Wednesday, March 28, 2018

Mar 2018: The PTI vs PTI in District Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تحریک اِنصاف بمقابلہ تحریک اِنصاف
خیبرپختونخوا کی تاریخ میں سب سے زیادہ اُور دنیا کی بہترین قانون سازی کس کے دور حکومت میں ہوئی؟ سرکاری سرپرستی میں اِدارہ جاتی اِصلاحات‘ بے مثل و بے مثال ترقیاتی ترجیحات اُور صحت و تعلیم جیسے شعبوں کی بہتری کے لئے سب سے زیادہ سالانہ مالی وسائل کس سیاسی جماعت نے مختص کئے؟ لیکن قومی و صوبائی سطح پر مختلف محاذوں پر ڈٹ کر مالی و انتظامی ’بدعنوانیوں‘ کا مقابلہ کرنے والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی قیادت سے ’تنظیمی ڈھانچے‘ کی مضبوطی جیسا اہم پہلو مسلسل نظرانداز رہا ہے جس کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں تحریک کی صفوں میں ’مثالی نظم وضبط‘ دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ رہی ہے کہ تحریک انصاف کے ’اچھے (تعمیری) کاموں کا گلی گلی چرچا نہیں ہو سکا جبکہ سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی صفوں میں پائے جانے والے اِختلافات کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں سب سے ’عمدہ مثال‘ ضلع ایبٹ آباد کی دی جاسکتی ہے جہاں ’جولائی دوہزارپندرہ‘ میں ہوئے بلدیاتی اِنتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بھی تحریک انصاف اب تک ’ضلعی حکومت‘ بنانے میں ناکام رہی ہے اُور بنی گالہ سے نامزد ضلعی ناظم (علی خان جدون) کے خلاف تحریک کے اپنے ہی کارکنوں کی بغاوت کے سبب معاملہ الیکشن کمیشن سے ہوتے ہوئے عدالت اُور عدالت سے ہوتے ہوئے دوبارہ الیکشن کمیشن جا پہنچا‘ جہاں ’پارٹی ڈسپلن‘ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ’ڈی سیٹ‘ کردیا گیا اُور اِس سارے قضیے میں قیمتی دو برس ضائع ہوگئے۔ 

منحرف اَراکین کی ضلعی اسمبلی رکنیت ختم ہونے کے بعد تین نشستوں پر رواں ماہ (مارچ دوہزاراٹھارہ) ضمنی انتخاب ہوا تو (ایبٹ آباد کے شہری علاقوں پر مشتمل دو نشستوں پر) تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں نے کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا کہ ’باوجود اِختلافات اور داخلی سازشوں کے‘ اب بھی‘ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام اور طول و عرض میں تحریک انصاف ہی کا سکہ چلتا ہے۔‘ لیکن منظرنامہ تبدیل نہ ہوا۔ آج بھی ضلع ایبٹ آباد میں ’تحریک اِنصاف بمقابلہ تحریک اِنصاف‘ دکھائی دیتی ہے!

چھبیس مارچ کے روز عمران خان نے ’رکن سازی مہم‘ کے سلسلے میں ایبٹ آباد کا ایک روزہ مختصر دورہ کیا اُور اِس موقع پر دو الگ الگ مقامات پر‘ کارکنوں کے دو الگ دھڑوں کی جانب سے لگائے گئے ’رکن سازی کیمپوں‘ میں خطاب کرتے ہوئے ’نظم و ضبط‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ ’’موقع‘ محل اُور وقت‘ باتوں اور تلقین کا نہیں رہا بلکہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا ہے۔ عمران خان کے پاس ’اصلاح احوال‘ کے دو راستے (آپشنز) اب بھی موجودہ ہیں۔ پہلا آپشن یہ کہ وہ اپنے ’ایبٹ آباد‘ دورے کو اِس بات سے مشروط کر دیتے کہ جب تک پارٹی کے مقامی رہنما اور کارکن بناء ’پارٹی کی مرکزی یا صوبائی مداخلت‘ اپنے اختلافات (رنجشیں) آپس میں مل بیٹھ کر ختم نہیں کر لیتے اُس وقت تک وہ ایبٹ آباد کا دورہ نہیں کریں گے‘ تب تک رکن سازی مہم ملتوی کی جاسکتی تھی لیکن عمران خان نے دو الگ الگ مقامات پر الگ الگ کیمپوں میں شرکت اور ایک ہی شہر میں چند گز کے فاصلے پر اپنی ہی جماعت کے کارکنوں کے الگ الگ اجتماعات سے خطاب کرکے درحقیقت یہ تاثر دیا ہے کہ اُنہیں (بشمول تحریک کی مرکزی قیادت) کو ایبٹ آباد میں ’دھڑے بندیوں‘ سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ ’فرق پڑتا ہے۔‘ 

آئندہ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں (نامزدگیوں) کو بھی تنظیمی نظم و ضبط سے مشروط کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے پاس دوسرا آپشن ہے کہ اگر مقامی رہنما اور کارکن اختلافات ختم کرنے میں ’باوجود کوشش‘ بھی (کسی ڈیڈ لائن تک) کامیاب نہیں ہوتے تو پھر بلحاظ پارٹی سربراہ ’ایگزیکٹو آرڈر‘ سے وہ دونوں دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کا حکم دیں۔ جس دھڑے کے رہنما اور کارکن حکم عدولی کریں‘ اُن کی ’بنیادی پارٹی رکنیت‘ معطل کر دی جائے تاوقتیکہ وہ (توبہ تائب ہو کر) پارٹی کے نظم و ضبط پر سرتسلیم خم نہیں کر لیتے یوں مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو سکتا ہے لیکن عمران خان نے اِن دونوں اور دیگر ممکنہ طریقوں (آپشنز) کو درخوراعتناء (لائق توجہ یا قابل عمل) نہیں سمجھا! جس سے اُن بے لوث کارکنوں کی بڑی تعداد میں مایوسی پائی جاتی ہے‘ جو تحریک انصاف کو تبدیلی کا علمبردار سمجھتے ہیں اور تحریک انصاف ’نئے پاکستان کی تشکیل‘ کے لئے اُن کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ ضلع ایبٹ آباد کے شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں طور پر دھڑے بندیوں میں تقسیم ’تحریک انصاف‘ کو اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ خود تحریک انصاف ہی ہے جو موجودہ ’کمزور ترین تنظیمی ڈھانچے‘ کے ساتھ اگر عام انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو اِس کا ووٹ بینک تقسیم ہو جائے گا اور اِس حقیقت کا دانستہ انکار کرنا خود فریبی کی انتہاء ہوگی۔

ٹوئیٹر (twitter) (سوشل میڈیا اکاؤنٹ @peshavar) کے ذریعے ’پانچ سوالات‘ پوچھے گئے تاکہ اِس نتیجے پر پہنچا جائے کہ ایبٹ آباد اور اندرون و بیرون ملک مقیم ’تحریک انصاف‘ کے کارکن‘ تجزیہ کار اور فیصلہ ساز اِس صورتحال (منظرنامے) کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں! 

پہلا سوال: مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہی کسی سیاسی جماعت کی انتخابی و سیاسی کامیابی کی ضمانت اُور اثاثہ ہوتا ہے؟ 92 فیصد نے کہا ’ہاں‘ جبکہ 8 فیصد نے ’نہیں‘ میں جواب دیا۔ 

دوسرا سوال: پاکستان تحریک انصاف ضلع ایبٹ آباد کے داخلی اختلافات اور تنظیمی کمزوریوں کا بنیادی محرک کیا ہے؟ 25فیصد نے نسل پرستی‘ 25 فیصد نے سرمایہ دارانہ آمرانہ سوچ‘ 38فیصد نے بنی گالہ کی عدم دلچپسی اور 12 فیصد نے کہا کہ اُنہیں ایبٹ آباد کے تنظیمی ڈھانچے میں اختلافات اور اِس کی شدت کے بارے میں حقائق معلوم نہیں۔ 

تیسرا سوال کارکنوں کے باہمی اختلافات سے سیاسی فائدہ اُٹھانے والی سیاسی جماعت سے متعلق تھا تو 75 فیصد کارکنوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ نواز‘ اُور ’17 فیصد‘ نے کہا کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریوں (خلاء) کا فائدہ اُٹھا رہی ہے جبکہ ’8 فیصد‘ نے کہا کہ اُنہیں برسرزمین حقائق کا علم نہیں۔ 

چوتھا سوال دھڑے بندیوں کے ’رُکن سازی مہم‘ پر منفی اَثرات سے متعلق پوچھا گیا جس کے جواب میں ’13فیصد‘ نے اِسے ’جاری رکن سازی مہم‘ کے لئے خطرہ قرار دیا۔ 60فیصد نے کہا اِس سے فرق نہیں پڑے گا جبکہ 27فیصد نے کسی بھی قسم کی رائے دینے سے معذرت کی۔ 

پانچواں اور آخری سوال آئندہ عام انتخابات سے متعلق تھا جس سے قبل ’تحریک انصاف‘ ضلع ایبٹ آباد کے کارکنوں کی دھڑے بندیاں بہرصورت ختم ہونی چاہیءں؟ اِس سوال کا جواب (حسب توقع) بالکل واضح سامنے آیا۔ ’92 فیصد‘ کارکنوں نے تائید کی کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ’دھڑے بندیاں ’بہرصورت‘ ختم ہونی چاہیئں۔‘ 

اِصلاحاتی منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں اعدادوشمار بھلے ہی ’تحریک انصاف‘ کے حق میں ہوں لیکن اگر ایبٹ آباد سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی تنظیموں میں در آئی خرابی اور غیردانشمند خیرخواہ اپنے قول و فعل کی حسب ضرورت اصلاح کرتے ہوئے اپنے اپنے مؤقف سے رجوع نہیں کرتے‘ اپنی ذات اُور اَنا کی قربانی نہیں دیتے تو اِس سے ’تحریک اِنصاف‘ کی صفوں میں پایا جانے والا انتشار‘ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی (آئندہ انتخابی کامیابیوں) پر حاوی و طاری رہے گا۔
۔

http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-28

Mar 2018: The case of Village Majohan of UC Nambal, Abbottabad

مہمان کالم
مجہوہاں: محروم توجہ!
یونین کونسل نمبل کا گاؤں ’مجہوہاں (Majohan)‘ موجودہ انتخابی حلقہ بندیوں کے مطابق صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’PK-45‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’NA-17‘ کا حصہ ہے۔ عام انتخابات کے دوران ’مجوہاں‘ کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر قریب چھ ہزار ووٹ پول ہوتے ہیں جبکہ گاؤں کی مجموعی آبادی بارہ ہزار نفوس سے زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے اِس گاؤں کے رہنے والوں کو معمولی علاج معالجے کے لئے متصل ’آزاد کشمیر‘ جانا پڑتا ہے۔ 

ہنگامی حالات میں کسی مریض کو ’مجہوہاں‘ سے ’مظفرآباد (کشمیر) تک ’خصوصی گاڑی (اسپیشل ٹرانسپورٹ)‘ میں ہسپتال منتقل کرنا پڑتا ہے جس کا یک طرفہ کم سے کم کرایہ تین ہزار روپے ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ نمبل میں ہسپتال چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن وہاں علاج کی سہولیات معیاری نہیں اور نمبل ہسپتال پہنچنے والے اکثر مریضوں کو مظفرآباد ’ریفر‘ کر دیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ مقامی اَفراد ڈاکٹروں کے اِس مشورے سے قبل ہی مظفرآباد کا رُخ کرتے ہیں تاکہ پہلے نمبل اور بعدازاں مظفرآباد جانے سے بہتر ہے کہ خود ہی مظفرآباد کی راہ لی جائے۔

فوج کی ’ایف ایف یونٹ‘ سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لینے والے ’’عظیم خان عباسی‘‘ المعروف ’فوجی‘ گاؤں مجہوہاں کے سماجی کارکن ہیں جن کی اہلیہ ’شرین بی بی‘ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی خاتون کونسلر کے طور پر الگ شناخت رکھتی ہیں۔ دو بیٹوں (عثمان و احسان) اور بیٹی (فروا عظیم عباسی) کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں نبھاتے دونوں میاں بیوی ’مجہوہاں‘ کے مسائل کے حل کے لئے اکثر ایبٹ آباد میں درخواست گزار پائے جاتے ہیں۔ اہل گاؤں کی غربت اور مسائل کی شدت سے بے چین یہ دونوں نفوس انتہائی حساس ہیں اُور ہر اُس در پر دستک دینے میں عار محسوس نہیں کرتے‘ جہاں سے اجتماعی بہبود کے منصوبوں کے لئے کچھ ملنے کی اُمید ہو۔ 

منتخب اراکین اسمبلی کی توجہ انتخابی وعدوں کو ایفاء کرنے کی جانب مبذول کروانے کی ہر کوشش اگرچہ (ابتک) رائیگاں گئی ہے لیکن آئندہ عام انتخابات کے قریب آنے پر اہل مجہوہاں پراُمید ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت اپنی آئینی مدت کے آخری چند ماہ کے دوران ’یونین کونسل نمبل‘ اور بالخصوص ’مجہوہاں‘ کے لئے ’خصوصی ترقیاتی پیکج‘ کا اعلان کرے گی۔ 

مجہوہاں کے جذباتی نوجوان تحریک انصاف سے ہزار اختلافات کے باوجود بھی اِس کا حصہ ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ اُن غیرمتزلزل اور غیرمشروط سیاسی حمایت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

اُمیدوں کا سفر ’’مجہوہاں سے ایبٹ آباد‘‘ تک مسلسل ہے۔ قریب تین گھنٹے کی اِس سفری مسافت طے کرنے کے لئے دو گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں اُور یک طرفہ ’ڈھائی سو روپے‘ کرایہ (نقد) اَدا کرنا پڑتا ہے۔ ’مجہوہاں‘ میں پینے کے صاف پانی کی قلت‘ سڑکوں کی خراب حالت‘ طالبات کے لئے مڈل و ہائی سکول‘ طلباء کے لئے کمپیوٹر اور فنی تعلیم کی درسگاہ اُور علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے جیسے مسائل حل طلب ہیں! تصور کیجئے کہ بالائی ایبٹ آباد کی ’’8 یونین کونسلوں‘‘ پر مشتمل ’سرکل بکوٹ‘ پسماندگی کی تصویر ہے! حال ہی میں یونین کونسل ’’کرلی (Kurli)‘‘ میں خیبرپختونخوا حکومت نے ’ڈسپنسری‘ قائم کرنے کی اصولی منظوری دی ہے جبکہ (ویلیج کونسل) ’کرلی‘ کی آبادی ’مجہوہاں‘ سے کم ہے لیکن اعلیٰ ظرف اہل مجہوہاں سمجھتے ہیں کہ ’’اگرچہ حق تلفی ہوئی ہے جس کی تلافی ممکن ہے۔‘‘ عظیم عباسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’مجہوہاں کا حق تھا کہ اُسے ڈسپنسری دی جاتی لیکن یہ حق کسی دوسرے کی حق تلفی یا ترجیح کی صورت نہیں چاہئے۔‘‘ افسوس کا مقام ہے کہ یونین کونسل نمبل سمیت سرکل بکوٹ کے درجنوں ایسے دیہات جن میں مجہوہاں سے متصل ’ترہیٹی (گاؤں) بھی شامل ہے جہاں علاج معالجے کی بنیادی تو کیا ابتدائی سہولیات تک میسر نہیں اور اہل علاقہ معمولی بیماریوں کے لئے جمع پونجی کا بڑا حصہ مجبوراً خرچ کر رہے ہیں۔ عظیم عباسی ایک کھلے دل کے انسان ہیں جو اپنے گاؤں (مجہوہاں) میں ڈسپنسری کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اُن کے گاؤں سے زیادہ مستحق دیہی علاقوں کی ضروریات کا سروے کیا جائے اور ترقی کا عمل مربوط کیا جائے جس سے مقامی افراد کی محرومیاں ختم ہوں نہ کہ ترقیاتی عمل سے محرومیوں میں اضافہ ہو۔ 

سرکل بکوٹ میں شاہراؤں کا ’نیٹ ورک‘ مثالی نہیں بالخصوص دور دراز دیہات نظر انداز ہیں جہاں علاج معالجے کی سہولیات کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ ’مجہوہاں‘ پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ ہے۔ 

’مئی دوہزار تیرہ‘ کے عام انتخابات میں مجہوہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون اور عبدالرحمان عباسی کامیاب رہے۔ بعدازاں ضمنی انتخاب کے موقع پر بھی تحریک انصاف ہی کے نامزد ’علی اصغر خان‘ کو مسلم لیگ نواز کے ’فرید خان‘ نامزد اُمیدوار فرید خان پر ترجیح دی گئی۔ علی اصغر غیر مقامی تھے اِس لئے مجموعی طور پر ’ضمنی انتخابی معرکہ‘ نہ جیت سکے لیکن مجہوہاں گاؤں کی تحریک انصاف کے ساتھ وفاداریوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ حسب سابق ضمنی انتخاب میں بھی ’اِہل مجہوہاں‘ کی اکثریت نے ’تحریک انصاف‘ ہی کے حق میں ووٹ دے کر عمران خان سے اپنی دلی محبت کا عملی ثبوت دیا لیکن اَفسوس کہ توقعات کے برعکس ’مجہوہاں کی خاطرخواہ قدر نہیں کی گئی!‘

ضلع ایبٹ آباد میں ’تحریک انصاف‘ کا تنظیمی ڈھانچہ باہمی اختلافات کی وجہ سے کمزور ہے۔ چھبیس مارچ (دوہزار اٹھارہ) کے روز چیئرمین عمران خان نے ’رکن سازی مہم‘ کے سلسلے میں ایبٹ آباد کا ایک روزہ مختصر دورہ کیا اور اِس موقع پر کارکنوں کے دو الگ الگ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے باہمی اختلافات ختم کرنے کی تلقین فرمائی لیکن اگر وہ اپنی موجودگی کے باوجود بھی کارکنوں کے اختلافات ختم نہیں کر سکے تو پھر اُن کی عدم موجودگی میں کیونکر ممکن ہوگا کہ کارکن زیادہ بڑے مقصد کے لئے باہم شیروشکر ہو جائیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت (بنی گالہ) کو سمجھنا ہوگا کہ صوبائی حکومت ضلع ایبٹ آباد کے بالائی علاقوں میں حسب ضرورت تعمیروترقی اور سہولیات کی فراہمی نہیں کر پائی ہے۔ 

بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ بالائی ایبٹ آباد کے بہت سے ایسے دیہی علاقے ہیں جہاں بہتری کے لئے عملی کوشش دیکھنے میں نہیں آئیں۔ 

’اہل مجہوہاں‘ سمیت سرکل بکوٹ کی جنت نظیر وادیوں میں رہنے والے ’تحریک انصاف‘ کے کارکنوں کو جہاں ’مضبوط تنظیمی ڈھانچے‘ کی ضرورت ہے وہیں صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور رابطہ شاہراؤں کی تعمیر و توسیع سے اِس علاقے کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ سیاحت کے وسیع اِمکانات سے مالامال بالائی ایبٹ آباد کے دیہی علاقے ’ترقیاتی توجہ‘ کے مستحق ہیں۔ ’’زندگی ہم سے تو اِس درجہ تغافل نہ برت ۔۔۔ ہم بھی شامل تھے‘ ترے چاہنے والوں میں کبھی (سلمان اختر)۔‘‘
۔۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-28

Tuesday, March 27, 2018

Mar 2018: Education in KP. The pending HOMEWORK!

مہمان کالم
اجتماعی دانش کا امتحان!
درس و تدریس کے فروغ کے لئے کام کر رہی غیرسرکاری تنظیم ’الف اعلان‘ صوبوں کے درمیان ’تعلیمی معیار کی درجہ بندی‘ ہر سال جاری کرتی ہے‘ جس کا مقصد فیصلہ سازوں کو آئینہ دکھانے کے علاؤہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صوبے ایک دوسرے سے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں اُور جو شعبے نظرانداز ہیں اُن کی بہتری کی جانب توجہ دی جائے۔

سال دوہزار سترہ کی درجہ بندی کے مطابق خیبر پختونخوا پانچویں درجے پر ہے۔ تعلیمی معیار اور سہولیات کے حوالے سے ’’پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ملک کے چاروں صوبوں‘ اِسلام آباد‘ قبائلی علاقہ جات (فاٹا)‘ کشمیر اُور گلگت بلتستان کی ضلعی تعلیمی درجہ بندی کی گئی ہے اور ملک کے 141اضلاع کی فہرست میں ضلع ہری پور (خیبرپختونخوا) پہلے نمبر پر جبکہ پاکستان میں تعلیم کے لحاظ سے 10بہترین اضلاع میں سے صوبہ پنجاب کے پانچ‘ آزاد کشمیر کے چار اور خیبر پختونخوا کا ایک ضلع شامل ہے۔ پاکستان میں اگر حکومت کی زیرنگرانی ’’تعلیمی نظام‘‘ کی بات کی جائے تو پہلے نمبر پر آزاد کشمیر‘ دوسرے پر اسلام آباد‘ تیسرے پر پنجاب جبکہ چوتھے نمبر پر گلگت بلتستان ہیں‘ جہاں سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم اور نظم و ضبط بتدریج بہتر ہے۔ اس درجہ بندی میں خیبرپختونخوا پانچویں اور بلوچستان چھٹے نمبر پر ہے جبکہ تعلیم کے ناقص نظام کی وجہ سے سندھ اُور فاٹا سب سے پیچھے ہیں۔ البتہ پرائمری سکولوں کی عمارتیں اور وہاں سہولیات کی فراہمی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا سب پر سبقت لے گیا ہے اُور پہلے دس اضلاع میں سے بہترین پرائمری سکولوں کے لحاظ سے ’9 اضلاع‘ کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ مڈل درجے کے سکولوں کی عمارتیں اور تدریسی سہولیات میں صوبہ پنجاب دیگر صوبوں سے آگے ہے۔

رواں برس (دوہزار اٹھارہ) کی درجہ بندی میں زیادہ بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے انقلابی اقدام متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے پرائمری اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی اِداروں کی نہ صرف عمارتیں بہتر بنائی جائیں گی بلکہ درسگاہوں سے بہتر تدریسی نتائج حاصل کرنے کے لئے نصاب کی تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے‘ کلاس رومز میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور سکولوں میں بہترین و سازگار ماحول یقینی بنانے کے لئے ’سکول کوالٹی مینجمنٹ انیشی اٹیو‘ کے نام سے حکمت عملی مرتب کے تحت سکولوں کے معائنے کا عمل پہلے سے زیادہ سخت اور بہتر بنایا جائے گا۔ مذکورہ منصوبہ معلم اُور نگران معلم (ہیڈماسٹر) کو تعلیمی نظام‘ نگرانی‘ تشخیص اور سیکھنے کے ماحول کے حوالے سے رائے بھی فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے گزشتہ پانچ برس میں تیس ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر چکی ہے‘ یہ رقم سرکاری سکولوں میں کمرے بنانے‘ چاردیواریوں اور عمارتوں کی تعمیر‘ بجلی کی فراہمی‘ بیت الخلاء‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کی گئی ہیں۔

’’الف اعلان‘‘ کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے سرکاری سکولوں کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالی وسائل خرچ کئے لیکن تعلیم کے معیار میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا پنجاب اور سندھ سے پیچھے ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت پانچ سو ’’اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز‘‘ کو سمارٹ (انڈرائیڈ) موبائل فون فراہم کئے جائیں گے‘ جو اپنے متعلقہ علاقے میں موجود سرکاری سکولوں کا دورہ کرکے طلباء و طالبات‘ اساتذہ اور کلاس رومز سے متعلق معلومات (ڈیٹا) جمع کریں گے۔ متعلقہ اہلکاروں کو پہلے ہی موبائل فون ایپلیکیشن کے استعمال کی تربیت دی جا چکی ہے تاکہ پرائمری اور ثانوی سکولوں کے بارے میں معلومات (ڈیٹا) باآسانی جمع اور بلاتاخیر مرکزی ڈیٹابیس میں منتقل کریں۔ پہلے مرحلے میں ’ایجوکیشن افسران‘ سکولوں میں انگریزی‘ اُردو اور حساب کے مضامین سے متعلق طلبہ کا ڈیٹا جمع کریں گے۔

نئی حکمت عملی کا آغاز ’’ضلع ایبٹ آباد‘‘سے تجرباتی بنیادوں پر شروع کیا گیا ہے‘ جسے بعدازاں دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی۔ منصوبے کو مڈل‘ ہائی اور ہائر سکینڈری سکولوں میں لانے کی تجویز بھی 
زیر غور ہے۔

خیبرپختونخوا کے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے پانچ سال تجربات کی نذر ہو گئے لیکن ماضی کی غلطیوں سے سبق پھر بھی نہیں حاصل کیا گیا۔ ضروریات معلوم تھیں لیکن غیرضروری اور نمائشی مقاصد کے لئے خطیر رقم معلومات (ڈیٹا) اکٹھا کرنے اور تشہیری ممہات پر خرچ کی گئی۔ اساتذہ کی تربیت برطانوی اِدارے ’برٹش کونسل‘ سے دلوائی گئی اور حسن اتفاق سے تربیت کے معیار اور نگرانی کے لئے ’برٹش کونسل‘ ہی کے سابق ملازمین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ تربیتی مواد کی اشاعت پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور جو تربیتی نصاب تشکیل دیا گیا‘ وہ نقل بمطابق اصل تھا۔ خیبرپختونخوا کے اساتذہ کو اپنے نصاب تعلیم اور اپنے حالات کے مطابق تربیت دینے کی بجائے غیرملکی نصاب اور تدریسی اصول سکھائے گئے جو ’’رات گئی بات گئی!‘‘ فراموش ہوتے چلے گئے۔ تربیت مکمل کرنے والوں نے اپنے اپنے اضلاع میں ہم عصر اساتذہ کی تربیت کرنا تھی لیکن یہ عمل بھی مکمل نہ ہو سکا جبکہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں دو ماہ سے کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا نفاذ خوش آئند تھا لیکن محض ہنگامی حالت کا اعلان اُور ہر کام کا اعزاز حاصل کرنے کی بجائے اگر ہر رکن صوبائی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقے میں سرکاری سکولوں کی کارکردگی اور کمی بیشی کی رپورٹ جمع کرانے کا کہا جاتا تو زیادہ تفصیلی اور کم خرچ میں معلومات حاصل ہو سکتیں تھیں۔ 

بلدیاتی نظام متعارف ہونے کے بعد ہر ایک ’ویلیج نیبرہڈ کونسل‘ کی سطح پر سرکاری سکولوں کے تدریسی معیار‘ اساتذہ کے حسن سلوک اُور اِمتحانی نتائج کی نگرانی زیادہ شفاف اَنداز میں ممکن تھی لیکن اگر اجتماعی دانش پر بھروسہ کیا جاتا۔ سینکڑوں کی تعداد میں قیمتی موبائل فونز کی خریداری اِس بات کی ضمانت نہیں ہوں گے کہ اِس سے سرکاری سکولوں کے اِمتحانی نتائج میں تبدیلی (بہتری) آئے گی۔ سیاسی فیصلہ سازوں سے ایسے ماہرین تعلیم سے چھٹکارہ پانا ہوگا‘ جو ٹیکنالوجی کا اَندھادھند اِستعمال تجویز کرتے ہیں۔ توجہ طلب اَمر یہ بھی ہے کہ جمہوریت کسی ایک شخص یا کسی ایک جماعت کی کارکردگی نہیں ہوتی بلکہ اِس ’ٹیم ورک‘ میں حزب اقتدار سے زیادہ حزب اختلاف کے اراکین فعال کردار ادا کرتے ہیں‘ اے کاش ہم اپنے فکروعمل کی اصلاح کرتے ہوئے اُس نظام کی اساس پر غور کریں‘ جو ’’جمہوریت‘‘ کہلاتا ہے اور جمہور (اجتماعی مفادات) کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ اِسی جمہوریت کا تعارف ایسا طرزحکمرانی بھی ہے‘ جس میں ’قومی خزانے‘ پر بوجھ ’کم سے کم‘ ہو۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-27

Tuesday, March 20, 2018

Mar 2018: Nouroz Alam Afrooz


شبیرحسین امام 

نوروز: عالم اَفروز!

نئے شمسی سال کا پہلا دن ’’نو روز (نیا دن)‘‘ ہر سال ’’21 مارچ‘ کے دن بطور ’تہوار ‘منایا جاتا ہے۔ جمہوری اسلامی ایران‘ افغانستان‘ وسط ایشیائی کی مسلمان ریاستوں میں سرکاری سطح پر جبکہ دنیا بھر میں ’’نوروز (نئے شمسی سال) کے موقع پر گرمجوش مبارکبادوں کا تبادلہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔ نوروز کا ایک حوالہ ’ایرانی تہذیب‘ ہے‘ جس میں پارسی مذہب کے لئے یہ دن عید جیسا مقدس ہے۔ اِیرانی کلینڈر میں ’ماۂ فروردین (farvardin)‘ کا پہلا دن ’نوروز‘ کے موقع پر (حرف ’سین‘ سے شروع ہونے والے) ’سات کھانوں ‘ کے ساتھ ’موسم بہار‘ کا آغاز بطور سرکاری تعطیل و جشن کئی روز تک منایا جاتا ہے۔ موسم بہار کے آغاز کا جشن اور اِس موقع پر شہروں سے باہر نکل کر اجتماعات (میلوں) کی روایت اِیران کے کاشتکاروں کی ہے‘ جسے ایرانی ’’حلول بہار‘‘ یعنی باطل پر کامیابی کی تشبیہ یعنی ’زندگی کی علامت‘ قرار دیتے ہیں۔ قدیم زمانے سے یہ عوامی جشن غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے مقبول رہا اور آج بھی ہے۔ ایران کے معروف دانشور‘ ریاضی داں اُور منجم ’’اَبو ریحانی‘‘ کے نزدیک نوروز خلقت کی پیدائش کا جشن ہے اور اِس سوچ کی ترغیب کا دن ہے کہ ’’پرانی چیزوں کو نئی چیزوں میں تبدیل کرکے خود کو آراستہ اُور روح کو تازگی عطا کی جائے۔‘‘ نئے شمسی سال کی تحویل اور بہار کے معتدل لمحات میں کیا ہم ماضی کی بجائے مستقبل کی طرف دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

’نوروز‘ کے موقع پر پاکستان کے سیاسی و سماجی حالات کے بارے میں پیشنگوئیاں بھی کی جاتی ہیں۔ ’نوروز (معتدل لمحات) اُور اِس موقع کی مناسبت کماحقہ سمجھتے ہوئے ’پرانی چیزوں کو نئی چیزوں سے تبدیل کرنے کی اہمیت سمجھی جائے‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ ’اِصلاح اَحوال‘ کا ہدف حاصل ہو۔ نئے شمسی سال میں عام انتخابات کا انعقاد بروقت نہیں ہو سکے گا اور اگر پاکستان اِس موقع پر اجتماعی شعور کا ثبوت دے تو عام انتخابات جب کبھی بھی ہوں ’’ذریعہ ووٹ سے تبدیلی لائی جا سکے گی۔‘‘ اگرچہ جنتری کے حساب سے نئے سال (21 مارچ سے 21مارچ دوہزار اُنیس) تک کا دورانیہ پاکستان کے لئے زیادہ خوشگوار نہیں لیکن شمسی سال کے بارہ مہینوں (فروردین‘ اربیہشت‘ خرداد‘ تیر‘ مرداد‘ شہریور‘ مہر‘ آبان‘ آذر‘ دی‘ بھمن اُور اسفند) کے لئے مثبت سوچ اُور اجتماعی بہبود کا کم سے کم ایک ایسا تصور تو پیش کیا ہی جا سکتا ہے جس پر پوری قوم کو متحد اور متفق کیا جاسکے۔ بدعنوانی سے پاک معاشرے کے قیام میں ’عہد اور تجدید عہد‘ کی خاص اہمیت ہوتی ہے اور پاکستان کے تناظر میں اِن دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے باشعور طبقات کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔


نوروز کا اسلامی حوالہ ’’18 ذی الحجہ سن 10ہجری بمطابق 21 مارچ 632 عیسوی‘‘ ہے‘ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے بعد ’غدیر خم (مکہ مکرمہ سے شمال مغرب میں قریب دوسوکلومیٹرز المعروف ’میقات اہل شام‘)‘ کے مقام پر خطبے میں امیرالمومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت و مولائیت کا ذکر کیا۔ 

اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد نوروز منانے کی الگ الگ وجوہات (جواز) ہیں البتہ ’دنیاوی تہذیب‘ کا جہاں کہیں سے بھی مطالعہ کیا جائے اُس میں ’’نوروز کی موجودگی‘‘ تازہ ہوا کے جھونکے جیسی ہے! شمسی کلینڈر ’بارہ سو نواسی ہجری‘ سے رائج ہے۔ نوروز کے حوالے سے کئی افسانوی کہانیاں بھی مشہور ہیں جو ایران کے قدیمی ادب کا حصہ ہیں‘ جیسا کہ شاہنامہ فردوسی اور تاریخ طبری وغیرہ میں ایسے حوالے موجود ہیں۔ ان کتابوں میں ’جمشید‘ اور ’گاہ کیومرث‘ کو نوروز کے بانیوں کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے۔ شاہنامہ میں لکھا ہے کہ ’’جمشید بادشاہ نے آذربائیجان سے گزرتے وقت حکم دیا تھا کہ اس کے لئے وہاں ایک تخت رکھا جائے اور خود اپنے سر پر ایک زرین تاج رکھ کر اس پر بیٹھ گیا اور سورج کی کرنیں جب اس پر پڑیں تو وہ روشنی پوری دنیا میں پھیل گئی جس کا جشن منانے والوں نے اسے ’’نوروز‘‘ (ایک نئے دن کی شروعات) کہا۔ 

حکیم عمر خیام نیشاپوری نے ’چار سواسی شمسی‘ بمطابق ’گیارہ سو ایک عیسوی‘ میں نوروز کے متعلق مضمون باندھا۔ دیگر شعرأ کی طرح خیام نے بھی نوروز کے بارے میں اشعار کہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ خیامؔ نے ’نوروز کو مرکزی نکتہ بناتے ہوئے (موت و زندگی کے بارے میں) فلسفیانہ اور عمیق رباعیات کہی ہیں۔ نوجوان نسل کو ’نوروز شناسی‘ کی طرح ’خیام شناسی‘ کی ضرورت ہے۔ 

عمر خیام بلامبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعر ہیں اور اُن کے فارسی کلام کو سب سے زیادہ اُردو میں ترجمہ ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ’ناسا‘ نے 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام‘ جبکہ 1980ء میں ایک سیارچے کا نام ’عمر خیام‘ سے منسوب رکھا گیا۔ یوجین اونیل‘ اگاتھا کرسٹی اور سٹیون کنگ جیسے مشہور ادیبوں نے اپنی کتابوں کے نام ’عمر خیام‘ کے اقتباسات پر رکھے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیام کو آج شاعر کی حیثیت سے جانا جاتا ہے لیکن اپنے دور اور بعد میں کئی صدیوں تک وہ نابغۂ روزگار عالم کی شہرت رکھتے تھے۔ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’شعر العجم‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خیام فلسفہ میں بو علی سینا کا ہم سر اور مذہبی علوم اور فن و ادب اور تاریخ میں امامِ فن تھا۔‘‘ جب کہ جی سارٹن نے اپنی سائنس کی تاریخ کی کتاب میں خیام کو عظیم ترین ریاضی دانوں میں شمار کیا ہے۔ نئی نسل کو مسلم تہذیب و ثقافت کے اِن روشن رنگوں سے توانائی لینے کی ضرورت ہے۔

۔

Mar 2018: Food for Kids, the do's and don'ts!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
مشترک ذمہ داری!
کھانے پینے کی اِشیاء اُور عادات ’بچوں کی نفسیات‘ پر اَثرانداز ہوتی ہیں۔ بچوں کے روئیوں (بدتمیزی) کی شکایت کرنے والوں کو جہاں اپنے سلوک (تعلقات) کا جائزہ لینا چاہئے‘ وہیں ’’پہلی فرصت میں‘‘ بچوں کے زیراِستعمال اَشیائے خوردونوش (بالخصوص معمولات) کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں کیونکہ بچے‘ بڑوں کی دیکھا دیکھی یا بڑوں کی مہربانی (عطا) جو کچھ بھی کھا پی رہے ہیں‘ وہ اُن کی جسمانی صحت‘ مزاج اُور روئیوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ شعور کی اِس منزل پر ماہرین تعلیم اُور درس و تدریس سے متعلق اِنتظامی فیصلہ سازوں کو عام آدمی (ہم عوام) کی رہنمائی کرنی چاہئے کہ کس طرح بچوں کے شخصیت (مزاج) سازی پر اَثرانداز ہونے والی ’’خوراک‘‘ پر نظر کی جائے اُور صحت مندانہ تبدیلی (اِصلاح اَحوال) کی کوششوں میں سب مل کر کس طرح اپنا اپنا کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ اِسی مرحلۂ فکر پر تعلیمی اِداروں کی حدود یا آس پاس فروخت ہونے والی اَشیائے خوردونوش پر ضلعی اِنتظامیہ کو نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں والدین‘ سرپرستوں‘ اَساتذہ اُور نفسانفسی کے شکار معاشرے سے نظریں بچا کر ہمارے بچے کچھ ایسا تو نہیں کھا پی رہے جو اُن کے لئے ممنوع ہے یا جس کا بطور خوراک استعمال ’صحت مند‘ نہیں۔

سوچ کی تبدیلی ضروری ہے کہ ’’بچہ صرف اپنے والدین یا سرپرستوں کی ذمہ داری ہوتا ہے۔‘‘ ترقی یافتہ مغربی معاشروں میں بچوں سے ریاست زیادہ حساس دکھائی دیتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بچہ ہنگامی اِمداد کے لئے ’نائن وَن وَن (911)‘ کے نمبر پر ’فون کال‘ کرے تو اُس کی مدد کے لئے پولیس پہنچ جاتی ہے کیا ہم ’ڈبل ون ڈبل ٹو (1122)‘ کو اتنا ہی حساس اُور فعال کر سکتے ہیں کہ وہ بچوں جیسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکے؟ یکساں سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہماری ریاست ہر بچے کو ’مشترک ذمہ داری‘ سمجھتی ہے؟ کیا تعلیمی ادارے بچوں کی جسمانی صحت اور روئیوں کے بارے میں اتنے ہی حساس جتنا کہ اِن کو ہونا چاہئے؟ اور کیا تعلیمی اِداروں کی چاردیواریوں کے اندر (حدود میں) یا آس پاس ایسی اشیائے خوردونوش کی خریدوفروخت تو نہیں ہوتی جو اصولاً نہیں ہونی چاہئے؟ اِس سلسلے میں سگریٹ اور شیشہ (ذائقے دار تمباکو) کی کھلے عام فروخت لمحۂ فکریہ ہے!

’عالمی اِدارۂ صحت‘ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ’’پاکستان میں 44 فیصد بچے ’غذائی کمی‘ کا شکار ہیں۔‘‘ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ’غذائی کمی‘ سے وہ بچے بھی متاثر ہیں جو ’کھاتے پیتے گھرانوں‘ سے تعلق رکھتے ہیں اُور جنہیں اَشیائے خوردونوش کی ’جملہ نعمتیں بہترین حالت میں‘ (باآسانی) میسر ہیں۔ اکثر صورتوں میں ’مسئلہ خوردنی اشیاء کی قلت نہیں بلکہ بہتات بھی ہے۔‘ بچوں کے کھانے پینے پر اشتہارات کے ذریعے ترغیب اور والدین کا تن آسان طرزعمل اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی مرعوب اشیاء میں ’’جنک فوڈز (junk foods)‘‘ شامل ہوتے ہیں۔ اِس درجہ بندی (کٹیگری) میں ڈیپ فرائی چپس‘ تلی ہوئی دیگر اشیاء‘ کیمیائی مادے‘ مٹھاس اُور ذائقے سے بھرپور ’کاربونیٹیڈ مشروبات‘ بشمول ’اِنرجی ڈرنکس‘ ٹافیاں اُور چاکلیٹس کی وجہ سے نہ صرف بچوں کے ناک کان گلہ‘ دانت‘ چھاتی‘ نظام ہضم اُور گردے متاثر ہو رہے ہیں‘ وہیں اُن کا جسمانی وزن بھی بڑھ رہا ہے‘ جس سے سونے جاگنے کے اوقات میں بے ترتیبی‘ پڑھنے لکھنے میں مشکلات اور کھیلنے کودنے (جسمانی پھرتی) جیسی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسی تمام اشیاء جو کیلشیم کے جسم میں جذب ہونے کو روک کر ہڈیوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہیں ممنوع ہونی چاہیئں۔ جن کی فروخت تعلیمی اداروں میں نہیں ہونی چاہئے۔ 

غیرمعیاری تیل اُور مضر صحت رنگوں سے تیارکردہ چپس‘ پاپڑ‘ نمکو‘ سموسے‘ پکوڑے‘ مٹھائیاں اُور آئس کریم جن موذی امراض کا باعث بنتی ہیں‘ اُن میں سرطان (کینسر) اُور اَلسر (معدے و آنتوں کے زخم) شامل ہیں! ڈیری آئس کریم کے نام پر فروخت ہونے والی ’فروزن ڈیزرٹ‘ کے ڈبوں پر واضح طور سے لکھا ہوتا ہے کہ ’’یہ آئس کریم نہیں بلکہ ویجیٹیبل فیٹس سے بنی ہوئی ہے۔‘‘ 

بچوں کو ’فروزن ڈیزرٹ‘ دینے کی بجائے ’’دُودھ کی چکنائیوں (ڈیری فیٹس)‘‘ سے بنی ہوئی آئس کریم دینی چاہئے۔ بچوں کے لئے بنائے گئے ’فارمولا دودھ‘ کسی بھی طرح ’قدرتی اور ماں کے دودھ کا نعم البدل‘ نہیں۔ وفاقی حکومت اگرچہ ’’فارمولا خوردنی اشیاء‘‘ کو ضبط میں لانے (ریگولیٹ) کے لئے ضروری قانون سازی کر رہی ہے اُور اُمید ہے کہ مارکیٹنگ‘ فری سیمپلنگ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ’گمراہ کن اشتہارات‘ پر پابندی عائد کی جائے گی اور مذکورہ ایسی اشیاء کی لیبلنگ (labelling-theory) حکمت عملی کی اصلاح بھی ضرورت ہے۔ 

بچوں کے لئے ’’مارجرین پراڈکٹس (مصنوعی مکھن)‘‘ ذہنی و جسمانی نشوونما کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ اِسی طرح ’ٹی وائٹنرز (Tea Whiteners)‘ دُودھ جیسی رنگت والے محلول کا چائے کافی یا دیگر ٹھنڈے یا گرم مشروبات میں استعمال بالخصوص بچوں کی صحت کے لئے مضر ہے جس سے پیچیدہ اَمراض قلب‘ دل کی دورہ (ہارٹ اٹیک) اُور ذیابیطس (شوگر) لاحق ہو سکتے ہیں۔ فوری تیار ہونے والے مشروبات (انسٹنٹ ڈرنکس) جیسا کہ ٹینگ‘ سن سپ‘ فروٹین وغیرہ کیمیائی مادوں سے بنائے جاتے ہیں جبکہ ڈبوں میں بند جوسیز میں صرف دس سے پچیس فیصد ہی پھلوں کا عرق شامل ہوتا ہے‘ جن کی وجہ سے بچوں میں ’شوگر کا مرض‘ پھیل رہا ہے اور عجب نہیں کہ ماضی میں ’ٹائپ ٹو شوگر‘ کی تشخیص صرف بڑوں میں ہوتی تھی لیکن اب چھوٹے بچے بھی اِس انتہائی قسم کی بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں! 

’’صحت مند بچے‘ محفوظ مستقبل‘‘ کا نعرہ (بطور اَصول) یاداشتوں میں محفوظ تو ہے عمل میں پیش پیش نہیں۔ کیا عام آدمی (ہم عوام) پوچھ سکتے ہیں کہ صوبائی وزیرخوراک قلندر خان لودھی اُور سیکرٹری فوڈ محمد اکبر خان کی توجہات و ترجیحات میں ’بچے‘ شامل ہیں؟ کیا صوبہ پنجاب کی طرز پر ’خیبرپختونخوا فوڈ اِتھارٹی‘ کو بھی عملاً فعال کیا جائے گا‘ جو غیرمعیاری‘ مضرصحت اَشیائے خوردونوش سے نہ صرف بڑوں بلکہ بالخصوص بچوں کو بچانے کے لئے خاطرخواہ اِقدامات و اِنتظامات کرے؟ 

بچے ۔۔۔’’اگر‘‘ ۔۔۔ ریاست‘ والدین اُور تعلیمی اِداروں کی ’مشترک ذمہ داری‘ ہیں تو اِس کی ’اَحسن اَدائیگی‘ کے لئے مربوط کوششیں ہونی چاہیءں۔ شاعر اَعظم خان کی نظم ’’مسئلہ یہ نہیں‘‘ لائق مطالعہ ہے جس میں ایک مرحلے پر کہا گیا کہ ’’درد اپنے پرائے کئی مشترک ۔۔۔ سوچ کی دُوزخیں!‘‘ سوچ کی دوزخ اُور اپنے پرائے مشترک دُکھوں میں بچے ہماری توجہات و ترجیحات کا مرکز ہیں‘ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Mar 2018: School Bags, weight, size and quality of education in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تعلیم: وزن اُور معیار!
خیبرپختونخوا کے محکمۂ ابتدائی (بنیادی) و ثانوی تعلیم (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کے حکام پر مشتمل ’اعلیٰ سطحی کمیٹی‘ تشکیل دی گئی ہے جس کے اراکین میں اسپیشل سیکرٹری ایجوکیشن‘ اساتذہ کے تربیتی ادارے کے سربراہ اور محکمہ صحت کے صوبائی سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) شامل ہیں۔

رواں ہفتے (مارچ دوہزار اٹھارہ کے تیسرے ہفتے) قائم ہونے والی یہ کمیٹی بچوں کے سکول بیگز کے وزن اور اِس وزن کے بچوں کی جسمانی صحت پر مرتب ہونے والے ’منفی اثرات کا جائزہ‘ لے گی لیکن یہ مرحلۂ فکر متقاضی ہے کہ مذکورہ کمیٹی کے معزز اراکین اپنی ذمہ داری کو محدود نہ سمجھیں اور اُن دیگر ضمنی و متعلقہ امور کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے جائزے (مطالعے) کا حصہ بنائیں جس کی وجہ سے تعلیم کا عمل ہر دن زیادہ مشکل‘ پیچیدہ اور وزنی ہو رہا ہے۔ جن امور پر خصوصی توجہ ہونی چاہئے اُن میں (اوّل) بچوں پر درسی کتب کے بوجھ کی بجائے تعلیم کا معیار کیسے بلند کیا جائے۔ (دوئم) اگر سرکاری سکولوں کی سطح پر ’سمارٹ بورڈز‘ اور ’ملٹی میڈیا‘ جیسی سہولیات فراہم کر دی جائیں تو بچوں کو صرف کاپیاں اور ہوم ورک ڈائری ہی لانا لیجانا ہوگی۔ (سویم) درس و تدریس کے عمل میں تجرباتی طور پر الیکٹرانک آلات (آئی پیڈز یا ٹیبلیٹس) کو متعارف کرانے کے امکانات و اخراجات کیا ہیں اور اگر حکومت صوبائی بینک کے ذریعے آسان اقساط پر تعلیمی اداروں اور بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی آلات خریدنے میں مدد کرتی ہے تو یہ تجربہ کس قدر کارگر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ (چہارم) درسی کتب اور کاپیوں کو یکجا کرنے سے کاپیوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ (پنجم) عملی اسباق کے لئے الگ کتابیں سکول کی حد تک رکھی جا سکتیں ہیں‘ جن کے ذریعے بچوں کے کسی علم سے متعلق تصورات عملی مشقوں سے واضح کئے جا سکتے ہیں۔
عالمی معیار یہ ہے کہ کسی بچے کے ’سکول بیگ‘ کا وزن اُس کے جسمانی وزن کا ’10 فیصد‘ ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں یہ ’پچاس فیصد‘ کی نفسیاتی حد عبور کر چکا ہے! سردست یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ مذکورہ کمیٹی میں جن مصروف ترین شخصیات کو شامل کیا ہے انہیں پہلی فرصت کب ملتی ہے اور وہ پہلی فرصت میں ’سکول بیگز‘ کے حوالے سے پہلا اجلاس کب طلب کرتے ہیں لیکن واقف حال کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری سکولوں میں ایسا فرنیچر متعارف کرانے کا بھی سوچ رہی ہے جس میں کتابیں تالہ لگا کر محفوظ رکھی جا سکیں اور یوں بچوں کو درسی کتب لانے لیجانے کی زحمت نہ ہو۔

تبدیلی کے علمبرداروں نے عوامی شکایات پر ’سکول بیگز (بستوں) کے وزن‘ سے متعلق تحقیقات کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن آخر ایسی تحقیقات کی نوبت ہی کیوں آئی جبکہ روزمرہ کے مناظر میں بیچارے بچے سکول بیگز گھسیٹتے دکھائی دیتے ہیں!؟ ’’ہو ایک فرد تو ہو فرد جرم بھی آید ۔۔۔ ستم گری تو یہاں کاروبار سب کا ہے (ظفر مراد آبادی)۔ مذکورہ مسئلے سے زیادہ مسئلے کی شدت سنگین ہے۔ صرف ’سکول بیگز‘ کا وزن ہی نہیں بلکہ نجی سکولوں کی جانب سے اُن غیرضروری کتب کا بھی ہے جو ’پبلشرز (کتابیں شائع کرنے والے اِداروں)‘ کی فرمائش پر ’شامل (داخل) نصاب‘ کی جاتی ہیں۔ اَمر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح کچھ ڈاکٹرز (طبیب) مریضوں کو ایسی ادویات بھی لکھ دیتے ہیں کہ جن کا اُن کی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بالکل اِسی طرح نجی سکولوں میں ایسی کتب اُور ایسا یونیفارم بھی مقرر کیا جاتا ہے جن کا تعلیم سے زیادہ کمائی کے دیگر ضمنی ذرائع سے ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نجی تعلیمی اِداروں کے منافع (لالچ‘ حرص و طمع) کی کوئی حد نہیں۔ کمیٹی کو اِس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ 1: خیبرپختونخوا کی حدود میں جتنے بھی نجی سکول ہیں چاہے اُن میں کسی بھی صوبے یا بورڈ کا نصاب پڑھایا جا رہا ہو لیکن اُن پر صوبائی (تعلیمی) قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوگا۔ 2: وفاقی امتحانی و دیگر بورڈز کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کو صوبائی حکومت کے قواعد کے تابع لانے کے لئے قانون سازی کی سفارش کی جائے اور اِس سلسلے میں صرف سفارش ہی نہیں بلکہ مذکورہ کمیٹی لائحہ عمل اُور ضابطۂ اخلاق بھی وضع کرے‘ جس کی روشنی میں عوام کے منتخب اراکین (قانون ساز ایوان) رہنمائی حاصل کرسکے۔

’سکول بیگز‘ کا مسئلہ بظاہر معمولی دکھائی دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خصوصی کمیٹی میں نہ تو صوبائی وزیرتعلیم (صاحب بہادر) شامل ہیں اور نہ ہی کسی منتخب رکن صوبائی و قومی اسمبلی یا سینیٹر کو شامل کیا گیا ہے‘ جو معاملے کی کھوج و تحقیقات کے دوران مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے سکے۔ عجیب ہے کہ دنیا علم و حکمت میں چاند ستاروں کو عبور کر گئی ہے اور ہمارے ہاں (پاکستان میں) ابھی یہ بھی طے نہیں ہو رہا کہ بچوں کے سکول کا وزن کتنا ہونا چاہئے اور بچوں پر گدھوں کی طرح درسی کتب کی صورت کتنا بوجھ لادا جائے؟ آنے والے دنوں میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو زیادہ پیچیدہ موضوعات سے واسطہ پڑے گا اور یہی وجہ ہے کہ کمیٹی میں ایسے ماہرین تعلیم بھی شامل ہونے چاہیءں تھے جو حکومتی وظیفہ خور نہ ہوتے کیونکہ سرکاری ملازمین وہی کچھ کہتے ہیں جو حکومت سننا چاہتی ہے۔ درس و تدریس کے عمل اور مجموعی طور پر شعبۂ تعلیم میں اصلاحات صرف سکول بستے کے وزن اور حجم سے متعلق ہی نہیں بلکہ تدریسی نصاب (مضامین و موضوعات)کا باریک بینی سے جائزہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ غورطلب سوال یہ بھی ہے کہ بچوں کو ابتدائی کلاسوں سے کن مضامین کی تعلیم دینی چاہئے؟ کیا دنیا کا ہر موضوع اور ہر مضمون بچوں کے نصاب میں شامل ہو؟

صوبائی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ نجی سکول اُس کے بنائے ہوئے قوانین اور قواعد و ضوابط کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سکولوں میں (مسلمان طلباء و طالبات کے لئے) ’ناظرہ قرآن‘ کی تعلیم لازمی قرار دی گئی تاکہ بچہ ابتدائی پانچ کلاسیں مکمل کرنے تک نہ صرف ناظرہ ’قرآن کریم‘ کی تلاوت کر سکے بلکہ آخری پارے کی کم سے کم وہ بیس سورتیں بھی اُسے زبانی ازبر ہوں‘ جن کی تلاوت نماز میں کی جاتی ہے۔ ابتدائی پانچ درجات (کلاسوں) تک ناظرہ قرآن اور میٹرک (کلاس دہم) تک ’قرآن شناسی‘ سے متعلق مضامین سے نہ صرف بچوں کی سیرت بہتر بنائی جاسکتی ہے بلکہ اُنہیں تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ’ایک بہتر انسان‘ کے سانچے میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کو علم و دانش اور خواندگی کا معیار سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ دنیا کی ایسی کئی ترقی یافتہ اقوام ہیں جنہوں نے علوم و فنون کے شعبوں میں گرانقدر منازل عبور کی ہیں لیکن اُن کے ہاں انگریزی نہیں بولی جاتی اور نہ ہی انگریزی زبان و ثقافت‘ رہن سہن‘ لباس اور نصاب سے متعلق رہنے پر ہم پاکستانیوں کی طرح فخر کیا جاتا ہے۔ سکول بیگ کا وزن ہو یا نصاب تعلیم سے متعلق ہمارے رویئے‘ بچوں کو راتوں رات عالم فاضل بنانے اور احساس کمتری کے مظہر اندھی تقلید کی اصلاح ضروری ہے۔
’’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر ۔۔۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔علامہ اقبالؒ ۔

Monday, March 19, 2018

Mar 2018: Ignored factors about education

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
خود فریبی: جبر کی حقیقت!
’اِستحصال کروٹ کروٹ‘ بھی ہو سکتا ہے اُور ’لمحہ لمحہ‘ بھی۔ ’معلوم حقائق‘ سے ’حقیقت حال کی تہہ تک پہنچنا‘ اُور ’عمومی روئیوں‘ میں ’اِظہار و سلوک‘ کی خوبیاں (گوہر) تلاش کرنے کی شعوری (دانستہ) کوششوں کے بغیر ’’تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔‘‘ خیبرپختونخوا میں سماجی اِنصاف کی فراہمی کا وعدہ کرنے والوں (پاکستان تحریک انصاف) کی توجہ چاہئے کیونکہ جہاں ہر مرحلے‘ سوچ‘ زوایۂ نگاہ اور ہر ایک صاحب نظر و اِختیار پر ’اِنکارِ‘ طاری ہو‘ وہاں (باوجود خواہش و غیرمتعلقہ شعبوں میں کوششوں) صنفی‘ جنسی اُور مالی اِمتیازات کو تقویت دینے سے ’’انسانی حقوق کی بلاامتیاز ادائیگی‘‘ ممکن نہیں رہتی۔ ’انقلاب‘ سطحی یا غیرسطحی منصوبہ سازی کا نہیں بلکہ عوامی مفادات کے خلاف متحرک منصوبوں پر حاوی ہونے کا نام ہوتا ہے۔ افسوس کہ جس دیس میں ’بے اصولی‘ اصول بن جائے وہاں اِس زراعت سے حاصل شجر چاہے کتنے ہی سایہ دار دکھائی دیں لیکن اُن کا پھل (حاصل و نتیجہ) کڑوا رہتا ہے۔ توجہات کی نذر ہے کہ کسی ملک‘ صوبے‘ علاقے یا اِدارے کا نظام ’’کفریہ عقائد‘‘ پر یقین سے تو چل سکتا ہے لیکن ظلم سے نہیں! خوداحتسابی کی گھڑی سوچنے‘ سمجھنے اُور دوسروں کو دعوت فکر دینے (شریک کرنے) کی ہے کہ ۔۔۔ کہیں ہم اپنے قول و فعل میں ظالم (اپنی اپنی اختیاراتی مملکت کے فرعون) تو نہیں؟

سب جانتے ہیں اُور (جیسے) کوئی نہیں جانتا۔ خیبرپختونخوا کے بالائی (پہاڑی) علاقوں میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ’نئے تعلیمی سال (دوہزاراٹھارہ)‘ کا آغاز ہو چکا ہے اور اِس موقع پر والدین اور طلباء و طالبات کو درپیش ’تین پریشانیاں‘ بالخصوص توجہ طلب ہیں۔ 

داخلہ فارم کی قیمت سے لیکر داخلہ فیسوں کی شرح اور دیگر مدوں میں بھاری وصولیاں کرنے والے اداروں کے منہ کو خون لگ گیا ہے جو معیاری تعلیم کے خواہشمند والدین کی مجبوری کا ’ناجائز‘ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ لالچ و حرص کے تابعداروں کو روکنے کے لئے عوام کے منتخب نمائندے اور اِن نمائندوں پر مشتمل مرکزی صوبائی یا ضلعی حکومتیں بشمول ضلعی انتظامیہ‘ ایک سے زیادہ نگران حکومتی محکموں کا دُور دُور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ تعلیم کی اہمیت پر انگریزی زبان میں گھنٹوں لیکچر دینے والوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے بذریعۂ تعلیم ’’سماجی و قومی ترقی کے وسیع و بلیغ نظریئے (تصور)‘‘ کو کس حد تک محدود کر دیا ہے اور تعلیم کو ایک ایسے ’’خالص کاروبار‘‘ میں ڈھال دیا ہے‘ جہاں ’علم و دانش‘ کی اہمیت فقط اسناد (ڈگریوں) کی محتاج اور ملازمت کے حصول سے زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ ’المیہ در المیہ‘ یہ بھی ہے کہ نجی اِداروں کی دیکھا دیکھی ’پاک فوج کی ذیلی شاخ ’اِیجوکیشن کور‘ جیسے معزز‘ مستند اور معتبر ریاستی اِدارے کی زیرنگرانی ’سکولز و کالجز‘ بھی ’منافع خوری‘ کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں! اگر معاشرے کو امتیازات کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرنا تو سکول داخلے سے لیکر ماہانہ ٹیوشن فیسوں کی شرح تک ہر پاکستانی سے یکساں وصولیاں ہونی چاہیئں۔

کیا قومی سطح پر ’نجی یا سرکاری اِدارے‘ فوجی بہن بھائیوں سے اِمتیازی سلوک روا رکھتے ہیں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے (شکوہ جواب شکوہ کے طور پر) پاک فوج کے انتظامی وسائل سے چلنے والے سکولوں اور علاج گاہوں میں ’سویلینز (civilians)‘ سے (ایک جیسی خدمات (سروسیز) کی) دوگنا سے بھی زیادہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں؟ 
’سویلین نان انٹائٹل (CNE)‘ کیوں ہیں؟ 
کیا عوام عدالت عالیہ سے رجوع کرے؟

چیف جسٹس آف پاکستان کو اِس بات کا بھی نوٹس لینا چاہئے؟ کیا ’یونیفارم‘ پہنے ’فیصلہ سازوں‘ کو زیب دیتا ہے کہ اُن کا بوجھ اُٹھانے (ٹیکس اَدا کرنے) والے عام آدمی (ہم عوام) کو یوں حقارت کی نظر سے دیکھیں؟ اطلاع کے لئے عرض ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے فراہم کردہ مالی وسائل ہی سے دفاع کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ باسہولت چھاؤنیوں کی خوبصورتی سے لیکر باادب گھریلو ملازمین کی قطاریں‘ ملٹری ڈیری فارم کے دودھ‘ دہی اور مکھن کی چکناہٹ اُور وردی پر سجے چاند ستاروں (اعزازات) کی چمک دمک کا راز ’صرف اُور صرف‘ یہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر ٹیکس اَدا کر رہے ہیں! ہم ایک ایسے معاشرے (پاکستان) کی تشکیل کر رہے ہیں جہاں معیاری تعلیم‘ صحت و معاشرتی مقام صرف اُنہی طبقات کا حق سمجھا جا رہا ہے‘ جن کے پاس ’مالی وسائل‘ کی فراوانی ہے‘ جو مذکورہ بنیادی حقوق (صحت و تعلیم) ’خریدنے‘ اور کسی بھی شے کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کی مالی سکت رکھتے ہیں؟ تو کیا کسی ایسے معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز باقی رہے گی؟

تعلیمی اصلاحات کرنے والے بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہیں لیکن وہ آج تک سکول کے بستے (بیگ) کا وزن کم نہیں کرسکے جو ہر سال بڑھتا چلا جا رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے وزن اٹھانے کی سکت اور والدین کا صبر جواب دے رہا ہے! اِسی طرح فی کلاس روم (زیادہ سے زیادہ) بچوں کی تعداد کے حوالے سے کیا قواعد موجود ہیں اگر ہیں تو اُن پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے۔ تمام تعلیمی اداروں میں دن کے آغاز اور اختتام (حاضری اور اخراج) کے اوقات ایک ہی جیسے مقرر کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ٹریفک مشکلات باآسانی حل کی جاسکتی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو آمدورفت کے لئے زیراستعمال نجی ٹرانسپورٹ وسائل کی گرانی‘ ٹرانسپورٹرز کی من مانیاں‘ اخلاقی مسائل الگ سے توجہ طلب ہیں کہ ماہانہ لاکھوں روپے منافع کمانے والے اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ’’سکول ٹرانسپورٹ‘‘ کا بندوبست کریں۔ اگر انتظامیہ کی زیرنگرانی سکولوں کی حدود میں کتابوں کی دکانیں (سٹیشنری شاپ) اور کنٹین جیسے منافع بخش شعبوں کا اضافہ ہو سکتا ہے تو طلباء و طالبات کو لانا لیجانا بھی نیم سرکاری و نجی سکولوں کی ذمہ داری قرار دی جا سکتی ہے۔ وقت کے فریب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ’’تعلیمی عمل‘‘ جامع اِصطلاح ہے‘ جس میں طلباء و طالبات کی جسمانی مشقت کم سے کم کرنے‘ انہیں باعزت اُور باوقار سہولیات کی فراہمی کے لئے اِنتظامی فیصلہ سازوں کو دردمندی (خوداِحتسابی کے نظریئے) سے سوچنا چاہئے کہ اگر حکومت اُور حکومتی اِدارے ’ریاستی عمل داری‘ نافذ کرنے میں عملاً کمزور (ناکام) ہیں تو وہ اپنے ضمیر اور اُس یوم الحساب (عدالت کو) کیا جواب دیں گے‘ جب استحصال کرنے کے بارے میں کوئی بھی حیل و حجت کام نہیں آئے گی۔

احمد ندیم قاسمی نے ’لذت آگہی‘ کے عنوان سے لکھا تھا
’’یہی علم ہے ۔۔۔ یہی علم میرا سرور ہے ۔۔۔ یہ علم میرا عذاب ہے!‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=abbotabad&page=20&date=2018-03-19

Sunday, March 11, 2018

Mar 2018: Save the graveyards of Peshawar, please!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور کی خبریں!
’روزنامہ آج‘ کی اشاعت میں شامل ’’پشاور کی خبریں‘‘ مستقل و مسلسل اُور مربوط سلسلہ ہے‘ جو نہ صرف ’اپنے شہر‘ سے آگاہی کا ’(مستند) وسیلہ ہے بلکہ مقامی اور غیرمقامی اہل پشاور یا ایک جیسی دلچسپی رکھنے والے قارئین آپس میں جڑے رہتے ہیں تاہم ’صفحہ 2‘ کے ذریعے ’پشاور شناسی‘ میں اضافہ ہونے کے امکان بارے ادارتی فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ صحافت ایک مشن بھی تو ہوسکتا ہے۔ 

نہایت ہی شدت سے کمی اِس بات کی بھی محسوس ہو رہی ہے کہ پشاور سے متعلق درپیش مسئلے مسائل کی بابت عام آدمی (ہم عوام) کی آراء خصوصیت اور تواتر سے شائع ہوں۔ فی الوقت پشاور کے لئے مختص جگہ (space) کا بڑا حصہ اعلامیوں (احکامات)‘ روائتی سیاسی و غیرسیاسی بیانات اور اُن واقعات کی خبروں نے لے رکھی ہے‘ جن کا اِرتکاب بصورت معمول یا جرائم ہوتا ہے۔ تین مارچ کی اشاعت میں چار کالم شہ سرخی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ’’(پشاور:) قبرستان پر قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی‘ اُوقاف سے رابطہ۔‘‘ اِس خبر کو صفحے کے بالائی حصے میں نمایاں کرکے شائع کرنے کا مقصد یہی ہوگا کہ ’صوبائی اور ضلعی حکومتوں‘ کی جانب سے ’فوری توجہ (نوٹس)‘ لیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اب تو یہ بات پشاور سے شائع ہونے والے اور پشاور کی محبت کا دم بھرنے والے بہت سے اخباروں کے لئے خبر بھی نہیں رہی کہ ’’قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہو رہی ہے اور صوبائی حکومت کی ناک کے نیچے قبضہ مافیا کی کاروائیاں جاری ہیں۔‘‘ عجب ہے کہ نہ تو خبر کا اثر ہو رہا ہے اور نہ ہی قانون کا خوف محسوس کرنے والوں کی کمی ہے! 

سیاسی پشت پناہی رکھنے والے اِیسے عناصر معلوم ہیں‘ جن کے لئے ’انٹرپول‘ یا ڈرون طیاروں کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اِن ’دیدہ دلیر قانون شکنوں‘ نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس سے متعلق قانون کی کتابیں خاموش ہیں اور معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ کن دفعات کا اطلاق کیا جائے! 

صد افسوس کہ ماضی کی طرح ’تبدیلی کی علمبردار‘ موجودہ صوبائی و ضلعی حکومتیں بھی مصلحتوں کا شکار ہیں‘ جن کے لئے ذرائع ابلاغ کی طرف سے ’’نشاندہی اور رہنمائی‘‘ کی خاطرخواہ اہمیت نہیں تو اِس (تجاہل عارفانہ پر مبنی) طرزِعمل سے ’صحافت یا اہل صحافت‘ کا نہیں بلکہ ’اہل سیاست‘ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ المیہ ہے کہ خبروں کی قدر و اِہمیت تو باقی ہے لیکن چونکہ متعقلہ حکام اِن کے بارے میں ’حساس‘ نہیں رہے تو خبریں خبروں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ رہی ہیں!

تین مارچ کو شائع ہوا کہ ’’(پشاور کے) زاہد آباد علاقے میں سرکاری قبرستان کی کھدائی جاری ہے۔ کچھ لوگ قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن آغا میرجانی شاہ پولیس نے (بروقت کاروائی کرتے ہوئے) ملوث افراد کو غیرقانونی اقدام سے روک دیا۔‘‘ لمحۂ فکریہ ہے کہ پولیس نے ’غیرقانونی اقدام‘ میں ملوث افراد کو روکا لیکن اُن کے خلاف کاروائی نہیں کی اور یہی وجہ رہی کہ نہ صرف زاہد آباد بلکہ دیگر قبرستانوں کی اراضی پر قبضہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔ حال تو یہ ہے کہ قبرستانوں کی اراضی ہڑپ کرنا نہ تو اخلاقی اور نہ ہی قانونی جرم تصور ہو رہا ہے اور اگرچہ یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ تک جا پہنچا ہے جہاں صوبائی حکومت نے دو ماہ کی مہلت لے رکھی ہے لیکن قبرستان محفوظ نہیں کئے جاسکے۔ یوں لگتا ہے کہ دو ماہ کی مہلت باقی ماندہ قبرستانوں کی اراضی مل بانٹ کر تقسیم کرنے کے لئے لی گئی ہے! 

9 مارچ کو (دو کالم) شائع ہونے والی اِس دوسری خبر کی سرخی تھی ۔۔۔ ’’اخون بابا قبرستان پر قبضہ مافیا کے خلاف احتجاج‘‘ رنگ روڈ بلاک (جبکہ) بیری باغ میں 80 مرلے اراضی پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا‘ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ’انتظامیہ نوٹس لے۔‘‘ منظرنامہ ملاحظہ کیجئے کہ ۔۔۔ ایک طرف قانون شکن ہیں جن کے سامنے پولیس بے بس ہے تو اُن کے مدمقابل مقامی افراد (اپنی مدد آپ کے تحت) قبرستانوں کی اراضی بچانے کے لئے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر پولیس اپنی حقیقی موجودگی کو ثابت کرتی ہے تو صوبائی دارالحکومت کے علاقہ ہزار خوانی کے مکینوں کو احتجاج کی نوبت نہ آتی۔ ٹاؤن ون کی حدود ’اَخون بابا‘ اور ’بیڑی باغ‘ قبرستانوں پر قبضہ نہ تو راتوں رات ہوا‘ اُور نہ ہی یہ واردات جادوئی تھی کہ کسی کو کانوں کان اور نظروں نظر خبر ہی نہ ہو سکتی لیکن چونکہ پشاور دل و جاں کا حصہ نہیں اِس لئے عوام کے منتخب کردہ ’ضلعی نمائندے‘ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ پولیس اسٹیشنوں کی پولیس کا رویہ عملاً ’پشاور دوست‘ بھی نہیں! 

تیسری خبر‘ تین کالم سائز میں ’10 مارچ‘ کے روز ’صحفہ دو‘ کی زینت بنی‘ جس کی ’شہ سرخی‘ میں ڈیزائن کی خوبیاں کے ساتھ ’عوام الناس‘ کو مطلع کیا گیا کہ ’’بیری باغ قبرستان میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن‘ کارِ سرکار میں مداخلت پر جھڑپیں۔‘‘ ماضی میں بھی ’بیڑی باغ‘ کے مقام پر ضلعی اِہلکاروں اُور اِحتجاج کرنے والے مقامی اَفراد کے درمیان اِسی قسم کی جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن قانون شکن عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی نہیں کی گئی! ضلعی حکومت پشاور کے طول و عرض میں تجاوزات کے خلاف ’گرینڈ آپریشن (بڑی کاروائیاں)‘ کرنے کی (زبانی) دعویدار تو ہے لیکن شہرخموشاں (قبرستانوں) سے لیکر ’عالم طلسم‘ تک برسرزمین صورتحال میں تبدیلی نہیں آ رہی۔ 

پشاور کے رہنے والوں کے لئے اِس سے زیادہ صدمہ اُور کیا ہو سکتا ہے کہ ہر چند ہفتوں بعد اُن کے آباؤ و اجداد کی قبریں مسمار کرنے والے ہاتھ کر جاتے ہیں جبکہ صاحبان اِختیار (حکومتیں) خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہی وہ مقام فکر و بیان ہے کہ جہاں ’پشاور کو لاوراث‘ قرار دیا جاتا ہے کہ اِس شہر کی فیصلہ سازی پر ایسے لوگ مسلط (حاوی) ہو گئے ہیں جن کی پشاور میں نہیں بلکہ اِس کے وسائل اور اراضی میں زیادہ دلچسپی ہے۔ آئندہ عام انتخابات (دوہزار اٹھارہ) کے موقع پر اگر اہل پشاور (ہندکووانوں) نے ایک مرتبہ پھر ماضی کی غلطیاں دُہرائیاں اُور اپنا ووٹ ’جانے پہچانے اَنجانوں‘ کے حق میں استعمال کیا تو پھر اُنہیں قبرستانوں اور بازاروں میں تجاوزات کے خلاف بولنے یا احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں‘ پھر بنیادی سہولیات کی محرومی کا رونا بھی نہیں بنے گا۔ 

عام اِنتخابات کے موقع پر ۔۔۔ پشاور کے عام آدمی (ہم عوام) کو اپنی سوچ اُور عمل کی اصلاح کے ساتھ خوداحتسابی جیسے شعوری سفر کی منازل طے کرنی ہیں کیونکہ فیصلے کی گھڑی‘ ہر گھڑی قریب آ رہی ہے۔ 

’’عالم طلسم شہرخموشاں ہے سر بسر
یا میں غریب کشور گفت و شنود تھا (مرزا غالب)۔‘‘
۔
Three news items picked from Page 2 also known as City Page regarding encroachments in Graveyards of Peshawar

Layout of the editorial page of Daily Aaj - Mar 11, 2018 Sunday

TRANSLATION: Game theory by Dr. Farrukh Saleem

Game theory
سیاسی کھیل!
پہلا کھلاڑی: عمران خان ’مسلسل‘ سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور اُن کا ماننا ہے کہ اگر وہ سماجی و سیاسی انصاف اور بدعنوانی کے خلاف اپنا سیاسی سفر جاری رکھیں گے تو ایک دن پاکستان کے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں لیکن وہ اپنی سیاسی جماعت (تحریک انصاف) کو منظم کرنے کی حکمت عملی (ضرورت) نہیں رکھتے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اُن پر مرکوز نگاہیں اور پاکستان کی سیاست میں اصلاح کی علمبرداری کسی نعمت و عنایت سے کم اعزاز نہیں۔

دوسرا کھلاڑی: آصف علی زرداری منصوبہ ساز اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے ماہر ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن وہ ایک رازدار طبیعت کے مالک ہیں اور اپنی سوچ کا اظہار نہیں کرتے شاید اِس لئے بھی کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اُن کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکے۔
تیسرا کھلاڑی: نواز شریف سیاستدان ہیں اور اُن کی مہارت ہی سیاست ہے۔ وہ ایک انقلاب کے داعی ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کی غلطیوں کی سزا نہ دی جائے بلکہ اُنہیں ایک ایسے موقع پر بچایا جائے جبکہ وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے میں عملاً ناکام اور بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ 

نواز شریف دنیا کے انقلابی رہنماؤں میں ایسے واحد انقلابی ہیں جو 25 ہزار کنال اراضی پر پھیلے محل میں رہتے ہیں۔ اُن پر مالی بدعنوانیوں‘ دروغ گوئی اُور اِختیارات سے ذاتی مفادات حاصل کرنے جیسے سنگین الزامات ہیں البتہ نواز شریف کے پاس ’سیاسی لائحہ عمل‘ اور ’سیاسی حکمت عملی‘ موجود ہے۔ 

نواز شریف کو عدالت سے جو آئینی نااہلی کی سزا ملی ہے وہ چاہتے ہیں کہ عوامی رائے سے اُسے تبدیل کریں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاست اُنہیں ملنے والی سزا کو تبدیل کر سکتی ہے۔

نواز شریف کے پاس ایک انتخابی حکمت عملی بھی ہے۔ اُن کے پاس دکھانے کے لئے پنجاب میں ترقیاتی منصوبے ہیں‘ جنہیں شہباز شریف نے مکمل کیا ہے۔ نواز لیگ سینیٹ (قانون ساز ایوان بالا) میں بھی اکثریتی جماعت ہے اور باوجود درپیش بحرانوں کے بھی یہ پارٹی اپنی جگہ منظم ہے۔ نواز شریف آئندہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری تیاری کئے بیٹھے ہیں۔

سیاسی کھیل کے اِن تین کھلاڑیوں میں آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے سیاست میں ’پی ایچ ڈی‘ کر رکھی ہے۔ اگر ہم پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی محاذ پر کارکردگی کا جائزہ لیں تو بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلزپارٹی کل ڈالے گئے ووٹوں کا 60فیصد حاصل کیا کرتی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں 40فیصد جبکہ آصف علی زرداری کے دور میں پیپلزپارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 15فیصد ہو چکا ہے۔ چھتیس برس میں ’60فیصد سے 15فیصد‘ تک کا یہ زوال غیرمعمولی ہے اور سیاست میں خود کو ’پی ایچ ڈی (ماہر)‘ سمجھنے والے آصف علی زرداری کے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے کہ وہ انتخابی محاذ میں اپنی جماعت کی مقبولیت کو نہ تو برقرار رکھ سکے اور نہ ہی اس میں اضافہ کر پائے لیکن آصف علی زرداری گہرے انسان ہیں‘ جن کی سیاست عمومی درجے سے اوپر ہے۔ انہوں نے بلوچستان حکومت کا خاتمہ کیا۔ انہوں نے بناء عددی اکثریت خیبرپختونخوا اسمبلی سے اپنے دو سینیٹرز کو منتخب کروایا۔ انہوں نے جہاں خیبرپختونخوا اسمبلی کے کم وبیش 32 اراکین کی وفاداریاں اپنے حق میں اِستعمال کیں‘ وہیں ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے تعلق رکھنے والے قریب 14 اراکین صوبائی اسمبلی کی وفاداریاں بھی خریدی گئیں۔

پاکستان کے سیاسی کھیل کے حصہ دار عمران خان کے لئے زندگی کی خوشیاں اور اطمینان اُن کی حسب خواہش ہے۔ وہ اپنی آسائش اور سہولت بھری زندگی بسر کر رہیں ہیں‘ جن کے لئے سیاسی بکھیروں اور اصولوں کی اُن کی اپنی ذات سے زیادہ اہمیت نہیں۔

کھیل کے چوتھے اور پانچویں کھلاڑی فوج اور عدلیہ ہیں۔ یکم فروری کو مالدیپ کی سپرئم کورٹ نے حکم دیا کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔ صدر عبداللہ نے سپرئم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ 5 فروری کو صدر عبداللہ نے فوج کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججوں کو گرفتار کر لے۔ فوج نے سپرئم کورٹ پر دھاوا بولا اور تمام جج صاحبان گرفتار کر لئے گئے یوں صدر کی جیت ہو گئی!
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ عدلیہ پر وقتی دباؤ تو ڈالا جاسکتا ہے لیکن قانون کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, March 10, 2018

Mar 2018: Unity for Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اِتحاد برائے پشاور!
’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کی جانب سے ’’نئی (مجوزہ) حلقہ بندیوں‘‘ سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی نسبت پشاور سب سے کم متاثر ہوا ہے اور سوائے ’نمبروں‘ اور آبادی کی بنیاد پر چند سرکلز میں توڑ جوڑ کے سوأ زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ اصل ضرورت کسی ایسے ’’کثیرالمقاصد (سیاسی انتخابی اُور سماجی) اِتحاد‘‘ کی ہے جو نسلی اور لسانی بنیادوں پر پشاور کو مزید تقسیم (ٹکڑے) ہونے سے بچائے اور پشاور کے مسائل کو مخاطب کرے۔ ازحد ضروری ہے کہ اِسی اتحاد کی برکت سے پشاور کو وہ قیادت بھی میسر آ سکے جو اِس کی ’حقیقی ترجمان‘ قرار پائے کیونکہ اب تک کے سیاسی و انتخابی تجربات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے دوسرے سے بڑھ کر ’پشاور کا فائدہ‘ اٹھایا اُور چلتے بنے۔

آئندہ عام انتخابات (دوہزاراٹھارہ) کی تیاریاں جاری ہیں اور اِسی ماحول میں جاری ’گرما گرم‘ بحث کا ایک عنوان ’’جاگ پشاوری جاگ‘‘ بھی ہے۔ اِس نعرے سے بظاہر تعصب اُور امتیاز کی بُو آتی ہے لیکن ’ہندکو زبان‘ بولنے والوں کا یہ نکتۂ نظر اپنی جگہ غورطلب ہے کہ جب پشاور کے وسائل کے بروئے کار لاتے ہوئے (مختلف لہجوں میں) پشتو بولنے والے اپنی زبان پر فخر کر سکتے ہیں اور پشتو زبان و ثقافت ایک طبقے کو متحد رکھ سکتی ہے تو ’ہندکووان‘ ایسا کیوں نہیں کرتے اور اپنی زبان ’ہندکو‘ پر کماحقہ فخر کیوں نہیں کیا جاتا؟ پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل (ماضی کے اَین اَے ون) سے اِنتخابی اُمیدوار‘ پی ایچ ڈی اسکالر‘ سقاف یاسر (ایڈوکیٹ) سال 1990ء سے سکائینز (skyians) نام کی غیرسرکاری تنظیم (این جی اُو) کے سربراہ (چیف ایگزیکٹو آفیسر) ہیں اُور چاہتے ہیں کہ ہندکو زبان بولنے والے آئندہ عام انتخاب میں اپنی زبان و ثقافت سے تعلق رکھنے والے انتخابی اُمیدواروں کو ترجیحاً ووٹ دیں۔ ’ہندکو زبان‘ سے جڑے محض طنزومزاح کے تاثر و تصور کو زائل کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنا بھی اُن کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے اور وہ ’’پشاور کو اُس کی کھوئی ہوئی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی شناخت واپس دلانے کے لئے پراُمید ہیں۔‘‘ انٹرنیٹ کے ذریعے ’سماجی رابطہ کاری‘ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے سقاف یاسر کا پیغام ہے کہ ’’قومی سیاست کرنے والی مذہبی اور دیگر جماعتوں نے انفرادی یا اجتماعی طور پر ہمیشہ ’پشاور‘ کو دھوکہ دیا اور بار ہا یہاں سے منتخب ہونے کے باوجود بھی ’پشاور کے حقوق‘ کماحقہ اَدا نہیں کئے۔ وقت ہے کہ پشاور کے نوجوانوں کو قیادت کرنے کا موقع دیا جائے‘ جن کی ترجیحات‘ فکرونظر اور بول چال میں ’صرف اُور صرف پشاور‘ کا عکس دکھائی دے۔ جو اپنی زبان و ثقافت پر فخر کریں۔ سماجی سطح پر اتحاد کے لئے کوششیں کی جائیں۔ تیزی سے پھیلتے پشاور کے وسائل پر آبادی کے بوجھ اور پائیدار ترقی کی راہیں متعین کی جائیں۔ پشاور کے ماحولیاتی تنوع اور تحفظ کی اِہمیت اُجاگر کرنے کے ساتھ شہری زندگی کا حسن اور صحت و تعلیم‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی درکار بنیادی سہولیات جیسے موضوعات ہرسطح پر زیربحث لائے جائیں۔‘‘ شعور کی کسی بلند منزل پر ’جاگتے پشاور‘ کا خواب دیکھنے والوں کی ’انتخابی کامیابی‘ بصورت تحریک ممکن ہے لیکن اندیشہ ہے کہ سب سے زیادہ رکاوٹیں (مزاحمت) ’ہندکووان‘ ہی حائل کریں گے۔

بہت پرانی بات نہیں جب ۔۔۔ پشاور ’’پھولوں کا شہر‘‘ کہلاتا تھا کیا اب بھی ایسا ہی ہے؟ پشاور کے باغات وقف عام اُور پررونق ہوا کرتے تھے کیا باغات کو واگزار اور مفاد عامہ میں بحال ہونا چاہئے؟ پشاور میں صحت مند تفریح کے مواقعوں کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ المیہ ہے کہ پشاور کی ’92 یونین کونسلوں‘ میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جہاں کے رہنے والوں کو بنیادی سہولیات‘ معیاری صحت و تعلیم اور پینے کا صاف پانی میسر ہو لیکن سارا زور (اصرار و نوحہ) اگر کسی بات پر ہے کہ تو وہ مجوزہ (نئی) حلقہ بندیوں پر ہے جس میں پشاور سے ’’این اَے ون ہونے کا اِعزاز چھن گیا ہے!‘‘

لغت میں ’سیاستدان‘ کی اِصطلاح اُس کردار کا صفاتی تعارف ہے‘ جو معاشرے میں اِختلافات پیدا ہی نہ ہونے دے یا اُن کے خاتمے کے لئے کوششیں کرے لیکن ہمارے ہاں سیاستدان اُس ’باکمال و باہنر شخصیت‘ کو کہا جاتا ہے جو اِختلافات کو ’ہمیشہ زندہ و تازہ دم‘ رکھنے کی مہارت رکھتا ہو۔ جس کے ہاں نت نئے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اہلیت پائی جائے۔ اگر ’الیکشن کمیشن‘ نے تنازعات سے بچنے کے لئے عالمی اَصولوں کے مطابق ’’جنوب سے شمال کی طرف اِنتخابی حلقہ بندیاں‘‘ کی ہیں‘ تو اِس کی تعریف ہونی چاہئے تھی۔ سیاست کو اجتماعیت کے اصولوں پر استوار (تابع فرمان) بنانے کے لئے ہمیں کسی نہ کسی ایسے مسلمہ اصول کو بطور کسوٹی (پیمانہ) بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا جو اپنی فطرت میں اختلافی نہ ہو۔ یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ’شمال سے جنوب‘ کی طرف انتخابی حلقہ بندیوں میں پشاور سے کیا چھن گیا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کو کیا کچھ مل گیا ہے۔کیا مثبت سوچ اُور اجتماعی بہبود کی عینک لگا کر اصلاح و تبدیلی نہیں لائی جا سکتی؟

بنیادی سوال ہے کہ جب پشاور کی شناخت ’این اے ون (انتخابی حلقہ)‘ ہوا کرتا تھا تو اِس سے کیا حاصل ہوا اُور اگر یہ عدد (نمبر) تبدیل ہو جاتا ہے تو اِس سے مستقبل میں پشاور اُور اہل پشاور کی شناخت‘ بالخصوص شہری زندگی کو درپیش مشکلات و خطرات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ 

عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے کسی ایک بھی ’اِنتخابی حلقے‘ کے نمبر کی تبدیلی سے زیادہ اُس کی حدود کا تعین زیربحث آنا چاہئے‘ جیسا کہ آخری عام انتخابات (گیارہ مئی دوہزار تیرہ) میں ’این اے ون‘ پر رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد۔۔۔ 3 لاکھ 20 ہزار 581 تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے تحت پشاور سے قومی اسمبلی کا ایک حلقہ چھ سے آٹھ افراد پر مشتمل آبادی کا احاطہ کرے گا اُور جہاں ماضی میں تین لاکھ سے زائد آبادی کی نمائندگی کرنے والے کے لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ وہ ’اہل پشاور‘ کے واجب الادأ حقوق کی کماحقہ ادائیگی کرسکے تو اب ’’چھ سے آٹھ لاکھ افراد‘‘ کی ضروریات اُور مسئلے مسائل کے بارے میں کسی فرد واحد سے تن تنہا غوروخوض کیسے ممکن ہو پائے گا؟ 

یقیناًپشاور (زبان و ثقافت‘ سیاسی‘ سماجی اُور اَفرادی ترقی)کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے اُور بیان سے ’لبالب اِتحاد‘ کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے! 

’’اِتحاد عمل سے ہوں سب کام ۔۔۔ 
کوئی دانا رہے نہ بندۂ دام (اَحمق پھپھوندوی)۔‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-10

Friday, March 9, 2018

Mar 2018: Delimitation: What's in the number?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
این اے ون : اعزاز کی حقیقت !
تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ’’مردم و خانہ شماری 2017ء‘‘ سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ نے جو ’قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ کی مجوزہ (نئی) حلقہ بندیوں پیش کی ہیں اُس ابتدائی خاکہ سے ’پشاور کو حاصل یہ منفرد اعزاز‘ چھن گیا ہے کہ یہاں سے کبھی قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کا آغاز ہوا کرتا تھا یعنی پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل ’این اے ون: پشاور ون‘ کا ذکر ہمیشہ سرفہرست رہتا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ پشاور کو دیئے جانے والے قومی اسمبلی کے حلقے ’27 سے 31‘ نمبروں پر مشتمل ہیں اور اگرچہ نئے قومی و صوبائی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے لیکن نوشہرہ سے پشاور (مشرق سے مغرب) کی طرف شمار کے موجودہ طریقۂ کار سے پشاور کا احساس محرومی بڑھا ہے۔ 

تنقید برائے تنقید کرنے والے حلقہ بندیوں کے عمل کو ’جنوبی سمت‘ سے شروع کرنے کی بجائے اِسے وسطی علاقوں (پشاور) سے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کی نئی (مجوزہ) انتخابی حلقہ بندیاں شمال (چترال) سے جنوب (ڈیرہ اسماعیل خان) کی جانب سفر کرتی ہیں۔ یوں ’این اے ون‘ چترال جبکہ خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کا آخری انتخابی حلقہ ’’این اے 39 (ڈیرہ اسماعیل خان ٹو)‘‘ کہلائے گا۔ 

تعجب خیز امر ہے کہ سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی سربراہی میں خیبرپختونخوا حکومت کا حصہ کئی سرکردہ رہنما اور قوم پرست سیاست کرنے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’این اے ون کا اعزاز‘ چھن جانے پر اظہار افسوس اور مذمت کر رہی ہیں اُور انہوں نے ’الیکشن کمیشن‘ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے‘ جہاں پہلے ہی ’اعتراضات وصول کرنے کے لئے‘ پانچ مارچ سے پانچ اپریل تک (ایک ماہ) کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ عوام کی رہنمائی کرنے کی بجائے اُنہیں جذبات کے حوالے کرنے والی سیاسی جماعتوں کی ’ذہنی حالت‘ کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں میں سوچ بچار کے عمل اور سیاسی پختگی کے معیار سے متعلق رائے قائم کرنا دشوار رہا ہے!

پشاور جنوب مشرقی ایشیاء کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہے۔ اِس شہر کی ہم عصر تہذیبیں کھنڈر بن چکی ہیں لیکن پشاور میں آج بھی زندگی رواں دواں ہے اور چاہے اِسے ’این اے ون‘ کہا جائے یا کسی بھی انتخابی حلقے کے نمبر سے شناخت کیا جائے‘ پشاور تو اُس پھول کی پشاور ہی رہے گا‘ جس کے بارے میں برطانوی شاعر ولیم شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’گلاب کا پھول تو گلاب کا پھول ہی رہتا ہے چاہے اُسے کسی بھی دوسرے نام سے مخاطب کیا جانے لگے۔‘‘ 

این اے ون کے شمار میں تبدیلی سے اِس حلقے کی نہ تو تاریخی اہمیت و افادیت کم ہو گی اور نہ ہی پشاور کے سیاسی قدکاٹھ میں کوئی ’منفی تبدیلی‘ آئے گی۔ یاد رہے کہ مجوزہ (نئی) انتخابی بندیاں اگر من و عن یا 10فیصد تبدیلی کی گنجائش کے بعد لاگو ہو جاتی ہیں تو مجموعی طور پر پشاور سے’’قومی اسمبلی کی پانچ‘‘ اور ’’خیبرپختونخوا (صوبائی) اسمبلی کی چودہ‘‘ نشستیں (پی کے 66 سے پی کے 79) تخلیق ہوں گی اور اِن میں ’این اے ون‘ سمیت اندرون پشاور کے علاقوں کی نئی انتخابی حدود مقرر ہو جائیں گی‘ جس کی تین ’ترجیحات‘ عالمی معیار کے مطابق مقرر کی گئیں ہیں‘ جو قانون گو حلقہ‘ پٹوار خانہ اُور آبادی (مردم شماری سرکلز) پر مبنی ہیں۔ اگر ’این اے ون‘ کے انتخابی حلقے کی کوئی خاص (جادوئی یا کرشماتی) اہمیت (خاصیت) ہوتی اور ’ون (ایک)‘ کا عدد پشاور کے لئے یا یہاں سے ماضی میں منتخب ہونے والے کے لئے ’خوش بختی‘ کی علامت ہوتا۔ 

مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے سربراہ عمران خان (این اے ون) پشاور سے ’’90 ہزار 434 ووٹ‘‘ جیسے غیرمعمولی ووٹ حاصل کئے لیکن انہوں نے پشاور سے ملنے والی محبت کی قدر نہیں کی اور دستبردار ہونے کے بعد ’بصد احترام ’این اے ون‘ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو دے دی۔ تحریک انصاف کی قیادت ’این اے ون‘ کے ’’مبینہ اعزاز‘‘ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اگر وہ اپنی توانائیاں اور وسائل ’تحریک کے داخلی اختلافات‘ ختم کرنے پر خرچ کرے تو اِس سے مستقبل میں ’این اے ون‘ پر شکست جیسی شرمندگی نہیں دیکھنا پڑے گی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی آئینی مدت (پانچ سال) اختتام کے قریب ہے اور اِس تمام عرصے میں ضلع پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے کسی ایک بھی ضلع میں ’تحریک انصاف‘ کا تنظیمی ڈھانچہ مثالی صورت میں دکھائی نہیں دیتا۔ پارٹی سے دیرینہ‘ مخلص اور نظریاتی (سفیدپوش) کارکنوں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور انتخابی سیاست میں سرمایہ کاری والے (منظم جرائم پیشہ عناصر کی طرح) ہر انتخابی حلقے میں اپنے اپنے گروہوں کی سرپرستی کر رہے ہیں! یادش بخیر ایک وقت وہ بھی ہوتا تھا جب پشاور میں صرف چند لوگوں کے پاس موٹرگاڑی ہوتی تھیں لیکن قیام پاکستان کے بعد جس تیزی سے سرمایہ داروں میں اضافہ ہوا‘ اور جس طرح اُوقاف کی اراضی‘ قومی وسائل کی لوٹ مار اور آمروں کا ساتھ دینے والے ٹیکس چور‘ راتوں رات سرمایہ دار بنتے چلے گئے تو اُس کے بعد موٹرگاڑی کی ملکیت کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ تب چھوٹے نمبروں کی رجسٹریشن کا رواج چل نکلا اُور معاشرے کے سیاسی بااثر و سرمایہ داروں کی پہچان ابتدائی نمبروں (سنگل ڈیجیٹ) کی گاڑیاں ہونے لگیں۔ گاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن متعارف ہونے کے بعد یہ رجحان بھی رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا گیا جس کی جگہ موبائل فونز کے ’گولڈن نمبروں‘ نے لے رکھی ہے۔ بہرحال وقت بدل گیا لیکن ممتاز دکھائی دینے کے لئے ’روائتی انداز (پرانی) سوچ‘ نہیں بدلی اور یہی وجہ ہے کہ ’این اے ون‘ جیسے ’خیر محض نمبر‘ کو پشاور کے لئے ’اعزاز‘ قرار دیا جا رہا ہے‘ جنہیں اِس بات پر زور دینا چاہئے کہ ’’نمبر‘‘ کوئی بھی ہو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے بلکہ اصل چیز تو پشاور کے مسائل کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-03-09

Monday, March 5, 2018

Short Story: Fifty-2

پچاس الفاظ
مہلت
ٹریفک سگنل پر اِشارہ سرخ ہوتے ہی درجنوں بچے گاڑیوں کی قطاروں میں راستہ بناتے پھیل گئے۔ سردی کے باعث اُن کے ہونٹوں کی رنگت نیلی تھی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے گاڑی کے شیشے پر دستک دینے والوں نے کسی ’معذرت‘ کا بُرا نہیں مانا کیونکہ ’پچاس سیکنڈ‘ زیادہ نہیں ہوتے!
۔

Short Story: Fifty-1

پچاس الفاظ
خودکلامی
مارچ کے پہلے ہفتے موسلادھار بارشیں اُور یخ بستہ ہواؤں سے آنے والی سردی کی لہر غیرمتوقع ہے۔ موسموں کا مزاج پہلے جیسا نہیں رہا‘ آخر کیوں؟ دوسروں کی بجائے ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ۔۔۔ کیا ’ماحول دوستی‘ ہمارے معمولات اور فکروعمل پر مبنی ترجیحات کا حصہ ہے؟
۔

Sunday, March 4, 2018

TRANSLATION: Alarm Bells by Dr. Farrukh Saleem

Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کو خسارے لاحق ہیں۔ 
رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے ابتدائی سات ماہ کا جائزہ لیا جائے تو آمدن اور اخراجات میں عدم توازن 48 فیصد جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے‘ جو قریب 9 ارب ڈالر کے مساوی خسارہ ہے۔ قرض لیکر معاملات سدھارنے کی کوشش اور حکمت عملی بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی کیونکہ باوجود قرض حاصل کرنے کے بھی غیرملکی ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم ہر گزرتے دن کم ہو رہا ہے جو اِس وقت 12.7 ارب ڈالر ہے اور اِس کے ذریعے پاکستان صرف 2 ماہ کی درآمدات کرنے کے قابل ہے!

فروری 2017ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے درآمدات کی حوصلہ شکنی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے کے لئے چند اقدامات کئے جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ 404 اشیاء کی درآمد کے لئے 100 فیصد نقد رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اکتوبر 2017ء میں وفاقی وزارت خزانہ (ایف بی آر) نے 731 اشیاء پر اضافی درآمدی ڈیوٹی (محصولات) عائد کئے‘ اِن میں سے زیادہ تر چیزیں سامان تعیش تھیں جیسا کہ ڈائپرز‘ شیمپو‘ ٹماٹروں کا گودا (ٹومیٹو پیسٹ)‘ چاکلیٹ‘ دودھ یا اِس سے بنی ہوئی مصنوعات‘ کتوں کے لئے کھانے پینے کی اشیاء اور موٹر گاڑیاں شامل تھیں لیکن اِس کے باوجود بھی حکومتی آمدن و اخراجات (کرنٹ اکاونٹ) کے خسارے پر قابو نہیں پایا جاسکا جس میں اضافہ ہر تدبیر کی ناکامی ثابت ہو رہا ہے۔ ’’مریض عشق پر رحمت خدا کی ۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔‘‘

آمدن و اخراجات کے خسارے پر قابو پانے میں ’وزارت برائے مالیاتی امور (فنانس منسٹری)‘ مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ قومی اسمبلی نے سالانہ آمدن و اخراجات کے میزانئے کی منظوری دی جس میں مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے 4.1فیصد یعنی 1.480 کھرب روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن موجودہ بجٹ خسارہ چھ فیصد سے تجاوز کر گیا ہے جو 2.2 کھرب روپے کے مساوی ہے۔

پاکستان کے ’رواں خسارے‘ کی بنیادی وجہ قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث خزانے پر بوجھ ہے۔ بجلی کے پیداواری شعبے کو لیں جہاں کبھی 120 ارب روپے کی بجلی چوری ہوا کرتی تھی اب یہ چوری بڑھ کر 360 ارب روپے ہو چکی ہے۔ جولائی 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے حکومت سنبھالی اور 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا لیکن ایسے اقدامات نہیں کئے کہ جن سے گردشی قرض پھر سے جمع نہ ہو اور نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی آج ایک مرتبہ پھر 520 ارب روپے کا گردشی قرضہ ’حکومت پاکستان‘ پر واجب الادأ ہے! علاؤہ ازیں حکومت نے 450 ارب روپے کی سرمایہ کاری ’پاور ہولڈنگ کمپنی پرائیویٹ لمٹیڈ‘ میں کر دی ہے لیکن مذکورہ پاور ہولڈنگ کمپنی کو چلانے اور اِسے فراہم کئے جانے والے قرض کی ادائیگی کے لئے مزید قرض حاصل کرنے پڑ رہے ہیں۔ اگر ہم بجلی کے پیداواری شعبے کے مجموعی خسارے کو دیکھیں تو وہ ’970 ارب روپے‘ جیسی بلند سطح کو چھو رہا ہے لیکن اِس قدر غیرمعمولی خسارے کو ہنسی خوشی برداشت کرنے والے حقائق کا مسلسل انکار بھی کر رہے ہیں۔
کیا یہ بات اپنی جگہ تشویشناک نہیں کہ ’پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ کے قابل وصول محاصل (receivables) میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 334 ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ اِسی طرح ’سوئی ناردن گیس پائپ لائنز (ایس این جی پی ایل)‘ کا خسارہ 15.9 ارب روپے اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) کا سالانہ خسارہ 26 ارب روپے تک جا پہنچا ہے!

پاکستان کا اقتصادی خسارہ نہ صرف قومی آمدن کی مد میں ہونے والے نقصانات ہیں بلکہ غیرمحتاط حکومتی اخراجات اور غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے ہر پاکستانی خاندان قریب 10 لاکھ روپے کا مقروض بھی ہو چکا ہے!

انگریزی زبان میں دنیا کے عظیم ترین مصنفین اور ڈراما نگاروں میں شمار ہونے والے‘ برطانیہ کے قومی شاعر ولیم شیکسپیئر (William Shakespeare) نے کہا تھا
’’ہم اپنی غلطیوں کے لئے مردہ لوگوں کو قصوروار ٹھہراتے ہیں! (He that dies pays all debts)۔‘‘

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, March 3, 2018

Mar 2018: The delaying factors in RBT & increase in project cost!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: ترقیاتی و انتخابی اہداف!
تاریخ شاہد ہے اُور اِن دنوں پشاور سے کسی نہ کسی صورت مستقل یا وقتی واسطہ رکھنے والے گواہی دیں گے کہ صوبائی دارالحکومت کے طول و عرض میں جس بڑے پیمانے پر ’ترقیاتی عمل‘ جاری ہے‘ قبل ازیں کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی سرکاری کاموں میں کبھی بھی اس قدر باریکیوں (معیار و پائیداری) کو اِس طرح پیش نظر رکھا گیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت کا کوئی بھی عمل ’غیرسیاسی‘ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر کام میں اپنے ’سیاسی مفاد‘ کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں بالکل اِسی طرح عام انتخابات کے سال پشاور کی محبت کا غبار قابل فہم ہے۔ قانون سازی سے سڑکوں کی تعمیر اُور پشاور کی تاریخ کے مہنگے ترین ’ریپیڈ بس ٹرانزاٹ‘ منصوبے کا آغاز ’اکتوبر دوہزارسترہ‘ میں کیا گیا۔ قریب ’پچاس ارب روپے‘ کے اِس منصوبے کی تکمیل کے لئے چھ ماہ کا عرصہ جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ تھا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کے دور میں ہوئے جملہ ترقیاتی کاموں کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا رہا۔ اہل پشاور کو صبروتحمل (برداشت) کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے‘ پر جاری کام کی رفتار نہیں بلکہ اُس معیار کو دیکھنا چاہئے جس میں امانت و دیانت کا پہلو نمایاں ہے اُور اعتراض کرنے والے کیا ماضی کی کسی بھی حکومت کی کوئی ایک مثال ایسی لا سکتے ہیں جس میں سرکاری کاموں میں یوں ’معیار ترجیح‘ رہا ہو؟

تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت نے ’ریپیڈ بس منصوبہ‘ کی تکمیل ’بیس اپریل (دوہزاراٹھارہ)‘ تک کرنے کی حتمی تاریخ (ڈیڈ لائن) مقرر کی‘ جس کا حصول ممکن نہیں لیکن اگر یہ منصوبہ حسب توقع و اعلان کسی مقررہ تاریخ پر مکمل نہیں بھی ہوتا تو کیا اِس کی ’اِہمیت و اَفادیت‘ ختم یا کم ہو جائے گی؟ تنقید کی پرواز ہمیشہ بلند ہوتی ہے البتہ تحریک انصاف کے شایان شان تھا کہ وہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کی جملہ تفصیلات صیغۂ راز میں نہ رکھتی اور ہر الزام کا جواب دیا جاتا۔ 

صوبائی حکومت پر پہلا الزام یہ ہے کہ بس منصوبے پر تعمیراتی کام میں تاخیر اور ڈیزائن میں تبدیلیوں کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 2 ارب روپے سے زائد کا اضافہ متوقع ہے‘ جو کسی بھی طرح معمولی رقم نہیں۔ دوسرا الزام ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سجاد خان جو اِن دنوں خرابئ صحت کی وجہ سے رخصت پر ہیں لیکن اُن کے بارے میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ منصوبے کے نگران (پراجیکٹ ڈائریکٹر) کی طبی بنیادوں پر رخصت ناراضگی کی وجہ سے ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے تعمیراتی کام کی نگرانی ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے)‘ کو سونپ دی ہے جو زیادہ تجربہ کار ادارہ ہے جبکہ ’پی ڈی اے‘ حکام نے منصوبہ بندی اور ڈیزائن کے مراحل میں ہوئی کئی ایسی غلطیوں اور کمی بیشیوں کی نشاندہی بھی کی ہے‘ جس سے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی اہلیت‘ تجربے اور مہارت کا راز فاش ہو چکا ہے اور اُنہوں نے رخصت لینے ہی میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔ تیسرا یہ دعویٰ (اعتراض) یا الزام بھی اپنی جگہ وضاحت چاہتا ہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے والی ’ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ نے آئے روز ڈیزائن میں ہونے والی تبدیلیوں پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور مزید یا آئندہ کسی بھی تبدیلی کے بارے میں پیشگی اجازت لینے کی شرط عائد کر دی ہے۔

تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ ’معلومات تک رسائی‘ کے قانون اور صوبائی اسمبلی کی موجودگی میں بہت سی باتیں راز رکھنا ممکن نہیں ہوگا تو کیا ہی اچھا ہو کہ معلومات ذخیرہ اور اُنہیں چند افراد تک محدود رکھنے کی بجائے عام کیا جائے۔ 

سردست تحریک انصاف کے پاس صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ اطلاعات کے وسائل موجود ہیں جن کا استعمال کر کے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کے بارے میں الزامات کی وضاحت ممکن ہے جو عام آدمی (ہم عوام) کے ذہنوں میں ’شکوک و شبہات‘ پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ 

پشاور میں ٹریفک نظام کی وسعت ایک عرصے سے ’ناگزیر ضرورت‘ تھی لیکن اِس کا ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے ذریعے حل تلاش کرنے کی کوشش بھی سوفیصد نتائج کی حامل نہیں ہو گی کیونکہ ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل نہیں ہو سکی ہے۔ پشاور چار اطراف پھیل ہے اور اگر صوبائی حکومت ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل اور رنگ روڈ کے سنٹر میڈیا (درمیان میں راہداری) پر تیزرفتار بس یا میٹرو ریلوے کا منصوبہ بناتی تو اِس سے ’جی ٹی روڈ سیکشن‘ پر پہلے سے موجود ٹریفک کا دباؤ بڑھانے کی بجائے اِس میں نمایاں کمی لائی جا سکتی تھی۔ عجیب منطق رہی کہ پہلے ’جی ٹی روڈ‘ کو ترقی دی گئی۔ ذیلی سڑکوں کو بہتر بنایا گیا۔ نکاسئ آب کا نظام اور سبزہ زار (گرین بیلٹس) بنانے پر چار سال تک کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے رہے لیکن بعدازاں سب کچھ آن کی آن میں اُکھاڑ پھینک دیا گیا۔ 

سرکاری وسائل کا اِس قدر ضیاع شاید ہی ماضی کے کسی دور حکومت میں دیکھنے میں آیا ہو لیکن چونکہ ’اِس خرابی میں تعمیر کی ایک صورت بھی پنہاں‘ ہے تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے کی تکمیل کے بعد ’جی ٹی روڈ‘ پر تجربات کا جاری سلسلہ کم سے کم پچاس سال کے رُک جائے گا۔ 

جی ٹی روڈ پر ٹریفک دباؤ کے بنیادی محرکات میں جنرل بس اسٹینڈ اور پشاور بس ٹرمینلز بھی ہیں‘ جہاں سے بلاناغہ ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں اور لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کی آمدورفت رہتی ہے‘ جس طرح پشاور کی سبزی منڈی کو بیرون شہر منتقل کیا گیا اِسی طرح دیگر منڈیاں اور بس اڈوں کا بھی انتقال ہونا چاہئے۔ 

منطقی امر ہے کہ پشاور کا بس ٹرمینل ایک ہونا چاہئے اور یہ بس ٹرمینل ’ریپیڈ بس ٹرمینل‘ کے آغاز پر ہو تاکہ پشاور داخل اور خارج ہونے والے باسہولت‘ تیزرفتار اور باعزت بس ٹرانسپورٹ سے باآسانی استفادہ کر سکیں۔ جدید سہولیات کے ساتھ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بھی سنجیدہ توجہ چاہتا ہے۔ 

پشاور کو ایک جدید بس ٹرمینل (پبلک ٹرانسپورٹ منیجمنٹ سسٹم) کی ضرورت ہے اور اگر تبدیلی کی سوچ میں اِس ضرورت کے بارے میں بھی غور کیا گیا تو ’اہل پشاور مشکور و ممنون رہیں گے!‘
۔

Mar 2018: Pakistan Turk Free Trade Agreement - a mirage!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ایک ہاتھ کی تالی!
پاکستان کی کوشش ہے کہ ترکی کے ساتھ ’’آزاد تجارت کا معاہدہ (فری ٹریڈ ایگریمنٹ)‘‘ کی ایک مرتبہ پھر توثیق ہو جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارت کا حجم جو کہ 5 ارب ڈالر ہو سکتا ہے اُسے سال 2022ء تک 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکے۔ اِس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل فروری 2015ء سے جاری ہے جبکہ اکتوبر 2015ء میں انقرہ اجلاس اہم پیشرفت تصور ہوتی ہے لیکن اِن تمام کوششوں کا حاصل (لب لباب) یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان اور ترک حکام اِس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ دوطرفہ تجارت پر عائد 85 فیصد اخراجات (محصولات) کم کئے جائیں لیکن جس قدر گرمجوشی پاکستان کی جانب سے دیکھنے میں آ رہی ہے‘ ترک حکام اُس قدر مہربانی کا مظاہرہ نہیں کر رہے‘‘ اُور یہی وجہ ہے کہ وزارت تجارت نے وفاقی کابینہ سے پاکستانی مصنوعات پر ترکی میں ڈیوٹی کی کمی یا پھر پاکستان کی یورپی نظام کے تحت ترجیحات کے عمومی نظام کی حیثیت میں توسیع کے معاملے کو لیکر ترک حکام پر زور دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارتِ تجارت نے وفاقی کابینہ کو باقاعدہ طور پر اس بات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ ایسے ترقی پذیر ممالک جو ترجیحات کے عمومی نظام کی حیثیت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ ان میں سے ترکی نے پاکستان اور ارمانیہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو توسیع دینے سے انکار کردیا ہے اُور ضرورت اِس امر کی ہے کہ ترک حکومت سے پاکستانی مصنوعات پر دی جانے والی بھاری اضافی ڈیوٹی ختم کرانے کے لئے بات چیت کی جائے۔

فروری دوہزارپندرہ سے اب تک اسلام آباد اور انقرہ کے درمیان ہونے والے ’’آزاد تجارتی معاہدے‘‘ کے لئے مذاکرات میں متعدد مرتبہ اضافی ڈیوٹی کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا تاہم اس معاملے میں اب تک خاطرخواہ پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پاکستان نے اپنے حصے کی رعائت تو دے دی جس سے ترکی فائدہ بھی اٹھار رہا ہے لیکن پاکستان کو برآمدات بڑھانے میں خاطرخواہ فائدہ نہیں ہورہا۔ اِس وقت جو پاکستانی مصنوعات زیرِبحث ہیں‘ اِن میں ٹیکسٹائل‘ کارپٹ‘ ہاتھوں سے بنے فائبر‘ پلاسٹک اور جوتے وغیرہ شامل ہیں۔ اِن مصنوعات پر بیس سے پچاس فیصد تک ڈیوٹی مقرر ہے جبکہ مجموعی طور پر اِن اشیاء پر 28 سے67فیصد کی ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے جبکہ ان کے ساتھ دیگر (اضافی) محصولات بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ترک حکام کی جانب سے اس قدر بھاری ڈیوٹیز کے نیتجے میں سال دوہزارگیارہ سے پاکستانی مصنوعات کی برآمدات میں کمی ہو رہی ہیں اور یہ کمی قریب ستر فیصد جیسی غیرمعمولی ہیں‘ جو سات برس قبل 90کروڑ 60لاکھ ڈالر تھیں اور گزشتہ مالی سال تک کم ہوکر 28کروڑ 20لاکھ ڈالر رہ گئیں ہیں۔ وزارتِ تجارت کے نظر میں ترک حکومت پابند ہے کہ وہ پاکستان کی آزاد تجارتی حیثیت بحال کرے کیونکہ وہ خود بھی یورپی یونین کی کسٹم یونین کا سابق رکن ہے۔ یہی وہ مطالبہ ہے جو 2017ء میں ترک حکام سے کیا جاچکا ہے تاہم اس معاملے میں مذاکرات کی بجائے ’’آزاد تجارتی معاہدے‘‘ کی تجویز سامنے آئی۔ گزشتہ برس جون میں اِسی معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ اِس کی خصوصی حیثیت میں توسیع کی جائے یا پھر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی ٹیکس کے حوالے سے رعایت دی جائے۔ مذکورہ میٹنگ میں ترکی نے دوہزار گیارہ میں نافذ ہونے والی اضافی پچیس فیصد ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز پیش کی تھی‘ جو پانچ سال کے لئے تھی جبکہ دیگر مصنوعات کے لئے گیارہ سال تک توسیع کے امکان کو رکھا گیا تھا لیکن پاکستان نے ترکی کی اِس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ترک حکام پر زیادہ سے زیادہ نرمی دکھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا لیکن اگر حالیہ کوششیں بھی ناکام ہو جاتی ہیں تو اس کے بعد پاکستان درآمد ہونے والی ترک مصنوعات پر بھی اضافی ٹیکس لاگو کرنے کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہے گی‘ جس کے لئے ترکی ذہنی طور پر تیار دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اُس کے لہجے میں سختی کا عنصر یوں غالب دکھائی نہ دے رہا ہوتا۔ گزشہ برس دسمبر میں آزاد تجارتی معاہدے سے علیحدگی کے بعد ’پاکستان اور ترکی کے درمیان جوائنٹ ورکنگ گروپ‘ کا اجلاس ہوا‘ جس میں یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر اٹھایا گیا لیکن نتیجہ خیز نہیں رہا۔ مذکورہ مذاکرات میں ترک حکام نے واضح کیا تھا کہ ’’ترکی ان ممالک کو ’آزاد تجارتی حیثیت‘ نہیں دے گا جو پہلے ہی اس سے مستفید ہو چکے ہیں۔‘‘ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ہونے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی اُو) اجلاس کے موقع پر بھی پاکستان کی جانب سے ترکی کو منانے کی کوششیں رائیگاں رہیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان اب تک آزاد تجارت کے معاہدے سے متعلق جو پہلے دوہزار سولہ میں ہونے تھے انہیں دوہزارسترہ میں ہونا طے (شیڈول) کیا گیا اور ابھی بھی دونوں ممالک کے درمیان اس معاملے پر بات چیت کے لئے مذاکرات متوقع نہیں۔ 

حقیقت حال تو یہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان گرمجوش تجارتی تعلقات ’ایک ہاتھ سے تالی بجانے کی کوشش‘ ہے۔ ترک دو طرفہ تجارت اور آزاد تجارت کی بجائے یک طرفہ برآمدات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ 

عالمی سطح پر پاکستان سے محبت کا اظہار کرنے والے ممالک کی کمی نہیں لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو موجودہ اقتصادی مشکلات سے نکلنے میں مدد فراہم کرے۔ پاکستان کو درپیش دوسرا اہم مسئلہ مصنوعات کے معیار کا بھی ہے۔ 

ترک مصنوعات معیار میں بہتر ہونے کی وجہ سے عالمی منڈی میں اپنا مقام رکھتی ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قابل بھروسہ ’میڈ اِن پاکستان (Made in Pakistan)‘ اور ’میک اِن پاکستان(Make in Pakistan)‘ جیسے انقلابی اقدامات کئے جائیں تاکہ پاکستانی مصنوعات کی منڈیوں میں مانگ اور فوری کھپت ممکن ہو۔ تجارت بڑھانے کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ (شارٹ کٹ) کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ توانائی بحران‘ اِقتصادی مسائل اور پاکستانی کرنسی پر دباؤ کے علاؤہ مہنگائی جیسے اسباب پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں مقابلے کے قابل نہیں بنا پا رہیں۔ دوست ممالک سے توقعات وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن خوش فہمی کی بجائے حقیقت حال کا ادراک ضروری ہے کہ اقتصادی مشکلات کی موجودہ گھڑی میں پاکستانی برآمدات کو سہارا دینے کوئی نہیں آئے گا‘ جب تک ہم خود اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور نہیں کرتے۔
۔