Monday, February 26, 2018

Feb 2018: The Peshawar & Security Management

مہمان کالم
پشاور: سیکورٹی مینجمنٹ!
’دہشت گردی کی نئی لہر‘ کا مقابلہ‘ اُور امن و امان کی بحالی کے لئے ’تازہ دم کوششوں‘ کا آغاز ’فروری دوہزار سترہ‘ میں ’آپریشن ردالفساد‘ نامی فوجی کاروائی سے کیا گیا‘ جس کا بنیادی ہدف عمر خالد کی سربراہی میں ’جماعت الاحرار‘ اور قاضی فضل اللہ کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ تھیں‘ جنہوں نے ’’آپریشن غازی‘‘ کے نام سے فوجی تنصیبات‘ اہم شخصیات اور پبلک مقامات کو چن چن کر نشانہ بنایا اور جواز یہ تھا کہ ’لال مسجد‘ کے خطیب ’عبدالرشید غازی‘ کی سیکورٹی فورسیز کے ہاتھوں ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔ 

دارالحکومت اسلام آباد کے تجارتی و رہائشی مرکز کے عین وسط میں ’’لال مسجد محاصرہ (آپریشن سن رائز)‘‘ کسی بھی مسجد اور اُس سے متصل مدرسے (دینی درسگاہ) کے خلاف اپنی نوعیت کی منفرد کاروائی تھی‘ جو عالمی ذرائع ابلاغ کے اسلام آباد میں موجود نمائندوں کے لئے ’لاٹری‘ نکل آنے جیسا ’سنہرا موقع‘ تھا۔ وہ نمائندے جو پہلے دہشت گردی کے خلاف جاری کاروائیوں‘ کوششوں اور اِس کے اثرات و کامیابیوں کے بارے میں پرخطر مہمات کرنے خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کا رخ کرتے تھے‘ اُنہیں ’گھر کی دہلیز‘ پر خبریں ملنے لگیں اور وہ ایک ایسی فوجی کاروائی کے بھی عینی شاہد بن گئے‘ جو اُن کی رہائشگاہوں اور دفاتر کی کھڑکیوں سے بیٹھ کر بھی ملاحظہ کی جا سکتی تھی‘ بہرحال مشکل میں پھنسی ریاست (پاکستان) کو کئی چینلجز درپیش تھے۔ بات چیت (مذاکرات) کے ذریعے مسجد و مدرسے میں موجود مسلح عسکریت پسندوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ خون خرابے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ مسجد کی بے حرمتی نہ ہو اور نہ ہی ’مسجد و مدرسے‘ کی ساکھ متاثر ہو‘ کیونکہ عبادت‘ تزکیۂ نفس‘ درس و تدریس اور اخلاقیات کی تربیت گاہ ہونے کے علاؤہ یہی اکائی معاشرے کو جوڑے رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور اسلام میں مسجد کی حیثیت مغربی معاشروں کے ’کیمونٹی سنٹرز‘ سے زیادہ وسیع المعانی ’اِصطلاحی و معنوی وجود‘ بھی رکھتی ہیں‘ لیکن افسوس کہ دہشت گردوں نے اسلام کے طریقے‘ سلیقے و تہذیب اور پاکستانی معاشرے کی ہر خوبی کو دنیا کی نظروں میں مشکوک بنا دیا اُور یہی وہ ’نازک مرحلہ‘ تھا جب ’’تین سے گیارہ جولائی دوہزار سات (ایک ہفتہ ایک دن)‘‘ ہوئی فوجی کاروائی میں 1300 طلباء و طالبات اور قریب ایک سو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے 60 ہزار فوجیوں‘ رینجرز بشمول 164 کمانڈوز (اسپیشل سروسیز گروپ نامی انتہائی تربیت یافتہ فوجی دستے) نے ’لال مسجد محاصرہ کامیابی سے مکمل کیا‘ تاہم اِس سے ’منسوب ردعمل‘ سے نمٹنے کے لئے ’ردالفساد‘ نامی آپریشن ’بائیس فروری دوہزار سترہ‘ کو شروع کیا گیا‘ جس کا ایک سال مکمل ہونے پر ’پاک فوج کے ترجمان ادارے ’انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس پی آر)‘ نے بہت سی کامیابیاں گنوائی ہیں اور ’ردالفساد‘ کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے اور سکیورٹی صورتحال کے مستحکم ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ’ردالفساد‘ کے تحت ایک سال کے دوران (مجموعی طور پر) 1191 فوجی کاروائیاں یقیناًغیرمعمولی ہیں!

’ردالفساد‘ جاری ہے جو ’ضربِ عضب‘ نامی آپریشن کا تسلسل ہے۔ اِن دونوں فوجی کاروائیوں کے دوران قربانیوں اور مثالی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن یہ قضیہ ہنوز درپیش ہے دہشت گرد جو پہلے افغانستان سے متصل قبائلی علاقہ جات یا خیبرپختونخوا کے چند اضلاع تک محدود ہوا کرتے تھے‘ پورے پاکستان میں پھیل چکے ہیں اُور اُن کی طاقت کے مراکز افغانستان میں بھی قائم ہیں‘ جہاں سے وہ روائتی اور غیرروائتی راستوں کے ذریعے پاکستان کے اندر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت (مالی و افرادی قوت) رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’دہشت گردوں کی بلاروک ٹوک آمدروفت‘ روکنے کی کوششیں (بارڈر منیجنمنٹ) ہو رہی ہیں تاہم زیادہ اہم اندرون ملک دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا صفایا ہے اور اِس محاذ پر تاحال کامیابیوں کا شمار خاطرخواہ نہیں‘ جس بارے یقیناًقانون نافذ کرنے والے ادارے سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں گے‘ کیونکہ دہشت گرد حملوں میں ملوث کرداروں کی طرح اُن کے سہولت کار (شریک جرم) یکساں اہم و مستقل خطرہ ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر پشاور کی ’سیکورٹی صورتحال‘ کا خلاصہ (جائزہ) کیا جائے تو اِس ایک مثال سے منظرنامہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اندرون شہر کی یونین کونسل گنج‘ محلہ ہودا اُور محلہ کشمیری میں اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت جو ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ (نگرانی کے آلات) نصب کئے تھے‘ انہیں چوری کر لیا گیا اور چوری کی یہ واردات اکیس فروری کی شب ’تین بجکر تیس منٹ‘ سے قریب دس منٹ جاری رہی‘ جس کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ 

تھانہ کوتوالی (سی ڈویژن) کی حدود میں اِس واردات میں حصہ لینے والوں میں صرف ایک شخص نے اپنے چہرہ چھپا رکھا ہے‘ جو یقیناًمقامی (سہولت کار) ہے جبکہ دیگر افراد غیرمقامی ہیں اُور اُن کے لباس‘ سروں پر رکھی ٹوپیوں (خاص تنظیمی یونیفارم) اُور قدکاٹھ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی درسگاہ کا حصہ ہیں۔ سٹی سرکل روڈ پر ’’ٹیڈی گیٹ (یکہ توت)‘‘ رات کے اُوقات میں بند رکھا جاتا ہے اور یہاں ماضی میں پولیس مستقل تعینات رہتی تھی لیکن اُسے ہٹانے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پشاور کے مضافاتی دیہی علاقوں سے اندرون شہر جرائم پیشہ اور دہشت گرد کاروائیوں کے لئے پرپیچ گلیوں کے راستے استعمال کرتے ہیں اور کسی چھلاوے کی طرح اگر غائب ہو جاتے ہیں تو درحقیقت وہ ’ٹیڈی گیٹ‘ کی طرح کے اُن راستوں کا استعمال کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں صرف پشاور کے مقامی لوگ ہی علم رکھتے ہیں اور یہی علم اب سہولت کاروں کے ذریعے جرائم پیشہ اور دہشت گردوں تک جا پہنچا ہے!

’پاک افغان بارڈر منیجمنٹ‘ اپنی جگہ اہم ضرورت لیکن ’پشاور کی سیکورٹی منیجمنٹ‘ اُور بالخصوص اَندرون شہر مؤثر پولیسنگ کے ذریعے بھی جرائم اور دہشت گردوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ’ردالفساد‘ کے تحت اُس وقت بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کی جائے جب ’’پانی سر سے گزر جائے۔‘‘ دہشت گرد اندرون شہر اپنا ’نیٹ ورک‘ پھیلا رہے ہیں‘ جس سے متعلق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ کور کمانڈر اور انسپکٹر جنرل پولیس (خیبرپختونخوا) کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے‘ مبادا و نخواستہ جب ’چڑیاں کھیت چگ جائیں‘ تب پچھتاوے کا اظہار ہو۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-26

Feb 2018: The changing Peshawar & issue of Bala Hisar Fort in the court

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: کیا تھا؟ ۔۔۔ کیا ہے؟
ہرسمت تعمیر و ترقی کے خرچے اُور چرچے کا ’ہنگامہ خیز‘ دور جاری ہے‘ جس کے شاہد ’اہل پشاور‘ نے ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کے ذریعے درخواست کی ہے کہ صحت مند اور بامقصد تفریح کے ایسے مزید مواقع فراہم کئے جائیں‘ جس سے نئی نسل بالخصوص بچوں کو پشاور کے شاندار ماضی اُور یہاں کی ’’تاریخ‘ روایات اُور ثقافت آشنا‘‘ کیا جا سکے۔ 

یہی لمحۂ فکریہ پشاور کے باغات کی ’’واگزاری اُور بحالی‘‘ کا بھی ہے‘ جو سیاسی‘ ذاتی یا انتخابی مفادات رکھنے والے فیصلہ سازوں کی ’کمرشل اِزم سوچ‘ کی نذر ہو چکے ہیں! شاہی باغ‘ وزیر باغ‘ چاچا یونس پارک اُور جناح پارک‘ پشاور کا عکس اور عکاس ہیں جن کے موجود وسائل کو‘ تجاوزات اور کمرشل خرابات سے باآسانی واگزار کر کے ترقی دی جاسکتی ہے اُور اِنہیں ’عالمی معیار‘ کے مطابق ’سبزہ زاروں‘ میں ڈھالا جا سکتا تھا لیکن تحریک اِنصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کو شاید یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اُنہوں نے تو ’ہر یونین کونسل‘ کی سطح پر ’کھیل کا میدان (پلے گراؤنڈ)‘ بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے اور یوں پانچ سال کی آئینی مدت کی تکمیل کے قریب پشاور کی ’92 یونین کونسلوں‘ میں کم سے کم ’’سات درجن‘‘ سبزہ زار تو موجود ہوتے لیکن ’تلخ حقیقت‘ تو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی کل 3 ہزار 493 یونین کونسلوں میں چند درجن ہی خوش نصیب ’بلدیاتی یونٹ‘ ایسے ہیں‘ جہاں ماضی کی امانت‘ سبزہ زاروں کی ظاہری شکل و صورت‘ بازاروں اور قبرستانوں سے زیادہ مختلف نہیں جہاں ہر طرف ’’تجاوزات‘‘ عام ہیں!

مقام افسوس تو یہ بھی ہے کہ پشاور کے جن بازاروں کو مزاحمت اور کوششوں کے بعد تجاوزات سے پاک کیا گیا وہاں پھر سے بالخصوص نئی و پرانی تعمیرات اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہیں۔ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کا وجود اور اِس وجود کا خوف نام کی کوئی شے ہوتی تو کسی تاجر‘ آجر و اجیر کی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرتا‘ پشاور کے وسائل کی لوٹ مار کرے اور یہاں کے معاشرت و معیشت کو مسائل سے دوچار کرے۔ 

آج کے پشاور کی طرح‘ کبھی بھی یہ شہر‘ بناء نمائندگی (بے سروساماں) اور بے بس نہیں رہا اُور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اندرون پشاور سے منتخب ہونے والے غیرمقامی سیاسی و بلدیاتی نمائندوں سے ’نمائندگی (ترجمانی) کا حق‘ اَدا کرنے کی توقعات عبث ہیں۔ آج کے پشاور کا دُکھ صرف وہی نفوس سمجھ سکتے ہیں‘ جو خود پشاور سے ہوں اور نکتۂ نظر (اصطلاحی طور پر) بھی صرف اُنہی ارواح کو سمجھ آ سکتا ہے کہ ’’پشاور کیا تھا اور آج کا پشاور کیا ہے!؟‘‘

بہت دنوں بعد پشاور کی گلیوں میں ’گم ہونے کا اتفاق‘ ہوا۔ وہ شہر جو ’خون کے ساتھ رگوں میں گردش کرے‘ وہاں اجنبی چہروں کی چہل پہل (شورشرابے) اُور تیزی سے فنا ہوتا ’فن تعمیر‘ کا مشاہدہ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا۔ ہر چند ماہ بعد پشاور پہلے سے زیادہ مختلف اور پرہجوم دکھائی دیتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ’بیدار دل‘ اپنے ’اثاثوں کی نگہبانی‘ سے غافل ہوں۔ پشاور ہائی کورٹ میں دائر ایک مقدمے کی مثال کافی ہے جس میں 2 رکنی بینچ (جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس محمد غضنفر خان) اِن دنوں ایک ایسے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں‘ جس کا عمومی موضوع ’پشاور شناسی (تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کے انتظامی امور کی منتخب اداروں کو سپردگی) اور موجود وسائل تک عام آدمی (ہم عوام) کو استفادہ کرنے کی اجازت دینا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ اَٹھارہویں صدی میں تعمیر ہونے والے ’قلعہ بالا حصار‘ سے متعلق ہے‘ جسے اگر ’پشاور کی تاریخ کا مستند حوالہ‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اِس کے مطالعے سے ’تاریخ پشاور‘ کو سمجھنا اور سمجھانا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔

قلعہ بالا حصار (اپنے نام کی طرح) کسی تاریخی عمارت کے وجود سے کئی گنا زیادہ بڑی (قدآور) عمارت ہے چونکہ اہل پشاور کے لئے تفریح کے مواقعوں کی کمی ہے اِس لئے ’خورشید خان ایڈوکیٹ‘ نے پشاور ہائی کورٹ کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی ہے کہ ’بالاحصار‘ میں قائم ’فرنٹیئر کور (Frontier Corps)‘ (ایف سی) کے ’صدر دفتر (ہیڈکواٹر) کو ختم کرکے اِسے ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے جبکہ عدالت نے اِس سلسلے میں صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سے جواب طلب کر رکھا ہے اور اِن دونوں فریقین (صوبائی حکومت اُور ایف سی) کی خاموشی پر اِظہار افسوس کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے لچک دکھائی ہے‘ کہ اگر پورے قلعہ کو عوام کے لئے نہیں کھولا جا سکتا تو اِس کے کسی ایک حصے تک جزوی طور پر ہی سہی عوام کو رسائی دی جائے۔ 

درخواست گزار کا مؤقف منطقی ہے۔ ایف سی نے حیات آباد میں قبائلی علاقے خیبرایجنسی سے متصل ’صدر دفتر‘ تعمیر کر لیا ہے‘ تو اصولی طور پر قلعہ بالا حصار خالی کر دینا چاہئے کیونکہ ایک تو ’جی ٹی روڈ‘ کے اِس مقام پر ٹریفک کا ہمیشہ ہی سے دباؤ رہتا ہے اور دوسرا قلعہ کی پارکنگ اور حفاظت کے لئے سڑک کے ایک بڑے حصے کو بند کرنا بھی ضروری ہے تو اگر ’ایف سی ہیڈ کوارٹر‘ کو حیات آباد نئے دفتر منتقل کر دیا جائے تو اِس سے نہ صرف اندرون شہر ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی بلکہ ہنگامی یا عام حالات میں متصل لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے رجوع کرنے والوں کو سہولت میسر آئے گی جس کے لئے قلعہ کے اطراف میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک خصوصی راستے (کوریڈورز) بنائے جا سکتے ہیں۔

پشاور کو قلعہ بالاحصار پشاور کی کئی لحاظ سے ضرورت ہے اور چونکہ یہ حساس معاملہ عدالت عالیہ کے سامنے زیرغور ہے‘ جہاں اِس پورے قضیے (معاملے) کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے تو ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بھی ہے کہ پشاور سے ہمدردی اور وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی رائے عامہ سے عدالت کو آگاہ کریں کہ پشاور کا خاص و عام آدمی‘ نئی نسل اور یہاں کے منتخب نمائندے اِس بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ 

اُمید ہے کہ یہ قلعہ فوج کی بجائے سول انتظامیہ کے سپرد کر دیا جائے گا اور ضلعی انتظامیہ کے جو دفاتر شاہی باغ کی اراضی پر تعمیر ہیں‘ اُن تمام تجاوزات کو ہٹا کر ’شاہی باغ‘ کو اُس کا رقبہ واپس مل جائے گا‘ جس سے پشاور کی کم و بیش ’ستر لاکھ‘ سے زائد آبادی کے لئے سبزہ زاروں کی کمی تو پوری نہیں ہوگی‘ لیکن کیا عجب کہ پشاور کو وہ ’شاہانہ رونقیں‘ واپس مل جائیں جب شاہی باغ میں جھنڈوں کے میلے‘ سماجی ادبی محافل‘ مذاکرے چہل قدمی اور کھیل کود جیسی صحت مند سرگرمیوں کا باقاعدگی سے اِنعقاد ایک معمول ہوا کرتا تھا۔ لب لباب ’’بیداری کی لہر‘‘ ہے جس میں اہل پشاور کو ’اپنا پشاور‘ واپس چاہئے اُور بس! 
’’ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں ۔۔۔ 
تم آنا شہر میرا دیکھنے کو (اظہر عنایتی)۔‘‘
۔
 .... http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-26
Reclaiming Peshawar

Wednesday, February 21, 2018

Feb 2018: Insulting attitude, the management of SNGPL, Abbottabad!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سالگرہ مبارک!
خوش قسمت ہیں کہ جنہیں ’(سوئی) گیس یا بجلی کے کنکشنز‘ وراثت میں ملے‘ باقی ماندہ گھریلو اور صنعتی صارفین کے لئے مذکورہ وفاقی حکومت کے اِداروں سے رجوع کرنا ’ناخوشگوار تجربہ‘ ثابت ہوتا ہے۔ 

بیس فروری کے روز ریجنل گیس دفتر ایبٹ آباد جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں دو ہفتہ وار تعطیلات کے بعد صارفین کا غیرمعمولی رش کی بنیادی وجہ رہنمائی کے خاطرخواہ انتظام نہ ہونا تھا۔ ’مین گیٹ‘ سے داخل ہونے کے بعد دائیں ہاتھ پر ’کسٹمرز کاونٹر‘ اِس پوری عمارت کا سب سے چھوٹا اور تنگ و تاریک کمرہ تھا‘ جہاں مرد و خواتین (محرم و نامحرم) ایک دوسرے سے ٹکرانے کی لاکھ کوشش کریں تب بھی ممکن نہیں ہوتا کہ جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ ایک دوسرے سے مس نہ ہو۔

نجی اِداروں بالخصوص بینکوں کی مثال موجود ہے جہاں صارفین کی رہنمائی اور انہیں متعلقہ شعبوں تک رسائی کے لئے خودکار نمبروں کے اجرأ اور آرام دہ انتظار گاہیں فراہم کی جاتی ہیں لیکن ایبٹ آباد گیس کے مرکزی دفتر میں صارفین کے لئے انتظار گاہ کا انتظام موجود نہیں۔ دفتر کے ملازمین آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے جبکہ صارفین جانوروں کی طرح اُچھل اُچھل کر یا اپنے قد کو اونچا کرنے اور چیخنے پر مجبور تھے۔ اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی! کمرے کے کونے میں ’خصوصی کاونٹر‘ دیکھ کر حیرت ہوئی‘ جہاں فارغ بیٹھے خوش شکل‘ خوش لباس و گفتار اہلکار سے ’گیس میٹر کی ملکیت تبدیل کروانے کا طریقۂ کار پوچھا تو موصوف نے کھڑکی سے نظر آنے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بس اتنا کہا کہ ’’سیلز ڈیپارٹمنٹ چلے جاؤ۔‘‘ 

اصولی طور پر ’کسٹمرز کاونٹر‘ ہی پر طریقۂ کار ہی بتا دینا چاہئے بہرحال درجن بھر سیڑھیوں سے ہوتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہونے پر پتہ چلا کہ کسی بھی جگہ سیلز ڈیپارٹمنٹ تک پہنچنے کے لئے رہنمائی نہیں دی گئی اور نہ ہی اِس عمارت کے اندر باوردی سیکورٹی اہلکار تعینات تھے‘ کہ جن سے پوچھا جاسکتا۔ دو ایک ’راہ گیروں‘ سے پوچھنے پر بھی پتہ نہ چلا تو واپس داخلی گیٹ پر آنا پڑا جہاں محافظ نے بتایا کہ دائیں ہاتھ کا آخری کمرہ‘ جہاں پہنچ کر گرد آلود میزیں‘ الماریوں سے اُمنڈتی ہوئی فائلوں اُور کتابچوں نے استقبال کیا جو چیخ چیخ کر متعلقہ شعبے کی کارکردگی کا احوال سنا رہی تھیں! ایک اہلکار سے مدعا بیان کیا تو معلوم ہوا کہ کمرے کے آخر میں بیٹھے صاحب سے رجوع کریں‘ جنہوں نے عمارت کے تہہ خانے میں نجی فوٹو اسٹیٹ مشین والے کا پتہ بتایا کہ آپ کا ’’مطلوبہ دو عدد فارم‘‘ وہاں سے ملیں گے۔ بیس سڑھیاں اُتر کر کیفے ٹیریا کے ایک کونے میں دو عدد فوٹواسٹیٹ مشینیں لگائے شخص نے باری آنے پر ’’دس روپے‘‘ کے عوض مطلوبہ فارم فراہم کئے‘ جس کی ادارے کی جانب سے نہ تو کوئی قیمت مقرر ہے اور نہ گیس میٹر کی ملکیت تبدیل کرنے کے لئے کوئی فارم ہی تخلیق کیا گیا ہے۔ ادارے کے بنائے گئے ’فارمیٹ‘ کو اگر ’مروجہ فارم‘ تسلیم کر لیا جائے تب بھی اِس کی قیمت ادارے ہی کو مقرر اور وصول کرنی چاہئے تھی۔ جس ادارے میں دس روپے جیسی چھوٹی بدعنوانی کا امکان بھی نہ چھوڑا جائے‘ وہاں کے انتظامی و مالی امور کے بارے کچھ نہ ہی کہا جائے تو عافیت ہے۔ 

سرکاری عمارت کے احاطے میں نجی فوٹو اسٹیٹ کا مقصد صارفین کی سہولت ہے یا بدعنوانی کا ذریعہ؟ وہ فوٹو اسٹیٹ جو بازار میں دو روپے کے عوض ہوتی ہے یہاں اُس کے سرعام پانچ روپے وصول کیوں کئے جا رہے تھے؟ یہ دھندا بناء انتظامی نگران کی آشیرباد سے چلنا ممکن ہی نہیں‘ جن کی کھوج کرنے پر معلوم ہوا کہ ’’ریجنل منیجر (صاحب بہادر)‘‘ اِسی دفتر کی بالائی منزل پر تشریف رکھتے ہیں۔ چالیس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اُن کے سیکرٹری نے ملاقات سے قبل شناخت مانگی‘ جو صاحب کو بھیج دی گئی اُور انہوں نے طلب کرلیا۔ ہاتھ میں فائل‘ چہرے پر تھکاوٹ اور بیزاری کے آثار دیکھتے ہی بناء سلام کا جواب دیئے کہا ’’لاؤ فائل‘ کیا کام ہے؟‘‘ جی کوئی کام نہیں‘ صرف آپ کی توجہ چاہئے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ وسیع و عریض اور پوری عمارت کا سب سے زیادہ روشن اور صاف ستھرا کمرہ جگمگا رہا تھا۔ 

پہلا سوال: اگر میں آپ سے کوئی سوال پوچھوں تو کیا آپ اُس کا ’آن دی ریکارڈ‘ جواب دیں گے؟ 
کرخت لہجے میں جواب ملا: کام بتاؤ کام؟ 

کیا آپ کو معلوم ہے کہ میٹر کی ملکیت تبدیل کرنے سمیت دیگر خدمات کے فارمز دستیاب نہیں اور صارفین کو قیمت ادا کر کے خریدنے پڑتے ہیں؟ 
آس پاس بیٹھے ماتحت اہلکاروں نے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سر اِس بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔‘‘ 

صاحب کا مزاج بگڑ چکا تھا‘ اُن کے چہرے پر رعونت سے لگ رہا تھا کہ پٹائی ہونے والی ہے! اٹھتے اُٹھتے اور معافی چاہتے ہوئے سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ صاحب کیا ایسا ممکن ہے کہ تمام مطلوبہ فارم ’کسٹمرز کاونٹر‘ پر ہی مہیا کر دیئے جائیں؟ صارفین کو کسی بھی تہہ خانے (انڈر گراونڈ) اور ’انڈر ٹیبل‘ قیمت ادا ہی نہ کرنی پڑے؟ کیا یہ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ ایسے فارم اور ہدایات آن لائن حاصل (ڈانلوڈ) کئے جا سکیں؟ کیا عمارت کے باقی حصوں کی صفائی بھی آپ کے دفتر کی طرح ممکن ہے؟ صاحب نے ڈیسک فون اٹھا لیا جیسے اُنہیں کوئی ضروری بات یاد آ گئی ہو!

’سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمٹیڈ‘ ایبٹ آباد کے ’ریجنل منیجر‘ جیسے باصلاحیت‘ تعلیم یافتہ اُور ذمہ دار سینیئر ترین اہلکار کا رویہ اگر ایک عام صارف سے ایسا تھا‘ تو وہ اُن کے ماتحت عملے کے روئیوں کا گلہ نہیں کرنا چاہئے۔ 

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم عوام جن لوگوں کو منتخب کر کے فیصلہ اور قانون سازی کے منصب پر فائز کرتے ہیں‘ یہ انتظامی نگران اُنہیں خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر ایبٹ آباد سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون‘ رکن صوبائی اسمبلی (پی کے پینتالیس) مشتاق احمد غنی‘ پاکستان تحریک انصاف کا نامزد ضلعی ناظم علی خان جدون اُور تحصیل ناظم محمد اسحاق عوامی حقوق کے محافظ ہوتے تو کسی اعلیٰ و ادنی سرکاری ملازم کی جرأت ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اُس عام آدمی پر ’غیض و غضب‘ کا بے خوف اظہار‘ کرتا‘ جبکہ اُس کے ادا کردہ ٹیکسوں پر وہ اُور اُس کے اہل و عیال مراعات یافتہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 

عام آدمی (ہم عوام) کی بے توقیری کا یہ ذاتی (تلخ) تجربہ اور مشاہدہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا‘ جب زندگی کے ’پچاس سال‘ مکمل کرنے پر شمار (حساب کتاب) سے پتہ چلا کہ چند تعلیمی و تعریفی اسناد‘ ذہن نشین رزق حلال کی اہمیت‘ محنت میں عظمت کے اسباق کی کوئی وقعت نہیں اور ’ذلت و بے توقیری‘ کے علاؤہ کوئی جنس بھی ہاتھ نہیں!
۔
Tale of a visit to SNGPL Abbottabad Office on Feb 20, 2018.
It was worth to worst experience that no one out there to protect the rights of ordinary citizen, the Hum Awaam
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-21

Tuesday, February 20, 2018

Feb 2018: Controversial pics, solution is unity of Muslim Ummah

مہمان کالم
متنازعہ تصاویر!
اِسلام کے مقدس ترین شہروں میں سرفہرست ’مکہ مکرمہ‘ اُور ’مدینہ منورہ‘ میں ’غیرمسلموں‘ کے داخل ہونے کی ’شرعی پابندی‘ پر پوری اُمت مسلمہ کا اتفاق ہے بلکہ ایک سوچ تو اِن شرعی احکامات کی تشریح زیادہ سخت گیر انداز میں کرتے ہوئے پورے ’جزیرۃ العرب‘ پر غیرمسلموں کے داخلے کی مخالفت کرتی ہے‘ اِس سلسلے میں القاعدہ تنظیم کے سربراہ ’اُسامہ بن لادن‘ کی تقاریر اُور بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں‘ جن میں اُنہوں نے سعودی عرب میں امریکی تنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’غیرمسلموں کا جزیرۃ العرب پر ناپاک وجود ناقابل قبول ہے۔‘‘

مسلم دنیا میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کی طرف سے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں داخلے کی ممانعت کے بارے میں اعلانات بھی آویزاں کئے گئے ہیں‘ جو حج و عمرہ کے زائرین کی اکثریت نے دیکھے (نوٹس کئے) ہوں گے لیکن نومبر دوہزار سترہ کی بات ہے جب روسی نژاد اکتیس سالہ یہودی ’بین سیون‘ نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ’مسجد نبوی‘ کی ایسی تصاویر جاری کیں‘ جس میں وہ مقامی افراد کے ساتھ بھی کھڑا ہے اور اُس کے گلے میں آویزاں بستے پر عبرانی زبان کے الفاظ بھی تحریر ہیں۔ عبرانی اسرائیل کی سرکاری زبان ہے اور روسی نژاد ’بین سیون‘ اسرائیل کی شہریت رکھتا تھا۔ بہرحال مسجد نبوی کی صفوں پر کھڑے ہو کر لی جانے والی تصاویر اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوئیں تو اِس گستاخی پر مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ اور مسلمان سوشل میڈیا صارفین نے شدید احتجاج کیا لیکن سعودی حکومت خاموش رہی اُور اُمید تھی کہ اِس گستاخی کے بعد سعودی حکام سیکورٹی انتظامات میں رہ جانے والی اُن خامیوں کا تدارک کریں گے جس کی وجہ سے ایک یہودی کو مسجد نبوی کے اندر تک رسائی مل گئی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مذکورہ یہودی شخص نے اپنی مذہبی حیثیت پوشیدہ نہیں رکھی بلکہ وہ ہر ملنے والے سے کہتا رہا کہ وہ یہودی ہے اور یروشلیم سے آیا ہے لیکن کسی بھی عربی و عجمی نے اُس کی اِس بات کا نوٹس نہ لیا۔ رواں ہفتے (فروری دوہزار اٹھارہ کے تیسرے ہفتے) سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ ’مسجد نبوی‘ کی ایک ایسی تصویر شائع کی گئی ہے‘ جس سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور اُنہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ مسجد نبوی کے تقدس کا خیال رکھنے کا مطالبہ کس سے کریں کیونکہ ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کی بادشاہت مسجد نبوی کی اِس بے حرمتی پر خاموش ہے۔

تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ مسجد نبوی کے صحن میں چار برقع پوش خواتین چادر بچھا کر پورے اطمینان و اہتمام سے بیٹھی ہیں اور وہ تاش کے پتے ہاتھوں میں لئے ایک ایسے مغربی کھیل میں مشغول ہے‘ جس کا تعلق جوئے سے بھی ہے‘ اور اسلامی دنیا میں اِس سمیت کسی بھی کھیل کے لئے مسجد کے استعمال کو ناپسندیدگی (گناہ) کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مسجد میں دنیاوی باتیں‘ ہنسی مذاق اور اونچی آواز میں بات چیت کی ممانعت کا ذکر بھی احادیث میں کثرت سے ملتا ہے۔ بہرحال چار برقعہ پوش خواتین‘ جن کی شناخت تصویر سے ظاہر نہیں ہو رہی‘ تاش کے کھیل میں مگن ہیں اور اُن کے آس پاس کئی لوگ احرام پہنے دکھائی دے رہے ہیں۔ چونکہ مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) کے فن تعمیر میں ایک خاص قسم کی مماثلت پائی جاتی ہے‘ اِس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تصویر اِن دونوں مقامات میں سے کہاں لی گئی ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ تصویر کسی مسجد کے صحن ہی کی ہے‘ جسے ٹوئٹر (twitter) پر @RassdNewsN نامی عربی زبان کے نشریاتی ادارے کی جانب سے ’اٹھارہ فروری‘ کے روز جاری کیا گیا اور تصویر کے ساتھ تفصیل (کیپشن) میں لکھا گیا کہ خواتین بادشاہ فہد کے نام سے منسوب مسجد کے دروازے سامنے تاش کھیل رہی ہیں۔‘‘

بائیس لاکھ ستر ہزار سے زائد صارفین رکھنے والے ٹوئٹر اکاونٹ پر مذکورہ تصویر کو قریب ’ڈھائی سو‘ ٹوئٹر صارفین نے پسند کیا جبکہ اِس پر تبصرہ کرنے والے 159 افراد کی اکثریت نے خواتین کے اِس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بحث چل نکلی کہ سعودی حکمرانوں نے سنگ مرمر کے چمکتے دمکتے فرش اور روشنیوں سے منور مسجدیں تو بنا دی ہیں لیکن مسجد کا احترام کرنے والے افراد کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔‘‘ کسی یہودی کے مسجد نبوی میں پہنچنے پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’سعودی عرب وہ مقام ہے‘ جہاں حکومت کی رائے سے مسلکی بنیادوں پر اختلاف رکھنے والے علمائے کرام جیلوں میں بند ہیں جبکہ یہودی آزاد ہیں!‘‘

تاش یا اِس جیسا کوئی کھیل کھیلنے میں مشغول تین خواتین جواں سال جبکہ ایک ادھیڑ عمر کی دکھائی دیتی ہیں‘ جنہیں نماز کی ادائیگی کے لئے کرسی کی ضرورت پڑتی ہے اور اِس قسم کی طے ہو جانے والی (فولڈنگ) کرسیاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی مارکیٹوں میں عام مل جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن مساجد کے ہر ستون کے ساتھ نگران (سی سی ٹی وی) کیمرے نصب ہیں‘ وہاں اِس قسم کے واقعات کیونکر رونما ہو سکتے ہیں‘ جبکہ مساجد کی انتظامیہ‘ مقامی پولیس اور افراد اِس سے بے خبر رہیں؟چار خواتین کی تصویر رات کے کسی پہر میں بنائی گئی کیونکہ تصویر میں صحن کی روشنیاں دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ عام لوگوں کی آمدورفت بھی معمول کے مطابق (پس منظر میں) جاری ہے‘ جن میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے خاص لباس قسم کا لباس (احرام) پہن رکھا ہے۔

پشاور کی سرتاج روحانی شخصیت‘ پیرطریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مبارکہ ’’الشعراء‘‘ کی آیات (دوسو ایک سے دو سو سات) کا ترجمہ اُور تشریح کئی روز تک کرتے رہے تاکہ دنیاوی ترقی کی حقیقت اور رب تعالیٰ کی نافرمانی کے مضامین سمجھ میں آ سکیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ (ترجمہ): ’’وہ (نافرمان) جب تک درد دینے والا عذاب (اپنی اوپر نازل ہوتا) نہیں دیکھیں گے‘ یقین نہیں کریں گے۔ (اُن گستاخوں کو خبر دے دو کہ) وہ (عذاب) اُن پر ناگہاں (اچانک) نازل ہوگا اور انہیں (باوجود جدید ترین آلات بھی پیشگی) خبر نہیں ہو سکے گی۔ (پھر جب اللہ کا عذاب اُن منکرین پر نازل ہوگا تو) اُس وقت (وہ) کہیں گے (کہ) کیا ہمیں مہلت ملے گی؟ تو کیا (ایسا نہیں کہ) یہ (نافرمان) ہمارے عذاب کو جلدی طلب کر رہے ہیں؟ بھلا دیکھو تو اگر ہم اِن کو (دنیاوی علوم میں غوروفکر کے) برسوں فائدے دیتے رہے۔ پھر اِن (اللہ کے غیض و غضب کو آواز دینے والوں) پر وہ (عذاب) نازل ہو‘ جس کا تم سے (یہاں) وعدہ کیا جا رہا ہے۔ تو (دنیاوی مال و اسباب اور مادی ترقی سے) جو فائدے (آسائشیں) یہ اُٹھاتے رہے‘ اِن کے کس کام آئیں گی؟‘‘

کسی یہودی کی مسجد نبوی میں گھس کر ’’گستاخانہ جرأت‘‘ کا مظاہرہ کرنا ہو یا برقعہ پوش خواتین کا مسجد میں تاش کھیلنا‘ یہ دونوں اعمال کسی بھی عبادت گاہ کے احاطے میں بلاتفریق مذہب و مسلک ناپسندیدہ ہیں‘ تو کیا اِس قسم کی تصاویر کو مسلمانوں کی دل آزاری جیسی مذموم کوشش کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے جیسا کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے تیار کئے گئے تھے یا اُن کے بارے میں گستاخانہ مضامین کتابی صورت میں شائع کئے گئے یا قرآن کریم کے نسخے شہید کئے گئے۔ مسلمانوں پر اِس قسم کے مظالم اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک وہ ’اُمت واحدہ (متحدہ)‘ نہیں بن جاتے اور تب تک جذبات کے اظہار پر کنٹرول کرنا ہوگا۔ اُمت کے اتحاد کی دعائیں کرنا ہوں گی اور سمجھنا ہوگا کہ مذکورہ سازشیں درحقیقت مقدس مقامات‘ بعداز خدا بزرگ ہستیوں اور مساجد کے تقدس کو کم کرنے کی سوچی سمجھی (دانستہ) کوشش (منظم سازش) ہیں۔
۔
اس تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بین سیون نے روایتی عرب لباس پہن رکھا ہے، جو اس کے بقول وہ یروشلم سے لے کر آیا تھا اور وہ ایک بیگ میں لکھے اپنے نام کی جانب اشارہ کررہا ہے جو کہ عبرانی زبان میں تحریر ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ تصویر میں دیگر افراد کو احرام میں آتے جاتے دیکھا جاسکتا ہے، تاہم تاش کے پتے کھیلنے والی خواتین آرام سے اپنے کھیل میں مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ تصویر میں دیگر نقاب اور برقع پوش خواتین و احرام میں ملبوس مرد حضرات کو بھی فرش پر بیٹھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

Sunday, February 18, 2018

Feb 2018: Wishes vs Development - the development scenario of KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ترقیاتی اہداف: اِنتظامی مشکلات!
خیبرپختونخوا حکومت کا شروع دن سے دعویٰ رہا ہے کہ اِس نے اُن تمام شعبوں کی ترقی کو نسبتاً زیادہ توجہ دی‘ جو ماضی میں ’نظرانداز‘ چلے آ رہے تھے اور اِس سلسلے میں ’’صحت و تعلیم‘‘ کا بطور خاص ’فخریہ ذکر‘ کیا جاتا ہے لیکن مختلف مدوں کے لئے صوبائی آمدنی سے مختص مالی وسائل اور اِن مالی وسائل کے استعمال سے متعلق اعدادوشمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ ۔۔۔ ’’صوبائی حکومت اپنے ہی مقرر کردہ ’ترقیاتی اہداف‘ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ صوبائی سطح پر منصوبہ سازی اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے درمیان پائے جانے والے ’زمین و آسمان‘ کے فرق کی وجہ سے رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے اختتام پر ممکن نہیں ہوگا کہ ترقی کے لئے مختص تمام مالی وسائل باوجود خواہش و کوشش بھی خرچ ہو سکیں! شک و شبے سے بالاتر ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے باقی ماندہ پاکستان کے سامنے یہ ’’بینظیر مثال‘‘ پیش کی کہ ’’تعلیم ترجیح ہونی چاہئے۔‘‘ سال دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد‘ جب تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اُس وقت ماضی کی حکومتیں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ سالانہ ’61 ارب روپے‘ مختص کیا کرتی تھیں‘ جس میں مثالی اضافہ کرتے ہوئے یہ رقم بڑھا کر سالانہ ’’138 ارب روپے‘‘ کر دی گئی اور پھر اِس میں ہر سال اضافہ بھی کیا جاتا رہا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران صوبائی حکومت کی جانب سے شعبۂ تعلیم کے لئے مختص رقم کا صرف ’’31فیصد‘‘ حصہ ہی استعمال ہو سکا ہے!

خیبرپختونخوا کا مسئلہ مالی وسائل کی کمی نہیں بلکہ درپیش انتظامی مشکلات ہیں‘جن کی وجہ سے ترقیاتی اہداف کے حصول ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اِن محرکات میں صوبائی حکومت کی ترقی کے عمل پر خاطرخواہ توجہ مرکوز نہ ہونا بھی شامل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے وفاقی سطح پر ’انسداد بدعنوانی‘ کے لئے جو ’گرانقدر‘ آئینی و پارلیمانی جدوجہد شروع کر رکھی ہے‘ اُس میں خیبرپختونخوا حکومت کو اِس طرح شریک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی بلکہ ’خیبرپختونخوا محاذ‘ پر صوبائی سیاسی فیصلہ سازوں کو کارکردگی کے ذریعے دوسرے صوبوں کی حکومتوں پر عوام کا دباؤ بڑھانا تھا۔ کچھ ایسا منظر دیکھنے کو ملتا کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں ’’تحریک انصاف‘‘ کی طلب کرنے والے سڑکوں پر نکل آتے اور اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کو جھنجوڑتے کہ دیکھو ’طرزحکمرانی‘ یہ ہوتی ہے لیکن آج یہی سوال قدرے مختلف اَنداز میں پوچھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا طرز حکمرانی ایسی ہوتی ہے؟‘‘

رواں مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے دوران سرکاری تعلیمی اِداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور تعمیرومرمت کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے صوبائی حکومت نے 20.3 ارب روپے مختص کئے‘ جس میں سے 14 ارب روپے بنیادی و ثانوی (ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن) اور 6.3 ارب اعلیٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن) کے شعبوں کی ضروریات کے لئے تھے لیکن منصوبہ بندی و ترقی کے صوبائی محکمے کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پہلے چھ ماہ کے دوران بنیادی و ثانوی تعلیم پر 7.88 ارب روپے جاری ہو سکے جن کا 33 فیصد (4.71 ارب روپے حصہ) ہی استعمال ہوا۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال کے آغاز پر ’خیبرپختونخوا حکومت‘ نے ’انقلابی ترقیاتی حکمت عملی‘ پیش کرنے کا دعویٰ کیا تھا‘ جو اعدادوشمار کی حد تک تو ’سو فیصد‘ درست ہے یعنی صوبائی حکومت نے سالانہ ’’208 ارب روپے‘‘ کا جو ترقیاتی پروگرام پیش کیا تھا‘ اُس میں 82 ارب روپے غیرملکی ذرائع سے حاصل ہونا تھے اور 126 ارب روپے صوبائی حکومت کی اپنی آمدنی تھی۔ اِس 208 ارب روپے کے ترقیاتی حجم کے لئے چھ ماہ میں 61.4 ارب روپے جاری کئے گئے اور اِس اکسٹھ ارب سے زائد جاری ہونے والی اِس خطیر رقم کا بھی صرف ’34.8 فیصد (43.8 ارب روپے حصہ)‘ ہی استعمال ہو سکا! افسوسناک امر یہ ہے کہ اگر خیبرپختونخوا حکومت کی سالانہ ترقیاتی کارکردگی کا موازنہ خود اِس کے اپنے ہی ماضی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران کارکردگی قدرے بہتر تھی اور صوبائی حکومت نے ترقیاتی امور کے مختص مالی وسائل کا 36 فیصد حصہ خرچ کیا تھا جو کم ہو کر قریب پینتیس فیصد رہ گیا ہے! 

عجب ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والی مالی وسائل کا بھی صرف 29 فیصد حصہ (2.2 ارب روپے) ہی استعمال ہو سکا ہے۔ تعلیم کی طرح صحت کے شعبے میں بھی خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی زیادہ متاثرکن نہیں۔ سالانہ ترقیاتی حکمت عملی میں صحت کے لئے ’’12 ارب روپے‘‘ مختص کئے گئے جن میں سے 5.3 ارب روپے جاری ہوئے اور چھ ماہ کے دوران اِس جاری کردہ پانچ ارب روپے سے زائد رقم کا 3.2 ارب روپے (26.9فیصد حصہ) خرچ ہوا۔

اعدادوشمار نہ تو ہمیشہ ’’گمراہ کن‘‘ ہوتے ہیں اور نہ بوریت بھرے بلکہ اِن کا ہر لفظ ’نپا تلا‘ اور ’اہمیت کا حامل‘ (نتیجہ خیز) ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی معلوم کرنے کا کوئی نہ کوئی ایسا معیار اور کسوٹی تو بہرحال مقرر کرنا پڑے گی‘ جس پر زمینی حقائق کی جانچ کی جا سکے اور مالی امور سے متعلق اعدادوشمار گواہ ہیں کہ تحریک انصاف کے لئے خیبرپختونخوا میں حکومت ’خوش نصیبی‘ ہے لیکن اِس سے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی میں ’تبدیلی‘ نمایاں نہیں۔ صوبائی حکومت کی آئینی مدت (پانچ سال) مکمل ہونے کو ہیں‘ اِس عرصے کے دوران صوبائی حکومت کی ترجیح چار شعبے (تعلیم‘ علاج معالجہ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور شاہراؤں کی توسیع و تعمیر) رہے لیکن اِن میں سے کسی ایک میں بھی ’’سوفیصد ترقی‘‘ اور کسی ایک بھی مالی سال میں مختص مالی وسائل سے ’’سوفیصد استفادہ‘‘ نہیں کیا جاسکا۔ 

صوبائی فیصلہ سازوں کے پیش نظر ’’سیاسی‘ ذاتی اُور انتخابی مفادات‘‘ کے تابع ’ترقیاتی حکمت عملی‘ اگر اَدھوری (نامکمل) ہے تو اِس کی ذمہ داری بھی بہرحال ’تحریک انصاف‘ ہی کو قبول کرنا پڑے گی‘ چاہے کوئی سنے یا نہ سنے‘ توجہ دے یا نہ دے‘ قابل غور سمجھے یا نہ سمجھے لیکن خیبرپختونخوا کے مسائل حل کرنے میں حسب وعدہ اور اعلانات کامیابی حاصل نہ کرنے والی ’تحریک انصاف‘ کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے احتساب (عام انتخابات) کی گھڑی دستک رہی ہے۔
۔

TRANSLATION: Horse-Trading by Dr. Farrukh Saleem

Horse-trading
ہارس ٹریڈنگ
سال 37 سے 41 عیسوی کی بات ہے جب ’’رومن دور حکومت کے تیسرے بادشاہ ’گائیس جولیس سیزر‘ (Gaius Julius Caesar) المعروف ’کالیگوا‘ (Caligula) کو اپنے گھوڑے ’اِنچی تاتُس (Incitatus)‘ سے اتنا پیار ہوا کہ اُسے ’رومن قانون ساز ادارے ’سینیٹ‘ کا رکن بنا دیا گیا۔‘‘ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے اُمیدواروں کی زبانی سنا ہے۔ تین مارچ کے روز ’سینیٹ انتخابات‘ کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لئے بلوچستان اسمبلی 65 اراکین اسمبلی نے اپنے اپنے ووٹ (رائے) کے ذریعے 7 سنیٹیرز کا براہ راست انتخاب کرنا ہے۔ کسی اُمیدوار کو سینیٹر بننے کے لئے بلوچستان اسمبلی کے 9 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ سینیٹ کے اُمیدواروں کی جانب سے اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنے حق میں ووٹ دینے کی پیشکشیں بھی کی جا رہی ہیں اور انہیں اراکین اسمبلی کی جانب سے بھی رقم کا تقاضا سننے میں آ رہا ہے۔ 

سردست بات تین کروڑ روپے فی ووٹ تک جا پہنچی ہے۔ اراکین اسمبلی کچھ کمانے کے اِس آخری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ عام انتخابات سے قبل اُنہیں سینیٹ نشستوں کے لئے ووٹ ڈالنے کا یہ آخری موقع مل رہا ہے۔ شنید ہے کہ ڈھائی کروڑ تک کی پیشکشیں عام ہو رہی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک سینیٹ کی نشست کے لئے بولی 25 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے اور اِس پورے انتخابی عمل میں قریب ’2 ارب روپے‘ کی لین دین ہونے والی ہے!

جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے اُمیدواروں کی زبانی سنا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 ہے جنہوں نے براہ راست انتخاب کے ذریعے 7 سینیٹرز کا انتخاب کرنا ہے۔ یوں سینیٹ کے کسی بھی اُمیدوار کو کامیابی کے لئے 18 اراکین صوبائی (خیبرپختونخوا) اسمبلی کی حمایت (ووٹ) چاہئے۔ بلوچستان اسمبلی کی طرح یہاں بھی بولی لگ رہی ہے اور سینیٹ کے لئے فی ووٹ کی قیمت 2 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ آئندہ عام انتخابات سے قبل ’اراکین صوبائی اسمبلی‘ کے لئے کچھ کمانے کا یہ آخری موقع ہے۔ ایک ووٹ کے عوض 2 کروڑ روپے کی پیشکش کا مطلب ہے کہ سینیٹ کی ایک نشست کی قیمت قریب 35 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے۔ اِس موقع پر اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹ اُمیدواروں سے اراکین صوبائی اسمبلی کچھ رعائت کا معاملہ کر سکتے ہیں تاہم اندازہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ انتخاب کے لئے اراکین کے درمیان 2 ارب روپے کی لین دین متوقع ہے!

نتیجۂ خیال (خلاصۂ کلام) یہ ہے کہ 18 فروری سے 3 مارچ کے درمیان بلوچستان اور خیبرپختونخوا قانون ساز ایوانوں میں ’’4 ارب روپے‘‘ کی لین دین متوقع ہے۔ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی سینیٹ انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل ہیں جن کی سینیٹ اُمیدواروں سے رابطے اور ملاقاتیں زبان زد عام ہیں! سننے میں آیا ہے کہ سینیٹ کے لئے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک ووٹ کی قیمت 5 کروڑ روپے مقرر ہے!

قانون ساز ایوان بالا‘ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی کل تعداد 26 ہے‘ جن میں 18 کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ اِس صورتحال میں پیپلزپارٹی سب سے زیادہ ’حاجت مند‘ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت خریدے تاکہ سینیٹ میں اُس کی موجودگی اور پلڑا بھاری رہے۔ اِس حوالے سے جو معلومات مجھ تک پہنچی ہیں وہ قابل اعتماد ذرائع سے ہیں اور اِن معلومات کے مطابق پیپلزپارٹی نے بلوچستان اسمبلی سے ووٹ خریدنے کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔ شریک چیئرمین آصف علی زرداری مبینہ طور پر منصوبہ سازی کر رہے ہیں کہ وہ بہرصورت بلوچستان سے سینیٹ کی چھ سے تین جبکہ خیبرپختونخوا سے ایک یا دو نشستیں حاصل کریں۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کا ایک بھی رکن صوبائی اسمبلی کا حصہ نہیں لیکن وہ وہاں سے سینیٹ نشست جیتنے کے متمنی ہیں۔

سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کے منہ سے بھی رال ٹپک رہی ہے اور وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے اراکین اسمبلی کی طرح سینیٹ انتخاب سے کچھ نہ کچھ مالی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن توقع ہے کہ پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں سینیٹ کے لئے انتخابات نسبتاً شفاف ہوں گے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں 53 اراکین صوبائی اسمبلی کے ووٹوں سے ایک سینیٹر منتخب ہو گا۔

مارچ 2016ء کی بات ہے جب ’سینیٹ آف پاکستان‘ کے اراکین نے اِس بات پر احتجاج کیا کہ دیگر قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کی طرح اُنہیں بھی ’سالانہ ترقیاتی فنڈز‘ دیئے جائیں۔ جس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے وعدہ کیا تھا کہ ہر سینیٹر کو ’20 ارب روپے‘ کے ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں گے۔

تصور کیجئے سینیٹ اراکین کی کل تعداد 104 اور اِن میں سے ہر ایک کی قدر ’اُنیس کروڑ (190 ملین) روپے!‘ انسان اشرف المخلوقات ہستی ہے لیکن صرف اُسی صورت میں جبکہ اُس کے اعمال واجب الاحترام یعنی دیگر ہم زمین مخلوقات سے عقل و شعور کے حامل ہوں۔ اگر ’رومن بادشاہت‘ میں گھوڑے سینیٹ کی رکنیت کے اہل ہو سکتے ہیں تو اِس بات پر تعجب کیسا کہ اگر پاکستان کی سینیٹ میں بھی گھوڑوں (جانوروں) کی طرح خریدوفروخت کے بعد وفاداریاں (حمایت اور ووٹ) حاصل کی جائیں!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, February 4, 2018

Feb 2018: Fake News by Dr. Farrukh Saleem

Fake News
جھوٹی خبریں!
سیاسی بات چیت ہو یا خبرنگاری (صحافت)‘ جو ایک نیا اسلوب متعارف ہوا ہے وہ ’جھوٹی خبر‘ ہے اور اِس ’جھوٹی خبر‘ کو پھیلانے کے لئے جملہ ذرائع ابلاغ بشمول سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا فراغ دلانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جھوٹی خبر کون پھیلاتا ہے؟ حکومت‘ سیاسی حزب اختلاف اُور خفیہ ادارے۔ پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو اِن تینوں فریقین (حکومت‘ سیاسی حزب اختلاف اور خفیہ ادارے) کے درمیان تنازع (اختلافی نکتۂ نظر) عروج پر دکھائی دیتا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج کا دور ’معلومات (انفارمیشن) کے تابڑ توڑ حملوں‘ کا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اِس جنگ کا میدان اخبارات‘ ٹیلی ویژن چینلز اور سماجی رابطہ کاری کے جملہ وسائل ہیں‘ جن میں فیس بک‘ واٹس ایپ‘ یو ٹیوب‘ فائر چیٹ اور ٹوئیٹر شامل ہیں!

جھوٹی خبروں کا تعلق نہ صرف سماجی اور معاشرتی روئیوں سے ہے بلکہ اِس کے ذریعے حق رائے دہی (ووٹ) رکھنے والوں کی رائے پر اثرانداز ہوا جاتا ہے۔ جدید مواصلاتی رابطوں کی طاقت کا بھرپور استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے۔ معاشرہ‘ سیاست اور ٹیکنالوجی ایک دوسرے میں سما گئے ہیں۔ آج کوئی معاشرہ‘ سیاسی نظریات اور ٹیکنالوجی الگ الگ چیزیں نہیں رہیں‘ جہاں تبدیلی کا ظہور اِنہی محرکات پر منحصر ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غلط خبروں کے حقیقی دنیا پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

برسراقتدار سیاسی جماعت (حکومت) اِس لئے غلط خبریں پھیلاتی ہے تاکہ وہ حالات کو جوں کا توں جاری رکھ سکے۔ سیاسی حزب اختلاف کے لئے اِس ہتھیار کے استعمال کا مقصد عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے جبکہ خفیہ ادارے اپنی حکیمانہ برتری ثابت کرنے کے لئے سب کو پیچھے چھوڑنے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں!

جھوٹی خبریں پھیلانے کے لئے زیراستعمال مواصلاتی آلات کی حکمرانی بڑھ رہی ہے۔ اب بات کسی ایک زمانے میں رہنے والے لوگوں کے درمیان کسی ایک موضوع پر اختلافی یا اتفاقی موضوعات کے بارے میں تبادلۂ خیال کی حد تک محدود نہیں رہ گئی بلکہ یہ مواصلاتی آلات پر منحصر ہو گئی ہے جو انسانوں سے متعلق ہیں اور اِن کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔ عوامی رائے تبدیل کرنے کے سماجی رابطہ کاری کے وسائل اور انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں میں حکومت‘ سیاسی جماعتیں اور خفیہ ادارے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جسے پیدا ہونے والی ’جنگی صورتحال‘ مثبت قرار نہیں دی جاسکتی۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حکومت‘ حزب اختلاف اور خفیہ اداروں کی جانب سے جھوٹ متعارف کرانے کے پیچھے کچھ خاص اہداف ہوں گے اور یہ تینوں اپنے اپنے اِن مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیں۔ ایسے خودکار کمپیوٹر پروگرام (سافٹ وئرز) استعمال کئے جاتے ہیں‘ جن کے ذریعے رائے عامہ تبدیل کی جاتی ہے۔ آج کی دنیا کا تصور کیجئے جہاں 7 ارب لوگ ہیں‘ جو 10 ارب ڈیجیٹل موبائل آلات اور چالیس ارب دیگر آلات استعمال کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ پوری تیاری اور دانشمندی کے بھرپور استعمال سے ہو رہا ہے۔

حکومت‘ سیاسی حزب اختلاف اور خفیہ ادارے اپنے اپنے وسائل کے مطابق خبرنگاروں‘ تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں (اینکر پرسنز) کے ذریعے بھی رائے عامہ پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ مشینی (خودکار سافٹ وئرز) طریقے بھی اِسی حکمت عملی کا حصہ ہیں‘ جن کے ذریعے سماجی رابطہ کاری اور آن لائن سرگرمیاں کا قریب پچاس فیصد حصہ (ڈیٹا) تخلیق کیا جاتا ہے اور اِس کے ذریعے رائے عامہ کو کسی خاص زاویئے اور کسی خاص سمت میں سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جب تک مواصلاتی رابطوں میں آلات کے خودکار استعمال اور گمراہ کن نظریات کے پرچار کے عمل کو سمجھا نہیں جاتا اُس وقت تک اِس کے منفی اثرات سے بچنا بھی ممکن نہیں۔

اس ساری صورتحال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ذمہ دار صحافت اور جھوٹی خبر کے درمیان تمیز کرنا آسان نہیں رہا۔ پاکستان ایک ایسے ملک کا نام ہے جہاں کچھ بھی خالص دستیاب نہیں۔ جعلی ادویات‘ جعلی دودھ‘ جعلی چینی اور جعلی مصالحے لیکن ایسی بہت سی جعلی اشیاء استعمال کرنے والے پھر بھی زندہ ہیں اور اپنی بقاء کا جنگ لڑ رہے ہیں۔ اِسی طرح ہمارے ہاں جعلی خبریں اور تبصرے بھی عام پائے جاتے ہیں‘ جن کے حقیقی زندگی (رائے عامہ) پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی عوام کی ایک بڑی تعداد متاثر نہیں۔ یقیناًرائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی جھوٹی خبروں کے جال میں ایک بڑی تعداد نہیں الجھے گی لیکن اِس جھوٹی خبر‘ تبصروں اور تجزئیوں کے درپردہ عوامل اور طریقۂ واردات کو سمجھنا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Thursday, February 1, 2018

Feb 2018: Solution for Peace & Stability in Afghanistan

مہمان کالم
افغان قیام امن: واحد حل!
امریکہ کی سیاسی قیادت افغانستان میں اپنے غلط فیصلوں کے نتائج تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن خود اُس کے اپنے ادارے اِس بات کی گواہی دیتے ہوئے انکشاف کر رہے ہیں کہ ’سال دوہزار نو‘ سے افغان حکومت کے زیر اثر علاقوں میں کمی آئی ہے جبکہ عسکریت پسندوں کا مختلف علاقوں میں اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے۔ 

’’افغانستان کی تعمیرِ نو‘‘ کے لئے خصوصی انسپکٹر جنرل ( سیگار) ’’جوہن ایف سوپکو‘‘ کی امریکی کانگریس کے سامنے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’افغان طالبان کی کامیابی ایک حقیقت ہے‘‘ لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ’’عوامی مفادات کے معاملے پر افغان حکومت بالکل دور ہوچکی ہے۔‘‘ افغانستان کے حکمران ذاتی مفادات کو امن کی بحالی کے قومی تقاضوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ ’سیگار‘ دوہزار آٹھ میں بنایا گیا تھا جبکہ سال دوہزار نو میں کانگریس کے مینڈیٹ کے دوران اس نے افغانستان میں امریکہ کی شمولیت سے متعلق سہ ماہی رپورٹ کانگریس کو بھیجنا شروع کردی تھی تاہم آخری سہ ماہی میں امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے ’سیگار‘ کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ افغان کے اضلاع کی تعداد اور ان میں مقیم افراد‘ وہاں افغان حکومت یا مزاحمت کاروں کے کنٹرول یا دونوں کے مقابلے سے متعلق عوامی اعداد و شمار جاری نہ کرے۔ ظاہر ہے کہ اِس پابندی کا مقصد سوائے اِس بات کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت نہیں چاہتا کہ اُس کی ناکامی ظاہر ہو۔ قابل ذکر ہے کہ ’جوہن ایف سوپکو‘ نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’’محکمہ دفاع کی جانب سے سال دوہزارنو کے بعد موجودہ سہ ماہی میں پہلی بار اس تشویشناک صورتحال کا سامنا دیکھنے میں آیا تھا جبکہ اس دوران افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کے اعداد و شمار کی بھی مکمل درجہ بندی کی گئی تھی۔‘‘ کانگریس کو پیش کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں سیگار نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ گزشتہ برس اگست میں نئی افغان پالیسی کے بعد باغیوں کے خلاف امریکی فضائی حملوں اور خصوصی آپریشنز میں اضافہ ہوا۔ 

اکتوبر دوہزار سترہ میں امریکہ نے افغانستان میں 653 مرتبہ گولہ بارود گرایا‘ جو سال دوہزار بارہ کے بعد سب سے زیادہ تھا جبکہ اکتوبر دوہزارسولہ کے مقابلے میں اس میں تین گناہ اضافہ ہوا ہے لیکن رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ان تمام کاروائیوں کے باوجود آبادی پر افغان حکومت کے کنٹرول میں اضافہ نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو بارہا مطلع کیا گیا کہ افغانستان میں طاقت کے استعمال کی بجائے اِس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ جب تک افغان طالبان کے تحفظات دور نہیں کئے جاتے اور اُنہیں قومی سیاست میں نمائندگی نہیں دی جاتی اُس وقت تک خانہ جنگی کا دور جاری رہے گا لیکن افغان طالبان کی مخالفت رکھنے والے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے اِس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے‘ جو اُنہیں خود بھی زیادہ بہتر انداز و گہرائی سے علم ہے۔

’سیگار‘ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نومبر دوہزارسترہ میں افغانستان میں امریکی فورسیز کے کمانڈر جنرل جوہن نیکولسن نے پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ 64فیصد افغان آبادی کا حصہ افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے جبکہ 12فیصد حصے پر باغیوں کا اثر و رسوخ ہے اور باقی چوبیس فیصے متنازعہ علاقے موجود ہیں تاہم آئندہ دو برس میں افغان حکومت کا مقصد 80فیصد آبادی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔ ’سیگار‘ کی پیش کردہ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگست میں پالیسی کے اعلان کے بعد زیادہ تر امریکی فضائی حملے افغان سیکیورٹی فورسیز کی حمایت کے لئے کئے گئے اور اس مہم کے دوران افغان سیکیورٹی فورسز اے 29‘ ائرکرافٹ استعمال کر رہی ہے جبکہ اسے امریکی فضائی کی جانب سے بی باون ایس‘ ایف اے اٹھارہ ایس سمیت اے دس تھنڈر بولٹس اور ایف بائیس ریپٹرز جیسے جدید جہازوں کی مدد بھی حاصل ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکن (غیرملکی) اور افغان فورسیز کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں کا ایک خطرناک نتیجہ تو شہریوں کی ہلاکت ہے جو افغان حکومت کی حمایت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے جبکہ اس سے باغیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان طالبان کے لئے اپنا مؤقف پیش کرنا نہایت ہی آسان ہو گیا ہے کہ افغان اور امریکی حکومتیں افغانستان کی بربادی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ امریکی کانگریس میں پیش کردہ مذکورہ حالیہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کا حوالہ بھی دیا گیا ہے‘ کہ یکم جنوری دوہزار سترہ سے تیس ستمبر دوہزار سترہ تک قریب آٹھ ہزار سے زائد شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر اور نومبر ’عام افغان شہریوں‘ کے لئے سب سے بدترین مہینے تھے جس دوران امریکی فورسیز کی جانب سے حملوں کے بعد باغیوں کی جانب سے امریکیوں کو مارنے کے سلسلے میں بھی اضافہ ہوا اور گزشتہ سال کے ابتدائی گیارہ ماہ میں گیارہ امریکی فوجی افغانستان میں قتل کئے گئے‘ جو سال دوہزارپندرہ اور دوہزار سولہ کے اعداد و شمار کے مطابق دوگنی تعداد ہے۔ 

امریکہ کو افغانستان میں جانی و مالی نقصانات ہو رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی وہ پاکستان کے مشورے اور کردار پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ سال دوہزار سولہ سے افغان سرزمین پر اندرونی حملوں میں افغان فورسیز کے اہلکاروں کی اموات میں کمی آئی ہے اور اکتیس اکتوبر دوہزار سترہ تک اِن حملوں میں ایک سو دو اہلکار ہلاک تھے تاہم دوبرس کے دوران اندرونی حملوں میں امریکیوں کی اموات میں اضافہ اور اکتیس اکتوبر کے اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں تین امریکی فوجی ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے تھے۔ افغانستان کے محاذ پر امریکہ کو صرف جنگی محاذ پر ہی شکست کا سامنا نہیں بلکہ انسداد منشیات کی کوششیں بھی خاطرخواہ نتائج کی حامل نہیں۔ 

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں انسداد منشیات کے لئے آٹھ ارب ستر کروڑ ڈالر کی امداد کے باوجود بھی گزشتہ برس افغانستان میں افیون کی پیداوار میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا جبکہ افیون کی کاشت کے لئے زیراستعمال زمین کا رقبہ ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے۔ امریکہ سمیت دنیا جس قدر جلد یہ حقیقت جان جائے کہ امن بذریعہ مذاکرات ہی واحد صورت ہے‘ اُتنا نہ صرف افغانستان بلکہ اِس کے ہمسایہ ممالک‘ خطے اور خود امریکہ کے لئے بہتر ہوگا۔
۔

Feb 2018: Peshawar Airport - the bad impression!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
بے جرم سزائیں!
پشاور کی قسمت میں ’فقط سزائیں‘ تحریر ہیں؟ جبکہ جنوب مشرق ایشیاء کا قدیم ترین زندہ تاریخی ’گندھارا تہذیب کا مرکزی‘ شہر اِس قسم کے ’متعصبانہ رویئے کا قطعی مستحق (حقدار) نہیں۔ 

آج کا پشاور تعمیروترقی کے ’اندھا دھند‘ دور سے گزر رہا ہے‘ جس نے نہ صرف شہری زندگی کے معمولات کو ’اُلٹ پلٹ‘ کے رکھ دیا ہے بلکہ عام انتخابات کے قریب شروع ہونے والی تعمیراتی سرگرمیاں دراصل ’وقت کا پہیہ‘ اُلٹ گھمانے کی ’ناکام کوشش‘ دکھائی دیتی ہے! لیکن پشاور کو ’’بے جرم سزاوار‘‘ ٹھہرانے والوں میں صرف تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ اِس میں وفاقی حکومت بھی برابر کی شریک ہے‘ جس نے پہلے تو ’باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ کو پسماندگی اور غربت کی ایسی تصویر بنایا کہ یہ اِس ہوائی اڈے سے استفادہ کرنے والوں کو کسی بھی زاویئے سے یہ ایک ’انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ مسافروں کے لئے جدید ترین سہولیات تو بہت دور کی بات‘ صفائی کے لحاظ سے بھی پشاور کا ائرپورٹ کچھ ایسا منظر پیش کرتا تھا کہ آمدورفت کرنے والے عازمین کے علاؤہ عزیزواقارب اور دوستوں کو ’پک اینڈ ڈراپ‘ کرنے والوں کی کوشش ہوتی کہ وہ جلد از جلد یہاں سے چلتا بنیں! اِن دنوں پشاور ائرپورٹ کی توسیع کا عمل جاری ہے‘ جس کے بارے میں شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن اتھارٹی) حکام پراُمید ہیں کہ یہ کام پورے معیار اور خوبیوں کے ساتھ رواں برس (دوہزاراٹھارہ) کے چوتھے ماہ کے اختتام سے قبل مکمل کر لیا جائے گا۔ اِس توسیعی کام کی تفصیلات یہ ہیں کہ ’’2 ارب روپے کی خطیر رقم سے اندرون و بیرون ملک پروازوں کے لئے سہولیات میں اضافہ متوقع ہے لیکن نہ تو عمارتی ڈھانچے کی خاطرخواہ بڑے پیمانے پر توسیع دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی پہلے سے موجود رقبے میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ سبزہ زار اور راہداری کے اُن حصوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے‘ جن کی وجہ سے پہلے کچھ نہ کچھ کشادگی کا احساس ہوتا تھا۔ ائرپورٹ کے سامنے سبزہ زار کی اپنی اہمیت تھی‘ لیکن حکام کے لئے 700 گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش پیدا کرنا زیادہ بڑی ضرورت تھی‘ جبکہ یہ کام تین اطراف میں کشادہ سڑکوں پر باقاعدہ پارکنگ بنانے سے باآسانی ممکن تھا۔ ائرپورٹ کا ’پارکنگ پلازہ‘ حال و مستقبل کی ضروریات پوری کرسکتا تھا۔ بہرحال ملک کے دیگر ہوائی اڈوں کا اگر پشاور سے موازنہ کیا جائے تو سوائے کوئٹہ ائرپورٹ سب زیادہ ’بے سروسامانی پشاور‘ میں دکھائی دیتی ہے۔

پشاور ائرپورٹ پر عموماً 35 ہوائی جہازوں (فلائٹس) کی یومیہ آمدورفت ہوتی ہے جبکہ یہی ہوائی پٹی خصوصی طیاروں اور فضائیہ کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے‘ اگرچہ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد جیسے تین بڑے ائرپورٹس کی طرح ’پشاور‘ مصروف ترین تو نہیں لیکن دفاعی اور شہری ہوا بازی کے نکتۂ نظر سے اِسے خاصی اہمیت حاصل ہے اور اِس کا استعمال خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے خلیجی ممالک کے محنت کش ترجیحی بنیادوں پر کرتے ہیں۔ یہی ائرپورٹ غیرملکیوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے اور پشاور میں تعینات غیرملکی سفارتکار بھی اِسی کے ذریعے نجی یا چارٹرڈ اور بالخصوص معروف خلیجی ائرلائن ’ایمریٹس‘ سے استفادہ کرتے ہیں۔ چند روز قبل پشاور میں تعینات امریکی سفارت خانے کے سینیئر عملے کے اراکین نے ائرپورٹ حکام سے درخواست کی کہ اُنہیں کوئی باسہولت و محفوظ جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ اپنی فلائٹ کا انتظار کر سکیں لیکن ائرپورٹ حکام نے معذرت کر لی کہ سفارتی عملے کو نہ تو اہم شخصیات کے لئے مخصوص حصوں تک رسائی دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اُن کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کسی قسم کے انتظامات ممکن ہیں کیونکہ ائرپورٹ کی توسیع کا عمل جاری ہے! 

امریکی سفارتکاروں کو پاکستانی حکام سے اِس قسم کے سرد رویئے کی قطعی توقع نہیں تھی‘ وگرنہ وہ کبھی بھی اپنی سبکی نہ کرواتے لیکن چند ہفتوں میں ایسا دوسری مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے جب امریکیوں سے عام مسافروں کی طرح سلوک کیا گیا ہو! ’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘ کے مترداف ’شہری ہوا بازی‘ کے اہلکاروں نے یقیناًاِس قسم کی خلاف توقع سردمہری کا مظاہرہ حکام بالا سے پوچھ بلکہ ’پوچھ پوچھ کر‘ کیا ہوگا‘ وگرنہ امریکہ بہادر کے سفارتکاروں سے اِس قسم کے سلوک کی ماضی میں کوئی ایک بھی مثال ڈھونڈے نہیں ملتی!

جون دوہزار چودہ میں ہوئے ایک ہوائی حادثے کی وجہ سے پشاور ائرپورٹ پر رات کے وقت پروازوں کی آمدورفت معطل کر دی گئی تھی۔ اُس حادثے میں طیارے کو آگ لگنے سے ایک مسافر کی موت بھی ہو گئی تھی‘ جس کے بعد سہولیات میں اضافہ اور ائرپورٹ آپریشنز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بجائے غروب آفتاب کے بعد پروازوں کا سلسلہ ہی ختم کر دیا گیا۔ تصور کیجئے ایک ایسے ائرپورٹ کا‘ جہاں ہوائی جہازوں کی آمدورفت بھی خاص اوقات کے علاؤہ ممکن نہ ہو! ایک طرف مثالیں موجود ہیں کہ ائرپورٹس کی سہولیات کو چوبیس گھنٹے کے ہر سیکنڈ استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا ائرپورٹ بھی ہے جہاں ایک گلاس پینے کے صاف پانی سے لیکر انتظارگاہوں میں نشستوں تک کچھ بھی مثالی نہیں! 

ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ دو ارب روپے سب سے پہلے تو ’نائٹ آپریشنز‘ کی بحالی پر خرچ کئے جاتے لیکن شاید مسافروں کا یہ دیرینہ مطالبہ کبھی پورا ہو پائے کیونکہ ’شہری ہوابازی‘ کا شعبہ وفاقی حکومت سے متعلق ہے اور اگرچہ اِس کے جملہ امور کی نگرانی کرنے والے مشیر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے لیکن ’پشاور ائرپورٹ‘ کی قسمت بالکل اُسی طرح نہیں بدلی جس طرح خیبرپختونخوا میں وزیر سے وزیراعلیٰ اور گورنر جیسے کلیدی عہدوں پر تعینات رہنے کے باوجود اِس مشیر کے اپنے آبائی علاقے کی حالت زار میں تبدیلی نہیں آئی! پشاور ائرپورٹ سے اُڑان بھرنے والی ’پینتیس پروازوں‘ میں اکثریت غیرملکی روٹس پر اُڑنے والے جہازوں کی ہے جبکہ صرف چار مقامی (اندرون ملک) پروازیں ہیں۔ 

پورے خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ہر روز اندرون ملک کی صرف چار پروازیں کسی بھی طور انصاف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسافروں کو طویل سفری مشکلات اور اخراجات برداشت کرکے بہ امر مجبوری اسلام آباد یا لاہور ائرپورٹس کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ’بے جرم سزا‘ کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ 

وفاقی حکومت اگر سیاسی وجوہات کی بناء پر پشاور کے حقوق اَدا نہیں کر رہی اور کسی بڑے (میگا) ترقیاتی پیکج کا اعلان بھی نہیں کیا جا رہا تو کم سے کم اپنے حصے کے اُس بنیادی فریضے سے تو عہدہ برآء ہو‘ جس کی وجہ سے ’پشاور ائرپورٹ‘ پشاور کے لئے بدنامی اور مسافروں کے لئے ’باعث آزار‘ ہے۔
۔