Tuesday, October 31, 2017

Oct 2017: Chinese language teaching - a way forward!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زبانِ یار ۔۔۔!
’پلاننگ کمیشن آف پاکستان‘ نے رواں برس ماہ جون کے پہلے ہفتے جاری کئے اعدادوشمار میں کہا تھا کہ ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ کے تحت ’’تیس ہزار پاکستانیوں (ترجیحی بنیادوں پر انجنیئروں‘ راج اور مزدوروں) کے لئے ملازمتی مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘ جبکہ مزدوروں کی عالمی تنظیم (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ’سی پیک‘ سے ملازمتی مواقعوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ‘ جن میں براہ راست ایک لاکھ سے زیادہ ملازمتیں شامل ہوں گی۔‘‘ اگرچہ ’سی پیک‘ کے حوالے سے حکومتی دستاویزات ’سراپا راز (خاموش‘ ہیں جن تک کسی وجہ سے عام آدمی (ہم عوام) کو رسائی نہیں دی گئی لیکن مختلف مواقعوں پر حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ ’سی پیک‘ منصوبوں میں چین کے لوگوں کا مقررہ ملازمتی کوٹہ ’’پچیس فیصد‘‘ سے کم ہوگا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ’سی پیک‘ ہی سہی لیکن کسی طور پاکستان میں لاکھوں ملازمتی مواقع پیدا ہوں گے.

خیبرپختونخوا ’سی پیک‘ کا گیٹ وے ہے اور یہیں سے گزرنے والی راہداری سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی اقتصادی قسمت بدل کر رکھ دینی ہے‘ اِسی لئے ’خیبرپختونخوا‘ کے لئے ’سی پیک‘ سے مستفید ہونے کے اِمکانات دیگر صوبوں کے مقابلے زیادہ ہیں! لیکن کیا خیبرپختونخوا ’سی پیک‘ سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کی خواہش کے ساتھ اِس سے عملی طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے بھی تیار ہے؟کیا ہمارے پاس ایسی افرادی قوت موجود ہے جو چینی کمپنیوں کے معیار پر پورا اُترے یا ہمارے ہنرمندوں کو چینی زبان کے چند ایک بنیادی اصولوں سے ہی واقفیت ہے اور اُن کے لئے کم سے کم یہ بات ممکن ہے کہ وہ چینی باشندوں کے نام صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کر سکیں؟ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان (انگلش میڈیم آف ایجوکیشن) پر ’حد سے زیادہ اِنحصار (بھروسہ)‘ کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا سمیت جدید علوم اور بالخصوص سائنس کے میدان میں انگریزی کتب کی تعداد اور دستیابی آسان ہے لیکن یہ مفروضہ قائم کر لینا کہ بناء ’’انگریزی دانی‘‘ جدید عصری علوم حاصل ہی نہیں کئے جا سکتے‘ ایک مغالطہ (اصلاح طلب تاثر) ہے کیونکہ امریکہ کے علاؤہ دنیا کی چار دیگر ’عالمی طاقتیں (سپرپاورز)‘ چین‘ روس‘ فرانس اور جرمنی میں درس و تدریس مادری زبانوں میں رائج ہے اور یہ اقوام مادری زبانوں ہی کے بل بوتے پر خلاؤں میں نئے جہاں تلاش کرنے کے علاؤہ صنعتی ترقی‘ تحقیق و ایجادات کے نت نئے بلند معیار بھی تخلیق کر رہی ہیں۔

لائق داد و تذکرہ ہے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا حکومت نے ’سی پیک‘ کے ثمرات بالخصوص ملازمتی مواقعوں سے خاطرخواہ استفادہ کرنے کے لئے ’تکنیکی و فنی علوم کے مراکز (ٹیکنیکل ایجوکیشن سنٹرز) میں ’چینی زبان‘ کی کلاسیز کے اجرأ کا فیصلہ کیا ہے۔ ’مختصر مدت کے یہ تربیتی مواقع (شارٹ کورسیز)‘ طلباء و طالبات کو اِس قابل بنا دیں گے کہ وہ چینی زبان میں عمومی بول چال کر سکیں یا سمجھ سکیں اور درست تلفظ میں چینی ناموں کی ادائیگی اُن کے لئے ممکن ہو۔ اِس ’عظیم منصوبے‘ کے حکومتی سطح پر آغاز سے قبل نجی اِداروں نے چینی زبان کے عملی استعمال کے مختصر کورسیز کا اجرأ پہلی ہی اپنی مدد آپ کے تحت کر رکھا ہے اور خیبرپختونخوا کے مختلف (سی پیک سے متعلقہ) اضلاع بشمول پشاور‘ نوشہرہ‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ ہری پور‘ ڈی آئی خان کے علاؤہ بھی مختلف شہروں میں ’تربیتی مراکز (کوچنگ اکیڈمیز و سنٹرز)‘ انگریزی بول چال کے ساتھ چینی زبان کی تعلیم بھی دے رہے ہیں جہاں تین سے چھ ماہ کے ایک کورس کی اوسط فیس ’ماہانہ تین سے پانچ ہزار روپے‘ مقرر ہے۔ اِن نجی کوچنگ سنٹرز میں سکھائی جانے والی چینی زبان کتنی معیاری ہے اِس پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں اور لازم ہے کہ اِس تبدیلی کا صرف مشاہدہ نہ کیا جائے بلکہ اِسے مفیدعام بنانے کے لئے نجی اداروں کی زیادہ سے زیادہ سرپرستی کی جائے۔

خیبرپختونخوا کے ’’ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ وکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹویٹا)‘‘ کے ایک ذمہ دار کی جانب سے دی جانے والی معلومات کے مطابق ’ٹیکنیکل ایجوکیشن‘ کے ساتھ چینی زبان کی تعلیم شروع کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہمارے ہنرمند ’سی پیک‘ کی ذیل میں ملازمتی مواقعوں سے حسب تعلیم و مہارت فائدہ اُٹھا سکیں۔‘‘ لیکن ’’پاک چین دوستی‘‘ کو ایک تنظیم سے تحریک میں تبدیل کرنے والے سیّد علی نواز گیلانی سمجھتے ہیں کہ ’’درحقیقت دیگر زبانوں کے مقابلے چینی زبان‘ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب و ثقافت اور فکروعمل کا نام بھی ہے۔ چین محنت کش قوم ہے۔ جن کی زبان سیکھنا ہی اِس بات کی ضمانت (کافی) نہیں ہوگا کہ ہمارے نوجوانوں کو ملازمتی مواقع اور حسب خواہش ترقی ملے گی بلکہ اِس کے لئے اپنے آپ کو مٹا دینے والی محنت کرنا ہوگی اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے‘ نصاب تعلیم کے اسباق کی حد تک محدود ہیں اور وہ طلبہ (نوجوانوں) میں جستجو پیدا نہیں کرتے۔ اُنہیں محنت کی عظمت‘ کردار اور اپنے کام سے لگن جسے عشق کہا جائے پیدا نہیں کر پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذہین نوجوان ہنرمند ہونے کے باوجود بھی بڑی تعداد میں بیروزگار ہیں‘ جبکہ اُنہیں محنت کرنے میں بھی عار محسوس ہوتی ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اِس معاشرتی و سماجی خرابی کو دور نہیں کرے گی‘ جس کا تعلق نصاب تعلیم‘ نفسیات اور علاقائی رسم ورواج سے بھی ہے اُس وقت تک ’سی پیک‘ منصوبے ہوں یا عملی زندگی کے دیگر محاذ‘ ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکیں گے۔‘‘ 

ایک سوال کے جواب میں علی نواز گیلانی نے اِس اندیشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر وفاقی اُور خیبرپختونخوا حکومتوں نے ’چینی زبان‘ اور ’چین شناسی‘ سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لئے مربوط و مسلسل کوششیں نہ کیں تو مجبوری ہوگی کہ زیادہ تعداد میں چین کی افرادی قوت پاکستان میں ملازمتوں پر فائز دکھائی دے‘ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ جس طرح چین کی حکومت اور وہاں کے اِداروں نے ’سی پیک‘ کو سنجیدگی سے لیا ہے‘ ہمارے فیصلہ ساز بھی اپنی اپنی ترجیحات کا اَزسرنو تعین کریں اور بناء تاخیر ’چینی زبان‘ کو بطور مضمون نصاب تعلیم میں شامل کریں۔ 

یکساں اہم ہے کہ چینی زبان کو صرف ٹیکنیکل اِداروں کی حد تک ہی محدود نہ رکھا جائے۔‘‘علی نواز گیلانی نے انگریزی زبان پر بڑھتے ہوئے انحصار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز کیا کہ ’’پاکستانی طلباء و طالبات کے وفود کو گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے دوران چین کے دوروں پر بھیجا جائے تاکہ وہ چین کی ترقی اور معاشرے کا قریب سے مشاہدہ کرسکیں۔ انہوں نے پاک چین تعلیمی اِداروں کے آپسی رابطوں اور وفود کے تبادلوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ ’’اِس میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا (ٹیلی ویژن اور ریڈیو) کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اگر برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے ’اردو زبان‘ میں اپنے پروگرام ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کر سکتے ہیں تو یہی رابطہ کاری ’’چینی اُردو زبانوں‘‘ میں کیوں ممکن نہیں؟‘‘ 

پاک چین دوستی صرف رسمی نام (سماعتوں کے لئے خوشگوار نعرہ) نہیں بلکہ وقت کی نہایت ہی اہم ضرورت ہے اور ایک ایسی حاجت بھی ہے جس سے انکار کسی بھی صورت پاکستان کے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں نہیں!
۔

Sunday, October 29, 2017

Translation: Economic warfare by Dr. Farrukh Saleem

Economic warfare
اِقتصادی (مسلط) جنگ!
اٹھارہویں صدی میں ’مخصوص فوجی لباس (یونیفارم) پہنے سپاہی جنگ لڑا کرتے تھے۔ اُس عہد میں زیادہ سے زیادہ مسلح اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی تھی‘ جس پر عموماً اختیار نہیں رہتا تھا اور اِن جنگوں میں حصہ لینے والے دونوں فریقین کے وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوا کرتے تھے۔ یہی ہوتی کہ ’پہلی قسم (فرسٹ جنریشن)‘ کی اِس ’’دور‘‘ میں ’’جنگ کی تباہ کاریوں‘‘ سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں صف بندی کرکے ایک دوسرے کے آمنے سامنے سینہ سپر ہو کر جسمانی طاقت کے بل بوتے پر لڑنے والا جنگی دور اختتام پذیر ہوا اُور اِس کی جگہ آتش گیر مادے سے دور تک مار کرنے والی ایک ایسی بندوق اور اسلحے نے لے لی جس میں ہر بار بارود ڈالنا پڑتا تھا۔ تیسری قسم (تھرڈ جنریشن) کی لڑائی میں حملہ آور برق رفتاری‘ خود کو پوشیدہ رکھنے اُور اچانک حملہ کرنے جیسے حکمت عملیوں سے کام لیتے رہے۔ تیسری قسم کی اِس جنگ میں فضائیہ‘ ٹینک اور بھاری گولہ باری (آرٹلری) کا استعمال کیا جاتا رہا۔

جنگیں آج کے زمانے میں لڑی جاتی ہیں لیکن حکمت عملی تبدیل ہو چکی ہے۔ موجودہ دور میں چوتھی قسم (فورتھ جنریشن) کی جنگیں لڑی جاتی ہیں جن میں روائتی و غیرروائتی ہتھیاروں کی بجائے کسی ملک کے اقتصادی نظام کو نشانہ بناتے ہوئے اُس کی اقتصادیات کو اِس حد تک کمزور (ناتواں) کر دیا جاتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ میں تحلیل ہو جائے کیونکہ جب کوئی ملک اقتصادی طور پر کمزور ہوگا تو وہ اپنے دفاع پر خاطرخواہ اخراجات بھی نہیں کر پائے گا اور یہی حکمت عملی ہے کہ بڑے پیمانے پر خون خرابہ کرنے کی بجائے ایسے طریقے اختیار کئے جائیں جس سے جنگ کے اہداف حاصل ہوں۔

سال 1970ء میں امریکہ کے صدر نکسن (Richard Nixon) نے سنٹرل انٹلی جنس ایجنسی (CIA) کو حکم دیا کہ وہ ’’(دشمن ملک چلی) کو اقتصادی طور پر ناتواں کر دو۔‘‘ سی آئی اے نے حسب حکم ایسا ہی کیا۔ اِسی طرح امریکہ نے پچاس سال لگا کر کیوبا کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا۔ سال1990ء میں امریکہ نے عراق اور شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی جنگ کا آغاز کیا تاکہ یہ دونوں ممالک اپنے وسائل دفاعی طاقت بڑھانے کے لئے استعمال نہ کرسکیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں عالمی طاقت امریکہ نے اقتصادی حربوں کے ذریعے اپنے مخالفین کو نقصان پہنچایا۔ 1947ء سے 1991ء کے عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممال نے سوویت یونین کے خلاف اقتصادی جنگ لڑی۔ سوویت یونین کے پاس سات ہزار جوہری ہتھیار تھے لیکن اِن کے باوجود بھی وہ 1991ء میں پندرہ ٹکڑوں (آرمینیا‘ آذربائیجان‘ بیلاروس‘ ایستونیا‘ جورجیا‘ قازقستان‘ کرغستان‘ لاتھیا‘ لیتھونیا‘ مولداویا‘ رشیا‘ تاجکستان‘ ترکمنستان‘ یوکرئن اُور اُزبکستان) میں تقسیم ہونے سے خود کو نہ بچا سکا۔

آج کی دنیا میں قرض بھی ایک ہتھیار ہے اور سرمایہ دار ممالک ’قرض‘ دینے کے ذریعے ممالک پر اجارہ داری قائم کرتے ہیں۔ کسی ملک کو قرض پر قرض دیئے جانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دفاع کو مضبوط اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے قابل نہ رہے۔ اگر ہم اِس تناظر میں پاکستان کا جائزہ لیں تو سال 2001ء میں ملک کی کل خام پیداوار (جی ڈی پی) کا 4.6فیصد حصہ دفاع پر خرچ کر رہے تھے جس میں بتدریج کمی ہوتے یہ اخراجات جی ڈی پی کے مساوی 2.3 فیصد ہو چکے ہیں کیونکہ اِس عرصے کے دوران (سال دوہزار ایک سے) پاکستان کا قرض 3 ہزار 684ارب روپے سے بڑھ کر 25 ہزار 62 ارب روپے ہو چکا ہے۔ قومی قرضوں کا منفی اثر براہ راست دفاعی اخراجات پر پڑتا ہے اور جیسے جیسے قرض بڑھتا ہے دفاع پر اخراجات کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتصادی جنگ مسلط کرنے والے کرنسی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں!

کسی ملک کی آمدن و اخراجات کے درمیان عدم توازن (بجٹ خسارہ) مجبور کرتا ہے کہ قرض لیا جائے۔ پاکستان کے سالانہ بجٹ کا خسارہ قریب 2 کھرب روپے ہے یعنی پاکستان کی کل سالانہ آمدنی 2 کھرب روپے سے کم ہے اور اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی کرنسی کی قدر کم کرنا پڑے گی۔ بجٹ کا یہ خسارہ بھی جنگی ہتھیار ہے جس کی موجودگی میں پاکستان اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ درحقیقت پاکستان پر اقتصادی جنگ مسلط کر دی گئی ہے جس میں بظاہر جانی نقصانات (خون خرابہ) نہیں ہو رہا کیونکہ زیراستعمال ہتھیار تبدیل ہیں۔ نئی جنگ کا ہتھیار قرض‘ عالمی تجارت‘ کرنسی‘ بجٹ خسارہ‘ ناپائیدار اِقتصادیات اور صحت و تعلیم کے علاؤہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری ہے‘ جن کے تکمیل یا اُن سے وابستہ اہداف عملاً حاصل کرنا ممکن نہ ہوں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, October 26, 2017

Oct 2017: ByElection & wonders of NA 04, Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ضمنی انتخاب: این اے فور!
عام انتخابی عمل میں ’دھاندلی‘ کا ’جامع تصور‘ تین مراحل میں تکمیل پاتا ہے۔ 1: قبل از انتخابی قواعد کی خلاف ورزیاں بشمول حکمراں جماعت کی جانب سے ترقیاتی کام اُور اہم عہدوں پر منظورنظر افراد کی تعیناتیاں‘ 2: رائے دہی (پولنگ) کے مرحلے میں طاقت‘ دھونس اور سرمائے کا (کھلم کھلا) استعمال اور 3: انتخابی اُمیدواروں کی اکثریت بعداَز اِنتخابات (پوسٹ الیکشن) نتائج پر اثرانداز ہونے کی حتی الوسع کوشش کرتی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے فور‘ پر ’ضمنی انتخاب‘ کی روداد بھی زیادہ مختلف نہیں‘ جہاں بڑی سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے لئے سرتوڑ اور جوڑتوڑ کوششوں کا منطقی انجام آج (چھبیس اکتوبر) دن ڈھلنے واضح ہو جائے گا لیکن صوبائی دارالحکومت پشاور کے بیشتر دیہی علاقوں پر مشتمل اِس ضمنی انتخاب کی وساطت سے مستقبل کا ’انتخابی منظرنامہ‘ بڑی حد تک معلوم ہو چکا ہے کیونکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان بننے اور بگڑنے والے ’انتخابی اتحاد (قربتیں اُور فاصلے)‘ ہی خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں بالخصوص پشاور کی سطح پر ’مستقبل قریب‘ میں ہونے جا رہے انتخابی مراحل پر اثرانداز ہوں گے۔

عام انتخابی مرحلے میں کسی ایک اُمیدوار کی ’جیت‘ کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوتا کہ مدمقابل دیگر اُمیدواروں کو شکست ہوئی ہے بلکہ انتخابات کے ذریعے جمہوریت پر یقین اور اعتماد کا عملی اظہار اِس عمل کی اساس و اثاثہ ہے۔ افسوس کہ سیاسی جماعتیں عمومی طور پر انتخابی اتحاد کی صورت اپنے حامیوں کے جذبات کا احساس نہیں کرتیں۔ جمہوریت کی روح اور انتخاب کا مقصد اُسی وقت فوت ہو جاتا ہے جب مختلف النظریات سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد کرتی ہیں۔ پشاور کی سطح پر اِس قسم کے اتحاد پہلی مرتبہ ’این اے فور‘ پر دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ اگست دوہزار تیرہ کے آخری ہفتے جب ’این اے ون‘ کے ضمنی انتخاب پر تحریک انصاف کے مقابلے عوامی نیشنل پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تب تحریک انصاف کے مقابلے چھ سیاسی جماعتوں نے اتحاد کیا تھا جبکہ مئی دوہزار تیرہ میں تحریک انصاف کے مخالفین کا ’ووٹ بینک‘ منتشر تھا۔ اُس وقت رہی سہی کسر ’تحریک انصاف‘ کے داخلی اختلافات نے پوری کر دی اور یوں بھاری اکثریت سے جیتی ہوئی نشست چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ’پی ٹی آئی مخالف اتحاد‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جس سے باردیگر ثابت ہوا کہ عام انتخابات صرف اور صرف حساب و کتاب (شمار) پر منحصر ہوتے ہیں جو اُمیدوار اپنے اور مخالفین کے ’ووٹ بینک‘ کا درست اندازہ لگائیں وہی دلی مراد پاتے ہیں۔ 

سیاسی جماعتیں جس پھرتی‘ اتحادواتفاق اور ووٹروں سے رابطوں کا اہتمام عام انتخابات کے موقع پر کرتی ہیں لیکن اگر یہی سلسلہ بعدازانتخابات بھی جاری رہے تو جمہوریت کے ثمرات و اثرات زیادہ اُبھر کر سامنے آئیں۔ عمومی طور پر ملک کے ہر انتخابی حلقے میں ووٹروں کی اکثریت اِس احساس محرومی کا شکار ہے کہ اُن سے ووٹ لینے والے بعدازاں انتخابی حلقوں کا رُخ نہیں کرتے۔ قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کے پاس ’ترقیاتی فنڈز‘ ہونے کی وجہ سے انتخابی حلقوں کو اُن کی ضرورت رہتی ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کو اِس ’’خوش فہمی کے مرض‘‘ کا علاج کرنا چاہئے کہ (تین سطحی) انتخابی عمل میں کروڑوں روپے اور اپنے بیش قیمت وقت کی سرمایہ کاری کرنے والے ’’خدا واسطے سیاست‘‘ کر رہے ہیں۔ ’این فور‘ پر ہوئے ’’انتخابی اتحاد اور رائے دہندگان کو قائل کرنے کی مہمات‘‘ سے اہل پشاور نے کیا سیکھا؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مقرر کئے جانے والے زیادہ سے زیادہ اخراجات سے متعلق قواعد ایک مرتبہ پھر پائمال ہوئے؟ اُور اِس پورے عمل سے کیا (مردم شماری کے تین بلاکس) ’’اُڑمر (چارج ٹو)‘ بڈھ بیر (چارج فور) اور ہزارخوانی (چارج چودہ)‘‘ کے دیہی علاقوں کی قسمت بدلنے والی ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’ایم این اے‘ گلزار خان کی وفات سے خالی ہونے والی ’’اِین اَے فور‘‘ کی نشست کے لئے ’’3 لاکھ 97 ہزار 904 ووٹرز‘‘ ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہیں‘ جنہیں ’’15اُمیدواروں‘‘ میں سے کسی موزوں شخص کا انتخاب کرنا ہوگا۔ بطور اُمیدوار حصہ لینے والوں میں امان اللہ خان آفریدی (آزاد)‘ ارباب عامر ایوب (تحریک انصاف)‘ اسد گلزار خان (پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین)‘ الحاج لیاقت علی خان (آزاد)‘ خوشدل خان (اے این پی)‘ ڈاکٹر مبشر خان (آزاد)‘ سمیع اللہ (آزاد)‘ شوکت خان مہمند (آزاد)‘ ضیاء الرحمن (آزاد)‘ علامہ ڈاکٹر محمد شفیق ایمنی (تحریک لبیک (یارسول اللہ) پاکستان)‘ فرحان قدیر (آزاد)‘ محمد تنویر (آزاد)‘ مولانا وحید عالم (آزاد)‘ ناصر خان موسیٰ زئی (پاکستان مسلم لیگ نواز) اور واصل فاروق جان ایڈوکیٹ (جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ اِس حلقے میں ’’ایک لاکھ باسٹھ ہزار سات سو چالیس‘‘ خواتین ووٹرز کی تعداد تعجب خیز ہے کہ کس طرح خواتین ووٹرز کی تعداد مرد ووٹرز کے تناسب ’’72 ہزار 424‘‘ کم ہو سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ دیگر دیہی علاقوں کی طرح یہاں بھی خواتین کے ووٹ حسب تعداد اندراج (رجسٹرڈ) نہیں ہوئے اور نہ ہی پولنگ میں اُن کی پچاس فیصد تعداد ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کر پائے گی۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخاب میں ’این اے فور‘ پر ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 40.34 فیصد رہا جبکہ 12مدمقابل اُمیدواروں کے مقابلے کامیاب قرار پانے والے ’تحریک انصاف‘ کے نامزد گلزار خان نے 55ہزار 134 ووٹ حاصل کئے تھے۔

پشاور کا مضافاتی ’این فور‘ کا انتخابی حلقہ ’امن و امان‘ کے لحاظ سے آج بھی غیریقینی کی صورتحال سے دوچار رہا ہے جہاں ملحقہ قبائلی پٹی سے در آنے والے عسکریت پسندوں اور منظم جرائم پیشہ عناصر کا تین مقامی قبائل مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اِس ضمنی انتخاب نے ماضی کے اِس اہم اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے اور آج یہ تینوں مقامی قبائلی گروہ (حاجی عبدالمالک‘ دلاور خان اور حاجی عباس گروپ) الگ الگ اُمیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی ایک مرتبہ ملک اور خان گروپ ایک دوسرے کے مدمقابل سیاسی مخالف اُمیدواروں کے حامی تھے لیکن اِس مرتبہ اختلافات اس حد تک زیادہ ہیں کہ مسلح تصادم کے امکانات بھی ہیں! یہی وجہ ہے کہ فوج طلب کر لی گئی ہے جو انتخابی مراکز کی حفاظت کرے گی۔ سیاسی جماعتیں کس طرح مسلح گروہوں کی سرپرستی کرتی ہیں اور کس طرح عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح گروہوں کی سرپرستی کی گئی‘ اِس کی کہانی اور اثرات (انجام) ’این اے فور‘ میں بخوبی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ 

انتخابی فتح کبھی بھی ’حرف آخر‘ نہیں ہوتی لیکن اِسے نسلی‘ لسانی اور عزت و آبرو کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے سے پیدا ہونے والی بدمزگی عمومی سماجی تعلقات پر منفی اثرانداز ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی مخالفت میں حد سے گزرنے والوں کو پشاور اور خیبرپختونخوا کے مفادات کا بھی خیال (پاس) کرنا چاہئے۔ اُمید اور دُعا ہے کہ ضمنی انتخاب کا یہ مرحلہ حسب توقع‘ خوش اسلوبی سے مکمل ہوگا‘ جس میں حصہ لینے والے سبھی اُمیدوار اگر جمہوری روئیوں اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے برداشت سے کام لیں گے تو اپنی اپنی حیثیت میں صرف ’کامیاب‘ نہیں بلکہ ’کامران‘ بھی قرار پائیں گے۔

Wednesday, October 25, 2017

Oct 2017: What's the standard of Quality in Education?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
معیارِ تعلیم: ’معیار‘ کیا ہے؟
خیبرپختونخوا میں شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لئے وضع کی گئیں حکمت عملیوں کا ’’شمار انگلیوں پر ممکن نہیں‘‘ لیکن اِن کے نتائج ایک جیسے ہی برآمد ہوئے ہیں اور جن شعبوں میں بہتری کے واضح اشارے دکھائی بھی دیتے ہیں تو وہ پائیدار نہیں جیسا کہ پرائمری سطح تک سکولوں میں داخلوں اور دوران تعلیم سکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار دیکھ کر صرف طالب علم اور والدین ہی دل برداشتہ (مایوس) ہوتے دیکھے گئے ہیں آج تک ایسے کسی معلم (سرکاری ملازم) سے ملنے کا شرف نہیں مل سکا‘ جو یہ کہتے ہوئے ملازمت سے الگ ہو گیا ہو کہ ’کیا اِدارے ایسے ہوتے ہیں؟ کیا مجھے یہ زیب دیتا ہے کہ میں معلم بن کر خود کو اور دوسروں کو دھوکہ دوں‘ جبکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اِس فرض کے لئے اہل نہیں۔‘ کیا ہمارے ہاں معلم بننے کے لئے نفسیاتی ٹیسٹ اور درخواست گزاروں کا ماضی دیکھا جاتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث نہیں؟ اہلیت کے بعد دوسری اہم بات ’معیار‘ کی ہے۔ 

ہر دور حکومت میں ’تعلیم‘ کے ساتھ ’معیار‘ کا لفظ ضرور استعمال کیا جاتا ہے بلکہ یہ دونوں الفاظ لازم و ملزوم بن چکے ہیں لیکن آخر اِس ’معیار‘ نامی شے کا وجود یا حقیقت کیا ہے؟ یہ معیار کہیں سے مستعار (ادھار) لیا گیا ہے‘ امداد میں ملا ہے یا ہمارے اپنے ماہرین تعلیم اور فیصلہ سازوں نے مل بیٹھ کر مشاورت سے تخلیق کیا ہے؟ اِس معیار کے پیمانہ پر کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کامیابی کی شرح کیا مقرر کی گئی ہے؟ اِس کے جزئیات و تفصیلات کیا ہیں؟ اور آخر وہ کون سی ایسی کسوٹی ہے جس پر معیار کی درجہ بندی کرکے اِس بات کا فیصلہ کیا جاسکے کہ ’تعلیم‘ کے شعبے میں حاصل کی جانے والی کامیابیاں اور اہداف ’معیاری‘ ہیں یا معیاری نہیں ہیں!؟ یہ بھی طے نہیں ہو سکا اُور اُلجھن بدستور موجود (برقرار) ہے کہ اگر تعلیم کے شعبے میں ’معیار‘ ہی ’معیاری‘ نہیں تو اِس کے لئے ذمہ دار (قصوروار) کون ہیں؟ کیا ہم والدین‘ طالب علموں‘ اساتذہ یا سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی گرفت کریں جنہوں نے ایک ہی ملک میں چار قسم کے ’تدریسی و نصابی نظام‘ قائم کر رکھے ہیں اور پھر بھی ’معیار‘ کی گردان سے گریز نہیں کرتے! 

اربوں روپے سے شروع کی جانے والی تعلیم کے فروغ سے متعلق حکمت عملیاں اگر ناکام ثابت ہوئی ہیں اور سوائے خزانے پر ملازمین کا بوجھ ہر سال بڑھنے کے کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے تو آخر ناکامی کا اعتراف کرنے میں قباحت ہی کیا ہے؟ اعلیٰ ظرفی تو یہ ہے کہ نقصان (خسارے) پر نقصان (خسارہ) کرنے کی بجائے ’حالات و ضروریات‘ سے مطابقت رکھنے والا تدریس کا کوئی ایسا ماڈل (معیار بہ وزن معیار) تخلیق کیا جائے جو ہمارے زمینی حقائق کی نفی پر مبنی (مصنوعی) نہ ہو!

خیبرپختونخوا کے ’نظام و معیار تعلیم‘ کا لب لباب یہ ہے کہ ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں اربوں روپے بالخصوص بنیادی و ثانوی تعلیم کی وسعت اور پہلے سے موجود سہولیات میں بہتری پر خرچ کئے گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں ’اہل اساتذہ‘ بھرتی کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے لاکھوں اساتذہ کی تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالے لیکن اگر نتیجہ وہی کا وہی ہے تو اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ سے انسان نہیں بلکہ مشین سمجھ کر معاملہ کیا جا رہا ہے اور اُن پر اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’کام کا دباؤ‘ اِس قدر بڑھا دیا گیا ہے کہ وہ کم ترین توجہ کلاس رومز میں تدریس کے عمل کو دیتے ہیں! 

کیا یہ معمولی بات ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے چار سال میں ’22 ارب روپے‘ خرچ کر ڈالے ہیں جن سے مفت درسی کتب اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی گئی ہے لیکن اگر اس قدر خطیر اخراجات کے باوجود بھی صورتحال ’وہی کی وہی‘ ہے تو پالیسی سازوں کو اپنے کئے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ رواں ہفتے ’خیبرپختونخوا ایجوکیشن ریفارمز اینڈ اچیومنٹس رپورٹ (KP Education Reforms and Achievements Report 2017) جاری ہوئی‘ جس میں تمام حکومتی کامیابیوں کو قدرے تفصیل اور خوشنما انداز سے فہرست کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ صوبائی حکومت نے اب تک ’نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس)‘ کے ذریعے چالیس ہزار اساتذہ بھرتی کئے ہیں تاکہ خیبرپختونخوا میں اساتذہ کی تعداد طالب عملوں کے عالمی معیار کے مطابق بڑھائی جائے جو کہ ایک معلم کے مقابلے چالیس طلبہ ہے۔ اِسی طرح سال 2014-15ء کے دوران سکول ٹیچرز‘ ہیڈماسٹرز اور پرنسپلز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اُنہیں ’پانچ کروڑ پچاس لاکھ روپے‘ کے انعامات سے نوازہ جا چکا ہے لیکن ’اساتذہ کی ایک بڑی تعداد‘ موجودہ حکومت سے ’خوش نہیں‘ اور بیان کرتی ہے کہ انہیں ذہنی اذیت‘ کوفت اُور حد سے زائد غیرضروری قواعد و ضوابط سے رہائی دی جائے۔ ایک معلم سے ہوئی ٹیلی فونک بات چیت میں جب اُنہوں نے یہ نکات اُٹھائے کہ ’’کسی معلم کی بنیادی ذمہ داری تعلیم دینا ہوتا ہے لیکن تصور کیجئے کہ کوئی استاد اگر سارا دن ’انٹیپنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو)‘ کے لئے اعدادوشمار اکٹھا کرتا رہے تو کیا وہ اپنے بنیادی فریضے کی انجام دہی کر رہا ہے اور ذہنی طور پر مطمئن ہوگا؟ اِسی طرح ’این ٹی ایس‘ کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو ’’اہل‘‘ تو بتایا جاتا ہے لیکن انہیں ’عارضی‘ ملازم رکھا گیا ہے‘ جس سے اِن تمام اساتذہ کے ذہن پر غیریقینی کی صورتحال طاری رہتی ہے اور وہ خوفزدہ رہتے ہیں کہ اُن کی ملازمتوں کا خاتمہ کسی روز بھی ہوسکتا ہے! 

صوبائی حکومت نے جن اساتذہ کے لئے اب تک تربیت کا اہتمام کیا‘ اُن سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ تدریس کے جملہ امور صرف ’تین ہی دن‘ میں سیکھ کر ماہر ہو جائیں گے۔ تدریس کے اسلوب سے متعلق مضامین کی خواندگی ضروری نہیں بلکہ ہر پڑھا لکھا شخص بطور معلم بھرتی ہو سکتا ہے‘ لیکن (لیکن اُور لیکن اپنے اپنے دل سے پوچھتے ہیں کہ) کیا ہمارے ہاں ہر معلم ’اُستاد گرامی‘ کے مرتبے پر فائز ہونے کا اہل بھی ہے؟
۔

Sunday, October 22, 2017

Oct 2017: Open letter, how can Pakistan describe its justice system!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کھلا خط!

تاریخ خاموش ہے کہ آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ۔۔۔ ’احتساب‘ کی خصوصی عدالت کا بطور ملزم سامنا کرنے والے سرکاری گاڑیوں اور محافظوں کے حصار میں ’تشریف‘ لائیں۔ 

عدالت عظمیٰ سے تاحیات نااہل قرار پانے والے سابق وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ (اٹھائیس جولائی دوہزار سترہ سے) جس ایک حقیقت کا مسلسل انکار کر رہے ہیں وہ پاکستان میں انصاف کی بنیاد ہے اور اگر اِس ڈھانچے (نظام) پر بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا تو باقی جو کچھ بھی رہے گا‘ اُس سے ملک و معاشرے کی اجتماعی بہبود نہیں ہوگی۔ موروثی سیاست ’مضبوط‘ سے ’مضبوط تر‘ ہوتی چلی جائے گی۔ تصور کیجئے کہ جب نوازشریف کی صاحبزادی کو ’وی وی آئی پی‘ پروٹوکول کے ساتھ ’احتساب عدالتوں‘ کی چند ایک سماعتوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُن کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کا احساس الفاظ میں اُمڈ آیا اور بے اختیار چلا اُٹھیں کہ ’’روز روز کی پیشی سے تو بہتر ہے کہ سزا ہی سنا دی جائے۔‘‘ دست بستہ عرض ہے کہ بی بی یہ تو ’’ابتدائے عشق‘‘ ہے۔ اس ملک میں کسی غریب کی بیٹی کو عدالتوں کے دھکے کھانے پڑجائیں‘ تو وہ روز روز نہیں بلکہ سال ہا سال پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہوتی ہے اور پھر دعا کرتی ہے کہ اے رب‘ اس ذلت آمیز نظام کے ذریعے انصاف ملنے سے تو کئی درجے بہتر ہے کہ عزت سے موت ہی آجائے‘ بلکہ ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ عدالتوں کے چکر لگانے والے مرد و خواتین نے ’اُس خاص ماحول‘ کی وجہ سے خودکشیاں کیں‘ جس میں عام آدمی کے لئے نہ تو عزت ہے اور نہ ہی تکریم۔

محترمہ مریم بی بی سے قوم پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ آپ نے کب اس قدر مشکلات جھیلی ہوں گی جس قدر ایک عام پاکستانی کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں! آپ تو وہ خاص لوگ ہیں کہ عدالتیں چل کر آپ کی دہلیز تک آتی رہی ہیں۔ آپ نے درست کہا کہ ’’روز روز کی سزا‘‘ ختم ہونی چاہئے لیکن کیا یہ روز روز کی سزا بناء کسی جرم نازل ہوئی ہے؟ کیا آپ کو اپنے خاندان کے بے انتہاء مالی اثاثوں کو دیکھ کر شک نہیں ہوتا کہ آخر یہ سب کہاں سے آ گیا؟ کیا آپ نے کبھی اپنے والد گرامی کو مشورہ دیا کہ وہ انصاف تک رسائی کے عدالتی نظام کی اصلاح فرمائیں کہ کس طرح ’روز روز کی پیشیاں‘ سزا سے کم نہیں ہوتیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تھانہ کچہری اور عدالتوں کے نظام کو اس قدر پیچیدہ رکھا گیا ہے کہ تاکہ عوام کو سیاسی جماعتوں کا محکوم و غلام رکھا جا سکے؟ کیا ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ عوام کا غم اور تکلیف کا احساس ہمارے حکمرانوں کے لئے معنوی وجود رکھتا ہے؟ اہل پاکستان کے لئے صرف انصاف کا حصول ہی بذریعہ عدالت ممکن نہیں رہا بلکہ یہاں تو تعلیم وعلاج کے لئے بھی پیشیاں (حاضریاں) بھگتنا پڑتی ہیں۔ ملازمتیں بناء پیشی نہیں مل سکتیں اور بناء جرم بھی پیشیوں پر پیشیاں پیش آ سکتی ہیں! 

کیا یہی پاکستان ہے کہ عام آدمی تاحیات عام رہے؟ 

غریب ہمیشہ غریب رہے اور حکمراں ہمیشہ حکمراں رہے؟ 

کیا سادہ لوح محترمہ مریم بی بی جانتی ہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں پندرہ لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتوأ ہیں اور اِس قدر بڑی تعداد میں مقدمات زیرسماعت ہونے کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں نئے مقدمات ہر ماہ درج ہو رہے ہیں!؟ 

کیا ہم ایسے نظام کو اِنصاف تک رسائی کی سبیل قرار دے سکتے ہیں جس میں انصاف ملنے کی اُمید میں نسل در نسل انتظار کرنا پڑے۔ کیا محترمہ مریم بی بی حقیقت آشنا نہیں کہ ’تاخیری اِنصاف درحقیقت انصاف تک رسائی سے انکار ہی ہوتا ہے۔‘ یہ کہا تو جا سکتا ہے کہ انصاف بکتا ہے لیکن اِس کا مطلب وکلاء کی بھاری فیسیں ہیں جن کی ادائیگی ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتیں! جتنا نامور وکیل اتنے ہی کامیابی کے امکانات! کیا مریم بی بی کو کچھ اندازہ ہے کہ عدالتوں میں اہم (وی آئی پی) اور غیر اہم (ہم عوام) سے الگ الگ سلوک کا مطلب کیا ہے؟ کیا ہر پاکستانی کا یہ حق نہیں کہ اُس سے عدالتوں کا رویہ یکساں یعنی مؤدبانہ ہو؟ افسوس کہ ہم یہ بات تو جانتے ہیں کہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے نوے فیصد مجرم پکڑے نہیں جاتے جو دس فیصد گرفت میں آتے ہیں تو اُن کی اکثریت یا تو ضمانتیں کروا لیتی ہے یا پھر بیماری کا بہانہ بنا کر ہسپتالوں کے خصوصی وارڈز میں ’بستر‘ نشین ہو جاتی ہے! قتل اُور اقدام قتل جیسے گھناؤنے جرائم کے مرتکب اگر سرمایہ دار ہوں اور سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہوں تو ایسی کوئی بھی عدالت کم سے کم پاکستان میں تو نہیں جو اُنہیں سزا دے سکے۔ یہاں جرائم قوانین کے سہارے اپنا وجود رکھتا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ قاتل ضمانتوں پر رہا ہوئے۔ عینی شاہدین قتل ہوئے۔ میر مرتضی‘ میر شاہنواز اور بینظیر بھٹو جیسی اہم شخصیات کے قاتل آج تک معلوم نہ ہوسکے تو اس بات پر کیا تعجب کہ اگر کسی عام آدمی کے معلوم قاتل بھی صاف بچ نکلیں! 

کیا شریف خاندان کا مقدمہ اُن سینکڑوں خاندانوں سے زیادہ سنگین ہے جن کے عزیز قتل ہو چکے ہیں؟ 

حالت یہ ہے کہ جائیدادوں اور کرایہ داروں سے بذریعہ عدالت گھر خالی کرانا بھی ممکن نہیں رہا۔ دیوانی کے مقدمات میں نسلیں رُل جاتی ہیں! نوازشریف خاندان کو صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ اِن کے اثاثے معلوم آمدنی کے ذرائع سے زیادہ کیسے ہیں اور اِن کی خریداری کے لئے مالی وسائل کن ذرائع سے اَدا کئے گئے یعنی منی ٹرائل کیا تھی۔ اِس سیدھے سادے مقدمے کو اُلجھا کر کہیں ووٹ کے تقدس یاد دلایا جاتا ہے اور کہیں انتقام کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ عدالت اُور انصاف پر سوال اُٹھانے کی بجائے اُن دو بنیادی سوالات کا جواب کیوں نہیں دیا جارہا‘ جن کا تعلق مالی اَمور سے ہے۔ پاکستان کی اِجتماعی دانش و بصیرت کا اِمتحان ہے کہ قوم کسی ایسے خاندان کو کس طرح بطور حکمران تسلیم کر سکتی ہے جن کے مالی معاملات و اَمور مشکوک ہیں اور جو سوالات کا جواب دینے کی بجائے عدالتی معاملے کو غیرضروری طور پر طول دے رہے ہیں!
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-22

TRANSLATION: Unsound projects by Dr. Farrukh Saleem

Unsound projects
ناپائیدار حکمت عملیاں!
جنگ کے اہداف نہیں بلکہ جنگ کے ہتھیار بدل گئے ہیں۔ تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب فوجیں فتوحات نہیں کرتیں۔ کسی ملک کی اقتصادی حالت اِس حد تک غیرمستحکم‘ ناپائیدار‘ غیرمضبوط‘ ناقص اور لاغر کردی جاتی ہے کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔ 1970ء کی دہائی میں امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) نے خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ کو حکم دیا تھا کہ ’’چلی کی اقتصادیات کا بیڑا غرق کردیا جائے۔‘‘ یہ راز امریکہ حکومت کی خفیہ خط و کتابت سے معلوم ہوئی اور جب ہم موجودہ صورتحال میں پاکستان کی اقتصادیات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی قابل بیان حالت میں نہیں ہے۔
پاکستان کے سیاسی فیصلہ سازوں کا طرزعمل رہا ہے کہ یہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر سال پہلے سے موجود قرضوں کی ایک تہہ (پرت) بڑھ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضوں پر منحصر اقتصادی نظام مرتب کرکے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

ہم سب عینی شاہد ہیں کہ سیاسی حکومتوں نے سیاسی مفادات کے لئے ایسے ترقیاتی منصوبوں میں حد سے زیادہ مالی سرمایہ کاری کی‘ جن کے فوائد محدود اور ان سے اقتصادی لاغرپن کا علاج ممکن نہیں۔ ستائیس کلومیٹر طویل اورنج لائن منصوبہ‘ لائٹ ریل ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم پر لاگت کا تخمینہ 162 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اگر ہم اِس رقم کو مسافروں پر منتقل کریں تو فی ٹکٹ 175 روپے کا بنے گا جبکہ حکومت نے فی ٹکٹ قیمت ’20 روپے‘ مقرر کی ہے اور اس قدر کم قیمت مقرر کرنے سے یومیہ چار کروڑ روپے جبکہ سالانہ ’چودہ ارب روپے‘ خسارہ ہوگا۔ علاؤہ ازیں چار ارب روپے اِس نظام کی دیکھ بھال اور اسے فعال کرنے کے لئے الگ سے درکار ہوں گے۔ تصور کیجئے کہ چین سے حاصل کردہ قرضہ رعائتی شرائط پرہے لیکن اس کی مالیت اور اِس پر سود کی ادائیگی 10ارب روپے سالانہ بوجھ کا باعث بنے گی۔ ذہن نشین رہے کہ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ چین سے حاصل کردہ قرضہ جات اور اِن قرضہ جات پر سود کی ادائیگی ڈالرز میں کرنا ہوگی جبکہ دوسری طرف اِس قرض سے بنایا جانے والے ترقیاتی منصوبے سے بھی یومیہ بنیادوں پر خسارہ ہوگا!

تصور کیجئے کہ حکومت پاکستان نے ضمانت دی ہے کہ وہ ’تھر کول بلاک ون‘ پاور جنریشن کمپنی پرائیویٹ لیمٹیڈ سالانہ 34.49فیصد ادائیگی کرے گی۔ اس منصوبے کی کل لاگت 767 ملین ڈالر ہے جس میں 575 ملین ڈالر قرض شامل ہے۔ اِسی طرح ’ساہیوال کول پاور پراجیکٹ‘ کے لئے حکومتی ضمانت 27.2فیصد ہے۔ اس منصوبے پر کل لاگت کا تخمینہ 956 ملین ڈالر ہے جس میں 723 ملین ڈالر قرض شامل ہے۔

بجلی کی کمی سے صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں لیکن اگر اِن صنعتوں کو مہنگے داموں بجلی فراہم کی جائے گی تو پیداواری صلاحیت اور پیداواری اخرجات بڑھنے سے پاکستانی مصنوعات ملکی یا غیر ملکی منڈیوں میں قیمتوں کا مقابلے کرنے کے قابل نہیں رہیں گی۔ جس کی وجہ سے برآمدات میں کمی آتی چلی جائے گی جبکہ حکومت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔ نندی پور منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 329 ملین ڈالر سے بڑھ کر 847ملین ڈالر ہو چکا ہے۔ نیلم جہلم منصوبے پر لاگت 15ارب روپے سے بڑھ کر 414 ارب روپے ہو چکی ہے۔ نیو اسلام آباد ائرپورٹ منصوبے پر لاگت 37ارب روپے سے بڑھ کر 100 ارب روپے ہو چکی ہے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ میں فرنس آئل سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت 18.17 روپے فی کلوواٹ‘ ہائی اسپیڈ ڈیزل سے 27.91 روپے فی کلوواٹ جبکہ گیس سے 8.44 روپے فی کلوواٹ ہے۔

القصہ مختصر پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسا ترقیاتی منصوبہ تخلیق اور شروع کیا گیا جس سے حاصل ہونے والے نتائج ’ناپائیدار‘ ہیں۔ آج کی دنیا میں ’قرض‘ ایک نیا جنگی ہتھیار ہے۔ جس کے ذریعے اقتصادی ہنگامی حالت کا نفاذ ہوتا ہے جس کے اپنے سیاسی اہداف ہوتے ہیں۔ انہی ناپائیدار و غیرحقیقی اہداف والے ترقیاتی منصوبوں ے باعث کوئی ملک تعلیم و صحت جیسے بنیادی شعبے میں خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتا اور یہی آج کی دنیا میں جنگوں کی چوتھی ترقی یافتہ (فورتھ جنریشن) صورت ہے۔ آج کی دنیا میں میزائلوں اُور ٹینکوں‘ کی جگہ ’ناپائیدار اقتصادی منصوبوں‘ نے لے لی ہے۔ اب کھلے عام گولہ بارود سے جنگ نہیں ہوتی بلکہ خفیہ انداز میں اقتصادی معاہدے ہوتے ہیں۔ آج کی جنگ میں فوجی نہیں بلکہ اقتصادی محاذ کھل گئے ہیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Thursday, October 19, 2017

Oct 2017: Gorkhattree the wonder in wonders!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گورگٹھڑی: کون کیا چاہتا ہے!؟
محکمۂ آثار قدیمہ (خیبرپختونخوا) کی کوشش ہے کہ ’’پشاور شہر کے وسط میں واقع قریب تین ہزار سال پرانی عمارت ’گورگٹھڑی (گورگھ دی ہٹی)‘ کے باقی ماندہ حصوں کو اُس کی تاریخی اہمیت اور اصل کے مطابق ’بحال‘ کر دیا جائے۔‘‘ اِس عمارت کو پہلے ہی ’’پاکستان کے پہلے آرکیالوجیکل پارک‘‘ کا درجہ دیا جاچکا ہے اور یہاں پشاور شہر کی تاریخ کے حوالے سے ایک عدد عجائب گھر (سٹی میوزیم) بھی قائم ہے۔ اگرچہ بہت کم پشاوریوں کو اِس بات کا علم ہوگا کہ اُن کے شہر کی پہلی اینٹ قریب چھبیس سو سال پہلے رکھنے جیسا انکشاف (ڈسکوری) بھی ’گورگٹھڑی‘ ہی کے مقام پر ہونے والی متعدد کھدائیوں سے کی گئی اور ایسی ہی ایک کھدائی کو اُس کی اصل حالت میں دائم رکھا گیا ہے تاکہ نہ صرف ’آثار قدیمہ‘ کا علم حاصل کرنے والے طالب علم‘ ملکی و غیرملکی تحقیق کاروں‘ دلچسپی رکھنے والے سیاحوں بلکہ نئی نسل کو بھی پشاور‘ اِس خطے اور پاکستان و بھارت (برصغیر پاک و ہند) کی تاریخ جاننے اور اِس کے بارے میں مزید غور کرنے کی ترغیب و مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ یوں سندی تاریخی اعتبار کے علاؤہ ’گورگٹھڑی‘ کی اہمیت علمی و تحقیقی اعتبار سے ہٹ کر ایک حوالہ مذہب بھی ہے کہ یہاں کئی مندروں پر مشتمل ہندو مذہب کی مقدس عبادت گاہیں موجود ہیں اور اگر ’گورگٹھڑی‘ کو اُس کے اصل کے مطابق بحال کر دیا جاتا ہے تو اِس سے پشاور میں ’’مذہبی سیاحتی‘‘ کے موجود اِمکانات میں ایک بیش قیمت نگینے (ہیرے) کا اِضافہ ہو جائے گا۔

تحریک انصاف کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ یہ چاہتی ہے کہ ۔۔۔ ’’پشاور ہائی کورٹ‘‘ کے اُن احکامات کو عملی جامہ پہنایا جائے‘ جس کے مطابق ۔۔۔ ’گورگٹھڑی‘ کے اِحاطے میں تعمیر ہونے والا شادی ہال ’تجاوز‘ ہے‘ جس کا اِس عمارت میں وجود کسی بھی طرح ضروری نہیں اور اسے ’فوری طور پر مسمار کر دیا جائے‘‘ لیکن ماضی کے حکمران مصلحتوں کا شکار رہے اُور اُنہوں نے عدالتی احکامات کو حیلوں بہانوں سے پس پشت ڈالے رکھا۔ عدالتی احکامات کی تعمیل نہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ صوبائی اور پشاور کی ضلعی حکومتوں (ٹاؤن ون) نے مذکورہ شادی ہال قوم پرست صوبائی وزیر (رُکن اسمبلی) کو اَجارے (لیز) پر دے دیا‘ جن کی کوشش تھی کہ شادی ہال سمیت تمام ’گورگٹھڑی‘ ہی اَجارے پر لینے کے بعد اِسے پارٹی کارکنوں میں تقسیم کر دیا جائے اُور یہاں روائتی دستکاروں‘ ہنرمندوں اُور کھانے پینے کے مراکز (فوڈ سٹریٹ) ہونا چاہئے۔ تصور کیجئے کہ تاریخی اہمیت کی حامل ایک عمارت‘ کہ جس میں فضل حق کے آمرانہ دور میں شادی ہال تعمیر کیا گیا اور پھر تین دہائیوں بعد اُسے سیاسی ملی بھگت سے ہڑپ لینے کی کوشش کی گئی!

پشاور کے تاریخی اَثاثوں کے لئے دردمند مؤقف رکھنے والے مطالبہ کرتے ہیں کہ ۔۔۔ ’گورگٹھڑی‘ کے اَحاطے (صحن) میں قائم ’باغات (پبلک پارکس)‘ کی تعداد اور سبزہ زاروں میں اضافہ کیا جائے۔ نجی اداروں کو عمارت کے احاطے میں کسی بھی قسم کی کمرشل (بڑے پیمانے پر) سرگرمیوں کے انعقاد کی اجازت نہ دی جائے جس سے یہاں کے سبزہ زاروں‘ راہداریوں یا درودیوار کو تراش خراش سے نقصان پہنچے۔ قریب ایک مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ’گورگٹھڑی‘ کا استعمال سرکاری گاڑیوں کو کھڑا (پارکنگ) کے لئے بھی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کا کوئی بھی حصہ سرکاری و نجی تجارتی‘ کاروباری یا دیگر سرگرمیوں کے کیا جائے۔ گورگٹھڑی ایک نعمت ہے‘ جس کے ذریعے نہ صرف ملحقہ گنجان آباد اندرون پشاور کے علاقوں میں ماحولیات توازن قائم ہے بلکہ اِس کے اطراف چھ یونین کونسلوں سے ’ہلکی پھلکی ورزش (صبح کی سیر اور واک) کے لئے آنے والے مردوخواتین کے علاؤہ بچوں کے لئے ’’صحت مند تفریح‘‘ کا ذریعہ ہے اور اہل علاقہ بالخصوص نئی نسل کو پشاور کے ماضی سے متعارف کرانے کی سبیل ہے۔ محکمۂ موسمیات خبردار کر چکی ہے کہ ہر سال گرمیوں کے ایک دن میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ماحول کی تباہی اِسی طرح جاری رہی تو آئندہ پندرہ برس بعد چند دنوں کے لئے آنے والا ’موسم بہار‘ نہیں رہے گا۔ ماحول اگر ترجیح ہے تو ’گورگٹھڑی‘ کو بطور سبزہ زار اور بڑے پیمانے پر شجرکاری کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سردمہر ضلعی حکومت کی سوچ ہے کہ گورگٹھڑی میں قائم ’کتب خانہ (لائبریری)‘ راتوں رات (13 اکتوبر کی شب) اچانک مسمار کرنے سے پہلے اُسے اعتماد میں لیا جاتا اور یہ کام خوش اسلوبی سے کرنا بھی ممکن تھا۔ چھ سے سات ہزار کتب کا ذخیرہ رکھنے والی مذکورہ میونسپل لائبریری کا قیام 1914ء میں ہوا تھا جس میں عطیہ کی گئی سینکڑوں ایسے نسخے موجود ہیں‘ جو نایاب ہو چکے ہیں۔ مادی ترقی کے دور میں چونکہ نئی نسل کا تعلق کتاب سے زیادہ ’انٹرنیٹ‘ سے جڑ چکا ہے اِس لئے لائبریریاں ویران دکھائی دیتی ہیں! تو ’’کتاب سے دوستی‘‘ کے لئے نئے وسائل اور ذرائع سے استفادہ بھی ہونا چاہئے۔ شادی ہال سے متصل لائبریری سے کتابیں بوریوں میں بھر کر شاہی باغ (شالیمار گارڈن) کے اُس حصے میں فرش پر پھینک (ڈھیر کر) دی گئی ہیں جو ’فٹ بال ایسوسی ایشن‘ نے بنایا ہے۔ اس سلسلے میں جب لائبریرین سے بات کی گئی تو وہ کافی دُکھی پائی گئیں اور گلہ کیا کہ سرکاری اِداروں کو مربوط اور ایک دوسرے پر اعتماد (بھروسہ) کرنا چاہئے۔ وہ ایک کتابیں ایک خزانہ تھا‘ اُس کتب خانے کا فرنیچر اور دیگر اَشیاء اثاثہ تھا۔ سب کچھ تہس نہس کر دیا گیا۔ بہت سی کتابیں اُور سازوسامان گم ہو چکا ہے۔ 

میونسپل لائبریری کبھی بھی ’ضلعی حکومت‘ کی ترجیح نہیں رہی‘ یہی وجہ ہے کہ ’’ڈپٹی ڈائریکٹر‘ ویمن پروگرام‘‘ کو مذکورہ لائبریری کی اضافی ذمہ داریاں سونپی گئیں‘ جن کا کہنا ہے کہ وہ اُردو اخبار نہیں پڑھتیں۔ پردہ باغ میں زیب دفتر ہیں اور لائبریری کے بیس سے پچیس افراد کے عملے کی نگران ہونے کے علاؤہ پچاس دستکاری (ہنرمندی) کے سنٹرز اُن کی بنیادی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ محترمہ کا کہنا ہے کہ ’’لائبریری مسمار ہونے سے اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ پشاور ہے اُور پشاور کو اِس کا احساس تک نہیں!‘‘
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-19

Wednesday, October 18, 2017

Oct 2017: The hooters. GOVERNANCE BASED ON VVIP CULTURE!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
’بے اثر‘ باتیں!
خیبرپختونخوا کے اَراکین اِسمبلی کو ’اِستحقاق‘ حاصل ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں پر ’سائرن (تیز آواز (شور) پیدا کرنے والے ایسے آلات)‘ نصب کر سکتے ہیں‘ جن کے ذریعے وہ دیگر ہم وطنوں سے منفرد و ممتاز نظر آئیں۔ ٹریفک کے رش میں پھنسے بغیر اپنا راستہ تلاش کر سکیں اور کسی خاص مقام پر پہنچنے سے قبل اُن کی آمد کے بارے اہل علاقہ مطلع ہو سکیں تاکہ ’’صاحب بہادر‘‘ کا حسب شان استقبال ممکن ہو۔ ’’اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں۔۔۔ ہم غریبوں کی آن بان میں کیا؟ (جان اِیلیا)۔‘‘ 

درحقیقت اراکین اسمبلی وہ ممتاز خاص (وی وی آئی پی) لوگ ہیں جنہیں اُسی ’ہم عوام‘ سے نفرت ہو جاتی ہے‘ جن کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں! یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا استحقاق ’عام آدمی (ہم عوام)‘ سے مختلف سمجھنے لگتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ وہ قانون ساز اُور فیصلہ ساز ہوتے ہیں۔ ملک و معاشرے کی تعمیروترقی اُنہی کی فہم و فراست اور تجربے کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن (آیئے خود سے پوچھتے ہیں کہ) کیا خیبرپختونخوا اسمبلی سمیت دیگر صوبائی و قومی اور سینیٹ ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کی کارکردگی اِس قابل ہے کہ اُنہیں ’حسن کارکردگی‘ کے طور پر معاشرے میں ’’منفرد مقام‘‘ حاصل ہونا چاہئے؟ سولہ اکتوبر (دوہزارسترہ) کے روز ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ’وزیر بلدیات عنایت اللہ خان‘ نے ’بیدارمغز‘ ایوان کو ایک مرحلے پر آگاہ کیا کہ ’’جب قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے اہلکار ’ہوٹر (Hooter)‘ استعمال کرسکتے ہیں تو اراکین اسمبلی کو بھی استحقاق حاصل ہے اور ہونا چاہئے کہ وہ ’ہوٹرز‘ کا استعمال کریں اور اُن پر قواعد وضوابط کی رو سے ایسی کوئی پابندی عائد بھی نہیں۔‘‘ یہ وضاحت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ عظمی خان کے ایک سوال کے جواب میں سامنے آئی‘ جنہوں نے کمال سادگی سے اعتراض کی صورت پوچھا تھا کہ ’’کیا اراکین صوبائی اسمبلی اپنی گاڑیوں پر سائرن استعمال کر سکتے ہیں؟‘‘ 

اصولی طور پر صوبائی وزیر کو موصوفہ سے پوچھنا چاہئے تھا کہ آخر کسی رکن صوبائی اسمبلی کو اپنی گاڑی پر سائرن استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ہے اور اگر ایک سو سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی سائرن کا استعمال کریں گے تو پشاور میں ’صوتی (آواز سے پیدا ہونے والی) آلودگی‘ میں مزید اِضافہ ہو جائے گا جو پہلے ہی صوبائی دارالحکومت کے کئی علاقوں بشمول صوبائی اسمبلی کے آس پاس اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گردونواح میں ناقابل برداشت اور انسانی سماعت کے تناسب سے بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی کا درپردہ اعتراض اِس بات پر تھا کہ ضلعی حکومتوں کے نمائندے (ناظمین) اپنی گاڑیوں پر ’سائرن‘ کیوں اِستعمال کرتے ہیں؟ 

وزیربلدیات نے اِس ’توجہ دلاؤ نوٹس‘ کا نوٹس لیتے ہوئے یہ کہنا ضروری نہیں سمجھا کہ ناظمین کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں پر سائرن نصب کریں اور یہ سائرن (پریشر ہارن) صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی استعمال کرسکتے ہیں جن کے لئے تیزرفتاری کا مقصد اُن کی ذاتی تشہیر (نمودونمائش) نہیں ہوتی بلکہ وہ انسانی جانوں کو بچانے اور سماج دشمن جرائم پیشہ عناصر سے نمٹ رہے ہوتے ہیں! 

لمحۂ فکریہ ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا ہر سرکاری گاڑی میں سائرن نصب ہونا چاہئے؟ کیا ناظمین کو ملنے والی سرکاری گاڑیوں میں پہلے سے سائرن نصب تھے یا یہ آلات بعد میں سرکاری خرچ سے نصب کئے گئے اور کیا ایسا کرنے کے لئے صوبائی محکمۂ داخلہ سے اجازت لی گئی؟ کیا اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اِس صورتحال کو نوٹس نہیں لینا چاہئے کہ پریشر ہارن‘ سائرن یا ہوٹرز کا استعمال اگر کسی کو زیب دیتا ہے یا جائز ہوسکتا ہے تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سوأ کوئی دوسرا نہیں۔ یہی چیئرمین عمران خان کی تبدیلی‘ جنون اور انقلاب کے اطلاق کا عملی اظہار بھی ہوگا۔

اراکین صوبائی اسمبلی کی اکثریت خود کو منفرد و ممتاز (وی وی آئی پی) سمجھتے ہوئے اُس حد سے بھی تجاوز کر گئی ہے‘ جو ’حفظ مراتب‘ کے لحاظ سے اُن کے شایان شان نہیں۔ اگر صوبائی کابینہ سادگی و کفایت شعاری اور ’وی وی آئی پی‘ کلچر کا اطلاق اپنی ذات سے نہیں کرتی تو دیگر صوبوں کے لئے کس طرح مثال بن سکتی ہے یا پھر اپنے ’ہم جماعت‘ اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں (ناظمین) سے کس طرح توقع (مطالبہ) کر سکتے ہیں کہ وہ ’وی وی آئی پی‘ طرزعمل (اَزخود) ترک کر دیں گے اور ایسے کسی بھی نمائشی اقدام کے دلدادہ نہیں بنیں یا اُسے اپنا استحقاق نہیں سمجھیں گے جس کا تعلق کسی بھی طرح معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود سے نہیں ہے۔ 

لفظ ’سیاست‘ کا اصطلاحی مفہوم ’خدمت‘ جبکہ ’سیاست دان‘ ایسی شخصیت کو کہا جاتا ہے‘ جو معاشرے میں اِختلافات اور اِمتیازات ختم (کم) کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ’سیاست دان‘ اُسے کہا جاتا ہے جو اختلافات کو ہوا دے۔ معاشرے کو تقسیم رکھے‘ جو اپنے ’ووٹ بینک (انتخابی و سیاسی مفادات) کے تحفظ میں نسلی‘ لسانی‘ گروہی‘ قبائلی اُور فروعی اِمتیازات کو زندہ (برقرار) رکھے! حقیقت یہ ہے کہ ’’ماضی کی طرح موجودہ اَراکین ’خیبرپختونخوا اسمبلی‘ اور ’بلدیاتی نمائندوں‘ کو مراعات حاصل ہیں لیکن اگر کسی کی اُمیدوں اور توقعات کا خون ہوا ہے تو وہ عام آدمی (ہم عوام) ہیں‘ جن کی خدمت کے کم ترین معیار پر بھی اراکین صوبائی اسمبلی و بلدیاتی نمائندے پورے نہیں اُترے۔‘‘ 

عمر گزرے گی اِمتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دَان میں کیا
میری ہر بات بے اَثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا؟ (جان اِیلیا)۔‘‘
۔

Tuesday, October 17, 2017

Oct 2017 Downfall of hockey!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فیلڈ ہاکی زوال: اَلمیہ یہ ہے ۔۔۔!

پندرہ اکتوبر: ایشیاء کپ ہاکی ٹورنامنٹ میں ’’ٹائٹل فیورٹ‘‘ بھارت نے پاکستان کو ایک کے مقابلے تین گولز سے شکست دے کر ’’گروپ اے‘‘ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ میچ کے تیسرے کوارٹر میں جب پاکستانی کھلاڑی ’’رضوان سینئر‘‘ اور ’’ابو محمود‘‘ کو اندھا دھند کھیلنے پر ’’پیلا کارڈ‘‘ دکھا کر میدان سے باہر بھیجا گیا اور قومی ٹیم کچھ وقت کے لئے 9 کھلاڑیوں سے کھیلنے پر مجبور ہوئی تو بھارت کی ٹیم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تیسرے کوارٹر کے اختتام سے قبل کھلاڑی ’’ہرمن پریت سنگھ‘‘ نے یکے بعد دیگرے ’’دو گول‘‘ کر کے فیصلہ کن برتری دلا کر پاکستان کی میچ میں واپسی کی تمام تر اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بہرحال پاکستان بھارت کی برتری کم کرسکتا تھا لیکن ’پینالٹی کارنر‘ ضائع کیا گیا اور کھلاڑیوں کی ’باڈی لینگویج‘ سے بھی صاف ظاہر تھا کہ وہ کھیل کے جوہر دکھانے سے زیادہ اپنی اُس کارکردگی کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش میں ہیں‘ جو اِس اہم ٹورنامنٹ میں عملی شرکت کی تیاری و تربیت بشمول جسمانی فٹنس نہ ہونے کا ثبوت بھی تھی! خوش قسمت سے پاکستان کی ’’گرین شرٹس‘‘ نے بھارت کے ہاتھوں شکست کے باوجود بھی ’’بہتر گول اوسط‘‘ کے باعث ’’سپر فور راؤنڈ‘‘ میں جگہ بنالی لیکن کھیل کا جو معیار بھارت کے خلاف پیش کیا گیا وہ کسی بھی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ’’پاکستان کے قومی کھیل ’ہاکی‘ کے زوال پذیر ہونے کے منجملہ اسباب کیا ہیں؟‘‘

بنیادی بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ’کھیل صرف کھیل نہیں رہے بلکہ ایک سائنس اور رہن سہن کا طریقہ بن چکے ہیں‘ جنہیں زیادہ سنجیدگی سے لئے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔‘ اِس حوالے سے متعلقہ شعبے کے ایک ماہر سے بات چیت کی۔ عالمی سطح پر ہاکی کے کھیل کے قواعد و ضوابط‘ مقابلے اور ریکارڈ رکھنے والی تنظیم ’’فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی ہاکی (ایف آئی ایچ) کے ایمپائر ’’محمد صدیق شاہ بخاری‘‘ زندگی کی 65 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ 1980ء میں آپ انٹرنیشنل ایمپائر بنے جس کے بعد 1988ء میں اُنہیں ’گریڈ ون‘ درجے کا ’ایمپائر‘ بنا دیا گیا۔ پاکستان‘ کینیا اور زمبابوے میں 22 عالمی مقابلوں میں ایمپائرنگ کر چکے ہیں۔ آپ ’پی ایچ ایف‘ کے کوالیفائڈ کوچ بھی ہیں اور انٹرنیشنل کوچنگ کورسیز میں حصہ لے چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں ’’گریڈ ون (پہلے درجے)‘‘ کے ایسے صرف دو ہی ایمپائر ہیں‘ ایک فیض احمد فیضی (پشاور) اور دوسرے ’صدیق شاہ (آبائی تعلق سینی گھمبٹ‘ کوہاٹ)‘ ہیں جو گذشتہ 56 برس سے ایبٹ آباد میں مقیم ہیں اور اِن دنوں فیلڈ ہاکی سے الگ لیکن اِس کھیل سے دلی تعلق رکھنے کے باعث ہر مقابلے اور بالخصوص پاکستان و خیبرپختونخوا میں ہاکی کے معیار پر رنجیدہ (صدمے کا شکار) ہیں!

خیبرپختونخوا سپورٹس بورڈ کے بانی اراکین اور کوچ صدیق شاہ نے پاکستان کو تین کھلاڑی دیئے جن میں پاکستان ہاکی ٹیم کے چیف کوچ اولمپئن فرحت خان (بنوں)‘ پاکستان ہاکی ٹیم کے کھلاڑی ارشد قریشی (ایبٹ آباد) اور پاکستان ہاکی جونیئر کے کھلاڑی شوکت حیات (مردان) شامل ہیں جبکہ ایسے درجنوں کھلاڑی ہیں جو مختلف اداروں بشمول واپڈا کے لئے کھیلتے ہیں۔ صدیق شاہ کا حق بنتا تھا کہ اُن کے تجربے‘ مہارت اور فیلڈ ہاکی سے لگاؤ کو خاطرخواہ تسلیم کیا جاتا اُور اُن کی خدمات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے صوبائی اور ملکی سطح پر فیلڈ ہاکی کے کھیل کی عالمی معیار کے مطابق تربیت ہوتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج ہاکی کے میدان میں پاکستان کی حکمرانی کا سورج یوں غروب ہوتا۔

1982ء میں جب پہلا ایشیاء کپ کا مقابلہ کراچی میں ہوا تو پاکستان اُس کا فاتح تھا۔ 1984ء میں لاس اینجلنس اولمپک پاکستان نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا لیکن جولائی 2017ء میں ’ایف آئی ایچ‘ کی جاری کردہ عالمی رینکنگ میں پاکستان 20 ہاکی کھیلنے والے ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت چھٹے اور ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ جرمنی بالترتیب پہلے سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ پاکستان نے جتنے بھی عالمی مقابلے یعنی ٹائٹل (اعزازات) جیتے وہ بریگیڈئر منظور عاطف کے دور میں تھے اور اِن کے بعد سے فیلڈ ہاکی زوال پذیر ہے۔ بنیادی طور پر ہمارے پاس فیلڈ ہاکی کی نرسری نہیں ہیں۔ ووٹ لینے کے لئے ’بوگس (جعلی) ہاکی کلب‘ بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کیونکہ اُنہیں اضلاع کی سطح پر ہاکی کے انہی کلبوں سے ووٹ (حمایت درکار) ہوتی ہے۔

حل یہ ہے کہ موجودہ کلبوں کو ختم کرکے کلب سطح پر اہلیت کو ترجیح دی جائے۔ ڈسٹرکٹ‘ ریجن‘ صوبہ اور قومی سطح پر نمائندگی کرنے والے کردار سال ہا سال سے ہاکی پر مسلط ہیں۔ خیبرپختونخوا کاالمیہ یہ رہا کہ چھبیس برس سے زائد عرصے تک ایک ایسا سیکرٹری رہا جس کا تعلق واپڈا سے تھا۔ آئی جی (ریٹائرڈ) سعید خان کی بھی بہت خدمات ہیں لیکن وہ بھی اِس محاذ پر ناکام رہے۔ وہ بذات خود کئی ایسوسی ایشننز کے رکن اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں لیکن وہ اپنے صوبے اور ملک کے لئے نیک نامی نہیں کما سکے۔ کیا یہ امر لائق تشویش نہیں کہ اُنیس سو نوے سے پشاور سے فیلڈ ہاکی کا آخری کھلاڑی قومی سطح پر ابھر کر سامنے آیا تھا۔ المیہ یہ بھی ہے کہ رواں سال (دوہزارسترہ) میں ہاکی فیڈریشنوں کے قومی انتخابات کا عمل مکمل ہونے والا ہے اور یقیناًاِن کے نتائج بھی ماضی سے مختلف ثابت نہیں ہوں گے۔ فیصلہ سازوں کو یقین کرنا ہوگا کہ ہاکی کے عروج و زوال کا تعلق مقامی سطح پر درست فیصلوں میں پنہاں ہے۔
۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-17

Monday, October 16, 2017

Oct 2017: The Red Signal to correct the economy!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِشارے کنایئے!

''ورلڈ بینک'' کی ’’ساؤتھ ایشیاء اِکنامک فوکس 2017ء‘‘ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ۔۔۔ ’’پاکستان کو اپنی اقتصادیات بہتر بنانے کے لئے ’فوری توجہ‘ دینا ہوگی۔‘‘ کسی ملک کے داخلی معاملے میں مداخلت نہ کرتے ہوئے بھی مداخلت کرنے اور بیانیئے کا یہ ایک محتاط اظہار تھا۔

حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کو ’دس ارب ڈالر‘ کے تجارتی (درآمدی و برآمدی عدم توازن پر مبنی) خسارے کا سامنا ہے۔ ملک پر قرضہ جات مجموعی خام قومی آمدنی (جی ڈی پی) کے 68فیصد تک جا پہنچی ہے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنی ہر ایک سو روپے مالیت کی پیداوار کا 68فیصد قرضوں میں ادائیگی کر رہا ہے۔ اسی طرح وصول ہونے والے ٹیکسوں سے آمدنی کا 33 فیصد سے زیادہ حصہ بھی قرض کی اقساط یا سود میں ادا ہو رہا ہے جبکہ مزید قرض لینے کی بھی ضرورت بیان کی جا رہی ہے تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں۔ ایک طرف یہ منظرنامہ ہے کہ ملک کی کل پیداوار اور ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ مالی ذمہ داریاں ادا کرنے پر خرچ ہو رہی ہیں اور تعمیروترقی کے جاری و نئے منصوبوں کے لئے خاطرخواہ وسائل موجود نہیں بلکہ شاہانہ طرز حکمرانی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی وفاقی حکومت ہے جس کی ساٹھ رکنی وفاقی کابینہ صرف اور صرف اپنے قائد ’نوازشریف اور اُن کے اہل خاندان کو احتساب سے بچانے کا ہدف (مشن) رکھتی ہے۔ 

وفاقی وزیرخزانہ اپنے عہدے اور سرکاری وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح ’احتساب مقدمات‘ پر کس طرح اثرانداز نہیں ہوسکتے؟ اگر جمہوریت یہ ہے کہ ملک میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہوں اور اُن میں حزب اختلاف کا وجود بھی ضروری ہو تو حالت یہ ہے کہ سوائے ایک سیاسی جماعت (نوازلیگ) کے علاؤہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں مطالبہ پیش کر چکی ہیں کہ ’’وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکو مستعفی ہو جانا چاہئے۔‘‘ تو پھر کیوں اِس اجتماعی سیاسی مطالبے کو جمہوری نہیں سمجھا جا رہا؟ نواز لیگ اِس مطالبے کو بھی رد کر رہی ہے کہ ۔۔۔ ’’وزیراعظم کو ملک کی اِقتصادی صورتحال پر قوم سے خطاب کرنا چاہئے۔‘‘ (چلو پھر رو ہی لیتے ہیں کیونکہ) اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اُن کی کابینہ کے سب سے بہترین وزیر اسحاق ڈار ہیں تو کیا ہم ملک کے تمام چیمبرز آف کامرسیز (ایوان ہائے صنعت و تجارت) کی جانب سے آنے والے اِس مشترکہ مطالبے (دانش) کو بھی رد کردیں جو ملک کی اقتصادی صورتحال کو کم ترین سطح (dead-low) قرار دے رہے ہیں۔ 

حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں‘ ایوان ہائے صنعت و تجارت سے وابستہ تجربہ کاروں‘ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تجزیہ کاروں کی اکثریت اور حتی کہ پاک فوج جیسے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کرنے والے اہم قومی ادارے کی جانب سے بھی یہ بات ’علی الاعلان‘ کہی جا چکی ہے کہ اگر پاکستان کی اقتصادی حالت بُری نہیں تو یہ زیادہ اچھی (مثالی) بھی نہیں! تو اِن اِشارے کنائیوں کا مطلب (مقصد) کیا ہے؟ الفاظ کی صداقت و گہرائی پر غور کریں کہ ’’فی الوقت پاکستان کی جمہوریت پر منڈلانے والے بنیادی خطرے میں جمہوری اقدار پر عمل درآمد نہ کرنے سے زیادہ بڑا کوئی دوسرا خطرہ نہیں!‘‘

وفاقی حکومت کا یہ دعویٰ اپنی جگہ بالکل درست تو ہے کہ اِن کی وجہ سے ٹیکسوں (محصولات) سے حاصل ہونے وآلی آمدنی گذشتہ چار برس میں بڑھی ہے لیکن یہ صرف آمدنی ہی بڑھی ہے ٹیکس اَدا کرنے والوں کی تعداد میں خاطرخواہ اِضافہ نہیں ہوا۔ درحقیقت آمدنی پر ٹیکس وصولی کے لئے وفاقی اِدارے نے جس اَنداز میں ’’اِختیارات‘‘ کے ’’وحشیانہ‘‘ استعمال پر مبنی حکمت عملی سے کام لیا۔ اُس کے باعث سرمایہ دار اِس بات کو زیادہ باعزت سمجھنے لگے ہیں کہ وہ یا تو اپنا سرمایہ پراپرٹی‘ کرنسی یا قیمتی دھاتوں کی صورت محفوظ رکھیں یا پھر بیرون ملک سرمایہ کاری کر لیں کیونکہ لاتعداد امکانات محفوظ اور منافع بخش ہیں۔ 

حالیہ چند ہفتوں میں حسب آمدنی ٹیکس اَدا نہ کرنے کی پاداش میں اِداروں کے بینک اکاونٹس منجمند کرنے سے خوف و ہراس پھیلا جبکہ زبردستی ایڈوانس (پیشگی) ٹیکس وصولی اور ٹیکس ادائیگیوں کی مد میں رقومات روکنے سے کیا حاصل ہوا؟ پہلے ہی سے ٹیکس اَدا کرنے والوں پر بوجھ بڑھانا بھی موجودہ وفاقی حکومت ہی کا ’کارنامہ‘ ہے جبکہ وہ تمام بااثر طبقات جن کی ایک نمائندہ تعداد قانون ساز ایوانوں کا حصہ بھی ہے جو حسب آمدنی ٹیکس ادا نہیں کر رہے لیکن محفوظ ہیں۔ تصور کیجئے کہ پاکستان میں بجلی کے یوٹیلٹی بلز میں ’’اُوور بلنگ‘‘ جرم نہیں لیکن بجلی کی چوری ’’جرم‘‘ تصور کی جاتی ہے۔ 

قوانین اور قواعد آپس میں ایک دوسرے سے اُلجھے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکس کے قوانین پہلے ہی سے ٹیکس اَدا کرنے والوں کے لئے زیادہ سخت گیر کر دیئے گئے ہیں۔ غیرحقیقی ٹیکس اہداف مقرر کرنے اور وصولیاں عملاً ممکن بنانے کے لئے ’ایف بی آر‘ کو ’بہ اَمر مجبوری‘ زیادہ اختیارات دینے پڑ گئے ہیں اور اِس پورے ماحول میں ٹیکس اَدا کرنے والوں کی تعداد ایک حد پر آ کر رک گئی ہے! بنیادی سوال‘ جس کی نشاندہی ’پاک فوج‘ کی جانب سے بھی کی گئی ہے کہ ۔۔۔ ’’کیا معیشت اور قومی سلامتی کا آپس میں تعلق ہے؟‘‘ 

اکیسویں صدی کی (فورتھ جنریشن) جنگ یہ ہے کہ ۔۔۔ ’’کسی ملک کو اقتصادی طور پر کمزور و ناتواں کر دیا جائے!‘‘ پاکستان کو درپیش بہت بڑا خسارہ تجارت اور بہت ہی بڑا خسارہ بجٹ میں درپیش ہے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کی بیماری کے لئے جو کچھ بھی تجویز کیا وہ سبھی نسخے (علاج) غلط ثابت ہوئے ہیں۔ شرح نمو چار فیصد کے لگ بھگ کو آٹھ سے دس فیصد کرنا ہے لیکن کیسے؟ اکنامی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے ساتھ پاکستان کو ’’ورکشاپ آف دی ورلڈ‘‘ بننے کی صلاحیت کا احساس کرنا ہے لیکن کیسے؟ پیداوار کا معیار اور مقدار بڑھانی ہے مگر کیسے؟ زراعت پر توجہ دینا ہے تاکہ ’کم پانی اُور کم رقبے‘ کے استعمال فی ایکڑ پیداوار بڑھ جائے مگر کیسے؟ زراعت سے ہم جو کچھ بھی کما رہے ہیں وہ ٹیکسوں اور پیداوار کی صورت اندرون ملک ضروریات کے لئے بھی کافی نہیں تو غذائی خودکفالت کیسے حاصل ہوگی؟ کاشتکاروں کی سرپرستی (سپورٹ سسٹم) کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس ہو رہی ہے تو یہ بندوبست کس نے کرنا ہے؟ زراعت کی ترقی کے اِدارے‘ کارکردگی سے خالی ہیں تو کیوں!؟ 

پاکستان کو اپنے اردگرد کی دنیا میں آنکھیں کھول کر دیکھنا ہوگا۔ ہر طرف اندھیرا نہیں بلکہ ہماری آنکھیں بند ہیں اور نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی جیسا کہ ہمسایہ عوامی جمہوریہ چین کی منڈی جو‘ ہر سال ’’اٹھارہ کھرب ڈالر‘‘ کی درآمدات کرتی ہے اور چین قریب ’’پچاس ارب ڈالر‘‘ کا گوشت آسٹریلیا سے درآمد کر رہا ہے تو کیا صرف یہی ضرورت پاکستان پوری نہیں کر سکتا اور چین کی نظر سے پاکستان کو دیکھنے کی طرح پاکستان کی نظر سے چین کو بطور ’’ایک منڈی‘‘ نہیں دیکھا جا سکتا؟

Sunday, October 15, 2017

Oct 2017: Chitral can turn into the hub of agriculture production

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گل و گلزار: خیبرپختونخوا
پاک سرزمین میں قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا مشاہدہ ’خیبرپختونخوا‘ کے بالائی علاقوں میں قریب سے کیا جا سکتا ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک زرخیز اُور شاداب وادیاں صوبائی حکومت کی خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں۔ ضلع چترال کی وادی ’کریم آباد‘ کا گاؤں ’درونیل‘ بھی ایسی ہی ایک جنت نظیر وادی کا حصہ ہے‘ جہاں کی مٹی آب و ہوا (موسمی درجۂ حرارت) ٹماٹر‘ مٹر اور آلو جیسی (منافع بخش) سبزی کی کاشت کے لئے موزوں ہیں۔ تحریک انصاف ضلع چترال کے (سابق) جنرل (اکتالیس سالہ) ’’اسرارالدین صبور‘‘ نے سال 2005ء میں مقامی کاشتکاروں کو ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت منظم کیا اور مٹر‘ ٹماٹر اور آلو (سبزی) کی بڑے (کمرشل) پیمانے پر کاشتکاری کی۔ انہوں نے کاشتکاروں کو منڈی تک رسائی اور زیادہ منافع کے لئے براہ راست منڈیوں میں سبزی کی فروخت سے بھی روشناس کرایا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دو ایکڑ زیرکاشت رقبہ بڑھ کر پچاس ایکڑ تک جا پہنچا۔ اسرار الدین صبور کہتے ہیں کہ اگر ’کریم آباد وادی‘ میں پائپوں کے ذریعے آبپاشی کا بندوبست کر دیا جائے تو 300 ایکڑ سے زائد رقبہ زیرکاشت لایا جا سکتا ہے اور ماہ اگست سے دسمبر (برفباری) تک اِس وادی سے پورے ملک کو ٹماٹر کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ سردست علاقے میں ’9 کلومیٹر‘ کا واٹر چینل موجود ہے لیکن اگر پائپ بچھا کر باقی ماندہ ستر فیصد علاقے کو بھی زیرکاشت بنا دیا جائے تو اِس سے غذائی خودکفالت کا ایک اہم ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت چترال کے مذکورہ گاؤں ’’درونیل (کریم آباد)‘‘ اور اِس سے ملحقہ دیگر دیہی علاقوں کی پسماندگی اور غربت دور کرنے کے لئے زراعت سے زیادہ کوئی دوسرا ’پائیدار ذریعہ (وسیلہ)‘ نہیں ہوسکتا۔ صوبائی حکومت ضلع چترال کو ’دو اضلاع‘ میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی اگر ’جیپ ایبل خطرناک راستوں‘ کو محفوظ سڑکوں سے تبدیل کرنے کے عمل کا بھی آغاز کیا جائے تو اِس سے زرعی و سماجی انقلاب کا عمل تیزرفتار ہو جائے گا۔

درونیل اور ملحقہ دیہات میں ماہ جولائی سے اگست تک مٹر کی کاشت ہوتی ہے جبکہ بیس اگست سے دسمبر (برفباری تک) یہاں سے ٹماٹر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس علاقے کا مرکزی چترال سے فاصلہ قریب تیس کلومیٹر جبکہ گاؤں کی کل لمبائی ’پنتالیس کلومیٹر‘ ہے‘ جس تک رسائی کا بیس کلومیٹر خستہ حال حصہ موجود اور باقی مٹی‘ بجری اور ریت پر مشتمل غیرہموار پہاڑی راستے ہیں۔ پختہ سڑک ’فارم ٹو مارکیٹ‘ روڈ ثابت ہو سکتی ہے۔ صوبائی حکومت کے تجاہل عارفانہ کی مثال وہ سانحہ بھی رہا جب اِس وادی میں تودہ کی زد میں سکول کے پانچ بچے آئے۔ ایک ماہ تک پانچ سو مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت تودے سے بچوں کی لاشیں نکالیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے بھاری مشینری اِس علاقے میں نہ پہنچ سکی کیونکہ سڑک موجود نہیں تھی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات (لوکل باڈی الیکشنز) میں چترال سے ضلعی‘ تحصیل اور ویلیج کونسلوں کی نشستوں پر ’تحریک انصاف‘ کے نامزد اُمیدواروں نے اکثریت سے کامیابی حاصل لیکن تین سال سے تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے ’ضلع چترال‘ میں تحریک انصاف کو سیاسی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ مرکزی اور صوبائی قیادت کو چترال میں تحریک انصاف کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ چترال کے مسائل اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے‘ جن کی انقلاب‘ جنون اور تبدیلی سے وابستہ توقعات‘ اُمیدیں اور کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

ضلع چترال میں جنگلات اور سیاحت کے علاؤہ ’زرعی ترقی‘ کے لاتعداد امکانات موجود ہیں۔ سبزی اور پھلوں کی مصنوعات تیار کرکے برآمد کی جاسکتی ہیں جو مقامی افراد کے لئے روزگار اور متعلقہ شعبوں میں تعلیم کے مواقع روشناس کرائے گا۔ چترال نظرانداز کیوں؟ اِس بنیادی و سادہ سوال کا جواب جاننے کے لئے باوجود کوشش بھی وزیر زراعت اکرام اللہ خان گنڈا پور سے رابطہ نہ ہو سکا اور نہ ہی خیبرپختونخوا کے ’بیورو آف ایگرکلچر انفارمیشن‘ کا کوئی ذمہ دار حکومتی ترجیحات کے بارے میں بات کرنا پسند کرتا ہے۔ ’خوش گوار احساس‘ صرف اِس حد تک ہی محدود ہے کہ ’’(ضلع) چترال خیبرپختونخوا کا حصہ ہے‘‘ لیکن چترال کے وسائل اور وہاں زندگی بسر کرنے والوں کی مشکلات بھری زندگی پر نظر کریں تو ایک سے بڑھ کر ایک محرومی ’مستقل ڈیرے‘ ڈالے دکھائی دیتی ہے۔ چترال میں زراعت سے متعلق صوبائی حکومت کے ایک زیادہ دفاتر موجود (فعال) ہیں جن میں ’’واٹر منیجمنٹ‘‘ اور ’’سایل کنزوریشن‘‘ کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر آبپاشی کے منصوبے تخلیق کرے یا مقامی ضروریات کے مطابق اُن کی تعمیروترقی اور توسیع جیسی خدمات سرانجام دے۔

زراعت کی ترقی کے علاؤہ حکومتی اداروں کی نظر اِس بات پر بھی ہونی چاہئے کہ غذائی قلت کے ماحول میں دستیاب وسائل سے بہترین استفادہ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ باعث تعجب ہے کہ چارسدہ سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے سب سے زیادہ فعال‘ مستعد اور صداقت و امانت کے لحاظ سے ہم عصروں میں نسبتاً اچھی ساکھ رکھنے والا سیکرٹری زراعت ’محمد اسرار‘ جیسی نایاب نعمت کے ہوتے ہوئے بھی خاطرخواہ ثمرات ظاہر نہیں ہو رہے۔ سیکرٹری زراعت اِن دنوں محکمانہ ترقی کے لئے تربیتی کورس میں شریک ہیں لیکن وہ اِس کے باوجود باقاعدگی سے شام گئے تک ضروری اور معمول کے دفتری اَمور نمٹاتے ہیں۔ شاید ہی خیبرپختونخوا کے کسی دوسرے محکمے کا سیکرٹری اس قدر عملاً ’فرض شناس (ڈیوٹی فل اینڈ بیوٹی فل)‘ ہو یا ماضی میں کبھی پایا گیا ہو۔ زراعت کی توسیع و ترقی کے لئے متعلقہ صوبائی محکمے سمیت کسی بھی فیصلہ ساز بشمول وزیراعلیٰ سے توقعات وابستہ کرنا عبث ہیں‘ اگر کوئی مرکز نگاہ (اُمید کی کرن) ہے تو وہ سیکرٹری اسرار ہی ہیں جو اپنی تعلیم (ایم ایس سی‘ ایگری کلچر)‘ تجربے اور لگن سے خیبرپختونخوا کو ’’گل و گلزار‘‘ بنا سکتے ہیں۔ خوش لباس و گفتار‘ اِسرار نہایت ہی ’پُراَسرار‘ بھی ہیں کہ انہیں سیکشن آفیسر سے ایڈیشنل سیکرٹری اور آج کل سیکرٹری جیسے انتظامی عہدوں پر فائز ہونے (ترقی کے مواقع) ایک ترتیب و تواتر سے ملتے رہے ہیں‘ اُن جیسے بہت کم ایسے خوش نصیب ہوں گے۔ اِلتجا کے ساتھ یقین ہے کہ وہ اپنے تجربہ (مہارت) کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ’چترال‘ کی وادیوں میں سبزی‘ پھل اور کوہاٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان تک ’تیل دار فصلوں بشمول ’زیتون‘ کی کاشتکاری (زرعی ترقی) کے لئے اپنی توجہات اور جملہ وسائل مختص کریں گے۔
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=20&date=2017-10-15
http://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/1507997192_201710147211.gif

TRANSLATION: Economic security by Dr Farrukh Saleem

Economic security
اقتصادی تحفظ!
پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق امور زیربحث لاتے ہوئے جس ایک پہلو کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا جاتا ہے وہ ملک کی ’’اقتصادی صورتحال اور اِس کے تحفظ (economic security)‘‘ کو یقینی بنانے سے متعلق غوروخوض ہے۔ عرصہ دراز سے ہم پاکستان کے دفاع کو اِس کی عسکری طاقت اور فوجی کوششوں سے جوڑتے ہیں اور عرصہ دراز ہی سے قومی سلامتی کے بارے میں یک پہلو غور ہی کیا جاتا رہا ہے اور پھر قومی سلامتی کو ایک ہی ادارے کی ذمہ داری قرار دے دی جاتی ہے۔ درپیش چیلنجز متقاضی ہیں کہ ہم اپنے اِس مؤقف سے رجوع کر لیں۔

قریب گیارہ برس قبل امریکہ کا آرمی لاء کالج‘ کینیڈا کی لینڈ فورسیز ڈاکٹرائن اور ٹریننگ سسٹم (عسکری تربیتی اداروں) نے کینیڈا کے ایک اعلیٰ تحقیقیسرکاری ادارے ’’کوئنز کالج‘‘ کے اشتراک سے دانشوروں پر مشتمل ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے حاصل نتیجۂ خیال یہ تھا کہ ’’دنیا میں جنگ کرنے کے طریقے بدل چکے ہیں۔ اب کسی ملک کی ایک فوج دوسرے ملک پر حملہ آور نہیں ہوتی بلکہ کئی ایسے محاذوں پر حملے کئے جاتے ہیں جس سے وہ ملک داخلی طور پر کمزور ہو جائے اور اُسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘ یہ تصور کہ اپنی جگہ اہم پایا گیا کہ ارتقاء پذیر دنیا کو درپیش اِن پیچیدہ چینلجز آج کی دنیا کی تلخ حقیقت لیکن اِس حقیقت سے نمٹنے کی حکمت عملی یکساں وضع کرنا یکساں ضروری ہے اور جب تک ہم کسی مصیبت کی موجودگی اور نزول کا احساس ہی نہیں کریں گے تو اس کے نمٹنے کے لئے ہماری کوششیں بھی مربوط و کافی نہیں ہوں گی۔

پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو ہماری عسکری قوت اور ہماری اقتصادیات آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال تو خراب رہے لیکن اُس کا دفاع وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط و توانا ہوتا چلا جائے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اِقتصادی صورتحال فی الوقت جس قدر خطرات سے دوچار ہے‘ اس سے زیادہ کبھی بھی دگرگوں نہیں رہی! پاکستان کو چار قسم کے خطرات درپیش ہیں۔ پہلا: پاکستان کا تجارتی خسارہ (درآمدات و برآمدات میں عدم توازن) ’32.6 ارب ڈالر‘ جیسی بلند شرح کو عبور کر چکا ہے۔ دوسرا: پاکستان کا بجٹ 2 کھرب روپے ہے۔ تیسرا: پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضہ ’600 ارب روپے‘ کو چھو رہا ہے اور چوتھا: پاکستان ’25کھرب روپے‘ مالیت جیسے خطیر (بڑے) قرضوں میں جھکڑا ہوا ہے۔

بھارت کے جواہر لعل یونیورسٹی کا ذیلی شعبہ ’سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز‘ کی جانب سے بعدازتحقیق تجویز کیا گیا ہے کہ ’’یہ بات بھارت کے مفاد میں ہے کہ وہ پاکستان کے اقتصادی طور پر عدم استحکام کا شکار ہونے کو یقینی بنائے۔‘‘ اِسی طرح نئی دہلی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس سٹڈیز‘ نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے اِس کا پانی روکنے جیسی جارحیت کے علاؤہ ایسے حالات پیدا کرنے کی تجویز دی تھی کہ جن سے غربت میں اضافہ ہو‘ سماجی طور پر ملک میں بے چینی پھیلے‘ ماحولیاتی مسائل پیدا ہوں‘ سیاسی قیادت غیرفعال لوگوں پر مشتمل ہو‘ سیاسی ادارے کمزور ہوں اور سرکاری ادارہ جاتی کارکردگی اِس حد تک خراب ہو کہ پاکستان ایک ناکام ریاست قرار پائے۔‘‘ 

تصور کیجئے کہ پاکستان دنیا میں مٹر (سبزی) کی پیداوار کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ روئی (کاٹن) کی پیداوار رکھنے والا چوتھا بڑا ملک بھی پاکستان ہی ہے۔ گنے اور آڑو کی پیداوار کے لحاظ سے بھی چوتھے نمبر پر ہے جبکہ دودھ اور پیاز (سبزی) کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا‘ چاول کی پیداوار کے لحاظ سے 8واں‘ گندم کی پیداوار کے لحاظ سے 9واں اور مالٹے (پھل) کی پیداوار کے لحاظ سے 10واں بڑا ملک ہے۔

دنیا میں کسی ملک کی آبادی اور اُس کی پیداواری صلاحیت کو جاننے کا ایک معیار (کسوٹی) وسطی عمر (Median age) دریافت کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کی اُوسط ’وسط عمری‘ 21.2 سال ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق موناکو (Monaco) کی اوسط ’وسط عمری 48.9 سال‘ اور یوگینڈا (Uganda) کی 15 برس ہے۔ اِس لحاظ سے عالمی کسوٹی پر پاکستان دنیا کا ایسا منفرد ملک ہے جس کی آبادی اکثریت کام کاج کرنے والی افرادی قوت (ہیومن ریسورس) پر مبنی ہے اور یہ ریاست پر بوجھ نہیں ہوسکتے۔ 

سال 2017ء سے 2040ء کے درمیان پاکستان میں کام کاج کرنے والوں کی تعداد بڑھنے کی توقع ہے۔ عالمی ادارہ ’ووڈ ڈرو ویلسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز (Woodrow Wilson International Center for Scholars) کا کہنا ہے کہ آئندہ چند دہائیوں تک پاکستان کی اکثر نوجوانوں پر مشتمل آبادی کا تناسب جاری رہے گا۔ سال 2020ء میں پندرہ سے چوبیس برس عمر کی آبادی کا تناسب بیس برس تک بڑھ جائے گا اور سال 2030ء تک پاکستان کی چوبیس سال سے کم عمر کی آبادی اکثریت میں ہوگی جبکہ 2050 میں اوسط عمر 33 سال تک پہنچ جائے گی۔

پاکستان کو جن اقتصادی مسائل (امراض) کا سامنا ہے اُن کا علاج ممکن ہے۔ بجٹ خسارے پر بھی قابو پانا ممکن ہے۔ گردشی قرضہ جات بھی قابل علاج ہیں لیکن کیا کوئی علاج کا خواہشمند بھی ہے؟ پاکستان کو ایسے اقدامات لینے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے اقتصادی حالات کی اصلاح ممکن ہو اور اِن حالات کی بہتری کے لئے برآمدات‘ درآمدات‘ پاکستانی روپے کی عالمی قدر کے مطابق تعین اور قرضوں کی واپسی کرنے کے لئے اصلاحات پر غور ہونا چاہئے لیکن کیا اصلاحات لانے کے لئے سنجیدگی سے غوروخوض کیا جا رہا ہے؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Monday, October 9, 2017

Oct 2017: Remembering Prof Zia ul Qamar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
نایاب ہستیاں: پروفیسر سیّد ضیاء القمر
دانشور‘ مفکر‘ اَداکار‘ صداکار‘ شاعر (لفظ آشنا) اُور نہایت ہی نفیس شخصیت و طبیعت کے مالک ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر‘ کی ذات کا سب سے مستند (اعلیٰ و بالا) حوالہ ایک ایسے معلم کا تھا جو کبھی بھی کلاس روم میں نصابی (درسی) کتب اور رٹے رٹائے (ازبر) اسباق کو اپنے تدریسی تجربے کی بنیاد پر بیان کرنے کی حد تک محدود نہیں پائے گئے بلکہ اُن کی کوشش رہتی کہ وہ ایک شفیق والد (سرپرست) کی طرح ’طالبِ علموں کی علمی و فکری تشنگی‘ دور کریں۔ حقیقت اور آج کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ہمارے معلم دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہر ہونے کی بجائے اُس بنیادی کام کے بھی ماہر ہوں‘ جو اُن کی ذمہ داری (فرض) ہے۔ افسوس (المیہ ہے) کہ ہمیں اساتذہ سب کچھ دکھائی دیتے ہیں سوائے اِس بات کہ اُنہیں بطور استاد اپنی زندگی وقف کرنے کی فرصت نہیں رہی! 

پروفیسر سیّد ضیاء القمر‘ کا مقصد ’’تعلیم‘‘ رہتا‘ وہ بورڈ کے اِمتحانات میں کارکردگی (حافظے اور حاضر دماغی کی بنیاد پر کامیابی کے) قائل نہیں تھے بلکہ زندگی کے (عملی) امتحان کے لئے تیار کی ضرورت پر زور دیتے کہ تعلیم ہمارے ظاہر و باطن کو روشن کر دے۔ وہ دلچسپ پیرائے میں بوریت اور بوجھ محسوس ہونے والے نصابی اسباق کے درپردہ اسباق ذہن نشین کرواتے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی عمدہ مثال تھے‘ کہ جنہیں دیکھ کر طالب علموں میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ بھی اِسی قسم کے ’’آئیڈیل معلم‘‘ بنیں۔ 

ذاتی تجربہ ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (شعبۂ اُردو‘ گورنمنٹ کالج پشاور) اور پروفیسر سیّد ضیاء القمر (شعبۂ انگلش‘ ایڈورڈز کالج پشاور) میں یہی قدر مشترک پائی گئی کہ اِن دونوں مرحوم و مغفور معلم شخصیات نے اپنی تمام زندگی پڑھنے‘ پڑھانے اور اپنی ذات کو بطور عملی نمونہ (مثال) پیش کرنے کے لئے وقف کئے رکھی اور آج ہر طرف سے گواہی سنائی دے رہی ہے کہ وہ دنیاوی زندگی کامیابی و کامرانی سے بسر کرنے کے بعد پورے اطمینان و سکون سے رخصت ہوئے ہیں۔ 

ڈاکٹر ظہور احمد کی رحلت تین اپریل دوہزار گیارہ جبکہ پروفیسر سیّد ضیاء القمر کی روح ’قفس عنصری‘ سے پرواز کرنے کی تاریخ ’چوبیس اگست دوہزار سترہ‘ کی شب ہے جب وہ نارتھ ویسٹ (نجی) ہسپتال (حیات آباد پشاور) کے شعبۂ انتہائی نگہداشت میں زیرعلاج تھے اور قریب ایک سال تک سرطان (کینسر) کے مرض اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر عارضوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ اُنہیں اگلے روز (پچیس اگست) کو اضاخیل بالا (ضلع نوشہرہ) میں اُن کے آبائی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔ 

وہ ایک باہمت انسان تھے‘ جنہوں نے اگر زندگی میں کسی چیز سے ہار مانی بھی تو وہ اُن کی بیماری تھی‘ جو ایک وقت تک بے بس دکھائی دی اور بالآخر اُس وقت موقع پر کر حاوی ہو گئی جبکہ وہ بیہوشی کی حالت میں تھے۔ بطور طالب علم ڈاکٹر ظہور اور پروفیسر ضیاء القمر میں قدر مشترک یہ رہی کہ یہ دونوں ہی شخصیت و کردار سازی پر توجہ دیتے تھے۔ (اُستاد جی) ڈاکٹر ظہور اُردو کے معلم تھے اور اُن کی بول چال‘ رہن سہن اِسی مناسبت سے رکھ رکھاؤ کا مجموعہ دکھائی دیتا تھا جبکہ (سر) ضیاء القمر انگریزی زبان کے پروفیسر تھے اُور اُن کا لباس‘ بولنے کا انداز اور عمومی بات چیت سے لیکر چال تک سے انگریزی چھلکتی تھی‘ جسے وہ اپنے شاگردوں میں منتقل کرنے کی خداداد صلاحیتوں (قدرت) کے مالک تھے۔ 

بقول شیکسپیئر ۔۔۔ ’’اگرچہ ہر جاندار شے نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن کچھ ہستیاں ایسی (انمول) بھی ہوتی ہیں جن کے لئے موت ’ابدی حیات‘ کا آغاز (ضامن) ثابت ہوتی ہے۔‘‘ پروفیسر سیّد ضیاء القمر ہمیشہ زندہ رہیں گے‘ دعاؤں اور اُن جیسا بننے کی کوشش کرنے والوں طالب علموں کے قول و فعل میں۔‘ کالج کے پرنسپل Neyyer Firdaus سے درخواست ہے کہ وہ پروفیسر ضیاء القمر کی موجودگی کو دائم رکھنے کے لئے کالج میں اُن کا مجسمہ نصب کروائیں‘ جس پر جلی حروف میں اُن کا تعارف اور شیکسپیئر کے کھیل ’’ہیملٹ‘‘ کا یہ جملہ تحریر ہونا چاہئے کہ 
Thou know'st 'tis common; all that lives must die, Passing through nature to eternity.۔

سات اکتوبر (بروز ہفتہ) سہ پہر تین بجے سے شام سات بجے تک ’ایڈورڈز کالج‘ میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ جس کے دعوت نامے پر تحریر ’تمہیدی جملے‘ نہایت ہی جامع اور دل کو چھو لینے والے تھے کہ ’’پروفیسر سیّد ضیاء القمر نے خیبرپختونخوا کے تعلیمی منظرنامے پر گہرے نقوش ثبت کئے ہیں۔ اُنہیں انگریزی (انگلش کے مضمون) پر غیرمعمولی عبور حاصل تھا اُور اُن کی دیگر مختلف شعبوں (ہم نصابی سرگرمیوں) میں مہارت کا نہ صرف تعلیم بلکہ فنون لطیفہ‘ علمی‘ ادبی‘ سماجی اُور سیاسی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے۔ اُن کا ’ایڈورڈز کالج‘ اور طالب علموں پر گہرا‘ اَثر رہا اُور آج بھی زائل نہیں ہوا۔ 

تعلیم کے علاؤہ دیگر بہت سے شعبوں میں اُن کی ’بے لوث خدمات‘ کا اعتراف کیا گیا ہے (جو بذات خود ایڈورڈز کالج کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں)۔‘‘ وہ ایک غیرمعمولی تقریب رہی جس میں گورنر خیبرپختونخوا‘ اقبال ظفر جھگڑا (اُولڈ ایڈورڈین) نے بھی اظہار خیال کیا۔ ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر سے علم تحصیل کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اشکبار آنکھوں سے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ’مال روڈ‘ کے کنارے ایڈورڈز کالج میں (حسب پروگرام) جمع ہوئی اور یقیناًکالج کے سبزہ زاروں اور راہداریوں سے گزرتے ہوئے سبھی کی آنکھیں اُس خراماں خراماں چلتی پھرتی ہنستی مسکراتی اور ہمیشہ خوشگوار موڈ میں تہینتی جملوں سے استقبال کرنے والی شخصیت کو ڈھونڈ رہی تھیں جو’ایڈورڈز کالج اور پشاور کے تعلیمی منظرنامے‘ کی ایک طویل عرصے تک شان اُور پہچان رہا۔ سوال اپنی جگہ ذہن میں گونجتا رہا کہ کیا اِس بات کو ’ایڈورڈز کالج‘ کے لئے اعزاز سمجھا جائے کہ جہاں خوش قسمت پروفیسر سیّد ضیاء القمر کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اطلاق کا موقع ملا یا سال 1900ء میں قائم ہونے والے ایڈورڈز کالج (پشاور کے قدیم ترین ادارے) کے لئے یہ بات اِعزاز رہی کہ ’پروفیسر ضیاء القمر‘ جیسے معلم اِس ادارے سے وابستہ رہے ہیں؟ 

ایڈورڈز کالج کا تعارف (اُور مشن) لاطینی جملے ’’ad majorem Dei gloriam‘‘ میں پنہاں ہے‘ جس کا مطلب ’’for the greater glory‘‘ ہے اور یقیناًچالیس برس تک ’پروفیسر سیّد ضیاء القمر (مرحوم ومغفور)‘ نے ’ایڈورڈز کالج‘ کے اِس مقصد (مشن) کی بھرپور تکمیل کی۔ کسی طالب علم کی کامیابی کی کسوٹی امتحان ہوتا ہے لیکن کسی معلم کی کامیابی کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اُس کے لگائے ہوئے شجر کتنے ثمربار ثابت ہوئے۔ جب ہم ’ایڈورڈینز‘ کو دیکھتے ہیں تو اِن کی اکثریت آج مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لئے ’’باعث صد افتخار (greater glory)‘‘ ہیں۔ 

خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینیت را۔

۔۔۔ایبٹ آباد: 8 اکتوبر 2017ء ۔۔۔

Sunday, October 8, 2017

TRANSLATION: CPEC by Dr. Farrukh Saleem

CPEC
سی پیک!

پہلی حقیقت: پاکستان کے جن فیصلہ سازوں نے ’’چین پاکستان اقتصادی اقتصادی راہداری (منصوبہ)‘‘ کی منظوری دیتے ہوئے اِس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اُن کے پاکستان میں کاروباری مفادات یا تو نہ ہونے کے برابر ہیں یا وہ اندرون ملک اپنی سرمایہ کاری نہیں رکھتے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو جن فیصلہ سازوں نے ’سی پیک‘ کی منظوری اور اِسے عملی جامہ پہنانے کے لئے چین سے معاہدہ کیا‘ اُن کے زیادہ ترکاروباری مفادات پاکستان سے باہر ہیں۔

دوسری حقیقت: چین کی وہ کمپنیاں جو پاکستان میں بڑے ترقیاتی منصوبے (میگا پراجیکٹس) لے رہی ہیں وہ یہاں قدم جما رہی ہیں اور اپنے ساتھ چین سے افرادی قوت بھی لا رہی ہیں۔ چین کی کمپنیاں پاکستانی کمپنیوں سے بمشکل شراکت داری کرتی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کو ہرممکنہ اپنے ’افرادی و تکنیکی وسائل‘ سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی صنعتیں بطور ادارہ یا افراد بطور افرادی قوت ’سی پیک‘ کے جاری منصوبوں سے تکنیکی اور فنی طور پر مستفید نہیں ہو رہے۔ اِسی طرح چین کی کمپنیاں پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل بھی نہیں کر رہیں‘ جس سے مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع یا پاکستان میں صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہو۔

تیسری حقیقت: ترقیاتی مقاصد کے لئے قرضہ جات کسی بھی ملک کی ترقی میں ’کلیدی کردار‘ ادا کرتے ہیں۔ قرض بھلے ’ترقیاتی مقاصد‘ کے لئے لیا جائے یا کسی دوسرے مقصد کے لئے‘ اِس کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ 1: قرض کی شرائط کیا طے کی گئیں ہیں اور دوسرا‘ اُس پر شرح سود کتنی ادا کرنا پڑے گی۔

چوتھی حقیقت: پاکستان نے ’سی پیک‘ منصوبوں کے لئے جو قرضہ جات حاصل کئے اُن کی تفصیلات ’غیرضروری طور پر‘ خفیہ رکھی گئی ہیں۔ اگر ہم کوئلے سے بجلی سے پیداواری منصوبوں کی بات کریں تو اُس کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضہ جات پر بنیادی رقم کے 27.2 فیصد سے لیکر 34.49فیصد سالانہ کے تناسب سے سود ادا کیا جائے گا۔

پانچویں حقیقت: جہاں کہیں سرکاری خریداری ہوتی ہے تو اس کے لئے عالمی اصول یہ ہے کہ اُسے خفیہ نہیں رکھا جاتا بلکہ مقابلے کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں خدمات فراہم کرنے والے ایک دوسرے سے کم قیمت پر ٹھیکہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو عالمی سطح پر مشتہر کیا جاتا ہے جو ایک معمول کی بات ہے۔ اس کے بعد ٹھیکہ اُس کمپنی کو دیا جاتا ہے جو قیمت میں نسبتاً کم اور جو قدرے نرم شرائط رکھتی ہو۔

چھٹی حقیقت: عالمی سطح پر مشتہر کرنے سے اداروں کے درمیان مقابلے کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے کسی ترقیاتی منصوبے پر خرچ ہونے والی لاگت میں کمی آتی ہے اور اس سے حتمی طور پر ملک کا فائدہ ہوتا ہے۔

ساتویں حقیقت: سی پیک کے لئے منصوبے عالمی سطح پر ٹھیکوں کو مشتہر کئے بناء دیئے گئے۔

آٹھویں حقیقت: حکومت پاکستان سی پیک منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے والی چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں رعائت اور دیگر مراعات دے رہی ہے لیکن اِس قسم کی رعائت اور مراعات اُن کی ہم عصر پاکستانی کمپنیوں کو نہیں دیئے جا رہے۔

نویں حقیقت: پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات (میڈ اِن پاکستان) کی مانگ تیزی سے کمی آ رہی ہے۔

دسویں حقیقت: پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی ملک کی مجموعی برآمدات میں حصہ داری 52فیصد ہے اور اِس پیداواری شعبے سے ملک کا 40فیصد روزگار بھی وابستہ ہے۔

پاکستان ٹیکسٹائل سٹی کی کہانی: سال 2009ء میں حکومت پاکستان نے ’پورٹ قاسم (بندرگاہ)‘ پر ایک صنعتی علاقہ (زون) تخلیق کیا جس کا مقصد ٹیکسٹائل مصنوعات اور اِس صنعت سے وابستہ امور کو سہولیات دینا تھا۔ اِس منصوبے میں وفاقی حکومت کی حصہ داری 40فیصد تھی۔ سندھ حکومت کی 16فیصد‘ نیشنل بینک کی 8فیصد‘ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی 4فیصد‘ سعودی پاک انشونس کمپنی‘ پاک قطر انویسٹمنٹ کمپنی‘ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں سے ہر ایک کی 4فیصد اور پی آئی ڈی سی (PIDC) کی ایک فیصد شراکت داری رکھی گئی۔ چار اگست 2017ء کے روز پارلیمانی کمیٹی کو بتایا گیا کہ ’’حکومت پاکستان ’ٹیکسٹائل سٹی‘ کا مذکورہ منصوبہ ختم کر رہی ہے۔‘‘

زیانجنگ Xinjiang ٹیکسٹائل پارک کی کہانی: پاکستان کے سرحدی علاقے سے متصل چین کے صوبے ’زیانجنگ‘ میں چین حکومت نے ’ٹیکسٹائل پارک‘ کے نام سے ایک خصوصی صنعتی علاقہ قائم کیا۔ اِس پارک میں ایک کروڑ میٹر کاٹن سے کپڑا (کلاتھ) تیار کیا جاتا ہے جو نہ صرف چین میں ٹیکسٹائل کی صنعتی ترقی کا کلیدی منصوبہ ہے بلکہ اس سے چین کی برآمدات بڑھی ہیں اور مقامی افراد کو روزگار کے اضافی مواقع میسر آئیں ہیں۔ زیانجنگ ٹیکسٹائل پارک سے وابستہ کاشتکاروں وک حکومت نے 33 ارب ڈالر کی رعائت بھی دی جو اِس دس سالہ حکمت عملی کو کامیاب بنانے کی سوچ کا حصہ ہے تاکہ زیانجنگ ٹیکسٹائل پارک کو خطے کی سب سے بڑی ’ٹیکسٹائل ایکسپورٹنگ حب (مرکز)‘ بنایا جائے۔ اگر ہم چین میں ٹیکسٹائل کی صنعت کی سرپرستی کا موازنہ پاکستان سے کریں تو پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت قریب المرگ ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ’سی پیک‘ نہ تو مفید ہے اور نہ ہی نقصان دہ لیکن ہم اِس سے جو کچھ حاصل کرنا چاہیں وہ مقاصد پاکستان کے لئے مفید یا نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

ایک آخری سوال: کیا ’سی پیک‘ منصوبے پاکستان کے لئے مفید ہیں اور اِن سے ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے؟

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)