ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بقاء کا راز!
بقاء کا راز!
’’تحفظ جنگلی و حیاتی ماحول‘‘ کے زیرعنوان تیس اگست کو پیش کردہ چند
گزارشات میں درختوں (فارسٹ) کی اہمیت اور جنگلات کی حفاظت کا ضمنی ذکر
تشنہ محسوس کرنے والے قارئین نے موضوع کا باریک بینی سے مطالعہ نہیں کیا
اور یہی وجہ رہی کہ وہ درست تناظر نظروں سے اوجھل رہا لیکن (معذرت کے ساتھ)
کالم کے موضوع کو جنگلی حیات (وائلدلائف) اُور حیاتی ماحول (بائیوڈیورسٹی)
تک محدود رکھنے کا مقصود اُن محکمہ جاتی حکمت عملیوں اور افرادی و مالی
وسائل کی کمی پر زیادہ سے زیادہ روشنی ڈالنا تھی‘ جن کی وجہ سے ہر سال مختص
ہونے والے مالی وسائل کا بڑا حصہ صرف ملازمین کی تنخواہوں و مراعات کی نذر
ہو رہا ہے۔ سرراہے ذکر صوبائی حکومت کی فراخدلی کا بھی کیا گیا جنہوں نے
ماضی کے مقابلے رواں مالی سال کے دوران اِس قدر غیرمعمولی اور بڑی تعداد
میں مالی وسائل مختص کئے جن ’محکمہ جنگلی حیات‘ کی تاریخ میں مثال نہیں
ملتی لیکن محض مالی وسائل مختص کرنے اور چند بڑے منصوبے شروع کرنا ایک ایسے
مسئلے کا حل نہیں‘ جو دہائیوں سے پس پشت بلکہ نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔
آئندہ چند سطور میں گذشتہ سے پیوستہ اُس صورتحال کو زیادہ واضح کرنے کی
کوشش کی جائے گی‘ جس پر ’جنگلی حیات و ماحولیاتی حیات کے تحفظ‘ کا انحصار
ہے۔
خیبرپختونخوا کے 4اضلاع میں 6 نیشنل پارکس ہیں۔ایبٹ آبادمیں ایویبہ نیشنل پارک‘ مانسہرہ میں سیف الملوک نیشنل پارک اُور دوسرا لولوسر دودی پت نیشنل پارک‘ چترال میں دو نیشنل پارک ہیں ایک بروغل نیشنل پارک اور دوسرا چترال گول نیشنل پارک اُور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیخ بدین نیشنل پارک۔ صوبائی حکومت اِن چھ نیشنل پارکس کے علاؤہ 2مزید نیشنل پارکس بنانا چاہتی ہے جس میں سے ایک ’سپٹ ویلی کوہستان نیشنل پارک‘ ہوگا جبکہ دوسرے نیشنل پارک کے لئے ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) کا معروف سیاحتی مقام ٹھنڈیانی یا مانکیان اور دیگر ملحقہ مقامات زیرغور ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی اَرباب اختیار سے دست بستہ سوال ہے کہ جب پہلے سے موجود نیشنل پارکس کی دیکھ بھال اور افادیت کے لحاظ سے اُن کی مکمل فعالیت کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے تو مزید نیشنل پارکس اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کا منطقی جواز کیا ہے؟ ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ موجودہ نیشنل پارکس (وسائل) کی حالت بہتر بنائی جائے‘ ان میں سہولیات کو وسعت دی جائے اور متعلقہ محکمے میں درکار افرادی قوت کی کمی کو دور کیاجائے۔ مثال کے طور پر ایبٹ آباد میں کل 53 یونین کونسلیں ہیں‘ جن کے لئے صرف 7 اہلکاروں کی خدمات دستیاب ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں سفر کرنے کے لئے محکمے کے پاس خاطرخواہ تعداد میں گاڑیاں نہیں‘ عجب ہے کہ 2 اَضلاع پر مشتمل اِیبٹ آباد کے پاس صرف دو گاڑیاں ہیں‘ جن کے لئے مستقبل بنیادوں پر اِیندھن کی فراہمی کے لئے الگ سے مالی وسائل نہیں دیئے جاتے! اسی طرح مانسہرہ کی 49 یونین کونسلیں کے لئے کل 25 نگران اہلکار ہیں اور اگر وہ کسی پہاڑی علاقے میں جنگلی حیات کو درپیش خطرات یا نگرانی یا قدرتی آفت کی صورت مدد کے لئے کسی ایک نالے یا گھاٹی میں جائیں تو انہیں صرف آمدورفت ہی میں ہفتے لگ جاتے ہیں!
صوبائی حکومت ’نیشنل پارکس کی منیجمنٹ‘ کے لئے جس تین درجاتی حکمت عملی کو کافی سمجھ رہی ہے‘ وہ کیمونیکیشن (مواصلاتی) نظام کی تنصیب‘ گندگی ٹھکانے لگانے کا نظام‘ مقامی اَفراد کی شراکت داری اُور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل‘ جن کی مشاورت سے نیشنل پارکس سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک خاص تناسب سے علاقائی ترقی پر خرچ کرنے پر مبنی ہے اور اِسے نئے ترقیاتی منصوبوں کی ذیل میں شمار کرنے کی بجائے پہلے سے موجود وسائل کی ترقی کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کو اِس کے قیام کے 41 برس بعد سال 2015ء میں ’وائلڈ لائف کنزوریشن‘ پرزرویشن‘ منیجمنٹ اینڈ بائیوڈیورسٹی ایکٹ‘ دیا‘ جو اپنی جگہ ایک ضرورت کی تکمیل ثابت ہوئی ہے جو موجودہ حکومت کے عزم (نیک اِرادوں) کی عکاس ہیں لیکن ’کنزوریشن‘ کے لئے مختص مالی وسائل میں خاطرخواہ اضافہ ضروری ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ و بقاء کے لئے ’ایبٹ آباد ڈویژن‘ کا سالانہ بجٹ 20 لاکھ روپے کہاں کا انصاف ہے جو نیشنل پارک‘ گیمز ریزور‘ بریڈرنگ انکلوژر‘ وائلڈ لائف سروسیز اور مختلف بائیو ڈیورسٹی ہاٹ سپاٹ پر خرچ کرنے کے لئے کسی بھی صورت چاہے جتنا بھی کھینچ تان کر احتیاط سے خرچ کیا جائے کافی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں کہ جہاں جنگلی حیات کی بہتات ہے‘ وہاں کے لئے گذشتہ دس برس سے نئی اسامیاں نہ دینا‘ ماضی کے سیاسی حکمرانوں کی بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ جو اپنے من پسند افراد کو ایسے آبائی اضلاع میں ملازمتیں فراہم کرتے رہے‘ جو میدانی علاقے تھے اُور کئی تو ایسے مقامات بھی ہیں‘جہاں قابل تحفظ جنگلی حیات کا وجود ہی نہیں!
صورتحال کو واضح کرنے کے لئے جنوبی افریقہ کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جہاں پوری دنیا کی نصف سے زیادہ جنگلی حیات ہے اور ملک کے طول و عرض میں نیشنل پارکس قائم ہیں‘ جن کی سیروسیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پاکستان کے پانچ سالانہ بجٹ سے زیادہ بنتی ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ سے نہ صرف حیاتی ماحول کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے‘ جو زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے پاکستان جیسے ملک کے لئے ضرورت اور اِس سے وابستہ سیاحت کے شعبے کے لئے ناگزیر ہے‘ جنت نظیر اُور پرفضا وادیوں میں رہنے والوں کے لئے پائیدار و مستقل روزگار کے مواقعوں کا بندوبست اور ان علاقوں میں ترقیاتی عمل کو ’جنگلی حیات و حیاتی ماحول‘ سے مشروط ہونا چاہئے اُور جس طرح ترقیاتی منصوبے بنانے سے قبل ماہرین ماحولیات اور اِس بارے مقامی اَفراد سے رائے لی جاتی ہے‘ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں اَندھادھند ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے تحفظ جنگلی حیات کے محکمے سے وابستہ ماہرین سے بھی لازماً مشاورت کی جائے‘ جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو دفتروں تک محدود رہنے یا گول گھومنے والی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے زنگ لگ رہا ہے!
خیبرپختونخوا کے 4اضلاع میں 6 نیشنل پارکس ہیں۔ایبٹ آبادمیں ایویبہ نیشنل پارک‘ مانسہرہ میں سیف الملوک نیشنل پارک اُور دوسرا لولوسر دودی پت نیشنل پارک‘ چترال میں دو نیشنل پارک ہیں ایک بروغل نیشنل پارک اور دوسرا چترال گول نیشنل پارک اُور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیخ بدین نیشنل پارک۔ صوبائی حکومت اِن چھ نیشنل پارکس کے علاؤہ 2مزید نیشنل پارکس بنانا چاہتی ہے جس میں سے ایک ’سپٹ ویلی کوہستان نیشنل پارک‘ ہوگا جبکہ دوسرے نیشنل پارک کے لئے ایبٹ آباد کے بالائی علاقے (گلیات) کا معروف سیاحتی مقام ٹھنڈیانی یا مانکیان اور دیگر ملحقہ مقامات زیرغور ہیں۔ سیاسی و غیرسیاسی اَرباب اختیار سے دست بستہ سوال ہے کہ جب پہلے سے موجود نیشنل پارکس کی دیکھ بھال اور افادیت کے لحاظ سے اُن کی مکمل فعالیت کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے تو مزید نیشنل پارکس اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز کا منطقی جواز کیا ہے؟ ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ موجودہ نیشنل پارکس (وسائل) کی حالت بہتر بنائی جائے‘ ان میں سہولیات کو وسعت دی جائے اور متعلقہ محکمے میں درکار افرادی قوت کی کمی کو دور کیاجائے۔ مثال کے طور پر ایبٹ آباد میں کل 53 یونین کونسلیں ہیں‘ جن کے لئے صرف 7 اہلکاروں کی خدمات دستیاب ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں سفر کرنے کے لئے محکمے کے پاس خاطرخواہ تعداد میں گاڑیاں نہیں‘ عجب ہے کہ 2 اَضلاع پر مشتمل اِیبٹ آباد کے پاس صرف دو گاڑیاں ہیں‘ جن کے لئے مستقبل بنیادوں پر اِیندھن کی فراہمی کے لئے الگ سے مالی وسائل نہیں دیئے جاتے! اسی طرح مانسہرہ کی 49 یونین کونسلیں کے لئے کل 25 نگران اہلکار ہیں اور اگر وہ کسی پہاڑی علاقے میں جنگلی حیات کو درپیش خطرات یا نگرانی یا قدرتی آفت کی صورت مدد کے لئے کسی ایک نالے یا گھاٹی میں جائیں تو انہیں صرف آمدورفت ہی میں ہفتے لگ جاتے ہیں!
صوبائی حکومت ’نیشنل پارکس کی منیجمنٹ‘ کے لئے جس تین درجاتی حکمت عملی کو کافی سمجھ رہی ہے‘ وہ کیمونیکیشن (مواصلاتی) نظام کی تنصیب‘ گندگی ٹھکانے لگانے کا نظام‘ مقامی اَفراد کی شراکت داری اُور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل‘ جن کی مشاورت سے نیشنل پارکس سے حاصل ہونے والی آمدنی ایک خاص تناسب سے علاقائی ترقی پر خرچ کرنے پر مبنی ہے اور اِسے نئے ترقیاتی منصوبوں کی ذیل میں شمار کرنے کی بجائے پہلے سے موجود وسائل کی ترقی کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کو اِس کے قیام کے 41 برس بعد سال 2015ء میں ’وائلڈ لائف کنزوریشن‘ پرزرویشن‘ منیجمنٹ اینڈ بائیوڈیورسٹی ایکٹ‘ دیا‘ جو اپنی جگہ ایک ضرورت کی تکمیل ثابت ہوئی ہے جو موجودہ حکومت کے عزم (نیک اِرادوں) کی عکاس ہیں لیکن ’کنزوریشن‘ کے لئے مختص مالی وسائل میں خاطرخواہ اضافہ ضروری ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ و بقاء کے لئے ’ایبٹ آباد ڈویژن‘ کا سالانہ بجٹ 20 لاکھ روپے کہاں کا انصاف ہے جو نیشنل پارک‘ گیمز ریزور‘ بریڈرنگ انکلوژر‘ وائلڈ لائف سروسیز اور مختلف بائیو ڈیورسٹی ہاٹ سپاٹ پر خرچ کرنے کے لئے کسی بھی صورت چاہے جتنا بھی کھینچ تان کر احتیاط سے خرچ کیا جائے کافی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں کہ جہاں جنگلی حیات کی بہتات ہے‘ وہاں کے لئے گذشتہ دس برس سے نئی اسامیاں نہ دینا‘ ماضی کے سیاسی حکمرانوں کی بدنیتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں‘ جو اپنے من پسند افراد کو ایسے آبائی اضلاع میں ملازمتیں فراہم کرتے رہے‘ جو میدانی علاقے تھے اُور کئی تو ایسے مقامات بھی ہیں‘جہاں قابل تحفظ جنگلی حیات کا وجود ہی نہیں!
صورتحال کو واضح کرنے کے لئے جنوبی افریقہ کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جہاں پوری دنیا کی نصف سے زیادہ جنگلی حیات ہے اور ملک کے طول و عرض میں نیشنل پارکس قائم ہیں‘ جن کی سیروسیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی پاکستان کے پانچ سالانہ بجٹ سے زیادہ بنتی ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ سے نہ صرف حیاتی ماحول کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے‘ جو زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے پاکستان جیسے ملک کے لئے ضرورت اور اِس سے وابستہ سیاحت کے شعبے کے لئے ناگزیر ہے‘ جنت نظیر اُور پرفضا وادیوں میں رہنے والوں کے لئے پائیدار و مستقل روزگار کے مواقعوں کا بندوبست اور ان علاقوں میں ترقیاتی عمل کو ’جنگلی حیات و حیاتی ماحول‘ سے مشروط ہونا چاہئے اُور جس طرح ترقیاتی منصوبے بنانے سے قبل ماہرین ماحولیات اور اِس بارے مقامی اَفراد سے رائے لی جاتی ہے‘ اِسی طرح خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں اَندھادھند ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے پہلے تحفظ جنگلی حیات کے محکمے سے وابستہ ماہرین سے بھی لازماً مشاورت کی جائے‘ جن کی تخلیقی صلاحیتوں کو دفتروں تک محدود رہنے یا گول گھومنے والی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے زنگ لگ رہا ہے!