Sunday, April 28, 2019

The case of Peshawar!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور: آثار قدیمہ اور مقدمہ!

جنوب مشرقی ایشیاءکا قدیم ترین زندہ تاریخی شہر ہونے کی وجہ سے پشاور میں سینکڑوں کی تعداد میں تاریخی و ثقافتی اِہمیت کی ایسی نشانیاں موجود ہیں‘ جن میں سے ہر ایک کی اہمیت دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن ’شاندار ماضی‘ سے متعلق اِن نشانیوں (آثار) کا وجود ’مستقل نشانے‘ پر ہے اُور یہ خطرہ اُن آخری حدوں کو چھو رہا ہے‘ جہاں مذکورہ آثار قدیمہ کی گنتی کر لی گئی ہے لیکن ’کاغذی کاروائی‘ سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکا اُور کاغذی کاروائی (بشمول قانون سازی) بھی بس اُسی حد تک کی گئی ہے جس سے ملازمتی اُوقات پر زیادہ بوجھ نہ پڑے! حقیقت حال یہ ہے کہ ’پشاور کے ثقافتی اثاثوں‘ کے ایک سے زیادہ حکومتی اِدارے اُور ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہلکار محافظ تو ہیں جو عملاً اِن تاریخی شاہکاروں کو بچانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ تو کیا سزا ¿ و جزا ¿ اُور کارکردگی کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟

پشاور کے آثار قدیمہ کو نقصان پہنچنے کے رجحان اُور درپردہ ”بنیادی عوامل“ یہ ہیں کہ ’اہل پشاور‘ اپنے ورثے اور میراث سے لاتعلقی ہو چکے ہیں۔ پشاور کے والی وارث وہ ہیں‘ جو کسی ضرورت یا مجبوری کے تحت اِس شہر وارد ہوئے اُور مختلف زمانوں میں آنے والے مہاجر پھر یہیں ٹھہرتے چلے گئے ہیں۔ چونکہ پشاور کا دسترخوان اور مہمان نوازی وسیع تھی‘ اِس لئے جو ایک مرتبہ یہاں آیا‘ وہ خود کو اِس کی کشش سے بچا نہ سکا۔ اہل پشاور نے بھی توجہ نہیں دی اُور اپنی ’نئی نسل‘ کو مغربی زبان و تہذیب آشنا بنا دیا گیا ہے‘ جس میں اُن کے آباءو اجداد کے طریقوں‘ بودوباش‘ رہن سہن‘ زبان و تہذیب کی اہمیت مرکزی نہیں رہی۔ خوش آئند (بیداری کی لہر) ہے کہ ”پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل“ کے نام سے ’پشاور کی محبت‘ میں سرشار ’سول سوسائٹی‘ ایک قدم آگے آئی ہے‘ جس کی صفوں میں اگرچہ جانے پہچانے نام زیادہ ہیں لیکن اِن کے ’تازہ دم حوصلوں‘ سے اُمید ہے کہ ”پشاور کی بھلائی اور خیر کے کئی پہلو نکلیں گے۔“

پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل کے اِجلاس (27اپریل2019ئ) میں اِس معاملے کے مختلف قانونی و سماجی پہلوو ¿ں پر غور ہوا کہ ”پشاور شہر کے گرد تعمیر ہونے والی دیوار (فصیل شہر) کے باقی ماندہ حصوں میں سب سے بڑا ٹکڑا جو کوہاٹی گیٹ سے متصل تھا اُور جس کی لمبائی قریب ”200 فٹ“ تھی‘ اُس کا 57فٹ لمبا اُور 12 فٹ اونچا ٹکڑا راتوں رات منہدم کر دیا گیا ہے اُور اِس بات کی بھی ضمانت نہیں دی جا رہی کہ ”کوہاٹی گیٹ سے گنج گیٹ اُور چند دیگر مقامات پر ’فصیل شہر‘ کے باقی ماندہ ٹکڑے یا اُن کے آثار کو بچایا اُور مستقبل کے لئے محفوظ کیا جا سکے گا یا نہیں۔ تشویش کا اظہار اپنی جگہ منطقی ہے کہ فصیل شہر اور دروازوں کے حوالے (ذکر) صرف دستاویزات‘ کتابوں یا اخبارات کے کالموں کی حد تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے!

اِس ’لمحہ فکریہ‘ پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ کے پلیٹ فارم سے اِن مطالبات پر زور ہونا چاہئے۔
1: پشاور کی فیصل شہر کو آثار قدیمہ کے اُس درجے میں شامل کیا جائے‘ جنہیں محفوظ (protected) حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ فی الحال محکمہ آثار قدیمہ اِس دیوار کی تاریخی و ثقافتی اہمیت سے انکار تو نہیں کر رہا لیکن اِسے ”PROTECTED“ ڈیکلیئر نہیں کیا گیا۔

2: پشاور شہر کے 16 دروازوں میں سے جو 2 دروازے اصل حالت میں باقی ہیں‘ اُنہیں بھی ”پروٹیکٹیڈ“ قرار دیا جائے۔

3: پشاور کی ضلعی حکومت نے ماضی میں جن 16میں سے 14 دروازوں کی ازسرنو تعمیر کی‘ اُس میں نہ تو قدیمی فن تعمیر کا لحاظ پاس رکھا گیا اور نہ ہی اِن دروازوں کے ڈیزائن بارے متعلقہ محکمہ آثار قدیمہ کو مشاورتی یا نگرانی کے عمل میں شریک کیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دروازے تو قائم ہو گئے لیکن وہ صرف اور صرف سیاسی اشتہارات آویزاں کرنے کے لئے وقف دکھائی دیتے ہیں‘ جن پر حکمرانوں نے اپنے ناموں کی تختیاں بھی نصب کر رکھی ہیں۔ سرکاری خزانے کے استعمال سے نیک نامی اور سستی و سیاسی شہرت حاصل کرنے کی مذمت ہونی چاہئے اُور پشاور کے دروازوں کو اُن کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لئے انہیں ’محکمہ آثار قدیمہ‘ کے حوالے کر دیا جائے۔

4: آثار قدیمہ کے قانون (2016ئ) کے تحت کسی تاریخی اہمیت کے حامل اثاثے کو نقصان پہنچانے کی زیادہ سے زیادہ سزا 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دو سال قید مقرر ہے‘ اِس پر نظرثانی کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والے کے جملہ اثاثہ جات کی ضبطگی اُور جائیداد کی مارکیٹ ویلیو کا دو گنا جرمانہ عائد ہونا چاہئے کیونکہ ’آثار قدیمہ‘ کو نقصان کبھی بھی کم مالی حیثیت والا شخص نہیں پہنچاتا بلکہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ سب کے سب غیرمعمولی سیاسی و مالی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔

5: پشاور جیسے تاریخی شہر میں تعمیراتی نقشوں کی منظوری کے عمل میں محکمہ ¿ آثار قدیمہ سے اجازت (NOC) حاصل کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔

6: فصیل شہر اور دروازوں سے متصل عمارتوں میں تہہ خانوں کی تعمیر پر پابندی عائد کی جائے۔

7: کئی مقامات پر فصیل شہر تو موجود ہے لیکن وہاں اِس کی چوڑائی کو کم کیا گیا ہے۔ ایسی تجاوزات (جرات) کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔

8: رواں ہفتے (اکیس اپریل) کے روز فصیل شہر کا جو حصہ منہدم ہوا‘ وہ متعلقہ اداروں (ٹاو ¿ن ون اُور ضلعی انتظامیہ) کے اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انتظامی عہدوں پر فائز ٹاو ¿ن ون اور پشاور کی ضلعی حکومت کے تمام متعلقہ اہلکاروں کو معطل کر کے اُن کے اثاثہ جات (مالی حیثیت) بارے خفیہ اداروں سے تفتیش کروائی جائے کہ کس طرح ذاتی‘ سیاسی اور مالی فوائد کے لئے پشاور کے اثاثے ’برائے فروخت‘ ہیں۔

9: گوگل اَرتھ (Google Earth) کے ذریعے پشاور کی فصیل اُور دروازوں کا سروے اُور تاریخی مقامات کی نشاندہی پر مبنی تازہ ترین نقشہ جات (maps) مرتب کئے جائیں تاکہ اہل پشاور اور بالخصوص پٹوار خانے اور مستقبل میں تعمیراتی نقشے منظور کرنے والے حکام کے پاس جدید معلومات ہونی چاہیئں۔ اِس سلسلے میں یونیورسٹی آف پشاور کے جیالوجی (Geology) ڈیپارٹمنٹ کی تکنیکی و افرادی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 25 اپریل 2019ءکے روز اِسی ڈیپارٹمنٹ نے حیات آباد پشاور میں 2200 سال پرانے آثار دریافت کئے جو ہند یونانی (Indo-Greek) زمانے کے ہیں۔

10: پشاور شناسی کے مضامین نصاب کا حصہ بنانے کے لئے تحریک کی بھی ضرورت ہے‘ جس کے لئے سماجی طور پر ’پشاور ہیئرٹیج ڈیفنس کونسل‘ اُور سیاسی طور پر ”پاکستان ہندکوان تحریک‘ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بہت سے دیگر ضروریات بھی فہرست کی جا سکتی ہیں لیکن بنیادی بات (خلاصہ کلام) ”پشاور شناسی“ عام کرنے کی ہے‘ جن رگوں میں ’پشاور کی محبت‘ دوڑ رہی ہے اُن کی توجہات (یاد دہانی) معمولی کوشش سے راغب و مرکوز کی جا سکتی ہیں لیکن اِن کوششوں سے سوفیصد کامیابی کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے اور ”خاطر جمع رہے“ کہ جو دل مردہ ہو چکے ہیں‘ اُن پر پشاور کی محبت جیسی بہار کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔

Black economy by Dr Farrukh Saleem

Black economy
سیاہ اقتصادیات!

پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی طور پر رائج ’سیاہ اِقتصادیات‘ نامی اصطلاح کے مطالب و معانی کا اطلاق ہمارے ہاں کی غیرقانونی طرز اقتصادیات پر نہیں ہوتا۔ عمومی اور اصطلاحی طور پر ’بلیک اکانامی‘ اُس آمدن اور طرز کاروبار کو کہا جاتا ہے‘ جو نشہ آور منشیات کا دھندا یا پھر منظم جرائم پیشہ عناصر کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِس کا مطلب ایسی کاروباری سرگرمیاں جس میں حکومت کے مقرر کردہ قواعد و ضوابط کا احترام نہ کیا جائے اُسے ’بے ضابطہ اقتصادیات‘ کہا جائے گا اُور یہی بے ضابطہ اقتصادی سرگرمیاں پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت (مرکزی حیثیت) رکھتی ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے کہ پاکستان میں چھوٹے بڑے کاروباری طبقات غیرقانونی ذرائع کو اختیار کرنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں؟ اِس بظاہر سیدھے سادے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے کاروبار کا عمومی طریقہ سمجھنا ہوگا۔ پہلی بات: پاکستان میں کم سے کم 73فیصد ملازمتیں ملک کی ’بناءضابطہ اقتصادی حکمت عملی‘ سے وابستہ ہیں۔ دوسری بات: پاکستان کی بناءضابطہ اقتصادی حکمت عملی کا تعلق اشیاءکی تیاری اور خدمات کی فراہمی کے شعبے سے ہے۔

معلوم (ناقابل تردید) حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی حکومت ہر دور میں خسارے کا شکار رہتی ہے۔ حکومت کے ادارے (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) سالانہ مجموعی طور پر ’1100 ارب روپے‘ کا خسارہ کرتے ہیں۔ ملک کا گردشی قرضہ ’1600 ارب روپے‘ جیسی بلند سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گیس کی فراہمی کے نظام میں 2 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ سرکاری اداروں کے لئے کی جانے والی خریداریوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کو وجہ سے قومی خزانے کو ہرسال کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

اصل طرز حکمرانی کا ہے۔ اگر عوام سالانہ ’10 کھرب روپے‘ بھی ٹیکس ادا کریں پھر بھی حکومت کے بجٹ کا خسارہ (آمدن و اخراجات میں عدم توازن) برقرار رہے گا۔ جس کی وجہ بڑے پیمانے پر جاری ’بناءضابطہ اقتصادی سرگرمیاں‘ نہیں بلکہ حکومت کرنے کا انداز ہے‘ جس میں ہر حکومتی ادارہ مالی وانتظامی بدعنوانیوں کی تصویر بنا ہوا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر زیادہ بڑی تعداد میں عوام ٹیکس دیں تو پاکستان ترقی کر سکتا ہے تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ درحقیقت سارا مسئلہ حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی ہے‘ جس کے باعث قومی خزانے کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس تناظر اور منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم ’تحریک انصاف حکومت‘ کی اقتصادی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی کے مراحل میں بیماری کو تشخیص کئے بغیر اُس کے علاج کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے ’خرید و فروخت اور لین دین (transactions) کے نظام‘ کو ختم کر دیا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر نعیم الحق کہتے ہیں کہ ”اگر لین دین اُور خریدوفروخت کا نظام باقی نہ رہے تو اِس سے اقتصادی ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ مارکیٹیں سازوسامان اور اجناس سے بھری پڑی ہوتی ہیں لیکن خریدار کم ہو جاتے ہیں۔ کاروباری طبقات کا خسارہ اُن کی برداشت سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ نجی شعبے میں ملازمتیں کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ نئی سرمایہ کاری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ملازمتوں کے نئے مواقع تخلیق نہیں پاتے۔ حکومت نے نئے ٹیکس عائد کرنے جیسی سہل پسندی کا انتخاب کیا‘ جس سے کاروباری سرگرمیوں بُری طرح متاثر ہوئیں ہیں۔

پاکستان کے نئے وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ اُنہیں پاکستان کی بے ضابطہ
 اقتصادیات کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہے کہ وہ پھر سے رواں دواں ہو سکے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے مالی امور کو کاروباری طبقات کے اعتماد کو بحال کرنا ہے اُور اِس کے فوراً بعد اُنہیں ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ سے قرض کا حصول کرنا ہے۔ حکومتی اقدامات میں اصلاحات لانا ہے‘ جن سے سرکاری خریداریوں کے طریقہ ¿ کار میں جاری بے قاعدگیوں کا خاتمہ ہو۔ توانائی یعنی بجلی و گیس کے پیداوار اور تقسیم کاری کے عمل میں موجود خرابیاں دور ہوں۔

’آئی ایم ایف‘ چاہتی ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ضرور ایسی کوئی حکمت عملی تشکیل دی ہوگی جس سے ملک کی کم آمدنی والے طبقات پر مالی بوجھ کم سے کم منتقل ہو۔ ’آئی ایم ایف‘ چاہتا ہے کہ 600 ارب روپے مالیات کے ٹیکس بوجھ کا اضافہ کیا جائے اور ڈاکٹر حفیظ شیخ نے یقینا ایسی حکمت عملی سوچ رکھی ہوگی جس سے کم آمدنی رکھنے والے خاندانوں پر کم سے کم سے ٹیکس کا دباو بڑھے۔

دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی طور پر ’بے ضابطہ اقتصادی سرگرمیاں‘ ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ محنت (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے بقول امریکہ میں ’بناءضابطہ اکانامی‘ سے 40فیصد روزگار وابستہ ہے۔ پاکستان میں بے ضابطہ اقتصادیات ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتی ہے‘ جس پر نصف ملکی پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 4 کروڑ 50 لاکھ پاکستانی محنت کش اُور اُن کے خاندانوں کا دارومدار ’بے ضابطہ اقتصادی شعبے‘ سے وابستہ ہے۔ حکومت کو نہیں چاہئے کہ وہ ساڑھے چار کروڑ پاکستانیوں اُور اُن کے خاندانوں کا روزگار (معاشی مستقبل) خطرے میں ڈالے۔ التجا ہے کہ ایسے فیصلوں سے گریز کیا جائے‘ جس کی وجہ سے ’بے ضابطہ کاروباری اور اقتصادی سرگرمیاں‘ متاثر ہوں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
............

Thursday, April 25, 2019

Eyes on city-wall

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور: چڑیاں اُور کھیت
سٹی سرکلر روڈ پر کوہاٹی گیٹ سے متصل ’فصیل شہر‘ کا 57فٹ حصہ گرا دیا گیا ہے۔ راتوں رات کسی دیوار کا اِس قدر بڑا حصہ گرانے کی واردات بلدیاتی حکومت کے دفاتر (فائر بریگیڈ) کے بلمقابل سرانجام پائی ہے لیکن اُس وقت کسی کو دکھائی نہیں دی جب تک دیوار کی ہر ایک اینٹ ہٹا نہیں دی گئی۔ یاد رہے کہ کوہاٹی گیٹ کے مذکورہ مقام پر فصیل شہر کا باقی ماندہ 200 فٹ حصے میں سے 57 فٹ ختم ہو چکا ہے۔ فصیل شہر مغل عہد میں تعمیر ہوئی۔ سکھ دور میں اِس کی توسیع و مرمت ہوئی اور انگریز راج میں اِسے پختہ اینٹوں کے اضافے سے زیادہ پائیدار اور مضبوط بنایا گیا لیکن اِس دیوار کو خطرہ موسمی اثرات یا وقت سے نہیں بلکہ قبضہ مافیا ہے‘ جن کی نظر میں پشاور اُور اِس کے آثار قدیمہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پشاور کے دیگر حصوں کی طرح اِس مرتبہ بھی طلسماتی طور پر ’فصیل شہر‘ کا ایک حصہ یوں گدھے کے سر سے سینگھ کی طرح غائب ہو چکا ہے (چڑیاں کھیت چگ گئی ہیں!)۔ درحقیقت یہ ایک ”ناقابل تلافی نقصان“ اُور خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ کے قانون (Antiquities Act 2016) کی 44ویں شق کے چوتھے حصے کی ’خلاف ورزی‘ ہے اُور اِسی قانون کو بنیاد بناتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والے خلاف متعلقہ پولیس اسٹیشن (تھانہ کوتوالی) میں مقدمہ (ایف آئی آر) بھی درج کروا دی گئی ہے‘ جس میں محکمہ ¿ آثار قدیمہ فریق ہے۔ مذکورہ قانون کی رو سے اگر کوئی شخص آثار قدیمہ قرار دی گئی کسی بھی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے تو اُسے زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال کی قید جیسی سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ حقیقت ہے یہ ہے کہ پشاور کے آثار قدیمہ ایک ایک کر کے ’صفحہ ¿ ہستی‘ سے مٹتی چلی گیئں لیکن آج تک کسی ایک بھی مجرم کو نشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ تصور کیجئے کہ لب سڑک‘ دیوار کا قریب ساٹھ فٹ اُونچا حصہ گرایا جا رہا تھا اُور ہر ایک اینٹ چیخ چیخ کر اہل پشاور کو آوازیں دے رہی ہوگی لیکن پشاور کی نمائندگی پر فخر محسوس کرنے اُور خود کو ’فخر پشاور‘ سمجھنے والے سیاسی و غیرسیاسی منتخب نمائندے مدد کو نہ پہنچ سکے
کوہاٹی گیٹ سے متصل ’فصیل شہر‘ کے ساتھ رہائشی مکانات (کواٹروں) میں بلدیہ پشاور کے مسیحی ملازمین آباد تھے‘ جنہیں یہ کہتے ہوئے یہاں سے ’بیدخل‘ کیا گیا تھا کہ باقی ماندہ ’فصیل شہر‘ کو بچایا جائے گا۔ یہی طریقہ ¿ واردات ’لاہوری گیٹ‘ سے متصل کواٹروں کی اراضی واگزار کراتے وقت بھی اختیار کیا گیا لیکن مذکورہ پٹی نجی اثاثوں میں منتقل ہو گئی! جس میں خاص کردار چند وکلاءنے ادا کیا اور یہ سب تفصیلات عدالتی کاروائیوں اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حصہ ہیں۔ کوہاٹی گیٹ والی اراضی کے کرایہ داروں میں اکثریت مسیحی خاندانوں کی تھی لیکن فیصلہ سازی کے مراحل سے آگاہ اُور اِس پر اثرانداز ہونے کی حیثیت رکھنے ’بااَثر تاجر‘ خاندانوں نے بھی ’بہتی گنگا‘ میں ہاتھ دھوئے اُور یوں بلدیہ یعنی پشاور کی زیادہ قیمتی اراضی اپنے نام منتقل کروائی گئی۔ یہ سارا معاملہ سیاسی طور پر کچھ اِس انداز میں تصفیہ (رفع دفع) ہوا کہ پشاور کی بجائے چند اَفراد کے مفادات کا تحفظ واضح اُور مقصود رہا۔ آج بھی پشاور اُنہی ’مفاد پرستوں‘ کے نرغے میں ہے‘ جن کے لئے تاریخ‘ فن تعمیر‘ ثقافت اُور وہ سماجی نشانیاں کہ جنہیں ’آثار قدیمہ‘ قرار دے کر تحفظ دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سب کچھ رائیگاں ہو چکا ہے!
”میری پہچان ہیں تیرے در و دیوار کی خیر .... میری جاں میرے پشاور میرے گلزار کی خیر۔“ فصیل شہر پناہ اُور 16 دروازے (کابلی‘ اندرشہر‘ کچہری‘ ریتی‘ رامپورہ‘ ہشت نگری‘ لاہوری‘ گنج‘ یکہ توت‘ کوہاٹی‘ سرکی‘ سردچاہ‘ آسیہ‘ رام داس‘ ڈبگری اور باجوڑی گیٹ) پشاور کی پہچان (سند) ہے۔ ’تازہ سانحہ‘ کوہاٹی گیٹ کے قریب رونما ہوا ہے‘ جس پر متعلقہ فیصلہ سازوں (حکام) لاعلم نہیں۔ ٹاو ¿ن ون کے چیف بلڈنگ آفیسر انجنیئر شہزاد شاہ کے مطابق ”اُنہیں سٹی وال کا حصہ گرائے جانے کی اطلاع 23 اپریل کی صبح 5 بجے دی گئی۔ جس پر فوری کاروائی کرتے ہوئے ٹاو ¿ن ون کا متعلقہ عملہ موقع پر پہنچا۔ تعمیراتی کام بند کروایا گیا۔ ضلع ناظم اُور اُن کا ماتحت عملے سمیت محکمہ ¿ آثار قدیمہ کے حکام بھی موقع پر پہنچے اور فیصلہ کیا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والے جناب نور حضرت اور اُن کی اہلیہ کے خلاف ’صوبائی آثار قدیمہ‘ قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔ اِسی سلسلے میں پولیس رپورٹ درج کروا دی گئی ہے۔“ اُن کے پرسکون اور دھیمے لہجے سے عیاں تھا کہ جیسے کچھ خاص نہیں اُور کم سے کم اُن کی ملازمت یا صحت پر کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اگر پشاور ’فصیل شہر‘ کے کسی ایک حصے سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو چکا ہے کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اِس میں نئی بات کیا ہے؟ علاوہ ازیں ’فصیل شہر‘ کو نقصان پہنچانا ’قابل پھانسی جرم‘ نہیں‘ جو اگر ثابت ہوا تو زیادہ سے زیادہ جرمانہ 5 لاکھ روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا 2 سال قید ہوگی اُور وہ بھی ایک الگ قانون کی وجہ سے کسی بزرگ (سینیئر سیٹیزن) کو نہیں دی جا سکے گی‘ یوں معاملہ مختلف عدالتوں میں طے ہو جائے گی۔ لائق توجہ امر یہ ہے کہ فصیل شہر کو منہدم کر کے جس اراضی کی قیمت میں ”1000 گنا“ اضافہ کیا گیا‘ اُس کی فی الوقت مارکیٹ ویلیو 10سے 15کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے جبکہ اِس پر کثیرالمنزلہ تجارتی و رہائشی عمارت قائم ہونے کے بعد اِس تعمیراتی منصوبے کی کل لاگت (کم سے کم) چار سے پانچ ارب روپے ہو گی۔ سینکڑوں کروڑ روپے جیسی غیرمعمولی سرمایہ کاری کرنے والے یقینا عام لوگ نہیں‘ جن کے لئے پٹوارخانے سے ضلعی حکومت‘ ٹاو ¿ن ون اُور متعلقہ تھانے کے نصف درجن اعلیٰ حکام کو ”اعتماد“ میں لینا (ہم خیال بنانا) کوئی بڑی بات نہیں۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ پشاور کو تبدیلی کی جس صبح کا انتظار تھا‘ اُس کی سحر نہیں ہوئی۔ پشاور کی ملکیت تاریخی اثاثہ جات ہوں یا زیراستعمال جائیدادیں‘ اِس ’شہر ناپرساں‘ کے وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ معمولی ’کمی بیشی‘ کے ساتھ آج بھی جاری ہے!
عشق‘ احساس‘ رحمت و زحمت
زندگی کے اصول ہو جائیں
کچھ تو مجنوں بنام شہر بھی ہوں
جو پشاور کی دھول ہو جائیں
............



Wednesday, April 24, 2019

Good luck Sri Lanka

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تیئس اپریل دوہزار اُنیس
سری لنکا: غم کی شام!
انسداد دہشت گردی کی کوششیں کرنے والے ممالک کے لئے سری لنکا کی مثال میں عملی اسباق پوشیدہ ہیں جہاں فیصلہ سازوں نے اِنتہاء پسندی کی موجودگی اُور اِس کے محرکات کو جس کسی بھی وجہ سے نظرانداز کیا اور اِسی سبب سے اِنہیں ناقابل تلافی جانی نقصانات کی صورت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ درالحکومت کولمبو میں ’ایسٹر‘ نامی عیسائی تہوار کے موقع پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 310 تک پہنچ گئی ہے۔ رواں ہفتے (اکیس اپریل) کے روز کولمبو میں ’3 معروف ہوٹلوں (دی شینگریلا‘ سینامن گرانڈ اُور کنگز بری)‘ سمیت 3 گرجا گھروں کو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا گیا۔ سری لنکن حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد کاروائی ’بین الاقوامی نیٹ ورک‘ کی مدد سے کی گئی۔ سری لنکا جو کہ پہلے ہی ’سیاسی بحران‘ سے گزر رہا تھا‘ کہ وہاں دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ صدر سریسینا نے اکتوبر میں وزیراعظم ’رانیل وکرماسنگھے‘ اُور ان کی کابینہ کو برخاست کر دیا تھا‘ جس کی جگہ دوسرا وزیراعظم لانے کی کوشش کی گئی جس سے آئینی بحران پیدا ہوا تھا۔ تب سری لنکن سپرئم کورٹ کی جانب سے دباؤ کے بعد صدر کو وزیراعظم وکرما سنگھے کو بحال کرنا پڑا۔ صدر اُور وزیراعظم کے درمیان سردجنگ کا اثر سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ وزارت دفاع کی جانب سے 4 اپریل انتباہ (وارننگ) جاری ہونے کے باوجود بھی پولیس نے خاطرخواہ کاروائی نہیں کی۔ سیکورٹی حکام کے مطابق پولیس کو کسی غیرمعمولی حملے سے متعلق پیشگی معلومات ایک غیر ملکی خفیہ ادارے کی جانب سے بھی فراہم کی گئیں تھیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سری لنکن حکام کو امریکہ اور بھارت کی جانب سے اپریل کے اوائل میں کسی بڑی اُور ممکنہ دہشت گرد کاروائی کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔

سری لنکا میں ہنگامی حالات بائیس اپریل کی نصف شب سے نافذ ہیں‘ جس کے نتیجے میں پولیس اُور فوج کو عدالت کے حکم کے بغیر کسی بھی مشتبہ شخص کو حراست میں لینے اور اُس سے تفتیش کرنے کے وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ غیرمعمولی اختیارات اِس سے قبل ملک میں جاری خانہ جنگی (23 جولائی 1983ء سے 18 مئی 2009ء) کے دوران انہیں حاصل تھے۔ علاؤہ ازیں بائیس اپریل کی شب 8 بجے کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا‘ جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اِہلکاروں کو دارالحکومت کولمبو کی سنسان سڑکوں پر گشت کرتے دیکھا گیا۔ دھماکوں کے فوراً بعد سماجی رابطہ کاری کے وسائل (فیس بک‘ واٹس ایپ اور انسٹاگرام) کو بند کر دیا گیا جبکہ ملک گیر سطح پر ’قومی توحید جماعت‘ نامی تنظیم کے خلاف پولیس کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شبہ ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات اِسی تنظیم کی کارستانی ہے۔ اگرچہ اس گروپ کی بڑے سطح پر حملے کی کوئی تاریخ نہیں ہے لیکن گذشتہ سال بدھ مذہب کے مجسموں کو نقصان پہنچانے کا الزام اِن پر لگایا گیا تھا۔ 

سری لنکا میں عبادت گاہوں کی بہتات ہے۔ چند برس قبل جب درس و تدریس کے علم کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور طلباء و طالبات کے ’ویژن‘ کو وسعت دینے کے لئے اُنہیں بیرون ملک کے دورے کروانے جیسے انقلابی نظریات رکھنے والے ماہر تعلیم واحد سراج کے ہمراہ ایک وفد کی صورت سری لنکا جانے کا اتفاق ہوا۔ وفد میں اگرچہ ’ماڈرن ایج پبلک سکول اینڈ کالج‘ سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی اکثریت تھی تاہم ایبٹ آباد کے علاؤہ دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین ایک گلدستے کی مانند تھے‘ جن کے لئے مطالعاتی دورہ یقیناًاُن کی زندگی کے چند بہترین ایام کا مجموعہ ہوگا۔ ’کولمبو (بندرانائیکے) ائرپورٹ‘ سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلی نظر سڑک کے پار مندر پر پڑی‘ جہاں ایک عبادت گزار اگربتیاں جلا رہا تھا۔ میزبان حکومتی اہلکار جلدی جلدی وفد کے اراکین کا سامان گاڑیوں میں ڈال رہے تھے اُور اِس دوران اسقدر فرصت نہیں تھی کہ سڑک کے پار مندر کو قریب سے دیکھا جاتا لیکن گنجان آباد کولمبو کی سڑکوں پر منظم ٹریفک اُور جابجا مندر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہو رہی تھی جو ناقابل بیان ہے۔ دارالحکومت کولمبو اُور ملحقہ اضلاع میں قدر مشترک یہ تھی کہ وہاں ہر گلی اور چوراہے کے علاؤہ ’جاگنگ ٹریک‘ پر بھی چھوٹے بڑے مندر قائم تھے۔ چونکہ بدھ مت کے اندر بھی بہت سے فرقے ہیں لیکن کسی بھی فرقے یا مذہب کے ماننے والے کو اِس 70فیصد ہندو اکثریتی ملک میں دوسرے سے مسئلہ (گلہ شکوہ) نہیں تھا۔ سری لنکا میں ہندو مذہب کی اُن تعلیمات کو مانا جاتا ہے جو ’اشوکا‘ بادشاہ کے بیٹے اراتھ مہندہ (Arahath Mahida) 246قبل اپنے ساتھ لائے اُور اُنہوں نے اُس وقت کے سری لنکن بادشاہ ’دیواناپمیا ٹیسا (Devanampiya Tissa)‘ کو بدھ مت اختیار کروایا تھا۔ تیسری صدی عیسوی سے قبل سری لنکا کی اکثریت ہندوازم کی پیروکار تھی جس کے بعد یہ بدھ مت پھیل گیا۔ فی الوقت سری لنکا کی اکثریتی پرامن ’2 کروڑ 10 لاکھ‘ آبادی چار بنیادی مذاہب (بدھ مت‘ ہندو ازم‘ اسلام اُور عیسائیت) میں تقسیم ہے۔

’سری لنکا‘ کو قریب سے دیکھنے والے دہشت گردی کے واقعات پر دلی صدمے اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پابندی جیسے جیسے ختم ہو رہی ہے اور جیسے جیسے سری لنکا میں دوستوں سے رابطے بحال ہو رہے ہیں وہاں سے بھی دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی کی گہرائی و گیرائی کے بارے میں پائی جانے والی تشویش سے آگاہی ہو رہی ہے۔ جنہوں نے سری لنکا میں ’نسلی کشیدگی‘ دیکھی ہے‘ اُن کی آنکھوں میں آنسو اُور دعاؤں کے معنی مختلف ہیں۔ ’سنھالہ‘ اُور ’تامل‘ نامی نسلی گروہوں کے درمیان دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازعات نے سری لنکا کو تباہ کر دیا تھا لیکن 2009ء کے بعد سے یہاں کافی حد تک امن قائم رہا۔ جنہوں نے کبھی جنگ جیسا کچھ نہیں دیکھا اُن کے لئے سری لنکا کی داخلی صورتحال ناقابل بیان حد تک دردناک اُور تشویشناک ہے! جو سمجھ رہے تھے کہ سری لنکا تشدد‘ نفرت‘ انتہاء پسندی اُور دہشت گردی کو ہمیشہ کے لئے شکست دے دی ہے‘ اُن کی جانب سے افسوس کے اظہار پر تشویش کا عنصر غالب ہے! سری لنکن دوستوں اور خیرخواہوں کے لئے بہت سارے امن اور بہت ساری خوشیوں کی دعاؤں کے ساتھ اُمید ہے کہ جلد ہی کولمبو کی رونقیں‘ خوشیاں اور چہروں پر مسکراہٹیں لوٹ آئیں گی۔ ’’دل نااُمید تو نہیں‘ ناکام ہی تو ہے ۔۔۔ لمبی ہے غم کی شام‘ مگر شام ہی تو ہے! (فیض احمد فیضؔ )‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, April 21, 2019

The fourth republic by Dr Farukh Saleem

The fourth republic
مثالی ریاست!

فرانس کی پہلی جمہوری حکومت 1792ء میں قائم ہوئی۔ تب دارالحکومت پیرس کی سڑکوں پر بھوکے پیاسے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ تب غربت‘ بھوک اُور افلاس کا حل یہ نکالا گیا کہ بہتری کے لئے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے شروعات کی جائے۔ نیا آئین بنا لیکن وہ دکھوں کا مداوا نہ سکا اُور یوں فرانس کی پہلی جمہوریہ حکومت اصلاحات اور تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئی۔ 1870ء میں فرانس نے نیا طرزحکمرانی اختیار کیا‘ جو یہاں کی تیسری ایسی جمہوری حکومت تھی۔ فرانس کی چوتھی جمہوریہ کا وجود 1946ء سے 1958ء کے درمیان رکھا گیا‘ جس نے ملک کے چوتھے آئین کے تابع طرز حکمرانی کو فروغ دیا۔ یہ چوتھا حکومتی دور بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اُور 1958ء میں منہدم ہو گیا۔ جس کے بعد پانچواں قانون اور پانچویں حکومت وجود میں آئی۔ اِس پانچویں حکومت کی ’پارلیمانی جمہوریت‘ نے لی جو ایک نیم پارلیمانی‘ نیم صدارتی ایسا طرز حکمرانی تھا‘ جس میں طاقت کے سرچشمے اور اختیارات دو عہدوں سربراہان مملکت کو حاصل تھے۔

1972ء میں جنوبی کوریا نے نیا قانون منظور کیا اور اِس نئے قانون کے تحت ’جمہوریہ‘ معرض وجود میں آئی۔ 1981ء میں فلپائن میں چوتھی جمہوریہ بنائی گئی۔ 1993ء میں افریقی ملک گھانا (Ghana) میں چوتھی جمہوریہ بنی۔ 1996ء میں نائیجر (Niger) میں نیا قانون منظور ہوا جس سے چوتھی جمہوریہ بنی۔ 1999ء میں نائیجریا (Nigeria) میں چوتھی جمہوریہ بنی۔ 2011ء میں ہنگری (Hungary) کا نیا قانون اور ملک کی چوتھی جمہوریہ بنی۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ جہاں جہاں سیاسی طرز حکمرانی اُس مقام تک پہنچی کہ جہاں اِس کے ذریعے ریاست کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے وہاں وہاں نئے قانون وضع کئے گئے تاکہ ریاست کو مضبوط اور ریاست کے مفادات کا زیادہ بہتر انداز سے تحفظ کیا جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ نیا قانون ہمیشہ اُسی وقت بنایا جاتا ہے جبکہ پرانے قانون کے تحت ملکی مسائل کا حل ممکن نہ ہو۔ جی ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ نئے قانون کی ضرورت تب پڑتی ہے جب پرانے قانون سے بہتری نہ آ رہی ہو۔

پاکستان کے آئین 1956ء میں اِسے پارلیمانی جمہوریہ بنایا گیا جس کے سربراہ وزیراعظم مقرر ہوئے جبکہ ملک کا صدر محض ایک رسمی عہدہ رکھا گیا۔ یہ طریقہ کار وضع کیا گیا لیکن چل نہ سکا۔ 1962ء میں نئے قانون کے تحت ’’صدارتی نظام‘‘ متعارف کروایا گیا‘ جس کے تحت اُس وقت کے اقتصادی مسائل بڑی حد تک حل ہوئے۔1973ء کا قانون بنایا گیا جس میں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کو ملک کا سربراہ بنا دیا گیا۔ کیا 1973ء کا آئین پاکستان کے لئے بہتر ثابت ہوا؟ کیا آئین میں سزا و جزا کا جو طریقۂ کار رکھا گیا اُس سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے؟ کیا پاکستان کو بھی موجودہ قانون اور طرز حکمرانی سے دامن چھڑانا چاہئے اور ملک کو نیا آئین یعنی نیا طرز حکمرانی دے کر ایک نئی ’جمہوریہ‘ بنایا جائے؟

ذرائع ابلاغ ماضی و حال کے سیاسی فیصلہ سازوں کی مالی بدعنوانیوں کو طشت از بام کر رہے ہیں لیکن ہمارے طرزحکمرانی میں سزا و جزا کے تصورات تو موجود ہیں لیکن اُن کے نافذ کرنے کے طریقے اِس قدر فرسودہ اور کمزور رکھے گئے ہیں کہ بدعنوانی کے معلوم و ظاہر مرتکب افراد کا بھی احتساب ممکن نہیں ہو رہا اور ریاست کے وسائل لوٹنے والے تو معلوم ہیں لیکن اُن کے احتساب کا عمل خاطرخواہ تند و تیز نہیں۔ پاکستان نے ہر طرح کے طرزحکمرانی کا تجربہ کر کے دیکھ لیا ہے لیکن ریاست اور عوام کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو پایا ہے۔

قابل ذکر ہے دنیا میں 12 درجن جمہوریتیں ہیں‘ جن میں 100 صدارتی یا نیم پارلیمانی اُور 3 درجن پارلیمانی ہیں۔ یہ پارلیمانی جمہورتیں اُنہی ممالک میں رائج ہیں جہاں برطانیہ نے راج کیا تھا۔

پاکستان کی ریاستی حکمت عملیاں اور ادارے نااہل ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں کا طرزحکمرانی سیاسی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو فائدہ پہنچانے کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا ہر شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں جبکہ توانائی کی کمی کی وجہ سے روزمرہ معمولات زندگی متاثر ہیں۔ اِس صورتحال میں نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کمزور اور ناتواں دکھائی دے رہی ہے اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ریاست کو مضبوط بنایا جائے۔ پاکستان کو کم نہیں بلکہ زیادہ جمہوریت کی ضرورت ہے ایک ایسی جمہوریت جس میں بدعنوانی اور بدعنوانوں کا راج نہ ہو۔ 1956ء‘ 1962ء اُور 1973ء کے آئین پر عمل درآمد کر کے دیکھ لیا گیا ہے‘ جن سے مضبوط ریاست اور عوامی مفادات کے تحفظ جیسے اہداف (نتائج) باوجود کوشش و خواہش بھی حاصل نہیں ہو سکے تو کیا یہ درست وقت نہیں کہ پاکستان کو ایک نئے جمہوریہ کے قالب میں ڈھالا جائے۔ ایک نیا آئین دیا جائے اور ایک ایسا آئین جس میں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ ریاست مضبوط ہو۔ جس میں سیاسی جماعتوں کے نہیں عوام کے وارے نیارے ہوں!؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, April 14, 2019

TRANSLATION: 8 questions by Dr Farrukh Saleem

Eight questions
آٹھ سوالات


موجودہ وفاقی کابینہ نے حلف ’20 اگست 2018ء‘ کے روز اٹھایا تھا۔ پہلا سوال: اُس روز پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی قدر 122 تھی‘ جس کے بعد سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا رجحان جاری ہے اور یہ 144 روپے کی سطح پر آ چکا ہے۔ اگر پاکستانی درآمدات و برآمدات میں فرق کم ہو رہا ہے اور حقیقت میں بہتری آ رہی ہے تو پھر آخر کیا وجوہات ہیں کہ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ رہی؟


دوسرا سوال: اگست 2018ء میں ادارۂ شماریات نے سالانہ مہنگائی کی شرح 5.8 بیان کی تھی۔ مارچ 2019ء میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.4فیصد ہو چکی ہے اور اگر ہم اِس کا موازنہ مارچ 2018ء کی صورتحال سے کریں تو مہنگائی میں 3.2فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ اگر پاکستان کی اکنامی درست رفتار اور درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ مہنگائی میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے؟


گرامئ قدر وزیراعظم صاحب‘ تیسرا سوال: اگست 2018ء میں پاکستان کا گردشی قرضہ 1.14 کھرب تھا جو جنوری 2019ء میں بڑھ 1.4کھرب یعنی 137 دنوں میں یہ بڑھ کر 260 ارب روپے ہو چکا ہے۔ گردشی قرض ہر دن 2 ارب روپے بڑھ رہا ہے۔ اگر توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لئے مرتب کی گئی ’ٹاسک فورس‘ راست اقدامات کر رہی ہے تو ’گردشی قرضے‘ میں کمی کیوں نہیں ہو رہی یا اِس کے بڑھنے کا عمل رک کیوں نہیں رہا؟


چوتھا سوال: جنوری 2018ء میں راقم الحروف کا گیس بل 8.756 یونٹس کے لئے 2,184 روپے فی یونٹ چارج ہوا۔ جنوری 2019ء میں 10.794 یونٹ گیس کے لئے قیمت 6,195 روپے فی یونٹ چارج کی گئی۔ کیا وجہ ہے کہ میرا بل 22 ہزار 628 روپے (جنوری 2018ء) سے بڑھ کر 66 ہزار 840 روپے (جنوری 2019ء) ہوا؟


پانچواں سوال: 24 مارچ کے روز گیس کی تقسیم کار کمپنیوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ گیس قیمتوں میں 141فیصد اضافہ کیا جائے اور اِس اضافے کا اطلاق یکم جولائی 2019ء سے ہونا چاہئے۔ اگر گیس کی چوری روک لی گئی ہے۔ گیس کی تقسیم کے نیٹ ورک میں خرابیاں بھی دور کر دی گئی ہیں اور گیس کی فروخت کے نظام کی اصلاح بھی ہو چکی ہے تو پھر گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا گیا ہے اور مزید اضافہ کس لئے تجویز کیا جا رہا ہے؟


چھٹا سوال: 27 اگست 2018ء کے روز پاکستان کے وزیر خزانہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ 18مارچ 2019ء کے روز خبر شائع ہوئی کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم ٹیکس وصولی موجودہ حکومت کے دور میں ہوئی اور حکومتی ادارے کو ٹیکس وصولی کے ہدف میں ’485.9 ارب روپے‘ کمی کا سامنا ہے۔ اگر ’ایف بی آر‘ میں اصلاحات کر دی گئی ہیں تو پھر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیوں نہیں ہوسکا اور ٹیکس وصولی کی شرح رو بہ زوال کیوں ہے؟ کیا موجودہ حکومت کے دور میں وصول نہ ہونے والے ٹیکس کے لئے بھی ماضی کے حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟


ساتواں سوال: 20 اگست 2018ء کے روز کراچی سٹاک ایکس چینج انڈکس (KSE-100) 42ہزار425 پوائنٹس پر تھی۔ تب سے آج تک انڈکس 5ہزار پوائنٹس سے زیادہ کھو چکی ہے یعنی سرمایہ کاروں کو 1 کھرب روپے (سات بلین ڈالر) کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ نقصان جو کہ سات ارب ڈالر کے مساوی ہے‘ کا حجم ’آئی ایم ایف‘ سے لئے جانے والے قرض کے مساوی ہے! اگر حکومتی اصلاحات پر سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقات کو اعتماد ہے تو پھر سٹاک ایکس چینج میں خسارہ کیوں ہو رہا ہے؟

آٹھواں سوال: حکومت کی جانب سے اِس بارے میں بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں کہ ملک میں کاروبار (سرمایہ کاری) کرنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا کی گئی ہیں تاکہ بالخصوص غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کی جا سکے لیکن اگر ہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار پر نظر کریں تو اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ جولائی سے فروری کے درمیانی عرصے میں ’73فیصد‘ کمی آئی اور اِس عرصے میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 1.216 ارب ڈالر رہا۔

اقتصادی محاذ پر پاکستان میں اصلاحاتی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ حکومت اب تک صرف ایک ہی کام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اُور وہ ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ‘ ہے‘ جو 18 ارب ڈالر سے کم ہو کر 14 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت ایسے سینکڑوں اقدامات کر رہی ہے جو ملک کے لئے بہتر ہیں جیسا کہ قبائلی علاقوں کا اضلاع کی صورت خیبرپختونخوا میں انضمام کرنے کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ ایسا بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چار وزراء نے اپنے خلاف مالی بدعنوانیوں کی تحقیقات شروع ہونے پر استعفی دیا ہے اُور پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی کامیابی سے جاری ہے۔

حرف آخر: ملازمہ نے میری بیوی سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ ’’بیگم صاحبہ‘ آپ کے کہنے پر ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ دیا تھا لیکن دیکھئے کہ کس طرح قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں!‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:شبیرحسین اِمام)

Sunday, April 7, 2019

Dear Prime Minister by Dr Farrukh Saleem

Dear Prime Minister
گرامی قدر وزیراعظم کے نام!
پاکستان کی سیاسی قیادت اقتصادی مسائل کی شدت کا خاطرخواہ احساس نہیں کر رہی۔ اِس لئے وزیراعظم عمران خان‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری صاحبان کی خدمت میں مؤدبانہ اور دل کی اتہاہ گہرائیوں سے التماس ہے کہ سیاست میں ایک دوسرے کو زچ کرنے کی بجائے پاکستان کے مستقبل اور مفادات کے بارے میں بھی سوچیں۔ گذشتہ برس‘ عام انتخابات (جولائی 2018ء) میں 3 کروڑ 70 لاکھ پاکستانیوں نے اپنا حق خودارادیت استعمال کیا اُور آج یہ سبھی ووٹر اور باقی ماندہ پاکستان کی عوام کو انتہائی سخت معاشی حالات کا سامنا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی موجودہ 95فیصد آبادی مہنگائی سے متاثرہ ہے اور اِس کے لئے بنیادی ضروریات کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔

گرامئ قدر وزیراعظم صاحب‘ پاکستان میں نجی شعبہ سونے کے انڈے دے رہا ہے اُور انہی پر ملک کا انحصار ہے لیکن نجی کاروباری اداروں کے لئے ماحول سازگار نہیں۔

گذشتہ ہفتے کی بات ہے جب میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ بڑے ہوٹل گیا۔ ہوٹل کا منیجر ہمارے پاس آیا اُور اپنی بڑھتی ہوئی کاروباری مشکلات کا رونا رونے لگا۔ اُس کا کہنا تھا کہ گذشتہ 10کے دوران اُن کی آمدن سات لاکھ روپے یومیہ سے کم ہو کر تین لاکھ روپے یومیہ ہو چکی ہے۔ اِسی ہوٹل کے ایک ویٹر نے بتایا کہ اُسے گاہگوں کی جانب سے بطور انعام (tip) ملنے والی رقم 1100 روپے سے کم ہو کر 500 روپے رہ گئی ہے۔
سڑک کنارے ’تکہ شاپ‘ کے مالک شیخ صاحب بھی فریادی نکلے۔ اُنہوں نے بتایا کہ 1998ء سے کاروبار کر رہے ہیں لیکن موجودہ حالات جیسی مندی کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی اُور اُن کی یومیہ کل فروخت جو پہلے 75 ہزار روپے ہوا کرتی تھی اب کم ہو کر 25 ہزار روپے رہ چکی ہے لیکن وہ اپنے ملازمین کی تعداد کم نہیں کرسکتا کیونکہ اِن میں بعض عرصہ 20 سال سے اُن کے ساتھ ہیں۔

میرے ایک پروگرام کے پروڈیوسر جو کہ ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُن کی ملازمت ختم ہو چکی ہے اور اب وہ گزربسر کے لئے ٹیکسی چلا کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اِس پر ستم یہ کہ گذشتہ ماہ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں رہی لیکن وہ اپنے گھر کے گیس کا بل اَدا کرے یا بچوں کی فیسیں! مجھے اُس کے متفکر چہرے پر آنسوؤں کی قطاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ چند دن پہلے کی بات ہے میں ایک خاتون پروگرام اینکر سے ملا‘ جس کی ملازمت ابھی جاری ہے۔ اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ گیس کے بل اور بچوں کی سکول فیسیں ادا کرنے میں اُنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک سال قبل 50 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں گزارہ ہو جایا کرتا تھا۔ دو روز قبل میں نے اپنے کیمرہ مین سے اُس کے گیس بل سے متعلق پوچھا تو اُس نے کہا کہ 15 ہزار روپے آیا ہے۔ یہ بل اُس کی ماہانہ آمدنی سے پندرہ فیصد زیادہ تھا۔ علاؤہ ازیں اُسے دیگر ضروریات کے لئے بھی اپنی تنخواہ کا پندرہ فیصد اُور گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لئے 30 فیصد درکار تھا۔ اِن تمام ادائیگیوں کے بعد اُس کے پاس 20 ہزار روپے رہ جاتے تھے‘ جن سے اُسے پورا مہینہ گھر کے اخراجات‘ بچوں کی فیسیں‘ اُن کے یونیفارم اُور دیگر ضروریات پوری کرنا ہوتی تھیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2013ء میں زیرگردش نوٹوں کی تعداد 1.9 کھرب روپے تھی جو بڑھ کر 4.6 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ اِس افراط زر کا مطلب ہے کہ عام آدمی کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے اُنہوں نے ہاتھ روک رکھا ہے۔ کاروباری طبقات غیریقینی کا شکار ہیں۔ کوئی سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ ہمارے وزیراعظم سینکڑوں لوگوں کے لئے ’شیلٹر ہومز‘ بنا رہے ہیں جبکہ کاروباری ادارے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کا بوجھ کم رہی ہیں۔

گردشی قرض بھی لائق توجہ ہے‘ جو 1.6 کھرب روپے جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے۔ یہ ایک ایسا بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اِس گردشی قرضے کا بوجھ 2 کروڑ 30لاکھ بجلی کے صارفین کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی بجلی کے ہر صارف کو اوسطاً 70 ہزار روپے ادا کرنا پڑیں گے۔ ملک کی خام پیداوار (GDP) میں کمی کا مطلب ہے کہ مزید 11 لاکھ افراد بے روزگار ہوں گے۔ 41 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے یعنی غربت بڑھے گی اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ تو خرابئ حالات کا ابھی آغاز ہے۔ ملک کے جملہ سیاسی فیصلہ سازوں سے التماس ہے کہ وہ کاروباری طبقات کی مشکلات کا احساس کریں‘ سازگار کاروباری ماحول اُور ترقی کے مواقعوں میں اضافہ کریں اُور سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو بچائیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Apr07: Who should be declare PROUD of PESHAWAR?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
فخر پشاور !؟

پشاور سے ’دِلی محبت‘ کا اِظہار ’عمل‘ سے بھی ہونا چاہئے اُور اِسی ’’عملی اِظہار‘‘ کے لئے ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) نے سماجی‘ علمی و اَدبی شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں کی ’بذریعہ اِعزازات‘ حوصلہ اَفزائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں باقاعدہ تقریب کا اِنعقاد ’2 مئی 2019ء‘ کی ’سہ پہر 3 بجے‘ نشترہال میں منعقد ہوگی اُور کسی بھی شعبے میں ’حسن کارکردگی‘ کا مظاہرہ کرنے والے ’اہل پشاور‘کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ ’’12 اَپریل‘‘ تک اپنی درخواستیں ’ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس‘ کو پہنچا دیں۔ اِس سلسلے میں تعلیم‘ صحت‘ ویمن ایمپاورمنٹ‘ ادب و فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ موسیقی‘ یوتھ ڈویلپمنٹ‘ کھیل‘ تاریخ و ثقافت‘ آثارقدیمہ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ زراعت اُور تجارت سمیت کئی دیگر شعبوں میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے زندہ یا فوت شدگان کو ’فخر پشاور ایوارڈ‘ دیا جائے گا۔

ناقابل یقین منطق اُور تعجب خیز طریقۂ کار یہ ہے کہ ’’پشاور کے لئے خود کو وقف کرنے والوں کو تحریری درخواست دینا پڑے گی کہ ’’جناب ضلع ناظم صاحب‘ مؤدبانہ گزارش ہے کہ فدوی نے اپنی تمام زندگی پشاور کے لئے وقف کئے رکھی اُور متمنی ہے کہ اِن خدمات کے عوض اِسے ’فخر پشاور ایوارڈ‘ سے نوازہ جائے! عین نوازش ہو گی۔‘‘ پشاور کے ساتھ اِس سے ’’گھناؤنا اُور سنجیدہ مذاق‘‘ کوئی دوسرا ممکن ہی نہیں کہ زمینی حقائق سے لاعلم ضلعی حکومت اَندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے جلدبازی میں ’فخر پشاور‘ جیسے اعزازات کی ’بندر بانٹ‘ کرے۔ اندیشہ ہے کہ افسرشاہی (بیوروکریسی)کے من پسند افراد کی فہرست میں چند نام منتخب ضلعی نمائندوں کے شامل کر کے ایک اچھے خاصے مقصد کو دفن کر دیا جائے گا اور پھر وہ ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ ’فخر پشاور‘ لکھنے والوں سے کوئی نہیں پوچھ سکے گا کہ وہ کس بنیاد پر ’قابل فخر (رشک)‘ قرار پائے ہیں۔ تاریخ میں ایسے حکمرانوں کا ذکر مذاق کے طور پر درج ملتا ہے‘ جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے لیکر عوام کی خدمت کا حق اَدا نہیں کیا۔ مٹی کی محبت ’آشفتہ سری‘ چاہتی ہے۔ کوئی بھی ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ مقصد بھی ’بناء قربانی‘ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پشاور کے لئے کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی واحد کسوٹی (پیمانہ اُور اصول) یہ ہونا چاہئے کہ ’’پشاور کے لئے اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کی قربانی کس نے دی اُور یہ قربانی کتنی بڑی تھی!‘‘ علاؤہ ازیں اعزازات کی بارش کرنے کی بجائے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے صرف ایک ہی شخص کو ’اعزاز کے لئے سزاوار‘ قراد دینا چاہئے۔ اصولی طور پر (زیادہ بہتر تو یہی ہوتا کہ) درخواستیں طلب کرنے کی بجائے ضلعی حکومت خود اِس بات کی کھوج کرتی کہ رواں برس ’’فخر پشاور اعزاز‘‘ کے لئے مستحق کون ہے‘ کہاں ہے اور اُس کا تعلق خدمات کے کس شعبے سے ہے۔ اعزاز دینے کے لئے ’کم سے کم معیار‘ بھی مقرر ہونا چاہئے۔ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر سے منسوب ’فخر پشاور‘ جیسا معتبر نام متقاضی ہے کہ دیگر اعزازات کی طرح اِس کی ساکھ (عزت افزائی) میں اضافہ کیا جائے اور یہ اعزاز کسی بھی زاویئے سے ’اعزاز کی توہین‘ قرار نہ پائے۔

زندگی کو وفا شعار کرو
دل و جاں کیا جہاں نثار کرو
جو نچھاوڑ ہوئے پشاور پر
ایسے احباب کا شمار کرو

ضلعی حکومت کے منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں کو غوروفکر کی دعوت ہے کہ وہ عام یا ضمنی انتخابات جیسے مواقعوں پر پوسٹروں‘ بینروں اُور دیگر تشہیری مواد کے ذریعے خودساختہ ’فخر پشاور‘ شخصیات کو بھی ’اظہار وجوہ‘ کے نوٹسیز جاری کریں اُور اِس بات پر پابندی عائد ہونی چاہئے کہ ذرائع ابلاغ ہوں یا اخبارات و جرائد‘ ہر خاص و عام خاطر جمع رکھے کہ ’’اپنا خرچا اُور اپنا چرچا‘‘ نامی حکمت عملی کے تحت کوئی بھی شخص ’فخر پشاور‘ یا ’بابائے پشاور‘ نہیں بن سکتا‘ جب تک کہ اُس کی باقاعدہ منظوری‘ توثیق و تائید (سند) ضلعی حکومت کی جانب سے نہیں مل جاتی۔ عجیب مذاق ہے کہ جس کا دل چاہے پشاور کے وسائل اور اِس کے نام کو استعمال کر لیتا ہے حتیٰ کہ پشاور کے اثاثے (در و دیواروں) پر بھی اُنہی کا حق مسلمہ ہے‘ جو مالی استطاعت اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ 

ضلعی حکمرانوں کو اِس بات کا بھی سختی سے نوٹس لینا چاہئے کہ فصیل شہر اُور دروازوں پر لگے پوسٹروں سمیت ہر قسم کی سیاسی و غیرسیاسی ’وال چاکنگ‘ پر پابندی عائد کی جائے۔ پشاور کو خوبصورت بنانے کا عزم اپنی جگہ لیکن ضلعی حکومت ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے پشاور کو ’آلودہ‘ کرنے والوں سے عملاً نمٹ سکتی ہے! عام آدمی (ہم عوام) حیرت زدہ ہیں کہ آج تک پشاور کا کوئی ایک بھی دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے جیسا کہ تجاوزات! ہر دور حکومت میں پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر تجاوزات کے خلاف مہمات شروع کی جاتی ہیں‘ جن کے نتائج گلی گلی اور محلے محلے بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ کاروباری و رہائشی علاقوں میں تمیز تیزی سے ختم ہو رہی ہے لیکن اِس خلاف ورزی پر بھی قانون حرکت میں نہیں آ رہا۔ کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں‘ جن میں پارکنگ اور دیگر حفاظتی انتظامات کا اہتمام نہیں کیا جاتا لیکن اِس سلسلے میں بھی ضلعی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے! ملاوٹ شدہ اشیاء کی بھرمار بھی پشاور کا مسئلہ ہے‘ جس کے موجودہ حکمرانوں سے حل ہونے کی اُمید نہیں رہی! وقت ہے کہ دوسروں کے لئے بلکہ ضلعی حکومت اپنے لئے لائحہ عمل تشکیل دے۔ 

پشاور پر حکمرانی کرنے والوں کی کمی نہیں عوام کو خدام کی تلاش ہے۔ پہلا ’خادم پشاور‘ کون ہوگا؟ شہر و مضافاتی علاقوں میں پینٹر (خطاط) حضرات اُور پینافلیکس بنانے والوں کو ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں کہ وہ غیرضروری طور پر ناموں کے ساتھ القابات کا اضافہ کرنے سے گریز کریں اور اگر کسی نے پشاور کی درودیواروں پر وال چاکنگ پر عائد پابندی کا عملاً مذاق اڑایا تو ایسے افراد کے خلاف بلاامتیاز سخت گیر کاروائی کی جائے گی۔ 

’فخر پشاور‘ کا اِعزاز ’ضلعی ناظم‘ کو ملنا چاہئے؟ کیا وہ خود کو ایسے کسی اعزاز کا مستحق سمجھتے ہیں؟ اگر نہیں تو (اب بھی دیر نہیں ہوئی اُور) ژرف نگاہی سے دیکھا جانا چاہئیکہ ’’پشاور سے محبت کے عملی اِظہار و کردار کی اِصلاح کیونکر (کیسے) ممکن بنائی جا سکتی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2019-04-07