Friday, August 30, 2019

Plantation from the heart

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
شجرکاری: دل سے!؟
پاکستان دنیا کے اُن ’10 ممالک‘ کی فہرست میں ’7ویں‘ نمبر پر ہے جو ’عالمی موسمیاتی تبدیلیوں (Climate Change)‘ کی وجہ سے ’بُری طرح متاثر‘ ہو رہے ہیں۔ اِس صورتحال اُور درپیش چیلنجز کا اِدراک کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے 4 اگست 2017ءکو ’کلائمنٹ چینج‘ نامی خصوصی وزارت قائم کی اُور اُس دور کی حکمراں سیاسی جماعت مسلم لیگ (نواز) نے ہنگامی بنیادوں پر ’10 کروڑ‘ درخت لگانے کا اعلان کیا۔ وہ درخت کہاں لگے یا لگنے کے بعد کہاں چلے گئے یہ موضوع الگ سے تحقیق چاہتا ہے لیکن اِس پوری کوشش سے جو ایک بات عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ شجرکاری سے متعلق حکومتی عزم اُور حکمت عملیاں‘ کہیں نمود و نمائش کی نذر ہو جاتی ہیں اور کہیں تسلسل نہ ہونے اُور عدم دلچسپی کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔ یہی اَسباب ہیں کہ وقت کے ساتھ پاکستان میں جنگلات کے رقبے بڑھنے کی بجائے سکڑتے گئے اور اِن میں حسب اعلانات و دوڑ دھوپ (سرگرمیاں) خاطرخواہ اِضافہ نہیں ہوا۔

جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک اِنصاف کو قومی فیصلہ سازی کا اِختیار ملا‘ تو پہلا کام (5 اکتوبر 2018) یہ کیا گیا کہ 34 سالہ محترمہ زرتاج گل (رکن قومی اسمبلی) کو ’کلائمنٹ چینج‘ کی وزارت دی گئی اُور دوسرا کام یہ ہوا کہ مذکورہ وزارت نے ’8 اکتوبر 2018‘ سے ’کلین گرین پاکستان موومنٹ‘ نامی حکمت عملی بوساطت ’وزیراعظم پاکستان‘ عمران خان کا اعلان کیا‘ جس پر باقاعدہ عمل درآمد کا آغاز 13 اکتوبر 2018ء سے جاری ہے۔ وفاقی وزارت ’کلائمنٹ چینج‘ نے درختوں کی اہمیت کے بارے میں قومی شعور کی سطح بلند کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے اُور اِسی کے تحت ملک گیر شجرکاری مہمات کی سرپرستی و نگرانی کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر ’کلین گرین پاکستان‘ کے تحت ’10 ارب‘ درخت لگائے جائیں گے! عالمی پیمانہ یہ ہے کہ کسی ملک کے کل رقبے کے 20فیصد حصے پر جنگلات ہونے چاہیئں جبکہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 5 فیصد سے کم ہے!

درخت ہاتھوں سے نہیں دل سے لگائے جاتے ہیں۔ بس یہی ایک باریک نکتہ (نتیجہ ¿ خیال) ماضی کی طرح حال کے حکمرانوں کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا‘ جو بناءموسم اِس اُمید سے درخت لگائے جا رہے ہیں کہ یہ پھلیں پھولیں گے لیکن اکثر درخت شاید اِس اُمید پر پورا نہ پائیں کیونکہ اُن کے لئے فراہم کردہ حالات موافق نہیں اُور دوسری بات یہ ہے کہ جن سرکاری ملازمین کو درخت لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ حکومت اُن کے حقوق اَدا نہیں کر رہی اُور یہ دونوں محرکات ہی کسی بھی ’گرین کلین پاکستان‘ نامی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لئے کافی ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی صورتحال بطور مثال ملاحظہ کیجئے۔ صوبے کے دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی ’کلین گرین پاکستان‘ کے لئے محکمہ زراعت کے افرادی و تکنیکی وسائل سے استفادہ کیا جا رہا ہے لیکن محکمہ زراعت (توسیعی) کے کل ملازمین کا ’25 فیصد‘ سے بھی کم عملہ ’فیلڈ سٹاف (field-staff)‘ پر مشتمل ہے۔ اصطلاحاً ’فیلڈ سٹاف‘ اُن اہلکاروں کو کہا جاتا ہے جو آرام دہ دفتروں کی بجائے متعلقہ دور دراز علاقوں میں زراعت کی ترقی و توسیع کے لئے کاشتکاروں یا عوام سے مستقل رابطے میں رہیں۔ کسی ’فیلڈ اسسٹنٹ‘ کی بنیادی تعلیم میٹرک یا ’ایف ایس سی‘ مقرر ہے‘ جو 3 سالہ ڈپلومہ کرنے کے بعد 9ویں اسکیل میں بھرتی ہوتا اُور سروس اسٹرکچر (ملازمتی ڈھانچے) کی خامیوں کے باعث‘ پچیس سے تیس سال یا اِس سے بھی زائد ملازمتی عرصہ گزارنے کے بعد بناءکسی محکمانہ ترقی ’9ویں اسکیل‘ ہی میں ریٹائر ہو جاتا ہے۔ چونکہ پورے ملک میں سب سے زیادہ جنگلات خیبرپختونخوا میں ہیں اُور یہیں کی آب و ہوا کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں اضافہ بھی ممکن ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ محکمہ زراعت کی تمام ذیلی شاخوں (ایگری کلچر توسیعی‘ ایگری کلچر تحقیقی‘ لائیو سٹاک‘ واٹر مینجمنٹ‘ سائل کنزرویشن‘ فشریز اُور ایگری کلچر انجنیئرنگ) کے افرادی و تکنیکی وسائل میں اضافہ کرے۔ فیلڈ میں کام کرنے والے عملے کی تعداد دفتری ملازمین سے زیادہ ہونی چاہئے اُور سب سے زیادہ ضروری ’ملازمتی ڈھانچے (سروس اسٹرکچر)‘ پر نظرثانی کی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع کی صورتحال مثالی نہیں اُور زرعی عملے (فیلڈ اسسٹنٹس) کی تعداد وہاں کی یونین کونسلوں کے مطابق نہیں۔

شہری و دیہی علاقوں میں پھلدار اُور سایہ دار درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنا محکمہ ¿ زراعت کی ذمہ داریوں میں ہونے والا ”نیا اضافہ“ نہیں بلکہ مذکورہ محکمہ برس ہا برس سے بلاناغہ (پھلدار) باغات لگانے کے لئے ہر قسم کی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ مضحکہ خیز صورتحال (بھیڑچال) یہ ہے کہ ’کلین گرین پاکستان‘ کے تحت خیبرپختونخوا میں ’شجر کاری مہم‘ ماہ ستمبر کے دوران جاری ہے جبکہ یہ موسم درخت لگانے کا نہیں۔ اصولی طور پر مون سون سیزن (جون‘ جولائی) میں شجرکاری ہونی چاہئے یا پھر ماہ دسمبر میں کھڈے کھود کر ایک سے ڈیڑھ ماہ زمین کو درخت لگانے کے لئے تیار کیا جائے اُور ماہ فروری میں کسی علاقے کی آب و ہوا کو مدنظر رکھتے ہوئے درختوں کا انتخاب پر مبنی شجرکاری کی جائے۔ بے موسم شجرکاری کے 2 نقصانات ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ پودا کہ جو مون سون بارشوں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ 100 روپے میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے‘ بعد میں ’ایک ہزار‘ سے ’بارہ سو روپے‘ میں بھی بمشکل مل پاتا ہے اُور دوسرا بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے لگائے جانے والے درختوں کے پھلنے پھولنے کے امکانات ’ساٹھ سے ستر فیصد‘ کم ہوتے ہیں۔ اگست کے اختتام اُور ماہ ستمبر کے آغاز پر نمائشی شجرکاری مہم خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں جاری ہے اُور ہر ضلع کا صاحب بہادر (کمشنر اُور ڈپٹی کمشنرز) اپنے ناموں کی تختیوں کے ساتھ پودے لگا رہا ہے۔ ماتحت ملازمین کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ دفتری امور ٹھپ پڑے ہیں!

مہنگے داموں خریدے گئے پودے یہاں وہاں‘ جہاں کہیں کیمرہ اُور استقبالیہ دکھائی دے زمین میں ٹھونسے جا رہے ہیں اُور اِس پوری نمائشی کوشش سے اُمید یہ ہے کہ اِس طرح درختوں کے رقبے میں اضافہ ہوگا۔ زراعت جہالت کی کیاریوں میں پروان نہیں چڑھتی بلکہ اِس کے لئے محنت و لگن کی کھاد‘ پانی اُور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ زرعی علوم سائنس کا درجہ رکھتے ہیں اُور یہ بات بار بار دہرانے لائق ہے کہ درخت ہاتھوں سے نہیں دل سے لگائے جاتے ہیں! اِن کی دل سے قدر (حفاظت) کی جائے تو یہ پھل بھی دیتے ہیں اور سایہ بھی!

دیکھا نہ جائے‘ دھوپ میں جلتا ہوا کوئی
میرا جو بس چلے‘ کروں سایہ درخت پر (عباس تابش)۔“
............



Sunday, August 25, 2019

TRANSLATION: Continuity by Dr. Farrukh Saleem

Continuity
تسلسل
اقتصادی مارکیٹ کا انحصار اور خوشحالی ’تسلسل‘ میں ہوتا ہے۔ معاشی حالات ایک ڈگر پر چلنے کے تسلسل سے مراد یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید کسی ایک سطح پر برقرار رہے اُور اِس میں کمی تو ہرگز نہیں ہونی چاہئے لیکن پاکستان میں سرمایہ کاری اُور عوام کی قوت خرید دونوں ہی کم ہو رہے ہیں جس کی ایک جھلک کراچی سٹاک ایکسچینج میں بہتری کے آثار سے سمجھا جا سکتا ہے اُور اگر ملک کی اقتصادی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے فیصلے کو دیکھا جائے تو اِس فیصلے کے پس پردہ محرکات کی بخوبی سمجھ آ جائے گی۔ فی الوقت کراچی کی حصص مارکیٹ (KSE-100) انڈکس میں 2585 پوائنٹس کا اضافہ ہوا‘ جس کا مطلب ہے کہ 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تصور کیجئے کہ حصص مارکیٹ میں کسی بھی ایک ہفتے کے دوران ہونے والی یہ بلند ترین سرمایہ کاری ہے۔

اگست 2018ءمیں جب تحریک انصاف حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اُس وقت حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ’کرنٹ اکاونٹ خسارہ‘ تھا یعنی حکومت کی آمدنی کم اور جاری اخراجات آمدنی سے زیادہ تھے۔ جولائی 2018ءکی بات ہے یعنی تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے ایک ماہ قبل ’کرنٹ اکاونٹ ماہانہ خسارہ‘ 2130 ملین ڈالر تھا۔ جولائی 2019ء(تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال) کے دوران یہ خسارہ کم ہو کر 579 ملین ڈالر ہو چکا ہے‘ جو قریب ایک سال میں ’73 فیصد‘ بہتری ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 1: ڈالر پر منحصر پاکستان کی اقتصادیات پر حکومت کا کنٹرول پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ 2: ایک سال قبل پاکستانی روپے پر جو دباو تھا اُس میں کمی آئی ہے اُور 3: ملک چلانے کے لئے ڈالروں کی ضرورت ماضی کے مقابلے کم ہوئی ہے۔ یہ سبھی اشارے حکومت کی اقتصادی حکمت عملیوں کی کامیابی کے اشارے ہیں۔

پاکستان کی داخلی صورتحال کے تناظر میں اگر ’جنرل باجوہ کے نظریات (Bajwa Doctrine)‘ کا جائزہ لیا جائے تو یہ7 ستونوں پر استوار دکھائی دیتا ہے۔ 1: ایک ایسا طرزحکمرانی جو عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔ 2: ایک ایسی حکومت کا قیام جو آزاد و شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے ہوں۔ 3: قومی وسائل کی لوٹ مار پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ 4: جمہوری حقوق کو مقدم سمجھتے ہوئے اِن کا بہرصورت تحفظ ہونا چاہئے۔ 5: قومی اداروں میں سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ 6: پاکستان کی ریاست کا اِس کے 7 لاکھ 96 ہزار 95 مربع کلومیٹر رقبے کے ہر حصے پر کنٹرول ہونا چاہئے اُور خوف و دہشت پھیلانے والے چاہے وہ کسی بھی لبادے اور کسی بھی نام سے ہوں انہیں تخریب کاری کی کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے اُور 7: وفاق پاکستان کو مضبوط بنایا جائے۔

جنرل باجوہ نظریات کو مشرق میں بھارت کا سامنا ہے‘ جہاں ہندو انتہاءپسند جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ برسراقتدار ہے۔ مغربی محاذ پر جنرل باجوہ نظریات کی کامیابی کے مغربی و امریکی ممالک بھی معترف ہیں۔ پانچ ستمبر کو بنکاک اُور پھر پیرس میں 18 سے 23 اکتوبر ’FATF‘ اجلاس بڑے چیلنجز ہیں۔ دنیا پاکستان کی پالیسیوں میں تسلسل کو سراہا رہی ہے۔
پاکستان کی داخلی اقتصادیات کی بات کی جائے تو یہ غیرمتوقع طور پر سست روی کا شکار ہے۔ چند ہفتے قبل مہنگائی کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری سے متعلق جو پیشنگوئیاں کی گئی تھیں‘ وہ سب کی سب غلط ثابت ہوئی ہیں۔ روٹی کی قیمت میں اضافہ کسی بھی صورت اچھی خبر نہیں۔ روپے پر انحصار کرنے والی معیشت کو پانچ مشکلات کا سامنا ہے۔ 1.7 کھرب روپے کا گردشی قرضہ‘ 1.6 کھرب روپے سرکاری اداروں کا سالانہ خسارہ‘ سرکاری خریداریوں میں سالانہ ایک کھرب روپے کی بدعنوانیاں‘ گیس کے شعبے میں دو ارب ڈالر کا سالانہ خسارہ اُور حکومتی ضروریات کے لئے 734 ارب روپے کا قرض۔ اِن پانچ شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور اِنہی پانچ شعبوں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے پاکستان کا قرض 40 کھرب روپے جیسی بلند سطح تک پہنچ گیا ہے۔

اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت ایک تسلسل کے ساتھ اپنی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہے‘ جس کی وجہ سے اُمید ہو چلی ہے کہ اگر یہ تسلسل برقرار رہتا ہے تو اِس سے اقتصادی بہتری آئے گی۔ پاکستان کے دشمنوں کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو اقتصادی طور پر اتنا کمزور کر دیں کہ وہ جنگ کے بارے میں سوچنے سے بھی گھبرائے۔ اگر حکومت مذکورہ پانچ شعبوں کو اصلاحاتی ترجیحات کا حصہ بناتی ہے تو اِس سے نہ صرف داخلی و خارجی محاذ پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی بلکہ تعمیروترقی کے نئے دور اور نئے پاکستان کی تخلیق بھی عملاً ممکن ہو جائے گی۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Sunday, August 4, 2019

TRANSLATION: Economic Slowdown by Dr. Farrukh Saleem

Economic slowdown
اِقتصادی سست روی
پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو سمجھنے کے لئے اِسے 2 حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ پہلا درجہ وہ اقتصادیات ہے جس میں امریکی ڈالر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور دوسرا درجے میں پاکستانی روپے لین دین کا بنیادی ذریعہ ہے۔ اگست 2018ءمیں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تھی تو اُس وقت امریکی ڈالر قومی اقتصادیات پر حاوی تھا اُور قومی ضروریات قریب 28 ارب ڈالر تھیں جبکہ جاری اخراجات کا خسارہ 20 ارب ڈالر اُور قرضہ جات کی ادائیگی جیسی مالی ذمہ داری 8 ارب ڈالر تھی۔
تحریک اِنصاف حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے اُور اِس عرصے کے دوران 2 کلیدی پیشرفتیں ہوئی ہیں جن سے بالخصوص ڈالر پر منحصر اقتصادی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلا حاصل یہ ہے کہ جاری اخراجات کا خسارہ جو پہلے 20 ارب ڈالر تھا‘ اُسے کم کرتے ہوئے 13 ارب ڈالر تک لے آیا گیا ہے۔ دوسرا ’عالمی مالیاتی اِدارے (آئی ایم ایف)‘ نے پاکستان کے لئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی‘ جس کی وجہ سے قرضوں اور سود کی ادائیگی سمیت خزانے پر بوجھ میں وقتی کمی آئی جو کہ مہلت ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اِس مہلت سے کس قدر فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اِن دونوں اقدامات کی بدولت ڈالر پر منحصر اقتصادی صورتحال درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے جس سے استحکام آئے گا۔
روپے پر منحصر اقتصادیات کو مزید درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ جن میں حکومتی شعبہ‘ کاروباری شعبہ اُور نجی شعبہ یعنی ایسے طبقات آتے ہیں جنہیں گھریلو صارفین کہا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر اصلاح کے لئے احتساب کا عمل پورے زور و شور سے جاری ہے‘ جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے لیکن حکومتی اخراجات میں خاطرخواہ کمی نہیں آ رہی‘ جو نہایت ہی ضروری ہے۔ اگر ہم حکومتی اصلاحات کا مشاہدہ کریں تو بجلی کا پیداواری شعبہ اُور سرکاری محکموں کے اخراجات و خسارے کی اصلاح نظرانداز کر دی گئی ہے جو قطعی اچھی خبر نہیں۔

حکومت کی اصلاحاتی کوششیں اپنی جگہ اہم لیکن کاروباری شعبہ سست روی کا شکار ہے۔ ہنڈا اٹلس نامی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنی نے اپنی پیداوار میں 35فیصد کمی کا اعلان کیا ہے جو اچھا شگون نہیں۔ پاکستان میں حصص کا کاروبار بھی مندی کا شکار ہے‘ جہاں کی جانے والی سرمایہ کاری میں 100 ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

گھریلو صارفین کو دیکھیں تو اُن کی قوت خرید بھی کم ہو رہی ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے جو کہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو صارفین پریشان ہیں! کم آمدنی والوں کے لئے روزمرہ گھریلو اخراجات جن سے صرف بنیادی ضروریات ہی پوری ہوتی ہیں‘ کا توازن رکھنا ممکن نہیں رہا۔ الغرض زندگی کے ہر شعبے پر مہنگائی اور مالیاتی پالیسیوں کے منفی اثرات نمایاں سے نمایاں تر ہو رہے ہیں۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 57 لاکھ افراد کو ہر تین ماہ بعد 5000 روپے دیئے جاتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اِس مالی مدد کو 5500 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ احسن اقدام ہے۔ بُری خبر یہ ہے کہ حکومت پیشہ ورانہ تعلیم پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہی جس سے خودروزگاری بڑھے۔ اگر مالی طور پر کمزور خاندانوں کو ہنرمند بنا دیا جائے تو وہ اپنی گزربسر کے لئے کسی حکومتی امداد کے محتاج نہیں رہیں گے اُور ایسا کرنے سے اُن کی عزت نفس کے ساتھ سماجی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہوگا۔ بہتر یہی ہو گا کہ مچھلی تحفے میں دینے کی بجائے مچھلی پکڑنا سکھائی جائے۔

حکمرانوں کو توجہ دینی چاہئے کہ سرکاری ادارے (پبلک سیکٹر انٹرپرائزیز) سالانہ 1.1 کھرب روپے کا نقصان کرتے ہیں اُور یہ نقصان موجودہ حکومت کے دور میں بھی جاری ہے۔ کیا قومی خزانے پر سرکاری اداروں کا بوجھ کم نہیں ہونا چاہئے؟

خسارے میں چلنے والے اداروں کی اصلاح کون کرے گا؟

بجلی کا پیداواری شعبہ ہر دن 2 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں اور یہ نقصان سارا سال جاری رہتا ہے یعنی سال کے ہر دن 2 ارب روپے نقصان ہوتا ہے لیکن اِس خسارے کو بھی ختم کرنے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ حکومت کے لئے سالانہ کھربوں روپے کی خریداری ہوتی ہے جن میں کئی کھرب کی خردبرد ہو رہی ہے لیکن اِسے بھی ختم کرنے کی کوئی تدبیر دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کو اہداف کا تعین کرنا ہوگا‘ جن کی روشنی میں حکمت عملی مرتب کرکے اِن اہداف کے حصول کے لئے کوششیں کرنا ہوں گی۔



(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)