ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔سوچ لو
۔۔۔سوچ لو
فیصلہ سازی کے ایوانوں میں چہل قدمی کرنے والے (اُڑتی اُڑتی) خبر لائے ہیں
کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا حکومت نے ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ نامی اِدارے کو زیادہ فعال
بنانے کے لئے نجی شعبے کی شراکت داری سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ فاؤنڈیشن سال 1996ء میں قائم ہوئی تھی جس سے متعلق ایک
ترمیمی قانون سازی جلد ہی صوبائی اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی‘ جو قانونی
پہلوؤں پر غور کے لئے پہلے ہی محکمۂ قانون کو ارسال کر دی گئی ہے۔
ضرورت صحت کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی ہے جس سے ’علاج معالجے‘ کی سہولیات میں اضافہ ہو۔ سرکاری ہسپتالوں میں مکمل علاج کے ساتھ اُس کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے سوچ بچار کے مراحل کچھ زیادہ ہی وقت لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنے تیسرے مالی سال میں داخل ہو چکی ہے اور عوام کی تسلی و تشفی اور علاج محض ’قانون سازی‘ سے عملاً ممکن نہیں بنایا جاسکتا! اُمید ہے کہ ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے صحت کے شعبے سے متعلق حکومتی حکمت عملیوں کی نگرانی‘ معاہدوں پر عمل درآمد اور محکمے کی جانب سے کئے جانے والے معاہدوں پر بھی نظر رکھنا اِسی فاؤنڈیشن کا کام ہوتا ہے۔چھ اراکین پر مشتمل بورڈ نے ایک ’کمیٹی‘ تشکیل دی ہے جس کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں نجی اِدارے کی شمولیت ممکن بنائے تاکہ ایک تو اِس شعبے میں حکومت کے علاؤہ سرمایہ کاری ہو سکے اور دوسرا نجی اِداروں کی شراکت سے سرکاری علاج گاہوں کے معاملات (نظم و ضبط و کام کاج) میں بہتری آئے گی۔ اِس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ نئے ملازمین‘ معاونین اور مشیر بھرتی کئے جائیں جس کے لئے فاؤنڈیشن کو الگ سے اضافی مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ ترمیم کے مطابق بورڈ کے اراکین کا اجلاس کم اَز کم تین ماہ میں ایک مرتبہ طلب کیا جائے گا جبکہ بورڈ کے چیئرمین کو ’ویٹو پاور‘ بھی دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ کسی تجویز یا متفقہ فیصلے کو مسترد کرنے کا اختیار رکھے گا!
جنہیں اداروں کی بہتری مقصود ہے اُنہیں مراعات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور بجائے اصلاح اِس پورے عمل نے سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو شہ دی ہے‘ لہٰذا سوچ لو۔ غوروفکر کے مرحلے پر دوسری تجویز ہے کہ نجی شعبے کی شراکت داری اور صحت میں سرمایہ کاری یا شمولیت سے کہیں علاج مزید مہنگا ہی نہ ہو جائے اور سرکاری ہسپتال نجی شعبے کی ملکیت ہی نہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں ’نجی شعبے کے تعاون سے ’’اِن ہاؤس فارمیسی (اَدویات فروشی کے مراکز)‘‘ کے قیام کا تجربہ اُور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں جبکہ ’پیپلزفارمیسی‘ کا تجربہ بھی کیا گیا لیکن چونکہ نجی شعبہ زیادہ سے زیادہ کمائی پر مبنی ترجیحات رکھتا ہے اِس لئے صحت کے شعبے کو ایسی ’کمائی والی سوچ‘ سے الگ ہی نہیں بلکہ بہت فاصلے پر رکھنا چاہئے‘ لہٰذا سوچ لو۔ تیسری تجویز سرکاری ہسپتالوں کے لئے ادویات یا دیگر سازوسامان کی خریداری کے معاملات ہیں جن میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیاں تاحال جاری ہیں۔ ادویات فراہم کرنے والوں کو ادائیگیاں بناء کمیشن ادا کئے نہیں ہوتیں جبکہ کروڑوں روپے کی ادویات براہ راست میڈیکل کمپنیوں سے نہ خریدنے کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس مسئلے کا حل سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین اور کڑے احتساب کے بناء ممکن نہیں۔ تطہیر (صفائی) کا عمل ’مالی اَمور‘ سے متعلقہ (فنانس ڈیپارٹمنٹس اُور سٹورز) کے اُن تمام ملازمین کے تبادلوں سے ہونی چاہئے جو عرصہ تین برس سے ایک ہی پوسٹ یا مقام پر تعینات ہیں اُور انہوں نے محکموں میں اپنے پنجھے گاڑ رکھے ہیں۔ ایمانداری و دیانت کا حصول بذریعہ تلقین ممکن نہیں رہا‘ لہٰذا سوچ لو۔
چوتھی تجویز ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس اُور اَدویات ساز اداروں سے اُس تعلق سے متعلق ہے جسے ’ناجائز‘ کہنا چاہئے کیونکہ یہ مرض یا مریض کے نہیں بلکہ صرف اُور صرف ڈاکٹروں کے حق میں مفید ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کی تشخیص میں اِستعمال ہونے والے آلات (مشینیں) کبھی خراب (آؤٹ آف آرڈر) نہیں ہوتیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بستر‘ وہیل چیئرز‘ اسٹریچرز وغیرہ سے لیکر دروازوں کے ہینڈلز تک کچھ بھی سالم حالت میں نہیں ملتا۔ ایسے تمام ڈاکٹرز جو نجی پریکیٹس کرتے ہیں‘ اُنہیں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل سے استفادہ یا سرکاری ہسپتالوں کی فیصلہ سازی میں شریک نہ کیا جائے کیونکہ ڈاکٹروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو معائنہ نجی کلینک اُور علاج سرکاری وارڈوں میں کرتے ہیں! ڈاکٹر اُور مریض کے درمیان رشتے اور تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے انتظامی اخراجات میں اضافہ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اِس کے لئے کسی ’ترمیمی قانون سازی‘ کی حاجت ہے بلکہ سیدھی سادی بات ہے کہ وزیرصحت اعلیٰ حکام کے ہمراہ ہسپتالوں کا اچانک دورہ کریں اور فرائض سے غفلت کے مرتکب‘ غیرحاضر یا جن ملازمین کی پبلک ڈیلنگ سے متعلق شکایات سامنے آئیں اُنہیں فی الفور معطل کیا جائے۔
سرکاری ہسپتالوں میں یونین سازی کی اجازت ملازمین کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن اسے سیاسی وابستگیوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ماضی کی طرح موجودہ حکمراں جماعت کو ’سیدھی راہ‘ دکھانے والوں کا اپنا درپردہ مقصد بھی ہو اور انہیں عام آدمی (ہم عوام) کی بجائے صرف ہم نوالہ و ہم پیالہ سرکاری ملازمین کی ’فلاح و بہبود‘ ہی مقصود ہو‘ لہٰذا سوچ لو۔
ضرورت صحت کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی ہے جس سے ’علاج معالجے‘ کی سہولیات میں اضافہ ہو۔ سرکاری ہسپتالوں میں مکمل علاج کے ساتھ اُس کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے سوچ بچار کے مراحل کچھ زیادہ ہی وقت لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنے تیسرے مالی سال میں داخل ہو چکی ہے اور عوام کی تسلی و تشفی اور علاج محض ’قانون سازی‘ سے عملاً ممکن نہیں بنایا جاسکتا! اُمید ہے کہ ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے صحت کے شعبے سے متعلق حکومتی حکمت عملیوں کی نگرانی‘ معاہدوں پر عمل درآمد اور محکمے کی جانب سے کئے جانے والے معاہدوں پر بھی نظر رکھنا اِسی فاؤنڈیشن کا کام ہوتا ہے۔چھ اراکین پر مشتمل بورڈ نے ایک ’کمیٹی‘ تشکیل دی ہے جس کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں نجی اِدارے کی شمولیت ممکن بنائے تاکہ ایک تو اِس شعبے میں حکومت کے علاؤہ سرمایہ کاری ہو سکے اور دوسرا نجی اِداروں کی شراکت سے سرکاری علاج گاہوں کے معاملات (نظم و ضبط و کام کاج) میں بہتری آئے گی۔ اِس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ نئے ملازمین‘ معاونین اور مشیر بھرتی کئے جائیں جس کے لئے فاؤنڈیشن کو الگ سے اضافی مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ ترمیم کے مطابق بورڈ کے اراکین کا اجلاس کم اَز کم تین ماہ میں ایک مرتبہ طلب کیا جائے گا جبکہ بورڈ کے چیئرمین کو ’ویٹو پاور‘ بھی دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ کسی تجویز یا متفقہ فیصلے کو مسترد کرنے کا اختیار رکھے گا!
جنہیں اداروں کی بہتری مقصود ہے اُنہیں مراعات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور بجائے اصلاح اِس پورے عمل نے سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو شہ دی ہے‘ لہٰذا سوچ لو۔ غوروفکر کے مرحلے پر دوسری تجویز ہے کہ نجی شعبے کی شراکت داری اور صحت میں سرمایہ کاری یا شمولیت سے کہیں علاج مزید مہنگا ہی نہ ہو جائے اور سرکاری ہسپتال نجی شعبے کی ملکیت ہی نہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں ’نجی شعبے کے تعاون سے ’’اِن ہاؤس فارمیسی (اَدویات فروشی کے مراکز)‘‘ کے قیام کا تجربہ اُور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں جبکہ ’پیپلزفارمیسی‘ کا تجربہ بھی کیا گیا لیکن چونکہ نجی شعبہ زیادہ سے زیادہ کمائی پر مبنی ترجیحات رکھتا ہے اِس لئے صحت کے شعبے کو ایسی ’کمائی والی سوچ‘ سے الگ ہی نہیں بلکہ بہت فاصلے پر رکھنا چاہئے‘ لہٰذا سوچ لو۔ تیسری تجویز سرکاری ہسپتالوں کے لئے ادویات یا دیگر سازوسامان کی خریداری کے معاملات ہیں جن میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیاں تاحال جاری ہیں۔ ادویات فراہم کرنے والوں کو ادائیگیاں بناء کمیشن ادا کئے نہیں ہوتیں جبکہ کروڑوں روپے کی ادویات براہ راست میڈیکل کمپنیوں سے نہ خریدنے کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس مسئلے کا حل سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین اور کڑے احتساب کے بناء ممکن نہیں۔ تطہیر (صفائی) کا عمل ’مالی اَمور‘ سے متعلقہ (فنانس ڈیپارٹمنٹس اُور سٹورز) کے اُن تمام ملازمین کے تبادلوں سے ہونی چاہئے جو عرصہ تین برس سے ایک ہی پوسٹ یا مقام پر تعینات ہیں اُور انہوں نے محکموں میں اپنے پنجھے گاڑ رکھے ہیں۔ ایمانداری و دیانت کا حصول بذریعہ تلقین ممکن نہیں رہا‘ لہٰذا سوچ لو۔
چوتھی تجویز ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس اُور اَدویات ساز اداروں سے اُس تعلق سے متعلق ہے جسے ’ناجائز‘ کہنا چاہئے کیونکہ یہ مرض یا مریض کے نہیں بلکہ صرف اُور صرف ڈاکٹروں کے حق میں مفید ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کی تشخیص میں اِستعمال ہونے والے آلات (مشینیں) کبھی خراب (آؤٹ آف آرڈر) نہیں ہوتیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بستر‘ وہیل چیئرز‘ اسٹریچرز وغیرہ سے لیکر دروازوں کے ہینڈلز تک کچھ بھی سالم حالت میں نہیں ملتا۔ ایسے تمام ڈاکٹرز جو نجی پریکیٹس کرتے ہیں‘ اُنہیں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل سے استفادہ یا سرکاری ہسپتالوں کی فیصلہ سازی میں شریک نہ کیا جائے کیونکہ ڈاکٹروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو معائنہ نجی کلینک اُور علاج سرکاری وارڈوں میں کرتے ہیں! ڈاکٹر اُور مریض کے درمیان رشتے اور تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے انتظامی اخراجات میں اضافہ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اِس کے لئے کسی ’ترمیمی قانون سازی‘ کی حاجت ہے بلکہ سیدھی سادی بات ہے کہ وزیرصحت اعلیٰ حکام کے ہمراہ ہسپتالوں کا اچانک دورہ کریں اور فرائض سے غفلت کے مرتکب‘ غیرحاضر یا جن ملازمین کی پبلک ڈیلنگ سے متعلق شکایات سامنے آئیں اُنہیں فی الفور معطل کیا جائے۔
سرکاری ہسپتالوں میں یونین سازی کی اجازت ملازمین کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن اسے سیاسی وابستگیوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ماضی کی طرح موجودہ حکمراں جماعت کو ’سیدھی راہ‘ دکھانے والوں کا اپنا درپردہ مقصد بھی ہو اور انہیں عام آدمی (ہم عوام) کی بجائے صرف ہم نوالہ و ہم پیالہ سرکاری ملازمین کی ’فلاح و بہبود‘ ہی مقصود ہو‘ لہٰذا سوچ لو۔
Privatization of Health Sector, a policy need to review |