Wednesday, May 31, 2017

May2017: Education, the most misunderstood subject!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محکوم تعلیم!
نجی سکول کی جانب سے والدین کو ’سٹامپ پیپرز‘ پر یہ تحریر بطور ’بیان حلفی‘ جمع کرانے کا حکم دیا گیا کہ سکول کے داخلی امتحانات میں اگر اُن کے بچے (بچوں) نے ایک خاص تناسب سے کم نمبر حاصل کئے تو انہیں سکول سے خارج کر دیا جائے گا اور والدین کو سکول انتظامیہ کے اِس یکطرفہ فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا یعنی بچوں کی ذہنی قابلیت و استعداد اگر سکول کے کم سے کم معیار پر پوری نہ اُتری تو ایسے بچوں کے نام ’امتحانی بورڈز‘ میں بطور اُمیدوار ارسال نہیں کئے جائیں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی کسی ادارے کی جانب سے پہلی مرتبہ اِس قسم کے غیرقانونی و غیراخلاقی ’بیان حلفی‘ کا تقاضا کیا گیا۔ 

عمومی رجحان یہی ہے کہ داخلہ (ایڈمیشنز) کے وقت سے لیکر سال بہ سال ایسے بیان حلفی طلب کئے جاتے رہتے ہیں‘ جو اِس بات کا ثبوت ہیں کہ سکولوں کی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کے لئے کسی بھی فورم پر خوابدہی کے لئے تیار نہیں۔ اِس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون کے تحت کسی بھی پاکستانی کو اُس کے آئینی حقوق سے یوں کھڑے کھڑے اور مجبوری کی حالت میں تو بالخصوص محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے خلاف کسی فیصلے کے حوالے سے قانون یا عدالت سے رجوع نہیں کرے گا۔ دوئم سکول انتظامیہ کو اِس قسم کے بیان حلفی لینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ درس و تدریس کے عمل میں اپنی خامیوں (ناکامیوں) کا ملبہ طلباء و طالبات پر ڈال کر گلوخلاصی کی جا رہی ہو؟ سوئم آخر یہ کس طرح تصور کر لیا گیا ہے کہ ہر بچہ ’ارسطو‘ اور ’افلاطون‘ کی طرح ذہین ہوگا اور اگر طلب علم پر آمادہ بچہ کسی وجہ سے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے ہیں تو اُس کی شخصیت سازی اور دوسروں کے برابر لانے کی ذمہ داری اگر اساتذہ کی نہیں تو پھر کس کی ہے؟ کیونکہ والدین اساتذہ کو اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنا پیٹ کاٹ کر ادائیگیاں کرتے ہیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ سکولوں کو من مانی ٹیوشن فیسیں اور دیگر مدوں میں وصولیاں کرنے کی کھلی چھوٹ کیوں دے گئی ہے؟ خیبرپختونخوا کی حدود میں فعال ہر نجی سکول چاہے وہ کسی بھی امتحانی بورڈ سے منسلک ہو‘ صوبائی حکومت کے فرمان تابع اور زیرکنٹرول ہونا چاہئے اور اگر اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہے تو بھی یہ عام آدمی کا کام نہیں۔ ماہانہ ٹیوشن فیسوں سمیت جملہ وصولیوں یا تدریسی پالیسیوں کے حوالے سے صوبائی حکومت یا متعلقہ محکمے سے اجازت لینا ایک ایسی ضرورت ہے جس سے تعلیم کے عمل کو آزاد و زیادہ بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔

تعلیم کے بارے میں ہمارے ہاں نجی و سرکاری اداروں کی سوچ میں کمال مماثلت بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سبھی امتحانات کے پیمانے (کسوٹی) پر طلباء و طالبات کی ذہانت و قابلیت اور اہلیت کی جانچ کرتے ہیں۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا عمومی تصور (مفروضہ) یہ بھی ہے کہ ’تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو نوکری نہیں ملے گی اور اگر نوکری نہیں ملے گی تو گھر کی کفالت کیسے ممکن ہوگی؟‘ ہمارے ہاں ’تعلیم‘ کا عمل نہ صرف اختلافی نوٹ بلکہ محکوم ہونے کی حد تک زوال پذیر بھی ہے۔ کیا تعلیم نصابی کتب کو رٹنے کا نام ہے؟ 

ڈگریوں جمع کرنے یا کتابوں اور تجربات پر زندگی کی حقیقت تک رسائی میں سے کس کا انتخاب ہونا چاہئے؟ 

کیا تعلیم کمانے کی کنجی (ذریعہ) ہے اور اس کا انسانی زندگی و شخصیت اور افکار و تخیلات کی تخلیقِ سے کوئی تعلق (واسطہ) نہیں؟ مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’میں نے کبھی بھی اپنی تعلیم کو اپنی سیکھنے کے عمل پر حاوی ہونے نہیں دیا!‘‘ 

گمان نہیں یقین یہی ہے کہ تعلیم کسی ادارے‘ سکول‘ کالج یا یونیورسٹی کی محتاج نہیں البتہ یہ اِن وسیلوں سے علم کی شناخت‘ عرفان اور سمت کا تعین میں مدد دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے عالم و جاہل میں تمیز ممکن ہو۔ خود تعلیمی اداروں نے تسلیم کر لیا ہے (ہار مان لی ہے) کہ ہمارا نصاب تعلیم اِس خوبی سے عاری ہے کہ اس کے ذریعے ذہانت کے ایک جیسے معیار کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ پاکستان میں کل تین کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ طالب علم نصابی تعلیم سے منسلک ہیں۔ ان کا تعلق سائنس‘ آرٹس‘ کامرس اور میڈیکل و انجنیرئنگ کے شبعوں سے ہے۔ یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد بھی کم نہیں بلکہ قریب ساڑھے چار لاکھ ہے جن کا ہدف کہ وہ راتوں رات کامیاب و امیر بن جائیں! کہ یہی کامیابی کا معیار سمجھ لیا گیا ہے!

تصور کیجئے کہ ریاست نے ’تعلیم‘ کو انفرادی کوشش اور محنت کا لیبل دے دیا ہے کہ پڑھے لکھنے ہونے کا معیار بس یہ ہے کہ انجینئر‘ ڈاکٹر یا اکاونٹنٹ بننے کے لئے انجینئرنگ‘ میڈیکل یا کامرس سے متعلق مضامین پڑھے جائیں۔ اس رجحان کی اگر کوئی پیروی کر رہا ہو تو اسے بالکل حیرت نہیں ہوگی کہ ریاست کس طرح ان تعلیمی اداروں کے درمیان مارکس اور گریڈ کی دوڑ میں اچھے اور ہائی گریڈ انجینئر اور اکاونٹنٹ دریافت کر رہی ہے یعنی اچھے نمبر اور اچھی نوکری لیکن کیا سبھی اچھے نمبر حاصل کرنے والوں کو اچھی ملازمتیں مل پاتی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو امتیازی نمبروں سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کامیاب ہونے والوں میں سے قریب پینتیس فیصد تعداد بے روزگار کیوں ہے؟ 

تعلیم کے ساتھ طلباء و طالبات میں رجحان سازی اور اُن کی تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ نصابی تعلیم کی سیدھی لکیر سے ہٹ کر تعمیری کردار ناپید ہوچکے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں فکرِ معاش کے اندھیروں میں گم دکھائی دیتی ہے۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کچھ عرصے میں صرف کتابوں کی حد تک ہی محدود ہو جائیں گے جس سے معاشرہ عدم توازن کا یونہی شکار (دوچار) رہے گا اور تعلیم ایک کاروبار و صنعت کے طور پر حسب روایت کھڑے کھڑے پرواز (ترقی) کرتی چلی جائے گی! 

تعلیم کے بارے میں فکروعمل تبدیل کئے بناء کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ اٹھانے والے ’اچھے مزدور‘ تو حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ایسے اچھے انسان نہیں‘ جن کے ہاتھوں میں پاکستان کی ترقی کا عمل عصری ضروریات کے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے!

Tuesday, May 30, 2017

May2017: Strike of Doctors in Ayub Medical Institute Abbottabad


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
منتظر ساعتیں!

خیبرپختونخوا میں ڈاکٹروں اُور محکمۂ صحت کے درمیان ’اختلافات و تنازعات‘ کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کا نظام بُری طرح متاثر ہو رہا ہے اُور اگر بالخصوص ایبٹ آباد کے ’ایوب میڈیکل اِنسٹی ٹیوٹ‘ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو چھ روز سے جاری ہڑتال 29 مئی کو ساتویں روز میں داخل ہوئی اور ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اِس عرصے میں ’علاج معالجہ معطل‘ ہونے کے سبب 75 سے زیادہ اموات ہوئیں جبکہ عمومی طور پر اِس عرصے میں اوسطاً بیس سے پچیس اموات ریکارڈ ہوتی تھیں۔ جہاں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ‘ سرکاری سکولوں میں تعلیم معیاری نہ ہو اور جہاں کے حکمرانوں کو اِن ’بحرانی مسائل‘ کے حل کی فرصت (توفیق) بھی نہ ہو تو اِس طرزحکمرانی کو کیا نام دیا جائے؟ 


تیئس مئی سے ایبٹ آباد کے ڈاکٹرز اپنی کیمونٹی سے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی سطح پر جاری احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں اور اضافی طور پر مطالبات پیش کئے بیٹھے ہیں کہ ’ایوب میڈیکل انسٹی ٹیوٹ‘ کے انتظامی نگرانوں (بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین اور سیکرٹری) کو برطرف کیا جائے‘ جن پر مبینہ طور پر مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات ایک عرصے سے عائد کئے جا رہے ہیں لیکن اُن کا نوٹس نہ تو صوبائی حکومت لے رہی ہے اور نہ ہی ’بدعنوانی سے پاک اور احتساب کی علمبردار‘ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اِس سلسلے میں دلچسپی لے رہی ہے کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟! ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری‘‘ نہ ہوتی تو اب تک ایک سے زیادہ تحقیقاتی کمیٹیاں بنا کر حقائق عوام کے سامنے پیش کر دیئے جاتے لیکن ایک طرف ’’مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانے والے ’علی الاعلان‘ الزامات عائد کر رہے ہیں تو یقیناًاُن کے پاس ثبوت بھی ہوں گے اور دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں کے معاملات کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنے والوں کے پاس مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا کوئی بھی جواز ’معقول‘ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ کسی جمہوری معاشرے میں اگر حکومت عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مسائل و مشکلات کا سبب بننے والے کرداروں اور محرکات سے نمٹنا نہیں جانتی تو اِس سے زیادہ قابل مذمت طرزعمل کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔

ہر منصب عالیہ کی اپنی اخلاقی و آئینی ذمہ داریاں اور فرائض ہوتے ہیں۔ منصب جتنا بڑا ہوگا‘ واجب الادأ ذمہ داریاں بھی اُسی قدر زیادہ ہوں گی۔ اگر ہمارے تعلیمی اداروں سے صرف اعلیٰ تعلیم کی اسناد (ڈگریاں) جاری کرنے کا معمول نہ ہوتا تو ہمارے اردگرد صرف پڑھے لکھے نہیں بلکہ فرض شناس (تعلیم یافتہ) انسانوں کی کثرت ہوتی۔ ایسے انسانوں کی کثرت جو اپنی طرح دوسروں کو بھی انسان سمجھتے اور جنہیں اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی مشکلات و تکالیف کا احساس ہوتا۔ ڈاکٹر مسیحا ہیں‘ باشعور ہیں اور منصب مسیحائی کے تقاضے اُن سے زیادہ بہتر انداز میں کون سمجھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر جانتے ہیں کہ سرکاری علاج گاہوں سے ملک کے سیاسی و غیرسیاسی بااثر طبقات اور سرمایہ دار رجوع نہیں کرتے بلکہ وہ عام آدمی (ہم عوام) صحت و زندگی کی تمنا لیکر اُن کے در پر آتا ہے جو مالی وسائل یا رہنمائی کے لئے محتاج ہوتا ہے۔ دوسری جانب حکمرانوں کو اپنے منصب سے جڑی ذمہ داریوں اور فرائض پر نظر کرنی چاہئے کہ آخر ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کو احتجاج کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ اگر اِحتجاج کے درپردہ کوئی مخالف سیاسی قوت تحریک انصاف حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہے تو کیا اِس سازش کو بے نقاب (ناکام) کرنا صوبائی حکومت ہی کی ذمہ داری نہیں؟


اجتماعی طور پر خیبرپختونخوا کے (ینگ) ڈاکٹروں نے دو بنیادی مطالبات پیش کئے ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ شاطرانہ انداز میں ایک جائز مطالبے کی آڑ میں دوسرا ناجائز (غیراخلاقی اور غیرآئینی) مطالبے کے لئے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے‘ جسے من و عن تسلیم کرنا صوبائی حکومت کے لئے ناممکن حد تک دشوار ہے اور اگر وہ بادلنخواستہ تسلیم کر بھی لیتی ہے تو اِس سے (ماضی کی طرح) سرکاری علاج گاہوں میں ڈاکٹروں کی کم سے کم ’بروقت حاضری‘ یقینی بنانا ممکن نہیں رہے گا۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت وفات پانے والے ڈاکٹروں کے لواحقین کو مالی امداد دے‘ دوران ملازمت وفات پانے والے ڈاکٹروں کے اہل خانہ کا سہارا بنے اور ڈاکٹروں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انگوٹھے کے نشان سے ڈاکٹروں کی حاضری (بائیومیٹرک تصدیق) رجسٹر کرنے کی بجائے انہیں رعائت دی جائے کہ وہ ماضی کی طرح جب چاہیں اور جس وقت چاہیں‘ ہسپتال قدم رنجہ فرمائیں‘ یا خود ہی اِس بات کا تعین کریں کہ اُن کی ’آمدورفت‘ کے اوقات کیا ہوں گے۔ (توجہ برقرار رہے کہ یہاں لفظ ’آمدورفت‘ کا استعمال کیا گیا کیونکہ ڈاکٹروں کی سرکاری ہسپتالوں میں موجودگی اِس بات کی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ اِس دوران مریضوں کا معائنہ کریں گے یا اپنی تعلیمی قابلیت‘ اہلیت اور مہارت پر مبنی جنس کی قیمت کا ازخود تعین کریں گے۔) دیکھا جائے تو کسی بھی سرکاری ملازم کو ملازمت یا عوام کے منتخب نمائندوں کو فیصلہ سازی و حکمرانی کا اختیار ملنے کے بعد انہیں نہ تو اوقات کار کی پابندی پسند ہوتی ہے اور نہ ہی یہ اپنی کارکردگی کے لئے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت اِس منفی و عمومی معاشرتی رویئے کی بڑی وجہ وہ خاص ’طرزفکروعمل (مائنڈسیٹ)‘ ہے جس کی دیکھا دیکھی پیروی کرنے والوں کو درحقیقت ملک و قوم کی جانب سے دی جانے والی ’’عزت راس نہیں آتی!‘‘ ہر سرکاری ملازم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُس کی کارکردگی پر کم سے کم نگرانی ہو اور باقاعدگی سے حاضری کے اوقات تو مقرر نہیں ہونے چاہیءں یا اُن پر سختی سے عمل درآمد تو بالکل بھی قابل قبول نہیں ہوتا! 


خیبرپختونخوا میں صرف ڈاکٹر ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ ملازمتی حالات کار اُور اُوقات کار کے بارے میں اِسی قسم کے مطالبات سرکاری ہسپتالوں کے معاون طبی عملے کی جانب سے بھی پیش ہیں۔ قصوروار نہ ہونے کے باوجود عام آدمی (ہم عوام) کی نہ تو کوئی عزت ہے اور نہ ہی حقوق و استحقاق۔ جس کی تمام زندگی دکھوں اور موت بیماریوں کی اذیت جھیلنے کا نام ہو‘ اُس کے لئے ’استحصالی نظام کب ’تبدیل‘ ہوگا؟ تضاد یہ ہے کہ جب یہی اور اِن جیسے احتجاج پر آمادہ ڈاکٹر اور اِن کے معاونین نجی ہسپتالوں سے اپنی خدمات کا معاہدہ کرتے ہیں تو اُن کے قواعد و ضوابط کی سختی سے پابندی کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں جہاں بروقت اور ہر سال ماہانہ تنخواہوں میں اضافے کے علاؤہ ڈاکٹروں کو دیگر مساوی گریڈ کے ملازمین سے زیادہ مراعات اور بعدازملازمت تاحیات مالی سپورٹ (پینشن) کی ضمانت اور معاشرہ عزت نچھاوڑ کرتا ہے تو کیا یہ سب تعظیم (آؤ بھگت) ناکافی (بے معنی) ہے؟

Monday, May 29, 2017

TRANSLATION: Has Poplazai been vindicated this time? by Rahimullah Yusufzai


Moon-sighting: Has Poplazai been vindicated this time

رویت ہلال: اصولی مؤقف!
ستائیس مئی کی شام غروب آفتاب کے ساتھ ہی ماہ رمضان المبارک کا ’روشن اور واضح‘ چاند آسمان میں نمایاں طور پر دکھائی دے رہا تھا جسے دیکھ کر خیبرپختونخوا میں اُن تمام لوگوں نے اطمینان محسوس کیا جنہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی اعلان سے ایک روز قبل قدرے ہکچاہٹ میں روزہ رکھا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کی شام مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کہیں بھی نئے اسلامی مہینے کا چاند دکھائی نہیں دیا‘ اِس لئے پہلا روزہ بروز اتوار اٹھائیس مئی کو ہوگا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا یہ فیصلہ ہفتہ کی شام نمودار ہونے والے چاند کو دیکھتے ہوئے غلط محسوس ہوا کیونکہ چاند کی عمر ایک دن سے زیادہ دکھائی دے رہی تھی اور یقیناًایسی صورت میں ممکن تھا کہ چھبیس مئی (جمعہ) کی شام بھی تیز نظر اور دلچسپی رکھنے والے چاند کی رویت کر لیتے۔ 



روایت رہی ہے کہ غیرسرکاری ’رویت ہلال کمیٹی‘ کے سربراہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہر سال پشاور کی مسجد قاسم علی خان میں ’چاند دیکھنے کے لئے کمیٹی‘ کا اجلاس طلب کرتے ہیں اور ستائیس مئی کو یکم رمضان المبارک کا تعین کرنے کے فیصلے پر مہر تصدیق ہفتے کی شام نمودار ہونے والے ’چمکتے دمکتے‘ چاند نے ثبت کر دی۔ مذکورہ غیرسرکاری رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے چاند نظر آنے کا فیصلہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے تن تنہا نہیں کیا بلکہ معتبر علماء پر مشتمل ایک جماعت نے شہادتوں کی جانچ پڑتال کے شرعی اصولوں اور تسلی بخش تصدیق کے بعد رمضان کے چاند نظر آنے پر اتفاق رائے کیا۔ یقینی طور پر یہ ایک غیرمعمولی اور حساس مذہبی ذمہ داری ہے اور یہ فیصلہ کسی بھی صورت آسانی سے نہیں کیا ہوگا بالخصوص ایک ایسی صورتحال میں جبکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے چاند نظر نہ آنے کا اعلان جلدی میں کر دیا گیا۔ 

حسب معمول مفتی منیب الرحمن اور مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے اُن کے ساتھیوں پر مشتمل ’سرکاری رویت ہلال کمیٹی‘ نے خیبرپختونخوا سے چاند نظر آنے کی شہادتوں کا انتظار کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ حتی کہ سرکاری حیثیت رکھنے والی ’زونل رویت ہلال کمیٹی‘ کا اجلاس جو کہ پشاور میں ہوا‘ اُنہوں نے بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو اُن 12 افراد کی شہادتوں سے مطلع نہیں کیا جو اُن کے روبرو چھبیس مئی (بروز جمعہ) کی شام پیش ہوئے تھے۔ درحقیقت خیبرپختونخوا کی اکثریت مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر اعتماد ہی نہیں کرتی اور اِن کے مقابلے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی قیادت میں غیرسرکاری اور غیرقانونی طور پر کام کرنے والی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کرتی ہے۔ اِس غیرسرکاری کمیٹی سے خیبرپختونخوا و متصل قبائلی علاقہ جات کے قریب سبھی علاقوں سے علماء اور عام لوگ رابطہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے علاقے میں چاند کے نظر آنے کی شہادتیں پیش کرتے ہیں جو شرعی طور پر نئے اسلامی مہینے کے چاند دکھائی دینے کے طریقۂ کار کا حصہ ہے۔ اگر کمیٹی کے اراکین کو تسلی ہو جائے کہ شہادت مصدقہ اور ٹھوس ہے تو وہ بخوشی رمضان المبارک یا شوال المکرم کا چاند نظر آنے کا اعلان کر دیتے ہیں جو بعدازاں گاؤں گاؤں مساجد کے لاؤڈاسپیکرز اور دیگر ذرائع سے پہنچ جاتا ہے۔



اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی اور اُن کی کمیٹی کی جانب سے نئے اسلامی مہینے کے چاند نظر آنے یا نہ آنے کے اعلان پر پورے خیبرپختونخوا اور قبائلی میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور بالخصوص ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں رہنے والوں کی اکثریت مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر اعتماد کرتی ہے لیکن یہ امر واضح ہے کہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے رہنے والوں کی بڑی تعداد کو ’مفتی شہاب الدین پوپلزئی‘ کے اعلان کا انتظار ہوتا ہے اور نظریں مسجد قاسم علی خان پر لگی رہتی ہیں۔ 

نئے اسلامی مہینے کے چاند نظر آنے یا نہ آنے کے معاملے پر افراق و تفریق اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک وفاقی حکومت رویت ہلال کے مسئلے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تمام فریقین (اسٹیک ہولڈرز) کو کسی ایسے فیصلہ سازی کے طریقہ کار پر رضامند نہیں کر لیتی جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے بارے میں یہ منفی تاثر بھی زائل ہوا ہے کہ اُن پر غیرسرکاری رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد نہ کرنے کے لئے حکومتی دباؤ ہے اور اِس قسم کی اطلاعات بھی زیرگردش رہیں کہ کسی سمجھوتے کے تحت وہ اس سال مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے برخلاف اعلان نہیں کریں گے۔ 

رویت ہلال کے غیرسرکاری اعلان سے اُن تمام افراد کو مایوسی ہوئی جن کی خواہش تھی کہ ملک بھر میں ماہ رمضان المبارک ایک ہی دن شروع ہوتا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اتوار کی بجائے ہفتے کے روز ’رمضان المبارک‘ کے آغازکو درست اقدام سمجھتا ہے کیونکہ ہفتہ کی شام نمودار ہونے والا روشن اور واضح چاند کسی بھی طرح ایک دن سے زیادہ عمر کا تھا اور اِسی بنیاد پر اُن کی یہ منطقی دلیل بھی سامنے آئی کہ پاکستان بھر ماہ رمضان المبارک کا آغاز ’ہفتہ‘ کے دن ہونا چاہئے تھا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رحیم اللہ یوسفزئی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

May2017: BELATED RESPONSE: The Power Projects in KP!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
محدود و مشکوک ترقی!
خیبرپختونخوا میں سستی (پن) بجلی کے پیداواری منصوبوں کے لاتعداد امکانات کی موجودگی سے زیادہ یہ بات ’خبر‘ ہے کہ حکومت کو اِس بات کا احساس ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت آئندہ مالی سال میں توانائی بحران کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار اِس کا حل پیش کرنے کی صورت قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہے لیکن مسئلہ مالی وسائل کی کمی اور وفاق کے سوتیلے پن کا ہے۔ 

خیبرپختونخوا میں پن بجلی کے منصوبوں سمیت جملہ تعمیروترقی کے لئے مالی وسائل کی فراہمی اور تکنیکی سرپرستی کی بجائے ’وفاقی حکومت‘ کا رویہ شروع دن ہی سے ’غیرشاعرانہ‘ رہا ہے اور بالخصوص جب سے ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت حکمراں خاندان کی مشکوک مالی حیثیت کے بارے عدالتوں میں سوالات اُٹھے ہیں تب سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (نواز) کے درمیان اختلاف کی خلیج میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اختیارات اور حدود میں کس طرح عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات پس پشت رکھ سکتی ہیں‘ لیکن اگر ’سیاسی عناد‘ (مخالفت) کے سبب ایسا ہو رہا ہے تو کم سے کم اِس خواہش کا اظہار تو کیا جا سکتا ہے کہ ’برائے مہربانی ایسا نہ کیا جائے!‘ 

خیبرپختونخوا کو سزا دینے والوں میں خود ’تحریک انصاف‘ کی صوبائی قیادت بھی پیش پیش ہے‘ جس نے پارٹی کی قومی پالیسی کے آگے ’سب سے قیمتی شے‘ کی قربانی پیش کر دی اور اب اُسے ’پانامہ کیس‘ کے کسی ایسے فیصلے کا انتظار ہے جو آئندہ عام انتخابات کا نعرہ بن سکے۔ خیبرپختونخوا کو درپیش مسائل اور بالخصوص امن و امان کی صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ کسی دوسرے صوبے میں مرکز اور قومی امور میں سیاسی دلچسپیاں رکھنے والوں کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے بلکہ صوبے کے اپنے وسائل اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کرنے میں عافیت تھی جس سے وفاقی حکومت سے تصادم کی بجائے ’افہام و تفہیم‘ اور ’باہمی احترام‘ کی بنیادوں پر اُس ’نئے خیبرپختونخوا‘ کے تصور کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا جو کسی صوبے یا وفاق کے خلاف سازش کے طور پر نہیں بلکہ ایک مضبوط و مستحکم پاکستان کی آج بھی اولین ضرورت ہے۔

آئندہ ’مالی سال برائے 2017-18ء کے صوبائی بجٹ‘ میں تعلیم و صحت کے بعد بجلی کے پیداواری منصوبوں کو اہمیت دی گئی ہے اور اِس مقصد کے لئے کل 57 ترقیاتی منصوبوں کو خیبرپختونخوا کے ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل کیا گیا ہے جن میں چوبیس نئے اور تینتیس جاری منصوبوں کے لئے ’دوسو ارب روپے‘ سے زائد مختص کئے گئے ہیں‘ ان میں 50ارب جاری اور 159 ارب روپے ایسے نئے منصوبوں کے لئے جاری ہوں گے جن سے خیبرپختونخوا کو مستقبل میں آمدنی کا ایک پائیدار ذریعہ بھی حاصل ہوگا۔ ماضی میں ’ہائیڈل ڈویلپمنٹ فنڈ‘ کا محکمہ ’خیبرپختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ فنڈ‘ کے نام سے کام کر رہا ہے جو صوبائی خزانے اور غیرملکی وسائل سے حاصل ہونے والے سرمائے سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کی کھوج اور انہیں عملی جامہ پہنانے جیسی ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت کے آخری مالی سال کے بجٹ میں جس انداز کا ’ترقیاتی نقشہ‘ پیش کیا گیا ہے اگر یہی فکروعمل‘ جذبہ‘ توانائی‘ جنون اُور کارکردگی پہلے مالی سال سے دیکھنے کو ملتی‘ تو آج جس 1123 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی اُمیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں آج ہم اِن اہداف کے حصول کے بہت قریب ہو چکے ہوتے! بہرحال حکمت عملی بجلی کے صوبائی پیداواری مجوزہ منصوبوں میں پن بجلی‘ تیل و گیس اور شمسی توانائی سے استفادہ کیا جائے گا۔ قابل ذکر پن بجلی کے تین بڑے منصوبوں میں 300میگاواٹ کا بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ 47میگاواٹ کا بریکوٹ پیٹراک ہائیڈرو پراجیکٹ اور 22 میگاواٹ کا پٹراک شیرنگل ہائیڈرو پاور شامل ہیں جن میں سے بالاکوٹ منصوبے کے لئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک 80فیصد جبکہ دیگر دو منصوبوں کی مالی ضروریات کے لئے ورلڈ بینک کل اخراجات کا 80فیصد ادا کرے گا۔ نئے مالی سال میں خیبرپختونخوا حکومت ایک ہزار مساجد کو شمسی توانائی سے روشن کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے جس کے لئے 96 ارب سے زیادہ (967.6ملین) روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔

اٹھائیس مئی کو پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر انجنیئر امیر مقام نے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ ’’صوبائی حکومت اُس ایک میگاواٹ بجلی کے بارے میں پہلے بتائیں جو اُنہوں نے چار سال میں تیار کی ہے!‘‘ یہ ایک چھبتا ہوا سوال (اعتراض) ہے اور اب صوبائی حکومت کے فیصلہ سازوں کو احساس ہو رہا ہوگا کہ اُنہوں نے کس قدر تیزی سے وقت ضائع کیا! ترقی کا کوئی بھی خاکہ (تصور) اور کسی بھی درجے کی حکمت عملی کے خاطرخواہ عملی نتائج کا تعلق اُن کی حسب منصوبہ بندی تکمیل پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ جس طرح ماضی کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو موجودہ صوبائی حکومت نے جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھا‘ بالکل اسی روش پر چلتے ہوئے مستقبل کی حکومتیں بھی اُن تمام منصوبوں کی بساط لپیٹ سکتی ہیں‘ جو تحریک انصاف کے انتخابی منشور کا حصہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ہاں طرز حکمرانی ہر پہلو سے اِس حد تک ’سیاسی‘ ہو چکاہے کہ اِس نے ترقی کے عمل اور اِس کے بارے میں پرخلوص کوششوں کو بھی مشکوک و محدود بنا کر رکھ دیا ہے۔

Sunday, May 28, 2017

May2017: KP Govt vs PTI on Power Load Shedding!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاست و اَنا کے کرشمے!
برداشت کی ’آخری حد‘ بھی عبور ہو چکی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو قانون بنانے والے یوں قانون ہاتھ میں نہ لیتے۔ گرمی کی شدت کے ساتھ بڑھنے والی بجلی کی طلب اُور رسد کے درمیان فرق ’لوڈشیڈنگ‘ کی صورت ظاہر ہوا تو شہری علاقوں کے رہنے والے تڑپ اُٹھے حالانکہ دیہی علاقوں میں بجلی کی زیادہ طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لیکن وہاں کا رہن سہن‘ کیمیائی اجزأ کی ملاوٹ سے پاک خوراک اور مکانات و تعمیرات موسمی اثرات کی شدت سے بچاؤ میں مدد دیتی ہیں جبکہ شہری علاقوں میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی سیمنٹ اور لوہے سے کثیرالمنزلہ زیادہ مضبوط و پائیدار گھر تو بنا لئے گئے ہیں لیکن نہ تو زمین کو سانس لینے کے لئے جگہ میسر ہے اور نہ ہی زرخیز مٹی کی قدروقیمت کا احساس کیا گیا ہے! اگرچہ یہ ایک ضمنی موضوع ہے لیکن اِس مرحلۂ فکر پر بطور تعارف و حوالہ عرض ہے کہ زندگی کی ہر ضرورت اور آسائش کا برقی رو پر انحصار سے پیدا ہونے والی صورتحال ایک ایسے ملک کو تو بالکل بھی زیب نہیں دیتی جہاں نہ تو بجلی حسب ضرورت (طلب) دستیاب ہے اور نہ ہی قیمت کے لحاظ سے یہ ایک سستا ذریعہ (نعمت) ہے۔ اگر ہمارے ہاں بڑے آبی ذخائر بنانے کی ضرورت پر سیاسی اتفاق رائے نہیں تو وہی (سیاسی) کردار جواب دیں کہ قوم مہنگے ایندھن (تیل و کوئلے) سے بننے والی جنس کس بھاؤ خریدے اُور اُس کے استعمال کی زیادہ سے زیادہ حد (احتیاط) کیا ہونی چاہئے! 

سیاست کا اصطلاحی مفہوم اور اِس کی دانش رکھنے والا ’سیاست دان‘ وہ ہوتا ہے جو معاشرے کی عمومی و خصوصی سطح پر پائے جانے والی اختلافات ختم کرے لیکن ہمارے ہاں سیاست ایک ایسے طرزفکروعمل (فن) کا نام ہے‘ جس میں اِختلافات کو ہوا دینے اُور تنازعات بڑھانے میں مہارت ہونی چاہئے۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر میں بھی ’اصل رہنما‘ وہی ’شعلہ بیاں‘ ہے یعنی جس کے زبان و بیان سے ہر وقت آگ اُگلتی رہے!

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے خلاف اِحتجاج کی قیادت کرنے کی پاداش میں اراکین صوبائی اسمبلی فضل الہٰی (پی کے چھ) اُور عارف یوسف (پی کے فور) کے خلاف پولیس سے رجوع کیا گیا لیکن چھبیس مئی (بروز جمعہ) پیش آنے والے اِن واقعات میں ملوث افراد کے خلاف چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی قانونی کاروائی نہیں ہوسکی۔ حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی سے زیادہ قانون کی سمجھ بوجھ اُور کسے ہو سکتی ہے۔ پیسکو ترجمان کے مطابق چھبیس مئی سے درجنوں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں نے ’’1: تین گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ بشمول یونیورسٹی گرڈ اسٹیشن پر رات بھر قبضہ کئے رکھا۔ 2: قابضین نے اُن علاقوں کو بجلی کی فراہمی بحال رکھی جہاں چوری (لائن لاسیز) کے اعدادوشمار غیرمعمولی ہیں۔ 3: اندیشہ ہے کہ وفاقی حکومت کی تنصیبات پر سیاسی کارکنوں کے مزید حملوں (دراندازی) کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 4: سادہ لوح عوام کو غنڈہ گردی اور قانون ہاتھ میں لینے کے لئے اکسایا جا رہا ہے جبکہ تصادم کی صورت خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ 5: اراکین صوبائی اسمبلی کی قیادت میں پرتشدد احتجاج کا جاری سلسلہ (رجحان) کی وجہ سے صورتحال گھمبیر شکل اختیار کر سکتی ہے۔ 6: قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش مثالی نہیں اور صوبائی حکومت اگر راست اقدامات نہیں کرتی تو خدانخواستہ جانی یا پیسکو تنصیبات کو کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوگی۔

قانون کو ہاتھ میں لینے اُور تصادم کی صورتحال کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اگر پیسکو حکام صوبائی کابینہ اور اسمبلی کو اعتماد میں لیتی تو اِس قسم کی ’بداعتمادی‘ کا جواز ہی پیدا نہ ہوتا۔ پیسکو حکام زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے تو جن علاقوں سے صارفین بجلی بلوں کی اِدائیگیاں نہیں کر رہے‘ وہاں کے متعلقہ اَراکین اسمبلی اُور بالخصوص تحریک انصاف کے اَثرورسوخ سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں لیکن ’پیسکو‘ اُور ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کے درمیان فاصلے خلیج کی صورت ہر گزرتے دن بڑھ رہے ہیں۔ قومی ادارے چاہے وفاقی ہوں یا صوبائی ’تعاون و ترقی‘ کے لئے عوام کی بہتری مقصود و مطلوب ہونی چاہئے۔ پیسکو حکام کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے خلاف احتجاج کی نوبت ہی بھلا کیوں آئی اور اگر یہ سلسلہ قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے شروع ہوا ہے‘ تو عوام کے منتخب نمائندوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ عوامی دباؤ (غم وغصے) کے آگے بند باندھ سکیں۔ افسرشاہی کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام یا عوام کے نمائندوں کو جواب دینا پسند نہیں کرتے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے معاملات رازداری کی بناء پر بگڑ رہے ہیں۔ 

وفاقی حکومت کی ممکنہ خواہش پر صوبائی حکومت کے لئے سیاسی مشکلات پیدا کرنے کی بجائے پیسکو حکام اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنی اُس نااہلی کا اعتراف کریں جس کی وجہ سے ’سوفیصد بجلی کے بل دینے والے علاقوں کے صارفین بھی مطمئن نہیں۔‘ پیسکو کا ادارہ ترسیلی نیٹ ورک کی خرابیاں دور کرنے کے لئے خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کررہا۔ قابل غور ہے کہ ’نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)‘ کی رواں برس (دوہزارسترہ) ماہ فروری میں پانچ سالہ رپورٹ شائع میں کہا کہ ’’بجلی کی فراہمی کرنے والی جملہ کمپنیاں بشمول پیسکو کی کارکردگی مثالی نہیں۔ ’لائن لاسیز (T & D losses) کی ذیل میں پیسکو کو زیادہ سے زیادہ ’26 فیصد‘ خسارہ برداشت کرنے کی اجازت ہے لیکن پیسکو کے 34.8فیصد ’لائن لاسیز‘ نیپرا کی نظر میں ناقابل قبول ہیں اور ابھی اِس ادارے کے فیصلہ سازوں کو اپنی کارکردگی (ہنر) ثابت کرنا ہے!‘‘ رمضان المبارک‘ موسم گرما اُور بجلی کی لوڈشیڈنگ الگ الگ حقیقتیں نہیں۔ رمضان میں ویسے ہی ہر کس و ناکس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور بجلی کی ’بحرانی کمی‘ تو کسی ایک شہر یا گاؤں کا نہیں بلکہ پورے ملک کا حل طلب مسئلہ ہے اور اِسے قومی تناظر ہی میں دیکھنا چاہئے۔ کسی بھی وفاقی یا صوبائی ادارے کو یہ بات قطعی زیب نہیں دیتی کہ وہ قومی و حساس معاملات پر سیاست کے کسی ایجنڈے کو آگے بڑھائے۔ 

تجویز ہے کہ عوامی احتجاج اور قومی تنصیبات پر مزید ممکنہ حملوں کے بارے خفیہ اطلاعات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ صوبائی حکومت کی طرح امن و امان کے حالات مزید بگڑنے سے بچانے کی ذمہ داری ’پیسکو‘ حکام پر بھی عائد ہوتی ہے جنہیں اپنی اپنی انا اور سیاسی ترجیحات بالائے طاق رکھنا ہوں گی! اراکین اسمبلیوں کی قیادت ہو یا نہ ہو عوام سے تصادم کی بجائے ’افہام و تفہیم‘ کی راہ اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے اور آج کی تاریخ میں دستیاب و موجود یہ موقع بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے‘ کہ جس میں ایک دوسرے کے نکتۂ نظر اور مؤقف سے اختلافات بذریعہ بات چیت طے (حل) ہو سکتے ہیں۔

May2017: TRANSLATION: Robin Hood by Dr Farrukh Saleem

Reverse Robin Hood
نجات دہندہ!
خوشخبری یہ ہے کہ ایک دہائی (دس برس) کے دوران پاکستان کی مجموعی خام اقتصادی ترقی (جی ڈی پی) کی شرح نمو 5.28 فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 4 فیصد کے آس پاس منڈلا رہی ہے۔ مہنگائی کی اِس صورتحال کا موازنہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کے ’دور حکومت‘ سے کیا جائے تو صورتحال میں بہتری غیرمعمولی دکھائی دیتی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مہنگائی کی شرح پچیس فیصد تک جا پہنچی تھی اور یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں قریب آٹھ سال پہلے ہی تو بات ہے جب پیپلزپارٹی دور حکومت تھا۔ یہ امر بھی قابل بیان ہے کہ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں کم ترین شرح سود مقرر ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ بیان کرنے کو بس یہی چند خوشخبریاں دامن مضمون میں سما سکتی ہیں!

پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہ اہے کہ قومی ترقیاتی حکمت عملی کے لئے دو اعشاریہ ایک کھرب روپے جیسی خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور اِس رقم کی تقسیم صوابدیدی طریقے سے کیا جائے گا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مالی سال 2017-18ء کے لئے وفاقی حکومت کا بجٹ عام انتخابات کو ذہن رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے جس سے مسلم لیگ (نواز) کو وفاقی حکومت کے خزانے سے ایک کھرب جبکہ پنجاب حکومت کے خزانے سے 500 ارب روپے ملیں گے‘ جسے پارٹی اپنی سیاسی ترجیحات کے مطابق خرچ کرے گی۔

غور کیجئے کہ 2.1 (دو اعشاریہ ایک) کھرب روپے قومی ترقیاتی حکمت عملی کے لئے مختص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ 40ہزار روپے ہر پاکستانی ووٹر کے تناسب سے علیحدہ کر لئے گئے ہیں۔ غور کیجئے کہ دواعشاریہ ایک کھرب روپے کی رقم اگر سال 2013ء میں مسلم لیگ (نواز) کے لئے ووٹ کرنے والوں پر تقسیم کی جائے تو یہ فی ووٹر ڈیڑھ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ غور کیجئے کہ دو اعشاریہ ایک کھرب روپے اگر پاکستان کے ہر خاندان پر تقسیم کئے جائیں تو یہ 75 ہزار روپے بنیں گے! اب کسی ایسی سیاسی جماعت کو عام انتخابات میں کوئی کیسے شکست دے سکے گا‘ جس نے قومی خزانے کو سیاسی ترجیحات اور عام انتخابات مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اِس انداز میں خرچ کرنے کا عزم کر رکھا ہو کہ یہ رقم تحلیل (خرچ) بھی ہو جائے لیکن ناکافی رہے!

پاکستان کے وفاقی بجٹ 2017-18 کا سب سے بڑا اور بنیادی خرچ یہی ’’2.1 کھرب روپے‘‘ ہیں جن کا 70فیصد حصہ ایسے منصوبوں پر خرچ ہوگا جن میں سیمنٹ اور سریا استعمال ہو۔ 20فیصد گاڑیوں کی خرید اور چار فیصد انسانی ترقی جبکہ قریب چار ہی فیصد دیگر متفرق اخراجات کی نذر ہوگا۔ اندازہ ہے کہ اِن ’2.1کھرب روپوں‘ کا زیادہ سے زیادہ چھ سو ارب اور کم سے کم دوسو ارب روپے جیسا خطیر حصہ مالی و انتظامی بدعنوانیوں یا ادارہ جاتی نااہلیوں کے سبب ضائع ہو جائے گا۔

بجٹ 2017-18ء کا تعلق کسی بھی طرح ہمارے معاشرے کے اُس طبقے سے نہیں جو سب سے زیادہ مستحق ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان دو کھرب روپے ایک ایسی ترقی کے نام پر خرچ کرنے جا رہا ہے جس سے اُس کی اکثریتی آبادی کے مشکلات بھرے روزوشب (معمولات) پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیا ہمارے حکمران نہیں جانتے کہ پاکستان کی قریب 30فیصد آبادی یعنی 6 کروڑ لوگوں کی معاشی حالت کچھ ایسی ہے کہ وہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی تیس فیصد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی دوسو روپے سے کم ہے! اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وفاقی بجٹ میں کم آمدنی اور بالخصوص غربت کے شکار طبقات کے لئے براہ راست کچھ مختص نہیں۔ وہ لوگ جو غذائی قلت کا شکار ہیں‘ جنہوں بھوک پیاس لاحق ہے‘ جنہیں بیماریوں نے آ گھیرا ہے اور جنہیں اپنی بقاء کے مراحل درپیش ہیں‘ اِس وفاقی بجٹ کے حساب سے شمار ہی نہیں ہوئے!

کسی بھی اقتصادی ترقی کا انحصار‘ کسی ملک میں پیدا ہونے والی بجلی پر ہوتا ہے۔ اقتصادی جائزہ برائے سال 2016-17ء کے تحت دیئے گئے اعدادوشمار کو اگر قابل بھروسہ سمجھا جائے تو پاکستان میں بجلی اور گیس کے شعبوں میں 3.5فیصد کے تناسب سے اضافہ ہوا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) بھلا کیسے 5.3فیصد ہو سکتی ہے!؟

اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 22.9ملین سے بڑھ کر 25.1 ملین میگاواٹ رہی لیکن بجلی کی پیداوار کم ہوئی۔ کہنے کا مطلب ہے کہ پیداواری صلاحیت موجود ہے لیکن حکومت اِس قابل نہیں کہ وہ ملک کی مجموعی پیداواری صلاحیت سے خاطرخواہ استفادہ کر سکے۔

مالی سال کے لئے ’آمدن و اخراجات‘ کا سالانہ میزانہ (بجٹ) ’خیالی من گھڑت تصورات‘ پر نہیں بلکہ مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب ہونا چاہئے لیکن یہ الفاظ کا گورکھ دھندا اور مقصدیت سے خالی دکھائی دیتا ہے جس میں اعدادوشمار کے ذریعے کچھ ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا عملی زندگی اور برسرزمین حقائق سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ بجٹ معیار کے لحاظ سے عوام کی توقعات اور ضروریات کا احاطہ نہیں کر رہا۔ بجٹ 2017-18ء اُس کردار (رابن ہڈ) کی کہانی کا الٹ ہے جو اپنے وقت کے امیروں سے سرمایہ چھین کر اُسے غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ بجٹ میں پہلے سے عائد اُن تمام ٹیکسوں (محصولات) کو نہ صرف برقرار بلکہ اُن کی شرح بھی بڑھا دی گئی ہے جس میں ملک کے کم آمدنی رکھنے والے طبقات سے نسبتاً زیادہ ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ چونکہ حکومت سرمایہ دار طبقات سے خاطرخواہ ٹیکس وصول کرنے میں عملاً ناکام ثابت ہو رہی ہے اِس وجہ سے اپنی اِس نااہلی کی سزا غریبوں کو دی جا رہی ہے اور اُن سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ کسی رحم دل ’رابن ہڈ‘ کے عمل کی یہ برعکس مثال اپنی جگہ دلچسپ و عجیب اور منفرد ہے۔ آج کے پاکستان کی اقتصادی مشکلات و مسائل کے حل بارے توقعات اُس ’رابن ہڈ (نجات دہندہ)‘ جیسے کردار سے وابستہ ہیں‘ جو ملک کے سرمایہ داروں کی بجائے غریبوں پر رحم کرے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرجسین اِمام)

Saturday, May 27, 2017

May2017: Downfall of PIA CAA, feeling the guilt!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
احساس جرم!
سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اپنی حد (حق) سے تجاوز کرنے کی ابتدأ سے انتہاء تک کا عمل ’جرم‘ کہلاتا ہے جس کے منفی نفسیاتی اثرات کے بارے میں مشرق و مغرب اور ماضی و حال کے ماہرین کا جس ایک پہلو پر حیرت انگیز طور سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جرم کا ارتکاب کرنے والا سب سے پہلے اپنے آپ سے کٹ کر رہ جاتا ہے‘ اُسے اپنے لہجے کی کرختگی اور چہرے پر معصومیت برقرار رکھنے کے اداکاری سیکھنا پڑتی ہے لیکن اُس کے قول و فعل میں تضاد رہتا ہے۔ اُسے اطمینان و یقین نصیب نہیں ہوتا۔ اچھے عمل سے بھی اُسے ’اخلاقی جرأت (دلی مسرت)‘ نہیں ملتی اور اُس پر انسانوں کے مرتب کردہ قوانین کے تحت بھلے ہی دفعات کا اطلاق نہ بھی ہو سکے لیکن وہ اپنے ضمیر کے سامنے (مسلسل ایک جیسی حالت میں) شرمسار رہنے کے باعث اندر ہی اندر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اُور حتمی طور پر جرائم کی پاداش سے ملنے والا ’اِحساس جرم‘ اُسے دیمک کی طرح چاٹ کھاتا ہے۔‘‘ لیکن جب ہم اپنے معاشرے‘ اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ’ہر خوش قسمتی کے پیچھے نہ تو جرم ثابت ہو رہا ہے‘ اور نہ ہی راتوں رات سرمایہ دار بننے والوں کو درپیش ندامت اُس انتہاء پر دکھائی دیتی ہے جہاں اُس کے بوجھ سے مجرموں کی آنکھیں اُور سر جھک جائیں!

لوٹ مار اور چیخ و پکار جاری ہے لیکن کوئی نہیں سن رہا‘ نہ سوچ رہا ہے کہ آخر دہائیوں سے خسارے کا شکار قومی جہاز راں ادارہ ’پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے)‘ کے زوال میں اچانک (یک بہ یک) تیزی کیسے آ گئی ہے اور طویل عرصے سے جاری بحران (کرائسیز) کا ذمہ دار جو بھی ہو لیکن اِسے حل نہ کرنے اور موجودہ حالات کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھنے کے ذمہ دار (غفلت کے مرتکب) کون ہیں؟ ایک ایسا وقت بھی تھا جب ’پی آئی اے‘ کا موجودہ ادارہ جسے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی موجودہ وفاقی حکومت ختم یعنی نجکاری کو ’بچت‘ کی واحد صورت قرار دے رہی ہے‘ دنیا کی بہترین ’ائرلائن‘ ہوا کرتی تھی۔ اِس میں تھائی لینڈ کا شاہی خاندان سفر کرتا تھا۔ اِس میں ہالی وڈ کے فنکار سوار ہونا اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ یہ ایسی شاندار ائرلائن ہوا کرتی تھی کہ امریکہ کی خاتون اوّل جیکولین جب پاکستان کے دورے پر آئیں تو برطانیہ جانے کے لئے انہوں نے دنیا بھر کی ائرلائنز میں سے ’پی آئی اے‘ کا انتخاب کیا۔ پی آئی اے ہی ’ایشیاء کی ایسی پہلی ’ائرلائن‘ تھی‘ جس نے جدید مسافر طیارے (بوئنگ 707‘ 737 اور 771) خریدے اور اِسے امریکن و یورپی شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشنز) کے اِداروں نے اجازت نامے (کلیئرنس سرٹیفیکٹس) دیئے اور پی آئی اے دنیا کی پانچ بڑی ائرلائنز کا بانی ادارہ بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ’ایمریٹس ائرلائن‘ کا پہلا جہاز 1985ء میں پاکستانی پائلٹ کیپٹن فضل غنی نے اُڑایا تھا اور اُس جہاز کا تمام عملہ پاکستانی تھا۔ ’پی آئی اے‘ بطور مضمون ’مالٹا (تین سو سولہ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل وسط بحیرہ روم کے کنارے جنوبی یورپی ملک)‘ کے تدریسی نصاب میں شامل ہے لیکن آج ماضی کا وہ عظیم اِدارہ کہاں ہے؟ افسوس کہ آج ہماری فضائی میزبان (ائرہوسٹسیز) بیرون ملک چوری کرتے ہوئے پکڑی جاتی ہیں! اِن کے دستی سامان (بیگز) سے ممنوعہ منشیات برآمد ہوتی ہیں! پائلٹ جہاز اُڑتا چھوڑ کر سو جاتے ہیں! اِس کا عملہ شراب نوشی کا مرتکب پایا جاتا ہے۔ اِس کے پائلٹ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کاک پٹ میں خوبصورت‘ جوانسال غیرملکی خواتین کو جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ اِسی ’پی آئی اے‘ کے پائلٹ من پسند ائرہوسٹس کے ہمراہ نہ ہونے پر جہاز اُڑانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پائلٹ سمیت عملے کی تعلیمی اسناد جعلی ثابت ہوتی ہیں اور یہ نشے کے عالم میں بیرون ملک کے ائرپورٹس پر لڑکھڑاتے (ڈگمگاتے) نظر آتے ہیں! پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب ’پی آئی اے‘ کی ایک عالمی پرواز کے عملے کے ’پاسپورٹس‘ ضبط کر لئے گئے‘ عملے کی انگلیوں کے نشانات لینے کے بعد انہیں کئی گھنٹوں تک تفتیش کے لئے زیرحراست رکھا گیا کیونکہ طیارے سے ’ہیروئن‘ برآمد ہوئی! ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے! پستی کا یہ سفر کہیں تو رُکنا چاہئے۔ کوئی تو ہو جو اُس ادارے کو مزید تباہی سے بچائے جس پر ’پاکستان کا قومی جھنڈا‘ لگا ہوا ہے!

مبارک بادوں کا تبادلہ ہوا جب رواں برس فروری (دوہزارسترہ) کی چودہ تاریخ وفاقی حکومت کے ’کیبنٹ ڈویژن‘ نے اعلامیہ (نوٹیفکیشن) جاری کیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ کسی وفاقی وزیر کے مساوی مراعات و حیثیت کے ساتھ وزیراعظم کے لئے ایک عدد ’’مشیر‘‘ کی تقرری کی گئی ہے جو ’شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن)‘ کے محکمے کی کچھ اِس انداز میں اصلاح کریں گے کہ وہ خسارے سے منافع بخش ادارے میں تبدیل ہو جائے۔ تالیاں بجائی گئیں جب مذکورہ ’’مشیر‘‘ نے اٹھارہ مئی کو ایوان بالا (سینیٹ) کی 18 رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر تجویز دی کہ ’پی آئی اے کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے اِسے بند (ختم) کردینا چاہئے۔‘ سیاسی فیصلہ سازوں کو داد دینے کا مقام ہے کہ جن کے ذاتی کاروبار‘ اُن کے اہل وعیال کی مالی حیثیت میں دن دگنی اور رات چوگنی (progressing by leaps and bounds) ترقی ہو رہی ہے لیکن ’پی آئی اے‘ سے متعلق اُن کی تدابیر کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور اِن کا خسارہ 100 ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکا ہے! پی آئی اے کی کارکردگی سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا غیرمعمولی اجلاس پندرہ مئی کے روز ہوا‘ جس میں ہیتھرو ائرپورٹ (لندن) پر پیش آنے والے واقعے کے محرکات اور حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرنا تھا کہ برطانیہ میں ’پی آئی اے‘ کی پرواز ’PK-785‘ کے تمام مسافروں کے اُترنے کے بعد جہاز اُور عملے کی تلاشی لینے پر ہیروئن برآمد ہونا‘ عملے کے اراکین کو قریب ڈھائی گھنٹے حراست میں رکھنے سے پاکستان نے کیا سبق سیکھا کیونکہ یہ آخری واقعہ (سانحہ) ثابت نہیں ہوا‘ اُور بعدازاں اِسلام آباد ائرپورٹ پر ’پی آئی اے‘ کے برطانیہ جانے والے طیارے سے ہیروئن برآمد ہوئی! 

تصور محال ہے کہ اگر برطانیہ میں دوسری مرتبہ بھی ’پی آئی اے‘ سے منشیات برآمد ہوتیں‘ تب یہ اَمر پاکستان کے لئے کس قدر شرمندگی کا باعث بنتا؟ تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر دیکھنا یہ باقی ہے کہ دنیا ہمارے لئے کیا سزا تجویز کرتی ہے۔ ہمیں یقیناًایسی قوم کا لقب دیا جائے گا‘ جس پر اُس کے غلط ’انتخابی فیصلوں‘ کی وجہ سے ایسے نااہل افراد بطور حکمران مسلط ہوئے ہیں‘ جن کے ضمیر مردہ ہیں‘ جنہیں نہ تو قومی اِداروں کو تباہی سے دوچار کرنے جیسے قومی جرائم کی سنگینی کا اندازہ ہے اور نہ ہی اِن کے دل ’اِحساس جرم‘ کی وجہ سے بوجھل ہیں!

Friday, May 26, 2017

May2017: Tracking budget with a sense of responsibility!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاح اَحوال: ذمہ داریاں!
جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘ کے ہیں۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ ڈیمو (Demo) یعنی لوگ اور کراٹوس (Kratos) یعنی حکومت کا مجموعہ ہے۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس (Herodotus) کے بقول ’’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ امریکہ کے صدر ابراہم لنکن کی دانش میں ’’عوام کی حاکمیت‘ عوام کے ذریعے اور عوام پر ہوتی ہے‘‘ لیکن جمہوریت کو ’شفاف‘ اور ’جوابدہ‘ بنانے کے لئے دنیا کے ہر جمہوری ملک کے اپنے تجربات اور اُن کے حاصل ہونے والے نتائج الگ الگ ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت سے جڑی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے غیرملکی امداد سے کئی تنظیمیں (این جی اُوز) کام کر رہی ہیں جن کی ’’سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (سی پی ڈی آئی)‘‘ بھی شامل ہے‘ جس نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آمدن واخراجات کے میزانیئے (بجٹ) کی معلومات کو موبائل فون ایپ (اینڈروائڈ سافٹ وئر) کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی منفرد ’موبائل ایپلی کیشن‘ کے ذریعے گویا سمندر کو ایک کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔ کم و بیش پانچ میگابائٹس کی ’بجٹ ٹریکر‘ (Budget Tracker) نامی بلاقیمت ’ایپلی کیشن‘ درجہ بندی کے لحاظ سے ’ایپل سٹور‘ کے ’شعبۂ تعلیم‘ میں رکھی گئی ہے‘ جہاں سے اِسے تین ماہ کے دوران ایک سو سے زائد افراد ’ڈاؤن لوڈ‘ کر چکے ہیں جن میں سے 66 صارفین نے 5 میں سے 4.9 سٹارز دے کر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ یہ ’نئی ایپلی کیشن‘ انگریزی زبان میں تخلیق کی گئی ہے جس سے استفادہ کرنے کے لئے صارف کا بنیادی انگریزی سے خواندہ ہونا ضروری ہے اور چونکہ دفتری زبان بالخصوص اقتصادی اصطلاحات ابھی اُردو یا علاقائی زبانوں میں ترجمہ (ٹرانسلیٹ) نہیں ہوئیں‘ اِس لئے تکنیکی اور فنی وجوہات کی بناء پر عام الرائج ’انگریزی‘ زبان ہی اِس موقع پر درست (دانشمندانہ) انتخاب (فیصلہ) ہے لیکن سب کچھ زیادہ ٹھیک اور مثالی بھی نہیں!

خیبرپختونخوا کے لئے ’سی پی ڈی آئی‘ کے صوبائی کورآرڈینیٹر شمس الہادی کے بقول بجٹ کے اعدادوشمار موبائل فون کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا تصور کئی سال سے زیرغور تھا لیکن اِس کے لئے درکار مالی وسائل دستیاب ہونے کے بعد سافٹ وئر کی تیاری میں ’چار ماہ‘ لگے۔ کسی سافٹ وئر کی تخلیق سے زیادہ اُس کے بیٹا (beta) ورژنز کی جانچ کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور اگر ’بجٹ ٹریکر‘ کی تیاری میں بھی عجلت سے کام نہ لیا گیا ہوتا 1: مذکورہ ایپلی کیشن اینڈرائرڈ کے تمام سافٹ وئرز کے لئے قابل استعمال ہوتی۔ پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا کے زمینی حقائق پیش نظر رکھنا ضروری تھے‘ کیونکہ لازمی نہیں کہ ہر موبائل صارف کے پاس غیرملکی امداد سے خریدے یا تحفتاً ملنے والا کوئی ’جدید موبائل فون‘ ہی ہو! پرانے ماڈل کے اینڈرائڈ فونز رکھنے والوں پر مشتمل اکثریت کا بھی خیال کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ بجٹ اعدادوشمار عوام سے زیادہ صحافیوں کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں‘ جن کے لئے ہر وقت اپ ڈیٹ رہنا‘ مختلف دفاتر کے چکر اور سالہا سال کے اعدادوشمار ہر وقت ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر ایسے صحافیوں کے پاس جدید انڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم نہ ہوئے اور اُن کا موبائل فون چند سال پرانے ماڈل کا ہوا تو ’بجٹ ٹریکر‘ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اِسی طرح عام آدمی کے لئے بجٹ کے اعدادوشمار سمجھنا مشکل ہوتا ہے جنہیں صحافی خاص مہارت سے آسان بناتے ہیں تو اگر ’بجٹ ٹریکر‘ میں ’نیوز رپورٹس‘ اور ’بلاگز‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اِنہیں اعدادوشمار سے لنک کر دیا جائے تو صارفین کو تکنیکی اصطلاحات یا بجٹ میں مختص مالی وسائل کے دیگر متعلقہ پہلوؤں سے بھی آگاہی ہو گی اگر وہ مزید جاننے کا خواہشمند ہو۔ 2: بجٹ ٹریکر ایپلی کیشن اینڈرائڈ سسٹم کے لئے بنائی گئی ہے جبکہ اِسے بیک وقت آئی فونز‘ آئی پیڈز اُور ونڈوز آپریٹنگ سسٹمز رکھنے والوں کے لئے تخلیق کیا جاسکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اِس حکمت عملی کو کسی دوسرے مرحلے (شاید مزید فنڈنگ) تک کے لئے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ 

سمجھا جا سکتا ہے کہ ’این جی اُوز‘ کے ہاتھ پاؤں بندھے بھی ہوتے ہیں انہیں ڈونر ایجنسیوں کو متاثر کرنے کے لئے بھی بہت کچھ نمائشی طور سے کرنا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں بہت سے ’این جی اوز‘ صرف اِس لئے فعال دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس ’رپورٹ رائٹنگ‘ کرنے کی مہارت ہوتی ہے! این جی اُوز معروف (مہنگے) ہوٹلوں میں تقاریب کا انعقاد کر کے اپنی کارکردگی اصلاً کی بجائے واجبی اور رپورٹوں کی صورت دکھانا کی حد تک محدود رہتے ہیں تو اِس میں بھی مجبوری (ضرورت) کا عنصر شامل ہوتا ہے لیکن ’سی پی ڈی آئی‘ کاغذی شیر نہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ نمائشی محرکات (ضروریات) کے باعث ’بجٹ ٹریکر‘ بنانے والوں نے ’عجلت‘ کا غیرضروری مظاہرہ کیا وگرنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ مختلف ’پلیٹ فارمز‘ پر موافقت (compatibility) کی جانچ کئے بناء ’ایپلی کیشن‘ پنجاب (لاہور) کے بعد خیبرپختونخوا (پشاور) میں لانچ کی جاتی۔ 

یہ اَمر بھی افسوسناک ہے کہ لاہور میں متعارف (لانچنگ) کرنے کے 2 ہفتوں بعد پشاور میں ’فخریہ پیشکش‘ تک کے عرصے میں کہیں سے بھی فیڈبیک میں ’موافقت‘ کی بات سامنے نہیں آئی۔ دیکھنا ہوگا کہ جن عام صارفین نے ’بجٹ ٹریکر‘ کو انتہائی پسندیدگی سے نوازہ ہے وہ کہیں سافٹ وئر ڈویلپئرز یا ’سی پی ڈی آئی‘ کے ملازمین ہی تو نہیں! جس طرح ہم حکومت اور سرکاری ملازمین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرض شناس ثابت ہوں بالکل اِسی طرح غیرسرکاری تنظیموں سے بھی ذمہ دارانہ طرزعمل کی توقع کرتے ہوئے اُمید ہے کہ بیرونی امداد سے ملنے والی ہر ایک پائی کو عام آدمی (ہم عوام) کی امانت سمجھتے ہوئے خرچ کیا جائے گا۔ صحافیوں کی جانب سے بازگیری (فیڈبیک) نہ ملنے کی بنیادی وجہ بھی غورطلب ہے کہ پاکستان میں ’ٹیکنالوجی سے متعلق صحافت (جنرلزم)‘ پروان نہیں چڑھی۔ اُردو اخبارات پر سیاسی موضوعات حاوی رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی جیسی بوریت کے لئے اشاعتوں بھی ایجادات متعارف کرانے تک محدود رہتی ہیں۔ 

خوش آئند ہے کہ ’سی پی ڈی آئی‘ کی جانب سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع صحافیوں کے لئے حفاظتی تدابیر سے آگاہی‘ غیرمعمولی حالات میں صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی‘ صحافتی اصولوں اور اقدار سے متعلق وقتاً فوقتاً تعارفی و تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن اگر آئندہ تربیتی ورکشاپوں کا نصاب (لائحہ عمل) مرتب کرتے وقت ٹیکنالوجی اور مرکوزیت (convergence)‘ کے مضامین کو بھی نصاب میں شامل کر لیا جائے تو اِس سے الیکٹرانک میڈیا اور صحافت کے بدلتے اسلوب و مستقبل پر دور رس (مثبت) اثرات مرتب ہوں گے۔

Thursday, May 25, 2017

May2017 Muslim World: The role of leaders!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کام سے کام!
پشاور کے سرتاج علمی و روحانی گھرانے آستانہ عالیہ حسنیہ کے چراغ پیرطریقت سیّد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی سرکاررحمۃ اللہ علیہ (المتوفی چودہ سو پچیس ہجری) کی صحبت بابرکات میں ایک مرتبہ خیروشر کی بحث میں برسبیل مثال سُوال زیربحث آیا کہ ’اللہ تعالیٰ نے شیطان کو (شر کی) آزادی کیوں دی؟‘ آپؒ نے فرمایا (جس کا تلخیص یہ ہے) کہ ’’خیر کا اصطلاحی مفہوم سمجھنے سے شر کے معانی خودبخود واضح ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے ہاں بہت سے الفاظ‘ کلمات اور اصطلاحوں کی علمی سطح پر الگ الگ تعریفات ماخوذ ہیں یعنی علمی و عرفی سطح پر لفظ کا مفہوم کچھ اُور ہوتا ہے لیکن عرف عام میں اُسے مختلف انداز میں سمجھا جاتا ہے۔ اِس لئے سب سے پہلے تو یہ بات ضروری ہے کہ علمی اور عرفی سطح پر الفاظ کے درمیان مطالب کے اِس فرق کو معمولی نہ سمجھا جائے اور دوسرا اِس بذریعہ تحقیق اِس فرق کی تہہ تک جایا جائے۔ جس کے ضروری ہے کہ جس کسی بھی علم کی بحث ہو‘ اُس کے متعلقہ ماہر (اہل) سے رائے لی جائے۔ اگر کوئی شخص چند بیماریوں کے نام سیکھ لے اور اُن بیماریوں کے بارے میں اپنے ذہن میں تصور قائم کر لے جیسا کہ عام طور پر مفہوم رائج ہوجاتا ہے اور پھر اپنے یقین کی بنیاد اُسی ناقص مفاہیم و تصورات پر رکھ لے تو وہ توہمات میں مبتلا رہے گا اور اُس کی زندگی ناپائیدار ہو جائے گی لیکن اگر یہی شخص کسی ڈاکٹر (متعلقہ شعبے کے ماہر) سے رہنمائی چاہے تو نہ صرف بہت سے مظالعے دور ہوتے چلے جائیں گے بلکہ کم سے کم یہ تو ضرور ہو گا کہ وہ شخص ’وہم میں مبتلا‘ نہ رہے۔ ممکن ہے کہ وہ خود کو کسی سنگین بیماری میں مبتلا سمجھ رہا ہو لیکن ڈاکٹر مسکرا کر کہے کہ آپ کو ایسی کوئی بیماری لاحق ہی نہیں اُور جس علامت (کیفیت و حال) کو آپ بیماری سمجھ رہے ہیں اُس کا سبب (وجہ) کچھ اُور ہی ہے۔ جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ایسی سینکڑوں مثالیں بکھری ملتی ہیں‘ جن میں عمومی تصورات کی وجہ سے مغالطے عام ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے قرآن حکیم نے اکیسویں ’سورۂ انبیاء‘ کی ساتویں آیت کے ایک حصے میں یوں رہنمائی فرمائی ہے کہ (ترجمہ عرفان القرآن) ’’(لوگو!) تم اہل ذکر سے پوچھ لیا کرو‘ اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔‘‘ لیکن یہ بات صرف دینی علوم کی حد تک ہی محدود نہ سمجھی جائے بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی ’درست رہنمائی‘ کے لئے ’اہل‘ ہی کے پاس جانا پڑے گا۔ کسی اہل ہی کی بات کو سننا پڑے گا۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے تو جس طرح ’خیر اور شر‘ کے اصطلاحی مفہوم کی تلاش کرنی ہے‘ اسی طرح ’امن‘ کی کھوج (ابتدأ) بھی اُس کے اصطلاحی مفہوم ہی سے ممکن ہو گی۔

الفاظ کے اصطلاحی و عرفی مفہوم اُور متعلقہ شعبے کے اہل افراد سے رجوع کرنے پر مبنی تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے دوسری مثال ملاحظہ کیجئے۔ عراق میں مئی دوہزار تین سے جون دوہزار چار تک تعینات رہنے والے امریکہ کے سفارتکار ’’لوئس بال بریمر سوئم ( Lewis Paul Bremer III) جو کہ یکم نومبر دوہزار تین سے اٹھائیس جون دوہزار چار تک عراق کے نگران سربراہ (ایڈمنسٹریٹر) بھی رہے نے عراق کے حوزہ علمیہ قم (نجف اشرف) کے معلم اور روحانی پیشوا ’سیّد علی حسینی السیستانی‘ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب باوجود کوشش بھی وقت نہ ملا تو اُنہوں نے درجن سے زائد (پندرہ) صفحات پر مبنی تحریر میں عراق کی صورتحال اور قیام امن کے لئے امریکہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تبادلۂ خیال کو ناگزیر قرار دیا۔ اِس طویل خط کا جواب آقائے سیستانی نے ’بناء القابات‘ صرف تین جملوں میں دیا۔ ’’باسمہ تعالیٰ۔ آپ امریکی ہیں‘ میں اصلاً ایرانی ہوں۔ عراقیوں کا مسئلہ عراقی عوام پر چھوڑ دیں۔‘‘ اِس جواب کے بعد امریکی سفارتکار بغداد سے نجف اشرف (170 کلومیٹرز فاصلہ طے کر کے) بناء اطلاع آقائے سیستانی کے دروازے پر حاضر ہوا اور صرف ’دو منٹ‘ ملاقات کے لئے وقت مانگا لیکن اُنہیں ایک منٹ بھی نہیں دیا گیا! آخر اِس درجہ یقین واطمینان کہاں سے حاصل ہوتا ہے کہ جس کی بنیاد پر کردار و فکر مستحکم ہو جائیں اور انسان دنیا کا طلبگار ہی نہ رہے؟ دنیاوی علوم کا سراب یہ ہے کہ اکثریت ’دنیا طلبی‘ کا شکار ہو کر درخواست گزار رہتی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس کی جانب متوجہ رہے اور بالخصوص امریکہ کا کوئی صدر‘ وزیر‘ مشیر‘ نمائندہ شرف ملاقات دے کر عزت افزائی کرے!

کون نہیں جانتا کہ ’واحد سپرپاور‘ ہونے کے بعد سے طاقت کا نشہ امریکہ کے سر چڑھ کر بول رہا ہے اور امریکہ ہی کی سیاسی اور عسکری حکمت عملیوں کا نشانہ یا تو ’اسلامی دنیا کی دولت اور وسائل‘ ہیں یا پھر مسلمان کہ جنہیں توہین آمیز لہجوں میں ’بنیاد پرست‘ دہشت گرد‘ انتہاء پسند‘ قرار دیا جاتا ہے۔ آج کی حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اِن متعصبانہ امریکی پالیسیوں سے براہ راست متاثر نہ ہو رہا ہو اور اِسی وجہ سے مسلمان ممالک کو ایک ’ملت قرآن‘ ہونے کے باوجود بھی اپنے ہی ہم مذہب کے خلاف دفاعی اتحاد بنانے پر اُکسایا گیا‘ تاکہ امریکہ کی دفاعی مارکیٹ (اسلحہ ساز اداروں) کا ’بزنس‘ بڑھے۔ امریکہ کے صدر نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کے لئے سعودی عرب اور دوسرے کے لئے ’غاصب اسرائیل‘ کا انتخاب کرکے ایک ’ناجائز مملکت‘ کو ’جائز‘ بنانے کی کوشش کی ہے۔ 

مسلم ممالک کے سربراہوں کو ’شاطرانہ چال‘ کے درپردہ ’سازش‘ کے جملہ پہلوؤں پر مل بیٹھ کر غور کرنا چاہئے بشمول اِس نتیجہ خیز بحث پر مسلمان ممالک میں استصواب رائے عامہ (ریفرنڈم) کیوں نہیں ہوسکتا کہ ۔۔۔ ’’آج کی دنیا میں امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ کون ہے؟ 

دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سرپرست کون ہے؟ بنیاد پرستی اُور دوستی کی آڑ میں دشمنی کرنے کی مہارت کون رکھتا ہے؟ 

مسلمان ممالک کو آپس میں اُلجھا کر سیاسی‘ کاروباری اور تجارتی فوائد کون حاصل کر رہا ہے؟ مسلم دنیا کی غربت و جہالت اُور امن و امان کی آگ بھڑکائے رکھنے کا درپردہ ذمہ دار کون ہے؟ 

عراق کے چھیاسی سالہ بزرگ آقائے سیستانی خدائی مخلوق نہیں وہ نہ تو معصوم ہیں اور نہ خطاؤں سے محفوظ لیکن اُن کے کردار کے پیچھے ’’اسلامی تعلیمات کا نور‘‘ ہے‘ جو اُن کے قول و فعل اور استحکام سے جھلک کر رہا ہے‘ یقیناًعالمی سطح پر امن کا قیام صرف اسی صورت ممکن ہے جبکہ ہر ملک اپنے کام سے کام رکھے اور سیاسی یا دفاعی سمیت جملہ معاملات میں کسی بھی دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے عملاً باز (الگ) رہے۔

Wednesday, May 24, 2017

May2017: Curbing the Social Media!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

وارداتیں!

پاکستان تحریک اِنصاف خیبرپختونخوا کے ’سوشل میڈیا‘ دفتر (ڈینز سنٹر‘ پشاور) میں چوری کی ’اَنوکھی واردات‘ ہوئی ہے‘ جس پر ’اِنٹرنیٹ‘ کے ذریعے اِظہار خیال (سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس سے استفادہ) کرنے والے حلقوں کی جانب سے ’آن لائن اور آف لائن‘ تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ چوری کے لئے آنے کسی بیش قیمت کمپیوٹر آلات کی بجائے صرف وہی آلات (ہارڈوئرز) ’نہایت مہارت‘ سے کیوں اُتار لے گئے جن کی ’فرانزک جانچ‘ ممکن ہے؟ اگر یہ چوری کی ’عمومی واردات‘ ہوتی تو اِس میں نفاست کا اِس قدر عملی مظاہرہ دیکھنے کو نہ ملتا۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی جانب سے اِس واردات کو ’وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)‘ کی کارستانی (خفیہ کاروائی) بیان کیا گیا ہے‘ جبکہ ’ایف آئی اے‘ کی جانب سے تردید اور مقامی پولیس کی جانب سے مقدمہ درج نہیں کیا گیا! یوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں حکمران ہی نہ ہو کہ اُس کے ایک دفتر پر کاروائی سے متعلق اگر وضاحت آئی بھی تو مرکزی عہدیداروں کی جانب سے! کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس قسم کے حوصلے (برادشت) کی کوئی دوسری مثال پیش کی جا سکتی ہے؟ 

بنیادی قضیہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ہو یا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت‘ فرضی ناموں سے سوشل میڈیا اکاونٹس استعمال ہو رہے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اِن فرضی اکاونٹس کے ذریعے جس نکتۂ نظر کی تشہیر ہو رہی ہے‘ وہ ایک محدود سرکل میں ہونے کے باوجود بھی تاثیر کے لحاظ سے اِس لئے زیادہ ہے کیونکہ خطیب اور مخاطب دونوں ’صائب الرئب‘ بھی ہیں اور اِس بات پر اتفاق بھی رکھتے ہیں کہ اُن کا آپس میں کسی بھی معاملے پر اتفاق نہیں! 

سوشل میڈیا پر انفرادی حیثیت میں بھی جو کچھ لکھا جا رہا ہے یا کسی گروہ (تحریک) کی صورت اجتماعی طور پر مقصد و نظریات کا پرچار ’اندھا دھند‘ اور ’تقلید‘ کے سبب ہے‘ جس کی جہتیں نفسیاتی اور سماجی و ثقافتی دباؤ کی مظہر ہیں! اِس پورے ماحول سے الگ وفاقی حکومت کے اداروں نے (شاید حسب حکم) سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے ’ضابطۂ اخلاق‘ وضع کرنے بجائے قانون سے فائدہ اٹھانے پر اکتفا کر لیا اور سمجھ لیا کہ جہاں اُور جس کسی پر چاہے گرفت کی جا سکتی ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بات اور کسی بھی فکر و تصور کا کوئی زاویہ نیا نہیں ہوتا۔ جس بات پر کسی ایک ’صارف‘ کی گرفت کی جا رہی ہوتی ہے‘ وہی بات سینکڑوں کی تعداد میں دوسرے صارفین بھی کر رہے ہوتے ہیں! سمجھ داری اِسی میں ہے کہ سوشل میڈیا سے ٹکراؤ کی بجائے پاکستان کو اُس آنے والے ’ہائی ٹیک‘ دور کے لئے تیار کیا جائے‘ جس میں ممالک کی سرحدیں آج کی طرح اہمیت کی حامل نہیں ہوں گی۔ 

کیا ہمارے فیصلہ سازوں نے ’بٹ کوائن (Bitcoin)‘ کے استقبال کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں جو انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی کرنسی ہے؟ یاد رہے کہ 23 اپریل (دوہزارسترہ) کے روز عالمی مارکیٹ میں ایک ’بٹ کوائن‘ کا شرح تبادلہ پاکستانی کرنسی میں 2 لاکھ 35 ہزار 981 روپے اور آٹھ پیسے مقرر ہوئی! اور یہ دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی اور استعمال ہونے والی کرنسی ہے۔



’بٹ کوائن‘ کو سمجھنے کے لئے انسانی معاشرے کے ارتقائی مراحل اور معاشی واقتصادی اصولوں پر نظر کرنا ہوگی‘ جس میں سرمائے کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں نئے انداز کے سکے سامنے آتے رہے‘ اب چاہے وہ سونے کی اشرفی کی صورت میں ہو یا کانسی کا سکہ مگر موجودہ عہد ٹیکنالوجی کا قرار دیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا بھی اپنی کرنسی سے محروم رہے؟  یہی کمی ’بٹ کوائن‘ نے پوری کی‘ جو حالیہ عرصے میں تیزی سے اُبھرنے والی ’ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی‘ ہے اور اِس کے ذریعے لوگ آن لائن کمپنیوں سے مصنوعات اور خدمات حاصل کر رہے ہیں تاہم کسی حقیقی کرنسی کے مقابلے میں بٹ کوائنز ہر طرح کے ضابطوں یا حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے۔ 

بٹ کوائنز متعدد ممالک جیسے کینیڈا‘ چین اور امریکہ میں استعمال ہورہے ہیں تاہم دنیا میں انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والا ہر شخص یہ کرنسی خرید سکتا ہے‘ جس کے لئے ’بٹ کوائن والٹ اکاؤنٹ‘ چاہئے ہوتا ہے جو بذریعہ ’اپلیکشن‘ ڈاؤن لوڈ (حاصل) تخلیق کیا جا سکتا ہے اور ’والٹ اکاؤنٹ‘ کو پے پال‘ کریڈ کارڈز یا کسی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے بٹ کوائنز خریدنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کمپیوٹر کمپنی ’مائیکروسافٹ‘ سمیت انٹرنیٹ پر کاروبار کرنے والے سینکڑوں دیگر ادارے ’بٹ کوائنز‘ قبول کر رہی ہیں اور بالخصوص سوشل گیمنگ سائٹس جیسے زینگا‘ بلاگ ہوسٹنگ ویب سائٹس جیسے ورڈ پریس اور آن لائن اسٹورز جیسے ریڈیٹ اور ’اوور اسٹاک ڈاٹ کام‘ بھی ’بٹ کوائنز‘ قابل ذکر ہیں اور دنیا میں قریب ’ایک کروڑ بیس لاکھ (بارہ ملین بٹ کوائنز)‘ گردش کررہے ہیں جس کی قیمت سو ڈالر کی نفسیاتی حد پر پہنچنے کے بعد دوہزار دوسو ڈالر فی بٹ کوائن سے تجاوز کر گئی ہے! عالمی سطح پر ’بٹ کوائنز‘ کی ’اے ٹی ایم‘ مشینیں قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے! 

کیا ہمارے فیصلہ سازوں کو کچھ اندازہ ہے کہ پاکستان سے کتنا سرمایہ ’بٹ کوائنز‘ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے؟ بڑے شہروں میں ’انٹرنیٹ گیمنگ کلبس‘ عالمی مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد اِن ایک ایسے نشے کی عادی ہو رہی ہے جس سے جانی (صحت) و مالی نقصانات ہو رہے ہیں لیکن نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں کی اِس جانب توجہ مبذول ہے! جنگ جاری ہے۔ ممالک کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں عروج پر ہیں اور ’انٹرنیٹ کی دنیا‘ میں زیادہ سے زیادہ حکمرانی میں حصہ داری کے لئے جہاں ہر ملک بطور حکمت عملی کوشش کر رہا ہے‘ وہیں پاکستان میں انٹرنیٹ ہی کے استعمال پر خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں! ’بٹ کوائنز‘ کی قدر بڑھنے کی ممکنہ وجہ امریکہ‘ یورپ اور چین میں اس کرنسی کی بڑھتی ہوئی قبولیت ہے جبکہ جاپان میں بٹ کوائنز کے حوالے سے ایک خرابی (بگ) سامنے آنے کے بعد سے لوگوں نے اسے ذخیرہ کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھی بٹ کوائنز کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تو ’انٹرنیٹ‘ کے ممکنہ اطلاق بارے بہت کچھ سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے یوں الگ نہیں ہو سکتی! 

پاکستان میں سائبر قوانین کا پوری طاقت (شدت) سے اطلاق اور اِس کی ’باپردہ کاروائیوں‘ کی بجائے اُس توانائی سے بھرپور افرادی قوت اور جوان ذہانت کا تعمیری مقاصد کے لئے استعمال ہونا چاہئے جسے دباؤ اور طاقت سے بغاوت پر اکسانا کسی بھی صورت دانشمندی نہیں۔

Tuesday, May 23, 2017

May2017: Social Media as Crime!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جبر مسلسل!
کبھی کبھار ’شاعرانہ تخیل‘ حقیقت کے اِظہار و بیان میں ضرب المثل بن جاتا ہے۔ ساغر صدیقی (وفات اُنیس جولائی اُنیس سو چوہتر) کا یہ مصرعہ شاید اَحباب نے بہت دن سے نہ پڑھا ہو کہ ’’جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں!‘‘ اور اِس تخیل کی تمہید میں ایک ایسے ’جبرمسلسل‘ کا ذکر جوڑ دیا گیا‘ جو بطور سزا تجویز کرنے والوں نے گویا زندگی کے معنی و مفہوم ہی بدل کر رکھ دیئے ہوں۔ بالکل اِسی قسم کی ’خوف و دہشت پر مبنی صورتحال کا سامنا پاکستان میں ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل استعمال کرنے والوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ اور کاونٹر ٹریرازم ونگ سے درپیش ہے۔ عجب ہے کہ گذشتہ چند روز میں ملک بھر سے بائیس ایسے سوشل میڈیا صارفین کو طلب (گرفتار) اور سبھی کو بعدازاں بناء کسی سزا رہا کیا گیا‘ جنہوں نے پاکستان کے فوجی سربراہ اور فوج کے ادارے پر تنقید کی تھی۔ پاکستان کے آئین کی رو سے بیک وقت اِس بات کی آزادی بھی حاصل ہے کہ ہر پاکستانی جس کسی موضوع کے بارے میں اظہار خیال کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے اور اِسی آئین ہی میں کی گئی ایک ترمیم ضمنی طور پر ریاست کی نظر سے ناپسندیدہ اظہار رائے کرنے والا ’مجرم‘ کہلاتا ہے کیونکہ اگر ریاست کسی تبصرے پر ’معترض‘ ہوا تو یہ ایسا اظہار رائے قابل گرفت و سزا جرم بن جائے گا۔ وزارت داخلہ کی جانب سے پہلے تو قانون کی تشریح اور پھر اُن تمام اَلفاظ‘ جملوں اُور اِستعاروں کے بارے میں وضاحت ہونی چاہئے کہ جن کا استعمال کرتے ہوئے اگر کوئی صارف تنقید کے نشتر چلائے گا‘ تو وہ ’مجرم‘ تصور ہوگا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ پر اکاونٹ بنانے کے لئے بالغ ہونے کی شرط ہوتی ہے لیکن کسی بھی ’فرضی نام‘ سے اکاونٹ (کھاتہ) تخلیق کرنے والے اپنی عمر کے بارے جھوٹ بول کر بھی ایک ایسی تیزرفتار دنیا کے باشندے بن جاتے ہیں جہاں کے باسی ’ہر ایک سکینڈ‘ میں چھ ہزار سے زائد پیغامات (ٹوئٹس) کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رہے کسی ایک دن‘ فی سکینڈ ٹوئٹر کے سب سے زیادہ پیغامات ’’1لاکھ 43 ہزار 999 ٹوئٹس‘‘ سال دوہزار تیرہ میں ریکارڈ ہوئے جبکہ عمومی حالات میں ہر دن اُوسطاً (کم سے کم) 50 کروڑ ٹوئٹر پیغامات اِرسال کئے جاتے ہیں اور یہی ٹوئٹر پاکستان کی حکومت کے لئے ’درد سر‘ بنا ہوا ہے‘ جس کا اِستعمال ہر سطح کے سیاست دانوں سے لیکر افسرشاہی اُور قومی اِداروں کی ترجمانی کرنے والے کر رہے ہیں لیکن وہ اپنی طرح دوسروں کو یہ حق دینے کو تیار نہیں کہ وہ اُن سے اختلاف رائے کا اظہار کر سکیں۔ 

بنیادی مسئلہ اُور غلط فہمی اَلفاظ کے غلط چناؤ کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ ہمارے ہاں نظام تعلیم کی خامی (کمزوری) یہ ہے کہ اِس میں الفاظ کا اِستعمال تو سکھایا جاتا ہے لیکن الفاظ کے ’’معنی و مفہوم اُور اَثرات‘‘ کے بارے طلباء و طالبات کو ’بہرہ مند‘ نہیں کیا جاتا۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اپنے تعارف میں تعلیمی اسناد کی فہرستیں گردان کرنے والوں کے ہاں بھی الفاظ کا مضحکہ خیز استعمال سننے کو ملتا ہے تو تعلیمی نصاب کے گرد طواف کرنے والے بیچارے عام طلباء و طالبات سے کس طرح اُمیدیں (توقعات) وابستہ کی جا سکتیں کہ وہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولیں گے یا ٹوئٹر سمیت سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے خاطرخواہ احتیاط کا مظاہرہ کریں گے۔ 

وفاقی وزارت داخلہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ زمانہ تبدیل ہو گیا ہے اور انٹرنیٹ صارفین کی حفظ مراتب کے لحاظ سے درجہ بندی نہیں کی جاسکتی ہے تو بہتری اِسی میں ہے کہ متنازعہ امور کو ہوا دینے والوں سے ’منطق (عقلی دلیل)‘ سے بات کی جائے اُور اگر کوئی صارف متفق نہ بھی ہو تب بھی حکومت پاکستان کا مؤقف ہر پیغام کے ساتھ منسلک ہوتا چلا جائے گا‘ جس سے عالمی سطح پر پاکستان یا قومی اداروں اور اہم شخصیات (بالخصوص پاک فوج کے سربراہ) کے بارے پھیلنے والا تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی یا پھر حکومت کے نکتۂ نظر سے جو حقائق ہیں اُنہیں عام کیا جا سکے گا۔ سماجی رابطہ کاری کے وسائل یا اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کی بجائے وزارت داخلہ اور دیگر اداروں کو فعال ’سوشل میڈیا حکمت عملیاں‘ تشکیل دینا پڑیں گی تاکہ ہر حملے کا بروقت (مستعدی) اُور پوری طرح مقابلہ (دفاع) عملاً ممکن بنایا جا سکے۔

منظرنامہ ملاحظہ کیجئے کہ پاکستان میں سماجی رابطہ کاری کے وسائل سے اِستفادہ کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے یا وہ قومی سلامتی سمیت ریاستی اِداروں کے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیں یا اُنہی ملتے جلتے نظریات کا پرچار کرتے ہیں‘ جن کی تحریک انصاف تائید کرتی ہے۔ پاکستان میں سخت گیر مالی نظم و ضبط کے قیام‘ احتساب‘ مالی و انتظامی امور میں بدعنوانیوں کے خاتمے اور طرزحکمرانی کی اِصلاح پر مبنی ’تحریک انصاف‘ کے مؤقف (سیاسی منشور) کی تائید کرنے والے کی بڑی تعداد ہر وقت ٹوئٹر اور فیس بک پر ’حاضر جناب (آن لائن)‘ رہتی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی صارف تحریک انصاف کے حق یا اس کے خلاف کچھ لکھے اور اُسے ترکی بہ ترکی (فوراً) جواب نہ ملے۔ 

وفاقی حکمراں جماعت ’نواز لیگ‘ کو سوشل میڈیا پر فعال (متحرک) ہونے میں اگرچہ دیر ہوئی تاہم اُن کا ’سوشل میڈیا سیل‘ زیادہ منظم اور ہر دن پھل پھول رہا ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ’سوشل میڈیا شعبے‘ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے لئے جس طرح سرگرم ہیں اور جس طرح رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے ’سوشل میڈیا وسائل‘ میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں ’سوشل میڈیا‘ بھی ذرائع ابلاغ کے دیگر وسائل کی طرح کسی فرد یا جماعت کو ہیرو یا زیرو بنانے میں غیرمعمولی کردار ادا کریں گے۔ 

سوشل میڈیا کو پاکستان کی سیاست میں وہ مقام مل چکا ہے جہاں اِس کے ’’معنوی وجود‘‘ سے نہ تو انکار ممکن ہے اور نہ ہی اِسے غیراہم قرار دیتے ہوئے ’نظرانداز‘ کیا جاسکتا ہے‘ لہٰذا بہتری (عافیت) اِسی میں ہے کہ عصری تقاضوں (تبدیلیوں) کا (کماحقہ) ادراک کیا جائے۔ قواعد و ضوابط کے اطلاق میں سختی اور پابندیاں عائد کرنے کی بجائے ’سوشل میڈیا صارفین‘ کی تعلیم و رہنمائی کے لئے تربیت کا اہتمام و انتظام کیا جائے۔ ’سوشل میڈیا‘ خیر محض ہے جس کا تعمیری (اپنے حق میں) استعمال کا لائحہ عمل وقت کی ضرورت اُور اس کے ذریعے ’شرارت‘ تخریب کاری‘ یا معصومیت میں خطا کاروں کی نیت (پس پردہ عزائم) بھی پیش نظر رہنی چاہئے!

Monday, May 22, 2017

May2017: The input without output!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اختیارات کی جنگ!
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کے اِنتخاب و قیام کو دو سال جبکہ تین سطحی نظام کی تشکیل کے تین برس مکمل ہونے پر ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر مرحلے پر درپیش مشکلات اور بالخصوص بدنیتی پر مبنی اُن اقدامات کا جائزہ لیا جائے‘ جن کی وجہ سے (بہ امر مجبوری) ’مقامی حکومتیں باوجود اپنے قیام‘ بھی خاطرخواہ فعالیت (آزادی) سے کام نہیں کر پا رہیں اور اِس حقیقت کو بھی سمجھا اور زیرغور لایا جائے کہ صرف دنیا کی بہترین اور تیزرفتار قانون سازی کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ قوانین اور قواعد پر عمل درآمد بھی یکساں اہم و ضروری ہوتا ہے۔

عملی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کہیں بھی جمہوری نظام حکومت سے جڑی عوام کی توقعات پوری ہو رہی ہیں تو وہ صرف جامع قانون سازی کی وجہ سے نہیں بلکہ ’’تبدیلی‘‘ کا ایک تعلق قوانین کے اطلاق اور اُس عمومی ماحول سے بھی ہے جس میں قانون ساز ایوانوں کی دانش کے سامنے خود فیصلہ سازوں نے سرتسلیم خم کیا۔ اکیس مئی کو ’شریک اقتدار‘ کے عنوان سے چند ایسی باریکیاں (رکاوٹیں) بیان کی گئیں‘ جن کے باعث ضلعی حکومتوں کے نمائندے ’شریک اقتدار‘ تو ہیں لیکن اُن کی فعالیت اِس حد تک محدود کر دی گئی ہے کہ اُن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی مثال آپ ہیں کہ ہمارے ہاں حکمرانوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی اور اگر اُن کی تعداد میں مزید اضافہ کر بھی دیا جائے تو اِس سے مسائل حل نہیں ہوں گے (جیسا کہ نہیں ہوئے) بلکہ عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش بحران کی صورت مسائل کے حل اور بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسی ضروریات کی قیمت بڑھتی چلی گئیں۔ سالانہ آمدن و اخراجات کا میزانیہ (بجٹ) مرتب کرتے ہوئے جو مالی وسائل مختص ہوں گے اُن کا بڑا حصّہ تنخواہوں‘ مراعات اُور انتظامی امور (غیرترقیاتی اَخراجات) کی نذر ہو جائیں گے اور یہی خیبرپختونخوا سمیت پاکستان کی کہانی ہے‘ کہ حکومتیں سیاسی ہوں یا غیرسیاسی‘ سادگی(اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے) کی بجائے شاہانہ طور طریقوں سے ’اَمور مملکت‘ چلانے کے لئے قومی خزانے بشمول قرض مانگ مانگ کر نمودونمائش پر غیرضروری اخراجات اَدا کئے جاتے ہیں۔

ضرورت اِس طرزفکروعمل کے تبدیل کرنے کی ہے‘ جس میں ایک غریب ملک کے حکمران اور غریبوں کے بارے میں سوچنے والوں کا رہن سہن‘ بودوباش اور طورطریقے سادگی کی عملی تصویر ہوں۔ بصورت دیگر اربوں روپے ترقی اور ترقیاتی عمل کے نام پر خرچ کے باوجود بھی جو کچھ حاصل ہوگا‘ وہ ہمیشہ ناکافی اور نامکمل ہی رہے گا۔

سال دوہزار تیرہ میں جب خیبرپختونخوا حکومت نے ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ (قانون)‘ منظور کیا تو ہر طرف سے ’واہ واہ‘ کی صدائیں آئیں۔ اقوام متحدہ بھی تعریف کئے بناء نہ رہ سکا‘ جس کے ایک ذیلی ادارے یونائٹیڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) نے اِسے ترقی کا ایک جامع لائحہ عمل قرار دیا اور اِس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی سے نہ صرف ’’ترقی کا معیار‘‘ بہتر ہوگا بلکہ ’فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت کے ثمرات سے جمہوریت مضبوط ہوگی لیکن اقتدار برائے نام نچلی سطح پر منتقل ہوا اُور اختیارات جزوی طور پر بلدیاتی نمائندوں کے حصے میں آئے! صوبائی اسمبلی سے منظوری کے کے بعد سے آج تک کے عرصے میں بلدیاتی نظام کی ’نوک پلک سنوارنے‘ کے نام پر اِس کی ’فعالیت‘ کم سے کم اُس درجے تک پہنچانا ہی مقصود و مطلوب دکھائی دیتا ہے جہاں یہ نظام مفلوج (اپاہج) ہو کر اپنی موت آپ مر جائے! یعنی عوام کی دلچسپی ’مقامی حکومتوں کے نظام سے ختم ہو جائے۔‘ آئین پاکستان کے آرٹیکل ’چالیس اے‘ کے تحت وفاق پاکستان کی ہر ایک اکائی (صوبے) کے لئے لازمی قرار ہے کہ وہ اپنے ہاں نہ صرف مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے بلکہ عوام کے اِن براہ راست منتخب نمائندوں کو سیاسی و انتظامی اور اقتصادی اختیارات بھی منتقل کئے جائیں‘‘ لیکن کیا مقامی حکومتوں کی قانون سازی (خوبصورت الفاظ) سے زیادہ اِس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہو پائی ہے؟

صوبائی حکومت کے ترجمان اور خیبرپختونخوا کابینہ کے اراکین ’اقوام متحدہ‘ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کی جانب سے تعریف و توصیف کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن اُن تفصیلات کے بیان سے گریز کرتے ہیں جس میں ’یو این ڈی پی‘ نے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل نہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اگر ہم خیبرپختونخوا کی حد تک بات کریں تو صوبائی حکومت نے حال ہی میں ایسی ترامیم کی ہیں جن کے ذریعے کیمونیکشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو)‘ ضلعی سڑکوں‘ عمارتیں اور پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کا محکمہ صوبائی حکومت کو واپس مل گئے ہیں! اِس ’کھینچا تانی‘ کے سبب نہ صرف اِن محکموں کی کارکردگی بلکہ وقت اُور مالی وسائل بھی خرچ ہوئے ہیں۔ ضلعی سطح پر سڑکیں اور دیگر تعمیرات سمیت اگر سرکاری عمارتوں کی دیکھ بھال کی نگرانی اگر مقامی حکومتوں کے پاس رہتی تو اِس میں مضائقہ ہی کیا تھا؟ ’صوبائی خزانے‘ سے مقامی حکومتوں کو نمائندوں کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں اُن کے لئے عملہ اور دفاتر کی ضروریات بھی حکومت ہی ادا کرتی ہے لیکن جب اُن سے کام لینے کا مرحلہ آیا تو اختیارات محدود کر دیئے گئے! تعجب خیز امر یہ ہے کہ جب صوبائی قانون ساز اسمبلی مقامی حکومتوں کے اختیارات کم کر رہی تھی تو اِس ’ترمیمی قانون سازی‘ کے عمل میں صرف حکومتی ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت بھی پیش پیش رہی‘ گویا اِس سے زیادہ ضروری اور ثواب کا کوئی دوسرا کام باقی ہی نہ رہا ہو! المیہ نہیں تو کیا ہے کہ صوبائی قانون سازوں کو تعمیراتی ٹھیکیداروں کے مفادات تو عزیز اور اُن کی مشکلات کا احساس ہے لیکن اِن تعمیرات کے معیار‘ پائیداری اور سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی ہر ایک پائی کے درست مصرف اور نگرانی کے تہہ دار نظام پر اعتماد (یقین) نہیں۔ درحقیقت فیصلہ ساز نہیں چاہتے کہ اُن کے اختیارات کم ہوتے چلے جائیں اور وہ اپنے بنیادی کام یعنی قانون سازی کے عمل یا قوانین میں موجود سقم دور کرنے اور سرکاری محکموں کے معاملات کی اصلاح جیسے امور پر غور کرنے تک محدود ہو جائیں!

انتخابی حلقوں کی سیاست کرنے والوں کی ذاتی و سیاسی ترجیحات مقامی حکومتوں کی فعالیت و اختیارات کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اصولی طور پر ایک غیرسیاسی نظام اگر سیاست سے الگ ہی رہتا تو اِس کے زیادہ مفید نتائج حاصل ہو سکتے تھے لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی‘ اگر ہمارے شاہانہ مزاج رکھنے والے سیاسی فیصلہ ساز اپنی غلطیوں کا اِحساس اُور برسرزمین حقائق (مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے) ضروریات کا ادراک کرلیں!

Sunday, May 21, 2017

TRANSLATION: Understanding CPEC!

Understanding CPEC
سی پیک خدوخال

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے خدوخال سمجھنے سے پہلے ہمیں عوامی جمہوریہ چین کی ترجیحات اور اقتصادیات سے متعلق اہداف کو سمجھنا ہوگا۔ چین میں محنت کش افرادی قوت (مزدوروں) کی تعداد قریب 80 کروڑ ہے اور چین کی حکومت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ’بے روزگاری‘ ہے۔ چین میں ’اسٹیٹ کپیٹل ازم‘ ہے اور وہاں ’کیمونسٹ پارٹی آف چائنا‘ کی حکومت ہے جس کی پہلی ترجیح مذکورہ افرادی قوت کے لئے روزگار کا بندوبست کرنا ہے تاکہ اقتصادی بحران پیدا ہو نہ جیسا کہ 1989ء میں ہوا تھا جب طلبہ کی قیادت میں ایک احتجاجی تحریک اِس قدر شدت اختیار کر گئی تھی کہ اُس وقت کی حکومت کو ’مارشل لاء‘ نافذ کرنا پڑا تھا۔

سی پیک کا خاکہ اور تصور چین کے دو اداروں کی مربوط سوچ کا عکاس ہے۔ اِن اداروں ’چائنا ڈویلپمنٹ بینک‘ اور ’نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن آف چین‘ کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ پاکستان نہیں بلکہ چین کے (اقتصادی) مفادات کا تحفظ کریں اور چین کی ترقی و مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کریں۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ چین کے پاس خام مال کی کثرت ہے جس میں اسٹیل‘ کوئلہ‘ سیمنٹ‘ ایلومنیم اور فلیٹ گلاس شامل ہیں۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ دنیا میں اسٹیل کی مجموعی پیداوار کا پچاس فیصد صرف چین میں پیدا ہوتا ہے۔ چین میں دھاتوں کو پگھلانے اور ان سے مائع دھات سے سلاخیں و دیگر آلات تیار کرنے کی صنعت سے قریب 36لاکھ 30ہزار (3.63 ملین) مزدور وابستہ ہیں۔ چین میں اسٹیل کی سالانہ پیداوار قریب 80کروڑ (800ملین) میٹرک ٹن جبکہ اِس کی مقامی ضرورت 400 میٹرک ٹن ہے۔

چین کے فیصلہ سازوں کے سامنے دو مراحل تھے۔ ایک تو وہ ہرسال 100 ارب ڈالر مالیت کی اضافی اسٹیل برآمد کرنے کے لئے مارکیٹ تلاش کرتے یا پھر اسٹیل (لوہا سازی) کی صنعت سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کا بوجھ حکومت اپنے کندھوں سے اُتار دیتی۔ ذہن نشین رہے کہ افرادی قوت کو بے روزگار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشی عدم استحکام پیدا ہو اور ملک ایک مرتبہ پھر اُحتجاج مظاہروں کی طرف چلا جائے۔ اسی طرح دنیا بھر میں بنائے جانے والے سیمنٹ کا 60فیصد چین میں بنایا جاتا ہے جبکہ چین میں سیمنٹ کی ضروریات تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ اب چین کی حکمراں جماعت کے سامنے ایک اور مشکل یہ تھی سیمنٹ کی پیداواری صلاحیت 390 ملین (اُنتالیس کروڑ) ٹن جو کہ مقامی ضروریات سے زیادہ ہے اُسے کم کیا جائے اور ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو جائے۔

سال 2014ء میں چین کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم سب سے زیادہ یعنی 4 کھرب ڈالر تھا۔ مئی 2017ء میں چین کے پاس غیرملکی ذخائر کا حجم غیرمعمولی کم ہوا جو قریب 3کھرب ڈالر ہوگیا۔ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ چین دنیا میں سب سے زیادہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے اور ساتھ ہی چین دنیا بھر میں امریکہ کے سب سے زیادہ اثاثہ جات بھی رکھتا ہے۔ چین کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں قریب 2 کھرب ’امریکی ڈالروں‘ کی شکل میں ہیں جبکہ باقی ماندہ ذخائر میں 2.5فیصد سونے (قیمتی دھات) کی صورت ذخیرہ کئے گئے ہیں۔
چین کی امریکہ اور امریکہ کے اقتصادی نظام میں دو کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری سے سالانہ 1.13فیصد سے لیکر 2.98فیصد منافع حاصل ہو رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ جب چین اگر یہی سرمایہ کاری پاکستان میں کرتا ہے تو اُسے کس قدر زیادہ منافع حاصل ہوگا۔ کوئلے کے ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر ’’ساہیوال کول پاور پراجیکٹ‘‘ کی مثال لیں جس میں چینی سرمایہ کاری پر ضمانت دی گئی ہے کہ اُسے مجموعی سرمایہ کاری کا سالانہ 4.5فیصد سے زیادہ منافع حاصل ہوگا۔ علاؤہ ازیں مذکورہ ’ساہیوال کول پاور پراجیکٹ‘ میں سرمایہ کاری پر چین کو 6.21فیصد کے تناسب سے سود بھی ملے گا جبکہ چین ہی کے ایک انشورنس ادارے (چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن) کو انشورنس پرمیئم سے 7فیصد الگ آمدنی حاصل ہوگی۔ تصور کیجئے کہ چین کو پہلے ہی سال قریب 13فیصد آمدنی ہوگی یعنی اگر چین امریکہ میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اُسے 1.13فیصد کے تناسب سے منافع ملتا ہے لیکن اگر وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اُس کا منافع تیرہ فیصد مقرر کیا جاتا ہے تو چین کے نکتۂ نظر سے کیا یہ گھاٹے کا سودا ہے؟

’ساہیوال کول پاور پراجیکٹ‘ سے پیدا ہونے والی بجلی کی طے شدہ قیمت اور چین کو منافع کی ایسی ضمانتیں فراہم کی گئی ہیں جن پر منافع کی شرح کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی اور ایک بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے 
سرمایہ کاروں کا ایک دیرینہ خواب پورا ہو گیا ہو۔ 

’سی پیک‘ کے اثرات سے متعلق 231 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز سے پانچ قسم کے رسک (خطرات یا اندیشے) سامنے آئے ہیں‘ جن میں مخلوط سیاسی حکومتوں کاقیام‘ مذہبی اُور قبائلی نظاموں پر اثرات‘ دہشت گردی اور مغربی مداخلت میں کمی شامل ہیں۔ ’سی پیک‘ کے تحت سرمایہ کاری کرنے کے بعد چینی مفادات و تنصیبات کا تحفظ کرنے کے لئے چینی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی پاکستان آئے گی! اِس منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’عالمی سطح پر 176 بدعنوان ممالک‘ کی اُس فہرست پر نظر ڈالیں جس کے مطابق مذکورہ انڈکس میں پاکستان 116ویں جبکہ چین 76ویں نمبر ہے بدقسمتی سے چین اور پاکستان دونوں ممالک میں فیصلہ سازی کے منصب (حکومتی معاملات) میں مالی بدعنوانیوں پائی جاتی ہیں اور چونکہ دونوں ممالک میں قومی وسائل بارے امانت و دیانت کے متعلق تصورات کم وبیش ایک جیسے ہی ہیں اِس لئے یہ ’امکانی امر‘ باعث حیرانی نہیں ہوگا کہ ’سی پیک‘ منصوبوں پر لاگت اصل قیمت سے بڑھا چڑھا کر ظاہر کی جا رہی ہو!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Friday, May 19, 2017

May2017: Dreaming about a technology based education system!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: ترجیحی منظرنامہ!

خیبرپختونخوا حکومت نے درس و تدریس کے عمل کو ’انقلابی خوبیوں‘ سے روشناس (مزین) کرنے کے لئے کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ پر مبنی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ بطور بنیادی اسلوب متعارف کرانے کا نہ صرف فیصلہ بلکہ اِس لائحہ عمل کے لئے 4ارب تیس کروڑ روپے سے زائد کی خطیر رقم آئندہ مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے بجٹ میں مختص کر دی جائے گی۔

خیبرپختونخوا کی تاریخ کے اِس سب سے بڑے اور غیرمعمولی ’ترقیاتی منصوبے‘ میں برق رفتار انفارمیشن اور کیمونیکشن ٹیکنالوجیز پر بھروسہ اُور اِس جدید اَسلوب کو متعارف کرانے سے تعلیمی اِداروں کے روائتی رکھ رکھاؤ اُور عمارتی ڈھانچوں (ظاہری ناک نقشے) میں نمایاں تبدیلی آئے گی لیکن سوال یہ ہے کہ انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز کے ذریعے درس و تدریس دینے والے اساتذہ (افرادی قوت) کہاں سے آئیں گے؟ خیبرپختونخوا کے موجودہ (کم وبیش) ایک لاکھ چوبیس ہزار اساتذہ کی ستر فیصد تعداد انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز سے نابلد ہیں اور اِسی بات کا احساس کرتے ہوئے ’اساتذہ کی تربیت‘ کا بھی بطور خاص اہتمام کیا جا رہاہے۔ یعنی چار ارب تیس کروڑ روپے کا ایک بڑا حصہ اساتذہ کی تربیت پر خرچ ہو جائے گا! تو معلوم ہوا کہ نئی حکمت عملی سے اگر کسی اور کا فائدہ (بھلا) ہو یا نہ ہو لیکن اساتذہ کی تربیت کا اہتمام و انتظام کرنے والوں کی قسمت ضرور بدلنے جا رہی ہے! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت اپنے آخری مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ایک ایسی حکمت عملی پیش کرے جسے جاری رکھنا آنے والی حکومتوں کے لئے ممکن نہ ہو؟ چار سال اساتذہ کی تربیت پر اربوں روپے خرچ کرنے اور برطانوی حکومت کے ادارے ’برٹش کونسل‘ یا اِس جیسے دیگر غیر ملکی اداروں کو منتقل کرنے سے حاصل نتائج پر غور کرنا کس کی ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا یہ بہتر و پائیدار نہ ہوتا کہ یکایک‘ فوراً اور آن کی آن تعلیمی نظام کی اس قدر بڑے پیمانے پر اصلاح کی بجائے شعبۂ تعلیم میں انفارمیشن و کیمونیکشن ٹیکنالوجیز کا مرحلہ وار اطلاق کیا جاتا؟ توانائی بحران اور دور دراز علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے ناقابل اعتماد نظام سے کس طرح‘ اتنی بڑی توقعات اور اُمیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟

یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ آنے والا دور ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ ہی کا ہوگا‘ جس پر انحصار بڑھنے کے ساتھ تعلیمی اداروں اور درس و تدریس کے اوقات کی پابندی بھی بتدریج کم ہوتی چلی جائے گی لیکن یہ عمل بیک جنبش قلم (آنکھ چھپکتے) ممکن نہیں اور نہ ہی محض سرمائے کے زور میں ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ترقی کا ’پائیدار پہلو‘ یہ ہوتا ہے کہ اِسے مرحلہ وار‘ حقائق سے ہم آہنگ اور دستیاب افرادی و مالی وسائل کے مطابق ہونا چاہئے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لئے نجی شعبے کے عملی تجربے اور (حاصل) تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر نجی سکول اپنے وسائل اور اپنی ضروریات کا تعین کرکے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اور اِس کے لئے موسم گرما یا سرما کی طویل یا ہفتہ وار تعطیلات سے استفادہ کیا جاتا ہے کیا سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد کی اُن کے متعلقہ شعبوں میں تربیت کا انتظام تعطیلات کے دوران ممکن نہیں ہوسکتا؟ کیا نصاب کو عملی تجربات اور مطالعاتی دوروں سے آسان نہیں بنایا جاسکتا؟ نجی تعلیمی اداروں کی طرح سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کے قیمتی وقت کو تعطیلات کی نذر کرنے کی بجائے اُنہیں اندرون یا بیرون ملک کیوں نہیں بھیجا جا سکتا؟ یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے میدانی (گرم) علاقوں میں ستائیس مئی سے اکتیس اگست (تین ماہ پانچ دن) جبکہ پہاڑی (سرد) علاقوں میں یکم جولائی سے اکتیس جولائی (ایک ماہ) کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے۔ سبب جو بھی ہو لیکن تعلیمی عمل مہینوں معطل رہنے اور اِس دورانیئے سے بہتر و مفید عملی استفادے کے بارے میں سوچ بچار اگر ماضی کی حکومتوں کا طرزعمل نہیں رہا تو کیا ’روایت پرستی‘ میں معاملات (وقت کا ضیاع) جوں کے توں ہوتا رہے؟ گرمی ہو یا سردی‘ ہڑتال ہو یا احتجاج‘ تعطیلات کا کوئی مقصد (جواز) ہو ہی نہیں سکتا مگر اِس کی ضرورت اُن سرمایہ داروں کو رہتی ہے جو ایک مصروف ترین سال کے چند ہفتے اہل خانہ کے ہمراہ کسی پرفضا مقام یا بیرون ملک بسر کرنے کو معمول بنائے ہوئے ہیں! موسمی شدت سے بچنے کے لئے تعلیمی اداروں کے اُوقات تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔

سکولوں کو آمدورفت کے لئے سفری سہولیات میں اضافہ ممکن ہے۔ پرفضا مقامات کی آب وہوا کو درس وتدریس کے عمل سے زیادہ معطر بھی تو بنایا جاسکتا ہے؟ آخر فیصلہ سازوں نے یہ نتیجہ کس سائنسی بنیاد (اصول) پر اخذ کر لیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے اساتذہ کو ایک جیسی تربیت چاہئے اور سبھی کی صرف انگریزی مضمون ہی میں مہارت بڑھانے سے ضرورت پوری اور معیار تعلیم بہتر ہو جائے گا؟

شعبۂ تعلیم کے مستقبل اُور مستقبل کی ضروریات پر نظر رکھتے ہوئے آج کی تاریخ اور آج کی تقاضوں کا احساس و ادراک بھی ترجیح ہونی چاہئے۔

Thursday, May 18, 2017

May2017: The use & application of INTERNET in education!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تکنیکی اُلجھنیں!
شعبۂ صحافت سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے ’عکاسی (فوٹوگرافی)‘ کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش کے ساتھ چند ایسے تکنیکی امور کے بارے سوالات پوچھے ہیں‘ جن کے بنیادی نکات سے لیکر ماہرانہ تفصیلات تک قریب سبھی پہلوؤں کا احاطہ بذریعہ تحریر‘ تصویر اور فلم (ویڈیو ٹیوٹوریلز) باآسانی ’گوگل (انٹرنیٹ سرچ)‘ کے ذریعے پڑھے‘ دیکھے‘ سنے یا پھر اپنے کمپیوٹر لیب ٹاپ یا موبائل فون میں محفوظ بھی کئے جا سکتے ہیں تاکہ ’بار بار دیکھے‘ جا سکیں یا پھر اِن کا حسب ضرورت دوسروں سے تبادلہ (شیئر) کیا جائے‘ تاہم جو بات طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کو عموماً معلوم نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ ’’انٹرنیٹ پر تکنیکی (اصطلاحی) موضوعات کی تلاش (سرچ) کا مؤثر طریقہ کیا ہے؟‘‘ 

عجب یہ بھی نہیں کہ ’انٹرنیٹ‘ سے تحریر و تحقیق اور درس وتدریس میں مدد (مؤثر استفادہ) کے اصول بھی خود انٹرنیٹ پر ہی مثالوں کے ساتھ موجود (دستیاب) ہیں لیکن انہیں سمجھنے اور اپنے ’آن لائن‘ ہر ایک منٹ کو ’کارآمد‘ بنانے کے لئے طلباء و طالبات کی رہنمائی ضروری ہے۔ شعبۂ تعلیم کے فیصلہ سازوں سے نصاب مرتب کرنے اُور تدریس و تربیت کے مراحل میں رہنماؤں (اساتذہ) کو عہدحاضر کے تقاضوں (ضروریات) کا ادراک کرنا ہوگا کہ کس طرح یہ بات ضروری نہیں رہی کہ دنیا کو ’گلوبل ویلیج‘ بنانے والا ’انٹرنیٹ‘ صرف ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ پڑھنے والوں ہی کے لئے متعلقہ و بنیادی مضمون ہو بلکہ ’انٹرنیٹ‘ تو ہر ایک مضمون اور علم کی تمام شاخوں کا احاطہ کرنے والی ایک ایسی سہولت ہے جو سارا سال‘ چوبیس گھنٹے بناء کسی تعطیل اور معاوضے کے ’حاضر جناب‘ رہتی ہے اور بالکل ’اُس جناتی مخلوق (جادو)‘ جیسی ہے جسے ’چراغ رگڑنے‘ سے فوراً طلب کیا جاسکتا ہے اور وہ تابع فرمان کردار کوئی بھی کام ’آن کی آن‘ میں یہ کہتے ہوئے سرانجام دے دیتا ہے کہ ’’جو حکم میرے آقا!‘‘

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہماری نوجوان نسل کو اِس حد تک اپنا غلام (اسیر) بنا دیا ہے کہ انہیں اپنا قیمتی وقت ’آن لائن‘ تفریح طبع کی نذر کرنے جیسے خسارے کا احساس بھی نہیں۔ رہی سہی کسر موبائل فونز کمپنیوں کی جانب سے گھنٹوں باتیں یا لاتعداد مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کے تبادلے جیسی ’کم قیمت‘ سہولت کی فراہمی نے پوری کر دی ہے۔ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس کا چسکا (ذائقہ) ہی ایسا ہے کہ اِس میں وقت گزرنے (دن رات) کا اِحساس نہیں ہوتا اُور وہ ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ جو ہماری غلام (تابع اور دسترس میں) ہونی چاہئے تھی لیکن صرف اور صرف رہنمائی اور معلومات نہ ہونے کے سبب (بدقسمتی) سے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہے اور لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جب موبائل خراب ہو تو کہا جاتا ہے کہ بچے نے خراب کیا ہے یا پھر جب یہ پوچھا جائے کہ بچے کو کس نے گمراہ (خراب) کیا تو جواب دیتے ہیں کہ موبائل فون نے! کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں! 

بناء دماغ (عقل) ٹیکنالوجی کسی تیز دھار آلے کی طرح ’خیرمحض‘ ہے جس سے مفید استفادہ اِس کے صارف کی نیت نہیں بلکہ عمل و مرضی پر منحصر ہے تو کیا ہماری نوجوان (نئی) نسل کو تمباکو نوشی اُور دیگر مضرصحت اشیاء سے پرہیز کی تلقین (بطور پالیسی) کرنے والوں نے کبھی اِس ضرورت کو محسوس کیا کہ کم معلومات کی وجہ سے اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو موبائل فون یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ’’کم عمری اُور کم علمی‘‘ دونوں ہی ایسی خطرناک صورتیں (جواز) ہیں کہ اِن سے ’’بچوں‘‘ کو دُور رکھنے ہی میں دانشمندی ہے۔ یہاں بچوں کی اصطلاح کا اطلاق صرف اٹھارہ برس سے کم عمروں یا نابالغوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اُس عمر کے افراد اِس ذیل میں شمار کئے جا سکتے ہیں جو ’انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)‘ سے بناء علم (واضح مقصد) کچھ اِس طرح سے (اندھوں کی طرح) استفادہ کر رہے ہوں کہ نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا قیمتی وقت‘ صحت‘ اخلاقیات اور وسائل بھی ضائع کرنے کا سبب بن رہے ہوں لیکن انہیں اپنے اِس طرز عمل پر رتی بھر ’اِحساس ضیاع (ندامت)‘ بھی نہ ہو۔

بذریعہ ’برقی مکتوب (اِی میل)‘ سوال پوچھا گیا ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا ’’4k (فور کے)‘‘ فارمیٹ کیا ہوتا ہے اور اگر ہم اِس ویڈیو ریکارڈنگ فارمیٹ (طریق) کا موازنہ ’’Full HD (فل ایچ ڈی)‘‘ سے کریں تو دونوں میں فرق کیا ہوگا؟ چونکہ آج کل ہر موبائل فون اُور ڈیجیٹل سنگل لیز ریفلیکس (DSLR) کیمرے میں ’ویڈیو ریکارڈنگ‘ کی سہولت (آپشن) دیا گیا ہوتا ہے جس کے ذریعے تصاویر کے ساتھ ویڈیو بھی بنائی جا سکتی ہے اِس لئے ’ڈی ایس ایل آرز‘ کے استعمال کا رجحان فلمبندی (ویڈیوگرافی) میں روز بہ روز بڑھ رہا ہے اور بالخصوص ’صحافتی ٹیلی ویژن (ویڈیو جرنلزم)‘ اور ’کمرشلز (ویڈیو اشتہارات)‘ کی دنیا میں ’ڈی ایس ایل آرز‘ پر اعتماد کیا جانے لگا ہے کیونکہ ’ڈی ایس ایل آرز‘ کم دورانیئے کے ’ویڈیو کلپ‘ بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اِن نسبتاً کم قیمت آلات کی بدولت خوبیوں سے مزین ’آواز و تصویر‘ حاصل کرنا ممکن ہو چکی ہے۔ 

’ڈی ایس ایل آر‘ کیمروں کے ذریعے بنیادی طور پر تین فارمیٹس کا استعمال ہو رہا ہے۔ کسی بھی مقصد کے لئے کی جانے والی فلم بندی (ویڈیوگرافی) کے معیار کی پیمائش ’’ریزولوشن (resolution)‘‘ کی کسوٹی پر کیا جاتا ہے جبکہ یہ ’ریزولوشن‘ تصویر میں روشنی یعنی مختلف رنگوں کے نکتوں (ڈاٹس) کی تعداد سے ظاہر یا منتخب کی جاتی ہے اور ہر ایک نکتے کو پکسل (pixel) کی تعداد سے بیان یا سمجھا جاتا ہے۔ ایسی فلم بندی جو 1280x720 ریزولوشن پر فلمائی جائے اُسے ’’720P یا ہائی ڈیفینیشن (ایچ ڈی)‘‘ ویڈیو کہا جاتا ہے۔ 1920x1080 پکسلز ریزولوشن کی ویڈیو کو ’فل ہائی ڈیفینیشن (ایف ایچ ڈی)‘‘ جبکہ 3840x2160 پکسلز ریزولوشن پر بنائی گئی ویڈیو کو ’فور کے (4K)‘ کہا جائے گا۔ایک اُور نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ جب ہم پکسلز ریزولوشن کو اعداد جیسا کہ ’’1280x720‘‘ سے ظاہر کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ویڈیو کی ہر ایک تصویر (اسٹل فریم) ٹیلی ویژن کی چوڑائی (width) میں 1280پکسلز جبکہ لمبائی (height) میں 720 پکسلز (ڈاٹس) پر مشتمل ہوگی۔ اگر اِس عدد کے ساتھ ’پی (P)‘ کے حرف کا اضافہ بھی شامل ہو تو اِس کا مطلب ’پروگریسیو‘ ہوگا جو ’انٹرلیس (interlace)‘ ویڈیو کے متضاد ہوتا ہے۔ اگر مقصد یہ ہو کہ ویڈیو کلپ کو بعدازاں اُس کی اصل رفتار سے کم یعنی ’سلوموشن‘ میں دیکھنا ہو تو ’انٹرلیس‘ شوٹنگ فارمیٹ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تیسری تکنیکی اصطلاح ’ویڈیو گرافی‘ کی کوالٹی (آوٹ پٹ) پر اثرانداز ہوتی ہے۔ 

’’ڈیجیٹل کیمروں‘‘ سے چوبیس‘ تیس یا ساٹھ فریم فی سکینڈ (ایف پی ایس) پر شوٹنگ ہوتی ہے۔ پاکستان میں صحافتی ٹیلی ویژن اُور دستاویزی فلمیں یا ٹیلی ویژن ڈرامے بنانے والے ’چوبیس فریمز فی سیکنڈ‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر ساٹھ فریم فی سکینڈ پر ویڈیو شوٹ کی جائے اور اُسے چوبیس فریم فی سکینڈ پر ’پلے بیک (playback)‘ کیا جائے تو ایسی فلم ’سلوموشن‘ میں چلتی محسوس ہوگی۔ بطور اصول کوئی ایک ’فریم فی سکینڈ‘ قاعدہ ایسا نہیں جسے حتمی سمجھا جائے لیکن اِس چوائس (انتخاب) کا انحصار ’فلم ساز‘ کی ذاتی پسند‘ ترجیح (مقصد) اُور دستیاب آلات اُور وسائل پر ہوتا ہے۔