Wednesday, February 8, 2023

Economic crisis, worries & unsafe border!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

معاشی بوجھ : غیرمحفوظ سرحد

امریکہ اور یورپ کی جانب سے طالبان حکومت کو اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی دینے سے انکار کے بعد پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان اسمگل کئے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان سمگل ہونے والے امریکی ڈالرز کا حوالہ دیتے ہوئے تحقیق کا یہ نتیجہ پیش کیا گیا ہے پاکستان سے ڈالروں کی افغانستان منتقلی ملک کے معاشی بحران کو مزید بڑھا رہی ہے۔ ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق روزانہ چھبیس لاکھ ڈالر سرحد پار جا رہے ہیں۔ افغانستان کا مرکزی بینک ہر ہفتے اپنی کرنسی مارکیٹ کے لئے سترہ ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) ڈالر جاری کرتا ہے۔ پاکستان سے ڈالروں کے غیر قانونی بہاو¿ کی وجہ سے ’اگست دوہزاراکیس‘ میں برسراقتدار آئی افغان حکومت عالمی تنہائی کے باوجود اگر قائم ہے تو اِس کی بڑی وجہ پاکستان کا سہارا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اُور اِس کی وجہ سے پاکستانی روپے پر دباو¿ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے لیکن ذاتی منافع کے لئے کرنسی کی غیرقانونی کا منافع بخش کاروبار پورے جوبن پر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی مغرب سرحد 2640 کلومیٹر (سولہ سو چالیس میل) طویل اُور افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔ اِس پاک افغان ’غیرمحفوظ سرحد‘ میں افراد کی آمدورفت اُور اشیا و اجناس کی نقل و حمل کے لئے پانچ فعال مقامات (کراسنگ پوائنٹس) میں چمن‘ طورختم‘ خرلاچی‘ غلام خان اُور انگور اڈا شامل ہیں۔ جن کے ذریعے ہر ماہ قریب تین لاکھ پچاسی ہزار سے زائد افغانوں کی آمدورفت ہوتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے 100 سہولیاتی مراکز قائم ہیں جن میں سب سے زیادہ چمن میں 79 ہیں۔ افغانوں کی اکثریت کو سفری دستاویزات یعنی افغان پاسپورٹ پر لگے پاکستان کا ویزہ ہونے کی صورت پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ’بنا سفری دستاویزات (افغان شہریت کے کاغذات جسے تذکرہ کہا جاتا ہے)‘ بھی مریضوں‘ خواتین‘ صحافیوں اُور تاجروں کو پاکستان آمدورفت کی اجازت دی جاتی ہے اُور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنا سفری دستاویزات پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہری (مرد و خواتین) اگر چاہیں تو وہ پاکستان میں اپنے قیام کا دورانیہ بڑھا بھی سکتے ہیں جس کے لئے ایک الگ بندوبست کے تحت شعبے قائم کئے گئے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اپنے کسی ہمسائے ملک کو اِس قدر بڑے پیمانے پر سہولیات فراہم نہیں کرتا۔ افغانستان نے گزشتہ دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد اقتدار حاصل کرنے حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کر رہی اُور اِسے افغان عوام کی ترجمان (منتخب) حکومت نہ ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے ”9 ارب ڈالر“ سے زائد کے ذخائر (اثاثے) روک (منجمند کر) رکھے ہیں تاکہ یہ رقم عسکریت پسندی کے فروغ یا کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہوں۔ بعدازاں اقوام متحدہ کے دباو¿ پر امریکہ نے افغانستان کے خراب معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اِس 9 ارب ڈالر کا آدھا حصہ جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہی تھی کہ افغان حکومت کی جانب سے افغان خواتین پر تعلیم اُور کام کاج پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد اِس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ افغانستان میں نئی حکومت کو قریب ’سترہ ماہ‘ مکمل ہو چکے ہیں اُور اِس عرصے کے دوران افغانستان کی معاشی حالت اُور انسانی حقوق کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ آدھی سے زیادہ افغان آبادی کو سخت سردی میں شدید بھوک کا سامنا ہے اُور اِس مشکل میں افغانستان کی معیشت کا کچھ بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف مالیاتی مشاورتی ادارے ”الفا بیٹا کور سلوشنز پرائیویٹ لمٹیڈ“ کے مطابق ”افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریبا دس سے پندرہ ملین (ایک سے ڈیڑھ کروڑ) ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا نصف حصہ پاکستان (غیرقانونی طور پر) جا رہا ہے۔“ افغان حکومت کے زیر انتظام مرکزی بینک (دا افغانستان بینک) کے پاس معیشت کو سہارا دینے کے لئے ڈالر موجود ہیں جو اقوام متحدہ کی طرف سے ہر ہفتے 4 کروڑ (چالیس ملین) ڈالر دیئے جاتے ہیں تاکہ انسانی امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں چونکہ افغانستان عالمی بینکاری نظام سے کٹ چکا ہے‘ اس لئے یہ رقم نقدی کی صورت افغان حکومت کو دی جاتی ہے اور اس کے آنے کے بعد اسے مقامی کرنسی مارکیٹ‘ افغانی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگرچہ اس امداد سے طالبان کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچتا لیکن ڈالر آخر کار مرکزی بینک کے خزانے میں چلے جاتے ہیں۔ اِس کے علاو¿ہ افغان حکومت کو کسٹم ٹیرف سے بھی ڈالروں میں آمدنی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق ”اقوام متحدہ دراصل مارکیٹوں میں ڈالر کی فراہمی اور بدلے میں افغانیوں کو خرید کر افغانی کرنسی کو مستحکم رکھے ہوئے ہے تاہم اقوام متحدہ تن تنہا افغانستان نہیں چلا رہا بلکہ اِس میں پاکستان سے غیرقانونی ڈالروں کی ترسیل (اسمگلنگ) کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران افغانی میں امریکہ ڈالر (گرین بیک) کے مقابلے میں تقریبا پانچ اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جو دنیا میں کسی بھی کرنسی کی اچھی (مضبوط) کارکردگی کا مظاہرہ ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار میں آنے کے وقت افغان کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی تھی اُور ایک ڈالر کے عوض 121.18 افغانی ملتے تھے لیکن بعدازاں افغانی مستحکم ہوئی اُور امریکی ڈالر کے مقابلے اِس کی موجودہ قدر 90 افغانی ہے جبکہ گزشتہ روز (8 فروری) پاکستانی روپے کی قدر 275 روپے تھی۔ اگر گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو دیکھا جائے تو یہ 37 فیصد بنتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک سال کے دوران افغان کرنسی کی قدر 5.6 فیصد مضبوط جبکہ پاکستانی روپے کی قدر 37 فیصد کم ہوئی ہے جو بڑی گراوٹ ہے! صرف جنوری دوہزارتیئس کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 10فیصد کمی ہوئی ہے اُور اِس سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال میں حکومت ’آئی ایم ایف‘ سے انتہائی ضروری قرض حاصل کرنے کے لئے شرح تبادلہ پر اپنی گرفت نرم کئے ہوئے ہے اُور اِس کے زرمبادلہ کے ذخائر سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ وقت ہے کہ افغان معیشت کو سہارا دینے کا بوجھ اُتار کر پاکستان کے معاشی مفاد اُور مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے۔ 

افغانستان کی وزارت ِخزانہ کے حکام کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ ”پاکستان سے ڈالروں کی اسمگلنگ گزشتہ سال کے وسط میں اُس وقت شروع ہوئی جب پاکستان نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا (حالانکہ پاکستان کے پاس افغانستان سے زیادہ کوئلے کے ذخائر موجود ہیں!) چونکہ افغان و پاکستان مقامی کرنسیوں (روپے و افغانی) میں تجارت نہیں کرتے اُور یہ پابندی افغان حکومت کی طرف سے عائد ہے اِس کی وجہ سے کوئلے کے افغان برآمد کنندگان ڈالروں میں تجارت (وصولیاں) کرتے ہیں۔ افغان ڈالروں کی ترسیل کا ذکر 23 جنوری کے روز گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پریس کانفرنس میں بھی سننے میں آیا جب اُنہوں نے کہا کہ ”افغان تاجر مقامی مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں تو اِس سے پاکستانی کرنسی مارکیٹ متاثر ہوتی ہے۔“

کوئلہ افغانستان کی برآمدات میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ افغان سرمایہ کار ”تجارتی شراکت داری“ کے تحت افغان کرنسی میں کوئلہ خرید کر اسے اپنے منافع کے ساتھ روپے میں فروخت کرتے ہیں اُور پھر اِس روپے کو ڈالر میں تبدیل کر کے افغانستان کسی بینکنگ چینل سے نہیں بلکہ روائتی ہنڈی حوالہ (غیرقانونی ترسیلات زر) کے ذریعے سے لیجاتے ہیں چونکہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالروں کی کمی (قلت) ہے اِس لئے ڈالر پشاور جیسی سرحد سے قریب جگہوں سے خریدے جاتے ہیں جہاں ”گرے مارکیٹوں“ قائم ہیں اُور افغان تاجر سرکاری نرخ سے دس پندرہ فیصد زیادہ ادا کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں اِس لئے پاکستان کے کرنسی ڈیلروں اُور افغان تاجروں کے درمیان گہرے کاروباری مراسم (ہم آہنگی) دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت کی جانب سے کسی بھی مقدار میں ڈالر لانے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن افغانستان سے بیرون ملک ڈالر جانے کی زیادہ سے زیادہ حد کو نصف کرتے ہوئے 5 ہزار مقرر کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغان حکومت اپنی کرنسی و معاشی استحکام کے لئے ڈالروں کی خریدوفروخت (نقل و حمل) پر سخت گیر کنٹرول رکھ سکتی ہے تو ایسا پاکستان کے لئے کیوں مشکل ہے جبکہ ہمارے پاس تکنیکی و افرادی وسائل افغانستان کے مقابلے زیادہ ہیں؟ وقت ہے کہ صرف ناقص و کمزور امیگریشن پالیسی ہی نہیں بلکہ تجارت اور سرحدی کنٹرول“ میں اضافہ کیا جائے اُور بہتری لائی جائے۔ ایک ایسی سرحد جہاں روزانہ ہزاروں افراد بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہوں اُور سرحدی کراسنگ پر کسی میلے جیسا سماں ہو‘ وہاں (تجاہل عارفانہ کرتے ہوئے) ڈالروں کی غیرقانونی ترسیل پر تعجب یا تشویش کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔

....


Mind what you eat

 تحریک .... آل یاسین

متوازن غذا : قومی عادات

’باچا خان چوک (پشاور)‘ سے متصل مرغی مارکیٹ میں 100 سے زائد دکانوں سے ہوٹلوں اُور شادی بیاہ کی تقاریب کے لئے ذبح شدہ مرغیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ شادی ہالز اُور ہوٹلز (مستقل گاہگوں) کی جانب سے فون پر آرڈر لکھوانے کے بعد اُنہیں صاف ستھری مرغی مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فراہم کی جاتی ہے جسے اپنے منافع کے ساتھ مارکیٹ ریٹ پر فروخت کیا جاتا ہے لیکن اِس کاروباری بندوبست کا ”تاریک پہلو“ یہ ہے کہ راشننگ کنٹرولرز کی ایک کاروائی (چھاپے کے نتیجے میں) شادی ہالز اُور ہوٹلوں (کھانے پینے کے عمومی مقامات) کو ”مردہ مرغیاں“ فراہم کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مردہ مرغی کا گوشت کھانا حرام ہے۔ شرعی طور پر ”ذبح شدہ“ برائلر مرغی کاکھاناحلال ہے محض قیاس آرائی کی بنا پر کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیاجاسکتا لیکن چونکہ مردہ مرغیاں فروخت کرنے کے منظم دھندے کا انکشاف ہو چکا ہے اُور بڑی مقدار میں ایسی مردار مرغیاں برآمد بھی کی گئیں ہیں اِس لئے شرعی طور پر احتیاط اِسی میں ہے کہ صرف اُسی برائلر یا دیسی مرغی کا گوشت استعمال کیا جائے جسے اپنے سامنے حلال کیا گیا ہو نیز شرعی نکتہ نظر سے مرغی کی خوراک (فیڈ) میں اگر خالص حرام اجزا یا ایسی کوئی چیز شامل کی گئی ہو جس کی وجہ سے حرام مواد خوراک کے باقی حصے پر غالب آ جائے تو ایسی مرغیوں کو کھلانا بھی حرام ہوگا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انسان شرعی اَحکام کا مکلف ہے اُور شریعت میں کسی بھی جاندار کو حرام غذا دینا اُور اِس کے بعد اُس کے حرام ہونے میں شک و شبہ نہیں رہتا۔ ایک شرعی نکتہ نظر یہ ہے کہ اگر کسی مرغی کو حرام چیزیں کھلائی گئیں ہوں لیکن اگر اُس کے گوشت سے بو نہ آتی ہو تو ایسا گوشت کھانا جائز ہے۔ دیسی مرغیاں بھی کیڑے مکوڑے کھاکر پلتی بڑھتی ہیں۔ بہرحال کسی حلال جانور کا کم مقدار میں حرام یا ناپاک چیز کھا لینا اس کے حرام ہونے کے لئے کافی جواز نہیں ہے ہاں اگر اس جانور میں ناپاک یا حرام چیز کی بو پیدا ہوجائے‘ یہ بو کھانے پر حاوی اُور کھانے کے دوران محسوس ہو تو اُس وقت حلال جانور کا کھانا بھی ممنوع ہو جاتا ہے۔ فارمی مرغی میں ہارمونز کی مقدار کا زیادہ ہونا ایک طبی مسئلہ ہے‘ جس پر اطبا (ماہرین صحت) کو قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے کیونکہ خوراک کے حلال و حرام اُور مضرصحت ہونے سے متعلق یہ معاملہ (منظرنامہ) انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اُور اِس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

پاکستان کی معروف فلم و ڈرامہ ایکٹر اُور یوٹیوبر ’عائشہ عمر‘ کی شناخت ’بلبلے‘ نامی مزاحیہ (سٹ کام) ڈرامہ ہے جو سال 2009ءسے اندرون و بیرون ملک دیکھا اُور پسند کیا جا رہا ہے۔ اکتالیس سالہ عائشہ عمر فن اَداکاری اُور گلوکاری میں کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات حاصل کر چکی ہیں اُور چاہتی ہیں کہ ’صحت مند خوراک‘ کے حوالے سے ’قومی عادات‘ تبدیل کریں۔ متوازن غذا کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عائشہ عمر نے اپنے انسٹاگرام اکاونٹ (ayesha.m.omar) سے جاری پیغام میں اپنی خوبصورتی اُور جاذب نظر ہونے کا راز بتایا ہے اُور کہا ہے کہ ”میں گھاس پھوس (کچھ بھی) نہیں کھاتی بلکہ اپنے کھانے پینے کی اشیا کا سوچ سمجھ کر انتخاب کرتی ہوں۔ باقاعدگی سے ورزش کرنا فعال زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے جس کے لئے جسمانی ضرورت اُور موسم کے مطابق ’متوازن غذا‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے اگر کوئی بھی شخص (مرد یا عورت) چاہتا ہے کہ وہ ایک مطمئن زندگی بسر کرے تو اُسے اپنے کپڑوں‘ آسائش یا دیگر نمودونمائش پر حد سے زیادہ خرچ کرنے کی بجائے اچھے کھانے پینے پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ صرف زندہ رہنے ہی کے لئے بلکہ صحت مند رہنے کے نکتہ نظر سے بھی خوراک کا انتخاب ہونا چاہئے۔ یہ انتہائی افسوسناک اُور بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے پاس پاکستان میں بہت کم ایسی کھانے پینے کی جگہیں ہیں جہاں صاف‘ غیر پروسیسڈ‘ کیمیائی مادوں‘ مصنوعی ذائقوں‘ یا ہارمونز جیسے زہریلے مواد سے پاک کھانا پیش کیا جاتا ہو۔ مقامی پیداوار‘ اجزااُور قدرتی طور پر تیار ہونے والی خوراک کے مقابلے عموماً ایسے مصنوعی خوردنی اجزاکا انتخاب کیا جاتا ہے جو زیادہ تر کم قیمت ہوتی ہیں۔ صحت مند رہنے کے لئے اچھی خوراک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے میں جلد ہی ایک تصور کو عملی جامہ پہناؤں گی جس پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اِس منصوبے کے تحت کھانے میں سمندری غذا‘ چکن (جو کہ نامیاتی ہو) اور بنا چربی گوشت کے ساتھ وافر مقدار میں سبزی‘ خشک میوہ جات‘ بیج‘ بیریز اور پھل شامل کئے جائیں گے اُور ریفائنڈ شوگر‘ گلوٹین یا کیمیائی مادوں سے بھرپور دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی مصنوعات کا زیادہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ضرورت سے زیادہ پکے ہوئے اور ڈیف جنک فوڈ سے دور رہنے کی کوشش کی جائے گی جو کہ تازہ اور صاف کھانے کی کوشش ہے۔ کھانے کے لئے بہترین تیل ناریل یا دیسی گھی کی صورت استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔ کسی شخص (مرد یا عورت) کے لئے ضروری ہے کہ وہ کھانے کے اچھے و اعلیٰ معیار‘ نامیاتی (قدرتی) وٹامنز پر اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ خرچ کرے۔ سفر اُور کھانا انسان کی زندگی میں مقصدیت کو بھر دیتے ہیں۔ مہنگے جوتے‘ بیگز یا زیورات اور ملبوسات کی بجائے ہمیں اپنے کھانے پینے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔“ عائشہ عمر کراچی میں رہتی ہیں اُور چونکہ فن ِاداکاری کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں اِس لئے اُنہیں معیاری کھانے پینے کے کاروبار میں سرمایہ کاری سے فوری فائدہ حاصل ہونے کی اُمید ہے لیکن لاہور میں پیدا ہونے والی عائشہ عمر کراچی میں مستقل مقیم ہیں اُور اُن کی خدمات بھی کراچی یا لاہور والوں ہی کو میسر آئیں گے جو پاکستان کے ثقافتی مراکز بھی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے طول و عرض بالخصوص پشاور میں رہنے والوں کو بھی اپنے کھانے پینے کے معمولات پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ جو کچھ اُنہیں میسر ہے اُس میں خالص ہونا تو دور کی بات حلال ہونا بھی یقینی نہیں ہے اُور آئے روز مردہ جانور اُور زہر آلودہ دودھ تلف کرنے سے متعلق ’محکمہ خوراک (فوڈ اتھارٹی)‘ کی کارکردگی خبروں کی زینت بنتی ہے لیکن مجال ہے کہ سڑک کنارے تکہ بوٹی اُور کباب فروخت کرنے والوں کے گاہگوں میں کمی آئے۔ شام سے رات گئے تک پشاور کے مختلف حصوں میں قائم ہونے والی ’فوڈ سٹریٹس‘ میں کھانے پینے کا معیار کوئی بھی دیکھنے (پرکھنے‘ جانچنے) والا نہیں کیونکہ سرراہ یہ دکانیں دن کے اختتام پر‘ اُس وقت قائم ہوتی ہیں جب سرکاری دفاتر کے اوقات کار ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔ آج کی تاریخ میں جبکہ عمومی امراض بھی پیچیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں اُور کھانے پینے کی اشیا‘ اجناس و سہولیات کی اکثریت معیاری بھی نہیں رہے تو پہلی ضرورت یہی ہے کہ گھر سے باہر کھانے پینے سے حتی الوسع گریز کیا جائے اُور مردہ مرغیوں کی شادی ہالز کو فراہمی کے منظم دھندے کا پردہ فاش ہونے کے بعد ضروری (لازم) ہو گیا ہے کہ احتیاط کرتے ہوئے شادی بیاہ کی تقاریب (جن کا انعقاد غیرضروری طور پر شادی ہالز میں ہونا رواج پا گیا ہے) کے دوران بنا گوشت کھانوں ہی کا انتخاب کیا جائے۔

....


Thursday, February 2, 2023

Environmetal friendly roaming

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

ماحول دوست نقل و حرکت

امریکی جامعہ (یونیورسٹی آف کیلیفورنیا) کی ’کلائمنٹ اینڈ کیمونٹی‘ نامی تحریر و تحقیق سے متعلق حکمت عملی نے ’ماحول دوست نقل و حرکت (ایچیونگ زیرو ایمیشن ود مور موبیلٹی اینڈ لیس مائنگ)‘ کے عنوان سے جائزہ جاری کیا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کم فاصلوں کی مسافت کے لئے گاڑیوں کا استعمال نہ کیا جائے۔ پیدل چلنے کی عادت اپنائی جائے اُور آبادی کے مراکز (شہروں قصبوں) میں فراہم کردہ سہولیات پر نظرثانی کی جائے تاکہ نقل و حرکت کے رجحانات تبدیل کئے جا سکیں۔ دنیا ’ماحولیاتی انحطاط‘ سے پریشان ہے جس کی وجہ سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کرہ¿ ارض پر انسان کا مستقبل بھی غیریقینی سے دوچار ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لئے کرہ ارض کا درجہ حرارت ’ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ‘ کم کرنے پر عالمی اتفاق رائے ’پیرس معاہدہ‘ کہلاتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مذکورہ معاہدے پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ 

امریکہ میں ہوئی مذکورہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ایسی موٹرگاڑیاں بھی ماحول دشمن ہیں جن میں ایندھن ذخیرہ کرنے کے لئے بیٹریاں نصب کی جاتی ہیں کیونکہ اِن بیٹریوں کو بنانے اُور تلف کرنے سے ماحول کا نقصان ہو رہا ہے اُور بہتر یہی ہے کہ اہل زمین ماحول کی بہتری کے لئے ہر قسم کی گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کر دیں۔ آمدورفت کے لئے حتی الوسع پیدل چلنے کی کوشش کی جائے تاکہ کم سے کم دھواں پیدا ہو۔ کرہ¿ ارض پر رہنے والوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے جن اثرات کا سامنا ہے اُن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مختلف (آؤٹ آف باکس) تدابیر اختیار کرنا ہو گی جیسا کہ ایک کہانی ہے کہ کسی شخص کو شیر‘ بکری اور گھاس کو دریا کے پار سلامت حالت میں اِس طرح پہنچانا تھا کہ کوئی فریق دوسرے کو نہ کھائے۔ اگر وہ وہ شیر اور بکری کو ایک ساتھ کشتی میں لے جائے تو اندیشہ ہے کہ شیر بکری کو کھا جائے گا۔ اگر بکری اور گھاس کو کشتی پر سوار کرے تو اندیشہ ہے کہ بکری گھاس کھا جائے گی۔ اگر پہلے گھاس کو دوسرے کنارے پر پہنچائے تو اندیشہ ہے کہ ندی کنارے اکیلا رہ جانے والا شیر بکری کھا جائے گا اُور اگر شیر کو اکیلا چھوڑ کر بکری اُور گھاس دوسرے کنارے پر لے جائے تو اندیشہ ہے کہ بکری گھاس کھا جائے گی لیکن اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ شیر اور گھاس کو پہلے دوسرے کنارے پر پہنچایا جائے اُور اِس کے بعد دوسرے پھیرے میں بکری لے جائی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کرہ ارض پر رہنے والوں کو بھی بالکل اِسی نوعیت کا کوئی حل تلاش کرنا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی لانے کے لئے اپنے معمولات زندگی پر نظرثانی کریں کہ کن امور کی مرحلہ وار انجام دہی سے وہ مطلوبہ نتائج (بہتری) حاصل کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی جامعہ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے لئے تجویز کیا ہے کہ شیر و بکری کو اکٹھا نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ہم زیادہ ایندھن بھی استعمال کریں اُور ماحول دوستی کا خواب بھی دیکھیں۔ کہانی کا شیر ’ایندھن‘ ہے جبکہ بکری ایندھن کی بچت کے لئے یکساں ماحول دشمنی ایسی گاڑیوں کی تخلیق ہے جو لیتھیئم کا استعمال کرتی ہیں۔ کم مسافت کے لئے کسی بھی قسم کی (چھوٹی بڑی) گاڑی استعمال کرنے کی بجائے اگر پیدل چلنے کوترجیح دی جائے تو ماحول کی بہتری کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں تجارتی مراکز کے قریب ’کار پارکنگ‘ بنا کر بازاروں میں گاڑیوں کی تعداد کم کی جاسکتی ہے اِس طرح رہن سہن کی لاگت میں بھی کمی آئے گی اُور ایندھن (پیٹرول ڈیزل یا سی این جی) کی بچت ممکن ہوگی۔ مذکورہ رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ لیتھیم کی مانگ کم کرنے کے لئے نئی ایجادات کی ضرورت ہے بالخصوص ایسی بیٹریاں بنائی جائیں جن میں توانائی ذخیرہ (اسٹوریج) کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو اُور وہ ماحول دوست بھی ہوں لہٰذا الیکٹرانک گاڑیوں پر منتقلی کے تصور کی بجائے اگر انفرادی طور پر گاڑیوں کا استعمال کم کیا جائے اور مسافت کے لئے اجتماعی گاڑیاں استعمال کی جائیں یا پیدل چلنے اور سائیکل چلانا پھر سے رواج بن جائیں تو یہ خیال (تصور) بُرا نہیں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ امریکی رپورٹ میں صرف یہی تجویز کیا گیا ہے کہ شیر (ایندھن)] بکری (بیٹریاں) اُور گھاس (الیکٹرانک گاڑیوں) سے چھٹکارا حاصل کیا جائے لیکن اصل مسئلہ وہ چھوتی بڑی صنعتیں بھی ہیں جو گاڑیوں کے بعد ماحول میں دھواں اگلنے والا دوسرا بڑا ذریعہ (سورس) ہیں۔

....


Wednesday, February 1, 2023

Peshawar Bleeding: New wave of terrorism

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

دہشت گردی‘ نئی لہر : پشاور لہو لہو

پہلا تجزیہ: خیبرپختونخوا پولیس کے صوبائی مرکز (پولیس لائنز) پر دہشت گرد حملہ اِس لحاظ سے خطرناک ترین ہے کہ اِس میں حملہ آور پولیس کے حفاظتی حصار کو ناکام بنانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں اُور مستقبل میں اِس قسم کے حملوں کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے لئے خفیہ معلومات پر مبنی کاروائیوں کو زیادہ اہمیت ملنی چاہئے۔ دوسرا تجزیہ: پاکستان کے طول و عرض میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بیرون ملک تیار ہوتے ہیں لہٰذا سرحدی سیکورٹی نقل و حرکت سخت کرنے کے علاؤہ جب تک ہمسایہ ممالک پاکستان کی داخلی سلامتی کے درپے رہیں گے اُس وقت تک پائیدار قیام امن ممکن نہیں ہوگا۔ تیسرا تجزیہ: خیبرپختونخوا (فرنٹ لائن صوبے) میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے زیادہ مالی و افرادی وسائل بشمول تربیت اُور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ چوتھا تجزیہ: پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر کے مقابلے پشاور کی معیشت و معاشرت دہشت گردی سے نسبتاً زیادہ متاثر ہے اِس لئے پشاور کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کی ترجیحی بنیادوں پر (جلد) تکمیل سمیت معاشی بحالی کے خصوصی امدادی پیکج کا اعلان ہونا چاہئے۔ پانچواں تجزیہ: دہشت گردی بنا مقامی سہولت کاری ممکن نہیں ہوتی۔ گیارہ جون دوہزار اکیس سے صوبائی پولیس سربراہ (انسپکٹر جنرل پولیس) معظم جاہ انصاری کے بقول تفتیش کار اِس امکان کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ پولیس لائنز حملے کا مرکزی کردار (خودکش حملہ آور) پہلے ہی سے پولیس لائنز میں مقیم تھا۔ چھٹا تجزیہ: پولیس لائنز حملے کے بعد سے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی عیاں ہو چکی ہے جو اِس مرتبہ اہم سرکاری تنصیبات اُور دفاتر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اِس امکان کے پیش نظر پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے جملہ سرکاری دفاتر کے حفاظتی اِنتظامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ساتواں تجزیہ: پولیس لائنز حملے کے بعد ’ریسکیو‘ ادارے کی جانب سے امدادی کاروائیاں ’حواص باختگی‘ کا شکار دکھائی دیں جبکہ یہ ادارہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ ریسکیو کی کارکردگی کا جائزہ اُور تربیت و تیاری سے متعلق امور کا جائزہ (نظرثانی ضروری ہے۔ آٹھواں تجزیہ: خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ پولیس لائنز حملے سے چند گز کے فاصلے پر اپنے دفتر میں موجود تھے لیکن اُنہیں دھماکے کی جگہ تک پہنچنے میں 100 منٹ سے زائد کا عرصہ لگا اُور اُنہوں نے اپنے دفتر اُور موقع پر موجود صحافیوں (ذرائع ابلاغ کے نمائندوں) سے بار بار کی درخواست کے باوجود بھی بات چیت بھی نہیں۔ خودکش حملے کے حقائق کمشنر پشاور کی جانب سے پہلے‘ پشاور پولیس کے سربراہ (سی سی پی اُو) اُور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ’پبلک ریلیشنز‘ کی جانب سے بعدازاں (بالترتیب) گھنٹوں بعد جاری کئے گئے جس کی وجہ سے قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کیونکہ جملہ اعدادوشمار میں فرق تھا۔ کسی ہنگامی صورتحال میں جبکہ پورا ملک اُور بالخصوص پولیس لائنز میں تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ حقائق جاننے کے لئے بے چین تھا لیکن شہدا،اُور زخمیوں کے ناموں کی تفصیلات منظرعام پر آنے میں کئی گھنٹے لگے جبکہ پولیس کی موبائل فون ایپس اُور سوشل میڈیا (فیس بک‘ ٹوئیٹر وغیرہ) کے ذریعے حقائق و محرکات کی وضاحت ممکن تھی۔ نواں تجزیہ: سرکاری دفاتر کے کام کاج ’آن لائن‘ سرانجام دینے کے لئے اِنفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا چاہئے تاکہ سرکاری دفاتر سے رجوع کرنے والوں میں کمی لائے اُور صارفین کو سہولیات و خدمات کی آن لائن فراہمی ہو سکے۔ اِس سلسلے میں بھارت کے کئی شہروں بالخصوص نئی دہلی میں سرکاری دفاتر کی تعداد کم کرنے اُور دفاتر کی خدمات آن لائن فراہم کرنے کے تجربے اُور اُس کے نتائج کا مطالعہ کیا جانا چاہئے۔

دہشت گردی کی حالیہ ”نئی لہر“ کے دوران رونما ہونے والے پے در پے واقعات (ٹائم لائن) سے پتہ چلتا ہے کہ عسکریت پسند گروہ دوہزاربائیس کے ماہ نومبر سے فعال ہے جب اِس نے ماہ جون میں حکومت کے ساتھ طے پانے والی جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں تقریبا ایک درجن سنگین دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں صرف کم از کم 27 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں جبکہ تیس جنوری کے روز پولیس لائنز پر حملہ گزشتہ تین ماہ میں ہوئے سبھی حملوں سے الگ اُور زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا ہے۔ ملک بھر میں مسلح افواج کے ساتھ ساتھ سویلین اہداف پر لگاتار دہشت گردانہ حملے پریشان کن ہیں۔ خاص طور پر اس حقیقت کے پیش نظر کہ ضرب عضب اور ردالفساد جیسی فوجی کاروائیوں کے ذریعے دہشت گرد عناصر کو ان کی محفوظ پناہ گاہوں سے تقریبا ختم کر دیا گیا تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف عزم تو برقرار رہا لیکن اِس کے انسداد کی کوششوں میں کمی اُور افغانستان کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گرد عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے نتیجتاً شمال مغربی اور جنوب مغربی سرحدوں پر پاکستان دشمن تاک لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں اُور موقع ملتے ہیں انتہائی بیدردی و بے رحمی سے وار کرتے ہیں۔ افغانستان حکومت کی سرپرستی میں مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے کی کوشش بھی تاحال یا خاطرخواہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے اُور یقینا اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان مخالف جہاں کہیں بھی ہوں اُور چاہے سرحد پار ہی کیوں نہ ہوں‘ اُن کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اِس سے پہلے انسداد دہشت گردی سے متعلق ’قومی اتفاق رائے‘ کی تجدید ہونی چاہئے جیسا کہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) حملے کے بعد ہوا تھا اور پھر ملک سے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کے خاتمے تک ریاست کی پوری طاقت کے ساتھ کاروائی کی گئی تھی۔

پاکستان کی انسداد دہشت گرد حکمت عملی میں موجود لچک اُور مصلحتوں یا الجھنوں کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر طے کرنا ہوگا کہ عسکریت پسند کبھی بھی اچھا یا بُرا نہیں ہوتا بلکہ عسکریت پسندی ہمیشہ ہی سے ’امن دشمن‘ ہوتی ہے اُور اِس نکتہ نظر سے شہروں کو اسلحے سے پاک کرنے کے لئے خصوصی مہمات کا آغاز ہونا چاہئے۔ ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ اگر ہم افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کو خوش کرنے کو ضروری سمجھیں گے تو دہشت گرد حملوں کی صورت ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات اُٹھاتے رہیں گے۔ وقت ہے کہ ملک کے تمام طبقوں بالخصوص سیاسی جماعتیں اور سکیورٹی فورسز کو مل بیٹھ کر دہشت گردوں کو شکست دینے کے لئے مشترکہ منصوبہ (لائحہ عمل) تیار کریں تاکہ پاکستان کو مزید تباہی اور اموات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بلاشک و شبہ قومی سلامتی خطرات و بحران سے دوچار ہے اُور اگر اِس نازک مرحلے پر ریاست کو سلامتی کے حوالے سے ’قومی پالیسی‘ کی ضرورت ہے جو وفاقی اور صوبائی سطح پر مشترکہ طور پر نافذ کی جائے اُور یہ پالیسی صرف سیکورٹی اداروں ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ اِس کی ملکیت ہر پاکستانی فرد تک ہونی چاہئے۔ وقت ہے کہ حوصلہ مند قومی قیادت‘ جرات مندانہ اور مشکل فیصلوں پر عمل درآمد کرے اُور اُس غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ کیا جائے جو تکلیف دہ حقیقتوں (خوف‘ دہشت‘ تباہی و بربادی کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات) کی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔