Saturday, February 28, 2015

Feb2015: Nationality on sale

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مہاجرین و انصار
خیبرپختونخوا حکومت نے اُن تمام افغان شہریت رکھنے والے افراد کو بناء تاخیر اپنے وطن واپس لوٹنے کا حکم دیا ہے‘ جو پاکستان میں کسی بھی حیثیت سے قیام کا اجازت نامہ نہیں رکھتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے 360افغان افراد کی فہرستیں بھی مرتب کر لی گئی ہیں جو صوبے کے مختلف اضلاع کی بڑی مساجد و معروف مدارس میں بناء دستاویزات مقیم ہیں۔ محکمہ داخلہ کی نگرانی میں کی جانے والی اِس تلاش و نشاندہی کی کارروائی میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 20 ایسے افغان علماء بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کے کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں! جعل سازی‘ حلفیہ دروغ گوئی اور رشوت کے ذریعے کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا‘ شرعی طورپر کہاں تک جائز ہے؟ پاکستان کے علاؤہ دیگر مسلم بالخصوص ممالک کی شہریت اور مہاجروں سے روا رکھے جانے والے سخت گیر سلوک پر اُنگلیاں کیوں نہیں اُٹھائی جاتیں؟

صوبائی دارالحکومت پشاور میں 185 امام یا خطیب افغان پائے گئے ہیں جبکہ ضلع چارسدہ میں 49‘ مردان میں 46 اُور صوابی میں 13اِمام‘ پیش اِمام اُور خطیب ایسے افغان باشندے ہیں‘ جن کے پاس پاکستان میں قیام کی دستاویزات نہیں جبکہ 47ایسے افغان باشندے تھے جنہوں نے 31 دسمبر 2015ء تک قیام کے عارضی اجازت نامے حاصل کر رکھے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ محکمہ داخلہ کو دی گئی فہرست کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے سوات‘ بونیر‘ چترال‘ طورغر‘ ہری پور‘ کوہستان‘بٹ گرام‘ شانگلہ‘ کرک‘ لکی مروت‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور ٹانک میں ایک بھی ایسا افغان باشندہ نہیں جو صاحب منبر و مسجد ہو! جبکہ مقامی صحافی برسرزمین حقائق سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’مالی وسائل رکھنے والے افغانوں نے بڑی تعداد میں ’کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کر رکھے ہیں لیکن جب اِس سلسلے میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ حکام سے بات کی جائے تو وہ اِس امکان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن چند ہی روز پہلے حیات آباد کے نادرا آفس کے اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا کیونکہ مشہور زمانہ شربت بی بی نامی ایک افغان خاتون کو قومی شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ یہ وہی خاتون تھی‘ جس کی تصویر امریکہ کے ایک اشاعتی و نشریاتی ادارے ’نیشنل جیوگرافک‘ کے فوٹوگرافر نے بنائی اور اُسے شہرۂ آفاق ’مونالیزا‘ نامی مصوری کے شہکار جیسی شہرت ملی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے لئے کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈ کا حصول قطعی مشکل نہیں‘ کیونکہ اِس کے لئے تصدیق کے جن قواعد و مراحل کو مرتب کیا گیا ہے‘ اُن میں خامیاں موجود ہیں اور کوائف کی جانچ کرنے کا اختیار بھی اُنہی افراد کے پاس ہے جو اِن کارڈوں کو جاری کرتے ہیں۔ چونکہ بلدیاتی نظام موجود نہیں جس میں ہر یونین کونسل کی سطح پر نمائندے کسی شخص کے مقامی ہونے کی تصدیق کرتے تھے‘ اِس لئے تصدیق آسان ہو گئی ہے اور چند ہزار روپے کے عوض قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کو ’نادرا‘ کے اُن دفاتر کا بھی علم ہے‘ جہاں ایسے ’انصار‘ موجود ہیں‘ جو اُن سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی شہریت سستی اُور قابل فروخت بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ’غیب کا علم‘ ہونا ضروری نہیں بلکہ اِس کے لئے کئی ایک طریقے ’رائج الوقت‘ ہیں۔ مثال کے طور پر جملہ سرکاری ملازمین بالخصوص نادار اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال سالانہ بنیادوں پر کی جائے۔ جس طرح اراکین قومی اسمبلی کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات اور اِس میں آئے ردوبدل کے بارے میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے حلفیہ طور پر کہتے ہیں کہ اگر اُن کی بیان کردہ تفصیلات میں کمی بیشی پائی گئی تو انہیں نااہل قرار دیا جائے اِسی طرح جملہ سرکاری ملازمین سے بھی اُن کی آمدن (انکم) اور اثاثہ جات (جائیداد) کے بارے میں پوچھا جائے۔ ایسے تمام سرکاری ملازمین جو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں اُن کے اثاثہ جات کی تفصیلات سے وفاقی و صوبائی خفیہ تحقیقاتی اداروں کو بھی مطلع کیا جائے‘ جو اپنے طورپر تصدیق کریں۔ قومی شناختی کارڈ کے حصول کو تعلیمی دستاویزات سے مشروط کرنے اور قبائلی علاقہ جات میں تصدیق کے الگ معیار مقرر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو جب تک قومی شناختی کارڈ کی ضرورت نہ پڑے تو اِسے بنانا ضروری نہیں سمجھتے اور خواتین کو تو ایسی ضرورت سے بھی حتی الوسع الگ رکھا جاتا ہے‘ جس میں اُن کی تصویر لی جاتی ہے لیکن افغان باشندے اِس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں اور خود کو قبائلی علاقوں کا باشندہ ظاہر کرکے اپنے خاندان کو قومی ڈیٹابیس کا حصہ بنا لیتے ہیں‘ جس کی بنیاد پر بعدازاں بندوبستی علاقوں سے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد شناختی کارڈ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں صحت کا نظام کمپیوٹرئزاڈ نہیں‘ اُور سرکاری علاج گاہوں سے رجوع کرنے والوں کا ’ریکارڈ‘ نہیں رکھا جاتا‘ اِس لئے قومی شناختی کارڈ کی ضرورت و تصدیق کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر حکومت ’صحت کے شعبے کی بھلائی‘ کا سوچے اور مریضوں کے کوائف اُن کے ’قومی شناختی کارڈ‘ نمبروں سے محفوظ رکھے جائیں تو اِس سے نہ صرف مریض کی ہسٹری‘ ماضی میں علاج کی تفصیلات‘ خون کا گروپ‘ موروثی بیماریوں وغیرہ کے علاؤہ ہنگامی صورتحال میں کسی مریض کو فوری طبی امداد دینے میں آسانی ہوگی۔ شناختی کارڈ سے اگر ’قومی انکم ٹیکس‘ نمبر جڑ سکتا ہے تو دیگر سہولیات و ضروریات جیسا کہ ڈرائیونگ لائسینس اُور گاڑیوں کی رجسٹریشن ایک ہی کارڈ کا حصہ کیوں نہیں بن سکتیں؟ نادرا ملازمین کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے تجاہل عارفانہ سے قومی سلامتی کے لئے خطرات میں کس قدراضافہ ہوا ہے۔

 کیا کوئی پاکستانی افغانستان کی شہریت اِس قدر آسانی سے حاصل کرسکتا ہے‘ جس قدر ہمارے ہاں ہے؟

مسئلہ سرکاری اِداروں کو باہم مربوط کرنے کا ہے لیکن یہ کام کون کرے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں ’جماعتی سیاست اور مفادات‘ سے اِس طرح جکڑ دیا گیا ہے‘ کہ وہ سرکھجانے کی فرصت نہیں پاتے جبکہ منتخب نمائندے اپنے حلف (عہد) کو نہیں نبھا رہے۔ تصور کیجئے کہ جہاں اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کی اکثریت قانون ساز اداروں کے اراکین کی ہو‘ جہاں سرکاری اِداروں میں اہلیت کی بجائے مداخلت حاکم ہو‘ تو کیا عجب ہے کہ عہدوں کی تعظیم اُور محبت غالب و مقصود بن جائے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی و اجتماعی مفادات کی بجائے ذاتی و انفرادی ترجیحات اعلیٰ و ادنی افسرشاہی سے لیکر گلی کوچے کے دکاندار تک پیش نظر ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ہاں احتساب کا ادارہ بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ادارہ بن جانے کے بعد کسی کی مجال نہ ہوتی کہ وہ مالی و انتظامی بدعنوانی کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ کیا اِسے قانون کہا جائے گا کہ جس میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کروڑوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو جاتے ہیں! اگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا ادارک ہوتا تو پشاور کی ضلعی انتظامیہ و میونسپل حکام کو یہ حکمت عملی اختیار ہی نہ کرنا پڑتی کہ ’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کے دوران ہفتہ وار تعطیل نہیں ہوگی۔‘
Afghan refugees are getting national identity cards on fake documents

Thursday, February 26, 2015

Feb2015: FATA IDPs & Policies

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
متاثرین زمانہ!
قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو اُمید تھی کہ حسب اعلان فروری کے وسط میں انہیں اپنے آبائی علاقوں واپس بھیج دیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مقررہ تاریخ آئی اور گزر گئی۔ جن علاقوں میں فوجی کارروائی کامیابی سے مکمل کر لی گئی ہے وہاں سے نقل مکانی کرنے والوں کی آبادکاری و بحالی کے لئے فی خاندان پینتیس ہزار روپے مالی مدد دینے کے لئے درکار وسائل نہیں۔ تخمینہ ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی و بحالی کے عمل کے لئے 75.4 ارب روپے درکار ہوں گے‘ جس کے لئے توقع تھی کہ امریکہ اِن میں سے نصب اخراجات کا مالی بوجھ برداشت کرے گا‘ لیکن ایسا نہ ہوسکا!
یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ تین لاکھ خاندانوں کی جان ومال‘ صحت و خوراک‘ تعلیم و تربیت اور حقوق کا مسئلہ ہے جو اپنے گھربار حکومت کے آسرے پر چھوڑ چکے ہیں لیکن انہیں حسب وعدہ و ضرورت نہ تو بنیادی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی واپسی کی کوئی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ فوجی کارروائی کے سبب بستیاں کھنڈرات میں تبدیل کر دی گئیں ہیں۔ شمالی وزیرستان سے متعلق اگر پاک فوج کے جاری کردہ اعدادوشمار پر بھروسہ کیا جائے تو 47فیصد انفراسٹکچر (سہولیات) مکمل تباہ ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ 53فیصد بُری طرح متاثر ہے۔‘‘ اگر متاثرین ازخود واپس چلے بھی جائیں تو اِس قدر بڑے پیمانے پر متاثرہ علاقوں کی تعمیر اپنی مدد آپ کے تحت (ذاتی مالی وسائل) سے کیونکر اور کیسے کر پائیں گے؟ توجہ طلب ہے کہ قبائلی علاقے جو کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتے تھے‘ آج وہاں مطمئن معاشرت تو دور کی بات زندگی اور موت کے درمیان پایا جانے والا باریک توازن بھی باقی نہیں رہا!
قبائلی علاقوں سمیت ملک میں امن وامان کی صورتحال پر غیرملکی اداروں کی نظریں ہیں۔ چوبیس فروری کو امریکہ کی جانب سے پشاور و لاہور کے سفارتخانوں کی سرگرمیاں محدود کرنے اور امریکی باشندوں کو بناء ضرورت پبلک مقامات سے دور رہنے کی ہدایات جاری کی گئیں جن میں بین السطور آنے والے دنوں میں خطرات کی طرف اشارہ ہے اور وزارت داخلہ کے مطابق فرقہ واریت میں ملوث ایک تنظیم نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے اپنا تعلق توڑ کر ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے کارروائیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اور ان کے عزائم ہیں کہ ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گرد کارروائیاں کی جائیں۔ اقوام متحدہ کے پاکستان میں تعینات ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق ’’پاکستان کو مختلف قسم کے داخلی چیلنجز درپیش ہیں‘ جن کی نوعیت معاشی و اقتصادی بھی ہے اور ان میں سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات و اہداف بھی ہیں۔ قومی سلامتی کے معاملے پر ’ایکشن پلان‘ تو ترتیب دیا گیا ہے لیکن قومی سطح پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتیں بھی واضح طور پر الگ کھڑی ہیں‘ جو دہشت گردی کو کچلنے کے لئے قومی سطح کی کوششوں کو بے معنی و ناکافی ثابت کر رہی ہیں۔‘‘ غیروں کی نظر میں پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنوں کی تکالیف کا احساس نہیں۔ اگر ایک غیرملکی کے منہ سے یہ بات نہ بھی نکلتی تو بھی حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگوں کے لئے یہ امر تشویش کا باعث اور روزمرہ بحث کا موضوع ہوتا ہے کہ ۔۔۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی بسر کرنے والوں کی مدد کیسے کی جائے؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ چند گھنٹے ہی بسر کریں؟‘‘ ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں گھر بار چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں لاکھوں لوگ ہیں تو دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات‘ سیلاب و خشک سالی جیسے بحران سال 2014ء سے سراُٹھائے ہوئے ہیں۔ جس ملک کے ایک حصے میں سینکڑوں کی تعداد میں بچے ناکافی خوراک کے سبب مر رہے ہوں‘ وہاں کے حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ اُن سے کہیں بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔
سال دو ہزار چودہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد نے قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی سے نقل مکانی کی جس کی وجہ بالترتیب فوجی کارروائیاں ’ضرب عضب‘ اور ’خیبر ون‘ تھیں۔ جنوری سے مارچ دو ہزار چودہ کے دوران مزید 45ہزار افراد نے شمالی وزیرستان سے جان بچانے کے لئے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ دو ہزار چودہ میں دو فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا۔ جون میں ’ضرب عضب‘ اور اکتوبر میں ’خیبرون‘ کی وجہ سے 2لاکھ 33 ہزار خاندان (چودہ لاکھ افراد) قریبی بندوبستی علاقوں میں پہنچے۔ سال 2009کے بعد 2014ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سال تھا جب سب سے بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی اُور اِن نقل مکانی کرنے والے افرادکے لئے خوراک‘ صحت و تعلیم‘ رہائش‘ تحفظ‘ پینے کا پانی و نکاسی آب اُور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے اور اگر قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی مکمل کرتے ہوئے نقل مکانی کرنے والوں کو اپنے آبائی علاقوں تک رسائی و بحالی کے لئے سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو اس سے زیادہ شدید بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
دوسروں کے بارے میں سچ سن سن کر کان پک گئے ہیں‘ نجانے ہم اپنے آج‘ اپنے حال اور اپنے ’متاثرین زمانہ‘ پر گزرنے والے حالات کے بارے میں سچ بولنا‘ سننا اور سوچنا کب شروع کریں گے‘ جنہیں ہم سے بہتری کی اُمید تو کیا گمان تک نہیں رہا! ہر شام انواع و اقسام کے ٹیلی ویژن چینلز پر ملبوسات اور میک اپ بدل بدل کر ایک جیسے خیالات رکھنے والے مختلف کردار جن اصلاحات کے وعدے یا جن انتظامی امور کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں وہ سبھی کسی نہ کسی طرح موجودہ طرز حکمرانی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ذاتی مفادات حاصل کر چکے ہیں‘ کر رہے ہیں یا بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ عمومی سطح پر نفسانفسی کا شکار اور خواص کے حلقوں میں مصلحت شناسوں کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے ہر کوئی صرف اور صرف مستقبل (آنے والے کسی سنہرے دور) کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں ماضی کا تذکرہ کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی علمی‘ فکری‘ تحقیقی‘ سیاسی‘ انتظامی و مالی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ ’’بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!‘‘
IDPs need attention & wants to go back

Wednesday, February 25, 2015

Feb2015: Call for creative & technical reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تخلیقی و تکنیکی اصلاحات
حیات آباد پشاور‘ تیرہ فروری‘ نماز جمعہ کے اجتماع کو نشانہ بنانے والوں نے جس گاڑی کا استعمال کیا وہ ’چوری شدہ‘ تھی۔ خصوصی و عمومی جرائم میں اِسی قسم کی گاڑیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے فیصلہ ساز ماتحت تفتیش کاروں اور ماہرین سے کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرنے کے لئے مشاورت کررہے ہیں جس میں دہشت گردوں کے زیراستعمال گاڑیوں اُور آمدروفت کے دیگر وسائل کے اِستعمال کو روکا جاسکے۔ اِس سلسلے میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے قواعد میں تبدیلی کے لئے قانون سازی بھی تجویز کی جائے گی تاکہ ہر قسم کی گاڑیوں بشمول موٹرسائیکلز کی خریدوفروخت کے مراحل ’عارضی ٹرانسفر لیٹرز‘ کی بجائے ہر گاڑی اُس کے اصل مالک (خریدار) کے نام پر لازماً رجسٹر کی جائے۔ سردست ایک گاڑی متعدد مرتبہ فروخت ہونے کے باوجود بھی پہلی مرتبہ رجسٹر کرائے گئے نام پر رکھی جاتی ہے جس کی ملکیت ایک سے دوسرے نام پر منتقل کرنے کی بجائے سالہا سال تک اُس گاڑی کو ’اتھارٹی لیٹر (اجازت نامے)‘ کے سہارے کام چلایا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے قواعد میں کئی ایک خامیاں موجود ہیں لیکن متعلقہ حکام ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کئے ہوئے ہیں اور موجودہ طریقۂ کار کو جوں کا توں فعال اِس لئے بھی رکھا گیا ہے کہ اِس میں بے قاعدگیوں کی گنجائش کے سبب مالی بدعنوانیاں آسانی سے کی جاسکیں۔ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ دہشت گردی کے خطرات سروں پر منڈلانے کی بجائے لپک لپک کر حملہ آور ہو رہے ہوں‘ نظام کی غیرروائتی‘ تکنیکی اُور تخلیقی طریقوں سے اِصلاح کئے بناء چارہ نہیں رہا۔

گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لئے نئے قواعد کی تشکیل میں دو بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو رجسٹریشن کا عمل آسان اُور فوری ہونا چاہئے‘ قطاروں میں کھڑا ہونا‘ ایک سے زیادہ کاغذات‘ فیسیں‘ لوازمات کی فراہمی اُور دفاتر کے چکر بھلا کون پسند کرتا ہے اور آج کے دور میں اتنی فرصت کس کے پاس ہے کہ یہاں وہاں دھکے کھاتا پھرے۔ دوسری بات رجسٹریشن کی کسی دوسرے نام پر منتقلی کی فیس کم سے کم رکھی جائے۔ یہ بات قطعی طورپر غیرمنطقی ہے کہ دہشت گردی کے لاحق خطرات کی وجہ سے ایسے سخت قواعد تشکیل دے دیئے جائیں جن کی آڑ میں عوام پر ’نئے ٹیکس‘ مسلط کر دیئے جائیں۔ سرکاری ادارے نہ تو اپنی کارکردگی بہتر بناتے ہیں‘ نہ ہی خدمات کا معیار مثالی ہوتا ہے لیکن فیسیوں میں اضافہ اور ردوبدل ’مستقل مزاجی‘ سے کرنے کو اپنا ’پیدائشی حق‘ سمجھا جاتا ہے۔سرکاری ملازمین خود کو عوام کا خادم نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں‘ اُن کی بول چال اور اُٹھنے بیٹھنے کی عادات اس حد تک بگڑ چکی ہیں کہ اب ہر سرکاری اہلکار کی نشست اُور دفتر کے باہر آویزاں کرنا پڑے گا کہ ۔۔۔ ’’یہاں عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں پانے والے ملازمین کام کرتے ہیں۔‘‘ بہرکیف گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مراحل کی اصلاح کر بھی دی جائے تو اِس سے نہ تو گاڑیوں کی چوری کا عمل رکے گا اُور نہ ہی منظم جرائم یا دہشت گردی کی وارداتوں میں غیرقانونی ذرائع سے حاصل کی گئیں گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یاد رہے غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں پانچ لاکھ سے زیادہ مشکوک رجسٹریشن والی گاڑیاں سڑکوں پر ہیں جن میں بڑی تعداد موٹرسائیکلوں اور درآمد شدہ پرآسائش مہنگی گاڑیوں کی ہے۔ قبائلی علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے غیررجسٹرڈ گاڑیاں آسانی سے پشاور لائی جاسکتی ہیں۔ ایسی تمام بے قاعدگیاں بشمول رجسٹریشن قواعد کی خامیاں اپنی جگہ لیکن گاڑیوں کے محفوظ و قانونی استعمال کی واحد صورت بس یہی باقی بچی ہے کہ ۔۔۔ ’ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ‘ کیا جائے‘لیکن اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاں ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔

آنکھیں کھولی جائیں تو کئی ایک عرب و یورپی ممالک کی مثالیں نظر آئیں گی‘ جہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن اور دیگر معلومات بشمول گاڑی مالک کے کوائف کسی گاڑی کی فرنٹ سکرین پر چسپاں ایک کریڈٹ کارڈ سائز اسٹکر میں پوشیدہ ہوتے ہیں‘ جب یہ گاڑی اہم و مقررہ مقامات کے قریب سے گزرتی ہے تو خودکار نظام کے تحت سیکورٹی اہلکاروں کو گاڑی کے بارے میں جملہ معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر گاڑی چوری ہو جائے اور مالک فوری طورپر قریبی پولیس اسٹیشن کو مطلع کردے تو ایسی گاڑی سے متعلق ’ریڈ الرٹ‘ جاری کردیا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ گاڑی کسی سکینر والے مقام سے گزرتی ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ چل جاتا ہے۔ یوں گاڑی چند منٹ سے زیادہ چوری ہو ہی نہیں سکتی۔ پاکستان میں اِسی قسم کا نظام موٹرویز ٹول ٹیکس کی وصولی کے لئے ’ای ٹکٹنگ‘ کے نام سے موجود ہے جس میں گاڑی کا نمبر‘ مالک کے کوائف وغیرہ درج ہوتے ہیں اور جیسے ہی گاڑی موٹروے کے کسی ٹول پلازہ پر پہنچتی ہے تو مقررہ رقم ازخود اکاونٹ سے منہا کر لی جاتی ہے اور گاڑی کے مالک کو ایک سیکنڈ کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ حد رفتار سے گزر جاتا ہے اور اسینکر (scanner) اپنا کام نہایت ہی خاموشی سے کر رہا ہوتا ہے۔ گاڑی چوری ہونے کی صورت فوری اطلاع کے لئے خصوصی ہیلپ لائن کا اجرأ‘ اُور اسکینرز پر مبنی گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام متعارف کرانے کے لئے زیادہ مالی وسائل کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی اضافی افرادی وسائل درکار ہوں گے۔ پولیس کے موجودہ رپورٹنگ سسٹم کو بھی ’ہیلپ لائن‘ سے جوڑا جا سکتا ہے‘ جہاں بذریعہ فون کال‘ ایس ایم ایس‘ یا آن لائن گاڑی چوری ہونے کی اطلاع دی جاسکے گی۔ اس سلسلے میں ہر گاڑی کو پولیس کے پاس پیشگی رجسٹر ہونا پڑے گا‘ جس کے بعد اُسے گاڑی کی ملکیت کا آئی ڈی کارڈ‘ اسٹیکر اور ایک ’پاس ورڈ (password)‘ جاری کیا جائے جس کا حوالہ دے کر وہ گاڑی کی چوری کی رپورٹ درج کرا سکے گا۔

غیرمقامی گاڑیوں کے لئے پشاور کے داخلی راستوں پر ’عارضی رجسٹریشن‘ کی سہولت کا بندوبست الگ سے کیا جاسکتا ہے۔ یوں نہ صرف پشاور میں گاڑیوں کی کل تعداد‘ کسی ایک شاہراہ پر‘ کسی خاص وقت میں ٹریفک کا دباؤ‘ وغیرہ جسی معلومات بھی جائزے کی صورت مرتب کی جاسکیں گی‘ جس سے شاہراؤں کی توسیع یا نئی شاہراؤں کی تعمیر سے متعلق فیصلہ سازوں کو رہنمائی مل سکتی ہے اور وہ زیادہ بہتر و حسب ضرورت‘ سائنسی بنیادوں پر ترقیاتی حکمت عملیاں تشکیل دے سکیں گے۔ ٹیکنالوجی کے بناء موجودہ مسائل و چیلنجز کا حل ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’کسی بوڑھے طوطے کو نئے کرتب نہیں سکھائے جا سکتے!‘
Technology is the answer for growing and much complex security needs

Tuesday, February 24, 2015

Feb2015: Appreciation for Research Fellows

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قدردانی
بائیس فروری کو ’خودفراموشی‘ کے عنوان سے ’غلام اِسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ (ٹوپی) صوابی میں کی گئی ایک تحقیق کا ذکر کیا گیا‘ جس سے متعلق مزید تفصیلات جاننے والوں کی اکثریت نے اِس اَمر پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ہمارے ہاں مقامی افراد کی صلاحیتوں اور تجربے سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا نہیں جاتا‘ جس کی وجہ سے نہ صرف تحقیق کے شعبے پر توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ ایسی زراعت (محنت) کرنا کوئی پسند نہیں کرے گا‘ جس سے حاصل وصول نہ ہو!‘‘ یاد رہے کہ ’اسحاق خان یونیورسٹی‘ کے طلباء نے گوبر یا شہری علاقوں میں ٹھوس گندگی کے استعمال سے ’بائیوگیس‘ بنانے کے ایسے چھوٹے منصوبے تیار کئے جن سے حاصل ہونے والی گیس کی مزید تطہیر کرکے اِسے بطور پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرتے ہوئے بجلی کا جنریٹر چلایا جاسکتا ہے۔ تکنیکی طور پر بائیو گیس تین گیسوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ 1: متھین (CH4)‘ 2: ہائیڈروجن سلفائیڈ (H2S) اُور 3: کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2)۔ متھین گیس میں شامل دیگر گیسوں کی وجہ سے اِس کا استعمال ’بطور پیٹرول و ڈیزل‘ نہیں کیا جاسکتا اور یہی وہ مشکل مرحلہ تھا‘ جس کا حل طلباء نے تحقیق سے کیا یعنی انہوں نے ’متھین‘کو علیحدہ کیا اور ایسا کرنے کے لئے بطور فلٹریشن ’عام پانی‘ استعمال کیا۔ پانی (H2O) میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر اِس میں گیسوں کو داخل کیا جائے تو اُن کی تطہیر ہو جاتی ہے اور خالص متھین حاصل ہو جاتی ہے جس کی خالص مقدار دیگر گیسوں کے مقابلے ’نوے فیصد‘ تک ہو سکتی ہے۔ گھروں میں آنے والی ’قدرتی گیس‘ بھی مختلف گیسوں کا مجموعہ ہوتی ہے جس میں متھین کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی گیس میں 70 فیصد حصہ متھین کا ہو تو وہ جلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ متھین کی مقدار اگر بہت کم ہو تو شعلہ نیلے رنگ کا ہوگا‘ جلے گا بھی لیکن اُس میں حرارت کم یا بالکل ہی نہیں ہوگی۔ بائیوگیس سے جب دیگر گیسیں علیحدہ کی گئیں تو متھین کی مقدار 70فیصد سے زیادہ تھی جو جلنے کے لئے قابل تھا۔ اب مرحلہ جنریٹر چلانے کا تھا جس کے لئے متھین 90فیصد درکار تھی۔ تب بائیو گیس میں پائی جانے والی متھین کی مزید تطہیر کی گئی اُور پانی سے گزارنے کے بعد حاصل شدہ گیس اِس قابل تھی کہ اُس سے جنریٹر چلایا جاسکتا۔

گھریلو پیمانے پر بائیوگیس کا جو یونٹ ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ میں تخلیق کیا گیا جو حجم (سائز) میں اِس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے گھر کی چھت پر پانی کی ٹینکی کی طرح رکھا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑے جبکہ شہری علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر ’بائیو گیس پلانٹس‘ پر لاگت کا تخمینہ ایک لاکھ روپے لگایا گیا ہے۔ جو سولر سسٹم کے مقابلے سستا‘ ماحول دوست اور بجلی کے حصول کا پائیدار ذریعہ ہے۔ پلانٹ نصب کرنے کے دس روز میں گیس کا حصول شروع ہو جاتا ہے جو دس پندرہ یا پچیس برس نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے کارآمد رکھا جاسکتا ہے اور گندگی ٹھکانے لگانے کا اِس سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔

یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں پشاور سے جمع ہونے والی گندگی کا استعمال بطور ایندھن کرنے کے لئے مضافاتی چمکنی گاؤں کے قریب ’پلانٹ‘ لگانے کے لئے جگہ کا انتخاب کیا گیا لیکن ابھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار زمین کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ اہل علاقہ نے احتجاج شروع کردیا اور اُس وقت کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر کو اپنے حلقہ انتخاب سے ہونے والی اِس ’زیادتی‘ سے آگاہ کیا۔ پھرایک جرگہ ہوا‘ جس میں متعدد فیصلے ہوئے بشمول گاؤں کی دو رویہ سڑک‘ تعلیمی اِدارے‘ ملازمتیں اور دیگر کئی ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ کیا گیا‘ جس کے لئے اربوں روپے خرچ کئے گئے۔ گاؤں والوں کو تو سہولیات مل گئیں لیکن پشاور میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے نے اِسی میں عافیت جانی کہ وہ واپس چلے جائیں! غلام اسحاق خان یونیورسٹی کے طلباء نے ’پاکستان سائنس فاؤنڈیشن‘ کے مالی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’بائیوگیس سے بذریعہ جنریٹر بجلی پیدا کر کے دکھائی‘ تو ذمہ داری سائنس فاؤنڈیشن ہی کی بنتی تھی کہ وہ اِس تحقیق سے بھرپور استفادہ کرتی۔ صوبائی حکومت کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں اُور وہ اپنے ہی صوبے میں ہونے والی تحقیق کو صنعتی پیمانے پر فروغ دے سکتی ہے۔

سال دو ہزار گیارہ میں غلام اسحاق خان اِنسٹی ٹیوٹ کے پانچ طلباء روشان مدثر‘ زبدالرحمان‘ جنید افتخار‘ شارون خلیل اور حماد اجمل خان نے بائیوگیس کا منصوبہ بعداز تحقیق مکمل کیا اور اُسے کامیابی سے چلانے کے بعد اعدادوشمار اساتذہ سمیت پورے ملک کے سامنے رکھ دیئے۔ بائیو گیس منصوبے کی نگرانی (سپروائزر) ڈاکٹر جاوید احمد چٹھہ اُور روس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خاسان کریموف نے کی تھی اور اِن دونوں اساتذہ نے طلباء کی تحقیق کے معیار اور دلچسپی و کامیابی کو دیکھتے ہوئے اُنہیں ’A‘ گریڈ دیا لیکن افسوس ہمارے ارباب اختیار نے اِس تحقیق سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھانے اور مقامی مسائل‘ اپنے ہی وسائل سے حل کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چیئرمین تحریک اِنصاف عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سے اِلتجا ہے کہ ۔۔۔ ’’وہ پہلی فرصت میں متبادل ذرائع سے ماحول دوست توانائی کے امکانات متعارف کرانے والے طلباء سے ملاقات کریں اور اُنہیں اعزازات سے نوازیں تاکہ اِس علم دوستی و قدردانی سے سائنس سمیت دیگر شعبوں میں تحریر و تحقیق کرنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو۔‘‘

Monday, February 23, 2015

Feb2015: Merit became extinct

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جاگتے رہو!
خیبرپختونخوا کے فرض شناس پولیس کے اعلیٰ انتظامی اہلکار ’محمد علی بابا خیل (پیدائش 12 مارچ 1969ء)‘ صحافت سے دلی تعلق رکھتے ہیں اور یہ لکھنے کے بعد اُن کے کسی اضافی تعارف کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک ایسے باصلاحیت شخص ہیں جنہوں نے خود کو دیگر ہم عصروں کی طرح چاردیواریوں اور مسلح دستوں کے درمیان محصور نہیں کر رکھا بلکہ وہ دل کی ہر بات اور ہر سوچ کو بیان کرنے کا ہنر جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنے علم پر ناز نہیں لیکن اِس بات کو ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ صائب الرائے بن کر دوسروں کی رہنمائی کریں۔ ’جاگتے رہو‘ کی صدائیں لگانے والے اِس درویش صفت شخص کی ’مستقل مزاجی‘ کا کیا ہی بیان ہو کہ وہ معروف اخبارات کے ادارتی صفحات پر مضامین کی صورت یا پھر سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر اِظہار خیال کرنے سے نہ تو گھبراتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کرنے سے جی چراتے ہیں‘ یقیناًاُنہیں اپنے آرام کا بہت سا وقت اُن مضامین کی تکمیل کے لئے وقف کرنا پڑتا ہوگا‘ جو اپنی جگہ ملک کی سیاسی تاریخ اور ہمارے گردوپیش کے حالات حاضرہ کا ’مخلصانہ بیان‘ ہوتا ہے۔ الفاظ کے چناؤ میں بھی باباخیل کے ہم پلہ کوئی اُور نہیں۔ وہ مختصر لیکن جامع انداز میں ایسی بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں‘ جن کی تشریح ابواب اور کتب کی صورت نثر میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوسکتی۔ سچ جیسی طاقت اور سچائی سے ملنے خوداعتمادی اُن کی شخصیت اُور قول و فعل کا ایسا درپردہ محرک ہے‘ جس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اِس کے وجود و گہرائی سے انکار ممکن نہیں۔

 بائیس فروری کی شام ’فیس بک‘ پر باباخیل نے انگریزی زبان کے محض ’چھ الفاظ‘ کا ایک جملہ تخلیق کیا‘ اور اُن اربوں الفاظ کے معانی سمیٹ کر بیان کر دیئے‘ جو آج کے پاکستان کا ’سب سے بڑا سچ‘ اور ہماری قومی ترقی کی راہ میں حائل ’سب سے بڑی رکاوٹ‘ ہے۔ باباخیل نے لکھا ’’پاکستان میں اہلیت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ محب الوطن باباخیل نے ’روبہ زوال اہلیت‘ کے معیار پر جس دُکھ کا اظہار کیا‘ اُس کے سیاق و سباق بھی ہوں گے اور اُن جیسے جہاندیدہ و تجربہ کار پولیس اہلکار کے سامنے ایسی مثالیں بھی موجود ہوں گی‘ جن کا اگرچہ اُنہوں نے حوالہ تو نہیں دیا لیکن درون خانہ حالات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے یہ بات اُنہی کے منہ سے وزنی دکھائی دیتی ہے۔ کاش ہم اُس دکھ اور تشویش کو سمجھ (بھانپ) سکیں‘ جس کی جانب باباخیل نے اِشارہ کیا ہے یا کم اَز کم خود میں اِتنی اِخلاقی جرأت ہی پیدا کر لیں کہ اپنے ہاں ’اہلیت کی رحلت‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کی تدفین میں شریک ہو جائیں۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ اداروں میں سیاسی مداخلت حسب سابق جاری بھی ہے اور تبدیلی کے نام سے انقلاب برپا کرنے والے اہلیت کی پاسداری کرنے سے متعلق روائتی بیانات داغنے کی شدت بھی کم نہیں ہوئی! فی الوقت سب کی نظریں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے ہونے والے ’سینیٹ (قانون ساز ایوان بالا)‘ کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں جن کے لئے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اپنا حق رائے دہی دینا ہے۔

خیبرپختونخوا کی حکمراں جماعت ’تحریک اِنصاف‘ کے سربراہ ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’’سینیٹ الیکشن کے لئے ایک ووٹ کی قیمت دو کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے۔‘‘ حالانکہ اُنہوں نے کسرنفسی سے کام لیا ہے اور مختلف حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ فی ووٹ قیمت ’پانچ سے پندرہ کروڑ روپے‘ کے درمیان ہے۔ عجب ہے کہ بائیس فروری کی شام ’اِلیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والی ’مبینہ بدعنوانیوں‘ کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایسا کرنے کے لئے اُس کے پاس آئینی اختیارات موجود ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے آئین میں ایک سے زیادہ شقیں (باسٹھ‘ تریسٹھ اور 218) کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے اِنعقاد کو ممکن بنانے کی آزادی دی گئی ہے اور اُمیدواروں کے لئے ’امانت و دیانت‘ جیسی شرائط کی موجودگی میں کسی اضافی قانون سازی کا جواز یا ضرورت بھلا کیا رہ جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ تو ’اہلیت کے فقدان‘ کا ہے۔ اگر دیگر قواعد و ہدایات کے ساتھ سینیٹ انتخابات کے ریٹرنگ آفیسرز کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وہ موبائل فون ساتھ لیجانے والوں‘ ووٹ ڈالنے سے قبل بیلٹ پیپر ظاہر کرنے‘ کسی قسم کا اشارہ یا ذومعنی و غیرضروری الفاظ کے ذریعے اپنے ووٹ کی اصلیت ظاہر کردیں تو ایسا ووٹ اُسی وقت منسوخ کر دیا جائے۔ اِس سلسلے ذرائع ابلاغ الیکشن کمیشن کی بہت مدد کر سکتے ہیں جنہوں نے ماضی میں بھی کئی مرتبہ اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اگر ’اہلیت فائز ہوتی‘ تو آج پوری دنیا کے سامنے پاکستانی جمہوریت ایک ’تماشا اُور مذاق‘ نہ سمجھا جاتا۔

 آخر کیا وجہ ہے کہ سینیٹ کا ووٹ خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر رکھا گیا ہے‘ جبکہ سبھی جماعتوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں عیاں ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ بائیس فروری کی شام پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین کے لئے ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فنڈز سینیٹ انتخابات سے قبل جاری کئے جائیں گے‘ کہیں یہ سینیٹ کے ووٹوں کی خریداری تو نہیں ہورہی لیکن قیمت قومی خزانے سے ادا کی جا رہی ہے؟
سینیٹ انتخابات اور اِن میں حصہ لینے والوں کی اہلیت و اصلیت سے قوم بخوبی آگاہ ہے‘ جن کے پاس مسائل کا حل نہیں بلکہ وہ خود ایک ایسا مسئلہ بنے ہوئے ہیں‘ جس کا حل ناگزیر حدوں کو چھو رہا ہے! ’’تھا مگر ایسا اکیلا میں کہاں تھا پہلے۔۔۔میری تنہائی مکمل تیرے آنے سے ہوئی!‘‘
In PAKISTAN MERIT rapidly became extinct

Sunday, February 22, 2015

Feb2015: Pic Story: The Poverty

SO SORRY BOY: Someone trash is other treasure! Child is garbage scavenger for living. The provincial govt of #PTI promised to send every child to school but many (20%) are out of schools. Primary education should be least priority for such kids earned less than a US Dollar (Rs: 100) for such filthiest job. (ALL PICTURES TAKEN IN GULBAHAR, Peshawar City, ON FEBRUARY 22, 2015).

Feb2015: Plantation minus agriculture

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زراعت محروم توجہ کیوں؟
دنیا جانتی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ اَمریکہ کا خلائی پروگرام ’نیشنل ایروناٹیکل اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا)‘ نامی ادارہ یکم اکتوبر 1958ء سے فعال ہے اور اِس ’غیرفوجی اِدارہ‘ سے تعلق رکھنے والے مختلف سائنسی علوم کے ماہرین خلأ میں زندگی کی تلاش کے علاؤہ ہمارے نظام شمسی پر بھی نظر رکھتے ہیں لیکن یہ بات عمومی مطالعے و مشاہدے کا حصہ نہیں کہ ’ناسا‘ کی نظریں صرف خلأ پر ہی نہیں جمی ہوئیں بلکہ یہ ادارہ کشش ثقل سے آزاد ہو کر انتہائی بلندیوں سے زمین کی طرف پلٹ کر بھی دیکھتا ہے اور یہ ’ناسا‘ ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے کہ زمین پرموجود سایہ دار یا بناء سایہ دار درختوں کی کل تعداد معلوم ہوئی ہے۔ اِس تحقیق کو اگر اب تک کی اِنسانی تاریخ کا سب سے بڑا اُور ’’اِنتہائی غیرمعمولی واقعہ‘‘ قرار دیا جائے‘ تو غلط نہ ہوگا کہ ۔۔۔ ’’کرۂ ارض پر زندہ انسانوں کی طرح درختوں کا شمار کر لیا گیا ہے‘‘ اُور ایسا کرنا قدرت ہی کی طرف سے درختوں کا عطا کردہ ایک ایسی صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے‘ جس میں ہر شجر ایک خاص قسم کی روشنی منعکس کرتا ہے اور یہ روشنی صرف اور صرف خلاء ہی سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ’ناسا‘ کے ماہرین ہمارے موسموں اور سمندروں کے مزاج کا تعین کر رہے تھے تو اُن پر یہ حقیقت آشکارہ ہوئی اور پھر درختوں سے منعکس ہونے والی روشنی کی بنیاد پر دنیا میں موجود ہر ایک درخت کو شمار کر لیا گیا!

 سال 2005ء میں کی گئی اِس تحقیق سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کل 400 ارب چوبیس کروڑ‘ تریسٹھ لاکھ‘ دو سو ایک درخت تھے! اُسی سال اکتیس دسمبر تک دنیا کی آبادی کم و بیش چھ ارب‘ پینتالیس کروڑ‘ ستاسٹھ لاکھ‘ اُناسی ہزار‘ آٹھ سو ستتر افراد پرمشتمل تھی‘ یعنی سال 2005ء میں سائنسی بنیادوں پر کی گئی تحقیق سے نتیجہ اَخذ ہوا کہ دنیا میں ہر ایک فرد کے تناسب سے 61 درخت موجود ہیں لیکن ماہرین نے درختوں کی اِس تعداد کو ناکافی قرار دیا‘ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ انسان وہ ذی شعور و عقل مخلوق ہے‘ جسے اپنی اصل تباہی کے محرک کا علم ہی نہیں کہ ’درختوں میں اُس کی جان ہے‘ اور یوں ہر سال درختوں کی تعداد کم ہونے کا شمار ماحول سے متعلق ماہرین و باشعور افراد کی تشویش میں اضافے کا سبب ہے!

جنگلات کی اقسام سطح سمندر سے بلندی کے تناسب سے طے کی جاتی ہیں۔ سطح سمندر سے ’بارہ ہزار فٹ‘ یا اِس سے بلندی پر پائے جانے والے جنگلات کو ’الپائن سبزہ زار (Alpine Pasture)‘ کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے دس سے بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ’جزوی الپائن سبزہ زار (Sub Alpine Pasture) کہلاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 5500 سے 5800 فٹ بلندی پر واقع علاقوں کو ’ہوا میں پائی جانے والی رطوبت (Humidity)‘ کے تناسب سے شناخت کیا جاتا ہے جو ’نمدار درجہ حرارت والے جنگلات (Moist Temperate Forest) کہلاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 8 ہزار تا 10 ہزار فٹ کی بلندی اور اوسطاً پانچ سے پندرہ سنٹی گریڈ درجہ حرارت رکھنے والے علاقوں میں ’خشک موسمی جنگلات (Dry Temperate Forest) پائے جاتے ہیں۔ سطح سمندر سے 3 ہزار تا 5 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر جہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 32 سینٹی گریڈ ہو ’جزوی گرم چیڑپائن جنگلات (Sub-tropical Chir Pine Forest) ملتے ہیں۔ سطح سمندر سے 1500 تا 3500 فٹ کی بلندی پر جہاں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ اور کم سے کم 10 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے‘ وہاں کے جنگلات کو ’ہمہ وقت سرسبز (evergreen forest)‘ میں شمار کرتے ہیں۔ پانچ دیگر عمومی اِقسام کے جنگلات میں آبپاشی کے ذریعے مصنوعی طریقوں سے بھی درخت لگائے جاتے ہیں‘ جن کا مقصد سوختہ (ایندھن) یا تعمیراتی کام کے لئے لکڑی کا حصول ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان کے کل جنگلات کا 20فیصد حصہ پایا جاتا ہے‘ جسے بچانے اور اِس میں اضافہ کرنے کے لئے ’ایک ارب درخت‘ لگانے کی مہم کا آغاز 21 فروری کے روز ضلع ہری پور کے مقام سے کیا گیا‘ تاہم ضرورت زرعی شعبے پر توجہ دینے کی بھی ہے اور اگر خیبرپختونخوا حکومت ’ایک ارب درخت (سونامی) مہم‘ میں زرعی شعبے کو بھی شامل کر لیتی ہے تو ’ایک تیر سے دو شکار‘ یعنی ’سرسبز زرعی انقلابی تبدیلی‘ لائی جاسکتی ہے جس سے تیلدار اجناس کی پیداوار سمیت غذائی خودکفالت کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے لیکن خواب کی صورت نازل ہونے والے خیالات پر عملدرآمد کرنے والے ارباب اختیار جس طوفانی جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ اس کی وجہ سے ماضی میں بھی ایسی ہی درجنوں ’شجرکاری مہمات‘ سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے!

انسان کی طرح اَنوکھی تخلیق ’’درخت‘‘ کی حیثیت عمومی معدنی ذخائر جیسا کہ تیل و گیس (ایندھن کے ذرائع) جیسی نہیں کہ اگر اِن سے ایک مرتبہ اِستفادہ کر لیا جائے‘ تو یہ پھر سے حاصل (renew) نہیں کئے جا سکتے۔ یقیناًپاکستان جیسے ملک کہ جہاں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں اور تنازعات بالخصوص گذشتہ بارہ برس سے اُنہی (قبائلی و بالائی بندوبستی) علاقوں کو مرکز بنائے ہوئے ہیں‘ جہاں کبھی گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے‘ اِس لئے دہشت گرد کارروائیوں کی روک تھام کے علاؤہ ’امن کی بحالی‘ اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ہمیں ہم وطنوں (انسانوں)کی طرح اپنے ہاں اَشجار کی سلامتی بھی عزیز ہے! قیام پاکستان کے وقت جنگلات ملک کے مجموعی رقبے کے کم اَز کم 6 فیصد حصے پر مشتمل تھے‘ جو ماہرین کے بقول سال دو ہزار چودہ کے اِختتام تک 2 فیصد سے بھی کم رقبے پر محیط بھی ہیں اُور سال بہ سال سکڑ بھی رہے ہیں! گذشتہ ہفتے ’زرعی یونیورسٹی فیصل آباد‘ کے زیراہتمام منعقدہ ’ابلاغیات کی صلاحیت اور زراعت‘ کے عنوان سے منعقدہ نشست کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اِس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ۔۔۔’’جنگلات کا رقبہ 2فیصد سے کم رہ گیا ہے جبکہ زرعی شعبے کی ترقی پر بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی جارہی!‘‘ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ’شعبہ زراعت‘ کے سربراہ (ڈین) پروفیسر ڈاکٹر محمد اشفاق نے اِس امر کی جانب توجہ دلائی کہ ۔۔۔ ’’ہمیں شجرکاری کے ساتھ ایسے پودے بھی اُگانے ہیں جو ہمارے لئے اجناس‘ دودھ اُور گوشت جیسی ضروریات پوری کر سکیں۔‘‘ اُنہوں نے بطور خاص ’موریناگا (Morinaga)‘ نامی پودے کا ذکر کیا‘ جس میں مالٹے کے مقابلے سات گنا زیادہ ‘حیاتین سی‘ اُور گاجر کے مقابلے چار گنا زیادہ ’حیاتین اے‘ ہوتی ہے‘ یاد رہے کہ حیاتین (وٹامن) وہ نامیاتی مادہ ہے جو اِنسان و دیگر جانداروں کے جسم میں مناسب استحالے کے لئے روزمرہ خوراک کا لازمی جز قرار دیا جاتا ہے۔ اِسی طرح ’موریناگا‘ پودا دُودھ دینے والے جانوروں کو اَگر بطور چارہ کھلایا جائے تو اِس سے دودھ کی 43 فیصد زیادہ پیداوار حاصل ہوگی۔

خیبرپختونخوا حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’ایک ارب‘ درخت اُگانے کا ہدف مقرر کرنے کے بعد کثیرالجہت منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے‘ جس سے ماحول دوست افراد کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ماضی کی طرح روائتی ’شجرکاری مہمات‘ کے مقابلے موجودہ مہم کس قدر مختلف ثابت ہوتی ہے اور درد میں آرام کے لئے صرف ’پین کلر (pain killer)‘ ہی پر اِکتفا کیا جاتا ہے یا اُس عارضے کا علاج بھی کیا جاتا ہے‘ جو سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت‘ بااثرشخصیات کی مالی و انتظامی بدعنوانیوں اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے بڑھتے‘ پلتے رجحان کے سبب ناسور (سرطان) کی شکل اِختیار کر چکا ہے!

Chairman Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) Imran Khan started tree plantation campaign by planting sapling here in Makeyani area of Haripur on Feb 21, 2015. According to details, Imran Khan said that one billion trees would be planted in next 5 years, and a volunteer force would be established in this regard in KPK. On the occasion, PTI Central Deputy General Secretary Dr. Raja Amir Zaman,ex-provisional Minister Yousaf Ayub Khan, students and other notables were also present.PTI Chairman said all out efforts would be made to protect the forest and stren action would be taken against illegal timber cutter.Plantation drive in schools would also be started, he added.

Friday, February 20, 2015

Feb2015: Self Deception

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خود فراموشی
توانائی بحران کا حتمی حل ’شمسی توانائی‘ سمجھنے والوں نے پشاور سمیت مرکزی شہروں کی گلی کوچوں اور شاہراؤں (’سٹریٹ لائٹس‘) کو روشن رکھنے کے علاؤہ ’خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں کو ’درآمد ٹیکنالوجی‘ سے روشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایک سال کے عرصے میں ’’200 ایسے دیہی علاقوں میں 5800 گھروں کو منور کیا جائے گا‘ جہاں اِس سے قبل بجلی فراہم نہیں کی جا سکی۔‘‘ یہ اقدام ایک لحاظ سے تو قابل ستائش ہے کہ حکومت کو کم ازکم دورافتادہ دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا خیال آیا ہے‘ جن کی معاشرت میں ’بجلی‘ نام کی شے اور اس سے ظہورپذیر ہونے والے کرشموں کا وجود نہیں۔ توانائی بحران کی وجہ سے بجلی کے موجودہ ترسیلی نظام میں توسیع کا عمل سالہا سال سے معطل ہے‘ جس میں بہتری کے فوری آثار نہیں لیکن محرومی صرف برقی رو ہی کی نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں ’قدرتی گیس‘ کی فراہمی نہ ہونے سے بھی کئی ایک مسائل بکھرے پڑے ہیں۔ گیس (Natural Gas) جو کہ ایک سستا ایندھن ہونے کے علاؤہ ماحول دوست ذریعہ ہے اُور جن علاقوں میں تاحال قدرتی گیس فراہم نہیں کی گئی‘ وہاں کے رہنے والے اِیندھن کے لئے جنگلات سے لکڑی حاصل کرتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جنگلات پر بوجھ کے منفی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور رواں برس جس انداز میں موسم سرما بناء بارشوں یا پہاڑی علاقوں میں برف باری کے بغیر گزرا ہے‘ اُس سے لامحالہ زراعت کا شعبہ‘ پیداوار اور بارانی علاقوں میں سبزی و اناج کی فصلیں متاثر ہوں گی‘ سبزی کی قیمتیں جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ اگر مزید بڑھ جاتیں ہیں تو یہ اُن غریب طبقات کے لئے خریدنا مشکل ہو جائیں گی جو پہلے ہی گوشت کا ذائقہ بھول چکے ہیں! لہٰذا صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ’ماحول دوستی اور دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بحرانوں کا حل تلاش کرے اور اس سلسلے میں نظرانتخاب چھوٹے پیمانے پر ’بائیوگیس منصوبوں‘ پر ہونی چاہئے۔

حکومتی سرپرستی درکار ہے کہ گھریلو (چھوٹے) اور صنعتی (بڑے) پیمانے پر بائیوگیس پلانٹس کی تیاری‘ اُن کی دیکھ بھال کی تربیت و دیگر متعلقہ تکنیکی علوم کے ساتھ ’فنی تربیت‘ عام کی جائے کیونکہ ’شمسی توانائی‘ کے لئے درکار جملہ آلات درآمد کئے جاتے ہیں جس کے بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے جبکہ اِس کے مقابلے اگر ’بائیو گیس منصوبوں‘ کی ’حوصلہ افزائی‘ کی جاتی ہے تو اِس سے نہ صرف (بذریعہ جنریٹر) بجلی پیدا کی جاسکے گی بلکہ زرعی ٹیوب ویل بھی چلائے جاسکیں گے اور اِس بارے میں کہیں اُور دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ خیبرپختونخوا ہی کے ضلع صوابی کے گاؤں ’ٹوپی‘ میں قائم ’غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجنیئرنگ سائنسیز اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے ذہین طلباء نے کئی سال پہلے ایک حل متعارف کرایا تھا‘ جس کے مطابق اِنتہائی چھوٹے پیمانے پر بائیوگیس پلانٹ صرف دیہی علاقوں ہی میں نہیں بلکہ شہری علاقوں میں گھروں کی چھتوں پر نصب کئے جا سکتے ہیں اور اُن سے اِس قدر گیس حاصل ہو سکتی ہے جس سے کھانا پکانے کے علاؤہ بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر تک چلایا جا سکے (یعنی ایک کنبے کی ضروریات پوری ہو سکیں) لیکن اُن طالبعلموں نے جب سالانہ نمائش میں اپنا منصوبہ پیش کیا تو انہیں داد اور تعریفی اسناد سے زیادہ کچھ نہیں دیا گیا! یاد رہے کہ ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ ہی کے طلباء نے ڈرون طیاروں کی طرز پر بناء پائلٹ ہوائی جہاز کے نمونے (ماڈلز) بنا کر اُن کی پروازوں کے عملی مظاہرے بھی کئے لیکن مجال ہے جو ارباب اختیار کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ہم امریکہ سے ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی التجائیں کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے ہاں تحقیق کی سرپرستی کے لئے تیار نہیں۔

بات صرف غلام اسحاق خان یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں بلکہ ہمارے ہاں انجنیئرنگ یونیوسٹیوں (جامعات) میں ایک سے بڑھ کر ایک تحقیق ہو رہی ہے جس سے استفادہ کرکے درپیش (بالخصوص توانائی) بحرانوں اور سیکورٹی چیلنجز سے نجات ممکن ہے لیکن فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں کی اپنی اپنی ترجیحات اور نکتۂ نظر ہے۔ ہمیں اِس بات میں بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہر چیز درآمد کریں۔ ہمیں اپنے مسائل کا حل بھی درآمد کرنے میں مزا آتا ہے اور حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مشاورت تک کے عمل میں بیرونی ملک پلنے والی ذہانت پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ صنعتی و ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کے پڑھے لکھے لوگ‘ سائنس دان اُور تحقیق کار اپنی ذہانت و صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں نہ تو عالم کی قدر ہے اور نہ ہی علم و تحقیق کی کماحقہ حوصلہ اَفزائی سرکاری سطح پر کی جا رہی ہے۔

خود فریبی اور خود فراموشی کی اِس سے عمدہ و بدترین عملی اشکال اُور کیا ہوں گی کہ فیصلہ ساز قومی خزانے سے خرچ کرتے وقت نہ تو اپنی چادر (مالی حیثیت) کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ اُنہیں چادر سے باہر نکلے ہوئے اپنے پاؤں دیکھ کر عار محسوس ہوتی ہے! خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ 9 ماہ کے دوران ’200دیہات‘ میں فی دیہی علاقہ 29 گھروں کو شمسی توانائی فراہم کرنے کے لئے 40 کروڑ روپے (30 لاکھ 94 ہزار امریکی ڈالر) مختص کئے ہیں! جسے ’گرین گروتھ انیشیٹیو‘(Green Growth Initiative) کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو اِس منصوبے کا اعلان ایک سال قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبرپختونخوا میں حکومت بننے کے فوراً بعد کر دیا تھا‘ لیکن اِسے عملی جامہ پہنانے اور منصوبے کے خدوخال وضع کرنے میں چار خصوصیات کی بطور خاص تشہیر کی گئی ہے کہ 1: شمسی توانائی منصوبے سے خیبرپختونخوا میں اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔ 2: قدرتی وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہوگا۔ 3: توانائی کا صاف ستھرا ذریعہ میسر آئے گا اور 4: جنگلات کی کٹائی کم ہوگی۔ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کا 40فیصد حصہ بجلی سے محروم ہے اور شمسی توانائی منصوبے سے صرف 10فیصد حصے میں رہنے والوں کو بجلی جیسی ’نعمت‘ مل پائے گی لیکن صرف اُن خوش نصیبوں کو جن کا گھر فی دیہی علاقہ 29گھروں کی فہرست میں شامل ہوگا۔ یہ تفصیلات دستیاب نہیں کہ کسی دیہی علاقے میں 29 خوش نصیب گھروں کا انتخاب کون کرے گا‘ جنہیں مفت شمسی توانائی کے آلات دیئے جائیں گے لیکن ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کی طرح اِس منصوبے کے پہلے مرحلے میں یقیناًاُنہیں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی سفارشات پر فہرستیں مرتب کی جائیں گی‘ جو حکمراں یا اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی کے اِس بے معنی اور غیرپائیدار ’طرزِ فکر و عمل‘ کی بدولت اندیشہ ہے کہ چالیس کروڑ (چار سو ملین) روپے تحلیل ہو جائیں گے۔

توانائی کی اِس حکمت عملی کے تحت حکومت 90فیصد شمسی آلات کی قیمت ادا کرے گی جبکہ 10فیصد حصہ صارف کو ادا کرنا ہوں گے اُور فی گھرانہ 200 واٹ کا ایک سولر پینل‘ 2 عدد بیٹریاں‘ دیگر آلات جن کی مدد سے ایک عدد چھت کا پنکھا‘ ایک عدد فرشی (پیڈسٹل) پنکھا‘ تین عدد ایل ای ڈی لائٹس (LED) بلب روشن کئے جاسکیں گے جبکہ 2 عدد موبائل فون چارج (charge) کرنے کی سہولت بھی ایک ’سولر پاور سسٹم‘ کا حصہ ہوگی۔ مجموعی طور پر خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے رہنے والوں کو شمسی توانائی کے ذریعے 1.2میگاواٹ بجلی کی فراہم ممکن ہوگی۔ یہ امر بھی زیرغور رہے کہ خیبرپختونخوا میں بجلی کی کل ضرورت 2500میگاواٹ ہے جبکہ قومی ترسیلی نظام (نیشنل گرڈ) سے 1600میگاواٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے‘ جس سے شہری و دیہی علاقوں میں بجلی کی اعلانیہ و غیراعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔

اگر ’غلام اسحاق خان یونیورسٹی‘ کے طلباء کی تحقیق سے فائدہ اُٹھایا جائے‘ تو چالیس کروڑ روپے کی رقم سے زیادہ بڑے پیمانے پر بجلی جیسی بنیادی ضرورت اور ماحول دوست توانائی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے لیکن ایسا صرف اُور صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ہم نمائشی اقدامات‘ خودستائش‘ خودفریبی اور خودفراموشی جیسی کیفیات سے نجات پالیں‘ جنہوں نے ہمارے سننے‘ سوچنے‘ سمجھنے اور دیکھنے کی صلاحیتیں سلب کر رکھی ہیں! ’’آخری عشق کی حالت ہو تو یہ ہوتا ہے۔۔۔ کوئی منظر بھی نہ ہو اُور نظارہ کئے جائیں!‘‘
Published version - Feb 22, 2015 Daily Aaj Peshawar /Abbottabad
CAPTION: Solar streetlights being installed at Peshawar Cantt.
NEWS ITEM: Khyber Pakhtunkhwa plans to supply solar power to 5,800 off-grid households in 200 villages, promoting clean energy amid conventional electricity shortages. The provincial government has earmarked Rs400 million ($3.94m) for the nine-month solar project, which will equip up to 29 households in each village. The scheme is part of the Green Growth Initiative launched a year ago in Peshawar by Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) Chairman Imran Khan.

Feb2015: Rejected & Neglected Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: راندۂ درگاہ!
اِنتظار اور زحمت کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں! خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور کے لئے ’میٹرو بس‘ کا ایک ’’نیا منصوبہ‘‘ تخلیق کیا ہے جس پر 18 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ خطیر رقم ’ایشیائی ترقیاتی بینک (ایشین ڈویلمپنٹ بینک)‘ سے قرض کی صورت حاصل کرنے کے لئے وفاقی حکومت کو منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ پشاور کے رہنے والوں کو میٹرو بس کا تحفہ کب ملتا ہے‘ اِس کا انحصار اب صوبائی حکومت پر نہیں رہا بلکہ وفاقی حکومت کی جانب سے فراخدلی‘ اعلیٰ ظرفی اور سخاوت کے بروقت اظہار سے توقعات وابستہ کر لی گئیں ہیں!

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور شہر میں 45 مسافر بسیں 29 اسٹیشنوں کے درمیان 27 کلومیٹر سڑک پر برق رفتار (’Bus Rapid Transit‘) تعمیر کی گئی ہے اور یہ سفری سہولیات گیارہ فروری دو ہزار تیرہ سے فعال ہیں جبکہ جڑواں شہر روالپنڈی سے اسلام آباد کے درمیان 24 بس اسٹیشنوں پر مشتمل 24 کلومیٹر میٹروبس منصوبہ زیرتعمیر ہے‘ اِن دونوں منصوبوں کی طرز پر ’پاکستان تحریک انصاف‘ نے پشاور کے لئے بھی ’میٹروبس‘ کا ایک سے زیادہ مرتبہ اعلان کیا لیکن دیگر ترجیحات اور منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات کی بابت تنقید کی بناء پر یہ منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔ اِس مرتبہ اَزسرنو مرتب ہونے والے ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ کی لاگت کم کرنے کے لئے اِسے موٹروے کی طرز پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی دیگر شہروں کی طرح الگ سے پل (bridge) بنا کر ’میٹرو بس‘ کے لئے سڑک نہیں بنائی جائے گی بلکہ ’چمکنی سے کارخانو مارکیٹ‘ براستہ ’جی ٹی روڈ‘ ایک راہداری مخصوص ہوگی جس کے اطراف میں خاردار تاریں اور جنگلے نصب ہوں گے جبکہ سڑک (street level) پر تیز رفتار مسافر بسیں فراٹے بھریں گی۔ اِس منصوبے کو ماحول دوست‘ محفوظ و آرام دہ سفری سہولت کے علاؤہ توانائی کی بچت کے ساتھ‘ پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ منصوبے کے خدوخال کے مطابق 17 کلومیٹر سڑک و گاڑیوں پر مشتمل اَٹھارہ ارب روپے کے اِس کثیرالمقاصد منصوبے کے لئے کاغذی کارروائی پر ایک ارب جبکہ اس کی عملاً تعمیر کے دیگر مراحل پر 17ارب روپے لاگت آئے گی{۔ چونکہ پشاور میں ترقی کا عمل عرصہ دراز سے سست روی کا شکار ہے‘ اِس لئے ایک بڑے میگا منصوبے کے بارے میں جان کر خون کی گردش تیز ہونا فطری عمل ہے لیکن تجویز ہے کہ ’میٹرو بس منصوبہ‘ مرحلہ وار انداز میں تعمیر کیا جائے‘ تو اِس کے لئے درکار مالی وسائل کسی غیرملکی مالیاتی ادارے سے مشروط قرض کی صورت حاصل کرنے کی حاجت نہیں رہے گی۔ پہلے مرحلے میں ’میٹروبس‘ کے لئے منتخب راہداری کے لئے جن ماہرین نے چمکنی سے کارخانو مارکیٹ (حیات آباد) کا راستہ چنا ہے‘ اُن کے سامنے رنگ روڈ (Ring Road) کا نقشہ رکھنا چاہئے تاکہ معطل ترقیاتی عمل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر ’ماہرانہ غور و خوض‘ ہو۔ مجوزہ پشاور میٹرو بس منصوبے کی تیاری کے لئے تیس ماہ اُور اٹھارہ ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے‘ جبکہ منصوبے کی وفاقی سطح پر منظوری‘ قرض کی قسط وار وصولی‘ منصوبہ بندی (کاغذی کارروائی یعنی پی سی ون کی تیاری)‘ زمینی جائزے وغیرہ شروع ہونے میں مزید 10 سے 12ماہ لگ سکتے ہیں! اِس بارے میں بھی غور ہونا چاہئے کہ ۔۔۔ پشاور کے پاس نسبتاً کم لاگت‘ کم وقت اور ’زیادہ مؤثر‘ آمدروفت کے دیگر ممکنہ وسائل (ذرائع) کیا ہیں؟

کون نہیں جانتا کہ چمکنی سے حیات آباد تک ’رنگ روڈ‘ کا ایک حصہ پشاور کی ٹریفک کے لئے شہ رگ جیسی اہمیت رکھتا ہے‘ جس کے استعمال سے بذریعہ موٹروے آنے والوں یا مقامی افراد کی بھی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ ملحقہ دیہی و شہری علاقوں کے علاؤہ کوہاٹ (جنوبی اضلاع)‘ ائرپورٹ‘ صدر‘ یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد کی رہائشی و تجارتی علاقوں تک رسائی کے لئے جی ٹی روڈ‘ خیبرروڈ‘ حیات ایونیو‘ جمرود روڈ کی بجائے رنگ روڈ کا ہی اِستعمال کریں لیکن اِس رنگ روڈ کا دوسرا حصہ جس نے چارسدہ روڈ براستہ ورسک روڈ اُور حیات آباد کو ملانا ہے‘ کی تعمیر مکمل نہیں کی جاسکی اور اگر ’پشاور میٹروبس منصوبے‘ سے قبل ’باقی ماندہ رنگ روڈ‘ کا کام مکمل کرلیا جائے تو اس سے ’ریگی للمہ ٹاؤن شپ‘ جیسے بڑے رہائشی منصوبے کو بھی ترقی ملے گی اور آبادکاری کا عمل تیز ہو جائے گا۔ ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل کے بعد سڑک کی ’میٹرو بس منصوبے‘ کی طرز پر ’ریل گاڑی‘ کے اُس ٹریک سے استفادہ کیا جائے جو پہلے ہی چمکنی سے حیات آباد تک بچھا ہوا ہے اور ریلوے کے زیراستعمال بھی نہیں۔

وفاقی حکومت سے قرض لینے کی درخواست کرنے کی بجائے اگر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ ریلویز اپنے وسائل کو ترقی دیتے ہوئے پشاور شہر کے لئے ’میٹرو ٹرین‘ کا منصوبہ شروع کرے‘ تو اِس کے لئے نہ تو زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے اور نہ ہی تیس ماہ جیسا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ جی ٹی روڈ کو کشادہ کرنے کے امکانات بھی کم ہیں اور ٹریفک کے دباؤ کی وجہ سے اِس مصروف ترین شاہراہ پر مزید ترقیاتی کام بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جبکہ تک ’رنگ روڈ‘ کے باقی ماندہ حصے کی تکمیل نہیں ہوجاتی۔ ماضی کی ’بابو ٹرین‘ جیسی سہولت کا آغاز پشاور سٹی کے ریلوے اسٹیشن سے حیات آباد تک کیا جا سکتا ہے‘ جو برقی و شمسی توانائی ذرائع (ہائبرڈ) ہونے کے ساتھ محفوظ و تیزرفتاری کے لئے دو رویہ ہونی چاہئے۔

پشاور کی بدقسمتی نہیں تو اُور کیا ہے کہ موجودہ دور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان خوشگوار و گرمجوش تعلقات کے فقدان سے عبارت ہے۔ اسلام آباد و پشاو کے درمیان کبھی بھی فاصلے اتنے زیادہ نہیں رہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی‘ الگ الگ سیاسی اہداف‘ شہری ترقی و بہبود کے الگ الگ نظریات‘ آئندہ عام انتخابات پر نظریں اور ترقیاتی عمل سے متعلق ترجیحات کے تعین بارے میں تصورات کی آپس میں مماثلت نظر نہیں آتی لیکن ’نیک نامی و مقبولیت‘ حاصل کرنے کے مواقعوں پر نظر رکھنے والوں کے ’پیش نظر‘ پشاور کے اُس متوسط و غریب طبقات کی مشکلات نہیں‘ جن کے پاس ذاتی سفر کے وسائل نہیں۔ طالبعلموں بالخصوص طالبات اور ملازمت پیشہ‘ بزرگ و معمر افراد کو ہر روز آمدورفت کی صورت جن ناخوشگوار تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بعد کوئی بھی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا‘ جس سے عام آدمی کو درپیش (اندرون یا بیرون شہر) سفری مشکلات میں کمی آتی! التجائیہ ضرورت ہے کہ وفاقی حکومت اَزخود پشاور کی مشکلات و ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اِس ’راندۂ درگاہ شہر‘ کی ترقی کے لئے ’میگا پراجیکٹس‘ کے اعلانات کئے جائیں۔ پانچ شعبے یعنی پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ ٹھوس گندگی ٹھکانے لگانے کا خاطرخواہ بندوبست‘ نکاسی آب کے منصوبوں کی اصلاح‘ ذرائع آمدروفت کی توسیع اُور صحت و تعلیم کی سہولیات میں خاطرخواہ (حسب آبادی) اِضافہ عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔

 بہرکیف اَب دیکھنا یہ ہے کہ اگر بات ’میٹرو بس منصوبے‘ کے ایک نئے تصوراتی خاکے سے شروع ہوئی ہے تو ’پشاور سے اسلام آباد‘ کے درمیان ’’آتے جاتے اُور جاتے آتے‘‘ یہ حکمت عملی ماضی کی طرح کس مقام پر تحلیل ہو جائے گی! ’’آنکھیں تمہارے ہاتھ پہ رکھ کر میں چل دیا ۔۔۔ اب تم پہ منحصر ہے کہ کب دیکھتا ہوں میں!‘‘

Khyber Pakhtunkhwa (KP) government led by the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) has made the final decision to build a metro in Peshawar at a cost of Rs18 billion (or $180 million) through the Asian Development Bank (ADB) loan and plans to complete it in 30 months

Thursday, February 19, 2015

Feb2015: After Rain Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: بارشیں ہیں بارشوں کے بعد بھی!
موسم سرما کا بیشتر حصہ ’خشک‘ بسر کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئی ہیں اور اٹھارہ فروری بعداز دوپہر بارش کا سلسلہ رواں ماہ کا دوسرا سلسلہ ہے‘ جو چوبیس گھنٹے سے جاری جبکہ مزید بیس فروری تک بارش ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ ابھی بادل کھل کر نہیں برس رہے لیکن پشاور کے سبھی نشیبی علاقے زیرآب آنے سے اہل علاقہ مشکلات کا شکار ہے جو کسی بھی طور صوبائی دارالحکومت شہر کے شایان شان نہیں۔ بالخصوص جی ٹی روڈ سے ملحقہ سیٹھی ٹاؤن‘ نشترآباد اور گلبہار سے نکاسئ آب حسب ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی شدت صرف وہی جانتے ہیں‘ جو اِن رہائشی و تجارتی سے کسی نہ کسی طور وابستہ ہیں۔ جنرل بس اسٹینڈ اُور ٹرک اسٹینڈ میں یوں تو سارا سال ہی پانی کے تالاب اور کیچڑ سے بھرے گڑھے ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتے ہیں لیکن ہلکی سی بارش کے بعد تو اِن پبلک مقامات سے صرف تجربہ کار و راستوں سے آشنا ہی استفادہ کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کی مالی معاونت سے جی ٹی روڈ پر ’گرین بیلٹ‘ بحال کی گئی اور اِس کے کچھ حصے راتوں رات سرسبز بنا دیئے گئے لیکن چونکہ ترقیاتی عمل سے ’فوری نتائج‘ حاصل کرنا ترجیح تھی‘ اِس لئے رحمان بابا چوک سے چغل پورہ تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف ذیلی سڑکیں اور نکاسئ آب کے اُس نظام کی اصلاح نہیں ہوسکی‘ جس نے ترقی کے پورے عمل کو ’بے معنی‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ہاں مالی وسائل خرچ کرتے ہوئے ’پائیدار‘ اور ’معیاری‘ جیسے پہلوؤں کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور یہی وجہ رہتی ہے کہ ہر ایک تعمیر کے بعد مزید تعمیرات کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے سڑک بنائی جاتی ہے‘ پھر اُسے کھود کر نالے نالیاں کشادہ کی جاتی ہیں یا پانی کے پائپ بچھائے جاتے ہیں یا بجلی کے کھمبے‘ گیس کے ترسیلی پائپ یا ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ‘ آپٹیکل فائبر کی کیبل بچھانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ آخر کسی سڑک کی تعمیر سے قبل دیگر متعلقہ محکموں سے مشاورت کیوں نہیں کی جاتی کہ جس کسی نے اپنی اپنی سہولیات کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو‘ تو وہ سڑک و فٹ پاتھ کی تعمیر سے قبل کر لے۔ افسوس کہ سرکاری ادارے ایک دوسرے سے بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے۔ ہر کسی نے اپنی اپنی ذات کے گرد ایک دائرہ لگا رکھا ہے‘ جس کے باہر ’علاقہ ممنوعہ‘ کا بورڈ آویزاں کرکے رابطے کی کوشش کرنے والوں سے تعاون نہیں کیا جاتا۔ سرکاری محکموں کے انتظامی نگران اپنی اپنی ذات میں خود کو ’عقلِ کل‘ سمجھتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ’پشاور کی تعمیر و ترقی‘ کا عمل یوں نقائص کا مجموعہ دکھائی نہ دیتا کہ ہرسال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو سڑکوں کی لمبائی و توسیع میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی سہولیات آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بوجھ برداشت کر پا رہی ہیں۔ اعتراف حقیقت تو یہ ہوگا کہ ہم اپنی ناکامی و نااہلی کا اعتراف کر لیں۔ ہمارے پاس انجنیئرز کی کمی نہیں‘ جو سڑکوں کی تعمیر کے ہر ایک مرحلے کی نگرانی کرتے ہیں لیکن بارش ہوتے ہی سڑک یا تو بہہ جاتی ہے یا پھر اِس میں نمودار ہونے والے گڑھے سفر کی بنیادی ضرورت کو ناخوشگوار حد تک تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔ کیا ہمیں کسی ایسے ’نئے محکمے کی ضرورت‘ ہے جو تعمیر و ترقی کے ایک جیسے عمل میں شریک جملہ سرکاری اداروں کے درمیان ’رابطہ کاری اُور تعلق‘ کو مربوط و مضبوط بنائیں؟

فکری فتور یہ ہے کہ ہم ہر کسی سے بات کرتے ہیں لیکن اپنے آپ سے نہیں پوچھتے کہ ناکامیوں کا سبب بننے والے محرکات کیا ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ انتہائی سوچ بچار کے بعد مرتب کی جانے والی حکمت عملیاں تکمیل کے بعد خاطرخواہ نتائج نہیں دیتیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ بارشوں کے بعد بارشوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمارے ہاں گھر کئے ہوئے ہے؟ شہری ترقی کے عمل کو ’زیادہ بامعنی زیادہ بامقصد‘ بنانے کے لئے جہاں ایک ’خصوصی رابطہ دفتر‘ کی ضرورت ہے‘ وہیں پشاور کی سطح پر ایک ایسا ’مشاورتی عمل‘ متعارف کرانے کی کمی بھی عرصۂ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے‘ جس میں ترجیحات کا تعین اُور کسی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں فیصلہ سازی سے قبل مقامی اَفراد کی رائے معلوم کر لی جائے۔ عین ممکن ہے کہ بڑے بڑے مستند ماہرین کی توجہ کسی ایسے باریک نکتے کی جانب نہ ہو‘ جس پرتوجہ دینے سے ترقیاتی عمل کا مجموعی معیار و افادیت بڑھ جائے! اگر اَرباب اختیار کو سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ’عوام الناس‘ سے گھلنے ملنے سے روک دیا گیا ہے تو وہ ذرائع ابلاغ ’ایف ایم یا اے ایم ریڈیو اور حکومتی ٹیلی ویژن چینل کی نشریات‘ کے ذریعے براہ راست ٹیلی فون کالز سن سکتے ہیں اور یوں وہ منقطع رابطے پھر سے بحال ہو جائیں گے‘ جو منطقی و غیرمنطقی جواز کے تحت منقطع ہو چکے ہیں۔ جن علاقوں میں ٹیرسٹیل ٹیلی ویژن (Terrestrial) کی نشریات نہیں پہنچتیں‘ وہاں اے ایم (AM) یا ایف ایم (FM) ریڈیو اسٹیشن کی لہریں ضرور توجہ سے سنی جاتی ہیں۔ اگر اخبارات کے ذریعے مشتہر کرکے متعلقہ اراکین صوبائی اسمبلی ہر ہفتے ’ریڈیو ٹیلی ویژن کچہریوں‘ کا انعقاد کریں تو بہتر طرز حکمرانی (good governance) کے اہداف بھی حاصل ہوسکیں گے اور ایسی عمدہ مثالیں بھی قائم کی جاسکیں گی‘ جو آنے والوں نمائندوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ منتخب عوامی نمائندے ہفتے‘ پندرہ دن یا ایک ماہ میں لازماً کم از کم ایک مرتبہ اہل حلقہ سے براہ بات چیت کریں‘ اُن کے دکھ سکھ سنیں اور اپنی اُن کوششوں سے اہل حلقہ کو آگاہ کریں‘جو وہ بالخصوص بہتری لانے کے لئے کر رہے ہیں۔ ہمیں منتخب نمائندوں کی نیت پر شک نہیں اور نہ ہی اُن کی کارکردگی کے بارے میں اِس بدگمانی کا شکار ہیں کہ وہ اپنی اپنی دنیا میں اُس بنیادی اکائی (ووٹر) کو بھول چکے ہیں‘ جس نے تبدیلی کے لئے‘ تمام تر داخلی و خارجی مخالفت و مزاحمت کے باوجود اُن کے حق میں ووٹ دیا لیکن بہتری کی یہ شکل و صورت ناقابل قبول و بیان ہے کہ ’تبدیلی ڈھونڈے بھی نہیں ملتی۔‘

 بڑے بڑے فیصلوں اور بڑی بڑی کامیابیوں کے ساتھ پاؤں تلے زمین کے ٹکڑے پر بھی نظر کرنی چاہئے‘ جہاں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ پھیلا ہوا ہے۔ یہ متوسط و غریب بستیوں پر مشتمل پشاور کا وہ عمومی منظرنامہ ہے جس کے اکثریتی علاقے چند روزہ بارش کے بعد خستہ حالی (پھسلن) کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بارش کی دعائیں اور تبدیلی جیسے انقلابی نظریئے کی حمایت کرنے والے شاید آئندہ سوچ سمجھ اُور پھونک پھونک کر قدم اُٹھانے پر مبنی محتاط روش (اِنتہاء کی بجائے کوئی ایسا درمیانی راستہ) اِختیار کریں‘جس سے راحت نہ سہی بنیادی ضروریات تو میسر ہوں‘ خرابئ بسیار کا اندازہ اِس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔ اَب تو پشاور کے کئی ایک حصے بارش جیسی نعمت کے بھی متحمل نہیں رہے!

Wednesday, February 18, 2015

Feb2015: Pic Story. The Negligence

THE NEGLECTED. GT Road, Peshawar in Pictures. EXPECTATIONS associated with the change promised by Pakistan Tehreek e Insaf not fulfilled, unfortunately. (ALL PICTURES TAKEN ON FEBRUARY 18, 2015.)

Feb2015: Vehicle Registration Reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بہ اَمر مجبوری‘ مجبوری!
خیبرپختونخوا میں نئی گاڑیوں کے کوائف کا اندراج (رجسٹریشن) کا عمل قومی شناختی کارڈ کی طرز پر کرنے کا اصولی فیصلہ خوش آئند ہے جس کے بعد گاڑی مالکان کو کتابچوں کی صورت چھوٹی بڑی گاڑیوں کے کاغذات ہمراہ رکھنے کی زحمت نہیں ہوگی اُور نہ ہی عمومی حالات میں ’رجسٹریشن کارڈ‘ کے گم ہونے کا خدشہ رہے گا۔ یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا‘ جس میں ’کمپیوٹرائزڈ چپ (chip)‘ کے ذریعے جملہ کوائف ایک کارڈ میں پوشیدہ رکھے جا سکیں گے اور ضرورت کی صورت قانون نافذ کرنے والے ادارے ان معلومات کو اخذ کرکے تصدیق کر سکیں گے۔

یاد رہے کہ اِس قسم کا نظام پہلے ہی وفاقی دارالحکومت اِسلام آباد میں متعارف کرایا جاچکا ہے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ابتدأ میں ’کمپیوٹرائرڈ کارڈز‘ صرف نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی صورت جاری کئے جائیں گے‘ جنہیں بعدازاں ماضی میں رجسٹر شدہ گاڑیوں کے مالکان کو جاری کئے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اِدارے سے رابطہ کرکے ’رجسٹریشن سسٹم‘ بشمول ’ڈیٹابیس (database) کے حصول کی درخواست کر دی گئی ہے اُور رواں ہفتے اِس سلسلے میں تعاون کی یاداشت پر دستخط متوقع ہیں۔ خیبرپختونخوا کے سیکرٹری ایکسائز ڈاکٹر راحیل احمد کے مطابق آئندہ تین ماہ میں نیا سسٹم متعارف کرا دیا جائے گا اُور اِس سلسلے میں حکام سندھ و پنجاب میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے مروجہ طریقۂ کار کا مطالعہ بھی کریں گے۔ رجسٹریشن کارڈ میں معلومات کس حد تک محفوظ رہیں گی اُور اِن معلومات میں تبدیلی کے امکانات کس طرح ختم کئے جائیں گے‘ اِس سلسلے میں حکام کا کہنا ہے کہ ’انکرپٹیڈ (encrypted)‘ چپ (chip) کا استعمال کیا جائے گا‘ جس سے معلومات میں ردوبدل اور اُن تک رسائی غیرمتعلقہ افراد نہیں کر سکیں گے۔

خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نظام سنجیدہ و عملی اصلاحات چاہتا ہے کیونکہ خود ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا کو گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں سالانہ 30سے 35 فیصد خسارہ ہورہا ہے کیونکہ عمومی رجحان یہی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں اسلام آباد یا صوبہ پنجاب میں رجسٹر کرنے کوترجیح دیتے ہیں اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا موجودہ نظام ’بوسیدہ‘ اور ’روائتی‘ ہے‘ جس کا انحصار کاغذی کارروائی اور ریکارڈ فائلوں کی صورت ایک ڈیسک سے دوسرے ڈیسک کو منتقل ہونے کے بعد جس انداز سے محفوظ و ذخیرہ کیا جاتا ہے‘ اُس کی خامیوں کا شمار ممکن نہیں۔ اُمید تھی کہ تحریک انصاف صوبائی حکومت تشکیل دینے کے پہلے ہی برس ’جائیداد (اراضی) کا ریکارڈ‘ کمپیوٹرائزڈ کرکے مال خانے‘ تھانے اور کچہری سے رجوع کرنے کے بنیادی اسباب کا تدارک کردے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا تو اب بھی دیر نہیں ہوئی اور جائیداد (اراضی) کی ملکیت کا ’کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن‘ متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

 سننے میں آیا کہ ’آن لائن پٹوار خانے (لینڈ ریکارڈ)‘ کی تیاری کا عمل بھی شروع ہوا‘ جو متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا ہے اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آئندہ دو روز میں پشاور کا دورہ کرنے والے ہیں تو اُن سے درخواست ہے کہ ’لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘ کا وعدہ پورا کریں‘ جو شفاف طرز حکمرانی کی جانب بڑھتے ہوئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ یقیناًتحریک انصاف کی قیادت کے لئے یہ بات تشویشناک ہوگی کہ صوبے کو گاڑیوں رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ہرسال کمی ہو رہی ہے اور یہ کمی چونکہ تیس سے پینتیس فیصد ہے‘ اِس لئے ’معمولی ردوبدل‘ قرار نہیں دی جاسکتی۔ اس سلسلے میں اگر فوری اصلاحات نہ لائی گئیں تو اندیشہ ہے کہ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خسارہ پچاس فیصد کو عبور کر جائے گا اور پھر وہ وقت دور نہیں جب نئی گاڑیوں بالخصوص موٹرکارز کی مکمل رجسٹریشن کے لئے اسلام آباد کا رخ کرنے والے سوفیصدی افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہو!

مالی سال 2014-15ء کے ابتدائی سات ماہ کے دوران خیبرپختونخوا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کو ’نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 17 کروڑ پچاس لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن اِس عرصے میں 12 کروڑ 33 لاکھ پچاس ہزار رورپے حاصل ہو سکے ہیں۔ آمدنی میں اِس تیس فیصد کمی کا منفی اَثر یقیناًصوبائی آمدنی کے میزانیئے (بجٹ) پر پڑے گا‘ جس میں آمدن سے قبل ہی اخراجات طے کر لئے جاتے ہیں اور جب کوئی حکومتی محکمہ خاطرخواہ آمدنی نہیں دیتا تو بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ گذشتہ مالی سال کے دوران گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ 14 کروڑ 58لاکھ 30 ہزار روپے لگایا گیا تھا جس میں سے 13 کروڑ 95لاکھ 90 ہزار روپے آمدنی حاصل ہوئی‘ یعنی بجٹ اَندازے سے صرف چار فیصد کم وصولی ہوئی تھی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے 90فیصد رہائشی جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کراتے ہیں جہاں کے قواعد کے مطابق اسلام آباد میں عارضی یا مستقل رہائش یا ملازمت رکھنے والے اپنی گاڑیاں اسلام آباد میں رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک مہم بھی شروع کی گئی ہے کہ جس کے تحت اسلام آباد اور پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کی جا رہی ہے۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل جاوید مروت کے مطابق ’’150 ایسی گاڑیاں مہم کے پہلے مرحلے میں پکڑی گئی ہیں جن کے مالکان نے جعلی (سکونتی و ملازمتی) دستاویزات کے ذریعے اسلام آباد میں گاڑیاں رجسٹر (درج) کرائی ہیں۔‘‘ اسلام آباد گاڑیوں کی ’مشروط رجسٹریشن‘ غیرمنطقی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہ امر مجبوری‘ جعلی دستاویزات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ اگر خیبرپختونخوا میں رجسٹریشن کا نظام معیاری اور قابل اعتماد ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ‘ لوگ اِسلام آباد یا پنجاب کا رُخ کرتے یا پھر اِسلام آباد کی رجسٹرڈ گاڑیاں خریدنے کو ترجیح دی جاتی۔

مقابلے کی فضاء میں صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اِس سلسلے میں ساکھ‘ معیار اور اعتماد کی بحالی کے لئے اِصلاحات سے گریز کی بجائے ’احکامات مسلط‘ کرنے سے کسی بھی صورت نہ تو خاطرخواہ بہتری آئے گی اور نہ ہی حسب توقع مثبت نتائج برآمد  ہوں گے۔

Tuesday, February 17, 2015

Feb2015: Real Triators

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حقیقی غدار
انگریزی زبان کی لغت کے مطابق ’غدار‘ کا لفظ ’خزانے‘ سے ماخوذ ہے‘ یعنی غدار کی ایک تعریف یہ بھی ہوگی کہ ایک ایسا کردار جو کسی ذمہ داری کی اَدائیگی کے لئے ملنے والے اِختیارات یا اپنے قول و فعل کا استعمال ایسے مالی فوائد کے حصول کے لئے کرے جن کا اُسے بصورت دیگر استحقاق نہ ہو۔ ہر قسم کی مالی بدعنوانیوں جن میں ٹیکس چوری بھی آتی ہے کا شمار اصطلاحی و معنوی لحاظ سے ’غداری‘ ہی کے زمرے میں آتی ہے تو پاکستان کے تناظر میں ’حب الوطنی‘ اور ’غداری‘ کی درست تعریف یہ نہیں بنتی کہ آمدنی کے غیرمستقل ذرائع رکھنے والے‘ غریب‘ متوسط یا کم سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات ’حب الوطن‘ ہیں کیونکہ وہ اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ٹیکسوں کی صورت ادا کر رہے ہیں جبکہ سرمایہ دار اور حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے حسب توفیق تمام ممکنہ ذرائع کا استعمال کرکے مالی طور پر اُس بدعنوان طبقے کا حصہ ہیں جو قانون میں موجود سقم سے فائدہ اُٹھانے‘ حسب آمدن و بودوباش ٹیکس ادا نہ کرنے کے علاؤہ اندرون ملک کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہوئے ترجیح دیتا ہے‘ کسی ایسے ملک کا اقتصادی مستقبل بھلا کس طرح محفوظ ہوسکتا ہے‘ جہاں کے سرمایہ دار ’حب الوطنی‘ کی بنیادی تشریح اور کسوٹی پر ہی پورا نہ اُترتے ہوں؟

وفاقی وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے ’آف دی ریکارڈ‘ کہا ہے کہ ’’حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل ہونے کے رجحان میں تیزی آئی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت و اقتصادیات پر دباؤ بڑھ رہا ہے جبکہ دوسرا خطرہ اشیاء کی غیرقانونی ذرائع سے درآمد ہے‘ جس کی وجہ سے ایک طرف ملکی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے‘ روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں اور دوسری جانب محصولات (ٹیکسوں) کی مد میں آمدنی نہیں ہو رہی۔‘‘ حکومت کی جانب سے ’انٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2014ء‘ لایا گیا ہے جس کی رو سے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو ’انٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء‘ کے تحت جرمانہ اور دیگر سزائیں دی جا سکیں گی لیکن پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ایسے کسی بھی قانون سے خوفزدہ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں قوانین کے اندر ہی یہ خرابی بصورت کمال رکھی جاتی ہے‘ کہ اس سے وکلأ برادری کے گھروں کا چولہا جلتا رہے۔ سب سے پہلے تو قوانین اور قواعد کا اطلاق نہیں کیا جاتا اور پھر جہاں کہیں کوئی پھنس بھی جائے تو قانون میں اس قدر لچک موجود ہے کہ وہ دوسرے ٹیکس چوروں اور ملک کو مالیاتی طور پر نقصان پہنچانے والوں کے لئے ’نشان عبرت‘ نہیں بنتا۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ جن کرداروں کو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے پر گرفتار کیا بھی جاتا ہے تو اُن کا زیادہ سے زیادہ احتساب یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ادائیگیاں کرکے باعزت رہا ہوجاتے ہیں۔ احتساب کا قومی ادارہ کسی مذاق سے کم نہیں جو حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک خاص تناسب ’انعام‘ کی صورت خود ہی وصول کر لیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر کسی نے ایک ارب روپے کی بدعنوانی کی اُس سے کم از کم ایک ارب روپے تو ضرور وصول کئے جائیں لیکن دس سے تیس فیصد وصولی کے قواعد مرتب کرنے والوں نے یقیناًاپنے بارے میں بھی سوچا ہوگا ایسے سخت گیر قواعد تشکیل نہ دیئے جائیں‘ جس سے کل اُنہیں خود ہی مشکلات جھیلنا پڑیں۔

دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی (نیشنل ایکشن پلان) کا حصہ ’اِقتصادی اَیکشن پلان‘ بھی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے اُن گیارہ ممالک میں شامل ہے جو غیرقانونی طورپر ملک سے سرمائے کے انتقال (منی لانڈرنگ) روکنے میں عملاً ناکام و نااہل ثابت ہوئے ہیں اور اِس کا ثبوت رواں ہفتے ’متحدہ عرب امارات‘ میں جائیداد کی خریدوفروخت کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ’دبئی لینڈ ڈیپارٹمنٹ‘ کی وہ رپورٹ ہے جس کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران پاکستانیوں نے 2.6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ’متحدہ عرب امارات‘ میں کی ہے جس کا 90فیصد دبئی میں جائیداد خریدنے کے لئے کیاگیا ہے! علاؤہ ازیں 7 ارب ڈالر کی ترسیل غیرقانونی ذرائع سے بھی کی گئی ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت کے کل 17 ہزار 289 سودے ہوئے جن میں سے 14 ہزار 231 بھارت‘ پاکستان‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ روس‘ چین‘ امریکہ‘ فرانس اور افغان باشندوں نے کئے ہیں!

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز (Reuters) کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ’’متحدہ عرب امارات میں جائیداد کی قیمت میں گذشتہ دو برس کے دوران 60 فیصد بڑھی ہے لیکن سال 2015ء کے دوران اِس میں 10فیصد کمی آئی ہے۔‘‘ امر واقعہ یہ ہے کہ سال 2008-09ء کے دوران متحدہ عرب امارات کی معیشت جس خسارے (عالمی قصادبازاری) سے متاثر ہوئی‘ اُس سے نکلنے میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی پرخلوص کوششیں شامل ہیں۔ تصور کیجئے کہ سال 2013ء اور 2014ء کے دوران پاکستانیوں نے متحدہ عرب امارات میں 16ارب درہم کی جائیداد خریدی! اگر ہم 27 روپے فی درہم کے حساب سے اِس سرمایہ کاری کا حجم معلوم کریں تو یہ 430 ارب روپے بنتا ہے! لیکن صرف یہی نہیں کہ پاکستانیوں کی نظرکرم متحدہ عرب اَمارات پر جمی ہوئی ہے‘ اِس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی کی گئی‘ جس سے حکمراں خاندان نہ تو اِنکار کرتے ہیں اور نہ ہی ملکیت کو کھلے عام تسلیم کرتے ہوئے اِس کا ذکر کرنا یا سننا پسند کرتے ہیں!

برطانیہ میں ایک قانون کے مطابق کسی بھی حکومتی عہدے یا سرکاری ملازمت پر تعینات رہنے والے شخص (مرد یا عورت) کے اثاثوں کا بیس سالہ حساب نکالا جاتا ہے اور اگر اس کی مالی حیثیت میں ردوبدل (بے قاعدگی) سامنے آئے‘ تو ایسے شخص کو ’غدار‘ کے طور پر نہ صرف عدالت کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جاتا ہے بلکہ ذرائع ابلاغ اور معاشرے کی نظروں میں اُس کی حیثیت بھی ’زیرو‘ ہو جاتی ہے‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ چند برس کے دوران ’ارب پتی‘ بننے والوں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کی تعداد کا شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘ اُن کی عزت و تکریم اور سول قومی اعزازات تک اُن کے نام ہیں! جب تک اِن حقیقی غداروں (مالی بدعنوانیوں کے موجد و سرپرستوں اور بیرون ملک سرمایہ کاروں) سے ’حقیقی معاملہ‘ نہیں کیا جاتا‘ ملکی وسائل کی لوٹ مار‘ اِختیارات کا ناجائز استعمال اور دولت کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ (رجحان) یونہی جاری و ساری رہے گا!

Monday, February 16, 2015

Feb2015: Provincial Rights & Wrongs!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بغض و عناد: سیاسی بدنیتی!
ایک طرف وفاق کے ذمے واجب الادأ صوبائی حقوق کی اَدائیگی نہیں ہورہی تو دوسری جانب دستیاب مالی وسائل ’ترقیاتی منصوبوں‘ پر خرچ نہیں ہو پا رہے جس سے خیبرپختونخوا میں ’تعمیر و ترقیاتی عمل‘ کا عمل بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ’پاکستان تحریک اِنصاف‘ کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ نے وفاق سے مطالبہ دہرایا ہے کہ ’’اٹھارہویں آئینی ترمیم کا پاس کرتے ہوئے تیل و گیس کے حال ہی میں دریافت ہونے والے ذخائر سے خیبرپختونخوا کو اُس کا جائز حق ملنا چاہئے!‘‘ آئین کے مطابق کسی بھی صوبے سے نکلنے والے معدنی ذخائر پر اُس صوبے کا پچاس فیصد حق ہوتا ہے۔ آٹھارہویں آئینی ترمیم سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی کھوج کے سلسلے میں وفاقی حکومت کا کم از کم حصہ پانچ فیصد مقرر تھا‘ جس میں وفاقی حکومت کو اضافہ کرنے کا اختیار بھی شامل تھا لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یہ حصہ مستقل کر دیا گیا تاکہ صوبوں کو زیادہ مالی وسائل مل سکیں۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ تحریری اور یاد دہانی پر مبنی مکتوبات کے ذریعے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کو اُس کے جائز آئینی حقوق ادا کئے جائیں۔‘‘ صوبائی سطح پر ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرنے کے مشاورتی عمل کا حصہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار کے بقول ’’وفاقی حکومت سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ تحریری درخواستوں‘ یاد دہانی کے متعدد مراسلوں اور وزیراعلیٰ نے بات چیت کے دوران بھی یہ معاملہ وفاقی حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کے گوش گزار کیا ہے لیکن حسب توقع خاطرخواہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا! ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے اِس طرز عمل کی بڑی وجہ ’سیاسی بغض و عناد‘ ہے کیونکہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی حکومت ہے‘ جو نہیں چاہتی کہ ’پاکستان تحریک انصاف‘ ترقیاتی عمل سے اپنے انتخابی وعدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔ یہ سیاسی بدنیتی کی انتہاء نہیں تو اُور کیا ہے کہ ’خیبرپختونخوا کو محض سیاسی وجوہات کی بناء پسماندہ رکھنے کے لئے اُس کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں؟‘

تجویز ہے کہ خط و کتابت‘ مراسلوں اور زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس پیش رفت کی جائے۔ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی حقوق کے حوالے سے ایک ’جرگہ‘ تشکیل دے اور سینیٹ انتخابات (پانچ  مارچ) کے فوراً دیگر اتحادی و حزب اختلاف کی پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ اِس سلسلے میں مشاورتی عمل کا آغاز کیا جائے‘ یقیناًاِس سے سیاسی ماحول میں خوشگوار بہتری آئے گی‘ کیونکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہوں‘ اُن کی خالص ترجیح اپنا صوبہ ہی ہوگا۔ حقوق کے حصول کے لئے سفر میں دوسروں کو شریک کرنے سے منزل تک رسائی کے امکانات زیادہ بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے صوبائی حقوق کا معاملہ بھی اُٹھایا جائے‘ صوبائی اطلاعات کا محکمہ سینئر صحافیوں سے نشست اُور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ’ایڈوکیسی‘ کی تراکیب سے رائے عامہ ہموار کر سکتا ہے تاہم تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل خود ’تحریک انصاف‘ ہی ہے کیونکہ صوبائی سطح پر ہونے والے کئی ایک فیصلوں کو پارٹی کی مرکزی قیادت بیک جنبش قلم رد کرنے کی مثالیں موجود ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حقوق کے معاملے میں بھی اِس مرتبہ اگر تحریک انصاف کی ’کور کمیٹی‘ کے اہم اراکین اور چیئرمین کو شروع دن سے ہمراہ کر لیا جائے یا انہیں کچھ عرصے کے لئے ’پشاور کا مہمان‘ ہی بنا لیا جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تحریک انصاف کو سمجھنا چاہئے کہ اُس نے صوبائی حکومت میں آکر فرائض و ذمہ داریاں سمجھنے میں جتنا وقت خرچ (بہ صورت ضائع) کردیا ہے‘ اتنا باقی نہیں رہا۔

قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا میں تیل و گیس کی ترقی کے اِدارے (خیبرپختونخوا آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹیڈ) کے نگران (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ریاض الدین نے ڈائریکٹر جنرل پیٹرولیم کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ ’کلاچی بلاک (حوالہ نمبر 3170-8) اُور باسکا نارتھ بلاک (حوالہ نمبر 3169-4)‘ کے نوٹیفیکیشنز گذشتہ برس مارچ اور جون میں بالترتیب جاری کئے گئے لیکن تاحال صوبائی ادارے کو اِس کے وسائل پر اختیارنہیں دیا گیا‘جس کی وجہ سے نہ صرف تیل وگیس کے نئے ذخائر کی تلاش کا عمل متاثر ہو رہا ہے بلکہ موجودہ ذخائر کی ممکنہ ترقی کا عمل بھی رکا ہوا ہے۔ اِس سلسلے میں ’الحاج انٹرپرائزیز‘ سمیت تین کمپنیوں (لاسمو اور طالا حصی) کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ الحاج انٹرپرائزیز کے ساتھ ہوئے معاہدے کی رو سے انہیں پانچ فیصد حصص وفاقی و صوبائی متعلقہ کمپنیوں کو منتقل کرنا تھے‘ اُنہیں جغرافیائی و ارضیاتی جائزے کرکے معلومات اکٹھا کرنی تھیں۔ اُنہیں پانچ سو کلومیٹر رقبے میں واقع دو بلاکوں کے حوالے سے آنے والے زلزلوں کا ریکارڈ خریدنا تھا لیکن یہ تینوں امور سرانجام نہیں دیئے گئے۔ علاؤہ ازیں یہ امر بھی خیبرپختونخوا حکومت کے لئے تشویشناک ہے کہ وفاقی حکومت نے کئی ایک ایسے اداروں کو بھی تیل و گیس کی کھوج کے اجازت نامے جاری کئے ہیں جنہیں ماضی میں ایسی مہمات کا تجربہ نہیں اور قواعد کی رو سے ایسے اجازت نامے بناء تجربے جاری نہیں کئے جا سکتے۔

معاملہ گھمبیر و سنگین ہے۔ ایک طرف صوبائی حقوق کا حجم پہاڑ کی صورت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب اِس صورتحال سے چند نجی اِدارے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے اِن اداروں کے مالکان عام لوگ نہیں کہ جو اگر ایک ماہ بجلی کا بل اَدا نہ کریں تو جرمانہ ادا کئے بناء چارہ نہیں ہوتا اور چند ماہ بل اَدا نہ کرنے کی صورت اُن کا کنکشن کاٹنے میں ذرا تاخیر نہیں کی جاتی۔ بااثر لوگ‘ بڑی بڑی وارداتیں کرتے ہیں۔ قومی خزانے کو اَربوں روپے کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری اور قرضہ جات کی معافی تو ایک جزوی پہلو ہے‘ اِس سے کئی زیادہ بڑی بے قاعدگیاں ہمارے وسائل کے ضیاع کا سبب ہیں‘ جن کی طرف توجہات تو مرکوز ہیں‘ لیکن قواعد کا خاطرخواہ اطلاق نہ ہونے کی وجہ وہی سیاسی دباؤ ہے جس کہیں حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کی حوصلہ افزائی تو کہیں وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کی پشت پناہی میں ملوث ہے!

Sunday, February 15, 2015

Feb2015: Real Threats

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرکٹ: جزوی اَمور
وہی ہوا جس کے بارے میں کھیل کے تجزیہ کار اپنی اپنی قومی شناخت کی بنیاد پر پیشنگوئیاں کر رہے تھے لیکن یہاں بات ’پاک بھارت کرکٹ مقابلے‘ میں جیت یا ہار کی نہیں بلکہ روائتی حریفوں کے درمیان ایک کانٹے دار مقابلے سے ایک دن قبل ’وزیراعظم‘ نے جو اعلان کیا تھا کہ ’’میچ کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی‘‘ تو عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ پاکستان کی سیاست ایسی انہونیوں کا مرکب ہے‘ جس میں اگر رہنما ’انکار‘ کریں تو اِس بات کا مطلب ’اقرار‘ ہوتا ہے جیسا کہ اگر یہ کہا جائے کہ رمضان میں اشیائے خوردونوش کی قلت نہیں ہوگی اور نہ ہی قیمتیں بڑھیں گی تو عام آدمی نے سمجھ لیا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ اسی طرح بجٹ سے قبل کہا جاتا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا اور نہ ہی ٹیکس کی شرح بڑھائی جا رہی ہے تو اِس کا نتیجہ بھی جلد ہی سامنے آ جاتا ہے۔ قصہ مختصر ’عام آدمی‘ نے سمجھ لیا ہے کہ وہ اعلان ہی کیا‘ جو پورا ہو جائے‘ وہ سیاسی وعدہ ہی کیا جو ایفاء ہو جائے۔ پندرہ فروری کے روز کھیل کے پہلے اور دوسرے حصے میں بار بار برقی رو کے معطل ہونے سے اہل پشاور وہ درمیانی و اختتامی لمحات نہ دیکھ سکے‘ جس نے پورے کھیل کو فیصلہ کن بنایا تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری قومی لیڈرشپ کا قول و فعل ’لائق اعتبار‘ نہیں رہا؟ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) حکام کا کہنا ہے کہ ’’جن علاقوں میں بجلی کا تعطل ہوا‘ وہ ’لوڈشیڈنگ‘ کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر محرکات کے سبب تھا‘ یعنی سسٹم پر بوجھ (لوڈ) بڑھ گیا‘ جس کی وجہ سے خودکار نظام کے تحت برقی رو معطل ہو جاتی ہے۔‘‘ اُن کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ’’اگر بجلی کے مرکزی تقسیم کار نظام سے فراہمی بند کردی جائے تو پیسکو کے پاس کوئی ایسا ’پیداواری ذریعہ‘ نہیں کہ وہ اپنے وسائل سے بجلی کی روانی برقرار رکھ سکے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کے واضح احکامات کے باوجود بجلی کے بار بار تعطل کے لئے کسی کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ سب کے سب ’بے قصور‘ ہیں اور سب کے سب ہاتھوں پر ’دستانے‘ چڑھے ہوئے ہیں یعنی جواز کی کمی نہیں۔

پاک بھارت کرکٹ مقابلہ اور ہفتہ وار تعطیل کے سبب صوبائی دارالحکومت کی سڑکیں اور کاروباری مراکز سنسان رہے۔ وہ بازار جو ہفتہ وار تعطیل جمعۃ المبارک کے روز کرتے ہیں وہاں بھی اکا دکا دکانیں ہی کھلی تھیں یا پھر دکانداروں نے ’میچ اسکریننگ‘ کا خصوصی اہتمام کر رکھا تھا۔ ’کرکٹ‘ پاکستان کا قومی کھیل نہیں لیکن ملک گیر سطح پر اِس کھیل کو جس انداز سے پسند کیا جاتا ہے‘اُس کا تقاضا یہ ہے کہ کرکٹ کو بھی قومی کھیل کا درجہ دے دیا جائے۔ ملک میں کرکٹ کنٹرول کرنے کا ادارے (پی سی بی) میں سیاسی مداخلت ختم کرنے اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے تو اِس سے نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ کھیل فکری وذہنی انتشار‘ جوئے‘ سٹہ بازی اور دیگر منفی محرکات سے بھی پاک ہو جائے گا۔ بطور قومی کھیل کرکٹ کی سرپرستی ’ہاکی‘ کے متبادل کے طور پر نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں کسی ایک کھیل کی نہیں بلکہ نوجوانوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لئے ہر کھیل کی سرپرستی کے ساتھ اُس حرص و طمع اور کاروباری ذہنیت کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا‘ جس کی وجہ سے کھیل دیکھنے کو تفریح اور تفریح کی آڑ میں بیہودگی و بدتمیزی کو عام کیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے وسائل‘ چمک دمک بروئے کار لاتے ہوئے ’اشیائے خوردونوش‘ بنانے والے ملکی و غیرملکی اِدارے اِس کھیل کو ’مقبول عام‘ بنانے میں ’خاص کردار‘ اَدا کر رہے ہیں۔ ماضی میں سگریٹ بنانے والے ادارے کرکٹ کے ذریعے ’سگریٹ نوشی‘ عام کرتے رہے اور اب وہ سبھی کچھ ’جوش جذبے اور جنون‘ کے نام پر بیچا جاتا ہے‘ جو انسانی صحت کے لئے مفید نہیں۔

پاکستان میں ہر روز گیارہ کروڑ ستر لاکھ سے زائد سگریٹ فروخت ہوتے ہیں اور ایک حالیہ جائزے کے مطابق نوجوان لڑکیوں (خواتین) میں سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اور گذشتہ تین برس کے دوران پانچ فیصد لڑکیاں سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہوئی ہیں۔ برطانوی خبررساں ادارے کے اِس جائزے میں ماہرین نے جس تشویش کا اظہار کیا‘ اُس میں ایسی اشتہاری ممہات‘ ٹیلی ویژن ڈرامے اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘ جس میں صحت و سرمایہ دھویں میں اُڑانے کو ’بطور فیشن‘ اختیار کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ سگریٹ نوشی کی طرح ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس (ہر قسم کے رنگ برنگے کولا مشروبات)‘ بھی نوجوانوں کی صحت و تندرستی کے دشمن ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق پانی کا کوئی بھی دوسرا مشروب بیٹھ کر اور کم از کم تین سانسوں میں پینا چاہئے لیکن بذریعہ اشتہارات ایک ہی سانس میں کھڑے کھڑے مشروبات پینے کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کے (مضرصحت) نقصانات پوشیدہ نہیں لیکن ’بھیڑچال‘ نے سب کو ’نمودونمائش‘ کا آسیر بنا رکھا ہے۔ یہی رویہ ہے کہ جس کی وجہ سے موبائل فون ضرورت سے زیادہ نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے! ہمارے ہاں ’صارفین کے حقوق‘ سے متعلق قواعد تو موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد اور قواعد کے بارے میں معلومات عام نہیں۔ بھلا مصنوعی رنگوں‘ کیمیائی ذائقے اور مٹھاس کی حد سے زیادہ مقدار سے بنا ہوا مشروب ہر عمر کے شخص کے لئے کس طرح مفید ہوسکتا ہے۔ جگر‘ گردوں‘ نظام ہضم اور دانتوں پر فوری منفی اثر کرنے والے مشروبات کی تعلیمی اداروں میں فروخت پر پابندی کے حوالے سے صوبائی حکومت اپنے تیءں اقدامات کر سکتی ہے اور اِس سلسلے میں اِسلام آباد کی مثال موجود ہے جہاں والدین کی کوششوں سے بذریعہ عدالت نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں میں ’کاربونیٹیڈ ڈرنکس‘ کی فروخت ممنوع قرار دی جاچکی ہے۔

خیبرپختونخوا میں جہاں تعلیمی اداروں کو لاحق سیکورٹی خدشات سے محفوظ بنایا جا رہا ہے وہیں اُن محرکات پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے نوجوان بالخصوص بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ نابالغ بچے بچیوں کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ سگریٹ نوشی کے مضر اثرات کے بارے اُن والدین کو بھی آگاہ کیا جائے جو بچوں کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ پینے پر اگرچہ پابندی عائد ہے لیکن اِن قواعد پر عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔

Saturday, February 14, 2015

Feb2015: Shivratri in Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
شیوراتری تہوار!
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کی ’ہندو برادری‘ ماہ فروری اور مارچ میں دو ایسے تہوار مناتی ہے‘ جن کے لئے عبادت گاہوں میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ یہ دن منانے والے شوخ رنگوں والے ملبوسات پہن کر مبارکبادوں کا تبادلہ‘ روائتی جوش وخروش اُور خوب اہتمام سے کرتے ہیں۔ طے یہ تھا کہ ’’صوبائی دارالحکومت پشاور اور اِس سے ملحقہ دیگر اضلاع کے ہندو سولہ فروری سے تین دن کے لئے اکٹھا ہوں گے تاکہ ’شیوراتری (مہا شیوراتری)‘ نامی تہوار منائیں۔‘‘ اِن تقریبات کے لئے گذشتہ برس کی طرح اِس مرتبہ بھی جس مقام کا انتخاب کیا گیا وہ ’گورگٹھڑی‘ کے احاطے میں قائم ’شیو مندر‘ ہے تاہم بیت الخلأ‘ کھانے‘ پینے اور اشیائے خوردونوش پکانے کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’شیوراتری‘ کا تہوار چھوٹے پیمانے پر عبادت کے ساتھ ملتوی کر دیا جائے! یاد رہے کہ یہ تہوار ’شیو دیوتا‘ سے منسوب ہے جب اُن کی شادی پاروتی سے ہوئی تھی۔ اِس دن کی مناسبت سے روزہ رکھا جاتا ہے اور شیولنگ (Shiv Lingam) کی پوجا کی جاتی ہے۔ گورگٹھڑی مندر میں شیولنگم موجود ہے‘ جسے دودھ سے غسل دینے اور عبادت کرنے کا سلسلہ یوں تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن شیوراتری کے موقع پر اِس کا اہتمام خصوصی طور سے کیا جاتا ہے۔ پورے مندر کو برقی قمقموں سے جگمایا جاتا ہے۔ لوبان جلائے جاتے ہیں۔ مختلف سنگتیں بھجن گاتی ہیں اور سرڈھانپ کر عبادت میں شریک ہونے والے چھوٹے بڑے‘ جوان بزرگ دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ پنڈتوں کے مرتب کردہ کلینڈر کے مطابق ’’اِس سالانہ تہوار کے لئے رواں برس ’سترہ فروری‘ جبکہ دو ہزار سولہ میں 7 مارچ کا دن طے کیا گیا ہے۔‘‘ اپنے خاوند کی لمبی عمر و خوشحالی کے لئے ہندو خواتین پورا دن کھانا پینا ترک رکھتی ہیں اور چاند کو دیکھ کر روزہ توڑتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پشاور ہندو مذہب کا مرکز رہا ہے اور بھارت سمیت دنیا میں جہاں بھی کہیں بھی ہندو ازم کو ماننے والے آباد ہیں‘ اُن کے لئے پشاور ایک ’’مقدس شہر‘‘ ہے‘ جہاں سے اِس مذہب کی تعلیمات اور رسم و رواجوں کا تعین یعنی ابتدأ ہوئی تھی۔ سیاحت کی ترقی کے ادارے اِس حقیقت سے آشنا ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے ہاں امن و امان برقرار رہتا تو ’مذہبی سیاحت (ریلیجیس ٹورازم)‘ کے امکانات سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا لیکن یہ ایک بہانہ ہی ہے۔ اگر غیرملکی سیاح نہیں آ رہے تو پاکستانی سیاحوں کو پشاور کی جانب کونسا راغب کیا جارہا ہے! بھلا یہ کیسا رویہ ہے کہ گورگٹھڑی کے احاطے میں قائم دو عبادت گاہوں میں سے ایک میں تو مہمان خانہ‘ رہائش‘ قیام و طعام کی جملہ سہولیات میسر ہیں اور وہاں بودوباش پر کسی قسم کی پابندی نہیں لیکن اُسی کے مدمقابل دوسری عبادت گاہ کو ’آثار قدیمہ‘ قرار دے کر وہاں عبادت کے لئے اجتماع تو منعقد کیا جاسکتا ہے لیکن نہ بیت الخلأ ہوں گے اور نہ ہی گیس‘ کہ سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہونے والے یاتریوں کے لئے حسب ضرورت کھانا اور وقتا فوقتاً چائے قہوہ بنایا جاسکے۔ اگر صوبائی حکومت اور سیاحت و آثار قدیمہ سے وابستہ ایک سے زیادہ محکمے ہندو برادری کو سہولیات فراہم نہیں کرسکتے تو کم از کم اُنہیں اپنے خرچ پر‘ تہوار شایان شان منانے کی اجازت تو دے سکتے ہیں! اگر کسی وجہ سے ہم خوشیاں نہیں مناسکتے تو کیا جواز ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے مذہبی جشن و تہوار منانے سے روک دیں یا ایسے اقدامات کریں جن سے اُن کے تہواروں کی رونقیں مانند پڑ جائیں۔

محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر کے دفاتر چونکہ ہفتے میں دو دن تعطیل کی وجہ سے بند ہوتے ہیں اِس لئے چودہ فروری کے روز اعلیٰ حکام سے باوجود کوشش بھی رابطہ نہیں ہوسکا لیکن خوش قسمتی سے گورگٹھڑی کے نگران اَحمد فراز ہاتھ آئے‘ جنہوں نے کہا کہ ۔۔۔’’ہندوؤں کی طرف سے اُنہیں مطلع نہیں کیا گیا‘ تاہم اُن کے مطالبات بذریعہ مرکزی دفتر معلوم ہوئے ہیں جس کے بعد ’شیو مندر‘ کا داخلی دروازہ مرمت کردیا گیا ہے۔ مندر کے احاطے میں قائم کنویں کو جال سے ڈھانپ دیا گیا ہے تاکہ کوئی ایسا حادثہ پیش نہ آئے‘ جس سے جانی نقصان ہو۔ مندر کے گرد پہلے ہی خاردار تار بچھا کر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ جہاں تک ہندوؤں کی جانب سے مندر کے احاطے کی فرش بندی اور بیت الخلأ کی تعمیر کا تعلق ہے تو یہ دونوں کام مختصر وقت میں مکمل کرنا ممکن نہیں۔ مندر سے کچھ فاصلے پر چھ بیت الخلأ (واش رومز) موجود ہیں جن میں سے تین خواتین جبکہ تین عدد مردوں کے لئے مخصوص ہیں‘ ہم نے ہندو برادری کے مہمانوں اور میزبانوں کو پہلے سے موجود بیت الخلأ کی سہولت استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ مندر کے احاطے کے اندر بیت الخلأ پر اصرار کر رہے ہیں جو نہ صرف اس عمارت کی خوبصورتی کے ساتھ میل نہیں کھائے گی بلکہ اِس سے حفظان صحت کے مسائل بھی پیدا ہوں گے کیونکہ جہاں ایک باتھ روم سینکڑوں کی تعداد میں افراد استعمال کریں تو اُس سے بدبو و تعفن بھی پیدا ہوگا۔ پھر یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ ایسی تعمیرات آثارقدیمہ کے قانون ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ(Antiquities Act)‘کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘ انچارج گورگٹھڑی اَحمد فراز جس قانون کا حوالہ دے رہے تھے اُس کے مطابق پاکستان میں چار سو آثار قدیمہ کے مقامات کو تین درجات میں تحفظ دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وہ مقامات شامل ہیں جن کی بظاہر حالت اچھی ہے تاہم اُنہیں مزید خراب ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ایسے مقامات کی تعداد خیبرپختونخوا میں چھبیس ہے۔ دوسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جنہیں بحالی و تحفظ کی ضرورت ہے اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 32 ہے۔ تیسرے درجے میں وہ مقامات ہیں جو انتہائی مخدوش حالت میں ہیں اور خیبرپختونخوا میں ایسے مقامات کی تعداد 33ہے۔ گرباگریہاں (شیولنگ)‘ انترالہ (راہداری)‘ ویمانی (چار مندر) اور گورگھ ناتھ مندر پر مشتمل ’گورگٹھڑی‘ بھی انہیں خاص مقامات میں سے ایک ہے لیکن خاطرخواہ توجہ سے محروم۔ اِس عمارت کے احاطے میں مغلیہ عہد میں تعمیر ہونے والے 34 کمروں میں سے 28 کمرے محکمۂ سیاحت نے ایک حکمت عملی کے تحت قبضہ کر رکھے ہیں اور وہاں سیاحت و ثقافت کے نام پر جوکچھ ہو رہا ہے وہ ’1975ء‘ کے ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ گورگٹھڑی میں تعمیر ہونے والے شادی ہال کو مسمار کرنے کے احکامات پشاور ہائی کورٹ نے دے رکھے ہیں لیکن محکمہ یہ کام بھی نہیں کررہا کیونکہ ایسا کرنے سے بااثر سیاسی شخصیت کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یوں سب آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں کیونکہ تنخواہوں اور مراعات ملنے کا سلسلہ جاری ہے‘ اُور وقت تو گزر ہی رہا ہے!

گورگٹھڑی کے مقام پر ’شیوراتری‘ تہوار کی مناسبت سے ’بڑے پیمانے پر‘ اجتماعی تقریبات رواں برس نہیں ہو پائیں گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کا دوسرا بڑا ’شیومندر‘ مانسہرہ (ہزارہ ڈویژن) میں ہے اور پشاور کی ہندو برادری نے صوبائی سطح پر مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ناکافی سہولیات کی وجہ سے اِس سال یہ تہوار پشاور کی بجائے ’شیوراتری‘ مانسہرہ میں منایا جائے۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہندو برادری کی نمائندگی کرنے والے ’آن دی ریکارڈ‘ متعلقہ سرکاری محکموں کی مذمت تک نہیں کرتے‘ کیونکہ وہ اِس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ ہی کا استعمال کرتے ہوئے اُنہیں ’گورگٹھڑی شیومندر‘ ہی سے محروم نہ کردیا جائے۔ عجب ہے کہ ’اِنٹیکوئٹز ایکٹ‘ کا اطلاق گورگٹھڑی سے استفادہ کرنے والے ایک طبقے پر تو ہوتا ہے لیکن دوسرے پر نہیں‘ کیا یہی انصاف ہے؟