Monday, August 31, 2015

Aug2015: Wildlife protection Part 2

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بقاء کا راز!
’’تحفظ جنگلی و حیاتی ماحول‘‘ کے زیرعنوان تیس اگست کو پیش کردہ چند گزارشات میں درختوں (فارسٹ) کی اہمیت اور جنگلات کی حفاظت کا ضمنی ذکر تشنہ محسوس کرنے والے قارئین نے موضوع کا باریک بینی سے مطالعہ نہیں کیا اور یہی وجہ رہی کہ وہ درست تناظر نظروں سے اوجھل رہا لیکن (معذرت کے ساتھ) کالم کے موضوع کو جنگلی حیات (وائلدلائف) اُور حیاتی ماحول (بائیوڈیورسٹی) تک محدود رکھنے کا مقصود اُن محکمہ جاتی حکمت عملیوں اور افرادی و مالی وسائل کی کمی پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالنا تھی‘ جن کی وجہ سے ہر سال مختص ہونے والے مالی وسائل کا بڑا حصہ صرف ملازمین کی تنخواہوں و مراعات کی نذر ہو رہا ہے۔ سرراہے ذکر صوبائی حکومت کی فراخدلی کا بھی کیا گیا جنہوں نے ماضی کے مقابلے رواں مالی سال کے دوران اِس قدر غیرمعمولی اور بڑی تعداد میں مالی وسائل مختص کئے جن ’محکمہ جنگلی حیات‘ کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن محض مالی وسائل مختص کرنے اور چند بڑے منصوبے شروع کرنا ایک ایسے مسئلے کا حل نہیں‘ جو دہائیوں سے پس پشت بلکہ نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔ آئندہ چند سطور میں گذشتہ سے پیوستہ اُس صورتحال کو زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جس پر ’جنگلی حیات و ماحولیاتی حیات کے تحفظ‘ کا انحصار ہے۔

خیبرپختونخوا کے 4اضلاع میں 6 نیشنل پارکس ہیں۔ایبٹ آبادمیں ایویبہ نیشنل پارک‘ مانسہرہ میں سیف الملوک نیشنل پارک اُور دوسرا لولوسر دودی پت نیشنل پارک‘ چترال میں دو نیشنل پارک ہیں ایک بروغل نیشنل پارک اور دوسرا چترال گول نیشنل پارک اُور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیخ بدین نیشنل پارک۔ صوبائی حکومت اِن چھ نیشنل پارکس کے علاؤہ 2مزید نیشنل پارکس بنانا چاہتی ہے جس میں سے ایک ’سپٹ ویلی کوہستان نیشنل پارک‘ ہوگا جبکہ دوسرے نیشنل پارک کے لئے ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) کا معروف سیاحتی مقام ٹھنڈیانی یا مانکیان اور دیگر ملحقہ مقامات زیرغور ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی اَرباب اختیار سے دست بستہ سوال ہے کہ جب پہلے سے موجود نیشنل پارکس کی دیکھ بھال اور افادیت کے لحاظ سے اُن کی مکمل فعالیت کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے تو مزید نیشنل پارکس اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کا منطقی جواز کیا ہے؟ ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ موجودہ نیشنل پارکس (وسائل) کی حالت بہتر بنائی جائے‘ ان میں سہولیات کو وسعت دی جائے اور متعلقہ محکمے میں درکار افرادی قوت کی کمی کو دور کیاجائے۔ مثال کے طور پر ایبٹ آباد میں کل 53 یونین کونسلیں ہیں‘ جن کے لئے صرف 7 اہلکاروں کی خدمات دستیاب ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں سفر کرنے کے لئے محکمے کے پاس خاطرخواہ تعداد میں گاڑیاں نہیں‘ عجب ہے کہ 2 اَضلاع پر مشتمل اِیبٹ آباد کے پاس صرف دو گاڑیاں ہیں‘ جن کے لئے مستقبل بنیادوں پر اِیندھن کی فراہمی کے لئے الگ سے مالی وسائل نہیں دیئے جاتے! اسی طرح مانسہرہ کی 49 یونین کونسلیں کے لئے کل 25 نگران اہلکار ہیں اور اگر وہ کسی پہاڑی علاقے میں جنگلی حیات کو درپیش خطرات یا نگرانی یا قدرتی آفت کی صورت مدد کے لئے کسی ایک نالے یا گھاٹی میں جائیں تو انہیں صرف آمدورفت ہی میں ہفتے لگ جاتے ہیں!

صوبائی حکومت ’نیشنل پارکس کی منیجمنٹ‘ کے لئے جس تین درجاتی حکمت عملی کو کافی سمجھ رہی ہے‘ وہ کیمونیکیشن (مواصلاتی) نظام کی تنصیب‘ گندگی ٹھکانے لگانے کا نظام‘ مقامی اَفراد کی شراکت داری اُور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل‘ جن کی مشاورت سے نیشنل پارکس سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک خاص تناسب سے علاقائی ترقی پر خرچ کرنے پر مبنی ہے اور اِسے نئے ترقیاتی منصوبوں کی ذیل میں شمار کرنے کی بجائے پہلے سے موجود وسائل کی ترقی کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کو اِس کے قیام کے 41 برس بعد سال 2015ء میں ’وائلڈ لائف کنزوریشن‘ پرزرویشن‘ منیجمنٹ اینڈ بائیوڈیورسٹی ایکٹ‘ دیا‘ جو اپنی جگہ ایک ضرورت کی تکمیل ثابت ہوئی ہے جو موجودہ حکومت کے عزم (نیک اِرادوں) کی عکاس ہیں لیکن ’کنزوریشن‘ کے لئے مختص مالی وسائل میں خاطرخواہ اضافہ ضروری ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ و بقاء کے لئے ’ایبٹ آباد ڈویژن‘ کا سالانہ بجٹ 20 لاکھ روپے کہاں کا انصاف ہے جو نیشنل پارک‘ گیمز ریزور‘ بریڈرنگ انکلوژر‘ وائلڈ لائف سروسیز اور مختلف بائیو ڈیورسٹی ہاٹ سپاٹ پر خرچ کرنے کے لئے کسی بھی صورت چاہے جتنا بھی کھینچ تان کر احتیاط سے خرچ کیا جائے کافی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں کہ جہاں جنگلی حیات کی بہتات ہے‘ وہاں کے لئے گذشتہ دس برس سے نئی اسامیاں نہ دینا‘ ماضی کے سیاسی حکمرانوں کی بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ جو اپنے من پسند افراد کو ایسے آبائی اضلاع میں ملازمتیں فراہم کرتے رہے‘ جو میدانی علاقے تھے اُور کئی تو ایسے مقامات بھی ہیں‘جہاں قابل تحفظ جنگلی حیات کا وجود ہی نہیں!

صورتحال کو واضح کرنے کے لئے جنوبی افریقہ کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جہاں پوری دنیا کی نصف سے زیادہ جنگلی حیات ہے اور ملک کے طول و عرض میں نیشنل پارکس قائم ہیں‘ جن کی سیروسیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پاکستان کے پانچ سالانہ بجٹ سے زیادہ بنتی ہے۔

 جنگلی حیات کے تحفظ سے نہ صرف حیاتی ماحول کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے‘ جو زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے پاکستان جیسے ملک کے لئے ضرورت اور اِس سے وابستہ سیاحت کے شعبے کے لئے ناگزیر ہے‘ جنت نظیر اُور پرفضا وادیوں میں رہنے والوں کے لئے پائیدار و مستقل روزگار کے مواقعوں کا بندوبست اور ان علاقوں میں ترقیاتی عمل کو ’جنگلی حیات و حیاتی ماحول‘ سے مشروط ہونا چاہئے اُور جس طرح ترقیاتی منصوبے بنانے سے قبل ماہرین ماحولیات اور اِس بارے مقامی اَفراد سے رائے لی جاتی ہے‘ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں اَندھادھند ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے تحفظ جنگلی حیات کے محکمے سے وابستہ ماہرین سے بھی لازماً مشاورت کی جائے‘ جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو دفتروں تک محدود رہنے یا گول گھومنے والی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے زنگ لگ رہا ہے!

Sunday, August 30, 2015

Sep2015: Crimes, women & Raksha Hindu festival

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دُوسرا ’روپ‘
خواتین سے متعلق اپنی اِس رائے رجوع کر لیجئے کہ وہ ’صنف نازک‘ ہیں۔ انتہائی ناموافق حالات کار میں بھی اپنی موجودگی اور افادیت ثابت کرنے والی ’باہمت خواتین‘ کی کمی نہیں جو گھر کی چاردیواری سے لیکر عملی زندگی کے پرپیچ راستوں پر رواں دواں اُور شادوآباد ہیں لیکن خیبرپختونخوا پولیس کو یہ مشکل درپیش ہے کہ جرائم میں ملوث خواتین کی تعداد میں گذشتہ چند برس کے دوران غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اور خواتین قتل و اغوأ جیسے بڑے جرائم جبکہ چوری‘ ڈکیتی اور راہزنی جیسے عمومی جرائم کی مرتکب پائی گئی ہیں! محکمۂ پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں کل 487 خواتین مفرور قرار دی جا چکی ہیں جن کا تعلق دیگر اضلاع کے علاؤہ 174صوبائی دارالحکومت پشاور‘ 52 مردان اُور 39ضلع کوہاٹ سے ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبائی سطح پر پولیس کو جن مفرور ملزمان کی تلاش ہے اُن کی طویل فہرست میں کل 28ہزار 203 افراد کے نام درج ملتے ہیں! اگر پولیس کا تفتیشی طریقۂ کار اور عمومی و خصوصی (منظم) جرائم کے خلاف تفتیشی طریقۂ کار تبدیل کیا جائے تو مفروروں کی ہر دن طویل ہوتی فہرست کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن خیبرپختونخوا کی سردست ترجیح ’عسکریت پسندوں‘ کے خلاف کاروائیاں ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی جانب توجہ مبذول نہیں کی جا رہی۔ اس سلسلے میں اگر صوبائی حکومت ایک خصوصی تفتیشی دستہ تشکیل دے تو ایسے کئی مفروروں کو باآسانی گرفتار کیا جا سکتا ہے جو پشاور ہی کے مضافاتی علاقوں میں موجود ہیں اور موبائل فون کے ذریعے دھونس‘ دھمکیوں اور جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے آلۂ کاروں و سہولت کاروں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

 پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے شہری و دیہی علاقوں کو محفوظ بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہےُ جتنا قبائلی علاقوں میں قائم عسکریت پسندوں کی طاقت کے مراکز تباہ کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمام تر توجہ قبائلی علاقوں پر مرکوز رہے اور عسکریت پسند اپنے سہولت کاروں کے ہاں شہری علاقوں میں روپوش رہیں۔ توجہ کیجئے کہ پشاور پولیس کو قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی 2 ہزار 356 ایسی خواتین مطلوب ہیں جنہوں نے جرائم میں معاونت کی یا جرائم کا بذات خود ارتکاب کیا لیکن ایسے ہی کردار والی پشاور کی رہائشی خواتین کی تعداد 9 ہزار 246بیان کی گئی ہے! اور پولیس کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہت سی ایسی خواتین جو مختلف جرائم میں مطلوب ہیں‘ گرفتاری سے بچنے کے لئے بیرون ملک منتقل ہوگئی ہیں۔

جرائم میں چاہے مرد ملوث ہوں یا خواتین‘ صنفی تقسیم پر تفکر سے زیادہ توجہ طلب ’پولیس کے تفتیشی معیار اور نگرانی کے نظام‘ ہونا چاہئے۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کے ایسے ترقی یافتہ ماڈلز بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو اگر مصروف بازاروں یا چوراہوں پر نصب کر دیئے جائیں تو سافٹ وئرز کی مدد سے سینکڑوں ہزاروں افراد کی شناخت بھی ممکن ہے اُور اگر کسی نے زیرجامہ اسلحہ چھپا رکھا ہے تو اسلحے کی ساخت و نوعیت بھی خودکار انداز سے معلوم ہو سکتی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے پرانی ٹیکنالوجی (سی سی ٹی ویز کیمروں) کا انتخاب کیا ہے‘ جس سے عمومی نگرانی تو ممکن ہے لیکن اِس سے خاص اہداف یا مقاصد پر مبنی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ پشاور پولیس کو ہر تھانے کی سطح پر موبائل فون کالز اسکینرز دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ سالہا سال سے ایک ہی تھانے میں تعینات اہلکاروں کے تبادلے کیوں نہیں ہو رہے؟ گشتی پولیس کا نظام فعال کرنے کے لئے مقامی افراد کی بھرتی اُور پولیس و عوام کے درمیان رابطہ کاری (سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی) کی فعالیت کن مصلحتوں کے باعث ممکن نہیں‘ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے! کہیں گھوڑے اور گھاس نے آپس میں دوستی تو نہیں کرلی؟

پس تحریر: ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کی ہندو‘ سکھ اُور جین برادری رواں ہفتے ’رکشا تہوار‘ منا رہی ہے‘ جو بہن بھائی کے رشتے اور ایک دوسرے کے دُکھ سُکھ میں ساتھ دینے کے عزم و عہدکی ’سالانہ تجدید‘ سے عبارت ہے۔ یاد رہے کہ ’رکشا بندھن‘ کم و بیش چھ ہزار سال قبل آرائن ثقافت میں منایا گیا جو دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تھی اور تاریخی حوالوں کے اعتبار سے راجپوت شہزادئیاں اور ملکہ نے اِس تہوار کی ابتدأ کی تھی‘ جو دیگر ہمسایہ تہذیبوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو خیرسگالی کے طور پر راکھی اُور تحائف اِرسال کیا کرتی تھیں۔

 ہر سال انہی ایام میں پورے چاند کے ساتھ اِس تہوار کے سلسلے میں گورگٹھڑی کے ’شیومندر‘ اُور ’کالا باڑی مندر‘ پشاور میں مرکزی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ اس سال ’رکشا‘ یا ’راکھی بندھن‘ 29اگست سے شروع ہوا‘ جو 6ستمبر تک جاری رہے گا اُور اِس دوران بہنیں بھائیوں کی کلائی پر رنگ برنگے دھاگوں یا چمکدار نمائشی اشیاء کے استعمال سے بنائے گئے سوتی زیورات باندھتی ہیں جس کے جواب میں اظہار تشکر کے طور پر بہنوں کا منہ میٹھا کیا جاتا ہے۔ یہ تقریبات نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ مردان‘ بنوں اُور مانسہرہ میں اِجتماعی جبکہ صوبے کے دیگر حصوں میں اقلیتیں اِسے نجی طور پر منانے کے لئے اہتمام کرتی ہے۔ گھروں اور عبادت گاہوں کو بطور خاص سجایا جاتا ہے‘ اِس دن کی مناسبت سے کھانے پینے کی اشیاء حسب استطاعت تیار کی جاتی ہیں۔ دعوتوں کا اہتمام ہوتا ہے اور صرف یہی نہیں کہ حقیقی بہنیں اور بھائی ہی آپس میں اِس تہوار کی مناسبت سے نیک تمناؤں کا تبادلہ کرتیہیں بلکہ کسی خاندان یا سماجی تعلق کی بنیاد پر رشتوں کو پاکیزگی اور مزید مضبوطی دینے کے لئے ’راکھی‘ باندھی جاتی ہے۔

 ہندو‘ سکھ اُور جین مذاہب کو ماننے والوں کے ہاں خاندان کی اکائی کو مضبوط کرنے میں ’رکشا بندھن‘ تہوار کی اہمیت و کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا بطور ’دین‘ امتیاز یہ ہے کہ اِس میں کسی پر جبر نہیں اُور ہر اقلیت کو اَپنی مذہبی رسومات کی اَدائیگی میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ اُمید ہے کہ ’رکشا بندھن‘ کی تقریبات کا آغاز جس پرامن و پرمسرت انداز میں ہواہے‘ اس کے باقی ماندہ ایام میں خوشیاں بڑھتی چلی جائیں گی۔

Saturday, August 29, 2015

Aug2015: Wildlife Protection Part 1

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تحفظ جنگلی و حیاتی ماحول
دو سال قبل کی بات ہے کہ ضلع ایبٹ آباد کے علاقے ’تاج وال‘ کے بالائی گاؤں میں ایک خاتون پر تیندوا (کامن لیپرڈ) نے حملہ کیا‘ تو اہل علاقہ سراپا احتجاج بن گئے۔ جس پر محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے اہلکار متحرک ہوئے اور ذمہ دار تیندوے کی تلاش شروع کردی گئی‘ چند ہی روز میں اُس تیندوے کو پکڑ لیا گیا لیکن اِس گرفتاری پر مزاحمت کرتے ہوئے آہنی جنگلے پر غصہ نکالنے کی وجہ سے اُس نے اپنے ’شکاری دانت‘ توڑ ڈالے‘ جس کی وجہ سے وہ ایک طرح کا معذور ہوگیا اور اب شکار کرنے کے قابل نہ رہا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری خیبرپختونخوا کے ’محکمۂ جنگلی حیات‘ نے اپنے ذمے لے لی اور آج سات سے آٹھ سال کا یہ تیندوا وائلڈ لائف ایبٹ آباد (کاکول روڈ) دفتر کے عقب میں ’رہائش پذیر‘ ہے جسے مبینہ طور پر ہر روز ڈھائی سے تین کلو مرغی کا گوشت جبکہ ہفتے میں ایک مرتبہ کسی حلال جانور کا ہڈیوں والا گوشت بطور خوراک دیا جاتا ہے۔

 اعدادوشمار کے مطابق ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) میں ایسے تیندوں کی کل تعداد (آبادی) 50سے 70کے لگ بھگ ہوگی۔ حکام کے مطابق پشاور میں زیرتعمیر ’زولوجیکل گارڈن چڑیا گھر (zoological garden)‘ میں اس تیندوے کو منتقل کیا جائے گا۔ اِس کے علاؤہ 2دیگر کامن لیپرڈز کو ملاکنڈ وائلڈلائف سفاری پارک جبکہ 3 لیپرڈز مانسہرہ میں محکمہ وائلڈ لائف کی نگہداشت میں ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں تیندوے کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں ایک برفانی اور دوسرا کامن لپیرڈ۔ ان کی تیسری قسم ’جاگیوار‘ سندھ میں پائی گئی ہے لیکن اس کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ بالائی ایبٹ آباد کے پہاڑوں اور یخ بستہ وادیوں میں رہنے والے تیندوے کو پشاور کے میدانی ہواؤں‘ مربوط و چند ماہ انتہائی گرم موسم کی شدت راس آئے گا؟ ماہرین کے مطابق کولڈ بلڈڈ (سردخون) والے تیندوا جانوروں کی ایسی نسل سے تعلق رکھتا ہے‘ جو خود کو ماحولیاتی درجۂ حرارت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ یہ خصوصیت انسانوں میں نہیں لیکن ہر جانور کی اپنی برداشت بھی ہوتی ہے جس کے مطابق ہی وہ موسم (ماحول) کی سختی برداشت کر سکتا ہے۔

خیبرپختونخوا میں جنگلی حیات (وائلڈ لائف) اُور حیاتی ماحول (بائیوڈیورسٹی) کے حوالے سے ایک عدد خصوصی حکومتی ادارہ تو موجود ہے لیکن اِس کی کارکردگی مالی و افرادی وسائل کی کمی کے سبب بس اتنی ہی ہے‘ جس سے چند ایک مثالیں پیش کی جا سکیں! محکمۂ وائلڈ لائف 1975ء میں فارسٹ ڈیپارٹمنٹ (محکمہ جنگلات) کے ایک جز کے طور پر قائم کیا گیا جسے 1982ء میں الگ محکمے کی حیثیت دی گئی اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو اِس بات کا سہرا جاتا ہے کہ انہوں نے محکمۂ وائلڈلائف کو رواں مالی سال (2015-16ء) میں غیرمعمولی مالی وسائل اور ترقیاتی منصوبے دیئے ہیں۔ جن سے مختلف ترقیاتی منصوبے بشمول 1: جیوریسک پارک (پشاور) کا قیام‘ 2: سکول آف ٹیکسیڈرمی (پشاور) کا قیام‘ 3: نیشنل پارک منیجمنٹ (چترال‘ ڈی آئی خان‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ) کے نام سے خصوصی حکمت عملی‘ 4: زولوجیکل گارڈن (ماسر فارسٹ شینکیاری مانسہرہ) اور 5: بائیوڈورسٹی پارک (ریجنل فلورا اینڈ فانہ) شملہ ایبٹ آباد مکمل کئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ مالی سال 2015-16ء میں وائلڈ لائف و حیاتی ماحول کی ترقی کے لئے کل40 کروڑ مختص کئے گئے ہیں جن میں تین سالہ ’منیجمنٹ آف نیشنل پارکس اِن خیبرپختونخوا‘ کامنصوبہ خاص اہمیت کا حامل ہے جس پر مجموعی طور پر 72کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ ماضی میں محکمۂ جنگلی حیات کو ترقیاتی کاموں کے لئے سالانہ 10سے 12کروڑ ملتے تھے جنہیں بڑھا کر 72کروڑ روپے کرنے کے مثبت ثمرات عملاً نظر بھی آنے چاہیئں۔

محکمۂ جنگلی حیات و حیاتی ماحول کے تحفظ کی ترقی کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا و دیگر فیصلہ سازوں کی توجہ چند ایسے امور کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے‘ جنہیں ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ایک سال میں 72کروڑ روپے جیسی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی صورتحال میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی اور یہ رقم یہاں وہاں ’تحلیل‘ ہو جائے گی۔ ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اِن تجاویز پر ضرور غور ہونا چاہئے۔
 1: پیٹرولنگ (گشت) کے لئے الگ سے سٹاف دیاجائے۔ ہر ڈویژن کی سطح پر ایک گشتی سکواڈ ہونا چاہئے۔ جو جدید الیکٹرانک آلات سے لیس ہونے چاہیئں۔
2: جنگلی حیات کے تحفظ میں کیمونٹی (مقامی افراد) کی شمولیت ہونی چاہئے۔
3: ’’وائلڈ لائف آوٹ ریچ پروگرام‘‘ ڈیزائن کرنا چاہئے تاکہ شعور و آگہی کی مہمات کے ذریعے اِس حوالے سے معلومات و حساسیت میں اضافہ کیا جاسکے۔
 4: محفوظ علاقوں میں ’گیم منیجمنٹ‘ کی ذمہ داری مقامی سطح پر ’ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر (ڈی ایف اُو)‘ کو ہونی چاہئے جو فی الوقت سیکرٹری اور وزیراعلی کے پاس ہے۔ عام لوگوں کے لئے مشکل ہوتی ہے کہ وہ پرمٹ (اجازت نامہ) حاصل کرنے کے لئے سیکرٹری یا وزیراعلیٰ کے دفاتر تک رسائی کر سکیں۔
 5: ہزارہ ہری پور سے شروع ہو کر بھاشہ تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا علاقہ ہے لیکن اِس خطے میں وائلڈلائف کا ’کنزرویٹر‘ نہیں۔ پشاور میں ایک سے زیادہ کنزوریٹر رکھے گئے ہیں‘ جہاں جنگلی حیات نہیں وہاں کنزرویٹرز موجود لیکن جہاں ان کی تعداد اُنگلیوں پر گنی نہیں جا سکتی وہاں ’کنزرویٹر‘ کا نہ ہونا‘ تعجب خیز ہے۔ افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ گذشتہ 10برس کے دوران بالخصوص ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں محکمۂ وائلڈلائف کی اضافی اسامیاں (پوسٹیں) تخلیق نہیں کی گئیں جبکہ اس عرصے کے دوران پشاور اور مردان میں کئی اسامیوں پر بھرتیاں کرکے حکمراں جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مستقبل محفوظ بنائے ہیں!
 6: وائلڈ لائف اہلکار مشکل حالات اور پرخطر مقامات پر فرائض سرانجام دیتا ہے۔ جان کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ اس طرح جنگلات اور وائلڈ لائف اہلکاروں کے لئے ’ہارڈ ایریا الاؤنس‘ کے نام سے خصوصی مراعات مرتب کی جائے تاکہ غیرسیاسی اُور تحقیق سے لگن رکھنے والے ذہین لوگ اس شعبے سے وابستہ ہوں۔
 7: وائلڈ لائف کا دیگر متعلقہ محکموں اور غیرسرکاری عالمی و مقامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کاری (لائزان) کا نظام متعارف کرایا جائے۔
 8: وائلڈ لائف کی ڈیٹابیس منیجمنٹ ہونی چاہئے۔ اس کا اپنا الگ سے ریسرچ ونگ (شعبۂ تحقیق) ہونا چاہئے تاکہ جنگلی حیات کی آبادی اور لاحق خطرات سے متعلق تازہ ترین معلومات میسر ہوں اور وارننگ جاری کی جا سکیں۔
  9: جامعات میں وائلدلائف کی الگ فیکلٹی (اسپیشلائزیشن) ہونی چاہئے۔
 10: پرائیویٹ فارمنگ کو رجسٹریشن کے ضبط میں لانا چاہئے تاکہ جانوروں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُس کی عملاً حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے اور ساتھ ہی جانوروں کی خریدوفرخت کے حوالے سے غیرقانونی کاروبار یا نقل و حرکت پر بھی قابو پایا جاسکے۔
11: لوگوں کی تفریح اور شعور اجاگر کرنے کے لئے جنگلی حیات کے حوالے سے جانوروں کی نمائش‘ اُن کی تصاویر کی نمائش‘ جانوروں کی مصوری کرنے کے مقابلے‘ شکارگاہوں کی شیر‘ گیمز سینچریز کے مطالعاتی دوروں کا سرکاری طور پر یا نجی شعبے کے تعاون سے بندوبست کیا جائے۔
12: وزیراعظم کے پاس اختیار موجود ہے کہ وہ جنگلی حیات کے شکار کی اجازت دے سکتا ہے اور اس کی وجہ سے عرب ممالک سے آنے والے شہزادوں کو کھلم کھلا شکار کرنے کے خصوصی اجازت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ جنگی حیات کے بارے میں بااختیار سیاسی رہنماؤں کو اپنے رویئے تبدیل کرنے چاہئیں۔
13: خیبرپختونخوا محکمۂ وائلڈ لائف کی اپنی ویب سائٹ موجود ہے اگر اس کے ذریعے رضاکاروں کی بھرتی کی جائے تو اس سے بالخصوص گرمیوں کی تعطیلات میں طلباء و طالبات کو صحت مند سرگرمیاں میسر آئیں گی۔
14: ہر ضلع کی سطح پر زولوجیکل پارکس ہونے چاہئیں۔ جس طرح ’آئی ٹی پارکس‘ بنائے گئے ہیں۔
15: محکمہ وائلڈ لائف کا ایک توسیعی شعبہ ہے جس کی مزید توسیع ممکن اور ضروری ہے اور یہ توسیع ریجن کی سطح تک ہونی چاہئے۔

Friday, August 28, 2015

Aug2015: Trauma Centre for Journalists

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحافت: جذباتی و نفسیاتی صدمات
خیبرپختونخوا اور بالخصوص قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ ’پرخطر حالات‘ کا سامنا رہتا ہے‘ جس کے دو بنیادی محرکات ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں برداشت کا عنصر (مادہ) کم سے کم ترین حدوں (سطحوں)کو چھو رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت میں اِختلاف رائے کا عملاً اَحترام نہیں کرتیں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں یا انفرادی حیثیت میں صحافیوں کے بارے میں کارکنوں کی ایسی ذہنی تربیت کرتی ہیں (انہیں اکساتی ہیں) کہ وہ صحافتی اداروں یا صحافیوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانا ایک جائز فعل سمجھنے لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں یہ حقیقت بھی فراموش کر دیتی ہیں کہ صحافی کسی اِدارے میں سیاہ و سفید کے مالک نہیں ہوتے بلکہ ملازم ہوتے ہیں اور ادارہ جاتی حکمت عملیاں (ایڈیٹوریل اِدارتی پالیسیاں) ترتیب دینے میں اُن کی رائے یا تو فیصلہ سازی میں سرے سے شامل ہی نہیں کی جاتی یا پھر آٹے میں نمک کے برابر اُن سے صرف رائے لے کر مطلع کر دیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کراچی‘ لاہور اور اِسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ’میڈیا منیجرز‘ کہ جنہوں نے خیبرپختونخوا یا قبائلی علاقوں کو خود کبھی قریب سے نہیں دیکھا ہوتا‘ جنہیں اِس خطے کے ناموں تک کی ادائیگی صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں آتی‘ اُن سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں صحافی کارکنوں کی جان و مال کے تحفظ یا علاقائی (قبائلی) اقداروروایات کو مدنظر (پیش نظر) رکھ پائیں گے! براہ راست نشریات میں جب کسی صحافی سے بات چیت (beeper) لیا جا رہا ہوتا ہے تو پہلے سے بتائے گئے سوالات کے علاؤہ اچانک ایسا سوال پوچھ لیا جاتا ہے جس کا درست جواب اُس صحافی کی جان ومال کو خطرے میں ڈالنے کا مؤجب بنتا ہے۔ اگرچہ یہ رجحان اب کچھ کم ہے تاہم ’نیوز رومز‘ کے دباؤ میں بڑی سے بڑی خبر کی تلاش کرتے ہوئے صحافی اپنی ملازمت بچانے کے لئے بسا اُوقات زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں اور ایسے کئی ایک واقعات کی مثالیں موجود ہیں‘ جن میں صحافیوں نے اپنے ہم عصروں کو نیچا دکھانے کے لئے صحافتی حدودوقیود (ضابطۂ اخلاق) سے تجاوز کیا!

القصہ مختصر (ریاستی وغیر ریاستی کرداروں کے مفادات کی وجہ سے) شورش زدہ علاقوں میں’غیرجانبدار صحافت‘کرنا بذات جان جوکھوں کا کام ہے اور دوسرا پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران صحافیوں کو اچانک رونما ہونے والے ایسے واقعات سے بھی واسطہ پڑتا ہے‘ جو اُن کے لئے شدید ذہنی و جذباتی صدمات اُور نفسیاتی دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی معاشرے میں رہنے والے صرف صحافی ہی کیوں نفسیاتی اُور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں؟ ماہرین اِس کی کئی ایک وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سرفہرست سخت ملازمتی ذمہ داریاں ہیں‘ جو دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح آٹھ یا بارہ گھنٹے پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والا صحافی ایک ایسا کل وقتی ملازم ہوتا ہے‘ جسے جسمانی ضروریات پورا کرنے مثلاً اپنی نیند پوری کرنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ دباؤ ’نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں‘ کے لئے کام والوں پر رہتا ہے‘ جو روزمرہ کی مصروفیات میں اپنے آپ اُور اپنے اہل خانہ تک کو بھول جاتے ہیں۔ علاؤہ ازیں صحافیوں کی صرف جان ومال ہی کے نقصانات کا اندیشہ نہیں ہوتا بلکہ اُنہیں ’جاب سیکورٹی‘ بھی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی آمدن کے وسائل بارے میں غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں اُور اگر کسی علاقے میں شورش یا دہشت گرد واقعات رونما نہیں بھی ہو رہے لیکن وہاں اگر صحافت کرنے والوں کو اُن کی خدمات کا خاطرخواہ معاوضہ نہیں مل رہا تو ایسے افراد کا ذہنی تناؤ یا دباؤ سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا (جملہ ذرائع ابلاغ) سے تعلق رکھنے والے جز وقتی اُور کل وقتی صحافیوں کے حالات کار‘ اُوقات کار بہتر بنانے کے لئے کئی عالمی تنظیمیں فعال ہیں‘ انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے غیرسرکاری ادارے بھی صحافیوں کے دکھ درد میں وقتاً فوقتاً برابر شریک رہتے ہیں لیکن یہ مسئلہ ’مستقل حل‘ چاہتا ہے جس میں پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کلیدی کردار اَدا کرنا ہوگا۔‘‘ اگر صوبائی‘ قومی اور سینیٹ کے معززاراکین کے ’ایڈہاک ریلیف الاؤنسیز‘ مقرر کئے جاسکتے ہیں تو صحافیوں کے لئے ایسے خصوصی الاؤنس کیوں مقرر نہیں کئے جا سکتے؟ صحافیوں کی زندگیوں کا بیمہ اُور انہیں علاج معالجے کے لئے الگ سے خصوصی انشورنس کے تحت تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا جاسکتا؟ شورش زدہ علاقوں میں کام کرنے والوں کی حسب حال تنخواہیں اور اضافی مراعات کیوں سرکاری طور پر مقرر نہیں کی جاسکتیں؟

بھوک پیاس‘ خوشی غمی‘ گھریلو اور سماجی زندگی‘ تعلق داریاں‘ اہل و عیال اور عزیزواقارب سے کٹ کر خود کو بہترطرز حکمرانی (گڈگورننس) کے لئے وقف کرنے والوں کو صرف جانی ومالی نقصانات ہی کا اندیشہ نہیں رہتا بلکہ وہ نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں اور اِسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے جرمن حکومت کے تعاون سے جامعہ پشاور کے شعبہ نفسیات (سائیکالوجی) اُور شعبہ صحافت (جرنلزم اینڈ ماس کیمونیکیشن) نے صحافیوں کے لئے ’ٹراما سنٹر‘ قائم کیا ہے‘ جہاں انہیں درپیش نفسیاتی مسائل یا اُلجھنوں کو (اگر وہ ان کا اظہار و بیان کریں تو) سلجھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ جرمن حکومت کا نشریاتی ادارہ ’ڈائچے ویلے (Deutsche Welle)‘ جسے عرف عام میں ’ڈی ڈبلیو‘ کہا جاتا ہے‘ جامعہ پشاور کے شعبۂ صحافت کی تکنیکی اِمداد میں سالہا سال سے پیش پیش ہے‘ اور اگر شعبۂ صحافت سے بطور معلم وابستہ ’معلمین‘ کے پاسپورٹ دیکھے جائیں تو اُن کے صفحات پر ’جرمنی‘ امریکہ اُور برطانیہ‘ کے اتنے ہی ویزے لگے ہوئے ملیں گے‘ کہ جتنے کل صفحات ہوں گے۔ المیہ ہے کہ صحافت کی درس و تدریس کے لئے ملازم رکھنے والے سال کا بیشتر وقت بیرون ملک اور باقی ماندہ پاکستان میں تھکاوٹ اُتارنے پر خرچ کرتے ہیں! جرمن حکومت سمیت دیگر فنی تعاون کے خواہشمند ممالک سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ آئندہ شعبۂ صحافت کے کسی معلم کو بیرون ملک معلوماتی یا تکنیکی دورے کے لئے سہولیات فراہم نہ کریں کیونکہ اِس سے شعبۂ صحافت میں تدریس کا عمل بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ تدریسی عملے کی سالہا سال غیرحاضری پر مبنی بے قاعدگی کا نوٹس لینے کی التجا جامعہ پشاور کے چانسلر اور وائس چانسلر صاحبان سے بھی ہے‘ جنہوں نے پورے معاملے سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔

 3مئی 1953ء کو قائم ہونے والا ’ڈی ڈبلیو‘ کا موازنہ دنیا کے قدیم ترین اور ملازمین کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے بڑے ’عالمی میڈیا ہاؤس‘ بی بی سی سے کرنا انصاف نہیں لیکن ’ڈی ڈبلیو‘ کا مقام 18اکتوبر 1922ء سے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے تجربے اور مقبولیت سے کسی طرح کم نہیں اور یہ دونوں ادارے 1942ء سے 1945ء کے درمیان تشکیل پانے والے ’وائس آف امریکہ‘ کی طرح ’غیرجانبدار صحافت‘ کے فروغ اُور عالمی سطح پر اعلیٰ صحافتی اقدار متعارف و عملاً لاگو کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر کوشاں ہیں۔ بہرحال جرمن حکومت کے نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ اور تکنیکی امداد کے ادارے ’جی آئی زیڈ‘ کا جس قدر شکریہ اَدا کیا جائے کم ہوگا جنہوں نے اِبتدأ میں ایف ایم ریڈیو‘ بعدازاں الیکٹرانک میڈیا اور اب ’ٹراما سینٹر کے قیام‘ کے لئے (باردیگر) فراخدالانہ مدد کی ہے لیکن حسب توقع اس کوشش سے ’ورکنگ صحافیوں‘ سے زیادہ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کا زیادہ بھلا ہوگا!

جامعہ پشاور میں ’صحافیوں کے نفسیاتی و جذباتی مسائل اور صدمات‘ کا علاج اُس وقت تک کافی ثابت نہیں ہوگا جب تک اِس مرض کے زیادہ تر سطحی (اوّل الذکر تمہیدی) اسباب سے متعلق ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ جرمن حکومت کے فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ وہ شعبۂ صحافت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ شدہ ملازمین کی فنی و علمی تعلیم و تربیت اُور مالی اِمداد کی بجائے ایسی ’کثیرالجہتی حکمت عملی‘ مرتب کرے‘ جس سے پاکستان میں صحافت اُور صحافیوں کی صرف اپنے شعبے سے متعلق محض معلومات و مہارت ہی نہیں بلکہ اُن کے معیار زندگی میں بھی بہتری لانا مقصود ہو۔ 1: صحافتی فرائض کی اَنجام دہی میں کی جانے والی غیرمعمولی کوششوں (تحقیق) کو سراہنے کے سہ ماہی‘ شش ماہی‘ سالانہ اور موضوعاتی مقابلوں کا انعقاد 2: ویب سائٹ‘ بلاگز‘ ریڈیو اُور ٹیلی ویژن کے وسائل (پلیٹ فارم) سے میڈیا رپورٹس کی تشہیر اُور 3: عالمی سطح پر نوجوان صحافیوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے کے لئے بیرون ملک دورے کے مواقعوں سے پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کا مستقبل زیادہ محفوظ اور درخشاں بنایا جاسکتا ہے۔

Thursday, August 27, 2015

Aug2015: Refinement of RTI

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نیت کا فتور
پاکستان تحریک انصاف سے ’اِنصاف کی توقع‘ رکھنے والوں کے لب و لہجے میں بڑھتی ہوئی تلخی و سختی کے باوجود اس بات کا یقین بھی جھلکتا ہے کہ جس طرح صوبائی اسمبلی کے معاملات بشمول اراکین کی کارکردگی کے حوالے سے امور خفیہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس انداز میں اِس معزز ایوان کو معلومات تک رسائی کے قانون 2013ء کے دائرہ کار سے الگ کر دیا گیا ہے تو یہ فیصلہ چیئرمین تحریک انصاف کی یقین دہانی کی روشنی میں ضرور واپس لیا جائے گا‘ جس کے بعد کوئی بھی شخص صوبائی اسمبلی کی کاروائیوں‘ قانون سازی کے جملہ مراحل‘ قائمہ کمیٹیوں کی کارکردگی‘ اخراجات (اراکین و ملازمین کی تنخواہیں و مراعات) اراکین کی حاضری وغیرہ جیسے امور کے بارے میں جاننے لء حق کا استعمال کر سکیگے۔ سردست یہ حق صرف اراکین صوبائی اسمبلی کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معاملے کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں اور اگر انہیں اس کا تسلی بخش جواب نہ ملے تو دوبارہ ضمنی سوال یا سوالات بھی اٹھا سکتے ہیں اور اگر پھر بھی جواب نہ ملے تو کھڑے کھڑے ایک ہی سانس میں اپنے استحقاق کے مجروح ہونے کی قرارداد بھی پیش کر سکتے ہیں!

سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت دونوں ہاتھوں سے بجنے والی ایک ایسی تالی کا نام ہے جس میں منتخب نمائندے و حکومتی ادارے‘ عام آدمی کی تسلی و تشفی اور اُس کے لئے سہولیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد کا رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے طرز حکمرانی میں زیادہ سے زیادہ شفافیت لائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب رازداری سمجھ لیا گیا ہے‘ جو کہ آمرانہ حکومتوں کے ادوار کا خاصہ رہا ہے! یاد رہے کہ معلومات تک رسائی کا قانون صوبائی اسمبلی میں 23جون کو پیش جبکہ 30جون کو منظور کیا گیا لیکن بعدازاں اِس بل کی شق نمبر 28میں ترمیم کردی گئی‘ جس سے صوبائی اسمبلی پر اس قانون کا اطلاق نہ ہونے کی منظوری دے دی گئی۔ سردست ایک تکنیکی دشواری درپیش ہے اور وہ یہ کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون میں کی گئی ترمیم کو ایک اُور ترمیم سے ختم کرنے کے لئے جو مسودہ تیار کیا گیا ہے وہ جس معزز رکن اسمبلی نے یہ بل ایوان میں متعارف کرانا ہے وہ بیرون ملک دورے پر تشریف لے گئے ہیں اور اُن کی عدم موجودگی میں یہ ترمیم پیش نہیں کی جاسکتی۔ کیا کسی رکن اسمبلی کا بیرون ملک دورہ اِس قانون سے زیادہ اہم ہے؟ کیا اُنہیں بیرون ملک جانے سے قبل اِس بات کا علم نہیں تھا کہ معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم اُن کی عدم موجودگی کی صورت ممکن نہیں ہو سکے گی؟ کیا حکمراں جماعت کے سربراہ کی یقین دہانی کو اِس قدر ہلکا سمجھا گیا کہ جب فرصت ملی تو اس پر عمل درآمد کر لیا جائے گا؟ کہیں صوبائی ایوان کے معاملات کو صیغۂ راز میں رکھنے کی ہرممکن کوشش کے سلسلے میں تاخیری حربے تو اختیار نہیں کئے جا رہے؟ کیا ہوگا اگر معلومات تک رسائی کے قانون کا اِختیار صوبائی اسمبلی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے اور پھر کوئی منچلہ یہ جاننے کے لئے ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے ڈالے کہ تمام اراکین اسمبلی کی تعلیمی اسناد کی نقول فراہم کی جائیں! ظاہر ہے قانون کی رو سے یہ نقول فراہم کرنا ضروری ہوگا لیکن کیا اَراکین اسمبلی چاہیں گے کہ اُن کے تعلیمی کوائف یا منقولہ و غیرمنقولہ‘ اندرون یا بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات منظرعام پر آئیں یا ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگیں؟

اِس مرحلۂ فکر پر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے جس قانون میں ترمیم کی گئی اُس کی ترمیم کو ختم کرنے کے لئے دوسری ترمیم بذریعہ ’پرائیویٹ ممبر بل‘ لائی جارہی ہے۔ اگر حکومت اِس معاملے میں اپنے قول کی طرح عمل میں بھی سنجیدہ ہوتی اور خلوص نیت سے چاہتی کہ ’معلومات تک رسائی‘ کا دائرہ کار صوبائی اسمبلی تک پھیل جائے تو وہ ’پرائیویٹ ممبر بل‘ کی بجائے یہ ترمیم ’گورنمنٹ بل‘ کی صورت بھی لاتی۔ اگر نیت ہوتی تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’معلومات تک رسائی کے قانون میں ترمیم‘ اسمبلی کی پہلے سے طے شدہ کاروائی کی تفصیلات (ایجنڈے) میں شامل تو کرلی گئی ہے لیکن یہ ایک طویل عرصے تک ایجنڈے ہی کا حصہ رہے گی‘ جس سے متعلق اگر ذرائع ابلاغ بھی خاموشی اختیار کر لیں تو جلد ہی دیگر قوانین کی طرح یہ بات بھی عوام کی یاداشتوں سے محو ہو جائے گی۔ ’قاعدے قوانین‘ سے متعلق عمومی تاثر یہ ہے کہ ساخت کے اعتبار سے ان میں ایسی شقیں رکھی جائیں تاکہ اگر کبھی بااثر افراد اِس کی زد میں آئیں تو انہیں حسب توقع سہولت رہے۔

یہ طرزعمل صرف صوبائی قانون سازی کی حد تک محدود نہیں بلکہ وفاقی سطح پر قانون سازی کا بھی یہ خاصہ ہے کہ اس کی گرفت بااثر افراد پر ہلکی لیکن عام لوگوں (ہم عوام) پر بھاری ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر احتساب کے قوانین ملاحظہ کیجئے جس میں اربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والے لاکھوں روپے ادا کرکے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ عام آدمی اگر چند مہینے کا بجلی بل ادا نہ کرے تو اس کا کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے لیکن جن کے ذمے کروڑوں روپے کے واجبات ہوتے ہیں‘ اُنہیں قواعد میں اتنی ہی زیادہ رعائت دی جاتی ہے! معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں حکومتوں کی ترجیح عوام پر حکومت کرنا اور حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو جو لوگ قومی وسائل کی لوٹ مار کرتے‘ تو چند فیصد ادا کر کے باعزت بری نہ ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ عوام کی نظروں میں قانون ساز اداروں کی ساکھ کم ترین سطح پر ہے اور اُس سے خوف ہے جب اِن معزز اداروں کے اراکین بھی اپنی باقی ماندہ ساکھ کھو دیں۔ عجب ہے کہ جو زیادہ بڑے پیمانے پر بدعنوانی کرتا ہے‘ جو جتنی بڑی بے قاعدگی میں ملوث ہوتا ہے اُس کی بعداز احتساب حصہ داری بھی زیادہ بنتی ہے! کسی حکومتی ادارے کو یہ اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ عوام کے ٹیکسوں کے جمع ہونے والے پیسے میں خردبرد کرنے والوں کو ’لے دے کر‘ معاف کردیں؟ ایسے جملہ امتیازی قوانین و قواعد کی اصلاح ہونی چاہئے۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین اُور پیش نظر رہے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون شفاف طرز حکمرانی کی منزل نہیں بلکہ اِس کی جانب (درست سمت) میں لیا جانے والا ایسا قدم ہے جو پیچھے کی طرف نہیں بلکہ آگے کی طرف بڑھنا چاہئے۔
Amendment in RTI necessary as KP Govt using the delaying tactics to bring the changes

Sunday, August 23, 2015

TRANSLATION: Ceasefire violation

Ceasefire violation
پاک بھارت: اَصولی تناظر
سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ چند دنوں میں سر اٹھانے والے سرحدی تنازعے کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا پاکستان نے لائن آف کنٹرول یا ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کی یا یہ بھارت کی جانب سے ہوا؟ اس سلسلے میں ہمارے سامنے کچھ ایسے اعدادوشمار ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور اس کی خلاف ورزی سے متعلق مرتب کئے گئے ہیں۔ ماہ جنوری میں چار بنیادی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ ماہ فروری میں ایک‘ اپریل میں ایک‘ مئی میں دو لیکن چھوٹے پیمانے پر کئی دیگر خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ جولائی اگست میں پاکستان نے الزام عائد کیا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور بھارت کے زیرکنٹرول (مقبوضہ) کشمیر کے ساتھ عالمی سرحد کی 70 مرتبہ خلاف ورزیاں کی گئیں۔ سال 2015ء کے دوران اب تک بھارت کی جانب سے بناء اشتعال انگیز بھاری گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات میں 22 پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں 2 فوجی اور 20 مقامی لوگ شامل ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ جب بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس میں بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ فائرنگ کا آغاز ہونے کی صورت میں یہ خونیں سلسلہ کئی روز تک جاری رہتا ہے جس میں اندھا دھند بھاری ہتھیار بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ رواں ماہ اگست میں گولہ باری کے اس سلسلہ میں غیرمعمولی شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے اسلام آباد میں مقیم بھارت کے سفارتی نمائندے کو دفتر خارجہ طلب کیا ہے اور ایک ہفتیکے دوران اُن کی چوتھی مرتبہ طلبی کی گئی ہے جبکہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی ایک دوسرے پر ’جنگ بندی (سیزفائر)‘ کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے بھی اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ برداشت اُور صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ امریکہ کے ایک اخبار نیویارک ٹائمز نے پاک بھارت سرحدی کشیدگی کے حوالے سے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو جوہری صلاحیت کے حامل ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے مبصروں پر مشتمل وفود تعینات ہیں۔ 24 جنوری 1949ء کو پہلا وفد تعینات ہوا تھا اور تب سے یہ مبصر پاک بھارت تنازعہ کے تناظر میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فی الوقت فوجی مبصرین کی کل تعداد 43‘ عالمی سول مبصرین کی تعداد 25 اور ان کے دفاتر کا عملہ جوکہ 47 افراد پر مشتمل ہے‘ تعینات ہے۔ اقوام متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والے ان سبھی اہلکاروں کا تعلق مختلف ممالک سے ہے اور ان میں چلی‘ کورشیا‘ فن لینڈ‘ گھانا‘ فلپینز‘ ری پبلک آف کوریا‘ سویڈن‘ سوئزرلینڈ‘ تھائی لینڈ اور یوروگوئے سے ہے۔

سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی اور وقتاً فوقتاً اشتعال انگیزی کی ابتدأ کون کرتا ہے؟1980ء سے 1982ء تک بطور اقوام متحدہ کے نائب مبصر آسٹریلین فوج کے اہلکار ریٹائرڈ لیفٹیننٹ برائن کلوؤغلے(Brian Cloughley) تعینات رہے اور بعدازاں گذشتہ چھ برس سے وہ آسٹریلین حکومت کی جانب سے پاکستان میں دفاعی اتاشی کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ جب یہ سوال کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا مرتکب کون ہو رہا ہے پاکستان یا بھارت؟ میں نے برائن کلوؤغلے کے سامنے رکھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں غیرجانبدار مبصروں کو تعینات کرنا ہوگا اور سردست اقوام متحدہ کے غیرجانبدار مبصر تعینات ہیں لیکن بھارت اقوام متحدہ سے تعاون نہیں کر رہا جبکہ پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے۔

سوال: کارگل میں ہونے والا تنازعہ کیا تھا؟ برائن کلوؤغلے: اگر بھارت اقوام متحدہ کے مبصروں کو اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دیتا تو گارکل کا محاذ پیش نہ آتا کیونکہ اقوام متحدہ کے مبصرین ہر قسم کی فوجی یا غیرفوجی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں۔ ہنری وارڈزورتھ لونگ فیلو کا قول ہے کہ ’’اگر ہم اپنے دشمنوں کی خفیہ تاریخ کو پڑھ سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہر شخص کی زندگی کس قدر غموں اور مشکلات و مصائب سے دورچار ہے اور اسی دکھ کا احساس کرتے ہوئے ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز ہونا چاہئے۔‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, August 22, 2015

Aug2015: REFRESHING PEMRA Code of Conduct

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ضابطۂ اخلاق
وفاقی حکومت کی جانب سے ’الیکٹرانک میڈیا (ٹیلی ویژن چینلوں)‘ کے لئے ضابطۂ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) جاری کیا گیا ہے‘ جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ نجی اِداروں کو ٹیلی ویژن اسٹیشنوں‘ اَیف اَیم ریڈیو چینلز (نشریاتی اداروں) اُور کیبل آپریٹروں کو اِجازت نامے (لائسینس) جاری کرنے سے قبل تحریری ’قواعد وضوابط‘ پر دستخط لئے جاتے ہیں لیکن یہ تسلی قابل تشفی نہیں کیونکہ قواعد تو موجود ہیں لیکن اُن پر سرکاری ادارے عمل درآمد کرانے کا حوصلہ نہیں رکھتے جس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ’سیاسی مداخلت‘ ہے۔ جب تک سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اور سیاسی فیصلہ سازوں کے اپنے ذاتی و کاروباری مفادات الگ الگ نہیں ہو جاتے‘ اُس وقت تک صورتحال بہتر نہیں بنائی جا سکے گی۔

سردست صورتحال یہ ہے کہ نیوز اور تفریحی ٹیلی ویژن چینلوں جو مواد نشر کرتے ہیں‘ اس میں غیرملکی پروگراموں کا تناسب مقررہ حد سے زیادہ ہے اور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) قواعد کی رو سے یہ ایک خلاف ورزی ہے جس کے مرتکب چینلوں کے لائسینس تک منسوخ ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح فی گھنٹہ اشتہارات نشر کرنے کے زیادہ سے زیادہ اوقات بھی مقرر ہیں جن پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور جرائم کو ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کرنے کی ’بھیڑ چال‘ اپنی جگہ قابل مذمت ہے جسے نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت اگرچہ رات گیارہ بجے کے بعد نشر کیا جائے گا لیکن چونکہ ایسے پروگراموں کی نشر مکرر بھی ہوتی ہے اور چینلز انہیں انٹرنیٹ پر ڈال دیتے ہیں‘ جہاں اِنہیں کسی بھی وقت دیکھا جا سکتا ہے اُور عمر کی جس حد کی نظروں سے اِسے دور رکھنا مقصود ہے وہ کئی ذرائع سے اس خطرناک مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ عجب ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں نے ’واٹس ایپ‘ کے گروپس بنا رکھے ہیں جہاں پروگراموں بشمول بلیٹنز کی لمحہ بہ لمحہ تشہیر کی جاتی ہے۔ پیمرا حکام کو سمجھنا ہوگا کہ صرف سیٹلائٹ کے ذریعے نشریات میں پروگراموں کے اوقات کار ہی اہم نہیں بلکہ ان کی تیاری میں جس احتیاط اور اخلاقی قدروں کا احساس کرنے کی ضرورت ہے‘ وہ ہر شے پر مقدم ہونی چاہئے۔ عالمی سطح پر پائے جانے والے ’میڈیا کے رجحانات‘ کو من و عن پیچھا کرنا یا اشتہاری اداروں کی ضروریات کے مطابق مورننگ شوز سے لیکر نیوز بلٹین تک ترتیب دینے والے اِداروں کا ’کڑا احتساب‘ضروری ہے۔

کیا ہم یہ حقیقت فراموش کر سکتے ہیں کہ ’’پاکستان میں حکمران جمہوری ہوں یا آمر وہ خود کو احتساب سے بالا تر توسمجھتے ہی ہیں ساتھ ہی اپنے اوپر تنقید بھی برداشت نہیں کرتے۔‘‘ کوئی بھی ادارہ اسلامی اقدار‘ نظریہ پاکستان اور آئین کے خلاف پروگرام نشر نہیں کر سکتا اور اس معاملے میں اسے اپنی ذمہ داری کا بخوبی ادراک ہے۔ اگر کوئی میڈیا گروپ اس کے باوجود بھی بے لگام ہوتا ہے تو اس کا احتساب حکومت کی طرف سے بنائے گئے یکطرفہ ضابطۂ اخلاق سے نہیں آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ اکثر میڈیا گروپس اسلامی اقدار‘ نظریۂ پاکستان اُور آئین کی پاسداری کرتے ہیں۔ حکومت اگر ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ جاری کرنا چاہتی ہے تو میڈیا گروپس کو اعتماد میں لے تاکہ کل کسی کے خلاف کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگے تو اسے انتقامی کاروائی قرار دے کر واویلا نہ کیا جائے۔ ٹریفک سے لیکر ٹیلی ویژن چینلوں تک قواعد پر عمل درآمد کرانے اُس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک فیصلہ ساز اپنی اِصلاح نہیں کر لیتے کہ آئین و قواعد کا اُن پر بھی یکساں بلکہ ترجیحاً اطلاق ہوتا ہے۔

پیمرا کو ایک نظر بھارت کے ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ سروسیز پر بھی رکھنا ہوگی جو پاکستانی مارکیٹ سے ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں۔ ایک وقت تک پاکستان کے اپنے ٹیلی فون ادارے کو موبائل فون سروس شروع کرنے کی اجازت نہیں تھی اور غیرملکی اداروں کو پاکستان میں پاؤں جمانے اور منافع کمانے کے لئے ہرممکنہ سہولیات فراہم کی گئیں۔ جس سے فائدہ اُٹھانے والے بھی سیاست دان ہی تھے۔ آج بالکل ویسی ہی صورتحال ’ڈی ٹی ایچ‘ کے حوالے سے درپیش ہے کہ اس شعبے میں نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اگرچہ اس کا لائسینس بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ نشریاتی ٹیکنالوجی وائرلیس ہو چکی ہے لیکن ہمارے ہاں آج بھی کیبل آپریٹر ’اینالاگ (analog)‘ نشریاتی وسائل کا استعمال کر رہے ہیں جس میں نشر کئے جانے والے چینلوں کی تعداد محدود بھی ہوتی ہے اور اُن کا معیار بھی تسلی بخش نہیں ہوتا۔ پیمرا حکام کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ سال 2015ء کے آخر تک کیبل آپریٹروں کو ڈیجیٹل آلات نصب کرنے کی جو ڈیڈلائن دی گئی ہے‘ اُس پر عمل درآمد کا مرحلہ وار جائزہ ابھی سے لیا جائے اور اِس ڈیڈ لائن کی مدت میں کسی بھی صورت اور کسی بھی دباؤ کے تحت توسیع نہ کی جائے۔

ٹیلی ویژن چینلز ہوں یا کیبل آپریٹرز‘ ناظرین و سامعین اُور صارفین کے حقوق کا سب سے کم خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی کیبل آپریٹر کے بارے میں شکایت ہو بھی تو اس سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ پیمرا کے صوبائی دفاتر اور سیاسی بنیادوں پر اراکین کا چناؤ ایک ایسی روایت ہے جس کا خاتمہ کئے بناء قواعد و ضوابط اور کسی بھی قسم کے ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد عملاً ممکن نہیں ہو پائے گا۔
Govt chalked out new CODE OF CONDUCT for electronic media but it would not be fruitful as implementation is need rather more rules and regulations

Friday, August 21, 2015

Aug2015: Thniking about myself

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فکرعاقبت
نماز جنازہ کے لئے صف بندی جاری تھی۔ بلدیہ کی جانب سے چونا بچھا کر صفوں کے نشانات لگا دیئے گئے تھے‘ جس کی وجہ سے ہر طرف سے اُمنڈ آنے والے ہجوم کو میت کی آمد سے قبل ہی قبلے کا رُخ اور متعلقہ مقام کی نشاندہی ہو چکی تھی۔ صفائی کا بہترین انتظام بھی اِس بات کی گواہی تھا کہ مرنے والے سے زیادہ اس کے جنازے کے شرکاء زیادہ اہم تھے۔ کاش اِس قسم کے انتظامات اور میت کی تعظیم کرتے ہوئے اسے الوداع کہنا ہر خاص و عام کے لئے ایک جیسا ہوتا۔ نماز جنازہ میں ’بطور ثواب‘ شرکت کا نظریہ بھی ’وی آئی پیز (اہم شخصیات)‘ کے ہاں مختلف نظر آیا۔ اگرچہ آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز اَدا کرنے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے لیکن یہاں سب کی کوشش تھی کہ وہ پہلی صف میں عین امام کے پیچھے کھڑا ہو‘ تاکہ ذرائع ابلاغ میں اُن کی تصاویر براہ راست نشر اور بعدازاں شائع ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ میت کی آمد سے قبل ہی کئی لوگ صف اوّل پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ساؤنڈ سسٹم بھی نصب ہو چکا تھا‘ تاکہ تکبیرات سننے والوں کو مشکل پیش نہ آئے اور پھر نماز کی ادائیگی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پایا ہی تھا کہ میت کا آخری دیدار (چہرہ دیکھنے) کے لئے ایسی دھکم پیل ہوئی کہ الاماں الحفیظ۔ صفوں کی صفیں اُلٹ گئیں۔ چند لمحے قبل صف بہ صف کھڑے ہو کر نظم وضبط کا مظاہرہ کرنے والے اچانک بھپری ہوئی موجوں کی طرح ایک دوسرے کو تہہ و بالا کر بیٹھے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے ہونے کی کوشش میں اس بات سے بے نیاز تھا کہ وہ کتنوں کی دل آزاری کر رہا ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ کوئی ایسی سعادت ہو‘ جس سے محرومی کی صورت عاقبت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ میت ایک لکڑی کے بیش قیمت صندوق میں کیل لگا کر بند کر دی گئی تھی اور چہرہ ایک چوکور کھڑکی سے دیکھا جاسکتا تھا جس پر شیشہ نصب تھا اور منعکس ہونے والی روشنی کے سبب باوجود کوشش بھی اطراف سے چہرہ نظر آنا ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ بہرکیف کلمۂ طیبہ کا ورد کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کسی شخص نے بلند آواز میں پکارا کہ اپنی جیبوں کا بھی خیال رکھیں۔

 کئی منٹ تک دھکم پیل کا سلسلہ جاری رہا۔ پہلی صف میں نماز جنازہ کی ادائیگی‘ آخری دیدار کرنے کی سعادت اور میت کے لواحقین (جو اِس صورت میں خیبرپختونخوا کے ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز ہیں اُور جن کی مالی حیثیت بھی اپنے پورے خاندان میں نمایاں تھی) سے ’رضا خدا کی‘ کہنے والوں کو ’أذن عام‘ کا نعرہ سننے کو ملتا یعنی وہ اگر تعزیت کے بعد اِس مقام سے واپس جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو قبرستان میں تدفین کے مراحل میں بھی شریک ہو کر ’اضافی ثواب‘ کمانے سے زیادہ صاحب کی نظروں میں مقام پا سکتے ہیں!

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد مغفرت کی ایک طویل دعا اور امام صاحب کا خطاب قبر کے عذاب سے آخرت کے حساب و کتاب تک کے موضوعات کا احاطہ تھا۔ کاش وہ حسب حال یہ تلقین بھی کرتے کہ جنازے میں شریک زندہ لوگوں کو اپنی آئندہ زندگی بسر کرنے میں کتنی احتیاط اور شرعی تقاضوں کا پابند ہونا پڑے گا۔ حرام وحلال کی تمیز اور اپنی زندگیاں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی اہمیت اُور ضرورت بیان کی جاتی تو گداز دل اُس سفر کے لئے زاد راہ جمع کرنے کے بارے سنجیدگی سے سوچتے جو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایسے اچانک ممکنہ درپیش آنے والے سفر کے لئے خود کو ہردم تیار رکھیں۔ دُوسروں کے حقوق غصب نہ کریں۔ سفارش کو اِہلیت پر ترجیح نہ دیں۔

سرکاری وسائل کا بیجا استعمال نہ کریں۔ اَسراف سے بچیں۔ کم مالی وسائل رکھنے والے معاشرے کے محروم طبقات کا سہارا بنیں اُور سب سے بڑھ کر اپنے قول و فعل سے عملاً ثابت کریں کہ ہم اُس حقیقی فلاح و سلامتی کے نظام سے جڑے ہیں‘ جس میں ہماری زبان اور ہاتھ سے دوسروں کی عزت‘ آبرو اُور جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اِسلام سلامتی ہے تو ہر کلمۂ گو کو سراپا سلامتی بن کر دکھانا ہوگا۔ اُس کے ہاتھ‘ ذات یا سوچ (فیصلوں) سے اِنسان تو کیا‘ حیوانات‘ نباتات اُور ماحولیات کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے۔ صفائی کا سب سے زیادہ خیال اسلام کے ماننے والوں کو ہونا چاہئے کہ یہ ’نصف ایمان‘ ہے لیکن گندگی سے کراہیت نہ ہوتی اور اگر تعفن کو حواص خمسہ کی طاقت سے سونگھ (پہچان) نہ لیا جاتا۔ الغرض کسی ایک نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے ہماری زندگی میں کیا تبدیلی آتی ہے‘ اپنی عاقبت و آخرت کے بارے میں ہمارے تصورات کتنے واضح ہوتے ہیں اُور ہم اپنے آپ سے جو عہد کرتے ہیں‘ اس پر کاربند رہنا کتنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی اُور دوسروں کی اصلاح کے لئے زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب ملنے کے یوں تو پانچ وقت کی نماز بھی کافی ہے لیکن وقت کی کمی کے بہانے نے غفلت کو حاوی کر رکھا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ نفسانی خواہشات نے ہمیں پچھاڑ رکھا ہے‘ ہم نے اپنے آپ سے ہار مان لی ہے اور یہی وہ شکست ہے جس سے دوچار ہماری ’منتشر ذات‘ اُس ظہور کی منتظر ہے‘ جو پستی کو زوال بخشے گی۔ ’’پھر گڈریوں کو لعل دے۔ جاں پتھروں میں ڈال دے۔ حاوی ہوں مستقبل پہ ہم ماضی سا ہم کو حال دے۔ دعویٰ ہے تیری چاہ کا‘ اِس اُمت گمراہ کا۔ تیرے سوا کوئی نہیں یا رحمت للعالمین (مظفر وارثی)‘‘

Thursday, August 20, 2015

Aug2015: Peshawar in grip of street crimes!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حفاظتی ضروریات: بشری تقاضے
یہ کہانی صوبائی دارالحکومت پشاور کی ہے جہاں ’جرائم کی شرح‘ پر تشویش کا اظہار کرنے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرون شہر کی وہ پرپیچ گلیاں اور چوراہے جو کبھی یہاں کی ’ملنسار ثقافتی و سماجی اقدار‘ کا حصہ ہوا کرتی تھی‘ صرف یاداشتوں کی حد تک ہی محفوظ ہو چکی ہے۔ یوں لگتا ہے ایک ایک کر کے پشاور کی سبھی اَچھائیوں کو نظر لگ گئی ہے! خود پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار اِس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ پشاور میں رونما ہونے والے مختلف جرائم کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ تین ماہ کے دوران چوری‘ موبائل چھیننے‘ موٹر گاڑیوں کی چوری اور زبردستی گاڑیاں چھین لینے جیسے جرائم کی تعداد کا موازنہ ماضی سے میل نہیں رکھتا۔ فی الوقت پشاور میں اوسطاً ہر روز 6افراد کو اسلحے کی نوک پر لوٹ لیا جاتا ہے اور یہ تعداد اُن جرأت مند افراد کی ہے جو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کراتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ سرراہ لٹنے والے پشاوریوں کی اُوسط تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ پولیس تھانوں سے رجوع کرنے والے ہر شخص کی درخواست پر ’ابتدائی تفتیشی رپورٹ (ایف آئی آر)‘ درج نہیں کی جاتی اور سفید کاغذ پر بیان (روزنامچہ) لکھ کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ہے!

پشاور میں جرائم ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہاں کی ہر گلی کوچے میں اجنبیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ رہائشی و تجارتی علاقوں کی تمیز ختم ہونے کی وجہ سے اُن گلی کوچوں میں بھی آمدروفت رات گئے تک جاری رہتی ہے‘ جن کے نام تک سے ماضی میں بہت کم لوگ واقف ہوا کرتے تھے۔ پشاور کی خاص بات یہ بھی تھی کہ یہاں کے گلی کوچے رہائشگاہوں کی طرح ہی ’نجی‘ ہوتے تھے۔ گلی کے داخلی راستے پر کپڑا یا بوری تان دی جاتی‘ جس کے بعد آمدورفت کے حقوق محفوظ ہو جاتے لیکن جب ہر گھر کے نیچے دکان اور مکان کا کچھ حصہ کرائے پر دینے کا رواج عام ہوا‘ تو وہ مثالی پردہ داری اور میل ملاپ باقی نہیں رہا۔ ایک وقت تک جب پشاور کا ہر شخص کسی نہ کسی خانوادے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو جانتا تھا۔ سرراہ سلام دعا‘ خیریت دریافت کرنے اور روائتی مہمان نوازی یعنی قہوہ پینے کی دعوتیں ہر قدم پر ملا کرتی تھیں۔ کیا دن تھے جب اہل پشاور کا معمول ہوا کرتا تھا کہ ملنے والے کو ’تھکا نہ ہوویں‘ کہتے‘ جس کے جواب میں ’خیر ہووی‘ کے جملے پر مسکراہٹوں کا تبادلہ کیا جاتا۔ ہندکو بولنے والوں کی یہ روایت پشتو زبان میں بھی لفظ بہ لفظ ترجمہ ہوئی تاہم پورا دن شہر میں پھرنے کے بعد بھی ’سترے مہ شے‘ اور ’خوار مہ شے‘ کہنے والوں کی تعداد آج اُنگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے!

پشاور میں غیرمعمولی رفتار سے بڑھتے ہوئے ’سٹریٹ کرائمز‘ کی شرح چونکہ ’سنی سنائی بات‘ یا محض پولیس کی کارکردگی پر ’الزام‘ نہیں‘ بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے متاثر اور ممکنہ شکار ہونے والے یکساں خوفزدہ ہیں۔ کئی ایک واقعات میں نماز فجر و عشاء کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس لوٹنے والوں کو بندوق یا چھڑی کی نوک پر لوٹنے والے اگر کچھ نہ ملنے پر ’رحم دلی‘کا مظاہرہ نہ کرتے تو نجانے کتنے ہی بے گناہوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا ہوتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ 1: پشاور میں تعینات پولیس اہلکاروں کی اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہونی چاہئے۔ 2: پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں یعنی برق رفتار موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں میں بیٹھ کر سفر کرنے کی بجائے پیدل گشتی پولیس کا نظام اور گلی کوچوں کے داخلی و خارجی راستوں کے ہمراہ چوراہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں۔ جب جرائم پیشہ عناصر نے اپنا طریقۂ واردات بدل لیا ہے تو پھر مؤثر پولیسنگ کے لئے بھی مختلف طریقۂ کار سے نگرانی کرنا ہوگی۔ 3: ٹریفک کی روانی پر نظر رکھنے کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں‘ کی تنصیب کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر متبادل راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس لئے داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکے نگرانی کا عمل مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ 4: اُمید ہے کہ مقامی حکومتوں کے ساتھ ’محلہ داری نظام‘ بھی بحال ہو جائے گا‘ جس کی رہنمائی کرکے پولیس حکام گلی کوچوں میں جرائم کی روک تھام کا ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ بات صرف پشاور کی تنگ و تاریک اور پرپیچ گلی کوچوں میں ہونے والے جرائم (سٹریٹ کرائمز) کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ تہکال‘ یونیورسٹی ٹاؤن‘ حیات آباد اور صدر جیسے علاقوں میں بھی ایسی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں‘ جس میں پیدل یا موٹرسائیکل سوار لوٹ مار کے بعد ایسے رفو چکر ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ حال ہی میں جب ہشتنگری بازار کی ایک مارکیٹ میں 4دکانیں لوٹی گئیں تو تاجروں نے بھرپور احتجاج کیا‘ جس پر پولیس حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ چوری‘ ڈکیتی اور رہزنی جیسی وارداتیں کرنے والے گروہوں کے خلاف مہم شروع کی جائے گی‘ تاہم یہ وعدہ ہنوز پورا نہیں ہو سکا ہے۔

پولیس حکام اس بات سے متفق ہیں کہ جرائم پیشہ عناصر ایسے علاقوں میں جا کر وارداتیں کرتے ہیں جہاں اُنہیں کوئی نہیں جانتا اور چونکہ وہ بھی پشاور ہی کے رہائشی ہوتے ہیں اِس لئے باآسانی روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق پشاور کی 92یونین کونسلوں میں سے اکثریت یعنی نصف سے زیادہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہیں‘ جہاں سے چند منٹ کی مسافت پر پشاور کے مرکزی علاقوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے‘ تاہم اگر کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں‘ داخلی و خارجی راستوں کی تعداد کم کرکیمصروف چوراہوں پر پولیس اہلکاروں کی چوبیس گھنٹے موجودگی ممکن بنا دی جائے تو اندرون شہر رونما ہونے والے ’سٹریٹ کرائمز‘ کے تناسب میں بڑی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ جہاں تک بات جمرود روڈ اُور رنگ روڈ سمیت جی ٹی روڈ سے ملحقہ علاقوں کی ہے اور نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں تو ایسے تمام علاقوں میں پولیس چوکیوں یا تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ پشاور پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق یہاں کی آبادی 70لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پولیس کی کل افرادی قوت دس ہزار سے کم ہے اور اگر اہم شخصیات (وی آئی پیز‘ وی وی آئی پیز) کی حفاظت اور تھانوں میں مستقل تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد منہا کر لی جائے تو دو ہزار سے کم پولیس اہلکاروں کے ساتھ سترلاکھ کی آبادی کو چھوٹے بڑے خطرات سے بچانا عملاً ممکن نہیں۔ پولیس حکام افرادی قوت اور تکنیکی وسائل میں اضافے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ قانون سازی پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کیونکہ چوری‘ رہزنی اور ڈکیتی میں ملوث افراد کو گرفتار کر بھی لیا جائے تو انہیں عدالت سے چند ماہ کی قید یا واجبی سا جرمانہ ہوتا ہے۔ ناکافی شہادتیں اور قانون میں موجود سقم کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر نشان عبرت نہیں بن سکتے۔ جیل خانہ جات میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے سبب پولیس کی اپنی بھی کوشش ہوتی ہے کہ شخصی سیاسی ضمانتوں ہی سے کام چلا لیا جائے!

اہل پشاور کے سروں پر ایک تلوار مستقل لٹک رہی ہے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز اراکین صوبائی اسمبلی سے درخواست ہے کہ ’سٹریٹ کرائمز‘ کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے۔ پشاور کی حفاظت کے لئے پولیس کا الگ دستہ (حفاظتی ادارہ) اور آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت و تکنیکی وسائل میں اضافہ ضروری ہے۔ پولیس حکام چاہتے ہیں کہ اُن کی یہ بات صوبائی حکومت کے گوش گزار کی جائے کہ ’’عسکریت پسندوں‘ کالعدم تنظیموں کے اراکین و سہولت کاروں کے خلاف کاروائیوں کی وجہ سے پولیس کے پاس نہ تو افرادی قوت ہے اور نہ ہی خاطرخواہ وسائل کہ جن پر انحصار کرتے ہوئے بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ لڑی جائے۔‘‘ اِس تمہید کا خلاصہ ہے کہ ’’اگر پشاور کو محفوظ بنانا صوبائی حکومت کی ترجیح ہے تو اس کے لئے آبادی کے تناسب سے پولیس کی ضروریات پورا کرنا ہوں گی۔ حکمرانوں کو اپنی حفاظت کی طرح عام آدمی کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ پولیس سے غیرحقیقی توقعات وابستہ کرنا اُور انہیں احکامات جاری کرنے کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لینا چاہئے کیونکہ پولیس اہلکار بھی انسان ہیں‘ جو بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر کیسے موجود ہوسکتے ہیں!؟‘‘

Wednesday, August 19, 2015

Aug2015: Baren Gali

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بیرن گلی
ایبٹ آباد شہر سے کم وبیش تیس کلومیٹر کے فاصلے پر یونین کونسل ’بیرن گلی‘ بالائی و زیریں حصوں پر مشتمل ہے‘ جہاں تک رسائی سڑک کے چند کلومیٹر حصہ نہ ہونے کی وجہ سے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اِس راستے پر آمدورفت اور مال برداری کے لئے ہچکولے کھاتی جیپیں اور منی ٹرک استعمال ہوتے ہیں‘ جن کا کرایہ ادا کرنے کی سکت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

اٹھارہ سے بیس ہزار آبادی پر مشتمل ’بیرن گلی‘ کے کئی مسائل ہیں لیکن سب سے بنیادی یہاں کے سرکاری تعلیمی اِدارے ہیں‘ جن تک رسائی کے لئے ناہموار‘ پہاڑی راستے‘ ٹیلے اور گھاٹیاں عبور کرنے والے بچے بچیوں (طالبعلموں) کے لئے موسمی شدت سے مقابلہ ممکن نہیں ہوتا۔ بالخصوص پرائمری سطح کے زیرتعلیم بچے بچیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جن کی تعداد کے تناسب سے نہ صرف تعلیمی مواقعوں کی کمی ہے بلکہ بیرن گلی کے بالائی علاقے ’بنج‘ میں ایک پرائمری سکول ایسا بھی ہے جس کی عمارت علاقے کے دیگر کئی سکولوں اور ہسپتال کی طرح سال 2005ء میں آئے زلزلے سے متاثر ہوئی لیکن تاحال تعمیر نہیں کی جا سکی ہے۔
اہل علاقہ کہتے ہیں کہ زلزلے کی وجہ سے گورنمنٹ پرائمری سکول ’بنج‘ کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا‘ جسے معمولی مرمت سے محفوظ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا تھا لیکن سال 2007ء میں اِس سکول کی عمارت اچانک مکمل منہدم کر دی گئی۔ سکول کے دروازے کھڑکیاں‘ آہنی چادریں الغرض تمام قیمتی اور استعمال کے قابل سازوسامان نامعلوم وجوہات کی بناء پر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا اور کم و بیش ڈیڑھ کنال اراضی پر سکول کی جگہ گڑھے کھود کر ایک نئی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ اہل علاقہ مطمئن تھے کہ چلو پرانی عمارت کی جگہ نئی وسیع و عریض اُور باسہولت عمارت تعمیر ہو جائے گی جس میں زیادہ بچوں کو تعلیم دلانے کی گنجائش ہوگی لیکن یہ تمام اُمیدیں‘ توقعات اُور وعدے پورے نہ ہوسکے۔ عرصہ آٹھ برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن ’گورنمنٹ پرائمری سکول‘ بنج بیرن گلی‘ کی تعمیر کا کام مکمل نہیں کیا جاسکا۔ جہاں کبھی سکول ہوا کرتا تھا اب وہاں کی زمین میں لوہے کی سلاخیں کھڑی ہیں‘ یہاں وہاں ملبہ پڑا ہے اور بنیاد کے لئے کھودے گئے گڑھے پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔ سکول کی چاردیواری میں استعمال ہونے والے پتھر بھی ایک مقام پر ڈھیر کر دیئے گئے ہیں‘ سکول کے ایک زنگ آلودہ بورڈ کے علاؤہ بس یہی کچھ باقی بچا ہے!

سال دو ہزار پانچ کے زلزلے سے قبل اِس سکول میں 280 بچے پڑھتے تھے جن کی موجودہ تعداد 180کے لگ بھگ ہے اور آٹھ برس سے سکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے کئی بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت سے آشنا والدین اپنے بچوں کو کھلے آسمان تلے بیٹھ کر علم حاصل کرتا دیکھتے ہیں‘ تو اُن پر اخبارات میں شائع ہونے والے قائدین کے بلندبانگ دعوؤں کی حقیقت کھل جاتی ہے! یقیناًاگر اِس سرکاری سکول کے اساتذہ کو ماہانہ تنخواہیں اور مراعات باقاعدگی سے نہ مل رہی ہوتیں تو وہ بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جا چکے ہوتے۔ جہاں ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کا اسیر ہے‘ وہاں اجتماعی مفاد کی بات کرنے والوں کو لوگ تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں!

بالائی بیرن گلی کے رہنے والوں کی اکثریت کے لئے پریشانیوں کی کمی نہیں‘ یہاں خواتین زراعت و مال مویشیوں کی دیکھ بھال کر ایک ایسی معیشت میں فعال کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے‘ جس میں سینکڑوں فرلانگ دور سے پینے کا پانی سر پر اٹھا کر اونچی نیچی راہوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھا جاتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ’بنج گلی‘ کے بناء عمارت پرائمری سکول کا دُکھ ہر دل محسوس کر رہا ہو بلکہ اِس سلسلے میں تشویش کا اظہار نومنتخب بلدیاتی نمائندوں اُور چند سفید ریش بزرگوں کی التجاؤں اور دعاؤں کا حصہ ہے‘ جو زلزلے کے بعد تعمیر نو کے ادارے ’ایرا‘ اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے انصاف کے طالب و متمنی ہیں۔ بیرن گلی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 18 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے48‘ کا حصہ ہے اُور یہاں سے منتخب ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین صرف قانون ساز ایوان ہی کا حصہ نہیں بلکہ بالترتیب قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اور صوبائی اسمبلی میں علاقے کے ترقیاتی کاموں کی نگرانی کا قلمدان رکھتے ہیں لیکن اُن کی توجہ اپنے اپنے وسیع و عریض انتخابی حلقے کی اِس ایک جنت النظیر وادی میں رہنے والوں کی جانب مبذول نہیں۔

گورنمنٹ پرائمری سکول‘ بنج (بیرن گلی بالائی) کی عمارت تعمیر ہونی چاہئے‘ بلکہ جلد از جلد تعمیر ہونی چاہئے کیونکہ محض عمارت نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں بچے تعلیم کی بجائے یا تو اپنا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں یا پھر اُنہیں دشوار گزار راستوں پر مال برداری کے لئے گدھے ہانکنے کے کام کاج پر لگا دیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں زیرتعلیم بچے بچیاں بھی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے یک سوئی کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں سکتے۔ اگر بارش ہو جائے یا سرد و گرم موسم کی شدت برداشت نہ ہو‘ تو بچوں کو قریبی مسجد میں عارضی چھت فراہم کی جاتی ہے‘ جو مستقل یا مسئلے کا پائیدار حل نہیں۔ خوش آئند ہے کہ گیارہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد بننے والی خیبرپختونخوا حکومت صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی (ہنگامی حالات) کا اعلان کئے ہوئے ہے‘ جس میں سہولیات سے محروم تعلیمی اِداروں کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے سے لیکر اساتذہ کی کمی دور کرنے کے لئے بھی اقدامات شامل ہیں لیکن نجانے اِس کوتاہی کا کیا سبب ہے کہ ’بنج گلی‘ کا پرائمری سکول فیصلہ سازوں کی نظروں سے اُوجھل ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک‘ رکن صوبائی اسمبلی سردار ادریس‘ رکن قومی اسمبلی مرتضیٰجاوید عباسی اور بالخصوص صوبائی وزیر برائے تعلیم محمد عاطف (خان) سے اپیل ہے کہ وہ گورنمنٹ پرائمری ’بنج گلی‘ کی عمارت تعمیر کرنے کا باقی ماندہ کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرائیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیرتعلیم کے پاس اضافی قلمدان ’بجلی و توانائی کے پیداواری امکانات کی ترقی کا بھی ہے۔

 ’بیرن گلی‘ کے علاقے میں ایسے کئی قدرتی چشمے اور برساتی نالے ہیں جہاں سارا سال پانی بہتا رہتا ہے اور یہاں چھوٹے پیمانے پر آبی ذخائر‘ پن بجلی کے منصوبے اُور ماہی پروری کی سرکاری سرپرستی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اہل علاقہ کو نہ صرف روزگار کے بہتر و زیادہ مواقع میسر آئیں گے بلکہ شاہراہوں کی حالت بہتر بنانے سے یہ خطہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی نقشے پر بطور ایک ’نئی کشش‘ اُبھر کر سامنے آئے گا۔ ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقے پسماندہ ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد غربت و افلاس کا شکار ہیں اور اگر اُن سے تعلیم جیسی اُمید بھی چھین گئی تو اُن کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ ہمیں سیاسی سوچ اور اس کے تابع عمل کی اصلاح کرنا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں تقسیم کا منفی استعمال نہ کیا جائے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ کون سی سیاسی جماعت کہاں سے کامیابی ہوئی بلکہ یہ دیکھا جائے کہ برسرزمین ضروریات کیا ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر انتخابی علاقوں کو تقسیم سیاسی جماعتوں کے شایان شان نہیں۔ برسرزمین حقائق اور ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اگر تعلیم وصحت کے شعبے ترجیح قرار دیئے جا چکے ہیں تو اُن دور دراز علاقوں میں بھی انقلابی سوچ کے ثمرات (بطور عملی اقدامات) نظر آنے چاہیءں‘ جو دانستہ نظروں سے اُوجھل ہیں۔ بیرن گلی کے رہنے والوں کو صاف ایندھن‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اُور سڑکوں کی تعمیر ومرمت اُور توسیع کی اشد ضرورت ہے‘ اُمید کی جا سکتی ہے کہ 30 ہزار مربع کلومیٹر پر زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے 24 اکتوبر 2005ء کو قائم ہونے والی ’ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن اٹھارٹی (ایرا)‘ حکام کو سختی سے احکامات جاری کئے جائیں گے کہ وہ کم ازکم ’بنج گلی‘ کے پرائمری سکول کی عمارت کا باقی ماندہ کام مکمل و بلاتاخیر کرنے میں دلچسپی لے۔ اہل علاقہ کے بقول ’’یہ کار خیر ہے‘ جس میں ہرکسی کو اپنے اپنے حصہ کا تعاون ڈالنا چاہئے۔‘‘
Story of Baren Gali, where a school affected by 2005 Earthquake not yet rebuild & restored

Tuesday, August 18, 2015

Aug2015: Political Revenge

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتقام!
وہ دن گئے جب ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بانٹ دی جاتی تھیں۔ قومی و صوبائی سیاست پر اجارے داری کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور یہ بات سولہ اگست کے روز حلقہ این اے اُنیس‘ ہری پور کے لئے ہوئے ضمنی انتخاب کے موقع پر پھر سے ثابت ہوئی ہے کہ ’عام آدمی بطور ووٹر‘ خاموش تو ہے لیکن وہ اپنے ووٹ سے انتقام لینے کے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا! ہری پور کے ضمنی انتخاب میں جو کچھ بھی ہوا‘ وہ نہ تو جنون تھا اور نہ ہی انقلاب جیسا اندھا دھند کوئی نظریہ‘ رائے دہندگان (ووٹرز) کی اکثریت نے اپنے علاقے کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک ایسی تاریخ جو کسی کے حق میں نہیں۔ اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے بابر نواز خان کو ملک کے سب سے کم عمر ’رکن قومی اسمبلی‘ ہونے کا اِعزاز ملا ہے لیکن اُن کا چناؤ ایک متبادل قیادت (آپشن) کے طور پر ہوا ہے اور یہی بات سمجھنے لائق ہے کہ جہاں کہیں عام آدمی (ہم عوام) کو متبادل کے طور پر ووٹ دینے کا موقع میسر آتا ہے‘ وہاں فیصلہ سیاسی تجزیہ کاروں سے مختلف ہوتا ہے۔

سولہ اگست کی ابرآلود الصبح ہری پور میں دن کا آغاز سست روی سے ہوا۔ ہفتہ وار عام تعطیل کی وجہ سے گلیاں اور بازار سنسان تھے لیکن پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی پولنگ اسٹیشنوں کے آس پاس گہماگہمی شروع ہوئی اور جب فیصلہ آیا تو متوسط قد‘ مضبوط جسم اور بھاری بھرکم چپلی پہننے والے نوجوان نے ’فتح‘ کے ساتھ پورے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اِعزاز اَپنے نام کر لیا تھا۔ ہری پور کی سیاست خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے اُور یہاں کی دوستیوں سے زیادہ دشمنیاں مشہور ہیں۔ بابر نواز خان کے مدمقابل اُن کے اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کو حفظ ماتقدم کے طور پر گھر میں نظربند کر دیا گیا لیکن بعدازاں الیکٹرانک میڈیا کی مداخلت پر بکتر بند گاڑی فراہم کی گئی جس میں بیٹھ کر اُنہوں نے کھلابٹ ٹاؤن شپ میں اپنی رہائش گاہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر جاکر ووٹ کاسٹ کیا۔ ہری پور پر راجہ (راجگان) اُور ترین خاندانوں کا اثر واضح دیکھا جاسکتا ہے اور ملک کی سبھی بڑی جماعتیں ہری پور سے انتخاب کرتے ہوئے انہی 2 خاندانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتی ہیں۔ چونکہ سیاست پیسے کا کھیل ہے اُور عام آدمی کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ محض مخلص اور سیاست کو خدمت و عبادت سمجھ کر انتخابات میں حصہ لے‘ اِس لئے سیاسی خوش قسمتی ہمیشہ اُنہیں کے دروازے کھٹکھٹاتی ہے‘ جن کی سیاسی وابستگیوں سے زیادہ مالی حیثیت مضبوط ہو۔ ہری پور کی سیاست میں بھی مالی وسائل کی طاقت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

غیرحتمی و غیرسرکاری نتائج کے مطابق بابر نواز نے ایک لاکھ سینتیس ہزار دو سو اُنیس ووٹ حاصل کئے اور اُن کے مقابلے میں ڈاکٹر راجہ عامر زمان نے 90ہزار 698 ووٹ لئے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار طاہر قریشی نے 1 ہزار 396 ووٹ لئے۔ 41.2فیصد کے تناسب سے ہوئی ووٹنگ میں سب سے زیادہ مایوسی تحریک انصاف کو ہوئی‘ جنہیں اُمید تھی کہ بھابھی (چیئرمین عمران خان کی اہلیہ ریحام خان) کا دورہ طلسماتی ثابت ہوگا لیکن 28سالہ بابر نواز کی حمایت کرنے والے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی اور رکن قومی اسمبلی کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی وضع کردہ ترقیاتی حکمت عملی زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔ حقیقت یہی ہے کہ تحریک انصاف سے زیادہ نواز لیگ نے این اے اُنیس کے ضمنی انتخاب کو زیادہ سنجیدگی سے لیا۔

ہری پور کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ کا تناسب معلوم کرتے ہوئے جب نصف دن کے قریب تحریک انصاف کے ایک رہنما کی رہائشگاہ پہنچے تو جدید طرز کے حجرے میں چارپائیوں کو چند افراد کے درمیان رہنما تشریف فرما تھے اور جب اُن سے پوچھا گیا کہ صورتحال کیا تو کہنے لگے میں تو ابھی اپنا ووٹ ڈالنے بھی نہیں گیا۔ آپ بتائیں باہر کیا ہو رہا ہے! اگر ہری پور کے ووٹروں کے ترقیاتی کاموں کو ووٹ دیا ہے تو ساتھ ہی اُنہوں نے دو ایسے خاندانوں سے بھی بدلہ لیا ہے‘ جو یکے بعد دیگرے یہاں سے منتخب ہوتی رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہئے کہ وہ ’این اے 19‘ پر شکست کے حوالے سے ایک محرکات و اسباب کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔ پارٹی کے جن عہدیداروں نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور جنہوں نے دوغلی پالیسی اختیار کی‘ اُن موقع پرستوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا یہی بہترین موقع ہے۔ ضلع ہری پور کو مثال بنا کر ملک کے دیگر اضلاع میں مغرور افراد کو پیغام دیا جاسکتا ہے کہ اگر اُن کی ذاتی ترجیحات ہیں تو پارٹی ڈسپلن کے تحت اُنہیں پس پشت ڈالنا ہوگا۔ ہری پور میں سب سے زیادہ مایوسی تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہوئی ہے‘ جو خود کو ’یتیم‘ سمجھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو اب تو سمجھ ہی لینا چاہئے کہ اُن کے لئے زیادہ اہم انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے نہیں بلکہ ووٹ ڈالنے والے ہوتے ہیں۔
Clipping from Daily Aaj of Aug 20, 2015. Both PTI and PMLN are not happy with their workers attitude during NA19 ByElections held on Aug16
 مشتری ہوشیار باش صوبائی سطح پر تحریک انصاف کی تنظیم نو کے مرحلے پر فیصلہ سازی کسی ایسے کردار کو نہیں سونپی جانی چاہئے جس نے ہری پور میں منفی یا خاطرخواہ کردار ادا نہ کیا ہو۔ غلطی پر غلطی اور توقع پر توقع سے نہیں بلکہ ہزارہ میں تحریک انصاف کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اراکین صوبائی اسمبلیوں کو تاکید کرنا ہوگی کہ وہ اپنے ہی ہم جماعتی قومی اسمبلی کے اراکین کو اعتماد میں لیں اور بنی گالہ حکم دے کہ ہر ضلع کی سطح پر کم ازکم مہینہ وار اجلاس ہونے چاہیءں جس میں تحریک سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندے اور کارکنوں کو آپس میں بات کرنے کی سہولت میسر آئے۔ مسئلہ اُس اجنبیت‘ بے حسی اور لاتعلقی کو ختم کرنے کا ہے‘ جو تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی کی صورت پھیل چکی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس عالم میں تحریک کسی دوسرے مقام پر ووٹروں کے انتقام کا نشانہ بن جائے!
Political revenge by the voters of NA19, Haripur. The ByElection result shocked many but thinking only few

Monday, August 17, 2015

Aug2015: No more room for mistakes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
غلطی کی گنجائش
ضمنی انتخابات میں ’سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور‘ نہیں بلکہ اُن کرداروں کو ووٹ ملتے ہیں جن کے پاس مقامی مسائل کی بابت نیک خواہشات‘ خیالات و الفاظ پر مبنی وعدے نہیں بلکہ کارکردگی کی عملی مثالیں اور وسائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ سولہ اگست کے روز آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 19‘ ہری پور میں وفاق اور خیبرپختونخوا کی حکومتی جماعتوں کے درمیان ’انتخابی مقابلہ‘ قطعی یک طرفہ ثابت ہوا۔ سترہ اگست کے روز پانچسوتیرہ پولنگ اسٹیشنوں کے غیرسرکاری و غیرحتمی نتائج کے مطابق ’وفاقی حکومت‘ جیت گئی‘ جس نے ضمنی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد کئی ایک تعمیراتی کام شروع کروائے جس میں حویلیاں کو موٹروے سے منسلک کرنے والی شاہراہ کو چار سے چھ رویہ کرنے کا اِعلان بھی شامل ہے‘ یہ وہ چند عملی اِقدامات تھے‘جن پر جاری عمل درآمد کا مشاہدہ ’ہری پور‘ کے رہنے والے ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اُور سڑکوں کی تعمیر و دیگر ترقیاتی کاموں کی اہمیت سے بھی واقف تھے کہ یہ اُن کے علاقے کی ترقی کے لئے کتنی ضروری اُور کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ اِسی طرح خیبرپختونخوا حکومت کی حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار کی شکست کا سبب بھی یہی محرک بنا کہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد حکومت ملنے کے بعد ترقیاتی عمل میں تیزی کی بجائے سستی دیکھنے میں آئی‘ جس سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح ہری پور بھی بُری طرح متاثر ہوا۔

لب لباب یہ ہے کہ بالائی خیبرپختونخوا پر مشتمل ’ہزارہ ڈویژن‘ کی اہمیت کا خاطرخواہ احساس کرنے میں بڑی کوتاہی کی گئی۔ یہ گیٹ وے خطہ حسن ابدال‘ ہری پور‘ حویلیاں‘ ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا گلگت بلتستان کے راستے ہمسایہ ملک عوامی جمہوریہ چین سے جا ملتا ہے‘ اُور اِسی راستے ’اقتصادی راہداری‘ کے قیام کے لئے چین کی جانب سے مالی و تکنیکی امداد دینے کا اعلان بھی ہو چکا ہے لیکن ’حسن ابدال‘ سے ’ایبٹ آباد‘ کے درمیان سڑک کے دونوں کنارے تعمیرات اور راہداری کے علاؤہ مقامی ٹریفک کا دباؤ اِس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کے لئے انتہائی ناخوشگوار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ بالخصوص موسم گرما میں ہر ہفتہ وار تعطیل (جمعہ سے اتوار) کے موقع پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور اعصاب شکن ٹریفک جام ایک ایسا معمول بن چکا ہے‘ جس کا کوئی فوری حل نہیں۔ اُمید ہے کہ رواں برس کے اختتام (آئندہ چار یا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ) کے دوران حویلیاں اُور موٹروے کے راستے براہ راست آمدورفت رواں ہوگی‘ جس کے بعد حسن ابدال و ہری پور کی شاہراؤں پر ٹریفک کے رش میں غیرمعمولی کمی آئے گی۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ’ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے جس کی مقبولیت کو تحریک انصاف نے چیلنج کیا اُور اگر خیبرپختونخوا سیاحتی ترقی کے امکانات و قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہزارہ ڈویژن کی اہمیت کا ادراک اب بھی کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ دو ہزار تیرہ میں بننے والا ’’ووٹ بینک‘‘ نہ صرف محفوظ و برقرار رہے بلکہ اِس میں اضافہ بھی ہو۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ توجہ ضلع ایبٹ آباد کے بالائی حصوں پر مشتمل وہ 8 یونین کونسلیں ہیں‘ جنہیں ’سرکل بکوٹ‘ کہا جاتا ہے اُور ممکنہ عالمی اِعزاز کی حامل یہاں ایک ایسی سڑک بھی ہے جس پر کام کا آغاز کم وبیش 30برس قبل ہوا تھا اور آج بھی اِس سڑک کا باقی ماندہ 19کلومیٹر سڑک کا حصہ مکمل نہیں کیا جاسکا۔

خیبرپختونخوا حکومت نے سرکل بکوٹ کی 8 یونین کونسلوں کو آپس میں ملانے کے لئے ’بوئی سوار گلی روڈ‘ کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کے لئے 2 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ کے تحت مذکورہ شاہراہ کے علاؤہ سرکل بکوٹ و گلیات میں دیگر چھوٹے بڑے تعمیراتی کام مکمل کئے جا رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے 45‘ پر ضمنی انتخابات کے موقع پر صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے مرکزی قائدین کی جانب سے سرکل بکوٹ کے رہنے والوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اُن کے علاقے کو ’تحصیل‘ کا درجہ دیا جائے گا‘ جس کے بعد اُنہیں بہت سے چھوٹے دفتری کاموں کے لئے ضلعی صدر مقام ایبٹ آباد نہیں جانا پڑے گا لیکن بعدازاں معلوم ہوا کہ اِس وعدے کی تکمیل سرکل بکوٹ کی یونین کونسلوں کو آپس میں بذریعہ شاہراہ منسلک کئے بناء ممکن نہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یکم اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما‘ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز (اخباری بیان) میں کہا گیا کہ ’’بوئی سوار گلی کا کم و بیش 19کلومیٹر روڈ کا باقی ماندہ حصہ تعمیر کرنے کے لئے صوبائی حکومت خصوصی ترجیح رکھتی ہے اور اس سلسلے میں سوار گلی سے کوہالہ تک کی شاہراہ تقریباً مکمل کر لی گئی ہے جبکہ کوہالہ (بکوٹ) سے بوئی تک 11 کلومیٹر کا باقی ماندہ کام آئندہ مالی سال کے دوران شروع کیا جائے گا۔ منصوبے میں کل 5 پل بھی تعمیرکئے جائیں گے اور اس منصوبے پر مجموعی طور پر ’’ایک ارب روپے‘‘ لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جس کے لئے مالی وسائل آئندہ مالی سال (2016-17ء) میں مختص کرنے کی تجویز ہے۔‘‘

ترقیاتی کاموں سے متعلق اِنتخابی وعدوں کا ایفاء ہو یا اِہل علاقہ کے دیرینہ مطالبات کی روشنی میں تعمیراتی ترجیحات‘ کا تعین‘ ہر لفظ تول تول کر بولنا اُور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا۔ صوبائی سطح پر بہتر طرز حکمرانی کی عملی مثالیں قائم کرنے کے لئے حکمراں جماعت سے وابستہ ہر فیصلہ ساز اُور ہر رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو سمجھنا ہو گا کہ اُنہیں جو کچھ بھی کرنا ہے‘ اِس میں مزید تاخیر و کوتاہی کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔
Why no room left for mistake for PTI as the NA19 Haripur ByElection result disappoint many not the leadership

Sunday, August 16, 2015

Aug2015: Crimes scene of Hayatabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خواب‘ اُمیدیں اور حقائق!
گنجان آباد پشاور شہر کو جس کسی نے بھی چھوڑا‘ اُسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر پچھتاوا ضرور ہوا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کی جدید بستی ’حیات آباد‘ جاکر آباد ہونے والوں کے ’خواب ریزہ ریزہ‘ اور ’اُمیدیں چکنا چور‘ دکھائی دیتی ہیں کیونکہ سڑکیں چاہے کتنی کی کشادہ‘ خوبصورت اور ہموار بنا دی جائیں لیکن اگر مقامی افراد کو ’تحفظ کا احساس‘ نہیں ہوگا تو یہ سارے انتظامات اپنی جگہ ناکافی ہوں گے۔ یوں تو حیات آباد کے رہنے والوں کے لئے مسائل سے نمٹنا کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران جرائم کی شرح میں غیرمعمولی اضافے نے یہاں کے رہنے والوں کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور دیواریں بلند کرنے‘ خاردار تاریں‘ نگرانی کے لئے کیمروں کی تنصیب اور نجی سیکورٹی گارڈز کی تعیناتی کے باوجود بھی اُنہیں اطمینان حاصل نہیں ہورہا۔ سرشام حیات آباد میں چہل قدمی (واک) کرنے کی روایت بھی چند ایک گلیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے!

حیات آباد کی رہائشی بستی اور اہم سرکاری و نجی دفاتر کی وجہ سے یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ دو عدد پولیس تھانے قائم کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ صنعتی بستی‘ رہائشی و تجارتی علاقے اور آمدورفت کے اِس راستے کو محفوظ بنایا جائے۔ ماضی میں یہی علاقہ اغوأ کاروں کی جنت بھی رہا ہے جب پشاور یا ملک کے دیگر حصوں سے اغوأ برائے تاوان کرنے والے اپنے اہداف کو یہاں کے ’سیف ہاؤسیز‘ میں کچھ دن کے لئے رکھتے اور بعدازاں انہیں متصل قبائلی علاقے (خیبرایجنسی) کے راستے افغانستان منتقل کردیا جاتا۔ یادش بخیر ستمبراور ماہ نومبر کے دوران اغوأ کی کئی ایک ایسی وارداتیں بھی یہیں رونما ہوئیں جو عالمی سطح پر نشر کی گئیں جیسا کہ افغان اور ایرانی سفارتی عملے کا اغوأ۔ اور تشویشناک امر یہ ہے کہ اغوأ کی وارداتیں رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن دیہاڑے رونما ہوئیں اور ایک واردات تو ایسے مقام پر ہوئی جو پولیس تھانے سے چند گز کے فاصلے پر واقع تھا۔

حیات آباد کی بستی اغوأ کاروں کا مرکز ہوا کرتی تھی لیکن آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پشاور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز حیات آباد و رنگ روڈ کے ملحقہ علاقوں سے کیا‘ اور یہی سبب ہے کہ آج کا پشاور نسبتاً محفوظ دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ’آپریشن کلین اپ‘ کے دوران ’کارخانو مارکیٹ‘ کے اُن سرمایہ داروں کے اڈوں کا بھی صفایا کیا جاتا جو تجارت کی آڑ میں سازوسامان کی غیرقانونی نقل و حمل‘ ہنڈی کا کاروبار اُور منظم جرائم پیشہ گروہوں سے مراسم رکھتے ہیں تو اس سے صرف حیات آباد ہی نہیں بلکہ باقی ماندہ پشاور کا بھی فائدہ ہوتا۔

حیات آباد میں قتل ہونے والوں کی ایک طویل فہرست میں جن میں ڈاکٹر سیّد عاصم حسین‘ قیصر حسین کے نام شامل ہیں جبکہ رواں برس فروری میں یہاں کی ایک جامع مسجد کو بھی خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ مارچ کے مہینے میں کرنل طاہر خان کو فیز تین میں گھات لگا کر شہید کیا گیا جبکہ اپریل کے مہینے میں باغ ناران کی کیاریوں میں بم نصب کرنے والا ایک شخص اپنے ہی ہتھیار کا نشانہ بن گیا۔ مئی میں ایک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے کئی افراد ہلاک ہوئے۔ جون میں فرنٹیئر ریزرو پولیس کے ڈپٹی کمانڈنٹ ملک طارق کو ایک حملے میں شدید زخمی کیا گیا جبکہ اُن کے محافظ ہلاک ہوئے۔ القصہ مختصر رواں برس حیات آباد میں 5 خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ 14اگست کے روز پولیس کی ایک گشتی گاڑی جو کہ خیبرچوک کے قریب سے گزر رہی تھی اُس پر دو نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں یہ تین افراد بشمول دو پولیس اہلکاروں کے ہلاک ہوئے۔

پولیس کے انتظامی نگرانوں کا ماننا ہے کہ حیات آباد میں جرائم کے رونما ہونے کا بنیادی سبب اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ماضی میں چونکہ قبائلی علاقے جرائم پیشہ عناصر کی دسترس میں نہیں تھے اور اِن علاقوں میں زیادہ سے زیادہ منشیات فروشی یا افغانستان سے اسمگل شدہ سازوسامان رکھا جاتا تھا اس وجہ سے حیات آبادکی بستی قبائلی علاقے سے متصل کرکے تعمیر کی گئی‘ جو اُس وقت کے لحاظ سے درست لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ایک غلط فیصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے حیات آباد داخلے کے راستوں کو مکمل طور پر بند نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں تعمیر ہونے والی دیوار اور اضافی نگرانی کی چوکیاں بھی کارگر ثابت نہیں ہوئیں اور ہمیں دیواروں میں بڑے بڑے سوراخ دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کی توجہ سیکورٹی میں پائے جانے والے نقائص کی جانب مبذول کرائی ہے تاکہ حیات آباد میں داخلے کے راستوں کو کم سے کم رکھا جا سکے اور غیرروائتی راستے پر نگرانی کے لئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں لیکن اس سلسلے میں درکار مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔ پولیس حکام اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ حیات آباد میں جرائم زیادہ نہیں بلکہ ماضی کی نسبت کم ہوئے ہیں!

لمحۂ فکریہ ہے کہ حیات آباد میں فرنیٹئر کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کے صدر دفاتر قائم ہیں‘ جن پر کئی ایک مرتبہ راکٹوں سے حملہ ہو چکا ہے اور اِن حملوں میں جانی نقصانات کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ حیات آباد کے رہائشیوں کو اپنی جان ومال کے تحفظ کے لئے پولیس کی کارکردگی پر اطمینان نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر وہ مارکیٹ میں گاڑی کھڑی کرتے ہیں تو اُنہیں یقین نہیں ہوتا کہ انہیں اس میں بخیروعافیت بیٹھنا نصیب ہوگا بھی یا نہیں۔ الغرض حیات آباد میں زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات کا شکار ہو رہی ہے اور اگر صوبائی حکومت امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے صرف حیات آباد ہی کو محفوظ نہیں بنا سکتی تو اس سے پورے پشاور اور باقی ماندہ خیبرپختونخوا میں امن و امان بہتر بنانے کے لئے اُمیدیں اور توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیءں۔ ہندکو زبان کا یہ محاورہ کسی دانا کے قول پر مبنی ہے کہ آپ کو اپنے دوست اُور دشمن کی شناخت صرف اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُس کے ساتھ واسطہ پڑے یا پھر وہ آپ کے ساتھ شریک سفر ہو۔

TRANSLATION: 10 children per day

10children per day
بچوں سے زیادتی: ایک معمول!
پنجاب پولیس کی کہانی: صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پنجاب پولیس جتنی افرادی قوت کسی قانون نافذ کرنے والی اس جیسے ادارے کے پاس نہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ 80ہزار ہے اور اس قدر بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو پالنے کے لئے سالانہ 82 ارب روپے درکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم پنجاب پولیس کے لئے سالانہ مختص ہونے والی خطیر گرانٹ کا جائزہ لیں تو یہ فی نفر 4 لاکھ 50 ہزار روپے جبکہ پنجاب کے 2لاکھ 5 ہزار 344 مربع کلومیٹر پر پھیلے رقبے میں رہنے والے ہر شخص کے لئے 6 ہزار روپے مختص و خرچ کئے جاتے ہیں۔

پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا کی جملہ ذمہ داریوں میں یہ امور شامل ہیں کہ وہ جرائم کی روک تھام کریں گے۔ امن و امان کا قیام ممکن بنائیں گے۔ جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ آزادی ممکن بنائیں گے اور اِن سب امور کے لئے خطرہ بننے والوں سے نمٹیں گے۔

پنجاب پولیس کا بجٹ: سال 2014-15ء کے دوران پنجاب پولیس میں بچوں کی حفاطت اور انہیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے 87 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ مالی سال 2015-16ء کے لئے اسی مد میں 53 کروڑ روپے مختص ہوئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے 40فیصد کم ہے اور یہ ایک غیرمعمولی کمی ہے۔ اگرہم صوبہ پنجاب میں بچوں کی آبادی کے تناسب سے مختص کئے جانے والے مالی وسائل کو دیکھیں تو یہ فی بچہ 15روپے سالانہ کا خرچ بنتا ہے جو حکومت نے اپنے ذمے لیا ہے۔ عجب ہے کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران شجرکاری کے لئے پنجاب حکومت نے 58 ارب روپے مختص کئے جو بچوں کے تحفظ کے لئے مختص مالی وسائل سے زیادہ رقم ہے۔

حکومت پنجاب میں بچوں کے تحفظ و بہبود کے بیورو کی نگران (چیئرپرسن) رکن صوبائی اسمبلی صباء صادق کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برس کے دوران بچوں سے ہونے والی زیادتیوں کے واقعات 55 فیصد زیادہ رپورٹ ہونے لگے ہیں لیکن اگر یہ حقیقت خود پنجاب حکومت بھی تسلیم کرتی ہے تو پھر بچوں کے تحفظ کے لئے مختص مالی وسائل میں 40فیصد کمی کی منطق کیا بنتی ہے؟

تشویشناک اعدادوشمار: بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم ساحل نے چند اعدادوشمار مرتب کئے ہیں جن کے مطابق گذشتہ 5 برس میں کم و بیش 14 ہزار ایسے واقعات پیش آئے جن میں بچوں سے جنسی زیادتی ہوئی۔ اِن رپورٹ ہونے والے کیسیز میں 70 فیصد ایسے تھے جن میں زیادتی کا شکار لڑکیاں ہوئیں اور ایسی لڑکیاں کہ جن کی عمریں پانچ سے اٹھارہ برس کے درمیان تھیں۔ پانچ سال میں بچوں سے رونما ہونے والے زیادتی کے 65فیصد واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔

سال 2014ء کے دوارن 3 ہزار 508 بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن کی اگر اوسط نکالی جائے تو ہمارے ہاں ہر روز 10 بچے اوسطاً پورے سال جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

حکومت پنجاب کا مؤقف: حال ہی میں بچوں سے ہوئے جنسی زیادتی و تشدد کے واقعات منظرعام پر آنے سے پوری دنیا کی نظریں پنجاب حکومت پر ٹکی ہوئی ہیں جس کے لئے یہ گھڑی مشکل فیصلے کرنے کی ہے۔ اُمید تھی کہ پنجاب حکومت اس مشکل کی گھڑی میں دانشمندی کا ثبوت دے گی لیکن اُنہوں نے پہلے تو ایسے واقعات کے رونما ہونے کی حقیقت ہی سے انکار کیا اور پھر جب دباؤ بڑھا تو ایک تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا۔
جنسی زیادتی کے خلاف پوری قوم یک زبان ہے اور چاہتی ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں اُن سے رعائت نہ برتی جائے۔ اس سلسلے میں بطور خاص خیبرپختونخوا اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کا ذکر ضروری ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے سے زیادہ خطرناک قصور میں بچوں سے ہونے والی جنسی زیادتی اور تشدد ہے۔

تجاویز: جب ہمارے سامنے یہ اعدادوشمار دستیاب ہیں کہ ہر روز کم و بیش 10بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہو رہی ہے اور یہ دس بچے وہ ہیں جن سے ہونے والی زیادتی کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیا جارہا ہے۔ اصل واقعات کی تعداد کئی زیادہ ہوں گے۔ تو اس نازک مرحلے پر ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تین کام کرنے چاہیئں۔ سب سے پہلے تو ایسے قوانین بنانے چاہیءں جن کی موجودگی میں بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی روح تک کانپ جائے اور کوئی ایسا کرنے کی جرأت ہی نہ سکے۔ دوسرے مرحلے میں قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد ممکن بنایا جائے اور زیادہ سے زیادہ مالی وسائل بچوں کے تحفظ کے لئے مختص کئے جائیں۔ تیسری ضرورت یہ ہے کہ بچوں کے حقوق‘ اُن کے بارے میں معاشرے کو حساس کرنے اور شعور اُجاگر کرنے کے لئے مہمات چلائی جائیں اور اس کے لئے مالی وسائل مختص کئے جائیں۔ ہم ایسا کرنے میں پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں‘ جس کے لئے معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً بچوں کی چیخ و پکار جاری ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Saturday, August 15, 2015

Aug2015: The real issues to worry!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زحال مسکیں‘ مکن تغافل!
قدرتی آفات سے قومی سطح پر نمٹنے اُور بحالی و تعمیرنو کے لئے حکمت عملی تیار کرنے والے وفاقی اِدارے ’نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (ndma.gov.pk)‘ کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں سیلابی صورتحال برقرار ہے بلکہ دریاؤں میں طغیانی کے سبب تباہ کاریوں کا سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے جس کے نتیجے میں تیرہ اور چودہ اگست (چوبیس گھنٹوں میں) پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ حالیہ چند ہفتوں میں مجموعی طور پر 207 افراد کی جان سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔ اِن میں 49 بچے اُور 63 خواتین بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے بچوں میں سے 33 کاتعلق صوبہ پنجاب اور 16کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔‘‘ ملک گیر سطح پر 13لاکھ 78ہزار 82 افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور بارشوں کے نئے سلسلے کی پیشنگوئی کرتے ہوئے محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ’’بلوچستان اور سندھ میں مزید بارشوں کا سلسلہ چودہ اگست سے قبل ہی شروع ہو چکا ہے اور اسی سلسلے کی مزید بارشیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی متوقع ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ ابھی تک ’مون سون بارشوں‘ کا نصف دورانیہ ہی مکمل ہوا ہے اور عموماً یہ سلسلہ ماہ ستمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ ملک کے سبھی مرکزی دریاؤں میں سیلاب کی بلند ترین سطح پہلے ہی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے لیکن موسم کے بدلتے ہوئے غضباک تیور اور تھپڑ سہنے کے باوجود ہمارے ہاں ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں‘ جو بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے خلاف ہیں اور اِس تکنیکی مسئلہ کو ’سیاست کی نذر‘ کئے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی جواب دے گا کہ محض چار ہفتوں میں جن 207 افراد کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں اُن کے قتل کا مقدمہ کس کے خلاف درج کیا جائے؟ آخر اُن 49بچوں اور 63خواتین کا کیا قصور تھا‘ جنہیں سیلابی پانی بہا لے گیا؟

سیلاب سے متاثرہ ’خیبرپختونخوا‘ کو کئی داخلی مسائل کا سامنا ہے‘ جن میں موسمیاتی تغیرات کو نظرانداز کرنے کے سبب پیش آنے والے حادثات سب سے نمایاں ہیں۔ اِنہی حالات کی وجہ سے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی ہو رہی ہے۔ نسلوں سے زراعت اور مال مویشیوں کی پرورش کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے والے اپنا آبائی پیشہ ترک کر رہے ہیں۔ جن علاقوں میں بارشوں اُور سیلاب سے آبپاشی کا نظام تباہ یا متاثر ہوا ہے‘ اُس کی بحالی کے لئے حکومت کی جانب سے نہ تو ماضی میں خاطرخواہ توجہ دی گئی اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں کو اُس ’چھوٹے کاشتکار‘ کسان اور محنت کش‘ کی فکر ہے‘ جو کسی سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے صاحب جائیداد کا غلام ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے خون پسینے سے زراعت کرنے والوں کی زندگی تو غلاموں سے بدتر ہے۔ اُنہیں محنت کا خاطرخواہ صلہ نہیں ملتا۔ زرعی ضروریات پر اِس قدر محصولات (ٹیکس) لگا دیئے گئے ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری منافع بخش تو کیا‘ اب تو فصل پر اُٹھنے والے اصل اخراجات وصول ہونا بھی ممکن نہیں رہا! یادش بخیر گذشتہ دور حکومت میں ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب آیا تو اُس وقت کے وزیر خزانہ کا تعلق اِسی خطے سے تھا‘ جنہوں نے دل کھول کر ’بڑے جاگیرداروں‘ کے ساتھ اپنی دوستی و تعلق کو نبھایا۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ اجارے پر کام کرنے والے جن چھوٹے کاشتکاروں کی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں اُن سے جاگیرداروں نے فصل کی بجائے نقد رقم کا تقاضا کیا اور یہ رقم زبردستی وصول بھی کی گئی۔ ایک طرف جاگیرداروں نے اپنی زرعی زمینیں سیلاب سے خراب ہونے اور آبپاشی کے نظام کی بحالی کے لئے کروڑوں روپے وصول کئے اور دوسری جانب انہوں نے نہ تو کھیتوں کی صفائی‘ حد بندی اور آبپاشی کا نظام درست کیا بلکہ اُلٹا کاشتکاروں کی کھال بھی اُتاری! اس قدر سنگدلی کی توقع تو اُن استحصال پسند ہندو سے کی جا سکتی تھی‘ جس سے آزادی حاصل کرنے کا پوری قوم اِن دنوں 69واں جشن منا رہی ہے!

آخر ہمیں کس بات نے گردوپیش اور برسرزمین حقائق سے لاتعلق کر رکھا ہے؟ کیا یہ بات کسی درجے تشویشناک بھی ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کے زیرکاشت رقبے میں ہرسال کمی آ رہی ہے۔‘‘ محکمۂ مال کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق زیرکاشت رقبے میں غیرمعمولی کمی کا رجحان 1985ء سے جاری ہے اُور اِس کی ابتدأ زرخیز زمینوں کو رہائشی مقاصدکے لئے استعمال کرنے کی دیکھا دیکھی پھیلنے والی وباء سے ہوئی۔ جب رہائشی کالونیاں ’خود رو جھاڑیوں‘ کی طرح پھیلنے لگیں تو نکاسی آب کے لئے آبپاشی کے نالے (واٹر چینلز) استعمال ہونا شروع ہوئے‘ جس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی اور جو باقی ماندہ زمین رہائشی کالونیوں سے بچ گئی تھی‘ وہاں بھی صحت مند کاشتکاری ممکن نہیں رہی۔

محکمۂ مال کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ہر سال 11.6 مربع کلومیٹر زرعی زمین دیگر مقاصد کے لئے استعمال میں لائی جا رہی ہے۔‘‘ ہمارے حکومتی اِدارے کمال کے ہیں۔ یہ اعدادوشمار تو مرتب کرتے ہیں لیکن اِن سے متعلقہ خطروں کا بیان نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’سالانہ گیارہ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ کاشت نہیں ہو رہا‘‘ تو اِس کا موازنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے تناسب سے نہیں کیا جاتا۔ آخر یہ سوال بھی کیوں درپیش نہیں کہ ’’اگر خیبرپختونخوا میں گیارہ مربع کلومیٹر سالانہ کے تناسب سے اراضی کا زرعی استعمال ترک ہو رہا ہے تو آنے والے دنوں میں ’خوراک کی دستیابی و فراہمی (غذائی تحفظ)‘ کیسے ممکن ہو پائے گا؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں زرعی اراضی کا موجودہ کل رقبہ کتنا ہے؟
 اِس سلسلے میں محکمۂ زراعت کے مرتب کردہ اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے جن کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں کل 18ہزار 709 اعشاریہ 55مربع کلومیٹر رقبہ زیرکاشت ہے جبکہ آئندہ پچیس سے تیس برس کے دوران ملک کے اِس ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کی آبادی 5 کروڑ نفوس سے تجاوز کر جائے گی!‘‘ اگر ہم پشاور ہی کی مثال لیں تو یہاں کی زرخیز زمینیں پانی کی کمی کے باعث تباہ ہو رہی ہیں۔ اگر حکمرانوں کو فرصت ملے اور وہ چمکنی یا اِس کے مضافاتی دیہی علاقوں کا دورہ کریں‘ وہاں کے کاشتکاروں کے مسائل سننے کے لئے کھلی کچہریاں لگائیں تو معلوم ہو گا کہ جن زرعی زمینوں کو کاشت کرنے کے لئے پانی ہی دستیاب نہیں تو اگر ایسی زمینوں کو رہائشی و دیگر غیرزرعی مقاصد کے لئے فروخت کردیا جائے تو کیا مضائقہ ہے!؟ رواں برس (دوہزار پندرہ) میں خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ جن کم و بیش 400 دیہی علاقوں میں ’زراعت بچاؤ اقدامات‘ کئے گئے ہیں وہ کافی تو کیا واجبی سے بھی کم ہیں۔ مثال کے طورپر ۔۔۔’’سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سات ایکڑ پر انار اُور انگور کے باغات لگائے گئے ہیں اور سرکاری و نجی شعبے کی شراکت داری سے پشاور کے مضافاتی ترناب کے علاقے میں 6.5 ایکڑ اراضی زیرکاشت لائی گئی ہے!‘‘ کیا یہ کوششیں اور اس قدر محدود پیمانے پر ہونے والے اقدامات کافی قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ اگر محکمۂ زراعت اور اس کے ذیلی دیگر محکموں کے ہزاروں ملازمین کو ایک میدان میں جمع کرکے ایک عدد نہر اور ایک عدد گڑھا کھودنے پر لگا دیا جائے تو محض چند دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی سیلابی نہر اور سب سے بڑا تالاب بن جائے گا‘ جس کے کئی ایک مفید استعمال بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔ القصہ مختصر کاشتکاروں‘ محنت کشوں‘ سیاسی‘ نسلی و لسانی استحصال‘ تعصب اور محرومیوں کا شکار غریب و محکوم طبقات نے سب سے زیادہ اُمیدیں ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے وابستہ کر رکھی ہیں‘ جن پر پورا اُترنے کے لئے ’بنی گالہ‘ کو نمائشی اقدامات و انتظامات کی بجائے انقلابی اصلاحات لانے کے لئے رہنما اصول وضع کرنا ہوں گے۔’’زحال مسکیں‘ مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں۔۔۔کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں‘ نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں۔ (اَمیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ)‘‘

Friday, August 14, 2015

Aug2015: Electronic Crimes Bill - A dilemma

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَندھا دُھند جہالت!
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے ایک اجلاس کا مشاہدہ وقت کا ضیاع ثابت نہیں ہوا۔ یخ بستہ ایوان میں اِن دنوں ’’الیکٹرانکس کرائمز بل 2015ء‘‘ کو حتمی شکل دینے کے لئے تجاویز پر غور کا عمل جاری ہے اُور اجلاس کے دوران ایک موقع پر حکمراں نواز لیگ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی طاہر اقبال نے انکشاف کیا کہ ’’دہشت گرد تنظیمیں اپنے نفرت انگیز خیالات (ایجنڈے) کو فروغ دینے کے لئے کم و بیش تین ہزار ویب سائٹس چلارہی ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف ’قومی ایکشن پلان‘ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وفاقی حکومت ایسی معاون قانون سازی کرے گی‘ جس میں دیگر جرائم کی طرح ’الیکٹرانک جرائم‘ کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالا جا سکے لیکن رکاوٹ اراکین قومی اسمبلی کی سمجھ بوجھ تھی‘ جو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے اَمور سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے اور یہی وجہ رہی کہ قانون سازی کے اس مرحلے میں سب سے مشکل کام قائمہ کمیٹی کے اراکین کی اُس رائے کو تبدیل کرنا ہے جو ٹیکنالوجی سے متعلق وہ رکھتے ہیں۔ اس طرح کی قانون سازی متعلقہ محکمے پہلے ہی کرلیتے ہیں‘ جس میں ہمسایہ ممالک کے قوانین سے نقل کی گئی شقیں الفاظ بدل کر شامل کر لی جاتی ہیں۔ کمیٹی ماہرین کو بھی طلب کرتی ہے اور پھر جب ماہرین بولتے ہیں تو اُن کا منہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جاتا ہے کہ یہ کیا ارشاد فرما رہے ہیں! جب افغان موبائل فون کنکشنوں کے پاکستان میں استعمال (رومنگ) پر پابندی عائد کرنے کا معاملہ زیرغور تھا تب بھی ایسی ہی ایک ایوان بالا کی کمیٹی کے اجلاس میں آخری وقت تک ’رومنگ‘ سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ وہ ایک سیدھا سادا مسئلہ تھا اور محض چند کمپیوٹر کمانڈز کی مدد سے ایسے تمام موبائل فون کنکشن بند کئے جا سکتے تھے جو پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)کے ذریعے تصدیق نہیں رکھتے لیکن موبائل فون کمپنیوں کی لابنگ زیادہ مؤثر ثابت ہوئی!

’الیکٹرانک کرائمز بل‘ پر غوروخوض کے مرحلے پر جب یہ بات سامنے آئی کہ گمنام دہشت گرد کم و بیش تین ہزار ویب سائٹس کا اِستعمال کر رہے ہیں تو شرکاء نے اِس بیان اور تعداد پر یقین کرتے ہوئے آنکھیں پھیلا کر حیرت کا اظہار کیا‘ حالانکہ یہ دعویٰ سائنسی طورپر مصدقہ نہیں۔ اگر ہم سماجی رابطہ کاری کے وسائل ہی کو دیکھیں تو ایسے چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں اکاونٹ (کھاتے) ملیں گے جو عسکریت پسندوں‘ انتہاء پسندوں‘ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے پیغامات کی تشہیر کر رہے ہیں۔ صحافیوں کو لاتعداد کالعدم تنظیموں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے بیانات بذریعہ ای میل وصول ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کی طرح عسکریت پسند بھی انٹرنیٹ کا پوری آزادی و حسب سہولت استعمال کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ موبائل فون کنکشنوں کی بجائے انٹرنیٹ ٹیلی فون (آئی پی) کالز کی جاتی ہیں۔ پیغامات کا تبادلہ بھی فیس بک‘ واٹس ایپ‘ وائبر‘ سکائپ اُور دیگر کئی ایسی ایپلیکیشنز (Apps) کے ذریعے ہوتا ہے‘ جو نسبتاً غیرمعروف ہیں۔ ایسے موبائل سافٹ وئر بھی دستیاب ہیں جن کی واجبی سی قیمت ہے اور اِن کے ذریعے کئی افراد رازداری سے تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں! افسوس کہ جس تیزی سے سماج دشمن عناصر نے ’انٹرنیٹ‘ رابطہ کاری سے فائدہ اُٹھایا‘ اتنی مستعدی کا مظاہرہ حکومت کی جانب سے نہیں ہو سکا۔ موبائل فون کمپنیوں کو اپنے منافع سے غرض ہے اور وہ کسی بھی ایسی تحریک یا ضرورت کی اہمیت کو محسوس نہیں کر رہیں جس کا تعلق پاکستان کی سالمیت یا امن و امان کے حوالے سے درپیش خطرات سے ہو!

قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے اراکین متعدد جرائم اور سزاؤں کا ایک‘ ایک کرکے جائزہ لے رہے ہیں‘ جن پر کمیٹی میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین‘ وکلأ‘ غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے متعدد اداروں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بات ’قومی سلامتی‘ کی ہو رہی ہوتی ہے تو ہمارے اراکین اسمبلی کی تقسیم ’حکومت اُور حزب اختلاف‘ کے طور پر کیوں ہوتی ہے؟ قانون سازی کے مرحلے قانون سازوں کی ترجیحات سازی اور بحث و مباحثہ میں سیاسی وابستگیوں کا رنگ کیوں غالب دکھائی دیتا ہے۔ ’’تعمیر وطن کے لئے سرجوڑ کر نکلو۔۔۔تخریب کے ہر پہلو سے منہ موڑ کے نکلو۔‘‘ الغرض جرائم چاہے الیکٹرانک ہوں یا روائتی‘ اِن کے بارے میں ’قانون سازوں کی رائے الگ الگ (منقسم) نہیں ہونی چاہئے‘ اُور یہ ہدف حاصل کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کلیدی کردار اَدا کر سکتا ہے۔ اخبارات بلاناغہ ٹیکنالوجی کے خصوصی ضمیمے شائع کریں۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کو روزمرہ زندگی کے مسائل اور اُن کے حل سے متعلق غوروفکر اُور تحقیق پر مبنی مضامین تحریر کرنے کے لئے ’اُکسایا‘ جائے۔ مضمون
نویسی سمیت ٹیکنالوجی کے موضوعات اِدارتی پالیسی کا مستقل حصہ ہونے چاہیئں۔

نوجوان نسل جس ’اَندھا دھند انداز میں جہالت کی پیروکار‘ بنی ہوئی ہے‘ اس کی مذمت نہیں بلکہ رہنمائی کا انتظام ہونا چاہئے۔ ’فیس بک‘ کا مفید استعمال بھی تو ممکن ہے۔ اِس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اور نوجوانوں کو تعمیری قول و فعل کی تربیت بھی تو دی جا سکتی ہے۔ درس و تدریس کا عمل سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی تو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

قائمہ کمیٹی کے شرکاء کی جانب سے ’الیکٹرانکس کرائمز‘ کے مسودۂ قانون میں درج جرائم اور سزاؤں پر جاری تبادلۂ خیال میں نفرت انگیز تقاریر‘ شناخت کا غلط استعمال‘ غیر قانونی مداخلت اور دیگر امور شامل تھے۔ سب جانتے ہیں کسی بھی فرضی (جعلی) نام و شناخت سے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں اور سینکڑوں ’اِی میل کھاتے (اکاونٹ)‘ کھولنا کس قدر آسان و ممکن ہے۔ اسی طرح کسی فرد کے وقار کے خلاف جرائم‘ سائبر اسٹاکنگ‘ اسپامنگ‘ سپوفنگ‘ ڈیٹا ٹریفک میں رکاوٹ اور انفارمیشن سسٹم میں خفیہ اِداروں کی رسائی‘ کسی ایک یا زیادہ اِی میل اَکاؤنٹس کی نگرانی یا اُن تک رسائی ختم (بلاک) کرنا وغیرہ پر بھی تفصیلی بات چیت ہونی چاہئے۔اُمید ہے کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس یعنی اٹھارہ اگست کو یہ مسودۂ قانون کسی حتمی شکل کی صورت سامنے آ جائے گا۔ طریقۂ کار کے مطابق جب کوئی مسودہ قانون ذیلی کمیٹی میں ترتیب پا جائے تو اُسے ’قومی اسمبلی‘ میں منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ (قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کرنے سے قبل) اِس مجوزہ قانون کو بذریعہ ویب سائٹ مشتہر کیا جائے تاکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اپنے اپنے نکتۂ نظر سے اِس کا جائزہ لے سکیں۔ الیکٹرانک جرائم سے متعلق نیا قانون اگر موجودہ شکل میں منظور ہو جاتا ہے تو اس سے انٹرنیٹ صارفین کے حقوق محدود جبکہ چند ریاستی اداروں کے اختیارات لامحدود ہو جائیں گے۔ یہ بل (موجودہ شکل میں) تفتیشی انتظامیہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے اور اس سے شہری حقوق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ دوران بحث ایک مرحلے پر یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اِس بل کو چالیس سے 13 صفحات تک محدود کیا گیا ہے اُور اِس سے ’اِنسانی حقوق‘ سے متعلق نکات نکال دیئے گئے ہیں۔ یہ ذمہ داری صرف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین ہی کی نہیں بلکہ دیگر تمام ’ایم این ایز‘کی بھی ہے کہ وہ قانون سازی کے جملہ مراحل میں دلچسپی لیں۔ کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی سمیت بطور مبصر کوئی بھی شخص شریک ہو سکتا ہے اور اجازت ملنے پر اظہار خیال بھی کرسکتا ہے۔ خود کو متعلقہ یا غیرمتعلقہ سمجھنے والے جملہ اراکین قومی اسمبلی کو اپنی حیثیت سے جڑے فرائض کا ادراک کرنا ہوگا کہ بھلا ایسے کسی قانون کی اہمیت کس قدر ہوسکتی ہے‘ اُسے کتنا سراہا اور واجب الاحترام سمجھا جا سکتا ہے‘ جو انسانوں پر لاگو ہو‘ لیکن اس کی ساخت میں انسانی حقوق کو کم ترین ترجیح دی گئی ہو!؟

Thursday, August 13, 2015

Aug2015: The Entry Test

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
لامتناہی امتحانات!
بارہ اگست کو خیبرپختونخوا میں ہونے والے ’انٹری ٹیسٹ‘ کے نتائج کا اعلان حسب سابق بناء تاخیر اگلے ہی روز بذریعہ ویب سائٹ اور ’ایس ایم ایس‘ کرنے کی روایت برقرار رکھی گئی۔ والدین کو دیئے گئے نمبروں پر ’ایس ایم ایس‘ کیا گیا کہ ET لکھنے کے بعد رول نمبر لکھیں اور ایس ایم ایس ایک خاص نمبر پر ارسال کریں جس کے بعد جواب میں خودکار طریقے سے نتیجہ بتا دیا گیا۔ اگر والدین کو مطلع ہی کرنا ہوتا ہے تو انہیں براہ راست نتیجہ کیوں نہیں بھیجا جاتا‘ چہ جائیکہ ان سے مزید پیسے وصول کئے جانا کہاں کا انصاف ہے؟ خیبرپختونخوا کے نجی و سرکاری میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے ایک ’لازمی شرط‘ قرار دیئے جانے والے انٹری ٹیسٹ کے طریقۂ کار اور ضرورت کے بارے میں والدین اور طلباء و طالبات کے علاؤہ ماہرین تعلیم بھی تشویش و پریشانی کا شکار ہیں‘ جنہیں اِس بنیادی بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ کسی طالب علم یا طالبہ کی قابلیت کو محض تین گھنٹے میں جانچنے کا یہ غیرسائنسی معیار منطق سے زیادہ جلدبازی اور اُس خاص طبقے کو مستفید کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے جو اپنے بچوں کو نجی ٹیوشن سنٹروں میں ہزاروں روپے ماہانہ فیسوں کے عوض ’انٹری ٹیسٹ‘ کی تیاری کروانے کی مالی سکت رکھتے ہیں۔

 اگرچہ ’انٹری ٹیسٹ‘ میں حصہ لینے کے لئے ’مالی حیثیت یا قابلیت‘ کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی لیکن ’فرق صاف ظاہر ہے‘ کہ جو طلباء و طالبات ’ایف ایس سی‘ میں زیادہ نمبر و نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں‘ وہ محض تین گھنٹے کے امتحان کے بعد صدمے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگر ’انٹری ٹیسٹ‘ کو پچاس فیصد‘ بورڈ کے امتحان کو چالیس فیصد اور میٹرک کے بورڈ امتحان میں حاصل کردہ نمبروں کو صرف 10فیصد اہمیت ہی دینی ہے تو پھر تعلیمی بورڈز کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دوسرا سوال انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی شفافیت ہے‘ جنہیں خفیہ رکھ کر کسی اُمیدوار کو صرف اُسی کے نتیجے تک رسائی دی جاتی ہے۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں اور بااثر لوگوں کے بچوں کو ’انٹری ٹیسٹ‘ کے مرحلے سے فائدہ دلانا مقصود نہیں تو ویب سائٹ پر میٹرک‘ انٹر اور انٹری ٹیسٹ کے جملہ نتائج کیوں شائع (نشر) نہیں کئے جاتے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ جو طلباء و طالبات میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں اچھے نمبر حاصل نہیں کرسکتے وہ بھلا کیسے انٹری ٹیسٹ میں پچاس اور ساٹھ فیصد سے زائد نمبر حاصل کر کے سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کے اہل ہو جاتے ہیں؟ یا تو انٹری ٹیسٹ کا درست ہے یا پھر تعلیمی بورڈز کے امتحانی نظام اصلاح چاہتے ہیں۔ چوتھا سوال انٹری ٹیسٹ کے بارے میں اُس عمومی تاثر کا ہے کہ (یادش بخیر) جب ایک وزیراعلیٰ صاحب کو اپنی بیٹی میڈیکل کالج میں داخل کرانا تھی اور اُس کے انٹرمیڈیٹ نمبر کم تھے‘ اندیشہ تھا کہ اگر کسی بھی طرح مذکورہ ’دختر نیک اختر‘کو داخلہ دیا گیا‘ تو داخلے سے محروم رہ جانے والی طالبات کے والدین عدالت سے رجوع کریں گے تو اُس سال ’انٹری ٹیسٹ‘ متعارف کرا دیا گیا اور یوں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حقیقت حال کیا ہے‘ اس بارے میں تفصیلی و تکنیکی وضاحت ضروری ہے۔

خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح بارہ اگست کی صبح‘ ایبٹ آباد میں بھی میڈیکل کالجز کے داخلے کے لئے ’انٹری ٹیسٹ‘ کا انعقاد ہوا‘ جو انتظامی خرابیوں کا مجموعہ تھا۔ ایوب میڈکل کالج کے احاطے میں جس جگہ کا انتخاب کیا گیا وہ ایک زیرتعمیر عمارت تھی جہاں تعفن اور کیچڑ میں دھنسی نشستیں طالبات کے ہوش اُڑانے کے لئے کافی تھیں۔ ایوب میڈکل کالج ہی میں تدریس کرنے والی ایک پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کو اِس بات پر حیرت تھی کہ رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے وسیع و عریض ہسپتال و تدریسی میڈیکل کالج کے احاطے میں کیا صرف یہی جگہ رہ گئی تھی جو ’اِمتحانی سنٹر‘ کے لئے پسند کی گئی؟ قابل ذکر ہے کہ مبینہ طور پر جہاں سینکڑوں کی تعداد میں طالبات کو نشستیں فراہم کی گئیں وہاں ’رفع حاجت‘ کے لئے ٹائلٹ موجود نہیں تھے۔ ایک شامیانہ لگا کر طالبات کے لئے جو بندوبست کیا گیا‘ وہ بھی ناقابل استفادہ تھا کیونکہ شامیانے میں سوراخ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ یک سو ہو سکتیں۔ ایک ایسی بیدار مغز‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اُور تدریس جیسے مقدس منصب پر فائز والدہ کے الفاظ میں پائی جانے والی تشویش اُور دکھ بیان کرنے کا مقصود اُس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہے‘ جو 170کلومیٹر دور صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے فیصلہ سازوں اور صوبائی حکومت کے پیش نظر نہیں! استدعا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت وزیر برائے اعلیٰ تعلیم اِس بدنظمی اور ’انٹری ٹیسٹ‘ کے امتیازی طریقۂ کار کا نوٹس لیں اور اِس کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی اصولی فیصلہ صادر فرمائیں جس سے بالخصوص اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے والے طلباء و طالبات اور والدین کی تشویش مخاطب (ایڈریس) ہو سکے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کو انٹری ٹیسٹ سمیت بورڈ کے جملہ امتحانات و داخلہ فیسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ ایسا کرنے سے اُن والدین کا بوجھ کم ہوگا جو امتحانات در امتحانات یعنی لامتناہی امتحانات کا مالی بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

 ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کی مختصر فون کال ایک ایسے سوال پر منقطع ہوئی جس جو انتظامی نہیں بلکہ مالی بدعنوانیوں سے متعلق اور زیادہ سنجیدگی و گہرائی رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا ’’صرف ایبٹ آباد کے مرکز سے 80 لاکھ روپے سے زائد کی رقم انٹری ٹیسٹ دینے والوں نے ادا کی‘ آخر اِس قدر بھاری رقم وصول کرنے والوں نے خاطرخواہ یا بنیادی سہولیات فراہم کیوں نہیں کیں؟ والدین جاننا چاہتے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے بنائے جانے والے اداروں کو ’منافع‘ کمانے کی راہ پر کیوں ڈال دیا گیا ہے؟ انٹری ٹیسٹ سے کمائی جانے والی رقم کا مصرف کیا ہوتا ہے؟‘‘ آخر یہ والدین کے اِمتحان کب ختم ہوں گے؟ آخر والدین کو سکھ کا سانس لینا کب نصیب ہوگا؟ جناب وزیراعلیٰ صاحب‘ انقلابی تبدیلی کا انتخابی وعدہ‘ وہ خواب اور اعلان عملی تعبیر کا متقاضی ہے۔

’’عجب تناسب سے ذہن و دل میں خیال تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔ مگر محبت سی ہو گئی ہے‘ تمہیں محبت سکھا سکھا کے!‘‘
Why the evaluation of students through Entry Test is use as an alternate, concern parents need reforms & overview the system