ستائیس فروری دوہزار بیس
....کورونا وائرس: حفظ ماتقدم....
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کی جانب سے ’کورونا وائرس‘ سے بچاو کے لئے 8 نکاتی ’ہدایات نامہ‘ (چھبیس فروری کی شب‘ سیکرٹری صحت کے دستخطوں سے) جاری ہوا‘ جس کا عنوان ’کورونا وائرس: حفظ ماتقدم (Precaustions - Corona Virus)‘ رکھا گیا ہے اُور اِس کے ذریعے صوبائی سطح پر علاج معالجے کے تمام مراکز اُور ماتحت اداروں کے منتظمین کو آگاہ (خبردار) کر دیا گیا ہے لیکن ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ طب سے تعلیم سے جڑے نجی تعلیمی اِداروں کو بھی مخاطب کیا جائے اُور اِس سلسلے میں الگ سے غوروخوض کیا جائے۔ حکومت ذرائع ابلاغ کا استعمال کب کرے گی جبکہ ’کورونا وائرس‘ کے اکا دکا کیسیز ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ توجہات مرکوز رہیں کہ ایسے تدریسی مراکز جہاں طلباءو طالبات مقیم (ہاسٹل) رہتے ہیں اُور چاہے اُن کا تعلق طب یا کسی بھی دوسرے اعلیٰ و ادنیٰ تعلیمی نظم وضبط سے ہے‘ ضروری ہو گیا ہے کہ وہاں کورونا وائرس سے بچاو اُور اِس کے ممکنہ ظہور کی صورت الگ الگ حکمت عملیاں وضع اُور لاگو کی جائیں۔
کورونا وائرس کے پاکستان میں ظاہر ہونے کے بعد سے صورتحال عوامی تشویش کی حد تک تو سنگین دکھائی دیتی ہے لیکن اِس سلسلے میں وفاقی اُور صوبائی حکومتوں کی جانب سے تاحال ’یومیہ حالات نامہ (daily-briefing)‘ کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ تصور محال نہیں کہ ایک ایسی حکومت کہ جو آٹے‘ چینی اُور دیگر خوردنی اجناس جیسی نظر آنے والی چیزوں کی قیمت‘ غیرقانونی ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی (ناجائز منافع خوری اُور اِن کی غیرقانونی نقل و حمل کنٹرول کرنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کر چکی ہو‘ اُس سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ ’کورونا وائرس‘ جیسے نہ نظر آنے والے خطرے کے خدانخواستہ وبا کی صورت پھیلانے (پھوٹ پڑنے) کی صورت خاطرخواہ بڑے پیمانے پر اقدامات کرے گی یقینا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ بہرحال سوائے عام آدمی (ہم عوام) کے پاس اِس کے علاو ¿ہ کوئی دوسری صورت (آپشن) نہیں رہا لیکن ’حفظ ماتقدم‘ کے طور پر سامنے آنے والی خیبرپختونخوا حکومت کے محکمہ ¿ صحت کی ہدایات (نصیحتوں) پر عمل کیا جائے جو کہتا ہے کہ
1: دفاتر اُور سماجی سطح پر ایک دوسرے بغل گیر ہونے اُور ہاتھ ملانے (معانقہ و مصافحہ) جیسے روایتی روزمرہ اقدامات (معمولات) سے اجتناب برتا جائے۔
2: تمام دفاتر میں ’بائیو میٹرک شناخت (انگوٹھے کی مدد سے) حاضری لگانے کا طریقہ کار (تاحکم ثانی) معطل رکھا جائے۔
3: سیڑھیوں اُور در و دیوار پر لگے ہوئے آلات‘ ریلنگز‘ کھڑکیوں کے دستوں (ہینڈلز) کو بلاضرورت نہ چھو جائے اُور ضرورت پڑنے پر اِنہیں ننگے ہاتھوں سے نہ چھوا جائے۔ دفاتر کے اوقات میں دروازے کھلے رکھے جائیں تاکہ دفتری ملازمین اُور رجوع کرنے والے سائلین کو بار بار اِنہیں کھولنے یا بند کرنے (چھونے) کی ضرورت نہ پڑے۔
4: اِسی طرح کے حفاظتی اقدامات و انتظامات اُن آلات کے لئے بھی اختیار کئے جائیں جن کا استعمال انتہائی ضروری ہے جیسا کہ کمپیوٹرز‘ فیکس مشین‘ ٹیلی فون وغیرہ لیکن اِنہیں چھونے سے اوّل الذکر احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھا جائے۔ وہ سبھی ملازمین جن کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے الیکٹرانک آلات کا استعمال کرتے ہیں‘ اُنہیں چاہئے کہ وہ کپڑے یا ربڑ کے ایسے دستانے (gloves) کا استعمال کریں جنہیں ایک بار استعمال کے بعد پھینکنا ممکن ہو۔ ایسے ڈسپوزبل دستانے (disposible-gloves) مارکیٹ میں باآسانی اُور ارزاں دستیاب ہوتے ہیں (جن کی قیمت یقینا انسانی جان سے زیادہ نہیں ہے)۔
5: اپنے گردوپیش پر نظر رکھی جائے۔ اگر کسی شخص کا جسمانی درجہ ¿ حرارت اچانک بڑھ جائے۔ اُسے متواتر کھانسی ہو۔ اُسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو رہا ہو یا ہونے لگے اُور یہ علامات اچانک ظاہر ہو کر بڑھ رہی ہوں تو ایسے فرد (مرد یا عورت یا بچے) کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہو گی‘ تاہم کسی بھی قسم کی ابتدائی طبی امداد سے پہلے ضرورت ہوگی کہ مشتبہ علیل شخص (مرد یا عورت) کو صحت مند افراد سے الگ رکھا جائے۔ گردوپیش میں زکام یا کھانسی کی علامات رکھنے والے افراد کو تمام وقت چہرے پر ماسک (Mask) پہننے کا مشورہ دیا جائے اُور اِس پابندی کو لازماً و عملا ممکن بنایا جائے کہ وہ ہر وقت اپنے چہرے کو ڈھانپے رہے۔ ایک ماسک زیادہ سے زیادہ ایک ہی دن استعمال ہونا چاہئے۔
6: کپڑے سے بنے ہوئے تولیے (towel) جہاں کہیں بھی زیراستعمال ہیں‘ اُن کی جگہ کاغذ کے ٹشو رکھے جائیں (جنہیں ایک مرتبہ استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔)
7: جہاں کہیں نزلہ‘ زکام‘ کھانسی اُور بخار جیسی علامات ظاہر ہوں یا معلوم ہوں تو ایسے شخص کو فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہئے یا ایسے شخص کو لازماً طبی معاینے کے لئے قریبی ہسپتال لیجایا جائے۔
8: ہاتھ دھونے کی عادت اپنائی جائے۔ ہاتھ دھوتے وقت صابن کا استعمال کیا جائے۔ ہر تین سے چار گھنٹے کے بعد ایک مرتبہ صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں۔ ہاتھ دھونے کا دورانیہ کم سے کم20 سیکنڈ ہونا چاہئے۔ (عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ ہاتھوں کو پانی سے بھگونے کے فوراً بعد خشک کر لیا جاتا ہے لیکن بہتے ہوئے پانی کے نیچے یا ہاتھوں کو تر کر کے اُور صابن لگا کر چند منٹ اُنگلیوں کا خلال کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ یہی وضو کرنے کا شرعی طریقہ بھی ہے‘ جس کی تعلیم و ترغیب مسجد و منبر اُور حجرے کے علاوہ سماجی رابطہ کاری کی وسائل (سوشل میڈیا) پر مشتہر ہونی چاہئے۔)
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کی جانب سے مذکورہ ’8 ہدایات‘ جاری کرتے ہوئے سیکرٹری عابد مجید کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر ضروری ہوا‘ تو اِس سلسلے میں مزید ہدایات جاری کی جائیں گی۔
تعجب خیز ہے کہ
خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے 8 نکاتی ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے اُن تفصیلات و انتظامات (حکمت عملی) کا کہیں ذکر نہیں کیا جو ’کورونا وائرس‘ کے پھیلنے یا خیبرپختونخوا کے بڑے شہروں بشمول صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ اِس قسم کی عمومی ہدایات عالمی ادارہ صحت پہلے ہی جاری کر چکا ہے اُور سوشل میڈیا کے ذریعے اِس سے کہیں زیادہ اُور بہتر حفاظتی تدابیر سے متعلق عمومی خواندگی کی سطح کو ایک درجہ بلند کیا گیا ہے۔ وفاقی اُور صوبائی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ عوام کو حفظ ماتقدم کے طور پر خبردار کرنے کی بجائے اپنی اُن ذمہ داریوں (فرائض) کا کماحقہ احساس کریں جن کے ذریعے وہ بیماری کے پھیلاو اُور اِس سے متاثرہ افراد کی تسلی و تشفی اُور خوف سے رہائی کے لئے کر سکتے ہیں!
دنیا کے 38 ممالک ’کورونا وائرس‘ (ایک لاعلاج مرض) سے نمٹ رہے ہیں اُور پاکستان اکیلا ایسا ملک نہیں کہ جہاں کورونا نامی جرثومے سے متاثرہ پہلے چند افراد (کیسیز) سامنے آ چکے ہیں لیکن دیگر سبھی ممالک اُور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ وہاں وفاقی اُور صوبائی متعلقہ محکمے علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے اُور ہنگامی بنیادوں پر الگ سے انتظامات کر رہے ہیں۔ ادارے متحرک ہیں۔ حکمرانوں کی نیند اُڑی ہوئی ہے۔ راتوں رات نئے ہسپتال بنا دیئے گئے ہیں۔ آبادیوں سے دور خیمہ بستیوں میں ہسپتال بنا کر متاثرہ مریضوں کو شہروں سے دور لیجایا جا رہا ہے۔ طبی عملے کی تعداد اُور علاج معالجے کے وسائل میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں زبانی کلامی باتوں اُور گھریلو ٹوٹکوں سے ایک ایسے ’وائرس‘ کو شکست دینے کی سوچ پائی جاتی ہے‘ جو شاید بطور قومی یا صوبائی حکمت عملی کافی نہیں!
لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان اپنی زمینی سرحدیں بند کرنے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان اُن ممالک سے آنے والی پروازوں کو بھی تاحال بند کر سکا ہے جہاں کورونا وائرس کی موجودگی اُور بڑے پیمانے پر پھیلنے کا عمل جاری ہے اُور پاکستان نے بحری راستے سے ہونے والی اُس نقل و حمل اُور نقل و حرکت کو روکنا تاحال ضروری نہیں سمجھا ہے‘ جو ملک میں کورونا کے پہنچنے کا باعث بن سکتی ہے۔ کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ چھوٹے بڑے عوامی (و عمومی) اجتماعات‘ حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقاریب کی صورت بہت سے لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے عوام کو مطلع کیا جائے۔ سعودی عرب نے کورونا سے متاثرہ ممالک سے عمرہ زائرین پر پابندی عائد کر دی ہے اُور وہاں کے علماءاِس مطالبے کا بھی جائزہ لے رہے کہ کورونا وائرس جیسے ہنگامی حالات میں کیا حج کی سالانہ اِس سال عبادت منسوخ کر دینی چاہئے!