‘ جنہیں محفوظ (protected) حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ فی الحال محکمہ آثار قدیمہ اِس دیوار کی تاریخی و ثقافتی اہمیت سے انکار تو نہیں کر رہا لیکن اِسے ”PROTECTED“ ڈیکلیئر نہیں کیا گیا۔
2: پشاور شہر کے 16 دروازوں میں سے جو 2 دروازے اصل حالت میں باقی ہیں‘ اُنہیں بھی ”پروٹیکٹیڈ“ قرار دیا جائے۔
3: پشاور کی ضلعی حکومت نے ماضی میں جن 16میں سے 14 دروازوں کی ازسرنو تعمیر کی‘ اُس میں نہ تو قدیمی فن تعمیر کا لحاظ پاس رکھا گیا اور نہ ہی اِن دروازوں کے ڈیزائن بارے متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کو مشاورتی یا نگرانی کے عمل میں شریک کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دروازے تو قائم ہو گئے لیکن وہ صرف اور صرف سیاسی اشتہارات آویزاں کرنے کے لئے وقف دکھائی دیتے ہیں‘ جن پر حکمرانوں نے اپنے ناموں کی تختیاں بھی نصب کر رکھی ہیں۔ سرکاری خزانے کے استعمال سے نیک نامی اور سستی و سیاسی شہرت حاصل کرنے کی مذمت ہونی چاہئے اُور پشاور کے دروازوں کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لئے انہیں ’محکمہ آثار قدیمہ‘ کے حوالے کر دیا جائے۔
4: آثار قدیمہ کے قانون (2016ئ) کے تحت کسی تاریخی اہمیت کے حامل اثاثے کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ سزا 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دو سال قید مقرر ہے‘ اِس پر نظرثانی کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والے کے جملہ اثاثہ جات کی ضبطگی اُور جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کا دو گنا جرمانہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ ’آثار قدیمہ‘ کو نقصان کبھی بھی کم مالی حیثیت والا شخص نہیں پہنچاتا بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ سب کے سب غیرمعمولی سیاسی و مالی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
5: پشاور جیسے تاریخی شہر میں تعمیراتی نقشوں کی منظوری کے عمل میں محکمہ ¿ آثار قدیمہ سے اجازت (NOC) حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔
6: فصیل شہر اور دروازوں سے متصل عمارتوں میں تہہ خانوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے۔
7: کئی مقامات پر فصیل شہر تو موجود ہے لیکن وہاں اِس کی چوڑائی کو کم کیا گیا ہے۔ ایسی تجاوزات (جرات) کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔
8: رواں ہفتے (اکیس اپریل) کے روز فصیل شہر کا جو حصہ منہدم ہوا‘ وہ متعلقہ اداروں (ٹاو ¿ن ون اُور ضلعی انتظامیہ) کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انتظامی عہدوں پر فائز ٹاو ¿ن ون اور پشاور کی ضلعی حکومت کے تمام متعلقہ اہلکاروں کو معطل کر کے اُن کے اثاثہ جات (مالی حیثیت) بارے خفیہ اداروں سے تفتیش کروائی جائے کہ کس طرح ذاتی‘ سیاسی اور مالی فوائد کے لئے پشاور کے اثاثے ’برائے فروخت‘ ہیں۔
9: گوگل اَرتھ (Google Earth) کے ذریعے پشاور کی فصیل اُور دروازوں کا سروے اُور تاریخی مقامات کی نشاندہی پر مبنی تازہ ترین نقشہ جات (maps) مرتب کئے جائیں تاکہ اہل پشاور اور بالخصوص پٹوار خانے اور مستقبل میں تعمیراتی نقشے منظور کرنے والے حکام کے پاس جدید معلومات ہونی چاہیئں۔ اِس سلسلے میں یونیورسٹی آف پشاور کے جیالوجی (Geology) ڈیپارٹمنٹ کی تکنیکی و افرادی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 25 اپریل 2019ءکے روز اِسی ڈیپارٹمنٹ نے حیات آباد پشاور میں 2200 سال پرانے آثار دریافت کئے جو ہند یونانی (Indo-Greek) زمانے کے ہیں۔
10: پشاور شناسی کے مضامین نصاب کا حصہ بنانے کے لئے تحریک کی بھی ضرورت ہے‘ جس کے لئے سماجی طور پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ اُور سیاسی طور پر ”پاکستان ہندکوان تحریک‘ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بہت سے دیگر ضروریات بھی فہرست کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی بات (خلاصہ کلام) ”پشاور شناسی“ عام کرنے کی ہے‘ جن رگوں میں ’پشاور کی محبت‘ دوڑ رہی ہے اُن کی توجہات (یاد دہانی) معمولی کوشش سے راغب و مرکوز کی جا سکتی ہیں لیکن اِن کوششوں سے سوفیصد کامیابی کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے اور ”خاطر جمع رہے“ کہ جو دل مردہ ہو چکے ہیں‘ اُن پر پشاور کی محبت جیسی بہار کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔