Sunday, November 11, 2018

TRANSLATION: The power sector by Dr. Farrukh Saleem

The power sector
حقائق نامہ: پاکستان میں بجلی کا پیداواری شعبہ اور کارکردگی!

پہلی حقیقت: سال 2013ء کے دوران پاکستان میں توانائی کی کل پیداواری صلاحیت 20 ہزار 774 میگاواٹ سے بڑھا کر 2018ء تک 33 ہزار 801 میگاواٹ کر دی گئی یعنی سال 2013ء سے سال 2018ء کے درمیان (پانچ سال کے عرصے میں) بجلی کی پیداوار میں ’63فیصد‘ جیسا غیرمعمولی اضافہ ہوا۔

دوسری حقیقت: پاکستان میں بجلی کی قیمت کا شمار دنیا کی مہنگی ترین بجلی قیمتوں میں ہوتا ہے۔

تیسری حقیقت: سال 2000ء میں پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 14 ہزار 444 میگاواٹ تھی جو سال 2017ء کے اختتام پر 28 ہزار 172 میگاواٹ تھی یعنی اِس میں 13 ہزار 728میگاواٹ کا اضافہ کیا گیا اور یہ پیداوار میں 95فیصد اضافہ بنتا ہے۔

چوتھی حقیقت: سال 2000ء میں پاکستان میں بجلی کا ترسیلی نظام 42 ہزار 544 کلومیٹرز پر پھیلا ہوا تھا جس میں 2017ء تک 10 ہزار 911 کلومیٹرز کا اضافہ کرکے سال 2017ء تک 53 ہزار 455 کلومیٹرز کر دیا گیا۔ یہ اضافہ 26 فیصد تھا۔

پانچویں حقیقت: پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا جاتا رہا لیکن بجلی کے ترسیلی نظام میں خاطرخواہ اضافہ نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت بے معنی ہو کر رہ گئی کیونکہ ترسیلی نظام میں اِس قدر صلاحیت ہی موجود نہیں تھی کہ وہ اضافی پیدا ہونے والی بجلی صارفین تک منتقل کر سکتا۔ اِس (پیداواری اور ترسیلی) عدم توازن کی وجہ سے بجلی کا بحران موجود رہا۔

چھٹی حقیقت: سال 2000 کے دوران پاکستان میں بجلی کی پیداوار 14 ہزار 444 میگاواٹ تھی جس میں سال 2017ء کے اختتام تک اضافہ کرکے 28 ہزار 172 میگاواٹ کر دیا گیا اور یہ اضافہ قریب 95 فیصد تھا۔ اِسی عرصے کے دوران ترسیلی نام میں قریب 36 فیصد اضافہ کیا گیا۔

ساتویں حقیقت: سال 2010ء میں بجلی کے مختلف پیداواری اداروں کی جانب سے 84ہزار 375 یونٹ بجلی ’سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی‘ کو دیئے گئے جن میں سے 68 ہزار 878 یونٹ فروخت کئے جا سکے اور اِسی عرصے میں ترسیلی نظام کی خرابی‘ دیگر وجوہات بشمول بجلی کی چوری 18 فیصد رہی۔

نویں حقیقت: سال 2017ء میں ’سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی‘ کو 1 لاکھ 4 ہزار 330 یونٹ بجلی دی گئی جس میں میں 86 ہزار 763 یونٹ فروخت ہو سکے اور سال 2017ء میں ترسیلی نظام کی خرابیوں کی وجہ سے 17 فیصد بجلی ضائع ہوئی۔

دسویں حقیقت: بجلی کا ترسیلی نظام فرسود ہے‘ جس میں سال 2010ء سے 2017ء کے درمیان کوئی خاص توسیع یا اصلاح نہیں کی گئی۔

11ویں حقیقت: سال 2013ء میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار کے تناسب سے 32 فیصد تھی۔ سال 2018ء میں یہ تناسب کم ہو کر 29فیصد رہ گیا۔

12ویں حقیقت: سال 2013ء ایندھن کے ذریعے نجی بجلی گھروں سے 40فیصد بجلی حاصل ہو رہی تھی۔ سال 2018ء میں یہ تناسب بڑھ کر 45فیصد ہو گیا۔

13ویں حقیقت: پاکستان میں بجلی کی پیداوار کو سستے ذریعے یعنی پانی سے بنانے کی بجائے مہنگے ذریعے یعنی درآمدی ایندھن کے ذریعے بنانے پر توجہ دی گئی۔

14ویں حقیقت: دنیا بھر میں شمسی (سولر) اور ہوا کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی (ونڈ انرجی) کی قیمت میں وقت گزرنے کے ساتھ غیرمعمولی اور تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی لیکن پاکستان میں شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ترین جنس بنی رہی۔

15ویں حقیقت: پاکستان نے سال 2021ء کے بعد سے ’سولر‘ اور ’ونڈ‘ انرجی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں بتدریج کمی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

16ویں حقیقت: پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے لائن لاسیز (ترسیلی نظام کی خرابیاں اور بجلی چوری) کی شرح 31.95 فیصد ہے جو ملک میں بجلی کی کسی بھی تقسیم کار کمپنی کی سب سے خراب کارکردگی ہے کہ اُس کو ملنے والی بجلی کا اکتیس فیصد سے زائد حصہ ہرسال چوری ہو رہا ہے!

17ویں حقیقت: بجلی کی تقسیم کار کمپنی ’’اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو)‘‘ کے لائن لاسیز سب سے کم یعنی 8.65فیصد ہیں۔

18ویں حقیقت: قانون کے مطابق بجلی کی خودمختار پیداواری کمپنیوں کو اجازت کہ وہ پیداوار کی لاگت کے علاؤہ اخراجات بھی بجلی کی قیمت کا حصہ بنائیں لیکن قوانین اور قواعد پر اُن کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔

19ویں حقیقت: بجلی کی تقسیم کار ’’کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کوئیسکو)‘‘ بجلی بلوں کی وصولی میں سب سے آگے ہے اور اِس کے صارفین کے ذمے وصولیاں 43.5فیصد ہیں جو کہ 9 تقسیم کار کمپنیوں میں سب سے کم ہیں۔

20ویں حقیقت: اِسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) اپنے تمام صارفین (100فیصد) سے بجلی کے بل وصول کرتی ہے اور بجلی کی کل 9 تقسیم کار کمپنیوں میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)