Tuesday, June 30, 2015

Jun2015: Private partnership in Health, think again

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
۔۔۔سوچ لو
فیصلہ سازی کے ایوانوں میں چہل قدمی کرنے والے (اُڑتی اُڑتی) خبر لائے ہیں کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا حکومت نے ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ نامی اِدارے کو زیادہ فعال بنانے کے لئے نجی شعبے کی شراکت داری سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ فاؤنڈیشن سال 1996ء میں قائم ہوئی تھی جس سے متعلق ایک ترمیمی قانون سازی جلد ہی صوبائی اسمبلی میں پیش کر دی جائے گی‘ جو قانونی پہلوؤں پر غور کے لئے پہلے ہی محکمۂ قانون کو ارسال کر دی گئی ہے۔

ضرورت صحت کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی ہے جس سے ’علاج معالجے‘ کی سہولیات میں اضافہ ہو۔ سرکاری ہسپتالوں میں مکمل علاج کے ساتھ اُس کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے سوچ بچار کے مراحل کچھ زیادہ ہی وقت لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت اپنے تیسرے مالی سال میں داخل ہو چکی ہے اور عوام کی تسلی و تشفی اور علاج محض ’قانون سازی‘ سے عملاً ممکن نہیں بنایا جاسکتا! اُمید ہے کہ ’ہیلتھ فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے صحت کے شعبے سے متعلق حکومتی حکمت عملیوں کی نگرانی‘ معاہدوں پر عمل درآمد اور محکمے کی جانب سے کئے جانے والے معاہدوں پر بھی نظر رکھنا اِسی فاؤنڈیشن کا کام ہوتا ہے۔چھ اراکین پر مشتمل بورڈ نے ایک ’کمیٹی‘ تشکیل دی ہے جس کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ صحت کے شعبے میں نجی اِدارے کی شمولیت ممکن بنائے تاکہ ایک تو اِس شعبے میں حکومت کے علاؤہ سرمایہ کاری ہو سکے اور دوسرا نجی اِداروں کی شراکت سے سرکاری علاج گاہوں کے معاملات (نظم و ضبط و کام کاج) میں بہتری آئے گی۔ اِس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ نئے ملازمین‘ معاونین اور مشیر بھرتی کئے جائیں جس کے لئے فاؤنڈیشن کو الگ سے اضافی مالی وسائل فراہم کئے جائیں گے۔ ترمیم کے مطابق بورڈ کے اراکین کا اجلاس کم اَز کم تین ماہ میں ایک مرتبہ طلب کیا جائے گا جبکہ بورڈ کے چیئرمین کو ’ویٹو پاور‘ بھی دی گئی ہے جس کے ذریعے وہ کسی تجویز یا متفقہ فیصلے کو مسترد کرنے کا اختیار رکھے گا!

جنہیں اداروں کی بہتری مقصود ہے اُنہیں مراعات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور بجائے اصلاح اِس پورے عمل نے سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کو شہ دی ہے‘ لہٰذا سوچ لو۔ غوروفکر کے مرحلے پر دوسری تجویز ہے کہ نجی شعبے کی شراکت داری اور صحت میں سرمایہ کاری یا شمولیت سے کہیں علاج مزید مہنگا ہی نہ ہو جائے اور سرکاری ہسپتال نجی شعبے کی ملکیت ہی نہ بن جائیں۔ اس سلسلے میں ’نجی شعبے کے تعاون سے ’’اِن ہاؤس فارمیسی (اَدویات فروشی کے مراکز)‘‘ کے قیام کا تجربہ اُور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں جبکہ ’پیپلزفارمیسی‘ کا تجربہ بھی کیا گیا لیکن چونکہ نجی شعبہ زیادہ سے زیادہ کمائی پر مبنی ترجیحات رکھتا ہے اِس لئے صحت کے شعبے کو ایسی ’کمائی والی سوچ‘ سے الگ ہی نہیں بلکہ بہت فاصلے پر رکھنا چاہئے‘ لہٰذا سوچ لو۔ تیسری تجویز سرکاری ہسپتالوں کے لئے ادویات یا دیگر سازوسامان کی خریداری کے معاملات ہیں جن میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیاں تاحال جاری ہیں۔ ادویات فراہم کرنے والوں کو ادائیگیاں بناء کمیشن ادا کئے نہیں ہوتیں جبکہ کروڑوں روپے کی ادویات براہ راست میڈیکل کمپنیوں سے نہ خریدنے کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس مسئلے کا حل سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی چھان بین اور کڑے احتساب کے بناء ممکن نہیں۔ تطہیر (صفائی) کا عمل ’مالی اَمور‘ سے متعلقہ (فنانس ڈیپارٹمنٹس اُور سٹورز) کے اُن تمام ملازمین کے تبادلوں سے ہونی چاہئے جو عرصہ تین برس سے ایک ہی پوسٹ یا مقام پر تعینات ہیں اُور انہوں نے محکموں میں اپنے پنجھے گاڑ رکھے ہیں۔ ایمانداری و دیانت کا حصول بذریعہ تلقین ممکن نہیں رہا‘ لہٰذا سوچ لو۔

چوتھی تجویز ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس اُور اَدویات ساز اداروں سے اُس تعلق سے متعلق ہے جسے ’ناجائز‘ کہنا چاہئے کیونکہ یہ مرض یا مریض کے نہیں بلکہ صرف اُور صرف ڈاکٹروں کے حق میں مفید ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کی تشخیص میں اِستعمال ہونے والے آلات (مشینیں) کبھی خراب (آؤٹ آف آرڈر) نہیں ہوتیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بستر‘ وہیل چیئرز‘ اسٹریچرز وغیرہ سے لیکر دروازوں کے ہینڈلز تک کچھ بھی سالم حالت میں نہیں ملتا۔ ایسے تمام ڈاکٹرز جو نجی پریکیٹس کرتے ہیں‘ اُنہیں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل سے استفادہ یا سرکاری ہسپتالوں کی فیصلہ سازی میں شریک نہ کیا جائے کیونکہ ڈاکٹروں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں‘ جو معائنہ نجی کلینک اُور علاج سرکاری وارڈوں میں کرتے ہیں! ڈاکٹر اُور مریض کے درمیان رشتے اور تعلق کو مضبوط بنانے کے لئے انتظامی اخراجات میں اضافہ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اِس کے لئے کسی ’ترمیمی قانون سازی‘ کی حاجت ہے بلکہ سیدھی سادی بات ہے کہ وزیرصحت اعلیٰ حکام کے ہمراہ ہسپتالوں کا اچانک دورہ کریں اور فرائض سے غفلت کے مرتکب‘ غیرحاضر یا جن ملازمین کی پبلک ڈیلنگ سے متعلق شکایات سامنے آئیں اُنہیں فی الفور معطل کیا جائے۔

سرکاری ہسپتالوں میں یونین سازی کی اجازت ملازمین کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے دی گئی تھی لیکن اسے سیاسی وابستگیوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ماضی کی طرح موجودہ حکمراں جماعت کو ’سیدھی راہ‘ دکھانے والوں کا اپنا درپردہ مقصد بھی ہو اور انہیں عام آدمی (ہم عوام) کی بجائے صرف ہم نوالہ و ہم پیالہ سرکاری ملازمین کی ’فلاح و بہبود‘ ہی مقصود ہو‘ لہٰذا سوچ لو۔
Privatization of Health Sector, a policy need to review

Monday, June 29, 2015

Jun2015: Eough, not enough

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کافی‘ ناکافی!
خود ستائش پر مبنی اطمینان اور حقیقت پسندی دو الگ چیزیں ہیں؟ تعلیم کے شعبے میں پائیدار ترقی اور خواندگی کے ہمارے اپنے ہی مقرر کردہ اہداف کس حد تک قابل بھروسہ ہیں‘ کیونکہ سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم یا پرائمری کی سطح پر فارغ التحصیل ہونے والوں کو خواندہ شمار تو کر لیا جاتا ہے لیکن ایسے بہت سے بچے ہمارے درمیان موجود ہیں‘ جنہیں چند فقرے پڑھنے یا اپنا نام لکھنے میں دشواری پیش آتی ہے! بہت کچھ کرنے کی لگن میں ’آگے دوڑ اور پیچھے چھوڑ‘ والی صورتحال درپیش ہے لیکن اِس میں صرف صوبائی حکومت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جہاں سرکاری اداروں کے اَساتذہ کی اکثریت درس و تدریس سے جڑی اپنی حساس ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی سے زیادہ ’ملازمت‘ مراعات اُور اپنی سہولت‘ کی فکر میں رہتی ہو‘ وہاں حاصل ہونے والے ’تعلیمی و غیرتعلیمی نتائج‘ بھلا کیسے مختلف (برآمد) ہو سکتے ہیں!

مالی سال 2015-16ء کا کل (یکم جولائی) سے آغاز ہونے والا ہے اور نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا نے دیگر صوبوں پر سبقت لیجاتے ہوئے پرائمری سکولوں میں طالب علموں کو اشیائے خوردونوش فراہم کرنے کے لئے 10 کروڑ (ایک سو ملین) روپے مختص کئے ہیں۔ یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کیونکہ اگرچہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ’غربت‘ زیادہ ’سنگین‘ نہیں لیکن برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو سرکاری پرائمری سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں‘ اُن کی اکثریت کے پاس صبح کے ناشتے کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے! اور کئی ایک اضلاع سے متعلقہ حکام کو بتایا گیا کہ پرائمری سکول کے بچے بھوک و پیاس کی شدت کے باعث بے ہوش ہو جاتے ہیں! لیکن کیا خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے 10کروڑ روپے مختص کرنا کافی ہوگا جبکہ پرائمری سکولوں میں کم و بیش 30لاکھ بچے زیرتعلیم ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ حکومت اپنے تیسرے مالی سال کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ پہلے اُور دوسرے مالی سال میں تعلیم و صحت کے شعبے میں اربوں روپے مختص کئے گئے (ماشاء اللہ) لیکن سال کے اختتام تک خرچ نہیں کئے جاسکے (انا للہ وانا علیہ راجعون)۔ ایسے بہت سے شعبے ہیں جن کے لئے فراخدالانہ انداز میں مالی وسائل مختص کئے جاتے ہیں لیکن جب بات پرائمری کی سطح پر بچوں کو خوراک فراہم کرنے کی تھی تو اِس قدر واجبی رقم مختص کی گئی ہے جو مضحکہ خیز حد تک کم بھی ہے اور ناکافی بھی! بہرکیف رابطہ کرنے پر بنیادی و ثانوی تعلیم کے محکمے کی جانب سے وضاحت پیش کی گئی ہے کہ ’’پرائمری کی سطح پر بچوں کو ’ہائی انرجی بسکٹ‘ اُور جوس فراہم کئے جائیں گے جس پر فی بچہ چالیس روپے لاگت آئے گی۔‘‘ حکام کو توقع نہیں بلکہ یقین ہے کہ ’’رواں برس موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب سکول کھلیں گے تو مفت کتابوں اور دیگر سہولیات کے ساتھ بچوں کو مفت خوراک کی کشش سکول کی طرف راغب کرے گی اور وہ بچے جو کسی وجہ سے پرائمری سکول نہیں جارہے وہ بھی بڑی تعداد میں سکولوں کا رُخ کریں گے۔‘‘ اگر ہم اِس منطق کو درست تسلیم کرلیں تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کی موجودہ تعداد کے پیش نظر مختص کی جانے والی رقم کافی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچوں کو مصنوعی ذائقوں اور رنگ والا جوس فراہم کیا جائے گا‘ جو کسی بھی صورت کم عمروں کی صحت کے لئے مفید نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو پرائمری کی سطح پر اگر خوراک دی جاتی ہے تو وہ مصنوعی اجزأ سے پاک ہوتی ہے اور بچوں کی جسمانی نشوونما و دیگر ضروریات بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ’ہائی انرجی بسکٹ‘ کی بجائے اگر سرخ لوبیا‘ آلو‘ کیلا اُور ملاوٹ سے پاک میٹھے دودھ کا ایک گلاس یا پینے کا ’وہی‘ صاف پانی فراہم کیا جائے جو اکثر حکومتی اجلاسوں کے دوران سیاست دانوں کے سامنے ڈھکن لگی ہوئی بوتلوں میں پڑا ہوتا ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ منرل واٹر کی بوتلیں محکمہ تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں کے لئے تو ہیں لیکن بچوں کے لئے نہیں‘ آخر کیوں؟

محکمہ بنیادی و ثانوی تعلیم کی ویب سائٹ پر موجودہ سال 2013-14ء کے اعدادوشمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں تیس لاکھ سے زیادہ بچے پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم ہیں لیکن یہ اعدادوشمار حکومت کی جانب سے اُس بڑے پیمانے پر شروع کی گئی ’داخلہ مہم‘ سے پہلے کے ہیں‘ جس کی کامیابی کے بلند بانگ دعوؤں کو اگر درست مان لیا جائے تو کم اَز کم مزید پانچ سے دس لاکھ بچے صوبے کے طول و عرض کے پرائمری سکولوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ختم ہو رہے مالی سال کے دوران ’گھر آیا اُستاد‘ نامی حکمت عملی کے تحت 8 لاکھ بچوں کو سکول لانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا اُور اگرچہ ہمیں سرکاری پرائمری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی موجودہ مستند تعداد کا علم نہیں لیکن یقیناًیہ تعداد پینتیس لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ ہمارے ہاں تعلیمی سال (تین سو پینسٹھ کا نہیں) بلکہ زیادہ سے زیادہ 200 دن کا ہوتا ہے۔ پرائمری سکول کے بچوں کی تعداد اُور مختص رقم کا تناسب دیکھا جائے تو صرف 12 ہزار پانچ سو بچوں کو 200دن تک ’بسکٹ اُور جوس‘ دیا جاسکے گا۔ اگر حکومت تیس لاکھ کی بجائے انتہائی پسماندہ اضلاع میں صرف پچاس ہزار پرائمری سکول میں زیرتعلیم بچوں کے لئے ایک وقت کی خوراک کا بندوبست کرے تو چھبیس دنوں کے مہینے کے لئے 5 کروڑ 20 لاکھ روپے درکار ہوں گے جبکہ ایک لاکھ بچوں کے لئے 10کروڑ چالیس لاکھ روپوں کی ضرورت ہوگی جو مختص رقم سے زیادہ ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا بچوں کو صرف اُسی وقت خوراک دی جائے جبکہ وہ سکول جائیں لیکن جب سکول کی چھٹی ہو یا طویل تعطیلات ہوں تو اُس دوران بچوں کی خوردنی ضروریات کا خیال کون رکھے گا جبکہ والدین پہلے ہی کفالت کرنے سے عملاً معذوری کا اظہار کر چکے ہیں! اِس بات کی ضمانت (گارنٹی) کون دے گا کہ دور دراز اضلاع کے دیہی علاقوں میں جو خوراک پرائمری سکول کے بچوں کے لئے ارسال کی جائے گی‘ وہ مستحق بچوں تک پہنچ پائے گی؟ ہمارا ماضی ایسا بدنما مثالوں سے بھرا پڑا ہے جب زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کے لئے اِمدادی سازوسامان میں خوب خردبرد کی گئی۔

صوبائی حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ حکمت عملی وضع کرنے سے زیادہ اُس کی تکمیل اور شفافیت بھی یکساں ضروری و لازمی حاجتیں ہیں۔

یاد رہے کہ مالی سال 2015-16ء کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے بنیادی (پرائمری) و ثانوی (سیکنڈری) تعلیم کے شعبے میں 71 منصوبوں کے لئے 10.2 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اِس رقم میں سے 2.24 ارب روپے 22 نئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے اُور حکومت مصمم ارادہ رکھتی ہے کہ نئے مالی سال کے دوران 150نئے پرائمری سکول‘ 100نئے سیکنڈری سکول‘ 50مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن اور طالبات کے لئے 50 ہائی سکول تعمیر کرے گی۔ علاؤہ ازیں کمپیوٹر لیبارٹریز اور نئی کیمونٹی سکولز بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ ایک ایسی صورتحال جس میں پرائمری سکولوں کے لئے مختص مالی وسائل کافی بھی ہیں اور بیک وقت ناکافی بھی تو کیا اَرباب اِختیار ’شعبۂ تعلیم‘ سے ’حقیقی و معنوی انصاف‘ کر رہے ہیں؟
Allocation for food in the primary schools is good initiative but not sufficient

Sunday, June 28, 2015

TRANSLATION: Power by Dr Farrukh Saleem

Power
حکمراں ترجیحات
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی اور سندھ کے جن علاقوں میں حالیہ چند دنوں میں ہلاکتیں ہوئی ہیں اُن کی وجوہات میں واضح طور پر فرق ہے۔ گرمی کی لہر کے سبب ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ گرمی ایک موسمی شدت کا نام ہے جو قدرت کی طرف سے ہوتی ہے جبکہ ہلاکتیں اِس وجہ سے ہوئیں کیونکہ حکومت اور ادارے عوام کو سہولیات میسر نہیں کرسکے اور ہمارے ہاں جمہوریت کا اَلمیہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے عام آدمی کی مشکلات اُور دیکھے اَن دیکھے خطرات کا نہ تو مقابلہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی پہلے سے ایسی پیش بندی کی جاتی ہے کہ آنے والے خطرات سے بہ احسن نمٹا جا سکے۔ گرمی کی لہر کو روکنا ممکن نہیں لیکن اس سے ہونے والی جانی و مالی نقصان ضرور کم کئے جا سکتے ہیں۔ گرمی قدرت کی طرف سے ہے لیکن گرمی سے ہونے والی ہلاکتیں ناقص انتظامات کے سبب۔تصور کیجئے کہ حکومت ہزاروں کی تعداد میں اپنے ہی لوگوں کی ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار ہے۔

یاد رہے کہ گرمی کی لہر سے کوئی امیر آدمی ہلاک نہیں ہوا‘ صرف غریب لوگ مرے ہیں۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ کسی ایک شہر یا علاقے میں پڑنے والی گرمی سے ہوئی ہلاکتوں کا سبب موسم کی شدت نہیں بلکہ غربت ہے۔ حکومت اپنی ریاست میں رہنے والے غریبوں کی جان بچانے میں ناکام رہی۔ گرمی کی لہر کیا ہوتی ہے جب ہوا کا بہت زیادہ دباؤ پیدا جو 10 ہزار فٹ سے 25ہزار فٹ کے درمیان ہو اور یہ دباؤ کسی ایک علاقے پر کئی دن تک برقرار رہے۔

ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جس کے بارے میں موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صدی کے دوران ’گرمی کی شدید لہریں‘ آئیں گی۔ اِس موسمی پیشنگوئی کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ اس سے متاثر ہونے والوں میں نہ صرف بزرگ بلکہ جوان اور بیمار آئیں گے جنہیں پہلے سے خبردار کیا جا سکتا ہے اور گرمی کی لہر سے متوقع طور پر متاثر ہونے والے طبقات کو بچانے کے لئے تدابیر بھی بہت آسان ہیں کہ سب سے پہلے گرمی کی لہر کا سامنا کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ پانی یا محلول اشیاء کا استعمال کرنا چاہئے اور براہ راست دھوپ سے گریز کرتے ہوئے نسبتاً ٹھنڈے مقامات پر رہنا چاہئے۔ بالخصوص ایسے مقامات پر رہنے سے گریز کرنا چاہئے جہاں ہوا کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہو۔

بھارت کے شہر احمد آباد میں گرمی کی لہر آنے سے متعلق محکمہ موسمیات نے پیشنگوئی کی تو وہاں کی میونسپل کارپوریشن نے گرمی کی شدت سے متعلق نہ صرف عوام میں شعور عام کیا بلکہ اداروں نے پہلے سے تیاری بھی کی اور باوجود شدید ترین گرمی کے بھی وہاں صرف 7 افراد کی ہلاک ہوئے۔

سوال: کراچی میں لو لگنے والوں کے لئے علاج کے خصوصی مراکز کس نے قائم کئے؟ جواب: سندھ رینجرز نے۔ ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح سول حکومت اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں رکھتی اور آفت چاہے قدرتی ہی کیوں نہ ہو‘ اُسے اِس شدت تک لیجایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی کی جاسکے۔

توجہ کیجئے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو دیئے جانے والے سالانہ مالی سال کا تناسب اگر آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ 2 روپے فی پاکستانی (بشمول بچوں اور خواتین) سالانہ بنتی ہے! اُور دوسری طرف مالی سال 2015-16ء کے دوران وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کے لئے 46لاکھ روپے یومیہ رکھے گئے ہیں اور یہ رقم پورے سال کے حساب سے مختص کر دی گئی ہے!

اب جائزہ لیجئے کہ اصل حکومت میں کون ہے؟ حکمرانی کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ 1: اپنے اردگرد کو تبدیل کرنے کی صلاحیت و شرط۔ 2: دیگر ریاستی اداروں کو متحرک و فعال کرنے اُور اُن پر اثرورسوخ اُور 3: کہ حکومت میں یہ صلاحیت ہونی چاہئے کہ غیرملکی طاقتوں سے اپنے حق میں مفادات حاصل کر سکے۔

سوال: حکمرانی کے اِن تین بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچئے کہ ہماری حکومت کے پاس اِن میں سے کتنے اختیارات ہیں

فوج کا ادارہ دو ستونوں پر ایستادہ ہے۔ 1: بلاواسطہ حکمرانی (اختیارات) اور بلاواسطہ حکمرانی (اختیارت و ملکی فیصلہ سازی میں شمولیت)۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی طاقت بھی دو ستونوں پر استوار ہے۔ ایک تو اُسے 1 کروڑ 48لاکھ 74 ہزار 104 ووٹ ملے ہیں جس کی بنیاد پر اُسے 189 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور ایوان بالا میں اُس کے 26 سینیٹرز ہیں۔ نواز شریف کی ذاتی مقبولیت کا بھی مسلم لیگ کو فائدہ حاصل ہے۔

مئی 2011ء سے جون 2015ء کے عرصہ میں پاک فوج کے ادارے کی مستقل (ہارڈ) قوت (افرادی شمار‘ اسلحہ آلات و گاڑیوں وغیرہ) میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ وہی لوگ ہیں اور وہی نظام۔ 2مئی 2011ء کے دن جب ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ کے خلاف امریکہ نے کاروائی کی‘ اُس دن فوج کے ادارے کی مخفی یا جزوی طاقت (سافٹ پاور) سب سے کم ترین سطح پر تھی۔

اُنتیس نومبر 2013ء کے دن جب جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں تو اُس وقت سے پاک فوج کی ’سافٹ پاور‘ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ پندرہ جون دو ہزار چودہ کے دن جب آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اعلان کیا کہ غیرملکی اور ملکی دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع کاروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے تو اُس دن ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ میں مزید اضافہ ہونا شروع ہو گئی! 28جون 2015ء کے دن تک ’جی ایچ کیو‘ کی ’سافٹ پاور‘ گذشتہ کئی دہائیوں میں بلند ترین سطح اُور اپنے عروج کو چھو رہی ہے!

خلاصۂ کلام: حکمراں جماعت کی ’سافٹ پاور‘ میں کمی جبکہ پاک فوج کے ادارے کی ’سافٹ پاور‘ میں اضافہ ہورہا ہے اور اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت خسارے جبکہ فوج کا ادارہ حالات کو اپنے حق میں کئے ہوئے ہے اور اس کی مقبولیت تاریخ کی بلند ترین سطحوں کو چھو رہی ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
Power by Dr Farrukh Saleem

Jun2015: VIP culture & the verdict!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی راز!
پاکستان میں آمدنی پر محصول (ٹیکس) اَدا کرنے والوں کی اکثریت اُن ملازمین پر مشتمل ہے جن کی ماہانہ تنخواہوں سے ’ایٹ سورس‘ ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اُور اُن کے پاس اِس ٹیکس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو حسب آمدن ٹیکس ادا نہیں کرتا اور وفاقی وزارت خزانہ (ایف بی آر) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’بیس کروڑ آبادی کے پاکستان میں صرف 0.5فیصد لوگ اِنکم ٹیکس اَدا کرتے ہیں۔‘‘ اگرچہ ’ایف بی آر‘ نے خطے کے دیگر ممالک میں انکم ٹیکس ادا کرنے کی شرح کا ذکر نہیں کیا لیکن اگر بھارت پر نظر کی جائے تو وہاں دو سے تین فیصد جبکہ چین کی کل آبادی کا 20فیصد اپنے حصے کا انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ عجب ہے کہ پاکستان کے 1070 قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین میں سے نصف تعداد ایسی ہے جن کا ادا کردہ انکم ٹیکس درجۂ چہارم کے ملازمین سے بھی کم ہوتا ہے لیکن اُن کی ٹھاٹھ باٹھ اور شاہانہ رہن سہن کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ مسلط طبقات قومی وسائل کو ذاتی اثاثوں میں منتقل کرنے اور اپنی مشتبہ آمدنی کے وسائل پر ’انکم ٹیکس‘ ادا نہ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں‘ عام آدمی کا اِس پورے نظام پر اعتماد نہیں رہا جسے بحال کرنے کی ایک کوشش اگرچہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئی لیکن ’سپرئم کورٹ‘ کی جانب سے ایک مثبت بات سامنے آئی ہے کہ ’’وزیراعظم ہاؤس‘ ایوان صدر‘ گورنروں کی سرکاری رہائشگاہوں‘ اِن سے وابستہ افراد (ملازمین و مشیروں) کے اخراجات اور عوام کے پیسوں پر حکومتی اہلکاروں کی مراعات سے متعلق تفصیلات اب خفیہ نہیں رکھی جا سکیں گی اور انہیں حکومتی پالیسی کا حصہ و سیاسی معاملہ قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ جسٹس عظمت سعید نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’سپرئم کورٹ عام طور پر ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی لیکن سرکاری وسائل عوام کی امانت ہیں۔‘‘ افسوسناک ہے کہ پاکستان لائرز فورم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے درخواست گزار کے دلائل چاہیں کتنے ہی وزن دار (منطقی) کیوں نہ ہوں‘ عدالت خود کو اس معاملے میں ملوث نہیں کرسکتی! یاد رہے کہ ’ستائیس نومبر دو ہزار دو‘ کو بھی لاہور ہائی کورٹ نے اسی طرح کی ایک درخواست کو خارج کر دیا تھا۔ اکتیس مارچ دو ہزار پندرہ کو دیئے گئے مختصر فیصلے میں تین رکنی بینچ جس میں جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس مشیر عالم بھی شامل تھے‘ جنہوں نے اہلیت پر نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست کو مسترد (واپس) کیا تھا۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے ’اے کے ڈوگر‘ نے مؤقف اختیار کیا کہ ’’سرکاری اہلکاروں کو مہنگی گاڑیوں‘ بڑے بڑے گھر اور دیگر سہولیات کے ذریعے پرتعیش طرز زندگی فراہم کرنا نہ صرف غیر اسلامی اور غیر آئینی ہے بلکہ یہ پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ریاست کے تمام اثاثے‘ فنڈز اور جائیداد (پراپرٹی) پاکستان کی عوام کے مفاد کے لئے ہیں‘ سرکاری اہلکاروں کے لئے نہیں‘ انہیں یہ سب صرف اس لئے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کو فائدہ پہنچائیں!‘‘ سماعت کے دوران کونسل کا مؤقف تھا کہ سرکاری حکام پر خرچ ہونے والی رقم کو عوام کے مفاد میں استعمال میں ہونی چاہئے۔ ان کے مطابق سرکاری حکام اور پاکستان کے ایک عام آدمی کے لائف اسٹائل میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جو کہ امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور اس سے عام آدمی کی عزت نفس بھی متاثر ہوتی ہے۔

 چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں سپرئم کورٹ نے اعتراف کیا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوامی پراپرٹی پبلک ٹرسٹ ہے جو سرکاری حکام کے ہاتھ میں ہے تاہم عدالت نے کہا کہ سرکاری حکام کو مراعات دینے کا معاملہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے اور عدالت عام طور پر اس میں مداخلت نہیں کرتی۔ جب تک ہم اِس بات کا فیصلہ نہیں کر لیتے کہ سرکاری وسائل ایک امانت ہیں اور اُن سے بطور حکمراں استفادہ کرنے والوں کو دیانت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اُس وقت تک انکم ٹیکس کے نظام سمیت سرکاری اداروں کی خدمات کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی۔ اب اگر سوال یہ ہے کہ صادق و امین قیادت کہاں سے آئے گی تو اس کے لئے ’الیکشن کمیشن‘ کے قواعد واضح ہیں‘ جس میں انتخابی اُمیدواروں کی اہلیت کی کڑی شرائط موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا! اگر سپرئم کورٹ جیسا معزز ادارہ ’صداقت و امانت‘ کی وضاحت کرنے میں مصلحت کا شکار ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود بھی مراعات یافتہ طبقات میں شامل ہے لیکن اگر اُمید کی کوئی ایک کرن ہے تو ’الیکشن کمیشن‘ کی خودمختاری یقینی بنانے کے لئے پاکستان تحریک انصاف اپنی ہم خیال سول سوسائٹی کے ذریعے جدوجہد کرے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

پس تحریر: خالصتاً رضائے الٰہی کے لئے بھوک و پیاس کی شدت کے باوجود ’صبر و استقامت‘ اختیار کرنے کا نام ’روزہ‘ ہے‘ جسے شعوری‘ فکری اُور عملی طور پر اختیار کرنے کے الگ الگ تقاضے ہیں۔ روزے کا ایک مقصد اُن لوگوں کی بھوک پیاس اور محرومیوں کا احساس بھی کرنا ہے جو محض مالی وسائل نہ ہونے کے سبب کھانے پینے جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں لیکن عمومی طور پر مشاہدہ یہی ہے کہ سب سے زیادہ اشیائے خوردونوش ماہ رمضان کے دوران ضائع ہوتی ہیں۔ دو روز متواتر گھر سے باہر افطاری کا موقع ملا تو دسترخوان پر ہر اُس نعمت کو موجود پایا جس کے بارے میں تصور ممکن تھا۔ انواع و اقسام کے ذائقے اور لذت کا بطور خاص اہتمام اس بات کا ثبوت تھا کہ میزبان کی مالی حیثیت کسی بھی طرح معمولی نہیں تھی لیکن یہی سب کچھ بہت سادگی اور ایک تہائی سے بھی کم اخراجات میں ممکن تھا۔

اسلامی عبادات کا مقصد اجتماعیت اور اجتماعیت کا حاصل سماج سے اجنبیت کا نام ونشان ختم کرنا ہے لیکن ہم نہ تو ’اجنبیوں‘ کو اپنے دسترخوان (مائدہ) کے قریب آنے دیتے ہیں اور نہ ہی رب تعالیٰ کے فضل سے حاصل کردہ نعمتوں کو مل بانٹنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ فطرانہ ادا کرتے ہوئے بھی کم سے کم شرح معلوم کرنے کوشش کرتے ہیں اور پھر اُسی محترم کی تقلید کرتے ہیں جو دوسروں کے مقابلے سب سے کم فطرانہ مقرر کرے۔ وسیع القلبی کے ساتھ عبادات کی روح پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ اطمینان اور خوشحالی کے لئے ہر کس و ناکس سرگرداں ہے اور بھٹکتا ہی رہے گا جب تک کہ ’حئی علی الفلاح‘ میں پنہاں مفہوم کو سمجھ نہیں لیا جاتا! ’’یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ پیوند۔۔۔بتان وہم و گماں‘ لا الہ الا اللہ!‘‘

Saturday, June 27, 2015

Jun2015: Dream of E Governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِی گورننس: جاگتے خواب
ٹیکنالوجی کے ذریعے طرز حکمرانی بالخصوص سرکاری اِداروں کو مستعد و فعال اُور مجموعی کارکردگی و ساکھ بہتر بنانے کے لئے ’اِی گورننس‘ کی ضرورت و اہمیت اُجاگر کرنے کا ’مقصد‘ اُس عام آدمی کی مشکلات کم کرنی ہیں‘ جس کی قسمت میں سوائے دھتکار اگر کچھ ہے تو تسلیاں اور جاگتی آنکھوں کے خواب۔ اِس سلسلے میں ستائیس جون کو شائع ہونے والے کالم سے متعلق ’جناب غازی خان‘ نے بذریعہ اِی میل چند ایسے اضافی اَمور کی نشاندہی کی ہے‘ جن کا اشارتاً ذکر تو موجود ہے لیکن اُن کی وضاحت طوالت سے گریز کے سبب بصورت تشنگی محسوس کی گئی ہے۔

طویل کلام (فیڈبیک) کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’سرکاری اِداروں میں حاضری کا واجبی سا نظام تو موجود ہے لیکن اِس پر اعلیٰ و ادنی ملازمین الگ الگ طریقوں سے عمل کرتے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے مثال دی ہے کہ ۔۔۔ ’’جس طرح سکول میں اساتذہ کی حاضری کا رجسٹر ملتا ہے جس میں پرنسپل کے علاؤہ باقی سبھی عملہ باقاعدگی سے اپنے حاضر ہونے کی سند درج کرتا ہے۔اسی طرح دیگر سرکاری دفاتر میں بھی حاضری لگانے کا عمل صرف اور صرف ماتحت عملے کی حد تک ہی محدود ہے جن کی جسمانی موجودگی کا دفتری اُوقات میں حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور دفتر کے انتظامی سربراہ کی عدم موجودگی (غیرحاضری) پر سوال اُٹھایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ’صاحب یا تو میٹنگ یا پھر دورے (سائٹ) پر گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ یہ حقیقت بھی راز نہیں رہی کہ اگر کوئی فرض شناس اہلکار اپنے نگران و انتظامی افسر کی ’من مانیوں‘ یا سرکاری وسائل کے بیجا اِستعمال (اِسراف) کے خلاف آواز اُٹھائے تو اُس کے خلاف محکمانہ تحقیقات کا آغاز کر دیا جاتا ہے اُور اُسے ’مس فٹ‘ بلکہ ’اَن فٹ‘ قرار دینے کے لئے وجوہات بڑی محنت سے ایک ایک کرکے جمع کی جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ فرائض منصبی ادا کرنے میں ایمانداری و دیانت کے اصول پیش نظر رکھنے کا عزم لے کر سرکاری ملازمت اختیار کرنے والوں کا جوش و جذبہ اور حب الوطنی چند ہی مہینوں میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اُور وہ بھی اُسی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں‘ جس میں اہلیت پر سفارش اور قواعد پر تعلق حاوی دکھائی دیتا ہے۔ عوام تو کیا کسی بھی سیاسی جماعت کے رہنما سے پوچھ لیجئے‘ وہ سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دے گا لیکن اگر اُن سے یہ پوچھا جائے کہ ماضی و حال میں اِس کی بہتری کے لئے کیا اقدامات کئے گئے تو اُن کے جواب کا لب لباب یہی ہوگا کہ ’’بہتری کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔‘‘ ہم جاگتی آنکھوں سے سرکاری وسائل کا ضیاع دیکھتے ہیں اور پھر بھی نہیں دیکھتے! ہم سنتے کانوں سے مالی بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کی مثالیں بیان کرنے والوں سے اختلاف نہیں کرتے لیکن پھر بھی اِس گھناؤنے فعل کے مرتکب اہلکاروں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچاتے۔ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز عوام کے جملہ منتخب نمائندے جواب دیں کہ ۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر سرکاری دفتر میں ’بائیومیٹرکس (اُنگلیوں کے نشانات سے شناخت)‘ پر مبنی ’حاضری (اٹینڈننس)کا نظام‘ متعارف نہیں کرایا جاسکتا؟‘‘
بائیومیٹرکس کا سب سے بڑا فائدہ (ایڈوانٹیج) یہ ہے کہ اِس سے کسی ملازم یا تمام اہلکاروں کی حاضری نہ صرف خودکار اَنداز میں درج (ریکارڈ) ہو سکتی ہے بلکہ اُس کے ساتھ دفتر میں آنے اور جانے کا وقت بھی ریکارڈ (محفوظ) ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ شفافیت مقصود ہو تو خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں شمسی توانائی کی طاقت سے چلنے والے بائیومیٹرکس شناختی آلات ہر دفتر میں نصب کی جاسکتی ہیں۔ جن کو صوبائی دارالحکومت پشاور میں رکھے ہوئے مرکزی نظام سے جوڑا جا سکتا ہے اور اگر کوئی اہلکار بناء اطلاع غیرحاضر رہنے کا ’عادی مجرم‘ ہے یا دفتری اُوقات کے دوران کم اَز کم جسمانی طور پر اپنی نشست پر نہیں پایا جاتا تو اُس کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات کی اَزخود اَدائیگی کمپیوٹر کی مدد سے روکی جا سکتی ہے۔ دفاتر میں استعمال ہونے والے بجلی و ٹیلی فون کے ماہانہ بلوں کی نگرانی (مانیٹرنگ) کے لئے بھی ’ای گورننس‘ کارآمد ’ہتھیار (ٹول)‘ ہے اور اگر کسی دفتر میں اچانک بجلی زیادہ استعمال ہونے لگے تو کمپیوٹر ہزاروں میں سے ایسے کسی ایک بجلی کنکشن کی بھی نشاندہی کرسکتا ہے‘ جو اپنی اوسط سے زیادہ یونٹ خرچ کر رہا ہو۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ جن سکولوں کالجوں اور جامعات (تعلیمی اداروں) میں موسم گرما کی تعطیلات ہیں‘ وہاں کے یوٹیلٹی بلز بھی ہزاروں میں آ رہے ہیں؟
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی اور کبھی نہ کبھی ہر سرکاری ملازم وسائل و اختیارات کا غلط استعمال ضرور کرتا ہے کیونکہ اُس کی نگرانی کا نظام کمزور ہے۔ کیونکہ سزا و جزا کا تصور عملی طور پر موجود نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سرکاری ملازم بننے کے بعد اُس کے خلاف زیادہ سے زیادہ یہی محکمانہ کاروائی ہو سکتی ہے کہ اُس کی خدمات کسی دور دراز ضلع کو بھیج دی جائیں گی اُور چونکہ سرکاری ملازمین کی اکثریت اِس قدر یتیم نہیں ہوتی کہ اُن پر کسی سیاست دان کے ہاتھ کا سایہ نہ ہو‘ اِس لئے معاون سے لیکر سیکرٹری تک خیبرپختونخوا کے کم وبیش چار لاکھ سرکاری ملازمین اُس تاخیر (وقفے) سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جو ’ای گورننس‘ کے رائج ہونے کی راہ میں حائل ہے۔

جب ایک نہ ایک دن اور کسی نہ کسی نے مکمل طور پر ’ای گورننس‘ رائج کرنی ہی ہے اور ٹیکنالوجی دوست ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی صوبائی حکومت بائیومیٹرکس تنصیب کا مرحلہ وار آغاز بھی کر چکی ہے تو نظام مرتب کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ اِس میں وسعت (ایکسپینشن) کی گنجائش موجود رہے اور تمام سرکاری ملازمین چاہے اُن کا تعلق کسی بھی محکمے سے ہو‘ فنانس اور آڈیٹر جنرل آفسیز کو اُن کی کم از کم حاضری کا تو علم ہونا ہی چاہئے لیکن جہاں ’نظام کو بہتر بنانے کے لئے سوچ بچار اُور پوچھنے (استفسار کرنے) والوں کی اپنی توجہات اُور اپنی ذات یا سیاسی مفادات کے گرد گھومنے والی ترجیحی ترجیحات ہوں‘ وہاں سرکاری اِداروں کی ناقص کارکردگی اُور سرکاری وسائل (دفاتر میں فراہم کردہ سہولیات‘ رہائشگاہوں‘ گاڑیوں) کا یوں بیجا استعمال ہونے پر تعجب کا اظہار بذات خود ’تعجب خیز‘ ہے۔

سرکاری ملازمین کی کارکردگی بہتر بنانا تو دُور کی بات صرف معمول پر لانے ہی کو اگر ہدف بنا لیا جائے تو اِس ہدف کا ہرممکن و ہرممکنہ و بہرصورت حصول ضروری ہے ’بہتر طرز حکمرانی (گڈ گورننس)‘ کے خواب کی تعبیر بناء ٹیکنالوجی (ای گورننس) ممکن نہیں۔
E Governance a dream yet to make reality

Friday, June 26, 2015

Jun2015: Economic is E-GOVERNANCE

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سردست: اِی گورننس
بظاہر دیکھنے سے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کسی سرکاری دفتر کے اہلکار اِس قدر فرض شناس بھی ہوسکتے ہیں کہ اپنے مقررہ وقت کے بعد بھی نشستوں سے چپک کر بیٹھے رہیں! جیسے حکومت نے ایمرجنسی (ہنگامی حالت) نافذ کردی ہو اور اُنہیں کوئی بہت ہی ضروری‘ فوری نوعیت کا ایسا کام نمٹانا ہو‘ جس میں آنے والا دن کا انتظار نہیں ہوسکتا۔ یوں تو ہر میز پر ایک عدد کمپیوٹر موجود تھا لیکن کونے میں بیٹھے ہوئے شخص ’فیس بک‘ پر کسی بہت ہی ’نازک مسئلے‘ کی تفصیلات کا باریک بینی سے مطالعہ کر رہے تھے۔ باقی کمپیوٹرز پر کیا ’چل رہا تھا‘ کانوں میں لگے ہوئے ہیڈفونز اور سکرین پر جمی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ ٹیلی فون کو کریڈل سے اُٹھا کر نیچے رکھا گیا تھا تاکہ باوجود خواہش بھی کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ ہر میز پر فائلیں تہہ در تہہ رکھی ہوئی تھیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ جس کے پاس زیادہ فائلیں ہوں گی وہ بالحاظ عہدہ اُس دفتر میں سب سے بڑا افسر ہوگا۔ دروازے کے قریب ترین بیٹھے صاحب کے سامنے جب عرض پیش کی گئی تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا کہ ’’2 بجے چھٹی ہو جاتی ہے!‘‘ لیکن آپ سب لوگ تو بہ نفس نفیس موجود ہیں! اُنہوں نے بحث میں الجھے بناء درخواست لی اُور بناء مطالعہ فرمایا ’’کل صبح آنا۔‘‘ یقیناًخیبرپختونخوا کے ’سول سیکرٹریٹ‘ کے ’دفتری معمولات (آفس ٹائمنگ)‘ میں ہرسال کی طرح اِس رمضان بھی تبدیلی کر دی گئی تھی لیکن دفتر مقررہ وقت پر بند نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ائرکنڈیشن اور پنکھے دفتری وقت کے بعد ’آف‘ کئے گئے تھے۔ چونکہ بجلی کی قیمت قومی خزانے سے اَدا ہو رہی تھی اِس لئے کسی کو داخلی دروازہ مکمل طور پر بند کرنے کا احساس بھی نہیں تھا اُور نہ ہی برف کی طرح ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے ہوئے ’روزہ داروں‘ کو اِس بات میں کوئی منطق نظر آ رہی تھی کہ وہ چلچلاتی دھوپ میں گھر جائیں! آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ سرکاری دفاتر کی بجلی ٹیلی فون اور دیگر یوٹیلٹیز وقت مقررہ کے بعد بند کر دی جائیں اور ہر دفتر کے باہر ایک میٹر لگا ہو‘ جس کے ساتھ ماہانہ بجلی کے اخراجات کی تفصیلات بھی درج ہوں کہ اِس دفتر کے لوگ دیگر وسائل کے ساتھ کتنی بجلی ’کھا‘ رہے ہیں؟ ایک طرف عوام ہے جو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف سرکاری دفتر ہے جہاں برقی رو کا متبادل انتظام بذریعہ ’یو پی ایس‘ بھی ہے اور جنریٹرز بھی رکھے گئے ہیں! اتنا تضاد ’طرز حکمرانی (گورننس)‘ کی اُن خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے جنہیں سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔

کہانی ہر جگہ ایک ہی ہے۔ خیبرپختونخوا کا کوئی ضلع ہو یا صوبائی دارالحکومت کے سرکاری دفاتر‘ اِن میں ایک قدر مشترک ’فرنٹ ڈیسک (استقبالیہ)‘ کی عدم موجودگی ہوتی ہیہو اُور نہ ہی کسی دیوار پر ’سائل‘ کے لئے ہدایات ہوتی ہیں۔ شکایات کی صورت کس سے رجوع کرنا ہے‘ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا اور جب سرکاری دفاتر کے نمبر مشتہر کئے جاتے ہیں تو وہ لینڈلائن (پی ٹی سی ایل) نمبرز ہوتے ہیں‘ جو یا تو آپ کو مسلسل مصروف (اینگیج) ملیں گے یا پھر اُنہیں کوئی اُٹھائے گا ہی نہیں۔ دونوں صورتوں کے علاؤہ اگر نمبر اُٹھا بھی لیا جائے اُور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ مسئلے کی بابت کس صاحب سے بات کرنی ہے تو بھی فون کا رابطہ کارآمد نہیں۔ اصولی طور پر جملہ سرکاری دفتروں کا ایک رابطہ دفتر ہونا چاہئے جہاں کسی مسئلے کی درخواست جمع کرانے کے بعد ایک عدد ’حوالہ (ریفرنس) نمبر‘ جاری کر دیا جائے اُور درخواست کا اُسی شناختی نمبر سے پیچھا (ٹریک) کیا جا سکے۔ حق تو یہ ہے کہ دفتری کاروائی کے جملہ مراحل بھی اَزخود طے ہونے چاہیءں۔ سرکاری اہلکاروں کی جسمانی طور پر حاضری یقینی بنانے اور اُنہیں کسی درجے ’نظم و ضبط کا پابند‘ بنانے کا ہدف بڑی حد تک تو حاصل کر لیا گیا ہے لیکن اِس کے کامیابی کے خاطرخواہ ثمرات حاصل نہیں ہوسکے۔ شاید نہیں بلکہ یقینی طور پر اِس کی وجہ یہ ہے کہ پشاور میں مختلف محکموں کے مرکزی صدر دفاتر کے لئے ملازمین کی اکثریت مقامی (پشاور سے تعلق) ہونے کی بجائے چارسدہ اور مردان یا اِن کے گردونواحی علاقوں سے ہے‘ جنہیں گھر پہنچنے کی فکر پشاور اُترتے ہی لاحق ہو جاتی ہے۔ اِن ملازمین کو لانے لیجانے کی بسوں پر ہوئے متعدد دہشت گرد حملوں کے بعد ملازمین نے آپس میں مل بانٹ کر گاڑیاں خرید لی ہیں اور ایک بڑی تعداد نے اگرچہ اکٹھے سفر کرنا ترک کردیا ہے لیکن پھر بھی سرکاری ملازمین کی ایسی بسیں دیکھی جا سکتی ہیں جو لبالب بھری ہوں! پشاور سے ہونے والی صرف یہی ایک ’حق تلفی‘ نہیں کہ اِسے (صوبائی فنانس کمیشن کے تحت وسائل کی تقسیم کے اصول) 1: حسب آبادی‘ 2: حسب غربت‘ 3: حسب آمدن اور 4: عارضی سکونت رکھنے والوں کی تعداد کے مطابق ’فنانس ایوارڈ‘ سے ترقیاتی فنڈز نہیں ملے بلکہ یہ سوچی سمجھی‘ دانستہ ناانصافی بھی ہوئی کہ یہاں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو تعلیمی قابلیت کے باوجود ملازمتوں میں اُن کا خاطرخواہ حصہ نہیں مل سکا۔

بہرکیف سرکاری اِداروں کی کارکردگی ’اِی گورننس‘ سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ایک ایسا مرکزی دفتر (استقبالیہ) مقرر کیا جا سکتا ہے جہاں پٹوار خانے سے لیکر میونسپل کارپوریشن تک ہر اُس کام کے لئے رجوع کیا جاسکے‘ جس میں درخواست گزار کے جسمانی طور پر پیش ہونے کی حاجت نہ آئے۔ درخواست گزار کی تصویر اور اُنگلیوں کے نشانات (بائیومیٹرکس) کے ساتھ درخواست وصول کر کے اُسے متعلقہ محکموں کو ’الیکٹرانک (سکین شدہ)‘ یا ’ٹائپ شدہ‘ حالت (فارمیٹ) میں اِرسال کر دیا جائے‘ جہاں سے وصولی کی رسید سے بذریعہ ’ایس ایم ایس‘ درخواست گزار بھی آگاہ ہو اُور خودکار نظام کے تحت درخواست کو فوری نمٹانا بھی صرف اِسی صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ عوامی شکایات یا روزمرہ کام نمٹانے میں غیرضروری تاخیر کے مرض کا اِس دوائی سے علاج کیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ہر درخواست گزار کے پاس موبائل فون نمبر ہو اُور ’الاٹ‘ ہونے والے درخواست پرکاروائی کی تفصیلات بذریعہ ’ویب سائٹ‘ دیکھنے کے وسائل رکھتا ہو‘ اِس لئے کسی ’مرکزی دفتر‘ سے رجوع کرنا نہ صرف آسان ہوگا بلکہ اگر کسی درخواست کو ایک سے زیادہ محکموں کا چکر لگانا ہے تو معمول کے اِس جھنجھٹ سے بھی ’العارض‘ کی گلوخلاصی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ ابتدأ میں ’اِی گورننس‘ سے بھلے ہی سوفیصد نتائج حاصل نہ ہوں لیکن اگر ہم ’سردست ٹیکنالوجی‘ کے استعمال پر آمادگی کا اِظہار کرلیں تو اِس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کمپیوٹرز کبھی ہڑتال نہیں کرتے۔ بیمار نہیں پڑتے۔ کسی ضروری کام کا بہانہ بنا کر اچانک رخصت پر نہیں چلے جاتے۔ بناء اطلاع غائب بھی نہیں ہوتے۔ اِنہیں سالانہ تعطیلات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِن کا کوئی آبائی علاقہ نہیں ہوتا کہ جہاں انہیں تعیناتی کی ضرورت ہو۔ یہ قواعد و ضوابط میں موجود سقم اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہر لمحے سوچ و بچار نہیں کرتے۔ اُن کی سالانہ تنخواہیں و مراعات بڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی اُور انہیں ہر سال ترقی دے کر قومی خزانے پر پہلے سے پہاڑ جتنے ’غیرترقیاتی اخراجات‘ کے بوجھ میں اِضافہ بھی نہیں ہوگا!
E Governance is the solution for complex problems and financial management

Thursday, June 25, 2015

Jun2015: Anger as tool of reform the governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رمضان اُور غصہ
پوری قوم جلالی ہے۔ کسی کے پاس وقت نہیں لیکن اگر پوچھو کہ کیا کام ہے تو یہی کام بتایا جائے گا کہ کوئی کام نہیں! اس پر عجب یہ کہ ہر کسی کے ناک پر غصہ دھرا دکھائی دیتا ہے۔ قیمتی گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کے ماتھے پر سلوٹیں دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے جبکہ کوئی سواری ملنے کے انتظار میں کھڑے لوگ خود اپنا ہی بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہونے کے باعث اگر نہ مسکرائیں تو وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن جو ایک بات وثوق سے مختلف نظر آتی ہے وہ ماہ رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں تو ہر کس و ناکس کا ’غصہ‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں آخر اس قدر غصہ آتا کیوں ہے؟ طبی نکتۂ نظر سے چائے‘ کافی‘ مشروبات‘ سگریٹ‘ نسوار‘ پان‘ چھالیہ وغیرہ کے عادی افراد جب کھانا پینا اور چبانا ترک کرتے ہیں تو اُن کے مزاج و بول چال پر چڑچڑا پن حاوی ہو جاتا ہے جبکہ یہی روزہ ایسے افراد کے مزاج میں تحمل کو نمایاں کر دیتا ہے‘ جو سال کے باقی گیارہ ماہ اسلامی تعلیمات کا انتخاب جزوی نہیں بلکہ اپنی زندگیوں کے لئے کلی طور پر کرتے ہیں۔

سمجھ لیجئے کہ ’غصہ ایک فطری عمل اور ہیجانات کی ایک قسم ہے جو اگر ایک حد میں ہو تو نقصان نہیں لیکن حد سے بڑھ جائے تو دین اور دنیا کے لئے خسارے کا باعث بن جاتا ہے لیکن غصہ پر قابو بھی تو پایا جاسکتا ہے‘ اسے ’ضبط‘ بھی کیا جاسکتا ہے اُور بہادر وہی کہلاتا ہے جو غصے کی حالت میں دوسرے کو درگزر کردے۔ اس عمل کے بارے میں خالق کائنات نے پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ کتب احادیث (بخاری‘ ترمذی‘ موطا امام مالک) میں درج ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن ایک ساتھی (صحابی) نے عرض کیا:(ترجمہ): ’’کہ مجھے کوئی نصیحت کیجئے‘‘ تو سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ’’غصہ مت کیا کرو‘‘ انہوں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار یہی جواب ارشاد فرمایا کہ ’’غصہ مت کیا کرو۔‘‘ غصے (اشتعال) میں لڑائی جھگڑے سے بچنے کا ایک حل یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص کو غصہ آرہا ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ آپے سے باہر ہوکر کوئی خلاف شریعت فعل کر بیٹھے گا یا کسی کے حق میں زیادتی کا مرتکب ہو گا یا مارپیٹ (فساد) تک نوبت جا پہنچے گی تو ایسے وقت میں ’درود شریف‘ پڑھ لینا چاہئے۔ عرب کے لوگوں میں آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جہاں کہیں دو آدمیوں میں تکرار اور لڑائی کی نوبت آتی ہے تو اُن میں کوئی ایک یا کوئی تیسرا شخص باآواز بلند کہتا ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجو۔‘‘ اس کے جواب میں وہ خود ہی بلند آواز میں درودشریف پڑھنا شروع کردیتا ہے اور اُسی وقت غصہ تحلیل ہو کر ’عقل بحال‘ ہو جاتی ہے!

سوال یہ بھی ہے کہ آخر ہمیں غصہ ایسی باتوں پر کیوں نہیں آتا جو ظلم و زیادتی پر مبنی ہیں؟ مثال کے طور پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ عام ہو چکی ہے۔ ہم ملاوٹ شدہ بہت سی اشیاء خریدتے ہیں اور کبھی بھی اِس بات پر غصے کا اظہار نہیں کرتے کہ ہماری جان ومال سے کھیلنے والوں کو کیوں من مانی کرنے کی چھوٹ دی گئی ہے؟ رمضان سمیت خاص ایام کے مواقعوں پر اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت کے باعث مہنگائی کر دی جاتی ہے لیکن ہم اِس پر بھی خاموش رہتے ہیں اُور معاشرے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کی حرص و طمع کا نشانہ بنتے ہیں؟ سیاسی شخصیات آمدورفت یا اپنی رہائش گاہوں کے آس پاس شاہراہ عام بند کر دیتے ہیں لیکن ہمیں اِس پر غصہ نہیں آتا۔ ہمارے دیکھا دیکھی‘ بناء محنت یا کاروبار بدعنوانی کے ذریعے لوگ راتوں رات امیر بن جاتے ہیں لیکن ہمیں ایسے نام نہاد رہنماؤں پر غصہ نہیں آتا۔ سیاسی جماعتیں وعدے کرتی ہیں جنہیں انتخابات کے بعد پورا نہیں کیا جاتا لیکن ووٹ ڈالتے ہوئے ہم غصے کے ذریعے احتساب نہیں کرتے آخر کیوں؟

 القصہ مختصر ایسے بہت سی محل موجود ہیں جہاں غصے کا اِظہار ہونا چاہئے اُور اگر کوئی بندۂ خدا ظلم و زیادتی پر ’ناپسندیدگی کا برملا‘ اظہار کرتا بھی ہے تو سب اُسے ’تعجب کی نظر‘ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ کوئی مکروہ فعل کا مرتکب ہو رہا ہو! مسئلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو ہم نے بحیثیت مجموعی ’غصے‘ کی کیفیت و اہمیت کو نہیں سمجھا کہ آخر اِسے کیوں انسانی طبیعت (مزاج) کا حصہ بنایا گیا ہے۔ دوسری ضرورت غصے پر قابو پانے اور اس سے تعمیری و مثبت انداز میں استفادے کی ہے تو اِس سلسلے میں خاطرخواہ رہنمائی موجود نہیں۔ ہمیں نہ تو نصاب اور نہ ہی مسجد و منبر سے غصے کے ’جائز‘ اظہار کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے۔

 غصے کے عملی تقاضوں کو اگر عوام و خواص نہیں سمجھ پا رہے تو اس کے لئے وہ قصور وار نہیں کیونکہ قدرت کی جانب سے عطا کردہ اُن تمام صلاحیتوں کا کماحقہ ادراک ہی نہیں رکھتے‘ جن سے ’اصلاح ذات و معاشرہ‘ ممکن ہے۔ ذرا سوچئے کہ سچ ہمیشہ دوسروں کے متعلق کیوں بولا جاتا ہے اور اکثریت غصہ بھی ہمیشہ دوسروں پر ہی کیوں اُتارتی ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ذات میں پائی جانے والی خامیوں کے بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیں اور دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر سمجھیں؟ دوسروں کی غلطیاں اِس لئے کیوں معاف نہیں کرتے کہ ایسی ہی غلطیاں تو ہم سے بھی سرزد ہو سکتیں ہیں ہو چکی ہیں؟

 کیا یہ حق نہیں بنتا کہ کبھی کبھار میں اُور آپ اپنے آپ پر بھی غصہ کریں کہ کوئی ایسا کام جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے تھا‘ لیکن چونکہ وہ ہم سے سرزد ہوگیا‘اِس لئے غصہ کرتے ہوئے خود سے عزم کریں کہ آئندہ وہ غلطی نہیں دہرائیں گے! تزکیۂ نفس ہو یا رہنمائی‘ اپنی ذات ہو یا اجتماعی مفاد‘ ہر لحاظ سے ماہ رمضان کی بابرکت ساعتیں شاندار موقع ہے۔ یہ فرصت‘ مصروفیت اُور مہلت غنیمت ہے‘ اِس سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔ ’غصے‘ کی کیفیت سے جڑی اچھائیوں‘ برائیوں اُور تقاضوں کو اگر شعوری طور پر سمجھ کر اُور اِن کے بجا‘ درست اور ’مفید عملی استعمال‘ کے لئے دانستہ کوششیں کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسی عمل سے ہماری زندگی و آخرت دونوں سنور جائیں!
Anger management for betterment

Wednesday, June 24, 2015

Jun2015: Education & the hurdles!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فروغ تعلیم: حائل رکاوٹیں
امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ (USAID) پاکستان‘ کی جانب سے پسماندہ اضلاع میں ’’بنیادی تعلیم‘‘ کے فروغ کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے۔ سال 2002 ء سے شعبہ تعلیم سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی اور آفت زدہ علاقوں کی معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے جاری کوششوں میں یہ ایک نیا اضافہ ہے جس کے تحت ’19لاکھ بچوں‘ کے لئے پرائمری کی سطح پر بہتر تدریسی مواقع فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔ تیئس جون کو اعلان کے موقع پر پسماندہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے 9 ہزار 400 نوجوانوں کو انگریزی زبان سے آشنائی کا ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا یہ سب عملی کوششیں اُس (سرکاری محروم توجہ) تعلیمی شعبے میں انقلاب لانے کے لئے کافی ثابت ہو رہی ہیں‘ جس میں وسائل کی سرمایہ کاری کا حجم تو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے لیکن حاصل ہونے والے ’نتائج‘ حوصلہ اَفزأ نہیں۔

امریکہ کے امدادی ادارے سے درخواست ہے کہ وہ حسب سابق روائتی انداز میں مالی وسائل مختص کرنے اور اس کے مرحلہ وار استعمال و نتائج کے بارے میں اُن اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کرے‘ جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر تعلیم کے شعبے میں بہتری مقصود ہے تو اِس پورے منظرنامے کو الگ عینک نہیں بلکہ ژرف نگاہی سے دیکھنا ہوگا کہ برتن میں سوراخ کہاں ہے کیونکہ اِس میں جتنا پانی بھی ڈالا جاتا ہے وہ سب کا سب آناً فاناً ختم ہو جاتا ہے اور پیاس پوری شدت کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھتی ہے! اِس سلسلے میں پہلا نکتہ تو یہ سمجھنا ہے کہ مالی اِمداد مسئلے کا حل نہیں بلکہ موجود وسائل کے استعمال میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور تعلیم کے اسلوب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’چلتے پھرتے (غیرروائتی) سکول‘ اُور پاکستان کو تبدیل کرنے‘ حب الوطنی کے جذبات سے سرشار نوجوان رضاکاروں کی کمی نہیں‘ جن کی صلاحیتوں سے بطور معلم اِستفادہ کیا جاسکتا ہے۔ نصاب تعلیم کو زیادہ دلچسپ اور انٹرایکٹیو (interactive) بنانے کے ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم میں موبائل فون (ٹیکنالوجی) کا استعمال متعارف کرانا ضروری ہے کیونکہ کتابوں کی اشاعت اور اُن کی ترسیل و حفاظت سے زیادہ آسان ’الیکٹرانک کتابیں‘ ہیں‘ جو ’ورچوئل کتب خانوں‘ سے بلاقیمت حاصل کی جاسکیں۔ کتاب سے رشتہ جوڑنے کے لئے کتب خانے آباد کرنا اُن صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کا حصہ ہونا چاہئے‘ جس سے نوجوانوں کو تعمیری و مثبت سرگرمی میں وقت خرچ کرنے کا موقع میسر آئے۔ ہم نصابی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کی بجائے اِداروں کے درمیان فاصلوں اور ملک گیر سطح پر ایک نصاب اُس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی ابتدأ ثابت ہو سکتی ہے‘ جس میں مادری زبان کی اہمیت کو تو سمجھا گیا ہے لیکن مختلف زبانوں میں اسباق کا آپسی تعلق نہیں۔ اُستاد کو گھر تک پہنچانے سے نہیں بلکہ چوبیس گھنٹے بذریعہ انٹرنیٹ موجود رکھنے سے تبدیلی آ سکتی ہے۔ موبائل فون کمپنیاں اگر دن رات چوبیس گھنٹے محض ایک روپے میں بات کرنے کی پیشکش (آفر) دے سکتی ہیں تو یہی غیرملکی امداد پورے کے پورے شہر کو ’ورچوئل کیمپس‘ بنانے پر کیوں خرچ نہیں کی جاسکتی؟

ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ فروغ تعلیم کے لئے عالمی امداد کم یا زیادہ ہونے سے اِس شعبے میں ترقی کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اِس کے لئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز افراد اور اُس کاریگر (معلم) کو اپنا فکروعمل تبدیل کرنا ہوگا‘ جس کا آغاز ’نیت‘ سے ہونا چاہئے کہ میں خود کو حلفیہ ’وقف پاکستان‘ کرتا ہوں اُور میری کمٹمنٹ (commitment) رہے گی کہ تدریس پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ضرورت ’اساتذہ کی تربیت‘ کی بھی ہے‘ جن کی اکثریت کو اپنے فرائض منصبی اور ذمہ داریوں کا حقیقت میں ادراک ہی نہیں۔ کیا معلم کا کردار ’رول ماڈل (مثالی)‘ ہونا چاہئے اور کیا ایسا ہے؟ تعلیم کے شعبے میں ’سرکاری ملازمت‘ کو روزگار کا ’پائیدار ذریعہ‘ سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی کی سیاسی جماعتیں اپنے منظورنظر افراد کو ’استاد‘ بھرتی کرواتی رہیں اور نتیجہ ایسے ہزاروں افراد بھرتی کر لئے گئے جنہیں نہ تو خود تعلیم سے کوئی لگاؤ رہا اُور نہ ہی اُن کے لئے درس و تدریس ماہانہ تنخواہ اُور مراعات سے زیادہ کشش یا معنی رکھتا تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ سرکاری سکولوں کی عمارتیں اور سہولیات باقی لیکن سکول کا مقصد (روح) باقی نہیں رہی!

امریکہ کے امدادی ادارے کی طرح جرمن حکومت کے امدادی ادارے ’جی آئی زیڈ‘ کے فیصلہ سازوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ سال دو ہزار دو سے دوہزار پندرہ تک قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں شعبۂ تعلیم کے فروغ (ایجوکیشن سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام) نامی حکمت عملی کے تحت ’جرمن فیڈرل منسٹری فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (BMZ)‘ کی اِمداد خرچ تو ہوئی لیکن اِس کا حاصل کیا رہا۔ ’جی آئی زیڈ‘ کی ویب سائٹ (giz.de) پر آج بھی یہ بات موجود ہے کہ خیبرپختونخوا کی 53فیصد بالغ آبادی ناخواندہ ہے جبکہ کم و بیش 70فیصد خواتین بھی پڑھ لکھ نہیں سکتیں! اِس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے برطانیہ کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی (DFID)‘ کینیڈا کے ’سی آئی ڈی اے (CIDA)‘ آسٹریلیا کے ’آس ایڈ (AusAid)‘ اُور ہالینڈ و ناروے کی حکومتوں کے فراہم کردہ مالی وسائل جرمن حکومت نے خرچ کئے اور یہ حکمت عملی سال 2020ء تک جاری رہے گی‘ جس میں یورپین یونین کے شامل ہونے کی بھی اُمید ہے لیکن بچوں کی نفسیات سمجھنا تو دور کی بات جس ’انٹرایکٹو‘ تدریسی نظام کو متعارف کرانے کی بات کی گئی وہ بھی تاحال دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ اساتذہ کی تربیت کی گئی۔ نصاب کی نئی باتصویر کتب شائع کی گئیں لیکن سکولوں کو نہ تو باہم مربوط کیا گیا اور نہ ہی اساتذہ کی کارکردگی اور تدریس میں منطقی انداز اختیار کرنے کی تلقین و ہدایات اور احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ خیبرپختونخوا پر اِس قدر عالمی توجہ‘ مالی و تکنیکی اِمداد اُور خیرخواہی پر اِظہار شکروفکر کے عملی تقاضے بھی پورے ہونے چاہیءں۔

تعلیم کے فروغ اور شرح خواندگی کے ثمرات نہ تو ہماری شہری زندگیوں کا حصہ ہیں اور نہ ہی دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا طرزعمل تبدیل ہوا ہے۔ کہیں نہ کہیں خرابی اور کہیں نہ کہیں وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے‘ جس سے فائدہ اُٹھانے والوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی بجائے مختلف طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا۔ ذاتی مفادات پر مبنی ترجیح کے باعث تعلیم نجی شعبے کو سونپ دی گئی ہے‘ جس پر محفوظ حقوق‘ عام کرنے کے بارے میں کل سے نہیں آج سے سوچ کا آغاز ہونا چاہئے۔

Tuesday, June 23, 2015

Jun2015: Prisons in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جیل خانہ جات: تعمیروترقی کی ضرورت
خیبرپختونخوا کے مالی بجٹ برائے سال 2015-16ء میں 3.5 ارب روپے محکمۂ داخلہ کے لئے مختص کئے گئے ہیں اُور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رقم تین حصوں میں تقسیم کی جائے گی۔ ایک حصہ محکمہ داخلہ و قبائلی اَمور کی نگرانی پر خرچ کیا جائے گا۔ دُوسرا حصہ پولیس کے لئے اُور تیسرا حصہ جیل خانہ جات کی توسیع و نئی تعمیرات کے لئے ہے لیکن یہ رقم اِن تینوں شعبوں کی بنیادی ضروریات کے لئے بھی کافی نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی اَفراد قوت اور انہیں جدید ہتھیاروں و گشتی وسائل سے لیس کرنے کے علاؤہ نئے جیل خانہ جات بھی تعمیر کئے جائیں کیونکہ خیبرپختونخوا کے چار بڑے جیل خانوں میں گنجائش سے کئی سو گنا زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے اور اِس ہجوم کی وجہ سے نہ صرف تفیشی مراحل میں مشکلات پیش آتی ہیں بلکہ جرائم پیشہ عناصر کے لئے یہ ماحول خوش آئند ہے کیونکہ ہماری جیلیں اِصلاح کا مرکز نہیں رہیں اُور یہ بات تو طے ہے کہ جیل جانے والا چاہے مجرم ثابت ہو یا نہ ہو لیکن اُس کا تعلق کسی نہ کسی جرائم پیشہ گروہ سے ہو جاتا ہے‘ جو مستقبل کی تازہ دم اور بناء جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے سہولت کاروں کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ت

فیشی عوامل کے ماہرین کا ماننا ہے کہ جب تک حسب ضرورت جیل خانہ جات کی توسیع و تعمیرات نہیں کی جاتیں اُس وقت تک معمولی و انتہائی جرائم کے ساتھ عسکریت پسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ گنجائش کم ہونے کی وجہ سے خطرناک و انتہائی خطرناک قیدی اور دیگر قیدیوں کے درمیان رابطہ رہتا ہے جو پیغام رسانی کا کام بھی کرتے ہیں اور یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بہت سے جرائم پیشہ جیل میں ہونے کے باوجود بھی ’بے تاج بادشاہوں‘ کی طرح اپنے اپنے علاقوں کو کنٹرول کئے ہوئے ہیں!‘‘ قابل ذکر ہے کہ نئے مالی سال میں آمدن واخراجات کے میزانیئے میں پولیس کو ملنے والے وسائل تعمیرات‘ بحالی و توسیع کے منصوبوں‘ تھانہ جات کو شمسی توانائی فراہم کرنے‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ’فلٹریشن پلانٹس‘ کی تنصیب اُور جیل خانہ جات کے حفاظتی اِنتظامات میں اِضافہ کرنے پر خرچ کئے جائیں گے۔

سردست مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا ہے جس کی وجہ سے ایک برس قبل اعلان کی گئی ’مردان جیل‘ کی تعمیر کا منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں مردان میں سنٹرل جیل کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا لیکن 2013ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ یہ منصوبہ تبدیل کر دیا گیا اور ایک نئی مرکزی جیل کی تعمیر کی بجائے پہلے سے موجود سہولت کو توسیع دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر مردان میں ایک بڑے سنٹرل جیل کی تعمیر کیوں ضروری تھی؟ اصولی طورپر ہر ضلع میں سنٹرل جیل ہونی چاہئے اور اگر مردان میں ازسر نو ایک سنٹرل جیل بنائی جاتی تو اس کی وجہ سے پشاور کے سنٹرل جیل پر دباؤ کم ہو جاتا‘ جہاں قیدیوں کی تعداد اُس حد سے بھی تجاوز کر چکی ہے‘ کہ قیدیوں کو اکثر قسط وار نیند کرنا پڑتی ہے۔ ایک گروپ سوتا ہے تو دوسرا دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا رہتا ہے اور اپنے نمبر کے آنے کا انتظار کرتا ہے! گنجان آباد جیل میں رہنا اپنی جگہ کسی سزا سے کم نہیں۔ جیل کی انتظامیہ توسیع کا کام مرحلہ وار انداز میں کرتی ہے کیونکہ پشاور جیل میں قیدی معمولی سے لیکر انتہائی خطرناک جرائم میں ملوث ہیں اور سیکورٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

جاری تعمیراتی منصوبہ آئندہ کم اَزکم دو برس میں مکمل ہونے کی اُمید ہے۔ مردان جیل کی ضرورت اِس وجہ سے بھی ہے کہ پشاور سے تمام قیدیوں کو مردان منتقل کرکے یہاں کی جیل میں خاطرخواہ توسیع کا کام زیادہ تیز رفتاری اور بناء کسی خطرے مکمل کیا سکے۔ بنوں (چودہ اپریل دوہزار بارہ) اور ڈیرہ اسماعیل خان (اُنتیس جولائی دو ہزار تیرہ) میں جیل توڑنے کے واقعات کے بعد مردان جیل کی توسیع کے دوران ایسے انتظامات کئے گئے ہیں کہ اِسے توڑا نہ جاسکے۔ اِس سلسلے میں داخلی دروازے اور دیواروں کی تعمیر میں خاص تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے‘ جس سے حفاظتی انتظامات زیادہ بہتر اور محفوظ بنا دیئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ پشاور جیل کی توسیع کے لئے تعمیراتی کام مرحلہ وار انداز میں جاری ہے جس پر کل 1.408 ارب روپے لاگت آئے گی۔

ہری پور کے بعد پشاور کی سنٹرل جیل خیبرپختونخوا کی دوسری بڑی جیل ہے جو برطانوی راج کے دوران تعمیر کی گئی تھی اور اس میں 450 قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش کے مطابق سہولیات کا بندوبست کیا گیا تھا۔ سردست پشاور سنٹرل جیل میں سترہ سو سے زیادہ قیدی ہیں جن میں بارہ سو سے زیادہ زیرسماعت مقدمات جبکہ چارسو سے زیادہ سزا یافتہ ہیں علاؤہ ازیں پھانسی کی سزا پانے والے قیدی بھی یہیں مقیم ہیں۔ جرائم کے خاتمے اور جیل کے ایک کردار کو اصلاحی بنانے کے لئے زیرسماعت مقدمات کے ملزمان اور سزایافتہ مجرموں کو الگ الگ جیل میں رکھا جانا چاہئے۔ پشاور جیل میں دو سو سے زائد عسکریت پسند اور کم و بیش پچاس انتہائی خطرناک قیدی موجود ہیں جو دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ خیبرایجنسی میں جاری فوجی کاروائی کے دوران اور اس سے قبل گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد میں پشاور کی سنٹرل جیل کی آبادی کا حصہ ہے جبکہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد سے گرفتاری میں امریکہ کی معاونت کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی موجودگی کی وجہ سے پشاور کی سنٹرل جیل زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کی متقاضی ہے۔

 خطرناک اور انتہائی خطرناک مجرموں کو کسی دوسری زیادہ محفوظ اور کشادہ جیل میں الگ الگ رکھنے سے متعلق غور ہونا چاہئے۔ عسکریت پسندی میں ملوث افراد کا دیگر جرائم والے ملزموں یا مجرموں کے ساتھ قیام بھی اپنی جگہ خاص توجہ چاہتا ہے۔

Monday, June 22, 2015

Jun2015: Land grabbers of Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبضہ مافیا: حقائق کی حقیقت !
خیبرپختونخوا میں امن و امان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری کی وجہ سے محکمۂ پولیس کو وقت ملا ہے کہ وہ دیگر ایسے سماج دشمن منظم گروہوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے جنہوں نے پولیس کی مصروفیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پرامن اور معاشرے کے کمزور طبقات کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ حکام کے مطابق اِس سلسلے میں کاروائی کا آغاز ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف مہم سے کیا جا رہا ہے جس کا آغاز ماہ رمضان کے دوران ہی کسی وقت ہو گا۔ ابتدا ایسے 129 مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لئے تفتیشی مقصد کے لئے حراست میں لیا جائے گا‘ جنہوں نے گھریلو تنازعات یا وراثت کے مسائل میں الجھی ہوئی اراضی قبضہ کر رکھی ہیں‘ یا اُنہیں جعل سازی سے اپنے نام منتقل کرالیا ہے۔ محکمۂ پولیس میں خفیہ اطلاعات جمع کرنے والے خصوصی شعبے ’سپیشل برانچ‘ کی مرتب کردہ فہرست پر گذشتہ برس ہی کاروائی ہو جاتی اگر سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ نہ ہوتا‘ جس سانحے کی وجہ سے عمل درآمد کچھ وقت کے لئے مؤخر کر دیا گیا۔ قبضہ مافیا کو اگر خوش قسمت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ گذشتہ تین برس سے مرتب ہونے والی فہرست پر عملی کاروائی کا اعلان ہوتا ہے اور پھر کچھ نہیں ہوتا!

خیبرپختونخوا پولیس کی نہ تو نیت پر شک کیا جا رہا ہے اور نہ ہی خفیہ معلومات جمع کرنے کی اُس استعداد پر سوال اُٹھایا جا رہا ہے جس میں سو سے زائد افراد ہی کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ اُن تمام بااثر سیاسی شخصیات کے نام فہرست میں شامل نہیں جن کی مالی حیثیت میں محض تیس برس (تین دہائیوں) کے دوران نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ وہ خاندان جن کے آباؤ اجداد پشاور کے بازاروں میں کرائے کی دکانیں اور چھوٹی موٹی تجارت (دکانداری) کیا کرتے تھے‘ اچانک صنعتکار اور جاگیردار کیسے بن گئے؟ ’راتوں رات امیر‘ بننے کا محاورہ اگر کسی نے عملی طورپر دیکھنا ہے تو وہ پشاور تشریف لائے جہاں شہر غریب اور چند گھرانے ہر گزرتے دن کے ساتھ امیر ہو رہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے کل پچیس اضلاع ہیں اُور صرف ایک ضلع پشاور ہی میں ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف کاروائی سے کیا پیغام جائے گا؟ کہیں اِس کے پیچھے کوئی سیاسی محرک تو کارفرما نہیں کیونکہ جن افراد کی فہرست مرتب کی گئی ہے اُن کی پشت پناہی پر کوئی نہ کوئی سیاسی مہرہ دکھائی دیتا ہے! کیا وجہ ہے کہ دیگر اضلاع میں ‘سپیشل برانچ‘ کے وسائل کو پشاور سے ملتے جلتے کردار والے ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف استعمال نہیں کیا جارہا؟

خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ سے یہ سوال بھی ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں ’قبرستانوں کی اراضی‘ پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی سست رو‘ غیراعلانیہ معطل یا مؤخر کیوں کر دی گئی جبکہ ایسے افراد کے خلاف زیادہ ثبوت جمع کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور اِس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے واضح احکامات بھی پہلے سے رہنمائی کے لئے موجود ہیں کہ ’’قبرستانوں کی سینکڑوں ایکڑ اراضی قبضہ واگزار کرائی جائے۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ اگرچہ عدالتی احکامات موجود ہیں اور ایک تحریک کی صورت ’قبرستانوں کو بچانے کے لئے‘ شہری اپنی جان و مال کے نقصانات کی پرواہ کئے بغیر سر پر کفن باندھے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی دن دیہاڑے قبرستانوں کی اراضی پر تجاوزات قائم ہونے کاسلسلہ جوں کا توں جاری ہے اور یہ رجحان صرف پشاور ہی تک محدود نہیں بلکہ کم و بیش سبھی اضلاع میں شہرخاموشاں پر تعمیر ہونے والی مستقل تجاوزات آسمان سے باتیں کر رہی ہیں! ابتدائی معلومات کے مطابق ’سپیشل برانچ (پولیس کے خفیہ ادارے)‘ کی مرتب کردہ فہرست میں ’محکمۂ مال‘ کے ریکارڈ سے مدد لی گئی ہے۔ جس کے مطابق پشاور شہر کے علاقے میں 60‘ چھاؤنی (کنٹونمنٹ) کے علاقے میں 39 جبکہ دیہی علاقے میں 30 ایسے افراد ہیں جنہوں نے جائیدادئیں قبضہ کر رکھی ہیں۔ اگرچہ فہرست میں ناموں کے سامنے ایک الگ خانہ بنا کر اِن افراد کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی شخصیات کے نام درج نہیں کئے گئے لیکن ذرائع کا کہناہے کہ سیاست دان‘ پولیس اہلکار اُور افسرشاہی (اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) قبضہ مافیا کے ساتھ جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِس میں پٹوار خانے کی کارستانیوں کا ذکر نہیں اور نہ ہی ماتحت عدالتوں میں بیٹھے اُن معزز منصف صاحبان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جو عام آدمی کی درخواست کو خارج اور شک کا فائدہ ہمیشہ قابضین کو ہی دیتے رہے ہیں!

مسئلہ جائیداد کے قبضے یا کمزور طبقات کے حقوق غصب کرنے کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ طرز حکمرانی میں پائے جانے والی خرابیوں کا ہے۔ ’گڈ گورننس‘ نہ ہونے کی وجہ سے کئی خرابیاں در آئی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک مافیا نے عوام کی اکثریت کو پریشان کر رکھا ہے۔ جائیداد کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل ’چیونٹی کی رفتار‘ سے جاری ہے جس کی راہ میں پٹوار خانہ‘ پراپرٹی ڈیلرز‘ وکیل‘ سیاست دان اور نجانے کتنے ہی اَن دیکھے ہاتھ ملوث ہیں۔ جو قبضہ کرتے ہیں وہ تو ایک نہایت ہی چھوٹا اور معمولی طبقہ ہے جنہیں ’بہادر‘ بنانے والوں پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جرائم کرنے والوں میں قانون کا خوف نہیں رہا۔ پولیس والے کو دیکھ کر پسینہ صرف شریف لوگوں کو ہی کیوں آتا ہے؟ تھانہ کچہری کے معاملات سے نہ گھبرانے والے کون ہیں؟ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ قانون شکنی ایک ایسا پیشہ (ذریعۂ روزگار) بن چکا ہے‘ جس سے وابستہ افراد میں نہایت ہی تعلیم یافتہ نفوس سے لیکر انسانی جان کی حرمت سے ناآشنا افراد شامل ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ جلدبازی کی بجائے قبضہ مافیا کے اصل سرغنوں کے خلاف دائرہ تنگ کرے۔ اسپیشل برانچ کے ذریعے سرکاری ملازمین کے اثاثوں میں اضافے اور اہل و عیال کے مختلف ناموں سے خریدی جانے والی جائیدادوں کی فہرست بھی مرتب کی جائے۔ اگر قانون ساز اراکین اسمبلی سے ہر سال اُن کے اثاثوں کی فہرستیں طلب کی جاسکتی ہیں تو برطانیہ کی طرز پر سرکاری ملازمین سے کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ وہ گذشتہ بیس برس یا اپنی مدت ملازمت کی کل مدت کے دوران خرید و فروخت کی جانے والی جملہ جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بچہ بغل میں ہو اُور پولیس قبضہ مافیا کے مجرم کی تلاش کرتے ہوئے یہاں وہاں صرف گرد چھان رہی ہو! جس کا حاصل گرد کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔

 ’قبضہ مافیا‘ کو ناقص العقل (مالی طور پر کمزور اور بے یارومددگار بھی) نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ خود کو پولیس کے کسی نئے تابڑ توڑ (لیکن متوقع و اعلانیہ) حملے سے نہ بچا سکے۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ’قبضہ مافیا‘ کوئی ایسا جرم نہیں کہ یہ صرف ایک ہی شعبے (اراضی) کا احاطہ کرتا ہو بلکہ اِس کی کئی ایک شاخیں بھی ہیں اور اس کے کئی کرداروں کو تو عدالتیں مفرور قرار دے چکی ہے۔ بھلا جن مفروروں کو تین دہائیوں سے پولیس گرفتار نہیں کر سکی اور وہ نہ صرف موبائل فونز کا استعمال دھڑلے سے کر رہے ہیں بلکہ پوری طرح فعال بھی ہیں تو کوئی ایسی کاروائی کیسے کامیاب ہو پائے گی‘ جس کے تانے بانے صرف قبائلی علاقوں ہی میں روپوش افراد سے نہیں بلکہ پوش علاقوں میں پرآسائش زندگی بسر کرنے والے بااختیار اُن افراد سے بھی ہے جنہوں نے ’دامے درہمے سخنے‘ سیاست میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے!

Sunday, June 21, 2015

Jun2015: Agriculture is everything but not a priority

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خیبرپختونخوا: زرعی ترجیحات
اس سے زیادہ خسارہ اُور کیا ہوگا کہ ہم اپنی ہی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے ہیں لیکن اِس کا احساس تک نہیں رکھتے! خیبرپختونخوا کے کاشتکاروں کی نمائندوں تنظیم ’ایوان زراعت‘ کی جانب سے دردمندی اور التجائیہ انداز میں مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ’’صوبائی حکومت آئندہ 20برس کے لئے ’زیرکاشت زمین‘ کا غیرزرعی (کسی دوسرے) مقصد کے لئے استعمال پر پابندی عائد کرے۔‘‘ کون نہیں جانتا کہ ’لینڈ مافیا‘ کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اُور وہ محض اپنے مفاد کے لئے غذائی تحفظ جیسی اہم ضرورت کو کس قدر خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ زرخیز زرعی زمین کی فروخت پر کسان کا اختیار (حق شفہ) نہیں رہا جبکہ سرمایہ دار کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ جہاں اور جب چاہے رہائشی کالونیاں یا دیگر منصوبے تعمیر کرنے کے لئے جتنی چاہے زمین حاصل کرلے۔ ایوان زراعت سمیت ماہرین خیبرپختونخوا میں ’حق شفہ‘ کی فوری بحالی اُور آئندہ بیس برس تک قابل زراعت اراضی کے کسی بھی غیرزرعی مقصد سے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ایسے ’منطقی دلائل‘ دیتے ہیں جن کی حقیقت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

صوبائی (خیبرپختونخوا) محکمۂ زراعت کا قیام ’14 اگست 1973ء‘ کو عمل میں لایا گیا جس کا بنیادی کام زراعت کی ترقی‘ پائیدار ترقی کی حوصلہ افزائی‘ زراعت سے وابستہ افراد کی مشکلات کا حل‘ اُن کی وقتاً فوقتا رہنمائی‘ فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے تحقیق‘ موسمی اُتارچڑھاؤ پر نظر اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ زرعی شعبے سے وابستہ افراد کا مستقبل محفوظ بنانا بھی رکھا گیا تاکہ اُس طبقے کے مفادات کا تحفظ عملی وآئینی طور پر یقینی بنایا جاسکے جو اپنے خون پسینے اور محنت سے اَناج اُگاتے ہیں۔ کم و بیش اکتالیس برس گزر گئے اور ہمیں محکمۂ زراعت کا حاصل یہ ملا کہ فی ایکڑ پیداوار بڑھی لیکن وہ زرعی اراضی ہر سال سکڑتی ہی چلی گئی‘ جہاں وافر مقدار میں نہری پانی دستیاب تھا اُور ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ زراعت کے نام پر تنخواہیں‘ مراعات اُور مراتب پانے والے اپنی اپنی ضمیر کی عدالت میں شرمسار بھی نہیں کہ اُنہوں نے کس قدر اور کتنا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ شعبہ جو ستر فیصد سے زائد روزگار فراہم کرتا ہے اُس محروم توجہ کی حالت اِس حد تک خراب ہو چکی ہے‘ کہ زراعت کی بجائے زمین کو رہائشی کالونیوں کے فروخت کرنا زیادہ منافع بخش سمجھا جانے لگا ہے!

جنوبی اضلاع میں میلوں پر پھیلی اراضی قیام پاکستان کے وقت بنجر تھی تو آج بھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کاشتکاری ممکن نہیں۔ ایک اُمید تھی کہ اِن علاقوں میں زیتون کی کاشت کو ترقی دی جائے گی لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم نے ’آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ‘ کو تحلیل کرکے ایک ایسا ستم کیا‘ جس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہوگا۔ پھلوں سے لدے باغات والوں کی قسمت آج بھی وہی کی وہی غربت شناس ہے۔ زرعی پیداواری ضروریات کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کر دیا گیا کہ کسی فصل پر اُٹھنے والے اخراجات اُس کی مارکیٹ قیمت سے زیادہ ہوچکی ہے۔ جب زرعی اراضی سکڑ رہی ہو تو اس کا ایک منفی اثر دودھ دینے والے جانوروں (اُس ضمنی شعبے) پر بھی ہوتا ہے جن کے لئے چارہ گاہیں نہیں رہیں۔ ہم سنتے رہے کہ ایک ایسی بکری ہوگی جو گائے کے برابر دودھ دے گی اور اس مقصد کے لئے بکریاں درآمد کرکے تحقیق بھی ہوئی لیکن شاید یہ بکریاں ’ہضم‘ ہو چکی ہیں! ایک نمائشی ’زرعی پالیسی (لائحہ عمل)‘ تو موجود ہے جس میں ٹیکنالوجی پر انحصار ایک درجہ اہمیت بھی رکھتا ہے لیکن اگر بنیادی ضرورت یعنی ’زرخیز زرعی زمین‘ ہی نہ رہی تو ایسے اقدامات‘ سوچ اور سائنسی ترقی سے صرف فائلوں کا پیٹ بھرا جا سکے گا اُور بس!

خیبرپختونخوا کی زرعی حقائق (پروفائل) سمجھنے سے قبل 408میل (656.612 کلومیٹر) لمبائی اور 279 میل (449.007کلومیٹر) چوڑائی والے احاطے میں موجود وسائل پر نظرکرنا ہوگی جو تین پہاڑی سلسلوں (ہمالیہ‘ قراقرم اور ہندوکش) کے ساتھ ہیں۔ یہاں زمین اپنی ساخت اُور جغرافیائی لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ہزارہ ڈویژن کا ہے۔ دوسرا پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان اُورتیسرا سنگلاخ پہاڑی سلسلہ ہے جو پاکستان اُور اَفغانستان کے درمیان سرحد (ڈیورنڈ لائن) سے متصل ہے۔ خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع سات قبائلی علاقوں اور پانچ فرنیٹئر ریجنز سے جڑے ہیں اُور چونکہ قبائلی علاقوں میں امن بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو جب تک وہاں مکمل امن بحال نہیں ہو جاتا اور نقل مکانی کرنے والے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ نہیں جاتے زراعت کا پہیہ پھر سے نہیں چل پائے گا۔ اِس سلسلے میں تجویز ہے کہ نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی و آبادکاری میں زراعت کو سرفہرست و ترجیح رکھا جائے‘ جس سے پائیدار نتائج حاصل ہوں گے چونکہ خیبرپختونخوا کا زیادہ تر حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اور ہموار میدانی علاقے کم ہیں اِس لئے زرخیز قطعات اراضی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ خیبرپختونخوا میں سالانہ بارشوں کا تناسب 25سے 58 انچ ہے‘ جس میں تبدیلی تشویشناک ہے اور اگرچہ بارشیں اب بھی اِسی سالانہ اوسط سے ہو رہی ہیں لیکن اس کے تبدیل اوقات زراعت کے حق میں موافق نہیں رہے۔ بالائی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی سے موسمی تغیرات اور بارشوں کے ساتھ زمین کے کٹاؤ کا اثر دریاؤں کی تہہ میں بیٹھنے والی مٹی اور زرخیزی کے متاثر ہونے کی صورت ظاہر ہو رہا ہے‘ جس کے بارے میں بہت کم تشویش اور تحقیق پائی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا اور متصل قبائلی علاقوں میں پاکستان کی کل آبادی کا 16فیصد حصہ رہتا ہے۔ جاپان حکومت کے امدادی ادارے ’جائیکا‘ کی ایک مفصل جائزے رپورٹ کے مطابق ’’خیبرپختونخوا میں کل زیرکاشت اراضی 13.89 ملین (ایک کروڑ تیس لاکھ 89ہزار) ایکڑز ہے جس میں سے 22.23فیصد حصے پر جنگلات اور صرف 23.90 فیصد حصے پر زراعت ہوتی ہے جبکہ 22.49فیصد رقبہ ایسا ہے جہاں اگر پانی فراہم کردیا جائے تو اُسے زیرکاشت لایا جاسکتا ہے۔‘‘

 پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کی زرعی اراضی منفرد خصوصیات کی حامل ہے اور موسمی تغیرات کے لحاظ سے مرتب کی جانے والی کسوٹی (اکائی) پر 10میں سے یہاں 6 مختلف قسم کی آب و ہوا پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سبزی‘ پھل‘ اجناس کی فصلیں‘ پھول‘ ادویاتی جڑی بوٹیاں کثرت سے پیدا ہوتی ہیں اور یہ تنوع ملک کے دیگر حصوں میں نہیں۔‘‘ تو کیا خیبرپختونخوا کا محکمۂ زراعت قدرت کی اِن عنایات کے تحفظ و بقاء کے لئے خاطرخواہ اقدامات کر رہا ہے؟ سال 1991ء میں طے پانے والے پانی کے قومی تقسیمی معاہدے (نیشنل واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ) کے تحت خیبرپختونخوا کو سالانہ 8.78ملین ایکڑ فٹ پانی ملاتا ہے لیکن اس میں سے صرف 5.5ملین ایکڑ فٹ پانی ہی زیراستعمال ہے! چونکہ خیبرپختونخوا میں نہری نظام توسیع و ترقی چاہتا ہے جس کی عدم موجودگی کے باعث خیبرپختونخوا کے حصے کا 3.2 ملین ایکڑ پانی سے صوبہ پنجاب استفادہ کر رہا ہے! اِن اعدادوشمار کی روشنی میں ’خیبرپختونخوا کی زرعی ترجیحات‘ مرتب کرنا کوئی مشکل کام (راکٹ سائنس) نہیں لیکن اَلمیہ ہے کہ ایک تو زراعت کی توسیع اور تغیر پذیر موسموں و بیماریوں کا مقابلہ کرنے والے بیج کی تیاری‘ بیج بینک کے ذریعے زراعت کے روائتی تجربے سے استفادہ‘ کسانوں کی مالی معاونت اور زمین کی زرخیزی کو متاثر کرنے والے عوامل کو خاطرخواہ توجہ حاصل نہیں تو دوسری طرف زیرکاشت زرعی اراضی کا رقبہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔

 زراعت کے بارے میں سوچنے سے عار کیوں؟ زرعی گریجویٹس کی صلاحیتوں پر اعتماد کیوں نہیں؟ زرعی تعلیم کے اداروں کی تحقیق لائق توجہ و غورطلب کیوں نہیں؟ زرعی سائنسدانوں کی سرپرستی اور زرعی علوم کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی قبلہ نما کیوں نہیں؟ ہمارے رویئے‘ بول چال‘ سوچ‘ غوروفکر‘ عمل اور زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے خیبرپختونخوا میں ذرائع ابلاغ کی توجہ زراعت گریز کیوں؟

TRANSLATION: Rangers v Zardari

Rangers v Zardari
قانون بمقابلہ سیاست!
صوبہ سندھ سمیت پاکستان میں امن و امان کی صورتحال معمول پر لانے کا دارومدار بڑی حد تک ’کراچی کے امن‘ پر ہے جہاں سندھ رینجرز اُن عناصر کے خلاف دائرہ تنگ کر رہی ہے‘ جنہوں نے دھانس‘ دھاندلی یا طاقت و اختیار کے زور پر مالی و انتظامی بدعنوانیاں کیں۔ پندرہ جون کے روز ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا تو گویا یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترداف ثابت ہوا جو اِس کاروائی سے بلبلا اُٹھے! سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بلال اکبر کی یہ کاروائی کسی بھی صورت فوج کے صدر دفتر (جی ایچ کیو) سے منظوری حاصل کئے بناء ممکن ہی نہیں تھی اور اگر زیادہ وضاحت سے بات کی جائے تو قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے نے گذشتہ 16برس میں اِس قسم کی کاروائی نہیں کی تھی جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما نظر آتی ہے کہ ’جی ایچ کیو‘ نے اپنی بندوقوں کا رُخ اُن افراد کی جانب کر رکھا ہے‘ جو بظاہر دودھ سے نہائے ہوئے ہیں اور جن کو یہ زعم ہے کہ اگر وہ دامن نچوڑ دیں تو اُس پانی سے فرشتے وضو کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھیں گے!

شرفاء‘ امرأ اُور اہل سیاست پر مشتمل حکمراں طبقے کی نہ صرف کارستانیاں ایک ایک کرکے سامنے آ رہی ہیں بلکہ اُن کا شدید ردعمل بھی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا کالا ہے جسے وہ اظہر من الشمس نہیں دیکھنا چاہتے۔ ذہن نشین رہے کہ ’وائٹ کالر کرائم‘ کی اصطلاح 1939ء میں اخذ کی گئی تھی جو ایک سماجی کارکن ’سوشالوجسٹ ایڈون سوتھرلینڈ (Edwin Sutherland)‘ کا نتیجہ خیال تھا اور اس کی وضاحت وہ یوں کرتے ہیں کہ ’’جرم کا ارتکاب کرنے والا یا کرنے والے ایسے کردار جنہیں معاشرے میں کسی وجہ سے بلند مقام حاصل ہو۔‘‘ اسی اصطلاح کے زمرے میں وہ حکومتی اہلکار اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز شخصیات بھی آتی ہیں جو اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مرتکب ہوتے ہیں اور ایسے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں جو اُن کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح ’’گیم چینجر (کھیل کا پاسہ پلٹنے)‘‘ کی اصطلاح کسی ایسی کاروائی یا فعل کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جس کے بعد کوئی منظرنامہ اِس حد تک تبدیل ہو جائے کہ اس سے متعلقہ افراد کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عمومی تاثر تبدیل ہو بلکہ اُس ’گیم چینجر‘ فعل کے بعد ظاہری شہرت‘ روائتی تعارف‘ قول و فعل‘ اُور ’فکروعمل‘ تک میں تبدیلی آ جائے۔ پاکستان ایسے ہی فیصلہ کن مرحلے کے کنارے آ پہنچا ہے جسے ’گیم چینجر لمحہ‘ کہا جاسکتا ہے اور اِس کا حاصل یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کرنے والوں اور منظم جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان نہ صرف تعلق توڑنے کا عزم کر رکھا ہے بلکہ وہ ان کے ایک ایک کرتوت بھی ظاہر کرنے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث پیپلزپارٹی کی قیادت و نمائندگی کرنے والے 59 سالہ (پیدائش 26جولائی 1955) ’شریک چیئرپرسن‘ نے سولہ جون کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک ادارے کے خلاف جس شدت سے ’اظہار ناراضگی‘ کیا اُس کا سبب یہی تھا کہ ’فوج کے ادارے نے ایسے ’وائٹ کالر کرائمز‘ کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا آغاز کر دیا ہے جنہوں نے مالی بدعنوانیاں کیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس کی اجازت دی تھی اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ اجازت بادلنخواستہ دی گئی تھی اور اب ’جی ایچ کیو‘ کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ جرائم و سیاست کے درمیان تعلق ہو یا ماضی کے سیاسی کرداروں کی جانب سے کی گئیں ’مالی بدعنوانیاں‘ سب کے خلاف کاروائی ہو گی۔‘ گذشتہ چند روز میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ 1: فوج کے صدر دفتر نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن کے خلاف دائرہ تنگ کیا ہے۔ 2: فوج کو وفاقی حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ وہ سندھ میں جاری ’آپریشن کلین اپ‘ کو اُس کے منطقی انجام تک پہنچائے۔ 3: سندھ کے وزیراعلیٰ سیّد قائم علی شاہ یہ بات علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ ’’سندھ رینجرز کی کاروائیاں اُن کو دیئے گئے آئینی کردار’ دائرہ کار و اختیارات سے متجاوز ہیں۔‘‘ 4: سندھ رینجرز کا یہ مؤقف ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ سندھ کے حالات معمول پرلانے کے لئے قائم ہونے والی ایک اعلیٰ اختیاراتی ’اپیکس کمیٹی‘ کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش ہے۔ 5: پیپلزپارٹی کے رہنما اُور معروف قانون داں بیرسٹر اعتزاز احسن یہ بات ’آن دی ریکارڈ‘ کہہ چکے ہیں کہ ’اپیکس کمیٹی‘ کی کوئی آئینی حیثیت یا حقیقت نہیں۔

پاک فوج ایک مؤثر اور عوام کی نظر میں اچھی ساکھ رکھنے والا ادارہ ہے جس کے مقابلے سیاستدانوں کے خلاف پورے ملک میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ اس طبقے نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ فوج کا کام ملک کی جغرافیائی‘ داخلی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتی ہے جس کے لئے اُنہیں اگر کوئی اضافی آئینی ذمہ داری نہ بھی دی جائے تو وہ ہر اُس کردار کے خلاف کاروائی کرسکتی ہے جو ملک کی سلامتی‘ استحکام اور اِس کے وسائل کے لئے خطرہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کے وسائل استعمال کرنے والے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ’’وائٹ کالر کرائمز کرنے والوں کے خلاف کاروائی صرف صوبہ سندھ ہی کی حد تک کیوں محدود ہے؟‘‘

سندھ رینجرز یہ کہہ سکتی ہے کہ اُس نے ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے دفتر پر چھاپہ اِس لئے مارا تاکہ وہ دہشت گردوں کو ملنے والے مالی وسائل کا کھوج لگا سکے۔ سندھ رینجرز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کے سامنے یہ بیان دیا گای ہے کہ ’فشرمینز کوآپریٹو سوسائٹی کے نائب صدر سلطان قمر صدیقی نے بیان دیا ہے کہ اُس نے مالی بدعنوانی سے حاصل ہونے والی 70فیصد رقم بلاول ہاؤس کو دی تھی۔ معلوم ہوا کہ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘ کے ادارے کا تعلق دہشت گردی سے کم اُور 1 ارب روپے سالانہ کی مالی بدعنوانی سے متعلق ہے۔

کیا پاک فوج کا ادارہ بناء خصوصی آئینی اختیارات تفویض ہوئے ملک سے ایسی مالی وانتظامی بدعنوانیوں کا مکمل خاتمہ کر سکے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج نے سندھ کو بدعنوانوں سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ آصف علی زرداری اور الطاف حسین چاہتے ہیں کہ جو ہے اور جیسا ہے بدستور جاری رہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ فوج کے ادارے کے پاس اِس قسم کا آئینی اختیار نہیں کہ سرکاری اداروں کے معاملات کی براہ راست چھان بین کرسکے۔ اسی لئے فوج کو نواز شریف حکومت کی حمایت درکار ہے تاکہ سندھ میں صفائی کا عمل مکمل کر سکے۔ فوج یہ بھی سمجھتی ہے کہ وقت نہایت اہم ہے اور اسے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ جلد از جلد کرنا ہوگا جبکہ نواز شریف کے لئے اگر فوج کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا تو یہ عمل درخشاں مستقبل کے حصول سے دستبردار ہونے جیسا آخری موقع ہوگا۔

کیا ہم مصلحت و مفاہمت کے ذریعے حالات کو جوں کی توں والی ڈگر پر ڈال دیں گے؟ کیا سال 2015ء میں ایک نیا ’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘ تیار کیا جائے گا‘ جس میں سیاست دانوں کی ماضی میں ہوئی جملہ بدعنوانیوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ مصلحت ومصالحت کی تعریف سمجھنے کے لئے کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ جیسے ہمارے پاس ایک کیک (cake) ہو اور اُس کے اس طرح مساوی ٹکڑے کئے جائیں کہ اُس کا حصہ پانے والے ہر خواہشمند کو یہی لگے کہ اُس کے حصے میں سب سے بڑے سائز کا ٹکڑا آیا ہے اور اِس مثال میں ’کیک‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے!

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:   شبیر حسین اِمام)

Saturday, June 20, 2015

Jun2015: Trust deficit between US & Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ناکافی اعتراف
’’ہم ہوئے کافر‘ تو وہ کافر مسلماں ہو گیا!‘‘ جیسی صورتحال سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے ’اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں اِس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ’انسداد دہشت گردی‘ کی کوششوں میں ’پاکستان‘ غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’پاکستان‘ کا شمار اُن چند ممالک میں کیا گیا ہے جو امریکہ کے ’انتہائی اہم ساتھی‘ ہیں! یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں شامل تعاون نہ کرنے والے ممالک کو سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’پاکستان متعدد شدت پسند گروپوں سے مقابلہ کررہا ہے جن میں سے کئی پاکستانی حکومت یا حریف مذہبی فرقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں!

سفارتکاری کی اپنی زبان اور لب و لہجہ ہوتا ہے۔ امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ پینٹاگون یا وائٹ ہاؤس کی ترجمانی کرنے والوں کے پاس ایسے الفاظ کا ذخیرہ موجود رہتا ہے‘ جن کے ایک سے زیادہ معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ الفاظ کے انتخاب اُور اُن کی ادائیگی میں احتیاط شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کی سفارتکاری کا حصہ ہو۔ ضمنی طور پر عرض ہے کہ اگر قارئین الفاظ کے چناؤ میں ’امریکی مہارت‘ یا ’جادوگری‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو وہ ہر روز براہ راست نشر ہونے والی ’اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ کی بریفنگز دیکھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ بریفنگ دیکھنے کے لئے آپ کو ’ڈش اینٹینا‘ کی ضرورت ہوگی جس کے ذریعے ’ایشیاء سیٹ(AsiaSat)‘ پر موجود سی اسپین (C-Span)‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائس آف امریکہ (VoA)کی نشریات مفت دیکھی جا سکتی ہیں۔ تو بات ہو رہی تھی ذومعنی الفاظ اُور اُن کے انتخاب میں امریکی مہارت کے حوالے سے جس کا مظاہرہ اُس سالانہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے‘ جو بیک وقت پاکستان کی تعریف بھی کر رہی ہے اور ساتھ ہی ایک وارننگ (دھمکی) بھی جاری کر دی گئی ہے کہ اگر پاکستان ’ڈو مور‘ نہیں کرتا تو آنے والے دنوں میں اُسے مشکل و مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں سال دوہزار چودہ کے دوران پاکستان کا تعاون ملا جلا رہا کیونکہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی تربیت دینے والے امریکی تربیت کاروں کو ویزے دینے سے انکار کرتا رہا! رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کی قیادت اور تنظیم کو پہنچنے والے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے اِس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ القاعدہ کی عالمی قیادت خطے کے دوردراز علاقوں میں موجود و فعال ہے۔ القاعدہ کی قیادت کو خطے میں افغان‘ پاکستانی اور بین الاقوامی فورسیز سے دباؤ کا سامنا ہے جبکہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کے آپریشن سے گروپ کی آزادی سے کام کرنے کی طاقت مزید متاثر ہوئی ہے۔ افغانستان سے متعلق باب میں کہا گیا کہ ملک اب بھی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے بڑے حملوں کا سامنا کر رہا ہے جبکہ ان میں سے کئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی۔ سالنامہ رپورٹ میں پاکستان کی اُن فوجی مہمات کا ذکر بھی ملتا ہے‘ جنہیں وسعت دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ’لشکر طیبہ‘ کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اِن جیسے گروہوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جا رہی جو اب بھی حکومت کی نرم دلی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر عسکری تربیت دینے اور عسکریت پسندی و انتہاء پسندی پھیلانے کے لئے مالی وسائل جمع کر رہے ہیں! افغان طالبان اور حقانی قیادت کی پاکستان میں اب بھی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں‘ پاکستانی فوج کے آپریشنز نے ان کی کاروائیوں کو متاثر ضرور کیا تاہم انہیں براہ راست نشانہ نہیں بنایا گیا۔

سال دو ہزار چودہ کے دوران شروع کی گئیں دو فوجی کاروائیوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے کراچی میں جرائم پیشہ منظم گروہوں اور عسکریت پسندوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کیا انتہاء پسندی اور اس سے جنم لینے والی عسکریت پسندی صرف پاکستان کا مسئلہ ہے یا دنیا کے دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہیں۔ اِس سلسلے میں اَمریکہ کے مرتب کردہ اَعدادوشمار کے مطابق دولت اسلامیہ نے 1083‘ طالبان نے 894 اور بوکو حرام نے 662 حملے کئے۔ یہ صورتحال کسی بھی صورت خوش آئند نہیں کہ اربوں ڈالر اور ٹیکنالوجی کے بے دریغ و غیرمحتاط استعمال کے باوجود انتہاء پسندی و عسکریت پسندی کو شکست نہیں دی جاسکی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کی جڑ یعنی ’غربت و جہالت‘ کم کرنے کے لئے وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں کی جا رہی۔ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ جہاں امتیازات و طبقات کی حکمرانی ہو‘ وہاں اطمینان اور سکون کی بجائے محرومیاں پروان چڑھتی ہیں۔

 امریکہ سمیت مغربی دنیا بشمول پاکستان مسلمان ممالک سے کس قسم کا تعاون چاہتی ہے اُور پاکستان کی اپنے دوست ممالک سے توقعات ایسی دو الگ بلکہ متضاد باتیں ہیں جن کی اصلاح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہوئے نقصانات کا حسب وعدہ اَزالہ کرنے سے ہوگا بصورت دیگر ہرسال دہشت گردی کے اعدادوشمار اِسی طرح چونکا دینے والے ہوں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا کہ پاکستان کی عسکری قیادت اُور اَمریکہ کے درمیان تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہوں لیکن سوچنا یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں رہ جانے والی کمی کا تعلق ایک دوسرے پر ’اِعتماد‘ کی کمی سے تو نہیں!

Jun2015: New DATA BASE for ECP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جہل کی گرداب
اصلاح کی ضرورت ہر کوئی محسوس کرتا ہے لیکن اِس کے عملی اطلاق کے لئے آمادگی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ طرز حکمرانی میں مالی و انتظامی بدعنوانیاں ہوں یا عام انتخابات میں دھاندلی کے امکانات‘ روائتی کو جاری و ساری رکھنے والی جماعتیں اُور اُن کے اتحادی اِقدار تک رسائی کے لئے ’صراط مستقیم‘ کی بجائے چور دروازے اور سیڑھیوں کا استعمال ترک کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ اِسی طرزعمل میں اُن کی بقاء ہے۔ مسئلہ نیت میں پائے جانے والے کھوٹ کا بھی ہے یا محنت کش قوم کی قیادت اِس قدر آرام طلب ہو چکی ہے کہ مشکل و پیچیدہ کاموں کو ہاتھ لگانا ہی نہیں چاہتی۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گجرانوالہ (پنجاب اسمبلی) کی ایک نشست پر ہونے جا رہے ضمنی انتخابات کے دوران ووٹرز کی تصدیق کے لئے ’بائیو میٹرک مشین‘ کے استعمال کے تجربے کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔ یہ فیصلہ ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی استعداد میں کمی کے انکشاف کے بعد کیا گیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ’الیکشن کمیشن‘ باقاعدہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ووٹروں کی آن لائن تصدیق (بائیومیٹرک) کا نظام متعارف کرائے گی اور اس کے لئے ادارے نے بڑے پیمانے پر تکنیکی سازوسامان کی خریداری کا جائزہ لینا بھی شروع کر دیا ہے۔ اِس دوران کمیشن کا خیال تھا کہ چھبیس جولائی کو ہونے والے پی پی 100گوجرانوالہ کی نشست کے لئے ضمنی انتخاب کے موقع پر ایک ’پائلٹ پروجیکٹ‘ چلایا جائے اور ہر ووٹر کی تصدیق پولنگ بوتھ پر اُس کے ووٹ ڈالنے سے قبل ہی کر لی جائے۔ بنیادی طور پر بائیومیٹرک تجربے کا یہ خیال ’الیکشن کمیشن‘ ہی کی کمیٹی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا‘ جس کے سربراہ اس کے انتظامی ڈائریکٹرجنرل ہیں۔ کمیٹی کا نکتہ نظر تھا کہ ضمنی انتخاب میں محدود سطح پر نادرا کے آن لائن تصدیقی نظام کا تجربہ کرنا چاہئے۔ اس منصوبے کے تحت اس انتخابی حلقے میں پولنگ اسٹیشنوں پر نادرا کی مشینیں نصب کی جانی تھیں۔ تاکہ آن لائن سسٹم کے ذریعے ان کے انگوٹھوں کے نشانوں کی تصدیق کے بعد ووٹروں کو بیلٹ پیپرز جاری کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران نادرا کی ایک ٹیکنیکل ٹیم نے بتایا کہ اس حلقے میں ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے‘ اور اس قدر بڑی تعداد میں ووٹروں کی تصدیق کے لئے نادرا کے نظام کو کم از کم 9گھنٹے درکار ہوں گے۔ نادرا کی ٹیم نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ یہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے کہ اس کے پاس چوبیس گھنٹوں میں ساٹھ سے ستر ہزار انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرنے کی استعداد ہے! الیکشن کمیشن نے جب نادرا حکام سے دریافت کیا کہ اُس وقت کیا ہوگا جبکہ ملک میں قومی اسمبلی کے ایک ایسے حلقہ انتخاب میں تصدیق درکار ہوگی‘ جہاں ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہوسکتی ہے تو نادرا کی ٹیم نے کہا کہ یہ اتھارٹی بنیادی طور پر رجسٹریشن کا کام کرتی ہے‘ اور اس کا بنیادی ڈھانچہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کے اجرأ کے لئے تیار کیا گیا تھا عام انتخابات کے لئے نہیں! اس سے پہلے تصدیق کے لئے پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کے ڈیٹا کے اسٹوریج کے منصوبے کو بھی نادرا نے مسترد کردیا‘ اس کا کہنا تھا کہ اس کامطلب اس ڈیٹا کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیو میٹرک تصدیق سسٹم کا خیال انتخابی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لئے تھا‘ جس پر ہر سطح میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ موجودہ نادرا کا نظام تکنیکی لحاظ سے عام انتخابات کرانے کے لئے کافی نہیں۔ اِس صورتحال میں صرف ایک ہی حل باقی رہ جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے زیادہ ’نادرا‘ کی استعداد میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے بلاتاخیر کام کا آغاز کر دینا چاہئے۔

عام انتخابات میں الیکٹرانک و آن لائن تصدیق کا طریقۂ کار ایک ایسی ’ڈیٹابیس‘ سے رابطے کے ذریعے ہوتا ہے جس میں کروڑوں کی تعداد میں کوائف جمع ہوتے ہیں۔ نادرا پر انحصار کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن اپنا الگ ’ڈیٹابیس‘ تیار کر سکتا ہے جس میں کسی خاندان کی جملہ شناختی و حساس معلومات کی بجائے صرف نام‘ ولدیت‘ انگوٹھے کا نشان اور ووٹ کے اندراج کے انتخابی حلقے کا ذکر موجود ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن ہر ووٹر کو سات ڈیجیٹس پر مشتمل ایک امتیازی نمبر جاری کر دے جس کے ذریعے وہ ملک کے کسی بھی حصے یا آن لائن تصدیق کے بعد بذریعہ موبائل‘ یا ویب سائٹ اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے۔

 نادرا حکام کا یہ مؤقف مضحکہ خیزہے کہ عام انتخابات کے لئے ووٹرز کے کوائف بائیو میٹرک تصدیق کے لئے فراہم کرنے سے یہ معلومات افشا ہو سکتی ہیں جبکہ اُس سے کہیں گنا زیادہ معلومات پہلے ہی امریکہ اور اُن یورپی ممالک کو دی جا چکی ہے جنہوں نے ’نادرا‘ بنانے کے لئے مالی و تکنیکی امداد فراہم کی تھی! اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا ’فلور آف دی ہاؤس‘ پر دیا گیا بیان ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں اُنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ ۔۔۔’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ’نادرا‘ کا ریکارڈ امریکہ کو فراہم کیا گیا ہے۔‘‘ ایسی صورت میں ریکارڈ کو خفیہ رکھنے کی کوئی ضرورت و منطق باقی نہیں رہتی۔ حال ہی میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے اُن تمام فیکس مشینوں اور کمپیوٹرز کو دفتروں سے نکال باہر کیا ہے جو امریکہ سمیت کئی ’دوست ممالک‘ کی جانب سے دیئے گئے تھے اور معلوم ہوا تھا کہ خود کو پاکستان کا دوست ظاہر کرنے والے ممالک نے جو کمپیوٹر اور فیکس مشینیں دیں تھیں وہ مطلوبہ نمبروں کے ساتھ خودکار طریقے سے ایسے نمبروں پر بھی فیکس اور ای میل ارسال کردیا کرتی تھیں‘جن کا دفتر خارجہ سے تعلق نہیں تھا اور یوں اسلام آباد میں کئی ایک سفارتخانے ایک لمبے عرصے تک جاسوسی کرتے رہے ہیں۔ اگر یہی کام پاکستان کے کسی سفارتخانے نے یورپ یا امریکہ میں کیا ہوتا تو عالمی سطح پر پاکستان کی اتنی سبکی ہوتی کہ جس کا بیان ممکن نہیں لیکن چونکہ ہمارا رویہ بھکاریوں جیسا ہے اِس لئے مفت کے کمپیوٹر اور فیکس مشینیں ہوں یا ادارہ شماریات‘ وزارت خزانہ‘ دفاع اور ’نادرا‘ جیسے حساس محکموں کا ’ڈیٹا (امور معلومہ)‘ ذخیرہ کرنے کے آلات‘ ہم فوری طور پر امداد کی پیشکش قبول کرنے میں قومی سلامتی تک کو داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

TRANSLATION: Moon sighting controversy!

Ending the moon-sighting controversy through science
رویتِ ہلال تنازع: حل کیا ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ صرف دو اسلامی مہینوں ’رمضان‘ اُور ’شوال‘ کا چاند دیکھنے پر اکثر تنازع پیدا ہوتا ہے؟ کیونکہ یہ دونوں وہ اسلامی مہینے ہیں جس میں فرقے سے بالاتر ہوکر مسلمان عبادتیں کرتے ہیں یا اجتماعی طورپر تہوار مناتے ہیں لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ہم سب اپنے فریج سحر اور افطار کی ضروری اشیاء سے بھرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے عید کے کپڑوں کی وقت پر سلائی کے لئے پریشان ہوتے ہیں لیکن اِس نفسانفسی کے ماحول میں ایک دوسرے سے پوچھ بھی لیتے ہیں‘ کہ یار‘ چاند کب ہے؟

کم علمی پر مبنی میڈیا رپورٹنگ اور غیر حقیقی باتوں پر فوراً یقین کر لینے والی ہماری ذہنیت کی وجہ سے ہم ہمیشہ ہی مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی پاکستان کو چاند دیکھنے میں ناکامی پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر جاتا ہے جب پشاور کی مسجد قاسم علی خان سے (گذشتہ سال کو چھوڑ کر) ملک کے باقی حصوں سے پہلے ہی رمضان المبارک کے آغاز اور اختتام کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ مسجد قاسم علی خان پر الزام لگاتے ہیں تو کچھ لوگ رویت ہلال کمیٹی پر‘ جبکہ کچھ لوگ اس پورے مسئلے سے لاعلم رہتے ہیں۔ اگر ہم اپنا کچھ وقت نکال چاند کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ تو جان سکتے ہیں کہ سائنس کی مدد سے یہ مسئلہ آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے اور اگر آپ مجھ سے پوچھیں‘ تو چاند دیکھنے کا مسئلہ سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں سورج‘ زمین اور چاند کی جیومیٹری سمجھنا ہوگی۔ قمری کلینڈر جو کہ ہجری یا اسلامی کلینڈر بھی کہلاتا ہے۔ زمین کے گرد چاند کی گردش پر مبنی ہے۔ دو پورے چاندوں کے درمیان 29.5 دن کا وقفہ ہوتا ہے۔ جب چاند زمین اور سورج کے عین درمیان آجاتا ہے‘ تو اسے چاند کی پیدائش کہتے ہیں۔ چاند کی پیدائش کے وقت اس پر پڑنے والی سورج کی تمام روشنی واپس منعکس ہوجاتی ہے اور زمین تک نہیں پہنچ پاتی‘ اسی لئے اپنی پیدائش کے وقت چاند زمین پر رہنے والے لوگوں کو نظر نہیں آتا اُور مکمل طور پر سیاہ ہوتا ہے۔ چاند کی پیدائش کے بعد گزرنے والا وقت ’چاند کی عمر‘ کہلاتا ہے۔
پیدائش کے بعد چاند اپنے مدار میں آگے کی جانب سفر شروع کرتا ہے‘ چنانچہ زمین سے دیکھنے پر سورج اور چاند کے درمیان فرقِ زاویہ بڑھنے لگتا ہے۔ چونکہ چاند کا مدار گول کے بجائے بیضوی ہے‘ اس لئے سال کے مختلف حصوں میں اس کی رفتار مختلف ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ زاویہ بھی مختلف شرح سے بڑھتا ہے۔ جیسے جیسے یہ زاویہ ’زیرو ڈگری‘ سے بڑھنے لگتا ہے‘ تو چاند ہلال کی شکل لینا شروع کرتا ہے۔
سید خالد شوکت‘ جو رویتِ ہلال کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ہیں اور کئی دہائیوں کا تجربہ رکھتے ہیں کے مطابق برہنہ آنکھ سے چاند دیکھنے کے لئے سورج اور چاند کے درمیان زاویہ کم از کم 10.5 ڈگری ہونا چاہئے۔ اتنا زاویہ حاصل کرنے کے لےء چاند کو اپنی پیدائش کے بعد 17سے 24گھنٹے تک لگ سکتے ہیں لہٰذا چاند نظر آنے کے لئے بنیادی شرط اس کی عمر نہیں‘ بلکہ زاویہ ہے۔ دوسری بات فضائی آلودگی بھی ہے جو چاند دیکھنے کے عمل کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔

تو پھر اصل تنازع کیا ہے؟ علماء اسلام کے نزدیک نئے اسلامی مہینے کے آغاز کے لئے چاند کو برہنہ آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے جبکہ علماء کے ایک گروہ کے مطابق صرف سائنسی حسابات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان دونوں نقطۂ نظر کی حمایت یا مخالفت کئے بغیر میں صرف یہ کہوں گا کہ جہاں تک آنکھ سے دیکھنے کی بات ہے‘ تو ہم سائنس سے مدد لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم حسابات اور جدید سیمولیشنز کے ذریعے یہ جان سکتے ہیں کہ چاند کب اور کہاں نظر آئے گا۔ آسمان میں کتنا اونچا (بلند) ہوگا اور اس کے نظر آنے کے امکانات کیا ہیں؟ ہم یہ حساب بھی باآسانی لگا سکتے ہیں کہ غروبِ آفتاب کے بعد چاند کتنی دیر تک اُفق پر موجود رہے گا اُور اسے دیکھا جا سکے گا یا نہیں۔ ہم سافٹ وئرز اور سیمولیٹڈ تصاویر کی مدد سے پہلے سے معلوم کر سکتے ہیں کہ نظر آنے پر چاند کی شکل کیسی ہوگی۔

سرکاری اور غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹیاں لوگوں سے چاند دیکھنے کی شہادتیں طلب کرتی ہیں۔ یہاں پر یہ تصاویر ہماری اس طرح مدد کر سکتی ہیں کہ ہم شہادت دینے والے شخص کو تصاویر دکھائے بغیر سوالات کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کس وقت چاند دیکھا‘ چاند کتنا اونچا تھا‘ سورج کے نزدیک تھا یا دور تھا‘ ہلال اوپر کی جانب تھا یا اس کی نوکیں پہلو پر تھیں‘ چاند سورج کے دائیں جانب تھا یا بائیں جانب وغیرہ۔ ان سوالات کی مدد سے ہم غلط شہادتوں کو آسانی سے مسترد کر سکتے ہیں۔ یہ مسترد کیا جانا صرف چاند دیکھنے میں غلطی کہلائے گا‘ اور اس سے کسی بھی شخص کے تقویٰ یا بطورِ گواہ اس کے قابلِ قبول ہونے پر حرف لانا مقصد نہیں ہوگا۔ کئی مشہور اور ہم عصر علماء اس نظریے کی تائید کرتے ہیں۔ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی بالکل اسی طرح شہادتوں کی تصدیق کرتی ہے‘ لیکن مسجد قاسم علی خان حسابات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی اور صرف کسی شخص کی پرہیزگاری دیکھ کر اس کی شہادت درست تسلیم کر لیتی ہے۔ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں اور اسے اکثر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکا دکا غلطیوں کو چھوڑ کر کمیٹی کے فیصلے سائنسی اعتبار سے درست ہوتے ہیں۔ کمیٹی کے فیصلے جدید سائنسی حسابات سے اتفاق رکھتے ہیں جبکہ مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اکثریتی طور پر سائنسی اعتبار سے ناممکن ہوتے ہیں۔ سائنس کی مدد لیے بغیر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا بالکل درست فیصلہ کرنا چونکہ مشکل ہے‘ اس لئے مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اگر غلط نہ بھی ہوں‘ تب بھی اپنی اصل میں مشتبہ ہوتے ہیں۔
سال 2011ء میں مسجد کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ چاند نظر آگیا ہے اور رمضان المبارک اگست کی پہلی تاریخ سے شروع ہوگا جبکہ جدید ترین سافٹ وئر کی مدد سے تیار کئے گئے نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دن پشاور اور گرد و نواح کے علاقوں میں چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس کے برعکس مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کا فیصلہ بالکل درست تھا۔

کبھی کبھار یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ’’چاند اتنا بڑا کیوں ہے؟‘‘ پاکستان میں ایک اور غلط فہمی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اگر چاند موٹا ہے‘ تو ضرور یہ چاند پہلے بھی دیکھا جا سکتا ہوگا۔ یہ تاثر اور گمان غلط ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ قمری مہینے کی پہلی تاریخ نہ ہو لیکن ایسا ممکن ہے کہ اسے پہلی بار دیکھا جا رہا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی بھی دن چاند کی عمر سترہ گھنٹوں سے کم ہے‘ تو یہ انسانی آنکھ کو نظر آئے بغیر غروب ہوجائے گا لہٰذا تکنیکی اعتبار سے چاند وہاں موجود تھا لیکن نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اگلے دن اسی وقت چاند کی عمر 17 جمع 24 یعنی 41 گھنٹے تو چاند ہر حال میں موٹا اور زیادہ واضح نظر آئے گا۔ اس لئے رویتِ ہلال کمیٹی کو پہلے دن کم عمر چاند نہ دیکھنے پر الزام دینا کم علمی ہے۔ آج علوم فلکیات کی مدد سے ہم چاند کی ولادت کا درست وقت سیکنڈز کی حد تک بتا سکتے ہیں اور اس کے نظر آنے یا نہ آنے کے امکانات بھی جان سکتے ہیں۔ تو فلکیات کی مدد لے کر ایسی شہادتوں کو مسترد کیوں نہیں کر دیا جاتا جو سائنسی علوم کی روشنی میں کسی بھی صورت درست نہیں ہوسکتیں؟

(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: بلال کریم مغل۔ تلخیص و ترجمہ:شبیرحسین اِمام)

Friday, June 19, 2015

Jun2015: Ignored facts about Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نظراَنداز ’حقائق نامہ‘
فیصلہ سازوں کی رہنمائی کے لئے مرتب کئے جانے والے وہ چند کلیدی نوعیت کے سرکاری تشخیصی اعدادوشمار ملاحظہ کیجئے‘ جن کی روشنی میں ’پشاور میں ٹریفک کی صورتحال کے بارے رائے قائم کی جاتی ہے‘ اُور ٹریفک سے ’جڑے مسائل‘ کے حل کی بابت اعلیٰ حکام انہی پر منحصر سوچ بچار کرتے ہیں۔

 1: پشاور کی آبادی 71لاکھ سے زیادہ ہے۔

 2: پشاور کے وسائل پر بوجھ میں اضافہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں اُور یہاں افغان مہاجرین کے مستقل قیام کی وجہ سے ہے جس کا سب سے زیادہ منفی اثر ’ٹریفک کی روانی‘ پر دیکھا جا سکتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ مضافاتی ہو یا شہر‘ یونیورسٹی اُور حیات آباد کے علاقہ‘ ہر چوراہے (کراسنگ) پر رش کی وجہ سے ٹریفک گھنٹوں معطل رہتی ہے۔

 3: پشاور کے زمینی راستے افغانستان کے لئے تجارتی سازوسامان کی ترسیل ہوتی ہے اور ہر روز اوسطاً 1 ہزار مال بردار ٹرک پشاور سے ہو کر گزرتے ہیں جبکہ افغانستان کے لئے بطور پبلک ٹرانسپورٹ اتنی ہی تعداد میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیاں اِس کے علاؤہ ہیں۔

 4: افغان تجارتی معاہدے (ٹرانزٹ ٹریڈ) کے علاؤہ پشاور کی سڑکوں کو یومیہ استعمال کرنے والی مقامی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی کل تعداد 8 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ سڑکوں کی گنجائش ڈیڑھ سے دو لاکھ گاڑیوں کی ہے۔

 5: پشاور میں 50 ایسے بڑے شاپنگ پلازہ (کثیرالمنزلہ خریدوفروخت کے مراکز) ہیں جن کی تعمیر میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ مختص نہیں کی گئی اُور یہی وجہ ہے کہ اِن شاپنگ پلازہ سے رجوع کرنے والی اپنی گاڑیاں ملحقہ و متصل سڑکوں پر یہاں وہاں کھڑی (پارک) کر دیتے ہیں کیونکہ اِس کے بناء کوئی چارہ نہیں۔ آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے اِن میں پارکنگ کیوں نہیں رکھی گئی جبکہ اِس کے بناء نقشے کی منظوری ممکن نہیں۔ زیادہ منافع کی لالچ میں پلازہ مالکان نے پارکنگ کے لئے مختص جگہ (عموماً تہہ خانے) بھی کرائے پر چڑھا دیئے ہیں۔ ضلعی و پشاور کے ترقیاتی ادارے میں ’بلڈنگ کنٹرول کے شعبہ جات‘ کو فعال بنانے اور کم از کم پچاس ایسے شاپنگ پلازہ مالکان کو اِس بات پر بہرصورت آمادہ کرنا ہے کہ وہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے منظور شدہ نقشہ جات کے مطابق جگہ مختص کریں اُور نئی تعمیرات کی کڑی نگرانی کی جائے۔

 6: ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پشاور کے جن بازاروں و علاقوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کی گئی تھی‘ اُسے مکمل نہیں کیا جاسکا اور مختلف وجوہات کی بناء پر یہ کاروائی‘ جس کا ایک جز ترقیاتی کام بھی تھے معطل کر دی گئی ہے۔

 7: اندرون شہر تجاوزات کے لئے ذمہ داروں میں بااثر و صاحبان ثروت تاجر بھی شامل ہیں‘ جو عملی طور پر تعاون نہیں کر رہے اُور مختلف قسم کے سیاسی و سماجی دباؤ کے ذریعے ’تجاوزات سے پاک پشاور‘ کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہیں۔

 اُور اَب ملاحظہ کیجئے کہ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے اُور اِن سات کلیدی مسائل کو سلجھانے کا آغاز جس حکمت عملی سے کیا گیا ہے‘ اُس کے درپردہ منطق کیا ہے؟ کیا یہ سوچ ٹریفک پھل دے گی یا ایک مستقل و گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کی بجائے ماضی کی طرح محض نمائشی حل پر اکتفا کر لیا گیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جلدبازی میں ’ترجیحات کا تعین‘ کرتے ہوئے مرتب کی جانے والی ترجیحی فہرست میں گڑبڑ ہو گئی ہے؟ تعلیم (شعور)‘ سہولت (خدمت) اُور منظم (نظم و ضبط) کے ’تین روشن اَصولوں‘ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’پشاور پولیس‘ نے اَٹھارہ جولائی سے ’206 مستعد اہلکاروں‘ پر مشتمل ’ٹریفک وارڈنز سروس‘ کا باضابطہ آغاز کیا ہے۔ ’دیوہیکل‘ چمکدار‘ برق رفتار اُور قیمتی موٹرسائیکل سواروں کو دیکھ کر مغربی ممالک کا نقشہ یا Chips نامی وہ ڈرامہ سیریل آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے‘ جس میں اَمریکہ کے دو ٹریفک پولیس اہلکار فرض شناسی کی مثال تھے۔ وہ سڑکیں جو پہلے ہی ٹریفک کا بوجھ نہیں اُٹھا رہیں‘ کیا یہ منطقی ہے کہ اُس پر مزید ٹریفک بڑھا دی جائے کہ اِس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مقامی طور پر تیار ہونے والے ستر‘ ایک سو‘ یا اَیک سو ’پچیس سی سی‘ کے ہلکے (کم خرچ) موٹرسائیکلوں کی بجائے اِنتہائی تیزرفتار (مہنگے اُور اِیندھن کے دشمن) موٹرسائیکلوں کا اِنتخاب کیا گیا ہے؟

یہ مسئلہ نہ تو سیدھا اور نہ ہی اُلٹے لٹکنے سے حل ہوگا۔ پشاور کے ٹریفک کی اصلاح اُس وقت تک عملاً ممکن نہیں جب قواعد و ضوابط مسلط کرنے کی بجائے عوام کو فیصلہ سازی و مشاورت کے عمل میں ’براہ راست شریک‘ نہیں کر لیا جاتا۔ اِس سلسلے میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے وسائل موجود ہیں‘ جن کے ذریعے براہ راست اور تحریری مشاورت و تبادلہ خیال (بحث و مباحثہ) کی روایت متعارف کرائی جا سکتی ہے جس کے نتائج زیادہ مفید و پائیدار برآمد ہو سکتے ہیں۔ صرف ٹریفک ہی نہیں بلکہ پشاور کے دیگر مسائل کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ اِس شہر کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے والوں کا قلبی‘ روحانی و فکری تعلق پشاور سے نہیں۔ وہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر یا پڑھ لکھ کر ملازمت کرنے آتے ہیں‘تاکہ اپنا مستقبل سنوار سکیں۔ اپنی ذہانت و قابلیت کا لوہا منوا سکیں۔ اَپنی تعلیم یا اِنتخاب پر اُٹھنے والے اخراجات بمعہ منافع پورا کر سکیں۔ (حسب محاورہ) فطری اَمر ہے کہ ہر کسی کے لئے اُس کا اپنا ملک کشمیر ہوتا ہے اُور یہی سبب ہے کہ فیصلہ سازوں کی اکثریت کے دامن گیر اپنے اپنے آبائی علاقوں اور انتخابی حلقوں کی فکر رہتی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی تنخواہیں بمعہ مراعات یا مراعات بمعہ تنخواہ شمار کی جاتی ہیں۔
 ایسے مخلصین سے توقعات وابستہ کرنے کی روائتی روش رکھنے والے ’اہل پشاور‘ کو بھی اِس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ وہ اپنے شہر کے بارے مسائل پر غور کریں اُور فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لیں۔

 بڑے بڑے عزائم‘ ملکی و غیرملکی حالات و واقعات کی گھتیاں سلجھانے والی سراپا دانشور قائدین پر انحصار و توکل کرنے کی بجائے ’پشاور کو اپنی ذات‘ میں متحد ہونا ہوگا۔ اَلمیہ ہے کہ سال دو ہزار دو سے اب تک اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی نہ تو پشاور کے ٹریفک کا مسئلہ حل ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔ سوچئے کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب ’برکت‘ نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ اِتفاق و اِتحاد نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی اسمبلی میں درجن سے زیادہ (بشمول مخصوص) نشستیں ہونے کے باوجود بھی پشاور قیادت و نمائندگی سے محروم ہے تو آخر کیوں؟ سمجھ لیجئے کہ ترقی کے نام پر حق تلفی‘ مسائل کا تسلسل اُور غیرمربوط‘ جزوی‘ جوں کی توں محض ’حکمت عملیاں‘ ہی کافی نہیں‘ جب تک ’سیادت کے منصب‘ پر پشاور خود فائز نہیں ہو جاتا!
Traffic Warden Services introduced in #Peshawar but to solve and resolve the traffic issues, govt have to set it's priorities first