Monday, June 13, 2016

Jun2016: Expectations of Pesnioners & Worker Welfare Board

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سانس سانس جدوجہد!
پاکستان کے وزیر خزانہ ’قومی بجٹ‘ پیش کرنے کے بعد برطانیہ تشریف لے گئے ہیں اُن کے دورے کا مقصد ’سرکاری زبان میں‘ روبہ صحت ہوتے اپنے رشتہ دار وزیراعظم کی عیادت‘ تیمارداروں کا حوصلہ بڑھانا اُور وزیر اعظم کو پیش کردہ ’قومی بجٹ برائے مالی سال 2016-17ء‘ سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرنا بتایا گیا ہے حالانکہ بجٹ پیش ہونے سے قبل وزیراعظم بذریعہ ’ویڈیو لنک‘ کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کی منظوری دے چکے ہیں اور قومی اسمبلی میں پیش کی گئی بجٹ دستاویز کی نقل (ہارڈ کاپی) بھی انہیں پیشگی ہی برطانیہ میں فراہم کردی گئی تھی۔ اصولی طورپر حکومت کے جملہ وزرأ بشمول وزیر خزانہ کو ’قومی اسمبلی‘ میں جاری بجٹ پر بحث کے موقع پر موجود ہونا چاہئے تاکہ حزب اختلاف کی جانب سے آنے والی بجٹ تجاویز پر سنجیدگی سے غور ہو سکے لیکن صورتحال یہ ہے کہ نہ تو اپوزیشن کے تمام اراکین قومی اسمبلی میں جاری بجٹ بحث کا حصّہ بن رہے ہیں اور نہ ہی حکومت کی حمایت کرنے والوں کو فرصت ہے کہ وہ ماہ رمضان کی مبارک ساعتیں ایک ایسے اہم قومی معاملے پر سوچ بچار کرنے پر خرچ کریں جس کام کے لئے اُنہیں منتخب کیا جاتا ہے اور پھر سیاست جیسے قومی مفاد والے کام کی وہ باقاعدگی سے ماہانہ تنخواہ و مراعات وصول کرتے ہیں جس میں ’نیلے رنگ والا (بلیو) سرکاری پاسپورٹ‘ بھی شامل ہے‘ جس کا استعمال کرتے ہوئے وہ جب چاہیں دنیا بھر میں بناء ویزے سفر کرسکتے ہیں۔ ائرپورٹس پر بنے ہوئے ’وی وی آئی پیز لاونجز‘ کے ذریعے لائے گئے سامان کی بناء جانچ پڑتال آمدورفت کر سکتے ہیں۔ اُن کی خدمت کے لئے ’پروٹوکول کا عملہ‘ ہر وقت حاضر رہتا ہے تاکہ کسی بھی صورت ’کانچ سے نازک‘ استحقاق مجروع نہ ہونے پائے۔ ایک طرف مراعات یافتہ طبقات ہیں جن کے سرکاری وسائل پر اختیارات کا شمار ممکن نہیں اور دوسری جانب ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کہ جن کے مسائل ہر گزرتے ’بجٹ‘ کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ تصور کیجئے کہ یہ منظرنامہ اُس پاکستان کا ہے جس میں طرزحکمرانی شاہانہ ہے جبکہ 60فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے جبکہ دیگر 20 سے 25فیصد محنت کش متوسط (سفید پوش) طبقے سے تعلق رکھتی ہے‘ جن کی معیشت و معاشرت اپنی بقاء کے لئے سانس سانس جدوجہد کر رہی ہے!

وفاقی حکومت سے خیر کی توقع رکھنے والے طبقات سراپا احتجاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجٹ پر نظرثانی کے مراحل میں عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی آسان بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ کم آمدنی والے طبقات سے بالواسطہ اور بلاواسطہ وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرح کم کی جائے اُور شاہانہ زندگی بسر کرنے والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کئے جائیں۔ اِس سلسلے میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین (پینشنرز) کی جانب سے 4 بنیادی مطالبات سامنے آئے ہیں۔ 1: پینشن میں 10فیصد ناکافی ہے‘ جسے میں کم از کم دگنا کیا جائے۔ 2: صحت کی مد میں پینشن حاصل کرنے والوں کو علاج معالجے پر بھاری اخراجات ادا کرنا پڑتے ہیں جنہیں مہنگائی کے تناسب سے اضافی میڈیکل الاؤنس اور نجی علاج گاہوں سے علاج معالجے کی سہولت دی جائے۔ 3: پینشنرز کو بجلی و گیس و دیگر یوٹیلٹی بلز میں ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ 4: حکومت کی جانب سے 80سال کے پینشنروں کے لئے مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے جس کی مدت کم کرکے 70سال اور پینشن و میڈیکل کی شرح میں 25فیصد اضافہ کیا جائے۔

وفاقی بجٹ سے وابستہ ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے صنعتی محنت کشوں کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں اُور اب اُن کی نظریں خیبرپختونخوا حکومت پر مرکوز ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ سال دوہزار میں صوبائی حکومت کی زیرنگرانی ’ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن‘ کے تحت چالیس تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جن سے 33 ہزار طلباء و طالبات اور چار ہزار سے زائد تدریسی و معاون عملہ کا مستقبل وابستہ ہے لیکن ’ورکرز ویلفئیر بورڈ‘ کی مالی امداد وفاق اور صوبے کے درمیان تنازعے کی وجہ سے بند ہے‘ جس کی وجہ سے وابستہ ملازمین کو گذشتہ چار ماہ سے تنخواہیں نہیں مل پا رہیں! ورکرز ویلفئیر بورڈ خیبر پختونخوا کے ملازمین کی سالانہ تنخواہوں کے لئے 1 ارب 70 کروڑ روپے درکار ہوتے ہیں جس میں وفاقی حکومت نے 70 کروڑ روپے کم کر دیئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی صورتحال یہ ہے کہ 1 ارب روپے آٹھ ماہ میں ختم (استعمال) ہو جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ گذشتہ تین برس سے حل طلب ہے۔ رواں برس بھی ماہ فروری سے مئی کی تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ’ورکرز ویلفیئر بورڈ‘ کے ملازمین پر جو معاشی قیامت گزر رہی ہے‘ اُس دکھ اُور اَذیت کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اُور وزیر اعلیٰ پرویز خان خٹک نے بنی گالہ میں ورکرز ویلفیئر بورڈ ملازمین کا احتجاج ختم کراتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ماہانہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور ’’نیا ورکرز ویلفئیر بورڈ‘‘ بنانے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کئے جائیں گے اُور اِن وعدوں کو آئندہ چند روز میں پیش ہونے والے صوبائی بجٹ میں باآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔
Issues of Pensioners & Worker Welfare Board having expectations from Provincial Budget

Sunday, June 12, 2016

Jun2016: Resources for few!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِستحقاق: احساس محرومی اُور دُکھ!
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شریں مزاری کی تسلی و تشفی نہیں ہو رہی جبکہ اُن کی ذات کو نشانہ بنانے والے توہین آمیز جملوں کو نہ صرف قومی اسمبلی کی کاروائی (ریکارڈ) سے نکال دیا گیا ہے بلکہ اِنتہائی اَہم وفاقی بجٹ اِجلاس میں سپیکر کے نام لکھے خواجہ آصف نے تحریری بیان میں ’غیرمشروط‘ معافی مانگتے ہوئے طویل سیاسی سفر کا حوالہ بھی دیا ہے اور جاتے جاتے یہ بھی کہا ہے کہ ’’تقریر کے دوران لقمہ دینے والوں کو جواب دیا‘ تو یہ غلطی میں شمار نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اِس عمومی منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا استحقاق صرف اراکین اسمبلیوں ہی کے مجروح ہوتے ہیں؟ کیا تعلیم و صحت اُور بنیادی سہولیات بشمول ’’پینے کے پانی‘‘ سے محروم لوگوں کے مسائل کی وجہ بننے والے سرکاری اِداروں کی ناقص کارکردگی توجہ نہیں چاہتی؟

ایبٹ آباد کی یونین کونسل میرپور میں ’آفیسرز کالونی‘ کے علاقے کی وجۂ شہرت سرکاری ملازمین کی ایک رہائشی بستی ہے جس میں مکانات کی تعداد کم وبیش 50 اُور اگر رہائشیوں بشمول ڈرائیورز‘ گھریلو ملازمین و سیکورٹی گارڈز کو بھی شمار کر لیا جائے تو اِس چاردیواری کے اندر رہنے والوں کی کل تعداد کسی بھی طرح 500 افراد سے زیادہ نہیں جن کے لئے پانی کی فراہمی کے لئے ساڑھے چھ سو فٹ گہرے کنویں پر ’’10ہارس پاور‘‘ کی ٹیوب ویل مشین نصب ہے‘ اور اگر اِس مشین سے پانی کے اخراج کی صلاحیت پر بھروسہ کیا جائے تو یہ یومیہ 5سے 6ہزار افراد کی ضروریات (آبنوشی) کے لئے کافی ہے لیکن کیا عجب کہ جون کے اختتام کے قریب ’پانی کی ایسی مصنوعی قلت‘ پیدا کر دی گئی ہو‘ جس کا حل کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑیں۔ موجودہ کنویں میں پانی کی سطح اِس حد تک کم ہو گئی ہے کہ چند گھنٹے چلنے کے بعد مشین کو پانی ہی میسر نہیں ہوتا کہ وہ دے سکے! یہی سبب ہے کہ پچاس گھروں کی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں تھیں تو ایک وفد کی صورت اعلیٰ عہدوں پر فائز مذکورہ کالونی کے رہائشی سرکاری ملازمین متعلقہ ’سی اینڈ ڈبلیو‘ اور ’کمشنر‘ کے دفتر جا پہنچے تاکہ 1: ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کی نگرانی چلنے والے اِس ٹیوب ویل پر نصب موٹر کی طاقت ’دس ہارس پاور‘ سے بڑھائی جائے لیکن اگر زیرزمین پانی کی سطح کم ہونے کا مسئلہ ہے تو ایک عدد نیا ٹیوب ویل کھودا جائے‘ نیا ترسیلی نظام بنایا جائے‘ جس پر لاگت کا تخمینہ کم سے کم بیس سے پچیس لاکھ روپے ہوگا۔ 2: مذکورہ ٹیوب ویل سے سرکاری ملازمین کے بغیر جو مقامی افراد پانی حاصل کر رہے ہیں اُن کے کنکشن کاٹ دیئے جائیں کیونکہ وہ اِس بات کا استحقاق ہی نہیں رکھتے کہ سرکاری ٹیوب ویل سے پانی حاصل کریں! چونکہ بات سرکاری ملازمین کے مفاد کی ہو رہی تھی تو بناء تحقیق حکمنامے کے ذریعے آفیسرز کالونی کی چاردیواری سے متصل انگلیوں پر شمار ہونے والے چند مقامی افراد کو پینے کے پانی کی فراہمی کا سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ اگر ’کمشنر ایبٹ آباد‘ انصاف کے تقاضے پورے کرتے‘ اگر متعلقہ تھانے کے نگران پانی کا تقاضا کرنے والوں سے بل ادا کرنے کی رسیدیں اور اُن سے تحریری شکایت درج کرانے کا مطالبہ کرنے کے علاؤہ معاملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے تشریف لے جاتے تو اُنہیں درج ذیل حقائق سے آگہی ہوتی۔ 1: آفیسرز کالونی سے ملحقہ ’مقامی (لوکل) آبادی‘ میں پینے کے صاف پانی کی قلت اِس بستی کے آباد ہونے سے موجود ہے لیکن پورے علاقے بشمول کالونی کو پانی کی فراہمی کی بجائے حکومتی وسائل ایک کالونی کے اندر چند درجن گھروں پر خرچ کر دیئے گئے جبکہ یہی پیسہ اور یہی ایک ٹیوب ویل پورے علاقے کی ضروریات کے لئے بھی کافی ہو سکتا تھا۔

2: مالی وسائل رکھنے والوں نے جن مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں میں کنویں کھود رکھے ہیں‘ ان کے لئے ’بورنگ‘ سے حاصل ہونے والا پانی انسانی استعمال کے لئے مناسب نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ 200فٹ گہرائی سے حاصل کیا جانے والا پانی ’’بدذائقہ اُور بو‘‘ جیسا مزاج رکھتا ہے۔

3: آفیسرز کالونی سے ملحقہ ایک درجن میں سے صرف دو گلیوں کی کل آبادی بشمول کالونی کی چاردیواری میں اندر رہنے والوں کا شمار کسی بھی طرح ایک ہزار افراد سے کم ہے جبکہ ٹیوب ویل اگر اپنی ایک تہائی استعداد کے مطابق 2 ہزار افراد کی یومیہ ضروریات کی کفالت کر سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹے یا سات دن میں کسی ایک دن پانی اُن لوگوں کو بھی دیا جائے تو سرکاری کالونی کی چاردیواری کے اردگرد پیاسے ہیں اور اپنی ضروریات کے لئے پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں!؟ کیا سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات اُن عوام کے پیسے سے نہیں مل رہیں‘ جن پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا؟

4: سرکاری ٹیوب ویل کے استعمال پر خرچ ہونے والی بجلی اُور ٹیوب ویل کی دیکھ بھال (آن آف) کرنے کے لئے دو نگران بھی چوبیس گھنٹے مقرر ہیں‘ جسے کالونی کے اندر ہی وسیع و عریض رہائش اور سہولیات دی گئیں ہیں لیکن وہ کسی بھی مکین سے پانی کا بل وصول کرنے کا اختیار یا ذمہ داری نہیں رکھتے۔ سالہا سال سے بناء پانی کا بل اَدا کئے پانی استعمال کرنے والے اعلیٰ و اَدنی سرکاری ملازمین نے اِس بات کو اپنا ’استحقاق‘ سمجھ لیا ہے کہ وہ بناء قیمت ادا کئے جتنا چاہے پانی استعمال کریں چاہے وہ کھیتی باڑی کے لئے ہو‘ باغ باغیچوں کو تروتازہ رکھنے کے لئے ہو‘ گاڑیاں اور پالتو جانوروں کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ہو یا پھر گھربار کی جملہ ضروریات اور صفائی ستھرائی کے لئے جس قدر چاہیں پانی استعمال کریں لیکن اِس پانی کی ایک بوند بھی چاردیواری کے باہر کسی کو نہیں ملنی چاہئے۔ مذکورہ کالونی میں ایسے سرکاری ملازمین بھی اپنے سیاسی اثرورسوخ سے رہائش پذیر ہیں جنہیں گھر خالی کرنے کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں لیکن کوئی اُن کی طرف نہیں دیکھ سکتا! (جس کی لاٹھی اُس کی بھینس)

5: استحقاق سے محروم ’آفیسرز کالونی‘ سے ملحقہ آبادی کے رہنے والوں کے لئے یہ منظر انوکھا (سرپرائز) نہیں کہ سرکاری نمبر پلیٹ والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں بڑے بڑے ڈرموں (برتنوں) کے ذریعے چشموں سے پانی لایا جاتا ہے کیونکہ سرکاری آفیسر وہ پانی پینے کے لئے استعمال میں نہیں لاتے جو مذکورہ ٹیوب ویل سے ایک بالائی پانی کے ٹینک میں ذخیرہ کرکے ہمہ وقت فراہم کیا جاتا ہے اور گذشتہ دو دہائیوں سے زائد تعمیر ہونے والے اِس پانی کی ٹینکی کی صفائی کب سے نہیں ہوئی‘ کوئی نہیں جانتا کیونکہ کائی (فنگس) ملے محلول کی بوند بوند کو ترسنے والوں کے لئے یہی پانی کسی نعمت سے کم نہیں اور (الاماشاء اللہ) یہ نعمت (متروکہ) بھی چھین لی گئی ہے!

6: کمشنر ’صاحب بہادر‘ کو تحقیقات کی صورت یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی کہ جو پانی اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کے پالتو جانوروں کو پینے کے لئے نہیں دیا جاتا اُسی پر گزر بسر کرنے والے چند گھرانے ماہ رمضان المبارک میں کس عذاب سے گزر رہے ہیں اور کیا ملحقہ لوکل آبادی کے جن گھروں کو سرکاری پانی میسر تھا‘ اُن کے گھروں میں گاڑیاں‘ باغ باغیچے‘ کھیت یا پالتو جانور ہیں جن کی ضروریات پر اچانک اتنا بے تحاشہ پانی خرچ (ضائع) ہونے لگا ہے کہ قلت ہی پیدا ہو گئی ہے!

7: خاکم بدہن کہانی کا ’حیران کن‘ پہلو یہ بھی ہے کہ ماہ جون کے اِختتام سے قبل سرکاری اِداروں کے نگرانوں کو فکر کھا جاتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے حصّے کا ’باقی ماندہ‘ بجٹ یہاں وہاں خرچ کریں! اور اِس سے زیادہ منطقی بات اُور کیا ہوسکتی ہے کہ پینے کے پانی کی قلت دور کر دی جائے۔ اگر کمشنر صاحب زحمت کرتے اُور ’پانی کی مصنوعی قلت‘ کے اسباب و وجوہات کی تہہ میں جاتے تو دیگر اسباب کے ساتھ یہ بات بھی عیاں ہو جاتی کہ کس طرح چند فیصلہ سازوں کو اپنا مالی مفاد عزیز ہے اور وہ سرکاری وسائل پر اپنے صوابدیدی و غیرصوابدیدی اختیارات کا استعمال کتنی ’بے رحمی‘ سے بلاتھکان کر رہے ہیں!‘‘
Water shortage in Officers' colony and role of govt officials & departments

Sunday, June 5, 2016

Jun2016: Poverty Defination need to be review!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خط غربت؟
عالمی سطح پر غربت کے کا تعین کرنے کے لئے بنایا گیا پیمانہ ’کم سے کم آمدنی‘ کی بنیاد پر یہ وضع کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کسی بھی شخص کی آمدنی اگر ایک مقررہ حد سے کم ہے تو وہ ’’غریب‘‘ کہلائے گا۔ اکتوبر 2015ء میں ’عالمی بینک‘ نے یومیہ آمدنی کی کم سے کم حد 1.90 ڈالر کی تھی جو سال 2005ء سے قبل ایک ڈالر بعدازاں 1.25 ڈالر یومیہ مقرر کی گئی۔ دنیا بھر کے ماہرین اِقتصادیات کم یا زیادہ اختلاف کے ساتھ ’خط غربت‘کے پیمانے سے اتفاق کرتے ہیں جو کسی فرد واحد کی ’قوت خرید‘ کی عکاسی تو کرتا ہے لیکن کیا یہ پیمانہ پاکستان جیسے ملک میں غربت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے؟

خط غربت کے موجودہ عالمی پیمانے کو اگر پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ ’’199 روپے 3 پیسے‘‘ بنتے ہیں یعنی ہر وہ پاکستانی ’’غریب‘‘ ہے جو یومیہ کم و بیش 200 روپے کما رہا ہے اور اِس حساب سے 6ہزار روپے سے کم آمدنی والا غریب کہلائے گا جو سراسر غلط اور پاکستانی معاشرے کے حساب سے بے بنیاد تصور ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کا قومی یا صوبائی بجٹ تشکیل دیتے وقت بھی غریبوں کا شمار اِسی ’خط غربت‘ پر کیا جاتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک شخص کو اُس کے خاندان کی کفالت کے لحاظ سے شمار کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم پاکستان میں کم سے کم مقررہ تنخواہ کہ جسے تین جون کو پیش کئے گئے بجٹ میں ایک ہزار روپے بڑھا کر چودہ ہزار کر دیا گیا ہے اور درحقیقت یہی ’خط غربت‘ ہے!

حکومت کی جانب سے مقرر کی جانے والی کم سے کم تنخواہ کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کی ادائیگی کے لئے حکومت (اپنے ہی حکم پر عمل درآمد) سختی سے نہیں کراتی۔ ایسے نجی اِداروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے کم سے کم تنخواہ کے مطابق ماہانہ ادائیگیاں نہیں کرتے۔ بھلا حکومت ایسے دلاسے دیتی ہی کیوں ہے جبکہ مزدوروں بالخصوص دیہاڑی (یومیہ محنت مزدوری) کرنے والوں کو کم سے کم چودہ یا پندرہ ہزار روپے ماہانہ اُجرت نہیں دلا سکتی!؟
خط غربت میں کمی اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوگی جب تک اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوتے اُور اُس وقت تک طرزحکمرانی پر اُٹھنے والے غیرترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی جب تک کہ آمدن میں اضافہ نہ ہو۔ اقتصادی سروے رپورٹ 2015-16ء کے مطابق کپاس کی فصل خراب ہونے سے رواں مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کا مقررہ ہدف حاصل نہیں ہوسکا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع ہے کہ حکومت اپنے بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اقتصادی سروے اور بجٹ کی روشنی میں سامنے آنے والی صورتحال کسی طرح خوش کن اور اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی ترقی اور صنعت کا پہیہ بنیادی طور پر زرعی سیکٹر سے جڑا ہوا ہے جو بدقسمتی سے شروع دن سے حکومت کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار ہے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ زراعت سے وابستہ روزگار کا تناسب 80فیصد سے زیادہ ہے لیکن اِس شعبے پر ’حکومتی نظرکرم‘ خاطرخواہ نہیں۔ بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ نے کھاد کی بوری کی قیمت کم کرنے کا اعلان کیا تو اُن کی اطلاع کے لئے عرض میں پاکستان میں کھاد کی جو بوری رعایت کے بعد 1400 روپے میں بطور خاص عنایت دی جارہی وہی بھارت میں 700 روپے فی بوری ہے اور اگر کرنسی کا فرق نکال دیا جائے تو بھارت میں کھاد کی ایک بوری 900 روپے جبکہ پاکستان میں اگر 1400 روپے ہوگی تو اِس میں کمال ہی کیا ہے؟ رواں مالی سال میں زرعی سیکٹر میں ترقی کی منفی 0.19فیصد شرح ہے جو گزشتہ پچیس برسوں میں پہلی بار سامنے آئی ہے۔ کپاس‘ چاول] مکئی اور گندم ہماری اہم نقد آور اجناس ہیں ان کی پیداوار میں کمی سے ملکی برآمدات متاثر ہوتی ہیں اور اب تو یہ بات خود حکومت بھی تسلیم کر رہی ہے۔ کیا ہم یہ بات بھی فراموش کر دیں کہ ’خط غربت‘ سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی اکثریت اُن محنت کشوں کی ہے جو کسی نہ کسی ذریعے زراعت سے وابستہ ہیں۔

 زرعی سیکٹر پوری طرح فعال ہونا چاہئے۔ کھاد‘ ٹریکٹر‘ پانی‘ تصدیق شدہ اچھے بیج اور دوسری مطلوبہ سہولیات ارزاں نرخوں پر مہیا کرنے کے ساتھ زرعی ماہرین کی رہنمائی فراہم ہونی چاہئے۔ معاشی اہداف کاحصول ممکن بنانے کے لئے بڑے زمینداروں کی آمدن اور چھوٹے کاشتکاروں کو سبسڈی دینا ہوگی۔ زرعی سیکٹر کے علاؤہ جنگلات‘ فشریز‘ لائیو سٹاک بجلی گیس اور تعمیرات کے شعبوں کا احوال بھی ناقابل بیان ہے۔ ہر شعبے میں ترقی اور نمو کی شرح مختلف ہے‘ کہیں کم کہیں زیادہ تاہم اس سے حکومت کی مجموعی کارکردگی پر کوئی اچھا اور مثبت تاثر نہیں اُبھرتا۔ اقتصادی فیصلہ سازوں کو ’خط غربت‘ کے عالمی معیار کا پاکستان پر اطلاق کرتے ہوئے زمینی حقائق اور اُن منفی محرکات پر غور کرنا چاہئے کہ بڑے زمیندار‘ صنعتکار اور تاجروں کی نمائندگی ہر منتخب ایوان میں موجود ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) جو کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 90فیصد سے زیادہ ہیں‘ اُن کی بات کہنے اور اُن کے مفادات کا تحفظ کرنے والا کوئی نہیں! کیا یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ملک کا صدر‘ وزیراعظم اور تمام ججوں کی ماہانہ تنخواہیں ٹیکس سے مستثنیٰ لیکن خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے اگر ایک عدد ماچس بھی خریدیں یا ایک یونٹ بجلی بھی خرچ کریں تو اُنہیں ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ محصولات کی وصولی کے طریقۂ کار (نظام) کو بدلنا ہوگا‘ جس میں زیادہ آمدنی والوں سے کم لیکن کم آمدنی والوں سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے!
Poverty line need to be redefine

TRANSLATION: Life returns to Waziristan

Life returns to Waziristan
وزیرستان: زندگی معمول پر!
جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقے شاکئی‘ شوال اور سپین وام معروف نام ہیں جہاں عسکریت پسندی کو کچلنے کے لئے فوجی کاروائیاں کی گئیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ اِن دور دراز مقامات پر تبدیلی کا نیا دور امن کی بحالی‘ ترقیاتی عمل اور تعمیر نو کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کے ہمراہ اِن مقامات کی سیر کا موقع ملا جس کے لئے فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اِن مقامات پر لیجایا گیا۔ جنوبی وزیرستان میں شاکئی کے مقام پر نئی تعمیر ہونے والی شاہراہ دور دراز کے علاقوں کو ملانے کے علاؤہ تعلیمی اداروں اور تجارتی مراکز کو قریب لے آئی ہے جس سے علاقے میں تعلیم کے فروغ اور تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شمالی وزیرستان کی وادئ شوال اپنے مکینوں کی واپسی کی راہ دیکھ رہی ہے جہاں فوجی کاروائی کے ذریعے علاقے کو عسکریت پسندوں کے وجود سے پاک کر دیا گیا ہے اور اب یہ علاقہ تعمیر وترقی کا دور شروع ہونے کی راہ بھی دیکھ رہا ہے جس کے لئے حکمت عملی کو آخری شکل دے دی گئی ہے۔ اسی طرح شاملی وزیرستان کا علاقہ سپین ورم گرم میدانی علاقے پر مشتمل ہے میں معمولات زندگی معمول پر آ گئے ہیں اور مقامی قبائل کا مطالبہ ہے کہ تعمیراتی ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں اور ان کا مطالبات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بجلی و گیس ککی فراہمی‘ سڑکیں اور ہسپتال تعمیر کئے جائیں۔

شاکئی میں پاک فوج کے 9ویں ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کرنل عامر اور کرنل عمران نے جنوبی وزیرستان میں ترقیاتی عمل کے حوالے سے معلومات فراہم کیں جس کے لئے وفاقی حکومت اور غیرملکی مالی امداد استعمال کی گئی ہے۔ تین قبائلی علاقوں میں تعمیر و ترقی کئی مثالوں سے سمجھی جاسکتی ہے جیسا کہ 335 کلومیٹر طویل سڑک جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ دارالحکومت اسلام آباد کی شاہراؤں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ تین آرمی پبلک سکول کی شاخیں جہاں اُسی معیار کی تعلیم فراہم کی جاتی ہے جیسا کہ ملک کے بڑے شہروں میں ہے۔ وانا اُور سپین کئی راغزئی میں دو کیڈٹ کالجوں اُور فنی وتکنیکی علوم حاصل کرنے کے لئے وکیشنل سنٹرز کے قیام سے قبائلی عوام کو جدید تعلیم و ہنر سیکھنے کے مواقع میسر آ گئے ہیں۔ اسی طرح سرکاری سکول و مساجد کی بحالی بھی کر دی گئی ہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ خریدوفروخت کے مراکز‘ پینے کے صاف پانی کے منصوبے‘ چھوٹے پن بجلی کے منصوبے‘ بچوں کے گیارہ پارک اور ہر تحصیل میں سپورٹس سٹیڈیم (کھیل کود کی سہولیات) فراہم کی گئیں ہیں۔ علاقے میں بجلی کی کمی کا مسئلہ شمسی توانائی کے استعمال سے پورا کیا گیا ہے۔ شولام کے مقام پر متحدہ عرب امارات کے مالی تعاون سے شیخہ فاطمہ بن مبارک ہسپتال قائم کیا گیا ہے جس کا عنقریب افتتاح ہو جائے گا۔ امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ کے مالی تعاون سے گومل زام ڈیم تعمیر کیا گیا ہے جو فعال ہے اور 17.4 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے ایک وسیع علاقے میں آبپاشی کی ضروریات بھی پوری کی جا رہی ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے 71 ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی جن کی اکثریت کا تعلق محسود قبیلے سے تھا اور اِن لوگوں کی مرحلہ وار واپسی کا عمل شروع ہے۔ شمالی وزیرستان کا علاقہ ’سپین وام‘ موسم کے لحاظ سے مختلف مزاج رکھتا ہے۔ جون 2014ء میں یہاں کے رہنے والوں نے فوجی کاروائی ’ضرب عضب‘ کے دوران اپنے علاقوں سے نقل مکانی نہیں کی کیونکہ انہیں ایسا کرنے کو نہیں کہا گیا۔ اس علاقے میں زیادہ نقصانات بھی نہیں ہوئے۔ سپین وام میں آخری دفعہ دہشت گرد حملہ دو ہزار گیارہ میں ہوا تھا و ایک خودکش حملہ تھا اور اس میں ایک فوجی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ بریگیڈئر شازوالحق جنجوعہ کے بقول اُن کی کمانڈ کے علاقے میں قبائلی عوام کی سوچ میں انقلابی تبدیلی آئی ہے اور ایک تو انہوں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے اور دوسرا ’سپین وام‘ میں دو سے تین ہزار اسلحہ بھی رجسٹرڈ کرایا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں اب عسکریت پسندی کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ قبائلی اپنے ہمراہ اسلحہ لیکر نہیں گھومتے جو پہلے مقامی اور غیرملکی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے لیکن اب ترقی کے عمل میں معاون اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ بریگیڈئر شازوالحق جنجوعہ کے بقول سپین وام سے براستہ کاکا زیارت افغانستان کے صوبہ خوست کو پولٹری مصنوعات کی بالخصوص اسمگلنگ میں کمی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ سرحد کو بند کرنا ہے۔ شمالی وزیرستان کے اس علاقے میں مال مویشیوں کی علاج گاہیں تعمیر کی گئیں ہیں جن سے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خوشحالی گاؤں میں گیس کے ذخائر بھی ہیں اور شمالی وزیرستان میں کرومائٹ کی کان کنی اور گیس سے علاقے میں تعمیر وترقی و اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اس سے خوشحالی آ سکتی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو جنوبی وزیرستان میں طالبات کے ایک تعلیمی ادارے بھی لیجایا گیا شاکئی میں ’آرمی پبلک سکول‘ کی معلمہ ملائکہ وزیر نے بطور معلمہ اپنی عملی زندگی کے آغاز کو درست فیصلہ قرار دیا اور وہ ایک معلمہ کا کردار ادا کرنے پر مسرور تھیں۔ وہ اُردو اور پشتو زبانوں میں سوالات کا جواب نہایت ہی اعتماد سے دے رہی تھی۔ انہوں نے طالبات میں پائے جانے والے جوش اور علوم سیکھنے سے متعلق دلچسپی کا بطور خاص ذکر کیا۔ انہوں نے پاک فوج کے کردار کو سراہا جنہوں نے شاکئی میں طلباء و طالبات کے لئے الگ الگ ’آرمی پبلک سکولز‘ کا قیام عمل میں لایا ہے تاکہ اِس دور دراز قبائلی علاقے کے عوام کو بھی معیاری تعلیم حاصل ہو سکے۔ ملائکہ وزیر پہلی جماعت میں زیرتعلیم بچیوں کو درس دیتے ہوئے کبھی اُردو تو کبھی وزیرستانی لہجے میں پشتو زبان کا سہارا لیتیں تاکہ بچوں کو اسباق کا متن منتقل کیا جاسکے۔ دوران درس وہ اُردو اور پشتو میں ملا جلا خطاب کر رہی تھیں کیونکہ بچیوں کی اکثریت اُردو زبان سے آشنا نہیں تھیں۔ ملائکہ وزیر وقتاً فوقتاً انگریزی زبان کے الفاظ بھی استعمال کرتیں۔ اُن کی زیرشفقت طالبات نہایت گرمجوشی سے ہر لفظ کو ادا کرتے ہوئے پڑھائی میں حصّہ لے رہی تھیں اور معلمہ کے الفاظ بلند آواز میں دہراتے ہوئے ثابت کر رہی تھیں کہ اُن کی معلمہ کی محنت رائیگاں نہیں جا رہی۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ و تلخیص : شبیر حسین اِمام)

TRANSLATION: Budget

Budget
بجٹ
یہ ایک معقول بجٹ ہے کیونکہ ہم پوری کی پوری حکومتی مشینری کا جائزہ لیں تو کسی بھی ادارے کی یہ استعداد نہیں رہی کہ وہ اپنی اصلاح کرسکے۔
کسی بھی ملک کا بجٹ دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اُس کی آمدنی اور اُس کے اخراجات کا میزانیہ۔ ہماری ضرورت نہ صرف آمدن کی بلکہ اخراجات کی بھی اصلاح کرنا ہے اور اگر ہم اصلاحات نہیں لاتے تو مسائل و مشکلات اور بحران کم نہیں ہوں گے۔ محاورہ ہے کہ اگر آپ کہیں بھی جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو سفری وسائل کا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ اِس محاورے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا قومی بجٹ حساب کتاب کرنے کی ایک روایت اور اچھی مشق ہے جو ہرسال کی طرح ایک مرتبہ پھر دہرائی گئی ہے۔

بجٹ تیار کرنے کا سہرا ’وزارت خزانہ‘ کو جاتا ہے جنہوں نے آٹھ برس میں بلند ترین قومی پیداوار حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ افراط زر کو دس برس کی کم ترین شرح پر ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بھی ماضی کے مقابلے زیادہ بلکہ ریکارڈ زیادہ ہیں۔ ٹیکس کی وصولی میں بھی بے پناہ کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان گذشتہ چالیس سال میں سب سے کم ترین شرح سود کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کاہدف مسلسل تیسری مرتبہ بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔گذشتہ پچیس برس میں زرعی پیداوار کم ترین سطح پر ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات اور پاکستان میں سرمایہ کاری جیسے اہم شعبوں میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

قومی بجٹ صرف حساب کتاب کی مشق ہی نہیں ہونا چاہئے۔ وزارت خزانہ سمیت دیگر حکومتی اداروں کو بھی نہ صرف پاکستان کی موجودہ بلکہ مستقبل کی ضروریات کا بھی ادراک ہونا چاہئے اور پھر اِنہی ضروریات کے مطابق ایک ایسا بجٹ تشکیل دینا چاہئے جس سے قومی ترقی و بہود کے اہداف حاصل کرنا ممکن ہو سکے۔ ہمارے اہم ترین ضرورت ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا یعنی ہر سال پندرہ لاکھ نئی ملازمتیں۔ پاکستان کی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ہم کم سے کم قرضوں کا بوجھ چھوڑیں لیکن بجٹ 2016-17 اِن تمام ضروریات کا احاطہ نہیں کرتا۔

اگر حکومتی ادارے اپنی اصلاح نہیں کر رہے تو اس کے لئے یکساں ذمہ دار حزب اختلاف کے اراکین بھی ہیں جو بالکل بھی اپنا کردار چاہے وہ جو بھی ہے ادا نہیں کر رہے۔ یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو بجٹ میں ٹھوس اصلاحات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ گذشتہ برس تحریک انصاف نے بھی اسی قسم کی ایک کوشش کی تھی لیکن اِس سال اُن کی طرف سے ایسا کچھ بھی سننے میں نہیں آ رہا۔
توانائی کے محاذ پر‘ یہ بات قابل حیرت ہے کہ سال 2014-15ء میں 23 ہزار 212 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت تھی جو سال 2015-16ء میں کم ہو کر 23ہزار 101 میگاواٹ ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے سال 2013ء میں 480 ارب روپے کا گردشی قرض ادا کیا تھا اور پھر سال 2014ء میں 260 ارب‘ سال 2015ء میں 248 ارب روپے توانائی کے پیداواری شعبے کے لئے مختص کئے تھے۔ اگر ہم تین برس کا حساب لگائیں تو 988 ارب روپے بنتے ہیں لیکن اِس قدر خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی توانائی کے پیداواری شعبے کی صلاحیت کم ہوئی ہے۔

جب ہم زرعی شعبے کی کارکردگی دیکھتے ہیں تو گذشتہ 25برس میں یہ کم ترین اور بدترین کارکردگی ہے۔ بجٹ میں کھاد کی سستے داموں فراہمی کی بات کہی گئی ہے جس پر حکومت کو 10ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ 6 کھرب روپے ہے جسے دی جانے والی سبسڈی 10 ارب روپے کس طرح کافی قرار دی جاسکتی ہے اور اِس قدر بڑے شعبے کو پھر سے منافع بخش بنانے کے لئے کیا 10 ارب روپے کی سبسڈی کافی قرار دی جاسکتی ہے؟ زرعی شعبے کو ایک اُور مد میں بھی رعائت دینے کا بجٹ میں ذکر ملتا ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں کو دی جانے والی بجلی پر رعائت دی جائے گی لیکن جب ہم کھاد اور زرعی ٹیوب ویلوں پر دی جانے والی سبسڈی کو اکٹھا کرتے ہیں تو یہ قومی پیداوار کے تناسب سے قریب 0.6 فیصد بنتی ہے!

برآمدات کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پیداواری لاگت کم کی جائے لیکن بجٹ میں اِس بارے ہمیں زیادہ کچھ نہیں ملتا۔

غربت کے خاتمے کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کا حجم بڑھا کر 115 ارب روپے کردیا گیا ہے اور یہ ایک درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 56لاکھ خاندانوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام انتظامی لحاظ سے بہترین ہے جسے سائنسی بنیادوں پر منظم رکھا گیا ہے اور یہ غربت سے نمٹنے کا مؤثر ہتھیار ہے۔

بجٹ میں ترقیاتی حکمت عملی (پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) کے حجم میں 21فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور یہ بھی ایک درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے لیکن ترقی کے نام پر مختص مالی وسائل بدعنوانی کی نذر نہ ہو جائیں اس کے لئے سخت انتظامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد ہوئے!

آخری بات یہ ہے کہ مالی سال 2016-17ء اراکین اسمبلیوں کے لئے بہت اچھا ثابت ہوا کیونکہ اُن کی تنخواہیں و مراعات 80ہزار روپے سے بڑھا کر 4لاکھ 70 ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی ہیں جو کہ 500 فیصد یکمشت اضافہ ہے جبکہ سرکاری ملازمین کی نتخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ 40 گھنٹوں میں بجٹ منظور کر لیں گے اور آنے والے دنوں میں ہر رکن قومی اسمبلی کو سالانہ 6 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز ملیں گے جو وہ اپنی من پسند ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر سکیں گے۔ مبارک ہو۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ و تلخیص: شبیر حسین اِمام)

Friday, June 3, 2016

Jun2016: The real Hero! (Shan Abbasi)

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حقیقی قومی ہیرو!
ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں میں آٹھ یونین کونسلوں (بکوٹ‘ بیروٹ‘ بوئی‘ پٹن کلاں‘ دلولہ‘ ککمنگ‘ نمبل اُور پلک) پر مشتمل ’سرکل بکوٹ‘ کی جنت نظیر وادیوں کا اصل حسن وہاں پایا جانے والا سماجی خدمت کا جذبہ ہے‘ جسے سیاسی بنیادوں پر امتیازات اور نسلی و لسانی بنیادوں پر تعصبات سے پاک (موافق) ماحول میسر آیا تو پھلنے پھولنے کا ایسا موقع ملا کہ سماجی ترقی اور معاشرے کے ذمہ دار روئیوں کے شگوفے کھل اُٹھے۔ یونین کونسل بیروٹ کی ویلیج کونسل کہو غربی‘ لہور کس گاؤں کے رہنے والے پچاس سالہ ’محمد شان عباسی‘ سعودی عرب محنت مشقت کے لئے گئے اور برسہا برس کی انتھک محنت سے جمع پونجی کا استعمال اپنا ذاتی مکان یا کاروبار بڑھانے کے لئے نہیں کیا بلکہ تمام کی تمام رقم یعنی 20 لاکھ روپے گاؤں کی سڑک تعمیر کرنے پر خرچ کر دی! اپنی مدد آپ کے تحت کسی فرد واحد کے ہاں پائے جانے والی اجتماعی فلاح و بہبود کی یہ منفرد سوچ کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی! یاد رہے کہ یہ وہی سرکل بکوٹ ہے جہاں غربت و پسماندگی اِس انتہاء کی ہے کہ سیاحتی امکانات اورپن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کے لئے موزوں علاقے کے لوگوں کو محنت مزدوری کے لئے ملک کے دیگر حصوں یا بیرون ملک نقل مکانی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں!

 صدقۂ جاریہ پر اعتقاد ہونا اُور صدقۂ جاریہ کے لئے اپنی پوری جمع پونچی خرچ کرنا یقین و عمل کا حسین امتزاج ہے جس کے لئے شان عباسی کی مثال پورے پاکستان کے سامنے پیش ہونی چاہئے کہ کس طرح ایک شخص نے حکومت کی جانب سے ترقیاتی عمل کے منتظر اہل علاقہ کی مشکلیں آسان کر دیں۔ اگرچہ ’این اے سترہ‘ سے منتخب ہونے والے رُکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اَظہر جدون نے مذکورہ شاہراہ کی تعمیر کے لئے دس لاکھ روپے پہلے ہی مختص کر رکھے ہیں‘ جن کی وفاقی حکومت سے منظوری کے مراحل میں غیرضروری تاخیر کی وجہ وہ ’سیاسی عناد‘ ہے جس کی بناء پر حزب اختلاف اور بالخصوص تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی سے امتیاز برتا جاتا ہے۔

کاش ہم حسن انتخاب سے کام لیتے ہوئے جمہوری طرز حکمرانی کے اسلوب کا ادراک کر سکتے! شان کی شان یہ بھی ہے کہ اگر وہ چاہتے تو کم و بیش ڈیڑھ کلومیٹر شاہراہ عام کو اپنے نام سے منسوب کر سکتے تھے جیسا کہ سیاسی لوگ کرتے ہیں لیکن اُنہوں نے باوجود اصرار بھی اِسے ’خلفائے راشدین‘ کا نام نامی دے کر اپنے روحانی درجات و فیض کو دنیاوی نمود و نمائش پر ترجیح دی ہے۔

شان عباسی نے بیرون ملک کمائی کی ساری رقم گاؤں کی سڑک بنانے پر خرچ ہونا کسی بھی صورت معمولی بات نہیں۔ درحقیقت اُس ایک شخص نے اُس سوچ سے بھی بغاوت کی ہے‘ جو سرکل بکوٹ کو محکوم و غلام بنائے رکھنے کی ہے یقیناًماضی کے اُن تمام حکمرانوں کی آنکھیں شرم و ندامت سے جھک جانی چاہئیں! جن کے پاس ایک غریب محنت کش جتنا ظرف‘ حوصلہ اُور دریا دلی نہیں! ماضی میں رنگوٹ اور حال میں ’’خلفائے راشدین روڈ‘‘ کہلانے والی شاہراہ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اہل علاقہ کی جانب سے شان عباسی کے اعزاز میں استقبالیہ کا انعقاد کیا گیا جس میں رکن قومی اسمبلی سمیت عمائدین علاقہ اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ شان عباسی کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ ہر بار کسی مقرر کی زبان پر اُن کا نام آنے پر پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھتا جس سے شان عباسی کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ جاتی یقیناًبلاامتیاز سماجی خدمت پر یقین رکھنے والے ’روشن ضمیر‘ ہی اَصل قومی ہیرو ہیں‘ جن کی خدمات کو سراہا جانا چاہئے اور یہی وہ شخص ہے جسے قومی اعزاز بھی ملناچاہئے۔ کیا الیکٹرانک ذرائع ابلاغ ایک ایسے شخص کی خدمات کو قوم کے سامنے پیش کریں گے‘ جس نے گمنامی میں رہنے کو ترجیحی دی!

شان عباسی کی خدمات تاقیامت مثال رہیں گی کیونکہ ایک تو انہوں نے ذاتی رقم سے گاؤں کی شاہراہ کی تعمیر مکمل کروائی اور ساتھ ہی جب حکومت کی جانب سے دس لاکھ روپے دینے کی بات کی گئی تو انہوں نے کمال فراخدلی سے کہا کہ وہ ملنے والی رقم بھی اِسی شاہراہ کی توسیع پر خرچ کریں گے‘ جس سے اسے خانسپور ایویبہ سے ملا دیا جائے گا۔ یقین نہیں آتا کہ آج کی مادہ پرست دنیا میں کوئی شخص رضائے الٰہی کے لئے بناء کسی قسم کے سیاسی عزائم عوام کی خدمت پر اِس قدر یقین بھی رکھ سکتا ہے۔

خلفائے راشدین روڈ کو مرکزی آبادی ایویبہ سے ملانے کے لئے ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)‘ کے حکام کو توجہ دینی چاہئے جبکہ تحریک انصاف پر اعتراض کرنے والوں کو دعوت عام ہے کہ وہ مذکورہ شاہراہ کا معیار اور اِس پر آنے والی لاگت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد فیصلہ کریں کہ ماضی کی کسی بھی حکومت کے مقابلے آج سرکل بکوٹ میں نہ صرف زیادہ تعداد میں ترقیاتی کام مکمل ہوئے ہیں بلکہ نئی تعمیرات اور توسیع و ترقی کا معیار بھی ماضی کے مقابلے اگر زیادہ پائیدار و مضبوط ہے تو کہیں اِس کی وجہ طرزحکمرانی کی اصلاح اور خیبرپختونخوا میں کرپشن کا خاتمہ تو نہیں!؟ اگر سرکل بکوٹ اِسی سیاسی بصیرت‘ اِتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت میں ترقی کے جاری عمل کو آگے بڑھائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ شعور اُور اِس کے فیوض و برکات (ثمرات بصورت نتائج) اجتماعی مفاد اور تعصبات سے پاک سیاست کے فروغ کے لئے بصورت انقلاب تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

Wednesday, June 1, 2016

Jun2016: Save the "Lady Garden" of Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لیڈی گارڈن بچاؤ!
خیبرپختونخوا کو سرسبزوشاداب کرنے کا عزم لئے صوبائی حکومت کی کوششیں اُس وقت رائیگاں معلوم ہوتی ہیں‘ جب ترقی کے نام پر توسیع و مرمت یا تعمیراتی منصوبوں کے لئے درختوں کا ’قتل عام‘ کیا جاتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے بالائی علاقوں میں ایسے مناظر سڑک کنارے بکھرے پڑے ہیں‘ جہاں کبھی درختوں کی قطاریں ہوا کرتی تھیں اب ’ائرکنڈیشن گاڑیوں‘ میں بیٹھ کر سائے کی تلاش میں سرگرداں سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ کسی ایک درخت کے ساتھ جُڑی اُس علاقے کی تاریخ و ثقافت اور معیشت و معاشرت جڑی ہوتی ہے‘ درختوں پر صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی انحصار کر رہے ہوتے ہیں اور جنگلات جس حیاتیاتی تنوع کا مرکز ہوتے ہیں‘ اگر اُس کا توازن کسی وجہ سے بگڑ جائے تو نتیجہ غیرمتوقع موسمیاتی تبدیلیوں (خشک سالی یا پھر دیگر انتہاؤں یعنی موسلادھار بارشوں سے آنے والے سیلاب) کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ کاش کہ ’حضرت انسان‘ یہ ’آسان‘ بات سمجھ سکے کہ اُس کی حیات و بقاء جس ہوا میں سانس لینے اور جس زمین پر قدم جما کر رہنے میں ہے‘ اُس کے لئے قدرت کے مقررہ کردہ میزان و عدل کا احترام صرف ضروری نہیں بلکہ لازم ہے۔ اگر یہ ایک بات سمجھ لی گئی تو پھر درخت لگانا یا اُن کی حفاظت کرنا صرف حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں رہے گی بلکہ یہ معاشرے کا اِجتماعی فرض بن جائے گا‘ بس یہی شعور کی وہ منزل ہے‘ جہاں صرف آج کی نہیں بلکہ مستقبل کا فکر ہمارے ماضی وحال کو آسودہ اُور مستقبل کو خوشحال بنا دے گی۔

ایبٹ آباد میں بڑھتی ہوئی مقامی آبادی کے لئے تفریح گاہوں کی ضرورت کا مطالبہ اپنی جگہ اہم و توجہ طلب تھا جس پر زور دینے والے سیاسی و غیرسیاسی‘ سماجی اُور قانونی حلقے ’لیڈی گارڈن‘ نامی اُس تفریح گاہ کو ’کمرشل ازم‘ سے بچانے کے لئے ’سرگرم‘ ہو گئے ہیں۔ کس قدر بھیانک منظر ہے کہ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ اپنے سبزہ زاروں کی دیکھ بھال کر سکیں! کم و بیش ’سات کنال اراضی‘ پانچ سال کے لئے سالانہ اٹھارہ لاکھ روپے کرائے پر دینے کی مذمت کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اِس سے 1:سبزہ زار کی حیثیت تبدیل ہو جائے گی اور اسے نقصان پہنچے گا۔ 2: صحت مند تفریح کے وسیلے سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہونے کی بجائے کم ہوگی کیونکہ ہر شخص اپنے بچوں کو بیش قیمت جھولوں سے استفادہ کرانے کی سکت نہیں رکھے گا۔ بچے ضد اور والدین اُنہیں چپ کرانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیں گے! 3: سبزہ زار میں شور شرابہ (فضائی آلودگی) بڑھے گی۔ 4: جھولوں کی تنصیب کے لئے فرش بندی ہو گی جس سے نہ صرف سبزہ زار کے متعلقہ حصے ہی نہیں بلکہ سبزہ زار کے دیگر حصوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ نے چند ہفتے قبل ہی ’لیڈی گارڈن‘ میں داخلے کی فیس ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ کم مالی وسائل رکھنے والے بھی اپنے بچوں کے ہمراہ چند لمحے سکون پا سکیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2014ء میں لیڈی گارڈن کی تعمیرومرمت کے نام پر جب پختہ تعمیرات (کنکریٹ) کا جال بچھایا جانے لگا تو ایبٹ آباد کے شہریوں کی جانب سے ظفراقبال ایڈوکیٹ نے ’پشاور ہائی کورٹ‘ میں ایک مقدمہ (پٹیشن) دائر کیا جس پر سماعتوں کے بعد ایبٹ آباد کی کنٹونمنٹ بورڈ انتظامیہ نے تحریری طور پر عہد کیا کہ ’’لیڈی گارڈن کی حیثیت تبدیل نہیں کی جائے گی اور ایسا کوئی بھی کام نہیں کیا جائے گا جس سے سبزہ زار کا رقبہ کم ہو یا سبزہ زار کو نقصان پہنچے یا درخت کاٹے جائیں۔‘‘ لیکن چونکہ انتظامیہ تبدیل ہوتی رہتی ہے لہٰذا ماضی میں کئے گئے عہد بھی فائلوں تلے دم گھٹنے سے شاید دم توڑ چکے ہیں۔ لیڈی گارڈن کے انچارج پرویز خان نے تصدیق کی ہے کہ ’’سبزہ زار کا کل رقبہ چالیس کنال سے زیادہ ہے جس میں سے سات کنال کا رقبہ اجارے پر دیا گیا ہے‘‘ لیکن انہوں نے ایک ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’سبزہ زار کو نقصان پہنچانے یا درخت کاٹنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘ کیا تخریبی کام کرنے والے ’اجازت طلب کیا کرتے ہیں؟‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ اکتیس مئی کو ’کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد‘ کے انتظامی نگرانوں کا (بورڈ) اجلاس بھی ہوا جس کے بارے اسسٹنٹ پی آر اُو ثاقب کے بقول ایجنڈے (غوروخوض کے عمل) میں ’لیڈی گارڈن کے ایک حصّے کی نجکاری شامل نہیں۔‘

کون نہیں جانتا کہ موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ایبٹ آباد اور ایبٹ آباد کے راستے گلیات یا ناران کاغان کی وادیوں کی سیر کے لئے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ماہ رمضان المبارک کے دوران کچھ کمی بیشی لیکن عیدالفطر اور بعدازاں زیادہ تیزی آ جاتی ہے۔ اِسی طرح تعلیمی اِداروں میں موسم گرما کی تعطیلات ہونے کے ساتھ ہی ملک کے مختلف حصوں سے تین ماہ (سیزن) گزارنے والے بھی ایبٹ آباد یا اس کے ملحقہ علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔ آبادی کا یہ دباؤ ماحول اور قدرتی وسائل کو بھی یکساں متاثر کرتا ہے اور اگر ایسی صورت میں پہلے سے موجود ایبٹ آباد کے سب سے بڑے سبزہ زار کی شکل و صورت اور اِس کا بنیادی مقصد ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے تو اِس پر صرف لفظی ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے احتجاج ہونا چاہئے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خان خٹک‘ ایبٹ آباد سے منتخب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے اراکین مشتاق احمد غنی‘ قلندر خان لودھی‘ سردار ادریس اُور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ’لیڈی گارڈن بچاؤ تحریک‘ کا حصّہ بننا چاہئے۔ اگر صوبائی اور وفاقی حکومت ایبٹ آباد میں مزید سبزہ زار اور صحت مند تفریح کے مفت مواقع فراہم نہیں کرسکتی تو کم سے کم پہلے سے موجود وسائل کو تو کسی خاص طبقے کی تفریح طبع تک کے لئے محدود نہ کیا جائے۔کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مجبوریوں اور ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسے سبزہ زار کی ماحولیاتی و سماجی حیثیت تبدیل کرنا منطقی جواز یا معنی خیزی نہیں رکھتا‘ جو سردست اَیبٹ آباد کی مقامی آبادی اور ملکی و غیرملکی سیاحوں کے لئے تفریح کا واحد ذریعہ ہے۔
Efforts need to save the Lady Garden of Abbottabad