Tuesday, February 28, 2017

Feb2017: Aiming High - PSL & final in Pakistan!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کرکٹ دیوانگی!

پنجاب حکومت نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی ہے کہ ’’پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 2017ء (سیزن ٹو)‘‘ کرکٹ مقابلوں کا آخری میچ (فائنل) قذافی سٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے امن و امان کے اجلاس میں کابینہ کمیٹی اور سیکیورٹی اداروں کی مبینہ مشاورت سے کئے گئے اِس فیصلے پر سیاسی رہنماؤں سمیت سیکورٹی ماہرین تنقید کر رہے ہیں جن کا مؤقف ہے کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ’پی ایس ایل فائنل‘ کے لئے جس فول پروف سیکیورٹی کو سو فیصد یقینی بنانے کا حکم دیا ہے لیکن یہ ’غیرضروری رسک‘ مہنگا بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ سیکورٹی حالات خود اُن کے یا ملک کے سیکورٹی اداروں کے مکمل بس میں نہیں۔ یاد رہے کہ ’پی ایس ایل‘ مقابلوں کا آغاز 2016ء سے ہوا تھا‘ جس سے قبل ’دسمبر دوہزارپندرہ‘ میں 985 کروڑ روپے کے عوض کرکٹ کی پانچ ٹیموں (اسلام آباد یونائٹیڈ‘ کراچی کنگز‘ لاہور قلندرز‘ پشاور زلمی اُور کوئٹہ گلیڈیئٹرز نامی ٹیموں) کے کمرشل حقوق نجی اِداروں کو ’دس برس‘ کے لئے فروخت کئے گئے تھے اور اب تک ہوئے ’پی ایس ایل‘ کے ’سیزن ون (پہلے دور)‘ اور ’جاری سیزن ٹو (دوسرے دور) کے تمام مقابلے متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے ہیں۔
کیا پاکستان کوئی بڑی اور دانستہ غلطی کرنے جا رہا ہے؟ اگر ’پانچ مارچ‘ کے روز لاہور میں ’فول پروف‘ سیکورٹی فراہم کی جا سکتی ہے تو پھر ایسا پورے سال کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ اِسی تناظر میں سوال یہ بھی ہے کہ اگر قذافی سٹیڈیم میں داخل ہونے والے ہر تماشائی کے کوائف کی بذریعہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) کھڑے کھڑے ’فوری تصدیق‘ (آن لائن نادرا ریکارڈ) سے ممکن ہے تو پھر ایسا ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کے ذریعے شفاف عام انتخابات کے انعقاد کے لئے ہر پولنگ اسٹیشن کی اکائی پر کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ کرکٹ کے علاؤہ الیکٹرانک شناختی طریقۂ کار (بائیومیٹرک تصدیق) قابل عمل کیوں نہیں؟ علاؤہ ازیں مجموعی طور پر چالیس اُوورز (کم سے کم 240 گیند پھینکنے) کے ایک ایسے کرکٹ مقابلے کی حفاظت پر ’اربوں روپے‘ خرچ کرنا کہاں کی منطق ہے‘ جبکہ خطرات بھی ہیں اور کیا پانچ مارچ کو ایک میچ کے بعد دنیا پاکستان کو محفوظ سمجھنے لگے گی اور پاکستان میں عالمی (انٹرنیشنل) کرکٹ مقابلوں کے انعقاد کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے گا؟ پاکستان میں کرکٹ کا آخری عالمی مقابلہ ’مارچ دوہزارنو‘ میں لاہور ہی کے قذافی سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا‘ جس میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے (باوجود کوشش بھی) کوئی انٹرنیشنل کرکٹ میچ‘ پاکستان کی سرزمین پر نہیں کھیلا جا سکا۔

دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور بائیس فروری سے ’ردالفساد‘ نامی انسداد دہشت گردی کی نئی ملک گیر فوجی مہم کے آغاز کو دیکھتے ہوئے ’پی ایس ایل‘ فائنل لاہور میں کروانے کا خیال محتاط سوچ رکھنے لوگوں کے نزدیک ’بے مقصد‘ ہے اور شاید اُن کے پاس ایسا سوچنے کے لئے ٹھوس وجوہات بھی ہیں جیسا کہ ایک کرکٹ میچ پر تمام تر توانائیاں (وسائل) کیوں صرف کئے جائیں جبکہ ملک کا ہر کونہ لہو لہو ہے! کچھ کے خیال میں یہ درست ہے کہ امن براستہ کرکٹ جیسے جذبات کی روشنی میں حکومتی فیصلے کا کئی طرح سے دفاع کیا جا سکتا ہے مگر فائنل میچ لاہور میں کروانے کا سوال جلتے سلگتے شہر میں بانسری بجانے سے کہیں زیادہ اور وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ 

سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مناسب اور مؤثر ردِعمل کیا ہے‘ کیوں ہے اُور آخر کیا وہ یہ ہے؟ 

صاحبانِ اقتدار کے نزدیک فائنل کا کامیاب انعقاد عسکریت پسندوں کو منہ توڑ جواب ہوگا۔ عسکریت پسند چاہتے ہیں کہ خوف و ہراس کی فضاء پھیلا کر پاکستان کو مفلوج کر دیا جائے۔ کئی لوگوں کی رائے میں (بشمول صاحبانِ اقتدار)‘ پی ایس ایل کا مقابلہ لاہور میں منعقد نہ کروایا گیا تو عسکریت پسند اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسری جانب بحفاظت منعقد کیا گیا مقابلہ مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرنے کے برابر ہوگا! پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ریاستی سیکیورٹی انتظامات ’’فول پروف (مؤثر یا حکومت کے کنٹرول میں)‘‘ رہیں گے۔ توقع ہے کہ قذافی سٹیڈیم کی گنجائش کے مطابق مذکورہ کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے ’بیس ہزار‘ سے زائد تماشائیوں کی اکثریت پیدل آئے گی اُور اِس دوران تمام دن اسٹیڈیم کے اطراف غیرمعمولی رش رہے گا۔ کیا میچ دیکھنے کے لئے آنے والے ہر شخص کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے گی؟ جذبات اپنی جگہ‘ کرکٹ سے لگاؤ اور خلوص اپنی جگہ لیکن ہر کھلاڑی اور تماشائی کی حفاظت کا ذمہ لینے والوں کا ماضی (طرز حکمرانی) دیکھا جائے تو اتنے بڑے تو کیا چھوٹے پیمانے پر بھی سیکورٹی فراہم کرنا اُن کے بس کی بات نہیں لگتی اور تنقید کی وجہ بھی یہی ہے!

خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے لیکن نظر نہیں آ رہا۔ ’’قلعہ بند‘‘ میچ کرانے کی صورت میں بھی صرف کھلاڑی ہی محفوظ ہوں گے تماشائی نہیں! پی ایس ایل کا حصہ کئی غیرملکی کھلاڑی پہلے ہی لاہور آنے سے معذرت کر چکے ہیں اور انہیں اِس بات کے لئے قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ کیونکہ ہر ’ذی شعور‘ کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہونے سے پاکستان میں کرکٹ کو کوئی خاص فائدہ تو نہیں البتہ نقصان کا اندیشہ نسبتاً زیادہ بڑا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بقول ’’اگر فائنل مقابلے کے موقع پر دہشت گردی ہوئی تو پاکستان میں عالمی کرکٹ مزید دس برس پیچھے چلی جائے گی‘‘ اُنہوں نے ’پی ایس ایل فائنل‘ لاہور میں منعقد کرانے کو ’دیوانگی بھی قرار دیا ہے! دانشمندی یہ ہے کہ غیرضروری طور پر خطرہ مول لینے سے گریز اور خطرہ برداشت کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے؟ 

جذبات (کمرشل ازم) سے مغلوب عام آدمی (ہم عوام) کی جانیں کیا کرکٹ کے کھیل سے زیادہ قیمتی ہیں؟ پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں کامیاب انعقاد کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم خوشی کے اِس احساس کے واقعی متحمل ہو سکتے ہیں اور کیا یہ پائیدار بھی ثابت ہوگا؟ ایک دن کے سیکیورٹی دکھاوے یا عزم و جرأت کے مصنوعی اظہار سے آگے بڑھ کر ’پاکستان‘ اور ’پاکستانیوں‘ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے! حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مشاغل کو مشاغل اُور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔ عسکریت پسندی‘ انتہاء پسندی اُور دہشت گردی کے وجود سے انکار یا اُسے چیلنج کرتے ہوئے پاکستان پر وار کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کرنے والے دشمن کو کسی بھی صورت کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ 

جناب مرزا غالبؔ سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ 
’’کر رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!‘‘

Feb2017: Human Trafficking & Women!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جرائم کہانیاں!

یکم جنوری کو ایک پاکستانی کی فریاد جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام ہوئی کہ اُس کی بیوی کو اغوأ کرکے افغانستان لیجایا گیا ہے‘ تو سپرئم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کے بعد نہ صرف چند ہی روز میں مذکورہ شخص کی اہلیہ بازیاب ہوئی بلکہ منظرعام پر آنے والی ضمنی تفصیلات زیادہ حیران کن اور تشویشناک تھیں جن سے معلوم ہوا کہ افغان مہاجرین کی آڑ میں جرائم پیشہ عناصر پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں میں وارداتیں کر رہے ہیں جس میں انسانی اسمگلنگ بھی شامل ہے اُور اِس کام کے لئے طریقۂ واردات یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں غریب بستیوں میں مکان کم مدت (چند ہفتوں) کے لئے بھاری کرائے کے عوض حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر اردگرد رہنے والوں سے تعلقات استوار کئے جاتے ہیں اور کسی غریب خاندان کو نشانہ بناتے ہوئے جوان لڑکی کا انتخاب کرکے رشتہ طے کیا جاتا ہے جس کے بعد راتوں رات لڑکی کو لیکر یہ خاندان غائب ہو جاتا ہے۔ تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کا چکمہ دے کر خواتین کو اغوأ کرنے کی وارداتیں ایک تواتر سے رونما ہو رہی ہیں لیکن بہت سے واقعات میں بدنامی کے خوف سے پولیس کو مطلع نہیں کیا جاتا۔ 

سوال یہ ہے کہ اغوأ ہونے والی پاکستانی خواتین بناء سفری دستاویزات کیسے افغانستان پہنچ جاتی ہیں؟ پشاور سے براستہ متحدہ عرب امارات اسمگل ہونے والی خواتین کی سفری دستاویزات بناء تصدیق و ازخود کیسے بن جاتی ہیں؟ 

انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین جسم فروشی کے دھندے میں استعمال کی جاتی ہیں جہاں ایسی خواتین کی عزت اور زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ بہت سے ایسے سوالات کا جواب تلاش کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جہاں جعلی دستاویزات تیار کرنے کے دھندے کا انکشاف ہوا‘ وہیں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت کا قبائلی علاقوں سے ہوتے ہوئے افغان سرحد عبور کرانے والے گروہوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں جو پوری ذمہ داری سے روائتی اور غیرروائتی راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس دھندے میں یقیناًبندوبستی اور قبائلی علاقوں کے ارباب اختیار بھی شریک جرم ہوں گے اور یہی وہ طاقتیں ہیں جو قبائلی علاقوں کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنے اور انہیں خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی درپردہ مخالف ہیں۔ ایسا ضروری بھی نہیں کہ انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والی خواتین افغانستان یا بیرون ملک ہی اسمگل کی جائیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی ایسے بااثر گروہ ممکنہ طورپر موجود ہو سکتے ہیں جو خواتین سے انسانیت سوز سلوک اور ان کی عزت و جان کو اہمیت نہ دیتے ہوں۔ 

خواتین کے خلاف دن دیہاڑے انسانیت سوز جرائم کی ایک سے بڑھ کر داستان میں افغان مہاجرین کی آڑ لینے والوں کے ملوث ہونا چند حفاظتی تدابیر کامتقاضی ہے۔ 1: آمدورفت کے راستوں پر سیکورٹی چیک بڑھایا جائے اور جہاں خواتین سفر کر رہی ہوں تو اُن سے داخلی و خارجی راستوں پر الگ الگ بیانات لئے جائیں۔ 2: تھانہ جات کی حدود میں رہنے والے کرایہ داروں کے کوائف جمع کرنے کے لئے پولیس کے الگ دستے بنائیں جائیں جو مستقل بنیادوں پر اِن کرایہ داروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں تاکہ اگر وہ کم عرصے میں ایک جگہ سے کسی دوسرے جگہ منتقل ہو رہے ہیں تو اس کی وجوہات جاننے کے علاؤہ دیگر تھانوں کو مطلع بھی کیا جاسکے۔ عموماً مختصر دورانئے کے لئے مکانات کرائے پر دینے کا رجحان عام ہے جس میں پولیس کو خبر نہیں دی جاتی اور اِسی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیرملکی منظم جرائم پیشہ عناصر واردات کر جاتے ہیں۔ جرم کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی اُس وقت تک جرائم کے ارتکاب کی راہ‘ روکی جا سکتی ہے جب تک عوام ایسا کرنے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ اپنے گردوپیش پر نظر رکھیں اور ایسی کسی بھی غیرمعمولی صورتحال سے قریبی تھانے کو گمنامی میں رہتے ہوئے بھی مطلع کیا جاسکتا ہے۔

انسانی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے اور کسی بھی مسئلے کا حل اُس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ اُسے سمجھا نہ جائے اور دوسرے مرحلے میں اُسے حل کرنے کی ممکنہ تدابیر (سوچ بچار) کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے۔ آج اگر بڑی تعداد میں مہاجرین نہ تو خیمہ بستیوں کی حد تک محدود رہے ہیں اور نہ ہی اُن کے کوائف کا اندارج (رجسٹریشن) ہو پائی ہے تو اِس کی بنیادی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افغان مہاجرین کے انتظامی میزبانوں کی نااہلی نہیں بلکہ افرادی قوت کی کمی تھی جو آج بھی ہے۔ ہمارے اردگر پھیلی ’جرائم کہانیاں‘ اِس بات کا بیان ہیں کہ آبادی کے تناسب سے پولیس تھانہ جات کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا‘ جس کے باعث نہ صرف افغان مہاجرین کی آڑ لینے والے جرائم پیشہ عناصر بصورت گروہ پھیلتے چلے گئے بلکہ انہوں نے سہولت کاری کا کام کرنا بھی شروع کردیا اور ایک جرم سے شروع ہونے والی کہانی پھر جرائم کی حد تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ جرائم کے آلۂ کار پھر دہشت گردی کے معاون کار بھی بنے۔ 

لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ستائیس فروری سے شروع ’انسداد پولیو‘ کی نئی مہم کے لئے حفاظتی انتظامات کرتے ہوئے پشاور کے حساس مقامات کے اردگرد اور ریڈ زون میں ’ریپیڈ ریسپانس فورس‘ گشت کر سکتی ہے اور پشاور کے شہری علاقوں کو 4 جبکہ نواحی (دیہی) علاقوں کو 11 حصوں (زونز) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے تو ’انسداد جرائم‘ کے لئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اسی نوعیت کی حکمت عملی کیوں اختیار نہیں کی جاسکتی؟

Sunday, February 26, 2017

Feb2017: Social & Development Sectors Revolution!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انقلاب: گماں بہت ہے!؟
اُنیس سے پچیس فروری کے درمیان کراچی کو قریب سے دیکھنے کا موقع تو بہت سے راز کھلے جیسا کہ سال دوہزار سولہ میں کے دوران اگر 52 ہزار 552 سٹریٹ کرائمز (رہزانی و دیگر چھوٹے جرائم) رونما ہوئے تو صورتحال (اوسط) پہلے دو ماہ کے گزرنے پر زیادہ مختلف نہیں! ہر سمت پھیلتے کراچی میں اکثریت کی زندگی بے ہنگم اور بنیادی آبادی سہولیات سے محروم ایک انجانے خوف کا شکار ہے۔ کراچی نے ہنسنا اُور مسکرانا تو ترک نہیں کیا لیکن آنکھوں اور الفاظ میں چھپا دُکھ کہیں کہے اور کہیں بناء کہے صاف ظاہر تھا۔ پچیس سال قبل جب چھ ماہ کے لئے کراچی ’رینجرز‘ کے حوالے کیا گیا تو آج تک صورتحال میں بہتری ضرور آئی ہے‘ لیکن اِس قدر لمبے عرصے تک طاقت کے بے انتہاء استعمال کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے‘ جس کی وجہ سے کراچی پر کبھی زیادہ تو کبھی کم گہرے خوف کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں! جن کے اثر سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندہ وفود کی ورکشاب بھی محفوظ نہ رہ سکی اور اِس تربیتی نشست کے شرکاء زیادہ تر وقت ایک چاردیواری کی حد تک ہی محدود رہے۔ امریکہ کے امدادی ادارے ’یوایس ایڈ‘ کے مالی تعاون سے ’انسٹیٹویٹ آف بزنس منیجمنٹ (یونیورسٹی)‘ میں نشست کا انعقاد ’صنفی مساوات پروگرام‘ کے اختتام (اٹھائیس فروری) سے قبل انعقاد اگر اِس حکمت عملی کے آغاز میں کیا جاتا تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے تھے بہرحال ’این جی اُوز‘ کی دنیا میں سب باتیں اور حکمتیں سب کی سمجھ میں آ جائیں ایسا ضروری تو کیا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ ایسی ہر نشست سوالات ختم کرنے کی بجائے اُن میں مزید اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔ سماجی ترقی میں صنفی کردار کی ماہرہ ڈاکٹر ثمرہ سے لیکر بزنس منیجمنٹ (فنڈ ریزنگ) کے کتابی تعارف کے بے تاج بادشاہ ’ڈاکٹر جاوید احمد نے محتاط اور کبھی کبھار غیر محتاط یعنی سچائی سے پاکستان میں ’صنفی مساوات‘ کے حوالے سے الجھنوں کو سلجھانے کی کوشش کی‘ جو اپنی جگہ قابل ستائش کوشش تھی۔

فروری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے‘ کراچی میں قیام کا نادر موقع ایک ایسے وقت میں ملا جبکہ ملک میں امن کی بحالی کے لئے ایک نئی فوجی کاروائی نئے عزم اور نئے دعوؤں سے شروع کی گئی ہے لیکن برسرزمین حقائق کیا ہیں؟ کراچی کے رہنے والوں کی اکثریت یقین کی حد تک یہ بات زور دے کر کہتی ہے کہ سال دو ہزار سولہ کی طرح دوہزار سترہ بھی زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوگا‘ کیونکہ انسداد دہشت گردی کا ہدف اُس وقت تک عملاً حاصل نہیں ہوسکتا جب تک سیاست اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان ایک دوسرے کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے لئے تعاون (بشمول انتخابی کامیابی کی ضمانت تعلق) ختم نہیں کردیا جاتا۔ جب تک مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے بارے میں قوم کی رائے ایک نہیں ہو جاتی! کراچی میں رینجرز کی کامیاب کاروائی بھی اُس وقت تک منطقی طور پر اختتام پذیر نہیں ہوگی‘ جب تک اندرون سندھ اور پنجاب میں بلاامتیاز اور سخت گیر فوجی کاروائی عمل میں نہیں آتی۔ وقت ہے کہ پاکستان کے مفاد پر ہر قسم کی مصلحتوں کو قربان کردیا جائے!

کراچی صرف کاروباری اور صنعتی یا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ اِس کا ادبی چہرہ بھی ہے۔ اسکائنز نامی غیرسرکاری تنظیم کی روح رواں سقاف یاسر اور اِسی تنظیم کی نمائندہ سماجی کارکن‘ ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ شائستہ چودھری کے ساتھ تبادلۂ خیال سے اِنسانی تاریخ کے تناظر میں عالمی اور بالخصوص کراچی کے عمومی حالات پر غور کرنے کا موقع ملا کہ صرف مادی ترقی کے علمبردار ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی انقلابات میں شعراء‘ مصنفین اور دانشوروں کا کردار کلیدی رہا ہے جس کی بدولت (تناظر میں) آج کے درپیش مسائل (بحرانوں) کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سماج یا معاشرے میں جہاں افراد معاشرتی انتشار‘ معاشی مشکلات اُور سماجی ناانصافیوں کا شکار ہوں وہاں سب سے پہلے علمی و ادبی طبقہ بیدار ہوتا ہے۔یہ طبقہ اپنی ادبی تخلیقات اور تقاریر سے عام افراد کو یہ احساس جگاتا ہے کہ اُنہیں معاشرتی استحصال کا اژدھا نگل رہا ہے‘ ایسی صورت میں کسی معاشرے میں انقلاب کی پیدائش (سماجی تغیر) ’’انسانی بیداری‘‘ کا ثمر ہوتے ہیں۔ برصغیر میں برطانوی سامراجی حکومت کے خلاف بیداری کی لہر جنوبی ایشیاء سے منسلک علمی و ادبی شخصیات نے بھی اُنیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے ابتدائی و درمیانی عرصے میں اہم تاریخی کردار ادا کیا۔ کراچی میں قیام کے دوران ’بائیس فروری‘ کا دن انقلابی شاعر جوشؔ ملیح آبادی (پانچ دسمبر 1894ء سے 22 فروری1982ء) کی برسی سے منسوب ہے‘ جنہوں نے برطانوی راج کے خلاف ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تحریکِ آزادی کو فروغ دینے میں اپنی انقلابی، سیاسی و نظریاتی شاعری کے ذریعے اہم کردار اَدا کیا۔ ’’سنو اے بستگان زلف گیتی: ندأ کیا آ رہی ہے آسماں سے۔۔۔ کہ آزادی کا اِک لمحہ ہے بہتر: غلامی کی حیات جاوداں سے!‘‘

بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسا شاعر‘ ادیب‘ دانشور یا لکھاری ہو گا‘ جو جوشؔ کی شاعرانہ عظمت کا قائل یا اُن کی شاعری سے متاثر نہ ہو۔ جوشؔ کے ہاں معاشرے کے سلگتے سماجی مسائل پر بے باک تبصرہ ہے‘ وہ بھوک اور افلاس کی مذمت کرتے ہیں تو کبھی انسانی جہل پر نوحہ خوانی کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہیں اور کبھی عوامی فکری جمود اور بے حسی پر شکوہ کرتے ہیں! یہی طرزعمل (انسانی بیداری) لمحۂ موجود کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں ہر ایک (خاطرخواہ) ’جوش‘ کا مظاہرہ کرے! کراچی میں ہر قدم پر جوشؔ کی یاد آتی رہی۔ ’’جس دیس میں آباد ہوں بھوکے انسان: احساسِ لطیف کا وہاں کیا امکان۔۔۔اِک فکرِ معاش پر نچھاور سو عشق: اک نانِ جویں پہ لاکھ مکھڑے قربان!‘‘ 

جوشؔ کی شاعری کیا ہے مگر اُس میں انسان کو تقدم حاصل ہے اُور وہ عظمتِ انسان کی اساس ہے۔ کیا بُرا چاہتے ہیں اگر جوشؔ ’’انسان کی جبیں‘‘ پر سربلندی اور سرفرازی کا تاج سجا دیکھنا چاہیں! جوشؔ ہر اُس فکر‘ نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی کو مسترد کرتے ہیں جو انسان کو اسیر کر کے فکری پرواز میں حائل ہوں‘ جوش مغربی سرمایہ داری‘ جاگیرداری‘ ایشیائی ملوکیت اور عرب مطلق العنانیت کے مخالف ہیں۔ جوشؔ نے اپنے اجداد کی مثل خود تو (بغاوت کی) تلوار نہیں اُٹھائی لیکن قلم (خیالات) کو بطور شمشیر استعمال کیا اور یہی انقلابی پیغام (لب لباب) گماں کی حدوں سے بہت آگے حالات کی تبدیلی کے لئے دعوت فکروعمل ہے۔

Feb2017: Trade Deficit & Brands

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خسارہ در خسارہ
پاکستان سے محبت عملی اظہار کی متقاضی ہے صرف قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا یا کسی ملی نغمے پر جھومنے کا نام ’حب الوطنی‘ نہیں بلکہ اِس کے کئی دیگر ایسے پہلو بھی ہیں جو خاطرخواہ غور نہ ہونے کی وجہ سے ہماری نظروں سے اُوجھل ہیں جیسا کہ غیرملکی درآمد شدہ اشیاء کا غیرضروری ’بطور آسائش یا فیشن استعمال۔‘ درآمدات پر بڑھتا ہوا یہ انحصار کسی بھی طرح نہ تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لئے خوش آئند (تعمیری) ہے اور نہ ہی اِس سے پیدا ہونے والا رہن سہن‘ عادات اور مقابلے کی فضاء سماجی شعور کے لئے مثبت و پائیداری کا باعث قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی میں قیام کے دوران کئی ایسے کثیرالمنزلہ وسیع و عریض ’شاپنگ مراکز‘ جانے کا اتفاق ہوا‘ جو آمدنی کے خاص طبقات کی قوت خرید اور سوچ کی عکاسی کر رہے تھے اُور جہاں نظروں کو خیرہ کر دینے والی چمک دمک کے درمیان درجنوں کی تعداد میں غیرملکی اشیاء کی فروخت کے مراکز ایک سے بڑھ کر ایک کشش کا سامان رکھتے تھے لیکن اِس سے بھی زیادہ حیرت کا باعث یہ امر تھا کہ اِن انتہائی مہنگی غیرملکی اشیاء کی خریداری کے مراکز پرہجوم تھے! 

ڈولمین سنٹر ہی کی مثال لیں جہاں گندے اور گیلے پاؤں کے ساتھ گھسنے پر پابندی تو عائد کی گئی ہے لیکن وہاں خریدار کی ذریعہ آمدنی کیا ہے اور منٹوں میں ہزاروں لاکھوں روپے کی خریداری کرنے والی ذہنیت و قوت خرید کے پیچھے محرکات کیا ہیں‘ اِس بارے کوئی کسی سے نہ تو کچھ پوچھتا ہے اور نہ ہی پر رونق شاپنگ مالز میں کوئی ایک دوسرے سے نظریں ملاتا ہے‘ صرف اردگرد کے ماحول ہی سے نہیں بلکہ ’ڈولمین سٹی‘ میں خود سے بے نیازی عام دیکھی جا سکتی ہے جہاں یہاں وہاں بیٹھی‘ چلتی پھرتی یا پھر خریداری کرتی نسلوں کی نسلیں‘ قدم بہ قدم چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں!

پاکستان کا تجارتی خسارہ کیا ہے کیوں ہے اِس حقیقت کے بارے میں سبھی کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے لیکن درآمدات پر بڑھتا ہوا انحصار اور ’برانڈز‘ کی ہوس نے صورتحال کو زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘ اِس بارے زیادہ غور نہیں کیا جاتا۔ ملک کی قومی ائرلائن (پی آئی اے) نے مہنگی لیز پر A320 طیارے لئے جس میں سوار ہوتے ہی ’بزنس ریکارڈر‘ کی شہ سرخی پر نظر پڑی‘ کہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے والے خطرنات اور تجارتی خسارے پر کنٹرول کے لئے درآمد کی جانے والی کئی چیزوں پر ایک سو فیصد مارجن کا نفاذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘‘ اور یہ خبر نہایت ہی نمایاں طور پر شائع کی گئی تھا جبکہ دیگر قومی اخبارات میں اِس خبر کو اگرچہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن خوش آئند تھا کہ ہمارے کسی قومی ادارے کو (کم سے کم) اِس بات سے خطرہ تو محسوس ہوا ہے کہ غیرملکی ثقافت اور رہن سہن کی نقل یا اُسے اپنانے کی دھن کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ 

درآمدات پر انحصار کم کرنے کی اِس کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی زیادہ توقع نہیں کیونکہ جو طبقہ مہنگی ’برانڈیڈ(branded)‘ اشیاء کی خریداری کا عادی ہے‘ اور وہ اُس کے معمول کی رہن سہن کا جز بن چکا ہے وہ ان اقدامات سے نہ تو متاثر ہوگا اور نہ ہی درآمدی اشیاء کی حوصلہ شکنی ممکن ہو سکے گی! یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جن اشیاء کی درآمد پر سو فیصد مارجن کے نفاذ میں گاڑیاں اُور اُن کے پرزہ جات‘ موبائل فون‘ سگریٹ‘ جیولری‘ کاسمیٹکس‘ ذاتی استعمال کی اشیاء‘ برقی و دیگر گھریلو آلات اور اسلحہ شامل ہے لیکن محض برآمدات کی اس طرح حوصلہ شکنی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک کہ اُن کے متبادل اشیاء پاکستان کے اندر (میڈ اِن پاکستان) فخریہ طور پر تیار نہیں ہوں گی۔

پاکستان کی معروف جامعہ ’انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (کراچی)‘ کے معلم مدحت صاحب جب ’برانڈنگ‘ کے حوالے سے کاروباری حکمت عملی کے مختلف پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کر رہے تھے تو اُس دوران ایک موقع پر یہ نکتہ بھی زیربحث آیا کہ کسی برانڈ کی خصوصیات میں اُس کا معیار اور پائیداری بھی شامل ہوتی ہے۔ کیا پاکستان میں ایسی مصنوعات نہیں بن سکتیں جو معیار و پائیداری میں اپنی مثال آپ ہوں؟ کیا ’میڈ اِن پاکستان‘ برانڈ قابل بھروسہ نہیں ہوسکتا؟ ملک کے ہر شہر میں سڑکوں پر درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے تو کیا یہ ترقی اور قوت خرید بڑھنے کی عکاسی ہے یا کچھ اُور؟ ذہن نشین رہے کہ سال دوہزار پندرہ سولہ کے دوران ایک ارب چھبیس کروڑ تیس لاکھ امریکی ڈالرز کی غیرملکی گاڑیاں اور پرزہ جات پاکستان درآمد کئے گئے۔ یہ اضافہ سالانہ کم وبیش چالیس بنتا ہے جبکہ رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے اعدادوشمار کے مطابق الاماشاء اللہ‘ سات ماہ کے دوران غیرملکی گاڑیوں کی مد میں پاکستان ایک ارب ایک کروڑ ڈالر کی درآمدات کر چکا ہے! اِسی طرح موبائل فون کا استعمال بھی ہمارے ہاں حسب ضرورت یا حسب آمدنی و حال نہیں۔ حیرت انگیز طور پر گذشتہ مالی سال (دوہزار پندرہ سولہ) کے دوران پاکستان میں نصف ارب سے زیادہ (66 کروڑ 70لاکھ ڈالر) مالیت کے موبائل فون درآمد کئے گئے جبکہ رواں برس (دوہزار سترہ) میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے! 

رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے ابتدائی سات ماہ کے دوران موبائل فون کی درآمدات تینتیس کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہیں! کیا یہ عجب نہیں کہ ہمارے تعلیمی اِداروں میں تحقیق تو ہو رہی ہے لیکن اُسے عملی طور پر اختیار نہیں کیا جارہا؟ یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAid)‘ نے ’صنفی مساوات پروگرام (جینڈر ایکویٹی پروگرام)‘ میں اِس بات کو بھی شامل کیا کہ صنعتی شعبے سے متعلق ’نئے تصورات (آئیڈیاز)‘ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اِس سلسلے میں ’سرحد چیمبرآف کامرس‘ (پشاور) کے زیراہتمام رواں ہفتے ایک مقابلے کا انعقاد بھی ہوا‘ جس میں ایک نجی جامعہ ’سرحد یونیورسٹی‘ کے ہونہاروں نے ’پہلی پوزیشن‘ حاصل کی اور اِسی نوعیت کے پروگرام ملک گیر سطح پر جاری ہیں جیسا کہ ایک ورکشاپ میں سیالکوٹ سے مدعو ڈاکٹر زریں فاطمہ سے تبادلۂ خیال میں معلوم ہوا کہ پاکستانی جامعات میں ہونے والی چھوٹے پیمانے کی تحقیق کو صنعتوں تک منتقل کرنے اور اُن کی ضرورت (نیڈ بیسڈ) کے مطابق تحقیق کا عمل جاری ہے تو اُمید کے چراغ روشن ہوئے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!‘‘

پاکستانی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ یکساں ضروری یہ امر بھی ہے کہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ہاں تحقیق و صنعتی معیار بلند کیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ توجہ مرکوز رہے کہ محنت کشوں کے حقوق کی ادائیگی کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں صرف صنعتکاروں کے اثاثوں میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ معیاری صحت و تعلیم اور بنیادی و خصوصی سہولیات ہر خاص و عام کے لئے یکساں فراہم کی جاتی ہیں۔ 

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اکتوبر دوہزار سولہ کے بعد سے رواں ماہ کے وسط میں کم ہوئے ہیں تو اِس کا پائیدار حل موجود ہے‘ لیکن اُس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا توکیوں؟ سردست پاکستان میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اکیس اعشاریہ نو ارب ڈالر ہیں‘ جبکہ اسی عرصے کے دوران گذشتہ سال یہ چوبیس ارب ڈالر سے زیادہ تھے! تعلیم و تحقیق اور سماجی سطح پر شعور اُجاگر کرنے کی ذمہ داری اگر سیاسی حکومت پر عائد ہے تو مرکزی بینک کو درآمدات میں اضافے کی حوصلہ شکنی کے لئے رسمی اور واجبی نمائشی اقدامات سے کچھ زیادہ‘ کچھ جنوبی و انقلابی اقدام کرکے دکھانا ہوگا‘ بالخصوص اشیائے خوردونوش کی درآمدات کم کرنے کے لئے سوچ بچار عام کرنا ہو گی۔ اگر پاکستانی کچھ کھا یا پی رہے ہیں تو اِس سے قبل بھی سوچ کر فیصلہ کریں‘ اِس قدر شعور خودبخود پیدا نہیں ہوگا۔ غیرملکی درآمد شدہ آئس کریم اور مشروبات پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ متبادل زیادہ بہتر برانڈز متعارف کرانے کی صورت ہدف کا حصول پائیداری سے حاصل کرنا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ 

پاکستان جیسا زرعی ملک کہ جس کی 75فیصد سے زائد معیشت کھیتی باڑی سے وابستہ ہے اگر وہ کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے تو کیوں؟ سال دوہزار پندرہ سولہ کے دوران مجموعی طور پر چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی اشیائے خوردونوش پاکستان ہضم کر گیا اور اگر پاکستان رواں مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) میں اب تک‘ دو ارب ساٹھ کروڑ ڈالر ڈکار چکا ہے تو یہ قطعی معمولی نہیں اور نہ ہی مثبت (قابل رشک) رجحان ہے۔ کاش کہ ہم سمجھ سکتے کہ پاکستان اور پاکستانیت کے بھی کچھ الگ الگ تقاضے ہیں! 

Wednesday, February 22, 2017

Feb2017: Gender Equity Program & possibilities!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صنفی مساوات: ممکنات کی حد!
پاکستان میں امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کی سرگرمیاں کم وبیش 100سے زائد شعبوں کا احاطہ کرتی ہیں جن میں صنفی مساوات پروگرام (جینڈر ایکویٹی پروگرام) ایک ایسا عنصر ہے‘ جو اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے منفرد و غیرمعمولی ہے۔ خواتین کے خلاف امتیازات کے خاتمے اور مساوات پر مبنی تصورات کی تبلیغ و تشہیر کرنے کی اِس حکمت عملی کا اطلاق ’عورت فاؤنڈیشن‘ کے ذریعے کیا گیا جن کی زیرنگرانی ضلعی سطح پر ذیلی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) نے ملک گیر سرگرمیاں کے ذریعے ایک معاشرے میں ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھایا۔ اِسی پروگرام کا نتیجہ تھا کہ مرد اور خاتون کے درمیان صنفی اور جنسی امتیازات کے درمیان باریک فرق کو واضح کیا گیا اور معاشرے کی ترقی میں اِن دونوں اکائیوں کے کردار سے یکساں استفادہ کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے یہ تصور پیش کیا گیا کہ ترقی کا معنوی عمل صنفی اکائیوں کے درمیان افراق و تفریق سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور ترقی کے یکساں مواقعوں کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کے تحت پاکستان کے لئے امریکی امداد کا حجم ’’چار کروڑ (40ملین) ڈالر تھا جس کا ساٹھ فیصد سے کم حصہ ہی استعمال کیا جاسکا۔ اگرچہ بیرونی امداد سے ملنے والے مالی وسائل سے مکمل استفادہ نہ کرنے جیسی خامی اِس بات کا سبب نہیں لیکن ’یو ایس ایڈ‘ کی جانب سے ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کو رواں برس ختم کرنے کی بنیادی وجہ ’صدر امریکہ ٹرمپ‘ کی ترجیحات ہیں جنہوں نے بیرون امریکہ ’یوایس ایڈ‘ کے پروگراموں کو بتدریج اور مرحلہ وار ختم کرنے کی بجائے فوری طور پر جہاں ہے اور جیسا ہے کہ بنیاد پر منجمند کرنے کے احکامات صادر فرما دیئے ہیں اور یہی وجہ ہے آنے والے چند ماہ کے دوران پاکستان میں ’یو ایس ایڈ‘ کی سرگرمیاں رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جائیں گی۔ 

پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو حقوق نسواں اور صنفی مساوات کے اِس پروگرام کا جاری رہنا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ابھی اِس کے مقرر کردہ جملہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے اور نہ ہی انتھک و پرخطر عملی مشقوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ہیں کہ یکایک اِس حکمت عملی (پروگرام) میں شامل ذیلی منصوبے (پراجیکٹ) ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے‘ اور بعدازاں ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ یہ ایک مایوس کن صورتحال ہے بالخصوص اُن تمام متعلقہ ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کے لئے جو سال2018ء کے عام انتخابات سے قبل خواتین کی سیاسی عمل میں زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے حوالے سے کام کر رہی تھیں۔

سال 2010ء میں شروع ہونے والے ’جینڈر ایکویٹی پروگرام‘ کے چار بنیادی اہداف و مقاصد یہ تھے 1: انصاف تک رسائی‘ خواتین کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور اِس ذریعے سے صنفی مساوات کا حصول کیا جائے۔ 2: خواتین کو بذریعہ شعور و خواندگی خودمختار (بااختیار) بنانا اُور انہیں گھر‘ کام کاج کے ماحول اور معاشرے میں اپنے آئینی حقوق کے بارے علم ہو سکے۔ 3: صنفی بنیاد پر تشدد کی حوصلہ شکنی اور اِس منفی رویئے کے خلاف جدوجہدکرنا اور 4: ایسے اداروں کی استعداد میں اضافہ (سرپرستی) کرنا جو خواتین کو خودمختاری اور صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کی مہارت یا اِن شعبوں میں عملی کام کا تجربہ رکھتی ہیں۔ اِن چار بنیادی اہداف کے حصول کے لئے 12 مختلف مراحل میں الگ الگ مالی امداد مختص و فراہم کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے ’صنفی مساوات پروگرام‘ سے کیا سیکھا (حاصل کیا) اور اِس کے ثمرات و اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اِس حکمت عملی کو جاری رکھنا چاہئے‘ اگر ہاں تو کیوں؟

خیبرپختونخوا کے چار (ایبٹ آباد‘ ہری پور‘ سوات‘ پشاور) اور مجموعی طور پر پاکستان کے بارہ اضلاع میں خواتین کو انصاف تک رسائی کے تحت ایک ہزار سے زائد خواتین کو مفت قانونی امداد دی گئی بصورت دیگر وہ اپنے آئینی حقوق سے محروم رہتیں اور انتہاء یہ بھی ہو سکتی تھی کہ انہیں زندہ رہنے ہی سے محروم کر دیا گیا ہوتا! غنیمت نہیں تو کیا ہے کہ اِسی پروگرام کے تحت قریب چوبیس سو وکلاء (خواتین و حضرات) کے صنفی مساوات کے حوالے سے تصورات واضح کئے گئے۔ علاؤہ ازیں اضلاع کی سطح پر بار ایسوسی ایشن کی استعداد میں اضافہ کیا گیا۔ اِسی پروگرام کے تحت کم و بیش پانچ لاکھ خواتین کے قومی شناختی کارڈز بنوائے گئے اور ووٹر لسٹوں میں اُن کے ناموں کا اندارج کرایا گیا۔ ملک بھر میں خواتین کے لئے بارہ ’پناہ گاہیں‘ بنائی گئیں جہاں انہیں آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ خواتین کو ہنرمندی کی تربیت دی گئی۔ خواتین کو خودروزگار کے لئے مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرض دلوائے گئے۔ خواتین سے متعلق قوانین سازی کے عمل اور پہلے سے موجود قوانین کے بارے میں شعور اُجاگر کیا گیا۔ 

صنفی بنیاد پر تشدد معاشرے کے نسبتاً کمزور اکثریتی طبقے سے امتیازی سلوک کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ دو سو سے زائد مقامی ’این جی اُوز (غیرسرکاری تنظیموں)‘ کو مالی امداد دی گئی‘ اُن کی استعداد میں اضافہ کیا گیا جو ایک ایسا اثاثہ ہے۔ اشاعتوں اور تشہیری مواد کے ذریعے صنفی بنیادوں پر تشدد کے بارے شعور میں اضافہ ایک ایسا مشکل ہدف تھا جس کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے اور اسی سے معاشرے میں ایک قسم کی برداشت بھی پیدا ہوئی۔

صنفی مساوات (خواتین کی ترقی و حقوق کا تحفظ) ایک ایسا موضوع اُور شعبہ ہے‘ جس کے حوالے سے حکومت پاکستان کی عملی اقدامات اُور دلچسپی کم ترین سطح پر ہے۔ سرکاری اداروں میں سوائے تنخواہیں‘ مراعات اُور بیرون ممالک دوروں سے زیادہ آگے کی سوچ نہیں پائی جاتی! اگر ’جینڈر ایکوٹی پروگرام‘ نامی حکمت عملی کا دائرہ کار مزید وسیع کرنے کی بجائے اِسے کم کرتے ہوئے ختم کیا جاتا ہے تو نقصان صرف اور صرف اُن خواتین کا ہوگا‘ جنہیں ایک طرف صنف کی بنیاد پر امتیازی روئیوں اور ناموافق ماحول کا سامنا ہے بلکہ اُن کے وراثت اور حق رائے دہی جیسے بنیادی آئینی حقوق بھی غصب ہیں! 
epaper.dailyaaj.com.pk/index.htm
or
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2017-02-22

Tuesday, February 21, 2017

Feb2017: Peace in Karachi, at any cost.

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
امن: بہرقیمت!
کراچی میں امن و امان کی صورتحال مثالی نہیں لیکن اگر اِس کا موازنہ گزشتہ چند دہائیوں سے کیا جائے تو غیرمعمولی بہتری آئی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے‘ بے ہنگم آبادی کے اِس امیر شہر کو دہائیوں تک نظرانداز کرنے کے سبب مسائل بڑھتے بڑھتے بحرانوں کی شکل اختیار کرتے رہے‘ جن میں نسلی اُور لسانی بنیادوں پر سیاسی مفادات کے لئے منظم جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی‘ فرقہ واریت‘ سبقت و مقبولیت کے لئے غیرصحت مند مقابلے کا رجحان‘ اسلحے‘ منشیات کی خریدوفروخت اُور کالا دھن کمانے‘ بیرون ملک منتقلی اُور سرکاری محکموں میں حد سے زیادہ سیاسی مداخلت کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال موجود ہے مقامی افراد کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ’’اِن منفی رجحانات میں اگرچہ بڑی حد تک کمی آئی ہے لیکن صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کو تن تنہا ’امن کی بحالی‘ کے لئے ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ سیاسی حکمرانوں کو بھی اپنی ترجیحات اور فیصلوں میں کراچی کو اہمیت و ترجیح دینا ہوگی۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں خطرات اور امن کی بحالی کے امکانات (توقعات اُمیدیں اور وسائل پر انحصار) کم نہیں لیکن زندگی کی رونقیں جس تیزی (رفتار) سے بحال ہو رہی ہیں‘ اُس سے عام آدمی کا اعتماد بڑھا ہے۔ پاکستان رینجرز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد سعید پُرامید ہیں کہ قانون شکن اور دہشت و انتہاء پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف جاری کاروائیوں (آپریشن) میں توقعات سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ جن کا ثبوت یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 91فیصد جبکہ دہشت گردی کے واقعات میں 72 فیصد کمی آئی ہے! کراچی آپریشن میں اب تک پندرہ سو تیرہ دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں۔ نو ہزار سے زائد چھاپوں کی داستان میں دس ہزار سات سو سولہ کی تعداد میں ہتھیار (اسلحہ) بھی برآمد کرنے کا دعویٰ ہم جیسے صحافیوں کے لئے یقین کرنے کا ’’کافی جواز‘‘ تو ہو سکتا ہے لیکن کراچی کے عام آدمی کی نظر میں داخلی طاقتوں سے نمٹنے کے لئے جس طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہے اُور اگر قانون نافذ کرنے والے ’خفیہ اُور ظاہری معلومات‘ کی بنیاد پر ’آپریشنز‘ کئے جائیں تو مطلوبہ اہداف اور نتائج کم وقت میں حاصل ہو جائیں گے۔ رینجرز کا دعویٰ زمینی حقائق کی تصدیق کرتا ہے کہ بھتہ خوری اور اغوأ برائے تاوان کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہیجن کی شرح بتدریخ 93فیصد اور 86فیصد کم ہونا قطعی معمولی بات ہے! اب کراچی میں ’علاقہ غیر (نوگو ایریاز)‘ نہیں رہے۔‘‘ وفاق کے زیرکنٹرول کم و بیش ایک لاکھ افرادی قوت پر مبنی نیم فوجی دستے ’پاکستان رینجرز‘ کی دو الگ الگ شاخیں پنجاب اور سندھ میں فعال ہیں‘ جن کی ذمہ داریوں کا احاطہ ’پاکستان رینجرز آرڈیننس 1959ء‘ میں کیا گیا ہے۔ واہگہ بارڈر لاہور پر قومی پرچم سرنگوں کرنے کی دلچسپ موسیقیت بھری تقریب دیکھنے کا اتفاق جس کسی کو بھی ہوا‘ وہ ’پنجاب رینجرز‘ کی سرحدی و جغرافیائی حفاظت سے جڑی ذمہ داریوں اور کارکردگی کے پہلوؤں سے آگاہ ہے لیکن رینجرز کا بنیادی مقصد بھارت کے ساتھ صوبہ سندھ و پنجاب میں بالترتیب 912 اور 1200 کلومیٹرز طویل جنوبی سرحد کی حفاظت کرنے تک محدود نہیں رہا لیکن سندھ کے صدر مقام کراچی میں صدر دفتر (ہیڈکواٹر) رکھنے والی رینجرز کو اِس شہر میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی جسے احسن طورپر ادا کرنے کی عملی مثالیں یہاں وہاں دکھائی دیتی ہیں کہ کراچی کی رونقیں ایک ایک کر کے واپس لوٹ رہی ہیں!
پاکستان میں نہ تو قوانین کی کمی ہے اور نہ ہی اِن قوانین کے اطلاق کے لئے سیکورٹی فورسز یا اداروں کی تعداد ہی کم ہے۔ وفاق کے زیرانتظام 12 جبکہ صوبوں کے زیرانتظام 13الگ الگ ناموں سے ’سیکورٹی ایجنسیز‘ ہیں جن کا بنیادی کام ایک ہی ہے لیکن قوانین کے اطلاق میں اُس قومی پالیسی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے‘ جس کے تخلیق صرف داخلی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خطے میں مفادات بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کا مکمل کنٹرول کبھی بھی منتخب سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں رہا بلکہ قانون نافذ کرنے کے نام پر مسلح دستے ہی کبھی زیادہ تو کبھی کم بااختیار رہے۔ اِن اداروں کے سربراہوں کی تقرری کی حد تک سیاسی حکومتوں کا عمل دخل نظر آتا ہے لیکن اپنے فیصلوں اور احکامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ترجیحات و لائحہ عمل اختیار کرنے میں یہ سیکورٹی ادارے بڑی حد تک نہیں بلکہ مکمل خودمختار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و انتظامی حکمرانی کا یہی پہلو سب سے زیادہ اِصلاح طلب ہے جس میں ادارے قومی مفاد سے زیادہ اپنی ذات اور ساخت میں خود کو محدود کئے ہوئے ہیں جس سے نفسانفسی کا ماحول غالب ہے اور قومی وسائل کا ضیاع الگ سے ہو رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے کو داخلی خطرات و خارجی سازشوں کے بچانے کے لئے اگر پولیس کی بجائے نیم فوجی دستے (رینجرز) سے محفوظ بنانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس کا قبلہ درست کرنے اور اِس کی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنے جیسے مشکل فیصلے کی بجائے عارضی و آسان فیصلوں کو ترجیح دی گئی ہے‘ جس کی بوجھ قومی خزانے پر بھی ہے اور قومی ضمیر پر بھی کیونکہ طاقت کے انتہائی استعمال سے اِس بات کا امکان بھی موجود رہتا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کچلے جائیں اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ عام لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔ امن بہرصورت اور بہرقیمت بحال ہونا چاہئے لیکن اِس کا بوجھ ’قومی قوت برداشت یا اعصاب‘ پر حاوی نہیں بلکہ اُس کی تقویت کا باعث ہونا چاہئے۔ انتظامی امور کے ساتھ قانون کی حکمرانی بھی قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہونی چاہئے۔ شفافیت اُور اِنسانی جان کی قیمت و اِحترام بھی بطور اصل ترجیح یکساں ضروری ہے کیونکہ جیل جیسا ’امن اور خوف‘ نہیں بلکہ شہروں اور دیہی علاقوں میں زندگی خوبصورت نظر آنی چاہئے اور چھوٹی بڑی خوبیاں رائیگاں نہ جائیں تو اِس متعلق بھی ہر اقدام سے پہلے‘ سوچنا اور مقامی لوگوں کے ساتھ مشاورت بھی یکساں ضروری ہے۔

Monday, February 20, 2017

Feb2017: Peshawar Airport, journey started!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کا ہوائی اڈہ!
سفر ہے شرط‘ خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت اُور مرکزی ہوائی اڈہ (باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ) جہازوں کی آمدورفت (ہوائی ٹریفک) کے حوالے سے پاکستان کا چوتھا مصروف ترین ائرپورٹ ہے لیکن یہاں مسافروں سے زیادہ اُن کے ہمراہ آنے والوں کی تعداد کی ایسی بڑی تعداد معمول بن چکی ہے جس کے باعث اندرون و بیرون چاردیواری رش دیدنی ہوتا ہے بالخصوص عرب ممالک سے آنے والی فلائٹس سے اُترنے والوں کے چہرے اپنے پیاروں کے گلے مل کر دمک رہے ہوتے ہیں جبکہ سبز پاسپورٹ ہاتھوں میں لئے قطاروں میں لگے نوجوان اچھے مستقبل کے لئے عزیزوں سے بچھڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک عجیب سماں ہوتا ہے‘ بچھڑنے کے آنسو اور ملنے کے آنسو! گلے میں پھولوں کے ہار اور بانہیں۔ منتظر خواب اور آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں! سب کچھ پشاور ائرپورٹ کی اُس خاص ’’مہمان نوازی‘‘ کے دلچسپ مناظر کا حصہ ہے‘ جو پاکستان کے کسی بھی دوسرے ائرپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کو بمشکل دیکھنے کو ملے۔ 

عرب ممالک کے لئے سستی افرادی قوت (ورک فورس) کا بڑا حصہ یہیں سے پرواز بھرتا ہے! علاؤہ ازیں پشاور ائرپورٹ دنیا کا ایسا واحد عجوبہ ائرپورٹ بھی ہے جس کے ’رن وے‘ کے ایک (آخری) حصے سے ریل گاڑی کی پٹڑی بھی گزرتی ہے۔ ستائیس جنوری دوہزار بارہ کے روز خدائی خدمتگار تحریک سے تعلق رکھنے والے قوم پرست رہنما خان عبدالغفار خان کے نام سے منسوب کئے جانے کے بعد سے ’پشاور ائرپورٹ‘ پر نہ تو سہولیات میں غیرمعمولی (کماحقہ) اضافہ ہوا‘ اور نہ ہی اِس کی تعمیرات سے کہیں بھی پختون ثقافت کا کوئی رنگ دکھائی دیتا ہے جیسا کہ ہمیں لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل) اور کراچی (قائداعظم انٹرنیشل) ائرپورٹس پر دیکھنے اور محسوس کرنے کو ملتا ہے۔ یاد رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) حکومت کے دوران ’’خان عبدالغفار خان‘‘ المعروف باچا خان (چھ فروری اٹھارہ سو نوے سے بیس جنوری انیس سو اٹھاسی) کے نام نامی سے منسوب کیا گیا جبکہ باچا خان کی تدفین اُن کی وصیت کے مطابق پاکستان کے کسی بھی حصّے‘ حتیٰ کہ اُن کے آبائی گاؤں کی بجائے افغانستان کے صوبے ننگرھار کے شہر جلال آباد میں کی گئی اور اِسی جانب اشارہ کرتے ہوئے اِس فیصلے کی مخالفت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ جب کسی جماعت کے بزرگ رہنما نے سوچ سمجھ کر پاکستان میں تدفین پسند نہیں تو اُن کے نام سے پشاور ائرپورٹ منسوب کرنے میں کتنی سوچ سمجھ یا حب الوطنی سے کام لیا گیا؟ 

باچا خان کے نام سے پشاور سمیت پختون اکثریتی علاقوں میں چوراہے اور سڑکیں منسوب ہیں‘ جو اُن کی خطے میں سیاست اور جدوجہد کے لئے دی جانے والی قربانیوں اور پیغام کو دیا جانے والا اطمینان بخش خراج تحسین ہے۔ بہرکیف گذشتہ کئی ماہ (ایک سال سے) ’پشاور ائرپورٹ‘ کی توسیع کا کام جاری ہے جس کی رفتار تیز کرنے کے ساتھ لاہور اور کراچی ائرپورٹس کی طرح کثیرالمنزلہ شایان شان لاؤنجز کی تعمیر بڑھتی ہوئی آمدورفت اور بالخصوص ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کی فعالیت سے قبل انتہائی ضروری ہے۔



جہاز کے پرواز بھرنے سے قبل عملے سے متعلق تعارفی کلمات اور سفر کی دُعا سے قبل شہری ہوابازی کے نگرانوں کی جانب سے ایک پیغام (کچھ اضافے کے ساتھ) مسافروں کو ’’بقول اُن کے اپنے مفاد میں‘‘ سنایا گیا کہ ’’پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کے جہاز کے پرواز بھرنے سے قبل (آن بورڈ) ’سام سنگ گلیکسی نوٹ سیون‘ نامی موبائل فون (الیکٹرانک ڈیوائس) استعمال نہ کی جائے اور نہ ہی اسے چارج کیا جائے یا آن بورڈ اپنے بیگ میں رکھا جائے۔‘‘ ایسے چلتے پھرتے دھماکہ خیز فونز پر پابندی کا اطلاق مذکورہ فون کی نہایت ہی طاقتور لیکن غیرمحفوظ بیٹری کے باعث پوری دنیا میں کیا گیا کیونکہ بہت سے ایسے حادثات تواتر سے پیش آئے جن میں ’نوٹ سیون‘ جیسے مہنگے اور جدید فون (ہینڈ) سیٹ استعمال کرنے والوں کو بذات خود یا اُن کے قریب بیٹھے افراد کو بھی نقصانات اُٹھانا پڑے۔ مسافروں کے مفاد میں دوسری ہدایت کا مزاج حاکمانہ تھا کہ اگر جہاز کی پرواز میں تاخیر ہو یا مقررہ ائرپورٹ کی بجائے اِسے تکنیکی یا موسمی خرابی کے باعث کسی دوسرے شہر کے ائرپورٹ پر اُترنا پڑے تو ایسی صورت میں مسافر قانون ہاتھ میں نہ لیں یعنی نہ تو احتجاج کریں اور نہ ہی جہاز کو نقصان یا عملے (ائر کرو) سے بدتمیزی سے پیش آئیں۔ ملک کی قومی ائرلائن کو نقصان کیوں پہنچایا جائے گا لیکن اگر مسافروں (صارفین) کو ہر مرحلے پر اعتماد میں لیا جائے۔ عمومی روش رہی ہے کہ ’پی آئی اے‘ کے جہاز ’وی وی آئی پیز‘ (سیاست دانوں) کے لئے تاخیر سے پرواز بھرتے رہے اور جہازوں میں صفائی کی صورتحال یا رہنمائی کے لئے عملے نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ نہیں کیا تو مسافروں کا ردعمل فطری تھا۔ منطق‘ دلیل اور اخلاق و شائستگی کے ذریعے بڑے سے بڑے مخالف کو بھی قائل (زیر) کیا جاسکتا ہے‘ کسی ایک بیچارے مسافر کی کیا مجال کہ وہ ’’بغاوت‘‘ کا اعلان کرے یا پاکستان قوم ابھی اتنی متفق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے حق کے لئے باہمی اختلافات اور نسلی لسانی یا قبائلی و علاقائی شناخت کو خاطر میں نہ لائے!



ہوائی جہاز کے سفر سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ نسبتاً خوشگوار اور باسہولت و آرام دہ ہوتا ہے بشرطیکہ دوران پرواز موسم موافق اور عملہ (کیبن کرّو) تاآخر خوش اخلاق رہے۔ اُنیس فروری کی صبح ساڑھے نو بجے A320 طیارے کی اَندرون ملک پرواز PK351 کے ذریعے پشاور سے کراچی جانے والوں کا استقبال اور کراچی پہنچنے پر جس خندہ پیشانی سے الوداع کیا گیا‘ وہ پاکستان کے قومی جہاز راں ادارے کے شایان شان تھا۔ اُن تمام مسافروں (مرد و خواتین) کے چہروں پر تسلی کے آثار نمایاں دیکھے جا سکتے تھے‘ جنہوں نے ’پی آئی اے‘ سے سفر کرنے کا ’رسک‘ لیا اور اپنے فیصلے پر پشیمان نہیں تھے اُور یہی وجہ تھی کہ بہتری کی گنجائش بارے رائے دینے کے لئے خصوصی فارم طلب کئے گئے۔ 

کسی کارپوریٹ ادارے کے لئے صارفین کی رائے (تاثرات) بہت اہم ہوتے ہیں اور بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جبکہ نجی ائرلائنز بھی مقابلے میں ہوں! پی آئی اے کی طرح ’سول ایوی ایشن اتھارٹی‘ کو بھی اپنی خدمات کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ پشاور ائرپورٹ کی ویب سائٹ (peshawarairport.com.pk) تو موجود ہے لیکن اُس پر مسافروں یا اُن کے ساتھ آنے والوں کے نہ تو ہدایات موجود ہیں اور نہ ہی ائرپورٹ سے استفادہ کرنے والوں کو یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے تاثرات (تبصرہ) مستقبل میں اِس ائرپورٹ سے سفر کرنے والوں کے لئے یہاں تحریر کر سکیں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) اور بالخصوص موسم کی صورتحال اور پشاور کے بارے میں معلومات بھی اِسی ویب سائٹ کا حصہ ہوں۔ 

فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فور نامی ایپلی کیشن یا خود سے ’رئیل ٹائم‘ سروس فراہم کرکے رہنمائی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اِسی طرح سفری تجربے کو خوشگوار بنانے کے لئے دوران پرواز ’وائی فائی‘ کی سہولت اور ائرپورٹ کا ’ورچوئل ٹور‘ بھی ویب سائٹ کا حصہ ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر ائرپورٹ کے نقشے سے معلوم ہو سکے کہ مردوں اور خواتین کے لئے باتھ رومز (وضوخانے) کہاں ہیں‘ بورڈنگ کارڈ ملنے کے بعد لاؤنج کو ملک کے دیگر ائرپورٹس کی طرح زیادہ باسہولت بنایا جا سکتا ہے۔ مسجد یا ائرپورٹ کے سیکورٹی و انتظامی دفاتر بارے رہنمائی کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 


ائرپورٹ پر طبی امداد کے مراکز اگر موجود ہیں تو اُن تک رسائی کن راستوں سے ہوگی! ویب سائٹ پر ’اِی کمپلینٹ‘ کی سہولت دی گئی ہے جس کے تین جز ہیں لیکن ایسی صورت میں کسی صارف کی ’آن لائن خواندگی‘ اُور سمارٹ فونز یا ٹیبلٹ جیسے کیمونیکشن ٹولز (آلات) کا ہونا ضروری ہے۔ کسی عالمی معیار کا مطالبہ جائز نہیں لیکن ’وائی فائی‘ دستیابی بارے بنیادی معلومات جلی حروف میں آویزاں کرنے سے ائرپورٹ کا تجربہ زیادہ خوشگوار اُور انتظار کی گھڑیاں گننے کی کوفت سے مسافروں یا اِستقبالیہ پر گھنٹوں سے منتظر اَفراد کو ’وقت گزرنے کا اِحساس‘ نہیں ہوگا۔ موبائل فون ایک ایسی اِیجاد بھی ہے‘ جس کا ضرورت سے زیادہ اور بناء ضرورت استعمال بھی عام ہے تو اسے بامقصد بنانے کے لئے ’موبائل فون ایپ‘ پشاور ائرپورٹ کے توسیعی منصوبے (حکمت عملی) کا حصہ ہونی چاہئے۔

Sunday, February 19, 2017

Feb2017: Women Participation in Elections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عام انتخابات: خواتین ووٹ سے محروم کیوں!؟

خیبرپختونخوا کے پندرہ اضلاع میں اہلیت کے باوجود خواتین ووٹ ڈالنے سے محروم ہیں اِس سلسلے میں کئے گئے ابتدائی اور بنیادی نوعیت کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ایبٹ آباد میں غیررجسٹرڈ شدہ ووٹر خواتین کی تعداد 1161 ہے جبکہ بنوں 38429‘ بٹ گرام 4887‘ بونیر4679‘ چارسدہ29780‘ چترال5153‘ ہری پور 7001‘کرک 16558‘ کوہاٹ 25545‘ لکی مروت 17481‘مالاکنڈ 13905‘مانسہرہ 21733‘ شانگلہ5135 ‘صوابی 25768اُور ٹانک میں ایسی خواتین کی تعداد 7588 بتائی گئی ہے جن کے نام ووٹر فہرستوں میں درج نہیں لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد کو عام انتخابات سے الگ رکھنے کی بات صرف کسی ایک صوبے کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں 992629 (نو لاکھ بانوے ہزار چھ سو اُنتیس) خواتین اہل ہونے کے باوجود اگر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے حق سے محروم ہیں تو طرزعمل اصلاح چاہتا ہے۔

’’روشن پاکستان‘‘ کے عزم سے امریکہ کا اِمدادی اِدارہ ’یوایس ایڈ‘ 4 کروڑ 50لاکھ ڈالر مالیت کی ایک ایسی بیش قیمت حکمت عملی بنام ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کی مالی سرپرستی کر رہا ہے جس کے تحت ’عوام کی اپنے حقوق سے آگاہی اُور امتیازات و دھاندلی سے پاک انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لئے ’’ٹرسٹ فار ڈیموکریسی اَیجوکیشن اینڈ اکاونٹ بیلٹی (TDEA)‘‘ عملی معاونت کر رہا ہے‘ جس کا حصہ ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین)‘ تعارف کا محتاج نہیں۔ یہاں ایک تکنیکی سقم موجود ہے۔ فافین کی مہارت چونکہ عام انتخابات میں شراکت داری اور انعقاد میں شفافیت سے جڑے امور سے ہے‘ اُور چونکہ اِس غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کا نیٹ ورک ملک میں سب سے بڑا ہے‘ اِس لئے ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کا منصوبہ ’ہائی جیک‘ کر کے اِس کی معنویت و فعالیت محدود کردی گئی ہے! اُمید کی جاتی ہے کہ ’یو ایس ایڈ‘ اِس فکری پہلو پر غور کرے گی‘ تاکہ ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کے جملہ اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ 

تو بات ہو رہی تھی اُس ملک گیر نمائندہ جائزے کی جس سے معلوم ہوا کہ ملک کے ہر حصے میں اہل خواتین کی ایسی تعداد موجود ہے جن کے ’ووٹ‘ رجسٹرڈ نہیں اُور اِس کی کئی وجوہات بھی سامنے آئی ہیں جیسا کہ 1: سماجی دباؤ۔ 2: قومی شناختی کارڈ کا نہ ہونا۔ جائیداد کے کاغذات یا دیگر شناختی دستاویزات کا نہ ہونا۔ 3: اقتصادی دباؤ (غربت)۔ 4: شعور نہ ہونا کہ ووٹ رجسٹرڈ کرانا اُور انتخابی عمل میں حصّہ لینا کیوں ضروری ہے اُور 5: ووٹ رجسٹرڈ کرانے کے عمل بارے معلومات یا سہولیات کا نہ ہونا۔ ’’سٹیزن وائس پراجیکٹ‘‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار مختلف اضلاع میں کام کر رہی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) میں تقسیم کر دیئے گئے ہیں‘ تاکہ جہاں کہیں خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ نہیں اور جن کی تعداد بھی معلوم ہے تو اُنہیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کرانے کا بندوبست کیا جائے۔ اِس سلسلے میں مرتب کی جانے والی حکمت عملی کثیرالجہتی ہے جس کے تحت تربیتی نشستوں کا انعقاد ہوگا جس میں سیاسی جماعتیں‘ انتخابی اُمیدوار یا اُن کے نمائندے‘ صحافی‘ دیگر اسٹیک ہولڈرز‘ متعلقہ عمائدین‘ مقامی این جی اوز‘ عام انتخابات میں حصہ لینے والا عملہ اور الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو شریک کیا جائے گا۔ اِسی حکمت عملی کے تحت ملک گیر سطح پر بحث و مباحثوں کی نشستیں (فورمز) کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ موضوع پر تبادلۂ خیال سے وضاحت ہوتی چلی جائے۔ قومی شناختی اور ووٹ رجسٹر کرنے کے لئے سہولیات و معلومات کی فراہمی کا اہتمام کرنا بھی حکمت عملی کا حصّہ ہے جبکہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی موبائل وینز کا بندوبست کرنا تاکہ خواتین کم وقت اور باسہولت انداز میں قومی شناختی کارڈز کا اجرأ کروا سکیں اُور صرف یہی نہیں بلکہ خواتین کو ایسے اسباب و وسائل (سہولیات) فراہم کی جائیں گی جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے وہ الیکشن کمیشن دفاتر جا کر اپنے ووٹ کا اندراج کروا سکیں۔ اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ (پرنٹ الیکٹرانک میڈیا) اُور سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کی فعالیت و کردار سے بھی استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں صوتی و نشری مواد (آڈیو ویڈیو پراڈکشنز)‘ موبائل فونز پر مختصر پیغامات ایس ایم ایس اُور ایسے خصوصی سافٹ وئرز (موبائل ایپس) سے مدد لی جائے گی‘ جن کا استعمال بالخصوص نوجوان نسل میں مقبول ہیں۔ پوسٹرز‘ پمفلٹ اور معلوماتی مواد کی اشاعت و تقسیم بھی حکمت عملی کا حصّہ ہے‘ جبکہ ریڈیو اُور ٹیلی ویژن پر ٹاک شوز کے ذریعے اِس موضوع پر متعلقہ ماہرین کے تبصرے اور گھر گھر جا کر کیمونٹی سے بات چیت کی مشقیں‘ سٹریٹ تھیٹر‘ عوامی اجتماعات کے مقامات پر کیمپ لگا کر خواتین کی انتخابی عمل میں شراکت بارے شعور اُجاگر کیا جائے گا اور اسی سلسلے میں مزدور (لیبر) یونینز‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ بلدیاتی نمائندوں (خواتین کونسلرز) کے ذریعے گھر گھر پیغام پہنچانے کو حکمت عملی کا جز بنایا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ دس لاکھ اہل خواتین ایسی ہیں جن کے ووٹ رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ عام انتخابات میں حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتیں۔ یہ بات بھی لمحہ فکریہ ہے کہ خواتین کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 43.7 فیصد ہیں اور اِس قدر کم تعداد میں خواتین کی ووٹر لسٹوں میں موجودگی کا سبب یہ ہے کہ اُن کے قومی شناختی کارڈز نہیں بنے یا دانستہ طور پر نہیں بنوائے جاتے۔ خواتین کو عام انتخابات سے الگ رکھنے کی حوصلہ شکنی کے لئے قانون سازی بھی زیرغور ہے۔ مجوزہ قانون (الیکشن بل 2017ء) کی نقل قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے بلاقیمت حاصل کی جاسکتی ہے جس کی شق 47 ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے کہ اگر کسی قومی اسمبلی کے حلقے میں خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز کی تعداد سے 10فیصد کم ہو تو ایسے حلقوں کو نظرانداز کرنے کی بجائے خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کرنے کے لئے مہمات چلائی جائیں۔ 

نئی قانون سازی اگر آئندہ عام انتخابات سے قبل عملاً ممکن ہو جاتی ہے تو اِس سے الیکشن کمیشن اور ’نادرا‘ پر یہ ’’آئینی ذمہ داری‘‘ عائد ہو جائے گی کہ وہ خواتین کے قومی شناختی کارڈز اور اُن کے ووٹ رجسٹرڈ کرنے کے لئے روائتی کام کاج کے طریقوں سے ہٹ کر خصوصی انتظامات کریں اور اِس ہدف کے حصول کو عملاً یقینی بنائیں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ نئی قانون سازی کو زیادہ جامع بناتے ہوئے کامیاب اُمیدواروں کے لئے لازمی قرار دیا جائے کہ کسی انتخابی حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کا کم سے کم 51فیصد حاصل کریں‘ بصورت دیگر متعلقہ حلقے میں انتخابی عمل اُس وقت تک بار بار دہرایا جائے جب تک کسی اُمیدوار کو ووٹ ملنے کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ نہیں ہو جاتی! ووٹروں کو انتخابی عمل میں شریک کرنا نہ صرف جمہوریت کی بنیادی شرط اور تقاضا ہے بلکہ یہی مستقبل کی ضرورت ہے۔ فافین کے بقول کسی اچھے لیڈر (رہنما) کی خصوصیات میں شامل ہے کہ ’’وہ عوام اور علاقے کی ضروریات سے باخبر ہو‘ عوام سے ہر وقت رابطے میں رہے‘ عوام کے سامنے جوابدہ ہو‘ الیکشن کمیشن کے مقررکردہ ضابطۂ اخلاق کا پابند ہو‘ ووٹ حاصل کرنے کے لئے غیرقانونی ذرائع (تھانہ کچہری‘ دھونس دھاندلی مالی وسائل) کا استعمال نہ کرے اور وہ اجتماعی مسائل حل کرنے کی بصیرت کے ساتھ عملی اقدامات بھی کرے۔‘‘ کیا ہمارے ’’لیڈر‘‘ قابلیت کے اِس کم سے کم معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں عام انتخابات کی ساکھ اور قابل بھروسہ رہ جاتی ہے اگر اِس عمل سے ووٹ دینے کی اہل خواتین کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر الگ رکھا جاتا ہے؟

Sunday, February 5, 2017

Feb2017: Health Services in KP!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اَندازِ مسیحائی!

خیبرپختونخوا کے ’ہیلتھ کیئر کمیشن‘ نے اپنی موجودگی کا اِحساس دلاتے ہوئے مختلف اضلاع میں علاج معالجے کے ایسے 30 مراکز بند (سیل) کر دیئے ہیں‘ جہاں فراہم کی جانے والی سہولیات غیرقانونی اور غیرمعیاری تھیں۔ علاؤہ ازیں ایک ہی دن مختلف اضلاع میں ہوئی کاروائیوں کے بارے ذرائع ابلاغ کو دی جانے والی اطلاعات کے مطابق ’’ڈیرہ اسماعیل خان‘ مانسہرہ‘ ہری پور اُور ایبٹ آباد کے اضلاع میں 44 نجی کلینکس بھی بند کئے گئے ہیں جبکہ 42 کو نوٹسیز جاری کئے گئے ہیں اور اگر انہوں قواعدوضوابط کے مطابق اپنے ہاں علاج معالجے کی سہولیات کا معیار بہتر نہ بنایا تو ایسے کلینکس کے خلاف دولاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ ایبٹ آباد کی بات کی جائے تو صحت و علاج کے 10 مراکز سربمہر اور 8 کو نوٹسیز جاری کئے گئے۔ مانسہرہ میں صحت کے 11 نجی مراکز سیل جبکہ 10 کو نوٹسیز جاری ہوئے اُور ہری پور میں 10سیل اور 4 مراکز کو نوٹسیز جاری ہوئے ہیں۔ کیا ہم یقین کر لیں کہ جن اضلاع میں کاروائی کی گئی اور جس تعداد میں غیرمعیاری وغیرقانونی صحت کے مراکز سیل کئے گئے بس یہی قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب تھے! لمحۂ فکریہ ہے کہ خود رو جھاڑیوں کی طرح پھیلتے ہوئے نجی کلینک گلی کوچوں کے علاؤہ کثیرالمنزلہ عمارتوں میں قائم ہیں اور صرف کلینکس ہی نہیں بلکہ غیرقانونی و غیرمعیاری تجزیہ گاہیں (لیبارٹریز) بھی اِسی نیٹ ورک کا حصہ ہیں‘ جن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا تو یقیناًاِس کا کوئی نہ کوئی ’’مفید جواز‘‘ بھی ہوگا! ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔۔۔ ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی! (اَزہر دُرانی)‘‘

جن لمحات میں نجی کلینکس کے خلاف مبینہ ’سخت کاروائی‘ عمل میں آرہی تھی اُسی دوران ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی اَیم ڈی سی)‘ کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ پاکستان میں 10فیصد میڈیکل کالجز جعلی ہیں یا پھر طب کی تعلیم کو ’سرمایہ بنانے کے لئے صنعت بنا دیا گیا ہے!‘‘ تین فروری کے روز پاکستان میں طب کی تعلیم کی نگرانی کرنے والے اِدارے کے صدر ڈاکٹر شبیر احمد لہری تین روزہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بہت کچھ ایسا بھی کہہ گئے جس نے حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالجز گھی‘ ٹیکسٹائل اور شوگر مل مالکان نے قائم کر رکھی ہیں! 

تصور محال ہے کہ نہ صرف علاج معالجے کی سہولیات معیاری نہیں لیکن طب کی تعلیم کے اِدارے بھی خالصتاً کاروباری ذہنیت (منافع) کے لئے چلائے جا رہے ہیں اُور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ خواص علاج کے لئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں‘ جبکہ عام آدمی (ہم عوام) سرکاری و نجی ہسپتالوں کے ہتھے چڑھ کر صحت و سرمائے دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں! کیا اِس مرحلۂ فکر پر جعلی اَدویات کا ذکر بھی کیا جائے‘ جن کی تقسیم اُور فروخت کے نیٹ ورک کی سرپرستی اُور پشت پناہی کرنے والوں میں سیاسی فیصلہ ساز سرفہرست ہیں! ضرورت سطحی دُوڑ دھوپ (اَنداز اُور طرز مسیحائی) پر نظرثانی کی ہے‘ عام آدمی کی صحت و جان کو لاحق بیک وقت خطرات گہری نظر کے متقاضی ہیں۔ اَچھی کارکردگی اُور اخبارات کی زنیت بننے والے بیانات سے ایک قدم آگے عملی اقدامات کے منتظر عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آنی چاہئے‘ جو عملاً محسوس بھی ہو اور جس کے نتائج معنوی لحاظ سے وسیع‘ مربوط اُور جامع ہوں۔


Saturday, February 4, 2017

Feb2017: Unrealistic Admission Charges!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

رحم کیجئے رحم!


خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں بشمول ایبٹ آباد میں تعلیمی سال کا آغاز مارچ سے ماہ سرما کی تعطیلات تک مکمل ہونے کے ساتھ ہی نئے تعلیمی سال کے لئے طلباء و طالبات کے داخلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تاہم یہ عمل نہ تو شفاف ہے اور نہ ہی حسب حال۔ صوبائی اُور وفاقی حکومتوں کے زیرنگرانی کام کر رہے ادارے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق طلباء و طالبات کی اہلیت کی جانچ کے لئے تحریری اِمتحان اُور اِنٹرویوز (داخلے کے خواہشمند بچے اور والدین سے بالمشافہ ملاقات) کا اہتمام کرتے ہیں لیکن درحقیقت اِس عمل کے ذریعے بچے کی ذہنیت‘ رجحانات اُور جسمانی صحت و تندرستی کے معیار کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ درپردہ والدین کی مالی حیثیت کے بارے رائے قائم کر کے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسی بچے کو داخلہ دیا جائے یا بناء کوئی جواز بتائے اُس کا نام داخل ہونے سے قبل ہی خارج کر دیا جائے۔ 

نجی تعلیمی ادارے ہر سال کروڑوں روپے نئے داخلوں کی مد میں کمانے کو ’’جائز (حلال)‘‘ سمجھتے ہیں تو ایسے ’سرکاری ونیم سرکاری پبلک سکول‘ بھی ہیں‘ جن کی اِنتظامیہ صوبائی یا وفاقی حکومتوں کی ملازم ہونے اور سرکاری عہدے‘ تنخواہیں‘ دوران و بعد ملازمت مراعات پانے کے باوجود ایسے فیصلے کرتی ہے‘ جس کا غالب مقصد ’مالی مفاد (منافع)‘ ہوتا ہے۔ اگر نجی تعلیمی ادارے والدین کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھائیں تو شعبۂ تعلیم میں ’سرمایہ کاری‘ کرنے والوں کی ’خالص کاروباری‘ ذہنیت کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن اگر یہی طرزعمل وفاق کے زیرانتظام کسی ’پبلک (سرکاری) سکول‘ کا بھی ہو تو اِس سے کئی مطالب اَخذ کئے جا سکتے ہیں جیسا کہ 1: ’بھاری داخلہ فیسیں‘ اَدا کرنے کی سکت نہ رکھنے والوں کے بچوں کو معیاری پبلک سکولوں میں داخلہ حاصل کرنے کا حق نہیں‘ چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں! 2: کم و بیش پچاس ہزار روپے یکمشت ’داخلہ فیس‘ بشمول دیگر وصولیاں سات یوم کے اندر اندر کرنے کی مہلت ورنہ داخلہ منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے والدین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جہاں سے چاہیں پیسے لائیں کیونکہ ’’پیسہ ہی داخلہ ملنے کی شرط ہے!‘‘

کسی نیم سرکاری معززومعروف پبلک سکول کے اِس قسم کے رویئے سے گردوپیش کے ’نجی تعلیمی اِدارے‘ کیا سبق حاصل کریں گے؟ پبلک سکول میں چار سالہ بچے کے ’پریپ کلاس‘ میں داخلہ جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں جس کے لئے درجن بھر سفارش کے بعد والدین کے لئے اگلی مشکل عزیزواقارب کے سامنے ہاتھ پھیلانا رہ گیا ہے کہ وہ سات روز کے اندر کل 42 ہزار 873 جمع کرائیں‘ کیا یہ مطالبہ اُور مہلت ’مبنی بر انصاف‘ ہے؟ 

داخلہ فیس 5ہزار 500روپے۔ بلڈنگ فنڈ 5 ہزار 500 روپے۔ بلڈنگ کی دیکھ بھال کا فنڈ 5ہزار 500روپے۔ سکول کی سرگرمیوں کا احوال بصورت اشاعت (میگزین) 500 روپے۔ سکول کے حفاظتی انتظامات 8 ہزار روپے۔ ماہ جنوری اور ماہ فروری کی ایڈوانس ٹیوشن فیس 8 ہزار 454 روپے۔ ماہ مارچ اور ماہ اپریل کی ایڈوانس ٹیوشن فیس 9 ہزار 294 روپے جبکہ سال 2017ء کے کلینڈر کی قیمت 125 روپے مقرر کی گئی ہے! والدین کے پاس یہ ’آپشن‘ نہیں کہ وہ خود سے مقررہ فیسوں کے بارے سوال (نکتۂ اعتراض) اُٹھا سکیں! عام آدمی کے لئے اگر صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری نہیں تو پھر کس کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے؟ 

خیبرپختونخوا میں فعال ہر ایک تعلیمی اِدارہ صوبائی حکومت کی حدود و انتظام اور احکامات کا پابند ہونا چاہئے اور صوبائی حکومت ہی کا فرض ہے کہ سالانہ داخلوں کی مد میں سرکاری‘ نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لئے نہ صرف فیسوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرے بلکہ سالانہ داخلہ فیسوں اور اِدھر اُدھر کی مدوں میں ’’اندھا دھند وصولیوں‘‘ کا بھی نوٹس لے جو سراسر ناجائز اور ظالمانہ ہیں! ایک والد کی ذہن کو جنجھوڑتے اِس جملے کے درد کو محسوس کیجئے کہ ’’’’رحم کیجئے رحم جناب‘ متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے بھی پاکستانی ہیں۔‘‘ 

لب لباب یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار تعلیم اگر بہتر (تسلی بخش) ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ والدین نیم سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے! فیصلہ سازوں کی نااہلی اور ذاتی مفادات کی اسیری کی قیمت عام آدمی (ہم عوام) کو چکانا پڑ رہی ہے! مقام تفکر ہے کہ سرکاری سکولوں کا نظام (قبلہ) صرف ’بیانات و ارشادات‘ سے کیسے درست ہو گا جبکہ اُن کے بارے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سیاسی و غیرسیاسی شخصیات نہ تو خود سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل ہیں اُور نہ ہی اُن کی اولادیں یا عزیز و رشتہ دار ہی پسند کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لئے سرکاری سکولوں سے استفادہ فرمائیں!؟ 

ایبٹ آباد کے معروف و مقبول سکول (جس کی بنیاد عیسائی پادریوں نے قیام پاکستان کے بعد بطور فلاحی سکول رکھی تھی) کی پریپ (جونیئر) کلاس میں بچے کو داخلہ دلوانے کے خواہشمند ایک ’عام پاکستانی‘ نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خان خٹک‘ وزیرتعلیم عاطف خان‘ بوساطت ’آئی ایس پی آر‘ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی ہے کہ ’آرمی برن ہال سکول اینڈ کالج فار بوائز‘ کے تعلیمی سال 2017ء‘ کے لئے مقررہ داخلہ و دیگر فیسوں کا نوٹس لیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ابھی بچے کو سکول میں داخلہ ملا بھی نہیں اُور اُس سے جنوری و فروری کے مہینوں کی فیسیں طلب کی جائیں؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ابھی تدریسی عمل شروع بھی نہیں ہوا‘ اور ہر بچہ دو ماہ کی ٹیوشن فیس پیشگی ادا کرے؟ کیا سکول کی انتظامیہ اساتذہ کی ماہانہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات پیشگی ادا کرتی ہے؟ سیکورٹی کے نام پر کم وبیش تیس لاکھ روپے صرف پریپ کلاس کے بچوں سے وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ داخلہ فیس پانچ ہزار پانچ سو کیوں جبکہ داخلہ فارم کی مد میں پہلے ہی ہزاروں روپے بذریعہ بینک اور فارم کی صورت وصول کئے جا چکے ہیں؟ سکول انتظامیہ کے دعوے کو کسوٹی مان کر یقین کر لیا جائے کہ قابلیت اُور جسمانی تندرستی کے ساتھ ذہین ترین بچوں کا ’پریپ کلاس‘ کے لئے انتخاب کر لیا گیا ہے تو پھر ذہانت ہی اہلیت (ترجیح) رہنی چاہئے تھی کہ مستقبل کے لئے ایسے ذہن تیار کئے جا سکیں‘ تطہیر کے روحانی و داخلی پیمانے پر بھی پورے اُترتے ہوں‘ جن کے دل و دماغ آلودگیوں سے پاک ہوں اُور اُن کی شریانوں میں ’رزق حلال‘ سے بنے خون کے قطرے گردش کر رہے ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, February 3, 2017

Feb2017: Liberalism & Liberality!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِنصاف کہانی!
سردیوں میں دھوپ کی تلاش ’مہم جو‘ عباسی صاحب کو گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ دنیاوی رکھ رکھاؤ کے دلدادہ‘ انگریزی اخبار لئے گھر کے سامنے خالی پلاٹ کا ایک کونہ سنبھال کر گلی میں آنے جانے والوں کی خبرگیری کرنا گویا ایک تیر میں دوشکار جیسا ہے۔ بزرگوں کی موجودگی گھر میں ہو یا قرب و جوار میں اِس کی منجملہ برکات کسی نہ کسی صورت وجود رکھتی ہیں۔ عباسی صاحب کی داستان حیات مختصر ہے۔ موصوف نے سرکاری ملازمت سے برطرفی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور پھر کئی دہائیوں پر پھیلی اُن کی ’انصاف کہانی‘ سپرئم کورٹ کے رحم وکرم تک جا پہنچی ہے جہاں اِن دنوں ’’پانامہ ہنگامہ‘‘ کے باعث دیگر تمام امور کم ترین ترجیح پر ہیں! عباسی صاحب کے لئے ’آزاد خیالی (لبرل ازم)‘ محدود معنی رکھتی ہے۔ اُن کی سوچ‘ مطالعہ اور سماجی سرگرمیاں بھی اِسی محدود محور اور دائرے میں ’زیرگردش‘ دکھائی دیتے ہیں! لیکن جب ہم کسی نظریئے کے وجود کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں تو اُس کے بارے مکمل جان لینے کے بغیر حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔

ستر کی دہائی میں جب پاکستان میں ’لبرل ازم کی اصطلاح‘ خواص تک محدود تھی‘ تب کہیں کہیں آزاد خیالی جھلک دکھائی دے جاتی تھی۔ بوسیدہ روایات اور عقل سے عاری مرتب کردہ اصولوں کو ماننے سے انکار‘ کسی کردار کو ’’آزاد خیال‘‘ مشہور کر دیتا تھا۔ جیسا کہ غضب خدا کا‘ بزرگوں کے سامنے سر پر ٹوپی نہیں پہنتا یا بزرگوں کی موجودگی میں سگریٹ پینے والے کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ کچھ زیادہ ہی ’آزاد خیال‘ ہو گیا ہے! چند دہائی بعد صورتحال تبدیل ہوئی تو کہا جانے لگا کہ اِس لڑکی کو دیکھو‘ کیسے پتلون پہنے ہوئے ہے‘ کچھ زیادہ ہی ’لبرل‘ ہو گئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی لفظوں کو صرف برتتے ہیں اور آگے چل کر الفاظ کا یہ غلط استعمال ایک ایسے تصور کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے تعصب اور عدم برداشت عام ہونے لگتی ہے۔ سترہویں صدی کے فلسفی جان لاک‘ (لبرل ازم کا بانی) کے الفاظ میں ہر شخص آزاد ہے‘ مذہب وابستگی و عقائد‘ رائے کے اظہار‘ تجارت‘ شہری حقوق‘ جمہوری اقدار اور حکمرانی کرنے کے لئے۔ دنیا میں جتنے بھی نظریات (ازم) پائے جاتے ہیں اُن سب کی بنیاد اخلاقیات پر رکھی گئی ہے جیسے کہ سوشلزم‘ کمیونزم وغیرہ اور دنیا میں اسلام سمیت جتنے بھی مذاہب ہیں وہ ازم سے چند درجے نہیں بلکہ کئی حد تک بلند و بالا ہیں۔ کسی اِزم اور مذہب میں بنیادی فرق ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ اور ’’ضابطۂ حیات‘‘ کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے تخلیق کردہ ازم اگر حیات کے بارے قواعد کا تعین کرتے ہیں تو اُن سے ایسے ضوابط پر توجہ رہ جاتی ہے جس سے وہ معاشرے کے ہر فرد (اکائی) کے لئے مفید قرار پائیں۔ اُردو زبان میں لبرل کے عمومی معنی ’’آزاد خیال‘‘ کئے جاتے ہیں۔ آزاد خیالی بذات خود اپنی جہت میں فطرت سے متصادم ہے کیونکہ فطرت کبھی بھی کہیں بھی مکمل آزادی نہیں دیتی اُور پابندی ’’عین فطرت‘‘ لیکن ہمیشہ پابند رہنے کی صورت ہی مفید ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد برداشت کی کمی‘ جلدبازی یعنی حقائق کو جانے بغیر الزام لگانا اور مثال کو سمجھے بغیر مذاق اُڑانے کا جنون عام دکھائی دیتا ہے جس کی شدت لبرل اور غیرلبرل میں یکساں ہے۔ بہت ہی تھوڑے لوگ ایسے ہوں گے‘ جو برداشت اور آزادی رائے کی اصل روح کو سمجھتے ہوں۔ سوشل میڈیا کو ہم محبت و برداشت کے فروغ کے بجائے مذاق اُڑانے اور اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں!

نظریات ہوں یا تصورات اُن کی وضاحت ہر عمر اور سوچ رکھنے والوں کے لئے بیان ہونی چاہئے۔ ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اظہار کے نئے تصورات کو ماضی و حال کے لئے یکساں قابل فہم بنا کر پیش کریں۔ نوک زباں پر ہمیشہ سوال لئے عباسی صاحب کے لئے ’بلاگر‘ کی اصطلاح سمجھنا آسان نہیں۔ وہ انٹرنیٹ سے تو واقف ہیں لیکن اِس کے ذریعے ’اظہار رائے کو اتنی وسعت اور آزادی‘ بھی مل سکتی ہے‘ اِس بارے معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن سے یہ معمہ حل ہو پا رہا ہے کہ آخر ’بلاگرز (bloggers)‘ کون ہوتے ہیں‘ پاکستان میں بلاگرز کے لاپتہ ہونے کا معمہ کیا ہے۔ انگریزی اخبارات کے تبصرے اور ایڈیٹر کے نام خطوط میں بلاگرز کے اچانک غائب یا نمودار ہونے پر تبصروں کی بھی اُنہیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر اِس پورے معاملے پر ریاست کیوں ہے؟ 

اُنہیں تو اپنے ڈاکٹر صاحبزادے کی پوشیدہ جزوقتی ملازمت پر بھی حیرت ہے‘ جسے چھپاتے ہوئے محتاط انداز میں کہتے ہیں کہ ’’شاید اپنی شادی کے لئے پیسے جمع کر رہا ہے!‘‘ ریاست اور والدین ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔ دونوں کے لئے خود پر انحصار کرنے والوں کی ضروریات اور اپنے بارے رائے کو سمجھنا ہوتا ہے۔ اگر فاصلے بڑھ جائیں تو اظہار رائے کے لئے اصلی یا قلمی ناموں سے بلاننگ کئے بناء چارہ نہیں رہتا۔ ریاست اور والدین کو یکساں طور پر عملی قربانی کی مثال بننا ہوتا ہے اور دونوں ہی کے لئے ’کوے (crow)‘ کی زندگی میں ایسے کئی اسباق پوشیدہ ہیں‘ جن سے ریاست یا گھر کی اکائی میں اُن کا کردار زیادہ مثبت ہو سکتا ہے۔ ’کوا‘ ساری زندگی اپنے بچوں کے اعصاب پر سوار نہیں رہتا بلکہ اُنہیں ایک خاص مدت تک گھونسلے میں کھانے پینے اور اُڑنے کی تربیت کے بعد خود سے الگ کر لیتا ہے اُور پرندوں میں سب سے پہلے سخر خیز ’کوا‘ کسی بھی حال‘ اور کسی بھی صورت کسی کو بھی کمزور نہیں سمجھتا!

Thursday, February 2, 2017

Feb2017: SAARC Politics!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سارک کی قسمت!
جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) پہلے ہی داخلی انتشار کا شکار تھی اور اب بھارت اس حوالے سے کوششوں میں مصروف ہے کہ اِس تنظیم کے اگلے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پاکستانی سفارت کار کی تقرری کو ہر قیمت میں روکا جائے۔ دوسری طرف پاکستان کی جانب سے بھرپور کوششیں جاری ہیں کہ وہ بھارت کی مخالفت کے سامنے ہار نہ مانے! اگر یہ تنازع حل نہ کیا گیا تو سارک سیکرٹریٹ ممکنہ طور پر طویل عرصے تک سربراہ کے بغیر کام کرے گا۔ واضح رہے کہ سیکریٹری جنرل کی تعیناتی کے حوالے سے پاکستان کی باری کا آغاز یکم مارچ دوہزار سترہ سے جاری ہوگا‘ جس کی مدت اٹھائیس فروری بیس سو بیس تک رہے گی۔ اصولی طور پر یہ پاکستان کا حق ہے لیکن بھارت کے لئے فروغ امن اور دوستی پر مبنی علاقائی تعاون سے زیادہ اِس بات کی اہمیت ہے کہ وہ خطے پر اپنی حاکمیت قائم کرے! سارک کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سیکرٹری جنرل کی تعیناتی کے معاملے پر تعطل اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں اِس تنظیم کی فعالیت اور مقصد متاثر ہو۔ 

پاکستان کی جانب سے امجد حسین سیال کو سارک کے تیرہویں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے نامزد کیا گیا‘ جو کھٹمنڈو میں واقع سارک سیکرٹریٹ میں ارجن بہادر تھاپا کی جگہ لیں گے‘ جن کی مدت رواں ماہ اٹھائیس فروری کو ختم ہونے جارہی ہے۔ امجد سیال کی نامزدگی کا اعلان مارچ دوہزار سولہ میں نیپال کے شہر پوکھارا میں ہوئی سارک کونسل آف منسٹرز کے اجلاس میں کردیا گیا تھا‘ جس کی توثیق تمام ارکان نے کی تھی تاہم گذشتہ ماہ ایک سفارتی مراسلے کے ذریعے بھارت نے سارک سیکرٹریٹ سے مسٹر تھاپا کے جانشین کی تقرری کے حوالے سے ’’طریقہ کار‘‘ سے متعلق پوچھا۔ اس طرح نئی دہلی نے سارک سیکرٹریٹ کے قیام کے وقت مفاہمت کی یادداشت کے آرٹیکل نمبر پانچ کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں سیکرٹری جنرل کی تقرری کے طریقۂ کار کی تفصیلات دی گئی ہیں اور جس کے تحت رکن ممالک کے وزرائے خارجہ پر مشتمل سارک کونسل آف منسٹرز کی جانب سے اس تعیناتی کی توثیق کی جاتی ہے۔ بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ اس نامزدگی کی توثیق اسلام آباد میں کونسل آف منسٹرز کے اجلاس کے دوران کی جانی چاہئے تھی‘ جو گذشتہ برس اس وجہ سے ملتوی کردیا گیا تھا کیونکہ بھارت نے اپنے بہت سے اتحادیوں سمیت اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ دوسری جانب پاکستانی عہدیداران بھارت پر ’تاخیری حربوں‘ کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ بھارت سمیت تمام رکن ممالک کی جانب سے رضامندی حاصل کی گئی تھی‘ اس حوالے سے تیس مئی دوہزار سولہ کی تاریخ کے ساتھ بھارتی سفارتی نوٹ قابل ذکر ہے جس میں امجد سیال کی بحیثیت سارک سیکرٹری جنرل تعیناتی پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بھارت حسب روایت پاکستانی عہدیداران کے مطابق نئی دہلی اس تعیناتی کے معاملے پر غیر ضروری مسائل پیدا کر رہا ہے۔ 

تنظیمی قواعد کی رو سے تمام سارک تنظیم کے آٹھ رکن ممالک (افغانستان‘ بنگلہ دیشں‘ بھوٹان‘ بھارت‘ مالدیپ‘ نیپال‘ پاکستان‘ سری لنکا) کی رضامندی کے بعد امجد سیال کی تقرری کا نوٹیفکیشن سارک سیکریٹریٹ سے آٹھ ستمبر دوہزار سولہ کو جاری کیا گیا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جو کہ گذشتہ برس ستمبر میں اڑی حملے کے بعد سے پیدا ہوئی‘ اُس کی وجہ سے نبھارت نے گذشتہ سال نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا اُور اب پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل کی تقرری کی مخالفت کرتے ہوئے بھارت درحقیقت سارک تنظیم کے مقصد اور اِس کی روح کی خلاف ورزی کر رہا ہے! لیکن بھارت سے پاکستان دشمنی میں کچھ بھی بعید نہیں تو یہ معاملہ اور بھارت کے منفی کردار بارے عالمی سطح پر شعور اُجاگر ہونا چاہئے کہ کس طرح بھارت ’بغل میں چھڑی‘ دبائے منہ میں ’رام رام‘ کی تکرار کر رہا ہے۔ 

امریکہ کے صدر ٹرمپ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے جس طرح اچھے اور بُرے کی تمیز نہیں کر رہے تو اُن کی نظروں میں بھارت کو لانے کے پاکستان کو عالمی سفارتی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر بھرپور مہم چلانی چاہئے تاکہ سارک تنظیم اور جنوب ایشیاء کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ جہاں تک سارک تنظیم کے مستقبل کا تعلق ہے تو یہ انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ جون دوہزار سولہ میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے نے عالمی سطح پر علاقائی تعاون کی تنظیموں کی افادیت کم کر دی ہے اور اب ہر ملک اپنے اقتصادی مفادات پورے خطے کی ترقی سے زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ ممالک کی ترجیحات میں ’نیشنل ازم‘ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور نظریات کے بارے میں بھی غور وقت کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, February 1, 2017

Feb2017: Why feeling defeated?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سلیقے اُور ناکامیوں سے کام!

اَمریکہ کے نئے صدر کے اقدامات سے پوری دنیا میں ’ہنگامہ‘ برپا ہے جس میں سب سے زیادہ پریشانی اُن مسلمان ممالک بشمول پاکستان کو لاحق ہے‘ جن سے تعلق رکھنے والوں کے اَمریکہ میں داخلے یا اَمریکہ سے تعلق پر پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر مذہب کے نام پر جو اِمتیازات متعارف کروا رہے ہیں‘ اُس کی مخالفت میں خود اہل مغرب کے دانشور طبقات سمیت عوامی حلقے بھی یک زبان ہیں جن میں پوشیدہ ’’شر کے لطیف پہلو‘‘ غور طلب ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شیطان ’خیرمحض‘ ہے‘ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے ’شر‘ نہیں لیکن اپنے فعل کے اعتبار سے ’شریر‘ ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر گھر میں چاقو‘ چھڑی یا تیزدھار والا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے۔ لذیذ پکوانوں میں جہاں دیگر اجناس کا دخل ہے وہیں چھڑی کا کردار بھی سبھی کو معلوم ہے لیکن اگر یہی چھڑی غلط استعمال ہو جائے تو اِس سے ’شر‘ کا ظہور ہوگا۔ اِسی طرح شیطان کو جو ’اِختیار‘ اِرادہ‘ اُور بالخصوص ’’اِقتدار‘‘ دیا گیا وہ بھی ’شر‘ نہیں لیکن اِس ارادے‘ اختیار اور اقتدار کے ’’غلط استعمال‘‘ سے ’شر‘ پیدا ہوتا ہے۔ شیطان کو ملنے والی آزادی اور مہلت میں تربیت کے پوشیدہ پہلو پر الگ سے غور ہونا چاہئے تاہم اِس محل پر ’مکافات عمل‘ پر توجہ مرکوز رکھنی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رب تعالیٰ وہ ذات ہے جو بگڑے ہوئے کاموں سے اچھے نتائج نکالتی ہے بس اشرف المخلوقات کو یہ ہنر آنا چاہئے کہ جب کام بگڑ جائے تو اُسے سلیقے (حکمت) سے درست کر لیا جائے۔ یہی ’فراست ایمانی‘ اُور ’کمال انسانی‘ ہے جس کا شاعری کی دلآویز زبان میں بیان یہ ہے کہ 
’’مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا! (میر تقی میرؔ )۔‘‘ 

امریکہ کی جانب سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اُس پر حد سے زیادہ پریشانی کے اظہار و احتجاج یا مذمت کی بجائے مسلمانوں کو سلیقے کا مظاہرہ اور اپنی ناکامیوں پر غور کرکے اصلاح (بچت) کے پہلو تلاش کرنا ہوں گے۔

تعجب ہے یہ تعجب خیزی (سنسنی خیزی) بھی امریکی وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدے دار (چیف آف سٹاف رابنسن پریبس) کے بیان پر جنہوں نے کہا ہے کہ ’’مستقبل میں پاکستان کو بھی امیگریشن پر پابندی والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے‘‘ جس کی وجہ سے مغربی ممالک میں اپنی سرمایہ کاری‘ کاروباری مفادات اور مستقبل دیکھنے والوں کو پریشانی لاحق ہے! عجب کیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ تو بطور صدر امریکہ وہی فیصلے کر رہے ہیں جن کا انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے ذریعے اعلان کیا تھا وہ مسلم کمیونٹی اور اس ناطے سے پاکستان میں دہشت گردی کا ملبہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی ڈالتے رہے ہیں جبکہ انہوں نے اپنی مجوزہ امیگریشن پالیسی کے تحت اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی غیر قانونی تارکین وطن کو صدر کا منصب سنبھالتے ہی ملک سے باہر نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ اپنے ان اعلانات کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں تو وہ فرد واحد کی حیثیت سے نہیں بلکہ صدر کی حیثیت سے پورے امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کر رہے ہیں۔ اور یہ وہی پالیسی ہے جو امریکی نائن الیون کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے طے کی تھی۔ درحقیقت یہ باضابطہ امریکی پالیسی ہے جو خود کو دیگر ممالک اور اقوام سے برتر سمجھتے ہوئے امریکہ نے وضع کی اور گزشتہ پندرہ برس سے تسلسل کے ساتھ نافذ العمل ہے۔

بات صرف یہ ہے کہ اس امریکی پالیسی میں دیگر ممالک اپنے مفادات اور خودمختاری کی بنیاد پر کس نوعیت کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں؟گیارہ ستمبر دوہزار ایک (نائن الیون) کا واقعہ ری پبلیکنز کے دور حکومت میں ہی رونما ہوا تھا جب جارج بش جونیئر امریکہ کے صدر تھے۔ اس واقعہ کی بنیاد پر امریکہ نے نیٹو فورسیز کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ کیا تو مسلم ممالک افغانستان اور عراق ہی اس کی زد میں آئے جبکہ پاکستان کو بش انتظامیہ نے اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر اس جنگ میں ملوث کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان امریکہ کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ جوہری قوت کے ناطے مسلم دنیا کی مؤثر نمائندگی پاکستان کے پاس ہے اور امریکہ نے دہشت گردی کے حوالے سے پوری مسلم کمیونٹی کو مشکوک قرار دے رکھا ہے۔ اس تناظر میں مسلم ممالک اور معقول مسلم آبادی والے ممالک امریکہ کی نئی وضع کی گئی امیگریشن کی پابندیوں کی زد میں آئے چنانچہ ان ممالک سے امریکہ آنے والے باشندوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے پہلے ائرپورٹوں پر ہی توہین آمیز جامہ تلاشی کے مراحل سے گزارا جانے لگا جسے پاکستان کے عوام اور حکومت نے بھی خوشدلی سے قبول کیا اُور امریکہ جانے والے پاکستانی سرکاری وفود تک اس توہین آمیز جامہ تلاشی کے عمل سے گزرتے رہے۔ اگر اُس وقت خود داری اور اپنے وطن کی خودمختاری‘ عزت و آبرو کا کسی نے ایک ملک نے تحفظ کیا تو وہ بھارت تھا جس کے وزیر خارجہ جارج فرنینڈس ایک اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کرتے ہوئے امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے جب اُنہیں نیویارک ائرپورٹ پر روک کر جامہ تلاشی کے عمل سے گزرنے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے جامہ تلاشی سے انکار کیا اور ائرپورٹ سے ہی وفد کے ہمراہ بھارت واپس آ گئے۔ ان کی یوں واپسی پر بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ آئندہ بھارت آنے والے ہر امریکی باشندے کی بھی اسی طرح جامہ تلاشی ہو گی۔ اس دوٹوک فیصلے پر امریکی انتظامیہ کے ہوش کم از کم بھارت کی حد تک ٹھکانے پر آ گئے اور پھر امریکہ کی بھارت کے ساتھ ایسی راہ و رسم بڑھی کہ آج امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی اور بہترین دوست قرار دیتا ہے۔ 

حقیقت میں امریکہ کا اصل چہرہ ظاہر ہو رہا ہے۔ 
سرنامۂ کلام میں جس ’سرکشی‘ اور ’زد‘ کا تعارف کرایا گیا‘ قرآن کی اصطلاحی زبان میں اُسے ’طاغوت‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ طاغوتی طاقت ہے اور ٹرمپ کا اقتدار کم از کم اس حوالے سے تو غنیمت ہے کہ امریکہ کی ڈھکی چھپی ’طاغوتی سوچ (پالیسیاں)‘ ظاہر ہو رہی ہیں۔