One trillion dollars
ایک کھرب ڈالر
بدعنوانی باعث ہلاکت ہے۔ کیا ہر پاکستانی وجوہات جانتا ہے کہ اُس کے ملک میں سالانہ ’’2 لاکھ 90 ہزار بچے‘‘ اپنی پیدائش کے پہلے ہی ماہ کے اندر کیوں ہلاک ہو رہے ہیں؟ اِن کے علاؤہ سالانہ ’’1 لاکھ 76 ہزار 400 بچے‘‘ اِس وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ اُن کی پیدائش مقررہ وقت سے پہلے ہو جاتی ہے۔ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ پاکستان دنیا کا ایسا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ نومولود بچوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں!
جب پاکستان میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کے مرنے کے کم سے کم 22 امکانات ہوتے ہیں جن میں ماؤں کی صحت بھی ایک محرک ہے۔ سالانہ 53 ہزار بچے ’ڈائریا (Diarrhoea)‘ کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں اور ڈائریا (دستوں کی بیماری) ہونے کی بنیادی وجہ ’آلودہ پانی‘ ہے۔ پاکستان میں بچوں اور بڑوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں!
بدعنوانی باعث ہلاکت ہے۔ عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ ’’(پاکستان جیسے) ترقی پذیر ممالک میں ہر سال ’1 کھرب ڈالر‘ منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری اور مالی بدعنوانیوں کی نذر ہو جاتا ہے۔‘‘ اگر پاکستان کے قومی وسائل کی لوٹ مار نہ ہو‘ ٹیکس چوری نہ ہو اور غیرقانونی ذرائع سے سرمایہ بیرون ملک منتقل نہ ہو تو قومی آمدنی سے جہاں دیگر شعبوں میں ترقی کا عمل آگے بڑھایا جا سکتا ہے بلکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
ناروے میں فی کس آمدنی 91 ہزار (امریکی) ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی صرف 1600 (امریکی) ڈالر ہے کیوں؟ ناروے اور پاکستان میں ’فی کس آمدنی‘ کے لحاظ سے اِس قدر فرق کیوں ہے؟ فرق یہ ہے کہ ’ناروے‘ دنیا کے بدعنوان ممالک میں بلند ترین درجے پر ہے جبکہ اِس فہرست پاکستان 116ویں (یعنی پست) درجے پر فائز ہے۔ کیا پاکستان میں بدعنوانی عام عوام نے کی ہے یا اِس کے ذمہ دار وہ سرمایہ دار‘ ٹیکس چور اُور منی لانڈرز ہیں جن کی اکثریت سیاسی وابستگیاں رکھتی ہے اور جنہوں نے جمہوریت کے نام پر ملک کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کو مفلوج و کرپٹ بنا رکھا ہے! خود کو رہنما‘ قائدین‘ منتخب نمائندے‘ قانون ساز اور سیاست دان‘ کہنے والوں کے کرتوتوں (بدعنوانیوں) کی سزا عام آدمی (ہم عوام) بھگت رہے ہیں‘ جنہیں پینے کے صاف پانی کی ایک بوند سے لیکر معیاری تعلیم‘ صحت اور سماجی تحفظ حاصل نہیں!
حکومت پاکستان ہر سال 60 ارب ڈالر (7.5 کھرب روپے) مالیت کی مختلف ’اشیاء و خدمات‘ خریدتی ہے‘ جس کے لئے ایک باقاعدہ ادارہ ’’پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ بھی موجود ہے لیکن اِس ادارے کو حسب قواعد کام کرنے نہیں دیا جاتا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ 30 سے 60فیصد مالی وسائل بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت ’قومی خریداری‘ کے شعبے میں اصلاحات لا سکے گی اور بدعنوانی کے اِس کھلم کھلا امکان کو کم یا ختم کیا جا سکے گا؟
حکومت پاکستان کی ملکیت ’190 قومی اداروں‘ نے گزشتہ 5 برس کے دوران مجموعی طور پر 3.7 کھرب روپے کا نقصان کیا ہے۔ مالی سال 2013ء میں قومی اداروں کی وجہ سے سرکاری خزانے کو نقصان (خسارہ) 495 ارب روپے تھا جس میں سال 2014ء‘ 2015ء‘ 2016ء اور 2017ء کے دوران بالترتیب 570ارب روپے‘ 712 ارب روپے‘ 862ارب روپے اُور 1.1 کھرب روپے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ سب ’بدعنوانی کے کرشمے‘ ہیں۔ یہ سب نااہلی کی داستان ہے یا پھر یہ سب بدعنوانی اور نااہلی سے پیدا ہونے والا ایک ’ملا جلا‘ ماحول ہے‘ جس سے مسلسل قومی نقصان ہو رہا ہے!
حکومت پاکستان ہر سال 13 ارب ڈالر مالیت کی بجلی خریدتی ہے جس میں سے 3 ارب ڈالر مالیت کی بجلی چوری ہو جاتی ہے جبکہ 2ارب ڈالر بجلی کے پیداواری ادارے خردبرد کر لیتے ہیں۔ کیا تحریک انصاف بجلی کے پیداواری شعبے میں ہونے والے مالی خسارے سے متعلق اصلاحات لا سکے گی؟
پاکستان میں گیس (توانائی) کا شعبہ بدنظمی کا شکار ہے۔ اِس شعبے میں نئی قسم کا گردشی قرضہ سامنے آیا ہے جو گیس کے تقسیم کار 2 اداروں ’سوئی نادرن‘ اور ’سوئی سدرن‘ کا ہے اور اِس کے مطابق سوئی نادرن کو 165 ارب روپے جبکہ سوئی سدرن کا گردشی قرض 203 ارب روپے ہے۔ گیس کی قیمت خرید اور قیمت فروخت کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہوگا ورنہ گردشی قرض بڑھتا چلا جائے گا۔ گیس کی ایک بڑی مقدار چوری بھی ہو جاتی ہے‘ جس پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ کیا تحریک انصاف گیس کے پیداواری اور تقسیم کار شعبے میں اصلاحات متعارف کر پائے گی؟
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے ’انسانی حقوق‘ کے کمشنر نیوی پلے (Navi Pillay) کے بقول ’بدعنوانی باعث ہلاکت امر ہے۔‘ اپنے نظریئے کے حق میں بطور دلیل کہا گیا ہے کہ دنیا میں ’’87 کروڑ‘‘ لوگ ہر روز بنا کچھ کھائے (بھوکے) سو جاتے ہیں اور اگر بدعنوانی نہ ہو تو نہ صرف اِن ’’87 کروڑ‘‘ لوگوں کو بھوکا نہ سونا پڑے بلکہ مزید 80فیصد لوگوں کو بھی خوردنی اشیاء کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے!
ایک پولیس اہلکار نے مجھے ’حسب ضرورت بدعنوانی‘ اور ’لالچ کی بنیاد پر بدعنوانی‘ میں فرق بتایا اور پاکستان کا مسئلہ ’لالچ‘ ہے جس کی رو میں بہہ کر بدعنوانی کی جاتی ہے۔
ناروے مالدار ملک ہے۔ پاکستان غریب ملک ہے۔ ناروے دنیا کا کم ترین بدعنوان ملک ہے اور پاکستان دنیا کے بدعنوانی ممالک میں 116ویں نمبر پر ہے۔ ناروے کی سرمایہ داری اور پاکستان کی غربت میں واضح فرق یہ بھی ہے کہ وہ قومی ادارے فعال ہیں‘ فیصلہ ساز ذاتی اثاثوں میں اضافے جیسی لالچ رکھنے کی وجہ سے بدعنوان نہیں اور پاکستان میں قومی ادارے خاطرخواہ فعال بھی نہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیر حسین اِمام)