ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
شجرکاری: دل سے!؟
پاکستان دنیا کے اُن ’10 ممالک‘ کی فہرست میں ’7ویں‘ نمبر پر ہے جو ’عالمی موسمیاتی تبدیلیوں (Climate Change)‘ کی وجہ سے ’بُری طرح متاثر‘ ہو رہے ہیں۔ اِس صورتحال اُور درپیش چیلنجز کا اِدراک کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے 4 اگست 2017ءکو ’کلائمنٹ چینج‘ نامی خصوصی وزارت قائم کی اُور اُس دور کی حکمراں سیاسی جماعت مسلم لیگ (نواز) نے ہنگامی بنیادوں پر ’10 کروڑ‘ درخت لگانے کا اعلان کیا۔ وہ درخت کہاں لگے یا لگنے کے بعد کہاں چلے گئے یہ موضوع الگ سے تحقیق چاہتا ہے لیکن اِس پوری کوشش سے جو ایک بات عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ شجرکاری سے متعلق حکومتی عزم اُور حکمت عملیاں‘ کہیں نمود و نمائش کی نذر ہو جاتی ہیں اور کہیں تسلسل نہ ہونے اُور عدم دلچسپی کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔ یہی اَسباب ہیں کہ وقت کے ساتھ پاکستان میں جنگلات کے رقبے بڑھنے کی بجائے سکڑتے گئے اور اِن میں حسب اعلانات و دوڑ دھوپ (سرگرمیاں) خاطرخواہ اِضافہ نہیں ہوا۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک اِنصاف کو قومی فیصلہ سازی کا اِختیار ملا‘ تو پہلا کام (5 اکتوبر 2018) یہ کیا گیا کہ 34 سالہ محترمہ زرتاج گل (رکن قومی اسمبلی) کو ’کلائمنٹ چینج‘ کی وزارت دی گئی اُور دوسرا کام یہ ہوا کہ مذکورہ وزارت نے ’8 اکتوبر 2018‘ سے ’کلین گرین پاکستان موومنٹ‘ نامی حکمت عملی بوساطت ’وزیراعظم پاکستان‘ عمران خان کا اعلان کیا‘ جس پر باقاعدہ عمل درآمد کا آغاز 13 اکتوبر 2018ء سے جاری ہے۔ وفاقی وزارت ’کلائمنٹ چینج‘ نے درختوں کی اہمیت کے بارے میں قومی شعور کی سطح بلند کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے اُور اِسی کے تحت ملک گیر شجرکاری مہمات کی سرپرستی و نگرانی کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر ’کلین گرین پاکستان‘ کے تحت ’10 ارب‘ درخت لگائے جائیں گے! عالمی پیمانہ یہ ہے کہ کسی ملک کے کل رقبے کے 20فیصد حصے پر جنگلات ہونے چاہیئں جبکہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد سے کم ہے!
جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک اِنصاف کو قومی فیصلہ سازی کا اِختیار ملا‘ تو پہلا کام (5 اکتوبر 2018) یہ کیا گیا کہ 34 سالہ محترمہ زرتاج گل (رکن قومی اسمبلی) کو ’کلائمنٹ چینج‘ کی وزارت دی گئی اُور دوسرا کام یہ ہوا کہ مذکورہ وزارت نے ’8 اکتوبر 2018‘ سے ’کلین گرین پاکستان موومنٹ‘ نامی حکمت عملی بوساطت ’وزیراعظم پاکستان‘ عمران خان کا اعلان کیا‘ جس پر باقاعدہ عمل درآمد کا آغاز 13 اکتوبر 2018ء سے جاری ہے۔ وفاقی وزارت ’کلائمنٹ چینج‘ نے درختوں کی اہمیت کے بارے میں قومی شعور کی سطح بلند کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے اُور اِسی کے تحت ملک گیر شجرکاری مہمات کی سرپرستی و نگرانی کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر ’کلین گرین پاکستان‘ کے تحت ’10 ارب‘ درخت لگائے جائیں گے! عالمی پیمانہ یہ ہے کہ کسی ملک کے کل رقبے کے 20فیصد حصے پر جنگلات ہونے چاہیئں جبکہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد سے کم ہے!
درخت ہاتھوں سے نہیں دل سے لگائے جاتے ہیں۔ بس یہی ایک باریک نکتہ (نتیجہ ¿ خیال) ماضی کی طرح حال کے حکمرانوں کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا‘ جو بناءموسم اِس اُمید سے درخت لگائے جا رہے ہیں کہ یہ پھلیں پھولیں گے لیکن اکثر درخت شاید اِس اُمید پر پورا نہ پائیں کیونکہ اُن کے لئے فراہم کردہ حالات موافق نہیں اُور دوسری بات یہ ہے کہ جن سرکاری ملازمین کو درخت لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ حکومت اُن کے حقوق اَدا نہیں کر رہی اُور یہ دونوں محرکات ہی کسی بھی ’گرین کلین پاکستان‘ نامی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لئے کافی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی صورتحال بطور مثال ملاحظہ کیجئے۔ صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی ’کلین گرین پاکستان‘ کے لئے محکمہ زراعت کے افرادی و تکنیکی وسائل سے استفادہ کیا جا رہا ہے لیکن محکمہ زراعت (توسیعی) کے کل ملازمین کا ’25 فیصد‘ سے بھی کم عملہ ’فیلڈ سٹاف (field-staff)‘ پر مشتمل ہے۔ اصطلاحاً ’فیلڈ سٹاف‘ اُن اہلکاروں کو کہا جاتا ہے جو آرام دہ دفتروں کی بجائے متعلقہ دور دراز علاقوں میں زراعت کی ترقی و توسیع کے لئے کاشتکاروں یا عوام سے مستقل رابطے میں رہیں۔ کسی ’فیلڈ اسسٹنٹ‘ کی بنیادی تعلیم میٹرک یا ’ایف ایس سی‘ مقرر ہے‘ جو 3 سالہ ڈپلومہ کرنے کے بعد 9ویں اسکیل میں بھرتی ہوتا اُور سروس اسٹرکچر (ملازمتی ڈھانچے) کی خامیوں کے باعث‘ پچیس سے تیس سال یا اِس سے بھی زائد ملازمتی عرصہ گزارنے کے بعد بناءکسی محکمانہ ترقی ’9ویں اسکیل‘ ہی میں ریٹائر ہو جاتا ہے۔ چونکہ پورے ملک میں سب سے زیادہ جنگلات خیبرپختونخوا میں ہیں اُور یہیں کی آب و ہوا کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں اضافہ بھی ممکن ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ محکمہ زراعت کی تمام ذیلی شاخوں (ایگری کلچر توسیعی‘ ایگری کلچر تحقیقی‘ لائیو سٹاک‘ واٹر مینجمنٹ‘ سائل کنزرویشن‘ فشریز اُور ایگری کلچر انجنیئرنگ) کے افرادی و تکنیکی وسائل میں اضافہ کرے۔ فیلڈ میں کام کرنے والے عملے کی تعداد دفتری ملازمین سے زیادہ ہونی چاہئے اُور سب سے زیادہ ضروری ’ملازمتی ڈھانچے (سروس اسٹرکچر)‘ پر نظرثانی کی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع کی صورتحال مثالی نہیں اُور زرعی عملے (فیلڈ اسسٹنٹس) کی تعداد وہاں کی یونین کونسلوں کے مطابق نہیں۔
شہری و دیہی علاقوں میں پھلدار اُور سایہ دار درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا محکمہ ¿ زراعت کی ذمہ داریوں میں ہونے والا ”نیا اضافہ“ نہیں بلکہ مذکورہ محکمہ برس ہا برس سے بلاناغہ (پھلدار) باغات لگانے کے لئے ہر قسم کی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ مضحکہ خیز صورتحال (بھیڑچال) یہ ہے کہ ’کلین گرین پاکستان‘ کے تحت خیبرپختونخوا میں ’شجر کاری مہم‘ ماہ ستمبر کے دوران جاری ہے جبکہ یہ موسم درخت لگانے کا نہیں۔ اصولی طور پر مون سون سیزن (جون‘ جولائی) میں شجرکاری ہونی چاہئے یا پھر ماہ دسمبر میں کھڈے کھود کر ایک سے ڈیڑھ ماہ زمین کو درخت لگانے کے لئے تیار کیا جائے اُور ماہ فروری میں کسی علاقے کی آب و ہوا کو مدنظر رکھتے ہوئے درختوں کا انتخاب پر مبنی شجرکاری کی جائے۔ بے موسم شجرکاری کے 2 نقصانات ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ پودا کہ جو مون سون بارشوں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ 100 روپے میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے‘ بعد میں ’ایک ہزار‘ سے ’بارہ سو روپے‘ میں بھی بمشکل مل پاتا ہے اُور دوسرا بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے لگائے جانے والے درختوں کے پھلنے پھولنے کے امکانات ’ساٹھ سے ستر فیصد‘ کم ہوتے ہیں۔ اگست کے اختتام اُور ماہ ستمبر کے آغاز پر نمائشی شجرکاری مہم خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں جاری ہے اُور ہر ضلع کا صاحب بہادر (کمشنر اُور ڈپٹی کمشنرز) اپنے ناموں کی تختیوں کے ساتھ پودے لگا رہا ہے۔ ماتحت ملازمین کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ دفتری امور ٹھپ پڑے ہیں!
مہنگے داموں خریدے گئے پودے یہاں وہاں‘ جہاں کہیں کیمرہ اُور استقبالیہ دکھائی دے زمین میں ٹھونسے جا رہے ہیں اُور اِس پوری نمائشی کوشش سے اُمید یہ ہے کہ اِس طرح درختوں کے رقبے میں اضافہ ہوگا۔ زراعت جہالت کی کیاریوں میں پروان نہیں چڑھتی بلکہ اِس کے لئے محنت و لگن کی کھاد‘ پانی اُور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ زرعی علوم سائنس کا درجہ رکھتے ہیں اُور یہ بات بار بار دہرانے لائق ہے کہ درخت ہاتھوں سے نہیں دل سے لگائے جاتے ہیں! اِن کی دل سے قدر (حفاظت) کی جائے تو یہ پھل بھی دیتے ہیں اور سایہ بھی!
دیکھا نہ جائے‘ دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے‘ کروں سایہ درخت پر (عباس تابش)۔“
مہنگے داموں خریدے گئے پودے یہاں وہاں‘ جہاں کہیں کیمرہ اُور استقبالیہ دکھائی دے زمین میں ٹھونسے جا رہے ہیں اُور اِس پوری نمائشی کوشش سے اُمید یہ ہے کہ اِس طرح درختوں کے رقبے میں اضافہ ہوگا۔ زراعت جہالت کی کیاریوں میں پروان نہیں چڑھتی بلکہ اِس کے لئے محنت و لگن کی کھاد‘ پانی اُور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ زرعی علوم سائنس کا درجہ رکھتے ہیں اُور یہ بات بار بار دہرانے لائق ہے کہ درخت ہاتھوں سے نہیں دل سے لگائے جاتے ہیں! اِن کی دل سے قدر (حفاظت) کی جائے تو یہ پھل بھی دیتے ہیں اور سایہ بھی!
دیکھا نہ جائے‘ دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے‘ کروں سایہ درخت پر (عباس تابش)۔“