Monday, October 4, 2021

Peshawar Kahani: Cultural Heritage

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: ....اِک مجسم خشک سالی 

سات دسمبر دوہزارسترہ: ’ہیئرٹیج ٹریل منصوبہ‘ کا افتتاح کیا گیا جو گورگٹھڑی آرکیالوجیکل کمپلیکس سے گھنٹہ گھر چوک تک ساڑھے چار سو میٹر لمبی سڑک کے دونوں اطراف عمارتوں اُور دکانوں کو قدیمی فن تعمیر کا نمونہ اُور مذکورہ علاقے میں شہری سہولیات کا معیار بہتر بنانے سے متعلق حکمت ِعملی تھی اُور اِس پر لاگت کے ابتدائی تخمینہ جات سے زیادہ یعنی 30 کروڑ (301.5 ملین) روپے خرچ ہوئے چونکہ تعمیراتی منصوبے میں بجلی و گیس اُور پانی کے ترسیلی گنجان آباد پشاور کے تجارتی مراکز سے گزرتا تھا جہاں کھدائی اُور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں جس پر دکانداروں نے احتجاج کیا تو اُنہیں خاموش کرنے کے لئے امدادی رقم دی گئی اُور یوں قریب نصف کلومیٹر فاصلے کی ثقافتی راہداری پر کم سے کم پچاس کروڑ روپے خرچ ہوئے! 

ثقافتی راہداری کو اِس کی جملہ خصوصیات اُور مقاصد کے لئے بحال کرنے کی ذمہ داری پشاور کی ’ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ)‘کو سونپی گئی جنہوں نے ’ٹاؤن ون‘ کی حدود میں واقع ہونے کی وجہ سے اِس ذمہ داری کو ماتحت ادارے کی طرف اُچھال دیا۔ اِس کے بعد مرمت و بحالی کے تخمینہ جات لگائے گئے اُور صوبائی حکومت سے 5 کروڑ (500 لاکھ) روپے کی خصوصی مالی امداد طلب کی گئی۔ عجب ہے کہ پچاس کروڑ روپے خرچ ہوئے اُور مزید پانچ کروڑ روپے صرف مرمت کے لئے درکار ہیں اُور یوں ثقافتی راہداری ایک سفید ہاتھی بن گیا ہے‘ جس پالنا پشاور کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پانچ کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اِس بات کی ضمانت کوئی نہیں دیتا کہ اِسے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جس ’ٹاؤن ون‘ کو ثقافتی راہداری بحال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اُس کی منہ بولتی کارکردگی (پورا سچ) یہ ہے کہ شہر کا کوئی بازار تجاوزات سے پاک نہیں۔ بلند بانگ دعوؤں سے کی جانے والی کاروائیاں اُور بلڈنگ کنٹرول کے شعبے کی قانون شکنوں سے رازونیاز نے پشاور کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے کہ ملکی وغیرملکی سیاح تو دور کی بات یہاں کے مقامی لوگ بھی شہر میں ٹریفک کے اُلجھے نظام کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں! پشاور کو ”نظر ِبد“ لگی ہے یا نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں کے دیرینہ و بحرانی مسائل کے بارے فیصلہ سازوں اُور بااختیار کرداروں کو رتی بھر تشویش نہیں۔ پشاور کے وسائل لوٹنے کے جاری عمل میں اِس کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثے یا تو نظرانداز ہیں یا اُنہیں بھی ذاتی مفادات کے لئے قابل ِفروخت بنا دیا گیا ہے! 

”بزم میں اُس بے مروت کی مجھے .... دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا دیکھئے (وحشت کلکتوی)۔“

اندرون شہر کسی ایک بھی ترقیاتی منصوبے پر اِس قدر خطیر رقم خرچ نہیں ہوئی اُور نہ ثقافتی راہداری جیسی توجہ کسی دوسرے منصوبے کو دی گئی جو اپنی جگہ کافی ثابت نہیں ہوئی کیونکہ عالمی معیار کے مطابق ترقی تو ہو گئی لیکن اُس کی حفاظت اُور قدر دیکھنے میں نہیں آئی۔ ثقافتی راہداری ابتدائی چند ماہ انتہائی خوبصورت حالت میں رہی جبکہ اِس سے ملحقہ علاقوں کے رہائشیوں اُور تاجروں نے صفائی ستھرائی سے لیکر سہولیات کی حفاظت تک تعاون بھی کیا لیکن یہ جذبات وقت کے ساتھ تحلیل ہوتے گئے۔ سیاحوں کے لئے سیاحتی راہداری کے مختلف مقامات پر بیٹھنے کے لئے لکڑی کی بنی ہوئی تپائیاں (benches) نصب کی گئیں لیکن جس شہر میں نالے نالیوں پر رکھے ڈھکن چوری ہو جاتے ہوں‘ وہاں بیش قیمت قطار در قطار بجلی کے کھمبے اُور لکڑی کے بینچ کیسے محفوظ رہ سکتے تھے۔ وہی ہوا کہ جس کا اندیشہ تھا۔ سب سے پہلے ثقافتی راہداری سے ملحقہ دکانداروں نے تجاوزات قائم کیں۔ اِس کے بعد عام گاڑیوں (ٹریفک) کے لئے ممنوع اُور بعدازاں یک طرفہ قرار دیئے جانے سے رہی سہی کسر نکل گئی اُور سینکڑوں کی تعداد میں آٹو رکشہ‘ گاڑیاں اُور موٹرسائیکلوں کی پارکنگ سے پیدل چلنا تک دشوار ہو گیا۔

 گھنٹہ گھر کے مقام پر مچھلی منڈی سے بدبو‘ کیچڑ اُور پانی سے بچ بچا کر گزرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں جن کا واسطہ پڑے۔ ذہن نشین رہے کہ بازار کلاں سے گھنٹہ گھر تک ثقافتی راہداری بنانے کا تصور (آئیڈیا) 6 فروری 2016ءکے روز ’سرحد کنورسیشن نیٹ ورک‘ کے زیراہتمام ”ہماری ثقافت بچاؤ(Save Our Heritage“ کے عنوان سے منعقدہ نشست میں سامنے آیا تھا جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور (ریاض محسود) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تاریخی و ثقافتی اہمیت کی حامل عمارتوں و مقامات کے تحفظ کے لئے ’دفعہ 144‘ نافذ کریں۔ یہ مطالبہ اِس لئے اہم تھا کہ کیونکہ پشاور کے تاریخی و ثقافتی عہد و فن تعمیر کی نشانیوں میں سے بھی درجنوں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ دن دیہاڑے ہونے والے اِس ناقابل تلافی نقصان کے بارے ضلعی انتظامیہ کی سردمہری اُور کاغذی کاروائیاں قابل مذمت و افسوس ہیں‘ جن کی اصلاح پشاور شہر سے تعلق رکھنے والے کسی (مقامی) شخص کو ’کمشنر‘ یا ’ڈپٹی کمشنر‘ مقرر کر کے ممکن ہے۔ کیا پشاور شہر سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک بھی ایسا اہل شخص نہیں جسے یہاں کی تاریخ و ثقافت کی حفاظت کے لئے حکومتی وسائل استعمال کرنے کا اختیار دیا جا سکے۔

”اک مجسم خشک سالی خود ہماری ذات ہے .... ضد ہماری ہستیوں کی اَبر ہے‘ برسات ہے (جوش ملیح آبادی)۔“

....


1 comment:

  1. Coin Casino | Best Bitcoin Casino Bonuses - CasinoWow
    The Coin Casino Review. No 바카라 deposit, no 인카지노 wagering 메리트 카지노 requirement, no bonuses, no deposit bonuses, Coin Casino offers $50 daily cash on signup bonus to help you

    ReplyDelete