ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سانس سانس جدوجہد!
سانس سانس جدوجہد!
پاکستان کے وزیر خزانہ ’قومی بجٹ‘ پیش کرنے کے بعد برطانیہ تشریف لے گئے
ہیں اُن کے دورے کا مقصد ’سرکاری زبان میں‘ روبہ صحت ہوتے اپنے رشتہ دار
وزیراعظم کی عیادت‘ تیمارداروں کا حوصلہ بڑھانا اُور وزیر اعظم کو پیش کردہ
’قومی بجٹ برائے مالی سال 2016-17ء‘ سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرنا بتایا
گیا ہے حالانکہ بجٹ پیش ہونے سے قبل وزیراعظم بذریعہ ’ویڈیو لنک‘ کابینہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کی منظوری دے چکے ہیں اور قومی اسمبلی میں پیش
کی گئی بجٹ دستاویز کی نقل (ہارڈ کاپی) بھی انہیں پیشگی ہی برطانیہ میں
فراہم کردی گئی تھی۔ اصولی طورپر حکومت کے جملہ وزرأ بشمول وزیر خزانہ کو
’قومی اسمبلی‘ میں جاری بجٹ پر بحث کے موقع پر موجود ہونا چاہئے تاکہ حزب
اختلاف کی جانب سے آنے والی بجٹ تجاویز پر سنجیدگی سے غور ہو سکے لیکن
صورتحال یہ ہے کہ نہ تو اپوزیشن کے تمام اراکین قومی اسمبلی میں جاری بجٹ
بحث کا حصّہ بن رہے ہیں اور نہ ہی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو فرصت ہے کہ
وہ ماہ رمضان کی مبارک ساعتیں ایک ایسے اہم قومی معاملے پر سوچ بچار کرنے
پر خرچ کریں جس کام کے لئے اُنہیں منتخب کیا جاتا ہے اور پھر سیاست جیسے
قومی مفاد والے کام کی وہ باقاعدگی سے ماہانہ تنخواہ و مراعات وصول کرتے
ہیں جس میں ’نیلے رنگ والا (بلیو) سرکاری پاسپورٹ‘ بھی شامل ہے‘ جس کا
استعمال کرتے ہوئے وہ جب چاہیں دنیا بھر میں بناء ویزے سفر کرسکتے ہیں۔
ائرپورٹس پر بنے ہوئے ’وی وی آئی پیز لاونجز‘ کے ذریعے لائے گئے سامان کی
بناء جانچ پڑتال آمدورفت کر سکتے ہیں۔ اُن کی خدمت کے لئے ’پروٹوکول کا
عملہ‘ ہر وقت حاضر رہتا ہے تاکہ کسی بھی صورت ’کانچ سے نازک‘ استحقاق مجروع
نہ ہونے پائے۔ ایک طرف مراعات یافتہ طبقات ہیں جن کے سرکاری وسائل پر
اختیارات کا شمار ممکن نہیں اور دوسری جانب ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کہ جن کے
مسائل ہر گزرتے ’بجٹ‘ کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ تصور کیجئے کہ یہ
منظرنامہ اُس پاکستان کا ہے جس میں طرزحکمرانی شاہانہ ہے جبکہ 60فیصد سے
زائد آبادی خط غربت سے نیچے جبکہ دیگر 20 سے 25فیصد محنت کش متوسط (سفید
پوش) طبقے سے تعلق رکھتی ہے‘ جن کی معیشت و معاشرت اپنی بقاء کے لئے سانس
سانس جدوجہد کر رہی ہے!
وفاقی حکومت سے خیر کی توقع رکھنے والے طبقات سراپا احتجاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجٹ پر نظرثانی کے مراحل میں عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی آسان بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کم آمدنی والے طبقات سے بالواسطہ اور بلاواسطہ وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرح کم کی جائے اُور شاہانہ زندگی بسر کرنے والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں۔ اِس سلسلے میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین (پینشنرز) کی جانب سے 4 بنیادی مطالبات سامنے آئے ہیں۔ 1: پینشن میں 10فیصد ناکافی ہے‘ جسے میں کم از کم دگنا کیا جائے۔ 2: صحت کی مد میں پینشن حاصل کرنے والوں کو علاج معالجے پر بھاری اخراجات ادا کرنا پڑتے ہیں جنہیں مہنگائی کے تناسب سے اضافی میڈیکل الاؤنس اور نجی علاج گاہوں سے علاج معالجے کی سہولت دی جائے۔ 3: پینشنرز کو بجلی و گیس و دیگر یوٹیلٹی بلز میں ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 4: حکومت کی جانب سے 80سال کے پینشنروں کے لئے مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی مدت کم کرکے 70سال اور پینشن و میڈیکل کی شرح میں 25فیصد اضافہ کیا جائے۔
وفاقی بجٹ سے وابستہ ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے صنعتی محنت کشوں کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں اُور اب اُن کی نظریں خیبرپختونخوا حکومت پر مرکوز ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سال دوہزار میں صوبائی حکومت کی زیرنگرانی ’ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن‘ کے تحت چالیس تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جن سے 33 ہزار طلباء و طالبات اور چار ہزار سے زائد تدریسی و معاون عملہ کا مستقبل وابستہ ہے لیکن ’ورکرز ویلفئیر بورڈ‘ کی مالی امداد وفاق اور صوبے کے درمیان تنازعے کی وجہ سے بند ہے‘ جس کی وجہ سے وابستہ ملازمین کو گذشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں مل پا رہیں! ورکرز ویلفئیر بورڈ خیبر پختونخوا کے ملازمین کی سالانہ تنخواہوں کے لئے 1 ارب 70 کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں جس میں وفاقی حکومت نے 70 کروڑ روپے کم کر دیئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی صورتحال یہ ہے کہ 1 ارب روپے آٹھ ماہ میں ختم (استعمال) ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ گذشتہ تین برس سے حل طلب ہے۔ رواں برس بھی ماہ فروری سے مئی کی تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے ملازمین پر جو معاشی قیامت گزر رہی ہے‘ اُس دکھ اُور اَذیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اُور وزیر اعلیٰ پرویز خان خٹک نے بنی گالہ میں ورکرز ویلفیئر بورڈ ملازمین کا احتجاج ختم کراتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ماہانہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور ’’نیا ورکرز ویلفئیر بورڈ‘‘ بنانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں گے اُور اِن وعدوں کو آئندہ چند روز میں پیش ہونے والے صوبائی بجٹ میں باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔
وفاقی حکومت سے خیر کی توقع رکھنے والے طبقات سراپا احتجاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجٹ پر نظرثانی کے مراحل میں عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی آسان بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کم آمدنی والے طبقات سے بالواسطہ اور بلاواسطہ وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرح کم کی جائے اُور شاہانہ زندگی بسر کرنے والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں۔ اِس سلسلے میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین (پینشنرز) کی جانب سے 4 بنیادی مطالبات سامنے آئے ہیں۔ 1: پینشن میں 10فیصد ناکافی ہے‘ جسے میں کم از کم دگنا کیا جائے۔ 2: صحت کی مد میں پینشن حاصل کرنے والوں کو علاج معالجے پر بھاری اخراجات ادا کرنا پڑتے ہیں جنہیں مہنگائی کے تناسب سے اضافی میڈیکل الاؤنس اور نجی علاج گاہوں سے علاج معالجے کی سہولت دی جائے۔ 3: پینشنرز کو بجلی و گیس و دیگر یوٹیلٹی بلز میں ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 4: حکومت کی جانب سے 80سال کے پینشنروں کے لئے مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی مدت کم کرکے 70سال اور پینشن و میڈیکل کی شرح میں 25فیصد اضافہ کیا جائے۔
وفاقی بجٹ سے وابستہ ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے صنعتی محنت کشوں کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں اُور اب اُن کی نظریں خیبرپختونخوا حکومت پر مرکوز ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سال دوہزار میں صوبائی حکومت کی زیرنگرانی ’ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن‘ کے تحت چالیس تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جن سے 33 ہزار طلباء و طالبات اور چار ہزار سے زائد تدریسی و معاون عملہ کا مستقبل وابستہ ہے لیکن ’ورکرز ویلفئیر بورڈ‘ کی مالی امداد وفاق اور صوبے کے درمیان تنازعے کی وجہ سے بند ہے‘ جس کی وجہ سے وابستہ ملازمین کو گذشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں مل پا رہیں! ورکرز ویلفئیر بورڈ خیبر پختونخوا کے ملازمین کی سالانہ تنخواہوں کے لئے 1 ارب 70 کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں جس میں وفاقی حکومت نے 70 کروڑ روپے کم کر دیئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی صورتحال یہ ہے کہ 1 ارب روپے آٹھ ماہ میں ختم (استعمال) ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ گذشتہ تین برس سے حل طلب ہے۔ رواں برس بھی ماہ فروری سے مئی کی تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے ملازمین پر جو معاشی قیامت گزر رہی ہے‘ اُس دکھ اُور اَذیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اُور وزیر اعلیٰ پرویز خان خٹک نے بنی گالہ میں ورکرز ویلفیئر بورڈ ملازمین کا احتجاج ختم کراتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ماہانہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور ’’نیا ورکرز ویلفئیر بورڈ‘‘ بنانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں گے اُور اِن وعدوں کو آئندہ چند روز میں پیش ہونے والے صوبائی بجٹ میں باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔
Issues of Pensioners & Worker Welfare Board having expectations from Provincial Budget |