ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
چڑیا گھر
چڑیا گھر بند کیا جائے۔ پندرہ دسمبر کے روز ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر سے متعلق ایک مقدمے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ مذکورہ فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 2 ریچھوں کی اردن منتقلی سے متعلق توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا کہ چڑیا گھر حراستی کیمپس ہیں اور جانوروں کو ان کے غیر فطری ماحول میں رکھنا تکلیف دہ ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریچھوں کی اردن منتقلی کے انکار کے حوالے سے بیان پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی اور کہا کہ وزیر اعظم کی جانوروں کے ساتھ تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قبل ازیں 2 شیروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے لیکن عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا جبکہ غلط تاثر دیا گیا کہ اس میں عدالت کا کوئی مفاد ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماہرین کی رائے پر ایک بار پھر وائلڈ لائف بورڈ نے فیصلہ کیا ہے‘ جولائی دوہزاراُنیس سے اب تک جانوروں کی تکلیف کا کون ذمہ دار ہے؟وزارت موسمیاتی تبدیلی کو چڑیاگھر کا چارج اس لئے دیا گیا تھا کہ چڑیا گھر کے معاملے پر سیاست ہو رہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کی واحد دلچسپی صرف بے زبان جانوروں کی فلاح ہے‘ ہمیں اپنے اس فیصلے پر فخر ہونا چاہئے۔ دنیا کو پاکستان کے اس فیصلے کی پیروی کرنی چاہئے کیونکہ جانوروں کے لئے بہتر یہی ہے کہ اُنہیں اُن کے قدرتی ماحول (آبائی علاقوں) ہی میں رہنا چاہئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ لوگ جانوروں سے متعلق اپنے روئیوں‘ سوچ اُور نظرئیوں کو تبدیل کریں۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ جانوروں کو بھوک پیاس‘ گرمی سردی‘ نہیں لگتی۔ اُن کے جذبات نہیں ہوتے۔ اُنہیں تکلیف‘ صدمہ اُور خوف نہیں ہوتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں بلکہ جانور انسانوں سے زیادہ حساس اُور جذبانی و نفسیاتی اعتبار سے نازک ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت اُور صوبائی افسرشاہی سمیت ہر خاص و عام کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ حرف حرف پڑھنا چاہئے اُور اِس نکتہ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ کس طرح ہم انسان اپنے ہی ہم زمین مخلوقات کے لئے ظالم بنے ہوئے ہیں! مذکورہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ”انسانوں کی تفریح طبع کے لئے جانوروں کو اُن کے قدرتی ماحول سے محروم کرنا ”غیر انسانی سلوک (ظلم)“ تھا۔ ریچھوں کو ایک دہائی سے زائد عرصہ چڑیا گھر کے پنجروں میں قید رکھا گیا۔ چڑیا گھر میں کتنی ہی بہتر سہولیات کیوں نہ ہوں وہ جانوروں کے لئے حراستی کیمپ سے کم نہیں ہوتے۔ قید کے دوران جانوروں کا غیر فطری رویہ ناقابل تصور اور تکلیف کا عکاس ہے! اِس عدالتی فیصلے کے بعد اسلام آباد کا چڑیا گھر عوام اور عملے کے لئے بند کردیا گیا ہے اُور دونوں ریچھوں کو اردن جبکہ دیگر جانوروں کو متعلقہ محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے گا جس کے لئے فور پوز انٹرنیشنل نامی تنظیم سے مدد لی گئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِسی تنظیم نے کاون نامی ہاتھی کی اسلام آباد سے محفوظ منتقلی کے تکنیکی اخراجات بھی برداشت کئے تھے اُور تنظیم کی سربراہ معروف آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ و گلوکارہ ہیں جو پہلے ہاتھی کی روانگی کے لئے پاکستان آئیں اور پھر کمبوڈیا پہنچنے پر وہاں اُس کا استقبال کیا۔ ایک غیرمسلم اُور غیرملکی خاتون کی اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35سال سے قید اُور تنہائی کی زندگی بسر کرنے والے ہاتھی کی مدد کو آنا‘ ہمارے فیصلہ سازوں کی بے حسی کا بیان ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مئی (دوہزاربیس) میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چڑیا گھر کے تمام جانوروں کی منتقلی کا حکم دیا اُور افسوسناک بات یہ رہی کہ جانوروں کی منتقلی کے دوران دو شیر اور ایک شتر مرغ انتظامی غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اسلام آباد کا چڑیا گھر 1978ءمیں 10ہیکٹر رقبے پر قائم کیا گیا تھا جہاں قیمتی و نایاب جانوروں کی اقسام رکھی گئیں جسے چڑیا گھر سے ”جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز“ بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
پشاور کے چڑیا گھر کو بھی ”جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز“ بنانے پر غور ہونا چاہئے کیونکہ جانوروں کی حفاظت و بہبود کے لئے قوانین اُور خاطرخواہ مالی وسائل نہ ہونے کے باعث پاکستان بھر میں چڑیا گھروں کی صورتحال انتہائی خراب ہے! اگر ایسا نہ ہوتا دوہزاراٹھارہ میں پشاور چڑیا گھر کھلنے کے چند ماہ کے اندر ہی قریب 30جانور ہلاک نہ ہوتے جن میں نایاب نسل کے برفانی چیتے کے تین بچے بھی شامل تھے۔
....