A MAN OF IDEALS
نظریاتی سیاست کا علمبردار!
اُنیس سو چھیانوے کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ ’شفیقہ ضیاء‘ اپنی آنکھ کے علاج (جراحت) کے لئے برطانیہ گئیں۔ اُن کے اِس دورے سے متعلق افواہیں زیرگردش تھیں کہ یہ دورہ ریاست وسائل سے کیا گیا۔ اِس بارے میں پشاور سے شائع ہونے والے (انگریزی زبان کے روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کے اِدارتی کارٹونسٹ ’فیقا (Feica)‘ نے ایک خاکہ تیار کیا‘ جس میں ایک بھاری بھرکم (فربہ) خاتون کو دکھایا گیا تھا جو تحائف سے لدھے ہوئے ایک گدھے کو کھینچ کر لا رہی تھی۔ فرحت اللہ بابر اُس وقت اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے فیقا سے کہا کہ اِس کارٹون کے نیچے اِس جملے کا اضافہ کردو۔ ’’ایک آنکھ کے اشارے سے قافلے راہ بدل دیتے ہیں۔‘‘ اِس کارٹون کی اشاعت آمر کے مزاج پر بجلی بن کر گری اور اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جنرل ضیاء نے مرحوم مجید نظامی کو طلب کیا جو اُس وقت دائیں بازو کے صحافی تھے اور لاہور سے نوائے وقت نامی روزنامے کے ایڈیٹر ہونے کے علاؤہ ’کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹر‘ کے صدر بھی رہے۔ جنرل ضیاء نے نظامی سے کہا کہ وہ ’فرنٹیئرپوسٹ‘ کی (بیباک صحافتی) تنقید کو ہمیشہ ہی برداشت کرتے آئے ہیں لیکن اب مجھے (جنرل ضیاء) کو فرنیٹئرپوسٹ کے دفاع میں مزید کچھ بھی سننے کا روادار نہیں پائیں گے۔‘‘
روزنامہ ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کی افغانستان میں جہاد کے نام پر مہم جوئی کے بارے میں مخالف ادارتی پالیسی اور پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کی مخالفت نے اِسے پاکستان کی صحافتی تاریخ و تحریک کا علمبردار بنا دیا تھا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی شمیم شاہد اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’1980ء کے اوائل کی بات ہے جب ’دی مسلم‘ نامی اَخبار جمہوریت پسندوں میں مقبول ہوا کرتا تھا لیکن جب پشاور سے (روزنامہ) ’فرنیٹئر پوسٹ‘ نے اشاعت شروع کی تو اُس سیاسی و اقتصادی مشکلات بھرے دور میں کسی نئے اخبار کے پنپنے کے امکانات کم تھے لیکن (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ کی بناء تعصب‘ جمہوریت نواز اور غیرمتزلزل آزاد ادارتی پالیسی کے خالق اِس کے ایڈیٹرز عزیز صدیقی اور فرحت اللہ بابر نے (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ کو کامیاب اور مزاحمتی جمہوری تحریک کا علامتی اشاعتی ادارہ بنا دیا‘ جس کا ذکر پاکستان اور عالمی صحافتی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں تحریر کیا جاتا رہے گا۔‘‘
فرحت اللہ بابر‘ فرنٹیئرپوسٹ کی پہچان تھے جو بطور ادارے کے نمائندہ غیرملکی سفارتکاروں‘ نامہ نگاروں اور دیگر سرکاری حکام سے ملاقاتیں کرتے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں مبینہ جہاد جاری تھا اُور (روزنامہ) فرنیٹئرپوسٹ ایسا واحد مقامی روزنامہ تھا جو ایک طرف افغان جنگ اور افغان سرزمین و سیاست میں تبدیلیوں پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا تو دوسری طرف اُس کا پاکستان اور افغانستان میں صحافتی اثرورسوخ میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا تھا۔ فرحت اللہ بابر اُن دنوں کی یاد میں کہتے ہیں کہ ’’افغانستان میں سوویت یونین (روس) کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے مغربی ممالک نے ’مدارس‘ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور دینی مدارس کے نصاب میں ایسے اسباق شامل کئے جن سے نوجوان طلبہ میں نفرت کی کاشت کی جا سکے۔ الف سے اللہ۔ ب سے بندوق۔ ت سے تلوار۔ جیم سے جنت۔ ک سے کافر اُور کلاشنکوف جیسی ابجد مرتب کی گئی اور پھر یہی اسباق مدارس میں پڑھائے جانے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے اَخبار (فرنٹیئرپوسٹ) کی ’اِدارتی پالیسی‘ ریاستی پالیسی برائے افغانستان (افغان جنگ) سے مختلف (متضاد) ہوا کرتی تھی۔ ہم افغانستان میں جہاد کے نام سے ہونے والی خونریزی کے مخالف تھے اور یہی وجہ تھی کہ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ پر کیمونسٹ (لادین) اور ’روس نواز‘ ہونے کے الزام لگایا گیا۔ ہمارا مؤقف تھا کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی بھی طرح جہاد کے اسلامی و اصطلاحی مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسے جہاد نہیں بلکہ فساد کہنا چاہئے۔‘‘ لیکن (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ پر آمر حکمراں ضیاء الحق کے عتاب کا سبب ’مارشل لاء‘ کی مخالفت پر مبنی ادارتی پالیسی تھی جس میں مقامی مسائل اور سیاست کے حوالے سے پختون قوم پرستی کے عنصر کو بھی غالب کردیا گیا جس نے جلتی پر تیل جیسا کام کیا۔ صوبائی حقوق و خودمختاری کی حمایت اور کالا باغ ڈیم منصوبے کی مخالفت کو ہوا دی گئی جو جنرل ضیاء الحق بنانا چاہتا تھا۔
فرحت اللہ بابر کی (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ سے وابستگی اُن کی کئی لحاظ سے وطن واپسی جیسی تھی جس کے وہ ایک لمبے عرصے سے متمنی تھے۔ امر واقعہ یہ تھا کہ 1981ء میں جب وہ وزارت اطلاعات (انفارمیشن منسٹری) کا حصہ تھے تو اُنہیں کوئی بھی اہم ذمہ داری نہیں سونپی گئی اور ایک مرتبہ جب وہ ترکی میں ’پریس اتاشی‘ کے طور پر تعینات ہونے کے قریب پہنچے تو یہ موقع بھی اُن سے چھین لیا گیا۔ انہوں نے دل برداشتہ ہو کر چھٹی لی اور سعودی عرب چلے گئے جہاں اُنہیں ایک ’ٹائپسٹ‘ کی نوکری ملی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ ’’دالہ ایوکو (Dallah Avco)‘‘ نامی شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن) کی ایک کمپنی سے بطور انجنیئر وابستہ ہوگئے۔ چند ہی ماہ میں انہیں ’رائل سعودی ائرفورس‘ کی اُن ہوائی پٹیوں (ائر بیسیس) کا منیجر لگا دیا گیا جو اُن کی سعودی کمپنی ’’دالہ ایوکو‘‘ کی زیرنگرانی تھیں۔ اُنہیں ایک خصوصی جیٹ طیارہ دیا گیا‘ جس میں وہ مختلف ائربیسیس کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جلد ہی اُن کے سعودی حکمرانوں سے اختلافات پیدا ہوگئے جن کے بارے میں فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’سعودی عرب بنیاد پرستی‘ فرقہ واریت کے فروغ و سرپرستی اور جمہوری اسلامی ایران کو دہشت گرد ملک قرار دے کر تنہا کرنے جیسی پالیسیاں پر عمل پیرا تھا۔‘‘ سعودی عرب کی وضع کردہ پالیسی پاکستان نے (بناء سوچے سمجھے من و عن) اپناتے ہوئے ایران سے براہ راست ٹکراؤ اختیار کیا۔ مسلم دنیا کے اتحاد‘ فرقہ واریت‘ اسلامی بنیاد پرستی کو ہوا دینے اور بالخصوص سعودی عرب اور ایران سے متعلق فرحت اللہ بابر کے خیالات وقعت کے حامل ہیں۔ 4 جون 2017ء کو شائع ہونے والے اخبار ’ڈان (Dawn)‘ نے اپنے اداریئے میں فرحت اللہ بابر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پارلیمینٹ میں توانا (دلیرانہ) آوازیں‘ جیسا کہ فرحت اللہ بابر نے خطرات کی نشاندہی کی ہے اور اِس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو فرقہ ورانہ نظریات سے بناء سوچے سمجھے جوڑ دیا گیا (تاہم اِس قومی پالیسی سے رجوع ہونا چاہئے۔)‘‘
فرحت اللہ بابر خود کو سعودی عرب کا مشکور و ممنون بھی پاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جانے کا ایک محرک ’معاشی ہجرت‘ بھی تھا۔ پاکستان میں میرا ماہانہ مشاعرہ تین ہزار روپے تھا جبکہ سعودی عرب میں ماہانہ پانچ ہزار ڈالر کمانے کا موقع ملا۔ جس سے گھر اور گاڑی خریدنے کے علاؤہ میرے سیروساحت کے شوق کی تسکین کا سامان بھی ممکن ہوا۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد فرحت اللہ بابر نے ’وزارت اطلاعات (انفارمیشن منسٹری)‘ کی نوکری کو خیرباد کہا اور انہوں نے ’(روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ‘ سے وابستہ ہونے کو ترجیح دی اور پھر اپنے اِس فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کبھی بھی اپنی ذات مفادات کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ پیشہ ور (تجربہ کار) ایڈیٹر صدیقی (مرحوم) کے ساتھ کام کرنے اور ملک کے داخلی و خارجی نامساعد حالات میں انہوں نے جس انداز میں صحافت کے علم کو اٹھایا وہ قطعی آسان نہیں تھا۔ جہاں صحافتی اصولوں کی بات آئی‘ یاروں کے یار فرحت اللہ بابر یکسر مختلف ثابت ہوئے۔ اُن دنوں موٹرگاڑیوں کی ’گولڈن (دو نمبروں ڈیجٹس)‘ پر مبنی رجسٹریشن مقبول تھی اور اِسے معاشرے میں حیثیت اور اثرورسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ نے اِس بارے ایک تحقیقی رپورٹ ہمراہ فہرست شائع کی جس میں فرحت اللہ بابر کے اپنے عزیز ’شاہد اللہ بابر‘ کا نام بھی درج تھا۔
صحافی اکرام ہوتی اُن دنوں کی یاد کرتے ہوئے ’فرحت اللہ بابر‘ کی بندہ پروری اور حوصلہ افزائی سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جب (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کے فوٹوگرافر زبیر میر (مرحوم) اور شمیم شاہد افغانستان سے اپنے ساتھ جنگ کی تصاویری یاداشتیں واپس لائے تو زبیر میر (مرحوم) کی ایک تصویر میں جنگجو کو دکھایا گیا تھا جو خوست کے علاقے میں امریکی سٹنگر (Stinger) دور مار میزائل کو روس کی ایجاد کردہ کلاشنکوف (خودکار بندوق) سے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اِس تصویر پر فرحت اللہ بابر نے زبیرمیر (مرحوم) کو پانچ سو روپے کے انعام دیا‘ جو زبیرمیر (مرحوم) کو ملنے والا ایسا پہلا اعزاز تھا اور ایسا بہت کم ہوتا ہے جب کسی اخبار کے فوٹوگرافر کی مہارت اور محنت کو اُس کا اپنا ہی ایڈیٹر خراج تحسین پیش کرے۔ اکرام ہوتی کے لئے یہ موازنہ کرنا مشکل تھا جب اُن سے پوچھا گیا کہ (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کو عروج اور ملک میں جمہوری تبدیلی لانے کے لئے رہنما کردار کس نے دیا‘ فرحت اللہ بابر نے یا عزیز صدیقی (مرحوم) نے؟ اکرام ہوتی نے یہ کہتے ہوئے گویا سمندر کو کوزے ہی میں بند کردیا کہ ’’صدیقی (مرحوم) ایک پیشہ ور ایڈیٹر تھے جو صحافیانہ اقدار و اخلاقیات اور اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اصولی مؤقف کو بیان کی جرأت بھی رکھتے تھے اور اُنہیں اظہار پر ملکہ بھی حاصل تھا جبکہ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ کے لئے (فرحت اللہ) بابر کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی تھی۔‘‘ اکرام ہوتی کی نظر میں فرحت اللہ بابر کے ایسے ’کامل قلم‘ شخصیت کے مالک ہیں جن میں ’(نت نئے) خیالات سے ابھرنے والی تخلیقی قوت اور رہنما اصولوں کی پیروی کا ’متوازن امتراج‘ پایا جاتاہے۔
(روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ سے اپنی عملی صحافتی زندگی کو اظہار کے نئے اسلوب سے روشناس کرانے والے فرحت اللہ بابر حکومتی عتاب کا شکار بنے۔ اُن پر سیاسی ہونے کی چھاپ لگی اور اِسی انتہاء درجے کی مخالفت نے اُنہیں سیاسی کارکن بنا دیا۔ اُن کی (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ سے الگ ہونے کا فیصلہ بھی اُس حکومتی دباؤ کے جواب میں تھا جب جون 1988ء میں افغان حکام نے پاکستانی فوجیوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور یہ خبر فرنٹیئرپوسٹ نے شائع کی تو اُس وقت پاکستانی خفیہ ادارے انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل حمید گل نے اخبار کے مالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ چند صحافیوں کو ملازمتوں سے نکال دیں جن میں فرحت اللہ بابر کا نام بھی شامل تھا اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا‘ جس کے بعد وہ اپنے ساتھ اُن صحافتی اقدار کو بھی لے گئے‘ جس نے (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کو ایک منفرد ’مقام بلند‘ تک پہنچایا تھا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ’فرحت اللہ بابر‘ نے نہ تو سیاسی مشکلات اور نامساعد حالات سے ہار مانی ہے اور نہ ہی زندگی کی 73 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اُن کی عملی جدوجہد اور محنت سے لگن میں کمی آئی ہے۔ اُن کی زندگی مقصدیت کے محور سے بندھی دکھائی دیتی ہے جس پر روزمرہ سیاسی مصروفیات کا اثر اِس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی زندگی کے شعوری سفر میں منزل کا تعین کرنے کے بعد اُس سے خود کو وابستہ رکھے ہوئے ہیں اور اِسی سے اُن کی فہم و دانش اور سیاسی بصیرت کا چمن بھی ہمیشہ گل و گلزار اور تروتازہ رہتا ہے۔ فرحت اللہ بابر کی عملی زندگی محتاط فیصلوں سے عبارت ہے جسے اُن کی خوش قسمت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اُنہیں درست وقت میں درست فیصلے کرنے کا موقع ملا اور اِس امر کو وہ ’خوش قسمتی‘ قرار دیتے ہیں‘ تاہم جو بھی ہو لیکن انہوں نے اپنے لئے ایک پیشے کا انتخاب کیا جس سے اُن کی جذباتی وابستگی تھی اور یہی وہ پیشہ ہے جس سے وہ تادم حیات وابستہ رہنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کل وقت سیاست دان اور ذاتی زندگی میں بھی سیاست ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر کی شخصیت کا کوئی ایک رخ نہیں۔ وہ ہمہ جہت ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری قدروں پر یقین کرنے والا ایک پارلیمینٹرین۔ ایک اصلاح پسند سیاست دان‘ ایک تجربہ کار صحافی‘ انسانی حقوق کا رکھوالا اور انسانیت کی عظمت و خدمت کا احساس رکھنے والا ایک مجاہد اور ایک باریک بیں ’میڈیا منیجر‘ جو وقت کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے متغیر کردار پر گہری نگاہ اور عبور رکھتے ہیں۔ فرحت اللہ بابر زندگی کے جس کردار میں نظر آئیں وہ سیاست کے طالبعلم اور سیاست کے ذریعے معاشرے کی اصلاح و اِرتقاء کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ہوں تو فرحت اللہ بابر بیک وقت ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے حکومت اور دیگر قانون سازوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دیں گے۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ پاکستان کے سعودی عرب سے (خارجہ) تعلقات سے لیکر خواجہ سرا (Transgender) کے قتل پر حکومت سے وضاحت طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قانون ساز ایوان ہوں یا دانشوروں کو حالات حاضرہ کے نئے پہلوؤں سے روشناس کرانے کی کوئی نشست فرحت اللہ بابر کے خیالات ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں ’نیشنل پریس کلب (وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پریس کلب)‘ میں سننے والوں کو وفاقی حکمراں جماعت کی سیاسی قلع بازیوں (volte-face) جیسے موضوع سے لیکر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (FATA) بارے اصلاحات کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملتا ہے۔ وہ قبائلی علاقہ جات کے رہنے والوں کو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھنے اور آواز اٹھانے کی ترغیب دلاتے ہیں کہ حقوق دیئے نہیں حاصل کئے جاتے ہیں۔ بیک وقت مختلف کرداروں میں نظر آنے والا ’فرحت اللہ بابر‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے ’میڈیا منیجر‘ ہیں جو اپنا مدعا وضاحت اور بناء کسی تامل بیان اور ضبط تحریر کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ قبائلی علاقہ جات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کے آواز میں غیرمعمولی توانائی بھر جاتی ہے جو اُن کے چہرے پر فرط جذبات سے بھی عیاں دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک گرم دوپہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’قبائلی علاقہ جات پر صدر اور سیاسی و عسکری حکمراں قیادت کا حکم چلتا ہے جنہیں زمینی حقائق کا بذات خود قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر قبائلی علاقے کی روایات‘ ثقافت اور حالات کی گہرائی کو کماحقہ سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں اور مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ قانونی و انتظامی اختیار قانون ساز ایوان کو سونپ دیا جائے۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے کی سیاست میں شامل کیا جائے اور قبائلی علاقوں سے متعلق فیصلہ سازی پارلیمینٹ کی اجتماعی دانش کے زیرسایہ سرانجام پائے۔‘‘ صحافیوں سے ملاقات کے بعد وہ ’لاپتہ افراد (missing persons)‘ کے بارے میں ایک سیمینار میں شریک ہوئے۔ ایوان بالا (سینیٹ) میں وہ اکثر ’لاپتہ افراد‘ کا معاملہ اٹھاتے ہیں اور اُن کے احتجاجی و اصولی نکتۂ نظر سے پوری قوم آگاہ ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق اُن کے اصولی مؤقف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’معاشرے کی تمام اکائیوں کو ’لاپتہ اَفراد‘ کے بارے میں آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ آج اگر ہم دوسروں کے ’لاپتہ‘ ہونے پر آواز نہیں اٹھاتے تو کل ہمارے ’لاپتہ‘ ہونے پر بھی کوئی آواز نہیں اٹھائے گا لہٰذا یہ انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی و حساس مسئلہ ہے‘ جس کی سنگینی کا سنجیدگی سے ہر سطح پر احساس ہونا چاہئے۔‘‘
فرحت اللہ بابر عوامی و اجتماعی قومی مفاد کے آواز اٹھانے والے ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے ہاں ’موقع پرستی‘ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اُن کے اصولی سیاسی مؤقف کے باعث مقتدر حلقوں میں اُن کی تنقید کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہوگا۔ اُن سے متعلق اسلام آباد کے ایک سینیئر صحافی ’’عون ساہی‘‘ کی رائے ہے کہ وہ ’’مصلحت شناس سیاست دان سے زیادہ سماجی کارکن کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ ایک مفکر ہیں جو اپنے قول وفعل میں فلسفیانہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا مقتدر عسکری حلقوں (اسٹیبلشمنٹ) کے خلاف سماجی رابطہ کاری کے ذریعے کھل کر اظہار خیال کرنے والے بلاگرز کی پراسرار گمشدگی کے واقعات یا پھر پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ’غیرعسکری معاملات متعلق‘ جاری ہونے والا ’ٹوئٹر پیغام‘ کی مذمت‘ فرحت اللہ بابر اپنے اصولی مؤقف کا پوری طاقت سے اظہار کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ پر زیادہ دکھائی نہیں دیتے کیونکہ سرکاری و نجی الیکٹرانک میڈیا پر ایک مخصوص سوچ کے تابع مؤقف رکھنے والوں کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔‘‘ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو فرحت اللہ بابر کو ’ضابطہ پرست (Bureaucratic)‘ سمجھتا ہے کیونکہ وہ صحافیوں سے صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کے مقررہ اوقات کے بعد میل جول نہیں رکھتے اور اُن کی سماجی سرگرمیاں بھی لامحدود نہیں بلکہ وہ اپنے وقت کا مصرف احتیاط سے کرتے ہیں۔ جب اُن کی مصروفیات طے شدہ نہیں ہوتیں تو وہ اپنا بیشتر وقت مطالعے کی نذر کرتے ہیں یا پھر حالات حاضرہ سے متعلق موضوعات کا مطالعہ کرتے ہوئے سینیٹ اجلاس کی تیاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے ’کامیاب سیاسی سفر‘ کا راز بھی یہی ہے کہ وہ مطالعہ کرتے ہیں اور متعلقہ معلومات سے خود کو باخبر رکھتے ہیں اور معلومات کی ہرممکنہ کوشش اور اِن کی صحت کے لئے کھوج و جامعیت میں کڑی محنت کو غیرضروری نہیں سمجھتے۔
فرحت اللہ بابر جب کبھی بھی عملی سیاست سے دستبردار (ریٹائر) ہونے کا فیصلہ کریں گے تو اُن کی ترجیح ہوگی کہ وہ اپنی یاداشتوں‘ سیاسی واقعات کے بیان سے متعلق یاداشتوں پر مبنی کتاب لکھنا پسند کریں گے جو اُن کی ایک دیرینہ خواہش ہے۔ چونکہ وہ پاکستان کی تغیرپذیر (طوفانی) سیاست کے عینی شاہد بھی ہیں تو اُن کے قلم سے تحریر ہونے والی ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ کے رنگوں میں قوس قزح جیسی خوبصورتی اور ہر رنگ کی چاشنی و انفرادی حیثیت بھی اپنی جگہ اہم و منتخب اہمیت کی حامل ہوگی کہ اِس کے بغیر موضوع کا بیان اَدھورہ محسوس ہو چونکہ وہ فطرتاً شرمیلے اور خودنمائی کو پسند نہیں کرتے اِس لئے اپنی خدمات کے تذکرے پر مبنی ’آپ بیتی‘ کی بجائے اُن کی کتاب کا موضوع ’پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ اور بیان‘ ہوگا۔ وہ شاید اِس بات کو ترجیح دیں کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے بانی چیئرمین (عالم طبیعات) منیر اَحمد خان کے بارے میں کتاب تحریر کریں جو ’ری ایکٹر خان (Reactor Khan)‘ کے نام سے بھی معروف ہیں اور اِس وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ کے شعبۂ ’ری ایکٹر‘ کے سربراہ تھے جب اُن کی ملاقات اُس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ ’ذوالفقار علی بھٹو‘ سے ہوئی۔ یہ سال 1965ء کی بات ہے جب آسٹریا کے دارالسطنت ویانہ (Vienna) میں ہوئی ملاقات کے دوران انہوں نے بھارت کے جوہری مقاصد کے بارے میں ’ذوالفقار علی بھٹو‘ کو مطلع کیا۔ جب بھٹو پاکستان کے صدر بنے تو ’ری ایکٹر خان‘ کو 1972ء میں پاکستان لائے اور یوں 1976ء میں پاکستان کے ’جوہری پروگرام‘ کا ہنگامی بنیادوں پر رازداری سے آغاز کیا گیا۔ منیر احمد خان ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کے سربراہ تھے تب انہوں نے ایک ایسے معاون کی خدمات طلب کیں جنہیں سائنسی علوم وامور سے آگاہی بھی ہو اور وہ اطلاعات و نشریات کے تقاضوں اور اصولوں سے بھی آگاہ ہوں۔ فرحت اللہ بابر نے 1970ء میں ’پریس انفارمیشن سروسیز‘ میں شمولیت اختیار کی جبکہ وہ سندیافتہ انجنیئر تھے اور انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ منیر احمد خان کو ’انفارمیشن اسسٹنٹ‘ کے لئے جس قسم کے فرد کی ضرورت تھی‘ فرحت اللہ بابر اُس پر پورا اُترتے تھے بلکہ یوں لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے اُن اِسی منصب کے لئے اُن کی تشکیل کی ہو۔ آپ منیراحمد خان کے ساتھ 1973ء سے 1976ء کے درمیان بطور ’انفارمیشن اسسٹنٹ‘ تعینات رہے اور بعدازں 1979ء سے 1981ء کے دوران بھی اُن کی خدمات منیر احمد خان ہی کے سپرد (وقف) رہیں اور یہی وہ عرصہ تھا کہ جب اُنہوں نے پاکستان کی جوہری صلاحیت کے خدوخال اُور قومی سیاست جیسے موضوعات سے صرف حادثاتی تعلق ہی استوار نہیں کیا بلکہ اِن پر عبور بھی حاصل کرتے چلے گئے۔ یادش بخیر اُس عرصے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’میں یہ بات قدرے وثوق (یقین) سے کہہ سکتے ہوں کہ اُن دنوں جو کچھ بھی رونما ہو رہا تھا وہ سب کچھ کارخانۂ قدرت میں کسی طے شدہ منصوبے کی جزئیات تھیں۔‘‘ اور اگر ذوالفقار علی بھٹو ہی کے الفاظ میں اُس وقت کے پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان مکمل جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔‘‘
فرحت اللہ بابر کی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے دو مرتبہ وابستگیوں کے ادوار نے اُن کی باقی ماندہ زندگی‘ نظریات اور تصورات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد اُنہوں نے ’پاکستان پیپلزپارٹی‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے بارے میں امریکہ کے عزائم زیادہ دوستانہ نہیں تھے اور ’پریسلر ترمیم‘ کے ذریعے امریکہ کے صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بنانے سے متعلق عزائم سے باز نہیں آتا تو امریکی امداد روک دی جائے۔ امریکی عقابی نگاہ کے نیچے پاکستان تیزی سے اپنی جوہری صلاحیت کے حصول کرتا رہا اور بالآخر مئی 1988ء میں متعدد جوہری تجربات کئے۔
فرحت اللہ بابر پاکستان کو ایک ایسی جوہری صلاحیت کے طور پر دیکھنے کے متمنی اور وکیل رہے ہیں جو ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرتی ہے۔ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن ہونے کی حیثیت سے وہ اِس بات کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ اِن الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ ’’جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان اِیران اُور شمالی کوریا کو ’جوہری ٹیکنالوجی‘ منتقل کرنے کے لئے ذمہ دار ہے۔‘‘ بعدازاں اِس بارے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف لکھا ہے۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’میرا ہمیشہ سے اَصولی مؤقف رہا ہے کہ جوہری ہتھیار دفاعی ضرورت کی تکمیل ہیں اور ایک نہایت ہی طاقتور ہیں جن کے بارے میں ذمہ دارانہ رویہ ’احساس ذمہ داری‘ کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے۔‘‘ جب فرحت اللہ بابر یہ بات کہہ رہے تھے تو وہ اُن کا یقین آنکھوں میں جھانک کر دیکھا جاسکتا تھا جو بیشتر پاکستانی سیاست دانوں کے ہاں نہیں ملتا بالخصوص جب وہ پاکستان کی جوہری صلاحیت یا ہتھیاروں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہیں ملک کے ناقابل تسخیر دفاع اور ترقی کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ سوویت یونین کے پاس جوہری ہتھیاروں کا اس قدر بڑا ذخیرہ تھا کہ اُنہیں رکھنے کے لئے جگہ کم پڑ گئی تھی لیکن اِس مضبوط دفاعی صلاحیت کے باوجود بھی ملک ٹکڑے‘ ٹکڑے ہونے سے نہیں بچ سکا کیونکہ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا پیمانہ ہتھیار یا دفاعی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ترقی کا انحصار اقتصادی دباؤ و سیاسی مسائل کے برداشت اور حل سے مشروط ہوتا ہے اُور جہاں کہیں اور جس کسی کو بھی بڑی طاقت ملتی ہے تو اِس کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی جڑی رہتیں ہیں۔
فرحت اللہ بابر کے ڈارئنگ روم میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اُن کی ایک تصویر آویزاں ہے جس پر محترمہ کے دستخط اور اُن سے متعلق یہ تاثرات ثبت ہیں کہ ’’فرحت اللہ بابر کے نام‘ جو اپنے کام کو لگن‘ نظم و ضبط اور ذہانت سے سرانجام دیتے ہیں۔ یہ کمال بہت کم لوگوں کی اہلیت کا حصہ ہوتا ہے اور (بردبار تحمل مزاجی یہ ہے کہ) یہ کبھی بھی اپنے صبر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘ 1986ء میں جب محترمہ بینظیربھٹو خودساختہ جلاوطنی ترک کرکے پاکستان واپس آئیں اور اُنہیں علم تھا کہ جلاوطنی اور سیاسی جدوجہد میں (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ اُن کے ساتھ کھڑا رہا تب اُنہوں نے دورۂ پشاور کے دوران ’فرنٹیئرپوسٹ‘ کو انٹرویو دینے کی خواہش ظاہر کی۔ فرحت اللہ بابر کے لئے یہ ایک ایسا موقع تھا جس کا شاید انہوں نے انتظار بھی کیا ہو۔ انٹرویو تمام ہونے کے بعد‘ محترمہ نے بابر کو اپنی شادی میں شرکت کے لئے مدعو کیا جو دسمبر 1987ء میں کراچی میں سرانجام پائی۔
فرنٹیئرپوسٹ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد فرحت اللہ بابر نے مختلف اخبارات (دی مسلم‘ پاکستان آبزرور اور ہفتہ وار دی فرائڈے ٹائمز) کے لئے ادارتی صفحات کے لئے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سال 1988ء کی بات ہے جب ایک دن انہیں وزیراعظم سیکرٹریٹ (اسلام آباد) سے فون کال آئی جس میں اُن سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ وزیراعظم کے لئے تقریر لکھ سکیں گے؟ فرحت اللہ بابر نے جواب دیا ہاں میں لکھ سکتا ہوں اور پھر پوچھا کہ کس موضوع پر لکھنی ہے اور کب تک ارسال کرنا ہے؟ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اُن کے لئے وزیراعظم کی تقریر لکھنے کا موقع پرمسرت بھی تھا اور وہ اِس بھاری ذمہ داری کے احساس سے قدرے مضطرب بھی تھے۔ کہتے ہیں۔ ’’فری لانس صحافی‘ جس کی کوئی نوکری نہیں تھی جس کا کوئی باقاعدہ دفتر بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ اِس ذمہ داری کی احسن ادائیگی میرے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ میں نے تقاریر پر ایک نظر ڈالی اور دنیا کی چند بہترین تقاریر کا مطالعہ کیا۔ وہ تقریر محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے کی تھی۔ جس میں انہوں نے پاکستان کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے ایک پرامن جمہوری جدوجہد کو کامیاب بناتے ہوئے عام انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جس میں ایک عورت کو منتخب ہونے اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم خاتون ہونے کا اعزاز ملا۔ اُس تقریر کے بعد جلد ہی مجھے ایک اور تقریر لکھنے کی ذمہ داری ملی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ محترمہ قبل ازیں بہت سے دیگر صحافیوں کو بطور ’تقریر نویس‘ آزما چکی تھیں جب انہوں نے فرحت اللہ بابر کو 1989ء میں اپنا سرکاری تقریر نویس مقرر کیا۔ جب فرحت اللہ بابر سے یہ پوچھا گیا کہ اُن کی تقاریر میں ایسا کیا جادو تھا جو محترمہ کو راغب کرگیا تو اُنہوں نے کمال انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ’’میری تحریروں میں ایسا کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہوتا تھا لیکن میں جب بھی کسی موضوع پر تقریر لکھتا تھا تو اُس موضوع سے متعلق بہت سی تحقیق ضرور کر لیا کرتا تھا اور لکھتے ہوئے یہ تصور بھی ذہن میں رکھتا تھا کہ جیسے یہ میں اپنے آپ کے لئے لکھ رہا ہوں۔‘‘
محترمہ ہر کام کو پوری سنجیدگی اور ذمہ داری سے کرنے کی قائل تھیں۔ ایک مرتبہ اُن کے لئے اُردو کی تقریر میں ’’تاہم‘‘ کے لفظ کی ادائیگی مشکل ہو رہی تھی۔ انہوں نے تقریر زور سے پٹکتے ہوئے کہا کہ ’’اِس لفظ (تاہم) سے عاجز آ چکی ہوں۔‘‘ اُن کے اِس ردعمل سے مجھے لگا کہ گویا سب کچھ ختم ہوگیا لیکن اگلے روز مجھے وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے آیا ایک ڈبہ ملا جس میں چاندی کا ایک پیالہ ہمراہ ایک تحریر بند تھا کہ ’’وزیراعظم کی جانب سے احترام کے ساتھ۔‘‘
وزیراعظم پاکستان کی تقریر لکھنے کی ذمہ داری ملنے سے متعلق اکثر ناقدین کہتے ہیں کہ اُس وقت ’بھٹو ازم‘ سے لگاؤ رکھنے والے صحافیوں کو نوازنے کے لئے ایسی ذمہ داریوں کے لئے منتخب کیا جاتا تھا لیکن فرحت اللہ بابر کا مؤقف ہے کہ اُن کی بطور وزیراعظم کے لئے ’تقریرنویس‘ تقرری کے درپردہ دیگر محرکات بھی تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’بینظیر بھٹو ایک طویل عرصہ جلاوطنی کا بسر کرکے وطن واپس آئیں تھیں۔ اُنہیں ملک کے داخلی سیاسی حالات کی گہرائی اور زمینی حقائق کی زیادہ تفصیلات معلوم نہیں تھیں اور بالخصوص ایک طویل آمرانہ دور حکومت سے پیدا ہونے والی ہر سطح پر انتظامی خرابیوں سے وہ آگاہ نہیں تھیں۔ اسی طرح اُن کے لئے سول ایڈمنسٹریشن اور سرکاری کام کاج ایک نیا مضمون تھا۔ اِن سبھی امور کے بارے میں فرحت اللہ بابر کی رائے اُن کے لئے بہت اہم تھی کیونکہ فرحت اللہ بابر خود بھی افسرشاہی (بیوروکریسی) کا حصہ رہ چکے تھے۔ محترمہ کی حکومت 1990ء میں ختم ہوئی لیکن فرحت اللہ بابر کا اُن سے تعلق باقی رہا اور اُن کے لئے تقاریر اور ادارتی مضامین تحریر کرتے رہے جو اندرون ملک اور عالمی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’میں محترمہ کے لئے تقاریر اور مضامین لکھا کرتا تھا لیکن یہ کہنا سوفیصد درست نہیں ہوگا کہ میں ایسا واحد شخص تھا جو اُن کی تقریر یا مضمون لکھتا تھا بلکہ اُن تحریروں کی جامعیت میں خود محترمہ اضافہ کرتی تھیں جو اُن کے مخصوص و منفرد طرز بیان و خطابت سے مطابقت رکھتا تھا۔
سال 1996ء میں جب محترمہ بینظیر کا بھائی میرمرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کیا گیا تو محترمہ نے فرحت اللہ بابر کو بھیجا تاکہ وہ اُن کی علیل والدہ کو لیکر آئیں۔ نصرت بھٹو کو بیرون ملک سے لایا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر اُن واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کراچی ائرپورٹ پر نصرت بھٹو جہاز سے اُتریں۔ میں نے اُنہیں مرتضیٰ کے قتل کی خبر سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ’’بابر‘ میں نے تمہارے لئے کچھ اچار بنایا تھا لیکن بینظیر وہ سب کھا گئی ہے لیکن فکر نہ کرو میں تمہارے لئے مزید بنا دوں گی۔‘‘ یاد رہے کہ نصرت بھٹو اُن دنوں یاداشت کو کمزور کرنے والی بیماری عتاہٹ (Dementia) میں مبتلا تھیں اور بیماری کی شدید حالت سے گزر رہی تھیں۔
مبصرین کی رائے میں فرحت اللہ بابر کی بھٹو خاندان سے قربت کا ایک تعلق (وسیلہ) نصیراللہ بابر بھی تھے۔ جنرل بابر (مرحوم) 1988ء سے 1990ء کے عرصے میں محترمہ بینظیر کے مشیر رہے۔ یہ محترمہ بینظیر کے پہلے اقتدار کا وقت تھا۔ بعدازاں 1993ء سے 1996ء کے عرصے میں جوکہ بینظیربھٹو کا دوسرا دور اقتدار تھا جنرل بابر وزیرداخلہ تھے۔ یہ دونوں افراد درحقیقت ایک ہی تھے اور دونوں کا تعلق بھی اُس ایک ہی افغان قبیلے سے ہے جس کی شاخیں خیبرپختونخوا اُور بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دونوں ہی کا تعلق پشاور کے نواحی دیہی علاقے پیرپیائی سے ہے جو ضلع نوشہرہ کی حدود میں واقع ہے اور اِس زرخیز و شاداب گاؤں کی مخصوص قدیمی طرزتعمیر اور صفائی کی وجہ سے اِسے عرفاً ’چھوٹا ولائت (صغیر برطانیہ)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ملک کے بہت سے معروف‘ علمی و ادبی شخصیات کے علاؤہ اعلیٰ سول و فوجی اہلکاروں کا آبائی تعلق اِسی ’پیرپیائی‘ سے ہے۔
فرحت اللہ بابر کی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات 1977ء میں اُس وقت ہوئی جب وہ گورنرہاؤس پشاور میں مقیم تھے۔ اُس وقت فرحت اللہ بابر ’شمال مغربی سرحدی صوبے (بعدازاں صوبہ خیبرپختونخوا) کے ڈائریکٹر انفارمیشن تھے۔ کسی جونیئر اہلکار کا ملک کے وزیراعظم سے ملنا ایک غیرمعمولی امر تھا۔ بھٹو نے اُن سے مقامی صحافیوں کے بارے استفسار کیا اُور انہیں ایک فہرست مرتب کرنے کے لئے دی تاکہ وہ صحافیوں کا نام لکھ سکیں۔ اُس وقت سرکاری حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ایک صحافی افغان صدر سردار محمد داؤد خان سے قربت رکھتا ہے۔ جب اِس بارے بھٹو نے مجھ سے استفسار کیا تو میں نے کہا کہ ہاں ایسا ہے لیکن وہ صحافی جاسوس نہیں بلکہ محب وطن ہے۔ بعدازاں اسی صحافی کی مدد سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملی اور اُس کی خدمات کا اعتراف خود بھٹو نے بھی کیا۔ دوسری مرتبہ بھٹو اور فرحت اللہ بابر کی ملاقات میں اُنہیں خاتون اول نصرت بھٹو کو پشتو زبان سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ نصرت بھٹو اُن دنوں صوبائی اسمبلی اجلاسوں کا دورہ کرنے اکثر آیا کرتی تھیں اور انہیں پشتو زبان کے بنیادی قواعد اور جملے سکھائے گئے تھے۔ فرحت اللہ بابر بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت سے متاثر تھے۔ وہ ایک انمول انسان تھیں جن سے ملاقاتوں کے دوران اُن کے بارے میں بہت جاننے کا موقع ملا اور اُن سے کی گئی بات چیت کی ریکارڈنگز بھی میرے ساتھ تھیں جنہیں قلم بند کرنا دیگر مصروفیات میں کہیں گم ہوگیا اور اِس ایک بات کا مجھے ہمیشہ سے افسوس رہا ہے کہ یہی ایک کام مجھے کرنا تھا جو نہیں ہوسکا۔ محترمہ بینظیر نے بھی 1990ء میں مجھے وہ یاداشتیں تحریر کرنے کی یاددہانی کرائی تھی۔ فرحت اللہ بابر کو بیگم نصرت بھٹو کے وہ الفاظ یاد ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے وہ انتہائی افسردہ دکھائی دیں لیکن اُنہیں غصہ نہیں تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے کہا ’’فرحت‘ میں بیان نہیں کر سکتی کہ اُس شام (ذوالفقار) بھٹو کتنا خوش (مطمئن) تھا جب اُس نے مجھے کہا کہ اُس نے (جنرل) ضیاء (الحق) کو پاک فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے اور یہ وہی فوج کا سربراہ تھا جس نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔
اگر فرحت اللہ بابر بھٹو کو مشورہ دیتے تو وہ اُن کی دانست میں یہی ہوتا کہ وہ دائیں بازو کے کرداروں کو اپنے قریب آنے نہ دیں کیونکہ یہ (احسان فراموش) کردار اپنی حیثیت سے زیادہ مانگنے اور مطالبات منوانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اور جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ آپ محترمہ بینظیر کو کیا مشورہ دیتے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُنہوں نے کہا کہ کسی ماتحت کا مثالی (حسب حیثیت عملی) کردار یہی ہونا چاہئے کہ وہ صرف اُس وقت کلام کرے جبکہ کوئی سراپا گوش (متمنی) ہو۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی کے اسلام آباد دفتر‘ مساوات بلڈنگ (زیرو پوائنٹ) میں اِن دنوں خاموشیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو مشرف اقتدار کے دور میں جلاوطن تھیں تو یہی دفتر پارٹی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہ دفتر ایک ایسی عمارت کا حصہ ہے جس میں ذرائع ابلاغ کے کئی ایک دفاتر ہیں جن میں سرکاری خبررساں ادارے کے دفاتر بھی شامل ہیں اور اِس کی مرکزی حیثیت پریس کلب جیسی ہی ہے جہاں صحافی اور سیاسی کارکن چائے سے تواضع اور کچھ دیر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ جب فرحت اللہ بابر سینیٹ اجلاس یا کسی پیپلزپارٹی سیکرٹریٹ میں کسی مصروفیت کا حصہ نہیں ہوتے تو وہ اپنا بیشتر وقت یہیں صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سال 1996ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کا دوسری مرتبہ اقتدار آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ختم کیا گیا تو محترمہ نے اُنہیں پیپلزپارٹی کے میڈیا معاملات (امور) کو چلانے (دیکھنے) کی ذمہ داری سونپی اور یہی وہ وقت تھا جب آپ محترمہ کے مشیر اور ترجمان مقرر ہوئے۔
پشاور کے علاقے ’نشترآباد‘ میں دو کمروں پرمشتمل ایک مکان میں آٹھ دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ پرورش پانے والے فرحت اللہ بابر زندگی ہر مفہوم و معانی سے آگاہ ہیں۔ اُن کے والد سکول ٹیچر (معلم) تھے۔ 1950ء میں اُن کے والد کی کل آمدنی 225روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی۔ کم آمدنی والے اِس گھرانے کے بچوں کو معلوم تھا کہ اگر وہ امتحان پاس نہیں کریں گے تو اُن کے تعلیم کا سلسلہ رک جائے گا اور یہی وجہ تھی کہ ہر ایک اپنی تعلیم کو سنجیدگی سے اہمیت دیتا تھا۔ فرحت اللہ بابر کو یاد ہے کہ جب 1961ء میں وہ فوج میں بھرتی ہونے کے لئے گئے اور اُنہیں منتخب (سلیکٹ) بھی کر لیا گیا لیکن چونکہ انہیں یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں داخلہ مل گیا تھا اِس لئے انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا ارادہ ترک کردیا۔
متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے فرحت اللہ بابر کی شخصیت میں محنت کشوں کا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ اپنی گاڑی خود چلاتے (ڈرائیو کرتے) ہیں۔ گھر کے لئے اشیائے ضروریہ کی خریداری بھی بذات خود کرتے ہیں اور انہیں کوئی بھی چھوٹی بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے تو ہنسی خوشی قبول کر لیں گے۔ اسلام آباد یس تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار جو ایک عرصے سے فرحت اللہ بابر کو جانتے ہیں ازرائے مذاق کہتے ہیں کہ ’’آپ کی عملی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ سول انجنیئرنگ (تعمیراتی امور کی مہارت) سے سیاست اور سماجی انجنیئرنگ (انسانی ترقی‘ فلاح و بہبود) کا مقصد لئے محو سفر ہیں۔‘‘ لیکن فرحت اللہ بابر اپنے لئے انتخابی حلقہ تخلیق نہیں کر پائے جس کی وجہ سے وہ پارٹی قیادت کی محتاج (رحم وکرم پر) ہیں کہ انہیں کسی منتخب یا حکومتی عہدے پر تعینات کر دیں۔ فرحت اللہ بابر کی پارٹی قیادت سے غیرمعمولی تعلقات ہیں اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد و اخلاص کا رشتہ قائم ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کے داخلی نظم ونسق میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
فرحت اللہ بابر قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی رکنیت مخصوص نشست برائے ٹیکنوکریٹ (تکنیکی امور آشنا) کے ذریعے حاصل کئے ہوئے ہیں لیکن وہ خود کو ’ٹیکنوکریٹ‘ کی اصطلاحی تعریف پر پورا اُترنے کا اہل نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں ’’میں کوئی ماہر نہیں جیسا کہ سابق نگران وزیراعظم پاکستان معین قریشی تھے لیکن میں سینیٹ کے روبرو پیش ہونے یا سینیٹ کے روبرو پیش کرنے لئے سیاسی و غیرسیاسی معاملات کا باریک بینی اور تکنیکی زوائیوں سے جائزہ ضرور لیتا ہوں اور بحیثیت سینیٹر اپنی فرض کی بجاآوری سنجیدگی سے کرتا ہوں۔‘‘ فرحت اللہ بابر کی سینیٹ میں کارکردگی سے عیاں ہے کہ وہ انواع و اقسام کے مختلف موضوعات پر نہ صرف بحث میں حصہ لیتے ہیں بلکہ ایوان بالا کے اراکین کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور اُن میں کام کی لگن بالکل اُس طالبعلم جیسی ہے جو اپنے مقصد کو پا لینے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے آمادہ ہو اور اُس کی طبیعت (مزاج) میں باغی ہونے کا ایک عنصر (خصوصیت) بھی پائی جاتی ہو۔
فرحت اللہ بابر جب پہلی مرتبہ سینیٹر بنے تو سال 2003ء کے اُن ایام میں پیپلزپارٹی ایوان بالا میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے جن مسائل پر زور دے رہی تھی اُن کا تعلق کارگل جنگ کی وجوہات بارے تحقیقات‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں میں پائی جانے والی بداعتمادی جس کی وجہ سے منتخب حکومتوں کو قبل از وقت گھر بھیج دیا جاتا ہے لیکن جب ایسے بہت سے سوالات کا جواب عسکری قیادت کی طرف سے نہیں دیا جاتا تب پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک تحریر (پمفلٹ) بعنوان ’’Killed in the Chamber"مشتہر کی جاتی ہے جس کے مصنف فرحت اللہ بابر بیک وقت کئی سوالات اٹھاتے ہیں جن میں شامل ہوتا ہے کہ دیگر سرکاری ملازمین کی طرح کیا فوجی اہلکار بھی اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں؟ کیا خفیہ ادارہ ’آئی ایس آئی‘ تابع قانون کام کرتاہے؟ کیا کارگل جنگ کے بارے میں تحقیقات کی گئیں؟ ایسے بہت سے سوالات کے جواب ہنوز نہیں مل سکے اور انہیں حساس معلومات کے زمرے میں شمار کرکے اِن کا تبادلہ قانون ساز ایوانوں سے نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ سوالات پوچھے گئے اور جیسا کہ پمفلٹ کے عنوان میں کہا گیا کہ ایوان کے اندر ہی دم توڑ گئے۔
پاکستان کی سیاست سوالات کا مجموعہ ہے۔ خود پیپلزپارٹی کے دور اقتدار سال 2008ء سے 2013ء کے دوران اِس سوال کا جواب نہ مل سکا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل کس نے کیا؟ فرحت اللہ بابر کے بقول ’’محترمہ بینظیر کے قاتل تک نہ پہنچنے کی بنیادی وجہ خفیہ اداروں کی مداخلت ہے اور یہ مداخلت اِس حد تک ہے کہ چاہے جو کوئی بھی برسراقتدار ہو لیکن حکومتیں حقائق کی تلاش میں خود کو معذور پاتی ہیں۔ فرحت اللہ بابر یاد کرتے ہیں جب ایک مرتبہ اُنہیں محترمہ بینظیر نے ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’اِن کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔‘‘ محترمہ سمجھتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے اختیارات واپس لینے کی ایک ہی صورت ہے کہ جمہوری طاقتیں نظام کو مضبوط (طرزحکمرانی کی اصلاح) کرنے کے لئے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی قربانی دیں۔‘‘
فرحت اللہ بابر جیسے نظریاتی کارکن کے لئے وہ لمحات بوجھل ہوتے ہیں جب پارٹی کی قیادت یا پارٹی کا اجتماعی فیصلہ عوام کے (اجتماعی) مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید ہوئی کہ یہ جماعت ایک طرف کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کی بات کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جمہوری سسٹم (طرزحکمرانی) کو متواتر رہنا چاہئے لیکن دوسری طرف یہی جماعت خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت بھی دے دیتی ہے۔ اِس اعتراض کو فرحت اللہ بابر کے سامنے رکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ بھی بسا اوقات خود کو دکھی (بے بس) محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’سیاست کا حسن یہ ہے کہ اِس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔‘‘ مثال کے طور پر پیپلزپارٹی خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کو تو نہیں روک سکی لیکن اس نے اِن عدالتوں پر کچھ ایسی قدغنیں ضرور عائد کردی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک بچے کا گیند ہمسائے کی چھت پر جا گرا۔ نوجوان فرحت اللہ بابر نے ہمسائے کے دروازے پر ایک تحریر چسپاں کی کہ آپ کی چھت پر پڑی ہوئی گیند ’صدر پاکستان‘ کی ملکیت ہے (لہٰذا واپس کی جائے۔) فرحت اللہ بابر کا یہ خواب اُس وقت اپنی حقیقت کے قریب ترین تھا جب وہ صدارتی ترجمان مقرر ہوئے اور یہ آصف علی زرداری کے بطور صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کا دور تھا جو آئینی مدت مکمل کر کے دوہزار تیرہ میں اختتام پذیر ہوا۔ وہ عرصۂ اقتدار کسی بھی طرح آسان نہیں جب پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت پر ہر سمت سے نشانے پر تھی۔ عدالتوں نے زرداری پر پابندی عائد کی کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مختصر عدالتی سزا دے کر نااہل قرار دے دیا گیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے جس کی بنیادی وجہ پاک امریکہ تعلقات تھے۔ حزب اختلاف کے اپنے تحفظات تھے۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے نہ حکومت کی اقتصادی ترقی کی حکمت عملیاں عوام میں غیرمقبول تھیں بلکہ ذرائع ابلاغ کی تنقید بھی مسلسل جاری تھی اور ان سب سے بالا بدعنوانی کے الزامات بھی عائد ہو رہے تھے اور یہ وہ دور تھا کہ جب بُری خبر اور ہر ناکام حکمت عملی کو صدر زرداری سے منسوب کیا جاتا تھا حتیٰ کہ پیپلزپارٹی اور بالخصوص صدر زرداری پر تنقید کے اُس دور میں خودپیپلزپارٹی کے حلقے بھی فرحت اللہ بابر کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن یہی وہ وقت تھا جب صدارتی میڈیا آفس کی کارکردگی اور حکمت عملی کے باعث پیپلزپارٹی کی ساکھ برقرار رہی جس کا تجزیہ کار اعتراف بھی کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے دیرینہ ساتھیوں کی طرح ایک مرتبہ فرحت اللہ بابر نے بھی صدر زرداری کے اثرورسوخ اور ساکھ کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے عمومی تاثر کو پارٹی کے سامنے پیش کیا۔ شاید یہ اُن کا اندیشہ تھا کہ زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی تبدیل ہو جائے گی اور یہی سبب تھا کہ انہوں نے محترمہ بینظیر کی ہلاکت کے فوری بعد اپنا استعفیٰ دے دیا تھا لیکن صدر زرداری نے اُن کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور 2006ء میں جبکہ وہ سینیٹ انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے لیکن زرداری نے انہیں 2009ء میں دوبارہ سینیٹ کا رکن منتخب کروا دیا۔ فرحت اللہ بابر شاید کبھی بھی زرداری کا شخصی مکمل دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری پر بدعنوانی کے الزامات کا شمار ممکن نہیں لیکن کا دفاع کامیابی سے ایک ایسا شخص کرتا رہا جس کے دامن پر ایسا کوئی الزام نہیں تھا۔ فرحت اللہ بابر کے دوست‘ اہل خانہ اور سیاسی مبصر بھی اِس بات پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں کہ ’اصولی سیاست‘ کرنے والا ایک شخص بھلا کیسے ملک کے سب سے غیرمعروف سیاست دان کا کامیابی سے دفاع کرتا رہا۔ کیا یہ فرحت اللہ بابر کی شخصیت میں پائے جانے والے تضاد کا بیان نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کے ترجمان رہے جو خود اُن کے اپنے اصولوں پر پورا نہیں اُترتا۔ شاید یہ زرداری کی ضرورت تھی فرحت اللہ بابر کی نہیں کہ وہ بابر جیسا شخص اُن کا سیاسی ہمسفر رہتا۔ ایک تجزیہ کار کے بقول ’’زرداری جانتا تھا کہ جس دن اُس نے فرحت اللہ بابر‘ رضا ربانی اور تاج حیدر میں سے کسی کھویا‘ وہ سب کچھ کھو دے گا۔‘‘ سردست زرداری پیپلزپارٹی کے انتظامی معاملات کو چلا رہے ہیں لیکن وہ نہ تو پیپلزپارٹی کی روح رواں ہیں اور نہ ہی اس کا چہرہ اور نظریاتی علامت۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری جب کبھی بھی اپنے دوستوں جیسا کہ رحمان ملک یا ڈاکٹر عاصم حسین کو پارٹی میں کوئی عہدہ یا اہم ذمہ داری سونپتے ہیں تو اُن پر تنقید کی جاتی ہے لیکن جب وہ فرحت اللہ بابر‘ اعتزاز احسن اور شیری رحمان جیسی معروف شخصیت کو چنتے ہیں تو اُن کے قائدانہ کردار کی تعریف سننے کو ملتی ہے۔
فرحت اللہ بابر کا بطور ’ترجمان‘ انتخاب صدر زرداری کو اِس لئے بھی موافق ہے کیونکہ وہ سب کچھ جو صدر زرداری کی ذات میں نہیں ملتا‘ وہ کمی فرحت اللہ بابر پوری کر دیتا ہے۔ وہ ایک مستند اور صاحب کردار شخص ہیں۔ قومی معاملات پر اُن کے خیالات اور اصولی مؤقف پیپلزپارٹی کے نظریات کے مطابق ہے اُور زرداری ایسی کسی بیوقوفی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ فرحت اللہ بابر جیسے اثاثے سے گنوائیں گے۔ فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ ’’زرداری اس قدر بُرا بھی نہیں جس قدر اُس کے بارے میں تاثر عام ہے۔‘‘
پاکستان پیپلزپارٹی 1967ء سے اب تک تین آمروں اور سیاسی سازشوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی ملک گیر مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی لیکن زرداری پر اِس لئے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اِس نے پیپلزپارٹی کو سندھ کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ چند مبصر سوال اٹھاتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر اپنے پیچھے ایسی کونسی روایات چھوڑ جائیں گے جو اُن کے بعد پیپلزپارٹی کے لئے انہی کی طرح کارآمد (مفید) ثابت ہو؟ کیا ہوگا اگر وہ اچانک سیاست سے الگ ہو جائیں؟ کیا پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر کی جدائی سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کر پائے گی؟ کیا فرحت اللہ بابر نے پیپلزپارٹی میں جس جرأت مندی سے اختلافی نکتۂ نظر پیش کرنے کی گنجائش پیدا کی وہ برقرار رہ پائے گی؟ اِس بارے میں فرحت اللہ بابر کا جواب اعتدال پسندانہ (عاجزانہ) ہے کہ ’’افراد حقیقت میں اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘ اور یہی دانش شعور اور بصیرت کا ادراک آج کی پیپلزپارٹی کو بھی کرنا ہے کہ افراد کے گرد فیصلے اور سیاسی جماعت کا مستقبل طواف نہ کرے۔ پیپلزپارٹی کی ایک درخشاں سیاسی تاریخ اور سیاسی سفر رہا ہے جس کی راہیں جانی و مالی قربانیوں سے روشن ہیں۔ فرحت اللہ بابر کو پیپلزپارٹی کے خلقیہ (اخلاقی) روایات پر اعتماد (یقین) ہے کہ (خدانخواستہ) اگر اور جب کبھی یہ جماعت اپنے نظریاتی محور (اصل اصول) سے منحرف ہوئی تو ایسی کسی صورت میں پیپلزپارٹی کا قبلہ درست کرنے کے لئے رہنمائی (عطاء) کرنے والے خاموش (لاتعلق) نہیں بیٹھیں (رہیں) گے۔
(یہ مضمون اَنگریزی ماہنامہ ’ہیرالڈ‘ کی ماہ ستمبر دوہزار سترہ کی اشاعت کا حصہ ہے‘ جو سینئر صحافی ’اُورنگ زیب خان‘ کی محنت اور صحافتی تجربے کا نچوڑ ہے۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین امام)
|
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=19&date=2017-09-22 |