Sunday, June 26, 2022

Agriculture: The neglected sector

 ژرف نگاہ    .... شبیرحسین اِمام

زراعت: دست ِمے خوار میں خالی ہی سہی‘ جام تو ہے!

مہنگائی سے پریشان حال طبقات میں مزدور کسان بالخصوص چھوٹے کاشتکار بھی شامل ہیں‘ جو چاہتے ہیں کہ حکومت زرعی شعبے کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ بنانے کے لئے عملی اقدامات کرے کیونکہ صرف یہی ایک شعبہ ’غذائی خودکفالت‘ کے خواب کی تعبیر کر سکتا ہے اُور اگر زراعت پر انحصار کرتے ہوئے قومی وسائل کو ترقی دی جائے تو اِس سے قومی قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی اُور مزید قرض لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ سمجھنا ہوگا کہ ’دو وقت کی روٹی اُور دال ساگ‘ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کے لئے زندگی اُور موت جیسی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ اَمر بھی توجہ طلب ہے کہ ہر دن زرعی پیداواری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری منافع بخش نہیں رہی جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پیداوار میں کمی ہو رہی ہے اُور فصل یا پھلوں کا بڑا حصہ ضائع ہونا معمول بن چکے ہیں۔ نتیجتاً حقیقت حال یہ ہے کہ اب بمشکل کسی بھی فصل پر اُٹھنے والی ’اصل لاگت‘ اُس کی پیداوار سے حاصل (پوری) ہو پاتی ہے۔

زرعی پیداواری اخراجات میں سرفہرست ’کھاد کی قیمتیں‘ ہیں جن پر روپے کی قدر میں کمی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے جیسے محرکات کا منفی اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت کھاد کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس سے زراعت اور غذائی تحفظ پہلے کی توقع سے زیادہ خطرے میں پڑ گئے ہیں! پشاور کی کھاد مارکیٹ میں ڈی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) ساڑھے گیارہ ہزار سے ساڑھے بارہ ہزار روپے فی بوری (بیگ) کے درمیان فروخت ہو رہی ہے۔ پوٹاش (ایس او پی) کا سلفیٹ کی ایک بوری کی قیمت میں سولہ سو روپے کا اضافہ ہونے کے بعد اِس کی خوردہ قیمت گیارہ ہزار روپے فی بوری ہو چکی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران یوریا فی بوری بھی بائیس سو روپے مہنگی ہوئی ہے۔ اینگرو کھاد نے گزشتہ ہفتے ڈی اے پی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بارہ ہزار ایک سو روپے فی بیگ کر دیا تھا جو کہ فوجی کھاد کی قیمت سے سات سو روپے زیادہ ہے۔ ایس او پی گزشتہ ہفتے تک گیارہ ہزار روپے فی بیگ فروخت ہو رہا تھا جو پانچ ہزار روپے فی بیگ جیسی بڑی چھلانگ لگا کر سولہ ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ’ایم او پی‘ کی قیمت نسبتاً زیادہ بڑھی ہے جس کی فی بوری چار ہزار سے گیارہ ہزار روپے فی بوری تک جا پہنچی ہے! یوریا جس کی فی بیگ قیمت ساڑھے اٹھارہ سو سے اُنیس سو روپے مقرر تھی اُور کھاد ڈیلرز اسے ساڑھے اُنیس سو روپے فی بیگ فروخت کرتے تھے لیکن اب پشاور کے مختلف مقامات پر یہ اکیس سے بائیس سو روپے فی بیگ فروخت کی جارہی ہے۔ 

کھاد ہر فصل کی ضرورت ہوتی ہے اُور اگر کھاد جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت بڑھے گی تو اِس سے فصل کی مجموعی لاگت میں بھی اضافہ ہوگا لیکن اِس صورتحال کا انتہائی منفی پہلو یہ ہے کہ چھوٹے کاشتکار اِس قدر مالی سکت نہیں رکھتے کہ وہ مہنگی کھاد خرید سکیں اُور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برس سے زرخیز (قابل کاشت) زرعی اراضی رہائشی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ 

کاشتکار بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر کھاد کی قیمتیں ’اعتدال‘ پر نہ آئیں اُور حکومت نے مہنگی کھاد خریدنے کے لئے کاشتکاروں کی مدد کرتے ہوئے سبسڈی کا اعلان نہ کیا تو اِس سے زراعت کا نقصان ہوگا اُور یہ شعبہ کاروباری و تجارتی لحاظ سے قابل عمل نہیں رہے گا۔ جن علاقوں میں رواں سیزن کے لئے چاول کی شجرکاری شروع ہونے والی ہے وہ زیادہ تشویش کا شکار ہیں جبکہ جولائی اگست میں بوئی جانے والی مکئی کے کاشتکاروں کی نظریں کھاد مارکیٹ پر جمی ہوئی ہیں جہاں قیمتوں کو قرار نہیں اُور جہاں ہر دن کھاد کی ایک نئی قیمت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔

چاول اُور مکئی کے علاؤہ گندم کے کاشتکار بھی کھاد کی قیمتوں سے نقصان اُٹھائیں گے۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت بائیس سو روپے فی من فصل کے بنیادی اخراجات کے حوالے سے بھی ناکافی ہیں کیونکہ کھاد و دیگر ضروریات اُور بوائی سے کٹائی کے مراحل میں مزدوری لاگت کے اضافے کے بعد فی من گندم کی پیداواری لاگت ”تین ہزار روپے“ تک جا پہنچتی ہے۔ اگر حکومت کے لئے مہنگائی بڑھنے کی مجموعی صورتحال پر قابو پانا ممکن نہیں تو پہلی ترجیح زرعی شعبہ ہونا چاہئے‘ جو صنعتوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ اُور پائیدار روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی معیشت اور اس کی ترقی کے لئے زراعت کلیدی کردار ادا کرتی ہے اُور 48 فیصد مزدور براہ راست زراعت سے وابستہ ہیں جبکہ یہی آبادی کے بڑے حصے کی زندگی یا آمدنی کا بنیادی ذریعہ بھی ہے اُور تقریبا 70فیصد آبادی کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ زراعت سے ہے۔

زرعی شعبہ روزگار کے علاؤہ خوراک کا بڑا ذریعہ بھی ہے اُور زراعت ہی صنعتی شعبے کے لئے سستے خام مال کی فراہمی ممکن بناتا ہے۔ ملک کی مقامی پیداواری صلاحیت اُور آمدن (جی ڈی پی) میں زرعی شعبے سے پچیس فیصد وسائل حاصل ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے شعبے کی حصہ داری سے نسبتاً زیادہ ہے لیکن زراعت پر دیگر شعبوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ قومی اُور صوبائی فیصلہ سازوں میں مزدور کسان اُور چھوٹے کاشتکاروں کے نمائندے شامل نہیں ہوتے اگرچہ یہ آبادی کے لحاظ سے دیگر سبھی طبقات سے زیادہ ہیں لیکن متحد نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاشتکاروں‘ کسانوں اُور مزدوروں کے مسائل و مشکلات مطالبات سے مطالبات اُور احتجاج بعداز احتجاج کی صورت ظاہر ہوتے ہیں لیکن اِنہیں خاطرخواہ اہمیت (شنوائی) نہیں مل رہی! سرمایہ دار نظام کے تحفظ اُور اِس سے فائدہ اُٹھانے والی جملہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ’مزدور کسان پارٹی‘ کہیں کھو گئی ہے! اِس گمشدہ اثاثے کی تلاش بھی ہونی چاہئے۔

”کم نہیں اے دل بے تاب متاع اُمید ....

دست مے خوار میں خالی ہی سہی‘ جام تو ہے! (حسن نعیم)۔“

....


Saturday, June 25, 2022

Congo outbreak

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کانگو وائرس: احتیاط اُور قربانی

مال مویشیوں (جانوروں) سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں میں ’کانگو‘ نامی بیماری خیبرپختونخوا میں پھیل رہی ہے اُور رواں ہفتے (جون دوہزاربائیس) کانگو سے متاثرہ مریض ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہسپتال (پشاور) میں ہلاک ہو چکا ہے جبکہ کانگو بخار میں مبتلا چار دیگر مریض زیرعلاج ہیں۔ صوبائی اُور قومی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر کانگو بخار کے کیسز بڑھنے کے خدشات ہیں جس کے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں اُور بالخصوص بچوں کو قربانی کے لئے لائے گئے جانوروں سے الگ رکھا جائے۔ قومی ادارہ صحت کے ”الرٹ“ میں کہا گیا ہے کہ شہری مویشی منڈی جاتے ہوئے ہلکے رنگ کے پوری آستینوں والے اور آگے سے بند کپڑے اور جوتے پہنیں۔ مویشی منڈی سے گھر واپس آکر نہائیں یا کم سے کم کپڑے تبدیل کر لیں۔ قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے اچھی طرح یقین کر لیں کہ اس کے جسم پر چیچڑیاں نہ ہوں۔ قربانی کا گوشت بناتے اور دھوتے ہوئے دستانے استعمال کئے جائیں۔ قربانی کے جانوروں کا گوشت اچھی طرح پکاکر کھایا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ قصاب یا کانگو سے متاثرہ شخص کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو کانگو بخار منتقل ہو سکتا ہے۔اِس بخار کی مخصوص علامات میں اچانک تیز بخار‘ کمر‘ پٹھوں اور گردن میں درد‘ کھینچاؤ‘ متلی‘ قے‘ گلے کی سوزش‘ جسم پرسرخ رنگ کے دھبے ظاہر ہونا ہے۔ مسوڑھوں‘ ناک اور اندرونی اعضا سے خون آنا بھی کانگو بخار کی علامات میں شامل ہے۔

کانگو بخار ایک قسم کے جرثومے (وائرس) سے پھیلتا ہے جوزیادہ تر بھیڑ‘ بکریوں‘ گائے‘ اونٹ‘ بیل‘ دنبے کے بالوں میں چھپی چیچڑیوں میں پایا جاتا ہے۔ جب یہ چیچڑی کسی مویشی یا انسان کو کاٹ لیں تو وائرس متحرک ہو جاتا ہے۔ کانگو وائرس متاثرہ جانور کی قربانی کے خون‘ ٹشو یا سیال مادہ سے بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

شرعی نکتہ نظر سے قربانی کی غرض سے خریدا گیا جانور اگر اِس حد تک بیمار ہو جائے کہ وہ کمزوری اور لاغر پن کی وجہ سے چند قدم چل بھی نہ سکے اُور کھڑا بھی نہ رہے پائے تو ایسے بیمار‘ کم زور‘ لاغر (عیب والے) جانور کی قربانی کرنا درست نہیں لیکن اگر جانور اس حد تک بیمار نہ ہو اور وہ اپنے پاؤں پر چل پھر سکتا ہو اُور اُسے جلد کی بیماری لاحق تو ایسے جانور کی قربانی کرنا درست ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت نے صوبے کے تمام اضلاع کے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ کانگو بخار کے مشتبہ مریضوں کے نمونے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی پشاور‘ کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری بھیجیں۔ ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ مویشی منڈیوں میں یا عیدالاضحی پر قربانی کی رسومات کے دوران جانوروں کے قریبی رابطے میں نہ رہیں۔ انہوں نے فوری تشخیص کے لئے ضلعی اسپتالوں میں پولیمرز چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ صحت کی سہولیات نے کریمیا کے ”کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف)“ سے متاثرہ مریضوں کو وصول کرنا شروع کردیا ہے۔”سی سی ایچ ایف“ عام طور پر چھچڑی (ٹک) کے ذریعے اور خون کے ذریعے متاثرہ جانور کے ساتھ رابطے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ گزشتہ سال انہی ایام (عیدالاضحیٰ کے موقع پر) درجہ چہارم کا ایک ملازم اُس وقت انتقال کر گیا جب وہ طبی تدریسی اداروں میں سے ایک میں متاثرہ مریض کے رابطے میں رہا۔ فی الوقت حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کانگو بخار کے چار مریض زیرعلاج ہیں جن میں سے دو مریضوں میں کانگو بخار انتہائی شکل میں موجود ہے جبکہ دیگر مرض کی ابتدائی علامات سے گزر رہے ہیں۔ 

کانگو بخار کے لئے لیبارٹری ٹیسٹ (پی سی آر) کی قیمت آغا خان یا شوکت خانم نامی نجی لیبارٹریز سے بالترتیب پندرہ اُور تیرہ ہزار روپے ہے جو عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں ’پی سی آر‘ ٹیسٹ مفت کرنے کی سہولت فراہم کی ہے اُور اِس سلسلے میں مراسلہ (سرکلر) بھی جاری کر دیا گیا ہے جس میں خیبرپختونخوا کے تمام ہسپتالوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کانگو مرض کے مشتبہ مریضوں کے نمونے خیبر میڈیکل یونیورسٹی بھیجیں۔ مذکورہ لیبارٹری نہ صرف کانگو بلکہ ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈینگی اور کورونا وبا کی تشخیص کے لئے ’پی سی آر‘ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ فی الوقت خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو کانگو کے مشکوک مریضوں کے یومیہ چار سے پانچ نمونے مل رہے ہیں جبکہ پشاور کے علاؤہ دیگر اضلاع کے ’ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں‘ اور ’میڈیکل ٹیچنگ اداروں‘ کو نمونے ارسال کرنے کی اطلاع دیدی گئی ہے۔

محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے کورونا وبا کے دوران مختلف اضلاع میں 17 تجزیہ گاہیں (پیتھالوجی لیبارٹریاں) قائم کیں تھیں جنہیں کانگو ٹیسٹنگ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم اضلاع سے مشکوک کانگو مریضوں کے نمونے پشاور بھیجنے اور نتائج کا انتظار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا اُور کانگو ’پی سی آر‘ ٹیسٹنگ کرنے کے لئے خصوصی تربیت یافتہ عملے کی کمی بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے ہر طبی تدریسی ادارے کے پاس کورونا وبا کے پی سی آر ٹیسٹ کرنے کی مشین و آلات تو موجود لیکن تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کے باعث ’پی سی آر‘ ٹیسٹنگ کے لئے پشاور ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

 بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کانگو بیماری پر قابو نہیں پایا جا سکتا تو کم از کم لوگوں کو معلومات (شعور) دینے کی صورت مدد کی جا سکتی ہے۔ موجودہ سخت معاشی مشکلات اُور مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ’کانگو بخار‘ ایک نیا مسئلہ ہے۔ کانگو وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 100 افراد میں سے چالیس فیصد کی اموات ہوتی ہیں اُور اِس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ’مویشی منڈیاں‘ ہیں۔

قربانی کے لئے جانور خریدنے کے خواہشمندوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بچوں کو اپنے ہمراہ مذکورہ منڈیاں نہ لیکر جائیں اُور جانور کو گھر لانے کے بعد‘ اپنی اُور اُس کی اچھی طرح صفائی کریں۔ بچے عموماً قربانی کے جانور کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں اُور لیکر گھومتے پھرتے ہیں جبکہ جانور کے جانور کو مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اُس سے خاص احترام اُور اُنس بھی رکھی جاتی ہے لیکن طبی ماہرین احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں اُور دانشمندی اِسی میں ہے کہ قربانی ادا کرنے کی نیت رکھتے ہوئے طبی ماہرین کے مشورے کو توجہ سے سنا جائے۔ خوشی کا کوئی بھی موقع اُور تہوار انسانی جان سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔

...

Clipping from Daily Aaj Peshawar, June 25, 2022 Saturday

Editorial Page Daily Aaj Peshawar Abbottabad June 25, 2022


POLITICAL HAND SHAKE

ژرف نگاہ ۔۔۔شبیرحسین اِمام

سیاسی اشتراک ِعمل

پاکستان تحریک انصاف اُور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قائدین (عمران خان اُور علامہ راجا ناصر عباس جعفری) کے درمیان سیاسی اشتراک عمل پر اتفاق رائے کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان تحریری معاہدے پر دستخط بھی ہوئے ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اہم پیشرفت ہے۔ بنی گالہ اسلام آباد میں (بیس جون دوہزاربائیس کے روز) دونوں جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے علاۂ ہ، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیریں مزاری جبکہ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے چیئرمین علامہ راجا ناصر عباس جعفری کے ساتھ وائس چیئرمین علامہ اقبال رضوی‘ سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی اور سیکرٹری سیاسیات اسد نقوی شریک ہوئے۔ مذکورہ سیاسی اشتراک عمل کے 7 نکاتی دستاویز میں جو امور بالترتیب شامل کئے گئے ہیں وہ پاکستان کے اہم ترین داخلہ و خارجہ امور اور مستقبل کی سیاسی حکمت ِعملی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ بظاہر تو یہ چند سطروں پر مشتمل دستاویز ہے لیکن اگر اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد کر لیا گیا اُور دیگر سیاسی جماعتیں بھی اِس جانب متوجہ ہوئیں تو یقینا پاکستان عظیم‘ آزاد‘ خود مختار‘ باوقار اُور امن وامان پر مبنی محفوظ اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ درحقیقت سیاسی اشتراک عمل کے لئے مذکورہ اتفاق رائے کئی دہائیوں کی جدوجہد اُور اِس جدوجہد سے اخذ اہداف کو الفاظ کی شکل دیئے جانے کی محنت ہے‘ جو بارآور ثابت ہوئی ہے۔

تحریک انصاف اُور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان ’اشتراک عمل‘ کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ”وطن عزیز پاکستان کی داخلی وحدت‘ سلامتی اور استحکام کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ اسلامی اقدار کا تحفظ‘ تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت اور سیاسی‘ اقتصادی اور دفاعی خود انحصاری کے حصول کے لئے (دونوں جماعتیں) مشترکہ جدوجہد کریں گی۔ اسرائیل کے حوالے سے بانی پاکستان قائداعظم رحمة اللہ علیہ کی دی ہوئی گائیڈ لائنز سے کسی قسم کی روگردانی نہیں کی جائے گی اور کشمیر و فلسطین کے موضوعات پر اخلاقی و قانونی نقطہ نظر سے کسی قسم کا انحراف نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و وحدت کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہوگا۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات میں مذاکرات کے ذریعے راہ حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی اور ان تنازعات میں فریق نہیں بنا جائے گا۔ دوست پڑوسی ممالک سے تعلقات کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنایا جائے گا۔ وطن عزیز پاکستان میں ظلم کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ پسماندہ اور استحصال شدہ طبقے کی بحالی اولین ترجیح ہوگی۔ ہمیں غلامی قبول نہیں۔ پاکستانی سرزمین کسی بھی ملک کو فوجی اڈوں کے لئے نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کے قومی فیصلے اسلام آباد ہی میں ہوں گے۔ آزاد خارجہ پالیسی اور داخلی خودمختاری بنیادی اصولوں ہیں اور اس بیانیے سے کسی طرح بھی روگردانی نہیں کی جائے گی۔“

 ذہن نشین رہے کہ حجة الاسلام شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ (تاریخ شہادت 5 اگست 1988ئ) نے پاکستان میں اِسلامی ریاست کے منشور سے متعلق تصور بصورت دستاویز پیش کیا تھا جس کا عنوان ”سبیلنا (ہمارا راستہ)“ میں ”خارجہ پالیسی“ کے خدوخال بیان کئے گئے کہ ”کسی بھی طاقت کی اقتصادی‘ ثقافتی‘ فوجی اور سیاسی بالادستی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ استعماری اور سامراجی عزائم کی مزاحمت کی جائے گی۔ تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک سے دو طرفہ بنیادوں پر قریبی خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں گے ماسوائے ان ممالک کے جو نسل پرستانہ‘ صہیونی‘ سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل ہوں یا اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسی اپنائے ہوں۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور نہ رو بہ عمل لایا جائے گا‘ جس کے تحت کوئی غیر ملکی طاقت ملک کے قدرتی وسائل پر تسلط یا تصرف حاصل کرسکے۔ کسی سامراجی طاقت کو فوجی مقاصد کے لئے پاکستان کی زمین‘ فضا اور پانی استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ دنیا بھر میں محروموں اور مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں بالخصوص اسلامی تحریکوں کی حمایت کی جائے گی اور ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ مسلم اکثریت کے وہ علاقے جو اغیار کے زیر تسلط ہیں‘ ان کی آزادی کے لئے تعاون کیا جائے گا۔ القدس اور دیگر مقامات مقدسہ کی حرمت و آزادی کو بنیادی اہمیت دی جائے گی۔ کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق کے لئے جدوجہد کی جائے گی۔“

 یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مجلس وحدت مسلمین اُور تحریک انصاف کے درمیان جن نکات پر اتفاق رائے ہوا وہ قیام پاکستان کے بنیادی مقصد و نظریئے اُور پاکستان میں اسلامی اقدار کے کے تحفظ کے لئے تحریر کردہ ”سبیلنا“ نامی دستاویز ہی کی شرح ہے‘ جسے تسلیم کرنے میں تحریک انصاف نے جس وسعت نظری‘ وسعت قلبی اُور وسعت فکری کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف (فقیدالمثال) ہے۔

مجلس وحدت المسلمین اقدار کی امین ہے جس نے ”سبیلنا“ سے سیاسی اشتراک عمل اخذ کیا اُور تحریک انصاف کے ساتھ اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنایا۔ یہ اتفاق رائے (لائحہ عمل) درحقیقت عقیدہۂتوحید اور انبیائے کرام کی بعثت و مقصد کا مجموعہ (نچوڑ) ہے۔ کسی بھی اقدام کی اصل حقیقت زمینی حقائق سے صرف ِنظر کرکے نہیں سمجھی جا سکتی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہوتا ہے تو اِس سے ہمیشہ خیر کے پہلو نکلتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی فہم و ادراک کی سطح اگر اِس حد تک بلند ہو چکی ہے اُور یہ مشترکات پر احسن انداز سے اکٹھا ہو رہے ہیں تو یہی سیاست کا ”حقیقی حسن“ ہے کہ اِس سے اختلافات کی بجائے اتفاق رائے پیدا ہو۔ سیاسی جماعتیں جب اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں تو یہ عمل دراصل اُن کے ہوش و خرد کا امتحان ہوتا ہے اُور یہی ’ہوش و خرد‘ تحریک و مجلس کے درمیان ہوئے اتفاق رائے کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ اُمید ہے ایفائے عہد ہوگا۔ اُمید ہے اتفاق رائے نہ صرف قائم و دائم رہے گا بلکہ اِس میں وقت کے ساتھ تقویت بھی آئے گی۔

....

Clipping from Editorial Page of  Daily Aaj Peshawar - June 25, 2022 Saturday