Saturday, July 6, 2013

Jun2013: Gorkhattree, the destination

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین امام
کہا منزل مقابل ہے
دانشمندی یہی ہے کہ قرض کا بوجھ جس قدر جلد اُتار دیا جائے‘ اُتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ یہ قرض چاہے مادی و مالی ہو یا معنوی ہر دو صورتوں میں ادا کرنے ہی میں بھلائی بھی ہے‘ بصورت دیگر سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی تاریخ پشاور کے ایک باب میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جن میں مالی طور پر مشکلات کا شکار افراد نے محض قرض ادا کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیاں کر لیں لیکن اُن کی اُولادیں اس قدر آسودہ حال ہے کہ آج کے پشاور میں اُن کا شمار امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے۔ درحقیقت چند خاندانوں کی غربت تو ختم ہو گئی لیکن پورا پشاور ’غریب الحال‘ ہو چکا ہے۔ جس شہر میں اربوں روپے خرچ ہوں وہاں کی سڑکوں پر گندگی و غلاظت کے ڈھیر اور ہوا میں اُڑتی خاک اس بات کا منہ بولتاثبوت ہیں کہ ذاتی مفادات کو پشاور پر ترجیح دی گئی۔ بدعنوانی کے مرض کا علاج گیارہ مئی کے عام انتخابات سے کیا گیا لیکن خیبرپختونخوا کی نئی صوبائی حکومت بھی حسب وعدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی!

سوات سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر محمود خان سے ’سٹیزن ہیئرٹیج کونسل‘ نامی تنظیم کے اراکین ملاقات کے دوران پشاور کی تاریخ و ثقافت کی احیاء‘ آثار قدیمہ کے تحفظ و بحالی اور بالخصوص گورگٹھڑی کی عمارت کے لئے مختص مالی وسائل میں ہوئی خردبرد سے آگاہ کیا۔ سماجی کارکنوں‘ صحافیوں اور ماہرین سیاحت و آثار قدیمہ پر مبنی پشاور کے شہریوں کے نمائندہ وفد نے وزیر موصوف کی عدالت میں ایک گھنٹہ طویل سماعت کے گورگٹھڑی کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے التجا کی کہ باقی ماندہ اثاثوں کے آثار کو بچایا جائے اور اُن کی بحالی کے لئے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’’گورگٹھڑی منصوبے میں مالی وسائل پانچ افراد نے ملی بھگت سے خردبرد کئے۔‘‘ ان میں سابق دور حکومت کے ایک وزیر‘ ڈائریکٹر آرکیالوجی‘ گورگٹھڑی اَرٹیزن ویلیج پراجیکٹ (Artisan Village) کے نگران اور سیکرٹری و ڈپٹی سیکرٹری سیاحت شامل ہیں۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے 25 دسمبر 2011ء کے روز 4کروڑ 52 لاکھ 80 ہزار (45.28 ملین) روپے مالیت کے ایک منصوبے کی منظوری دی تھی‘ جس کا بظاہر دلکش مقصد یہ تھا کہ گورگٹھڑی کے مقام پر مقامی ہنرمندوں کو دکانیں فراہم کی جائیں‘ جہاں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے‘ جس سے مقامی ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی کے علاؤہ سیاحت کا فروغ ممکن ہوگا لیکن اس منصوبے کے درپردہ تین محرکات تھے۔ ساڑھے چار کروڑ روپے سے زائد رقم کو اِدھر اُدھر کرنا تھا۔ دوسرا مخصوص سیاسی وابستگیاں رکھنے والے افراد کو بناء اہلیت و تجربہ بھاری تنخواہوں پر ملازم رکھنا تھا اور تیسرا درپردہ محرک یہ تھا کہ ایک مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل گورگٹھڑی کے احاطے کو ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکنوں کو اجارے پر دے دیا جائے۔ یہ تینوں اہداف یعنی شکار ایک ہی تیر سے کرنے کے لئے تین سالہ منصوبہ بنام ’’ارٹیزن ویلیج پراجیکٹ‘‘شروع کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جب سبھی فیصلہ سازوں کو اپنا اپنا حصہ مل رہا تھا تو اعتراض کون کرتا اور کیوں کرتا!

مئی 2010ء سے زیرغور منصوبے کی تکمیل گذشتہ برس ہو جانی چاہیے تھی لیکن چونکہ بدنیتی پر مبنی اس منصوبے کا کوئی منطقی جواز ہی نہیں تھا‘ اس لئے تاحال یہ مکمل نہیں ہو سکا اور اُمید تھی کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد ’’گورگٹھڑی ارٹیزن ویلیج منصوبہ‘‘ جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر روک کر مالی بدعنوانیوں کی چھان بین کی جائے گی۔ دوہری شہریت رکھنے والے سابق ڈائریکٹر آرکیالوجی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جائے گا کیونکہ اُن کی تعیناتی سمیت اُن کے دور میں کئی متنازعہ فیصلے ہوئے جن سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ یہ بھی توقع تھی کہ تحریک انصاف سب سے پہلے پشاور سے انصاف کرے گی اور محکمہ آثار قدیمہ و سیاحت میں ہونے والی مبینہ مالی بدعنوانیوں کی بذریعہ ’احتساب بیورو‘ تحقیقات کرائے گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

21جون (بروز جمعہ) کی رات ٹھیکیدار اور محکمہ آثار قدیمہ و سیاحت کے اہلکاروں تمام رات گورگٹھڑی کے اُن 49 کمروں کے آگے دروازے لگاتے رہے‘ جن کے لئے مختص مالی وسائل کی پہلے ہی بندربانٹ ہو چکی ہے! کیا یہ عجب نہیں کہ 20 جون کے روز صوبائی وزیر پشاور کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات میں اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کی حامل گورگٹھڑی کی عمارت کا کسی بھی طرح کے تجارتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن 21 جون کی رات گورگٹھڑی کو نیلام کرنے کے لئے پھر سے تیار کرنا شروع کر دیا جاتا ہے! محکمہ آثار قدیمہ کے قواعد و قانون کے مطابق بھی گورگٹھڑی کا استعمال کسی بھی طرح کے تجارتی مقصد کے لئے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کو اجارے پر دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے جس میں گورگٹھڑی شادی ہال کو مسمار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ تحریک انصاف اِس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد بھی ممکن بنائے گی لیکن (خاکم بدہن) کہیں ایسا تو نہیں کہ افسر شاہی نے نئے وزیر کو بھی مال غنیمت میں حصہ داری دے کر شریک کر لیا ہو؟اگرچہ متعلقہ صوبائی وزیر کا تعلق سوات سے ہے لیکن اگر وہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے ورثے کی تباہی روکنے کے لئے اپنا کردار اَدا نہیں کرتے‘ بدعنوانوں کا احتساب نہیں کیا جاتا تو پھر لامحالہ اُن کا شمار بھی پشاور کے اُنہی ’دشمنوں‘ کی فہرست میں ہوگا جو اپنی حرص‘ لالچ اور طمع کے اسیر تھے اور جن کی وجہ سے پشاور کی خوبصورتی اور اس کے ماضی و حال کی نشانیاں دم توڑ رہی ہیں۔