ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
معاشی بوجھ : غیرمحفوظ سرحد
امریکہ اور یورپ کی جانب سے طالبان حکومت کو اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی دینے سے انکار کے بعد پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان اسمگل کئے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے اسباب و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان سمگل ہونے والے امریکی ڈالرز کا حوالہ دیتے ہوئے تحقیق کا یہ نتیجہ پیش کیا گیا ہے پاکستان سے ڈالروں کی افغانستان منتقلی ملک کے معاشی بحران کو مزید بڑھا رہی ہے۔ ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق روزانہ چھبیس لاکھ ڈالر سرحد پار جا رہے ہیں۔ افغانستان کا مرکزی بینک ہر ہفتے اپنی کرنسی مارکیٹ کے لئے سترہ ملین (ایک کروڑ ستر لاکھ) ڈالر جاری کرتا ہے۔ پاکستان سے ڈالروں کے غیر قانونی بہاو¿ کی وجہ سے ’اگست دوہزاراکیس‘ میں برسراقتدار آئی افغان حکومت عالمی تنہائی کے باوجود اگر قائم ہے تو اِس کی بڑی وجہ پاکستان کا سہارا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اُور اِس کی وجہ سے پاکستانی روپے پر دباو¿ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے لیکن ذاتی منافع کے لئے کرنسی کی غیرقانونی کا منافع بخش کاروبار پورے جوبن پر ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی مغرب سرحد 2640 کلومیٹر (سولہ سو چالیس میل) طویل اُور افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔ اِس پاک افغان ’غیرمحفوظ سرحد‘ میں افراد کی آمدورفت اُور اشیا و اجناس کی نقل و حمل کے لئے پانچ فعال مقامات (کراسنگ پوائنٹس) میں چمن‘ طورختم‘ خرلاچی‘ غلام خان اُور انگور اڈا شامل ہیں۔ جن کے ذریعے ہر ماہ قریب تین لاکھ پچاسی ہزار سے زائد افغانوں کی آمدورفت ہوتی ہے اُور اِس مقصد کے لئے 100 سہولیاتی مراکز قائم ہیں جن میں سب سے زیادہ چمن میں 79 ہیں۔ افغانوں کی اکثریت کو سفری دستاویزات یعنی افغان پاسپورٹ پر لگے پاکستان کا ویزہ ہونے کی صورت پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ’بنا سفری دستاویزات (افغان شہریت کے کاغذات جسے تذکرہ کہا جاتا ہے)‘ بھی مریضوں‘ خواتین‘ صحافیوں اُور تاجروں کو پاکستان آمدورفت کی اجازت دی جاتی ہے اُور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنا سفری دستاویزات پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہری (مرد و خواتین) اگر چاہیں تو وہ پاکستان میں اپنے قیام کا دورانیہ بڑھا بھی سکتے ہیں جس کے لئے ایک الگ بندوبست کے تحت شعبے قائم کئے گئے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اپنے کسی ہمسائے ملک کو اِس قدر بڑے پیمانے پر سہولیات فراہم نہیں کرتا۔ افغانستان نے گزشتہ دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد اقتدار حاصل کرنے حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کر رہی اُور اِسے افغان عوام کی ترجمان (منتخب) حکومت نہ ہونے کا طعنہ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے ”9 ارب ڈالر“ سے زائد کے ذخائر (اثاثے) روک (منجمند کر) رکھے ہیں تاکہ یہ رقم عسکریت پسندی کے فروغ یا کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہوں۔ بعدازاں اقوام متحدہ کے دباو¿ پر امریکہ نے افغانستان کے خراب معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اِس 9 ارب ڈالر کا آدھا حصہ جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہی تھی کہ افغان حکومت کی جانب سے افغان خواتین پر تعلیم اُور کام کاج پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد اِس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ افغانستان میں نئی حکومت کو قریب ’سترہ ماہ‘ مکمل ہو چکے ہیں اُور اِس عرصے کے دوران افغانستان کی معاشی حالت اُور انسانی حقوق کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ آدھی سے زیادہ افغان آبادی کو سخت سردی میں شدید بھوک کا سامنا ہے اُور اِس مشکل میں افغانستان کی معیشت کا کچھ بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف مالیاتی مشاورتی ادارے ”الفا بیٹا کور سلوشنز پرائیویٹ لمٹیڈ“ کے مطابق ”افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریبا دس سے پندرہ ملین (ایک سے ڈیڑھ کروڑ) ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کا نصف حصہ پاکستان (غیرقانونی طور پر) جا رہا ہے۔“ افغان حکومت کے زیر انتظام مرکزی بینک (دا افغانستان بینک) کے پاس معیشت کو سہارا دینے کے لئے ڈالر موجود ہیں جو اقوام متحدہ کی طرف سے ہر ہفتے 4 کروڑ (چالیس ملین) ڈالر دیئے جاتے ہیں تاکہ انسانی امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں چونکہ افغانستان عالمی بینکاری نظام سے کٹ چکا ہے‘ اس لئے یہ رقم نقدی کی صورت افغان حکومت کو دی جاتی ہے اور اس کے آنے کے بعد اسے مقامی کرنسی مارکیٹ‘ افغانی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اگرچہ اس امداد سے طالبان کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں پہنچتا لیکن ڈالر آخر کار مرکزی بینک کے خزانے میں چلے جاتے ہیں۔ اِس کے علاو¿ہ افغان حکومت کو کسٹم ٹیرف سے بھی ڈالروں میں آمدنی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق ”اقوام متحدہ دراصل مارکیٹوں میں ڈالر کی فراہمی اور بدلے میں افغانیوں کو خرید کر افغانی کرنسی کو مستحکم رکھے ہوئے ہے تاہم اقوام متحدہ تن تنہا افغانستان نہیں چلا رہا بلکہ اِس میں پاکستان سے غیرقانونی ڈالروں کی ترسیل (اسمگلنگ) کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران افغانی میں امریکہ ڈالر (گرین بیک) کے مقابلے میں تقریبا پانچ اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جو دنیا میں کسی بھی کرنسی کی اچھی (مضبوط) کارکردگی کا مظاہرہ ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار میں آنے کے وقت افغان کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی تھی اُور ایک ڈالر کے عوض 121.18 افغانی ملتے تھے لیکن بعدازاں افغانی مستحکم ہوئی اُور امریکی ڈالر کے مقابلے اِس کی موجودہ قدر 90 افغانی ہے جبکہ گزشتہ روز (8 فروری) پاکستانی روپے کی قدر 275 روپے تھی۔ اگر گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو دیکھا جائے تو یہ 37 فیصد بنتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک سال کے دوران افغان کرنسی کی قدر 5.6 فیصد مضبوط جبکہ پاکستانی روپے کی قدر 37 فیصد کم ہوئی ہے جو بڑی گراوٹ ہے! صرف جنوری دوہزارتیئس کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 10فیصد کمی ہوئی ہے اُور اِس سے پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال میں حکومت ’آئی ایم ایف‘ سے انتہائی ضروری قرض حاصل کرنے کے لئے شرح تبادلہ پر اپنی گرفت نرم کئے ہوئے ہے اُور اِس کے زرمبادلہ کے ذخائر سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ وقت ہے کہ افغان معیشت کو سہارا دینے کا بوجھ اُتار کر پاکستان کے معاشی مفاد اُور مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا جائے۔
افغانستان کی وزارت ِخزانہ کے حکام کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ ”پاکستان سے ڈالروں کی اسمگلنگ گزشتہ سال کے وسط میں اُس وقت شروع ہوئی جب پاکستان نے افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا (حالانکہ پاکستان کے پاس افغانستان سے زیادہ کوئلے کے ذخائر موجود ہیں!) چونکہ افغان و پاکستان مقامی کرنسیوں (روپے و افغانی) میں تجارت نہیں کرتے اُور یہ پابندی افغان حکومت کی طرف سے عائد ہے اِس کی وجہ سے کوئلے کے افغان برآمد کنندگان ڈالروں میں تجارت (وصولیاں) کرتے ہیں۔ افغان ڈالروں کی ترسیل کا ذکر 23 جنوری کے روز گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پریس کانفرنس میں بھی سننے میں آیا جب اُنہوں نے کہا کہ ”افغان تاجر مقامی مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں تو اِس سے پاکستانی کرنسی مارکیٹ متاثر ہوتی ہے۔“
کوئلہ افغانستان کی برآمدات میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ افغان سرمایہ کار ”تجارتی شراکت داری“ کے تحت افغان کرنسی میں کوئلہ خرید کر اسے اپنے منافع کے ساتھ روپے میں فروخت کرتے ہیں اُور پھر اِس روپے کو ڈالر میں تبدیل کر کے افغانستان کسی بینکنگ چینل سے نہیں بلکہ روائتی ہنڈی حوالہ (غیرقانونی ترسیلات زر) کے ذریعے سے لیجاتے ہیں چونکہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالروں کی کمی (قلت) ہے اِس لئے ڈالر پشاور جیسی سرحد سے قریب جگہوں سے خریدے جاتے ہیں جہاں ”گرے مارکیٹوں“ قائم ہیں اُور افغان تاجر سرکاری نرخ سے دس پندرہ فیصد زیادہ ادا کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں اِس لئے پاکستان کے کرنسی ڈیلروں اُور افغان تاجروں کے درمیان گہرے کاروباری مراسم (ہم آہنگی) دیکھنے میں آ رہی ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت کی جانب سے کسی بھی مقدار میں ڈالر لانے پر کوئی پابندی نہیں بلکہ ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن افغانستان سے بیرون ملک ڈالر جانے کی زیادہ سے زیادہ حد کو نصف کرتے ہوئے 5 ہزار مقرر کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر افغان حکومت اپنی کرنسی و معاشی استحکام کے لئے ڈالروں کی خریدوفروخت (نقل و حمل) پر سخت گیر کنٹرول رکھ سکتی ہے تو ایسا پاکستان کے لئے کیوں مشکل ہے جبکہ ہمارے پاس تکنیکی و افرادی وسائل افغانستان کے مقابلے زیادہ ہیں؟ وقت ہے کہ صرف ناقص و کمزور امیگریشن پالیسی ہی نہیں بلکہ تجارت اور سرحدی کنٹرول“ میں اضافہ کیا جائے اُور بہتری لائی جائے۔ ایک ایسی سرحد جہاں روزانہ ہزاروں افراد بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہوں اُور سرحدی کراسنگ پر کسی میلے جیسا سماں ہو‘ وہاں (تجاہل عارفانہ کرتے ہوئے) ڈالروں کی غیرقانونی ترسیل پر تعجب یا تشویش کا اظہار نہیں ہونا چاہئے۔
....