Monday, September 1, 2014

Sept2014: Pain taking of Revolutionists

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ذمہ دار کون؟
اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر اٹھارہ دن سے احتجاجی دھرنا دینے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ شاید وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر تھک چکے ہیں کہ اِس قضیے کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں اور یہی بات مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی باربار دہرائی جا رہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ’سیاسی اختلافات‘ کا حل تلاش کیا جائے۔ تشدد سے گریز کیا جائے۔ ریاست اپنی طاقت کا استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے لیکن اگر مظاہرین ایک ٹانگ پر کھڑے ہیں تو حکومت کی جانب سے بھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا‘ جس کے سبب حالات مزید الجھ گئے ہیں۔ جذبات بھڑک اٹھے ہیں جن کا درجہ حرارت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ اگرچہ یکم ستمبر کی صبح ہی سے موسلادھار بارش اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں لیکن شاید ہی کسی کی توجہ اسلام آباد کے اُس خوشگوار موسم کی جانب ہو جو جھاڑے میں داخل ہو رہا ہے۔

یکم ستمبر: صبح سات بجکر تیس منٹ: پولیس نے شاہراہ دستور کے تین مختلف مقامات پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کے لئے ناشتے سے لدی ہوئی گاڑیاں جانے کی اجازت دی۔ جس میں پھلوں کے جوس‘ چائے‘ حلوہ اور دیگر گرما گرم اشیاء شامل تھیں۔ اگرچہ اشیائے خوردونوش مظاہرین کی تعداد کے تناسب سے کم تھیں لیکن اعصاب شکن سردی اور تھکاوٹ کے ساتھ خوف و دہشت کے عالم میں تمام رات آنکھوں آنکھوں میں بسرکرنے والوں کے لئے یہ سب کچھ کافی سے زیادہ اور ’حیات آفرین‘ تھا۔

یکم ستمبر: صبح نو بجکر تیس منٹ: ناشتے اور دیگر حاجات ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد مظاہرین کی قیادت کرنے والوں نے اعلانات کئے کہ وہ ایک مقام پر جمع ہو جائیں۔ اِس موقع پر اعلان کیا گیا کہ اگلی منزل ’وزیراعظم ہاؤس‘ کی جانب جانے والا راستہ ہوگا‘ جس کے باہر ’پرامن انداز میں دھرنا‘ دیا جائے گا۔ ابھی اعلان کی تفصیلات آ ہی رہی تھیں کہ پولیس کی جانب سے قومی اسمبلی کے سبزہ زار پر جمع ہونے والوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں فائر کی گئیں۔ جس کے بعد مظاہرین پولیس کی جانب لپکے اور آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو گیا۔ گذشتہ شام کو تعینات ہونے والے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد بھی موقع پر موجود تھے‘ جو اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے اور اُن کی جانب سے مکے لہرانے کو دیکھ کر پرویز مشرف کی یاد آ گئی‘ جب اِسی شاہراہ دستور پر جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وہ جمہوریت کی باتیں کرنے والوں کو اپنی طاقت سے مطلع کرتے تھے! بہرکیف جب مظاہرین و پولیس کے درمیان تصادم بڑھا‘ اور کونوں کھدروں سے مزید مظاہرین نکل آئے جن کی تعداد کسی بھی طرح دو ہزار سے زیادہ نہیں تھی تو تربیت یافتہ پولیس اہلکار اپنے زخمی ایس ایس پی آپریشنز کے ساتھ رفوچکر ہوگئے اور پورا علاقہ مظاہرین کے کنٹرول میں آگیا۔

صبح دس بجے: احتجاجی مظاہرین پاکستان سیکرٹریٹ کا گیٹ توڑ کر عمارت کے احاطے میں داخل ہوگئے جہاں پر پہلے سے موجود فوج اور رینجرز کے مسلح اہلکاروں نے اُنہیں عمارت کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ دریں اثناء مظاہرین کی نظر پاک سیکرٹریٹ کے بلمقابل پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت پر پڑی جہاں چار فٹ کی دیوار اور ایک داخلی گیٹ پر تعینات پر چند سیکورٹی گارڈز چار منزلہ عمارت کی سیکورٹی کے لئے ناکافی تھے۔ مظاہرین پہلے دیوار اور بعدازاں گیٹ پھلانگ کر قومی ٹیلی ویژن کی عمارت میں داخل ہو گئے۔ گیارہ بجکر پچیس منٹ پر پہلے ’پی ٹی وی ورلڈ‘ اور بعدازاں ’پی ٹی وی نیوز‘ (چینلوں) کی نشریات معطل کر دی گئیں جنہیں دوپہر بارہ بجکر پانچ منٹ کے آس پاس اُس وقت بحال کیا جاسکا جب فوج کے ایک مسلح دستے اور رینجرز نے پی ٹی وی بلڈنگ کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لی۔ ملک کے قومی ٹیلی ویژن کا تیس منٹ سے زائد وقت کے لئے بند رہنا کسی بھی صورت معمولی بات نہیں اور یہی وجہ تھی کہ دونوں احتجاجی جماعتوں کے قائدین نے اِس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کی اِس سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ صورتحال یہ ہے کہ احتجاجی مظاہرین اب اپنے قائدین کی بھی پرواہ نہیں کر رہے کیونکہ قائدین تو بلٹ پروف گاڑیوں میں ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ اُنہیں بھوک پیاس اور موسم کی شدت تنگ نہیں کر رہی۔ مسئلہ تو اِن بیچاروں کا ہے جو کہیں عقیدت تو کہیں نظریاتی وابستگی کی وجہ سے ایک عہد کو نبھاتے ہوئے بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو‘ قصوروار کوئی بھی ہو لیکن جو کچھ اسلام آباد میں ہوا‘ کوئی بھی ایسا ہونا نہیں چاہتا تھا۔ فوج کے بعد سپرئم کورٹ کی جانب سے بھی حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش سامنے آ چکی ہے‘ خدا کرے کہ پوری قوم کی ذہنی کوفت اور احتجاج کرنے والوں کی زحمتیں جلد تمام ہو جائیں۔

دوپہر ایک بجکر تیس منٹ: عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا کہ ’’وہ بڑے معاشرے محض اس وجہ سے تباہ ہوئے کیونکہ وہاں طاقتور اور کمزور کے لئے الگ الگ قانون تھا۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ یہی حال ہمارا بھی بھی ہے کہ اِنصاف سب کے لئے یکساں نہیں۔ جب ہم صرف چار انتخابی حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کی بات کر رہے تھے تو ہمیں انصاف دینے کی بجائے ہمارا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ اب ہمارے احتجاج سے اُنہیں جمہوریت خطرے میں لگ رہی ہے۔ انصاف نہ دینے اور دھاندلی کی پشت پناہی کرنے والا نظام جمہوریت نہیں ہوسکتا۔ ہر پاکستانی کے لئے بلاامتیاز انصاف اور دھاندلی سے پاک طرز انتخاب کے لئے انقلاب کامیاب ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری سیاسی تاریخ کی طویل المدتی تحریک پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ ہماری جدوجہد اور دعائیں رنگ لائی ہیں۔ اپنے وقت‘ سرمائے اور خون سے ایک ناقابل فراموش سیاسی تاریخ رقم کرنے والے ہمیشہ کے لئے اَمر ہو چکے ہیں۔‘‘