ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مہاجرین و انصار
مہاجرین و انصار
خیبرپختونخوا حکومت نے اُن تمام افغان شہریت رکھنے والے افراد کو بناء
تاخیر اپنے وطن واپس لوٹنے کا حکم دیا ہے‘ جو پاکستان میں کسی بھی حیثیت سے
قیام کا اجازت نامہ نہیں رکھتے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے
360افغان افراد کی فہرستیں بھی مرتب کر لی گئی ہیں جو صوبے کے مختلف اضلاع
کی بڑی مساجد و معروف مدارس میں بناء دستاویزات مقیم ہیں۔ محکمہ داخلہ کی
نگرانی میں کی جانے والی اِس تلاش و نشاندہی کی کارروائی میں یہ بھی معلوم
ہوا ہے کہ 20 ایسے افغان علماء بھی ہیں جنہوں نے پاکستان کے کمپیوٹرئزاڈ
قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں! جعل سازی‘ حلفیہ دروغ گوئی اور رشوت
کے ذریعے کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا‘ شرعی طورپر کہاں تک جائز ہے؟ پاکستان
کے علاؤہ دیگر مسلم بالخصوص ممالک کی شہریت اور مہاجروں سے روا رکھے جانے
والے سخت گیر سلوک پر اُنگلیاں کیوں نہیں اُٹھائی جاتیں؟
صوبائی دارالحکومت پشاور میں 185 امام یا خطیب افغان پائے گئے ہیں جبکہ ضلع چارسدہ میں 49‘ مردان میں 46 اُور صوابی میں 13اِمام‘ پیش اِمام اُور خطیب ایسے افغان باشندے ہیں‘ جن کے پاس پاکستان میں قیام کی دستاویزات نہیں جبکہ 47ایسے افغان باشندے تھے جنہوں نے 31 دسمبر 2015ء تک قیام کے عارضی اجازت نامے حاصل کر رکھے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ محکمہ داخلہ کو دی گئی فہرست کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے سوات‘ بونیر‘ چترال‘ طورغر‘ ہری پور‘ کوہستان‘بٹ گرام‘ شانگلہ‘ کرک‘ لکی مروت‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور ٹانک میں ایک بھی ایسا افغان باشندہ نہیں جو صاحب منبر و مسجد ہو! جبکہ مقامی صحافی برسرزمین حقائق سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’مالی وسائل رکھنے والے افغانوں نے بڑی تعداد میں ’کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کر رکھے ہیں لیکن جب اِس سلسلے میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ حکام سے بات کی جائے تو وہ اِس امکان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن چند ہی روز پہلے حیات آباد کے نادرا آفس کے اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا کیونکہ مشہور زمانہ شربت بی بی نامی ایک افغان خاتون کو قومی شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ یہ وہی خاتون تھی‘ جس کی تصویر امریکہ کے ایک اشاعتی و نشریاتی ادارے ’نیشنل جیوگرافک‘ کے فوٹوگرافر نے بنائی اور اُسے شہرۂ آفاق ’مونالیزا‘ نامی مصوری کے شہکار جیسی شہرت ملی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے لئے کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈ کا حصول قطعی مشکل نہیں‘ کیونکہ اِس کے لئے تصدیق کے جن قواعد و مراحل کو مرتب کیا گیا ہے‘ اُن میں خامیاں موجود ہیں اور کوائف کی جانچ کرنے کا اختیار بھی اُنہی افراد کے پاس ہے جو اِن کارڈوں کو جاری کرتے ہیں۔ چونکہ بلدیاتی نظام موجود نہیں جس میں ہر یونین کونسل کی سطح پر نمائندے کسی شخص کے مقامی ہونے کی تصدیق کرتے تھے‘ اِس لئے تصدیق آسان ہو گئی ہے اور چند ہزار روپے کے عوض قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کو ’نادرا‘ کے اُن دفاتر کا بھی علم ہے‘ جہاں ایسے ’انصار‘ موجود ہیں‘ جو اُن سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی شہریت سستی اُور قابل فروخت بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ’غیب کا علم‘ ہونا ضروری نہیں بلکہ اِس کے لئے کئی ایک طریقے ’رائج الوقت‘ ہیں۔ مثال کے طور پر جملہ سرکاری ملازمین بالخصوص نادار اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال سالانہ بنیادوں پر کی جائے۔ جس طرح اراکین قومی اسمبلی کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات اور اِس میں آئے ردوبدل کے بارے میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے حلفیہ طور پر کہتے ہیں کہ اگر اُن کی بیان کردہ تفصیلات میں کمی بیشی پائی گئی تو انہیں نااہل قرار دیا جائے اِسی طرح جملہ سرکاری ملازمین سے بھی اُن کی آمدن (انکم) اور اثاثہ جات (جائیداد) کے بارے میں پوچھا جائے۔ ایسے تمام سرکاری ملازمین جو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں اُن کے اثاثہ جات کی تفصیلات سے وفاقی و صوبائی خفیہ تحقیقاتی اداروں کو بھی مطلع کیا جائے‘ جو اپنے طورپر تصدیق کریں۔ قومی شناختی کارڈ کے حصول کو تعلیمی دستاویزات سے مشروط کرنے اور قبائلی علاقہ جات میں تصدیق کے الگ معیار مقرر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو جب تک قومی شناختی کارڈ کی ضرورت نہ پڑے تو اِسے بنانا ضروری نہیں سمجھتے اور خواتین کو تو ایسی ضرورت سے بھی حتی الوسع الگ رکھا جاتا ہے‘ جس میں اُن کی تصویر لی جاتی ہے لیکن افغان باشندے اِس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں اور خود کو قبائلی علاقوں کا باشندہ ظاہر کرکے اپنے خاندان کو قومی ڈیٹابیس کا حصہ بنا لیتے ہیں‘ جس کی بنیاد پر بعدازاں بندوبستی علاقوں سے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد شناختی کارڈ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں صحت کا نظام کمپیوٹرئزاڈ نہیں‘ اُور سرکاری علاج گاہوں سے رجوع کرنے والوں کا ’ریکارڈ‘ نہیں رکھا جاتا‘ اِس لئے قومی شناختی کارڈ کی ضرورت و تصدیق کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر حکومت ’صحت کے شعبے کی بھلائی‘ کا سوچے اور مریضوں کے کوائف اُن کے ’قومی شناختی کارڈ‘ نمبروں سے محفوظ رکھے جائیں تو اِس سے نہ صرف مریض کی ہسٹری‘ ماضی میں علاج کی تفصیلات‘ خون کا گروپ‘ موروثی بیماریوں وغیرہ کے علاؤہ ہنگامی صورتحال میں کسی مریض کو فوری طبی امداد دینے میں آسانی ہوگی۔ شناختی کارڈ سے اگر ’قومی انکم ٹیکس‘ نمبر جڑ سکتا ہے تو دیگر سہولیات و ضروریات جیسا کہ ڈرائیونگ لائسینس اُور گاڑیوں کی رجسٹریشن ایک ہی کارڈ کا حصہ کیوں نہیں بن سکتیں؟ نادرا ملازمین کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے تجاہل عارفانہ سے قومی سلامتی کے لئے خطرات میں کس قدراضافہ ہوا ہے۔
کیا کوئی پاکستانی افغانستان کی شہریت اِس قدر آسانی سے حاصل کرسکتا ہے‘ جس قدر ہمارے ہاں ہے؟
مسئلہ سرکاری اِداروں کو باہم مربوط کرنے کا ہے لیکن یہ کام کون کرے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں ’جماعتی سیاست اور مفادات‘ سے اِس طرح جکڑ دیا گیا ہے‘ کہ وہ سرکھجانے کی فرصت نہیں پاتے جبکہ منتخب نمائندے اپنے حلف (عہد) کو نہیں نبھا رہے۔ تصور کیجئے کہ جہاں اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کی اکثریت قانون ساز اداروں کے اراکین کی ہو‘ جہاں سرکاری اِداروں میں اہلیت کی بجائے مداخلت حاکم ہو‘ تو کیا عجب ہے کہ عہدوں کی تعظیم اُور محبت غالب و مقصود بن جائے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی و اجتماعی مفادات کی بجائے ذاتی و انفرادی ترجیحات اعلیٰ و ادنی افسرشاہی سے لیکر گلی کوچے کے دکاندار تک پیش نظر ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ہاں احتساب کا ادارہ بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ادارہ بن جانے کے بعد کسی کی مجال نہ ہوتی کہ وہ مالی و انتظامی بدعنوانی کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ کیا اِسے قانون کہا جائے گا کہ جس میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کروڑوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو جاتے ہیں! اگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا ادارک ہوتا تو پشاور کی ضلعی انتظامیہ و میونسپل حکام کو یہ حکمت عملی اختیار ہی نہ کرنا پڑتی کہ ’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کے دوران ہفتہ وار تعطیل نہیں ہوگی۔‘
صوبائی دارالحکومت پشاور میں 185 امام یا خطیب افغان پائے گئے ہیں جبکہ ضلع چارسدہ میں 49‘ مردان میں 46 اُور صوابی میں 13اِمام‘ پیش اِمام اُور خطیب ایسے افغان باشندے ہیں‘ جن کے پاس پاکستان میں قیام کی دستاویزات نہیں جبکہ 47ایسے افغان باشندے تھے جنہوں نے 31 دسمبر 2015ء تک قیام کے عارضی اجازت نامے حاصل کر رکھے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ محکمہ داخلہ کو دی گئی فہرست کے مطابق خیبرپختونخوا کے علاقے سوات‘ بونیر‘ چترال‘ طورغر‘ ہری پور‘ کوہستان‘بٹ گرام‘ شانگلہ‘ کرک‘ لکی مروت‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور ٹانک میں ایک بھی ایسا افغان باشندہ نہیں جو صاحب منبر و مسجد ہو! جبکہ مقامی صحافی برسرزمین حقائق سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’مالی وسائل رکھنے والے افغانوں نے بڑی تعداد میں ’کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈز‘ حاصل کر رکھے ہیں لیکن جب اِس سلسلے میں ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ حکام سے بات کی جائے تو وہ اِس امکان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن چند ہی روز پہلے حیات آباد کے نادرا آفس کے اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا کیونکہ مشہور زمانہ شربت بی بی نامی ایک افغان خاتون کو قومی شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ یہ وہی خاتون تھی‘ جس کی تصویر امریکہ کے ایک اشاعتی و نشریاتی ادارے ’نیشنل جیوگرافک‘ کے فوٹوگرافر نے بنائی اور اُسے شہرۂ آفاق ’مونالیزا‘ نامی مصوری کے شہکار جیسی شہرت ملی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے لئے کمپیوٹرئزاڈ قومی شناختی کارڈ کا حصول قطعی مشکل نہیں‘ کیونکہ اِس کے لئے تصدیق کے جن قواعد و مراحل کو مرتب کیا گیا ہے‘ اُن میں خامیاں موجود ہیں اور کوائف کی جانچ کرنے کا اختیار بھی اُنہی افراد کے پاس ہے جو اِن کارڈوں کو جاری کرتے ہیں۔ چونکہ بلدیاتی نظام موجود نہیں جس میں ہر یونین کونسل کی سطح پر نمائندے کسی شخص کے مقامی ہونے کی تصدیق کرتے تھے‘ اِس لئے تصدیق آسان ہو گئی ہے اور چند ہزار روپے کے عوض قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کو ’نادرا‘ کے اُن دفاتر کا بھی علم ہے‘ جہاں ایسے ’انصار‘ موجود ہیں‘ جو اُن سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی شہریت سستی اُور قابل فروخت بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے ’غیب کا علم‘ ہونا ضروری نہیں بلکہ اِس کے لئے کئی ایک طریقے ’رائج الوقت‘ ہیں۔ مثال کے طور پر جملہ سرکاری ملازمین بالخصوص نادار اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال سالانہ بنیادوں پر کی جائے۔ جس طرح اراکین قومی اسمبلی کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات اور اِس میں آئے ردوبدل کے بارے میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے حلفیہ طور پر کہتے ہیں کہ اگر اُن کی بیان کردہ تفصیلات میں کمی بیشی پائی گئی تو انہیں نااہل قرار دیا جائے اِسی طرح جملہ سرکاری ملازمین سے بھی اُن کی آمدن (انکم) اور اثاثہ جات (جائیداد) کے بارے میں پوچھا جائے۔ ایسے تمام سرکاری ملازمین جو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں اُن کے اثاثہ جات کی تفصیلات سے وفاقی و صوبائی خفیہ تحقیقاتی اداروں کو بھی مطلع کیا جائے‘ جو اپنے طورپر تصدیق کریں۔ قومی شناختی کارڈ کے حصول کو تعلیمی دستاویزات سے مشروط کرنے اور قبائلی علاقہ جات میں تصدیق کے الگ معیار مقرر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کو جب تک قومی شناختی کارڈ کی ضرورت نہ پڑے تو اِسے بنانا ضروری نہیں سمجھتے اور خواتین کو تو ایسی ضرورت سے بھی حتی الوسع الگ رکھا جاتا ہے‘ جس میں اُن کی تصویر لی جاتی ہے لیکن افغان باشندے اِس صورتحال کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں اور خود کو قبائلی علاقوں کا باشندہ ظاہر کرکے اپنے خاندان کو قومی ڈیٹابیس کا حصہ بنا لیتے ہیں‘ جس کی بنیاد پر بعدازاں بندوبستی علاقوں سے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد شناختی کارڈ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں صحت کا نظام کمپیوٹرئزاڈ نہیں‘ اُور سرکاری علاج گاہوں سے رجوع کرنے والوں کا ’ریکارڈ‘ نہیں رکھا جاتا‘ اِس لئے قومی شناختی کارڈ کی ضرورت و تصدیق کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر حکومت ’صحت کے شعبے کی بھلائی‘ کا سوچے اور مریضوں کے کوائف اُن کے ’قومی شناختی کارڈ‘ نمبروں سے محفوظ رکھے جائیں تو اِس سے نہ صرف مریض کی ہسٹری‘ ماضی میں علاج کی تفصیلات‘ خون کا گروپ‘ موروثی بیماریوں وغیرہ کے علاؤہ ہنگامی صورتحال میں کسی مریض کو فوری طبی امداد دینے میں آسانی ہوگی۔ شناختی کارڈ سے اگر ’قومی انکم ٹیکس‘ نمبر جڑ سکتا ہے تو دیگر سہولیات و ضروریات جیسا کہ ڈرائیونگ لائسینس اُور گاڑیوں کی رجسٹریشن ایک ہی کارڈ کا حصہ کیوں نہیں بن سکتیں؟ نادرا ملازمین کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے تجاہل عارفانہ سے قومی سلامتی کے لئے خطرات میں کس قدراضافہ ہوا ہے۔
کیا کوئی پاکستانی افغانستان کی شہریت اِس قدر آسانی سے حاصل کرسکتا ہے‘ جس قدر ہمارے ہاں ہے؟
مسئلہ سرکاری اِداروں کو باہم مربوط کرنے کا ہے لیکن یہ کام کون کرے گا۔ عوام کے منتخب نمائندوں ’جماعتی سیاست اور مفادات‘ سے اِس طرح جکڑ دیا گیا ہے‘ کہ وہ سرکھجانے کی فرصت نہیں پاتے جبکہ منتخب نمائندے اپنے حلف (عہد) کو نہیں نبھا رہے۔ تصور کیجئے کہ جہاں اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کی اکثریت قانون ساز اداروں کے اراکین کی ہو‘ جہاں سرکاری اِداروں میں اہلیت کی بجائے مداخلت حاکم ہو‘ تو کیا عجب ہے کہ عہدوں کی تعظیم اُور محبت غالب و مقصود بن جائے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی و اجتماعی مفادات کی بجائے ذاتی و انفرادی ترجیحات اعلیٰ و ادنی افسرشاہی سے لیکر گلی کوچے کے دکاندار تک پیش نظر ہیں‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے ہاں احتساب کا ادارہ بنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ادارہ بن جانے کے بعد کسی کی مجال نہ ہوتی کہ وہ مالی و انتظامی بدعنوانی کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ کیا اِسے قانون کہا جائے گا کہ جس میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے کروڑوں روپے دے کر ’باعزت بری‘ ہو جاتے ہیں! اگر ہم میں سے ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا ادارک ہوتا تو پشاور کی ضلعی انتظامیہ و میونسپل حکام کو یہ حکمت عملی اختیار ہی نہ کرنا پڑتی کہ ’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کے دوران ہفتہ وار تعطیل نہیں ہوگی۔‘
Afghan refugees are getting national identity cards on fake documents |