ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تحریک اِنصاف بمقابلہ تحریک اِنصاف
خیبرپختونخوا کی تاریخ میں سب سے زیادہ اُور دنیا کی بہترین قانون سازی کس کے دور حکومت میں ہوئی؟ سرکاری سرپرستی میں اِدارہ جاتی اِصلاحات‘ بے مثل و بے مثال ترقیاتی ترجیحات اُور صحت و تعلیم جیسے شعبوں کی بہتری کے لئے سب سے زیادہ سالانہ مالی وسائل کس سیاسی جماعت نے مختص کئے؟ لیکن قومی و صوبائی سطح پر مختلف محاذوں پر ڈٹ کر مالی و انتظامی ’بدعنوانیوں‘ کا مقابلہ کرنے والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی قیادت سے ’تنظیمی ڈھانچے‘ کی مضبوطی جیسا اہم پہلو مسلسل نظرانداز رہا ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں تحریک کی صفوں میں ’مثالی نظم وضبط‘ دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ رہی ہے کہ تحریک انصاف کے ’اچھے (تعمیری) کاموں کا گلی گلی چرچا نہیں ہو سکا جبکہ سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی صفوں میں پائے جانے والے اِختلافات کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں سب سے ’عمدہ مثال‘ ضلع ایبٹ آباد کی دی جاسکتی ہے جہاں ’جولائی دوہزارپندرہ‘ میں ہوئے بلدیاتی اِنتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف اب تک ’ضلعی حکومت‘ بنانے میں ناکام رہی ہے اُور بنی گالہ سے نامزد ضلعی ناظم (علی خان جدون) کے خلاف تحریک کے اپنے ہی کارکنوں کی بغاوت کے سبب معاملہ الیکشن کمیشن سے ہوتے ہوئے عدالت اُور عدالت سے ہوتے ہوئے دوبارہ الیکشن کمیشن جا پہنچا‘ جہاں ’پارٹی ڈسپلن‘ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ’ڈی سیٹ‘ کردیا گیا اُور اِس سارے قضیے میں قیمتی دو برس ضائع ہوگئے۔
منحرف اَراکین کی ضلعی اسمبلی رکنیت ختم ہونے کے بعد تین نشستوں پر رواں ماہ (مارچ دوہزاراٹھارہ) ضمنی انتخاب ہوا تو (ایبٹ آباد کے شہری علاقوں پر مشتمل دو نشستوں پر) تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ ’باوجود اِختلافات اور داخلی سازشوں کے‘ اب بھی‘ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام اور طول و عرض میں تحریک انصاف ہی کا سکہ چلتا ہے۔‘ لیکن منظرنامہ تبدیل نہ ہوا۔ آج بھی ضلع ایبٹ آباد میں ’تحریک اِنصاف بمقابلہ تحریک اِنصاف‘ دکھائی دیتی ہے!
چھبیس مارچ کے روز عمران خان نے ’رکن سازی مہم‘ کے سلسلے میں ایبٹ آباد کا ایک روزہ مختصر دورہ کیا اُور اِس موقع پر دو الگ الگ مقامات پر‘ کارکنوں کے دو الگ دھڑوں کی جانب سے لگائے گئے ’رکن سازی کیمپوں‘ میں خطاب کرتے ہوئے ’نظم و ضبط‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ ’’موقع‘ محل اُور وقت‘ باتوں اور تلقین کا نہیں رہا بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا ہے۔ عمران خان کے پاس ’اصلاح احوال‘ کے دو راستے (آپشنز) اب بھی موجودہ ہیں۔ پہلا آپشن یہ کہ وہ اپنے ’ایبٹ آباد‘ دورے کو اِس بات سے مشروط کر دیتے کہ جب تک پارٹی کے مقامی رہنما اور کارکن بناء ’پارٹی کی مرکزی یا صوبائی مداخلت‘ اپنے اختلافات (رنجشیں) آپس میں مل بیٹھ کر ختم نہیں کر لیتے اُس وقت تک وہ ایبٹ آباد کا دورہ نہیں کریں گے‘ تب تک رکن سازی مہم ملتوی کی جاسکتی تھی لیکن عمران خان نے دو الگ الگ مقامات پر الگ الگ کیمپوں میں شرکت اور ایک ہی شہر میں چند گز کے فاصلے پر اپنی ہی جماعت کے کارکنوں کے الگ الگ اجتماعات سے خطاب کرکے درحقیقت یہ تاثر دیا ہے کہ اُنہیں (بشمول تحریک کی مرکزی قیادت) کو ایبٹ آباد میں ’دھڑے بندیوں‘ سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ ’فرق پڑتا ہے۔‘
آئندہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں (نامزدگیوں) کو بھی تنظیمی نظم و ضبط سے مشروط کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے پاس دوسرا آپشن ہے کہ اگر مقامی رہنما اور کارکن اختلافات ختم کرنے میں ’باوجود کوشش‘ بھی (کسی ڈیڈ لائن تک) کامیاب نہیں ہوتے تو پھر بلحاظ پارٹی سربراہ ’ایگزیکٹو آرڈر‘ سے وہ دونوں دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کا حکم دیں۔ جس دھڑے کے رہنما اور کارکن حکم عدولی کریں‘ اُن کی ’بنیادی پارٹی رکنیت‘ معطل کر دی جائے تاوقتیکہ وہ (توبہ تائب ہو کر) پارٹی کے نظم و ضبط پر سرتسلیم خم نہیں کر لیتے یوں مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے لیکن عمران خان نے اِن دونوں اور دیگر ممکنہ طریقوں (آپشنز) کو درخوراعتناء (لائق توجہ یا قابل عمل) نہیں سمجھا! جس سے اُن بے لوث کارکنوں کی بڑی تعداد میں مایوسی پائی جاتی ہے‘ جو تحریک انصاف کو تبدیلی کا علمبردار سمجھتے ہیں اور تحریک انصاف ’نئے پاکستان کی تشکیل‘ کے لئے اُن کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ ضلع ایبٹ آباد کے شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں طور پر دھڑے بندیوں میں تقسیم ’تحریک انصاف‘ کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ خود تحریک انصاف ہی ہے جو موجودہ ’کمزور ترین تنظیمی ڈھانچے‘ کے ساتھ اگر عام انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اِس کا ووٹ بینک تقسیم ہو جائے گا اور اِس حقیقت کا دانستہ انکار کرنا خود فریبی کی انتہاء ہوگی۔
ٹوئیٹر (twitter) (سوشل میڈیا اکاؤنٹ @peshavar) کے ذریعے ’پانچ سوالات‘ پوچھے گئے تاکہ اِس نتیجے پر پہنچا جائے کہ ایبٹ آباد اور اندرون و بیرون ملک مقیم ’تحریک انصاف‘ کے کارکن‘ تجزیہ کار اور فیصلہ ساز اِس صورتحال (منظرنامے) کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں!
پہلا سوال: مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہی کسی سیاسی جماعت کی انتخابی و سیاسی کامیابی کی ضمانت اُور اثاثہ ہوتا ہے؟ 92 فیصد نے کہا ’ہاں‘ جبکہ 8 فیصد نے ’نہیں‘ میں جواب دیا۔
دوسرا سوال: پاکستان تحریک انصاف ضلع ایبٹ آباد کے داخلی اختلافات اور تنظیمی کمزوریوں کا بنیادی محرک کیا ہے؟ 25فیصد نے نسل پرستی‘ 25 فیصد نے سرمایہ دارانہ آمرانہ سوچ‘ 38فیصد نے بنی گالہ کی عدم دلچپسی اور 12 فیصد نے کہا کہ اُنہیں ایبٹ آباد کے تنظیمی ڈھانچے میں اختلافات اور اِس کی شدت کے بارے میں حقائق معلوم نہیں۔
تیسرا سوال کارکنوں کے باہمی اختلافات سے سیاسی فائدہ اُٹھانے والی سیاسی جماعت سے متعلق تھا تو 75 فیصد کارکنوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ نواز‘ اُور ’17 فیصد‘ نے کہا کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریوں (خلاء) کا فائدہ اُٹھا رہی ہے جبکہ ’8 فیصد‘ نے کہا کہ اُنہیں برسرزمین حقائق کا علم نہیں۔
چوتھا سوال دھڑے بندیوں کے ’رُکن سازی مہم‘ پر منفی اَثرات سے متعلق پوچھا گیا جس کے جواب میں ’13فیصد‘ نے اِسے ’جاری رکن سازی مہم‘ کے لئے خطرہ قرار دیا۔ 60فیصد نے کہا اِس سے فرق نہیں پڑے گا جبکہ 27فیصد نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے معذرت کی۔
پانچواں اور آخری سوال آئندہ عام انتخابات سے متعلق تھا جس سے قبل ’تحریک انصاف‘ ضلع ایبٹ آباد کے کارکنوں کی دھڑے بندیاں بہرصورت ختم ہونی چاہیءں؟ اِس سوال کا جواب (حسب توقع) بالکل واضح سامنے آیا۔ ’92 فیصد‘ کارکنوں نے تائید کی کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ’دھڑے بندیاں ’بہرصورت‘ ختم ہونی چاہیئں۔‘
اِصلاحاتی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں اعدادوشمار بھلے ہی ’تحریک انصاف‘ کے حق میں ہوں لیکن اگر ایبٹ آباد سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی تنظیموں میں در آئی خرابی اور غیردانشمند خیرخواہ اپنے قول و فعل کی حسب ضرورت اصلاح کرتے ہوئے اپنے اپنے مؤقف سے رجوع نہیں کرتے‘ اپنی ذات اُور اَنا کی قربانی نہیں دیتے تو اِس سے ’تحریک اِنصاف‘ کی صفوں میں پایا جانے والا انتشار‘ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی (آئندہ انتخابی کامیابیوں) پر حاوی و طاری رہے گا۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-28 |