ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زبانِ یار ۔۔۔!
’پلاننگ کمیشن آف پاکستان‘ نے رواں برس ماہ جون کے پہلے ہفتے جاری کئے اعدادوشمار میں کہا تھا کہ ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ کے تحت ’’تیس ہزار پاکستانیوں (ترجیحی بنیادوں پر انجنیئروں‘ راج اور مزدوروں) کے لئے ملازمتی مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘ جبکہ مزدوروں کی عالمی تنظیم (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ’سی پیک‘ سے ملازمتی مواقعوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ‘ جن میں براہ راست ایک لاکھ سے زیادہ ملازمتیں شامل ہوں گی۔‘‘ اگرچہ ’سی پیک‘ کے حوالے سے حکومتی دستاویزات ’سراپا راز (خاموش‘ ہیں جن تک کسی وجہ سے عام آدمی (ہم عوام) کو رسائی نہیں دی گئی لیکن مختلف مواقعوں پر حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے بیانات سے معلوم ہوا ہے کہ ’سی پیک‘ منصوبوں میں چین کے لوگوں کا مقررہ ملازمتی کوٹہ ’’پچیس فیصد‘‘ سے کم ہوگا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ’سی پیک‘ ہی سہی لیکن کسی طور پاکستان میں لاکھوں ملازمتی مواقع پیدا ہوں گے.
خیبرپختونخوا ’سی پیک‘ کا گیٹ وے ہے اور یہیں سے گزرنے والی راہداری سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی اقتصادی قسمت بدل کر رکھ دینی ہے‘ اِسی لئے ’خیبرپختونخوا‘ کے لئے ’سی پیک‘ سے مستفید ہونے کے اِمکانات دیگر صوبوں کے مقابلے زیادہ ہیں! لیکن کیا خیبرپختونخوا ’سی پیک‘ سے کماحقہ فائدہ اُٹھانے کی خواہش کے ساتھ اِس سے عملی طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے بھی تیار ہے؟کیا ہمارے پاس ایسی افرادی قوت موجود ہے جو چینی کمپنیوں کے معیار پر پورا اُترے یا ہمارے ہنرمندوں کو چینی زبان کے چند ایک بنیادی اصولوں سے ہی واقفیت ہے اور اُن کے لئے کم سے کم یہ بات ممکن ہے کہ وہ چینی باشندوں کے نام صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کر سکیں؟ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان (انگلش میڈیم آف ایجوکیشن) پر ’حد سے زیادہ اِنحصار (بھروسہ)‘ کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا سمیت جدید علوم اور بالخصوص سائنس کے میدان میں انگریزی کتب کی تعداد اور دستیابی آسان ہے لیکن یہ مفروضہ قائم کر لینا کہ بناء ’’انگریزی دانی‘‘ جدید عصری علوم حاصل ہی نہیں کئے جا سکتے‘ ایک مغالطہ (اصلاح طلب تاثر) ہے کیونکہ امریکہ کے علاؤہ دنیا کی چار دیگر ’عالمی طاقتیں (سپرپاورز)‘ چین‘ روس‘ فرانس اور جرمنی میں درس و تدریس مادری زبانوں میں رائج ہے اور یہ اقوام مادری زبانوں ہی کے بل بوتے پر خلاؤں میں نئے جہاں تلاش کرنے کے علاؤہ صنعتی ترقی‘ تحقیق و ایجادات کے نت نئے بلند معیار بھی تخلیق کر رہی ہیں۔
لائق داد و تذکرہ ہے کہ ۔۔۔ خیبرپختونخوا حکومت نے ’سی پیک‘ کے ثمرات بالخصوص ملازمتی مواقعوں سے خاطرخواہ استفادہ کرنے کے لئے ’تکنیکی و فنی علوم کے مراکز (ٹیکنیکل ایجوکیشن سنٹرز) میں ’چینی زبان‘ کی کلاسیز کے اجرأ کا فیصلہ کیا ہے۔ ’مختصر مدت کے یہ تربیتی مواقع (شارٹ کورسیز)‘ طلباء و طالبات کو اِس قابل بنا دیں گے کہ وہ چینی زبان میں عمومی بول چال کر سکیں یا سمجھ سکیں اور درست تلفظ میں چینی ناموں کی ادائیگی اُن کے لئے ممکن ہو۔ اِس ’عظیم منصوبے‘ کے حکومتی سطح پر آغاز سے قبل نجی اِداروں نے چینی زبان کے عملی استعمال کے مختصر کورسیز کا اجرأ پہلی ہی اپنی مدد آپ کے تحت کر رکھا ہے اور خیبرپختونخوا کے مختلف (سی پیک سے متعلقہ) اضلاع بشمول پشاور‘ نوشہرہ‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ ہری پور‘ ڈی آئی خان کے علاؤہ بھی مختلف شہروں میں ’تربیتی مراکز (کوچنگ اکیڈمیز و سنٹرز)‘ انگریزی بول چال کے ساتھ چینی زبان کی تعلیم بھی دے رہے ہیں جہاں تین سے چھ ماہ کے ایک کورس کی اوسط فیس ’ماہانہ تین سے پانچ ہزار روپے‘ مقرر ہے۔ اِن نجی کوچنگ سنٹرز میں سکھائی جانے والی چینی زبان کتنی معیاری ہے اِس پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں اور لازم ہے کہ اِس تبدیلی کا صرف مشاہدہ نہ کیا جائے بلکہ اِسے مفیدعام بنانے کے لئے نجی اداروں کی زیادہ سے زیادہ سرپرستی کی جائے۔
خیبرپختونخوا کے ’’ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ وکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (ٹویٹا)‘‘ کے ایک ذمہ دار کی جانب سے دی جانے والی معلومات کے مطابق ’ٹیکنیکل ایجوکیشن‘ کے ساتھ چینی زبان کی تعلیم شروع کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہمارے ہنرمند ’سی پیک‘ کی ذیل میں ملازمتی مواقعوں سے حسب تعلیم و مہارت فائدہ اُٹھا سکیں۔‘‘ لیکن ’’پاک چین دوستی‘‘ کو ایک تنظیم سے تحریک میں تبدیل کرنے والے سیّد علی نواز گیلانی سمجھتے ہیں کہ ’’درحقیقت دیگر زبانوں کے مقابلے چینی زبان‘ صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب و ثقافت اور فکروعمل کا نام بھی ہے۔ چین محنت کش قوم ہے۔ جن کی زبان سیکھنا ہی اِس بات کی ضمانت (کافی) نہیں ہوگا کہ ہمارے نوجوانوں کو ملازمتی مواقع اور حسب خواہش ترقی ملے گی بلکہ اِس کے لئے اپنے آپ کو مٹا دینے والی محنت کرنا ہوگی اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے‘ نصاب تعلیم کے اسباق کی حد تک محدود ہیں اور وہ طلبہ (نوجوانوں) میں جستجو پیدا نہیں کرتے۔ اُنہیں محنت کی عظمت‘ کردار اور اپنے کام سے لگن جسے عشق کہا جائے پیدا نہیں کر پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ذہین نوجوان ہنرمند ہونے کے باوجود بھی بڑی تعداد میں بیروزگار ہیں‘ جبکہ اُنہیں محنت کرنے میں بھی عار محسوس ہوتی ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اِس معاشرتی و سماجی خرابی کو دور نہیں کرے گی‘ جس کا تعلق نصاب تعلیم‘ نفسیات اور علاقائی رسم ورواج سے بھی ہے اُس وقت تک ’سی پیک‘ منصوبے ہوں یا عملی زندگی کے دیگر محاذ‘ ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوا سکیں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں علی نواز گیلانی نے اِس اندیشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر وفاقی اُور خیبرپختونخوا حکومتوں نے ’چینی زبان‘ اور ’چین شناسی‘ سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لئے مربوط و مسلسل کوششیں نہ کیں تو مجبوری ہوگی کہ زیادہ تعداد میں چین کی افرادی قوت پاکستان میں ملازمتوں پر فائز دکھائی دے‘ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ جس طرح چین کی حکومت اور وہاں کے اِداروں نے ’سی پیک‘ کو سنجیدگی سے لیا ہے‘ ہمارے فیصلہ ساز بھی اپنی اپنی ترجیحات کا اَزسرنو تعین کریں اور بناء تاخیر ’چینی زبان‘ کو بطور مضمون نصاب تعلیم میں شامل کریں۔
یکساں اہم ہے کہ چینی زبان کو صرف ٹیکنیکل اِداروں کی حد تک ہی محدود نہ رکھا جائے۔‘‘علی نواز گیلانی نے انگریزی زبان پر بڑھتے ہوئے انحصار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز کیا کہ ’’پاکستانی طلباء و طالبات کے وفود کو گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے دوران چین کے دوروں پر بھیجا جائے تاکہ وہ چین کی ترقی اور معاشرے کا قریب سے مشاہدہ کرسکیں۔ انہوں نے پاک چین تعلیمی اِداروں کے آپسی رابطوں اور وفود کے تبادلوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ ’’اِس میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا (ٹیلی ویژن اور ریڈیو) کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اگر برطانوی اور امریکی نشریاتی ادارے ’اردو زبان‘ میں اپنے پروگرام ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کر سکتے ہیں تو یہی رابطہ کاری ’’چینی اُردو زبانوں‘‘ میں کیوں ممکن نہیں؟‘‘
پاک چین دوستی صرف رسمی نام (سماعتوں کے لئے خوشگوار نعرہ) نہیں بلکہ وقت کی نہایت ہی اہم ضرورت ہے اور ایک ایسی حاجت بھی ہے جس سے انکار کسی بھی صورت پاکستان کے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں نہیں!
۔