مہمان کالم
پشاور: سیکورٹی مینجمنٹ!
’دہشت گردی کی نئی لہر‘ کا مقابلہ‘ اُور امن و امان کی بحالی کے لئے ’تازہ دم کوششوں‘ کا آغاز ’فروری دوہزار سترہ‘ میں ’آپریشن ردالفساد‘ نامی فوجی کاروائی سے کیا گیا‘ جس کا بنیادی ہدف عمر خالد کی سربراہی میں ’جماعت الاحرار‘ اور قاضی فضل اللہ کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ تھیں‘ جنہوں نے ’’آپریشن غازی‘‘ کے نام سے فوجی تنصیبات‘ اہم شخصیات اور پبلک مقامات کو چن چن کر نشانہ بنایا اور جواز یہ تھا کہ ’لال مسجد‘ کے خطیب ’عبدالرشید غازی‘ کی سیکورٹی فورسیز کے ہاتھوں ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا۔
دارالحکومت اسلام آباد کے تجارتی و رہائشی مرکز کے عین وسط میں ’’لال مسجد محاصرہ (آپریشن سن رائز)‘‘ کسی بھی مسجد اور اُس سے متصل مدرسے (دینی درسگاہ) کے خلاف اپنی نوعیت کی منفرد کاروائی تھی‘ جو عالمی ذرائع ابلاغ کے اسلام آباد میں موجود نمائندوں کے لئے ’لاٹری‘ نکل آنے جیسا ’سنہرا موقع‘ تھا۔ وہ نمائندے جو پہلے دہشت گردی کے خلاف جاری کاروائیوں‘ کوششوں اور اِس کے اثرات و کامیابیوں کے بارے میں پرخطر مہمات کرنے خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کا رخ کرتے تھے‘ اُنہیں ’گھر کی دہلیز‘ پر خبریں ملنے لگیں اور وہ ایک ایسی فوجی کاروائی کے بھی عینی شاہد بن گئے‘ جو اُن کی رہائشگاہوں اور دفاتر کی کھڑکیوں سے بیٹھ کر بھی ملاحظہ کی جا سکتی تھی‘ بہرحال مشکل میں پھنسی ریاست (پاکستان) کو کئی چینلجز درپیش تھے۔ بات چیت (مذاکرات) کے ذریعے مسجد و مدرسے میں موجود مسلح عسکریت پسندوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ خون خرابے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ مسجد کی بے حرمتی نہ ہو اور نہ ہی ’مسجد و مدرسے‘ کی ساکھ متاثر ہو‘ کیونکہ عبادت‘ تزکیۂ نفس‘ درس و تدریس اور اخلاقیات کی تربیت گاہ ہونے کے علاؤہ یہی اکائی معاشرے کو جوڑے رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور اسلام میں مسجد کی حیثیت مغربی معاشروں کے ’کیمونٹی سنٹرز‘ سے زیادہ وسیع المعانی ’اِصطلاحی و معنوی وجود‘ بھی رکھتی ہیں‘ لیکن افسوس کہ دہشت گردوں نے اسلام کے طریقے‘ سلیقے و تہذیب اور پاکستانی معاشرے کی ہر خوبی کو دنیا کی نظروں میں مشکوک بنا دیا اُور یہی وہ ’نازک مرحلہ‘ تھا جب ’’تین سے گیارہ جولائی دوہزار سات (ایک ہفتہ ایک دن)‘‘ ہوئی فوجی کاروائی میں 1300 طلباء و طالبات اور قریب ایک سو عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے 60 ہزار فوجیوں‘ رینجرز بشمول 164 کمانڈوز (اسپیشل سروسیز گروپ نامی انتہائی تربیت یافتہ فوجی دستے) نے ’لال مسجد محاصرہ کامیابی سے مکمل کیا‘ تاہم اِس سے ’منسوب ردعمل‘ سے نمٹنے کے لئے ’ردالفساد‘ نامی آپریشن ’بائیس فروری دوہزار سترہ‘ کو شروع کیا گیا‘ جس کا ایک سال مکمل ہونے پر ’پاک فوج کے ترجمان ادارے ’انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس پی آر)‘ نے بہت سی کامیابیاں گنوائی ہیں اور ’ردالفساد‘ کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے اور سکیورٹی صورتحال کے مستحکم ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ’ردالفساد‘ کے تحت ایک سال کے دوران (مجموعی طور پر) 1191 فوجی کاروائیاں یقیناًغیرمعمولی ہیں!
’ردالفساد‘ جاری ہے جو ’ضربِ عضب‘ نامی آپریشن کا تسلسل ہے۔ اِن دونوں فوجی کاروائیوں کے دوران قربانیوں اور مثالی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن یہ قضیہ ہنوز درپیش ہے دہشت گرد جو پہلے افغانستان سے متصل قبائلی علاقہ جات یا خیبرپختونخوا کے چند اضلاع تک محدود ہوا کرتے تھے‘ پورے پاکستان میں پھیل چکے ہیں اُور اُن کی طاقت کے مراکز افغانستان میں بھی قائم ہیں‘ جہاں سے وہ روائتی اور غیرروائتی راستوں کے ذریعے پاکستان کے اندر اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت (مالی و افرادی قوت) رکھتے ہیں۔ اِس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ’دہشت گردوں کی بلاروک ٹوک آمدروفت‘ روکنے کی کوششیں (بارڈر منیجنمنٹ) ہو رہی ہیں تاہم زیادہ اہم اندرون ملک دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا صفایا ہے اور اِس محاذ پر تاحال کامیابیوں کا شمار خاطرخواہ نہیں‘ جس بارے یقیناًقانون نافذ کرنے والے ادارے سنجیدگی سے غور کر رہے ہوں گے‘ کیونکہ دہشت گرد حملوں میں ملوث کرداروں کی طرح اُن کے سہولت کار (شریک جرم) یکساں اہم و مستقل خطرہ ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مرکزی شہر پشاور کی ’سیکورٹی صورتحال‘ کا خلاصہ (جائزہ) کیا جائے تو اِس ایک مثال سے منظرنامہ بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اندرون شہر کی یونین کونسل گنج‘ محلہ ہودا اُور محلہ کشمیری میں اہل علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت جو ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ (نگرانی کے آلات) نصب کئے تھے‘ انہیں چوری کر لیا گیا اور چوری کی یہ واردات اکیس فروری کی شب ’تین بجکر تیس منٹ‘ سے قریب دس منٹ جاری رہی‘ جس کی ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔
تھانہ کوتوالی (سی ڈویژن) کی حدود میں اِس واردات میں حصہ لینے والوں میں صرف ایک شخص نے اپنے چہرہ چھپا رکھا ہے‘ جو یقیناًمقامی (سہولت کار) ہے جبکہ دیگر افراد غیرمقامی ہیں اُور اُن کے لباس‘ سروں پر رکھی ٹوپیوں (خاص تنظیمی یونیفارم) اُور قدکاٹھ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی درسگاہ کا حصہ ہیں۔ سٹی سرکل روڈ پر ’’ٹیڈی گیٹ (یکہ توت)‘‘ رات کے اُوقات میں بند رکھا جاتا ہے اور یہاں ماضی میں پولیس مستقل تعینات رہتی تھی لیکن اُسے ہٹانے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پشاور کے مضافاتی دیہی علاقوں سے اندرون شہر جرائم پیشہ اور دہشت گرد کاروائیوں کے لئے پرپیچ گلیوں کے راستے استعمال کرتے ہیں اور کسی چھلاوے کی طرح اگر غائب ہو جاتے ہیں تو درحقیقت وہ ’ٹیڈی گیٹ‘ کی طرح کے اُن راستوں کا استعمال کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں صرف پشاور کے مقامی لوگ ہی علم رکھتے ہیں اور یہی علم اب سہولت کاروں کے ذریعے جرائم پیشہ اور دہشت گردوں تک جا پہنچا ہے!
’پاک افغان بارڈر منیجمنٹ‘ اپنی جگہ اہم ضرورت لیکن ’پشاور کی سیکورٹی منیجمنٹ‘ اُور بالخصوص اَندرون شہر مؤثر پولیسنگ کے ذریعے بھی جرائم اور دہشت گردوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ’ردالفساد‘ کے تحت اُس وقت بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کی جائے جب ’’پانی سر سے گزر جائے۔‘‘ دہشت گرد اندرون شہر اپنا ’نیٹ ورک‘ پھیلا رہے ہیں‘ جس سے متعلق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ کور کمانڈر اور انسپکٹر جنرل پولیس (خیبرپختونخوا) کو سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے‘ مبادا و نخواستہ جب ’چڑیاں کھیت چگ جائیں‘ تب پچھتاوے کا اظہار ہو۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2018-02-26 |