Sunday, May 22, 2022

Peshawar Kahani: Shah Wali Qatal



ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: شاہ ولی قتال

جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر پشاور دستکاروں اُور ہنرمندوں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے اُور ایسا ہی ایک قابل ذکر کاروباری مرکز ”شاہ ولی قتال“ کے نام سے بھی مشہور ہے جس کا ذکر پشاور کی ابتدائی تذکروں میں ملتا ہے اُور یہ صدیوں سے آباد ہے۔ ’شاہ ولی قتال‘ قصہ خوانی بازار کی پشت (شمالاً) واقع ہے جس کے داخلی و خارجی راستے بازار مسگراں‘ ڈھکی اُور قصہ خوانی بازار سے متصل ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پشاور کے مصروف ترین کاروباری مرکز (قصہ خوانی بازار) کے عقب میں اِس راہداری میں گنتی کی چند دکانیں (قہوہ خانہ‘ تندور اُور عطرفروش) ہوا کرتے تھے لیکن گزشتہ تیس برس میں ’شاہ ولی قتال‘ کا نقشہ مکمل تبدیل ہو چکا ہے اُور اب یہ رہائشی نہیں بلکہ مصروف و معروف تجارتی مرکز ہے۔ یہاں کثیرالمنزلہ عمارتیں اور تھوک و پرچون دھاتی (اسٹین لیس اسٹیل) ظروف فروشی کے پُرہجوم مراکز ہیں جہاں سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کو سازوسامان فراہم کیا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اندرون شہر پشاور کے رہائشی و تجارتی علاقوں میں تمیز نہیں رہی جیسا کہ مسلم مینا بازار سے چوک ناصر خان تک کے بعد حالیہ چند برسوں میں رونما ہونے والی ’شاہ ولی قتال‘ دوسری ایسی بدنما مثال ہے جہاں پشاور کے روائتی فن تعمیر اُور بودوباش کی جگہ کاروباری سرگرمیوں نے لے لی ہے۔ چند مقامی افراد کی لالچ سے پورے کے پورے علاقے تجارتی مراکز میں تبدیل ہو گئے جس کے بعد مجبوراً بھی مقامی افراد کو علاقہ چھوڑنا پڑا۔ ”شاہ ولی قتال“ کی قسمت بھی زیادہ مختلف نہیں جہاں اِس وقت 100 سے زائد دکانیں اُور صرف پانچ چھ مکانات ہی باقی ہیں! 

شاہ ولی قتال بازار نے وقت کے ساتھ کئی روپ بدلے۔ ڈیڑھ سو سال قبل اِس بازار میں ظروف ساز منتقل ہوئے تاہم یہ فن بھی وقت کے ساتھ ختم ہوتا چلا گیا کیونکہ پشاور کے پیشہ ور اُور پشاور کے پیشے نئی نسل کو منتقل ہونے کا سلسلہ نہیں رہا جس کی بنیادی وجہ حکومت کی سرپرستی کا فقدان ہے۔ دوسری اہم بات وقت کے ساتھ اہل پشاور کے رہن سہن اُور عادات میں تبدیلی ہے اُور اب پشاور میں ہاتھ سے بنے‘ رنگ برنگے نقش و نگار سے مزین مٹی کے برتنوں کا استعمال نہ تو مہمان نوازی کا حصہ رہی ہے اُور نہ ہی روزمرہ رکھ رکھاؤ پر مبنی ترجیحات کا حصہ ہے۔ پشاور کے معروف محقق اُور تاریخ داں قاری جاوید اقبال مرحوم نے اپنی تصنیف ”ثقافت ِسرحد تاریخ کے آئینے میں“ شاہ ولی قتال کے بارے میں لکھا ہے کہ ”اِس بازار کے ایک حصے میں ”آغا سیّد میر جعفر (رحمۃ اللہ علیہ)“ کا مزار ہے جو 1847ء میں کرنل لارنس کے ہمراہ لکھنو سے پشاور بطور ترجمان آئے اُور رہائش کے لئے اِس مقام کا انتخاب کیا جہاں سے اُس وقت نہر کی ایک شاخ گزرتی تھی اُور اِسی کے کنارے آپؒ نے رشدوہدایت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اُور شاید آپؒ کی وصیت کے مطابق یہیں دفن بھی کر دیا گیا جبکہ قبل ازیں اِس مقام پر آل سادات سے تعلق رکھنے والے اکابرین کا چھوٹا سا قبرستان موجود تھا۔ اِس ’گنج ِشہیداں‘ کی وجہ سے اِس مقام کو ”قتال“ کہا جاتا تھا۔ غالباً سن ایک ہزار عیسوی میں بادشاہ یمین الدولہ ابوالقاسم محمود بن سبکتگین المعروف محمود غزنوی کا پشاور سے گزر ہوا تو اُن کے ہمراہ حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیل ہوئے اُور انہیں اِسی قتال گاہ جو اُس وقت سرسبز و شاداب باغ ہوا کرتی تھی میں دفن کردیا گیا۔ بت شکن کے لقب سے معروف حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کے نام نامی اسم گرامی سے یہ مقام ’شاہ ولی قتال‘ منسوب و مشہور ہوگیا۔

ظروف سازی کے علاؤہ ”شاہ ولی قتال“ کی ایک وجہ شہرت یہاں سے بھارتی فلمی اداکار ”شاہ رخ خان ولد میر تاج محمد خان“ کا آبائی تعلق اُور اِن کے قریبی رشتہ داروں کی قیام گاہیں ہیں‘ جو یہاں سے اگرچہ نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن اُن کی یادگاریں باقی اُور پشاور کی سیر کے لئے آنے والوں کے لئے خاص کشش کا باعث ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ بھارت کی فلمی صنعت پر راج کرنے والے دیگر فنکاروں میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار اُور راج کپور خاندان کی ’جنم بھومی‘ بھی پشاور ہی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ قصہ خوانی بازار کے اردگرد پھیلے اِن تاریخی و ثقافتی ورثوں کو دیکھے بغیر پشاور کی سیاحت مکمل نہیں ہو سکتی۔

قیام ِپاکستان کے بعد مرتب ہونے والی ”تاریخ ِپشاور“ میں ’شاہ ولی قتال‘ کا حوالہ ”ظروف سازی“ رہا ہے تاہم یہ کسب کب سے شروع ہوا‘ اِس بارے میں مختلف دعوے کئے جاتے ہیں۔ ’پشاور پوٹری (Peshawar Pottery)‘ کے نام سے یہاں ظروف سازی کا معروف مرکز سو سال سے زائد قائم رہا تاہم اِسے آباد رکھنے والے ’سیماب خاندان‘ کے آباؤاجداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے یہ ہنر ایران سے آئے ہوئے دستکاروں سے سیکھا تھا اُور اِس سلسلے میں شاہ ولی قتال کے خلیفہ محمود کا تذکرہ تاریخی کتب میں اِس حوالے سے محفوظ ہے کہ انہوں نے 1860ء میں ایران سے آئے ہوئے ہنرمندوں سے ظروف سازی سیکھی اُور پھر اِس ہنر کو اُس کمال تک پہنچایا کہ پشاور میں بنے ہوئے برتن اُور اِن پر نقش و نگار ایران میں بھی مقبول ہوئے‘ جہاں سے یہ فن پشاور منتقل ہوا تھا۔ مقام افسوس و تفکر ہے کہ پشاوری ظروف سازی جس پر ایرانی ثقافت کا غلبہ تھا لیکن پشاوری امتزاج سے ایک نیا فن معرض وجود میں آیا جو ایک عرصے تک پشاور کا تعارف اُور حوالہ رہا لیکن اِسے زندہ و جاری رکھنے کے لئے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ ”شاہ ولی قتال“ کے برتن اِس قدر مشہور ہوا کرتے تھے کہ پشاور آنے والے غیرملکی سرکاری وفود کو یہاں کی سیر کروائی جاتی اُور اُنہیں یہ برتن بطور تحفہ پیش کئے جاتے جبکہ سیاح اِنہیں بطور سوغات خریدنا نہیں بھولتے تھے۔ اُمید ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد جبکہ پشاور میں غیرملکی سیاحوں کی ٹولیاں پھر سے دکھائی دینے لگی ہیں تو سیاحوں کو خدمات و رہنمائی فراہم کرنے والے حکومتی و نجی ادارے ”شاہ ولی قتال“ کی بحالی پر خاطرخواہ توجہ دیں گے۔ ہنرمندوں کے شہر …… پشاور کو ”پیشہ ور“ بھی کہا جاتا ہے لیکن ”کسب کمال کن کہ عزیزے جہاں شوی“ کی یہ عملی مثالیں اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ پشاور کی ظروف سازی معیار کے لحاظ سے یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ کے ہم پلہ ہوا کرتی تھی۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ تاریخ پشاور کے اِس ”گمشدہ باب“ کو پھر سے تلاش اُور اُجاگر کیا جائے۔

……

Clipping from Daily Aaj - Peshawar - June 22, 2022


Thursday, May 12, 2022

Incompleteness.

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

اَدھورا پن

شہر شہر اُور گاؤں گاؤں تعمیر و ترقی کا عمل کئی وجوہات کی بنا پر ’ادھورے پن‘ کا شکار ہے‘ جس میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ قومی خزانے سے کی جانے والی تعمیروترقی میں مستقبل کے تقاضوں (آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات) کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اُور دوسرا پہلو جو اِس بھی زیادہ  تشویش کا باعث ہے کہ قومی خزانے سے خطیر رقومات خرچ کرنے کے باوجود بھی تعمیروترقی عوام کے مسائل حل کرنے کا باعث (وسیلہ) نہیں۔ ترقیاتی ادھورے پن سے متعلق اِس تصور کو 2 مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلی مثال پشاور شہر کے علاقے سیٹھی ٹاؤن (پہاڑی پورہ)‘ کی ہے جہاں کے رہائشی ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی موسم گرما کے آغاز ہی سے 3 طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسین چوک سے غالب سٹریٹ اُور اِس سے ملحقہ محلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی گزشتہ کئی ہفتوں سے معطل ہے۔ پانی کب آئے گا‘ کسی کو کچھ نہیں معلوم اُور نہ ہی اُمید ہے لیکن پانی آئے نہ آئے آبنوشی کا بل باقاعدگی سے ادا کرنا ضروری ہے‘ جو ایک الگ موضوع ہے! سیٹھی ٹاؤن کی مذکورہ آبادی کے لئے ٹیوب ویل کی تنصیب متنازعہ قطعہئ اراضی میں کی گئی جس کا انتخاب ہی غلط تھا اُور یہی بنیادی غلطی پوری حکمت عملی کی ناکامی کا سبب بن گئی ہے کہ ٹیوب ویل کی اراضی ایک بااثر شخص کی ملکیت ہے اُور ٹیوب ویل لگنے کے بعد‘ مبینہ طور پر اُس نے اپنے بیٹے کو اِس بات کے لئے اہل سمجھا کہ وہ ’ٹیوب ویل آپریٹر‘ کی سرکاری ملازمت کرے لیکن جب اُس کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو اُس ٹیوب ویل بند کر دیا اُور سیٹھی ٹاؤن کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہوئے ہر دن پانی راہ دیکھتے ہیں! سیٹھی ٹاؤن کا دوسرا مسئلہ ’نکاسیئ آب‘ کے نظام کی صفائی نہ ہونا اُور تیسرا مسئلہ کوڑا کرکٹ کی بروقت تلفی نہ ہونا ہے جس کے سبب مچھروں اُور مکھیوں کی اَفزائش (بہتات) ہے جبکہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا جاری عرصہ (سیزن) اہل علاقہ کے لئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ضروری اُور ٹیوب ویل کی واگزاری ہے‘ تاکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے! عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ اگر ’عوامی مفاد‘ کو دیکھا جائے تو ’ٹیوب ویل بند کرنا‘ قانوناً جرم ہے لیکن چونکہ یہاں معاملہ ایک بااثر شخص کا ہے‘ اِس لئے ادارے خاموش اُور عوام بلک رہے ہیں!

تعمیروترقی اُور عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں پائے جانے والے ”اَدھورے پن“ کی بدترین دوسری مثال سیٹھی ٹاؤن سے 150 کلومیٹر دور ’ہری پور‘ میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کے ”منگ“ نامی دیہی علاقے میں 200 طلبہ کے لئے ”سرکاری ہائی سکول“ 10 سال قبل تعمیر ہوا‘ جس کے بعد اراضی کے مالک بااثر زمیندار اور محکمہئ تعلیم کے درمیان مالی امور پر تنازعہ پیدا ہوا اُور مذکورہ عمارت تعمیر تو ہوئی لیکن دس سال سے فعال نہ ہو سکی! تصور کیا جا سکتا ہے کہ 10 سال کتنا طویل عرصہ ہوتا ہے جسے ضائع کرنے سے علاقے کے کس قدر تعلیمی حرج ہو چکا ہے اُور یہ حرج مسلسل جاری بھی ہے! محکمہ تعلیم نے عارضی طور پر کرائے کی عمارت میں تین کمروں پر مشتمل سکول قائم کر رکھا ہے جبکہ میلوں سفر کر کے دور دراز سکول جانے والے کتنے ہی بچے سفری مشکلات کے باعث تعلیم کو الوداع کہہ چکے ہیں!

سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہری پور کے ’خان پور روڈ‘ کے کنارے آباد ’منگ‘ گاؤں میں سکول 1913ء میں تعمیر ہوا تھا‘ جس کی خستہ حال (پرانی) عمارت کو کی جگہ زیادہ گنجائش والی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ نئی عمارت تعمیر کرے کے لئے سال 2004ء میں اُس وقت کے محکمہئ تعلیم کے ضلعی نگران (حیدر زمان مرحوم) اُور مالک اراضی (ملک اعظم خان) کے درمیان زبانی کلامی معاہدہ ہوا جس کے بعد 2012 میں 86لاکھ روپے کی لاگت سے نئی عمارت تعمیر کی گئی اُور معاہدے کے تحت پرانی عمارت والی اراضی زمیندار کو منتقل کرنا تھا۔ جب نئی عمارت میں کلاسیں شروع ہونے والی تھیں تو زمیندار نے معاہدے کے مطابق جائیداد کے حقوق کی منتقلی کے لئے محکمے پر دباؤ ڈالا اُور جب حکام نے اراضی کی ملکیت کے ریکارڈ کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ پرانی عمارت کا ٹکڑا ہری پور ضلع کونسل کی ملکیت ہے اُور سرکاری اراضی زمیندار کے نام منتقل کرنے سے معذرت کر لی گئی چونکہ زمیندار بااثر تھا اُس نے ہر طرح کا دباؤ استعمال کیا اُور عدالت سے بھی رجوع کیا جہاں دوہزارچودہ میں سول عدالت نے محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ زمیندار کو دس لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ادائیگی کرے یا پھر زمیندار سکول کی تعمیراتی لاگت ادا کرے۔ محکمے نے عدالت کو بتایا کہ سکول کی تعمیر پر مجموعی کو ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے لاگت آئی ہے۔ محکمہ تعلیم نے بھی عدالت سے رجوع کیا اُور ہائی کورٹ نے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے دس لاکھ روپے فی کنال کی بجائے ’مارکیٹ ریٹ‘ یعنی دو لاکھ اَسی ہزار روپے فی کنال ادائیگی کا حکم دیا لیکن اِس پوری تگ و دو میں سکول کی نئی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اُور مقامی افراد کے مطالبے پر خیبرپختونخوا محکمہئ تعلیم نے ایک نیا سکول تعمیر کرنے کے لئے چار کروڑ بیاسی لاکھ روپے منظور کئے ہیں۔ اِس پوری کہانی سے ’منصوبہ بندی کا فقدان‘ کھل کر سامنے آتا ہے اُور یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ انتظامی عہدوں پر فائز ہونے والوں کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو کس قدر مالی نقصان جبکہ عوام کو کس قدر سنگین نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ ترقیاتی عمل سے زیادہ اِس کا ’ادھوراپن‘ دور کرنے کی ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں ادارہ جاتی فیصلوں پر نظرثانی کے لئے ضلعی سطح پر ایسی مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اُور اِن ’ٹیکنوکریٹس‘ کے ذریعے کسی بھی حکومتی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے جن میں بشمول لاگت‘ پائیداری‘ معیار‘ سماجی و ماحولیاتی اثرات اُور اِس کی راہ میں حائل ممکنہ قانونی رکاوٹوں کے بارے پہلے ہی سے سوچ بچار کر لیا جائے تو اِس سے حکومتی وسائل میں بچت اُور عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کی فراہمی میں روانی ممکن و برقرار بنائی جا سکتی ہے۔ 

اگر نیت میں فتور نہیں‘ اگر خالصتاً قومی و عوامی مفادات ہی پیش نظر ہیں تو ترقیاتی عمل کو سیاسی و انتخابی مفادات و ترجیحات کی قید سے آزاد کرانا ہوگا‘ جس کا ایک امکان بلدیاتی اداروں کو زیادہ بااختیار بنانا بھی ہے اُور اِس سے بھی بامقصد و باسہولت تعمیروترقی جیسے اہداف باآسانی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ”اگر ہے جذبہئ تعمیر زندہ …… تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے!؟ (احمد ندیم قاسمی)“

……

Clipping from Daily Aaj May 12, 2022 Thursday 


Tuesday, May 10, 2022

Peshawar Kahani: knowing the known issues!

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: آپ اپنی تلاش ہے مجھ کو

میئر پشاور ’حاجی زبیر علی‘ نے پشاور کے ٹریفک مسائل حل کرنے کے لئے ”ٹھوس اقدامات“ کا عندیہ دیتے ہوئے متعلقہ حکومتی اداروں سے تجاویز (مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات) طلب کی ہیں اُور ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ”پشاور کی تعمیروترقی اُور خوبصورتی درحقیقت خیبرپختونخوا کی تعمیروترقی اُور خوبصورتی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔“

 قبل ازیں (اپریل دوہزاربائیس کے آخری ہفتے میں) اُنہوں نے خواجہ سراؤں کی تعلیم و تربیت کے لئے الگ ادارے کے قیام اُور نشے کے عادی افراد کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے لئے ’سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ‘ سے تجاویز بھی طلب کر رکھی ہیں تاہم جس تیزی سے مسائل کی نشاندہی اُور اعلانات ہوئے ہیں‘ اُس تیزی سے عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے اُور یہی پشاور کے ”مسائل کی بنیادی جڑ“ ہے کہ یہاں تعمیروترقی کا عمل ایک تو فیصلہ سازوں کی ذاتی ترجیحات اُور دلچسپی کے گرد گھومتا رہتا ہے اُور دوسرا بیک وقت ایک سے زیادہ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ ساز کسی ایک ہی مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ماضی میں کی گئی ایسی ہی کوششوں پر نظر نہیں کرتے اُور نہ ہی اداروں کی کارکردگی کا احتساب کرتے ہیں‘ جس کے بغیر تعمیروترقی اُور خوبصورتی نہ تو پائیدار ہو سکتی ہے اُور نہ جامع اُور مستقبل کی ضرورتوں سے ہم آہنگ۔ بہرحال و بہرصورت پشاور کا کوئی بھی مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک اُس کے ماضی و مستقبل پر نظر نہ کی جائے۔ ماضی پر نظر کرنے کا مطلب اُس کے سبب کا سدباب جبکہ مستقبل پر نظر رکھنے سے یہاں مراد بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات ہیں۔

حاجی زبیر علی نے پندرہ مارچ دوہزاربائیس کے روز ’میئر پشاور‘ کے عہدے کا حلف اُٹھایا اُور یہ تقریب کمشنر پشاور کے دفتر میں منعقد ہوئی جبکہ موزوں مقام ضلعی اسمبلی کی عمارت تھی اُور اگر حلف برداری (پہلے دن کا آغاز) ہی افسرشاہی کے جھانسے میں آئے بغیر کیا جاتا تو ایک واضح پیغام دیا جا سکتا تھا کہ آج کے بعد پشاور کے مسائل پر سرکاری اداروں کے اعدادوشمار کی گرد پڑنے نہیں دی جائے گی اُور آرام دہ ائرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر پشاور سے متعلق فیصلہ سازی خاطرخواہ کامیاب بھی نہیں ہوگی۔ ذہن نشین رہے کہ میئر پشاور کا عہدہ 7 تحصیلوں پر مشتمل ہے جس کے لئے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پشاور سمیت سترہ اضلاع میں 19 دسمبر 2021ء کے روز ہوئے تھے۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت میئر پشاور جو کہ تحصیل پشاور کا سربراہ (چیئرمین) ہونے کے ساتھ تحصیل پشتخرہ (چیئرمین ہارون صفت)‘ تحصیل متھرا (چیئرمین فرید اللہ خان)‘ تحصیل شاہ عالم (چیئرمین کلیم اللہ)‘ تحصیل چمکنی (ارباب عمر)‘ تحصیل بڈھ بیر (چیئرمین مفتی طلا) اُور تحصیل حسن خیل (چیئرمین عبدالحفیظ آفریدی) میں ترقیاتی کاموں اُور بلدیاتی نظام کی فعالیت پر نظر رکھتا ہے۔ اِس لحاظ سے ”میئر پشاور“ کے عہدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بلدیاتی نظام میں پشاور کو 7 تحصیلوں‘ 9 ویلیج کونسلوں اُور 121 نیبرہڈ کونسلوں (دیہی علاقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن پشاور کے شہری و دیہی علاقوں کی یہ تقسیم انتہائی واضح ہونے کے باوجود بھی ترقیاتی عمل کے لئے درکار مالی وسائل خاطرخواہ فراہم نہیں کئے جاتے اُور آج بھی پشاور کے لئے ترقیاتی مالی وسائل کا بڑا حصہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹرز کی صوابدید پر خرچ ہوتا ہے جبکہ اشد ضرورت ”بلدیاتی نظام کو مضبوط و فعال کرنے کی ہے۔“ اُور بلدیاتی انتخابات کے بعد کس سیاسی جماعت کی جیت ہوئی ہے یہ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچتے ہوئے پشاور کی قسمت کے فیصلے اِس کے موجودہ بلدیاتی نمائندوں کو سونپ دینے چاہیئں۔ حاجی زبیر علی کا تعلق ’جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 24 تحصیلوں کی میئر‘ چیئرمین شپ حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے حصے میں 17 تحصیلوں کی میئر اُور چیئرمین شپ آئیں تھیں جبکہ 10 نشستوں پر آزاد‘ 7 پر عوامی  نیشنل پارٹی‘ 3 پرمسلم لیگ نواز‘ دو دو نشستوں پر جماعت اسلامی و تحریک اصلاحات پاکستان جبکہ ایک نشست پر پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز کے نامزد بلدیاتی اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے اُور اِن انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع دن (اُنیس دسمبر دوہزاراکیس) سے کہا جا رہا ہے کہ سیاسی جماعتی تفریق کی وجہ صوبائی حکومت اُور پشاور سمیت دیگر تحصیلوں کے نگرانوں کے درمیان وہی فاصلہ برقرار رہے گا‘ جس کا مشاہدہ و نظارہ ماضی میں کیا جا چکا ہے اُور اِس سے اگر کسی کا نقصان ہوا تو وہ صرف پشاور تھا۔

پشاور کی ضرورت ایسے ’وسیع البنیاد ترقیاتی عمل‘ کی ہے‘ جسے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی مفادات کی عینک لگا کر نہ دیکھیں یعنی پشاور کی خدمت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کی جائے تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا پائیدار حل تلاش نہ کیا جا سکے۔ حاجی زبیر علی نے بطور ’میئر پشاور‘ حلف اُٹھانے کی تقریب کے فوراً بعد‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں پشاور کے جن مسائل کا ذکر کیا اُس جامع فہرست کے بعد کسی سوچ بچار کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن صرف اُور صرف عمل درآمد (ایکشن پلان) کی ضرورت ہے۔ حاجی زبیر علی نے کہا تھا کہ ”پشاور کو انواع و اقسام کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ٹریفک کا بے ہنگم نظام‘ بغیرمنصوبہ بندی و منظوری ترقی‘ بجلی (برقی رو) کا طویل تعطل‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ پینے کے پانی کی تقسیم کا نظام‘ بڑھتی ہوئی آبادی اُور کم وسائل شامل ہیں۔“

”پشاور کے مسائل“ اُور ”پشاور کے وسائل“ مربوط نہیں اُور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کے وسائل کو اِس سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جاتی کہ ہر تحصیل کی آمدنی صرف اُور صرف اُس تحصیل پر خرچ ہو۔ پشاور کے مرکزی شہر کے وسائل پر دیہی علاقوں کا بوجھ ناقابل برداشت اُور غیرمنطقی ہونے کے ساتھ پشاور کے ساتھ ظلم بھی ہے۔ انتہائی بنیادی ضرورت یہ ہے کیونکہ ”پشاور سٹی تحصیل“ کی آمدنی جو کہ دیگر تحصیلوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہے لیکن اُسے دیگر چھ تحصیلوں پر تقسیم کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی ایک بھی تحصیل میں شہری بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ ’مثالی شکل و صورت اختیار نہیں کر پاتا۔ وقت ہے کہ تحصیلیں اپنی آمدنی و اخراجات میں توازن کے ساتھ ”پشاور شہر“ پر اپنا بوجھ (مالی انحصار) کم کرنے کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ گنجان آباد شہر کے مسائل بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں اُور اُن کا حل ایک ایسے مربوط ترقیاتی عمل سے مشروط ہو چکا ہے‘ جس میں پشاور مرکزی نکتہ ہو اُور یہ شہر (دانستہ یا غیردانستہ طور پر) مزید نظر انداز نہ رہے۔ ”آپ اپنی تلاش ہے مجھ کو …… ہوں عجب مشکلات میں تنہا (جمیل یوسف)۔“

Clipping from Daily Aaj May 10, 2022


CENSORED: Silence Revolution in Pakistan

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

(دس مئی دوہزاربائیس کے لئے لکھا گیا یہ ادارتی مضمون "ناقابل اشاعت" قرار دیا گیا)

خاموش انقلاب (ناقابل اشاعت)

تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان نے ایبٹ آباد میں جلسہ عام (آٹھ مئی دوہزاربائیس) سے 35 منٹ (سہ پہر چار بجکر چونتیس منٹ سے پانچ بجکر نو منٹ تک) خطاب کے دوران ایک نہایت ہی بنیادی سوال اُٹھایا اُور اگر اِس ایک سوال کے تناظر میں صورتحال کو دیکھا‘ سوچا اُور سمجھا جائے تو اِس میں ’تحریک انصاف‘ کا عروج و زوال سمٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ کامیابی کی سیڑھی تھی جسے اختیار کر کے تحریک انصاف اقتدار میں آئی اُور اِسی ہتھیار سے ہنستی بستی تحریک ِانصاف حکومت کو شکار بھی کیا گیا۔

دنیا سوشل میڈیا اُور مین سٹریم میڈیا (جملہ ذرائع ابلاغ) کے حصار میں ہے اُور آج کی حقیقت یہ ہے کہ ’میڈیا مینجمنٹ‘ کے ذریعے کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی شخصیت اُور جماعت کی کارکردگی کو اُجاگر یا اُس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ تحریک ِانصاف کے خلاف ذرائع ابلاغ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ”مہنگائی کو اُچھالا گیا“ اُور اِس مہنگائی کے لئے تحریک انصاف کو کچھ اِس منظم انداز سے ”تن تنہا ذمہ دار“ ٹھہرایا گیا کہ جیسے 1: مہنگائی عالمی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے اُور اِس کا ماسوائے تحریک انصاف کوئی دوسرا محرک نہیں اُور 2: پہلی مرتبہ وفاقی حکومت میں آنے اُور انتظامی امور کی ناتجربہ کاری کے باعث ’تحریک انصاف‘ مہنگائی کے لئے تن تنہا ذمہ دار ہے اُور اِس بیانیئے نے اِس قدر مقبولیت حاصل کی کہ خود ’تحریک انصاف‘ کے کارکن بھی یقین کرنے لگے کہ اگر ’مہنگائی‘ بے قابو نہ ہونے دی جاتی تو تحریک سے زیادہ حکمرانی کا حقدار اُور متبادل کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں۔ یہی وہ مغالطہ (غلط فہمی) ہے جس میں مہنگائی کو پاکستان کے اندر اُٹھتے اُور پاکستان کے عوام کو اِس سے متاثر ہوتے دیکھا اُور دکھایا گیا جبکہ کورونا وبا سے معاشی‘ کاروباری و تجارتی سرگرمیوں میں کمی‘ تجارتی خسارہ‘ حکومت کی آمدنی کم اُور زیادہ اخراجات کے باعث (بجٹ خسارہ) جبکہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے اُور عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافہ ہوا اُور قابل ذکر تھا کہ تحریک انصاف اُن سماجی رفاہی اقدامات کا ذکر کرتی‘ جس کی وجہ سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی کئی صورتوں سے مدد کی گئی اُور اِس میں نہ صرف علاج معالجے کی مفت سہولیات شامل تھیں بلکہ رعایتی نرخوں پر خوردنی اشیا کی فراہمی اُور مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لئے غریب طبقات کو دی جانے والی نقد امداد بھی شامل تھی اُور یہ سارا کام تین سال جیسے مختصر عرصے میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے ممکن ہوا جو ’کورونا وبا‘ سے نمٹنے کی ”قابل ذکر“ قومی حکمت ِعملی کے علاؤہ ہے جس میں گھر گھر جا کر مفت ویکسینشن تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عمومی وسائل سے خصوصی استفادہ کرتے ہوئے ’کوووڈ ویکسی نیشن‘ کے لئے ’آن لائن ممکنات‘ کا بھرپور اِستعمال کیا گیا‘ جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تحریک ِانصاف سے قبل حکومت کی جانب سے مستحق طبقات کے لئے ہر سال اربوں روپے غیرمستحق افراد میں تقسیم کئے جا رہے تھے کیونکہ کسی پاکستانی کی مالی حیثیت سے متعلق کوائف (ڈیٹا) کا خاطرخواہ استعمال نہیں کیا جا رہا تھا بالخصوص نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اُور پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس الگ الگ صورتوں میں محفوظ تھا۔

 تحریک انصاف نے نہ صرف ہر پاکستانی کے بارے میں اِن کوائف کو ایک جگہ جمع (مربوط) کیا بلکہ ’گھر گھر سروے‘ کے ذریعے مستحق طبقات کی درست نشاندہی کرتے ہوئے اُن کی درجہ بندی اُور اِس درجہ بندی کو مستقل (حتمی) نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً تبدیلیوں پر خودکار ٹیکنالوجی (مصنوعی ذہانت) کے ذریعے مستقل نظر رکھی گئی اُور یوں نہ صرف حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہوئی بلکہ مستحق افراد کی درست نشاندہی بھی ممکن ہوئی اُور بالخصوص وہ افراد و طبقات بھی گنتی میں شمار ہوئے جن کا سیاسی اثرورسوخ نہیں تھا اُور جو کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی اُور سینیٹر کے حلقہ انتخاب و تعلق سے جڑے ہوئے نہیں تھے لیکن صحت بیمہ سے اُن خاندانوں کو بھی مفت طبی سہولیات فراہم کی گئیں‘ جو اِس کے مستحق نہیں تھے اُور یوں ایک طرف جو سینکڑوں ارب روپے غیرمستحق افراد بشمول سرکاری ملازمین کے کھاتوں میں منتقل ہونے سے بچائے گئے تو دوسری طرف ’صحت بیمہ‘ کی صورت آمدنی کے لحاظ سے مستحکم مالی حیثیت رکھنے والے خاندانوں میں تقسیم کر دیئے گئے جن کی نشاندہی ذرائع ابلاغ کرتے کرتے تھک گئے لیکن تحریک انصاف کے مرکزی اُور صوبائی فیصلہ سازوں نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ مجموعی طور پر تحریک انصاف کی کوشش تھی کہ ہر کس و ناکس (مستحق اُور غیرمستحق) فرد کو ’مہنگائی کی تپش‘ سے بچائے رکھا جائے لیکن اِس نیک نیتی پر مبنی کوشش کا آج بھی دور دور تک تذکرہ اُور حوالہ نہیں اُور کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ’پے در پے‘ جلسوں میں حکومت پر تنقید تو کر رہے ہیں لیکن اپنی حکومتی کارکردگی کا ذکر نہیں کر رہے!

تحریک انصاف کی کارکردگی کا ایک رخ کثیرالمعیادی حکمت عملیوں پر مبنی ہے اُور اِن میں صرف ایک پہلو کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے کس طرح ایک ایسے نئے پاکستان کی تشکیل کے لئے بنیاد رکھی گئی جو ’خودکفالت اُور خودانحصاری‘ کی جانب پیشقدمی ہے۔

سال 2013ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع ملا اُور سال 2014ء میں ”10 ارب درخت (ٹین بلین ٹری سونامی)“ نامی شجرکاری مہم (حکمت عملی) کا اعلان کیا جو پاکستان میں ”خاموش انقلاب“ قرار دیا جا سکتا ہے اُور اِس سے سینکڑوں ہزاروں ایکڑ پر زیتون کی کاشت عمل میں آئی جو پہلے تجرباتی بنیادوں پر چاردیواریوں کے اندر ہوتی تھی اُور ایک موقع پر جب خیبرپختونخوا ’زیتون کی کاشتکاری‘ کے ثمرات سے مستفید ہونے ہی والا تھا کہ 8 اپریل 2010ء کے روز اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس سے زرعی شعبہ مرکز سے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا اُور زیتون کی کاشت کے تجربات جہاں تھے وہیں رک گئے۔ حکومت کو دی گئی اراضی اُور حکومتی اراضی بمعہ زیتون کے درخت بااثر افراد نے لوٹ لی اُور زیتون کی کاشت و تیل کشید کرنے والے سبھی تجربہ کار سرکاری ملازمین کو غیرمتعلقہ محکموں میں کھپا کر ضائع کر دیا گیا۔

تحریک انصاف نے زیتون کی کاشت کاری پر توجہ دی اُور دنیا میں زیتون کی پیداوار کرنیو الے ممالک کی تنظیم (انٹرنیشنل اولیو کونسل) کا 19واں رکن بن چکا ہے اُور پاکستان زیتون تیل کی سالانہ 1500 ٹن (ڈیڑھ لاکھ کلوگرام) پیداوار کر رہا ہے علاؤہ ازیں تحریک انصاف کی شجرکاری پر توجہ سے کاشتکار موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنے۔ زمین کی زرخیزی اُور زمین کا کٹاؤ روکا گیا۔ کیا یہ کارکردگی نہیں کہ پاکستان سالانہ 2.1 ارب ڈالر مالیت کا ’خوردنی تیل (کوکنگ آئل)‘ درآمد کرتا ہے اُور یہ کوکنگ آئل درآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے پاکستان سے زیادہ بھارت (5.1 ارب ڈالر) اُور چین (4.1 ارب ڈالر) مالیت کا تیل درآمد کرتا ہے اور جب پاکستان میں تیلدار اجناس کی پیداوار بڑھے گی تو اِس سے خوردنی تیل کی درآمد میں ہر سال کمی آتی رہے اُور زیتون کا تیل جو نسبتاً مہنگا اُور اِس کا استعمال صحت کے لئے مفید ہوتا ہے اگر مقامی پیداوار کے طور پر سستے داموں پاکستان کو میسر آئے گا تو اِس سے قومی صحت کا معیار بھی بلند ہوگا۔ کیا مستقبل کی فکرمندی اُور زرعی خودکفالت و غذائی خودانحصاری سے زیادہ بہتر کوئی دوسری کارکردگی ہو سکتی ہے؟

……

Monday, May 9, 2022

Peshawar: Public Transport issues.

ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: پبلک ٹرانسپورٹ مشکلات
سال دوہزارسولہ میں عوامی رائے پر مبنی ایک جائزے سے معلوم ہوا تھا کہ پشاور میں 90 فیصد سے زائد ایسی خواتین جو کہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے استفادہ کرتی ہیں‘ آمدورفت کے ذرائع سے مطمئن نہیں ہیں اُور اِنہیں کئی ایک طرح کے مسائل (ذہنی و جسمانی کوفت) کا سامنا ہے جن میں پرہجوم پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکم پیل‘ بسوں کے عملے اُور مسافروں سے ہراسگی‘ بلاوجہ بے عزتی اُور وقت کے ضیاع جیسی مشکلات شامل تھیں۔

خواتین کی اِس تعداد میں شامل طالبات کی مشکلات الگ تھیں جنہیں کسی مقررہ وقت پر اپنے تعلیمی اِداروں کو پہنچنا ہوتا تھا لیکن پشاور کی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ہمیشہ ہی سے تاخیر کا باعث رہتا اُور یہ بات بھی یقینی نہیں ہوتی تھی کہ تعلیمی یا دفتری اُوقات کے آغاز (صبح) اُور تعلیمی یا دفتری اُوقات کے اِختتام (سہ پہر سے شام تک) جیسے مواقعوں پر کوئی بھی مسافر وقت مقررہ پر اپنی منزل یا واپس گھر پہنچ سکتا تھا لیکن ’بس رپییڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)‘ متعارف ہونے کے ساتھ جہاں ’ائرکنڈیشن‘ بسوں میں سفر جیسا خواب (تصور) حقیقت کی صورت اختیار کر گیا وہیں وقت کی پابندی اُور بروقت و باسہولت آمدورفت بھی ممکن ہو چکی ہے۔

 پشاور کی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) المعروف ’میٹرو بس‘ کی فعالیت (تیرہ اگست دوہزاربیس) کا سب سے زیادہ فائدہ ملازمت پیشہ خواتین اُور طالبات اُٹھا رہی ہیں۔ قبل ازیں پشاور شہر (چغل پورہ‘ گل بہار‘ نشترآباد‘ ہشت نگری‘ چارسدہ سے یونیورسٹی ٹاؤن اُور حیات آباد) سے شہر کے دوسرے حصے میں واقع دفاتر اُور تعلیمی اداروں تک پہنچنا کسی ڈروانے خواب جیسا تھا۔ مسافر بسوں میں طالبات کو ذومعنی ہتک آمیز جملے اُور سٹیاں سننے کو ملتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے اُور جس طرح ہر مشکل کے بعد راحت آتی ہے بالکل اِسی صورت پشاور کی میٹرو بس بھی کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اِس نعمت کی خاطرخواہ قدر اُور اہمیت کا احساس نہیں کیا جا رہا۔ دوسری طرف ’میٹرو بسوں‘ میں خواتین کے لئے مختص ایک چوتھائی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اُور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہر دو یا چار بسوں کے بعد ایک بس صرف خواتین کے لئے مخصوص ہونی چاہئے کیونکہ خواتین مسافروں کی تعداد مردوں کے مساوی یا اِن سے زیادہ ہے جنہیں مصروف اوقات میں پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ڈیزل اُور بجلی کی مِلی جُلی طاقت والی اِن درآمد شدہ ’ہبرڈ بسوں‘ کی تعداد میں مطلوب اضافہ مقامی بسوں سے کر دیا جائے بالخصوص خواتین کے لئے جن الگ بسوں کی ضرورت ہے وہ چند برس قبل جاپان حکومت کے مالی تعاون سے شروع کئے گئے ’پنک بسوں (Pink Buses)‘ کی طرز پر ہونا چاہئے‘ جس میں درآمدی اُور مقامی بسوں کا استعمال کیا گیا اُور ایسی بسوں کے فاضل پرزہ جات و مرمت بھی آسان رہتی ہے۔

 ایک تجویز ’بی آر ٹی‘ کے انتظامی امور اُور انفرادی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے مختلف روٹس (راہداریوں) پر نجی شعبے کی شراکت سے پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کروائی جائے اُور اِس سلسلے میں پشاور‘ اندرون ملک اُور بیرون ملک رہنے والے پشاوریوں کو سود سے پاک‘ نفع نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاری (ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے میں شراکت داری) کی دعوت دی جائے یقینا پشاور سے آبائی تعلق رکھنے والے ہر شخص کی خواہش و کوشش ہوگی کہ وہ اپنے شہر کی کسی طور خدمت کر سکے اُور خدمت کا یہ جذبہ ایسی صورت میں زیادہ پرکشش ہو سکتا ہے جبکہ اِس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مالی فائدہ بھی جڑا ہو۔ اگرچہ اِس قسم کی سرمایہ کاری کا تصور انوکھا ہے لیکن اگر ’ٹرانس پشاور‘ کو وسعت دینی ہے اُور بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی ضروریات پورا کرنی ہیں تو اِس کے سوا چارہ نہیں کہ پشاور کے ’بی آر ٹی‘ میں نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ پشاور بس ٹرمینل (المعروف جی ٹی ایس لاہور اڈہ)‘ پشاور جنرل بس اسٹینڈ (المعروف حاجی کیمپ اڈہ) اُور ٹرک اڈے کو چغل پورہ سے آگے سبزی و فروٹ منڈی کے آس پاس منتقل کیا جائے اُور ریپیڈ بس ٹرانزٹ کے ذریعے مال برداری بھی متعارف کروائی جائے یعنی سبزی و فروٹ منڈی سے شہر کے دوسرے حصے حیات آباد‘ ورسک روڈ اُور چارسدہ روڈ کے انتہائی حصوں تک مال برداری کے لئے خشک گودیاں بنائی جائیں تو اِس سے بھی ریپیڈ بس ٹرانزٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے جبکہ اِس طرح کے استعمال سے مسافروں کو دی جانے والی سہولیات (عمومی آپریشن) بھی متاثر نہیں ہوگا۔ پشاور کی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے ملازمین کی تعداد 2 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں 15فیصد خواتین ہیں جبکہ اِس تناسب میں اضافے کے ساتھ مزید توسیع کی ضرورت ہے۔

 ذہن نشین رہے کہ بیس ماہ پہلے ’بی آر ٹی‘ سے استفادہ کرنے والے کل مسافروں میں خواتین کا تناسب قریب 2 فیصد تھا جو قریب دو سال میں بڑھ کر 30فیصد ہو چکا ہے اُور اگر بسوں کی تعداد بڑھائی جائے اُور خاص اوقات میں خواتین کے لئے الگ سے خصوصی بسیں چلائی جائیں تو یہ تعداد پچاس فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔ پشاور میں خواتین موٹرسائیکل یا سائیکلیں نہیں چلاتیں اُور یہی وجہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ چاہے جس قدر بھی دشوار گزار‘ ہتک آمیز یا آسان ہو پشاور کی خواتین نے اِسی میں سفر کرنا ہوتا ہے۔ اگر اِس روایت کی حوصلہ شکنی اُور خواتین کو موٹربائیک استعمال کرنے کی طرف راغب کیا جائے تب بھی پبلک ٹرانسپورٹ سے جڑی خواتین کی شکایات و تحفظات بڑی حد تک حل ہو سکتے ہیں اُور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ آمدورفت میں خودانحصاری سے خواتین کے لئے روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

پاکستان میں خواتین ملازمت پیشہ خواتین کا تناسب خطے کے ممالک اُور عالمی سطح پر کم ترین ہے اُور اِس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اگرچہ خواتین کی آبادی مجموعی آبادی کے تناسب سے بڑھ رہی ہے لیکن ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد کم ہو رہی ہے جیسا کہ ورلڈ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سال 2015ء میں پاکستان کی کل خواتین کا 24 فیصد ملازمت پیشہ تھا جو 2019ء میں کم ہو کر 23فیصد رہ گیا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے شہری علاقے کا کل رقبہ قریب 215 مربع کلومیٹر ہے جبکہ ’میٹرو بس‘ کی لمبائی قریب 30 کلومیٹر ہے اُور یہ پشاور شہر یا اِس کے تمام حصوں پر مشتمل نہیں ہے۔
Clipping from Editorial Page May 09, 2022 Monday


Sunday, May 8, 2022

Pashto Cinema on Eid ul Fitar.

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

تفریحی صنعت:بڑی آزمائش

خیبرپختونخوا کا ایک ثقافتی تعارف ’پشتو فلمی صنعت‘ بھی ہے جو ایک عرصے سے اپنی شناخت اُور وجود برقرار رکھنے کے لئے ’تگ و دو (جدوجہد)‘ کر رہی ہے تاہم اِس ’تفریحی صنعت‘ کے زوال میں پانچ عوامل کا عمل دخل ہے۔ فلموں کی غیرقانونی ویڈیو نقول‘ عریانی و فحاشی‘ ’کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس‘ اسٹیج ڈراموں اُور موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا وسائل متعارف ہونے کی صورت لگا‘ جہاں کسی بھی زبان کی پوری فلم یا اُس کے مختلف حصوں کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے گھر گھر ’سینما ہالز‘ تو متعارف کروا دیئے لیکن اِس سستے ترین تفریحی ذریعے کی وجہ سے ایک بہت بڑی صنعت منافع بخش نہیں رہی اُور اِس بات کا احساس متعلقہ نگران حکومتی اداروں کے فیصلہ سازوں کو رتی بھر بھی نہیں جنہوں نے کیبل نیٹ ورکس پر نجی ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات جاری  کرنے کی ’غیرتحریری اجازت‘ دے رکھی ہے جبکہ کیبل نیٹ ورکس کا واحد کام وسیلے کے طور پر ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘ کے منظورشدہ ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات صارفین تک پہنچانا تھا اُور صارفین کی تعداد کے لحاظ سے ٹیکس ادا کرتے ہوئے ایک ایسے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا تھی جس میں آپٹیکل فائبر اُور ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH) جیسی وسعت کے لاتعداد اِمکانات موجود ہیں لیکن اِن میں وقت کے ساتھ (حسب ضرورت) ایک تو سرمایہ کاری نہیں ہوئی اُور دوسرا یہ نتیجہ اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ کیبل نیٹ ورکس خودمختار نہیں رہے بلکہ ایک گروہ کی صورت بطور ’آلہئ کار‘ استعمال ہونے لگے‘ کیبل نیٹ ورک صارفین کا استحصال جاری ہے اُور یوں نہ ٹیکس ملا‘ نہ اِس منافع بخش صنعت سے فائدہ اُٹھانے والوں نے سرمایہ کاری کی بلکہ الٹا فلمی صنعت کو اِس حد تک نقصان پہنچایا کہ اِس مرتبہ عید الفطر (سال دوہزاربائیس) کے موقع پر صرف ایک پشتو فلم (کشر خان بہ نہ چھیڑے) پشاور میں نمائش کے لئے پیش کی جا سکی جس سے پشتو فلمی صنعت کی حالت اُور اِس سے وابستہ افراد کی مالی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نئی پشتو فلم کے علاؤہ دیگر سینما ہالز میں پرانی فلموں کی نمائش کی گئی کیونکہ اب سینما ہالز کی کشش کسی بھی زبان کی مقامی فلمیں نہیں رہیں بلکہ غیرملکی فلموں کے حصے (ٹوٹے) کانٹ چھانٹ کر دکھائے جاتے ہیں اُور ائرکنڈیشن سینما ہال بہت سے سربینوں کے لئے چند گھنٹوں کی گرمی سے راحت کا سامان اُور تفریح کا غیرصحت مندانہ ذریعہ بن چکے ہیں‘ جو ایک عرصے سے تعمیر کی بجائے ذہنی تخریب کا ذریعہ بھی ہے!

”کشر خان بہ نہ چھیڑے“ کے ستاروں میں شاہد خان‘ ارباز خان‘ فیروزا علی‘ نیب چوہدری‘ عمران خٹک اور رحیمہ شامل ہیں لیکن شاید ہی کوئی سربین اِن اداکاروں کی وجہ سے فلم دیکھنے اپنے گھر سے چلا ہو! سوشل میڈیا کے دور میں تفریح ’بے نامی‘ ہو چکی ہے کیونکہ پشتو کے معروف و غیرمعروف اداکاروں نے پچاس سے زائد ایسے ”یوٹیوب چینلز“ بنا رکھے ہیں جہاں سے اُنہیں سینما کی نسبت زیادہ آمدنی ہو رہی ہے اُور اب تو ’یوٹیوب چینلز‘ پر انفرادی اداکاری کی بجائے اسٹیج پروگرام بھی جاری کئے جاتے ہیں اُور اِس قسم کی پروڈکشن باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔ جہاں لوک گلوکار بھی ملتے ہیں‘ جن کے گائے ہوئے گانے ’اپ لوڈ‘ کئے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سینما کے ذریعے اُور بالخصوص عید کے تہوار پر ریلیز کی جانے والی فلموں کا کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو بھی ہوتا تھا۔ فلم بامقصد سے تفریح اُور تفریح سے اوچھے پن کی سمت سفر کرتے کرتے اُس مقام تک آ پہنچی ہے جہاں اِسے اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مزید ’اوچھے پن‘ کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ 

”کشر خان بہ نہ چھیڑے“ نامی فلم کی خاص بات ”سینماٹوگرافی“ ہے جس کے لئے ’شمالی علاقوں‘ کا انتخاب کیا گیا۔ قدرتی مناظر کی خوبصورتی سے مزین اِس شاہکار کو ’بڑے پردے‘ پر دیکھنے کا اپنا ہی مزا ہے اُور اگر اِسے فلم کی ”واحد کشش“ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا لیکن فلم کا ایک جز معیاری و مقبول موسیقی بھی ہوتی ہے اُور اِس شعبے میں مذکورہ فلم کے پس پردہ (پلے بیک) گلوکار (وسل کھیل‘ شاہ فاروق اور ستارا یونس) مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پشاور کے ارشد سینما میں عید الفطر کے پہلے دن سے جاری نمائش اگرچہ خاطرخواہ پرہجوم نہیں لیکن ”پشتو سنیما گزشتہ کئی دہائیوں سے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور متعدد وجوہات کی بنا پر سنجیدہ نجی سرمایہ کاری اُور تکینکی ماہرین (پروڈیوسروں اور فلم سازوں) نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے فنکاروں کا ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے۔

عیدالفطر کے موقع پر ”دا اَختر گلونہ“ کے نام سے ”پشتو میوزیکل شو عید“ کو یادگار بنانے کی کوشش اپنی جگہ کامیاب رہی‘ جس میں ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے مقامی اداکاروں نے حصہ لیا اُور سینما ہالز کی نسبت عید کے دوسرے سے چوتھے روز شائقین کی بڑی تعداد نے نشتر ہال کا رخ کیا‘ جہاں ایک نئے رجحان کا ارتقا ہو رہا ہے اُور وہ یہ ہے کہ پشتو فلمی صنعت کے زوال سے اُبھرنے والے اسٹیج پروگرام (لائیو پرفارمنس) مقبول ہو رہے ہیں جن سے محظوظ ہونے اُور اپنے پسندیدہ اداکاروں کو براہ راست دیکھنے اُور سننے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اِس سال کی خاص بات یہ بھی تھی کہ ”پشتو میوزیکل عید شو“ کے ٹکٹ آن لائن بھی خریدے گئے اُور ایسے پروگراموں کے موقع پر روائتی جھگڑے بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ یہ سب کچھ سینما ہالز کے سائے میں اُبھرنے والے سٹیج ڈرامہ کلچر کی بدولت ہے جبکہ اسٹیج (تھیٹر) سینما سے پہلے کی ایجاد ہے اُور سینما اسٹیج ہی کی ترقی یافتہ شکل تھی وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگر اسٹیج ڈرامہ مقبول ہو رہا ہے تو اِس سے سینما ختم نہیں ہوگی بلکہ سینما کسی بھی وقت تقویت حاصل کر لے گی لیکن سینما کی واپسی جلد ہونی چاہئے کیونکہ پشاور سمیت دیگر اضلاع میں سینما ہالز تجارتی مراکز میں تبدیل ہو رہے ہیں اُور نئے سینما ہالز نہیں بن رہے۔ اِس پورے شعبے (فلمی صنعت اُور اسٹیج) کے لئے حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ حکومتی اداروں کی نگرانی عروج پر ہونے کی وجہ سے منافع کا ایک بڑا حصہ ناقابل بیان اُور قابل بیان مدوں میں اخراجات کی نذر ہو رہا ہے جیسا کہ بجلی کی قیمت اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ دو سے ڈھائی گھنٹے کسی ہال کو ٹھنڈا رکھنے پر اخراجات معمولی نہیں رہے۔ کورونا وبا (سماجی فاصلوں) کے دور سے گزرنے کے بعد فلمی صنعت بالعموم مہنگائی کی صورت نئی مشکل اُور زیادہ بڑی آزمائش سے گزر رہی ہے!

……

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj May 08, 2022


Saturday, May 7, 2022

Dos and Donts of the Social Media uses for Health Department

شبیرحسین اِمام

  سوشل میڈیا پالیسی: موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ

    غیرذمہ دارانہ اظہار رائے اُور بالخصوص اِس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال باعث تشویش ہے‘ جس کی اصلاح کی کوشش ایک ایسے مرحلے پر کی جا رہی ہے جبکہ خرابی کی جڑیں بہت دور تک پھیل چکی ہیں۔ بہرحال اطلاعات کے مطابق ”محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنے ملازمین کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے جو سوشل میڈیا کا وسائل استعمال کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ یا مخالفانہ انداز میں تبصرے کرتے ہیں۔ ایسے ملازمین کے خلاف محکمانہ کاروائی کرنے اُور ’سوشل میڈیا‘ پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔“ 

بنیادی طور پر یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی کیونکہ ایک تو محکمے کی حکمت عملیوں کی رازداری نہیں رہتی اُور دوسرا جو ملازمین کسی بھی وجہ سے حکومتی حکمت عملیوں پر تنقید کرتے ہیں وہ اپنے دلائل میں سرکاری دستاویزات بنا سیاق و سباق پیش کرتے ہیں جن کی وجہ سے عوام الناس میں تشویش پھیلتی ہے اُور حکومت پر دباؤ بنتا ہے اُور کوئی بھی حکمت عملی نافذ ہونے سے پہلے ہی واپس لینا پڑ جاتی ہے اُور حقیقت یہی ہے کہ اِس قسم کا طرزعمل ’سوشل میڈیا‘ کا غلط استعمال ہے۔ ایسے ملازمین کے خلاف کاروائی ملازمتی قانون کے تحت کی جائے گی جو محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کہلاتا ہے اُور اِس قانون کے مطابق صحت کی سہولیات اور دفاتر میں اپنی سوشل میڈیا پالیسی کی ”موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اور نفاذ“ یقینی بنانے کے لئے ”سوشل میڈیا مانیٹرنگ یونٹ(SMMU)“ قائم کیا گیا ہے۔ ایس ایم ایم یو (اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ) کی نگرانی (منتظم) ایڈیشنل سیکرٹری ہوں گے جبکہ اِس کے دیگر اراکین میں ڈپٹی سیکرٹری انتظامیہ‘ ڈپٹی سیکرٹری (قانونی چارہ جوئی)‘ ڈائریکٹر (انتظامیہ) اور ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ہیومن ریسورس) اور ڈپٹی ڈائریکٹر (آئی ٹی) سمیت محکمہ صحت کے سیکشن آفیسر (جنرل) بھی شامل ہوں گے۔

سیکرٹری صحت کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں ’ایس ایم ایم یو‘ سے متعلق کہا گیا ہے کہ ”نوتشکیل شدہ یونٹ محکمہ صحت کے ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا اُور یہ بنیادی طور پر سرکاری ملازمین کی اُن سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا‘ جو محکمہ صحت سے متعلق اُن کے تبصرے یا پیغامات کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ’ایم ایم ایم یو‘ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قواعد کی پاسداری کے لئے ضلعی صحت افسران‘ میڈیکل سپرنٹنڈنٹس‘ مختلف ڈائریکٹرز اور دیگر فیلڈ دفاتر کے ساتھ رابطہ قائم کرے گا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کئے گئے پیغام کے مندرجات کا جائزہ باقاعدگی سے لیا جائے گا اور اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ کون کون سے ملازمین نے حکومتی اقدامات یا صحت سے متعلق اصلاحات پر تنقید کی اُور حکومت مخالف سیاسی بیانیئے کا حصہ بنے۔

صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین سیاسی سوچ اُور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے محکمے کے مفاد بارے سوچیں۔

ملازمین کی تمام تر توجہ اُور وسائل محکمہ صحت کی بہتری کے بارے میں مرکوز ہونے چاہیئں اُور یہ کہ وہ بالخصوص افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔ اِن اہداف کے حصول کے لئے ’محکمہ صحت‘ کا ایک خط بعنوان ”ایم ٹی آئیز“ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور ڈیپوٹیشن“ سے متعلق جاری کیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام گیارہ ’ایم ٹی آئیز‘ کو تحریراً مطلع کیا گیا ہے اُور انتظامی نگرانوں کو تاکیدو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی زیرنگرانی میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی سختی سے نگرانی کریں۔ مذکورہ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ایم ٹی آئی‘ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کے پابند ہیں اُور اِنہی قواعد کے تحت اُنہیں ملازمت دی گئی ہے اُور یہ مذکورہ متعلقہ قوانین‘ قواعد و ضوابط پر لازماً عمل درآمد کریں چونکہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد متعلقہ ایم ٹی آئی میں بورڈ آف گورنرز کے براہ راست کنٹرول کے تحت ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر کام کرتی ہے‘ اِس لئے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال میں ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کے پیشہ ورانہ طرز عمل کی بھی سختی سے نگرانی کی جائے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے حوالے سے محکمہ صحت کے عہدیداروں کو عمومی ہدایات دی گئی ہیں جبکہ ایم ٹی آئیز (خودمختار طبی سہولیات کے مراکز) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان ہدایات اور قواعد کی سراسر خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کے ناموں کی پشاور کے مرکزی دفتر کو اطلاع دیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ شکایات موصول ہونے کے بعد ایم ٹی آئی سے ایسے ملازمین کی خدمات واپس لے سکتا ہے۔ ایک علیحدہ اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں محکمہ نے ایم ٹی آئی کے تمام ڈائریکٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سرکاری ملازمین کے ذریعہ سوشل میڈیا کے استعمال کی نگرانی کریں۔

وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے سوشل میڈیا کے محتاط استعمال کے بارے میں اِس سے پہلے بھی سرکاری ملازمین کو رہنما اصول جاری کئے تھے اُور اُنہیں بتایا گیا تھا کہ وہ محکمے کی نیک نامی پر حرف نہ آنے دیں اُور نہ ہی ایسی مخالف مہمات کا حصہ بنیں لیکن ملازمین نے قلمی و فرضی ناموں سے اکاؤنٹس بنا لئے معلوم نہیں کہ اِس مرتبہ مشکل سے کیسے نمٹا جائے گا کیونکہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد بغاوت پر آمادہ ہے جن کے سیاسی عزائم کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ محکمہء صحت پہلے ہی اپنے ملازمین کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے سے منع کر چکا ہے اُور اِس سلسلے میں کڑی پابندیاں عائد ہیں‘ جنہیں ملازمین غیرضروری لیکن حکومت ضروری پابندی قرار دیتی ہے۔ بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا پالیسی کی مؤثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ کسی ایک صوبائی (حکومتی) محکمے کی حد تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ اِس کا اطلاق ایک مرکزی و بنیادی اصولی حکمت عملی کے طور پر کیا جانا چاہئے تاکہ ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد الزام تراشی اُور اِن الزام تراشیوں کے جواب دینے میں قیمتی وقت اُور وسائل کا ضیاع روکا جا سکے۔


Festivals & Celebrations without much care makes no-sense!

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

تہوار: غیرذمہ داریاں 

صبر و تحمل‘ برداشت و رواداری اُور معمولات و معاملات زندگی میں اعتدال کے فروغ کی ضرورت ہے۔ تہوار ہوں یا عمومی اَیام‘ حادثات اِتفاقیہ سے دانستہ غلطیوں تک ’غیرذمہ دارانہ‘ روئیوں کی وجہ سے ہر سال اَفسوسناک شناختہ و ناشناختہ واقعات بطور بدترین مثالیں اُور یادیں باقی رہ جاتی ہیں لیکن اِس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کی اکثریت ماضی کی اِن غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے اُور نہ ہی حکومتی اِداروں کی جانب سے بار بار دہرائی جانے والی غلطیوں کا اَزالہ کرنے کے لئے عید سے قبل آگاہی مہمات کی صورت سنجیدہ‘ منظم و مربوط کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے‘ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں کہیں ایسی کوششیں کی بھی جاتی ہیں تو اِن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے اُور یوں ارادے ہار جاتے ہیں‘ جنہیں ہارنا نہیں چاہئے! صورتحال اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے کہ حکومتی اداروں اُور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے اُور جب کبھی اُور جہاں کہیں حکومتی اداروں کی جانب سے احتیاط‘ شعور‘ تہذیب کے مظاہرے اُور قوانین و قواعد پر عمل درآمد کی تلقین کی جاتی ہے تو اِس پر خاطرخواہ توجہ نہ دینے کے باعث ناقابل تلافی جانی و غیرمعمولی مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ حسب معمول اِس سال ایسا ہی دیکھنے میں آیا اُور عیدالفطر کی مبارک ساعتوں میں جب خوشیاں سمیٹنا اُور بانٹنا تھیں لیکن درجنوں افراد اپنے اہل خانہ اُور دوست احباب کو مغموم چھوڑ گئے اُور بہت سے خاندان سوگوار رہے جن میں ہوائی فائرنگ سے زخمی و ہلاک ہونے والے بھی شامل ہیں! اِن کے علاؤہ ٹریفک و حادثات اتفاقیہ سے لیکر بے احتیاطی کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات معاشرے کے اُس بدنما چہرے کو نمایاں کر رہے ہیں جس میں اپنی اُور دوسروں کی جان و مال کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ اِن واقعات کے رونما ہونے سے زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ حادثات سبق آموز نہیں رہے اُور اِنہیں فراموش کر دیا جاتا ہے جو یکساں بڑی غلطی ہے۔

عیدالفطر کے ایام (2 مئی سے 5 مئی 2022ء) کے دوران خیبرپختونخوا کے 33 اضلاع میں مختلف حادثات کے دوران 46 افراد ہلاک ہوئے جبکہ مجموعی طور پر 2 ہزار 421 ایسے واقعات میں ’ہنگامی امداد و خدمات‘ فراہم کی گئیں۔ پانچ مئی کے روز ’ریسکیو 1122‘ کی طرف سے جاری کردہ ’اعدادوشمار‘ کے مطابق ”عیدالفطر کے اَیام میں خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر ”456 ٹریفک حادثات“ ہوئے جبکہ 1645 صحت کے حوالے سے ہنگامی حالات‘ 160 آگ لگنے کے واقعات اُور 42 جرائم کی اطلاعات ملنے پر کاروائیاں کی گئیں۔ مذکورہ عرصے کے دوران پانچ افراد نہانے سے ڈوبنے‘ عمارتوں کے انہدام سے پانچ افراد کی ہلاکت‘ گیس لیک ہونے سے ہوئے سلینڈر دھماکوں کے تین واقعات جبکہ 95 دیگر مواقعوں پر ریسکیو اِہلکاروں نے خدمات فراہم کیں۔ قابل ذکر ہے کہ سرکاری علاج گاہوں میں تعینات طبی و معاون طبی عملے کی طرح ’ریسکیو 1122‘ کے اہلکاروں نے بھی عیدالفطر کے ایام میں خدمات کی فراہمی جاری رکھیں۔

 تہوار اجتماعی ہوں یا انفرادی‘ اِن کے منانے والوں کو خوشی مناتے ہوئے ”آپے سے باہر“ نہیں ہونا چاہئے اُور اِس سلسلے میں کتاب و سنت کی طرف سے رہنمائی موجود ہے‘ جس کی تہواروں کے مواقعوں پر یادآوری کا اہتمام و انتظام ہونا چاہئے کہ  ’احتیاط‘ کا دامن کسی بھی صورت ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے اُور لب لباب یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی خوشیاں اُور غم شریعت ِاسلامی (پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت) کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

……

Clipping from Daily Aaj Editorial Page, Peshawar Abbottabad


Tuesday, May 3, 2022

Daily Aaj: Eid ul Fitar Edition (3rd May 2022 Tuesday)

 

Eid ul Fitar Edition 2022 (3rd May 2022)

Alarming Situation: Human Rights Violations in Pakistan

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

راۂ فرار

وقت ہے کہ اُن انسانی حقوق کی جانب متوجہ ہوا جائے‘ جن کے بغیر معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ اُور ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اِنسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے تیسواں سالانہ جائزہ جاری کیا ہے جس میں انسانی حقوق کی صورتحال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کمی بیشی سے متعلق حکومتی اقدامات اُور کوششوں کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر رپورٹ کی طرح یہ بھی اہم ہے جس میں سب سے زیادہ زور آزادیئ اظہار اُور اختلاف رائے رکھنے کی ضرورت پر دیا گیا ہے اُور کم از کم 9 صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کھلم کھلا اور بے دریغ ریاستی کوششیں کی مذمت کی ہے۔ 

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ہر سال کمی بیشی کے ساتھ یہ واقعات منظرعام پر آتے ہیں اُور سال کے ساتھ انہیں فراموش بھی کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی جملہ صورتیں قابل تشویش ہیں جو عصمت دری سے لے کر گھریلو بدسلوکی تک پھیلی ہوئی ہیں اُور اِنہی کے نتیجے میں قتل اُور بالخصوص غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران پاکستان میں غیرت کے نام پر 478 قتل ہوئے۔ یہ قطعی طور پر معمولی عدد نہیں جسے پڑھ کر یا سن کر فراموش کر دیا جائے۔ پاکستان سے متعلق اِس قسم کے اعدادوشمار سے ملکی ساکھ متاثر ہوتی ہے اُور چونکہ اِس ساکھ کے ساتھ ’اسلامی‘ اُور ’جمہوری‘ ہونے کے صیغے بھی جڑے ہوئے ہیں اِس لئے تنقید کرنے والے جن پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں وہ پاکستان میں برداشت اُور رواداری کے علاؤہ انسانیت کے احترام کا فقدان بھی ظاہر کرتے ہیں! ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹیں جھوٹ نہیں ہو سکتیں جن سے یہ لمحہئ فکریہ اخذ ہوا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران پاکستان میں عصمت دری کے کم از کم پانچ ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر قسم کے تشدد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ 

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سالنامہ میں جن چند واقعات کو بطور خاص اُور بطور مثال ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اُن میں ناظم جوکھیو اور سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کا قتل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ نومبر 2021ء میں ناظم جوکھیو نامی شخص نے غیرقانونی شکار کرنے والوں کی موبائل فون سے ویڈیو بنائی اُور اُسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔ اِس کے بعد اُسے اغوأ کر لیا گیا اُور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی خاندان کے فارم ہاؤس سے اُس تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی لیکن تاحال قتل کے اِس مقدمے میں معلوم شواہد کے باوجود بھی انصاف نہیں ہو سکا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی عوام اُور خواص کے لئے الگ الگ ہے۔ اِسی طرح ’3 دسمبر 2021ء‘ کے روز 49 سالہ پریانتھا کمار نامی سری لنکن باشندے کو سیالکوٹ میں ہجوم نے زدوکوب کر کے قتل کیا اُور یہاں بھی ملزمان تو نامزد ہوئے لیکن سزائیں نہیں ہوئیں جن سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی۔ اِس قسم کے واقعات ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کی پریشان کن صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہوئی ایک اُور تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ زیادہ تر جرائم میں نوجوان ملوث ہوتے ہیں‘ جو بیروزگاری اُور معاشی بے یقینی سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ قابل افسوس ہے کہ گزشتہ چند برس سے پاکستانی معاشرہ تیزی سے پرتشدد ہوتا جا رہا ہے اُور یہ کسی ڈراؤنے خواب جیسی حقیقت ہے جو معاشرے میں رائج انتہا پسندانہ رجحانات کا براہ راست نتیجہ ہے اُور اِس کے لئے ریاستی حکمت عملیاں ہی ذمہ دار ہیں‘ جو تشدد کا باعث بننے والے اُن معلوم محرکات کی جانب متوجہ نہیں ہیں‘ جن کی نشاندہی ملکی و غیرملکی ماہرین وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں اِس بات پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں قوانین سازی کے لئے پارلیمان میں بحث و مباحثہ اُور اجتماعی دانش سے کام لینے کی بجائے صدراتی آرڈیننس جاری کرنے جیسے ’راہئ فرار‘ کا انتخاب کیا گیا جس کے نشانے پر آزادیئ اظہار بھی رہی اُور تحریک انصاف کا دور حکومت شخصی و اجتماعی رائے کی آزادی کے لحاظ سے انتہائی نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ نے مذہبی انتہاپسندی بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق اعدادوشمار مرتب کرنے اُور اِنسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرنے والے کارکنوں کو گزشتہ کئی برس سے درپیش سب سے بڑی مشکل ’لاپتہ افراد‘ کی صورت درپیش ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران سب سے زیادہ لاپتہ افراد کی اطلاعات بلوچستان سے موصول ہوئیں اُور اِن لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے کے باوجود بھی حکومت اِن کے خدشات و مشکلات حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لاپتہ افراد سے لے کر گجر اور کورنگی نالے سے بے دخلی‘ فرقہ وارانہ تشدد اُور ٹرانسجینڈر افراد کے خلاف تشدد کے واقعات پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر دھبہ ہیں‘ جنہیں صاف کرنے کے لئے ریاست اُور ریاستی اداروں کو خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اب یہ بات شہباز شریف کی قیادت والی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کس قدر اقدامات کرتے ہیں جبکہ ماضی میں وہ اِنسانی حقوق کی مذکورہ اُور دیگر خلاف ورزیوں پر خود بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔ بہرصورت ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی برقرار رکھی جائے۔

 صحافت کی آزادی سے جمہوریت کی مضبوطی ممکن ہے اُور کسی بھی صورت اگر صحافیوں کو اپنا کام کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے تو اِس سے پاکستان کی مثبت ساکھ اُبھر کر سامنے نہیں آئے گی۔

 انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی بھی صورت معمولی نہیں اُور نہ ہی اِنہیں معمولی سمجھنے جیسی غلطی کرنی چاہئے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سالانہ رپورٹ کو نظرانداز کرنے سے بہتری نہیں بلکہ خرابی پیدا ہوگی اُور اگر مذکورہ رپورٹ میں درج تجاویز پر حکومت عمل درآمد کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اِس سے بہت سی خرابیاں و ناکامیاں دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اُمید ہے کہ ناکامیوں سے کام لینے کی بجائے انسانی جان و حرمت اُور انسانی حقوق کی اہمیت کا ادراک کیا جائے گا اُور ملک کی تمام برادریوں اور علاقوں کے تمام شہری جس ناانصافی اور ریاستی یا غیر ریاستی تشدد کا شکار ہیں اُنہیں تحفظ فراہم کرنے میں حکومت اُور حکومتی ادارے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

……


UNJUSTIFIED: Social Media Policy for Health Dept employees

 تحریک …… آل یاسین

سوشل میڈیا پالیسی: موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ

غیرذمہ دارانہ اظہار رائے اُور بالخصوص اِس مقصد کے لئے سوشل میڈیا کا غلط استعمال باعث تشویش ہے‘ جس کی اصلاح کی کوشش ایک ایسے مرحلے پر کی جا رہی ہے جبکہ خرابی کی جڑیں بہت دور تک پھیل چکی ہیں۔ بہرحال اطلاعات کے مطابق ”محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے اپنے ملازمین کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے جو سوشل میڈیا کا وسائل استعمال کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ یا مخالفانہ انداز میں تبصرے کرتے ہیں۔ ایسے ملازمین کے خلاف محکمانہ کاروائی کرنے اُور ’سوشل میڈیا‘ پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔“ بنیادی طور پر یہ ضرورت اِس لئے پیش آئی کیونکہ ایک تو محکمے کی حکمت عملیوں کی رازداری نہیں رہتی اُور دوسرا جو ملازمین کسی بھی وجہ سے حکومتی حکمت عملیوں پر تنقید کرتے ہیں وہ اپنے دلائل میں سرکاری دستاویزات بنا سیاق و سباق پیش کرتے ہیں جن کی وجہ سے عوام الناس میں تشویش پھیلتی ہے اُور حکومت پر دباؤ بنتا ہے اُور کوئی بھی حکمت عملی نافذ ہونے سے پہلے ہی واپس لینا پڑ جاتی ہے اُور حقیقت یہی ہے کہ اِس قسم کا طرزعمل ’سوشل میڈیا‘ کا غلط استعمال ہے۔ ایسے ملازمین کے خلاف کاروائی ملازمتی قانون کے تحت کی جائے گی جو محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کہلاتا ہے اُور اِس قانون کے مطابق صحت کی سہولیات اور دفاتر میں اپنی سوشل میڈیا پالیسی کی ”موثر ہم آہنگی‘ نگرانی اور نفاذ“ یقینی بنانے کے لئے ”سوشل میڈیا مانیٹرنگ یونٹ(SMMU)“ قائم کیا گیا ہے۔ ایس ایم ایم یو (اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ) کی نگرانی (منتظم) ایڈیشنل سیکرٹری ہوں گے جبکہ اِس کے دیگر اراکین میں ڈپٹی سیکرٹری انتظامیہ‘ ڈپٹی سیکرٹری (قانونی چارہ جوئی)‘ ڈائریکٹر (انتظامیہ) اور ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر (ہیومن ریسورس) اور ڈپٹی ڈائریکٹر (آئی ٹی) سمیت محکمہ صحت کے سیکشن آفیسر (جنرل) بھی شامل ہوں گے۔

سیکرٹری صحت کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں ’ایس ایم ایم یو‘ سے متعلق کہا گیا ہے کہ ”نوتشکیل شدہ یونٹ محکمہ صحت کے ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا اُور یہ بنیادی طور پر سرکاری ملازمین کی اُن سرگرمیوں کی نگرانی کرے گا‘ جو محکمہ صحت سے متعلق اُن کے تبصرے یا پیغامات کے بارے میں ہوتے ہیں۔ ’ایم ایم ایم یو‘ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قواعد کی پاسداری کے لئے ضلعی صحت افسران‘ میڈیکل سپرنٹنڈنٹس‘ مختلف ڈائریکٹرز اور دیگر فیلڈ دفاتر کے ساتھ رابطہ قائم کرے گا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کئے گئے پیغام کے مندرجات کا جائزہ باقاعدگی سے لیا جائے گا اور اس بات کا تعین بھی کیا جائے گا کہ کون کون سے ملازمین نے حکومتی اقدامات یا صحت سے متعلق اصلاحات پر تنقید کی اُور حکومت مخالف سیاسی بیانیئے کا حصہ بنے۔ 

صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری ملازمین سیاسی سوچ اُور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اپنے محکمے کے مفاد بارے سوچیں۔

 ملازمین کی تمام تر توجہ اُور وسائل محکمہ صحت کی بہتری کے بارے میں مرکوز ہونے چاہیئں اُور یہ کہ وہ بالخصوص افواہیں پھیلانے سے گریز کریں۔ اِن اہداف کے حصول کے لئے ’محکمہ صحت‘ کا ایک خط بعنوان ”ایم ٹی آئیز“ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور ڈیپوٹیشن“ سے متعلق جاری کیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام گیارہ ’ایم ٹی آئیز‘ کو تحریراً مطلع کیا گیا ہے اُور انتظامی نگرانوں کو تاکیدو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی زیرنگرانی میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی سختی سے نگرانی کریں۔ مذکورہ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ایم ٹی آئی‘ میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین (کنڈکٹ) رولز 1987ء کے پابند ہیں اُور اِنہی قواعد کے تحت اُنہیں ملازمت دی گئی ہے اُور یہ مذکورہ متعلقہ قوانین‘ قواعد و ضوابط پر لازماً عمل درآمد کریں چونکہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد متعلقہ ایم ٹی آئی میں بورڈ آف گورنرز کے براہ راست کنٹرول کے تحت ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر کام کرتی ہے‘ اِس لئے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال میں ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ان کے پیشہ ورانہ طرز عمل کی بھی سختی سے نگرانی کی جائے۔

 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے حوالے سے محکمہ صحت کے عہدیداروں کو عمومی ہدایات دی گئی ہیں جبکہ ایم ٹی آئیز (خودمختار طبی سہولیات کے مراکز) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان ہدایات اور قواعد کی سراسر خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے سرکاری ملازمین کے ناموں کی پشاور کے مرکزی دفتر کو اطلاع دیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ محکمہ شکایات موصول ہونے کے بعد ایم ٹی آئی سے ایسے ملازمین کی خدمات واپس لے سکتا ہے۔ ایک علیحدہ اعلامیے (نوٹیفکیشن) میں محکمہ نے ایم ٹی آئی کے تمام ڈائریکٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سرکاری ملازمین کے ذریعہ سوشل میڈیا کے استعمال کی نگرانی کریں۔

وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے سوشل میڈیا کے محتاط استعمال کے بارے میں اِس سے پہلے بھی سرکاری ملازمین کو رہنما اصول جاری کئے تھے اُور اُنہیں بتایا گیا تھا کہ وہ محکمے کی نیک نامی پر حرف نہ آنے دیں اُور نہ ہی ایسی مخالف مہمات کا حصہ بنیں لیکن ملازمین نے قلمی و فرضی ناموں سے اکاؤنٹس بنا لئے معلوم نہیں کہ اِس مرتبہ مشکل سے کیسے نمٹا جائے گا کیونکہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد بغاوت پر آمادہ ہے جن کے سیاسی عزائم کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ محکمہء صحت پہلے ہی اپنے ملازمین کو ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرنے سے منع کر چکا ہے اُور اِس سلسلے میں کڑی پابندیاں عائد ہیں‘ جنہیں ملازمین غیرضروری لیکن حکومت ضروری پابندی قرار دیتی ہے۔ بنیادی ضرورت اِس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا پالیسی کی مؤثر ہم آہنگی‘ نگرانی اُور نفاذ کسی ایک صوبائی (حکومتی) محکمے کی حد تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ اِس کا اطلاق ایک مرکزی و بنیادی اصولی حکمت عملی کے طور پر کیا جانا چاہئے تاکہ ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد الزام تراشی اُور اِن الزام تراشیوں کے جواب دینے میں قیمتی وقت اُور وسائل کا ضیاع روکا جا سکے۔

……


Monday, May 2, 2022

Have a meaningful Eid, this year!

 ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام

بامقصد تہوار

پشاور کے سرتاج روحانی‘ علمی و ادبی اُور سیاسی گھرانے کے بزگوار پیر طریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خطبات اُور محافل میں زندگی کو بامقصد بسر کرنے کی تلقین فرماتے بالخصوص ’عیدالفطر‘ جیسے تہوار یا دیگر خصوصی مواقعوں پر آپؒ کی وعظ و نصیحت کا خلاصہ ”فرائض کا اہتمام‘ سنتوں کی اتباع اُور تقویٰ“ سے متعلق ہوتا۔ آپ چاہتے تھے کہ ہر شخص اپنی زندگی کے ہر ایک لمحے کا احتساب اُور حساب کرے۔ تفکر سے کام لے۔ سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرے اُور اگر زندگی بامقصد اُور تعمیری انداز میں منائی جائے تو اِس سے ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی اُور اگر تہواروں کو شعوری طور پر منانے اُور مختلف انداز میں ’یادگار‘ بنانے کی کوشش کی جائے تو اِس سے انفرادی و اجتماعی سطح پر خیر و اصلاح جیسے ثمرات بھی حاصل ہوں گے۔ امیرالمومنین سیّدنا علی ابن ابیطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ ”مومن کے لئے اُس کی زندگی کا وہ ہر دن عید ہے‘ جس دن اُس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔“ اسلامی تہواروں کے حقیقی تصور اُور مقصد کے حصول کے لئے عہد کیا جا سکتا ہے کہ اِس مرتبہ عیدالفطر پر کم سے کم ”9 امور کی انجام دہی کا بطور خاص خیال رکھا جائے گا۔“

1: صبح جلدی اُٹھ کر مسواک یا ٹوتھ برش کے ذریعے دانت صاف کئے جائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں میں جس ایک عمل کا کثرت سے ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ عید الفطر کی صبح سویرے مسواک سے دن کا آغاز فرماتے۔ طبی نکتہئ نظر سے بھی دانتوں کی اچھی دیکھ بھال نہ صرف مجموعی صحت میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ اس سے خوشگوار مسکراہٹ اور تازہ سانس کے ذریعے ایک پراعتماد دن کا آغاز ہوتا ہے۔

2: عیدالفطر کی صبح غسل کرنا‘ صاف اُور بہترین کپڑے پہننا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق (سنت) ہے۔ غسل (نہانے) کا مطلب جسمانی تطہیر ہے۔ یہی غسل جمعۃ المبارک‘ عیدین اُور دیگر خصوصی ایام کے لئے بھی کیا جاتا ہے جو اگرچہ واجب نہیں لیکن سنت کی اتباع اگر مقصود ہے تو اِس کی پابندی مستحبات میں شامل ہے۔ عید کے دن صاف‘ پاک و پاکیزہ لباس اُور خوشبو (پرفیوم) کا استعمال بہترین اعمال و معمولات میں سے ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ ”اگر کوئی شخص (مرد یا عورت) عید کے دن نئے کپڑوں کی مالی سکت نہ رکھتے ہوں تو پہلے سے استعمال شدہ کپڑے اچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔“ یہ شرعی نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ خواتین کے لئے خوشبو لگانے کی شرائط مرد سے مختلف ہیں اُور خواتین کو ”تیز خوشبو“ لگانے کی اجازت نہیں۔ اِسی طرح مردوں کے لئے ریشمی کپڑے اُور زیورات پہننے کی ممانعت ہے۔ 

3: عید کے دن تکبیرات (اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ لَا إلَہَ إلَّا اللَّہُ وَاَللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ) پڑھنے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ 

4: عیدالفطر کی نماز ادا کرنے کے لئے پیدل جایا جائے یا مسجد کے کچھ فاصلے تک گاڑی میں سفر کرنے کے بعد سنت ادا کرنے کی نیت سے چند قدم ہی سہی لیکن لازماً پیدل چل کر جایا جائے۔ اِسی طرح نماز عید کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلنے سے قبل کچھ میٹھا (بہتر ہے کہ کھجوریں) کھائی جائیں۔

5: تسلی کر لیں کہ عید الفطر کی نماز ادا کرنے سے قبل صدقہ فطر اَدا کر دیا گیا ہے اگر نہیں کیا تو ساری زندگی ساکت (ختم) نہیں ہوگا بلکہ واجب الادأ رہے گا۔ فقہ حنفیہ (اہلسنت و الجماعت) کے مطابق رواں برس 2022ء کے لئے گندم کے حساب سے کم سے کم فطرانہ 160 روپے فی کس جبکہ ’فقہئ جعفریہ‘ اُور مسلک ِاہل حدیث کے مطابق 170 روپے فی کس مقرر ہے۔ صدقہئ فطر کی کم سے کم شرح کی بجائے سے زیادہ سے زیادہ شرح سے فطرانہ اَدا کر کے غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں یکساں شریک کریں۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام میں کسی بھی خصوصیت یا تہوار کا تصور انفرادی خوشی کا اظہار و اہتمام نہیں بلکہ تہوار بامعنی ہیں اُور یہ خوشی کے اجتماعی اظہار کے مواقع ہیں اُور اِس لحاظ سے عید محض عید نہیں بلکہ اگر اسے سمجھا جائے تو اِس تہوار کی معنویت اُور مقصدیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

 6: نماز عید کی ادائیگی کے لئے کسی ایسے مقام کا انتخاب کیا جائے جہاں عید کھلے آسمان کے نیچے ادا کرنے کا انتظام ہو‘ بہ امر مجبوری الگ بات ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کی نماز ہمیشہ کھلے آسمان تلے ادا فرمائی جبکہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے اندر (چھت تلے) عید کی نماز اَدا کی تھی۔

7: عید کا تہوار تحفے‘ تحائف (عیدی)‘ اِہل و عیال اُور پڑوسیوں سے ملاقات کا موقع ہے۔ عمومی معمولات میں جب عزیزواقارب سے ملنے ملانے کی فرصت نہیں رہتی تو عید کے موقع پر ایسی ملاقاتوں کا بالخصوص اہتمام کیا جانا چاہئے۔

 8: رمضان المبارک کے بعد شروع ہونے والے اسلامی مہینے شوال المعظم کے 6 روزے رکھنے کی نیت ابھی سے کر لیں۔ شوال کے روزے عید الفطر کے دوسرے دن سے ماہئ شوال المکرم کے دوران کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں اُور اِن کا اہتمام لگاتار بھی کیا جا سکتا ہے اُور یہ روزے مسلسل (یکے بعد دیگرے) یا ایام کے وقفے سے بھی رکھے جا سکتے ہیں تاہم چھ روزوں کی گنتی پوری کرنا سنت ہے۔ حدیث شریف ہے کہ ”جس نے پورے رمضان المبارک کے روزے رکھے اُور پھر شوال کے چھ دن بھی روزہ دار رہا‘ تو اِسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔“

9: رمضان المبارک کی طرح سال کے دیگر مہینوں میں بھی عبادات بالخصوص قرآن شریف پڑھنے کی ابھی سے نیت کر لیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح رمضان المبارک میں عبادت گاہیں آباد رہیں بالکل اِسی طرح سال کے دیگر ایام میں بھی عبادات کا ذوق و شوق برقرار (ساری زندگی قائم و دائم) رہے۔ 

……

Clipping from Editorial Page Daily Aaj Peshawar / Abbottabad May 02, 2022