ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محکوم تعلیم!
نجی سکول کی جانب سے والدین کو ’سٹامپ پیپرز‘ پر یہ تحریر بطور ’بیان حلفی‘ جمع کرانے کا حکم دیا گیا کہ سکول کے داخلی امتحانات میں اگر اُن کے بچے (بچوں) نے ایک خاص تناسب سے کم نمبر حاصل کئے تو انہیں سکول سے خارج کر دیا جائے گا اور والدین کو سکول انتظامیہ کے اِس یکطرفہ فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا یعنی بچوں کی ذہنی قابلیت و استعداد اگر سکول کے کم سے کم معیار پر پوری نہ اُتری تو ایسے بچوں کے نام ’امتحانی بورڈز‘ میں بطور اُمیدوار ارسال نہیں کئے جائیں گے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی کسی ادارے کی جانب سے پہلی مرتبہ اِس قسم کے غیرقانونی و غیراخلاقی ’بیان حلفی‘ کا تقاضا کیا گیا۔
عمومی رجحان یہی ہے کہ داخلہ (ایڈمیشنز) کے وقت سے لیکر سال بہ سال ایسے بیان حلفی طلب کئے جاتے رہتے ہیں‘ جو اِس بات کا ثبوت ہیں کہ سکولوں کی انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کے لئے کسی بھی فورم پر خوابدہی کے لئے تیار نہیں۔ اِس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون کے تحت کسی بھی پاکستانی کو اُس کے آئینی حقوق سے یوں کھڑے کھڑے اور مجبوری کی حالت میں تو بالخصوص محروم نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے خلاف کسی فیصلے کے حوالے سے قانون یا عدالت سے رجوع نہیں کرے گا۔ دوئم سکول انتظامیہ کو اِس قسم کے بیان حلفی لینے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ درس و تدریس کے عمل میں اپنی خامیوں (ناکامیوں) کا ملبہ طلباء و طالبات پر ڈال کر گلوخلاصی کی جا رہی ہو؟ سوئم آخر یہ کس طرح تصور کر لیا گیا ہے کہ ہر بچہ ’ارسطو‘ اور ’افلاطون‘ کی طرح ذہین ہوگا اور اگر طلب علم پر آمادہ بچہ کسی وجہ سے اپنے ہم جماعتوں سے پیچھے ہیں تو اُس کی شخصیت سازی اور دوسروں کے برابر لانے کی ذمہ داری اگر اساتذہ کی نہیں تو پھر کس کی ہے؟ کیونکہ والدین اساتذہ کو اِس ذمہ داری کے ساتھ اپنا پیٹ کاٹ کر ادائیگیاں کرتے ہیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ سکولوں کو من مانی ٹیوشن فیسیں اور دیگر مدوں میں وصولیاں کرنے کی کھلی چھوٹ کیوں دے گئی ہے؟ خیبرپختونخوا کی حدود میں فعال ہر نجی سکول چاہے وہ کسی بھی امتحانی بورڈ سے منسلک ہو‘ صوبائی حکومت کے فرمان تابع اور زیرکنٹرول ہونا چاہئے اور اگر اس سلسلے میں قانون سازی کی ضرورت ہے تو بھی یہ عام آدمی کا کام نہیں۔ ماہانہ ٹیوشن فیسوں سمیت جملہ وصولیوں یا تدریسی پالیسیوں کے حوالے سے صوبائی حکومت یا متعلقہ محکمے سے اجازت لینا ایک ایسی ضرورت ہے جس سے تعلیم کے عمل کو آزاد و زیادہ بامقصد بنایا جا سکتا ہے۔
تعلیم کے بارے میں ہمارے ہاں نجی و سرکاری اداروں کی سوچ میں کمال مماثلت بھی پائی جاتی ہے کہ یہ سبھی امتحانات کے پیمانے (کسوٹی) پر طلباء و طالبات کی ذہانت و قابلیت اور اہلیت کی جانچ کرتے ہیں۔ نسل در نسل منتقل ہونے والا عمومی تصور (مفروضہ) یہ بھی ہے کہ ’تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو نوکری نہیں ملے گی اور اگر نوکری نہیں ملے گی تو گھر کی کفالت کیسے ممکن ہوگی؟‘ ہمارے ہاں ’تعلیم‘ کا عمل نہ صرف اختلافی نوٹ بلکہ محکوم ہونے کی حد تک زوال پذیر بھی ہے۔ کیا تعلیم نصابی کتب کو رٹنے کا نام ہے؟
ڈگریوں جمع کرنے یا کتابوں اور تجربات پر زندگی کی حقیقت تک رسائی میں سے کس کا انتخاب ہونا چاہئے؟
کیا تعلیم کمانے کی کنجی (ذریعہ) ہے اور اس کا انسانی زندگی و شخصیت اور افکار و تخیلات کی تخلیقِ سے کوئی تعلق (واسطہ) نہیں؟ مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’میں نے کبھی بھی اپنی تعلیم کو اپنی سیکھنے کے عمل پر حاوی ہونے نہیں دیا!‘‘
گمان نہیں یقین یہی ہے کہ تعلیم کسی ادارے‘ سکول‘ کالج یا یونیورسٹی کی محتاج نہیں البتہ یہ اِن وسیلوں سے علم کی شناخت‘ عرفان اور سمت کا تعین میں مدد دیتے ہیں‘ جس کے ذریعے عالم و جاہل میں تمیز ممکن ہو۔ خود تعلیمی اداروں نے تسلیم کر لیا ہے (ہار مان لی ہے) کہ ہمارا نصاب تعلیم اِس خوبی سے عاری ہے کہ اس کے ذریعے ذہانت کے ایک جیسے معیار کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ پاکستان میں کل تین کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ طالب علم نصابی تعلیم سے منسلک ہیں۔ ان کا تعلق سائنس‘ آرٹس‘ کامرس اور میڈیکل و انجنیرئنگ کے شبعوں سے ہے۔ یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد بھی کم نہیں بلکہ قریب ساڑھے چار لاکھ ہے جن کا ہدف کہ وہ راتوں رات کامیاب و امیر بن جائیں! کہ یہی کامیابی کا معیار سمجھ لیا گیا ہے!
تصور کیجئے کہ ریاست نے ’تعلیم‘ کو انفرادی کوشش اور محنت کا لیبل دے دیا ہے کہ پڑھے لکھنے ہونے کا معیار بس یہ ہے کہ انجینئر‘ ڈاکٹر یا اکاونٹنٹ بننے کے لئے انجینئرنگ‘ میڈیکل یا کامرس سے متعلق مضامین پڑھے جائیں۔ اس رجحان کی اگر کوئی پیروی کر رہا ہو تو اسے بالکل حیرت نہیں ہوگی کہ ریاست کس طرح ان تعلیمی اداروں کے درمیان مارکس اور گریڈ کی دوڑ میں اچھے اور ہائی گریڈ انجینئر اور اکاونٹنٹ دریافت کر رہی ہے یعنی اچھے نمبر اور اچھی نوکری لیکن کیا سبھی اچھے نمبر حاصل کرنے والوں کو اچھی ملازمتیں مل پاتی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو امتیازی نمبروں سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کامیاب ہونے والوں میں سے قریب پینتیس فیصد تعداد بے روزگار کیوں ہے؟
تعلیم کے ساتھ طلباء و طالبات میں رجحان سازی اور اُن کی تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ نصابی تعلیم کی سیدھی لکیر سے ہٹ کر تعمیری کردار ناپید ہوچکے ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں فکرِ معاش کے اندھیروں میں گم دکھائی دیتی ہے۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کچھ عرصے میں صرف کتابوں کی حد تک ہی محدود ہو جائیں گے جس سے معاشرہ عدم توازن کا یونہی شکار (دوچار) رہے گا اور تعلیم ایک کاروبار و صنعت کے طور پر حسب روایت کھڑے کھڑے پرواز (ترقی) کرتی چلی جائے گی!
تعلیم کے بارے میں فکروعمل تبدیل کئے بناء کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ اٹھانے والے ’اچھے مزدور‘ تو حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ایسے اچھے انسان نہیں‘ جن کے ہاتھوں میں پاکستان کی ترقی کا عمل عصری ضروریات کے ہم آہنگ قرار دیا جاسکے!