Monday, December 21, 2020

Strategy regarding Zoo and wildlife

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

چڑیا گھر

شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا لیکن شوق ظلم‘ اذیت اُور باعث آزار بھی نہیں ہونا چاہئے۔ پشاور کے پہلے اُور ملک کے سب سے بڑے چڑیا گھر کا افتتاح ’12فروری 2018ئ‘ کے روز ہوا۔ 29 ایکڑ پر مشتمل اِس چڑیا گھر کا منتظم ادارہ جنگلات‘ ماحولیات اُور جنگلی حیات ہے‘ جس نے چڑیا گھر کے قیام اُور دیکھ بھال سے متعلق صوبائی حکمت عملی کو نافذ کیا اُور اِسی کی حدود (پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ) میں چڑیاگھر بنایا گیا جس کی افتتاحی تقریب میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اُور (اُس وقت کے) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک شریک ہوئے تھے۔ ابتدا میں لاہور کے چڑیا گھر اُور ڈھوڈیال‘ مالاکنڈ‘ نتھیاگلی سے جانور پشاور لائے گئے جبکہ جون 2018ءمیں جنوبی افریقہ سے دو بنگالی چیتے اُور زرافہ جبکہ سانپ گھر کا اضافہ کیا گیا۔ نومبر 2018ءمیں متحدہ عرب امارات سے جانور لائے گئے لیکن وقت کے ساتھ چڑیا گھر کی آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہوتی رہی‘ وجہ یہ تھی کہ جانوروں کی خوراک اُور اُن کے علاج معالجے (صحت) پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ کچھ پشاور کی گرمی نے بھی ستم ڈھایا اُور چڑیا گھر کا افتتاح ہونے سے قبل ہی کئی جانور مر گئے لیکن چونکہ یہ ایک اعلیٰ سطح پر کیا گیا فیصلہ تھا اِس لئے جانوروں کی زندگی‘ صحت‘ خوراک اُور پشاور کی گرمی و سردی جیسی شدید موسمی صورتحال جیسے خطرات یکسر نظرانداز کر دیئے گئے۔ جانوروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہونے والوں اُور تفریح کا یہ ’ظالمانہ انداز‘ فراہم کرنے والوں کو ’ہم زمین مخلوقات‘ کی فطرت اُور موافق حالات کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ اگر صوبائی حکومت کے پاس انسانوں ہی کی بنیادی ضروریات جیسا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے خاطرخواہ مالی وسائل دستیاب نہیں تو وہ کس طرح ’چڑیا گھر‘ جیسی آسائش فراہم کر سکتی ہے جبکہ چڑیا گھر جیسے تفریحی ذریعے کی فراہمی ’آئینی ذمہ داری‘ بھی نہیں اُور پینے کا صاف پانی‘ صفائی‘ علاج و معیاری تعلیم کی فراہمی آئین میں لکھی ہوئی ایسی ذمہ داریاں ہیں‘جن سے غفلت کے باعث وفاقی اُور صوبائی فیصلہ ساز اُور سرکاری اہلکار ’جرم‘ کا ارتکاب کر رہے ہیں!

چڑیا گھر بند کیا جائے۔ پندرہ دسمبر کے روز ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر سے متعلق ایک مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ مذکورہ فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 2 ریچھوں کی اردن منتقلی سے متعلق توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ چڑیا گھر حراستی کیمپس ہیں اور جانوروں کو ان کے غیر فطری ماحول میں رکھنا تکلیف دہ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریچھوں کی اردن منتقلی کے انکار کے حوالے سے بیان پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ وزیر اعظم کی جانوروں کے ساتھ تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبل ازیں 2 شیروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ غلط تاثر دیا گیا کہ اس میں عدالت کا کوئی مفاد ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماہرین کی رائے پر ایک بار پھر وائلڈ لائف بورڈ نے فیصلہ کیا ہے‘ جولائی دوہزاراُنیس سے اب تک جانوروں کی تکلیف کا کون ذمہ دار ہے؟وزارت موسمیاتی تبدیلی کو چڑیاگھر کا چارج اس لئے دیا گیا تھا کہ چڑیا گھر کے معاملے پر سیاست ہو رہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی واحد دلچسپی صرف بے زبان جانوروں کی فلاح ہے‘ ہمیں اپنے اس فیصلے پر فخر ہونا چاہئے۔ دنیا کو پاکستان کے اس فیصلے کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ جانوروں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اُنہیں اُن کے قدرتی ماحول (آبائی علاقوں) ہی میں رہنا چاہئے۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ لوگ جانوروں سے متعلق اپنے روئیوں‘ سوچ اُور نظرئیوں کو تبدیل کریں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ جانوروں کو بھوک پیاس‘ گرمی سردی‘ نہیں لگتی۔ اُن کے جذبات نہیں ہوتے۔ اُنہیں تکلیف‘ صدمہ اُور خوف نہیں ہوتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ جانور انسانوں سے زیادہ حساس اُور جذبانی و نفسیاتی اعتبار سے نازک ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت اُور صوبائی افسرشاہی سمیت ہر خاص و عام کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ حرف حرف پڑھنا چاہئے اُور اِس نکتہ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ کس طرح ہم انسان اپنے ہی ہم زمین مخلوقات کے لئے ظالم بنے ہوئے ہیں! مذکورہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ”انسانوں کی تفریح طبع کے لئے جانوروں کو اُن کے قدرتی ماحول سے محروم کرنا ”غیر انسانی سلوک (ظلم)“ تھا۔ ریچھوں کو ایک دہائی سے زائد عرصہ چڑیا گھر کے پنجروں میں قید رکھا گیا۔ چڑیا گھر میں کتنی ہی بہتر سہولیات کیوں نہ ہوں وہ جانوروں کے لئے حراستی کیمپ سے کم نہیں ہوتے۔ قید کے دوران جانوروں کا غیر فطری رویہ ناقابل تصور اور تکلیف کا عکاس ہے! اِس عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد کا چڑیا گھر عوام اور عملے کے لئے بند کردیا گیا ہے اُور دونوں ریچھوں کو اردن جبکہ دیگر جانوروں کو متعلقہ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا جس کے لئے فور پوز انٹرنیشنل نامی تنظیم سے مدد لی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِسی تنظیم نے کاون نامی ہاتھی کی اسلام آباد سے محفوظ منتقلی کے تکنیکی اخراجات بھی برداشت کئے تھے اُور تنظیم کی سربراہ معروف آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ و گلوکارہ ہیں جو پہلے ہاتھی کی روانگی کے لئے پاکستان آئیں اور پھر کمبوڈیا پہنچنے پر وہاں اُس کا استقبال کیا۔ ایک غیرمسلم اُور غیرملکی خاتون کی اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35سال سے قید اُور تنہائی کی زندگی بسر کرنے والے ہاتھی کی مدد کو آنا‘ ہمارے فیصلہ سازوں کی بے حسی کا بیان ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مئی (دوہزاربیس) میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چڑیا گھر کے تمام جانوروں کی منتقلی کا حکم دیا اُور افسوسناک بات یہ رہی کہ جانوروں کی منتقلی کے دوران دو شیر اور ایک شتر مرغ انتظامی غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر 1978ءمیں 10ہیکٹر رقبے پر قائم کیا گیا تھا جہاں قیمتی و نایاب جانوروں کی اقسام رکھی گئیں جسے چڑیا گھر سے ”جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز“ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ 

پشاور کے چڑیا گھر کو بھی ”جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز“ بنانے پر غور ہونا چاہئے کیونکہ جانوروں کی حفاظت و بہبود کے لئے قوانین اُور خاطرخواہ مالی وسائل نہ ہونے کے باعث پاکستان بھر میں چڑیا گھروں کی صورتحال انتہائی خراب ہے! اگر ایسا نہ ہوتا دوہزاراٹھارہ میں پشاور چڑیا گھر کھلنے کے چند ماہ کے اندر ہی قریب 30جانور ہلاک نہ ہوتے جن میں نایاب نسل کے برفانی چیتے کے تین بچے بھی شامل تھے۔

....



Saturday, December 19, 2020

Peshawar : The city of crimes!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

جرائم کا شہر

سال دوہزار بیس کے دوران صوبائی دارالحکومت پشاور میں جرائم کی شرح غیرمعمولی طور پر کم رہی جبکہ اِس عرصے کے دوران گلی کوچوں میں رونما ہونے والی جرائم (سٹریٹ کرائمز) بدستور نہ صرف جاری رہے بلکہ گزشتہ سال کے مقابلے سٹریٹ کرائمز میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق دسمبر دوہزاربیس کے دوسرے ہفتے تک راہزنی کے واقعات میں 31فیصد کمی‘ چوری 31.20فیصد کمی‘ ڈکیتی قریب 8فیصد کمی‘ سرقہ بالجبر جرائم میں 16فیصد کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ 2019ءسے موازنہ کرنے پر سٹریٹ کرائمز اُور اربن کرائمز کے حوالے سے صورتحال حوصلہ بخش ہے اُور صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پولیس کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔ بنیادی طور پر جرائم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حادثاتی طور پر سرزد ہوں اُور دوسرے وہ کہ جنہیں منصوبہ بندی کے تحت کیا جائے اُور اِس میں ملوث جرائم پیشہ عناصر انفرادی یا گروہی صورت میں وارداتیں کریں۔ حادثاتی یا مخصوص حالات کی وجہ سے رونما ہونے والے جرائم جیسا کہ قتل‘ اقدام قتل‘ خودکشی‘ ضرر رسانی یا ڈکیتی کی وارداتیں قبل اَز وقت روکنا ممکن نہیں ہوتا اُور ایسے جرائم پولیس کی تفتیشی صلاحیت کا اِمتحان ہوتے ہیں جبکہ گلی کوچوں میں جرائم موثر (موبائل) پولیسنگ نہ ہونے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ صوبائی حکومت اگر پشاور پولیس کے گشتی وسائل میں اضافہ کرے تو بالخصوص اندرون شہر سٹریٹ کرائمز کی شرح میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں اگر پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے مقامی نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہوئے ’سٹی پولیس سکواڈ‘ کی تشکیل اُور کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تو عمومی و خصوصی جرائم میں کمی جیسے اہداف زیادہ تیزی سے حاصل کئے جا سکیں گے۔

جرائم کے روائتی اُور غیرروائتی اسلوب بھی توجہ طلب ہیں۔ کئی ایسے جرائم بھی ہیں جو اِس قدر عام اُور جن کا ارتکاب بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے کہ اب اُنہیں جرم سمجھا ہی نہیں جاتا اُور اِن میں سرفہرست تجاوزات ہیں۔ پشاور شہر کے اندرونی علاقوں میں منشیات کے سرعام استعمال اُور خریدوفروخت کے مراکز بھی توجہ طلب ہیں اُور یہی سٹریٹ کرائمز کا سب سے بڑا سبب ہیں کیونکہ جب نشے کے عادی افراد کو مالی وسائل میسر نہیں آتے تو نالے نالیوں پر لگے لوہے کے جنگلے‘ سرکاری املاک سے آہنی سلاخیں حتیٰ کہ ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تختیاں تک اکھاڑ لیجاتے ہیں! پولیس کی آنکھوں کے سامنے اُور ناک کے نیچے جاری لاقانونیت (منشیات کا دھندا) لمحہ فکریہ ہے جبکہ پشاور میں تجاوزات کے بارے میں اِس سے زیادہ کیا لکھا اُور کہا جائے کہ اِس سے قبرستان تک محفوظ نہیں رہے! موثر پولیسنگ تو بہت دور کی بات اگر صرف پولیسنگ ہی ہو رہی ہوتی تو کسی کی جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ پشاور شہر کے اثاثوں اُور یہاں کے آباواجداد کی آخری نشانیوں کو مٹاتا۔ جرائم کے شہر کی جرائم کہانیاں لاتعداد ہیں اُور اِن بیشمار واقعات کے بارے میں نہ تو اعدادوشمار مرتب کئے جاتے ہیں اُور نہ ہی تھانہ جات کی کارکردگی و گرفت کا اندازہ غیرروائتی طریقے سے کیا جاتا ہے۔

پشاور پولیس کے دفاتر میں سال 2020ءکے دوران ہوئے جرائم کے اعدادوشمار کو مرتب اُور خوشنما بنا کر پیش کرنے کے لئے تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن اگر اہل پشاور سے پوچھا جائے تو پولیس اُور تھانہ کلچر میں خاطرخواہ تبدیلی کا وعدہ کماحقہ پورا نہیں ہوا۔

فیصلہ سازوں کو غور کرنا چاہئے کہ 92 یونین کونسلوں پر مشتمل پشاور اُور اِن میں چودہ یونین کونسلوں پر مبنی اندرون شہر میں رونما ہونے والے جرائم متقاضی ہیں کہ یہاں تھانہ جات اُور پولیس نفری میں اضافہ کیا جائے۔ پولیسنگ جادو نہیں کہ بنا دکھائی دیئے اپنا اثر دکھائے بلکہ پولیس کی موجودگی اُور کسی جرم کی صورت فوری ردعمل ’فائر بریگیڈ‘ جیسا ہونا چاہئے جو چوبیس گھنٹے مستعد رہتے ہوئے‘ مشکل سے مشکل جگہوں اُور اوقات میں آتشزدگی کی اطلاع ملنے کے فوراً بعد حرکت میں آ جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں موثر پولیسنگ کے لئے اب تک کئے گئے 4 خصوصی اقدامات (ایس اُو ایس کال سروس‘ آن لائن ایف آئی آر‘ الیکٹرانک روزنامچہ اُور الیکٹرانک (اِی) ایف آئی آر) میں موجود سقم دور کرنے کے لئے غوروخوض اُور مشاورت کا عمل بھی کہیں نہ کہیں سے شروع کرتے ہوئے اِس میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی شمولیت ہونی چاہئے کیونکہ صرف خوش رنگ و خوش نما حکمت عملیاں بنانا ہی کافی نہیں بلکہ اُن کے عملی اطلاق میں پیش آنے والی مشکلات و شکایات کی روشنی میں اصلاح کا عمل بھی ہمہ وقت جاری رہنا چاہئے اُور اِسی سے نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پولیس کے فیصلہ سازوں کی ساری توجہ مرکزی شہر پشاور پر مرکوز ہے جبکہ دور دراز اضلاع اُور ڈویژنز کی سطح پر پولیس کا نظام افرادی و تکنیکی وسائل سے محروم نظر آتا ہے۔ پشاور خوش قسمت ہے کہ یہاں کی پولیس کے پاس ڈیجیٹل مواصلاتی نظام (واکی ٹاکیز) موجود ہے جس کے ذریعے محفوظ بات چیت ممکن ہے لیکن اضلاع میں پرانا مواصلاتی نظام باآسانی دسترس (Bug) کیا جا سکتا ہے۔ دوسری اہم بات پولیس اُور عوام کے درمیان روابط کا فقدان ہے کہ سٹیزن لائزن کمیٹیاں تو موجود ہیں جن کی فعالیت ضروری ہے۔ جرائم کا خاتمہ صرف پولیسنگ کے ذریعے نہیں بلکہ جرائم کی نفسیات‘ محرکات اُور طریقوں پر غور کرنے سے بھی ممکن ہے اُور وہ سب کچھ ممکن ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا لیکن اگر اِس بارے نمائشی نہیں بلکہ سنجیدہ عملی اقدامات کئے جائیں۔

....

Clipping from Editorial Page  Daily Aaj - December 19, 2020

Editorial Page  Daily Aaj - Saturday December 19, 2020

Published version clipping from Editorial Page  Daily Aaj - December 19, 2020


Saturday, December 12, 2020

Hidden potential of the cultural assets - Peshawar, a city, a web, unforgettable!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

ثقافتی اثاثے

سیاحت کا فروغ مقصود (مطمعہ نظر) ہے‘ جس کے لئے پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اَثاثوں بالخصوص یہاں کے فن تعمیر اُور اہم شخصیات سے نسبت رکھنے والی رہائشگاہیں و مقامات کو بطور یادگار محفوظ بنایا جائے گا۔ اِس سلسلے میں صوبائی حکومت کی وضع کردہ حکمت عملی کے تحت ’ثقافتی عجائب گھر (دیدنی مقامات)‘ بنائے جائیں گے اُور یوں پشاور کی کئی گلیاں کوچے ایسے بھی ہوں گے جہاں ایک سے زیادہ ’ثقافتی عجائب گھر‘ ہوں۔ خوش آئند ہے کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے بھارت معروف فلمی ستاروں یوسف خان المعروف دلیپ کمار (پیدائش 11 دسمبر 1922ئ) اُور راج کپور (پیدائش 14دسمبر 1924ئ۔ وفات 2 جون 1988ئ) کے آبائی مکانات کی سرکاری قیمتیں مقرر کی ہیں جو ایک قانونی ضرورت تھی اُور اِس کے بعد مکانات کی خریداری متوقع ہے۔ مذکورہ دونوں اَداکاروں (دلیپ کمار اُور راج کپور) نے اپنی زندگی (لڑکپن و جوانی) کا کچھ حصہ پشاور میں بسر کیا اُور مذکورہ دونوں کے آبائی مکانات پشاور شہر میں نہ صرف یہاں کے 100سال سے زیادہ قدیم فن تعمیر کی یادگاریں ہیں بلکہ دنیائے فلم کے ستاروں سے اِن کی نسبت کے باعث زیادہ بیش قیمت اُور یادگار ہونے کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ ماضی کے مکانات‘ یادگاروں اُور یادوں سے پشاور کو گلے سے لگائے رکھنے کی بجائے حکومتی فیصلہ ساز مستحق مقامی فنکاروں کی مالی مدد اُور فلمی تربیت گاہوں کے علاوہ فلم اُور ڈرامہ سازی کی صنعتیں قائم کریں تاکہ جس طرح پشاور کی مٹی سے دلیپ کمار‘ راج کپور اُور کئی دیگر نامور بھارتی فلمی ستارے اُٹھے تھے اُور جنہیں اپنی خداداد صلاحیتوں کو منوانے کے لئے پاکستان چھوڑ کر بھارت جانا پڑا تھا کیونکہ اُس وقت پاکستان میں فلمی صنعت نہیں تھی اُور آج بھی فلمی صنعت کا حال قیام پاکستان (اگست 1947ئ) سے زیادہ مختلف نہیں ہے تو آج کے فنکاروں کو اپنی ’جنم بھومی(پشاور)‘ سے ’بہ امر مجبوری‘ نقل مکانی نہ کرنی پڑے۔ 

تاریخ رہی ہے کہ سیاسی اُور غیرسیاسی فیصلہ ساز ہمیشہ ایسے آسان فیصلے کرتے ہیں جو ذرائع ابلاغ اُور سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی اندرون و بیرون ملک مقبولیت میں اضافے کا باعث بنیں۔ دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں کو محفوظ بنانے کا فیصلہ بھی ایک ایسا ہی آسان اُور مقبولیت بٹورنے کا اقدام ہے‘ جس سے وقتی طور پر ”واہ واہ“ تو ہو جائے گی لیکن کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی کروڑوں روپے اِن مکانات کی دیکھ بھال کے لئے درکار ہوں گے اُور یہ قومی خزانے پر ایک مستقل بوجھ رہے گا۔ جہاں تعینات ہونے والے ملازمین کی تنخواہیں‘ پینشن‘ مراعات‘ بجلی و گیس کے بل‘ دیکھ بھال اُور تعمیر و مرمت کے علاوہ اہم شخصیات کے دوروں پر انتظامات کرنے پر اخراجات کرنا پڑیں گے جبکہ مذکورہ دونوں گھروں سے اِس قدر آمدنی نہیں ہو گی کہ اُن سے مذکورہ تمام اخراجات ادا کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ کورونا وبا کی وجہ سے سیر و سیاحت کا عمل رُکا ہوا ہے اُور بیرون ملک سے سیاح صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کا سفر بھی اختیار نہیں کر رہے۔ اِس صورتحال میں پشاور کے سیاحوں کے لئے دو نئے عجائبات کا اضافہ کرنا درست اقدام تو ہے لیکن اِس کا وقت درست نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے مقامی افراد کی اکثریت دلیپ کمار یا راج کپور کے آبائی گھروں کو بحال ہونے کے بعد قیمت ادا کر کے دیکھنے نہیں جائے گی کیونکہ اُن کے لئے اپنی زندگیوں اُور اِن زندگیوں کے مسائل زیادہ اہمیت کے حامل ہیں‘ جن کے حل کرنے کے مطالبات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔

دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں کی موجودہ حالت اِس حد تک ”انتہائی خستہ“ اُور ناقابل مرمت ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں مکانات کا ملبہ فروخت کرنا پڑے گا اُور پھر نئے تعمیر کر کے وہاں عجائب گھر بنائے جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور نے مکانات کی قیمت مختلف طریقوں سے مقرر کرتے ہوئے زمین (اراضی) اُور ملبے کا قیمت کے الگ الگ تخمینے جاری کئے ہیں۔ معروف قصہ خوانی بازار سے متصل (شمال کی جانب) نسبتاً بلند ’ڈھکی دالگراں‘ میں واقع ”کپور حویلی“ کا کل رقبہ لگ بھگ چھ مرلے (5184 مربع فٹ)۔ حویلی کی زمین کی قیمت ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے زیادہ جبکہ ملبے کی قیمت کا تخمینہ 34 لاکھ سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ جائیداد کا مالک چاہتا ہے کہ ’کپور حویلی‘ کے اُسے کم از کم 2 ارب روپے ادا کئے جائیں! اِسی طرح قصہ خوانی بازار ہی سے متصل (مشرق کی جانب) محلہ خداداد میں ’دلیپ کمار‘ کا آبائی گھر واقع ہے جس کا کل رقبہ چار مرلے ہے۔ اس مکان کی تعمیرات والا حصہ 1077 مربع فٹ سے کچھ زیادہ جبکہ سرکاری طور پر مذکورہ اراضی (زمین) کی قیمت 72لاکھ 80ہزار سے زیادہ مقرر کی گئی ہے جبکہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کے ملبے کی قیمت کا تخمینہ 7لاکھ 76ہزار روپے سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ اس حساب سے دلیپ کمار کے گھر کی قیمت 80لاکھ 56ہزار سے زیادہ مقرر کی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں جائیدادوں کی کل قیمت 2کروڑ 30لاکھ اور 56ہزار روپے سے زیادہ مقرر کرنے کے بعد صوبائی حکومت سے اس سلسلے میں مالی وسائل (فنڈز) جاری کرنے کی درخواست ارسال کر دی گئی ہے اُور اُمید ہے کہ اگر فوری طور پر یہ رقم (دو کروڑ تیس لاکھ روپے) جاری نہ بھی کی گئی تو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سیاحت کے لئے مالی وسائل الگ کرتے ہوئے اِن دونوں مکانات کے لئے پس و پیش کیا جائے گا تاہم فیصلہ سازوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ صرف ایک ہی مرتبہ رقم مختص کرنا کافی نہیں ہوگا اُور بات صرف دو یا ڈھائی کروڑ کی بھی نہیں بلکہ مذکورہ مکانات خریدنے کے بعد اُن پر تعمیرات اُور عجائب گھر کی صورت میں اُنہیں جاذب نظر بناتے ہوئے سیاحوں کے لئے سہولیات اُور تشہیر وغیرہ کے لئے بھی کروڑوں یا شاید اربوں روپے درکار ہوں گے۔

بھیڑ چال ہے۔ خیبرپختونخوا کے کئی سرکاری محکموں کی نظریں (فوکس) اُور ساری کی ساری توجہ دلیپ کمار اُور راج کپور کے آبائی گھروں پر لگی ہوئی ہیں اُور ہر محکمہ کچھ نہ کچھ حاصل (کمانے) کے چکر میں ہے۔ محکمہ مال کے منتظم صاحب بہادر (ڈپٹی کمشنر) نے زمینوں کی مالیت جبکہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) ڈیپارٹمنٹ اس کے ملبے کی مالیت کا تخمینہ لگایا ہے اُور تعمیروبحالی کا کام محکمہ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ہو گا جس کے بعد ممکن ہے کہ اِسے سیاحتی ترقی کے صوبائی محکمے کے حوالے کر دیا جائے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگر صوبائی حکومت کی جانب سے بنا تاخیر مطلوبہ دو کروڑ تیس لاکھ روپے سے زائد رقم فراہم کر دی جاتی ہے اُور مالک مکان کی جانب سے قانونی کاروائی آڑے نہیں آتی تب بھی مکانات کو قبضہ صوبائی حکومت کے پاس آنے میں کم سے کم ’چھ ماہ‘ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ دلیپ کمار اُور راج کپور خاندانوں کے لئے اُن کے آبائی گھروں کی خاص اہمیت ہے اُور وہ جب بھی پاکستان آئے اپنے آبائی گھروں کی قدم بوسی کے لئے پشاور کے دورے کے خواہشمند رہے۔ کپور خاندان کا اپنے آبائی گھروں سے عقیدت و محبت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کپور حویلی کی مٹھی بھر مٹی اپنے ساتھ لے گئے تھے! مذکورہ دونوں مکانات کی خریداری‘ بحالی اُور عجائب گھروں میں منتقلی کے بعد بھی اِن کی نسبت و شناخت دلیپ کمار اُور کپور حویلی ہی کے طور پر رہے گی‘ جس میں سرمایہ کاری کے لئے اگر ارب پتی دلیپ کمار اُور کپور خاندان کے افراد سے رابطہ کیا جائے تو اِس سے نہ صرف دونوں خاندان عجائب گھر میں رکھنے کے لئے خاندان کی یادگار اشیاء(نوادرات) عطیہ کریں گے بلکہ ممکن ہے کہ اُن کی جانب سے مکانات کی خریداری اُور بحالی کے جملہ اخراجات بھی برداشت کر لئے جائیں۔ سرمایہ کاری کا دوسرا امکان یہ ہے کہ دونوں مکانات ’گندھارا ہندکو بورڈ (gandharahindko.com)‘ کے ذریعے خریدے اُور بحال کئے جائیں اُور اُنہی کے زیرنگرانی عجائب گھر میں تبدیل کئے جائیں۔ مذکورہ ’ہندکو بورڈ‘ نہ صرف پشاور کی قدیمی مقامی زبان کے تحفظ کی تحریک ہے بلکہ یہ روشن خیال ادارہ پشاور کے علمی‘ ادبی‘ تاریخی و ثقافتی ورثوں کا محافظ بھی ہے۔ یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ پشاور کو ’ہندکو بورڈ‘ سے زیادہ اچھا اُور گہرائی سے کوئی دوسرا حکومتی‘ نیم حکومتی ادارہ‘ غیرسرکاری ادارہ یا تنظیم نہیں سمجھ سکتی۔


اَشک بن کر جو چھلکتی رہی‘ مٹی میری
شعلے کچھ یوں بھی اُگلتی رہی‘ مٹی میری
کچھ تو باقی تھا مری مٹی سے رشتہ میرا
میری مٹی کو ترستی رہی‘ مٹی میری
(شاعر:دوجیندر دوج)

....

Editorial Page - Daily Aaj -Peshawar/Abbottabd - Dec 12, 2020 Saturday

Clipping from Daily Aaj - Editorial Page - Daily Aaj - Dec 12, 2020 Sat


Sunday, December 6, 2020

Pakistan Citizen Portal, Success vs the failure

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پاکستان سٹیزن پورٹل

تین ٹوئیٹر پیغامات لائق توجہ ہیں۔ پہلا پیغام: ٹوئیٹر صارف حسن خاور (@HasaanKhawar) لکھتے ہیں ”میں نے تجرباتی طور پر سٹیزن پورٹل پر ایک شکایت درج کروائی اُور اُس پر فوری ردعمل حقیقت میں قابل ستائش ہے۔“ دوسرا پیغام: پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@PTIofficial) سے کہا گیا ہے کہ ”سٹیزن پورٹل ’انقلابی اقدام‘ ہے‘ جس میں عام آدمی اپنی شکایت وزیراعظم تک پہنچا سکتا ہے۔“ تیسرا پیغام: سٹیزن پورٹل کے نگران ادارے ’پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ (@PakistanPMDU)‘ کا کہنا ہے کہ ”2 سال کے عرصے میں پورٹل کے ذریعے 30 لاکھ شکایات درج ہوئیں جو عوام کے اعتماد کا مظہر ہیں اُور اِن شکایات میں سے 94فیصد حل کی جا چکی ہیں۔“ مذکورہ تینوں پیغامات 4 دسمبر (دوہزاربیس) کے روز چھ گھنٹے کے دوران اِرسال کردہ اُن ہزاروں تبصروں (trends) کا حصہ ہیں جو ’سٹیزن پورٹل‘ سے متعلق حکومتی سرپرستی میں شروع کئے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ”نیشنل آئی ٹی بورڈ‘ حکومت پاکستان“ کی جانب سے جاری کردہ ’پاکستان سیٹرن پورٹل (Pakistan Citizen Portal)‘ نامی موبائل فون ایپلی کیشن (app) 10 لاکھ سے زیادہ صارفین ’گوگل پلے سٹور‘ سے حاصل (ڈاون لوڈ) کرچکے ہیں۔ مذکورہ ایپ سے استفادہ کرنے کے لئے کسی صارف کے پاس سمارٹ فون‘ موبائل فون کنکشن‘ قومی شناختی کارڈ نمبر اُور انٹرنیٹ جیسی چار بنیادی ضروریات ہونی چاہیئں کیونکہ مختلف مراحل پر صارف کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔ گوگل درجہ بندی (رٹینگ سسٹم) کے حساب سے سٹیزن پورٹل کے اینڈرائیڈ صارفین کی جانب اِس ایپ کو ’تھری سٹار‘ ملے ہیں یعنی صارفین کی نصف سے زیادہ تعداد نے اِسے پسند کیا ہے۔ پسندیدگی کا یہ عالمی معیار (تھری سٹارز) اگر زیادہ اچھی نہیں تو زیادہ بُری بھی نہیں۔ ایک ستارہ (star) کا مطلب کم ترین جبکہ اگر کسی ایپ کو پانچ ستارے (5-Stars) ملیں تو یہ اُس کی انتہائی مقبولیت کی علامت ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر پندرہ لاکھ کے قریب اینڈرائیڈ اُور آئی فون صارفین سٹیزن پورٹل کو اب تک حاصل کر چکے ہیں جبکہ اِس کے فعال صارفین (زیرغور شکایات) کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔ مذکورہ ایپ کو زیادہ سے زیادہ آسان (یوزر فرینڈلی) بنانے کے لئے 3 ہزار 796 سرکاری محکموں کی درجہ بندی 20 گروپوں میں کی گئی ہے اُور اِن کی کارکردگی سے متعلق شکایات درج کرانے کا عمل (پاکستان سٹیزن پورٹل) 28 اکتوبر 2018ءسے جاری ہے۔ اِس متعلق افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ”عوام ’اِظہار رائے کا موقع‘ دے کر اَمور مملکت میں شریک (حصہ دار) بنا لیا گیا ہے۔“

سٹیزن پورٹل پر شکایات درج کرانے کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انسداد رشوت ستانی کو بھی درجہ بندی میں شامل کر لیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے چار دسمبر (دوہزاربیس) کے روز اعلان کیا ہے کہ ”غلط کام کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل یا اُن کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اُنہیں سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا۔ اگرچہ ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں بقول وزیراعظم ”غلط کام“ کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو مثالی و عبرت ناک سزائیں دی گئی ہوں بلکہ عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ ’پلی بارگین‘ کے ذریعے مقدمات طے کرتے ہوئے اپنی بدعنوانیاں تسلیم کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو بھی اُن کے عہدوں پر بحال کیا گیا بلکہ اُنہوں نے محکمانہ ترقیاں پائیں اُور پہلے سے زیادہ مالی و انتظامی اختیارات کے نگران مقرر کئے گئے۔ سٹیزن پورٹل کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ اِس کے ذریعے ذاتی شکایات درج کروائی جاتی ہیں اُور لوگوں کے ذاتی مسائل حل ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں لیکن وزیراعظم تک رسائی کے بعد عوام کے ذاتی تجربات سے زیادہ قومی مفادات کے تحفظ پرتوجہ ہونی چاہئے جیسا کہ رواں برس (سال 2020ءکے دوران) ’انٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ خیبرپختونخوا‘ نے مجموعی طور پر ”925 کنال 11 مرلے“ اراضی کو غیرقانونی قبضے سے واگزار کرائی‘ جس کی مالیت 96 کروڑ روپے سے زیادہ بیان کی گئی تو معلوم ہواکہ عام آدمی پر ظلم کی کوئی ایک صورت یا کوئی ایک محکمہ یا فرد ذمہ دار نہیں بلکہ یہاں پٹوار خانے سے مال خانے اُور تھانے کچہری و جامعات تک استحصال و زیادتی کے لاتعداد واقعات اکثر دیکھنے اُور سننے میں آتے ہیں۔ سٹیزن پورٹل اُن حالات میں عوام کے مسائل حل کرنے میں کارگر (موثر) حربہ ثابت ہو سکتا ہے جہاں سرکاری محکموں میں جرائم رازداری اُور انتہائی پیچیدہ طریقے (مہارت) سے سرانجام دیئے جا رہے ہوں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ رشوت ستانی‘ نااہلی‘ خردبُرد‘ آمدن سے زائد اثاثہ جات‘ اختیارات کے عوض ذاتی مفادات کا حصول‘ عام آدمی (ہم عوام) کا استحصال اُور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سرعام رونما ہو رہے ہیں اُور اِن کی تعداد اِس قدر زیادہ ہے کہ جرائم کا شمار و بیان بھی ممکن نہیں! ایسی صورت میں وفاقی یا صوبائی فیصلہ ساز اپنے اپنے ’سٹیزن پورٹلز‘ جیسے باسہولت وسیلوں پر ’کلی انحصار‘ کرنے کی بجائے اگر خفیہ اداروں کے ذریعے کاروائیاں کریں تو 2 سال بعد امور مملکت (طرزحکمرانی) اُس نہج پر رواں دواں ہو سکتی ہے جہاں کوئی شکایت کرنے والا نہ ملے اُور پھر شکایت کرنے والے سے اُس کی شناخت بھی نہ پوچھی جائے۔ 

فیصلہ سازوں کو اِس پہلو پر بھی سوچنا چاہئے کہ سٹیزن پورٹل کے ذریعے جب شکایت کرنے والے کے کوائف خفیہ نہیں رکھے جاتے تو بڑی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے بارے میں مطلع کون کرے گا جن سے عوامی و قومی مفادات کو منظم انداز میں نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ افسر شاہی (سرکاری اہلکار بیوروکریسی) ایک دوسرے کے مفادات کی محافظ ہے اُور اِس آپسی اتحاد کے باعث کسی بھی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے‘ عوامی شکایات کے داخلی و نگرانی کے وضع کردہ جملہ طریقے (قواعد و ضوابط) ناکام (بے سود) ثابت ہوئے ہیں بالکل اِسی طرح ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ کے ذریعے بھی وفاقی حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ جاری ہے اُور جن 94فیصد عوامی شکایات کے حل کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اگر اُن کی آزاد ذرائع سے تصدیق کروائی جائے تو دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی واضح ہو جائے گا کہ کس کس طرح جھوٹ بولا گیا ہے اُور کس جعل سازی سے خود ہی شکایات درج کروا کر اُنہیں حل کر کے مختلف محکموں نے اپنی کارکردگی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا جبکہ وہ حقیقت میں وہ زمین کی پستیوں سے بھی پست ہیں! 

کہاوت ہے کہ ”جھوٹ کے سر اُور پاوں (منطقی جواز) نہیں ہوتے“ لیکن ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ پر جھوٹ پورے وجود (شباب) سے حاوی ہے اُور اِس ناکام تجربے کو کامیاب ثابت کرنے پر مزید مالی اُور وقت جیسے قیمتی وسائل و توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اگر خفیہ اداروں کو متحرک کیا جائے تو اُن سبھی چھوٹی بڑی مچھلیوں کو مزید مہلت دیئے (کم وقت اُور کم خرچ میں) پکڑا جا سکتا ہے‘ جنہوں نے پورے تالاب کو گندا کر رکھا ہے۔

....

Editorial Page - Daily Aaj Peshawar /Abbottabad - Dec 06, 2020 - Sunday

Clipping from Editorial Page - Daily Aaj Peshawar /Abbottabad - Dec 06, 2020 - Sunday