Sunday, October 31, 2021

Traffic issues of Peshawar!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : راہ مستقیم

یقینی اَمر ہے کہ اگر صوبائی دارالحکومت پشاور میں ٹریفک کا نظام حسب ِقواعد فعال ہو گیا تو ہر شعبہ¿ زندگی پر طاری اُور ہر طرف بکھرے افراتفری (نفسانفسی) کے ماحول میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ ضرورت تحمل کی ہے اُور بنا تحمل ٹریفک کو "راہ مستقل "پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ اِس سلسلے میں پشاور ٹریفک پولیس کے سربراہ (چیف ٹریفک آفیسر) عباس مجید مروت نے انسداد تجاوزات مہم جاری رکھنے کا حکم دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اِس بارے میں روزانہ کی بنیادوں پر کاروائیاں کی جائیں اُور بالخصوص مقررہ ’یک طرفہ (one-way)‘ پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی انتظامی عہدے پر فائز اعلیٰ شخصیت نے تجاوزات کے خلاف بلاتفریق کاروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہو اُور اِس سلسلے میں تاجر برادری سے تعاون کی اپیل بھی کی ہو تاکہ (مبینہ طور پر) پشاور کی خوبصورتی کو یقینی بنایا جا سکے لیکن پشاور کی ٹریفک سے جڑے مسائل کا کوئی ایک رخ (پہلو) نہیں بلکہ اِس کے کئی محرکات ہیں جن میں خود ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اِس بارے (داخلی احتساب) سے متعلق کوئی ایک بھی اعلیٰ اہلکار ایک لفظ بھی نہیں کہتا جیسا کہ اِس سلسلے میں ساری الزامات جھوٹ ہوں یقینا جو لوگ ٹریفک پولیس اہلکاروں کے غیرقانونی اڈوں‘ غیرقانونی پارکنگ‘ بنا رجسٹریشن گاڑیوں اُور تجاوزات کی آڑ میں آمدن کا حوالہ دیتے ہیں اُن کے الزامات اگر سوفیصد درست (سچ) نہیں تو اُنہیں سوفیصد غلط (جھوٹ) بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈرائیونگ لائسینس سے متعلق قواعد موجود لیکن اطلاق نہیں ہو رہا۔

 ماحول دشمن دھواں اگلنے والی گاڑیوں سے متعلق قواعد موجود لیکن اِن کا حسب ضرورت وسیع پیمانے پر اطلاق نہیں ہوتا۔ لوکل ٹرانسپورٹ اُور لوکل ٹرانسپورٹ سے بین الاضلاعی و بین الصوبائی راہداریوں (روٹس) پر چلنے والی گاڑیوں میں مسافروں کی گنجائش اُور اِن گاڑیوں کے روٹس پر چلنے کے حوالے سے ’روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ کے قواعد کو ٹریفک اہلکاروں نے ممکن بنانا ہوتا ہے لیکن چونکہ ٹریفک کے بندوبست میں ایک سے زیادہ اداروں کا عمل دخل ہے اِس لئے کسی ایک ادارے کو مسائل کے لئے نہ تو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے اُور نہ ہی ٹریفک کا مسئلہ کسی ایک ادارے کی دلچسپی اُور حسب قواعد کارکردگی سے حل ہونا ممکن ہے۔ اِس بارے میں صوبائی حکومت کو ’پشاور ٹریفک اتھارٹی‘ بنا کر جملہ متعلقہ اداروں بشمول ٹریفک پولیس اُور روڈ ٹرانسپورٹ کو ایک اِدارے میں ضم کرتے ہوئے سزا و جزا کا نظام متعارف کرانا ہوگا تاکہ ٹریفک کی اِس ’اُلجھی ہوئی گھتی‘ کو سلجھایا جا سکے جو آبادی کے بڑھنے کے ساتھ سلجھ نہیں بلکہ مزید اُلجھ رہی ہے!

ٹریفک قواعد اگر وضع کئے گئے ہیں تو اُن پر بلاامتیاز اُور پسند و ناپسند کی بنیاد پر (جزوی) نہیں بلکہ کلی طور پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کی ذہانت اُور جذبے پر شک نہیں لیکن کیا اہل پشاور یہ پوچھنے کی جرات کر سکتے ہیں کہ ہر طرف ٹریفک قواعد کی پھیلی ہوئی لاقانونیت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا پشاور کے تمام موٹرسائیکل سوار ہیلمٹ کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ قواعد کی رو سے یہ لازمی ہے اُور ایک موقع پر بنا ہیلمٹ موٹرسائیکلز کو پیٹرول کی فروخت بھی بند کر دی گئی تھی‘ جسے جاری رکھا جاتا اُور مزید سختی کی جاتی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ درحقیقت صرف ٹریفک پولیس ہی کا نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ (ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اُور چاروں ٹاو¿نز کی انتظامیہ) کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کسی ایک مہم کو پورے زور و شور سے شروع کرنے کے بعد اُس کی تکمیل سے قبل یا تو ختم کر دیتے ہیں یا ایک نئی مہم شروع کر دیتے ہیں اُور پرانی مہم آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہو جاتی ہے!

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ سبھی امور جو ٹریفک قواعد کی رو سے جرم کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں‘ اُن سے متعلق نرمی اُور اُنہیں لاگو کرنے کے لئے نت نئی مہمات اُور یقین دہانیوں کی نہیں بلکہ خاطرخواہ سختی (بلاامتیاز و تفریق) قواعد پر عمل درآمد کی ضرورت ہے البتہ ٹریفک پولیس اہلکاروں اُور عوام کے درمیان خوش اخلاقی پر مبنی تعلق استوار کرنے اُور ٹریفک قواعد سے متعلق تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات جیسے پہلوؤں پر زیادہ کام ہونا چاہئے۔ فیصلہ ساز اگر چاہیں تو ”ٹریفک رضاکار“ کے دستے بنا کر عمومی و خصوصی ایام میں نہ صرف ٹریفک قواعد پر عمل درآمد یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اِن رضاکاروں کی خدمات سے استفادہ شعور و آگاہی پھیلانے (عام کرنے) کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے جو حتمی ہدف ہونا چاہئے کیونکہ مقولہ ہے کہ کسی قوم کے مہذب (تہذیب یافتہ) ہونے کا اندازہ اُس کے ہاں ٹریفک کے بہاؤ اُور پھیلاؤ کو دیکھ کر لگایا جا سکتاہے۔

....



Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 31 October 2021


Wednesday, October 27, 2021

Action against beggars

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : پیشہ ور گداگری

صوبائی حکومت نے انسداد ِگداگری مہم کا آغاز (چھبیس اکتوبر سے) کیا ہے جس کی نگرانی ڈپٹی کمشنر (ریاض خان محسود) کریں گے۔ پیشہ ور (منظم) گداگری کے خلاف مہم ایک حکومتی تحقیق اُور اِس بارے میں مرتب کردہ رپورٹ کے بعد شروع کی گئی ہے جس کے مطابق ضلع پشاور میں 1463 پیشہ ور بھکاریوں کے گروہ ہیں جنہوں نے ضلع پشاور کو تقسیم کر رکھا ہے اُور یوں مل بانٹ کر گداگری کا دھندا چلایا جا رہا ہے۔ اگر تحقیق کے دائرہ کار کو وسیع کیا جاتا تو یہ انکشاف بھی سامنے آتا کہ گداگری کے منظم دھندے کے تانے بانے چھوٹی موٹی وارداتوں سے لیکر منظم جرائم تک پھیلے ہوئے ہیں اُور اِسی کی وجہ سے منشیات فروشی کا نیٹ ورک بھی فعال ہے۔ گداگری کے خلاف حکومتی کاروائی کا فیصلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اُور ڈویژنل کمشنر ریاض خان محسود کے درمیان اتفاق رائے کے بعد ہوا‘ جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر پشاور ڈاکٹر احتشام الحق کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ گداگروں کے خلاف کوائف (ڈیٹا) جمع کریں اُور اِس امکان کو بھی دیکھیں کہ گداگری کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کون ہیں۔ جس کے بعد مرتب کردہ رپورٹ میں 1463 گداگر گروہوں کے ناموں پر مبنی فہرست مرتب ہوئی جن میں اُن کے سرپرست اُور ٹھکانوں کے بارے بھی معلومات درج ہیں اُور اِسی فہرست و معلومات کی بنیاد پر پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے انسداد ِگداگری کی مہم شروع کی ہے۔ ماضی میں بھی اِس قسم کی کوششیں دیکھنے میں آتی رہیں ہیں اُور ایک موقع پر تو سماجی بہبود کے حکومتی محکمے (سوشل ویلفیئر) کو بھی گداگری اُور بچوں سے مشقت کے سدباب کے لئے کوششوں میں شریک کیا گیا لیکن خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کیونکہ اکثر حکومتی اداروں کی کاروائیاں ’وقتی اہداف‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے وضع کی جاتی ہیں اُور طویل المعیادی حکمت عملیاں نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو گداگری کی روک تھام ہوتی ہے اُور نہ ہی عمومی جرائم (سٹریٹ کرائمز) اُور منشیات فروشی پر قابو پایا جا سکا ہے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے گداگری سے متعلق بعداز تحقیق جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اُن کے مطابق ضلع پشاور میں منظم گداگری کا دھندا سولہ سو سے سترہ سو سرغنہ کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں سال 2001ءمیں کئی گئی ایک تحقیق موجود ہے جس کے مطابق پشاور اُور اِس کے قرب و جوار میں قریب 5ہزار ایسے بچے ہیں‘ جن کے گھر بار نہیں اُور وہ سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اِن لاوارث بچوں (street children) کی اکثریت بھیک مانگتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ جس کا عنوان Baseline Survey for Prevalence Rate and Cause of Child Begging in Peshawar City تھا سیو دی چلڈرن (Save the Children) نامی تنظیم کی جانب سے اُن کے اہلکار عبداللہ کھوسو نے مکمل کی تھی اُور اِس کے نتائج دسمبر 2012ءمیں جاری کئے گئے تھے۔ اِسی سے ملتی جلتی ایک اُور تحقیق سٹریٹ چلڈرن میں مختلف بیماریوں بالخصوص ’ایچ آئی وی / ایڈز‘ کے حوالے سے بھی کی گئی تھی جو ’سیو دی چلڈرن‘ ہی کا منصوبہ تھا۔ اِن کے علاو¿ہ چائلڈ رائٹس ٹیلی ویژن نے پشاور کے بے آسرا اُور بھیکاری بچوں کے حوالے سے ایک دستاویزی پروگرام بنایا تھا جو دسمبر 2012ءمیں نشر ہوا اُور یہ بھی انٹرنیٹ (گوگل) کے ذریعے تلاش سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ تینوں مطالعات اِس حقیقت کا بیان ہیں کہ پشاور میں گداگری نہ صرف سطحی ہے کہ اِس پر مجبور و بے آسرا بچے اُور افراد کا انحصار ہے بلکہ حکومتی اداروں کی کمزوری‘ نااہلی اُور قانون کا خاطرخواہ سختی سے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے گداگری منظم دھندا بن چکی ہے جسے جاری رکھنے کے بچوں کو اغوا کرنے اُور جرائم و منشیات فروشی جیسے گھناؤنے کام بھی ہو رہے ہیں۔ یادش بخیر 2005ءمیں خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومت نے ’گداگر بچوں کے لئے ویلفیئر ہوم‘ کے نام سے امدادی‘ بحالی اُور سرپرستی کے مراکز قائم کئے تھے۔ اِسی طرح سال دوہزاردس میں ”خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ (KP CPWA) 2010ئ“ کے نام سے خصوصی قانون متعارف کرایا گیا تاکہ بے آسرا بچوں کے حال و مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ریاست کا ایک کام ’سرپرستی‘ بھی ہوتا ہے اُور بالخصوص جب ہم ریاست ِمدینہ کی بات کرتے ہیں تو اِس میں قوانین کے بنا مصلحت و بلا امتیاز اطلاق کے ساتھ اِس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ معاشرے کا کوئی ایک بھی طبقہ بالخصوص بچے خود کو بے آسرا تصور نہ کریں اُور اُنہیں مجبوراً بھیک مانگنے کے لئے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ نفسیاتی نکتہ نظر سے گداگری کو شروع کرنا مشکل لیکن اِسے ترک کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ محنت مزدوری کے مقابلے یہ کم مشقت طلب ہوتا ہے۔ پشاور شہر کے تجارتی مراکز میں لب سڑک اُور جا بجا ایسی خواتین بھیک مانگتی مل جاتی ہیں جن کی گود میں زخمی بچے بیہوشی کی حالت میں پڑے ہوتے ہیں اُور وہ اُن کے زخم اُور جس کے ٹیڑھے اعضا کی نمائش کر کے بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں۔ بچوں کو اغوا کرنے کے بعد اُن کے جسمانی اعضا کاٹنے یا جسمانی اعضا کو کچھ عرصہ مضبوطی سے باندھے رکھنے سے معذوری کی حالت پیدا ہوتی ہے چونکہ خون کی گردش رک جاتی ہے اِس لئے انسانی جسم کا کوئی بھی عضو (ہاتھ پاؤں ٹانگ پنڈلیاں وغیرہ) جسم کے ساتھ نشوونما نہیں پاتے اُور وہ نسبتاً چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ ایسے معذور بچوں کو گداگری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ حکومتی دستاویزات اُور اعدادوشمار کے مطابق اگر گداگری منظم روپ اختیار کر چکی ہے تو اِس کے سدباب و انسداد کے لئے منظم حکمت عملی مرتب کرنا پڑے گی جس کے لئے لمبی چوڑی تمہید اُور تیاریوں کی ضرورت نہیں بلکہ جمعة المبارک کے روز ہر جامع مسجد کے باہر قطاروں میں بیٹھے بھیکاریوں کو ’دارالآمان‘ منتقل کر کے اِن کے کوائف مرتب کئے جا سکتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ اکثریت نے یہ دھندا بطور ’پیشہ‘ اختیار کر رکھا ہے۔ انسداد ِگداگری کی مہم کامیاب ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی کو صیغہ راز میں رکھا جائے اُور گداگروں کے خلاف کاروائیوں کا جو فیصلہ وزیراعلیٰ اُور کمشنر پشاور کے درمیان اتفاق رائے کا نتیجہ ہے‘ اُس کی تشہیر اُس وقت تک نہ کی جائے جب تک پشاور سے منظم گداگری یعنی پیشہ ورانہ گداگروں کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا بصورت دیگر یہ منظم گروہ اُس وقت تک کے لئے نقل مکانی کر لیں جب تک ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ضلعی انتظامیہ اپنے عزم اُور ارادوں کو بھول بھال نہیں جاتی۔ بھیک جائز نہیں تو پھر اِس دائمی مرض کا علاج اُور قومی و سماجی سطح پر اِس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔”اب تو مستقبل کرے گا اِس کا آذر فیصلہ .... بھیک ہم مانگا کئے یا بھیک ہم پاتے رہے (آذر بارہ بنکوی)۔“

....





Tuesday, October 26, 2021

Psychological health & journalism

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

صحافت: ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں ؟

پشاور کے ایوان ہائے صحافت (پریس کلب) سے وابستہ صحافیوں کے لئے وقتاً فوقتاً تربیتی نشستوں کے اہتمام میں حالیہ اضافہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد و مختلف رہا جس کے شرکا کی پریشانیوں میں شاید یہ جان کر مزید اضافہ ہو گیا ہو گا کہ دہشت گردی کا ایک منفی اثر یہ بھی مرتب ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا (بشمول پشاور) میں صحافی نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہیں لیکن اِس بارے خاطرخواہ خواندگی نہیں پائی جاتی اُور نہ ہی اِن نفسیاتی عارضوں کے معلوم ہونے پر بھی علاج معالجے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔

اِس بارے میں صورتحال کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہوئے نفسیاتی علوم (سائیکالوجی) سے وابستہ محترمہ گلشن تارہ نے کہا کہ ”خیبرپختونخوا کے 70فیصد سے زائد صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ کونسلنگ (نفسیاتی مشاورت) کی ضرورت ہے اُور ایسا نہ ہونے کے باعث (اندیشہ ہے کہ) نفسیاتی مسائل کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ نفسیاتی مشاورت (psychology counseling) یکساں ضروری ہے بصورت دیگر مریضوں کی اپنی صحت اُور جان کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔“ محترمہ تارہ نے اِس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ”معاشرے میں ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے ذہنی دباؤ  کا شکار ہوتا ہے اُور یہ ذہنی دباؤبہت ساری معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ نفسیاتی عارضوں کو معمولی نہ سمجھا جائے اُور جسمانی صحت کی طرح نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھتے ہوئے متعلقہ معالج (نفسیاتی امور کے مستند معالج) سے رجوع کیا جائے۔“ صحافیوں کی استعداد کار اُور معلومات میں اضافے کی جاری کوششوں میں نفسیاتی الجھنوں اُور ذہنی صحت کے حوالے آگاہی کی یہ نشست اپنی جگہ اہم تھی جس کے شرکا کو کم سے کم جس ایک بات کے بارے میں یقینا علم ہو چکا ہے کہ ”ذہنی طور پر پریشان‘ ہر شخص ’پاگل‘ نہیں ہوتا اُور اگر ذہنی پریشانیوں کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔“ اِسی طرح نفسیاتی امراض کیا ہوتے ہیں اُور دیگر امراض کی طرح نفسیاتی عارضوں کی بھی علامات ہوتی ہیں جن میں نیند کے معمولات تبدیل ہونا‘ نیند کی کمی‘ سماجی تعلقات اُور روئیوں میں تبدیلی‘ لڑائی جھگڑے‘ دوسروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا‘ بچوں کو ڈانٹنا‘ دھتکارنا اُور کسی عمومی بات کا پتنگڑ بنانے جیسی تحاریک کسی عارضے کی نشاندہی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا شخص نہ صرف اپنی ذات میں بے سکون ہوتا ہے بلکہ وہ گردوپیش میں دیگر افراد کے لئے بے سکونی کا باعث بن رہا ہوتا ہے اُور یہی وہ مرحلہء فکر ہے جہاں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے۔ توجہ طلب ہے کہ نفسیاتی الجھنیں معاملات کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے یا روزمرہ کے عمومی فیصلے کرنے یا کسی نتیجے تک پہنچنے اُور برداشت جیسی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں اُور اگر کوئی بھی شخص اپنے اندر ایسی تبدیلیاں محسوس کرے کہ اُسے بات بے بات پر غصہ آئے یا طبیعت میں اشتعال کا غلبہ رہے تو تجویز یہی کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں نفسیاتی امراض کے مستند معالجین سے رجوع کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ بات صحافیوں کی نشست میں زیرغور نہیں آئی لیکن ’غربت‘ جملہ بیماریوں کی جڑ ہے جبکہ نفسیاتی عارضوں کا ایک سبب ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش کا استعمال اُور ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز نہ ہونے کے باوجود ازخود ڈاکٹری یا حکیمی ادویات لینا ہے!

جسم کے دیگر اعضا کی نسبت انسان سب سے زیادہ دماغ اُور نفسیات کے بارے میں جاننے کا دعویٰ کرتا ہے اُور یہی پہلی و بنیادی غلطی ہے۔ نفسیاتی الجھنیں سمجھ آ جائیں گی لیکن اگر اِن کے پیدا ہونے کے عمل کو جان لیا جائے۔ اِس مرحلہ فکر پر ٹھہر کر ایک مثال جان لیں کہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا شخص ہو جو غصے کے مضر اثرات کے بارے میں نہ جانتا ہو لیکن اِس خواندگی کے باوجود اُسے غصہ آتا ہے اُور جب غصہ اُس کی برداشت سے اکثر زیادہ (بے قابو) ہو جائے تو ایسی صورت کو طب کی اصطلاح میں نفسیاتی عارضہ کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح علوم نفسیات میں عبادت کو بھی نفسیاتی بیماری ہی کی ایک قسم بتائی جاتی ہے جبکہ عبادات اُور عقائد نفسیاتی عارضوں کو کم کرتے ہیں کیونکہ اِن میں دعا کے ذریعے یقین اُور اُمید پیدا ہوتی ہے اُور دنیا کا کوئی ایک بھی ایسا ڈاکٹر نہیں جو مریض کو دوا کے علاؤہ اُس میں یقین اُور اُمید جیسے جذبات پیدا کر سکے جو لاعلاج امراض میں جادوئی اثرات رکھتی ہیں۔ بہرکیف جس ایک بات کو ہمارے ماہرین نفسیات کی اکثریت فراموش کر جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں (مخلوقات) میں صرف انسان ہی ایک ایسا جاندار ہے جس کا نفسیاتی نظام انتہائی پیچیدہ (دوسروں سے) و مختلف ہے اُور جب ہم انسان کا دیگر جانداروں (ہم زمین مخلوقات) سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایک نفسیاتی عمل بھی جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر خیالات اُور جذبات پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانی ذہن کی اِس پیداوار (خیالات اُور جذبات) کے لئے اُسے معلومات درکار ہوتی ہیں یا وہ ازخود معلومات اخذ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی اپنی صلاحیت استعمال کرتا ہے اُور یوں کسی شخصیت یا واقعات کے بارے خیالات کے تانے بانے بننا شروع کر دیتا ہے چونکہ یہ انتہائی تیزرفتار عمل ہوتا ہے کہ اِسے روکا یا اِس کے تلاطم کا زور توڑا نہیں جا سکتا اِس لئے یہی غالب و کامیاب رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی شخص کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ اچھا ہے یا وہ بُرا ہے تو درحقیقت یہ ہمارا دماغ کی اختراع ہوتی ہے کہ جو مختلف قسم کی معلومات کو اکٹھا کر کے ہمیں کسی نتیجہ ءخیال تک پہنچا رہا ہوتا ہے اُور اِنہی خیالات کے تحریک میں کسی انسان کی شخصیت بنتی ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص منفی ذہنیت کا حامل ہے‘ وہ ہر چیز میں کیڑے نکالتا ہے وغیرہ۔ 

اگر ہم انسان اپنے دماغ اُور اِس کے نفسیاتی عمل کو سمجھ لیں تو عیاں ہو جائے گا کہ انسانی دماغ جس طرح قدم قدم پر رہنمائی کر رہا ہوتا ہے تو درحقیقت وہ معلومات کو تصورات اُور تصورات کو خیالات میں ڈھال کر فیصلہ سازی یا رائے زنی کرواتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ جو کچھ ہمارے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے وہ کائنات (ہمارے گردوپیش) کی حقیقت کا بیان نہیں ہوتا بلکہ تطہیر شدہ اندازہ (حاصل) ہوتا ہے۔ اِنسان اپنی اُور کائنات کی حقیقت تک اُسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ خالی الذہن رہ سکے اُور طبیعت کے اُس آسان پن سے نجات حاصل کرے جو اِسے ہر مسئلے کے فوری حل (نتیجے) تک پہنچا دیتی ہے۔ اِس مرحلہء فکر پر انسانوں (یقینا بشمول صحافیوں) کو اِس بات پر بھی سوچنا چاہئے کہ آخر وہ ذہن کے بے لاگ سوچنے اُُور اِس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل سے دوچار کیوں ہیں اُور دیگر اعضائے جسمانی کے مقابلے آخر اِنہیں صرف ذہن و نفسیات ہی سے کیوں مسائل (الجھنیں) درپیش ہیں؟ 

”سوچ اپنی ذات تک محدود ہے .... ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں (طاہر عظیم)۔“

....



https://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/75cccd7df1db34d4eaac7f269f885ae2.jpg


Sunday, October 24, 2021

Medical Admissions: Ambiguity vs Clarity

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

اِبہام سے اِبہام تک

طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے جس اضافی اہلیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے اُسے ’نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کہا جاتا ہے۔ اِس خصوصی امتحان میں حصہ لینا طب کی تعلیم حاصل کرنے کے ہر خواہشمند طالب عمل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ رواں برس (22-2021ء) کے لئے ایم ڈی کیٹ امتحان کا انعقاد پورے ملک میں 30 اگست سے 30 ستمبر کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر ہوا لیکن اِس امتحانی طریقہ کار اُور اِس کے مراحل سے متعلق اعتراضات رکھنے والوں نے لاہور کی عدالت ِعالیہ (ہائی کورٹ) سے رجوع کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ایک ایسی غیریقینی کی صورتحال درپیش تھی کہ داخلے کے خواہشمند اُور میڈیکل و ڈینٹل کالجز اپنی اپنی جگہ پریشان تھے اُور کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے!

 22 اکتوبر 2021ءکے روز لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ امتحانی مرحلے (ایم ڈی کیٹ) کے خلاف ایک سے زیادہ درخواستوں (پٹیشنز) کو خارج کر دیا۔ درخواست گزاروں نے ’پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020ئ‘ اُور ’پاکستان میڈیکل کمیشن کنڈکٹ آف ایگزیمنیشن ریگولیشنز 2021ئ‘ کی متعدد شقوں کا حوالہ دیا تھا جن کی مبینہ طور پر ایم ڈی کیٹ امتحان میں خلاف ورزی کی گئی‘ اِس لئے عدالت نے ایم ڈی کیٹ امتحان کو کالعدم قرار دے لیکن ’لاہور ہائی کورٹ‘ نے درخواست گزاروں کے مؤقف سے اتفاق نہیں کیا اُور اب صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کے نتائج جہاں اُور جیسے تھے اُنہیں درست تسلیم کر لیا گیا ہے اُور اِس کے بعد اگلا مرحلہ یعنی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے شروع ہوں گے جس کے لئے پاکستان میڈیکل کمیشن نے پہلی مرتبہ صوبوں کو خودمختار بنایا ہے کہ اگر وہ میڈیکل و ڈینٹل کے نئے تعلیمی سال میں داخلوں کے لئے اپنے ہاں قواعد و ضوابط بنانا چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ 

پاکستان میڈیکل کمیشن کے سربراہ (صدر) ڈاکٹر ارشد تقی نے بائیس اکتوبر ہی کے روز صوبائی حکومتوں کو اپنے ہاں نجی میڈیکل کالجوں سے متعلق قواعد سازی کا اختیار دیا تاہم اُنہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ اِس اختیار میں اہلیت (میرٹ) پر سمجھوتا تسلیم نہیں کیا جائے گا لیکن یہاں مسئلہ (درپیش مرحلہ) یہ ہے کہ امتحانی بورڈز کی جانب سے زیادہ نمبرات اُور ایم ڈی کیٹ میں بھی زیادہ نمبر حاصل کر کے کامیاب طالب علموں کی اکثریت سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے درخواست گزار ہے لیکن تعلیمی اداروں میں نشستیں محدود ہیں جیسا کہ سندھ میں ساڑھے سات سے آٹھ ہزار طلبہ کامیاب ہوئے لیکن وہاں کی میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں نشستوں کی کل تعداد تین ہزار ہے اُور اِسی قسم کی زیادہ سنگین صورتحال خیبرپختونخوا میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ یہاں بھی سرکاری میڈیکل و ڈینٹل میں داخلے خواہشمندوں اُور اہلیت رکھنے والوں کی تعداد مجموعی نشستوں 1620 سے درخواست گزاروں کی تعداد ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں سولہ نجی جبکہ 14 سرکاری میڈیکل کالجز ہیں جن نشستوں کی کل تعداد 1486 ہے جو گزشتہ تعلیمی سال (2020-21ئ) کے مقابلے 104 نشستیں زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے فروری 2021ءمیں کیا تھا جبکہ اِس موقع پر قبائلی (پسماندہ) اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد دگنی (136) کر دی گئی تھی۔ خیبرپختونخوا کے میڈیکل کالجوں کے 10 میڈیکل اُور 4 ڈینٹل کالجوں میں کل 1382 نشستیں ہیں جن میں سے 922 اوپن میرٹ‘ 136 قبائلی اضلاع‘ 130 جنرل سلیف فنانس‘ 43 غیرملکی سلیف فنانس‘ 29 بلوچستان کے قبائلی علاقوں‘ 34 آزاد جموں و کشمیر‘ 12 افغان شہریت رکھنے والوں‘ 6 معذور افراد‘ 4 مقبوضہ کشمیر اُور دیگر پسماندہ اضلاع جیسا کہ چترال‘ بونیر‘ ٹانک‘ دیر‘ شانگلہ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے مختص ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی 460 نشستیں مختلف حوالوں سے مختص ہیں اُور یہ تعداد چار یا پانچ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کے مساوی بنتی ہیں۔ اصولاً نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی اضافہ ہونا چاہئے کیونکہ ایک ایسی صورت میں جبکہ طلبہ کی اکثریت اپنے خرچ پر یعنی سالانہ پندرہ لاکھ روپے فیس بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اُنہیں پاکستان میں داخلہ نہیں ملتا اُور وہ مجبوراً بیرون ملک داخلہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف بیش قیمت ذہانت بلکہ زرمبادلہ بھی بیرون ملک منتقل ہوتا ہے۔ طب کی تعلیم سے متعلق بندوبست جس قدر واضح بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اُسی قدر ابہام میں الجھ جاتا ہے۔

ابہام در ابہام کی یہ صورتحال غور و خوض کی متقاضی ہے کہ طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم اُور اِس سے متعلق بندوبست زیادہ وسیع (بڑے پیمانے) پر کیا جائے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صوبوں کو خاطرخواہ خودمختاری نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے صوبوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ نئے تعلیمی سال (2022ئ) کے لئے نجی میڈیکل کالجوں کے داخلہ قواعد اپنے طور پر بھی وضع کر سکتے ہیں تو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ اختیار کیوں نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے طور پر نجی و سرکاری میڈیکل کالجوں کے قیام کی بھی منظوری دے سکیں؟

....





Monday, October 18, 2021

On the looting of Peshawar resources!

 پشاور شناسی

....برس رہی ہے اُداسی تمام آنگن میں

شہری سہولیات کی فراہمی اُور پشاور کے وسائل و مفادات کے نگران (منتظم) اداروں میں ضلعی حکومت اُور ذیلی چار ٹاؤنز کی انفرادی و اجتماعی کارکردگی کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے اُور عملاً ہوتا یہ ہے کہ ہر چند برس بعد کوئی نیا بلدیاتی نظام متعارف کروا دیا جاتا ہے‘ جو ماضی پر مٹی ڈالنے اُور ایک نئے دن کی تلاش میں آگے بڑھنے کی اُمید دلاتا ہے اُور بس۔

اندرون شہر کی کہانی یہ ہے کہ ’ٹاؤن ون‘ کی زیرنگرانی یہاں مسائل پیدا ہونے اُور اِن کے حل ہونے کی رفتار میں فرق ہے‘ جس کا بنیادی نکتہ ’ردعمل کے وقت (reaction time)‘ ہے کہ ایک طرف وہ ہستیاں ہیں جو پشاور کی ہر خوبی پر اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہیں اُور دوسری طرف وہ فیصلہ ساز ہیں جو اپنے صوابدیدی اُور غیرصوابدیدی اختیارات اُور مراعات کا تعین خود کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ ’ٹاؤن ون‘ کے مالی وسائل سے گاڑیوں کے لئے خریدا جانے والا ایندھن (پیٹرول‘ ڈیزل اُور سی اِین جی) کے حوالے سے سامنے آیا ہے‘ جس میں مذکورہ سرکاری ایندھن حاصل کرنے کا استحقاق نہ رکھنے والوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو سال ہا سال سے قواعد و ضوابط کے خلاف مراعات حاصل کر رہے ہیں اُور اب تک صرف ایندھن کی مد میں کروڑوں روپے کی بے قاعدگیاں کی گئی ہیں لیکن (خاکم بدہن) ٹاؤن ون یعنی پشاور شہر کے وسائل سے غیرقانونی ایندھن حاصل کرنے والوں کے خلاف نہ تو محکمانہ کاروائی عمل میں لائی گئی اُور نہ ہی اِس معاملے کا صوبائی حکومت‘ نیشنل اکاونٹی بیلٹی (نیب) یا کسی عدالت نے ازخود نوٹس لیا کیونکہ یہاں بدعنوانی مالی و سیاسی بااثر اُور مراعات یافتہ طبقے سے متعلق ہے لیکن جو ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہی بدعنوانی (گستاخی) کسی عام شہری سے سرزد ہوئی ہوتی تو حکام کے رویاروی فیصلے اُور بے رحم ردعمل قطعی مختلف دیکھنے میں آتا اُور اب تک اُس کی کھال کھینچ کر وصولی کی جا چکی ہوتی جبکہ ہر سطح پر حکومتی ترجمان ’بلاامتیاز کڑے احتساب‘ کے نعرے لگا رہے ہوتے!

کیا پشاور اِس قدر بے وقعت اُور بے قیادت ہو چکا ہے کہ اِس کی حیثیت ”مال ِمفت دل ِبے رحم“ جیسی ہے؟ 

لائق توجہ امر یہ ہے کہ اگر سرکاری محکمے صادق و امین نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ ’سزاو جزا‘ کے مبہم تصورات‘ کارکردگی کے احتساب سے متعلق قواعد اُور اِن قواعد و قوانین پر مصلحت شناس عمل درآمد ہے جس سے عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ بارہا غلطی تسلیم کرنے کے باوجود بھی بار بار درگزر سے کام لیا جاتا ہے جبکہ اِس طرح معافی سے تلافی نہیں ہوتی اُور پشاور کے وسائل کو پہنچنے والا نقصان (خسارہ) کسی نئی شکل و صورت میں جاری رہتا ہے۔ ”دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر .... امکان ِالتفات سے ہم کھیلتے رہے (شوکت پردیسی)۔“

تفصیلات کے مطابق ’ٹاؤن ون‘ کے وسائل سے 22 نجی گاڑیوں کے لئے فراہم کیا جانے والا پیٹرول‘ ڈیزل اُور سی این جی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ منتظم (ایڈمنسٹریٹر) نے نجی گاڑیوں اُور غیرحقدار ملازمین کے پیٹرول لینے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے گریڈ 17 سے کم درجے کے ملازمین کے لئے ’مفت پیٹرول‘ کی سہولت ختم کر دی ہے‘ جو عرصہ 10 سال سے زائد جاری رہی اُور محتاط اندازے کے مطابق اِس عرصے میں قریب ڈھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ٹاو¿ن ون کے وہ ملازمین کس طرح ایندھن حاصل کرتے رہے جبکہ وہ اِس کے حقدار نہیں تھے؟ اِس معمے کو سمجھنے کے لئے ملازمین کے درجہ بہ درجہ قائم بھائی چارے (یونین) کو دیکھنا ہوگا جس کے باعث پشاور اُور ٹاو¿ن ون کا مفاد پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ غیرحقدار ملازمین کو ایندھن کی فراہمی روکنے سے ٹاو¿ن ون کو سالانہ 2 لاکھ روپے کی بچت ہوگی! گرامی قدر ایڈمنسٹریٹر صاحب اگر اِس معاملے کی گہرائی سے تحقیق کرتے اُور ٹاؤن ون آٹو ورکشاپ سے مرمت ہونے والی نجی گاڑیوں کی مرمت و فراہم کردہ پرزہ جات کی تفصیلات بھی طلب کرتے تو مزید لاکھوں روپے کی بچت ممکن ہوتی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر ماہ اِنہی فیصلہ سازوں کے دستخطوں سے حاصل کردہ پیٹرول کی ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں اُور ’گھر کے بھیدی‘ کے بقول صرف ٹاؤن ون ملازمین ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے اہل خانہ اُور دوست احباب کی گاڑیوں میں بھی سرکاری ایندھن ڈالا جا رہا ہے جبکہ بیرون شہر سیروسیاحتی دوروں کے لئے بھی ایندھن ٹاؤن ون اکاؤنٹ ہی سے حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ 

شاعر فاروق انجنیئر نے کہا تھا کہ ”برس رہی ہے اُداسی تمام آنگن میں .... وہ رُت جگوں کی حویلی بڑے عذاب میں ہے۔“

قومی وسائل سے حاصل ہونے والے ایندھن کا غلط استعمال اُور غیرحقدار ملازمین یا عزیزواقارب کا سرکاری وسائل سے استفادہ جیسی واردات صرف ’ٹاو¿ن ون‘ میں رونما نہیں ہوئی بلکہ کم و بیش سبھی صوبائی و ضلعی سرکاری محکموں کا حال ایک جیسا ہے جہاں سرکاری وسائل کو ذاتی استعمال کے لئے مختص سمجھنے والے جس ایک حمام میں ننگے ہیں اگر اُس کلب کی سرگرمیوں کو کریدا جائے تو ایندھن کا غیرقانونی استعمال نہایت ہی معمولی جرم کے طور پر سامنے آئے گا لیکن چونکہ یہاں مرحلہ¿ فکر پشاور اُور بالخصوص پشاور شہر کے وسائل کی بابت بحث ہے اِس لئے صرف ’ٹاؤن ون‘ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کی مرتب کردہ ایک دستاویز کے مطابق ’ٹی ایم اُو کو 250 لیٹر‘ ٹاو¿ن آفیسر آئی اینڈ ایس کو 200لیٹر‘ ٹاو¿ن آفیسر فنانس کو 200 لیٹر‘ ٹی اُو آر کو 200 لیٹر‘ ایڈمنسٹریٹر آفیسر کو 200 لیٹر‘ اے ٹی آر اُو 160 لیٹر ماہانہ ایندھن کے حقدار ہیں۔ قانون کے مطابق گریڈ سولہ سے کم ملازمتی درجے کے ملازمین مفت پیٹرول حاصل نہیں کر سکتے لیکن ایسا ہوتا رہا ہے اُور صرف ایندھن ہی نہیں بلکہ سرکاری گاڑیوں کا غیرسرکاری استعمال بھی 10 سال سے جاری رہا۔

کیا اہل پشاور یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اِن کے وسائل سے غیرقانونی استفادہ کرنے والوں کو کس اختیار کے تحت معاف کیا گیا؟ اِن سے وصولی کیوں نہیں کی گئی اُور ایندھن کے علاؤہ سرکاری وسائل سے گاڑیوں کی مرمت‘ اُور اِن گاڑیوں کا نجی استعمال کرنے والوں کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ دفتری اوقات کے دوران اُور اِن کے علاؤہ تعطیلات کے روز بھی سرکاری گاڑیاں یہاں وہاں حتیٰ کہ سیاحتی مقامات پر دیکھی جاتی ہیں تو کیا صوبائی حکومت ایندھن اُور سرکاری گاڑیوں کے منجملہ غلط استعمال کا نوٹس لے گی؟

 ”اُمید اُن سے وفا کی تو خیر کیا کیجئے .... جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح (آتش بہاولپوری)۔“

https://mashriqtv.pk/daily-mashriq/uploads/mashriqnp/18-10-2021/mas-18-10-2021-2.jpg



Sunday, October 17, 2021

Petroleum Prices, inflation & threshold

 ژرف نگاہ ....شبیرحسین اِمام

غربت‘ شرافت اُور طرز حکمرانی

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 2 ماہ کے دوران 4 مرتبہ اضافے کی وجہ عالمی منڈی میں قیمتوں کا اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے سولہ اکتوبر کو جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ڈیزل کی قیمت میں 12 روپے 44 پیسے‘ پیٹرول کی قیمت میں 10روپے 49پیسے اور مٹی کا تیل 10روپے 95 پیسے اضافے جیسا غیرمعمولی ردوبدل کیا گیا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ کسی حکومتی کامیابی کا اعلان کرنے کے لئے متعلقہ وزارت کا وزیر یا وفاقی کابینہ کے اراکین اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ کا استعمال کرتے ہیں لیکن جب وفاق کی منظوری سے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتا ہے تو اِس کے لئے صرف اُور صرف متعلقہ وزارت ہی کا اعلامیہ سامنے آتا ہے جبکہ عوام کے منتخب نمائندے جنہیں عزت اُور مرتبہ دے کر قانون ساز ایوانوں تک پہنچایا جاتا ہے وہ کچھ اِس طرح مصروف (غائب) ہو جاتے ہیں کہ جیسے اُنہیں خبر ہی نہ ہو یا جیسے اُن کا اِس سے کوئی تعلق ہی نہ ہو! کاش پاکستان میں ایک وزارت غربت و مہنگائی کی بھی ہوتی جس کے فیصلہ سازوں سے بازپرس کی جاسکتی لیکن مہنگائی کا ذمہ دار ’عالمی منڈی‘ کو قرار دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ذمہ دار حکومت نہیں تو اِس جواز کو عام آدمی (ہم عوام) تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ 

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا کیونکہ اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل سے لیکر آمدورفت کے اخراجات میں اخراجات میں اضافے کا براہ راست اثر اُن ذخیروں پر بھی پڑتا ہے جو گوداموں میں پڑے ہوتے ہیں یعنی اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہو تو اِس کا اثر نہیں ہوتا لیکن معمولی اُور حالیہ غیرمعمولی اضافے کا فوری اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ حکومت عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مجبور ہوئی اُور اِسے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا تو کیا وجہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی‘ ناجائز منافع خوری اُور ملاوٹ جیسے 3 محرکات پر قابو پانے میں حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت 137 روپے 79 پیسے ہو گئی ہے جبکہ ایک لیٹر مٹی کے تیل کی قیمت 110 روپے 26 پیسے ہو گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 134 روپے 48پیسے اُور لائٹ ڈیزل آئل 108 روپے 35 پیسے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ وزارت ِخزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ ”عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں قریب پچاسی ڈالر فی بیرل کی بلند سطح پر ہیں جو اکتوبر دوہزاراٹھارہ کے بعد سے ریکارڈ قیمت ہے۔“ لیکن جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک ڈالر اُور منفی تک پہنچ گئی تھیں تو تب عوام کو کونسا ریلیف ملا تھا جو اب پچاسی ڈالر فی بیرل ہونے جیسا جواز پیش کیا جا رہا ہے۔ اُمید یہی ہے کہ پیٹرول کی قیمت فی ڈالر یعنی 170 روپے فی لیٹر کے مساوی کر دی جائے گی کیونکہ اِس درآمدی جنس پر سبسڈی ختم کرنے کے لئے حکومت پر اُن مالیاتی اداروں کا دباو¿ ہے‘ جو قرض دیتے ہیں اُور اپنے قرض کو ایسی معاشی اِصلاحات سے مشروط کرتے ہیں‘ جس میں حکومت کسی درآمدی جنس (پیٹرول‘ بجلی‘ گیس‘ گندم‘ چینی‘ گھی‘ خوردنی تیل‘ خشک چائے‘ دالیں وغیرہ) کی وہی قیمت وصول کرے‘ جو قیمت ِخرید ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ مالیاتی اُور انتظامی نظم و ضبط کا ہے کہ حکومتی اداروں کے اخراجات اِس قدر ہوتے ہیں کہ کسی درآمدی جنس کی قیمت سو فیصدی نہیں بلکہ کئی سو فیصدی تک زیادہ مقرر کرنے کے باوجود بھی قومی خزانے کا خسارہ پورا نہیں ہوتا۔ سیاسی فیصلہ سازوں (اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرز) کے اخراجات خسارے کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں اُور یوں مہنگائی کا آلاو¿ آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ مہنگائی اگر عالمی عمل ہے جس کے سامنے دنیا بے بس اُور عاجز دکھائی دیتی ہے تو اِس صورتحال میں کیا عام آدمی (ہم عوام) یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ فیصلہ سازی کے مراحل اُور سرکاری ملازمین کے اخراجات اُور مراعات بھی حسب حال و ضرورت کم ہونی چاہیئں اُور حکومت و حکومتی ادارے ’چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں؟‘

لمحہ¿ فکریہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں مسلسل اضافہ کے نہ صرف روایتی عوامل ہیں بلکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک (آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز OPEC تنظیم کے رکن ممالک) کے مفادات‘ کورونا وبا جیسا مشترکہ عمل اُور تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں کی کاروباری حکمت عملیوں کا عمل دخل بھی بڑی حد تک شامل ہوتا ہے اُور اگر یہ کہا جائے کہ کورونا وبا کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ ہر ملک اپنی برآمدات سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھا کر کورونا وبا کے باعث معاشی بحران سے نکلنا چاہتا ہے اُور اِن تیل پیدا اُور اِس کا کاروبار کرنے والے اداروں کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا پیٹرولیم مصنوعات کی زیادہ قیمتوں سے کس قدر متاثر ہوگی۔ تصور کریں کہ قدرت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات (بشمول گیس) جیسی دولت عطا کی گئی ہے اُور جن ممالک کو یہ نعمت حاصل ہے وہ دیگر ممالک کی ضروریات پوری کرنے میں استحصال کو اپنا پیدائشی حق سمجھ بیٹھے ہیں۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک محرک جس نے اہم کردار ادا کیا ہے وہ امریکی تحمل ہے۔ اس مرتبہ تیل کی عالمی مارکیٹ میں ایک حیران کن کہانی سامنے آئی ہے اُور وہ یہ کہ امریکہ میں تیل پیدا کرنے والوں نے بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جہاں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود تیل کی پیداوار میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ تیل کی قیمت میں اضافہ مہنگائی کا باعث بنتا ہے کیونکہ بہت سی مصنوعات کے لئے پیٹرولیم بطور خام مال استعمال ہوتا ہے اور اس میں بنیادی طور پر پیٹرول اور ڈیزل جو بنیادی طور پر نقل و حمل کے لئے ایندھن لیکن اِن سے بجلی کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ اِسی طرح کھاد‘ پلاسٹک‘ لوہا‘ سیمنٹ اُور دیگر صنعتیں بھی پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں الغرض زراعت (مقامی پیداوار) سے لیکر درآمدات اُور پیداواری صنعت تک زندگی کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر نہ ہوتا ہو اُور اِس سے ”انتہائی غربت“ میں اضافہ نہ ہو۔ حرف آخر: جون 2021ءمیں عالمی بینک نے کہا تھا کہ ”پاکستان کی 39.2 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔“ اِس مرحلۂ فکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ غربت سے متعلق مذکورہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد 2 ماہ میں اگر 4 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے تو کیا پاکستان میں ’غربت اُور انتہائی غربت کی شرح‘ میں اضافہ ہو گا یا کمی؟ ”میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے .... وقت بدلا تو تری رائے بدل جائے گی (ندا فاضلی)۔“

....






Wednesday, October 6, 2021

Peshawar: coping with Street Crimes!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: آرزو جرم ہے‘ مدعا جرم ہے

پشاور میں بڑھتے ہوئے عمومی جرائم (سٹریٹ کرائمز) کی کہانیاں گلی گلی اُور بازار بازار پھیلی ہوئی ہے۔ تازہ ترین واردات جس نے گل بہار میں بالعموم اُور اندرون شہر میں بالخصوص سنسنی و تشویش پھیلا رکھی ہے وہ چار اکتوبر دوہزاراکیس کی رات نو بجکر پینتیس منٹ پر ’گل بہار نمبر ایک‘ گلی نمبر ایک‘ میں پیش آنے والا واقعہ ہے جس کے بارے میں متعلقہ تھانے (گل بہار) کو مطلع کیا گیا‘ جہاں اِس قسم کی وارداتیں رپورٹ ہونا چونکہ معمول بن چکا ہے اِس لئے ابتدا میں روزنامچہ درج کر لیا گیا جو کسی واردات کا بیان اُور پولیس کے مطلع ہونے کی سند ہوتی ہے۔ پولیس فوری طور پر ’ایف آئی آر‘ درج نہیں کرتی کیونکہ اِس سے کسی تھانے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اُور یوں اپنی ساکھ بچانے کے چکر میں پشاور کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جبکہ عمومی و خصوصی جرائم سے انکار اپنی جگہ قابل ِمذمت ہے۔ جرائم کے حوالے سے پشاور شہر کی صورتحال اِس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب پولیس کے پاس سائلین (متاثرہ شہریوں) سے ہمدردی و دلاسے کے الفاظ بھی نہیں رہے۔ کسی عام شخص کا پولیس تھانے سے واسطہ پڑنے کی صورت اُسے جس قسم کے روئیوں کا سامنا ہوتا ہے اُور جس انداز میں اُسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ کہانی پھر سہی! چار اکتوبر کی شب بھی یہی ہوا لیکن اتفاق سے مذکورہ گلی میں جہاں راہزنی کی واردات رونما ہوئی وہاں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرہ لگا ہوا تھا‘ جس نے پوری واردات محفوظ کر لی اُور یوں پولیس کے ہاتھ راہزنی کرنے والے تین نوجوان لڑکوں کا حلیہ اُور اختیار کیا جانے والا دلیرانہ طریقہ واردات عیاں ہو گیا جس کے بعد مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی اُور جرم رونما ہونے سے انکار کی گنجائش بھی جاتی رہی۔ پھر یہ ”ستم“ بھی ہوا کہ واردات کی کلوزسرکٹ ویڈیو کی سوشل میڈیا پر تشہیر ہوگئی جو پولیس کے پہنچنے اُور واردات کے اِن ثبوتوں تک رسائی محدود کرنے سے قبل ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اہل پشاور ایک عرصے سے جن ’سٹریٹ کرائمز‘ سے پریشان تھے اُس کا انتہائی بھیانک چہرہ سب کے سامنے تھا! ظاہر تھا کہ راہزنی میں دکھائی دینے والے تینوں لڑکوں کی ’باڈی لینگویج‘ سے عیاں تھا کہ وہ پہلی مرتبہ واردات نہیں کر رہے تھے اُور دوسری بات اُن کو علاقے کی پوری خبر تھی کہ کونسی گلی کہاں نکلتی ہے اُور کن گلیوں میں سے ہوتے ہوئے باآسانی روپوش ہوا جا سکتا ہے۔ گل بہار میں پیش آنے والی یہ واردات رات کے ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اہل پشاور کی اکثریت عشایئے کے معمول میں مصروف ہوتی ہے اُور نو سے دس بجے کے درمیان آمدورفت کم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی سوچی سمجھی واردات تھی جس میں صرف محل وقوع ہی کو نہیں بلکہ مجرم دن کے اختتام پر شہریوں کے معمولات سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔

سٹریٹ کرائمز جیسے عمومی و خصوصی جرائم پر قابو پانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ملک کے کئی شہروں میں ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے ہیں راول پنڈی پولیس نے 86 مقامات پر ’ہائی ڈیفینیشن (HD)‘ کیمرے نصب کرنے کے علاو¿ہ پولیس کی آن لائن شکایات کو گوگل ارتھ کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے‘ جو اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے۔ پشاور کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ (Safe City Project)‘ کا تصور پیش کئے ہوئے پندرہ برس (ڈیڑھ دہائی) سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اِس پر عمل درآمد کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت (2013ءسے 2018ئ) کے دوران وزیراعلیٰ پرویز خٹک اُور 2018ءسے جاری تحریک انصاف کے دوسرے دور حکومت میں وزیراعلیٰ محمود خان ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کے حوالے سے متعدد اجلاسوں کی سربراہی کر چکے ہیں لیکن بات جہاں سے چلی تھی وہیں رُکی ہوئی ہے۔ کسی شہر کو نگرانی کے ذریعے محفوظ بنانے کی حکمت ِعملی کے پہلے مرحلے میں تین شہروں (لاہور‘ اسلام آباد اُور پشاور) کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن ماسوائے پشاور باقی دونوں شہروں دارالحکومت اسلام آباد اُور لاہور میں نہ صرف مذکورہ منصوبے مکمل کر لئے گئے بلکہ سال 2015ءسے پنجاب میں ایک خصوصی ادارہ بنام ”سیف سٹی اتھارٹیز“ بنا کر اِس کا دائرہ صوبے کے دیگر شہروں تک وسیع کر دیا گیا ہے لیکن نہیں بدلی تو پشاور کی قسمت نہیں بدلی اُور حسب اعلان پشاور کے 800 مقامات پر 6 ہزار کیمرے نصب نہ ہو سکے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس مقصد کے لئے مالی سال 2013-14ءکے بجٹ میں خطیر رقم بھی مختص کی گئی تھی لیکن پندرہ برس بعد بھی پشاور ’سیف سٹی‘ نہیں بن سکا۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ جن شہروں کو ’سیف سٹی‘ کے نام سے محفوظ بنایا گیا ہے وہاں بالخصوص سٹریٹ کرائمز اُور گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں کی چوری کی وارداتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

گل بہار پشاور میں سٹریٹ کرائمز واحد ایسا مسئلہ اُور ’لمحہ فکریہ‘ نہیں جس پر اہل علاقہ کو تشویش ہو اُور جسے حل کرنے کے لئے بار بار مطالبات نہ دہرائے جاتے ہوں۔

گلبہار کو بہار چاہئے۔ 

یہاں کے سبزہ زاروں پر تعمیرات کا جاری سلسلہ اِس حد تک طول پکڑ چکا ہے کہ کئی باغات سبزہ زاروں اُور سبزہ زار سکڑ کر راہداریوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ تجاوزات کے باعث فٹ پاتھ تلاش کرنے پڑتے ہیں جبکہ شاہراؤں اُور گلی کوچوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث آمدورفت باسہولت نہیں رہی۔ نکاسی آب کا پانی یہاں وہاں سڑک پر بہتا نظر آتا ہے۔

گل بہار کا حسن اُور کشش ماند پڑ چکی ہے کیونکہ یہاں کے رہائشی اُور تجارتی علاقے میں تمیز باقی نہیں رہی۔ گلی کوچوں میں کثیرالمنزلہ کمرشل عمارتیں بن رہی ہیں‘ جن کے نقشے منظور کرنے والوں نے پشاور سے بڑا ظلم کیا ہے۔ سڑک کنارے تجارتی مراکز کے سبب پارکنگ سرراہ ہوتی ہے اُور نکاسی¿ آب کا نظام ایسا ہے کہ بارش ہو یا نہ ہو‘ عشرت سینما روڈ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں پر پانی کھڑا رہتا ہے جہاں پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے گڑھے پڑ چکے ہیں اُور گندے پانی کی چھینٹوں سے بچ کر گزرنا آسان نہیں رہا۔

 گل بہار کے باسیوں نے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ (انسپکٹر جنرل) سے سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لئے گشت بڑھانے اُور گل بہار کے لئے الگ سیکورٹی پلان تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کر کے اہم چوراہوں کی ہمہ وقت نگرانی ممکن ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے قوت ِارادی اُور شہریوں کی شکایات کو درخوراعتنا (لائق توجہ) سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”آرزو جرم ہے‘ مدعا جرم ہے .... اِس فضا میں اُمید و وفا جرم ہے (رشی پٹیالوی)۔“

Tuesday, October 5, 2021

Environmental friendly development needed

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

تذکرۂ سود و زیاں

’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ اپنے انتظامی فیصلوں میں ’خود مختار‘ اِدارہ ہے‘ جس کے سالانہ اخراجات 35 کروڑ (350ملین) روپے میں ملازمین کی تنخواہیں شامل ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ اِس ادارے کو مالی طور پر خودمختار ہونا چاہئے اُور اِس کی آمدنی کے مستقل ذرائع میں اِس حد تک اضافہ کیا جائے کہ اِسے تعمیر و ترقیاتی امور میں دقت پیش نہ آئے۔ اِس سلسلے میں وضع کردہ حکمت عملی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی دو برس میں تکمیل سے اُمید ہے کہ سال 2023ءتک گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی سالانہ آمدنی ڈھائی ارب روپے تک جا پہنچے گی جبکہ رواں برس 55 کروڑ (550ملین) روپے کا منافع متوقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2019ءمیں اتھارٹی کی آمدنی 36 کروڑ روپے تھی جسے مالی سال 2020ءمیں بڑھاتے ہوئے 90 کروڑ روپے تک لیجایا گیا ہے۔ اتھارٹی کی آمدنی میں دو برس کے دوران 200 فیصد سے زائد اضافہ کیسے ہوگا‘ یہ بات سمجھنے کے لئے اُن 2 ترقیاتی منصوبوں کو دیکھنا ہوگا جو سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کے نام پر کئے جا رہے ہیں۔ پہلا منصوبہ نتھیاگلی میں عالمی معیار کے مطابق جدید ترین سہولیات و آسائشوں سے مزین قیام و طعام کا بندوبست (فائیو سٹار ہوٹل) ہوگا جبکہ دوسرا منصوبہ ایویبہ کے مقام پر نئی چیئرلفٹ کی تنصیب ہوگی۔ مذکورہ دونوں منصوبے غیرملکی سرمایہ کاری سے مکمل ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کا شاید پہلا ’فائیو سٹار ہوٹل‘ نتھیاگلی میں بننے جا رہا ہے اُور وہ بھی کسی شہر میں نہیں بلکہ جنگل کے بیچوں بیچ اُور ظاہر سی بات (یقینی امر) ہے کہ جب جنگل میں مور ناچے گا تو اُسے دیکھنے کا خاطرخواہ بندوبست بھی کیا جائے گا‘ جس سے گلیات کی جنت نظیر وادیوں کی خاموشی‘ سکون اُور وہاں کے مقامی لوگوں سمیت جنگلی حیات کا آرام و سکون (حقوق) پائمال ہوں گے۔

 ”ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن .... زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا (قابل اجمیری)۔“

نتھیاگلی میں پنج ستارہ (فائیوسٹار) ہوٹل کے قیام کے لئے بات چیت (مذاکرات) کا عمل 2012ءسے جاری تھا اُور بتایا جا رہا ہے کہ اِس منصوبے کی منظوری 8 سالہ غوروخوض کے بعد دی گئی ہے۔ عجیب و غریب مرحلہ¿ فکر ہے کہ آٹھ سال کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اُور نہ ہی اُن ماحولیاتی و ارضیاتی ماہرین کے بارے میں علم ہو سکا کہ وہ کون تھے جنہوں نے جنگل کے بیچوں بیچ‘ فائیوسٹار ہوٹل بنانے کو جائز قرار دیا جبکہ کسی سیاحتی مقام پر اگر بنیادی نوعیت کی قیام و طعام کی سہولیات بھی اگر مہیا کر دی جائیں تو یہ بھی کافی ہوتا ہے کیونکہ اِن جنت نظیر وادیوں اُور فطرت کا قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کے لئے چند روزہ قیام کے دوران سہولیات معنی نہیں رکھتیں بلکہ وہ قدرت سے لطف ہونے آتے ہیں اُور کسی ایسے سیاحتی مقام پر ’فائیو سٹار آسائشوں‘ کا مطلب قطعی مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر سال 2012ءسے نتھیاگلی کے ایک حصے میں درخت کاٹ کر عالمی معیار کا ہوٹل بنانے پر غوروخوض ہو رہا تھا تو اِس سے سیاسی و بلدیاتی منتخب نمائندوں کیوں بے خبر رہے!؟

نتھیاگلی میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر کا معاہدہ جس سرمایہ کار کمپنی (Baron Group) سے کیا گیا ہے وہ اتھارٹی کو زمین کے اجارے (لیز) کی مد میں قریب 85 کروڑ (850 ملین) روپے ادا کریں گے اُور یہ ادائیگی 10 سال کی مدت میں ہوگی جبکہ ہوٹل تعمیر ہونے کے بعد اتھارٹی کو سالانہ 1 ارب روپے کی آمدنی ہونے لگے گی۔ اِسی طرح ایویبہ کے مقام پر نئی (آسٹریلوی ساختہ) چیئرلفٹ لگانے کا ٹھیکہ جس سرمایہ کار کمپنی (Manal Group) کو دیا گیا ہے۔ چیئرلفٹ کی فعالیت کے بعد اتھارٹی کو سالانہ 94 کروڑ روپے آمدنی ہوگی جبکہ چیئرلفٹ کا موجودہ ٹھیکیدار 5 کروڑ روپے سالانہ ادا کر رہا ہے اُور اُس نے 58 سال قبل نصب ہونے والی چیئرلفٹ بند کرنے کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے جس کی سماعت (4 اکتوبر 2021ئ) کے روز سول جج شاہد زمان نے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ’توہین ِعدالت‘ کا نوٹس جاری کیا کیونکہ چیئر لفٹ کے ٹھیکیدار (ایاز خان) نے لفٹ کو بند کرنے سے فیصلے کے خلاف مذکورہ ایبٹ آباد سول جج ون کی عدالت سے رجوع کیا تھا اُور عدالت نے اتھارٹی کو اِس بارے تفصیلی رپورٹ جاری کرنے تک چیئرلفٹ کو جاری رکھنے کے احکامات صادر کئے تھے۔ مقدمے کی اگلی سماعت کے لئے 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ دریں اثنا اتھارٹی نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے تحریری رابطہ کرتے ہوئے ایوبیہ چیئرلفٹ کے ٹھیکیدار اُور اِس کی حمایت کرنے والے مقامی فلاحی تنظیم ”گلیات تحفظ مو¿ومنٹ“ کے چیئرمین (سردار صابر) اُور وائس چیئرمین (سردار افتخار) کے خلاف ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR) درج کرنے کا کہا گیا جن کا جرم یہ ہے کہ اُنہوں نے اتھارٹی کی جانب سے بند کی جانے والی چیئرلفٹ کے دروازے زبردستی کھول کر قانون کو ہاتھ میں لیا ہے۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فیصلہ سازوں کو سوشل میڈیا صارفین سے بھی شکایات ہیں کہ وہ اتھارٹی کے خلاف بے بنیاد تبصروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ گلیات کے رہنے والوں کو ایک تعداد ایسی بھی ہے جسے پینے کا پانی نہیں ملتا۔ خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے آمدورفت باسہولت نہیں اُور گرمی ہو یا سردی موسمی اثرات کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو انواع و اقسام کی مشکلات درپیش رہتی ہیں جن میں ماحول دوست ایندھن کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ آمدن میں اِضافے‘ سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ اُور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضے مربوط نہیں۔ زیادہ سے زیادہ آمدنی کے چکر میں اگر ماحولیاتی تنوع (eco system) کا لحاظ نہ رکھا گیا تو اِس سے حاصل ہونے والی بظاہر آمدنی درحقیقت ایک ایسا خسارہ ہوگا‘ جس کی بعدازاں ازالہ اُور غلطی کی تلافی ممکن نہیں رہے گی۔ ”اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو .... پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام (قتیل شفائی)۔“

....


Monday, October 4, 2021

Peshawar Kahani: Cultural Heritage

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: ....اِک مجسم خشک سالی 

سات دسمبر دوہزارسترہ: ’ہیئرٹیج ٹریل منصوبہ‘ کا افتتاح کیا گیا جو گورگٹھڑی آرکیالوجیکل کمپلیکس سے گھنٹہ گھر چوک تک ساڑھے چار سو میٹر لمبی سڑک کے دونوں اطراف عمارتوں اُور دکانوں کو قدیمی فن تعمیر کا نمونہ اُور مذکورہ علاقے میں شہری سہولیات کا معیار بہتر بنانے سے متعلق حکمت ِعملی تھی اُور اِس پر لاگت کے ابتدائی تخمینہ جات سے زیادہ یعنی 30 کروڑ (301.5 ملین) روپے خرچ ہوئے چونکہ تعمیراتی منصوبے میں بجلی و گیس اُور پانی کے ترسیلی گنجان آباد پشاور کے تجارتی مراکز سے گزرتا تھا جہاں کھدائی اُور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں جس پر دکانداروں نے احتجاج کیا تو اُنہیں خاموش کرنے کے لئے امدادی رقم دی گئی اُور یوں قریب نصف کلومیٹر فاصلے کی ثقافتی راہداری پر کم سے کم پچاس کروڑ روپے خرچ ہوئے! 

ثقافتی راہداری کو اِس کی جملہ خصوصیات اُور مقاصد کے لئے بحال کرنے کی ذمہ داری پشاور کی ’ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ)‘کو سونپی گئی جنہوں نے ’ٹاؤن ون‘ کی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے اِس ذمہ داری کو ماتحت ادارے کی طرف اُچھال دیا۔ اِس کے بعد مرمت و بحالی کے تخمینہ جات لگائے گئے اُور صوبائی حکومت سے 5 کروڑ (500 لاکھ) روپے کی خصوصی مالی امداد طلب کی گئی۔ عجب ہے کہ پچاس کروڑ روپے خرچ ہوئے اُور مزید پانچ کروڑ روپے صرف مرمت کے لئے درکار ہیں اُور یوں ثقافتی راہداری ایک سفید ہاتھی بن گیا ہے‘ جس پالنا پشاور کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اِس بات کی ضمانت کوئی نہیں دیتا کہ اِسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جس ’ٹاؤن ون‘ کو ثقافتی راہداری بحال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اُس کی منہ بولتی کارکردگی (پورا سچ) یہ ہے کہ شہر کا کوئی بازار تجاوزات سے پاک نہیں۔ بلند بانگ دعوؤں سے کی جانے والی کاروائیاں اُور بلڈنگ کنٹرول کے شعبے کی قانون شکنوں سے رازونیاز نے پشاور کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے کہ ملکی وغیرملکی سیاح تو دور کی بات یہاں کے مقامی لوگ بھی شہر میں ٹریفک کے اُلجھے نظام کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں! پشاور کو ”نظر ِبد“ لگی ہے یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں کے دیرینہ و بحرانی مسائل کے بارے فیصلہ سازوں اُور بااختیار کرداروں کو رتی بھر تشویش نہیں۔ پشاور کے وسائل لوٹنے کے جاری عمل میں اِس کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثے یا تو نظرانداز ہیں یا اُنہیں بھی ذاتی مفادات کے لئے قابل ِفروخت بنا دیا گیا ہے! 

”بزم میں اُس بے مروت کی مجھے .... دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا دیکھئے (وحشت کلکتوی)۔“

اندرون شہر کسی ایک بھی ترقیاتی منصوبے پر اِس قدر خطیر رقم خرچ نہیں ہوئی اُور نہ ثقافتی راہداری جیسی توجہ کسی دوسرے منصوبے کو دی گئی جو اپنی جگہ کافی ثابت نہیں ہوئی کیونکہ عالمی معیار کے مطابق ترقی تو ہو گئی لیکن اُس کی حفاظت اُور قدر دیکھنے میں نہیں آئی۔ ثقافتی راہداری ابتدائی چند ماہ انتہائی خوبصورت حالت میں رہی جبکہ اِس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں اُور تاجروں نے صفائی ستھرائی سے لیکر سہولیات کی حفاظت تک تعاون بھی کیا لیکن یہ جذبات وقت کے ساتھ تحلیل ہوتے گئے۔ سیاحوں کے لئے سیاحتی راہداری کے مختلف مقامات پر بیٹھنے کے لئے لکڑی کی بنی ہوئی تپائیاں (benches) نصب کی گئیں لیکن جس شہر میں نالے نالیوں پر رکھے ڈھکن چوری ہو جاتے ہوں‘ وہاں بیش قیمت قطار در قطار بجلی کے کھمبے اُور لکڑی کے بینچ کیسے محفوظ رہ سکتے تھے۔ وہی ہوا کہ جس کا اندیشہ تھا۔ سب سے پہلے ثقافتی راہداری سے ملحقہ دکانداروں نے تجاوزات قائم کیں۔ اِس کے بعد عام گاڑیوں (ٹریفک) کے لئے ممنوع اُور بعدازاں یک طرفہ قرار دیئے جانے سے رہی سہی کسر نکل گئی اُور سینکڑوں کی تعداد میں آٹو رکشہ‘ گاڑیاں اُور موٹرسائیکلوں کی پارکنگ سے پیدل چلنا تک دشوار ہو گیا۔

 گھنٹہ گھر کے مقام پر مچھلی منڈی سے بدبو‘ کیچڑ اُور پانی سے بچ بچا کر گزرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں جن کا واسطہ پڑے۔ ذہن نشین رہے کہ بازار کلاں سے گھنٹہ گھر تک ثقافتی راہداری بنانے کا تصور (آئیڈیا) 6 فروری 2016ءکے روز ’سرحد کنورسیشن نیٹ ورک‘ کے زیراہتمام ”ہماری ثقافت بچاؤ(Save Our Heritage“ کے عنوان سے منعقدہ نشست میں سامنے آیا تھا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور (ریاض محسود) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل عمارتوں و مقامات کے تحفظ کے لئے ’دفعہ 144‘ نافذ کریں۔ یہ مطالبہ اِس لئے اہم تھا کہ کیونکہ پشاور کے تاریخی و ثقافتی عہد و فن تعمیر کی نشانیوں میں سے بھی درجنوں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ دن دیہاڑے ہونے والے اِس ناقابل تلافی نقصان کے بارے ضلعی انتظامیہ کی سردمہری اُور کاغذی کاروائیاں قابل مذمت و افسوس ہیں‘ جن کی اصلاح پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے کسی (مقامی) شخص کو ’کمشنر‘ یا ’ڈپٹی کمشنر‘ مقرر کر کے ممکن ہے۔ کیا پشاور شہر سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک بھی ایسا اہل شخص نہیں جسے یہاں کی تاریخ و ثقافت کی حفاظت کے لئے حکومتی وسائل استعمال کرنے کا اختیار دیا جا سکے۔

”اک مجسم خشک سالی خود ہماری ذات ہے .... ضد ہماری ہستیوں کی اَبر ہے‘ برسات ہے (جوش ملیح آبادی)۔“

....


Sunday, October 3, 2021

Issues, reservations & concerns about 'Medical Education' in Pakistan

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

اہلیت و قابلیت اُور سیاست

پہلا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات کی علمی قابلیت اُور ذہنی اہلیت جانچنے کے ایک سے زیادہ معیار مقرر ہیں اُور اِن دونوں معیارات کی کسوٹی پر پورا اُترنے والوں کو ہی ’ایم بی بی ایس‘ یا ’بی ڈی ایس‘ میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی اہلیت جانچنے کا ایک معیار‘ ایک پیمانہ اُور ایک امتحان کیوں کافی نہیں ہو سکتا؟

دوسرا نکتہ: ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کے نام سے طلبہ کی اہلیت جانچنے کے لئے خصوصی امتحان میں کامیابی کے لئے 65 فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی ہے جبکہ اِس سے قبل (گزشتہ برس) یہ معیار 60 فیصد مقرر تھا۔ کامیابی کے لئے اِس قدر بلند شرح سے نمبرات حاصل کرنا کیوں لازم ہے اُور یہ معیار پچاس فیصد یا اِس سے کم کیوں مقرر نہیں ہونا چاہئے؟ 

تیسرا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے کسی خواہشمند طالب علم کے لئے ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب ہونا لازم ہے اگر کوئی طالب علم ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے تو اُسے نہ تو اپنے امتحانی پرچہ جات کی جانچ پڑتال (rechecking) کا موقع دیا جاتا ہے اُور نہ ہی وہ اپنا ایک تعلیمی سال ضائع کئے بغیر ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان دوبارہ دے سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایم ڈی کیٹ کے پرچہ جات طلبہ کی تسلی و تشفی کے لئے نہیں دکھائے جاتے اُور اُنہیں اپنے نمبر بہتر بنانے کا فوری موقع (سپلمنٹری ایگزیم) بھی نہیں دیا جاتا؟ 

چوتھا نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان کے لئے سوالنامہ قومی سطح پر تیار کیا جاتا ہے اُور اِس مقصد کے لئے پورے ملک میں ’ایف ایس سی (بارہویں کلاس)‘ کی سطح پر پڑھائے جانے والے مضامین (نصابی کتب) سے سوالنامہ تیار کیا جاتا ہے۔ اِس امتحانی حکمت ِعملی کی وجہ سے اکثر طلبہ ’آو¿ٹ آف کورس‘ یعنی وہ اپنے زیرمطالعہ رہے نصاب ِتعلیم سے ہٹ کر داغے گئے سوالات کی شکایت کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ہر صوبے اُور ہر امتحانی بورڈ کے طلبہ کے لئے اُن کے ہاں پڑھائے جانے والے نصاب سے ’ایم ڈی کیٹ‘ کا سوالنامہ تیار کیا جائے؟

پانچواں نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ میں 65فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو ناکام (fail) قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہی”فیل“ قرار دیئے جانے والے طلبہ کی بڑی تعداد بیرون ملک تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے جہاں اُنہیں داخلہ حاصل کرنے کے لئے نہ صرف اہل سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہیں خصوصی تعلیمی وظائف (سکالرشپس) بھی دیئے جاتے ہیں اُور تعلیمی مراحل امتیازی حیثیت سے مکمل کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کی اہمیت اُور ضرورت صرف پاکستان کی حد تک ہے اُور اِس سے کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت یا ذہنی اہلیت اُور رجحانات کا اندازہ لگانا درست نہیں اُور اصلاح طلب ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحانی نظام پر نظرثانی کی جائے۔

چھٹا نکتہ: بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ کے ساتھ نہ صرف ذہانت بلکہ خطیر اُور قیمتی زرمبادلہ بھی جاتا ہے جبکہ پاکستان میں طب کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں حسب طلب و ضرورت نشستوں کی تعداد میں اضافہ مطالبات کے باوجود بھی نہیں کیا جا رہا۔ ہر سال پہلے سے زیادہ طلبہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا امتحان دیتے ہیں اُور ہر سال ہی پہلے سے زیادہ طلبہ کو داخلہ نہ ملنے کی صورت مایوسی ہوتی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ اہلیت و ذہانت ہونے کے باوجود بھی طب کی تعلیم کے مواقعوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تو (خاکم بدہن) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ ہر سال کروڑوں روپے کمانے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہو؟

ساتواں نکتہ: پاکستان میں طب کی تعلیم میں یکساں اہم کردار نجی تعلیمی اداروں کا ہے‘ جنہوں نے اِس شعبے میں مالی وسائل سے سرمایہ کاری کے علاو¿ہ ذہین ترین اُور قابل اساتذہ کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ نجی کالجوں کے درمیان پائے جانے والے مقابلے کے ماحول میں اُنہیں فوقیت (داخلہ لیتے وقت دوسروں پر ترجیح) دی جائے لیکن حکومت کی جانب سے نہ تو نجی اداروں کی سرمایہ کاری کو تحفظ حاصل ہے‘ نہ اِنہیں بلاسود قرضہ جات دیئے جاتے ہیں تاکہ یہ مالی بحران سے نکلنے اُور اپنی خدمات کے معیار کو بلند کرنے میں مزید سرمایہ کاری کریں۔ کورونا وبا نے طب کے سبھی نجی اداروں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے‘ جن کی مدد بارے حکومت نے دو سال سے تاحال کوئی پالیسی نہیں دی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت طب کے نجی تعلیمی اداروں کی خدمات کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن اِن کی سرپرستی نہیں کی جاتی؟

آٹھواں نکتہ: طب (میڈیکل و ڈینٹل) کے نجی تعلیمی اداروں کو جامعات کا درجہ دینے اُور اُن کے ہاں نشستوں کی تعداد (زیرتعلیم طلبہ کی گنجائش) بڑھانے میں بھی متعلقہ منتظم حکومتی ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) اُور سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز دلچسپی نہیں لے رہے۔ تعلیم کے شعبے میں مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خصوصی حکمت ِعملی وضع کیوں نہیں کی جاتی؟

نواں نکتہ: اٹھارہویں آئینی ترمیم (سال 2010ئ) سے لاگو ہے جس کا بنیادی نکتہ صوبائی خودمختاری کی صورت فیصلہ سازی میں وفاق کے بوجھ کو کم کرنا ہے لیکن طب کی تعلیم کے منتظم ادارے (پاکستان میڈیکل کمیشن) کو وفاقی حکومت نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اُور اِس کی جملہ فیصلہ سازی سمیت اِس ادارے کے نگرانوں کا انتخاب بھی منظور نظر (من پسند) افراد سے کیا جاتا ہے‘ جن میں اکثریت کا طب کی تعلیم یا اِس شعبے سے دور دور کا واسطہ (تعلق) نہیں ہوتا اُور جب یہ غیرمتعلقہ لوگ فیصلہ سازی کرتے ہیں تو اِن کے فیصلے اُور اقدامات نہ صرف زیرتعلیم اُور تعلیم حاصل کرنے کے خواہمشندوں بلکہ طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے جملہ پیشہ ور افراد کے لئے بھی پریشانی اُور مشکلات کا باعث ہوتے ہیں۔ آخر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو طب کی تعلیم سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا جیسا کہ دیگر درجات میں تعلیم کے لئے اِنہیں اختیار حاصل ہے؟

دسواں نکتہ: طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم اندرون یا بیرون ملک حاصل کرنے والوں کو مساوی تصدیق نامے (رجسٹریشن) جاری کی جاتی ہے جبکہ دونوں قسم کے تعلیمی بندوبست میں علمی و عملی نصاب کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیرون ملک کا کوئی بھی تعلیمی ادارہ پاکستان سے پوچھ کر یا پاکستان کی منظوری سے نصاب تعلیم نہ تو مرتب کرتا ہے اُور نہ ہی ایسا نصاب تعلیم لاگو کرتا ہے‘ جو پاکستان میں بھی پڑھایا جا رہا ہو۔ کیا وجہ ہے کہ الگ الگ نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو بعدازاں ایک ہی ترازو میں تولا جاتا ہے؟

گیارہواں نکتہ: طب کے تعلیمی بندوبست کے حوالے سے جملہ فریقین (طلبا و طالبات‘ اِن کے والدین و اساتذہ‘ نجی تعلیمی اداروں اُور طب کے تعلیمی امور بارے ماہرین) کا ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی کارکردگی اُور فیصلہ سازی کے بارے تحفظات اُور شکایات ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ اِن سبھی فریقین کی رائے (اجتماعی دانش) کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی؟ ”سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی .... کبھی چہرہ نہیں ملتا‘ کبھی درپن نہیں ملتا۔ (شاعر نامعلوم)۔“

بارہواں نکتہ: سیاست کے لغوی سمجھنے اُور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ایسا طرزفکروعمل کا مجموعہ ہے کہ جس سے وابستہ کردار اختلافات ختم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں اُور ریاستی و غیرریاستی وسائل بروئے کار لاتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں ”کامیابی کا معیار“ اختلافات کم یا ختم کرنے کی بجائے اِن کی شدت میں اضافے سے منسوب ہے۔ کیا یہ طرز ِسیاست تبدیل نہیں ہونا چاہئے؟ ”سیاست کے چہرے پہ رونق نہیں .... یہ عورت ہمیشہ کی بیمار ہے (شکیل جمالی)۔“

....



Editorial Page Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated October 03, 2021 Sunday


Peshawar Shanasi: Agricultural profile

 پشاور شناسی

....تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

جنوب ایشیا کے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہونے کا اعزاز رکھنے والے ’پشاور‘ کی معلوم تاریخ سے متعلق 2 حوالے قابل ذکر ہیں۔ پہلے حوالے میں پشاور کا وجود آج سے کم و بیش 1483 برس پہلے سے ثابت ہے جبکہ تاریخ کا دوسرے حوالہ پیش کرتے ہوئے آثار قدیمہ و ارضیات کے ماہرین و تحقیق کار دعویٰ کرتے ہیں کہ پشاور کی پہلی اینٹ کب رکھی گئی یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ شہر آج سے ڈھائی ہزار سال قبل یا اُس سے بھی پہلے موجود تھا اُور اِس دعوے کے ثبوت میں کھدائیوں سے برآمد ہونے والے آثار و نوادرات‘ سکے‘ برتن اُور تعمیراتی نمونے پیش کئے جاتے ہیں‘ جنہیں ایک الگ اُور خصوصی عجائب گھر (سٹی میوزیم) میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے۔ پشاور کے قائم و دائم پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لئے ’سٹی میوزیم‘ بنانے کی حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں کی تاریخ کے منفرد پہلوؤں اُور اِس زندہ تاریخی شہر میں پائے جانے والے زندہ آثار قدیمہ کو محفوظ و بحال کیا جائے اُور اِن سے سیاحتی وسائل کی صورت استفادہ کیا جائے تاکہ دنیا بھر سے سیاح پشاور کی تاریخی حیثیت اُور یہاں رواں دواں طویل و مسلسل زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے آئیں لیکن مختلف وجوہات (امن و امان کی غیریقینی پر مبنی صورتحال‘ کورونا کی عالمی وبا اُور سیاحتی ترقی کے لئے مختص مالی وسائل کی کمی) جیسے محرکات کے سبب اِس حکمت ِعملی کو ’اچھے دنوں‘ کی اُمید میں مو¿خر کر دیا گیا ہے تاہم صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پشاور کا مخصوص طرز ِتعمیر جو مکانات کی صورت موجود ہے‘ اِس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اُور اگرچہ صوبائی محکمہ¿ آثار قدیمہ نے ایسے سینکڑوں مکانات کی فہرستیں مرتب کر رکھی ہیں جنہیں ’قدیمی (آثار قدیمہ)‘ قرار دیا گیا ہے اُور اُنہیں منہدم یا تعمیرومرمت کے ذریعے اُن کے فن تعمیر سے چھیڑچھاڑ کی ممانعت ہے لیکن بازار کلاں‘ محلہ قاضی خیلاں‘ گنج‘ کریم پورہ‘ اندر شہر‘ ڈھگی دالگراں‘ رامپورہ گیٹ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں نہ صرف مکانات منہدم کرکے ازسرنو تعمیر ہوئے ہیں بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں محفوظ قرار دی گئی فصیل شہر کو منہدم کر کے یا نقصان پہنچانے کی صورت قوانین و قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ چند ایک ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں محکمۂ آثار قدیمہ کے فیصلہ سازوں نے پشاور کے اِن ناقابل تلافی نقصانات پر مگرمچھ کے آنسو بہائے اُور کاغذی کاروائیوں کے طور پر محفوظ آثار کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف متعلقہ تھانہ جات میں مقدمات (ایف آئی آر) درج کروانے کے لئے درخواستیں دیں لیکن کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جس میں ملزمان کو مجرم بناتے ہوئے آثار قدیمہ کے قوانین کے تحت ایسی سخت سزائیں دی گئی ہوں جو دوسروں کے لئے نشان ِعبرت ٹھہریں۔ مقدمہ (ایف آئی آر) درج کروانے کی حد تک نمائشی کارکردگی کا پشاور کو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ محکمۂ آثار قدیمہ کے چند ملازمین کی مالی حالت ضرور تبدیل ہوئی اُور برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آثار قدیمہ کے اہلکاروں کی مٹھی گرم رکھے تو اُسے حاصل من چاہی آزادی پر قانون شکنی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2020ءمیں جاری کردہ 180 بدعنوان ممالک کی فہرست میں پاکستان 124ویں نمبر پر فائز ہے۔ بدعنوان کی چھاپ اِس لحاظ سے بھی قابل مذمت ہے کہ اسلامی ملک کے بارے عالمی رائے ایسے نظریاتی ملک کا حوالہ بن چکی ہے‘ جہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے! باعث ِشرمندگی ہے کہ عالمی بدعنوان ممالک میں پاکستان کی درجہ بندی بھارت سے بھی زیادہ گئی گزری (خراب) ہے جو بدعنوان ممالک کی مذکورہ فہرست میں 40ویں درجے پر ہے۔ بدعنوانی کی اِس چھاپ سے چھٹکارہ سرکاری ملازمین کی مالی حالت اُور اِن کی کارکردگی کا احتساب کئے بغیر ممکن نہیں۔ پشاور اگر ایک‘ ایک کر کے اپنی خوبیوں (فن ِتعمیر کے شاہکاروں) کو کھو رہا ہے تو اِس کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ¿ آثار قدیمہ کے اُن اہلکاروں کا احتساب ہونا چاہئے‘ جنہوں نے اپنے صوابدیدی اُور غیرصوابدیدی اختیارات ”برائے فروخت“ پیش کر رکھے ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق ’دوہزارپندرہ مربع کلومیٹر‘ رقبے پر پھیلے پشاور کا شہری علاقہ ’دوسو پندرہ مربع کلومیٹر‘ وسیع ہے یعنی ضلع پشاور کی اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے‘ جہاں کے رہنے والوں کی معیشت و معاشرت کھیتی باڑی (زراعت) سے وابستہ ہے اُور وادئ پشاور کی یہ خوبی (خصوصیت) شاید بہت ہی کم قارئین کو معلوم ہو کہ .... پشاور ایسی ”زرخیز و شاداب اُور نایاب وادی“ کا نام بھی ہے جہاں مختلف موسموں کے پھل سبزی اُور اجناس بیک وقت اُگائے جاتے ہیں اُور صرف یہی نہیں بلکہ اِن کا معیار‘ لذت اُور غذائی خصوصیات بھی بہترین (مثالی) ہوتی ہیں لیکن پشاور پر موسم کی عنایات‘ یہاں کی زرخیزی اُور زود ہضم پانی جیسی نعمت کی خاطرخواہ قدر (احساس) دیکھنے میں نہیں آتا۔ آثار قدیمہ کی صورت صدیوں پر پھیلی تاریخ ہو یا زرخیزی و شادابی کی صورت قدرت کی عنایات‘ پشاور مقام ِشکر ہے جسے ناشکری سے بدل دیا گیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ہریانہ‘ ناساپہ‘ شکرپورہ اُور دامان ِافغانی نامی (بیشتر ٹاؤن ٹو کے) دیہات سے تعلق رکھنے والے کاشتکار اُور زمیندار اِن دنوں سراپا احتجاج ہیں کیونکہ مبینہ طور پر پشاور کے مضافاتی علاقوں میں باغات اُور کھیتوں کو حسب سابق پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے پشاور کے دیہی سرسبز و شاداب علاقے بنجر میدانوں (barren plains) میں تبدیل ہو رہے ہیں! 

کاشتکاروں اُور زمینداروں کے اِس احتجاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس باریک نکتے پر غور کی ضرورت ہے کہ پشاور اگر صدیوں سے آباد ہے تو اِس کی بنیادی وجہ کیا ہے جبکہ اِس عمر کے دیگر شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں؟ توجہ طلب ہے پشاور کی حیات اُور یہاں کی رونقوں کا بنیادی محرک سارا سال دستیاب رہنے والا پانی ہے جو پشاور کے وسائل پر آبادی کے بوجھ‘ ناقص و غلط منصوبہ بندی کے باعث کم ہو رہا ہے۔ حالیہ مردم شماری (دوہزارسترہ) کے نتائج بارے ملک کے سبھی بڑے شہروں میں احتجاج کیا گیا لیکن پشاور جو کہ پاکستان کا چھٹا بڑا شہر ہے اِس سے متعلق خانہ و مردم شماری کے نتائج کو من و عن تسلیم کر لیا گیا لیکن پشاور کے مسائل اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک یہاں کی آبادی سے متعلق اعدادوشمار کو درست نہیں کیا جاتا اُور اِس سلسلے میں صوبائی اُور ضلعی حکومت کو متعلقہ وفاقی ادارۂ شماریات پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے افرادی و تکنیکی وسائل سے پشاور کی کل 92 یونین میں خانہ و مردم شماری کا عمل شروع کرنا چاہئے تاکہ ہر علاقے کی اپنی ضروریات و مسائل کے حل بارے غوروخوض اُور منصوبہ بندی ممکن ہو سکے۔ ایک لاٹھی سے سب کو ہانکا نہیں جا سکتا اُور بنا درست اعدادوشمار اندھی ترقی (ہوا میں تیر چلانے) سے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ سائنسی علوم سے فطرت کا یہ اصول ثابت ہے کہ کسی عمل کو بار بار‘ ہزار بار اُور لاکھوں بار بھی غلط طریقے سے سرانجام دینے سے ایک ہی نتیجہ بصورت ناکامی (failure) نکلتا ہے تو پشاور کے مسائل کو اِس زاویئے سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ آج پشاور ایک وسیع و عریض تجربہ گاہ کا نام ہے‘ جہاں غلطیوں کو غلطیوں سے درست کرنے کی پے در پے کوششوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی مسائل پہلے سے زیادہ شدید بلکہ بحرانی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

 ”مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں .... تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا (میر تقی میر)۔“

....




Saturday, October 2, 2021

Afghan Refugees: Road to Hazara

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

سیکورٹی خطرات و خدشات

افغان مہاجرین کی ہزارہ ڈویژن آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے یہ مہاجرین مانسہرہ پہنچ رہے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد مہاجرین شنکیاری‘ خاکی‘ اچھڑیاں‘ گڑھی حبیب اللہ‘ اُوگی‘ مانسہرہ شہر‘ بٹ دریاں اُور شیخ آباد کیمپ پہنچ رہے ہیں لیکن اِن کی رجسٹریشن نہیں ہو رہی۔ پولیس حکام اپنی جگہ حیران اُور تشویش میں مبتلا ہیں اُور ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کے بقول مہاجرین کی آڑ میں جرائم پیشہ یا دہشت گرد عناصر کے ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ پولیس کے پاس نہ تو افرادی و تکنیکی وسائل اُور نہ ہی احکامات موجود ہیں کہ نئے آنے والے مہاجرین کی رجسٹریشن کرے۔ اصولاً سرحد میں داخل ہونے کے وقت مہاجرین کے کوائف رجسٹر کرنے کے بعد اُنہیں رجسٹریشن دستاویزات جاری ہونی چاہیئں‘ جنہیں اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی نقل و حرکت سے متعلقہ تھانے کو آگاہ کریں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی افغان مہاجر خاندان مانسہرہ میں پہلے سے موجود عزیزواقارب کے پاس یا مقررہ مقامات (مہاجر خیمہ بستیوں) میں قیام کرنا چاہتا ہے تو اپنی رجسٹریشن کی سند کا متعلقہ (قریبی) تھانے میں اندراج کرے جہاں مہاجرین کے کوائف سے متعلق ایک الگ رجسٹر ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے رجسٹرڈ مہاجرین کو پاکستان میں موبائل فون کنکشن خریدنے کی سہولت دی گئی ہے لیکن اِس کے کوائف متعلقہ پولیس تھانے کو فراہم نہیں کئے جاتے۔ رجسٹریشن کے بعد اُور بنا رجسٹریشن مہاجرین کو نقل و حرکت کی آزادی ہوتی ہے اُور چونکہ سرکاری اِدارے آپس میں مربوط نہیں‘ اِس لئے مہاجرین انتظامی خامیوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

ہزارہ ڈویژن میں جرائم کی صورتحال پہلے ہی غیرمعمولی ہے۔ گاڑیاں اُور موٹرسائیکل چوری کی وارداتیں جو ماضی میں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن اب اِن کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹریٹ کرائمز بھی تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ رواں ہفتے ایبٹ آباد سے چوری شدہ 31 موٹرسائیکل برآمد کئے گئے اُور اِس کارہائے نمایاں کو مزید نمایاں کرنے کے لئے ’تھانہ سٹی‘ میں تیس ستمبر کے روز اعلیٰ پولیس حکام (ایڈیشنل ایس پی‘ ایس پی انوسٹی گیشن‘ اے ایس پی‘ ڈی ایس پیز اُور ایس ایچ اُو) نے پریس کانفرنس کی۔ مذکورہ موٹرسائیکل ضلع ایبٹ آباد کے مختلف تھانہ جات سے چوری کئے گئے تھے اُور بیشتر وارداتوں میں ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں (CCTV)‘ کی مدد سے موٹرسائیکل چوروں کا سراغ لگایا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ضلعی ولیس سربراہ ظہور بابر آفریدی نے چوری شدہ موٹرسائیکل برآمد کرنے کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں ڈی ایس پی کینٹ راجہ محبوب اُور ایس ایچ اُو سٹی سردار واجد شامل تھے اُور اِس اقدام کے نتیجے میں ایبٹ آباد سے موٹرسائیکل چوری کرنے والا 4 رکنی گروہ گرفتار کیا جن کے قبضے سے 31 موٹرسائیکل برآمد ہوئے اُور اِن میں سے 9 موٹرسائیکلوں کو اُن کے مالکان کے حوالے کر دیا گیا۔ بنیادی ضرورت آبادی کے تناسب سے تھانہ جات اُور پولیس کی افرادی قوت میں اضافہ کرنے کی ہے‘ جس کی جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ 1969 مربع کلومیٹر پر پھیلا ’ایبٹ آباد‘ ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ہے۔ اِدارہ¿ شماریات (pbs.gov.pk) کی ویب سائٹ پر دستیاب چھٹی مردم شماری (2017ئ) کے نتائج کے مطابق ایبٹ آباد تحصیل کی کل آبادی 9 لاکھ 81 ہزار 590 افراد (7 لاکھ مرد اُور قریب ڈھائی لاکھ خواتین) پر مشتمل ہے جن میں شہری علاقے میں 2 لاکھ 44 ہزار اُور دیہی علاقوں میں 7 لاکھ 36 ہزار سے زیادہ لوگ رہتے ہیں اُور یہ ایک ٹاو¿ن اُور پینتیس یونین کونسلوں کا مجموعہ ہے۔ عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ ایبٹ آباد شہر چاروں اَطراف میں پھیل رہا ہے۔ نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں اُور دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی جانب نقل مکانی کا رجحان اپنی جگہ موجود ہے۔ مزید مہاجرین کی آمد کا ایک منفی اثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مکانوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ مہاجر خاندان کسی ایک گھر کو مل بانٹ کر استعمال کرتے ہیں اُور یوں دو یا تین خاندان کرایہ تقسیم کر لیتے ہیں جبکہ مقامی افراد کی اکثریت ایک گھر یا گھر کے ایک حصے (پورشن) میں رہتی ہے۔

مہاجرین کی آمد کے ساتھ کرائے کے مکانات کی مانگ بڑھ گئی ہے جن سے متعلق اگرچہ قانون موجود ہے کہ کوئی بھی مالک مکان اپنے ہاں ٹھہرنے والے کرایہ داروں کے کوائف سے متعلقہ تھانے کو مطلع کرتا ہے لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک سے زیادہ خاندانوں کے بارے میں تھانے کو آگاہ نہیں کیا جاتا اُور یوں بنا کوائف معلوم ہوئے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد شہری علاقوں میں روپوش رہتی ہے‘ جن کی کھوج کا عمل اگرچہ جاری رہتا ہے لیکن یہ ایک مستقل خطرہ ہے۔

طالبان کے اَفغان دارالحکومت میں داخل ہونے (پندرہ اگست دوہزاراکیس) سے پہلے پاکستان کی جانب افغانوں کے سفر کا سلسلہ جاری تھا جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا تاہم طالبان نے طورخم اُور چمن پر جمع پہلے سے موجود ہزاروں خاندانوں میں مزید اضافہ نہیں ہونے دیا۔ افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق طالبان پاکستان اُور ایران کی جانب صرف اُنہی افراد کو سفر کی اجازت دیتے ہیں‘ جن کے پاس سفری دستاویزات (پاسپورٹ اُور ویزا) ہوں چونکہ افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے فعال ہیں جہاں سے علاج معالجے یا تجارت جیسے مقاصد کے لئے زیادہ ویزے جاری کئے جاتے ہیں‘ اِس لئے افغان بطور مہمان داخل ہوتے ہیں‘ جس کے بعد وہ اپنی حیثیت مہاجرت میں تبدیل کر لیتے ہیں۔

عالمی قوانین کے مطابق ایسے افراد کی سہولت کاری کے لئے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این ایچ سی کے دفاتر اُور گشتی مراکز موجود ہیں‘ جہاں افغانوں سے بات چیت کر کے اُور اُن کی بیان کردہ مجبوری یا درپیش خطرے سے متعلق مو¿قف کو درست تسلیم ہونے کی صورت مہاجر ہونے کی سند (رجسٹریشن کارڈ) جاری کیا جاتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایران کی طرح مہاجرین کے لئے خیمہ بستیوں تک محدود رہنے کی پابندی نہیں اُور وہ رجسٹرڈ ہونے کے بعد پاکستان کے کسی بھی حصے میں بودوباش اختیار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی داخلی سیکورٹی (امن و امان کی صورتحال) کو درپیش مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ مہاجرین کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے اُور مزید افغان مہاجرین کی آمد کے جاری سلسلے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی ادارے مربوط حکمت عملی تشکیل دیں کیونکہ خطرہ بڑا ہے اُور انسانی ہمدردی کی آڑ میں ملک دشمن عناصر یا جرائم پیشہ گروہوں کے پاکستان میں داخل ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

....


Friday, October 1, 2021

China Foundation Day 2021

ڑرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

چین‘ یوم جمہوریہ: بے مثل ترقی کا سفر

چین کی آزادی اور ترقی کا سفر جس ایک فیصلے پر پختگی و سختی سے عمل کا نتیجہ ہے۔ اس میں ’روائتی طرز ِحکمرانی‘ کو ’عوامی جمہوریہ‘ سے بدلا گیا جس کے بعد چین کے 72 سالہ سفر (یکم اکتوبر 1949 سے یکم اکتوبر 2021) میں ’عوامی جمہوریہ چین‘ نے ایک سے بڑھ کر ایک سنگ ِمیل عبور کئے اور ان کارہائے نمایاں میں سب سے اہم ”انتہائی غربت میں غیرمعمولی کمی“ ہے جبکہ حاصل مطالعہ چین کی قومی ترجیحاتی حکمت ِعملی کے 3 پہلو ہیں۔ 1: ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط بڑھانے کے نئے امکانات کی تلاش اور بہتر سے بہتر کی جستجو (جہد ِمسلسل)۔ اِن تینوں شعبوں اور امور میں قومی فیصلہ ساز کس حد تک کامیاب و کامران رہے اِس بات کا اندازہ چین کی ترقی کے اقتصادی اعشارئیوں سے متعلق اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ تعجب خیز ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ 2019سے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی معیشت کورونا وبا کے دباؤ میں ہے لیکن چین کی سالانہ شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہے جو سالانہ 100کھرب یوآن تک جا پہنچی ہے اور چین میں فی کس اوسط آمدنی 10 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ ذہن نشین رہے چین کی کرنسی یوآن کا پاکستانی روپے سے شرح تبادلہ 31 اگست2021کے روز 25 روپے پچاس پیسے جبکہ 30 ستمبر 2021کے روز 26 روپے 25 پیسے رہا یعنی پاکستانی روپے کے مقابلے چین کی کرنسی کی قدر میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔

چین کے موجودہ صدر ڑی جن پنگ (Xi Jinping) نومبر 2012ئ سے حکمراں جماعت چائنیز کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور صدارتی عہدے فائز ہیں اور اِس عرصے میں پہلے دن انہوں نے 10 کروڑ (100ملین) لوگوں کو خط ِغربت سے بلند کرنے کے جس عزم کا اظہار (قوم سے وعدے کی صورت) کیا تھا ا±سے عملاً پورا کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ اِنسانی تاریخ میں اِس جیسی ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ جہاں کسی قوم کے 98 فیصد غریبوں کی مالی حالت تبدیل ہو گئی ہو! ذہن نشین رہے کہ ’خط ِغربت‘ کسی ملک میں ایسے افراد کی تعداد کا تعین کرتا ہے جن کی یومیہ آمدنی 2.30 (ڈھائی) امریکی ڈالر یومیہ سے کم ہو۔ چین میں غربت اِس کے شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ تھی۔ چین نے پہلا کام یہ کیا کہ خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد معلوم کرنے کے لئے عالمی پیمانے (ڈھائی ڈالر یومیہ آمدنی) کو مزید کم کر کے 1.90 ڈالر یومیہ آمدنی کے حساب سے آبادی کی تعداد معلوم کی اور دوسری خاص بات یہ رہی کہ غریبوں کو نقد مالی اِمداد دے کر مصنوعی طریقے سے خط ِغربت سے بلند نہیں کیا گیا بلکہ روزگار کی فراہمی اور ہنرمندی کے ذریعے اِنہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا یعنی روزگار کی فراہمی سے معیشت و معاشرت کو مستحکم کیا۔ ذہن نشین رہے کہ ”یومیہ ایک اعشاریہ نوے امریکی ڈالر“ کا پیمانہ عالمی بینک کا وضع کردہ ہے جس کی پاکستانی روپے میں قدر قریب 327 روپے بنتی ہے یعنی ہر وہ شخص جس کی یومیہ آمدنی تین سو ستائیس روپے یا اِس سے کم ہے وہ ’خط ِغربت‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ 1990میں 75 کروڑ (750 ملین) چینی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جبکہ 2012 میں یہ تعداد کم ہو کر 9 کروڑ (90ملین) ہو گئی اور 2016 میں مزید کم ہو کر 72لاکھ (7.2 ملین) رہ گئی جو چین کی کل آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے یعنی چین کی کل آبادی کا صرف 0.5 فیصد خط غربت سے نیچے ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں 30 سال پہلے جو 74 کروڑ 50 لاکھ انتہائی غریب لوگوں رہتے تھے‘ ان میں سے آدھ فیصد ہی انتہائی غریب رہ گئے ہیں۔ چین نے انتہائی غربت کم نہیں کی بلکہ اِس کا عملاً اِنسداد کیا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بالکل اسی چین کے طوطے کی طرح سبق سیکھنا چاہئے جو ایک فرضی کہانی کا کردار ہے کہ پنجرے میں بند چین کے ایک طوطے کا پیغام سن کر کس طرح اس کے ہم جنس نے قید سے رہائی حاصل کی اور اگر پاکستان کے قومی فیصلہ ساز متوجہ ہوں اور چین کی دوستی پر فخر اور ناز کرتے ہوئے صرف یہ کہنے پر اکتفا نہ کریں کہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہرائی‘ ہمالیہ پہاڑی سلسلے سے زیادہ بلند و مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو یقینا ایسا ہی ہوگا لیکن اصل چیز چین سے تعمیروترقی اور غربت کو شکست دینے کے اس عمل کے مطالعے اور تجربے سے فائدہ اٹھانا ہے جس نے چین کی حکمرانی کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کیا ہے اور آج دنیا کی کوئی ایسی معیشت‘ کوئی ایسی ترقی اور کوئی ایسی سیاسی و سماجی حکمت ِعملی (لائحہ عمل) نہیں جس پر چین کے اثرات‘ چھاپ یا تحقیق و ترقی کا عمل دخل نہ ہو۔

جون 2021 میں مرتب کردہ عالمی اعدادوشمار جو کہ عالمی بینک کے مرتب کردہ ہیں کے مطابق سال 2021-22 کے دوران پاکستان میں انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد 39.3 فیصد ہے جو سال 2022 میں بھی کم و بیش یہی رہے گی جبکہ موجودہ حکومت کی معاشی اصلاحات کا تسلسل رہا تو عالمی بینک کے مطابق سال 2022-23 کے دوران انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد کم ہو کر 37.9فیصد ہو جائے گی۔ تصور ممکن نہیں کہ ہر 100 پاکستانیوں میں سے 37 افراد ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی ان کے 3 وقت کی کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم و علاج معالجے سے محروم ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات نہیں رکھتے۔ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں غربت کے اعدادوشمار کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ ہر سال ساڑھے چار سے ساڑھے پانچ فیصد غریبوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ چین نے غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے زرعی شعبے اور ان قدرتی وسائل کو ترقی دی‘ جس روائتی انداز کے سبب منافع بخش نہیں رہی تھی۔ یہی آج کے پاکستان کا بھی مسئلہ ہے کہ ہم ’زرعی ملک‘ تو ہیں لیکن زراعت اور زرعی معیشت و معاشرت وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ترقیاتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ دعوت ِفکر ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی صداحترام قیادت اور باشعور عوام کو ’یوم ِجمہوریہ‘ کے موقع پر ڈھیروں ڈھیر مبارکبادیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چین کی ترقی کے 3 بنیادی پہلوؤں (ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط کے نئے امکانات کی جستجو و تلاش) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ چین نے علم و عمل کی بنیاد پر ترقی و ارتقا حاصل کیا ہے اس میں اپنی زبان اور تاریخ و ثقافت کو فراموش نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ چین کی حکمرانی اِس کی جغرافیائی سرحدوں میں محدود نہیں رہی بلکہ وہ دوستی کی علامت اور امن و ترقی کی عالمی شراکت دار بن چکا ہے۔ چین کی کامیابیوں میں پاکستان کے دیرینہ مسائل (بحرانوں) اور انسداد ِغربت کا راز (حل) پوشیدہ ہے لیکن کوئی ہے کہ جو غور کرے؟ ”میں چاہتا تھا کہ دنیا کو تیرے جیسا لگوں .... سو تیرے قول و عمل کی مثال ہونے لگا (یاور عظیم)۔“

....