Saturday, January 31, 2015

Jan2015: Measures & Reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاحی تقاضے
پاکستان میں آزادئ اظہار کی جس قدر آزادی ہے‘ شاید ہی دنیا میں کہیں اُور ڈھونڈے سے بھی ملے۔ براہ راست ٹیلی ویژن کی نشریات سے لیکر بیانات داغنے اور اُن کی اشاعت تک کے مراحل میں شخصیت کو اُن کی اہمیت اور عہدوں کے لحاظ سے توجہ دی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اپنی اہمیت اور قدر کھو رہے ہیں اور اِس محاورے کو الگ معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے کہ ’نو نیوز اِز گڈ نیوز۔‘ حالانکہ ذرائع ابلاغ معاشرے کی تعمیروترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اگر وہ ایسا کرنے کے دل سے خواہاں ہوں لیکن جہاں ہر’کارخیر‘ کے آگے اور پیچھے‘ ظاہری و درپردہ محرکات ‘سیاسی‘ ہوں وہاں خبروں اور خوابوں کا یقین تو کیا جا سکتا ہے لیکن کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھی جانے والی حقیقتوں اور اُن سے مطالب اخذ کرنے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ ماحول پر چھائے اِس ’سیاسی رنگ‘ کے کرشمے صرف ذرائع ابلاغ کی کارکردگی تک ہی محدود نہیں بلکہ گلی و نالی کی تعمیر و مرمت سے لیکر قومی خزانے سے تکمیل پانے والے ترقیاتی منصوبوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ‘ ایک ایسا ملک کہ جہاں اجتماعی خودکشی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہو‘ جہاں عام اِنتخابات میں پے در پے غلطیوں پر ندامت محسوس نہ کی جاتی ہو جہاں قومی وسائل لوٹنے والوں کو عزت و تکریم حاصل ہو‘ جہاں سب سے زیادہ بااثر اُسے سمجھا جائے جو قانون وقواعد کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے کا مرتکب ہوتا ہو‘ شاہانہ زندگی بسر کرنے والے حسب حیثیت محصولات (ٹیکس) ادا نہ کرتے ہوں لیکن غریبوں اور کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو نچوڑ لیا جاتا ہو! جہاں قانون اُن کی حفاظت کرے‘ جنہیں قانون کی زد میں ہونا چاہئے‘ جہاں جھوٹ کو اتنے بناؤ سنگھار کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اُس پر سچ کا گماں ہو‘ جہاں سچائی مصلحتوں کے لبادوں میں لپٹی ہو‘ جہاں آمدنی کے ذرائع اور وسائل کی تقسیم اِس حد تک مشکوک ہو تو احتساب کا عمل مذاق دکھائی دینے لگے تو نفسانفسی کے اِس ماحول میں بار بار دردمندی کا مظاہرہ کرنے والے کی آواز پر ضرور کان دھرنا چاہئے۔ پاکستان کے ایسے ہی چند خیرخواہوں میں ’ملک ریاض حسین (پیدائش 8 فروری 1945ء)‘ بھی شامل ہیں‘ جن کے ایک سوچے سمجھے اور تحریری بیان میں چھپے کرب‘ پس منظر‘ مطالب کی گہرائی اور سیاسی پس منظر توجہ چاہتا ہے۔

تیس جنوری کی شام معروف نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں پر براہ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں ملک ریاض نے سنجیدہ و غیرسنجیدہ حلقوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔۔’’اگر پاکستان صرف دو برس کے لئے اُن کے حوالے کر دیا جائے‘ تو وہ (جملہ) مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں!‘‘ بحریہ ٹاؤن جیسے انقلابی تعمیراتی منصوبے کے خالق ملک ریاض کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک انتہائی اچھی کاروباری ساکھ رکھنے والے سرمایہ کار ہیں‘ جو مٹی کے مول خریدی گئی اراضی کو ’ویلیو ایڈیڈ سروسیز‘ کے ذریعے ’قابل دید‘ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے اُن چند کاروباری شخصیات میں بھی کیا جاسکتا ہے جو اپنے وعدے پورے کرتے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں کاروبار بناء سیاسی تعلقات اور سیاسی تعلقات بناء کاروبار ممکن نہیں‘ اِس لئے ملک ریاض کا نام بھی ایک بڑی جماعت کے سربراہ سے جڑا ہوئے ہیں‘ جن کی وجۂ شہرت اپنی دوستی نبھانے کے لئے مشہور ہے اور ملک ریاض کے پاس نت نئے خیالات اور سرمائے کی کمی بھی نہیں! یوں نہ صرف اِن دونوں کا کام چل رہا ہے بلکہ اِن کے دم کرم سے بہت سے دوسروں کا بھی بھلا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اِس جوڑی کے علاؤہ بھی کئی خاندان ایسے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سے زیادہ ترقی کی منازل طے کی ہیں لیکن کیا یہ بات قابل ہضم ہے کہ ساٹھ سالہ ایک شخص پورے ملک کو اپنے ہاتھ میں لینے کا منطقی جواز رکھتا ہو! کیا ہمارے مسائل کا حل بس یہی رہ گیا ہے کہ ہم ملک کو ’بحریہ ٹاؤن‘ میں تبدیل کر دیں؟

حرف آخر: ملک ریاض کی الفاظ کی بازگشت ابھی سماعتوں میں رس گھول ہی رہی تھی کہ تفریحی چینل پر ’جیتو پاکستان‘ میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ۔۔۔ ’’وہ کون ہے جو گھر کی گھنٹی بجائے تو اہل خانہ دروازہ کھولے بغیر اُسے بھگا دیتے ہیں؟‘‘ اِس بظاہر سادہ سوال کے کئی ممکنہ جوابات میں سب سے زیادہ نمبر ’بھیک مانگنے والوں‘کو دے کر بات ٹال دی گئی لیکن سوال سے زیادہ اس کے جواب میں پوشیدہ سنجیدہ پہلو نے یقیناًقوم کے ضمیر کو جنجھوڑ دیا ہوگا کہ ہم جسے دھتکار رہے ہیں‘ جن حاجت مندوں کی دستک پر دروازہ نہیں کھولتے‘ وہ کم مالی وسائل کے سبب یوں تقاضا کرنے کا منطقی و شرعی جواز رکھتے ہیں لیکن جو ہمیں مختلف طریقوں سے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں‘ اُن کے لئے ہم دل و جاں فرش راہ کئے ہوئے ہیں! کاش ہم بھکاری کو دھتکارنے اور لٹیروں کو گلے لگانے کی روش ترک کر دیں

Jan2015: Anniversary Peran e Peer

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
طریقت و خانقاہی کا احیاء
اِسلامی کلینڈر کا ’چوتھا مہینہ‘ ربیع الثانی (معنی ’دوسری بہار‘) کی ’گیارہ تاریخ‘ عارف کامل‘ سلطان اولیاء‘ حضرت شیخ محی الدین والسنہ ابو محمد عبدالقادر بن ابی صالح صومعی سے منسوب ہے جنہوں نے اِس دن (15 جنوری 1166عیسوی) ظاہری دنیا سے پردہ فرمایا‘ آپ کا مزار اقدس عراق کے دارالحکومت بغداد میں موجود ہے۔ عربی زبان میں جیلانی جبکہ فارسی زبان میں آپ کے نام نامی‘ اسم گرامی کے ساتھ ’گیلانی‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے شہر ’گیلان‘ سے آپؒ کی نسبت کو ظاہر کرتا ہے‘ جہاں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی اور آپ کی اُولاد کے ہاں بھی دستور ہے کہ وہ اپنے نام کے آخر میں ’گیلانی‘ لکھتے اور پکارتے ہیں۔ اہل طریقت کے ہاں ’گیارہ ربیع الثانی‘ کا دن بالخصوص بڑے ادب و احترام اور اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ’گیارویں یا بڑی گیارویں‘ کہہ کر ’پیر بھائی اور پیر بہنیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ مبارکبادوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پشاور میں ’گیارہویں شریف‘ کی مناسبت سے تقریبات (ختم غوثیہ‘ محافل ذکر‘ نعت خوانی و منقبت) کا انعقاد ’یکم ربیع الثانی‘ سے آستانہ عالیہ امیریہ‘ کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت پر ہونا صدیوں کا معمول ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد ختم غوثیہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مرید آج بھی اِن خصوصی ایام میں حاضری دینے اُور درودوسلام کے اَدوار میں حصہ لینے کو سلسلۂ قادریہ سے اپنی نسبت کے اظہار کا موقع اور خوش بختی تصور کرتے ہیں۔

سیّدنا عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کون تھے؟ آپؒ کی تعلیمات کیا تھیں؟ آپؒ نے دین کی کیا خدمت کی اور آپؒ سے عقیدت و محبت کے سفر میں مرید بن کر شامل ہونے کے متمنی کیا کریں؟ ان سبھی سوالات کے جواب شیخ عبدالقادر گیلانی کی تصنیف کردہ دو کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ نے ’خانقاہ‘ کے تصور کو باقاعدہ ’نصاب‘ کی صورت میں مرتب کرنے اور طریقت کے اصول وضع کرنے جیسا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ آپؒ کی حیات کے تین حصوں میں سے درمیانی حصہ یعنی کم و بیش 25 برس آپ نے ’ریاضت و مجاہدات‘ میں صرف کئے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے آپ کو تمام ولیوں کا ’سردار‘ بنایا۔ خالق و مالک کی تلاش میں آپؒ کی پچیس سالہ زندگی کا نچوڑ 2 تصنیفات کی صورت محفوظ ہے۔ ایک کتاب کا نام ’سر الاسرار‘ ہے جو اُن طالبان حق کے لئے لکھی گئی جو اپنے آپ کو تصوف کے رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہے یعنی طریقت کے سلسلے سے وابستہ ہو کر اولیاء کرام کے پیچھے چلنا چاہتا ہے‘ ایسے تمام افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو پاک و صاف کریں اور اِس مقصد کے لئے ’سرالاسرار‘ نامی کتاب میں 24ابواب پڑھنے لائق ہیں۔ جس کے ذریعے اللہ کی محبت دل میں راسخ ہوتی ہے اور جب تک دل میں اللہ شان سبحانہ کی محبت راسخ نہیں ہوگی‘ دل نرم نہیں ہوگا۔ ہمارے معاشرے سے نرمی کے ختم ہونے کاسبب بھی یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں محبت الہیٰ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہی‘ چنانچہ دل سخت ہو گئے ہیں اُور ہم ایک دوسرے سے نفرتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ شیخ عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری کتاب ’غنیۃ الطالبین‘ ہے جس کے ذریعے شریعت و طریقت کو سمجھا جاسکتا ہے۔

تصوف اپنے اجزائے ترکیبی میں اخلاق صافیہ‘ معرفت حق یا سلوک کی راہوں مکاشفہ‘ مشاہدہ‘ تجلیات اور جذبات کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ علم شریعت سے خروج نہیں اور نہ ہی محرمات میں غفلت برتنے سے عبارت ہے بلکہ شریعت ہی کا عطیہ و ثمرہ ہے۔ تصوف درحقیقت شریعت کے اوامر کی پابندی کا نام ہے۔ پیرطریقت حضرت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ نے کرامت اور اولیاء کرام کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کسی بزرگ کا ایک واقعہ بیان کیا تھا جن کے پاس ایک مرید حاضر ہوا اور چالیس برس تک اُن کی خدمت کرنے کے بعد یہ کہہ کر اجازت طلب کرنے آیا کہ میں نے آپ کی بہت خدمت کی اور سمجھا تھا کہ آپ ’ولی اللہ‘ ہیں لیکن اِس چالیس برس کے عرصے میں آپ سے کسی کرامت کا ظہور میں نے نہیں دیکھا۔ اُن پیر صاحب نے پوچھا کہ کیا تم نے اِس عرصے کے دوران مجھ سے کوئی خلاف شریعت کام ہوتے دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو بس یہی طریقت کی معراج ہے کہ اِس سلسلے سے وابستہ ہر کس و ناکس شرعی امور کا پابند ہو جائے۔ خانقاہوں کے ناموں اور بڑے بڑے القابات سے متاثر ہونے کی بجائے کسوٹی یہ ہے کہ گدی نشین ہستی کے عمل کو دیکھا جائے‘ اگر وہ شریعت کا پابند ہے اور ظاہری امور میں اُس سے خلاف شریعت کام نہیں ہو رہے تو وہی صحیح رہنما (پیر) ہے اور اُس کی نشست گاہ (خانقاہ) کہلائے گی وگرنہ بہت سی ’خان گاہیں‘ ہمارے اردگرد پھیلی ہیں‘ جن کی وجہ سے ’خانقاہ‘ سے کئی باطل تصور و نظریات منسوب کر لئے گئے ہیں۔

شیخ عبدالقادر گیلانیؒ نے وصیت فرمائی تھی کہ ۔۔۔’’اللہ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ظاہر شریعت کی پابندی کرو۔سینہ کو پاک‘ نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو۔جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو۔ ایذادہی سے باز رہو۔ تکالیف پر صبر کرو۔ بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو۔ برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آؤ۔احباب سے جھگڑا نہ کرو۔قربانی وایثار کا جذبہ اپناؤ اُور مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو!‘‘ گیارہ ربیع الثانی کی بابرکت ساعتوں میں سیّدنا شیخ عبدالقادر گیلانی کی تعلیمات 17 کتابوں میں محفوظ ہیں جن میں ’سرالاسرا‘ اور ’غینۃ الطالبین‘ نامی دو کتابوں کے مطالعے سے شریعت و طریقے کے رشتے اور اصولوں کو سمجھا جاسکتا ہے جو بعدازاں اسلام کی ترویج و اشاعت کا سبب بھی بنا۔ اگر خانقاہوں کا نظام پھر سے فعال اور ان سے وابستگی پھر سے اختیار کر لی جاتی ہے تو ہم اُس انتہاء پسندی‘ فرقہ واریت اور نفرت سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ہمارے گردونواح میں دہشت گرد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

Friday, January 30, 2015

Jan2015: ECP Role in Elections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابات: ضمنی فیوض و برکات
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان پہلی ’آمنے سامنے‘ ملاقات کے لئے 2 فروری کا دن طے کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی اِس غیرمعمولی ملاقات میں عمران خان ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے سربراہ کے سامنے عام انتخابات میں دھاندلی کے طریقوں اور انتخابی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کریں گے۔ تو کیا جو کچھ عمران خان جانتے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے علم میں نہیں؟ لیکن جو کچھ اور جیسا عمران خان چاہتے ہیں‘ یعنی صاف و شفاف عام انتخابات کا انعقاد‘ ایک ایسا سوچاسمجھا مطالبہ ہے‘ جس میں پاکستان کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کی بجائے اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے حسب سابق بیانات ہی پر اکتفا کر لیا جائے!

آزادانہ ماحول میں شفاف عام انتخابات معنی خیز جمہوری طرز حکمرانی کے لئے ضروری ہے کیونکہ کسی بھی حکمراں سیاسی جماعت یا اُس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا احتساب کرنے کی اگر کوئی جمہوری صورت ہے تو وہ عام انتخابات ہی ہیں جنہیں بدقسمتی سے اپنے حق میں کرنے کے لئے عام انتخابات میں کچھ اس انداز سے منظم اور باقاعدہ دھاندلی کی جاتی ہے کہ ثبوت موجود ہونے کے باوجود بھی اُن پر اعتبار کی صورت نہیں بنتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روائتی سیاسی جماعتیں اور اُن سے وابستہ خواہشات کے اسیر‘ حرص و طمع کے پیکر اور ذاتی مفادات کے غلام صرف جوڑ توڑ یا سودے بازی ہی کے ماہر نہیں ہوتے بلکہ وہ عام انتخابات کو لوٹنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کا انتخاب ہو یا انتخابی قواعد و ضوابط کی تشکیل و ترتیب‘ جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ ایسے کرداروں کو الیکشن کمیشن کی انتظامی ذمہ داریاں اور فیصلہ سازی کا اختیار سونپا جائے‘ جو روائتی سیاسی جماعتوں کے مفادات پر ضرب نہ لگائے۔ عجب ہے کہ ملک کی جن دو بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کے انتخاب کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے وہی دو سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر یا پھر دوسرے اور پہلے نمبر پر آتی ہیں اور یہ تسلسل توڑنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی! عجب یہ بھی ہے کہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی دوسری سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری لیکن قانون ساز ایوان میں اُس کی حاصل کردہ نشستوں کے لحاظ سے وہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ معلوم ہوا کہ بے تحاشا اور بے دریغ پولنگ سے نہیں بلکہ فتح کے لئے ہر ایک انتخابی حلقے کے لئے الگ الگ ’پولنگ حکمت عملی‘ تشکیل دینا ہوتی ہے۔ جہاں کہیں ’آزمودہ سیاسی جماعت‘ کے نامزد اُمیدوار کو خطرہ ہو کہ وہ ہار جائے گا‘ وہاں مخالف جماعت کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ذریعے اچھی ساکھ والے چند ایک افراد کو بطور کٹھ پتلی اُمیدوار انتخابات میں حصہ لینے پر شہ دی جاتی ہے جبکہ اپنی عددی برتری برقرار رکھنے کے لئے چند پولنگ اسٹیشنوں پر مبنی ’ووٹ بینک‘ محفوظ بنا لیا جاتا ہے۔ یوں پولنگ کے مجموعی نتائج مرتب کرتے ہوئے چند پولنگ مراکز کے نتائج درجنوں پولنگ اسٹیشنوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں انتخابی عملے کو ’خوش‘ کرنے اور اپنی مرضی کا ’انتخابی عملہ‘ تعینات کرانے کا طریقۂ کار بھی ہر کس و ناکس کے علم میں نہیں۔

10 فروری 1945ء کو پیدا ہونے والے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے معزز ’کرلال‘ قبیلے سے ہے‘ جنہوں نے 1985ء میں امریکہ کے آئینی نظام کا مطالعہ اور 1999ء میں جاپان کے شہر ٹوکیو سے ’’سرکاری اداروں میں اہلکاروں کی بدعنوانیوں‘‘ کے حوالے سے تین ماہ کی خاص تربیت حاصل کر رکھی ہے اُور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سرکاری میں قواعد وضوابط کی کمی نہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ یہ کوئی خبر نہیں کہ سردار رضا ’بذات خود پاکستانی‘ ہیں اور انہوں نے گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد سے گریجویشن کی یعنی ہمارا گردوپیش اُن کے لئے کسی بھی طور اجنبی نہیں۔ وہ بیرون ملک نامور اداروں کے تحصیل یافتہ نہیں بلکہ غریب و متوسط طبقات کی حالات اُن کے سامنے ہیں۔ کس طرح لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کس طرح صحت و تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل کی لوٹ مار ہو جاتی ہے۔ کس طرح ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے پہلے ہی اُن کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کس طرح سیاسی شعبدہ گر سرکاری ملازمتوں کی بندر بانٹ اور تعصب کی بنیاد پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے اپنے انتخابی حلقوں کے عوام کو غلام بنائے رکھتے ہیں۔ کس طرح اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہونے دی جاتی تاکہ درخواست گزار اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں یا حکمراں خاندانوں کے آگے دست بستہ کھڑے رہیں! الغرض قانون و قواعد سازی سے لیکر حکمت عملیوں پر عمل درآمد تک کے مراحل میں ذاتی و سیاسی پسند و ناپسند کو ترجیح بنانے والوں نے پورے حکمرانی کے نظام کو یرغمال بنا لیا ہے اور اِس مغوی نظام کی بازیابی کا واحد طریقہ ’بدعنوانی سے پاک عام انتخابات کا انعقاد‘ ہے جس کے لئے تحریک انصاف کی قیادت‘ اصلاح پسند حلقے‘ ہم خیال سیاسی جماعتیں اور طرز حکمرانی میں اِصلاحات کی خواہاں نوجوان نسل کی اَکثریت کا ’ایک سو چھبیس دن جاری رہنے والا احتجاج‘ ملک گیر اجتماعات اور مسلسل اخلاقی و نفسیاتی دباؤ نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم جمہوریت کو پاکستان کی تعمیروترقی اور بقاء کے لئے ایک اچھا ’طرز حکمرانی‘ تصور کرتے ہیں تو پھر ہم میں سے ہر ایک کو ایسے شفاف و آزاد عام انتخابات کا انعقاد کی کوششوں اور مطالبے کا حصہ بننا ہوگا‘ جس سے حکمرانوں کی کارکردگی کا احتساب بذریعہ ووٹ ممکن ہو سکے۔

 تحریک انصاف اگر مطالبہ نہ بھی کرتی تو چیف الیکشن کمشنر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام انتخابات کو پتنگ بازی کی طرح لوٹنے جیسی روایت کے تسلسل کو ختم کریں‘ اور ایسا کرنے کا محفوظ ترین راستہ ٹیکنالوجی کو اپنانے کا ہے۔ ’بائیومیٹرکس‘ نظام میں فکر و تدبر‘ وقت اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ جس سے نہ تو مقررہ تعداد سے زیادہ ووٹ (بیلٹ پیپرز) شائع کرنے کی حاجت باقی رہے گی اور نہ ہی ایک سے زیادہ ووٹ ڈالا جاسکے گا۔ اصلاحات کے لئے تجویز ہے کہ انتخابی حلقوں کی بجائے سیاسی جماعتوں کے نام ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرایا جائے‘ جس میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کے تعین کا فارمولہ باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ کھلے عام انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے صرف اور صرف آبائی حلقے ہی سے تعلق رکھنے والوں ہی کو بطور نمائندہ نامزد کرنے کا اختیار سیاسی جماعتوں کو ہونا چاہئے‘ کیونکہ روائتی انفرادی احتساب کی بجائے عام انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے وابستہ توقعات کے بارے میں فیصلہ ’عوام کی رائے‘ سے ہونے میں کئی ضمنی برکات و فیوض پوشیدہ ہیں۔

Jan2015: Baised Surveys

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عالمانہ بددیانتی
انگریزی زبان کے ایک معروف روزنامے نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ جائزے میں سوال پوچھا ہے کہ ’’آپ کے خیال میں پاکستان کی مقبول ترین (سیاسی) جماعت کون سی ہے؟‘‘ اِس سوال کا جواب دینے کے لئے آٹھ سیاسی جماعتوں کے نام درج ذیل ترتیب کے ساتھ جاری کئے گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ جماعت اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اُور پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم)۔ ستائیس جنوری کو جاری کئے گئے سروے میں تین دن (اُنتیس جنوری دوپہر دو بجے تک) ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف کے حصے میں سب سے زیادہ ووٹ یعنی 41.61 فیصد‘ متحدہ قومی موومنٹ کو 17.22فیصد‘ مسلم لیگ نواز کو 16.58 فیصد‘ جماعت اسلامی کو 12.53فیصد‘ پاکستان پیپلزپارٹی کو 6.88فیصد‘ جمعیت علمائے اسلام کو 4.27فیصد‘ پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کو 0.59فیصد اور عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں کل 23ہزار 468 ووٹوں میں سے صرف 72 ووٹ آئے‘ جن کا تناسب مجموعی ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے 0.31 فیصد بنتا ہے!

صحافتی بددیانتی کی اِس سے ’قبیح‘ مثال کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ سب سے پہلے تو سوال کی ساخت (فارمیٹ) پر غور کریں‘ جس کے جواب میں کسی سیاسی جماعت کا نام خود سے تجویز کرنے کا آپشن موجود نہیں‘ قارئین کو ناموں کی ایک فہرست میں دیئے گئے ناموں ہی میں سے ایک نام کا انتخاب کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اخبار کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرنے والوں کی ذاتی پسند و ناپسند ہی اِس سے عیاں ہوئی ہے اور ہم جو ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذکورہ اخبار کے قارئین کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے جسے نو ہزار سات سو چھیاسٹھ ووٹ ملے۔ کیا ذمہ دار قومی اخبارات کو اِس قسم کے سروے کرنے چاہیءں جس سے بیرون ملک پاکستانی یا پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھنے والے ایسا تاثر لیں جو ملک کے اٹھارہ کروڑ سے زائد عوام یا نو کروڑ سے زائد بالغ افراد کی رائے کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا؟ ذرائع ابلاغ جس طرح (دانستہ طور پر) اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں‘ تو اس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو وقتی طورپر فائدہ یا نقصان نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ خود اُن کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اِس قسم کے غیرسائنسی اور تن آسان و سہل (lazy) انداز میں مرتب ہونے والے جائزے اور اُن کے فوری نتائج اِس بات کا بھی مظہر ہیں کہ دوسروں کو فکر و تدبر کی دعوت دینے والوں نے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو بہت ہی ہلکا سمجھ لیا ہے!

عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ مالدیوز (Maldives) میں ہے‘ جہاں سال 2013ء کے آخر تک مجموعی آبادی کا 44.1فیصد حصہ انٹرنیٹ استعمال کررہا تھا۔ دوسرے نمبر پر بھوٹان میں 29.9 فیصد‘ تیسرے نمبر پر سری لنکا میں 21.9فیصد‘ چوتھے نمبر پر بھارت میں 15.1فیصد‘ پانچویں نمبر پر نیپال میں 13.3فیصد‘ چھٹے نمبر پر پاکستان میں 10.9 فیصد‘ ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش میں 6.9فیصد اور آٹھویں نمبر پر افغانستان کی کل آبادی کا 5.9فیصد انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ایسوسی ایشن پاکستان (ISPAK) کی جانب سے اکتوبر 2014ء میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کل صارفین کی ممکنہ تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے جس میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یعنی اگر عالمی بینک کے اعدادوشمار پر بھروسہ نہ بھی کیا جائے تو پاکستان کے اپنے ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار بھی زیادہ مختلف نہیں جن کے مطابق کل آبادی میں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پندرہ فیصد سے کم ہیں تو کیا جو پندرہ فیصد انٹرنیٹ صارفین کسی ایک ہی اخبار کی ویب سائٹ پر روزانہ حاضری لگاتے ہیں یا پھر اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتی بلکہ وہ فلمیں‘ گانے‘ تفریح طبع کے پروگرام اور سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اپنا (آن لائن) وقت خرچ (صرف) کرنا پسند کرتے ہیں! ایسی صورت میں کسی اخبار کے ویب سائٹ پر جاری ہونے والے سروے کی حیثیت بھلا کیا رہ جاتی ہے لیکن اگر اِس سروے کے نتائج کو جواز بنا کر ملک میں پائے جانے والی رائے عامہ پر دلیل پیش کی جائے تو یہ سراسر کمزور ہوگی۔ عالمانہ بددیانتی یہ ہے کہ اپنے علم کا استعمال کچھ اِس انداز میں کیا جائے کہ پہلے سے سوچے ہوئے جواب یا نتیجۂ خیال کو حقائق کی صورت میں ڈھال کر وہ مطالب دوسروں (قارئین و ناظرین) کے ذہنوں میں ٹھونس دیئے جائیں‘ جو نہ تو کلی طور پر درست ہیں اور نہ ہی کلی طور پر غلط۔ دنیا بھر میں رائے عامہ سے متعلق اِس قسم کے جائزے مرتب و جاری کئے جاتے ہیں لیکن جس قدر آسان اور بیٹھے بٹھائے جائزے پاکستان میں تخلیق یا نشوونما پاتے ہیں‘ شاید ہی اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو۔

تفریح طبع کے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ’جیتو پاکستان‘ کے نام سے پروگرام ہفتے میں دو دن کراچی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے‘ جس کا ایک حصہ (segment) یہ ہوتا ہے کہ ’’ہم نے لوگوں سے پوچھا‘‘۔۔۔ اور آگے ایک سوال ہوتا ہے جس کے مختلف جوابات ایک خاص تناسب سے پیش کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر مرد دوسری شادی کب کرتے ہیں؟ گھر کی آیا (ملازمہ) کو کیوں فارغ کیا جاتا ہے؟ مرد جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اِن سوالات کے جوابات میں بمشکل کوئی جواب تیس فیصد سے زیادہ نمبر رکھتا ہے‘ یعنی کھیل کو دلچسپ بنانے کے لئے ’عوام کی رائے‘ کا استعمال جس بیدردی و غیرمحتاط انداز سے کیا جاتا ہے‘ وہ اپنی جگہ ایک الگ درجے کی بددیانتی ہے۔ کراچی میں رہنے والوں کی رائے کو پورے پاکستان پر چسپاں کرکے ہنسی مزاق میں کچھ وقت تو اچھا گزر جاتا ہے لیکن اِس تصوراتی سراب سے اندرون ملک دیگر شہروں یا بیرون ملک رہنے والوں کے ذہن میں ایک ایسا جواب ثبت ہو جائے گا‘ جو درست تاثر پر مبنی نہیں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے جملہ اداروں بشمول خبریں اور تجزیئے پیش کرنے والوں سے التماس ہے کہ ایسے غیرسائنسی جائزہ رپورٹس سے اجتناب برتیں‘ جس سے پاکستان میں رہنے والوں کی پسند و ناپسند اور سوچ و فکر کی حقیقی ترجمانی نہیں ہوتی بلکہ دروغ گوئی کا رنگ مہندی کی طرح ہمارے شعور و لاشعور پر کچھ اِس طرح ثبت ہو جاتا ہے کہ ہم کسی بات کے اُس زاویئے کو سچ سمجھنے لگتے ہیں جو درحقیقت جھوٹ‘ فریب اور گمراہ کن نظریات پر مبنی ہوتا ہے!

Wednesday, January 28, 2015

Jan2015: Guns and teachers

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
درس و تدریس: لاحق خطرات
بس اِسی بات کی کمی باقی رہ گئی تھی۔ خیبرپختونخوا پولیس نے تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں میں جس طرح دوسروں کو شریک کر لیا ہے‘ وہ اُس ’حکمت عملی‘ کا حصہ ہے جس کا ایک جز اساتذہ بالخصوص درس و تدریس سے وابستہ خواتین عملے کو مسلح کرنا اور اُنہیں خودکار اَسلحے کے مؤثر استعمال کی مرحلہ وار تربیت دینا شامل ہے۔ گویا کہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ’تشدد کا مقابلہ تشدد سے کریں گے۔‘ دفاع کے نام پر اسلحہ رکھنے کی اجازت تو دے گئی ہے لیکن اِس اسلحے کے استعمال پر نظر اور اجازت نامے جاری کرنے قبل بصیرت و بصارت (نفسیاتی) ٹیسٹ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا‘ تاکہ اِس بات کا تعین کیا جاسکتا کہ وہ اساتذہ جنہیں بچوں کو مار پیٹ کرنے کی اجازت نہیں لیکن اس کے باوجود پٹائی کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں تو کہیں ایسا کہ نہ ہو آئندہ چھڑی کی بجائے اساتذہ ہتھیار استعمال کرنے لگیں یا پھر ہتھیاروں کا استعمال گھریلو یا ذاتی تنازعات میں ہونے لگے ۔ کلاس روم میں مسلح استاد کی موجودگی کے نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے‘ اِس بارے بھی خاطرخواہ غوروخوض اور متعلقہ شعبے کے ماہرین (نفسیاتی معالجین) سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

محض چند روز کی تربیت سے کیا اساتذہ اِس قابل ہوجائیں گے کہ وہ اپنا اور اپنی کلاس یا پورے سکول کا دفاع ایسے حملہ آوروں سے کرسکیں جن کے سر پر خون سوار ہو اور جو خودکش بن کر نازل ہوئے ہوں؟ کیا ہم یہ حقیقت بھول گئے ہیں کہ سولہ دسمبر کے روز جب ’آرمی پبلک سکول‘ کو حملہ آوروں سے نجات دلانے کے پاک فوج کے خصوصی تربیت یافتہ دستے ’سپیشل سروسیز گروپ (ایس ایس جی)‘ سے تعلق رکھنے والے کمانڈوز کو طلب کیا گیا تو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے وہ بھی زخمی ہوئے اور باوجود جسمانی طور پر چاک و چوبند‘ مستعد اور نشانہ بازی میں انتہائی درجے کی حیران کن مہارت رکھنے والوں کو بھی زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

 ہمارا مقابلہ جس دشمن سے ہے اُس پر اپنے جیسا ہونے کا گمان کرنا دوسری بلکہ زیادہ سنگین غلطی ہوگی۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ جس معاشرے کو انتہاء پسندی نے کھوکھلا اور دہشت گردی نے خوفزدہ کر رکھا ہے وہاں اسلحہ رکھنے کی حوصلہ افزائی اور فوری اجازت نامے مرحمت فرمانے سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے۔ سکول کی چاردیواری کے اندر اسلحہ لیجانے کی ضرورت کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ کیا معلوم یہی اسلحہ حملہ آوروں کے ہاتھ لگے۔ ایک منٹ میں درجن سے زائد گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والا اسلحہ کہیں کلاس رومز پر موت جیسا سکوت طاری کرنے کا سبب نہ بن جائے۔ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے کہ وہ شہری و دیہی بندوبستی علاقوں میں دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کار بننے والوں کا قلع قمع نہیں کرسکتے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سولہ دسمبر کے سانحۂ پشاور جیسے واقعات کے رونما ہونے سے قبل‘ اُن کی منصوبہ بندی کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہم میں اہلیت ہی نہیں۔ خفیہ معلومات جمع کرنے کا ہمارا نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ ہم ذہنی و جسمانی طور پر اِس حد تک تھکاوٹ و نقاہت کا شکار ہوچکے ہیں کہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسے اقدام کو بھی ’ایک قابل عمل‘ حل سمجھ رہے ہیں۔ اُمید ہے اَرباب اختیار مسلح اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے اندر اسلحہ لیجانے کی اجازت دینے سے متعلق اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں گے۔

حرف آخر: پشاور صدر کے علاقے ’نوتھیہ‘ کے رہنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اُن کے گنجان آباد مرکزی رہائشی و تجارتی علاقے سے ’فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایف ای ایف) کالج‘ دوسرے مقام پر منتقل کیا گیا تو وہ اِس ’ناانصافی‘ کے خلاف یکم فروری سے ’پریس کلب‘ کے سامنے ’احتجاج‘ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی جائے گی۔ بذریعہ ’ایس ایم ایس پیغامات‘ طالبات اور اُن کے والدین کی جانب سے اپیل میں انتخابی وعدوں اور تعلیم دوستی کے حوالے سے اعلانات و بیانات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ نافذ ہے یعنی درس و تدریس کا عمل حکومت کی اوّلین ترجیح ہے اور قیام پاکستان کے بعد سے کسی بھی سیاسی دور میں موجودہ حکومت کی طرح تعلیم کے فروغ کے لئے اِس قدر مالی وسائل کبھی مختص نہیں کئے گئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبات کے جس کالج کو محض ’کم تعداد‘ کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس سے اندیشہ ہے کہ نوتھیہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والی بہت سی طالبات تعلیم کے سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ یہ التجا ایک سو بیس طالبات اور اُن کے والدین کی جانب سے مشتہر کرنے والے سماجی کارکن انور خان نے اِس اندیشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پریس کلب کے سامنے مستقل احتجاجی دھرنا سیکورٹی کے لحاظ سے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘ لہٰذا محکمہ اعلیٰ تعلیم کے اَرباب اختیار بشمول وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اُور تحریک اِنصاف کے سربراہ عمران خان ’ایف ای ایف کا نوتھیہ کالج‘ ختم کرنے کی بجائے طالبات کے مزید تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان فرمائیں اور اپنی ’علم دوستی‘ کا عملی مظاہرہ کریں۔
 

Tuesday, January 27, 2015

Jan2015: Senate Elections & KP

ژرف نگاہ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خیبرپختونخوا: سینیٹ انتخابات

تین مارچ کے روز قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی اُن 52 نشستوں کے لئے انتخاب ہوگا‘ جن کی رکنیت کی آئینی مدت 11 مارچ کو مکمل ہو جائے گی۔ اِس سلسلے میں سولہ اور سترہ فروری تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا سکتے ہیں‘ جن پر اعتراضات بیس اور اکیس فروری کو سنے جائیں گے۔ اُمیدوار 25 فروری تک کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے۔ مجموعی طورپر سندھ اور پنجاب سے گیارہ گیارہ‘ خیبرپختونخوا اُور بلوچستان سے بارہ بارہ نشستوں پر جبکہ قبائلی علاقوں سے 4 اور اسلام آباد سے سینیٹ کی 2 نشستوں پر نمائندوں کا چناؤ کرنے کے لئے اراکین صوبائی اسمبلی خفیہ رائے شماری کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔

خیبرپختونخوا (صوبائی) قانون ساز ایوان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں ’آئندہ سینیٹ الیکشن‘ کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں‘ غوروخوض کا عمل فیصلہ کن شکل اختیار کر رہا ہے اور صورتحال بڑی حد تک واضح ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی ہر جماعت اپنی اپنی عددی برتری کی حفاظت اور اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی فطری کوشش کے علاؤہ کچھ اضافی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی تگ و دو کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی میں بھی یہی دیکھنے میں آیا کہ خفیہ رائے شماری کی وجہ سے کچھ ایسے کردار بھی سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیجن کی وابستگی عددی اعتبار سے اسمبلی میں موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جمہوریت کا صبح شام راگ الاپنے والوں سے جب ’سینیٹ انتخابات‘ میں اراکین اسمبلی کے روئیوں اور کارکردگی کے مظاہرے کی بات کی جائے تو وہ اپنی غلطیوں کا موازنہ ماضی میں ہوئے واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے ’ہارس ٹریڈنگ‘ کا بیک وقت دفاع بھی کرتے ہیں اُور اِس عمل پر ’لعنت ملامت‘ بھیجتے بھی نظر آتے ہیں! بہرحال سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر ایک رکن صوبائی اسمبلی کی قسمت جاگ اُٹھی ہے‘ حکومت یا اس کے اِتحادی ہوں یا حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین سب کی اہمیت اُن کی جماعتوں کو اچانک محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے اور یہی وہ نازک وقت ہوتا ہے جب کہیں چرب زبانی تو کہیں اچھی حکمت عملی کام آ جاتی ہے اور اراکین اسمبلی اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے لئے خصوصی ترقیاتی فنڈز سمیت سینیٹ میں نشست حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ’سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)‘ بجٹ کے ساتھ ہی پیش کردیا جاتا ہے لیکن حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ بجٹ میں مختص وسائل سے زیادہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کردے۔ صوابدیدی اور غیرصوابدیدی اختیارات کا استعمال وفاقی اور صوبائی سطح پر ہمارے پارلیمانی نظام کا ایک ایسا ’خوبصورت‘ رخ ہے‘ جس کی وجہ سے حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کرتی ہیں۔ انتخابات میں ہونے والے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں اور آئندہ انتخابات کے لئے کچھ نہ کچھ پس و پیش بھی کر لیا جاتا ہے۔

ایک سو چوبیس اراکین پر مشتمل خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف 56 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے 17‘ پاکستان مسلم لیگ نواز کے 16‘ قومی وطن پارٹی کے 10 اور ’تحریک انصاف‘ کی اتحادی جماعت اسلامی پاکستان کے 8 اراکین ہیں۔ دیگراتحادی جماعتوں میں ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کی 5 جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پانچ پانچ سیٹیں ہیں۔ 2 نشستوں پر آزاد اراکین براجمان ہیں‘ جو پہلے ہی تحریک انصاف حکومت کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں اور اُمید ہے کہ سینیٹ انتخاب میں بھی وہ حکمراں اتحاد ہی کی صفوں میں شامل رہیں گے۔ موجودہ صورتحال میں سینیٹ انتخابات ڈرامائی یا حیران کن نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں کیونکہ چھوٹی جماعتیں کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔ اگر سب کچھ اصول اور ظاہری حمایت و تائید کے مطابق ہوتا ہے تو ’تحریک انصاف‘ کو حاصل 71 صوبائی اسمبلی کے اراکین کی حمایت سے 7 نشستیں حاصل ہوں گی جن میں 4 جنرل‘ ایک ٹیکنوکریٹ‘ ایک خواتین کی اور ایک اقلیت کے لئے مخصوص نشست شمار ہوگی لیکن اگر چھوٹی جماعتیں مختلف فیصلے کرتی ہیں تو یہ نتائج حسب توقع نہیں ہوں گے اور وہ گروہ جو ایوان میں اگرچہ کم تعداد میں نشستیں رکھتے ہیں وہ سینیٹ کی زیادہ نشستیں جیت جائیں گے! درحقیقت سینیٹ اِنتخابات ’تحریک اِنصاف‘کی قیادت کے لئے بھی ایک اِمتحان ہے جو صوبے میں ’صاف و شفاف‘ طرز حکمرانی اور مثالی طرز حکومت کی قیام کے لئے شروع دن سے دعوے کر رہی ہے یقیناًتحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا اصولی مؤقف اور کارکنوں کی اکثریت کی یہی خواہش ہے کہ ’’چاہے سینیٹ انتخابات میں پلڑہ کسی بھی جماعت کا بھاری ہو‘ تحریک انصاف وہ ’پارلیمانی غطلیاں‘ نہیں دُہرائے گی‘ جو ماضی کی جماعتیں دُہراتی رہی ہیں۔

’’اتحاد میں برکت ہے‘‘ کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ۔۔۔ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں باہم اتحاد تشکیل دے دیتی ہیں تو مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور قومی وطن پارٹی سینیٹ کی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو جائیں گی بلکہ وہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے ایک ایک ٹیکنوکریٹ و خواتین کی نشستیں حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اگر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو وہ حکمراں اتحاد کا حصہ بن کر اُنہیں مزید ایک جنرل سیٹ دلوا سکتی ہیں اور یہی کوشش جاری ہے کہ کسی طریقے سے ایک اضافی سینیٹ کی نشست کے لئے ’جدوجہد‘ کی جائے لیکن ذرا ٹھہریئے حکمراں اتحاد کے لئے بھی ایک مشکل کھڑی ہے یعنی اگر وہ ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کو سینیٹ میں ایک نشست نہیں دیتی تو وہ اپنی حمایت کا رخ حزب اختلاف کی جانب موڑ سکتی ہے جس سے اُنہیں ایک اضافی سینیٹ نشست جیتنے کا موقع مل جائے گا۔ جماعت اسلامی کی دلی خواہش ہے کہ اُن کے امیر سراج الحق کو اِس مرتبہ سینیٹ میں نشست مل جائے اُور اگر اُن کی یہ معصوم خواہش پوری نہیں کی جاتی تو عزائم یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بھی بغاوت کر دیں گے۔

صوبائی حکومت سے دانشمندانہ فیصلوں کی توقع ہے تاکہ ایک تو وہ اپنے اتحادیوں سے محروم نہ ہو اُور دوسرا ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو‘ جس سے جمہوری ادارے کی ساکھ متاثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ’تحمل اور برداشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر اتفاق رائے سے اتفاق پایا جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کیا ایک مرتبہ پھر عوام (رائے دہندگان) کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں۔ کیا سینیٹ کے صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی عددی موجودگی کے مطابق ہی سینیٹ کی نشستیں جیت پاتی ہیں یقیناًاگر قانون ساز ایوان کے اراکین سودا بازی کے ذریعے رہی سہی ساکھ بھی گنوا دیتے ہیں تو یہ (بدقسمتی سے) بجلی گیس اور پیٹرولیم سے زیادہ بڑا بحران ثابت ہوگا۔

Monday, January 26, 2015

Jan2015: Wrong Prioirities

ژرف نگاہ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
حکیمانہ ناسازئ حالات
محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور کے چودہ سو سرکاری سکولوں میں سے صرف ایک سو چودہ ہی کھولے جا سکے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں کے لئے مقررہ حفاظتی انتظامات مقررہ مدت میں مکمل نہیں کئے جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ سکول پھر سے فعال کرنے کے لئے لازماً درکار ’اجازت نامہ (این اُو سی)‘ سرمائی تعطیلات میں حاصل نہیں کیا جاسکا! اِس سلسلے میں جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے حکومت نے 2 ارب روپے فراہم کئے تو ہیں اور اِس کا خوب چرچا بھی کیا گیا ہے لیکن اصل ضرورت 7 ارب روپے کی ہے!

سب سے آسان کام اعلان کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی فوری اعلان۔ سیاست دان جانتے ہیں کہ قوم کا حافظہ کمزور ہے اور وہ جلد ہی بھول جائیں گے لیکن کسی سانحے کے وقت پے در پے اعلانات اور پرعزم جملوں کی تشہیر سے گریز نہیں کیا جاتا۔ لمحۂ فکریہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ تعلیمی اداروں کے لئے حفاظتی انتظامات کا اعلان کرتے ہوئے اُن زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا گیا‘ جن کی وجہ سے اعلانات و بیانات کافی نہیں۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا میں 24 فیصد سرکاری سکول ایسے ہیں جن کی چاردیواری ہی نہیں‘ ایسی صورت میں پہلے تو چاردیواری کی تعمیر کی جائے تو پھر اُس چاردیواری کی اونچائی کم سے کم آٹھ فٹ تک ہونی چاہئے‘ جس پر خاردار تاریں لگی ہوں۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کے ذریعے سکول کی نگرانی ہو رہی ہو‘ جس کے لئے الگ عملہ ہمہ وقت ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نظریں جمائے بیٹھا رہے۔ ظاہر ہے اُستاد تو فارغ نہیں ہوں گے کہ وہ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے آنے والے ’اِن پٹ (input)‘ کو دیکھتے رہیں پھر اُس ماڈل تعلیمی ادارے کے داخلی راستے پر ایک عدد مستعد و مسلح چوکیدار (گارڈ) بھی تعینات ہونا چاہئے! کیا یہ سب قابل عمل اقدامات ہیں جبکہ مالی وسائل فراہم کرنے میں غیرضروری اِحتیاط‘ تنگدلی و تنگدستی کا مظاہرہ سیاسی حکومت کی ساکھ کا حصہ ہو! جس صوبے کے چوبیس فیصد سرکاری سکول اَگر چاردیواری سے محروم ہیں اور جہاں 46 فیصد سرکاری سکولوں میں برقی رو دستیاب ہی نہیں! کہ جہاں بجلی کا ایک بلب تک نہ جل سکتا ہو وہاں نگرانی کے لئے الیکٹرانک آلات (ٹیلی ویژن کیمرے اور اُن کے ریکارڈرز) نصب تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ کام کیسے کریں گے؟ ’’خود فریبی سی خودفریبی ہے۔۔۔ دور کے ڈھول بھی سہانے لگے!‘‘

افراتفری کا ماحول ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جنہیں حفاظتی انتظامات کے لئے خاطرخواہ مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے تو دوسری جانب نجی تعلیمی ادارے ہیں جن کی انتظامیہ فریاد کر رہی ہے کہ ’’اُنہیں کم سے کم جن حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ حکومت کا کام ہے لیکن اگر حکومت اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا ہی چاہتی ہے تو اِس کے لئے منطقی طریقہ کار اختیار کرے یعنی مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرضہ جات کی فراہمی کی جائے۔ نگرانی کرنے والے آلات کی درآمد پر عائد ٹیکس و دیگر ڈیوٹیاں ختم کی جائیں اور مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ شمسی توانائی سے چلنے والے نگرانی کے آلات ایجادکریں۔‘‘ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ۔۔۔ ’’سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی بجائے محکمہ پولیس کی نگرانی کا نظام بہتر بنایا جائے۔‘‘ پولیس فورس کی افرادی قوت اور دیگر وسائل میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ شہری یا دیہی علاقوں میں غیرمتعلقہ افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے قومی شناختی کارڈ کی دستاویز کے بناء کرائے پر جائیداد یا دکان حاصل کرنے اور بناء قومی شناختی کارڈ سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اگر دہشت گرد اِس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ اُن کی شناخت مشکل ہو گئی ہے تو ہمیں اِس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ آرمی پبلک سکول پر حملے جیسی کوئی دوسری کارروائی کریں گے تو تب ہی صرف حملہ آوروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ آخر کیا سبب ہے کہ دہشت گردوں کے ’’سہولت کار‘‘ بننے والے کرداروں سے سخت گیر معاملہ نہیں کیا جا رہا‘ وہ کردار جو بذات خود تو دہشت گرد کارروائیوں میں حصہ نہیں لیتے لیکن مختلف طریقوں سے حملہ آوروں کی مدد کرتے ہیں‘ اُن کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں‘ اُن کے پیغام کو پھیلاتے ہیں‘ اُن کی کارروائیوں کو مذہبی احکامات کی تشریح سے جائز قرار دیتے ہیں‘ اُنہیں کارروائی سے قبل پناہ دیتے ہیں یا اُن کے لئے اہداف سے متعلق معلومات جمع کرتے یا کرواتے ہیں تو بالخصوص ایسے تمام کرداروں پر ’بلااِمتیاز و دباؤ‘ بھی پہلی فرصت سے پہلے ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ’’پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ باقی نہیں رہا۔‘‘ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت تھانہ کچہری سے پناہ کی دعائیں مانگتی ہے۔

 خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ بداعتمادی کے اِس ماحول کو ختم کرنے اور پولیس و عوام کے درمیان اعتماد سازی کے رشتے بحال کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ عوام اور پولیس کے درمیان پائی جانے والی نادیدہ خلیج سے انکار کرنا ’خود فریبی‘ ہوگی‘ اِس سلسلے میں پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے وسائل سے بھرپور استفادہ ہونا چاہئے‘ یقیناًپولیس میں ملازمت کرنا‘ تنخواہ و مراعات پانے والوں کے لئے تو شان شوکت کا باعث اور فخر ہوسکتا ہے لیکن اگر کسی کے گھر پولیس اہلکار دستک دے یا راہ چلتے کسی کو روک کر راستہ ہی پوچھ لے یا کسی کو تھانے طلب کیا جائے یا کسی حاجت کے تحت متعلقہ تھانے یا چوکی سے واسطہ رکھنا پڑے تو ’سفید پوشوں‘ کے رنگ پیلے‘ ہونٹ نیلے اور ہاتھوں پر کپکپاہٹ طاری و حاوی ہو جاتی ہے! آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہاں پولیس پر آبادی کے صرف اُس ایک طبقے کا کلی اعتماد باقی ہے جس کا تعلق جرائم پیشہ یا مجرمانہ ذہنیت و اعتقادات سے ہو! آخر کیا سبب ہے کہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی خفیہ معلومات پر اکتفا نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے لئے اِنتہاء پسندی کا پرچار‘ سازشوں اور وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے عزائم‘ کسی حملے سے قبل ہی خاک میں کیوں نہیں ملائے جاتے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ تعلیمی اِدارے ہوں یا کاروباری مراکز‘ حفاظت و نگرانی کے اہداف ’مؤثر پولیسنگ‘ کے ذریعے حاصل کرنے پر غوروخوض یا زور نہیں بلکہ حقائق سے نظریں چرانا‘ اُور اپنے فرائض و ذمہ داریاں دوسروں کے سر تھوپنا ہمارا ’قومی مشغلہ‘ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Appreciation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
داد بیداد
پاکستان حکومت کی جانب سے صدر ممنون حسین نے سولہ دسمبر کو دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے آرمی پبلک سکول (پشاور) کے145بچوں اور عملہ کے اراکین کے لئے ’تمغہ شجاعت‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ تمغہ شہید ہونے والے پرنسپل‘ اساتذہ‘ دیگر عملہ اور شہید ہونے والے طالب علموں کے نام کیا جائے گا۔’آرمی پبلک سکول‘ میں ہلاک ہونے والے ایک شہری کو بھی ایوارڈ دیا جائے گا۔اس کے علاؤہ حملہ میں زخمیوں کے لئے مختلف اعزازات (سول ایوارڈز) دینے کا اصولی فیصلہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایوان صدر کابینہ ڈویژن کو سمری بھیجے گا۔ اس کے علاوہ دسمبر 2009ء میں ’پشاور پریس کلب‘ کے دروازے پر ایک خود کش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کو بھی تمغہ شجاعت دیا جائے گا۔ پاکستان جس فیصلہ کن جنگ اور مرحلے سے گزر رہا ہے‘ اِس میں یہ بات بھی انتہائی ضروری تھی کہ ’قوم کا حوصلہ بلند کیا جاتا اور صدر پاکستان کی جانب سے بچوں کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے سے یہ تاثر بھی زائل کیا جاتا کہ ’’ہمارا حافظہ کمزور ہے‘‘ اور کسی ایک سانحے کو جلد بھول جاتے ہیں۔‘

سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کا سانحہ کسی بھی طرح معمولی نہیں ۔ پوری قوم کو پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی صورت اپنے لخت جگر دکھائی دیئے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس سانحے کے بارے میں سوچتے ہوئے حساس دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی غم زدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے طور پر فی خاندان مالی معاونت کی گئی ہے‘ جس سے اُن خاندانوں کے زخم تو بھریں گے لیکن اُنہیں آزمائش کی اِس گھڑی میں یہ احساس ہوگا کہ وہ اکیلے نہیں۔ ضرورت اِس امر کی تھی کہ آرمی پبلک سکول کے شہدأ کے نام سے ایک الگ اور جدید سہولیات سے آراستہ سکول تعمیر کرنے کا اعلان کیا جاتا اور اُس سکول کے مختلف حصوں کتب خانے‘ لیبارٹریوں‘ جملہ تدریسی سہولیات (بلاکس) کو بچوں کے نام سے منسوب کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ جس علم کی شمع کو بجھانے کی کوشش کی گئی‘ اُس کی لو کو بڑھا دیا گیا ہے۔ جہل‘ ظلم اور انتہاء پسندی کا علاج شرح خواندگی میں اضافے کے علاؤہ بھلا اُور کیا ہوسکتا ہے!

سانحہ پشاور سے بطور نادر موقع فائدہ اٹھانے میں اب بھی دیر نہیں ہوئی کیونکہ اِس سانحے کا حاصل اتحاد تھا‘ جس کی قومی سطح پر شدت سے کمی محسوس کی جا رہی تھی اور پھر جب ’قومی اتحاد‘ ہاتھ آیا تو پھر قومی سطح پر ’ایکشن پلان‘ تخلیق کرنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کیا گیا‘ جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تیئس جنوری تک اٹھارہ سو سے زائد مشتبہ افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق 1859 مشکوک ملکی و غیرملکی اب تک ’قومی ایکشن پلان کے تحت‘ گرفتار ہوئے ہیں جن میں صوبہ پنجاب سے 958‘ سندھ سے 244‘ بلوچستان سے 234 اور دارالحکومت اسلام آباد سے 235 افراد شامل ہیں جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں گرفتاریاں خیبرپختونخوا میں ہوچکی ہیں یقیناًیہ سب گرفتاریاں اور قانون کی موجودگی کا احساس دلانا ضروری امر تھا لیکن محض گرفتاریاں ہی کافی نہیں! کون نہیں جانتا کہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے جعل سازی سے قومی شناختی کارڈز حاصل کررکھے ہیں اور اِسی ایک شناختی دستاویز کی بنیاد پر اُنہوں بینک اکاونٹس‘ پاسپورٹ‘ جائیدادیں حتیٰ کہ کاروبار تک پھیلا رکھے ہیں اور اب خود کو ’پاکستانی‘ بھی کہتے ہیں اور حسب ضرورت افغانستان کی شناختی دستاویزات بھی استعمال کرتے ہیں کہ اُن کے اثاثے وہاں بھی ہیں۔ تاحال وفاقی حکومت کی جانب سے اِس منظم و زیادہ خطرناک جعل سازی کی جانب توجہ مبذول نہیں کی گئی کہ کس طرح قومی شناختی کارڈ حاصل کئے جاتے ہیں جبکہ اِس کا طریقۂ کار انتہائی توجہ سے مرتب کیا گیا ہے اور ایک سے زیادہ تصدیق کے مراحل کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ شاید ضرورت اِس امر کی ہے کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول کا طریقۂ کار مزید سخت کیا جائے۔ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دفاتر میں کام کرنے والی اُن کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی ہونی چاہئے‘ جنہوں نے محض ذاتی مفاد کی بناء پر معلوم افغان مہاجرین اور نجانے دیگر کئی ایسے غیرملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کئے ہوں گے‘ جو ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف دل میں بغض رکھتے ہوں اور مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ کسی خاص مقصد کے لئے جوہری صلاحیت رکھنے والے دنیا کے پہلے اسلامی ملک کو داخلی طورپر عدم استحکام سے دوچار رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی‘ اِنتہاء پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف جس قدر بھی پیش رفت ہوتی ہے‘ جس قدر اقدامات ہوتے ہیں وہ کم ہی رہتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ دس کروڑ سے زائد موبائل فون کنکشنوں کی طرح اُن 9 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے کوائف کی بھی جانچ پڑتال کی جائے‘ جو نادرا ڈیٹابیس میں موجود ہیں۔

نادرا کی ویب سائٹ (nadra.gov.pk) پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’پاکستان کی 96فیصد بالغ آبادی یعنی 9 کروڑ سے زائد کوائف قومی ڈیٹابیس کا حصہ ہیں‘‘ لیکن جب ’بائیومیٹرکس (انگوٹھے کے نشان سے الیکٹرانک تصدیق)‘ کی بات عام انتخابات کے لئے کی جائے تو یہ ناقابل عمل قرار دے کر دھاندلی سے پاک اِس طریقے کو امکانی طور پر زیربحث نہیں لایا جاتا! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کئی ایک سرکاری ادارے اصلاحات چاہتے ہیں‘ پورے کا پورا نظام بااثر افراد کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ سیاسی ترجیحات قومی ترجیحات پر غالب اور ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی جانچ پڑتال‘ اُن کی آمدنی اور اثاثہ جات میں تعلق‘ ٹیکس چوری کرنے والے بااثر طبقات کا احتساب اور سرکاری اداروں میں خصوصیت کے ساتھ بلاامتیاز سزاوجزا کا عمل شروع نہیں ہوگا‘ محض اعزازات اُن محض رسومات کا حصہ رہیں گے‘ جس میں شریک ہر آنکھ پرنم اور ہر دل اپنے اپنے مفاد کے بارے سوچتے ہوئے دھڑک رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: New Health Reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحت کا اِتحاد
توجہات مرکوز ہیں۔ طبی سہولیات کی فراہمی اور خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے لئے محکمۂ صحت خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی ’صحت کا انصاف‘ اور اب ’صحت کا اتحاد‘ نامی حکمت عملی سامنے آئی ہے‘ جس کے تحت پہلی مرتبہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں ایک جیسی مہم شروع کی جائے گی۔ قبل ازیں قبائلی علاقوں سے متصل خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں الگ الگ مہمات چلائی جاتی رہی ہیں اور اِن کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ پولیو سمیت 9 خطرناک بیماریوں کے خلاف کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں ہوسکی۔ ’صحت کا اتحاد‘ ایک اُور خاصیت بھی رکھتا ہے کہ اِس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طورپر طبی سہولیات کو وسعت دیں گی۔ ’قومی ایکشن پلان‘ کے حوالے سے صوبائی سطح پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لئے بائیس جنوری کو ہوئے اجلاس میں گورنر خیبرپختونخوا‘ وزیراعلیٰ اور کورکمانڈر سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور فیصلہ ہوا کہ تپ دق‘ تشنج‘ خسرہ‘ یرقان و پولیو سمیت مختلف بیماریوں کی روک تھام اور پھیلاؤ کو روکنے کے لئے 300 طبی سہولیات کی فراہم کے مراکز (کیمپ) قائم کئے جائیں گے جہاں کم سے کم 33 لاکھ بچوں کو اِن بیماریوں سے بچاؤ کی ادویات اور ٹیکے لگائے جائیں گے۔ چار قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا کے 10 اضلاع کو ایک بلاک تصور کیا جائے گا جن میں پانچ وسطی اور پانچ چنیدہ جنوبی اضلاع کی سرحدیں خیبر‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں سے ملتی ہیں۔ حکام نے قبائلی علاقوں میں طبی سہولیات کی ضرورت کو بندوبستی علاقوں کے مساوی تسلیم کیا ہے اُور یہ تشویش بھی پہلی ہی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے کہ ماضی میں مالی وسائل جن الگ الگ طبی مہمات کی نذر ہوتے رہے اُن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

قبائلی علاقوں کی صورتحال بندوبستی علاقوں پر کس طرح اَثراَنداز ہو رہی ہے‘ اِس بات کا جائزہ صرف صحت ہی شعبے تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ امن وامان اور منظم جرائم کے حوالے سے بھی غور ہونا چاہئے کہ کس طرح جرائم پیشہ گروہ اور عسکریت پسند اُن قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جہاں کی اِنتظامیہ نے اپنے فرائض کو محدود سمجھ رکھا ہے۔ ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر)‘ میں ترامیم کے حوالے سے حکومتی سرپرستی میں ماہرین نے جو تجاویز و سفارشات مرتب کر رکھی ہیں‘ اُن کی فائل (تفصیلات) طلب کرنے کا سب سے موزوں وقت بھی یہی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’صحت کا اِتحاد ایک غیرسیاسی مہم جس کے آغاز کا فیصلہ سترہ دسمبر کے روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی ایک ملاقات اور اِس موضوع پر غوروخوض کے بعد ہوا۔‘‘ صوبائی حکومت کی جانب سے اِس اُمید کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت اِس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے خاطرخواہ مالی و تکنیکی امداد فراہم کرے گی۔ سردست صوبائی حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت نہیں بلکہ طب کے شعبے میں جاری مختلف مہمات کے لئے پہلے ہی سرمایہ مختص کیا جا چکا ہے اور اِسی سے اِستفادہ کیا جائے گا لیکن بہرکیف تشہیری مقاصد ماضی کی طرح زیادہ توجہ دینے پر اِس مرتبہ بھی عمل درآمد ہوگا‘ جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اُور اگر صوبائی حکومت وفاق سے طب سمیت دیگر شعبوں میں غیرمشروط تعاون چاہتی ہے تو اُسے اِس تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کے اِنتخابی منشور یا سربراہ کی خواہشات کے مطابق اپنی حکمت عملیاں مرتب کرنے اور بعدازاں اُن کا پیچھا کرنے میں مستقل مزاجی سے کام نہیں لے رہی۔

 صوبائی کابینہ اِس بات کی منظوری دے چکی ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کے نام پر مریضوں کا اِستحصال نہیں ہونا چاہئے اور شام کے اُوقات میں اگر ڈاکٹرز ’پرائیویٹ پریکٹس‘ کرنے کے خواہاں ہیں تو اِس سلسلے میں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل کا استعمال کیاجائے۔ عوامی حلقوں نے اِس دیرینہ مطالبے کی شینوائی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن کروڑوں کی تعداد میں عوام کی بجائے سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹروں کے مفاد کو ترجیح دی گئی‘ اُور تاحال طب کے مقدس شعبے کی تذلیل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے یقیناًسب ڈاکٹر ایسے نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد ’دردمند‘ ہے لیکن کیا بھاری معائنہ فیسیں وصول کرنے کا عمومی رجحان ہمارے خلاف کسی بیرونی سازش کا حصہ ہے؟ کیا اپنے ہی لوگوں کو لوٹنے کی ترغیب کسی دشمن ملک کی جانب سے دی گئی ہے؟ کیا اُن مجبور و لاچاروں کو لوٹنے کا کوئی کم سے کم اخلاقی و شرعی جواز بھی بنتا ہے؟ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ قومی خزانے سے اَربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں تو علاج نہیں ہوتا لیکن پیسے دے کر اَفاقہ بھی ہو جاتا ہے اُور مریض کے تیماردار حتیٰ کہ رحلت کی صورت اہل وعیال بھی کم از کم اِس حد تک مطمئن ضرور ہوتے ہیں کہ ’’خدا مغفرت کرے‘ آخری وقت میں علاج کی سہولت تو میسر آئی!‘‘ بہرکیف تاریکی میں اضافہ اَدویہ ساز اِداروں کی وجہ سے بھی ہے‘ جو ایک ہی فارمولے کی دوائی مختلف ناموں سے پیکنگ کرکے مہنگے داموں فروخت کرنے کو ’کاروباری حکمت عملی‘ قرار دیتے ہیں اور اِس سلسلے میں خارج از امکان نہیں کہ ڈاکٹروں کو طرح طرح کی دی جانے والی مراعات کا تعلق بھی ’بزنس اور مارکیٹنگ‘ ہی سے ہو۔ غیرمستند تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کی خبر کون لے گا؟ یہ ایک الگ جامع سوال ہے! القصہ مختصر بطور صارف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کو نہ تو بیماری کی حالت میں معاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی تندرستی کی حالت میں اُسے سکون میسر ہوتا ہے۔

زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی میں تعطل (شارٹیج) اور بعدازاں قیمتوں میں اضافے کے بعد دستیابی ایک معمول بن چکا ہے۔ مرگی و دیگر ذہنی و نفسیاتی امراض‘ ذیابیطس (شوگر) اور بلندفشار خون (بلڈپریشر) جیسے پیچیدہ امراض ہی نہیں بلکہ معدے کی تیزابیت کے لئے عمومی طور پر استعمال ہونے والے محلول کی قیمت بھی اِعتدال پر نہیں رہتی۔ صحت کے حوالے سے ایک ایسے منصفانہ و جامعیت و معنویت بھرے اِتحاد کی ضرورت ہے‘ جس کے نتائج سطحی نہیں ہونے چاہیءں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Business Minded Approach

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کاروباری ذہنیت اور حالات
خالصتاً ’کاروباری ذہنیت‘ (زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا آزمودہ و آسان طریقہ) یہ ہے کہ گردوپیش کے سیاسی و سماجی حالات اُور تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھی جائے اور جس چیز (جنس) کی مانگ میں اضافہ متوقع ہو‘ اُسے ذخیرہ کر لیا جائے‘ نئی خریداری کے آرڈرز دینے یا موجودہ ذخیرے کو سانس روک کر ایک ایسے وقت میں فروخت کے لئے پیش کرنا ’کاروباری حکمت عملی‘ کہلاتی ہے تاکہ لوگوں سے اُس وقت اِضافی قیمت وصول کی جائے جبکہ وہ انتہائی مجبوری و ضرورت کے عالم میں ہوں۔

 روزمرہ اصطلاح میں ’کامیاب تاجر (دکاندار)‘ وہی کہلاتا ہے جو دوسروں کی مجبوری کا سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا ہنر جانتا ہو یعنی وہ خریداری کے ’عمومی رجحانات‘ پر نظر رکھے۔ مثال کے طورپر ماہ رمضان میں قیمتوں کا بڑھنا ایک معمول بن چکا ہے یا پھر نئے ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نصابی کتب کی قیمتیں میں والدین کو دھچکا دینے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کتابوں پر شائع شدہ قیمتوں پر اسٹکر لگا کر نئی قیمتیں درج کر دی جاتی ہیں۔ کچھ دکاندار ’مارکر (نہ مٹنے والی سیاہی)‘ پھیر کر کتاب پر شائع ہونے والی قیمت چھپا دیتے ہیں اور والدین کے پاس سوائے من مانگی قیمتیں اَدا کرنے کے چارہ نہیں ہوتا۔ آج تک کوئی ایسا منتخب نمائندہ دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا جس نے والدین کی صورت صارفین کے اندیشوں اور تحفظات کو دردمندی سے سنا ہو‘ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں اِس ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا ہو‘ خودسوزی یا مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہو! سوچئے کیا ہمارے منتخب نمائندے ہماری توقعات پر پورا اُتر رہے ہیں؟

سردست مسئلہ اُن سیکورٹی (الیکٹرانک) آلات کی مہنگائی اور عدم دستیابی کا ہے‘ جنہیں نصب کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اگر ’الیکٹرانک آلات‘ نصب نہیں کئے جائیں گے تو ایسے نجی تعلیمی اداروں کو ’کاروبار‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی! جس وقت حکومت کی جانب سے ’کلوزسرکٹ کیمروں‘ اور ’خاردار تاروں‘ کی تنصیب کو لازم قرار دیا جا رہا تھا‘ اُس وقت اگر مارکیٹ میں اِن اشیاء کی قیمتیں رازداری سے معلوم کر لی جاتیں اور اُن چار ہفتوں کا فائدہ اُٹھایا جاتا جبکہ تعلیمی ادارے بند تھے تو آج ’بحران در بحران‘ کی صورتحال پیش نہ آتی۔ ادارے سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی بجائے دکھاوے سے زیادہ کام لے رہے ہیں اور خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال میں اِن کیمروں سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔ کلوزسرکٹ مانیٹرنگ (نگرانی) کے لئے استعمال ہونے والے کیمرے اور ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈز (DVRs) تصویر کی کوالٹی کے لحاظ سے ساخت کئے جاتے ہیں۔ ایک کیمرے کی قیمت ’پندرہ سو روپے‘ سے لیکر ’ڈیڑھ لاکھ روپے‘ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ’ڈی وی آر‘ کی قیمت بھی ریکارڈنگ محفوظ رکھنے کے اوقات (گھنٹوں‘ دنوں اور مہینوں) سے لیکر اِس کے معیار تک مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسری بات سیکورٹی کیمرے اگر مستقل لگے ہوں تو وہ سستے ہوتے ہیں لیکن اگر اُن میں 360 ڈگری پر گھومنے کی صلاحیت ہو تو اُن کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ خودکار انداز میں گھومنے اور کسی ایک مقام کے کونے کونے کو ایک سے زائد کیمروں سے کور (cover) کرنے کے لئے خصوصی ماہرین روشنی کے زوایئے ذہن میں رکھتے ہوئے آلات تجویز کرتے ہیں۔ تیسری بات کلوز سرکٹ کیمروں کی اُس خصوصیت کے بارے ہے جو وہ کم روشنی یا اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں تاہم یہ اضافی خصوصیت ہر کیمرے میں یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا انتخاب کم روشنی (low-light) یا مکمل اندھیرے (darkness) مطابق کرنا ہوتا ہے یعنی انفراریڈ روشنی دینے والے آلات کا انتخاب سکول کے رقبے کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ چوتھی بات موشن سنسرز ہوتے ہیں‘ جو خودکار آرام سسٹم اور کیمروں کو فعال کرنے کے علاؤہ عمارت کے کسی خاص حصے یا مکمل عمارت کو روشن کردیتے ہیں تاہم اِس نظام کے لئے بجلی کا بیک اپ سسٹم یعنی ’اَن اِنٹرپٹیڈ پاور سپلائی (یو پی ایس)‘ لگانی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں بجلی کی غیراعلانیہ اور اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے اوقات ملا کر یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ بجلی کن اوقات میں نہیں ہوگی جس سے پورا سیکورٹی کا نظام دم توڑ دیتا ہے اور دہشت گرد ’ہوم ورک‘ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں روالپنڈی میں ایک دھماکہ عین اُس وقت ہوا‘ جب بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی۔’’شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں۔۔۔ وہی بھلا ہے‘ جو بے ساختہ بنا ہوا ہے!‘‘

پشاور کی مارکیٹ میں ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ کی قیمت پندرہ سو سے بڑھ کر ڈھائی ہزار روپے جبکہ میٹل ڈیکیٹر کی قیمت ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے ہوچکی ہے۔ اسی طرح 35 فٹ کی خاردار تار کا بنڈل دو ہزار روپے کا مل جاتا تھا لیکن اِس کی موجودہ قیمت چھ ہزار روپے طلب کی جاتی ہے۔ ریتی بازار کہ جہاں خاردار تاروں کے بنڈل سڑک پر پڑے رہتے تھے اب بمشکل دستیاب ہوتے ہیں اور جن دکانداروں کے پاس یہ خاردار تاریں موجود بھی ہیں تو وہ من مانی قیمتوں کاتقاضا کرتے ہیں اور جب زیادہ بحث کی جائے تو کہا جاتا ہے مطلوبہ خاردار تاریں سٹاک میں نہیں!

بہ امر مجبوری تعلیمی اداروں کو الیکٹرانک آلات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے یقیناًیہ کام حکومت کا ہے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرنے والوں پر بھی نظر رکھے۔ ہمیں کئی ایک طرح کے دہشت گردوں کا سامنا ہے‘ کیا ایسی ذہنیت کو دہشت گردی کے زمرے میں شمار نہ کیا جائے‘ جو مجبوری اور ضرورت کے اِس ماحول‘ سیکورٹی خدشات و تقاضوں اُور بے چینی سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Action against Enchrochments.

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: کارروائیوں کا موسم
خیبرپختونخوا ریلوے کی ایک دو نہیں بلکہ ’ڈھائی ہزار ایکڑ‘ سے زائد اَراضی پر قابض اَفراد کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے‘ جس میں پشاور ڈویژن کے علاقے ہشتنگری پھاٹک‘ غریب آباد‘ نوتھیہ‘ حیات آباد‘ کارخانو پھاٹک کے علاؤہ خیبرایجنسی‘ پیرپیائی‘ پیر سباق‘ تاروجبہ‘ اَضاخیل‘ اَکبرپورہ‘ نوشہرہ اُور اَکوڑہ خٹک شامل ہیں۔ مہم کا پہلا مرحلہ ’نرم ردعمل‘ اکتیس مارچ جبکہ دوسرا مرحلہ ’سخت ردعمل‘ اِس کے بعد شروع کرنے کے احکامات موصول ہوگئے ہیں‘ جس میں ریلوے پولیس کی بھاری نفری اور وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے جن رہائشی علاقوں سے ریلوے لائن گزرتی ہے‘ وہاں تجاوزات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کیونکہ یہ ریل گاڑی کے مسافروں ہی کے لئے بلکہ قرب و جوار کے لئے بھی کسی حادثے کی صورت امکانی خطرات کا مجموعہ ہے اُور تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ’سب کیا دھرا‘ کسی آمریت (فوجی دور حکومت) کا (نتیجہ) نہیں بلکہ جمہوری اَدوار میں ریلوے کی اراضی کہیں بندر بانٹ تو کہیں جعل سازی سے ذاتی اثاثوں میں منتقلی کا رجحان ہر دور میں رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ریل کی پٹڑی پر کاروبار کرنے والے کون ہیں؟ پٹڑی سے منسلک تجارتی مراکز (دکانیں اور کثیرالمنزلہ تعمیرات) راتوں رات کیسے بن گئیں اور اِن سے کرائے کی مد میں باقاعدگی سے وصولی کرنے والے کون ہیں؟ سب سیاسی کرداروں کی حرص و طمع ہے‘ جنہوں نے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ جس کے بعد کی کہانی اور اُن کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے کہ ’ڈھائی ہزار ایکڑ سے زائد اراضی‘ پر قبضہ کر لیا گیا ہے! ریلوے اراضی واگزار کرانے اور تجاوزات کے خلاف کارروائی سے قبل ’گھنٹہ گھر سانحہ‘ کو ذہن میں رکھنا ہوگا‘ جہاں تاجروں نے پہلے احتجاج اور بعدازاں اِنتظامیہ کی جانب سے طاقت کے اِستعمال کا بھرپور فائدہ اُٹھا کر پوری مہم پر شکوک وشبہات اور سوالات اُٹھا دیئے ہیں۔ ایسی کسی بھی کارروائی کے آغاز سے قبل ریلوے حکام کو پریس کانفرنس اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُن تمام علاقوں کے نام اور تجاوزات کی تفصیلات تشہیر کرنی چاہئے‘ جنہیں ایک مقررہ مدت (ٹائم ٹیبل) کے دوران واگزار کرانا ہے۔ اِس سلسلے میں عدالت کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ ماضی میں بھی اِسی نوعیت کی کارروائیاں عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنے کی وجہ سے مکمل نہیں کرائی جاسکیں اور سالہا سال سے مقدمات کے باوجود نہ صرف اراضی مستقل طور پر قبضہ کر لی گئی بلکہ پہلے سے زیادہ رقبے پر تجاوزات پھیلتی چلی گئیں۔ ریلوے اَراضی پر قبضہ گروہوں کے پشت پناہی کرنے والے سیاسی کرداروں سے معاملہ (دو دو ہاتھ) کرنے کی ضرورت ہے۔ اِنتظامیہ کو چاہئے کہ وہ حکمراں و کسی اتحادی جماعت کے دباؤ اور مصلحتوں کی بجائے مختلف سیاسی وغیرسیاسی اَدوار میں ہتھیائی جانے والی ریلوے اراضی کی تفصیلات (سال بہ سال) کے گوشوارے منظرعام پر لائے۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ ’گوگل میپ (Google Map)‘ اِنٹرنیٹ کے وسائل کا اِستعمال کرتے ہوئے ’جی پی ایس (GPS)‘ کی مدد سے تجاوزات کا اَزسرنو تعین کیا جائے کیونکہ جس ڈھائی ہزار ایکڑ کی بات سرکاری کاغذات میں کی گئی ہے یہ درست نہیں بلکہ ریلوے ذرائع کے مطابق قبضہ کی گئی اراضی چھ ہزار ایکڑ سے زائد بنتی ہے اور کہیں مقامات پر اراضی نیلام (فروخت) کرنے کے معاملات میں بھی سنگین بے قاعدگیاں فائلوں میں دبی پڑی ہیں۔ ’گوگل میپ‘ ہی کا استعمال کرتے ہوئے ریلوے کی ویب سائٹ یا ہینڈ بلز کے ذریعے ریلوے کی اراضی کا مکمل نقشہ جاری کیا جائے‘ جس میں تجاوزت کو سرخ نشانوں سے ظاہر (مارک) کیا گیا ہو تاکہ ’عوام الناس‘ اور ’خاص الخاص‘ طبقات کو علم ہو سکے کہ کون کہاں اور کس مقام پر اپنی حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریلوے کا مفاد پاکستان کا مفاد ہے۔ کسی ایک حکومتی اِدارے کی اَراضی چاہے وہ فرد واحد کے قبضے میں ہو یا ایک سے زائد مالکان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ’پٹوار خانے‘ کی ’فنی و تکنیکی مہارت‘ سے فائدہ اُٹھا چکے ہوں‘ اُن سب کو ’ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے‘ کی ضرورت ہے۔ اَصولی طور پر کسی بھی حکومتی اِدارہ کی اَراضی یا وسائل ’مال مفت دل بے رحم‘ کے طور پر قبضہ نہیں ہونے چاہیءں‘ پاکستان یتیم نہیں اُور نہ ہی ایسا ملک ہے کہ جس کا کوئی ’والی وارث‘ نہ ہو! بااِختیار اِداروں کے انتظامی نگرانوں کو قومی اِداروں کے اثاثوں کی حفاظت ’حب الوطنی‘ کے ساتھ اُسی امانت و دیانت اور خلوص نیت سے ہونی چاہئے جیسا کہ وہ اپنے ذاتی ملکیت والے گھربار کی کرتے ہیں۔

تجاوزات کے خلاف ’کارروائیوں کے موسم‘ میں تصویر کا دُوسرا رخ پشاور کی ’ٹریفک پولیس‘ کی انگڑائی ہے جس نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز کرتے ہوئے چغل پورہ (رنگ روڈ سنگم) سے حیات آباد (کارخانو مارکیٹ) تک 80 غیرقانونی اَڈوں کا خاتمہ کرتے ہوئے دو سو سے زائد افرادکو حراست میں لیا ہے جبکہ متعدد گاڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں ہیں۔ ریلوے کے عزم کی طرح ٹریفک پولیس کی عملی کارروائی خوش آئند اور صدہزار گنا اطمینان بخش ہے‘ جس کا عرصہ دراز سے مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن جن اَفراد کو حراست میں لیا گیا ہے اُن کی اکثریت اڈہ منشی یا ادنیٰ کارکنوں کی ہے۔

 لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ تمام اَفراد جو غیرقانونی اَڈوں کے مالک ہیں‘ اُن تک قانون کا ہاتھ (لمبا ہونے کے باوجود تاحال) نہیں پہنچ سکا اُور یہی وجہ ہے کہ اگرچہ 80 اَڈوں کے خلاف کارروائی مکمل ہو گئی ہے لیکن اِس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ’’یہ اَڈے دوبارہ اِنہی مقامات پر قائم نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ عجب ہے کہ جابجا نوپارکنگ کرنے والوں سے تو رعائت نہیں کی جاتی تو اُن کی گاڑیاں اُٹھانے اور جرمانہ عائد کرنے میں مستعد ٹریفک پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں لیکن غیرقانونی اڈے اور وہ بھی لب سڑک غضبناک آنکھوں سے اُوجھل رہتے ہیں! قانون سب کے ایک ہونا چاہئے بالخصوص ایسے کردار کسی رعائت کے مستحق نہیں جن ٹریفک کے بہاؤ کی راہ میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔

تجویز ہے کہ بجائے پابندی عائد کرنے کے‘ پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے جملہ اڈے ’جنرل بس اسٹینڈ‘ میں منتقل کر کے اُنہیں ’ریگولیٹ‘ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ اَڈوں کے قیام کی اِجازت دینے اور اِن کے ٹھیکوں سے متعلقہ حکومتی اِداروں کو آمدنی بھی حاصل ہو گی اور وہاں مسافروں کی سہولیات کے کم سے کم معیار پر عمل درآمد بھی ممکن ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Flashback

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم!
کچھ سفر کبھی ختم نہیں ہوتے اور وقت کے ساتھ مسافت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کچھ دکھوں پر وقت کا مرہم کام نہیں کرتا اور زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں عزیز از جان لگائے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سفر پر سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے روز سے ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے وکیل ’اجون خان‘ رواں دواں ہیں جنہیں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران فون پر اطلاع ملی کہ ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ ہوا ہے‘ جہاں اُن کا بیٹا ’اسفند خان‘ زیرتعلیم تھا۔ 17 جنوری کے روز اسفند پندرہ سال کا ہونے والا تھا‘ جو ’جماعت دہم‘کا طالبعلم اُور بات کی طرح وکالت کے شعبے سے وابستہ ہونے کا آرزو مند تھا۔ اجون خان تیز قدموں سے روانہ ہوئے اور چونکہ سکول کے راستے بند تھے تو وہ چلتے ہوئے اُس چوراہے تک جا پہنچے جہاں سے سکول کی چاردیواری تو نظر آ رہی تھی لیکن گولیوں کی گرج اور بچوں کی حفاظت کے حوالے سے والدین کی ہر لمحہ بڑھتی ہوئی پریشانی و تشویش دور کرنے والا کوئی ذمہ دار موجود نہیں تھا۔ سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت میں اِس قسم کے غیرمعمولی حالات میں صرف یہی بات شامل ہوتی ہے کہ کسی کو پاس آنے نہیں دینا‘ اُن کے چہروں پر جذبات نہیں ہوتے۔ وہ مستعد‘ چوکنا اور غصے سے بھرے ہوتے ہیں اور اگر یہ سب متاثرکن ہوتا‘ تو پھر سانحے رونما ہی کیوں ہوتے۔ بہرکیف والدین کو بتایا جارہا تھا کہ وہ ’کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی اَیم اِیچ)‘ سے رجوع کریں۔ ہائی کورٹ سے ورسک روڈ اور وہاں سے براستہ فورٹ روڈ سی ایم ایچ پہنچنے پر زخمیوں میں بیٹے کو نہ پا کر والد کے قدم قطار میں رکھی لاشوں کی بڑھے تو وہ لرز رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک چہرے پر نظر کرتے وہ اُس مقام پر رک گیا‘ جہاں اُس کے بیٹے کا چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ اُس کے ماتھے میں گولی کا نشان‘ شہادت کا سبب بنا تھا۔ باپ نے یونیفارم پر لگے خون کے دھبے یوں صاف کرنے کی کوشش کی‘ جیسے وہ اِس سے جی اُٹھے گا۔ اسفند کا ایک ہاتھ اُس کی جیب میں تھا‘ آخری لمحے وہ موبائل فون سے اطلاع کرنا چاہتا ہوگا۔ اسفند کے ایک دوست علی کے بقول ’’جب آڈیٹوریم سے چند بچے باہر کی طرف بھاگے تو اُنہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا‘ جن میں اسفند بھی شامل تھا!‘‘

سانحۂ پشاور کے کربناک 36ویں دن‘ اِیصال ثواب کی خصوصی محفل کا انعقاد اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے‘ جس سے متاثرین کو بڑی تسلی ہوئی لیکن وہ تشفی چاہتے ہیں۔ اجون خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’اگر تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات میں ملحقہ آبادی کی مشاورت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ گردونواح کے راستوں اور آبادی کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔‘‘ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کچھ بھی محفوظ نہیں وہاں درپیش مسئلہ تعلیمی اداروں کے خاطرخواہ حفاظتی انتظامات کا ہے‘ جس کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی البتہ سیکورٹی کے ضوابط پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معمول سے کچھ ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔

نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے 7 نکاتی مؤقف سامنے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد تعلیمی اداروں سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور کم وبیش ایک کروڑ بچے نجی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ چار ہفتوں کی بندش سے بچوں کی پڑھائی اور بروقت نصاب کی تکمیل کو نقصان پہنچا ہے۔ 2: ادارے کھلتے ہی تعلیمی اوقات میں پولیس اہلکاروں کا سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے آمد سے تعلیمی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ 3: واک تھرو گیٹس‘ سی سی ٹی وی کیمرے‘ چار دیواری بلند کرنا‘ خاردار تاریں لگانے کے ساتھ مسلح گارڈز رکھنا محدود وسائل میں رہتے ہوئے تمام اداروں کے لئے کلی طورپر ممکن نہیں۔ 4: نامساعد حالات علم کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ماہرین تعلیم کے ساتھ پولیس اہلکاروں کا (مبینہ طور پر) ہتک آمیز سلوک قابل قبول نہیں۔ 5: سیکورٹی خدشات کی بناء پر نجی سکولوں کو زبردستی بندکرانے سے ایک کروڑ بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔6: نجی تعلیمی اداروں کو سیکورٹی انتظامات کے نام پر ہراساں کرنے کی بجائے سرکاری تعلیمی اداروں کی سکیورٹی پر بھی توجہ دی جائے۔ 7: حفاظتی انتظامات کے لئے نجی تعلیمی اداروں کو مفت اور فوری طور پر اسلحہ لائسینس جاری کئے جائیں۔‘‘ گویا نجی تعلیمی ادارے چاہتے ہیں کہ اُنہیں سیکورٹی کے کم سے کم بندوبست کرنے پر مجبور نہ کیاجائے اور جس طرح پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار ہے‘ اسی طرح نرمی کا معاملہ اُن سے بھی روا رکھا جائے۔

سب رعائت چاہتے ہیں۔ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے‘ جس میں سرمایہ کاری کا پھل بناء صبر ہی میٹھا ملتا ہے!

وقت ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے مفاد کے حصار سے باہر کی دنیا کو دیکھیں۔ تعلیم کے نام پر بچوں کو ’موت کے کنویں‘ میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ اداروں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا۔ قواعد اطلاق چاہتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے بڑے بڑے فیصلوں کی صورت بڑی بڑی غلطیوں کی سزا بھگتنے والے والدین اور سانحۂ پشاور کے متاثرین کی آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوئیں۔ اُن کے دل رو رہے ہیں۔ گھروں میں اُداسیوں کے ڈیرے اور درودیوار رو رہے ہیں۔ ہچکیاں سسکیاں اور ضبط و صبر کی تلقین کرنے والے بھی رو رہے ہیں۔ کاش وہ ایک دن گزر جائے‘ کاش ہم اُس ایک دن کی اوٹ سے پراُمید‘ روشن مستقبل کو دل کی آنکھوں سے دیکھ سکیں! ’’در منزل پہ ہوتا ہے سفر ختم: مگر ہوتی کہاں ہے رہگزر ختم۔۔۔بجھا جب دل ہوا‘ بے رنگ منظر: ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم! (حلیم صابر)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: ClockTower Enchrochments

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: تاریخ‘ عزائم اُور کارروائیاں
اندرون پشاور کے تجارتی ورہائشی علاقے سے متصل ’گھنٹہ گھر بازار‘ میں تجاوزات ختم کرنے کے لئے سولہ جنوری کی رات ہوئی کارروائی اُس وقت خطرناک و افسوسناک صورت اِختیار کرگئی‘ جب اِس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے والے دکانداروں میں سے دو زخمی اور ہنگامہ آرائی کا تماشہ کرنے والے تین افراد ایک گاڑی (شاول) کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے‘ قابل ذکر ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں کوئی دکاندار یا تاجر شامل نہیں بلکہ وہ مزدور شامل ہیں جو دن بھر کی مشقت کے بعد سرشام ہی گھنٹہ بازار جمع ہو جاتے ہیں جہاں اُنہیں دو مختلف تندروں سے روٹیاں اور قریبی ہوٹلوں سے کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جاتا ہے۔ پشاور کے کاروباری طبقے کا معمول ہے‘ وہ دن کے اِختتام پر تندروں کو صدقہ و خیرات کے طور پر کچھ نہ کچھ رقم دے جاتے ہیں جس کے تناسب سے بعدازاں وہاں منتظر مردوخواتین میں روٹیاں تقسیم کردی جاتی ہیں۔ جمعہ کی رات جب میونسپل حکام‘ ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ’گھنٹہ گھر بازار‘ پہنچے تو اُن کااستقبال حسب توقع پتھراؤ اور تلخ جملوں (نعرے بازی) سے کیا گیا۔

تجاوزات کے خلاف جب بھی کسی بازار میں کارروائی ہوتی ہے‘ اِسی قسم کے ردعمل کا اِظہار ہوتا ہے۔ پشاور میں بمشکل ایسا کوئی تاجر یا دکاندار ملے گا‘ جو بہ رضاورغبت تجاوزات ختم کرے اور یہی سبب ہے کہ ہر برس تجاوزات کے خلاف مہم آغاز ہوتے ہی یہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ سردست کئی ایک سوالات اُٹھے ہیں‘ جن کے جوابات دیتے ہوئے میونسپل حکام نے اہل پشاور سے درخواست کی ہے کہ ۔۔۔’’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کی حمایت و مکمل ہونے کا مطالبہ کریں اور کسی بھی صورت ذاتی مفادات کے لئے پشاور کو مسائل کی آماجگاہ بنانے والوں سے رعائت نہ کریں۔‘‘ انتظامیہ کے بقول یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز گھنٹہ گھر بازار سے کیا گیا لیکن یہ بات درست ہے کہ اگر گھنٹہ گھر بازار کو پختہ تجاوزات اور تہہ بازاری و ہتھ ریڑھیوں سے صاف کر دیا جاتا ہے تو اس سے شہر و مضافاتی علاقوں کے دیگر کاروباری بازاروں کو مثبت پیغام جائے گا اور پشاور کی تاریخ میں ایسی میونسپل اتھارٹی نہیں آئی‘ جس نے تجاوزات کے خلاف یوں ’فیصلہ کن مہم‘ کا آغاز ’بھرپور طاقت‘ سے کیا ہو۔ ماضی میں ایک مرتبہ جب گھنٹہ گھر کے اردگرد تجاوزات ختم کی گئیں تو اُس وقت کے چیمبر کے صدر نے اپنے والد وزیربلدیات کے ذریعے دباؤ ڈال کر مسمار کی جانے والی دکانیں پھر سے تعمیر کرکے دی تھیں۔ پشاور کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب تجاوزات مسمار کرنے والے خود تجاوزات تعمیر کر رہے تھے!

گھنٹہ گھر کے ساتھ پشاور کی کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاہ چادروں میں خود کو ڈھانپے پشاور میں مقیم یہودی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھانے پینے کی اشیاء اور پھول فروخت کیا کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں سے یہودی خاندانوں نے پہلے افغانستان اور بعدازاں اسرائیل نقل مکانی کر لی‘ اُن کی عبادت گاہ (سلیمان کی سرائے) مسلم مینا بازار بہ طرف گھنٹہ گھر اور رہائش گاہیں محلہ خویشگی میں اب بھی موجود ہیں تاہم اُن کی جگہ تجارتی مراکز اور رہائشگاہیں تعمیر ہو گئیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دیگر اَقلیتوں کی طرح ’پشاور کے مذہبی گلدستے‘ میں یہودی بھی شامل ہوتے اُور دیگر مذاہب کی طرح وہ بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی عبادات کر سکتے۔

یاد رہے کہ ’گھنٹہ گھر‘ کا سرکاری نام ’’کننگھم کلاک ٹاور‘‘ ہے اور اِس کی تعمیر برطانوی راج کے دوران ملکۂ برطانیہ ایلگزینڈرینا ویکٹوریا (Alexandrina Victoria) کی ’ڈیمانڈ جوبلی تقریبات‘ کے سلسلے میں کی گئی اور اِس مینارنما گھنٹہ گھر کو برطانوی راج کے گورنر اور پولیٹیکل ایجنٹ ’سر جارج کننگھم (Sir. George Cunningham)‘ کے نام نامی سے منسوب کر دیا گیا۔ میونسپل انجنیئر جیمز سٹارچن (James Strachan) کے ڈیزائن کردہ گھنٹہ گھر کا سنگ بنیاد 1898ء میں گورنر جارج کننگھم نے رکھا تھا‘ جس کی تعمیر 1900ء میں مکمل ہوئی۔ 31 انچ گولائی میں گھنٹہ گھر کی بنیاد 13x4 میٹر (43فٹ و 13فٹ)تھی جبکہ 26 میٹر (85فٹ) بلند ہے اور اسی تعمیر کی مناسبت سے اِس چوک کو ’گھنٹہ گھر‘ بازار کہا جانے لگا جو چوک یادگار‘ بازار کلاں اور کریم پورہ کے سنگم پر بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِس اہم تجارتی مرکز میں کاروباری سرگرمیاں دکانوں کی بجائے سڑک پر ہونے لگیں۔ یوں پشاور سے ’فٹ پاتھ‘ کا تصور ختم ہوتا چلا گیا‘ ہر دکاندار اِس بات کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دکان کے آگے کی جگہ چاہے تو خود جیسا چاہے استعمال کرے یا تہہ بازاری پر دے۔

 گھنٹہ گھر بازار میں دکاندار محض تہہ بازاری کی مد میں یومیہ پانچ سے ایک ہزار روپے کماتے ہیں اوریہی تہہ بازاری قصہ خوانی‘ مسگراں یا خیبربازار و ملحقہ مصروف تجارتی مراکز میں پانچ ہزار روپے یومیہ تک بھی ہے تو جب پشاور کی بجائے ذاتی مفادات عزیز رکھنے والے طبقات کی اکثریت ہو تو بہتری کی توقع کرنے والوں کا انتظار لامحالہ طویل ہو جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر بازار میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے چند ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اور جن کے بارے توجہ اِس معاملے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

’’تجاوزت کے خلاف کارروائی رات کی تاریکی میں کیوں کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر بازار میں اگر دن کے وقت آپریشن کیا جاتا تو اس سے ملحقہ بازار اور رہائشی علاقوں کے رہنے والوں کو آمدروفت اور بالخصوص طلباء و طالبات اور ملازمت پیشہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ’’کارروائی میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: دکانداروں کو ایک ماہ قبل مطلع کیا گیا‘ اُنہیں ایک ہفتہ قبل بھی آگاہ کردیا گیا تھا لیکن جب کارروائی کے لئے انتظامیہ پہنچی تو وہ تیاری کئے ہوئے تھے اور انہوں نے میونسپل حکام کا استقبال پتھروں سے کیا۔ جس کے جواب میں ہوائی فائرنگ کی گئی تاکہ وہ منتشر ہوسکیں لیکن ہلاکتیں شاول کے ڈرائیور کی غلطی سے ہوئیں‘ طاقت کے استعمال سے نہیں۔ ’’آپریشن کے دوران بجلی کی فراہمی کیوں معطل کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات پختہ ہیں اور ان میں سے کئی ایک بجلی کے کنکشن بھی لگے ہوئے ہیں‘ کسی حادثے اور جانی نقصان سے بچنے کے لئے بجلی منقطع کی گئی جو احتیاطی تدبیر تھی۔ ’’تاجروں کا احتجاج نظرانداز کیوں کیا گیا؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکانداروں کا احتجاج منطقی ضرور تھا لیکن اس کا قانونی جواز نہیں بنتا۔

تجاوزات چاہے عشروں سے قائم ہوں یا برسوں سے وہ قانونی نہیں ہو سکتیں۔’’ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکاندار احتجاج کرتے ہوئے سڑک پر لیٹ گئے۔ اندھیرا ہونے کے باعث شاول ڈرائیور کو زمین پر لیٹے ہوئے دکاندار نظر نہیں آئے اور یہی وہ لوگ تھے جو شاول کی زد میں آکر ہلاک یا زخمی ہوئے۔’’دکانداروں کا احتجاج کیوں نظرانداز کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات کے خلاف کارروائی سے کئی ہفتوں قبل گھنٹہ گھر سمیت مختلف دکانداروں اور تاجر تنظیموں کو بارہا تاکید کی گئی کہ وہ ازخود تجاوزات ختم کریں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تاجر یہی چاہتے ہیں کہ وہ بازاروں پر قابض رہیں اور کوئی اُن سے بازپرس کرنے والا نہ ہو۔’’کیا تجاوزات کے خلاف کارروائی ختم کر دی گئی ہے؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر واقعہ کے بعد سیکرٹری داخلہ (ہوم) اختر علی شاہ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے نگران سپیشل سیکرٹری (ہوم) سراج خان ہیں۔ جب تک اُن کی جانب سے تحقیقات سامنے نہیں آ جاتیں‘ کارروائی معطل رہے گی۔ پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور اِس مقصد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015:Charlie Hebdo

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تقاضائے عشق
اِنسانیت کے نام نہاد اِحترام اور برداشت کی تلقین کرنے والے مغربی مفکرین‘ دانشور اُور حکمراں خاموش ہیں‘ کیونکہ ایک مرتبہ پھر مسلم اُمہ کو اشتعال دلانے کی جرأت کی گئی ہے! بالخصوص فرانس کے حکام کی جانب سے تمام ادیان منجملہ اسلام کا احترام کرنے کے دعوؤں کے باوجود اسلام کے خلاف ہفت روزہ جریدے ’چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo)‘ کی جانب سے توہین آمیز خاکوں اور ہتک آمیز جملوں پر مشتمل مواد کی اشاعت مغربی معاشروں کے قول و فعل کی تضادات پر مبنی روئیوں کے عکاس ہیں‘ جو عدم برداشت‘ انتہاء پسندی اور دہشت گردی ہی کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیءں۔ فرانسیسی جریدے نے گذشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُسے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں!

دوسری جانب فرانس سمیت اٹھائیس یورپی ممالک (آسٹریا‘ بیلجیئم‘ بلغاریہ‘ کروشیا‘ سائپرس‘ چیک ری پبلک‘ ڈنمارک‘ ایسٹونیا‘ فِین لینڈ‘ جرمنی‘ گریس‘ ہنگری‘ آئرلینڈ‘ اٹلی‘ لیتھونیا‘ لیگزمبرگ‘ مالٹا‘ ہالینڈ‘ پولینڈ‘ پرتگال‘ رومانیہ‘ سلواکیا‘ سلوانیا‘ سپین‘ سوئیڈن اور برطانیہ) کی حکومتوں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔

شرمناک ہے کہ فرانس کی حکومت نے آزادئ اظہار کے بہانے ایک جریدے کو توہین آمیز خاکے شائع کرنے کی اجازت دی جس سے یہ سوال سامنے آیا ہے کہ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل توہین‘ اسلام کے پیروکاروں کے حقوق کا احترام ہے؟ کیا اس قسم کے توہین آمیز اقدامات سے دنیا کے ڈیڑہ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوئی؟ اور کیا یہ اخلاقیات اور صحافت کے پیشے کے اصول و ضوابط کے خلاف نہیں ہے؟ کیا آزادی کا اظہار ایک نامحدود امر ہے اور اس بہانے سے ہر بات کرنے حتیٰ کہ کسی بزرگ ترین ہستی کے توہین آمیز خاکے تک شائع کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟

اس پورے معاملے میں ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے کہ اس واقعہ میں چار یہودی بھی مارے گئے کہ جن لاشیں پیرس سے اسرائیل لے جائی گئیں اور انہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ظالم‘ ناجائز اور کینہ پرور اسرائیل نے اس واقعہ سے خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اس دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف پیرس میں ہونے والی ریلی میں شرکت کی کہ جس میں بہت سے یورپی ملکوں کے سربراہوں اور نمائندے بھی تھے۔ نیتن یاہو نے ایک ایسے وقت میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی اس ریلی میں شرکت کی کہ جب وہ اور ان کی ناجائز صیہونی حکومت دنیا میں سب سے بڑے دہشت گرد شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وہ پیرس کے واقعہ سے غلط فائدہ اٹھا کر خود کو بھی مظلوم اور دہشت گردی کا شکار ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ فرانس نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر اسرائیل اور امریکہ نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان دونوں ملکوں نے اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے پیرس میں یہ کارروائی کروا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہو؟ ایک تو یہ کہ فرانس کو اس کے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نائن الیون کی طرح اس واقعہ کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کو مزید تیز کیا جائے۔

توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ ’’تقاضائے عشق و محبت یہی ہے: تیرے نام سے انتہاء چاہتا ہوں۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ فرانس کے ایک جریدے کی گستاخی قابل مذمت اور دور جدید کی (ماڈرن) جاہلیت کا نمونہ ہے۔ ایسے پیغمبر (ﷺ)کے توہین آمیز خاکے بنانا جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کی صلاحیتوں میں نکھار لا کر رشدوکمال کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے بھیجا تھا‘ جاہلیت نہیں تو کیا ہے۔ وہ جو مغرب کی تہذیب و زبان اور طورطریقوں سے متاثر ہیں اُنہیں سوچنا چاہئے کہ اس طرح کے قبیح اور شرمناک اقدامات مغرب کے انسانیت سے دور ہونے کی نشانی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اگر اِذن خدا سے مردوں کو زندہ کرتے تھے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اخلاق کو زندہ کرنا تھا‘ لہٰذا کسی بھی معاشرے میں ایک کریم انسان اور کریم افراد توہین آمیز اقدامات کے مرتکب نہیں ہوتے جن کا مشاہدہ ہم آج مغرب میں کر رہے ہیں۔

مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اب ایک ایسی جنگ چھیڑ رکھی ہے کہ جس میں وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا کر‘ فرقہ واریت کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے ہیں‘ اس مسلط کردہ جنگ میں ان کا پیسہ اور اسلحہ استعمال ہو رہا ہے لیکن ان کا لشکر گمراہ مسلمانوں اور انتہاء پسند گروہوں پر مشتمل ہے جبکہ تختۂ ستم بھی مسلمان ممالک ہیں۔ یہ ایک ایسی خطرناک حکمت عملی ہے کہ جس کے ذریعے سامراج کم ترین خرچ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس سامراجی سازش کو سمجھا جائے اور غم و غصے کی کیفیت میں اپنے ہی آپ کو جانی و مالی نقصانات پہنچانے کی بجائے مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جو ممالک توہین آمیز خاکوں کی تائید کررہے ہیں وہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں اور یہ سب مسلمانوں کی دل آزاری کے مرتکب ہوئے ہیں‘ اِس سازش اور فعل کو حکمت و تدبر اور اتحاد سے ناکام بنانے کے ساتھ ذات رسالت مآب سے تجدید عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دنیاوی نمودونمائش‘ آسائشیں اور کاروباری مفادات قربان کریں گے۔

یورپی ممالک کے مالیاتی اداروں اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کو ’غیرت‘ کا ثبوت دینا چاہئے۔ جب پوری دنیا مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے لئے متحد ہے تو اُمت مسلمہ کیوں نہیں؟ ’’جو ہو نہ عشق مصطفی(ﷺ) تو ۔۔۔ زندگی فضول ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Cyber Security

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سائبر سیکورٹی: داخلی و خارجی تناظر
عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کے داخلی محاذ پر جاری جنگ کسی قبائلی یا سرحدی علاقے تک محدود نہیں اور اس بات کا ذکر سولہ جنوری کو برطانیہ میں پاک فوج کے ترجمان کی بریفنگ میں بھی کیا گیا کہ ’’خاص اہداف کے خلاف کارروائیاں ملک بھر میں ہو رہی ہیں۔‘‘ تاہم ’سائبر سیکورٹی (انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات)‘ کے حوالے سے تفصیلات کا ذکر نہیں کیا‘ جو ہتھیاروں‘ بارود اور خودکش حملوں کی طرح توجہ طلب ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گرد کا تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک مسلح دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ موبائل فون یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کا استعمال کرنے والے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک کی حساس معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

المیہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردوں کے بارے میں یہی تاثر عام ہے کہ وہ غاروں میں رہتے ہیں اور اُنہیں ٹیکنالوجی یا جدید ایجادات کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن حقیقت اِس کے برعکس اور سنجیدہ نوعیت کی ہے۔ دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے لیکر دھمکی آمیز پیغامات تک ہر روز ایک ہی اِی میل اُور ایک ہی ٹوئٹر اکاونٹ کا استعمال کرنے والے مختلف آئی پیز (پراکسیز) کا استعمال کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ موبائل فون کے غیررجسٹرڈشدہ کنکشنز ہیں۔ جس ملک میں دس کروڑ سے زائد موبائل فون کنکشن استعمال کرنے والوں کے کوائف ہی مشکوک ہوں وہاں کی ’سائبر سیکورٹی‘ کیونکر اور کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے! دفاع و دیگر حساس نوعیت کے معاملات سے متعلق تبادلۂ خیال (الیکٹرانک خط و کتابت چیٹنگ)‘ معیشت‘ اِقتصادیات‘ بینکاری‘ کاروباری‘ حصص منڈیاں الغرض صحت و تعلیم سمیت جملہ معاملات زندگی میں منصوبہ سازی سے عمل درآمد تک اِنٹرنیٹ کے وسائل پر انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے اُور پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں قواعد و ضوابط تو موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد کرانے میں حکومتی اداروں کی ساکھ متاثر کن نہیں‘ سائبر سیکورٹی ممکن بنانے کے لئے سب سے پہلا اقدام صرف اُنہیں ’موبائل فونز‘ پر انٹرنیٹ (ٹو‘ تھری یا فور جی) کی سہولت مہیا کی جائے‘ جن کے کوائف تصدیق شدہ اور پوسٹ پیڈ (ماہانہ بل والے فون کنکشن) ہوں۔ سائبر سیکورٹی کے حوالے سے انٹرنیٹ گھر‘ دفتر‘ دکان‘ تعلیمی ادارے یا کہیں بھی استعمال کرنے والے صارفین بھی خبردار رہیں کیونکہ دہشت گرد اُن کا انٹرنیٹ کنکشن استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ’وائی فائی (WIFI)‘ انٹرنیٹ والوں کو ہے‘ جو عموماً پاس ورڈ ہفتوں مہینوں تبدیل نہیں کرتے یا پھر کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ (ڈیفالٹ) پاس ورڈ (password) ہی استعمال کرتے ہیں۔ محفوظ اور مشکل سے تلاش کیا جانے والا پاس ورڈ وہ ہوسکتا ہے جو ایلفا نومیرک (الفاظ اور ہندسوں) پر مشتمل ہو۔

انٹرنیٹ کی سہولت بظاہر معمولی سی لگتی ہے لیکن اس کے ذریعے نہ صرف خطرناک منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے بلکہ منصوبہ بندی کو عملی جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کو درپیش کئی ایک خطرات کے پیش نظر‘ امریکی صدر براک اوباما اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے باہمی تعاون کو تقویت دینے کا عہد کیا ہے‘ جس میں سائبر سکیورٹی شامل ہے۔ دونوں سربراہان نے وائٹ ہاؤس میں مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ فوری نوعیت کے اور بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’باہمی تعاون کو فروغ دینے کا مقصد ہمارے زیریں ڈھانچے کو محفوظ بنانا‘ ہمارے کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنا اور امریکی و برطانوی باشندوں کی ’پرائیویسی میں مداخلت (نجی زندگی میں مداخلت کے امکانات ختم کرنے)‘ کے لئے عملی اقدامات شامل ہیں۔

دو عالمی طاقتیں امریکہ اور برطانیہ کے سربراہوں کے سرجوڑ کر بیٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ چوبیس نومبر کو ’سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ‘ پر تباہ کن حملوں اور اس ہفتے ’امریکی سنٹرل کمانڈ‘ کے سماجی میڈیا اکاؤنٹس ہیک کئے گئے۔ یاد رہے کہ محکمۂ دفاع کی سنٹرل کمانڈ کے جو اکاونٹ ہیک کئے گئے وہ سماجی رابطہ کاری کے اکاؤنٹس تھے جن کے ذریعے امریکی قیادت عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری فضائی حملوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ سائبر سیکورٹی پر بات چیت کے علاؤہ امریکہ و برطانیہ کی سیاسی قیادت کے درمیان جمہوری اسلامی ایران کا جوہری پروگرام بھی زیربحث رہا جس کے بارے میں دونوں ممالک ’یقینی طور پر اس غلط فہمی‘ کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیں گے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق‘ توقع ہے کہ دونوں عالمی سربراہان مشترکہ ’سائبر وار گیمز‘ کے بارے میں اپنے پروگرام کا اعلان کریں گے‘ جن کا آغاز رواں سال کے آخر میں بینکوں پر علامتی حملے کے مظاہرے سے ہوگا۔ برطانیہ نے امریکہ سے باضابطہ درخواست کر رکھی ہے کہ وہ گوگل (Google) اور فیس بک (Facebook) جیسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے کہیں کہ وہ حکومتوں کو یہ اجازت دیں کہ وہ کسی بھی صارف کی ’انکرپٹڈ‘ سرگرمیوں (مواصلات‘ بات چیت‘ تصاویر اور پیغامات کے علاؤہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے رجحان سے متعلق) تاک جھانک کرسکیں۔

 امریکی قومی سلامتی کے ادارے (این ایس اے) سے متعلق انکشافات پر سامنے آنے والے وسیع تر عوامی احتجاج کے تناظر میں یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے‘ جس ادارے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس نے لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون ریکارڈ پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں ’سائبر سیکورٹی‘ کے حوالے سے اِس قدر تشویش پائی جاتی ہے تو ہمارے رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہی سہی اپنے ہاں ’سائبر وسائل (ٹیکنالوجی)‘ کے محفوظ استعمال کو ممکن بنانے کے لئے کم از کم موجود قواعد پر عمل درآمد ہی ممکن بنائیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکورٹی کے لئے اشد ضروری ہے بلکہ اگر خدانخواستہ پاکستان کی سرزمین سے کسی یورپی و امریکی حکومتی یا نجی ادارے پر سائبر حملہ ہوا‘ تو اس سے ہماری ساکھ مزید خراب ہوگی یقیناًہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کے لئے ’سائبر مجرموں کی پناہ گاہ‘ جیسے منفی القابات استعمال ہوتا دیکھے! ہمیں اپنی اور دوسروں کی ’سائبر سکیورٹی‘ کے حوالے سے سوچنا ہوگا لیکن کل سے نہیں بلکہ آج اور ابھی سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: Special Persons

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
افراد باہم معذور
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر دسواں پاکستانی بصارت سے محروم ہے؟ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آنکھوں کی بینائی نہ رکھنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے کہ جسمانی لحاظ سے کمزوریوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے خصوصی افراد کی تعداد 15 فیصد ہے‘ اِس میں صرف پیدائشی معذور ہی شامل نہیں بلکہ قدرتی آفات‘ حادثات اور دہشت گردی کے باعث بڑی تعداد متاثرین غیرمعمولی اور غیرمساعد حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جن کے بارے میں فیصلہ سازوں کی توجہ اور ترجیحات کا احوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک قانون زیربحث ہے اور دیگر سیاسی الجھنوں کی وجہ سے انتہائی ضروری قانون سازی کا عمل رکا ہوا ہے! خصوصی اَفراد کے لئے عمومی سماجی روئیوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عمومی طور پر ’خصوصی افراد‘ کے لئے ’معذور افراد‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس پر اِن حساس طبعیت رکھنے والوں کو صرف اعتراض ہی نہیں بلکہ دکھ ہے اور وہ ہم سب سے دو بنیادی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ 1: اُنہیں ’افراد باہم معذور‘ کہا جائے یعنی معاشرہ اُنہیں پہلے ’معذور‘ پکارنے کی بجائے ایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کرے اور 2: ترس کھا کر نہیں بلکہ انہیں پاکستانی سمجھ کر دیگر افراد کی طرح ’مساوی و جائز‘ مقام دیا جائے۔ معاشرے میں اِن افراد کے لئے پائی جانے والی سوچ درست نہیں کہ وہ بوجھ ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو تندرست و توانا اَفراد کے مقابلے زیادہ جدوجہد اور عملی زندگی میں کچھ کر گزرنے کی لگن انہی میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ ہار نہ ماننے والے نفوس ترس کے نہیں بلکہ ’توجہ کے مستحق‘ ہیں۔ عالمی سطح پر ’افراد باہم معذور‘ خاص مقام رکھتے ہیں اور اُنہیں دیگر افراد کی نسبت زیادہ سہولیات و مراعات دی جاتی ہیں۔ اُن کے لئے پارکنگ الگ سے مخصوص ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں ان کی آمدورفت کو ذہن رکھتے ہوئے تعمیرات کی جاتی ہیں۔ علاج گاہوں کی تو بات ہی الگ ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِن خصوصی افراد کی قدر تو کیا اِن سے معاملہ کرتے ہوئے اخلاقیات تک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پچیس نابینا طلباء و طالبات کے لئے چار ہفتوں پر مشتمل ’خصوصی کمپیوٹر اور اعتماد سازی کورس‘ کا آغاز سولہ دسمبر کے روز ایبٹ آباد میں ایک سادہ سی تقریب سے ہوا۔ جس کے لئے جملہ اخراجات مخیر حضرات اور خصوصی و روائتی تعلیم کے نجی اداروں نے برداشت کئے حالانکہ یہ ذمہ داری سراسر متعلقہ حکومتی اداروں کی تھی‘ جنہیں شاید خبر بھی نہیں ہوگی کہ ’چناروں کے سائے‘ میں ہونے والی ایک تقریب میں پورے صوبے سے نابینا افراد جمع ہیں‘ جن کا سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات اُن کا سرکاری طورپر استقبال تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا ’خود پر یقین‘ رکھنے والے یہ افراد معذور نہیں بلکہ ’پورا معاشرہ‘ معذور ہے‘ جسے ایسے باہمت و باحوصلہ اَفراد کی خاطرخواہ قدر نہیں!

انفارمیشن ٹیکنالوجی (کمپیوٹرز و اِنٹرنیٹ) کے اِستعمال سے خصوصی اَفراد معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح فعال کردار اَدا کرسکتے ہیں اُور اِسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہری پور کے ایک ادارے ’ایم پاور (EmPower)‘ جس کے سربراہ بابر شہزار اور اُن کی اہلیہ ثناء اقبال خود بھی نابینا ہیں اور بھارت سے حال ہی میں خصوصی اَفراد کے لئے ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے ہیں‘ جہاں جرمن حکومت کی جانب سے تکنیکی مہارت کے موقع سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا اور وطن واپس لوٹ کر دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ’اپنی مدد آپ کے تحت‘ ایک تربیتی کورس کا انتظام کیا۔ کیا آپ بصارت رکھنے والے ایسے کسی فرد کا نام جانتے ہیں‘ جس نے بیرون ملک تربیت حاصل کی ہو اور وطن واپس لوٹ کر اپنی مدد آپ کے تحت علم و حکمت کے موتی بکھیرے ہوں؟ تلخ حقیقت ہے کہ جہاں حکومت کے وسائل پر نعمتوں سے مالا مال ناشکرے قابض ہیں‘ وہیں ’افراد باہم خصوصی‘ دوسروں سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اپنی ہی دنیا میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی تعریف کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی (وائس پرنسپل ایوب میڈیکل کالج) نے خصوصی افراد کی محنت و لگن کو ’مشعل راہ‘ قرار دیا۔ پروفیسر شمس‘ ثاقب اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن آصف خان جدون نے بھی اپنی اپنی تقاریر میں خصوصی افراد کے جذبے اور ہمت کو خراج تحسین پیش کیا۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو معذور افراد کو حسب اعلانات و قواعد (کوٹے) کے تحت ملازمتیں دی جاتی ہیں اور نہ ہی ہمارا گردوپیش ایسا ہے جو خصوصی افراد کے موافق ہو۔ سفید چھڑی کی قدر و اہمیت سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے‘ مصروف شاہراہوں کو عبور کرنے یا دفاتر میں روزمرہ کے کام کاج کے سلسلے میں رجوع کرنے والے خصوصی اَفراد کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُس کا مفصل بیان ممکن نہیں۔ وقت نے ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کی اِس یقین دہانی کو محفوظ کر لیا ہے کہ ’’وہ خصوصی افراد کے لئے قانون سازی کے مراحل تیز کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: The Count

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تیس دن
اِٹلی کے معروف شاعر‘ ناول نگار اور عملی‘ اَدبی حلقوں میں مترجم کے طور پر معتبر صاحب فکر ’سیّازارے پاوّیسہ (Cesare Pavese)‘ کا قول ہے کہ ’’ہمیں اَیام یاد نہیں رہتے‘ ہمارے حافظوں میں لمحے محفوظ رہ جاتے ہیں۔‘‘ اِس دانشمندانہ قول کی حقیقت دیکھئے کہ سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ کا دُکھ اور وہ کربناک لمحات نہ تو یادوں سے محو ہو سکے ہیں اُور نہ ہی طفل تسلیوں اور جھانسوں سے انہیں تحلیل کیا جاسکتا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ایک ماہ (720 گھنٹے‘ 43ہزار 200 منٹ‘ 4 ہفتے 2 دن یا 25 لاکھ 92 ہزار سیکنڈز) میں ایسے کون کون سے حفاظتی اِنتظامات کئے گئے ہیں‘ جن پر اِطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ سانحۂ پشاور اور ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ایک ایسا موضوع ہے جو توجہ چاہتا ہے کیونکہ اِس دوران الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں ہونے والی رپورٹنگ کا معیار اپنی جگہ تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے اور فکر کا تیسرا پہلو اُن متاثرہ خاندانوں کے جذبات‘ اِحساسات‘ تحفظات اور تاثرات ہیں‘ جنہیں ’شہدأ فورم‘ کے نام سے ایک ایسا ’پلیٹ فارم‘ بنانے کی ضرورت پڑی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق یعنی تعلیمی اداروں کے معاملات کے حوالے سے مطالبات منوا سکیں یقیناًحقوق بخوشی دیئے نہیں جاتے بلکہ انہیں حاصل کرنا بلکہ بہت سے مواقعوں پر چھیننا بھی پڑتا ہیں اور یہی بات ایک خاص نجی سکول سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھ آ گئی ہے۔ اِس سے قبل والدین صرف یہی سمجھتے تھے کہ اُن کی ذمہ داری ماہانہ فیسوں اور سکولوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً غیرمستقل دیگر اَخراجات کی اَدائیگی تک محدود ہے۔ آنے والے دنوں میں والدین کو زیادہ اہم‘ زیادہ بڑا اور زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اِس مرحلۂ فکر پر صرف بچوں کے تعلیمی مستقبل ہی کا نہیں بلکہ درپیش مشکلات میں اُن کی زندگیوں کو لاحق خطرات بھی فہم و شعور سے کام لیتے ہوئے تفکر و تدبر کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ماضی میں والدین کی جانب سے خود کو باریکیوں سے الگ رکھنے کے ’طرز عمل‘ کی وجہ سے شعبۂ تعلیم ایک صنعت‘ بن گیا ہے۔ لمحۂ فکریہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ ہمارے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی کا معیار اِس حد تک گر چکا ہے کہ پہلے بعداز سکول ٹیوشن کی ضرورت صرف سرکاری اداروں میں زیرتعلیم طالبعلموں کو پیش آتی تھی‘ جسے عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اب ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کرنے والے نجی اداروں کے طالبعلم بھی عصر سے مغرب اور دیر رات گئے تک ٹیوشن سنٹروں میں الجھے رہتے ہیں! دنیا کا دوسرا کونسا ایسا ملک ہے جہاں کے بچوں سے اُن کا بچپن یوں تعلیم کے نام پر چھین لیا گیا ہو؟ کون پوچھے گا کہ تعلیمی اداروں میں چھ سے آٹھ گھنٹے گزارنے کے باوجود طالب علموں کو اُن نجی ’ٹیوشن سنٹروں‘سے اِستفادہ کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے‘ جنہیں ماہر و تجربہ کار کہلانے والے اساتذہ ’سائیڈ بزنس‘ کے طور پر چلا رہے ہوتے ہیں؟ کہیں اَیسا تو نہیں معزز ڈاکٹروں کی طرح اساتذہ کرام نے بھی اپنی مہارت و تجربے سے ’پورا پورا‘ فائدہ اُٹھانے کو ’حلال‘ سمجھ لیا ہے؟

چودہ دسمبر کے روز متاثرین ’سانحۂ پشاور‘ نے ’شہدأ فورم‘ کے نام سے جس جدوجہد کا باضابطہ آغاز و اعلان کیا ہے‘ اُسے زیادہ وسیع البنیاد ہونا چاہئے تھا اور دیگر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے لئے بھی گنجائش رکھنی چاہئے تھی تاکہ ہر آمدنی اور پیشے کے لحاظ سے ہر طبقے اور آمدنی کی نمائندگی ہوسکے۔ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر اساتذہ کے کردار‘ تعلیم کے معیار اور بشمول تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات کے حوالے سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ہر ایک کو شعوری کوششوں اور ’ہراوّل دستے‘کا حصہ بننا ہوگا‘ کیونکہ اجتماعی جدوجہد ہی بابرکت اور باثمر ہو سکتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں منتخب عوامی نمائندے کہاں ہیں؟ اگر خود کو قانون ساز ایوانوں کا رکن کہلانے پر فخر محسوس کرنے اور مراعات پانے والوں میں احساس زندہ ہوتا تو والدین کو فکر اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ محکمۂ تعلیم اور وزارت تعلیم کے ہزاروں مراعات یافتہ ملازمین و نگران آخر کس مرض کی دوا ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں کیوں محدود ہو کر رہ گئیں ہیں؟

ایک ماہ گزرنے کے باوجود ’سانحۂ پشاور‘ کی یاد میں نہ تو ’یادگار کا تعین یا تعمیر‘ کی جاسکی ہے اور نہ ہی اِجتماعی اَفسوس یا اِظہار یک جہتی کے لئے ہاتھ آئے ایک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جاسکا ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ’آرمی پبلک سکول‘ جا پہنچتا ہے جو جتنا بڑا اور اہم (’وی وی آئی پی‘) اُسی قدر حفاظتی حصار میں اُسے سکول تک لیجایا جاتا ہے کسی کو پرواہ نہیں کہ یونیورسٹی روڈ سے پشاور شہر یا بیرون پشاور جانے والی ٹریفک کے بہاؤ کتنا متاثر ہوتا ہے۔ ایک طرف امریکی سفارتخانہ ہے جس نے پوری سڑک پندرہ برس سے بند کر رکھی ہے جو حیات ایونیو کو صدر سے ملاتی تھی اور دوسری طرف ’ورسک روڈ چوک‘ پر بھی آئے روز ٹریفک معطل رہتی ہے بالخصوص دیگر تعلیمی اداروں کو جانے والے اساتذہ اور بچوں کو جس زحمت سے گزرنا پڑتا ہے‘ اِس کا احساس کرنے والوں کا تعلق انتظامیہ سے نہیں۔ کیا خدا کے نام پر التجا کی جاسکتی ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ کے نمائشی دورے اور ’بچوں کے ساتھ تصاویر‘ بنوا کر سستی شہرت حاصل کرنے سے گریز کیا جائے؟ جو ہوچکا وہی نقصان و خسارہ کافی ہے۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ جہاں ناقابل تلافی جانی نقصانات ہوئے وہیں بہت سا وقت درس و تدریس معطل رہنے کی وجہ سے بھی ضائع ہوچکا ہے۔

کیا طالب علموں کا اُن کی پڑھائی پر توجہ مبذول کرنے‘ معصوم ذہنوں پر نقش ہونے والے لمحات کی چھبن سے آزادی اور شدید نوعیت کے اعصابی صدمے سے باہر آنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمارے ’وی وی آئی پیز‘ اُن والدین کی طرح سوچ سکتے ہیں‘ جنہیں معیار تعلیم کے ساتھ بچوں کی حفاظت کی فکر اندر ہی اندر سے کھائے جا رہی ہے؟ ’’ظاہر کرے تُو جو بھی مگر دل ملول ہے۔۔۔ مجھ سے کوئی بھی بات چھپانا فضول ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Jan2015: PK45 Forgotten Promises

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابی وعدے: توجہ دلاؤ مطالبہ!
خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ کے لئے ضمنی عام انتخابات کے موقع پر صوبائی حکومت اور حکمراں اِتحاد کی قیادت کرنے والی جماعت ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے جو وعدے کئے گئے تھے‘ اُن کی تعمیل ’حسب وعدہ‘ نہیں ہو سکی۔ اِس سلسلے میں سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں (بکوٹ‘ بیروٹ‘ بوئی‘ پٹن کلاں‘ دلولہ‘ ککمنگ‘ نمبل اور پلک) سے تحریک انصاف کے کارکنوں نے رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کی وساطت سے ایک درخواست صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو ارسال کی ہے‘ جس میں اُنہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کئے گئے وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔

یادش بخیر ’ہزارہ ڈویژن‘ جنت نظیر وادیوں اور سیاحت کے امکانات سے مالامال خطہ ہے جس کے ’سرکل بکوٹ‘ کا کچھ حصہ مقبول عام ’گلیات‘ کا حصہ ہے لیکن بہت کم پاکستانی جانتے ہوں گے کہ ’گلیات سے زیادہ سرسبزوشاداب اور قدرتی حسن رکھنے والی دیگر کئی ایک وادیاں بھی ہیں‘ جہاں تک رسائی آسان اور سہولیات نہ ہونے کے سبب‘ اِن علاقوں میں صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات جبکہ سیاحت جیسا اہم شعبے خاطرخواہ ترقی سے محروم ہے۔ امن و امان اور خوشگوار موسم و صحت افزأ مقام ہونے کے باوجود اِن علاقوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ یہ بات ’سرکل بکوٹ‘ کی بدقسمتی نہیں تو اُور کیا ہے کہ اِس کی یونین کونسلیں آپس میں منسلک نہیں اور اس کی وجہ وہ اُنیس کلومیٹر کی شاہراہ ہے‘ جس پر تعمیراتی کام اگر انتہائی سست روی سے بھی جاری رہتا تو تیس برس میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے اور اہل علاقہ یہ بات پورے یقین و ذمہ داری سے بیان کرتے ہیں کہ ’’اُنہیں جان بوجھ کر پسماندہ اور ترقی سے محروم رکھا گیا ہے‘ جس کے سیاسی محرکات ہیں۔‘‘ افسوس ایسی تعصب والی سوچ اور سیاست پر‘ کہ جس میں عوام کو محکوم رکھا جائے لیکن کیا گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لئے ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ دینے والوں کی جملہ توقعات پوری ہوئی ہیں؟ یہ ایک ایسا چھبتا ہوا سوال ہے جس کا تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جواب دینے سے کتراتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد سے کئے گئے جملہ ترقیاتی وعدے ہنوز پورے نہیں کئے گئے۔

پی کے پینتالیس کے ضمنی انتخابات سے قبل چیئرمین عمران خان نے سرکل بکوٹ میں چار جلسۂ عام جبکہ متعدد مقامات پر غیراعلانیہ درجن بھر چھوٹے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور کارکنوں سے وعدہ کیا کہ وہ سرکل بکوٹ کو تحصیل کا درجہ دیں گے جو کہ اہل علاقہ کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا لیکن اِس وعدے کی تکمیل سے قبل ’بوئی سوار گلی روڈ‘ کا 19 کلومیٹر حصہ تعمیر ہونا ضروری ہے۔ اُن کا دوسرا وعدہ ضلع ایبٹ آباد کو چھ کالج دینے کا تھا۔ اگر اِس سلسلے میں سرکل بکوٹ کو دو عدد کالج بھی دے دیئے جاتے ہیں تو یہ فی الوقت آبادی کے تناسب سے ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ گذشتہ برس پی کے پینتالیس کے ضمنی عام انتخابات کے موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بھی ترقیاتی کاموں کے چند ایک ’ضمنی وعدے‘ کئے تھے جن میں گلیات و سرکل بکوٹ کے لئے ’ایک ارب روپے‘ مالیت کے مختلف ترقیاتی منصوبے یعنی مالی وسائل دینے کا اعلان کیاگیاتھا۔یہ سبھی وعدے ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں۔ اِسی طرح وزیراعلیٰ نے ایبٹ آباد میں جلسۂ عام سے خطاب کے دوران یونیورسٹی کے قیام اور شاہراہوں کی توسیع کے لئے جس خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رکھا ہے اُس حوالے سے بھی رکن قومی اسمبلی نے اُن کی توجہ چاہی ہے کیونکہ سب سے زیادہ مشکل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے مقامی منتخب نمائندوں کو پیش آ رہی ہے جنہیں کارکنوں کی جانب سے نرمی و گرم گلے شکوے جبکہ سیاسی مخالفین کی جانب سے چھبتے ہوئے طنز و کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں این اے سترہ (ایبٹ آباد) کے لئے ’تین لاکھ تیرہ ہزار آٹھ سواٹھارہ‘ رجسٹرڈ ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے حصے میں ’چھیانوے ہزار ایک سو پچاسی‘ ووٹ آئے جس میں بڑا حصہ ’سرکل بکوٹ‘ سے ملنے والی فیصلہ کن و فاتح تائید تھی۔ یہ وہی علاقہ ہے جو تین عشروں تک پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا گڑھ رہا اور اِس بارے میں تصور بھی نہیں جاسکتا تھا کہ نواز لیگ کو یہاں سے شکست دی جاسکے گی لیکن ’سماجی خدمت جیت گئی‘ اور تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ اگر تحریک آگے چل کر بھی دانشمندانہ فیصلے کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے ضمنی انتخاب بھی تحریک انصاف ہی کے نام ہوتا۔

غلطیوں کی اصلاح غلطیوں سے نہیں کی جاتی۔ ضرورت تو اِس بات کی تھی کہ ڈاکٹر اظہر جدون کو خود طلب کرکے تمام انتخابی وعدے پورے کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی اور مرکزی و صوبائی قائدین ضلع ایبٹ آباد بشمول سرکل بکوٹ جیسے دیہی و پہاڑی علاقے کی اہمیت کو سمجھتے جہاں محرومیوں اور مایوسیوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا تاحال نہیں ہو سکا۔ اس سلسلے میں منتخب نمائندے نے ’حق نمائندگی‘ پورا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو تحریری طورپر آگاہ کر دیا ہے کہ ’’سرکل بکوٹ کی قسمت بدلنے کے لئے جس کسی نے‘ جو بھی وعدے کر رکھے ہیں‘ برائے مہربانی انہیں اگر بیک وقت نہ سہی لیکن مرحلہ وار انداز میں پورا کیا جائے۔‘‘ قوئ اُمید ہے کہ یہ ایک توجہ دلاؤ مطالبہ ’نقار خانے میں طوطی کی آواز‘ ثابت نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔