Monday, January 30, 2017

Jan2017: Khudi & Allama Iqbal

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام


خودی



’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کی قیادت نے ’ڈونلڈ جان ٹرمپ‘ کو ’’کرارا جواب‘‘ دیتے ہوئے ایران سمیت چھ دیگر مسلم ممالک (عراق‘ لیبیا‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ شام اُور یمن) کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے جواب میں کہا ہے کہ ’’تہران نے بھی امریکی شہریوں پر اسی قسم کی پابندی عائد کر دی ہے۔‘‘ ایران کی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ ’’ایران کی شہریت رکھنے والوں سے کسی بھی صورت ہتک آمیز سلوک روا رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جب تک امریکہ مذکورہ پابندی واپس نہیں لے لیتا‘ امریکی شہریوں کی بھی ایران میں داخلے پر پابندی عائد رہے گی!‘‘ 


کیا دنیا کا کوئی دوسرا اسلامی ملک ایسا ہے جس کی قیادت نے امریکی صدر کے فیصلے کو غیر قانونی‘ غیر منطقی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے یوں عملاً چیلنج کیا ہو؟ یاد رہے کہ ٹرمپ نے اگرچہ پاکستان‘ افغانستان اور سعودی عرب کی شہریت رکھنے والوں کے خلاف ایسی واضح پابندی عائد نہیں کی تاہم پاکستان سمیت افغانستان و سعودی عرب سے آنے والی ویزا درخواستوں کی کڑی سکروٹنی (جانچ پڑتال) کا حکم دیا ہے اُور ’’کڑی‘‘ کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے کے لئے اجازت نامہ (ویزا) حاصل کرنے والوں کے کوائف کو آئندہ جانچ پڑتال کے اضافی مراحل سے گزرنا پڑے گا! 

مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان جیسے اِتحادی ملک کے خلاف امریکہ کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے ذہن میں پائے جانے والے شکوک و شبہات (تحفظات) ہتک آمیز اور حیران کن ہیں۔ پاکستان کہ جس نے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے امریکی عزائم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کہ جس نے نائن الیون کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اوّل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات‘ سلامتی اور معاشی و اقتصادی مستقبل تک کو داؤ پر لگا دیا۔ پاکستان کہ جس نے امریکہ کی محبت میں ایسے ایسے زخم سہے ہیں کہ اِس کا تن بدن اور روح تک آج تک لہولہان ہیں لیکن امریکی قیادت کا تلخ مزاج اور ماتھے پر شکنیں گواہ ہیں کہ وہ پاکستان کی دوستی اور ہرممکنہ حد سے زیادہ تعاون پر شکرگزار (احسان مند) نہیں! تو اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بالخصوص اور مسلم دنیا کی قیادت نے بالعموم ملت اسلامیہ کے اصل اثاثہ‘ اسلاف کی عملی تعلیمات اور پیغامات فراموش کر دیئے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ’فلسفۂ حیات‘ اُور ’تصور خودی‘ کی موجودگی میں مسلمانوں کی پستی و زبوں حالی اور کسی عالمی طاقت کا یہ رویہ اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جذبۂ خود داری‘ غیرت مندی اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لئے کائنات کی قوتوں کے ساتھ برسرپیکار رہنے کا جو درس ’فلسفۂ عجم (1908ء)‘ اسرار خودی (1915ء) اُور رموز خودی (1918ء) میں دیا گیا تھا وہ سب کے سب بالائے طاق رکھ (فراموش کر) دیئے گئے ہیں!

اِقبال شناسی بھی بہت بڑی نعمت ہے! تفکر کو عمل سے مربوط کرنے کا مرحلہ ہے کہ علامہ اقبالؒ شعور و تفکر کی کس منزل پر‘ کس طرح کا عمل اور ردعمل چاہتے تھے۔ انہوں نے قوائے عملی کو مفلوج کر دینے والے ’افلاطونی نظریات‘ کو رد کیا تو کیوں؟ 

ہندوؤں کے فلسفۂ وحدت الوجود کا جواب دیا تو کیوں؟ اور ایرانی شاعروں کی رومانی شاعری کے مقابلے انسان اور انسانیت کو نئے مراتب اُور منزلوں (رفعتوں) سے آشنا کیا تو کیوں؟ ’’اگر خواہی خدا را فاش دیدن۔۔۔ خودی را فاش تر دیدن بیاموز۔‘‘ 

امریکہ عالمی طاقت ہونے کے بل بوتے پر آج پوری دنیا کو للکار رہا ہے تو یہ بات علامہ اقبالؒ کے ہاں بہت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ اپنے سوا اور اپنے مفادات کے مقابلے امریکہ اگر آج کسی دوسرے ملک اور قوم کی عزت کو ضروری نہیں سمجھ رہا تو اِس کا حل بھی علامہ اقبالؒ کے ہاں ہی ملتا ہے جنہوں نے ’’خودی کو اِس انتہاء تک مضبوط‘‘ کرنے کا درس دیا کہ وہ گردوپیش کی گردشیں اور عالمی سیاسی حالات‘ واقعات اور معاملات تو کیا ’انسان‘ کی ذات میں چھپی مخفی طاقتوں میں اِس حد تک اضافے کا باعث بن سکتی ہے کہ ہر فرد اپنی تقدیر کے دھارے کا رُخ اپنی مرضی کے مطابق موڑ سکتا ہے۔ ’’ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے: خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے۔۔۔ عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں: تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے!؟‘‘

امریکہ کے نئے صدر نے گذشتہ دس روز میں جو کچھ بھی کیا اور وہ آئندہ چار برس تک جو کچھ بھی کرنے کی دھمکیاں (اشارے) دے رہے ہیں‘ اُس پر تنقید کرنے کی بجائے یہ محل مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے قرآن اور خطیب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے دلی‘ روحانی‘ اُور زمانی رشتے کتنے الگ کر رکھے ہیں۔ دنیا جان چکی ہے کہ کعبے سے منہ پھیڑ لینے سے سوائے ذلت کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی‘ سمجھ لیجئے کہ خودی کی تربیت میں اطاعت‘ ضبط نفس اور نیابت الٰہی کو پس پشت ڈالنے سے عروج نہیں ملے گا اور مسلمان انفرادی یا مسلم اقوام اجتماعی طور پر اُس وقت تک اپنی حیثیت نہیں منوا سکیں گے یعنی اُس وقت تک درجۂ کمال تک نہیں پہنچ سکیں گے جب تک ’ملت‘ نہیں بنیں گے اُور ملت کے تصور میں کسی ’’فرد کی انفرادیت‘‘ ختم نہیں ہوتی بلکہ اِس کی حیثیت پہلے سے نسبتاً زیادہ مضبوط‘ نمایاں اُور بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ 

پیغام یہ ہے کہ اَمریکہ یا دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک (عالمی طاقت) کا اتحادی بننے میں بقاء نہیں اور نہ ہی کسی ملک سے تصادم (آ بیل مجھے مار) کی پالیسی ’دور اندیشی‘ کے زمرے میں شمار ہوگی بلکہ مسلمان ممالک کو علوم و فنون اور تحقیق و ترقی کے شعبوں میں اپنی فہم و فراست اور دانش میں اضافہ کرتے ہوئے یہ ’’باریک نکتہ‘‘ سمجھنا ہوگا کہ توحید و رسالت کی تقلید‘ اجتہاد اُور ملت اسلامیہ کی بنیاد و بقاء صرف اُور صرف ’’قرآنی تعلیمات‘‘ پر عمل درآمد میں پنہاں (پوشیدہ) ہیں۔ لاالہ الا اللہ (توحید) اُور محمد رسول اللہ (رسالت) کی گواہی کے بعد اِس کسوٹی پر عمل اعمال اور افکار سے پورا اُترے (کوششیں کئے) بناء دنیا و آخرت میں سرخروئی تو بہت دُور کی بات‘ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا وجود اور بقاء بھی خطرات سے دوچار دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’در جماعت فرد را بینم ما: اَز چمن را چوں گل چینم ما۔۔۔ فرد تا اَندر جماعت گم شود: قطرۂ وسعت طلب قلزم شود۔‘‘

Thursday, January 26, 2017

Jan2017: Truth about the Traffic in Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور ٹریفک: سچ کیا ہے!؟

خاطرخواہ سنجیدگی کا فقدان ہے۔ اَنواع و اِقسام کے مسائل میں اُلجھے (صوبائی دارالحکومت) پشاور میں ’آمدروفت‘ سے جڑی کوفت ایک ایسا ’مرض‘ ہے‘ جس کی نہ صرف شدت میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ہر گزرتے دن کیساتھ اِضافہ ہو رہا ہے بلکہ اِس سے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا ’’کس و ناکس‘‘ کسی نہ کسی حد تک متاثر بھی ہے! تئیس جنوری کے روز پشاور ٹریفک کی منصوبہ بندی اُور اِسے فعال رکھنے کے لئے ذمہ دار (نگران) ’سینئر سپرٹینڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی)‘ صادق حسین بلوچ نے ’ضلعی اسمبلی‘ کے سامنے ٹریفک پولیس کی کارکردگی‘ درپیش مسائل اُور اُن کے حل سے متعلق تجاویز پیش کیں تو سب کو گویا سانپ ہی سونگھ گیا۔ حکمران ضلعی ہوں یا صوبائی‘ سیاسی ہوں یا غیرسیاسی اُن کا مزاج یہی ہوتا ہے کہ خود کو فرائض و ذمہ داریوں سے بری الذمہ رکھنا چاہتے ہیں! کیا ضلعی حکومت پشاور میں ٹریفک مسائل کے بارے واقعی (حقیقتاً) فکرمند ہے؟ اِس سوال کا جواب زیادہ کچھ کہنے اُور عملی مثالوں کے ذریعے پیش کرنے کی بجائے صرف اس ایک بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’ایس ایس پی ٹریفک کی طلبی ’’دو ڈھائی ماہ سے دیگر مصروفیات کی بناء پر ملتوی کی جاتی رہی‘‘ اُور جب اُنہیں حاضری کی سعادت بصورت اجازت مرحمت فرمائی بھی گئی تو ضلعی اسمبلی کے اراکین سے چالیس منٹ خطاب کرنے کی درخواست کو رد کرتے ہوئے صرف پندرہ منٹ میں ایک ایسے موضوع کا احاطہ کرنے کا حکم دیا گیا جس سے ضلع پشاور کی حدود میں رہنے والے ’’کم و بیش 70 لاکھ افراد‘‘ متاثر ہو رہے ہیں۔ 

اُس عمومی صورتحال کا تصور کیجئے جس میں ’’پشاور کی ابتر ٹریفک‘‘ کے باعث معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں‘ دفاتر‘ تجارتی مراکز حتی کہ علاج گاہوں تک بروقت رسائی ممکن نہیں رہی! اگر ضلعی حکمرانوں کی دلچسپی کا معیار بلند اُور حقیقت پسندانہ ہوتا تو پشاور ٹریفک کا ’تکنیکی حال احوال گہرائی سے جاننے کے لئے طلب کئے گئے اجلاس کے اوقات مقرر نہ کئے جاتے اور نہ ہی وقت کے تابع اجلاس جیسے نادر موقع کو غنیمت سے کم سمجھا جاتا۔ دانشمندی تو یہ تھی کہ اِس اجلاس کی تیاری ٹریفک پولیس کی طرح متعلقہ ضلعی حکومتوں کے نمائندوں اور عملے نے بھی کی ہوتی اور ہر ٹاؤن میں ٹریفک مسائل‘ اُن کی اِصلاح بارے منتخب بلدیاتی اراکین کے مشاہدے‘ فہم و فراست‘ بصیرت اور کردار کے علاؤہ عوامی شکایات کی روشنی میں جائزلیا جاتا لیکن یہ ’خوش فہمی‘ شاید ہی ممکنہ طور پر کسی ’حادثاتی تبدیلی‘ سے عملی سانچے میں ڈھل جائے کہ صوبائی اُور ضلعی حکومتوں کی کارکردگی عام آدمی (ہم عوام) کی توقعات کے معیار پر پوری اُترے یعنی ’’خدا کرے کہ میری اَرض پاک پر اُترے۔۔۔وہ فصل گل‘ جسے اندیشۂ زوال نہ ہو!‘‘

خوش آئند ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت میں کئی ایسے اراکین بھی ہیں جنہیں عرب و مغربی ممالک میں ترقی کے ثمرات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا ہے اُور وہ جانتے ہیں کہ ترقی کسی ایک شعبے یا کسی مقام (سیڑھی) پر ٹھہرنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل اور مربوط عمل کا نام ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ’’تبدیلی(The Change)‘‘ کا حصول محض ’سیاسی و انتخابی عزائم‘ کی تکمیل و اظہار ہی سے ممکن نہیں بلکہ اِس کے لئے ہمہ وقت‘ امانت و دیانت‘ خوداحتسابی‘ بہترین طرزحکمرانی (گڈگورننس)‘ حاضر دماغی‘ فعالیت‘ مستعدی‘ عمومی ذہنی رجحانات و ترغیبات کی بلندی‘ حاضر وقت و مستقبل میں درپیش آنے والے مسائل اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے دستیاب وسائل سے بھرپور استفادے کی ضرورت رہتی ہے۔ 

پشاور میں ٹریفک کا مسئلہ ہو یا کوئی دوسری اُلجھن جب تک ارتقائی و مسلسل سوچ‘ تفکر اُور مشاورتی عمل کو وقت کی قید سے آزاد دیگر ترجیحات پر غالب نہیں کیا جاتا اُس وقت تک کچھ بھی نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکمرانوں کے سامنے بھی جہاں کہیں اُور جب کبھی پشاور اور اِس کے مسائل کا تذکرہ پیش کیا جاتا ہے تو صوبائی اور ضلعی فیصلہ ساز ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند اُور سمندروں کی گہرائیوں سے زیادہ گہرے روائتی بیانات سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ پاتے! 

ضرورت تو یہ تھی کہ جب ضلعی اسمبلی اجلاس میں ’ایس ایس پی ٹریفک‘ کی جانب سے چالیس منٹ (یعنی ایک گھنٹے سے بھی کم دورانیہ) کچھ عرض کرنے کی موصول ہونے والی زبانی درخواست پر ’پندرہ منٹ‘ کی بجائے چارسو چالیس منٹ یعنی سات سے آٹھ گھنٹے مختص کر دیئے جاتے‘ پہلی مرتبہ ضلعی اسمبلی اراکین کے سامنے پیش ہونے پر اُنہیں اپنی بات پوری طرح مکمل کرنے کا بصدشکریہ و اطمینان موقع دیا جاتا۔ ضلعی نمائندگی کے تاج پوشوں کو ماتحت اداروں کے اعتماد کا جواب ہمہ تن گوش توجہ اور کارکردگی سے دینا چاہئے۔ حاکم تو پہلے ہی تعداد میں زیادہ ہیں اصل ضرورت تو کام کرنے والے غلاموں کی شدت سے محسوس ہو رہی ہے! تھوڑے کہے میں پوشیدہ مطالب‘ اشاروں اور استعاروں کو سمجھنے سے اگر تحریک انصاف کی قیادت قاصر ہے تو جان لے کہ وہ پشاور تو کیا کسی بھی دوسرے ضلع کی قسمت اور شکل و صورت نہیں بدل سکے گی۔ نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ ماضی کے سیاسی وغیرسیاسی اَدوار کی طرح اِس مرتبہ بھی کاغذی کاروائیوں اُور رسمی اِجلاسوں پر اکتفا کرتے ہوئے صوبے کے کسی بھی ضلع کے رہنے والوں کے حقوق کی ادائیگی اور اصلاح احوال سے متعلق معاملہ مبنی بر انصاف نہیں ہو پائے گا۔

Monday, January 23, 2017

Jan2017: Haq Baho

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
22جنوری 2017ء

دعوت فکر و عمل کے تقاضے!
’’اِستحکام پاکستان‘ اِتحاد اُمت مُسلمہ اُور اِنسانی معاشرے کی فلاح‘‘ پر مبنی تین نکاتی فکر و عمل کا پیغام لیکر ’’اصلاحی جماعت‘‘ کے مرکزی قائدین (صاحبزادہ محمد علی سلطان اُور صاحبزادہ اَحمد علی سلطان) صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ سے ایبٹ آباد پہنچے تو حسب سابق اُن کا والہانہ استقبال دیدنی تھا۔ اُجلے سفید کپڑے‘ سفید پگڑی‘ سیاہ واسکٹ اور نورانی چہروں والی ایک منظم اور باادب مخلوق سڑکوں پر اُمڈ آئی‘ جنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ بھی ’’ہم ہی میں سے ہیں!‘‘ یقیناًقیادت میسر ہو تو ناقابل یقین حد تک ظاہر و باطن اُجلا ہو جاتا ہے اور ناممکن بھی ممکن ہوتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ 

میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عالمی حق باہو کانفرنس کی مناسبت سے ’اکیس جنوری‘ ظہر سے بوقت عصر کامرس کالج گراؤنڈ‘ (ایبٹ آباد) منعقدہ روحانی محفل میں ’’حقیقت ایمان و یقین‘‘ پر شریں گفتار صاحبزادہ احمد علی سلطان نے سلیس‘ مدلل و جامع خطاب نے اِس عمومی تاثر کو زائل کر دیا کہ اِس قسم کی اکثر بابرکت محافل میں شاعری کے بہترین انتخاب کے ذریعے اظہارِعقیدت تو کیا جاتا ہے لیکن روحانی و عملی زندگی میں کامیابیوں کے رہنما اصول بیان نہیں کئے جاتے جس سے سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک اہم و روشن پہلو کی جانب توجہات مبذول نہیں ہو پاتیں لیکن تنظیم العارفین (اصلاحی جماعت) کا کمال ہی یہ ہے کہ اِس نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اِس فکر کو مشعل راہ بنا لیا ہے کہ ’’نکل کر خانقاہوں سے اَدا کر رسم شبیری‘‘ اور اِسی معزز پلیٹ فارم سے ایک نہایت ہی اہم سوال پیش کیا گیا ہے کہ ’’کیا معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے مادی وسائل بھروسہ و اکتفا کافی ہے یا اِس میں روحانیت کی حصہ داری بھی ہونی چاہئے اور کس قدر؟ صاحبزادہ احمد علی سلطان نے سرنامۂ کلام میں علامہ اقبالؒ کے شعر ’’خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ۔۔۔ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف‘‘ سے موضوع کی پرتیں کھولنی شروع کیں لیکن وہ نہ تو اِس شعر کا حق اَدا کرسکے اُور نہ ہی موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے اُس خیال ہی کو واضح کر سکے جو ’جلوۂ دانش فرنگ‘ کو پیش کرنے کے بعد اُن کے کندھوں پر بطور ذمہ داری عائد تھا کہ وہ حاضرین و ناظرین اور سامعین کی ایک ایسی بیماری سے شفایابی کی تدبیر (علاج تجویز) کرتے جو بالخصوص پاکستانی معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی ذات اور پیغام ایک تکون میں مضمر ہے۔ تصوف‘ محبت اور شاعری کی اس تروینی کے فیضان کا سرچشمہ ’’اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین‘‘ قلزم بیکراں کی صورت ڈھل چکا ہے اور عالم انسانیت کے لئے قرآن و حدیث کا پُرامن پیغام درحقیقت اُمت مسلمہ کی تشکیل نو کر رہا ہے۔ ایبٹ آباد میں ہرمکتبۂ فکر اور عمر سے تعلق رکھنے والے افراد کا جم غفیر وقت مقررہ سے قبل ہی کامرس کالج گراؤنڈ میں لگے بیش قیمت شامیانوں میں سجی نشست گاہوں پر رونق افروز اور بیتابی سے منتظر تھے کہ پیرومرشد کے دیدار اُور روحانی فیض کے ساتھ علم و حکمت کے موتی بھی سمیٹ کر ہمراہ لے جائیں لیکن اِس ’سلسلۂ نور‘ کو عقیدت و احترام اور نظم وضبط کی خوبیوں سے زیادہ وسیع و بامقصد اُور ’’انقلاب کا پیش خیمہ‘‘ بنانے کے لئے اُمید ہے کہ ۔۔۔
1: آئندہ ایسی ہی کسی نشست سے قبل منصوبہ بندی کی جائے گی اور شریعت و طریقت جیسے وسیع موضوعات کا احاطہ اور تفصیلات پر مشتمل درس قرآن و حدیث کا خلاصہ کتابی یا تحریری شکل میں تقسیم کیا جائے گا۔

2: آغاز محفل میں حاضرین کو تلقین کی جائے گی کہ علم دین سیکھنے اور اِس پر عمل کرنے کی نیت کے ساتھ اَز اوّل تا آخر نہ صرف توجہ سے سماعت فرمائیں بلکہ وہ اپنی یاداشت پر کلی بھروسہ نہ کریں اور ضروری علمی ساتھ ساتھ نکات لکھتے بھی رہیں۔

3: ہر نشست کے اختتام سے قبل سُوال و جواب (سیشن) کی ترکیب کی جائے تاکہ سوچنے اور تفکر کرنے کا سلسلہ جاری رہے۔

4: تنظیم العارفین کے اشاعتی مرکز ’’العارفین پبلی کیشنز‘‘ کی مطبوعات تعارفی و رعائتی قیمتوں پر فروخت کے لئے پیش کی جائیں۔ آن لائن (alfaqr.net) ویب سائٹ کے ذریعے کتب کی مفت دستیابی ممکن بنائی جائے اُور تصانیف و درس قرآن و حدیث کو آمدنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ کتب بینی کا ذوق اور مطالعے کی پیاس (طلب) میں اضافہ بھی ہدف ہونا چاہئے۔

5: اجتماعات کے موقع پر اسلامی کتب میں تفاسیر قرآن و حدیث کے ساتھ دیگر اشاعتی اداروں کی مطبوعات بالخصوص اسلام اور جدید علوم و سائنسی موضوعات کے حوالے سے دیگر زبانوں سے تراجم بھی متعارف کئے جائیں تاکہ پیغام حق اور مطالعے کو وسعت کے امکانات لامحدود ثابت ہوں۔ دیگر کتب گھروں کی طرح اسلامی کتب کے سٹالز پر بھی رعائت (ڈسکاؤنٹ) کی پیشکش ہونی چاہئے پھر یہ خریدار کی مالی حیثیت پر منحصر ہو کہ وہ رعائت سے استفادہ کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔

6: حاضرین کی درجہ بندی اُور اُن کی عوام اور خواص میں تقسیم‘ غیرضروری رکھ رکھاؤ‘ نمائش‘ ظاہری اسراف‘ حفاظتی انتظامات کے نام پر ’وی وی آئی پی پروٹوکول‘ کی بجائے سادگی و ملنساری‘ باہم شیروشکر ہونے اور مختلف علاقوں سے آنے والے وفود کے ایک دوسرے تعارف کا وسیلہ بن کر ’’جماعت اصلاحی‘‘ کی مقبولیت‘ نظم و ضبط اور فعالیت میں مدد لی جا سکتی ہے۔

7: بیعت کے دونوں درجات متعارف کئے جائیں یعنی کسی دوسرے سلسلۂ طریقت کے مریدوں کو ’طالب‘ بنایا جائے اور سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے ’سلسلۂ سروری قادری‘ سے وابستہ ہونے کے خواہشمندوں کو ’مرید‘ کیا جائے۔

8: مریدوں کے کوائف الیکٹرانک وسائل کا استعمال کرتے ہوئے جمع (ڈیٹابیس) کئے جائیں‘ تاکہ بعدازاں اُن تک رسائی کے ایک سے زیادہ وسائل سے استفادہ ممکن ہو۔ 9: نشست کا آغاز و اختتام اگر اجتماعی طور پر فرض نمازوں کی ادائیگی‘ سلسلۂ بیعت اور حلقۂ ذکر‘ درود و سلام کے بعد دعاؤں سے کیا جائے تو اِس سے روحانی تربیت کے اجتماعی عملی مظاہرے اُور جملہ اہتمام نہ صرف زیادہ بابرکت و بامقصد ثابت ہوں گے بلکہ تصوف (طریقت) کے طلبگار اپنے پیرومرشد کی امامت میں ’’اِستحکام پاکستان‘ اِتحاد اُمت مُسلمہ اُور اِنسانی معاشرے کی فلاح‘‘ کے لئے ’رب تعالیٰ سبحانہ‘ کے حضور دُعائیں بصورت قبول و مقبول اِلتجائیں بھی پیش کر سکیں گے۔

Monday, January 16, 2017

Jan2017: Reforming the Police in KP - Last Chance!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس اصلاحات: آخری موقع!
معقولیت‘ اِعتماد اُور حسن زن پر اِعتقاد کے ذریعے بہتری کی اُمید رکھنے والے بناء توجہ دلائے بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ’پولیس اِصلاحات‘ سے جڑی جملہ توقعات پوری نہیں ہوئیں! لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پولیس کی اِصلاح کے اِس پورے عمل میں صرف تین برس سے زائد کا قیمتی عرصہ ہی نہیں بلکہ ایک ’’نادر موقع‘‘ بھی ضائع کر دیا گیا‘ جو زیادہ قیمتی تھا۔ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ناصر خان دُرانی نے ایبٹ آباد (این اے سترہ) سے رکن قومی اسمبلی اُور خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت کے رہنما ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون پر ہوئے حملے کی اَزسرنو تفتیش اور یہ عمل سات روز میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے اُن اعلیٰ و ادنی پولیس اہلکاروں کو تاحکم ثانی معطل کر دیا ہے‘ جو ’اُنتیس دسمبر دوہزار سولہ‘ کے روز ’جلال بابا آڈیٹوریم‘ ایبٹ آباد میں تعینات (موجود) تھے اور جن کی آنکھوں کے سامنے‘ چار وزراء‘ رکن صوبائی اسمبلی اور درجنوں افراد کی موجودگی میں (دن دیہاڑے) نہ صرف رکن قومی اسمبلی پر حملہ ہوا بلکہ دست درازی کرنے والے حملہ آور نے پولیس کی موجودگی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے نہایت ہی غلیظ القابات کا استعمال کیا اور باریک بینی سے مرتب کی گئی سازش کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حملہ آور نے تفتیش کا رخ موڑنے کے لئے ایک ایسے خاندانی تنازع کا حوالہ دیا‘ جس سے اُس کا نہ تو کوئی خاندانی‘ سماجی‘ سیاسی و غیرسیاسی یا جذباتی تعلق تھا اُور وہ نہ ہی وہ اُس انتخابی حلقے کا رہائشی ہے‘ جہاں ’دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے تین دہائیوں کے سیاسی تعصبات کو شکست دی ہے! توجہ مرکوز رہے کہ ۔۔۔ رکن قومی اسمبلی پر حملے کے حقائق پوشیدہ کرنے کے لئے جس ’گمراہ کن بیان‘ کا سہارا لیکر تفتیشی رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی‘ اُسے سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ اور چند اخبارات کے ذریعے مشتہر کرنا بھی سازش کا حصہ تھا جس کے لئے ’سوشل میڈیا‘ کا استعمال تاحال جاری ہے! 


سُوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں اگر پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ نے زیادہ اختیارات دیئے تو کیا یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوا؟ کیا تھانہ کلچر میں تبدیلی آئی؟ کیا عام آدمی (ہم عوام) بشمول خواص کو خیبرپختونخوا پولیس پر اعتماد ہے؟ اگر اِن سُوالات کے جواب مثبت ہوتے تو انسپکٹر جنرل پولیس کو ازسرنو تفتیش کے احکامات جاری کرنے کی زحمت اُور رکن قومی اسمبلی سے ملاقات کے دوران اُنہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی کرانی نہ پڑتی۔ بھلا جس سیاسی جماعت کے اپنے دور حکومت میں خود اُس کے اپنے ہم جماعتی ’رکن قومی اسمبلی‘ پر حملے کی منصوبہ بندی میں پولیس اہلکار اور ذرائع ابلاغ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہو کہ وہ ملوث ہیں تو پھر ایسی صورتحال میں ’سیاسی مداخلت‘ ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتی ہے کیونکہ جب تک پولیس کی صفوں سے ’کالی بھیڑوں‘ کو نکال باہر نہیں کیا جاتا‘ اُس وقت تک نہ تو ’تھانہ کلچر‘ تبدیل ہوگا اور نہ ہی پولیس کی مجموعی کارکردگی (ساکھ) بہتر ہو پائے گی۔

رکن قومی اسمبلی پر حملہ ایک ’’نادر و آخری موقع‘‘ ہے کہ اِس کے ذریعے پولیس کی صفوں میں گھسنے والے جرائم پیشہ عناصر کا تہہ در تہہ (درجہ بہ درجہ) صفایا کیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی پر حملے کو ’خاندانی تنازع‘ کی آڑ میں ’رفع دفع‘ کرنے کی سازش میں شامل جملہ عناصر بشمول ذرائع ابلاغ کے چند نمائندوں اور ایسے محرکات کو منظرعام پر لانا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اِس سے پولیس کے تفتیشی عمل اور اِس پر اَثر انداز ہونے والوں کی نشاندہی ممکن ہے۔ 

خیبرپختونخوا میں ذرائع ابلاغ بشمول ’سوشل میڈیا‘ پر ضابطۂ اخلاق اور سائبر کرائمز کے قانون کی شقیں لاگو تو ہوتی ہیں لیکن اُن پر کماحقہ عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا اور اگر اِس موقع پر بھی گرفت نہیں کی جائے گی تو پھر ایسے قوانین کی ’’محض موجودگی‘‘ کیا معنی رکھتی ہے!؟ اِس نازک موقع پر بھی اگر درگزر‘ یا ایک اُور موقع دینے جیسی ’روائتی رعایت‘ (عمومی روش) سے کام لیا گیا تو پولیس میں تطہیر کا عمل پھر کبھی بھی مکمل نہیں کیا جاسکے گا۔ ایبٹ آباد میں بھتے کی پرچیاں اور اغوأ برائے تاوان جیسے جرائم ابھی متعارف نہیں ہوئے لیکن اگر ایبٹ آباد پولیس اہلکاروں کے اثاثوں کی چھان بین‘ اُن کی آمدنی کے ذرائع‘ اُن کے شاہانہ رہن سہن‘ سرمایہ کاری‘ جرائم پیشہ عناصر سے تعلقات اُور ظاہری و خفیہ آمدنی کے ذرائع بارے وسیع و جامع تحقیقات نہیں کی جاتیں اور پولیس میں ’سزا و جزا‘ کے تحت احتساب نہیں ہوتا تو ایسے حملوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ ایبٹ آباد کی طرح خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں پولیس اہلکاروں کو یہ پیغام منتقل بھی نہیں ہوگا کہ ’’تبدیلی‘‘ کی اصطلاح کا غلط مطلب اَخذ نہ کیا جائے اُور نہ ہی پولیس کو غیرسیاسی کرنے کے عمل کو تحریک انصاف کی کمزوری سمجھا جائے۔ دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح دن دیہاڑے کم وبیش ایک لاکھ ووٹ لیکر منتخب ہونے والے عوامی نمائندے اور صوبائی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی پر حملے کی منصوبہ بندی (سازش)‘ حملے اُور بعدازاں جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا اور پھر پولیس کے اختیارات اُور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اصل حملہ آور کو بچانے کی کوشش کی گئی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں میں اِس بات کو لیکر غم و غصہ سے زیادہ اِس بارے میں سوالیہ تشویش پائی جاتی ہے کہ رکن قومی اسمبلی پر حملے اُور ضلع ایبٹ آباد کی ’’مثالی پُراَمن سرزمین‘‘ پر جرائم و عدم برداشت کی پھلتی پھولتی کونپلیں اور پولیس گردی‘ کا نوٹس لینے کا یہ آخری موقع بھی کہیں ضائع تو نہیں کردیا جائے گا!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Friday, January 6, 2017

Jan2017: Clean Drinking Water for Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ تاثیر مسیحائی کی!
’’پشاور پر رحم‘‘ کرنے جیسی عاجزی کا اِظہار کرتے ہوئے اِصلاح اَحوال کی تجاویز دینے والے ’دانشور‘ لکھاری تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ اگر اہل پشاور کی 80فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو اِس کے لئے کلی طور پر ذمہ دار ’مئی دو ہزار تیرہ‘ کے بعد سے برسراقتدار آئی موجودہ صوبائی حکومت نہیں۔ کچھ ذمہ داری اُور تنقید تو پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ پیپلزپارٹی‘ متحدہ مجلس عمل‘ قومی وطن پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سمیت اُن تمام اقتدار یا شریک رہی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو ماضی میں کسی نہ کسی طور حکومتی فیصلہ سازی کا حصہ رہے اور جن کے اَدوار میں ترقی کا عمل نہ تو ’’پائیدار‘‘ ثابت ہوا اُور نہ ہی وہ ایسی ترجیحات کے تابع تھا کہ اُس کی بدولت بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ مضبوط ہوتا یا پھر کم سے کم آج پورے خیبرپختونخوا کو پینے کا صاف پانی ہی میسر ہوتا۔ قوم پرستی اور مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر حکومت کرنے والوں نے خیبرپختونخوا کو سوائے اداروں میں بیجا سیاسی مداخلت‘ سفارش‘ بدعنوانی‘ غربت‘ پسماندگی‘ انتہاء پسندی اُور بحرانوں کی صورت مسائل کی دلدل کے سوأ کچھ نہیں دیا‘ جس کی اِصلاح کے لئے کوششوں کی راہ میں آج بھی ماضی کے وہی حکمراں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو درپردہ نہ صرف تحریک انصاف کو اپنے انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد سے روکنے کے لئے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں بلکہ اپنے ہم خیال لکھنے والوں کی ’داد شجاعت‘ کو سراہتے ہیں کہ جن کے الفاظ ’تحریک انصاف‘ کے خلاف عام آدمی (ہم عوام) کے دلوں میں شکوک و شبہات کاشت کر رہے ہیں! صوبائی حکومت کے دفاع اور برسرزمین حقائق و صورتحال کی وضاحت کس کی ذمہ داری ہے؟ 

خیبرپختونخوا حکومت کی ترجمانی جس قدر کم پیمانے پر آج ہو رہی ہے‘ اِس کی ماضی میں مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی! آج پورے پاکستان کو باور کرایا جا رہا ہے کہ دیکھو ۔۔۔ ’’خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت اپنی بنیادی ذمہ داری سے عہدہ برآء نہیں ہو رہی تو کیوں نہ اِسے ناکام قرار دے کر آئندہ عام انتخابات میں مسترد کر دیا جائے!‘‘

خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے پہلے دن سے تحریک انصاف میں ’دوسرے عمران خان‘ کی کمی محسوس ہونے لگی! تحریک کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ اِسے قومی سیاست یعنی وفاقی پارلیمانی سطح پر خاطرخواہ کردار ادا کرنے کی عددی برتری حاصل نہ ہو سکی‘ جس کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ بدعنوانی سے پاک طرزحکمرانی کے قیام کا وعدہ کرنے والوں کا پیغام ملک کے کونے کونے میں نہیں پہنچ سکا بلکہ صوبوں کے ضروری طور پر بڑے حجم ہونے کے سبب ’انقلاب کی آواز‘ نسلی لسانی اور قبائلی گروہ بندیوں کے مخصوص ووٹ بینک تلے کہیں دب کر رہ گئی۔ بحث کے اِس زوایئے اور موضوع کی تہہ داریاں متقاضی ہیں کہ اِس کا احاطہ کسی دوسرے مرحلۂ فکر پر کیا جائے۔ سردست قضیہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اُس بیان سے متعلق ہے جو انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے دورے سے واپسی کے بعد‘ 2 جنوری کے روز ورسک روڈ پر منعقدہ پہلی عوامی تقریب کے موقع پر دیا اُور ذرائع ابلاغ کے ہاتھ ایک ایسا نکتہ آ گیا‘ جس کی وضاحت ہر کسی نے اپنے اپنے تعصب کی عینک لگا کر کی۔ 

وزیراعلیٰ محترم اگر بات ’’موقع محل‘‘ دیکھ کر کرتے تو اُن کی وجہ سے پوری تحریک انصاف کو اِس قدر تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ’’گلونہ پیخور‘‘ نامی ’صفائی مہم‘ کے موقع پر بے محل یہ کہنا کہ ’’پشاور کی 80فیصد آبادی کو پینے کے لئے صاف پانی دستیاب نہیں‘‘ بڑی حد تک حقیقت تو ہے‘ لیکن اِس کا حوالہ اُور بیان غیرسائنسی طور پر دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو پورے پاکستان کا کوئی ایک بھی ایسا شہر نہیں جہاں کی اکثریتی آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہو لیکن یہ اِس بات کا جواز نہیں ہوسکتا کہ کوئی حکومت اپنی ذمہ داریاں دوسروں کے سر ڈال دے۔ توجہات مبذول رہیں کہ حکومت کا کام سنسنی خیزی اور تعجب خیزی میں اضافہ نہیں بلکہ صورتحال کی وضاحت کرنا ہوتی ہے۔ 

فیصلہ سازی کے منصب پر مراعات یافتگان کی یہ بھی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی بھی مسئلے کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے اُس کے سیاق و سباق (ماضی و حال) اور اصلاحی پہلوؤں کے بیان سے اختتام کریں۔ کیا وزیراعلیٰ کو پشاور کے پانی کے بارے ایسا بیان دینا چاہئے تھا‘ جس سے اہل پشاور میں تشویش سے زیادہ یہ تاثر پھیل جاتا کہ اگر صوبائی حکومت جانتی ہے کہ پشاور کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تو پھر پینے کا صاف پانی فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور موجودہ حکومت نے اِس سلسلے میں کیا عمومی و خصوصی اقدامات کر رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا صوبائی حکومت نے پشاور کے طول و عرض میں کوئی ایسا سروے (جائزہ) اپنی نگرانی اور سرکاری اداروں کی معاونت سے مکمل کیا ہے جس سے یہ نتیجہ اَخذ کیا جاسکے کہ پشاور کی کم و بیش نہیں بلکہ پوری 80فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے؟ 

وزیراعلیٰ کو اِس بارے میں بھی اہل پشاور کی رہنمائی کرتے ہوئے بیان کرنا چاہئے تھا کہ امریکہ کا امدادی ادارہ (یو ایس ایڈ) کوڑا کرکٹ تلف کرنے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور اِس سلسلے میں پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں جاری کام کی رفتار یا حاصل شدہ نتائج کی تفصیلات بمعہ اعدادوشمار کا تبادلہ اگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ کر دیا جاتا تو ’بار ذمہ داری‘ کچھ ہلکا ہو جاتا۔ تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا اُور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کی پہلے ہی کمی نہیں تھی لیکن وزیراعلیٰ کے غیرمحتاط اُور سرسری بیان نے ’’جلتی پر تیل‘‘ جیسا کام کرتے ہوئے اُس بحث کو مزید اُلجھا دیا ہے‘ جس میں حکومت کی ذمہ داریاں‘ جنون پر منبی انقلابی اصلاحات اور جملہ انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت پر زور دینے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور کو ہنوز ایک مسیحا کا انتظار ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Clean drinking water for Peshawar,  without scientific survey and need assessment not practically possible

Sunday, January 1, 2017

Jan2017: Politics & Tolerance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔ سب کچھ داؤ پر!
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب خیبرپختونخوا کا ’ایبٹ آباد‘ صحت مند آب و ہوا کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا لیکن آج سطح سمندر سے ’چارہزار ایک سو بیس فٹ‘ بلند بیس لاکھ سے زائد دیہی وشہری علاقوں پر مشتمل یہاں کی آبادی کو جہاں ماحولیاتی عدم توازن کی وجہ سے موسمی تغیرات کا سامنا ہے وہیں قبائلی شناخت‘ لسانی تشخص‘ روایات اور ثقافت کو درپیش چیلنجز یہاں کے فہم و فراست رکھنے والے دانشور طبقات کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ 

مختلف وجوہات کی بناء پر اَیبٹ آباد کے میدانی و پہاڑی علاقوں کی جانب نقل مکانی کے رجحان کی وجہ سے دستیاب وسائل اور شہری و دیہی علاقوں میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ بھی یکساں متاثر دکھائی دیتا ہے۔ اگر درست وقت پر درست ترجیحات کا متعلقہ شعبوں کے تکنیکی ماہرین سے مشاورت کے ذریعے تعین کر لیا جاتا تو آج ایبٹ آباد کے ہر رہنے والے کے لئے ’’کم سے کم‘‘ پینے کا صاف پانی ہی دستیاب ہوتا۔ ماضی میں ایبٹ آباد کو محروم اور یہاں کے رہنے والوں کی سوچ کو اگر محکوم رکھا گیا تو اِس کے درپردہ محرکات سیاسی بھی تھے اور فیصلہ سازوں کے پیش نظر ذاتی مفادات بھی یکساں کارفرما رہے جنہیں دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں شکست دینے کے باوجود ’سیاست برائے ذاتی منفعت‘ کرنے والوں نے تاحال ’’ہار نہیں مانی۔‘‘ سازشی ذہنیت آج بھی وجود رکھتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد میں طرز حکمرانی کی اصلاح اُور بلدیاتی نظام کی فعالیت کے خلاف جاری سازشیں کسی سے ڈھکا چھپا موضوع نہیں! اَیبٹ آباد کے لئے ’سال دوہزار سولہ‘ کسی سے بھی طرح ماضی سے مختلف نہیں رہا اُور اِس دوران ضلع بھر میں اِنتظامی اِصلاحات اُور ترقیاتی اَمور کی راہ میں رکاوٹیں ’بدستور‘ حائل رہیں لیکن ہجری سال کا میزانیہ جاتے جاتے ایک ایسی بدمزگی چھوڑ گیا‘ جس کی ایبٹ آباد کی تاریخ و ثقافت اور ادب و احترام سے جڑی سیاسی روایات سے مطابقت نہیں رکھتی۔



اُنتیس دسمبر کی صبح ’صحت انصاف کارڈ‘ کی تقسیم کے موقع پر ’جلال بابا آڈیٹوریم‘ مدعو کئے گئے خاص مہمانوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیرصحت‘ صوبائی وزیر خوراک‘ وزیراعلیٰ کے خصوصی مشیر اُور ایک رکن صوبائی اسمبلی کے شانہ بشانہ رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کے علاؤہ محکمۂ صحت و انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکار تشریف فرما تھے‘ جن کی حفاظت کے لئے سفید کپڑوں میں ملبوس اسٹیج کے اطراف میں یقیناًموجود ہوں گے۔ 

تقریب کی باقاعدہ کاروائی شروع ہوئے ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک نوجوان خراما خراما اسٹیج پر بیٹھے رکن قومی اسمبلی کے پاس پہنچتا ہے اور پشت سے حملہ کرکے اُنہیں زدوکوب کرنے کی کوشش میں بدتہذیبی کی انتہاء کرتے ہوئے باآواز بلند ایسے الفاظ سے اُنہیں مخاطب کرتا ہے جو بھری تقریب تو کیا تنہائی میں بھی بات چیت کے دوران کسی معزز و بزرگ شخص کے لئے استعمال نہیں کئے جا سکتے۔ 

یہ منظر نہایت ہی اَفسوسناک تھا‘ جسے تقریب میں موجود خواتین اُور بچوں سمیت چھ سو سے زائد افراد نے دیکھا اُور سر جھکا لئے! 

اَیبٹ آباد کی سیاست میں اِس قدر ’عدم برداشت کا عنصر‘ اُور ’خاندانی جھگڑوں‘ کی بنیاد پر سرعام لعن طعن کے پے در پے واقعات اَگر جاری رہتے ہیں تو پھر کوئی بھی سر اُور کوئی بھی پگڑی محفوظ نہیں رہے گی! ڈاکٹر اظہر پر ہوئے حملے کی تفتیش کئی پہلوؤں سے ہونی چاہئے تھی۔ 1: تقریب کے لئے حفاظتی انتظامات ناکافی کیوں تھے اور غفلت کے ذمے داروں کا تعین ہونا چاہئے۔ 2: حملہ آور اگر مسلح یا خودکش ہوتا تو بیک وقت خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پانچ اراکین اسمبلی کو جانی نقصان پہنچا سکتا تھا‘ اِس لئے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے پس پردہ کرداروں کو منظرعام پر لایا جائے۔ 3: رکن قومی اسمبلی پر حملہ جس خاندانی جھگڑے کو بظاہر بنیاد بنا کر کیا گیا‘ اُس کا تصفیہ اور صلح صفائی علاقائی روایات کے مطابق بذریعہ جرگہ (بات چیت) ہونا ضروری ہے کیونکہ کوئی تیسرا فریق خاندانی جھگڑے کی آڑ میں فائدہ اُٹھانے کی باردیگر کوشش کر سکتا ہے۔ 4: خیبرپختونخوا میں محکمۂ پولیس کو ’غیرسیاسی‘ کرنے کے عمل کو ’تحریک انصاف‘ کی کمزوری نہیں بلکہ اِس کی طاقت سمجھا جانا چاہئے۔ ماضی میں اگر کسی ’رکن قومی اسمبلی‘ پر حملہ صوبائی وزراء کی موجودگی میں ہوتا تو حملہ آور اُور اُس کے سہولت کاروں کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا اُور ساتھ ہی ضلعی پولیس میں بڑے پیمانے پر تبادلے ہو چکے ہوتے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر‘ ڈی آئی جی‘ ڈی ایس پی‘ ایس ایچ اُوز لائن حاضر اور ضلع بدر ہو چکے ہوتے لیکن یہاں اگر ایسا نہیں ہوا تو پولیس حکام کو اپنے اختیارات‘ حاصل آزادی اور کارکردگی کا ازخود احتساب کرنا چاہئے۔ پشاور میں بیٹھے پولیس کے اعلیٰ حکام کو ڈاکٹر اظہر جدون پر حملے میں نچلے درجے کے پولیس اہلکاروں کے ’منفی کردار‘ پر غور کرنا چاہئے‘ جو صرف قابل افسوس و مذمت ہی نہیں بلکہ لمحۂ فکریہ بھی ہے کیونکہ ’پولیس کے اختیارات میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر خاص و عام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اُور دوئم پولیس بناء دباؤ قانون کی بالادستی عملاً ممکن بنائے۔ کیا ایسا ہی ہو رہا ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی کو اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومت کے دور میں اِنصاف مل پاتا ہے یا نہیں!؟ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اِن دنوں بیرون ملک دورے پر ہیں‘ جن کی واپسی پر توقع ہے کہ وہ پہلی فرصت سے بھی پہلے ’ڈاکٹر اظہر جدون‘ پر ہوئے حملے اور اِس سلسلے میں پولیس کی ’جانبدار تفتیشی کارکردگی‘ کا نوٹس لیں گے کیونکہ اِس سے نہ صرف پارٹی کارکنوں میں ’بے چینی و تشویش‘ پائی جاتی ہے بلکہ ضلع ایبٹ آباد میں تحریک اِنصاف کی سیاسی ساکھ‘ سماجی اَدب و اِحترام پر مبنی ثقافت‘ جدون اُور غیرجدون قبائل (جنبوں) کا باہمی تعلق و سلوک اُور سیاسی برداشت جیسے اثاثے بھی داؤ پر لگے ہوئے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔