ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاحی تقاضے
اِصلاحی تقاضے
پاکستان میں آزادئ اظہار کی جس قدر آزادی ہے‘ شاید ہی دنیا میں کہیں اُور
ڈھونڈے سے بھی ملے۔ براہ راست ٹیلی ویژن کی نشریات سے لیکر بیانات داغنے
اور اُن کی اشاعت تک کے مراحل میں شخصیت کو اُن کی اہمیت اور عہدوں کے لحاظ
سے توجہ دی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ اپنی اہمیت اور قدر کھو
رہے ہیں اور اِس محاورے کو الگ معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے کہ ’نو
نیوز اِز گڈ نیوز۔‘ حالانکہ ذرائع ابلاغ معاشرے کی تعمیروترقی میں اہم
کردار ادا کرسکتے ہیں اگر وہ ایسا کرنے کے دل سے خواہاں ہوں لیکن جہاں
ہر’کارخیر‘ کے آگے اور پیچھے‘ ظاہری و درپردہ محرکات ‘سیاسی‘ ہوں وہاں
خبروں اور خوابوں کا یقین تو کیا جا سکتا ہے لیکن کھلی آنکھوں کے ساتھ
دیکھی جانے والی حقیقتوں اور اُن سے مطالب اخذ کرنے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔
ماحول پر چھائے اِس ’سیاسی رنگ‘ کے کرشمے صرف ذرائع ابلاغ کی کارکردگی تک
ہی محدود نہیں بلکہ گلی و نالی کی تعمیر و مرمت سے لیکر قومی خزانے سے
تکمیل پانے والے ترقیاتی منصوبوں تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ‘ ایک
ایسا ملک کہ جہاں اجتماعی خودکشی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہو‘ جہاں عام
اِنتخابات میں پے در پے غلطیوں پر ندامت محسوس نہ کی جاتی ہو جہاں قومی
وسائل لوٹنے والوں کو عزت و تکریم حاصل ہو‘ جہاں سب سے زیادہ بااثر اُسے
سمجھا جائے جو قانون وقواعد کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں کرنے کا مرتکب ہوتا
ہو‘ شاہانہ زندگی بسر کرنے والے حسب حیثیت محصولات (ٹیکس) ادا نہ کرتے ہوں
لیکن غریبوں اور کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو نچوڑ لیا
جاتا ہو! جہاں قانون اُن کی حفاظت کرے‘ جنہیں قانون کی زد میں ہونا چاہئے‘
جہاں جھوٹ کو اتنے بناؤ سنگھار کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اُس پر سچ کا گماں
ہو‘ جہاں سچائی مصلحتوں کے لبادوں میں لپٹی ہو‘ جہاں آمدنی کے ذرائع اور
وسائل کی تقسیم اِس حد تک مشکوک ہو تو احتساب کا عمل مذاق دکھائی دینے لگے
تو نفسانفسی کے اِس ماحول میں بار بار دردمندی کا مظاہرہ کرنے والے کی آواز
پر ضرور کان دھرنا چاہئے۔ پاکستان کے ایسے ہی چند خیرخواہوں میں ’ملک ریاض
حسین (پیدائش 8 فروری 1945ء)‘ بھی شامل ہیں‘ جن کے ایک سوچے سمجھے اور
تحریری بیان میں چھپے کرب‘ پس منظر‘ مطالب کی گہرائی اور سیاسی پس منظر
توجہ چاہتا ہے۔
تیس جنوری کی شام معروف نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں پر براہ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں ملک ریاض نے سنجیدہ و غیرسنجیدہ حلقوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔۔’’اگر پاکستان صرف دو برس کے لئے اُن کے حوالے کر دیا جائے‘ تو وہ (جملہ) مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں!‘‘ بحریہ ٹاؤن جیسے انقلابی تعمیراتی منصوبے کے خالق ملک ریاض کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک انتہائی اچھی کاروباری ساکھ رکھنے والے سرمایہ کار ہیں‘ جو مٹی کے مول خریدی گئی اراضی کو ’ویلیو ایڈیڈ سروسیز‘ کے ذریعے ’قابل دید‘ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے اُن چند کاروباری شخصیات میں بھی کیا جاسکتا ہے جو اپنے وعدے پورے کرتے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں کاروبار بناء سیاسی تعلقات اور سیاسی تعلقات بناء کاروبار ممکن نہیں‘ اِس لئے ملک ریاض کا نام بھی ایک بڑی جماعت کے سربراہ سے جڑا ہوئے ہیں‘ جن کی وجۂ شہرت اپنی دوستی نبھانے کے لئے مشہور ہے اور ملک ریاض کے پاس نت نئے خیالات اور سرمائے کی کمی بھی نہیں! یوں نہ صرف اِن دونوں کا کام چل رہا ہے بلکہ اِن کے دم کرم سے بہت سے دوسروں کا بھی بھلا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اِس جوڑی کے علاؤہ بھی کئی خاندان ایسے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سے زیادہ ترقی کی منازل طے کی ہیں لیکن کیا یہ بات قابل ہضم ہے کہ ساٹھ سالہ ایک شخص پورے ملک کو اپنے ہاتھ میں لینے کا منطقی جواز رکھتا ہو! کیا ہمارے مسائل کا حل بس یہی رہ گیا ہے کہ ہم ملک کو ’بحریہ ٹاؤن‘ میں تبدیل کر دیں؟
تیس جنوری کی شام معروف نجی نیوز ٹیلی ویژن چینلوں پر براہ راست نشر ہونے والی پریس کانفرنس میں ملک ریاض نے سنجیدہ و غیرسنجیدہ حلقوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔۔’’اگر پاکستان صرف دو برس کے لئے اُن کے حوالے کر دیا جائے‘ تو وہ (جملہ) مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں!‘‘ بحریہ ٹاؤن جیسے انقلابی تعمیراتی منصوبے کے خالق ملک ریاض کسی اضافی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ ایک انتہائی اچھی کاروباری ساکھ رکھنے والے سرمایہ کار ہیں‘ جو مٹی کے مول خریدی گئی اراضی کو ’ویلیو ایڈیڈ سروسیز‘ کے ذریعے ’قابل دید‘ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے اُن چند کاروباری شخصیات میں بھی کیا جاسکتا ہے جو اپنے وعدے پورے کرتے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں کاروبار بناء سیاسی تعلقات اور سیاسی تعلقات بناء کاروبار ممکن نہیں‘ اِس لئے ملک ریاض کا نام بھی ایک بڑی جماعت کے سربراہ سے جڑا ہوئے ہیں‘ جن کی وجۂ شہرت اپنی دوستی نبھانے کے لئے مشہور ہے اور ملک ریاض کے پاس نت نئے خیالات اور سرمائے کی کمی بھی نہیں! یوں نہ صرف اِن دونوں کا کام چل رہا ہے بلکہ اِن کے دم کرم سے بہت سے دوسروں کا بھی بھلا ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اِس جوڑی کے علاؤہ بھی کئی خاندان ایسے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان سے زیادہ ترقی کی منازل طے کی ہیں لیکن کیا یہ بات قابل ہضم ہے کہ ساٹھ سالہ ایک شخص پورے ملک کو اپنے ہاتھ میں لینے کا منطقی جواز رکھتا ہو! کیا ہمارے مسائل کا حل بس یہی رہ گیا ہے کہ ہم ملک کو ’بحریہ ٹاؤن‘ میں تبدیل کر دیں؟
حرف آخر: ملک ریاض کی الفاظ کی بازگشت ابھی سماعتوں میں رس گھول ہی رہی تھی
کہ تفریحی چینل پر ’جیتو پاکستان‘ میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ۔۔۔ ’’وہ کون
ہے جو گھر کی گھنٹی بجائے تو اہل خانہ دروازہ کھولے بغیر اُسے بھگا دیتے
ہیں؟‘‘ اِس بظاہر سادہ سوال کے کئی ممکنہ جوابات میں سب سے زیادہ نمبر
’بھیک مانگنے والوں‘کو دے کر بات ٹال دی گئی لیکن سوال سے زیادہ اس کے جواب
میں پوشیدہ سنجیدہ پہلو نے یقیناًقوم کے ضمیر کو جنجھوڑ دیا ہوگا کہ ہم
جسے دھتکار رہے ہیں‘ جن حاجت مندوں کی دستک پر دروازہ نہیں کھولتے‘ وہ کم
مالی وسائل کے سبب یوں تقاضا کرنے کا منطقی و شرعی جواز رکھتے ہیں لیکن جو
ہمیں مختلف طریقوں سے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں‘ اُن کے لئے ہم دل و جاں فرش
راہ کئے ہوئے ہیں! کاش ہم بھکاری کو دھتکارنے اور لٹیروں کو گلے لگانے کی
روش ترک کر دیں