Sunday, September 9, 2018

TRANSLATION: 1 trillion dollars by Dr. Farrukh Saleem

One trillion dollars
ایک کھرب ڈالر
بدعنوانی باعث ہلاکت ہے۔ کیا ہر پاکستانی وجوہات جانتا ہے کہ اُس کے ملک میں سالانہ ’’2 لاکھ 90 ہزار بچے‘‘ اپنی پیدائش کے پہلے ہی ماہ کے اندر کیوں ہلاک ہو رہے ہیں؟ اِن کے علاؤہ سالانہ ’’1 لاکھ 76 ہزار 400 بچے‘‘ اِس وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کی پیدائش مقررہ وقت سے پہلے ہو جاتی ہے۔ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان دنیا کا ایسا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ نومولود بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں!
جب پاکستان میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کے مرنے کے کم سے کم 22 امکانات ہوتے ہیں جن میں ماؤں کی صحت بھی ایک محرک ہے۔ سالانہ 53 ہزار بچے ’ڈائریا (Diarrhoea)‘ کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں اور ڈائریا (دستوں کی بیماری) ہونے کی بنیادی وجہ ’آلودہ پانی‘ ہے۔ پاکستان میں بچوں اور بڑوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں!

بدعنوانی باعث ہلاکت ہے۔ عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’(پاکستان جیسے) ترقی پذیر ممالک میں ہر سال ’1 کھرب ڈالر‘ منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری اور مالی بدعنوانیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔‘‘ اگر پاکستان کے قومی وسائل کی لوٹ مار نہ ہو‘ ٹیکس چوری نہ ہو اور غیرقانونی ذرائع سے سرمایہ بیرون ملک منتقل نہ ہو تو قومی آمدنی سے جہاں دیگر شعبوں میں ترقی کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

ناروے میں فی کس آمدنی 91 ہزار (امریکی) ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی صرف 1600 (امریکی) ڈالر ہے کیوں؟ ناروے اور پاکستان میں ’فی کس آمدنی‘ کے لحاظ سے اِس قدر فرق کیوں ہے؟ فرق یہ ہے کہ ’ناروے‘ دنیا کے بدعنوان ممالک میں بلند ترین درجے پر ہے جبکہ اِس فہرست پاکستان 116ویں (یعنی پست) درجے پر فائز ہے۔ کیا پاکستان میں بدعنوانی عام عوام نے کی ہے یا اِس کے ذمہ دار وہ سرمایہ دار‘ ٹیکس چور اُور منی لانڈرز ہیں جن کی اکثریت سیاسی وابستگیاں رکھتی ہے اور جنہوں نے جمہوریت کے نام پر ملک کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو مفلوج و کرپٹ بنا رکھا ہے! خود کو رہنما‘ قائدین‘ منتخب نمائندے‘ قانون ساز اور سیاست دان‘ کہنے والوں کے کرتوتوں (بدعنوانیوں) کی سزا عام آدمی (ہم عوام) بھگت رہے ہیں‘ جنہیں پینے کے صاف پانی کی ایک بوند سے لیکر معیاری تعلیم‘ صحت اور سماجی تحفظ حاصل نہیں!
حکومت پاکستان ہر سال 60 ارب ڈالر (7.5 کھرب روپے) مالیت کی مختلف ’اشیاء و خدمات‘ خریدتی ہے‘ جس کے لئے ایک باقاعدہ ادارہ ’’پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ بھی موجود ہے لیکن اِس ادارے کو حسب قواعد کام کرنے نہیں دیا جاتا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ 30 سے 60فیصد مالی وسائل بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت ’قومی خریداری‘ کے شعبے میں اصلاحات لا سکے گی اور بدعنوانی کے اِس کھلم کھلا امکان کو کم یا ختم کیا جا سکے گا؟

حکومت پاکستان کی ملکیت ’190 قومی اداروں‘ نے گزشتہ 5 برس کے دوران مجموعی طور پر 3.7 کھرب روپے کا نقصان کیا ہے۔ مالی سال 2013ء میں قومی اداروں کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان (خسارہ) 495 ارب روپے تھا جس میں سال 2014ء‘ 2015ء‘ 2016ء اور 2017ء کے دوران بالترتیب 570ارب روپے‘ 712 ارب روپے‘ 862ارب روپے اُور 1.1 کھرب روپے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ سب ’بدعنوانی کے کرشمے‘ ہیں۔ یہ سب نااہلی کی داستان ہے یا پھر یہ سب بدعنوانی اور نااہلی سے پیدا ہونے والا ایک ’ملا جلا‘ ماحول ہے‘ جس سے مسلسل قومی نقصان ہو رہا ہے!

حکومت پاکستان ہر سال 13 ارب ڈالر مالیت کی بجلی خریدتی ہے جس میں سے 3 ارب ڈالر مالیت کی بجلی چوری ہو جاتی ہے جبکہ 2ارب ڈالر بجلی کے پیداواری ادارے خردبرد کر لیتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف بجلی کے پیداواری شعبے میں ہونے والے مالی خسارے سے متعلق اصلاحات لا سکے گی؟

پاکستان میں گیس (توانائی) کا شعبہ بدنظمی کا شکار ہے۔ اِس شعبے میں نئی قسم کا گردشی قرضہ سامنے آیا ہے جو گیس کے تقسیم کار 2 اداروں ’سوئی نادرن‘ اور ’سوئی سدرن‘ کا ہے اور اِس کے مطابق سوئی نادرن کو 165 ارب روپے جبکہ سوئی سدرن کا گردشی قرض 203 ارب روپے ہے۔ گیس کی قیمت خرید اور قیمت فروخت کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہوگا ورنہ گردشی قرض بڑھتا چلا جائے گا۔ گیس کی ایک بڑی مقدار چوری بھی ہو جاتی ہے‘ جس پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ کیا تحریک انصاف گیس کے پیداواری اور تقسیم کار شعبے میں اصلاحات متعارف کر پائے گی؟

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے ’انسانی حقوق‘ کے کمشنر نیوی پلے (Navi Pillay) کے بقول ’بدعنوانی باعث ہلاکت امر ہے۔‘ اپنے نظریئے کے حق میں بطور دلیل کہا گیا ہے کہ دنیا میں ’’87 کروڑ‘‘ لوگ ہر روز بنا کچھ کھائے (بھوکے) سو جاتے ہیں اور اگر بدعنوانی نہ ہو تو نہ صرف اِن ’’87 کروڑ‘‘ لوگوں کو بھوکا نہ سونا پڑے بلکہ مزید 80فیصد لوگوں کو بھی خوردنی اشیاء کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے!
ایک پولیس اہلکار نے مجھے ’حسب ضرورت بدعنوانی‘ اور ’لالچ کی بنیاد پر بدعنوانی‘ میں فرق بتایا اور پاکستان کا مسئلہ ’لالچ‘ ہے جس کی رو میں بہہ کر بدعنوانی کی جاتی ہے۔

ناروے مالدار ملک ہے۔ پاکستان غریب ملک ہے۔ ناروے دنیا کا کم ترین بدعنوان ملک ہے اور پاکستان دنیا کے بدعنوانی ممالک میں 116ویں نمبر پر ہے۔ ناروے کی سرمایہ داری اور پاکستان کی غربت میں واضح فرق یہ بھی ہے کہ وہ قومی ادارے فعال ہیں‘ فیصلہ ساز ذاتی اثاثوں میں اضافے جیسی لالچ رکھنے کی وجہ سے بدعنوان نہیں اور پاکستان میں قومی ادارے خاطرخواہ فعال بھی نہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

Friday, September 7, 2018

Sept 2018: Fee increase by ABHC!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
برن ہال: والدین کی تشویش!
قیام پاکستان (1947ء) کے بعد جہاں مسلمانوں نے ’مذہبی سیاسی سماجی اُور ثقافتی آزادی‘ کے لئے سفر (ہجرت) اختیار کیا وہیں غیرمسلموں کی ایک تعداد نے بھی ’اسلامی جمہوریہ‘ کو اپنے ’جان و مال اُور مذہبی حقوق و آزادی‘ لئے زیادہ محفوظ سمجھا۔ اِسلام کے پیروکاروں پر بھروسہ کرنے والے ایسے غیرمسلموں میں ’عیسائی مذہب‘ کے پیروکار بھی شامل تھے‘ جن کے ایک گروہ میں درس و تدریس کے ماہرین نے کشمیر (سرینگر) میں قائم تعلیمی ادارے ’برن ہال‘ کو پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (حال خیبرپختونخوا) کے ضلع ’ایبٹ آباد‘ منتقل کیا اُور ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانوی دور میں ’ایبٹ آباد‘ کی تعمیروترقی اور اِس وادی کو چھاؤنی کے علاؤہ باسہولت شہری علاقہ بنانے میں ’جنرل سر جیمز اِیبٹ (پیدائش 12 مارچ 1807ء: وفات 6 اکتوبر 1896ء)‘ نے خاص دلچسپی لی تھی‘ جس کی وجہ سے نہ صرف اِس شہر کا نام آج تک اُن سے منسوب ہے بلکہ انتظامی و شہری ترقی سے متعلق اُن کی مہارت کے چرچے برصغیر کے طول و عرض میں عام تھے۔ یہی وجہ رہی کہ مسیحی ماہرین تعلیم جن میں زندگی اِنسانی خدمت کے لئے وقف کرنے والی عبادت گزار (مشنری) خواتین بھی شامل تھیں‘ نے ایبٹ آباد کا اِنتخاب کیا اُور یہاں آ کر حکومت سے ’اِجارے (لیز)‘ پر زمین حاصل کی اُور ’برن ہال‘ کے نام سے اِدارہ قائم کیا‘ جس کی آج 2 شاخیں قدیمی ۔شاخ (برائے طالبات) اور نئی شاخ (برائے طلباء) فوج کے ’ایجوکیشن کور‘ کی زیرنگرانی فعال ہیں 

قیام پاکستان کے وقت جان و مال سے قربانیاں دینے والے ’عیسائی مشنریوں‘ کی خدمات کو خراج تحسین اور تاحیات زندہ رکھنے کی بجائے ’برن ہال‘ نامی تعلیمی اداروں کو اجارے (لیز) کی مدت مکمل ہونے کے بعد ضبط کر لیا گیا۔ وہ مسیحی جو جنت نظیر کشمیر کو چھوڑ کر ’ایبٹ آباد‘ ’’سکون‘ اَمن اُور اپنائیت‘‘ کی تلاش میں آئے تھے‘ تاکہ خواندگی کے ذریعے ’’پاکستان کی خدمت‘‘ کر سکیں لیکن اُن کی نسلوں کو سال 1977ء میں بیدخل کر دیا گیا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’’1948ء سے سال 1977ء‘‘ تک کا عرصہ ایک ایسا ’سنہرا دور‘ تھا کہ پورے پاکستان سے بچوں کو اِس ’بورڈنگ سکول‘ میں بھیجا جاتا تھا۔ ’انگلش پبلک سکول لائنز‘ سے ’برن ہال‘ تک کے سفر میں ’مسیحی مشنریوں‘ نے پاکستان سے محبت اور خلوص کی ایسی ’’عملی مثالیں‘‘ پیش کیں جن پر جس قدر بھی فخر کیا جائے کم ہے۔

برطانیہ کے کیتھولک چرچ کا ذیلی فلاحی ادارہ ’سینٹ جوزف سوسائٹی فار فارن مشنز (Saint Joseph's Society for Foregin Missions)‘ جسے عرف عام میں ’مل ہل مشنیریز (Mill Hill Missionaries)‘ یا ’مل ہال فادرز (Mill Hill Fathers)‘ بھی کہا جاتا ہے آج سے قریب 152 سال قبل (1866ء) میں قائم ہوا‘ اُور اِس کی خدمات دنیا کے ’4 براعظموں‘ میں پھیلی ہوئی ہیں‘ جن میں ایشیائی ممالک (کمبوڈیا‘ چین‘ بھارت اُور پاکستان) بھی شامل ہیں لیکن افسوس جس نقشے پر کبھی ’ایبٹ آباد‘ لکھا (mark) ہوتا تھا اب نہیں رہا۔ مسیحی مشنری اقلیت ہونے کی وجہ سے خود کو اِس قدر ’بے بس‘ اور سیاسی طور پر اِس قدر ’بے یارومددگار‘ پایا کہ اُن سے برن ہال چھین لیا گیا لیکن وہ خاموش رہے اور ہنستے مسکراتے رخصت ہو گئے!

’برن ہال‘ کے نام سے تعلیمی اِداروں کی ’ماہانہ ٹیوشن فیسوں‘ میں ’25فیصد‘ غیرمعمولی اضافہ ’بنیادی خبر‘ ہے جس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ اضافہ صرف جاری مہینے کے لئے نہیں بلکہ گذشتہ دو ماہ (ماہ جولائی و اگست) کے لئے کیا گیا ہے اُور سکول کی ماہانہ فیسوں کے ساتھ گذشتہ دو ماہ کی فیسیں بطور ’بقایاجات‘ کی مد میں اِدا کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے‘ جس پر ’والدین کی جانب سے تشویش‘ منطقی امر ہے۔ یاد رہے کہ برن ہال سکولوں کے نگران (چیئرمین) کورکمانڈر راولپنڈی (ٹینکور) لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر (ہلال امتیاز ملٹری) جبکہ معاون نگران (ڈپٹی چیئرمین) میجر جنرل اختر نواز ستی کمانڈنٹ ’پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول) ہیں اُور فیسوں میں حالیہ ’’25فیصد‘‘ اِضافے (ردوبدل) کی منظوری جس ’’نگران فیصلہ سازوں کے بورڈ‘‘ نے دی ہے‘ جس کی سربراہی مذکورہ 2 اہم عہدوں پر فائز جرنیلوں نے دی ہے۔ ایک سے زیادہ فوجی اِعزازات رکھنے والے اِن نفوس عالیہ کی پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت شک و شبے سے بالاتر ہونے کے ساتھ‘ مشروط بھی نہیں کہ وہ اُور اُن کے اہل خانہ چونکہ دفاعی مد سے تنخواہیں اور مراعات پاتے ہیں‘ اِس لئے مجبوراً پاکستان کے وفادار ہیں لیکن اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور ماضی (خدمات) اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ پاکستانیوں کے بارے میں بھی سوچتے ہیں اور فوج کو منافع بخش اِدارے کے طور پر نہیں بلکہ ’حفاظت و خدمت‘ جیسی ضروریات و تقاضوں کے تحت ’اِستوار‘ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

دردمندی سے غور (نظرثانی) کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
1: برن ہال کے نام سے تعلیمی اِداروں کی ماہانہ فیسوں میں ’25فیصد‘ (حالیہ) اضافے سے ’پہلی کلاس‘ کے فی طالب علم کی اوسط ’ماہانہ فیس 10 ہزار روپے‘ سے تجاوز کر گئی ہے‘ جس سے بڑی کلاسیز کے زیرتعلیم بچوں کی شرح فیس میں اضافے کا بلند تناسب حیران کن ہے۔ کسی پبلک سکول (سرکاری اَراضی پر قائم) سکول کی شرح فیس نجی اِداروں سے بھی بڑھ جائے تو اِس پر تشویش کا اِظہار‘ والدین کا حق ہے۔

2: برن ہال سکولوں میں فوجی ملازمین اور سویلینز سے تعلق رکھنے والے بچوں سے یکساں درس وتدریسی سہولیات کے عوض الگ الگ شرح سے فیسیں وصول کی جاتی ہیں جبکہ سویلین ذہین ترین اور جسمانی طور پر ’توانا‘ بچوں کو چن چن کر داخلہ دیا جاتا ہے جبکہ فوج سے وابستہ ملازمین کے لئے ہر قدم پر رعایت (گنجائش) موجود ہے۔ صرف ماہانہ فیسیں ہی نہیں دیگر اخراجات بھی قابل غور ہیں‘ جنہیں مستقل بنیادوں پر ’’ماہانہ فیس بل‘‘ کا حصہ بنا دیا گیا بلکہ سکول انتظامیہ کے ’اِمتیازی رویئے‘ پر بھی تشویش کا اظہار والدین کا حق ہے۔ اگر سب پاکستانی ہونے کے ناطے ’مساوی حقوق‘ رکھتے ہیں تو یہ ’ہتک آمیز‘ اِمتیازی سلوک کیوں؟

وزیراعظم عمران خان‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ (بوساطت انٹرسروسیز پبلک ریلیشنز) سے مؤدبانہ درخواست (اِستدعا) ہے کہ برن ہال کی فیسوں‘ معیار تعلیم اُور امتیازی روئیوں کا نوٹس لیں اُور اِس ’اخلاقی پہلو‘ پر بھی غور کریں کہ ’برن ہال‘ کی امانت اُس کے اصل وارث (کتھولک چرچ) کو واپس دے دینی چاہئے۔

Sunday, September 2, 2018

TRANSLATION: Rs 54 billion a year by Farrukh Saleem

Rs 54 billion a year
45 ارب روپے سالانہ!
’سادگی مہم‘ کے ذریعے حکومت کی کوشش ہے کہ مالی وسائل کی بچت کی جائے لیکن یہ مہم اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر الگ الگ معنی رکھتی ہے۔ اقتصادی طور پر حکومت اپنے اخراجات یعنی آمدن و اخراجات میں عدم توازن کم کرتی ہے۔ بجٹ خسارے پر قابو پایا جاتا ہے اور یوں بچت سے حاصل ہونے والی رقم قومی ذمہ داریوں (قرضوں اور اُن پر سود) کی ادائیگی میں خرچ کیا جاتا ہے۔ سیاسی طور پر ’سادگی مہم‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے عوام کو اِس بات کا یقین دلایا جائے کہ اُن کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والا پیسہ ضائع نہیں ہوگا۔ کسی حکومت کے لئے اُس کا مالی نظم و ضبط ہی سب سے اہم ہوتا ہے۔

چوبیس اگست کے روز ’وفاقی کابینہ‘ کا اجلاس ہوا‘ جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ کابینہ نے اپنے لئے چند اہداف مقرر کئے۔ 1: فیصلہ سازوں کو حاصل صوبدایدی فنڈز ختم کر دیئے جائیں۔ کابینہ نے نہ صرف وزراء اور مشیروں کے لئے بلکہ صدر اور وزیراعظم کے لئے بھی صوابدیدی فنڈز ختم کر دیئے۔ یاد رہے کہ گذشتہ وزیراعظم نے ایک سال کے دوران اپنے صوابدیدی فنڈ سے 21 ارب روپے خرچ کئے تھے! جس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں وزیراعظم ہر دن 5 کروڑ 80 لاکھ روپے اپنے صوابدیدی فنڈ سے خرچ کرتا رہا۔

وفاقی وزیراطلاعات فواد چودہری کے بقول ’’صرف صوابدیدی فنڈز ہی نہیں بلکہ صوابدیدی اختیارات بھی ختم کئے گئے ہیں۔‘‘ دوسرے مرحلے میں اراکین قومی اسمبلی کے صوابدیدی فنڈز ختم کئے گئے ہیں۔ گذشتہ وزیراعظم نے 30 ارب روپے اراکین قومی اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے لئے دیئے تھے یعنی ایک سال کے دوران ہر دن 8 کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ آئندہ سے تمام ترقیاتی کاموں کی منظوری قانون ساز ایوان سے حاصل کرنا ہو گی۔ اراکین اسمبلی ترقیاتی امور سے متعلق ازخود (صوابدیدی) ترجیحات کا تعین نہیں کریں گے۔

سادگی مہم کے سلسلے میں ’تیسرا اقدام‘ یہ کیا گیا کہ وزیراعظم کے بیرون ملک غیرضروری دوروں پر پابندی عائد کر دی گئی جس پر ماضی میں سالانہ 2 ارب روپے خرچ ہوتے رہے ہیں یعنی کسی ایک مالی سال کے ہر دن 5کروڑ 50 لاکھ روپے وزیراعظم کے غیرملکی دوروں پر خرچ ہوتے رہے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ وزیراعظم کے بیرون ملک دورے کے لئے خصوصی طیارہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔

سادگی مہم کے سلسلے چوتھا اقدام وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی ہے۔ ماضی میں ہر سال 91 کروڑ 60 لاکھ روپے وزیراعظم کے دفاتر کا خرچ ہوا کرتا تھا یعنی اوسطاً ہر دن 25لاکھ روپے خرچ کئے جاتے رہے ہیں! اندازہ ہے کہ وزیراعظم کے زیراستعمال دفاتر کے خرچ میں پچاس فیصد تک کمی لائی جائے گی۔
سادگی مہم کا پانچواں اقدام ’کبینٹ ڈویژن‘ کے اخراجات میں کمی ہے۔ جس کے تحت سالانہ 5 ارب (یومیہ ایک کروڑ پچاس لاکھ) روپے خرچ کئے جاتے رہے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے اِس سلسلے میں کمی کا کوئی ہدف مقرر نہیں کیا لیکن اُمید ہے کہ اِن اخراجات میں بھی نمایاں کمی لائی جائے گی۔

ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ’پشاور بس ریپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے) پر لاگت 49 ارب روپے سے بڑھ کر 68 ارب روپے ہو چکی ہے جبکہ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر لاگت بھی 50ارب روپے سے بڑھ کر 162 ارب روپے ہو چکی ہے!

عمران خان کے لئے یہ بات آسان نہیں ہوگی کہ وہ اراکین قومی اسمبلی کو 30 ارب روپے برائے ترقیاتی فنڈز دینے سے انکار کرے کیونکہ اراکین قومی اسمبلی اُس کے خلاف محاذ بنا لیں گے۔وزیراعظم کے لئے یہ بات بھی آسان نہیں ہوگی کہ 21ارب روپے کے صوابدیدی فنڈز سے ہاتھ کھینچ لے کیونکہ اس سے مستفید ہونے والے اُن کے خلاف محاذ بنا لیں گے۔ وزیراعظم کے لئے آسان نہیں ہوگا کہ وہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات لائیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں کابینہ کے اندر اور باہر سے اُن پر دباؤ آئے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کا وزیراعظم 54 ارب (یومیہ 15کروڑ) روپے سالانہ بچت کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت اُن کے ادا کردہ ٹیکس کی ایک ایک پائی کی محافظ ہو گی۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)