ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خودی
’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کی قیادت نے ’ڈونلڈ جان ٹرمپ‘ کو ’’کرارا جواب‘‘ دیتے ہوئے ایران سمیت چھ دیگر مسلم ممالک (عراق‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ شام اُور یمن) کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے جواب میں کہا ہے کہ ’’تہران نے بھی امریکی شہریوں پر اسی قسم کی پابندی عائد کر دی ہے۔‘‘ ایران کی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ’’ایران کی شہریت رکھنے والوں سے کسی بھی صورت ہتک آمیز سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جب تک امریکہ مذکورہ پابندی واپس نہیں لے لیتا‘ امریکی شہریوں کی بھی ایران میں داخلے پر پابندی عائد رہے گی!‘‘
کیا دنیا کا کوئی دوسرا اسلامی ملک ایسا ہے جس کی قیادت نے امریکی صدر کے فیصلے کو غیر قانونی‘ غیر منطقی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے یوں عملاً چیلنج کیا ہو؟ یاد رہے کہ ٹرمپ نے اگرچہ پاکستان‘ افغانستان اور سعودی عرب کی شہریت رکھنے والوں کے خلاف ایسی واضح پابندی عائد نہیں کی تاہم پاکستان سمیت افغانستان و سعودی عرب سے آنے والی ویزا درخواستوں کی کڑی سکروٹنی (جانچ پڑتال) کا حکم دیا ہے اُور ’’کڑی‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے کے لئے اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے والوں کے کوائف کو آئندہ جانچ پڑتال کے اضافی مراحل سے گزرنا پڑے گا!
مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان جیسے اِتحادی ملک کے خلاف امریکہ کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے ذہن میں پائے جانے والے شکوک و شبہات (تحفظات) ہتک آمیز اور حیران کن ہیں۔ پاکستان کہ جس نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے امریکی عزائم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کہ جس نے نائن الیون کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اوّل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات‘ سلامتی اور معاشی و اقتصادی مستقبل تک کو داؤ پر لگا دیا۔ پاکستان کہ جس نے امریکہ کی محبت میں ایسے ایسے زخم سہے ہیں کہ اِس کا تن بدن اور روح تک آج تک لہولہان ہیں لیکن امریکی قیادت کا تلخ مزاج اور ماتھے پر شکنیں گواہ ہیں کہ وہ پاکستان کی دوستی اور ہرممکنہ حد سے زیادہ تعاون پر شکرگزار (احسان مند) نہیں! تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بالخصوص اور مسلم دنیا کی قیادت نے بالعموم ملت اسلامیہ کے اصل اثاثہ‘ اسلاف کی عملی تعلیمات اور پیغامات فراموش کر دیئے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ’فلسفۂ حیات‘ اُور ’تصور خودی‘ کی موجودگی میں مسلمانوں کی پستی و زبوں حالی اور کسی عالمی طاقت کا یہ رویہ اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جذبۂ خود داری‘ غیرت مندی اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لئے کائنات کی قوتوں کے ساتھ برسرپیکار رہنے کا جو درس ’فلسفۂ عجم (1908ء)‘ اسرار خودی (1915ء) اُور رموز خودی (1918ء) میں دیا گیا تھا وہ سب کے سب بالائے طاق رکھ (فراموش کر) دیئے گئے ہیں!
اِقبال شناسی بھی بہت بڑی نعمت ہے! تفکر کو عمل سے مربوط کرنے کا مرحلہ ہے کہ علامہ اقبالؒ شعور و تفکر کی کس منزل پر‘ کس طرح کا عمل اور ردعمل چاہتے تھے۔ انہوں نے قوائے عملی کو مفلوج کر دینے والے ’افلاطونی نظریات‘ کو رد کیا تو کیوں؟
ہندوؤں کے فلسفۂ وحدت الوجود کا جواب دیا تو کیوں؟ اور ایرانی شاعروں کی رومانی شاعری کے مقابلے انسان اور انسانیت کو نئے مراتب اُور منزلوں (رفعتوں) سے آشنا کیا تو کیوں؟ ’’اگر خواہی خدا را فاش دیدن۔۔۔ خودی را فاش تر دیدن بیاموز۔‘‘
امریکہ عالمی طاقت ہونے کے بل بوتے پر آج پوری دنیا کو للکار رہا ہے تو یہ بات علامہ اقبالؒ کے ہاں بہت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ اپنے سوا اور اپنے مفادات کے مقابلے امریکہ اگر آج کسی دوسرے ملک اور قوم کی عزت کو ضروری نہیں سمجھ رہا تو اِس کا حل بھی علامہ اقبالؒ کے ہاں ہی ملتا ہے جنہوں نے ’’خودی کو اِس انتہاء تک مضبوط‘‘ کرنے کا درس دیا کہ وہ گردوپیش کی گردشیں اور عالمی سیاسی حالات‘ واقعات اور معاملات تو کیا ’انسان‘ کی ذات میں چھپی مخفی طاقتوں میں اِس حد تک اضافے کا باعث بن سکتی ہے کہ ہر فرد اپنی تقدیر کے دھارے کا رُخ اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتا ہے۔ ’’ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے: خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے۔۔۔ عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں: تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے!؟‘‘
امریکہ کے نئے صدر نے گذشتہ دس روز میں جو کچھ بھی کیا اور وہ آئندہ چار برس تک جو کچھ بھی کرنے کی دھمکیاں (اشارے) دے رہے ہیں‘ اُس پر تنقید کرنے کی بجائے یہ محل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے قرآن اور خطیب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے دلی‘ روحانی‘ اُور زمانی رشتے کتنے الگ کر رکھے ہیں۔ دنیا جان چکی ہے کہ کعبے سے منہ پھیڑ لینے سے سوائے ذلت کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ سمجھ لیجئے کہ خودی کی تربیت میں اطاعت‘ ضبط نفس اور نیابت الٰہی کو پس پشت ڈالنے سے عروج نہیں ملے گا اور مسلمان انفرادی یا مسلم اقوام اجتماعی طور پر اُس وقت تک اپنی حیثیت نہیں منوا سکیں گے یعنی اُس وقت تک درجۂ کمال تک نہیں پہنچ سکیں گے جب تک ’ملت‘ نہیں بنیں گے اُور ملت کے تصور میں کسی ’’فرد کی انفرادیت‘‘ ختم نہیں ہوتی بلکہ اِس کی حیثیت پہلے سے نسبتاً زیادہ مضبوط‘ نمایاں اُور بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
پیغام یہ ہے کہ اَمریکہ یا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک (عالمی طاقت) کا اتحادی بننے میں بقاء نہیں اور نہ ہی کسی ملک سے تصادم (آ بیل مجھے مار) کی پالیسی ’دور اندیشی‘ کے زمرے میں شمار ہوگی بلکہ مسلمان ممالک کو علوم و فنون اور تحقیق و ترقی کے شعبوں میں اپنی فہم و فراست اور دانش میں اضافہ کرتے ہوئے یہ ’’باریک نکتہ‘‘ سمجھنا ہوگا کہ توحید و رسالت کی تقلید‘ اجتہاد اُور ملت اسلامیہ کی بنیاد و بقاء صرف اُور صرف ’’قرآنی تعلیمات‘‘ پر عمل درآمد میں پنہاں (پوشیدہ) ہیں۔ لاالہ الا اللہ (توحید) اُور محمد رسول اللہ (رسالت) کی گواہی کے بعد اِس کسوٹی پر عمل اعمال اور افکار سے پورا اُترے (کوششیں کئے) بناء دنیا و آخرت میں سرخروئی تو بہت دُور کی بات‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا وجود اور بقاء بھی خطرات سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’در جماعت فرد را بینم ما: اَز چمن را چوں گل چینم ما۔۔۔ فرد تا اَندر جماعت گم شود: قطرۂ وسعت طلب قلزم شود۔‘‘