Thursday, September 28, 2017

Sept 2017: Issues of Sheikh Ameer Abad - Beri Bagh, Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
پشاور: مٹتے نقوش!
حل طلب مسائل کی شدت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہونے کی وجہ سے ’پشاور کی شہری زندگی‘ کا حسن ماند پڑ چکا ہے۔ بیرون یکہ توت اُور گنج گیٹ سے ملحقہ رہائشی بستی ’شیخ امیر آباد کی بستی ’بیڑی باغ‘ کے نام سے بھی معروف ہے جو ضلعی حکومت کے زیرانتظام ’یونین کونسل وزیرباغ (یو سی اکیس)‘ قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے ون‘ اُور صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’پی کے تھری‘ کا حصہ ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ’نہر (Canal)‘ جو کبھی آب نوشی اور آبپاشی (زراعت) جیسے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی تھی گندگی سے بھرے ’نالے‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ 

تحریک اِنصاف کی قیادت میں موجودہ صوبائی حکومت نے ’شیخ اَمیر آباد‘ کے مقام پر گہری نہر کے دونوں کناروں پر ’حفاظتی انتظامات‘ کو بہتر بنایا لیکن اصل مسئلے کی جانب توجہ تاحال مبذول نہیں ہو سکی جو ’نہر میں موجود کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کی صفائی سے متعلق ہے‘ اُور اہل علاقہ کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ اپنی موجودگی کا عملاً ثبوت دے اور ’شیخ امیرآباد‘ کے مقام پر نہر کی صفائی اور مذکورہ نہر کے نکاسئ آب کے لئے عمومی استعمال کی اصلاح کی جائے۔ شیخ اَمیر آباد سے گزرنے والا کھٹہ (لختئی) میں دو پائپ گزارے گئے۔ اِن پائپوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نچلا پائپ بند ہے جس کی وجہ سے شیخ امیرآباد گلی نمبر ایک کی نکاسئ آب ممکن نہیں رہی۔ اِس علاقے کا دوسرا بڑا مسئلہ ’تجاوزات‘ کا ہے۔ ٹاؤن ون کے ناظم ’زاہد ندیم‘ سے اُمید ہے کہ وہ اپنی پہلی فرصت ’شیخ امیر آباد‘ کا ’پہلا دورہ‘ فرمائیں گے اور یہاں صفائی کی صورتحال بہتر بنانے‘ بڑھتی ہوئی تجاوزات بالخصوص برف خانے کے سامنے قبرستان کی اَراضی پر قبضے کی جاری کوششیں (سرگرمیوں) کا سخت نوٹس لیں گے اُور ہزار خوانی روڈ سے بیڑی باغ کی طرف موڑ کاٹتے ہوئے سڑک کنارے تجاوزات کے امکانات ختم کرنے میں ’واجب کردار‘ اَدا کریں گے۔ پشاور کے نقوش مٹانے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ سختی سے معاملہ ہونا چاہئے۔

پشاور کے کئی علاقے نایاب ہستیوں کے ناموں سے منسوب ہیں جن میں ’بستی شیخ اَمیر آباد‘ بھی شامل ہے۔ ’(ملک) شیخ امیر مرحوم‘ کا تعلق پشاور کی اُس ’اعوان برادری‘ سے تھا جس میں یہاں کے ’ملک خاندان‘ کے سپوتوں کی اکثریت ہے۔ یہی لوگ ’’پشاور کے مالک‘‘ بھی کہلاتے ہیں کیونکہ کاشتکاری‘ باغبانی اور زراعت سے وابستہ یہی سب سے زیادہ ’صاحب جائیداد‘ ہوا کرتا تھا۔ وزیرباغ کے اطراف سے ’سائنس سپرئیر کالج‘ تا ہزار خوانی‘ رنگ روڈ اُور بیڑی باغ سے گنج گیٹ اُور یکہ توت گیٹ تک پھیلے وسیع و عریض رقبہ ’فصیل شہر‘ کا وہ بیرونی علاقہ ہوا کرتا تھا‘ جہاں قیام پاکستان سے قبل یا تو دیگر ممالک اُور دور دراز علاقوں سے آنے والے تجارتی قافلوں کا گزر ہوتا یا پھر پشاور کے اِن زراعت پیشہ ملک گھرانوں کے آباواجداد زرعی آلات اُٹھائے منہ اندھیرے فصیل شہر کے دروازوں سے گزر کر کھیتوں کو جاتے اور دن ڈھلنے (وقت مغرب) سے قبل واپس لوٹ آتے تاکہ شہر کے داخلی دروازے بند ہونے سے قبل وہ اپنی رہائشگاہوں تک پہنچ سکیں۔ جس وقت ’بیرون پشاور‘ کا بیشتر علاقہ سرسبزوشاداب‘ گل و گلزار مہکتا تھا‘ جب ہر طرف لہلہاتے کھیتوں اور باغات کی قطاریں دکھائی دیتی تھیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی نہایت ہی قیمتی اراضی بناء منصوبہ بندی پھیلتے پشاور کی نذر ہو جائے گی اور یہی وجہ رہی کہ پشاور کے مضافاتی علاقوں میں اندرون شہر سے زیادہ گنجان آباد بستیوں سے رہنے والے بنیادی سہولیات سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ 

یادش بخیر پشاور کے اُس سنہرے دور میں ’شیخ امیر‘ نامی کاشتکار پیشہ شخص نے اپنی رہائشگاہ سے متصل ایک قطعہ اراضی آخری آرام گاہ اور دوسرا اس سے متصل مسجد (عبادت گاہ) کے لئے وقف کیا۔ آج اُن کا مزار کسمپرسی کی تصویر ہے جس پر قبضہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں گویا علاقے کی فلاح و بہبود کے لئے اُن کی خدمات کو اُن کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا ہو۔ مزار سے متصل مسجد موجود تو ہے لیکن اِس مسجد کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چند ماہ قبل اُن کے مزار کو بھی مسمار کرنے کی کوشش کی گئی اور آج بھی تجاوزات قائم ہیں‘ جس پر شریف النفس اہل خانہ کی جانب سے ردعمل (احتجاج) کی وجہ سے آس پاس رہائش پذیر ’قبضہ مافیا‘ وقتی خاموش تو ہوگیا لیکن اُس کے ارادے معلوم و خطرناک ہیں۔ اِس سلسلے میں شیخ امیر مرحوم و مغفور کے عزیز ’ملک صابر حسین اعوان‘ کی کوششیں اپنی جگہ اہم ہیں‘ جو اپنی خرابئ صحت کے باوجود بھی پشاور کی اِس شناخت اور نقش کو باقی رکھنے کے لئے تن تنہا اِس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی درازئ عمر‘ صحت و تندرستی اور سلامتی کے لئے بہت سی دعاؤں اور نیک تمناؤں پیش ہیں کیونکہ اُنہی کے دم کرم سے اِس علاقے کا تشخص‘ باقی ماندہ قبرستانوں کی حفاظت اُور شیخ امیر مرحوم کے مزار و مسجد کو محفوظ رکھنے کی کوششیں ایک تسلسل سے متواتر جاری ہیں۔ دیکھتے دیکھتے ’بیڑی باغ‘ کے قبرستان ہڑپ کر لئے گئے اور آج اِکا دُکا قبروں یا اُن کے نشانات باقی ہیں۔ 

اہل پشاور کے بزرگوں کی قبروں کی یہ بے حرمتی اور قبرستانوں کی وقف اراضی پر قبضہ کرنے والوں کو ’این اے ون‘ اور ’پی کے تھری‘ کے جس نمائندہ خاندان کی سربراہی حاصل ہے‘ انہوں نے اپنی قبروں کے لئے تو ’حضرت ابوالبرکات سید حسن بادشاہ (میراں بادشاہ) رحمۃ اللہ علیہ‘ سے متصل قطعۂ اراضی خرید لی ہے لیکن انتخابی سیاست کے لئے پشاوریوں کے آثار مٹانے کی قابل مذمت کردار سے تاحال رجوع نہیں کیا۔ 

شیخ امیر مرحوم کا مزار اِس لئے بھی محفوظ رہا کہ ایک تو وہ یہ اُن کی ملکیتی اراضی پر قائم ہے اور دوسرا مزار سے متصل جامع مسجد کی محراب اُن کی مزار سے متصل ہے جس طرف توسیع ممکن نہیں۔ کس جواز کے تحت اہل علاقہ نے ’شیخ امیر جامع مسجد‘ کا نام تبدیل کیا جبکہ آج کی تاریخ میں کوئی ایک مرلہ زمین بھی عطیہ نہ کرتا اُور شیخ امیر نے سینکڑوں مرلہ اراضی وقف کی تھی تو کیا اُنہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی طریقہ ہے!؟ 

مادہ پرستی کے دور میں نوجوان نسل کو ’شیخ امیر آباد‘ جیسی ہستیوں اور اُن کی اپنی مٹی سے وابستگی سے آگاہ کرتے ہوئے ایسے مثالی عمل اور یادگاروں کی حفاظت ہونی چاہئے تاکہ ہر کس و ناکس کو اجتماعی فلاح و بہبود جیسی بے لوث خدمت و عمل کی رغبت مل سکے۔ بلاامتیاز خدمت ہی وہ سیاست ہے جس کا سکہ دنیا اور بعداز رحلت‘ تاقیامت کام آئے گا۔
Sheikh Ameer Abad (Beri Bagh) Peshawar faces many issues including a filth deposited canal & encroachments 

Monday, September 25, 2017

Sept 2017: The trust deficit between neighbors and the foreign policy of Pakistan

روزنامہ آج پشاور ۔۔۔25 ستمبر 2017ء
شکوہ‘ جواب شکوہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی وزیرخارجہ سشماسوراج نے ’’پاکستان کو دہشت گرد برآمد کرنے والی فیکٹری‘‘ قرار دیا تو پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ’’بھارت کو جنوب ایشیاء میں دہشت گردی کی ماں اور سرپرست اعلیٰ سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بات بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہا دیا کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت درحقیقت سب سے بڑی منافقت ہے۔‘‘ کیا واقعی اِس خرابی کا امکان موجود ہے کہ ’جمہوریت منافقت بھی ہو سکتی ہے؟‘ امر واقعہ یہ ہے کہ جوہری صلاحیت رکھنے والے دو ہمسایہ ممالک (پاکستان اور بھارت) کے درمیان سرحدی کشیدگی اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکے گی جب تک ’الفاظ کی جاری جنگ‘ ختم نہیں ہو جاتی۔ امن‘ دوستی اور بقائے باہمی کے اِمکانات لامحدود ہیں۔ ہر سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعاون کے فروغ بالخصوص تجارت کے ذریعے دونوں ممالک کے لئے عملاً ممکن ہوگا کہ وہ انسانی ترقی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں اور دفاع کی بجائے غربت میں کمی اور صحت و تعلیم کے شعبوں کی بہتری پر مالی وسائل کا بڑا حصہ کریں لیکن کہیں ایسا تو نہیں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا ’روائتی اور دیرینہ دشمن‘ بنائے رکھنا کسی ایسی عالمی سازش کا حصہ ہو‘ جس کی اسلحہ ساز صنعتوں کے کاروباری (صنعتی) مفادات اِسی میں ہوں کہ پاکستان‘ بھارت اور افغانستان ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکیں!؟
پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کو فعال کرنے کی حالیہ دنوں میں کوششوں کا مرکزی نکتہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی طرف سے آنے والے تنقید کے ہر نشتر کا فوری جواب دیا جائے۔ ’شکوہ جواب شکوہ‘ کے اِس نئے دور (مرحلے) میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ صرف بھارت کے بیانات کا جواب دینا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستان کی داخلی و خارجہ پالیسیوں سے وہ ماحول بھی بنانا بھی ہوگا جس سے دنیا ہمارے مؤقف کو تسلیم کرے اور یقین بھی کرے کہ پاکستان دراصل خود دہشت گردی کا شکار ہے تو وہ کس طرح غیرریاستی کرداروں کی پشت پناہی کے ذریعے دہشت گردی کی پشت پناہی کرسکتا ہے! دنیا کی آنکھوں سے اُس وقت تک پاکستان کے لئے ہمدردی اور یک جہتی میں ایک آنسو بھی نہیں ٹپکے گا جب تک پاکستان انتہاء پسندوں اور نفرت انگیز جذبات رکھنے والوں سے سخت گیر عملی معاملہ نہیں کرتا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صف اوّل کا کردار ادا کیا اُور جانی و مالی قربانیاں دی ہیں جو کہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن محض اِس حقیقت کی بنیاد پر پاکستان کو ’اجازت نامہ (لائسینس)‘ نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی قومی پالیسیوں میں سرحدپار مفادات کو شامل کرتے ہوئے کہیں اخلاقی تو کہیں بہ امر مجبوری حمایت کو ’اصولی مؤقف‘ قرار دے۔ اصل ضرورت پاکستان کے بارے میں ’عالمی رائے عامہ‘ تبدیل (ہموار) کرنے کی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کو ایک ایسا ملک تصور کیا جاتا جہاں ریاست کے اندر ریاستیں قائم ہیں اور اِس حقیقت کا ذکر خود پاک فوج کے سربراہ کی متعدد تقاریر میں کیا گیا ہے کہ ’’پاکستان کو داخلی محاذ پر زیادہ بڑے اور سنگین خطرات کا سامنا ہے۔‘‘ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائیوں بشمول جاری ’آپریشن ردالفساد‘ میں کامیابی اگر ’بلندبانگ دعوؤں‘ سے مطابقت رکھتی تو ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی محرم الحرام کے موقع پر پہلے سے زیادہ حفاظتی (سیکورٹی) انتظامات‘ کی ضرورت نہ پڑتی۔ چار سال تک برسرزمین حقائق کا انکار کرنے کے بعد اچانک (اکیس جولائی سے) ’نواز لیگ‘ حکومت جس اَنداز میں ٹھوس بنیادوں پر خارجہ امور اور پرعزم سفارتکاری کے ذریعے عالمی سطح پر ’پاکستان کا دفاع‘ کر رہی ہے‘ اگر یہی کارکردگی اُور ضرورت کا اِحساس ’قبل ازیں‘ کر لیا جاتا تو آج حالات قطعی مختلف ہوتے اور عالمی طاقتوں کا پاکستان کے بارے میں یہ (ملتا جلتا) نکتۂ نظر سامنے نہ آتا کہ ۔۔۔’’آگ سے کھیلنے والے بسا اوقات اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں!‘‘

فاصلوں میں قربتیں اور قربتوں میں فاصلے تلاش کرنے کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان‘ بھارت اُور افغانستان ایک دوسرے کے بارے میں اپنے مؤقف دنیا کے سامنے رکھنے سے پہلے اگر مل بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں تو اِس انتہاء پر مبنی ’ردعمل‘ کی تصحیح (اِصلاح) ہونی چاہئے۔

ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندوں اور عوامی سطح پر بات چیت کے ذریعے بھی پاکستان‘ افغانستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ’پبلک ڈپلومیسی‘ کو بھی ایک موقع دیا جائے۔ تیئس ستمبر کے روز ’پشاور پریس کلب‘ میں ’افغانستان کے عالمی دن‘ کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا زور اِسی بات پر تھا کہ ’’پاک افغان اختلافات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا فائدہ اُٹھانے والے (درپردہ عزائم) کسی سے پوشیدہ نہیں تو آخر دو ہمسایہ اور مسلمان ممالک کیوں خودکشی (حرام فعل) پر تلے ایسے مواقع پیدا کر رہے ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر اُن کے مفادات پر وار کئے جا رہے ہیں؟‘‘ پشاور میں تعینات اَفغان قونصلر جنرل ڈاکٹر عبدالوحید پویان نے عمدہ الفاظ سکے چناؤ سے خطاب میں اِس تاثر کو گمراہ کن اور من گھڑت قرار دیا کہ ’’افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک بالخصوص پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور بالخصوص بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کے داخلی امن کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔‘‘ افغان قونصل جنرل کی یہ رائے اُس افغان پالیسی کا جز ہے جس میں برسرزمین حقائق کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے لیکن خوش آئند ہے کہ اگر افغانستان پاکستان کے داخلی امن کے بارے میں فکرمند اور تشویش کا اظہار کررہا ہے تو اِس سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاک افغان بات چیت (نیشنل ڈائیلاگ) کا عمل شروع کرنے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اگر نجی کوششوں سے ’پشاور پریس کلب‘ کی سطح ’پاک افغان تعلقات اور دوطرفہ تعاون کے فروغ سے متعلق امور‘ زیرغور (زیربحث) آسکتے ہیں تو سرحدی تنازعات سے لیکر سیاسی‘ تجارتی اور دفاعی امور کے حوالے سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین (سرکاری سطح پر) مل بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرسکتے؟ دانشوروں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ سیاسی و سماجی کارکنوں‘ وکلاء‘ صحافیوں‘ طالب علموں اور دیگر مختلف مکاتب فکر کی ترجمانی کرنے والے نمائندہ افراد کا ’پشاور پریس کلب‘ میں تبادلۂ خیال غنیمت سے کم اہم نہیں تھا اور اِس کا سلسلہ جاری و ساری اور وسیع کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی کے ذریعے ’’ترغیبی کوششوں‘‘ سے اُن ’’تخریبی عزائم (عناصر)‘‘ کو شکست دی جا سکتی ہے‘ جن کی بقاء اِسی میں ہے کہ پاکستان‘ افغانستان اور بھارت ہمیشہ ایک دوسرے سے ’الجھے‘ ناراض‘ گلہ مند‘ اُور ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہیں!
۔۔۔

Sunday, September 24, 2017

TRANSLATION: Twin Deficits by Dr. Farrukh Saleem

Twin deficits
مالیاتی خسارہ در خسارہ!
پانامہ پیپرز کے عنوان سے ’خفیہ اثاثہ جات‘ رکھنے والے چند بااثر‘ سرمایہ دار اُور مختلف ممالک کے حکمراں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام ’اپریل 2016ء‘ میں بے نقاب ہوئے۔ یہ انکشافات دل ہلا دینے والے تھے کیونکہ صرف دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ فہرست میں اُن پذیر ممالک کے قومی فیصلہ سازوں کا ذکر بھی درج تھا جہاں کے عوام غربت و افلاس سے دوچار‘ بنیادی سہولیات و ضروریات سے محروم ہیں اور جن ممالک پر قرضوں کا بوجھ اِس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اقتصادی ترقی تو دور کی بات لیکن اِن ممالک کے لئے قرض و سود کی اقساط ادا کرنے کے لئے مزید قرض حاصل کرنے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ بدعنوان حکمرانوں کی فہرست میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمراں ’نواز شریف خاندان‘ کا نام بھی شامل تھا‘ جن کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں نے عدالت سے رجوع کیا اور قریب 17ماہ میں کوئی دوسرا کام نہیں ہوا مگر ’پانامہ پیپرز‘ کی تہہ میں چھپے حقائق کھوج نکالے گئے لیکن اگر ہم ’پانامہ پیپرز‘ معاملے کا جائزہ لیں تو پاکستانی سیاست کی طرح یہ معاملہ بھی اُن ’خصوصی افراد‘ اور ملک کے ’خصوصی اداروں‘ کے درمیان تنازعہ تھا‘ جن کی ترجیحات میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان کی سیاست 1 ہزار 174 خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ یہ وہی خاندان ہیں جو ملک کے قانون ساز قومی و صوبائی اور ایوان بالا (سینیٹ) اسمبلیوں کی رکنیت رکھتے ہیں!

پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے ایک تحقیق بطور خاص ’دعوت فکر‘ ہے۔ ڈاکٹر مغیث احمد نے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’صوبہ پنجاب کے شہری و دیہی علاقوں میں ووٹروں کے رجحانات‘ پر مبنی ایک جائزہ کیا جس سے معلوم ہوا کہ ’فیصل آباد‘ میں ہوئے 1977ء‘ 1985ء‘ 1988ء‘ 1990ء‘ 1993ء‘ 1997ء اور 2002ء میں ووٹوں کی اکثریت ’’جٹ‘ راجپوت‘ آرائیں‘ بلوچ‘ گجر اُور کھرل‘‘ برداریوں کے حصے میں آئی اور اِنہی برادریوں سے تعلق رکھنے والے انتخابی معرکے میں کامیاب رہے۔
’’مردم شماری 2017ء‘‘ کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان صرف 1 ہزار 174 خاندانوں کا ملک نہیں بلکہ اِس میں 3 کروڑ سے زائد خاندان آباد ہیں اُور انہی تین کروڑ خاندانوں کے لئے دو اقتصادی (درآمدی و برآمدی) خسارے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔

تجارتی خسارہ: پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا جس طرح مالی سال 2016-17ء کے دوران دیکھنے میں آیا کہ ’’53 ارب ڈالر مالیت کی درآمدات کی گئیں۔‘‘ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلے کبھی نہیں ہوا کہ تجارتی خسارہ 32.58 ارب ڈالر رہا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر 32.58 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کیسے پورا کیا جائے؟ خوش قسمتی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی ہر سال قریب ’20 ارب ڈالر‘ کی ترسیلات زر کرتے ہیں۔

سوال: بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر شامل کرنے کے بعد باقی ماندہ ’12 ارب ڈالر‘ کا تجارتی خسارہ کس مد سے پورا کیا جائے؟ جواب: قرض‘ قرض اور مزید قرض لے کر ہرسال بڑھتے چلے جانے والے تجارتی خسارے کو پورا کیا جائے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہی ہو رہا ہے کہ ملکی جاری (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ 12.09 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہو جیسا کہ مالی سال 2016-17ء کے دوران دیکھنے کو ملا۔ سوال: ’12 ارب ڈالر‘ سے زائد جاری ملکی (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ کس طرح پورا جائے؟ جواب: قرض‘ قرض اور مزید قرض لئے جائیں۔

تصور کیجئے کہ پاکستان کا جاری (کرنٹ اکاونٹ) خسارہ ملک کی مجموعی خام پیداوار (جی ڈی پی) سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ’چار فیصد‘ سے زیادہ ہو چکا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی روپے (کرنسی) پر دباؤ ہے اور اِس کی قدر میں غیرمعمولی کمی بلکہ مزید کمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ عام پاکستانیوں کے لئے روپے کی قدر میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ انہیں پیٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی‘ کوکنگ آئل‘ دالیں اور چائے کی قیمتیں بڑھ جائیں گی لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں یہ اضافہ 1 ہزار 174 خاندانوں کے لئے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی جاتی ہے تو اِس کا مالیاتی طور پر مطلب یہ ہوگا کہ ملک کے تین کروڑ خاندانوں پر ’25ہزار روپے سالانہ‘ کا اضافہ بوجھ ڈال دیا جائے لیکن 1 ہزار 174 برسراقتدار (حکمراں) خاندانوں کے لئے یہ امر لائق تشویش نہیں۔

اقتصادی خسارہ پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ حکومتی اخراجات اور آمدنی میں توازن باقی نہ رہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 1.863 کھرب روپے ہے جو ملکی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے۔

خطرے کی گھنٹی: پاکستان کے ہر ایک خاندان کے حساب سے ہماری حکومت کو سالانہ 60ہزار روپے مالیاتی خسارہ (فسکل ڈیفیسٹ) برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور اِس خسارے کو بھی پورا کرنے کی صورت یہی ہے کہ قرض‘ قرض اور مزید قرض لئے جائیں۔

مالیاتی خسارہ تمام اقتصادی خرابیوں کی جڑ ہے۔ پاکستان کے مالیاتی خسارے سے متعلق حکومتی اعدادوشمار 6فیصد کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اگر چارسو ارب روپے کا گردشی قرض‘ دوسوپچاس ارب روپے کے واجب الادأ ٹیکس ادائیگیاں‘ 173ارب روپے کی مقامی قرضہ جات کو شمار کیا جائے تو قومی مالیاتی خسارہ{ ‘ مجموعی قومی آمدنی کے تناسب سے ’9 فیصد‘ سے زیادہ ہو جائے گا۔ اگر ہم کرنٹ اکاونٹ اور مالیاتی (فسکل) خسارہ یکجا کر کے شمار کیا جائے تو یہ ’قومی خام آمدنی (جی ڈی پی) کے 13فیصد حصے کے مساوی ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی ’اقتصادی سیکورٹی‘ کو خطرات درپیش ہیں اور یہ خطرات اِس حد تک گھمبیر ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی بھی ایسے دگرگوں اقتصادی حالات نہیں رہے۔ لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ جب ہم قومی سلامتی کی بات کرتے ہیں تو ’اقتصادی سیکورٹی‘ جیسے اہم محرک کو مسلسل نظرانداز
(منہا) کر دیتے ہیں!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, September 23, 2017

Sept 2017: Corruption based development in KP: Story of Street No 8

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
گلی نمبر آٹھ!
بیان کرنے کو ’کارنامے‘ تو بہت ہیں لیکن ’کارہائے نمایاں‘ نہیں۔ خیبرپختونخوا میں ’تبدیلی کے ثمرات‘ یقینی طور پر ظاہر ہوتے اگر (اوّل) قانون ساز اراکین صوبائی اسمبلی سے یہ اِختیار واپس لے لیا جاتا کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی عمل کی نگرانی اور اِس کے اِنتخاب سے متعلق ترجیحات کا تعین کریں۔ ماضی کے تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج متقاضی تھے کہ اَراکین اسمبلی کے پیش نظر رہنے والے ذاتی‘ سیاسی اُور جماعتی مقاصد (مجبوریاں اُور مصلحتوں) کے باعث اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی نہ تو ترقی کا معیار پائیدار ثابت ہوا ہے اُور نہ ہی اِس سے کسی علاقے میں اجتماعی بہبود کی ضروریات پوری ہوئی ہیں۔ (دوئم) خیبرپختونخوا میں ’تین سطحی ضلعی حکومتوں کا نظام‘ متعارف کرنا ہی کافی نہیں تھا بلکہ اِسے اختیارات کی منتقلی اور سوفیصد ترقیاتی کاموں کی ذمہ داری سونپ دینی چاہئے تھی۔ 

المیہ ہے کہ دنیا کا بہترین اور اصلاح شدہ مثالی ’بلدیاتی نظام‘ وضع اور لاگو تو کر دیا گیا لیکن اِسے ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی خاطرخواہ فعال نہیں کیا گیا۔ اعدادوشمار عیاں ہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت نے کسی ایک بھی مالی سال (عوام کے منتخب) ضلعی نمائندوں کو حسب دستور ’تیس فیصد‘ ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے! علاؤہ ازیں ضلعی حکومتوں کی موجودگی میں کمشنر‘ ڈپٹی کمشنرز اُور اسسٹنٹ کمشنروں اور اِن کے شاہانہ دفاتر‘ سرکاری رہائشگاہوں‘ گاڑیوں اور ماتحت عملے کی ’فوج ظفرموج‘ کو گود لینے کی ضرورت (منطق) ماسوائے مالی وسائل کے ضیاع اُور کیا ہو سکتی ہے لیکن چونکہ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے ’مالی وسائل‘ استعمال ہو رہے ہیں‘ اِس لئے روائت پسند سیاسی فیصلہ سازوں کو سادگی‘ بچت اور کم خرچ بالانشین طرزحکمرانی کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت (حاجت) نہیں۔ اِس موافق ماحول میں ’’وی آئی پی‘‘ کلچر کے دلدادہ ’انقلابیوں‘ کی کمزوریوں سے افسرشاہی (بیوروکریٹس) خوب فائدہ اُٹھا رہی ہے اور اپنے صوابدیدی اختیارات کی بقاء و مراعات برقرار رکھے ہوئے ہے! 

سیاسی فیصلہ ساز بظاہر ’فرمان تابع‘ افسرشاہی کی تعریف و توصیف سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ (سوئم) تبدیلی اُس وقت تک ممکن ہی نہیں ہو سکتی جب تک سرکاری محکموں میں سزاوجزأ کا نظام متعارف نہ ہو جائے۔ سالہا سال سے ایک ہی ضلع میں تعینات اور انتظامی عہدوں پر صوابدیدی اختیارات رکھنے والوں کے اثاثہ جات کی خفیہ ذرائع سے چھان بین (بلاامتیاز و رعائت احتساب) ضروری ہے۔ مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف کو صوبائی حکومت ملی تو سرکاری دفاتر میں پہلا ایک سال خوف کی وجہ سے بدعنوانی (خردبرد) کی شرح کم رہی لیکن رفتہ رفتہ یہ خوف زائل ہو چکا ہے اور متعلقہ عزت مآب سیکرٹریوں سے لیکر عوامی نمائندوں‘ وزراء اور مشیروں کی اکثریت بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھو رہی بلکہ غسل فرما رہی ہے۔ آج کامل ’’چار سال چار ماہ‘‘ بعد خیبرپختونخوا میں حکمرانی کا حال یہ ہے کہ کسی ایک بھی سرکاری محکمے کی کارکردگی مثالی نہیں اور بالخصوص تعمیروترقی کے (فنی و تکنیکی) نگران ’کیمونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو)‘ اُور سول ورک کے ٹھیکیداروں میں ’باہمی احترام و تعاون‘ اور ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنے کا سلسلہ ماضی کے سیاسی ادوار ہی کی طرح بناء خوف و خطر جاری ہے! کیا یہی وہ جنون‘ تبدیلی اور احتساب ہے‘ جس کا خواب دکھاتے ہوئے ’تحریک انصاف‘ نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل بلندبانگ وعدے کئے گئے تھے؟

تمہید طویل ہو گئی لیکن ’تین اَمور‘ (ترقیاتی فنڈز پر اراکین اسمبلی کی اجارہ داری‘ ضلعی حکومتوں کی عدم فعالیت سے اَفسرشاہی کی حکمرانی اُور سرکاری ملازمین کی خراب کارکردگی سے نشوونما پانے والے مضمرات) کی نشاندہی اِس لئے بھی ضروری تھی کہ تحریر کے مرکزی خیال کی اہمیت واضح ہو جائے جس میں بظاہر ذکر تو ضلع ایبٹ آباد کی یونین کونسل ’میرپور‘ کا ہے جس کی رہائشی بستی ’سول آفیسرز کالونی‘ کی ’گلی نمبر آٹھ‘ کی ’اَدھوری فرش بندی‘ منتخب نمائندوں کی دلچسپی اور حکومتی اداروں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تصویر کے بڑا رخ پر نظر کیجئے۔ یہ معاملہ (قضیہ) صرف کسی ایک گلی (سٹریٹ) کا نہیں بلکہ ترقی کے نام پر جاری مالی و اِنتظامی بدعنوانیوں کی وجہ سے دن دیہاڑے‘ کھلم کھلا اُور علی الاعلان ترقیاتی وسائل کی خردبرد کا ہے اور ترقی کے لئے مختص وسائل کا بڑا حصہ ذاتی اثاثوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ ’گلی نمبر آٹھ‘ صوبائی اسمبلی کے حلقہ ’PK-44‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’NA-17‘ کا حصہ ہے جس کی ’پختہ فرش بندی‘ کے لئے رکن قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز سے ’دس لاکھ روپے‘ فراہم کئے گئے۔ یہ فنڈز ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کو منتقل ہوئے تو اخبارات میں ٹینڈر شائع ہوا۔ 

سول کام کا ٹھیکہ ’10فیصد‘ کم قیمت پر ایک ایسے ٹھیکیدار کو سپرد کر دیا گیا جس کے وسیع تجربے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ ’سی اینڈ ڈبلیو‘ کے ’قواعدوضوابط‘ کے مطابق سرکاری اہلکاروں کو خوش کرنا جانتا ہے۔ مذکورہ گلی کی تعمیر مکمل کرنے کی حامی بھرنے والے سے محکمے استفسار اور تحقیق ہونی چاہئے تھی کہ کس طرح قریب ’’300 میٹر لمبی اور چودہ فٹ چوڑائی‘‘ گلی کی فرش بندی ’نو لاکھ روپے‘ میں مکمل کی جائے گی جس سے قبل پوری گلی کا لیول (level) ہونا چاہئے۔ ٹھیکیدار نے کل 6 دن (اوسطاً پانچ گھنٹے روزانہ) کام کرنے کے بعد دو تہائی گلی میں (بناء پانی کی نکاسی کی سطح (لیول)کئے) اڑھی ترچھی ریت‘ بجری اور سیمنٹ بچھائی اور چلتا بنا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ محکمے سے منظوری کس طرح لینی ہے! وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ غیرضروری ملنساری اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرض شناس’سی اینڈ ڈبلیو‘ کا ایک اہلکار سرکاری تعطیل (یکم محرم الحرام: بائیس ستمبر) کے روز گلی کی پیمائش کرنے تشریف لایا۔ ’سب اچھا‘ کی رپورٹ لکھی‘ جس میں نہ تو معیار دیکھا گیا اور نہ ہی باقی ماندہ کام‘ جسے مکمل کرنا ٹھیکیدار کی ذمہ داری تھی‘ اُس پر تشویش کا اظہار کیا۔ یوں بمشکل پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے‘ جس میں پچاس ہزار سے کم مزدوروں کی اُجرت اور باقی ماندہ ریت‘ بجری‘ سیمنٹ‘ سازوسامان اور مشینری کے کرایہ میں ادا کرنے کے بعد ’ٹھیکیدار بھی خوش اور ’سی اینڈ ڈبلیو‘ اہلکاروں کے بھی دفتروں میں بیٹھے بٹھائے ’وارے نیارے‘ ہو گئے لیکن اگر قسمت نہیں بدلی تو صرف ’گلی نمبر آٹھ کی!‘ تصور کیجئے کہ ’این اے سترہ‘ میں رکن قومی اسمبلی کے سالانہ ترقیاتی فنڈز سے ہر سال ایک کروڑ جبکہ رکن صوبائی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز سے سالانہ کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام ہوتے ہیں‘ جن کا مجموعی حجم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوتا ہے تو جب ’’گلی نمبر آٹھ‘‘ کی فرش بندی میں چالیس سے پینتالیس فیصد فنڈز خردبرد کر لئے گئے ہوں وہاں قریب نصب ارب روپے کا کیا حشر ہوتا ہوگا؟ 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک‘ متعلقہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون اور رکن صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی سے درخواست ہے کہ وہ ’گلی نمبر آٹھ‘ کو بنیاد بنا کر نہ صرف مجموعی ترقیاتی فنڈز میں ہونے والی بڑے پیمانے پر خردبرد کا نوٹس لیں‘ جملہ ترقیاتی کاموں کا محکمۂ انسداد بدعنوانی کے ذریعے تکنیکی اور مالی امور کی تحقیقات (آڈٹ) ہوں‘ سی اینڈ ڈبلیو اہلکاروں کے اثاثہ جات کی فہرستیں بھی مرتب ہوں اور سب سے بڑھ کر ازرائے کرم ’’گلی نمبرآٹھ‘‘ کی فرش بندی کا باقی ماندہ کام مکمل کروایا جائے۔ کیا تحریک انصاف اِس ’ادھوری ترقی‘ کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں کامیابی جیسی خوش فہمی کا شکار ہے؟

Friday, September 22, 2017

TRANSLATION: Farhat Ullah Babar - A man of ideals

A MAN OF IDEALS
نظریاتی سیاست کا علمبردار!

اُنیس سو چھیانوے کی بات ہے جب پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی اہلیہ ’شفیقہ ضیاء‘ اپنی آنکھ کے علاج (جراحت) کے لئے برطانیہ گئیں۔ اُن کے اِس دورے سے متعلق افواہیں زیرگردش تھیں کہ یہ دورہ ریاست وسائل سے کیا گیا۔ اِس بارے میں پشاور سے شائع ہونے والے (انگریزی زبان کے روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کے اِدارتی کارٹونسٹ ’فیقا (Feica)‘ نے ایک خاکہ تیار کیا‘ جس میں ایک بھاری بھرکم (فربہ) خاتون کو دکھایا گیا تھا جو تحائف سے لدھے ہوئے ایک گدھے کو کھینچ کر لا رہی تھی۔ فرحت اللہ بابر اُس وقت اخبار کے منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے فیقا سے کہا کہ اِس کارٹون کے نیچے اِس جملے کا اضافہ کردو۔ ’’ایک آنکھ کے اشارے سے قافلے راہ بدل دیتے ہیں۔‘‘ اِس کارٹون کی اشاعت آمر کے مزاج پر بجلی بن کر گری اور اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ جنرل ضیاء نے مرحوم مجید نظامی کو طلب کیا جو اُس وقت دائیں بازو کے صحافی تھے اور لاہور سے نوائے وقت نامی روزنامے کے ایڈیٹر ہونے کے علاؤہ ’کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹر‘ کے صدر بھی رہے۔ جنرل ضیاء نے نظامی سے کہا کہ وہ ’فرنٹیئرپوسٹ‘ کی (بیباک صحافتی) تنقید کو ہمیشہ ہی برداشت کرتے آئے ہیں لیکن اب مجھے (جنرل ضیاء) کو فرنیٹئرپوسٹ کے دفاع میں مزید کچھ بھی سننے کا روادار نہیں پائیں گے۔‘‘

روزنامہ ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کی افغانستان میں جہاد کے نام پر مہم جوئی کے بارے میں مخالف ادارتی پالیسی اور پاکستان میں مارشل لاء کے نفاذ کی مخالفت نے اِسے پاکستان کی صحافتی تاریخ و تحریک کا علمبردار بنا دیا تھا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی شمیم شاہد اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’1980ء کے اوائل کی بات ہے جب ’دی مسلم‘ نامی اَخبار جمہوریت پسندوں میں مقبول ہوا کرتا تھا لیکن جب پشاور سے (روزنامہ) ’فرنیٹئر پوسٹ‘ نے اشاعت شروع کی تو اُس سیاسی و اقتصادی مشکلات بھرے دور میں کسی نئے اخبار کے پنپنے کے امکانات کم تھے لیکن (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ کی بناء تعصب‘ جمہوریت نواز اور غیرمتزلزل آزاد ادارتی پالیسی کے خالق اِس کے ایڈیٹرز عزیز صدیقی اور فرحت اللہ بابر نے (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ کو کامیاب اور مزاحمتی جمہوری تحریک کا علامتی اشاعتی ادارہ بنا دیا‘ جس کا ذکر پاکستان اور عالمی صحافتی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں تحریر کیا جاتا رہے گا۔‘‘

فرحت اللہ بابر‘ فرنٹیئرپوسٹ کی پہچان تھے جو بطور ادارے کے نمائندہ غیرملکی سفارتکاروں‘ نامہ نگاروں اور دیگر سرکاری حکام سے ملاقاتیں کرتے کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں مبینہ جہاد جاری تھا اُور (روزنامہ) فرنیٹئرپوسٹ ایسا واحد مقامی روزنامہ تھا جو ایک طرف افغان جنگ اور افغان سرزمین و سیاست میں تبدیلیوں پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا تو دوسری طرف اُس کا پاکستان اور افغانستان میں صحافتی اثرورسوخ میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا تھا۔ فرحت اللہ بابر اُن دنوں کی یاد میں کہتے ہیں کہ ’’افغانستان میں سوویت یونین (روس) کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے مغربی ممالک نے ’مدارس‘ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور دینی مدارس کے نصاب میں ایسے اسباق شامل کئے جن سے نوجوان طلبہ میں نفرت کی کاشت کی جا سکے۔ الف سے اللہ۔ ب سے بندوق۔ ت سے تلوار۔ جیم سے جنت۔ ک سے کافر اُور کلاشنکوف جیسی ابجد مرتب کی گئی اور پھر یہی اسباق مدارس میں پڑھائے جانے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارے اَخبار (فرنٹیئرپوسٹ) کی ’اِدارتی پالیسی‘ ریاستی پالیسی برائے افغانستان (افغان جنگ) سے مختلف (متضاد) ہوا کرتی تھی۔ ہم افغانستان میں جہاد کے نام سے ہونے والی خونریزی کے مخالف تھے اور یہی وجہ تھی کہ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ پر کیمونسٹ (لادین) اور ’روس نواز‘ ہونے کے الزام لگایا گیا۔ ہمارا مؤقف تھا کہ افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی بھی طرح جہاد کے اسلامی و اصطلاحی مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسے جہاد نہیں بلکہ فساد کہنا چاہئے۔‘‘ لیکن (روزنامہ) فرنیٹئر پوسٹ پر آمر حکمراں ضیاء الحق کے عتاب کا سبب ’مارشل لاء‘ کی مخالفت پر مبنی ادارتی پالیسی تھی جس میں مقامی مسائل اور سیاست کے حوالے سے پختون قوم پرستی کے عنصر کو بھی غالب کردیا گیا جس نے جلتی پر تیل جیسا کام کیا۔ صوبائی حقوق و خودمختاری کی حمایت اور کالا باغ ڈیم منصوبے کی مخالفت کو ہوا دی گئی جو جنرل ضیاء الحق بنانا چاہتا تھا۔

فرحت اللہ بابر کی (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ سے وابستگی اُن کی کئی لحاظ سے وطن واپسی جیسی تھی جس کے وہ ایک لمبے عرصے سے متمنی تھے۔ امر واقعہ یہ تھا کہ 1981ء میں جب وہ وزارت اطلاعات (انفارمیشن منسٹری) کا حصہ تھے تو اُنہیں کوئی بھی اہم ذمہ داری نہیں سونپی گئی اور ایک مرتبہ جب وہ ترکی میں ’پریس اتاشی‘ کے طور پر تعینات ہونے کے قریب پہنچے تو یہ موقع بھی اُن سے چھین لیا گیا۔ انہوں نے دل برداشتہ ہو کر چھٹی لی اور سعودی عرب چلے گئے جہاں اُنہیں ایک ’ٹائپسٹ‘ کی نوکری ملی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ ’’دالہ ایوکو (Dallah Avco)‘‘ نامی شہری ہوابازی (سول ایوی ایشن) کی ایک کمپنی سے بطور انجنیئر وابستہ ہوگئے۔ چند ہی ماہ میں انہیں ’رائل سعودی ائرفورس‘ کی اُن ہوائی پٹیوں (ائر بیسیس) کا منیجر لگا دیا گیا جو اُن کی سعودی کمپنی ’’دالہ ایوکو‘‘ کی زیرنگرانی تھیں۔ اُنہیں ایک خصوصی جیٹ طیارہ دیا گیا‘ جس میں وہ مختلف ائربیسیس کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جلد ہی اُن کے سعودی حکمرانوں سے اختلافات پیدا ہوگئے جن کے بارے میں فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’سعودی عرب بنیاد پرستی‘ فرقہ واریت کے فروغ و سرپرستی اور جمہوری اسلامی ایران کو دہشت گرد ملک قرار دے کر تنہا کرنے جیسی پالیسیاں پر عمل پیرا تھا۔‘‘ سعودی عرب کی وضع کردہ پالیسی پاکستان نے (بناء سوچے سمجھے من و عن) اپناتے ہوئے ایران سے براہ راست ٹکراؤ اختیار کیا۔ مسلم دنیا کے اتحاد‘ فرقہ واریت‘ اسلامی بنیاد پرستی کو ہوا دینے اور بالخصوص سعودی عرب اور ایران سے متعلق فرحت اللہ بابر کے خیالات وقعت کے حامل ہیں۔ 4 جون 2017ء کو شائع ہونے والے اخبار ’ڈان (Dawn)‘ نے اپنے اداریئے میں فرحت اللہ بابر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’پارلیمینٹ میں توانا (دلیرانہ) آوازیں‘ جیسا کہ فرحت اللہ بابر نے خطرات کی نشاندہی کی ہے اور اِس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان کو فرقہ ورانہ نظریات سے بناء سوچے سمجھے جوڑ دیا گیا (تاہم اِس قومی پالیسی سے رجوع ہونا چاہئے۔)‘‘

فرحت اللہ بابر خود کو سعودی عرب کا مشکور و ممنون بھی پاتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جانے کا ایک محرک ’معاشی ہجرت‘ بھی تھا۔ پاکستان میں میرا ماہانہ مشاعرہ تین ہزار روپے تھا جبکہ سعودی عرب میں ماہانہ پانچ ہزار ڈالر کمانے کا موقع ملا۔ جس سے گھر اور گاڑی خریدنے کے علاؤہ میرے سیروساحت کے شوق کی تسکین کا سامان بھی ممکن ہوا۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد فرحت اللہ بابر نے ’وزارت اطلاعات (انفارمیشن منسٹری)‘ کی نوکری کو خیرباد کہا اور انہوں نے ’(روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ‘ سے وابستہ ہونے کو ترجیح دی اور پھر اپنے اِس فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کبھی بھی اپنی ذات مفادات کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ پیشہ ور (تجربہ کار) ایڈیٹر صدیقی (مرحوم) کے ساتھ کام کرنے اور ملک کے داخلی و خارجی نامساعد حالات میں انہوں نے جس انداز میں صحافت کے علم کو اٹھایا وہ قطعی آسان نہیں تھا۔ جہاں صحافتی اصولوں کی بات آئی‘ یاروں کے یار فرحت اللہ بابر یکسر مختلف ثابت ہوئے۔ اُن دنوں موٹرگاڑیوں کی ’گولڈن (دو نمبروں ڈیجٹس)‘ پر مبنی رجسٹریشن مقبول تھی اور اِسے معاشرے میں حیثیت اور اثرورسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ نے اِس بارے ایک تحقیقی رپورٹ ہمراہ فہرست شائع کی جس میں فرحت اللہ بابر کے اپنے عزیز ’شاہد اللہ بابر‘ کا نام بھی درج تھا۔

صحافی اکرام ہوتی اُن دنوں کی یاد کرتے ہوئے ’فرحت اللہ بابر‘ کی بندہ پروری اور حوصلہ افزائی سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جب (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کے فوٹوگرافر زبیر میر (مرحوم) اور شمیم شاہد افغانستان سے اپنے ساتھ جنگ کی تصاویری یاداشتیں واپس لائے تو زبیر میر (مرحوم) کی ایک تصویر میں جنگجو کو دکھایا گیا تھا جو خوست کے علاقے میں امریکی سٹنگر (Stinger) دور مار میزائل کو روس کی ایجاد کردہ کلاشنکوف (خودکار بندوق) سے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اِس تصویر پر فرحت اللہ بابر نے زبیرمیر (مرحوم) کو پانچ سو روپے کے انعام دیا‘ جو زبیرمیر (مرحوم) کو ملنے والا ایسا پہلا اعزاز تھا اور ایسا بہت کم ہوتا ہے جب کسی اخبار کے فوٹوگرافر کی مہارت اور محنت کو اُس کا اپنا ہی ایڈیٹر خراج تحسین پیش کرے۔ اکرام ہوتی کے لئے یہ موازنہ کرنا مشکل تھا جب اُن سے پوچھا گیا کہ (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کو عروج اور ملک میں جمہوری تبدیلی لانے کے لئے رہنما کردار کس نے دیا‘ فرحت اللہ بابر نے یا عزیز صدیقی (مرحوم) نے؟ اکرام ہوتی نے یہ کہتے ہوئے گویا سمندر کو کوزے ہی میں بند کردیا کہ ’’صدیقی (مرحوم) ایک پیشہ ور ایڈیٹر تھے جو صحافیانہ اقدار و اخلاقیات اور اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اصولی مؤقف کو بیان کی جرأت بھی رکھتے تھے اور اُنہیں اظہار پر ملکہ بھی حاصل تھا جبکہ (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ کے لئے (فرحت اللہ) بابر کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی تھی۔‘‘ اکرام ہوتی کی نظر میں فرحت اللہ بابر کے ایسے ’کامل قلم‘ شخصیت کے مالک ہیں جن میں ’(نت نئے) خیالات سے ابھرنے والی تخلیقی قوت اور رہنما اصولوں کی پیروی کا ’متوازن امتراج‘ پایا جاتاہے۔

(روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ سے اپنی عملی صحافتی زندگی کو اظہار کے نئے اسلوب سے روشناس کرانے والے فرحت اللہ بابر حکومتی عتاب کا شکار بنے۔ اُن پر سیاسی ہونے کی چھاپ لگی اور اِسی انتہاء درجے کی مخالفت نے اُنہیں سیاسی کارکن بنا دیا۔ اُن کی (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ سے الگ ہونے کا فیصلہ بھی اُس حکومتی دباؤ کے جواب میں تھا جب جون 1988ء میں افغان حکام نے پاکستانی فوجیوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور یہ خبر فرنٹیئرپوسٹ نے شائع کی تو اُس وقت پاکستانی خفیہ ادارے انٹرسروسیز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل حمید گل نے اخبار کے مالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ چند صحافیوں کو ملازمتوں سے نکال دیں جن میں فرحت اللہ بابر کا نام بھی شامل تھا اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا‘ جس کے بعد وہ اپنے ساتھ اُن صحافتی اقدار کو بھی لے گئے‘ جس نے (روزنامہ) فرنٹیئر پوسٹ کو ایک منفرد ’مقام بلند‘ تک پہنچایا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ’فرحت اللہ بابر‘ نے نہ تو سیاسی مشکلات اور نامساعد حالات سے ہار مانی ہے اور نہ ہی زندگی کی 73 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اُن کی عملی جدوجہد اور محنت سے لگن میں کمی آئی ہے۔ اُن کی زندگی مقصدیت کے محور سے بندھی دکھائی دیتی ہے جس پر روزمرہ سیاسی مصروفیات کا اثر اِس وجہ سے بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی زندگی کے شعوری سفر میں منزل کا تعین کرنے کے بعد اُس سے خود کو وابستہ رکھے ہوئے ہیں اور اِسی سے اُن کی فہم و دانش اور سیاسی بصیرت کا چمن بھی ہمیشہ گل و گلزار اور تروتازہ رہتا ہے۔ فرحت اللہ بابر کی عملی زندگی محتاط فیصلوں سے عبارت ہے جسے اُن کی خوش قسمت بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اُنہیں درست وقت میں درست فیصلے کرنے کا موقع ملا اور اِس امر کو وہ ’خوش قسمتی‘ قرار دیتے ہیں‘ تاہم جو بھی ہو لیکن انہوں نے اپنے لئے ایک پیشے کا انتخاب کیا جس سے اُن کی جذباتی وابستگی تھی اور یہی وہ پیشہ ہے جس سے وہ تادم حیات وابستہ رہنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کل وقت سیاست دان اور ذاتی زندگی میں بھی سیاست ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔

فرحت اللہ بابر کی شخصیت کا کوئی ایک رخ نہیں۔ وہ ہمہ جہت ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری قدروں پر یقین کرنے والا ایک پارلیمینٹرین۔ ایک اصلاح پسند سیاست دان‘ ایک تجربہ کار صحافی‘ انسانی حقوق کا رکھوالا اور انسانیت کی عظمت و خدمت کا احساس رکھنے والا ایک مجاہد اور ایک باریک بیں ’میڈیا منیجر‘ جو وقت کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے متغیر کردار پر گہری نگاہ اور عبور رکھتے ہیں۔ فرحت اللہ بابر زندگی کے جس کردار میں نظر آئیں وہ سیاست کے طالبعلم اور سیاست کے ذریعے معاشرے کی اصلاح و اِرتقاء کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ہوں تو فرحت اللہ بابر بیک وقت ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے حکومت اور دیگر قانون سازوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دیں گے۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ وہ پاکستان کے سعودی عرب سے (خارجہ) تعلقات سے لیکر خواجہ سرا (Transgender) کے قتل پر حکومت سے وضاحت طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قانون ساز ایوان ہوں یا دانشوروں کو حالات حاضرہ کے نئے پہلوؤں سے روشناس کرانے کی کوئی نشست فرحت اللہ بابر کے خیالات ’تازہ ہوا کا جھونکا‘ ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں ’نیشنل پریس کلب (وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پریس کلب)‘ میں سننے والوں کو وفاقی حکمراں جماعت کی سیاسی قلع بازیوں (volte-face) جیسے موضوع سے لیکر وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (FATA) بارے اصلاحات کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملتا ہے۔ وہ قبائلی علاقہ جات کے رہنے والوں کو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھنے اور آواز اٹھانے کی ترغیب دلاتے ہیں کہ حقوق دیئے نہیں حاصل کئے جاتے ہیں۔ بیک وقت مختلف کرداروں میں نظر آنے والا ’فرحت اللہ بابر‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے ’میڈیا منیجر‘ ہیں جو اپنا مدعا وضاحت اور بناء کسی تامل بیان اور ضبط تحریر کرنے میں ثانی نہیں رکھتے۔ قبائلی علاقہ جات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کے آواز میں غیرمعمولی توانائی بھر جاتی ہے جو اُن کے چہرے پر فرط جذبات سے بھی عیاں دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک گرم دوپہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’قبائلی علاقہ جات پر صدر اور سیاسی و عسکری حکمراں قیادت کا حکم چلتا ہے جنہیں زمینی حقائق کا بذات خود قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر قبائلی علاقے کی روایات‘ ثقافت اور حالات کی گہرائی کو کماحقہ سمجھ نہیں پاتے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں اور مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ قانونی و انتظامی اختیار قانون ساز ایوان کو سونپ دیا جائے۔ قبائلی علاقوں کو قومی دھارے کی سیاست میں شامل کیا جائے اور قبائلی علاقوں سے متعلق فیصلہ سازی پارلیمینٹ کی اجتماعی دانش کے زیرسایہ سرانجام پائے۔‘‘ صحافیوں سے ملاقات کے بعد وہ ’لاپتہ افراد (missing persons)‘ کے بارے میں ایک سیمینار میں شریک ہوئے۔ ایوان بالا (سینیٹ) میں وہ اکثر ’لاپتہ افراد‘ کا معاملہ اٹھاتے ہیں اور اُن کے احتجاجی و اصولی نکتۂ نظر سے پوری قوم آگاہ ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق اُن کے اصولی مؤقف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’معاشرے کی تمام اکائیوں کو ’لاپتہ اَفراد‘ کے بارے میں آواز اٹھانی چاہئے کیونکہ آج اگر ہم دوسروں کے ’لاپتہ‘ ہونے پر آواز نہیں اٹھاتے تو کل ہمارے ’لاپتہ‘ ہونے پر بھی کوئی آواز نہیں اٹھائے گا لہٰذا یہ انفرادی نہیں بلکہ ایک اجتماعی و حساس مسئلہ ہے‘ جس کی سنگینی کا سنجیدگی سے ہر سطح پر احساس ہونا چاہئے۔‘‘ 

فرحت اللہ بابر عوامی و اجتماعی قومی مفاد کے آواز اٹھانے والے ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے ہاں ’موقع پرستی‘ کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اُن کے اصولی سیاسی مؤقف کے باعث مقتدر حلقوں میں اُن کی تنقید کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہوگا۔ اُن سے متعلق اسلام آباد کے ایک سینیئر صحافی ’’عون ساہی‘‘ کی رائے ہے کہ وہ ’’مصلحت شناس سیاست دان سے زیادہ سماجی کارکن کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ ایک مفکر ہیں جو اپنے قول وفعل میں فلسفیانہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا مقتدر عسکری حلقوں (اسٹیبلشمنٹ) کے خلاف سماجی رابطہ کاری کے ذریعے کھل کر اظہار خیال کرنے والے بلاگرز کی پراسرار گمشدگی کے واقعات یا پھر پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ’غیرعسکری معاملات متعلق‘ جاری ہونے والا ’ٹوئٹر پیغام‘ کی مذمت‘ فرحت اللہ بابر اپنے اصولی مؤقف کا پوری طاقت سے اظہار کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ پر زیادہ دکھائی نہیں دیتے کیونکہ سرکاری و نجی الیکٹرانک میڈیا پر ایک مخصوص سوچ کے تابع مؤقف رکھنے والوں کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔‘‘ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو فرحت اللہ بابر کو ’ضابطہ پرست (Bureaucratic)‘ سمجھتا ہے کیونکہ وہ صحافیوں سے صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کے مقررہ اوقات کے بعد میل جول نہیں رکھتے اور اُن کی سماجی سرگرمیاں بھی لامحدود نہیں بلکہ وہ اپنے وقت کا مصرف احتیاط سے کرتے ہیں۔ جب اُن کی مصروفیات طے شدہ نہیں ہوتیں تو وہ اپنا بیشتر وقت مطالعے کی نذر کرتے ہیں یا پھر حالات حاضرہ سے متعلق موضوعات کا مطالعہ کرتے ہوئے سینیٹ اجلاس کی تیاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے ’کامیاب سیاسی سفر‘ کا راز بھی یہی ہے کہ وہ مطالعہ کرتے ہیں اور متعلقہ معلومات سے خود کو باخبر رکھتے ہیں اور معلومات کی ہرممکنہ کوشش اور اِن کی صحت کے لئے کھوج و جامعیت میں کڑی محنت کو غیرضروری نہیں سمجھتے۔

فرحت اللہ بابر جب کبھی بھی عملی سیاست سے دستبردار (ریٹائر) ہونے کا فیصلہ کریں گے تو اُن کی ترجیح ہوگی کہ وہ اپنی یاداشتوں‘ سیاسی واقعات کے بیان سے متعلق یاداشتوں پر مبنی کتاب لکھنا پسند کریں گے جو اُن کی ایک دیرینہ خواہش ہے۔ چونکہ وہ پاکستان کی تغیرپذیر (طوفانی) سیاست کے عینی شاہد بھی ہیں تو اُن کے قلم سے تحریر ہونے والی ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ کے رنگوں میں قوس قزح جیسی خوبصورتی اور ہر رنگ کی چاشنی و انفرادی حیثیت بھی اپنی جگہ اہم و منتخب اہمیت کی حامل ہوگی کہ اِس کے بغیر موضوع کا بیان اَدھورہ محسوس ہو چونکہ وہ فطرتاً شرمیلے اور خودنمائی کو پسند نہیں کرتے اِس لئے اپنی خدمات کے تذکرے پر مبنی ’آپ بیتی‘ کی بجائے اُن کی کتاب کا موضوع ’پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ اور بیان‘ ہوگا۔ وہ شاید اِس بات کو ترجیح دیں کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے بانی چیئرمین (عالم طبیعات) منیر اَحمد خان کے بارے میں کتاب تحریر کریں جو ’ری ایکٹر خان (Reactor Khan)‘ کے نام سے بھی معروف ہیں اور اِس وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ کے شعبۂ ’ری ایکٹر‘ کے سربراہ تھے جب اُن کی ملاقات اُس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ ’ذوالفقار علی بھٹو‘ سے ہوئی۔ یہ سال 1965ء کی بات ہے جب آسٹریا کے دارالسطنت ویانہ (Vienna) میں ہوئی ملاقات کے دوران انہوں نے بھارت کے جوہری مقاصد کے بارے میں ’ذوالفقار علی بھٹو‘ کو مطلع کیا۔ جب بھٹو پاکستان کے صدر بنے تو ’ری ایکٹر خان‘ کو 1972ء میں پاکستان لائے اور یوں 1976ء میں پاکستان کے ’جوہری پروگرام‘ کا ہنگامی بنیادوں پر رازداری سے آغاز کیا گیا۔ منیر احمد خان ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کے سربراہ تھے تب انہوں نے ایک ایسے معاون کی خدمات طلب کیں جنہیں سائنسی علوم وامور سے آگاہی بھی ہو اور وہ اطلاعات و نشریات کے تقاضوں اور اصولوں سے بھی آگاہ ہوں۔ فرحت اللہ بابر نے 1970ء میں ’پریس انفارمیشن سروسیز‘ میں شمولیت اختیار کی جبکہ وہ سندیافتہ انجنیئر تھے اور انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔ منیر احمد خان کو ’انفارمیشن اسسٹنٹ‘ کے لئے جس قسم کے فرد کی ضرورت تھی‘ فرحت اللہ بابر اُس پر پورا اُترتے تھے بلکہ یوں لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے اُن اِسی منصب کے لئے اُن کی تشکیل کی ہو۔ آپ منیراحمد خان کے ساتھ 1973ء سے 1976ء کے درمیان بطور ’انفارمیشن اسسٹنٹ‘ تعینات رہے اور بعدازں 1979ء سے 1981ء کے دوران بھی اُن کی خدمات منیر احمد خان ہی کے سپرد (وقف) رہیں اور یہی وہ عرصہ تھا کہ جب اُنہوں نے پاکستان کی جوہری صلاحیت کے خدوخال اُور قومی سیاست جیسے موضوعات سے صرف حادثاتی تعلق ہی استوار نہیں کیا بلکہ اِن پر عبور بھی حاصل کرتے چلے گئے۔ یادش بخیر اُس عرصے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’میں یہ بات قدرے وثوق (یقین) سے کہہ سکتے ہوں کہ اُن دنوں جو کچھ بھی رونما ہو رہا تھا وہ سب کچھ کارخانۂ قدرت میں کسی طے شدہ منصوبے کی جزئیات تھیں۔‘‘ اور اگر ذوالفقار علی بھٹو ہی کے الفاظ میں اُس وقت کے پاکستان کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان مکمل جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔‘‘

فرحت اللہ بابر کی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے دو مرتبہ وابستگیوں کے ادوار نے اُن کی باقی ماندہ زندگی‘ نظریات اور تصورات کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد اُنہوں نے ’پاکستان پیپلزپارٹی‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے بارے میں امریکہ کے عزائم زیادہ دوستانہ نہیں تھے اور ’پریسلر ترمیم‘ کے ذریعے امریکہ کے صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بنانے سے متعلق عزائم سے باز نہیں آتا تو امریکی امداد روک دی جائے۔ امریکی عقابی نگاہ کے نیچے پاکستان تیزی سے اپنی جوہری صلاحیت کے حصول کرتا رہا اور بالآخر مئی 1988ء میں متعدد جوہری تجربات کئے۔

فرحت اللہ بابر پاکستان کو ایک ایسی جوہری صلاحیت کے طور پر دیکھنے کے متمنی اور وکیل رہے ہیں جو ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرتی ہے۔ قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن ہونے کی حیثیت سے وہ اِس بات کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے کہ اِن الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ ’’جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان اِیران اُور شمالی کوریا کو ’جوہری ٹیکنالوجی‘ منتقل کرنے کے لئے ذمہ دار ہے۔‘‘ بعدازاں اِس بارے میں جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف لکھا ہے۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’میرا ہمیشہ سے اَصولی مؤقف رہا ہے کہ جوہری ہتھیار دفاعی ضرورت کی تکمیل ہیں اور ایک نہایت ہی طاقتور ہیں جن کے بارے میں ذمہ دارانہ رویہ ’احساس ذمہ داری‘ کے ساتھ اختیار کرنا چاہئے۔‘‘ جب فرحت اللہ بابر یہ بات کہہ رہے تھے تو وہ اُن کا یقین آنکھوں میں جھانک کر دیکھا جاسکتا تھا جو بیشتر پاکستانی سیاست دانوں کے ہاں نہیں ملتا بالخصوص جب وہ پاکستان کی جوہری صلاحیت یا ہتھیاروں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہیں ملک کے ناقابل تسخیر دفاع اور ترقی کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ سوویت یونین کے پاس جوہری ہتھیاروں کا اس قدر بڑا ذخیرہ تھا کہ اُنہیں رکھنے کے لئے جگہ کم پڑ گئی تھی لیکن اِس مضبوط دفاعی صلاحیت کے باوجود بھی ملک ٹکڑے‘ ٹکڑے ہونے سے نہیں بچ سکا کیونکہ کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا پیمانہ ہتھیار یا دفاعی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ترقی کا انحصار اقتصادی دباؤ و سیاسی مسائل کے برداشت اور حل سے مشروط ہوتا ہے اُور جہاں کہیں اور جس کسی کو بھی بڑی طاقت ملتی ہے تو اِس کے ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی جڑی رہتیں ہیں۔

فرحت اللہ بابر کے ڈارئنگ روم میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اُن کی ایک تصویر آویزاں ہے جس پر محترمہ کے دستخط اور اُن سے متعلق یہ تاثرات ثبت ہیں کہ ’’فرحت اللہ بابر کے نام‘ جو اپنے کام کو لگن‘ نظم و ضبط اور ذہانت سے سرانجام دیتے ہیں۔ یہ کمال بہت کم لوگوں کی اہلیت کا حصہ ہوتا ہے اور (بردبار تحمل مزاجی یہ ہے کہ) یہ کبھی بھی اپنے صبر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘ 1986ء میں جب محترمہ بینظیربھٹو خودساختہ جلاوطنی ترک کرکے پاکستان واپس آئیں اور اُنہیں علم تھا کہ جلاوطنی اور سیاسی جدوجہد میں (روزنامہ) فرنٹیئرپوسٹ اُن کے ساتھ کھڑا رہا تب اُنہوں نے دورۂ پشاور کے دوران ’فرنٹیئرپوسٹ‘ کو انٹرویو دینے کی خواہش ظاہر کی۔ فرحت اللہ بابر کے لئے یہ ایک ایسا موقع تھا جس کا شاید انہوں نے انتظار بھی کیا ہو۔ انٹرویو تمام ہونے کے بعد‘ محترمہ نے بابر کو اپنی شادی میں شرکت کے لئے مدعو کیا جو دسمبر 1987ء میں کراچی میں سرانجام پائی۔

فرنٹیئرپوسٹ سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد فرحت اللہ بابر نے مختلف اخبارات (دی مسلم‘ پاکستان آبزرور اور ہفتہ وار دی فرائڈے ٹائمز) کے لئے ادارتی صفحات کے لئے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ سال 1988ء کی بات ہے جب ایک دن انہیں وزیراعظم سیکرٹریٹ (اسلام آباد) سے فون کال آئی جس میں اُن سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ وزیراعظم کے لئے تقریر لکھ سکیں گے؟ فرحت اللہ بابر نے جواب دیا ہاں میں لکھ سکتا ہوں اور پھر پوچھا کہ کس موضوع پر لکھنی ہے اور کب تک ارسال کرنا ہے؟ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ اُن کے لئے وزیراعظم کی تقریر لکھنے کا موقع پرمسرت بھی تھا اور وہ اِس بھاری ذمہ داری کے احساس سے قدرے مضطرب بھی تھے۔ کہتے ہیں۔ ’’فری لانس صحافی‘ جس کی کوئی نوکری نہیں تھی جس کا کوئی باقاعدہ دفتر بھی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ اِس ذمہ داری کی احسن ادائیگی میرے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ میں نے تقاریر پر ایک نظر ڈالی اور دنیا کی چند بہترین تقاریر کا مطالعہ کیا۔ وہ تقریر محترمہ بینظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے کی تھی۔ جس میں انہوں نے پاکستان کے عوام کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے ایک پرامن جمہوری جدوجہد کو کامیاب بناتے ہوئے عام انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جس میں ایک عورت کو منتخب ہونے اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم خاتون ہونے کا اعزاز ملا۔ اُس تقریر کے بعد جلد ہی مجھے ایک اور تقریر لکھنے کی ذمہ داری ملی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ محترمہ قبل ازیں بہت سے دیگر صحافیوں کو بطور ’تقریر نویس‘ آزما چکی تھیں جب انہوں نے فرحت اللہ بابر کو 1989ء میں اپنا سرکاری تقریر نویس مقرر کیا۔ جب فرحت اللہ بابر سے یہ پوچھا گیا کہ اُن کی تقاریر میں ایسا کیا جادو تھا جو محترمہ کو راغب کرگیا تو اُنہوں نے کمال انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ’’میری تحریروں میں ایسا کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہوتا تھا لیکن میں جب بھی کسی موضوع پر تقریر لکھتا تھا تو اُس موضوع سے متعلق بہت سی تحقیق ضرور کر لیا کرتا تھا اور لکھتے ہوئے یہ تصور بھی ذہن میں رکھتا تھا کہ جیسے یہ میں اپنے آپ کے لئے لکھ رہا ہوں۔‘‘

محترمہ ہر کام کو پوری سنجیدگی اور ذمہ داری سے کرنے کی قائل تھیں۔ ایک مرتبہ اُن کے لئے اُردو کی تقریر میں ’’تاہم‘‘ کے لفظ کی ادائیگی مشکل ہو رہی تھی۔ انہوں نے تقریر زور سے پٹکتے ہوئے کہا کہ ’’اِس لفظ (تاہم) سے عاجز آ چکی ہوں۔‘‘ اُن کے اِس ردعمل سے مجھے لگا کہ گویا سب کچھ ختم ہوگیا لیکن اگلے روز مجھے وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے آیا ایک ڈبہ ملا جس میں چاندی کا ایک پیالہ ہمراہ ایک تحریر بند تھا کہ ’’وزیراعظم کی جانب سے احترام کے ساتھ۔‘‘

وزیراعظم پاکستان کی تقریر لکھنے کی ذمہ داری ملنے سے متعلق اکثر ناقدین کہتے ہیں کہ اُس وقت ’بھٹو ازم‘ سے لگاؤ رکھنے والے صحافیوں کو نوازنے کے لئے ایسی ذمہ داریوں کے لئے منتخب کیا جاتا تھا لیکن فرحت اللہ بابر کا مؤقف ہے کہ اُن کی بطور وزیراعظم کے لئے ’تقریرنویس‘ تقرری کے درپردہ دیگر محرکات بھی تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’بینظیر بھٹو ایک طویل عرصہ جلاوطنی کا بسر کرکے وطن واپس آئیں تھیں۔ اُنہیں ملک کے داخلی سیاسی حالات کی گہرائی اور زمینی حقائق کی زیادہ تفصیلات معلوم نہیں تھیں اور بالخصوص ایک طویل آمرانہ دور حکومت سے پیدا ہونے والی ہر سطح پر انتظامی خرابیوں سے وہ آگاہ نہیں تھیں۔ اسی طرح اُن کے لئے سول ایڈمنسٹریشن اور سرکاری کام کاج ایک نیا مضمون تھا۔ اِن سبھی امور کے بارے میں فرحت اللہ بابر کی رائے اُن کے لئے بہت اہم تھی کیونکہ فرحت اللہ بابر خود بھی افسرشاہی (بیوروکریسی) کا حصہ رہ چکے تھے۔ محترمہ کی حکومت 1990ء میں ختم ہوئی لیکن فرحت اللہ بابر کا اُن سے تعلق باقی رہا اور اُن کے لئے تقاریر اور ادارتی مضامین تحریر کرتے رہے جو اندرون ملک اور عالمی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ’’میں محترمہ کے لئے تقاریر اور مضامین لکھا کرتا تھا لیکن یہ کہنا سوفیصد درست نہیں ہوگا کہ میں ایسا واحد شخص تھا جو اُن کی تقریر یا مضمون لکھتا تھا بلکہ اُن تحریروں کی جامعیت میں خود محترمہ اضافہ کرتی تھیں جو اُن کے مخصوص و منفرد طرز بیان و خطابت سے مطابقت رکھتا تھا۔

سال 1996ء میں جب محترمہ بینظیر کا بھائی میرمرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں قتل کیا گیا تو محترمہ نے فرحت اللہ بابر کو بھیجا تاکہ وہ اُن کی علیل والدہ کو لیکر آئیں۔ نصرت بھٹو کو بیرون ملک سے لایا گیا تھا۔ فرحت اللہ بابر اُن واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’کراچی ائرپورٹ پر نصرت بھٹو جہاز سے اُتریں۔ میں نے اُنہیں مرتضیٰ کے قتل کی خبر سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ ’’بابر‘ میں نے تمہارے لئے کچھ اچار بنایا تھا لیکن بینظیر وہ سب کھا گئی ہے لیکن فکر نہ کرو میں تمہارے لئے مزید بنا دوں گی۔‘‘ یاد رہے کہ نصرت بھٹو اُن دنوں یاداشت کو کمزور کرنے والی بیماری عتاہٹ (Dementia) میں مبتلا تھیں اور بیماری کی شدید حالت سے گزر رہی تھیں۔

مبصرین کی رائے میں فرحت اللہ بابر کی بھٹو خاندان سے قربت کا ایک تعلق (وسیلہ) نصیراللہ بابر بھی تھے۔ جنرل بابر (مرحوم) 1988ء سے 1990ء کے عرصے میں محترمہ بینظیر کے مشیر رہے۔ یہ محترمہ بینظیر کے پہلے اقتدار کا وقت تھا۔ بعدازاں 1993ء سے 1996ء کے عرصے میں جوکہ بینظیربھٹو کا دوسرا دور اقتدار تھا جنرل بابر وزیرداخلہ تھے۔ یہ دونوں افراد درحقیقت ایک ہی تھے اور دونوں کا تعلق بھی اُس ایک ہی افغان قبیلے سے ہے جس کی شاخیں خیبرپختونخوا اُور بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دونوں ہی کا تعلق پشاور کے نواحی دیہی علاقے پیرپیائی سے ہے جو ضلع نوشہرہ کی حدود میں واقع ہے اور اِس زرخیز و شاداب گاؤں کی مخصوص قدیمی طرزتعمیر اور صفائی کی وجہ سے اِسے عرفاً ’چھوٹا ولائت (صغیر برطانیہ)‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ملک کے بہت سے معروف‘ علمی و ادبی شخصیات کے علاؤہ اعلیٰ سول و فوجی اہلکاروں کا آبائی تعلق اِسی ’پیرپیائی‘ سے ہے۔

فرحت اللہ بابر کی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے پہلی ملاقات 1977ء میں اُس وقت ہوئی جب وہ گورنرہاؤس پشاور میں مقیم تھے۔ اُس وقت فرحت اللہ بابر ’شمال مغربی سرحدی صوبے (بعدازاں صوبہ خیبرپختونخوا) کے ڈائریکٹر انفارمیشن تھے۔ کسی جونیئر اہلکار کا ملک کے وزیراعظم سے ملنا ایک غیرمعمولی امر تھا۔ بھٹو نے اُن سے مقامی صحافیوں کے بارے استفسار کیا اُور انہیں ایک فہرست مرتب کرنے کے لئے دی تاکہ وہ صحافیوں کا نام لکھ سکیں۔ اُس وقت سرکاری حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ ایک صحافی افغان صدر سردار محمد داؤد خان سے قربت رکھتا ہے۔ جب اِس بارے بھٹو نے مجھ سے استفسار کیا تو میں نے کہا کہ ہاں ایسا ہے لیکن وہ صحافی جاسوس نہیں بلکہ محب وطن ہے۔ بعدازاں اسی صحافی کی مدد سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملی اور اُس کی خدمات کا اعتراف خود بھٹو نے بھی کیا۔ دوسری مرتبہ بھٹو اور فرحت اللہ بابر کی ملاقات میں اُنہیں خاتون اول نصرت بھٹو کو پشتو زبان سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ نصرت بھٹو اُن دنوں صوبائی اسمبلی اجلاسوں کا دورہ کرنے اکثر آیا کرتی تھیں اور انہیں پشتو زبان کے بنیادی قواعد اور جملے سکھائے گئے تھے۔ فرحت اللہ بابر بیگم نصرت بھٹو کی شخصیت سے متاثر تھے۔ وہ ایک انمول انسان تھیں جن سے ملاقاتوں کے دوران اُن کے بارے میں بہت جاننے کا موقع ملا اور اُن سے کی گئی بات چیت کی ریکارڈنگز بھی میرے ساتھ تھیں جنہیں قلم بند کرنا دیگر مصروفیات میں کہیں گم ہوگیا اور اِس ایک بات کا مجھے ہمیشہ سے افسوس رہا ہے کہ یہی ایک کام مجھے کرنا تھا جو نہیں ہوسکا۔ محترمہ بینظیر نے بھی 1990ء میں مجھے وہ یاداشتیں تحریر کرنے کی یاددہانی کرائی تھی۔ فرحت اللہ بابر کو بیگم نصرت بھٹو کے وہ الفاظ یاد ہیں جنہیں بیان کرتے ہوئے وہ انتہائی افسردہ دکھائی دیں لیکن اُنہیں غصہ نہیں تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے کہا ’’فرحت‘ میں بیان نہیں کر سکتی کہ اُس شام (ذوالفقار) بھٹو کتنا خوش (مطمئن) تھا جب اُس نے مجھے کہا کہ اُس نے (جنرل) ضیاء (الحق) کو پاک فوج کا نیا سربراہ مقرر کر دیا ہے اور یہ وہی فوج کا سربراہ تھا جس نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔

اگر فرحت اللہ بابر بھٹو کو مشورہ دیتے تو وہ اُن کی دانست میں یہی ہوتا کہ وہ دائیں بازو کے کرداروں کو اپنے قریب آنے نہ دیں کیونکہ یہ (احسان فراموش) کردار اپنی حیثیت سے زیادہ مانگنے اور مطالبات منوانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اور جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ آپ محترمہ بینظیر کو کیا مشورہ دیتے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُنہوں نے کہا کہ کسی ماتحت کا مثالی (حسب حیثیت عملی) کردار یہی ہونا چاہئے کہ وہ صرف اُس وقت کلام کرے جبکہ کوئی سراپا گوش (متمنی) ہو۔‘‘

پاکستان پیپلزپارٹی کے اسلام آباد دفتر‘ مساوات بلڈنگ (زیرو پوائنٹ) میں اِن دنوں خاموشیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو مشرف اقتدار کے دور میں جلاوطن تھیں تو یہی دفتر پارٹی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہ دفتر ایک ایسی عمارت کا حصہ ہے جس میں ذرائع ابلاغ کے کئی ایک دفاتر ہیں جن میں سرکاری خبررساں ادارے کے دفاتر بھی شامل ہیں اور اِس کی مرکزی حیثیت پریس کلب جیسی ہی ہے جہاں صحافی اور سیاسی کارکن چائے سے تواضع اور کچھ دیر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ جب فرحت اللہ بابر سینیٹ اجلاس یا کسی پیپلزپارٹی سیکرٹریٹ میں کسی مصروفیت کا حصہ نہیں ہوتے تو وہ اپنا بیشتر وقت یہیں صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔


سال 1996ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کا دوسری مرتبہ اقتدار آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ختم کیا گیا تو محترمہ نے اُنہیں پیپلزپارٹی کے میڈیا معاملات (امور) کو چلانے (دیکھنے) کی ذمہ داری سونپی اور یہی وہ وقت تھا جب آپ محترمہ کے مشیر اور ترجمان مقرر ہوئے۔

پشاور کے علاقے ’نشترآباد‘ میں دو کمروں پرمشتمل ایک مکان میں آٹھ دیگر بہن بھائیوں کے ہمراہ پرورش پانے والے فرحت اللہ بابر زندگی ہر مفہوم و معانی سے آگاہ ہیں۔ اُن کے والد سکول ٹیچر (معلم) تھے۔ 1950ء میں اُن کے والد کی کل آمدنی 225روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی۔ کم آمدنی والے اِس گھرانے کے بچوں کو معلوم تھا کہ اگر وہ امتحان پاس نہیں کریں گے تو اُن کے تعلیم کا سلسلہ رک جائے گا اور یہی وجہ تھی کہ ہر ایک اپنی تعلیم کو سنجیدگی سے اہمیت دیتا تھا۔ فرحت اللہ بابر کو یاد ہے کہ جب 1961ء میں وہ فوج میں بھرتی ہونے کے لئے گئے اور اُنہیں منتخب (سلیکٹ) بھی کر لیا گیا لیکن چونکہ انہیں یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں داخلہ مل گیا تھا اِس لئے انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا ارادہ ترک کردیا۔

متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے فرحت اللہ بابر کی شخصیت میں محنت کشوں کا حسن کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ اپنی گاڑی خود چلاتے (ڈرائیو کرتے) ہیں۔ گھر کے لئے اشیائے ضروریہ کی خریداری بھی بذات خود کرتے ہیں اور انہیں کوئی بھی چھوٹی بڑی ذمہ داری سونپ دی جائے تو ہنسی خوشی قبول کر لیں گے۔ اسلام آباد یس تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار جو ایک عرصے سے فرحت اللہ بابر کو جانتے ہیں ازرائے مذاق کہتے ہیں کہ ’’آپ کی عملی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ سول انجنیئرنگ (تعمیراتی امور کی مہارت) سے سیاست اور سماجی انجنیئرنگ (انسانی ترقی‘ فلاح و بہبود) کا مقصد لئے محو سفر ہیں۔‘‘ لیکن فرحت اللہ بابر اپنے لئے انتخابی حلقہ تخلیق نہیں کر پائے جس کی وجہ سے وہ پارٹی قیادت کی محتاج (رحم وکرم پر) ہیں کہ انہیں کسی منتخب یا حکومتی عہدے پر تعینات کر دیں۔ فرحت اللہ بابر کی پارٹی قیادت سے غیرمعمولی تعلقات ہیں اور دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد و اخلاص کا رشتہ قائم ہے جو سیاست اور سیاسی جماعتوں کے داخلی نظم ونسق میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

فرحت اللہ بابر قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی رکنیت مخصوص نشست برائے ٹیکنوکریٹ (تکنیکی امور آشنا) کے ذریعے حاصل کئے ہوئے ہیں لیکن وہ خود کو ’ٹیکنوکریٹ‘ کی اصطلاحی تعریف پر پورا اُترنے کا اہل نہیں سمجھتے۔ کہتے ہیں ’’میں کوئی ماہر نہیں جیسا کہ سابق نگران وزیراعظم پاکستان معین قریشی تھے لیکن میں سینیٹ کے روبرو پیش ہونے یا سینیٹ کے روبرو پیش کرنے لئے سیاسی و غیرسیاسی معاملات کا باریک بینی اور تکنیکی زوائیوں سے جائزہ ضرور لیتا ہوں اور بحیثیت سینیٹر اپنی فرض کی بجاآوری سنجیدگی سے کرتا ہوں۔‘‘ فرحت اللہ بابر کی سینیٹ میں کارکردگی سے عیاں ہے کہ وہ انواع و اقسام کے مختلف موضوعات پر نہ صرف بحث میں حصہ لیتے ہیں بلکہ ایوان بالا کے اراکین کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور اُن میں کام کی لگن بالکل اُس طالبعلم جیسی ہے جو اپنے مقصد کو پا لینے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے آمادہ ہو اور اُس کی طبیعت (مزاج) میں باغی ہونے کا ایک عنصر (خصوصیت) بھی پائی جاتی ہو۔

فرحت اللہ بابر جب پہلی مرتبہ سینیٹر بنے تو سال 2003ء کے اُن ایام میں پیپلزپارٹی ایوان بالا میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے جن مسائل پر زور دے رہی تھی اُن کا تعلق کارگل جنگ کی وجوہات بارے تحقیقات‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں میں پائی جانے والی بداعتمادی جس کی وجہ سے منتخب حکومتوں کو قبل از وقت گھر بھیج دیا جاتا ہے لیکن جب ایسے بہت سے سوالات کا جواب عسکری قیادت کی طرف سے نہیں دیا جاتا تب پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک تحریر (پمفلٹ) بعنوان ’’Killed in the Chamber"مشتہر کی جاتی ہے جس کے مصنف فرحت اللہ بابر بیک وقت کئی سوالات اٹھاتے ہیں جن میں شامل ہوتا ہے کہ دیگر سرکاری ملازمین کی طرح کیا فوجی اہلکار بھی اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں؟ کیا خفیہ ادارہ ’آئی ایس آئی‘ تابع قانون کام کرتاہے؟ کیا کارگل جنگ کے بارے میں تحقیقات کی گئیں؟ ایسے بہت سے سوالات کے جواب ہنوز نہیں مل سکے اور انہیں حساس معلومات کے زمرے میں شمار کرکے اِن کا تبادلہ قانون ساز ایوانوں سے نہیں کیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ یہ سوالات پوچھے گئے اور جیسا کہ پمفلٹ کے عنوان میں کہا گیا کہ ایوان کے اندر ہی دم توڑ گئے۔

پاکستان کی سیاست سوالات کا مجموعہ ہے۔ خود پیپلزپارٹی کے دور اقتدار سال 2008ء سے 2013ء کے دوران اِس سوال کا جواب نہ مل سکا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل کس نے کیا؟ فرحت اللہ بابر کے بقول ’’محترمہ بینظیر کے قاتل تک نہ پہنچنے کی بنیادی وجہ خفیہ اداروں کی مداخلت ہے اور یہ مداخلت اِس حد تک ہے کہ چاہے جو کوئی بھی برسراقتدار ہو لیکن حکومتیں حقائق کی تلاش میں خود کو معذور پاتی ہیں۔ فرحت اللہ بابر یاد کرتے ہیں جب ایک مرتبہ اُنہیں محترمہ بینظیر نے ’اسٹیبلشمنٹ‘ کے حوالے سے کہا تھا کہ ’’اِن کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔‘‘ محترمہ سمجھتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے اختیارات واپس لینے کی ایک ہی صورت ہے کہ جمہوری طاقتیں نظام کو مضبوط (طرزحکمرانی کی اصلاح) کرنے کے لئے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی قربانی دیں۔‘‘

فرحت اللہ بابر جیسے نظریاتی کارکن کے لئے وہ لمحات بوجھل ہوتے ہیں جب پارٹی کی قیادت یا پارٹی کا اجتماعی فیصلہ عوام کے (اجتماعی) مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ پیپلزپارٹی پر کڑی تنقید ہوئی کہ یہ جماعت ایک طرف کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کی بات کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جمہوری سسٹم (طرزحکمرانی) کو متواتر رہنا چاہئے لیکن دوسری طرف یہی جماعت خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت بھی دے دیتی ہے۔ اِس اعتراض کو فرحت اللہ بابر کے سامنے رکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ بھی بسا اوقات خود کو دکھی (بے بس) محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’سیاست کا حسن یہ ہے کہ اِس میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔‘‘ مثال کے طور پر پیپلزپارٹی خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کو تو نہیں روک سکی لیکن اس نے اِن عدالتوں پر کچھ ایسی قدغنیں ضرور عائد کردی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے جب کرکٹ کھیلتے ہوئے ایک بچے کا گیند ہمسائے کی چھت پر جا گرا۔ نوجوان فرحت اللہ بابر نے ہمسائے کے دروازے پر ایک تحریر چسپاں کی کہ آپ کی چھت پر پڑی ہوئی گیند ’صدر پاکستان‘ کی ملکیت ہے (لہٰذا واپس کی جائے۔) فرحت اللہ بابر کا یہ خواب اُس وقت اپنی حقیقت کے قریب ترین تھا جب وہ صدارتی ترجمان مقرر ہوئے اور یہ آصف علی زرداری کے بطور صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کا دور تھا جو آئینی مدت مکمل کر کے دوہزار تیرہ میں اختتام پذیر ہوا۔ وہ عرصۂ اقتدار کسی بھی طرح آسان نہیں جب پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت پر ہر سمت سے نشانے پر تھی۔ عدالتوں نے زرداری پر پابندی عائد کی کہ وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مختصر عدالتی سزا دے کر نااہل قرار دے دیا گیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے جس کی بنیادی وجہ پاک امریکہ تعلقات تھے۔ حزب اختلاف کے اپنے تحفظات تھے۔ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے نہ حکومت کی اقتصادی ترقی کی حکمت عملیاں عوام میں غیرمقبول تھیں بلکہ ذرائع ابلاغ کی تنقید بھی مسلسل جاری تھی اور ان سب سے بالا بدعنوانی کے الزامات بھی عائد ہو رہے تھے اور یہ وہ دور تھا کہ جب بُری خبر اور ہر ناکام حکمت عملی کو صدر زرداری سے منسوب کیا جاتا تھا حتیٰ کہ پیپلزپارٹی اور بالخصوص صدر زرداری پر تنقید کے اُس دور میں خودپیپلزپارٹی کے حلقے بھی فرحت اللہ بابر کی کارکردگی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن یہی وہ وقت تھا جب صدارتی میڈیا آفس کی کارکردگی اور حکمت عملی کے باعث پیپلزپارٹی کی ساکھ برقرار رہی جس کا تجزیہ کار اعتراف بھی کرتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے دیرینہ ساتھیوں کی طرح ایک مرتبہ فرحت اللہ بابر نے بھی صدر زرداری کے اثرورسوخ اور ساکھ کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے عمومی تاثر کو پارٹی کے سامنے پیش کیا۔ شاید یہ اُن کا اندیشہ تھا کہ زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی تبدیل ہو جائے گی اور یہی سبب تھا کہ انہوں نے محترمہ بینظیر کی ہلاکت کے فوری بعد اپنا استعفیٰ دے دیا تھا لیکن صدر زرداری نے اُن کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور 2006ء میں جبکہ وہ سینیٹ انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے لیکن زرداری نے انہیں 2009ء میں دوبارہ سینیٹ کا رکن منتخب کروا دیا۔ فرحت اللہ بابر شاید کبھی بھی زرداری کا شخصی مکمل دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری پر بدعنوانی کے الزامات کا شمار ممکن نہیں لیکن کا دفاع کامیابی سے ایک ایسا شخص کرتا رہا جس کے دامن پر ایسا کوئی الزام نہیں تھا۔ فرحت اللہ بابر کے دوست‘ اہل خانہ اور سیاسی مبصر بھی اِس بات پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں کہ ’اصولی سیاست‘ کرنے والا ایک شخص بھلا کیسے ملک کے سب سے غیرمعروف سیاست دان کا کامیابی سے دفاع کرتا رہا۔ کیا یہ فرحت اللہ بابر کی شخصیت میں پائے جانے والے تضاد کا بیان نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کے ترجمان رہے جو خود اُن کے اپنے اصولوں پر پورا نہیں اُترتا۔ شاید یہ زرداری کی ضرورت تھی فرحت اللہ بابر کی نہیں کہ وہ بابر جیسا شخص اُن کا سیاسی ہمسفر رہتا۔ ایک تجزیہ کار کے بقول ’’زرداری جانتا تھا کہ جس دن اُس نے فرحت اللہ بابر‘ رضا ربانی اور تاج حیدر میں سے کسی کھویا‘ وہ سب کچھ کھو دے گا۔‘‘ سردست زرداری پیپلزپارٹی کے انتظامی معاملات کو چلا رہے ہیں لیکن وہ نہ تو پیپلزپارٹی کی روح رواں ہیں اور نہ ہی اس کا چہرہ اور نظریاتی علامت۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری جب کبھی بھی اپنے دوستوں جیسا کہ رحمان ملک یا ڈاکٹر عاصم حسین کو پارٹی میں کوئی عہدہ یا اہم ذمہ داری سونپتے ہیں تو اُن پر تنقید کی جاتی ہے لیکن جب وہ فرحت اللہ بابر‘ اعتزاز احسن اور شیری رحمان جیسی معروف شخصیت کو چنتے ہیں تو اُن کے قائدانہ کردار کی تعریف سننے کو ملتی ہے۔

فرحت اللہ بابر کا بطور ’ترجمان‘ انتخاب صدر زرداری کو اِس لئے بھی موافق ہے کیونکہ وہ سب کچھ جو صدر زرداری کی ذات میں نہیں ملتا‘ وہ کمی فرحت اللہ بابر پوری کر دیتا ہے۔ وہ ایک مستند اور صاحب کردار شخص ہیں۔ قومی معاملات پر اُن کے خیالات اور اصولی مؤقف پیپلزپارٹی کے نظریات کے مطابق ہے اُور زرداری ایسی کسی بیوقوفی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ فرحت اللہ بابر جیسے اثاثے سے گنوائیں گے۔ فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ ’’زرداری اس قدر بُرا بھی نہیں جس قدر اُس کے بارے میں تاثر عام ہے۔‘‘

پاکستان پیپلزپارٹی 1967ء سے اب تک تین آمروں اور سیاسی سازشوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی ملک گیر مقبولیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی لیکن زرداری پر اِس لئے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اِس نے پیپلزپارٹی کو سندھ کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ چند مبصر سوال اٹھاتے ہیں کہ فرحت اللہ بابر اپنے پیچھے ایسی کونسی روایات چھوڑ جائیں گے جو اُن کے بعد پیپلزپارٹی کے لئے انہی کی طرح کارآمد (مفید) ثابت ہو؟ کیا ہوگا اگر وہ اچانک سیاست سے الگ ہو جائیں؟ کیا پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر کی جدائی سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کر پائے گی؟ کیا فرحت اللہ بابر نے پیپلزپارٹی میں جس جرأت مندی سے اختلافی نکتۂ نظر پیش کرنے کی گنجائش پیدا کی وہ برقرار رہ پائے گی؟ اِس بارے میں فرحت اللہ بابر کا جواب اعتدال پسندانہ (عاجزانہ) ہے کہ ’’افراد حقیقت میں اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘ اور یہی دانش شعور اور بصیرت کا ادراک آج کی پیپلزپارٹی کو بھی کرنا ہے کہ افراد کے گرد فیصلے اور سیاسی جماعت کا مستقبل طواف نہ کرے۔ پیپلزپارٹی کی ایک درخشاں سیاسی تاریخ اور سیاسی سفر رہا ہے جس کی راہیں جانی و مالی قربانیوں سے روشن ہیں۔ فرحت اللہ بابر کو پیپلزپارٹی کے خلقیہ (اخلاقی) روایات پر اعتماد (یقین) ہے کہ (خدانخواستہ) اگر اور جب کبھی یہ جماعت اپنے نظریاتی محور (اصل اصول) سے منحرف ہوئی تو ایسی کسی صورت میں پیپلزپارٹی کا قبلہ درست کرنے کے لئے رہنمائی (عطاء) کرنے والے خاموش (لاتعلق) نہیں بیٹھیں (رہیں) گے۔

(یہ مضمون اَنگریزی ماہنامہ ’ہیرالڈ‘ کی ماہ ستمبر دوہزار سترہ کی اشاعت کا حصہ ہے‘ جو سینئر صحافی ’اُورنگ زیب خان‘ کی محنت اور صحافتی تجربے کا نچوڑ ہے۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین امام)
http://epaper.dailyaaj.com.pk/index.php?city=peshawar&page=19&date=2017-09-22

Sept 2017: Muharram associated with security concerns, why?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام

اِستقبال محرم الحرام!


ماضی کی طرح رواں برس بھی خیبرپختونخوا میں ’نئے اسلامی سال‘ کا آغاز (استقبال) اَمن و امان کو لاحق خطرات سے نمٹنے‘ دہشت گردی کے خوف کو کم کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے غیرمعمولی ’حفاظتی انتظامات‘ کے ذریعے کیا جارہا ہے لیکن اُس ایک مسئلے (دردسر) کا ’مستقل حل (علاج)‘ تلاش نہیں کیا جاتا‘ جس کی وجہ سے ہر سال قومی خزانے سے کروڑوں روپے ’بنام عارضی سیکورٹی‘ پر خرچ کئے جاتے ہیں! خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے رواں سال ’’محرم الحرام 1439ہجری‘‘ کی مناسبت سے مجالس عزاء‘ ماتمی جلوسوں اُور مذہبی اجتماعات کی ’براہ راست نگرانی‘ کے لئے ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن نشریاتی الیکٹرانک آلات‘ نصب کئے جائیں گے۔ یہ بیش قیمت آلات دہشت گردی یا فرقہ واریت اور انتہاء پسندی پر قابو پانے میں کس حد تک معاون ثابت ہوں گے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن محرم الحرام کی سیکورٹی کے نام پر کروڑوں روپے نت نئے آلات کی خریداری کی نذر ضرور ہو جائیں گے۔ سوال یہ بھی ہے کہ گذشتہ برس نگرانی کے لئے جو کیمرے (نگران آلات) نصب کئے گئے وہ اِس مرتبہ کتنے کارآمد ہیں اور رواں برس نئے آلات کی تنصیب کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے جبکہ محرم الحرام کی مناسبت سے جملہ سرگرمیاں روائتی ہیں اور ان کے اوقات و راستے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ کسی بھی نئے جلوس یا اجتماع کے انعقاد کی باوجود درخواست بھی اجازت نہیں دی جاتی اور کسی مخصوص علاقے میں چھوٹے بڑے اجتماعات کے انعقاد کے باقاعدہ لائسینس (اجازت نامے) جاری کئے جاتے ہیں جن کے بغیر کسی بھی قسم کا چھوٹا بڑا‘ اجتماع یا تقریب منعقد نہیں کئے جا سکتے۔

نیشنل کاونٹر ٹریرازم اتھارٹی (نیکٹا) کی ویب سائٹ (nacta.gov.pk) پر دستیاب 20 نکاتی ’اِنسداد دہشت گردی‘ سے متعلق پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی متفقہ قومی حکمت عملی ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ جنوری دوہزارپندرہ سے توجہ کا طالب ہے‘ جس پر عمل درآمد وفاقی حکومت سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی لیکن اِس جامع پلان کے کسی ایک نکتے پر بھی ’سو فیصد‘ عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات اور اس سے قبل و بعدازاں ہر انتخابی معرکے میں کالعدم تنظیموں کے نامزد اُمیدواروں کی کسی نہ کسی صورت نمائندگی ہوتی ہے لیکن اِنتہاء پسندی اور فرقہ وارانہ جذبات کو اُبھارنے والوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی نہیں کی جاتی تو پھر ہمیں غیروں (امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی الزام تراشیوں پر سیخ پا نہیں ہونا چاہئے۔ صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو جنوب ایشیاء کے لئے نئی امریکی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو ’’دہشت گردوں کی پناہ گاہ‘‘ قرار دیا تھا اور اُن کے اِس بیان کی حمایت میں 4 ستمبر کو عالمی تعاون تنظیم برکس (برازیل‘ روس‘ بھارت‘ چین اور جنوبی افریقہ)‘ کے اجلاس میں جہاں شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور میزائل ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی مذمت کی گئی وہیں پاکستان کو خطے اور عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’’دنیا کی چند انتہائی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں اپنے مراکز رکھتی ہیں۔‘‘ اگرچہ مذکورہ ’مشترکہ اعلامیے‘ میں اِس الزام سے متعلق زیادہ تفصیل سے بات نہیں کی گئی لیکن مغربی تجزیہ کار پاکستان کی اُس حکمت عملی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ جس میں پاکستان کو ’غیرریاستی کرداروں‘ کی ’ریاستی پشت پناہی‘ کرنے ’’اچھے اور بُرے عسکریت پسندوں (طالبان)‘‘ کے ذریعے خطے میں جنگی مہمات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ’دہشت گردی‘ سے پریشان حال پاکستان پر ’دہشت گردی‘ کی سرپرستی کرنے کا الزام لگانے عائد کرنے والوں میں ہمارا سب سے اچھا دوست ’چین‘ بھی ہم آواز ہو چکا ہے لیکن اِس کے باوجود ہمارے سیاسی و عسکری فیصلہ سازوں ایک ایسی حقیقت کا مسلسل (مستقل) انکار کر رہے ہیں‘ جس پر (سوائے ہمارے) پوری دنیا یقین کئے بیٹھی ہے لیکن چاہے دنیا ہمارا اعتبار کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’اِنسداد دہشت گردی‘ کی کوششیں اگر بیانات کی حد تک محدود رہیں تو اِن کی کامیابی کے خاطرخواہ امکانات نہیں ہوں گی۔ جب تک پاکستان یہ بات ’عمل‘ سے ثابت نہیں کر دیتا کہ ملک کے طول و عرض میں مذہب کے نام پر‘ اَمن کے لئے خطرہ بننے والے عناصر بالخصوص دہشت گرد ہی نہیں بلکہ اِنتہاء پسند‘ فروعی اِختلافات اور فرقہ واریت پھیلانے والی کالعدم تنظیموں کے علاؤہ اِن کے سہولت کاروں کے لئے سیاسی و عسکری قیادت (اسٹیبلشمنٹ) کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں‘ اُس وقت تک پاکستان داخلی خطرات سے دوچار اور بے یقینی کا شکار ہی رہے گا۔




حسب سابق اِس مرتبہ بھی محرم الحرام کے پہلے عشرے کے دوران ’سیکورٹی کے نام پر غیراعلانیہ کرفیو‘ کا نفاذ ہونے جا رہا ہے۔ ماتمی جلوسوں یا اجتماعات سے متصل لیکن غیرمتعلقہ مرکزی شاہراہیں بند کی جائیں گی۔ نویں اور دسویں محرم الحرام کے روز موبائل فون اور موبائل انٹرنیٹ (ڈیٹا) سروسیز معطل ہونے سے خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح پشاور کے اندرون شہری و دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو آمدورفت اور مواصلاتی رابطوں میں پریشانی کا سامنا رہے گا اُور عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت گھروں میں محصور ہو کر رہ جائے گی۔ 

خیبرپختونخوا حکومت اور پولیس پشاور کا فرض بنتا ہے کہ وہ صرف محرم الحرام کے آغاز سے اِیام عزاء کے اختتام (دو ماہ آٹھ دن کی مدت) کے لئے مستعدی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع میں اُس مذہبی راواداری‘ برداشت اور مثالی (شیعہ سنی) بھائی چارے کو بحال کرنے کے لئے بھی عملی کوشش کریں‘ جو کبھی یہاں کے معمولات و معاشرت کا حسن ہوا کرتا تھا۔ ہر سال روائتی سیکورٹی پلان ’خان رازق شہید‘ کی تیار کردہ دستاویز پر تاریخیں اُور نام بدلنے سے امن و امان کو لاحق خطرات دور (ختم) نہیں ہوں گے۔ 

مسلمہ ہے کہ محرم الحرام کے پہلے عشرہ (دس روز) کو بالخصوص ہر فرقے اور مذہب کے ماننے والے محترم تصور کرتے ہیں۔ اِن ایام میں کثرت سے روزے رکھنا اور نفلی عبادات بھی معمول سے زیادہ کی جاتی ہیں کیونکہ کربلا توحید کی سربلندی اور اِس کے بقاء کے لئے جانی و مالی قربانیاں دینے کا عہد (اِستعارہ) ہے۔ محرم الحرام ایک نسبت بھی ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور اُن کے جانثاروں کی میدان کربلا میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کی اکثریت اِس واقعے کو ’حق و باطل کا معرکہ‘ قرار دیتی ہے اُور بقول علامہ اقبالؒ ’’پیغام ملا تھا جو حسینؓ اِبن علیؓ کو ۔۔۔ خوش ہوں وہی پیغامِ قضاء میرے لئے ہے۔‘‘ 



Wednesday, September 13, 2017

Sept2017: Declamation Contest at Army Burn Hall College for Boys in the contest of governance!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین امام
۔۔۔ آؤ سچ بولیں!
پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرنے والوں کے لئے نوجوان نسل کی سوچ رہنما اصول فراہم کر سکتی ہے‘ جن کی نظر میں ’’کشمیر مسئلہ نہیں بلکہ ایک مقصد ہے۔‘‘ ایبٹ آباد کے ’برن ہال کالج برائے طلباء‘ کے زیراہتمام ’اکیسویں کل پاکستان‘ بین الکلیاتی تقریری مقابلوں‘‘ کے اِنعقاد میں ’وطن کی محبت اُور شناخت‘ کے نظریاتی حوالوں پر جس تفصیل سے روشنی ڈالی گئی‘ اُس سے فکروعمل کو نئی جہتیں ملی ہیں۔ ’’اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔ اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار۔ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں اور کشمیر ایک مقصد ہے مسئلہ نہیں‘‘ جیسے موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا۔ طلباء و طالبات نے ’’امن کو خواہش نہیں بلکہ عمل کی اساس بھی قرار دیا۔‘‘ انتظامیہ اگر اِن تقاریر کو کتابی شکل میں شائع (مجموعہ) کرے اور اِن کی ویڈیو ریکارڈنگز ’یو ٹیوب چینل‘ کے ذریعے مشتہر کرے تو اِس سے نہ صرف تقریر کے فن‘ جوش خطابت اور موضوعاتی تحقیق و بیان کی خوبیاں عام ہوں گی بلکہ فیصلہ سازوں کو بھی نئی نسل کی سوچ کے مطالعے اور رہنمائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ آج کا نوجوان کیا سوچ رہا ہے اور اُس کے ذہن میں پاکستان کی ترقی کے اہداف کیا ہیں۔ ’’کھلا ہے جھوٹ کا بازار‘ آؤ سچ بولیں: نہ ہو بلا سے خریدار‘ آؤ سچ بولیں ۔۔۔ سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر: یہی ہے موقع اِظہار‘ آؤ سچ بولیں (قتیل شفائی)۔‘‘

پاکستان کے معروف تعلیمی اِداروں میں شمار ہونے والے ’’برن ہال‘‘ کا قیام 1943ء میں سرینگر (کشمیر) میں ہوا۔ قیام پاکستان (1947ء) کے وقت عیسائی میشنری (رضاکاروں) نے ’ایبٹ آباد‘ کا انتخاب کرتے ہوئے ’برن ہال‘ ہی کے نام سے تعلیمی اِدارہ قائم کیا۔ 1956ء میں ’برن ہال‘ کی دوسری شاخ (مانسہرہ روڈ ایبٹ آباد) قائم کی گئی‘ جو ’سینئر سیکشن‘ کہلائی۔ 1977ء میں اِن تعلیمی اداروں کے جملہ انتظامی و تدریسی امور ’پاک فوج‘ کے سپرد کر دیئے گئے اور اُس موقع پر ’برن ہال‘ کے ’سینئر سیکشن‘ کا نام تبدیل کر کے ’آرمی برن ہال کالج فار بوائز‘ رکھا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ بلحاظ عہدہ اِن تعلیمی اداروں کے ’پیٹرون انچیف‘ ہوتے ہیں جبکہ کالج کے معاملات پاک فوج کی ’10ویں کور (راولپنڈی)‘ کی زیرنگرانی ’بورڈ آف گورنرز‘ طے کرتا ہے۔ کورکمانڈر (10ویں کور) اِس کے چیئرمین اور پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول) کے کمانڈنٹ کی تقرری بلحاظ عہدہ بطور ڈپٹی چیئرمین ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’آرمی برن ہال سکول و کالجز‘ برائے طلباء اور برائے طالبات (کی الگ الگ شاخیں) نہ صرف عصری تقاضوں سے ہم آہنگ‘ جدید تدریسی خوبیوں سے مزین ہیں بلکہ طلبہ کی کردارسازی اور اُن کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے‘ جس سے اُن کی شخصیت میں نظم و ضبط جیسا کلیدی عنصر شامل ہو جاتا ہے۔

پاک فوج کی ’اِیجوکیشن کور‘ بشمول ’برن ہال‘ پاکستان میں معیاری تعلیم و تربیت کی بہت بڑی کمی پوری کر رہی ہے اور یہ کسی بھی صورت معمولی خدمت نہیں بلکہ ایسی شعوری کوشش ہے جو نہایت ہی خاموشی اور تسلسل سے جاری ہے۔ عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ تعلیمی اِدارے ’ہم نصابی سرگرمیوں‘ کے لئے اپنے ہی ادارے کے طلباء و طالبات کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ’آرمی برن ہال کالج برائے طلباء‘ (ایبٹ آباد) میں ’21ویں کل پاکستان سالانہ ’’بین الکلیاتی (اُردو انگریزی زبانوں میں) تقریری مقابلوں کے لئے ملک کے طول و عرض اور ایبٹ آباد کے مقامی سرکاری کالجز کے طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا گیا اور یوں نہ صرف اِن اداروں میں زیرتعلیم طلباء و طالبات کا ایک دوسرے سے تعارف ممکن ہوا بلکہ درس و تدریس کی ذمہ داریاں ادا کرنے والوں کو بھی تبادلہ خیال کا موقع ملا اُور سب سے بڑھ کر پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز سے متعلق چنیدہ موضوعات پر اظہار خیال کی دعوت دے کر طلباء و طالبات کو گردوپیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے مربوط کر دیا گیا۔ رواں برس اکیسویں بین الکلیاتی تقریری مقابلوں میں ایبٹ آباد کے علاؤہ دیگر شہروں سے معروف تعلیمی اِداروں کی ’اکیس ٹیموں‘ نے حصہ لیا‘ جن میں پاکستان ائرفورس اکیڈمی رسالپور‘ پی ایم اے کاکول‘ یونیورسٹی آف پنجاب لاہور‘ ملٹری کالج آف سنگنلز‘ پاکستان میرین اکیڈمی کراچی‘ فوجی فاؤنڈیشن کالج فار بوائز روالپنڈی‘ کیڈٹ کالج حسن اَبدال‘ ملٹری کالج آف اِنجنیئرنگ‘ ملٹری کالج سوئی بلوچستان‘ پاکستان اِئرفورس کالج لوئر ٹوپہ‘ کرنل شیرخان کیڈٹ کالج صوابی اُور مقامی سرکاری کالجز شامل تھے۔

مقابلوں کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد حتمی (فائنل) نشست بارہ ستمبر کے روز برن ہال کالج فار بوائز کے ’سکینلون ہال (Scanlon Hall)‘ میں منعقد ہوئی‘ جس کی فاتح ٹیم ’کیڈٹ کالج حسن ابدال‘ قرار پائی۔ پرنسپل بریگیڈئر واجد قیوم پراچہ (پی ایس سی‘ جی ایس سی) نے آئندہ برس طلباء و طالبات کے لئے الگ الگ ٹرافیز اور تقریری مقابلوں کے موقع پر ’محفل موسیقی‘ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا تاکہ موسیقی کے ذریعے بھی طلباء و طالبات کی شخصیت میں چھپی صلاحیتوں کو اظہار اور ستائش کا موقع مل سکے۔ بریگیڈئر واجد نے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزأ مرگ مفاجات‘‘ کے حوالے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کی اہمیت جس منفرد انداز میں پیش کی‘ وہ ایک ایسا موضوع ہے جو الگ نشست اُور تفصیلاً غوروخوض کا متقاضی ہے۔ 

مجموعی طور پر ’برن ہال‘ کے زیراِہتمام ’تقریری مقابلوں‘ کے کامیاب اِنعقاد اِس ادارے کو چارچاند لگانے کی منفرد کوشش تھی لیکن اگر محترم جج صاحبان اپنی ذمہ داریاں اَدا کرنے میں الفاظ کی ادائیگی‘ درست انتخاب و تلفظ‘ موضوعاتی تحقیق اُور جامعیت کو بھی شمار کرتے تو یقیناًکامیابی ’ملٹری کالج سوئی بلوچستان‘ کے ہونہاروں کے حصے میں آتی! بہرکیف اُردو اُور اَنگریزی زبانوں کے سبھی مقرر ایک سے بڑھ کر ایک خطیب ثابت ہوئے‘ جن کی سبقت کے لئے معیار مقرر کرنا ممکن (آسان) نہیں۔ منتظمین کی طرح مقابلوں میں حصہ لینے والے تمام طلباء و طالبات اُور اُن کی رہنمائی کرنے والے اساتذہ دلی مبارکباد (داد) کے مستحق ہیں۔ اُمید ہے کہ حساس و مشکل موضوعات سے متعارف ہونے کے بعد طلباء و طالبات گردوپیش میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو زیرمطالعہ رکھیں گے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ صرف تعلیم حاصل کرکے اچھی ملازمت و خوشحال عملی زندگی ہی مقصد نہیں بلکہ اُنہوں نے ہر حیثیت میں پاکستان کی ’’خدمت کا حق اَدا کرنا ہے‘‘ اُور ’’وطن کو عظیم سے عظیم تر‘‘ بنانے کے لئے مواقعوں کی تلاش نہیں بلکہ ایک جوہری کی طرح تراش خراش کے ذریعے ’مواقع تخلیق کرنا ہیں۔‘




Tuesday, September 12, 2017

Sept2017: The unreasonable policy of "fine" at schools!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبۂ تعلیم: غافل مباش!
نجی تعلیمی اِداروں سے متعلق والدین کی شکایات بظاہر معمولی دکھائی دیتی ہوں لیکن اِن مسائل کا حجم اور نوعیت اپنی شدت و نتائج کے باعث متعلقہ شعبے کے فیصلہ سازوں کی توجہ کا متقاضی ہے۔ کسی طالب علم کی سکول سے ’غیراطلاعیہ‘ غیرحاضری کی صورت جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جس کی شرح کا تعین نہ تو سرکاری طور پر کیا گیا ہے اور نہ ہی والدین کی مشاورت سے سکول انتظامیہ طے کرتی ہے کہ اگر کوئی طالب علم کسی دن سکول سے غیرحاضر رہے گا اور وہ اِس کی پیشگی اطلاع نہیں دی جائے گی تو اِس ’’جرم‘‘ کے عوض ’’والدین کو کتنا جرمانہ‘‘ کیا جائے۔ عموماً اِس قسم کے جرمانے کی شرح 200 روپے یومیہ سے شروع ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر طالب علم بیماری یا کسی ناگزیر مصروفیت (فوتگی میں شرکت) میں مبتلا ہے تو وہ اپنی بیماری اور آگہانی مصیبت کی فراموش کر کے سکول کی پہلے فکر کیسے کرے اور ’بروقت اور پیشگی اطلاع‘ کس طرح دی جائے؟ 

سکولوں کے داخلی دروازوں پر ’رخصت کی درخواستیں‘ وصول تو کر لی جاتی ہیں لیکن چونکہ اِس کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا‘ نہ وصولی کی رسید (سند) دی جاتی ہے اِس وجہ سے یہ درخواستیں وصول کرنا اِس بات کی ضمانت بھی نہیں ہوتا کہ کسی ایک یا دو ماہ کے آخر میں جرمانہ بینک رسید میں درج نہیں ہو گا۔ والدین کو بذریعہ خط مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ فلاں تاریخ کو غیرحاضر پایا گیا اور اِس وجہ سے اُسے ’’200 روپے‘‘ جرمانہ کر دیا گیا ہے (تلخ حقیقت: 200 روپے کسی بھی طرح معمولی رقم نہیں ہوتی کیونکہ یہی وہ پیمانہ ہے جس پر خط غربت (کسوٹی) مقرر ہے۔ اگر کسی شخص کی یومیہ آمدنی دوسوروپے سے کم ہوتی ہے تواُس کا شمار ’’غریب‘‘ میں کیا جاتا ہے اور پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد ملک کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔) کاروباری ترجیحات ملاحظہ کریں کہ نجی سکولوں کی انتظامیہ یہ جاننے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتی کہ آخر کس وجہ سے کوئی بچہ غیرحاضر تھا اور کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس کی غیرحاضری کسی حادثے یا ایسی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ہے جس کے لئے اُسے مزاج پرسی‘ عیادت یا تعزیت کی ضرورت ہے۔ کیا معلم طالب علم اُور تعلیمی اِداروں کا تعلق بس یہی رہ گیا ہے (اس حد تک محدود تصور کیا جائے) کہ والدین مطلوبہ فیسیں (بلاچوں چرا) اَدا کریں اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والے عوام کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے رہیں؟ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیمی اداروں میں تربیت کس انداز سے کر رہے ہیں کہ سوائے فیسوں اور دیگر مدوں میں وصولیوں سے زیادہ اُن کی کوئی اہمیت نہیں!

نجی تعلیمی اِداروں میں ’والدین اُور اساتذہ کے درمیان رسمی بات چیت (پیرنٹس ٹیچرز ملاقات) عموماً سالانہ نتائج کے موقع پر ہوتی ہے‘ جس کا نہ تو پہلے سے کوئی ’لائحہ عمل (ایجنڈا)‘ طے ہوتا ہے اور نہ ہی اِس میں سکول کے انتظامیہ کے اہم فیصلہ ساز حصہ لینے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں۔ کلاس ٹیچرز (ملازمین) سالانہ نتائج کے دن‘ بن سنور کر مصنوعی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین کا استقبال کرتے یا کرتی ہیں‘ والدین کو نتیجہ تھاما کر انہیں اپنے تاثرات قلمبند کرنے کا کہا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کون کرتا ہے‘ کتنا کیا جاتا ہے‘ اُسے قابل عمل کیوں نہیں سمجھا جاتا اور والدین کی تجاویز و آرأ پر کیا تبدیلیاں (اصلاحات) لائی جاتی ہیں‘ اِس بارے میں والدین کو نہ تو مطلع کیا جاتا ہے اور نہ ہی اِس سلسلے میں اُن سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے فیصلہ ساز بچوں کی طرح اُن کے والدین کو بھی ناخواندہ ہی سمجھتے ہیں! تجویز ہے کہ انٹرنیٹ پر منحصر ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نجی تعلیمی ادارے اور والدین بطور صارفین کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جائے۔ یہ عمل سیکورٹی کے نکتۂ نظر سے بھی محفوظ ہے کہ آئے روز والدین سکولوں کا دورہ نہیں کریں۔ ایک سیدھی سادی ’موبائل فون ایپلی کیشن‘ کے ذریعے والدین نہ صرف ’تعلیمی سال‘ کے دوران سکول انتظامیہ اور کلاس ٹیچر سے رابطے میں رہ سکتے ہیں بلکہ اگر کسی بچے کو اچانک رخصت درکار ہو تو اُس کے لئے بھی موبائل فون ایپلی کیشن (سافٹ وئر) یا ویب سائٹ کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور والدین خاص اکاونٹس اور پاس ورڈز کے ذریعے رخصت کی صورت سکولوں کو مطلع کر سکتے ہیں۔ 

کلاس رومز میں بچوں کو ’ہوم ورک (گھر کا کام)‘ دینے کی ایک روایت بھی ہے لیکن بچوں کو اپنی اپنی ڈائری اَزخود لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ کام سکول ٹیچر (معلم یا معلمہ) کی ذمہ داری ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ (کاروباری مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے) فی کلاس طلبہ کی اُوسط تعداد قریب پچاس یا اِس سے زیادہ کر دی گئی ہے‘ اِس لئے اساتذہ کے لئے یہ بات عملاً ممکن نہیں رہی کہ وہ ہر بچے کی ’ڈائری‘ میں اُس کا ’ہوم ورک‘ کم سے کم اِس حد تک خوش خطی سے تحریر کریں کہ والدین اُسے پڑھ کر سمجھ اور سمجھا سکیں۔ موبائل فون ایپلی کیشن (سافٹ وئر) یا ویب سائٹ کی مدد سے ہر طالب علم کا ’ہوم ورک‘ کی تفصیلات کا تبادلہ اُس کے والدین سے ممکن بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے متعلقہ معلم یا معلمہ کی بجائے اگر یہ تکنیکی کام ’آئی ٹی کے تربیت یافتہ دفتری اہلکاروں‘ کے ذریعے کیا جائے تو بہتر ’فیڈبیک (نتائج)‘ حاصل ہوں گے۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم سے متعلق جملہ اَمور صوبائی حکومت کو سونپ دیئے گئے ہیں لیکن کسی ایک صوبے میں سرکاری و نجی سکولوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہوتی ہے جو صوبائی کی بجائے وفاقی یا دیگر امتحانی بورڈز سے منسلک ہو جاتی ہے یا جن کے ہاں غیرملکی نصابی کتب (آکسفورڈ پریس کی کتب) پڑھائی جاتی ہیں اور اُنہی کے غیرملکی بورڈز کی نگرانی میں امتحان لئے جاتے ہیں۔ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن آئینی طور پر خیبرپختونخوا کی حدود میں نجی سکول چاہے وہ جس کسی امتحانی بورڈ سے بھی منسلک ہوں لیکن اُن پر صوبائی حکومت کے احکامات کی پابندی واجب (لازم) ہوتی ہے۔ 

تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومت کا فرض ہے کہ صرف ٹیوشن فیسیں مقرر کرنے کی حد تک نہیں بلکہ ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے ذریعے انواع و اقسام کے جرمانوں اور اِن جرمانوں کی شرح بھی مقرر کی جائے۔ وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک اور صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ 30مئی 2018ء سے قبل تک ملنے والی ’مہلت (آخری آٹھ ماہ)‘ کا فائدہ اُٹھائیں۔ اپنی نہیں تو کم سے کم ’تحریک انصاف‘ کی عزت و ساکھ ہی کا خیال کریں کہ کس طرح ’مئی دوہزارتیرہ‘ کے عام اِنتخابات سے قبل عوام سے تبدیلی کے وعدے کئے گئے جو عملاً پورے نہیں ہوئے۔ 

عوام کی خدمت کا عہد کرنے والے جب فیصلہ سازی کے منصب پر ’غفلت‘ کا ارتکاب کریں تو وہ محض کوتاہی نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم شمار ہوتا ہے۔ نجی تعلیمی اِداروں کی من مانیاں‘ ٹیوشن فیسیوں اُور جرمانوں کی شرح پر غوروخوض کے ساتھ درس و تدریس کو کاروبار بنانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ضروری ہے تو یہ ’کارِدارد‘ کون کرے گا؟ محاورہ ہے کہ ’’دم اَز گندم بروید جو‘ اَزجو۔۔۔ اَز مکافاتِ عمل غافل مشو۔ (ترجمہ): گیہوں سے گیہوں اُگتا ہے اور جُو سے جُو: خود احتسابی سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہئے!‘‘

Monday, September 11, 2017

Sept 2017: Next General Elections delayed for obvious reasons!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
وقت کم: مقابلہ سخت!
دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات کا ماحول بنتا ہوا دکھائی تو دے رہا ہے لیکن آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہو سکتے جس کی کئی ایک وجوہات صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ 

سب سے پہلے تو مردم شماری کے نتائج پر کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں کے کچھ نہ کچھ تحفظات سامنے آ چکے ہیں اور ایسی صورت میں ’خانہ و مردم شماری‘ کو کس طرح تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول بنانا ممکن نہیں ہے اور یہ عمل کس قدر جلد مکمل ہوتا ہے‘ اِس کی رفتار آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر انداز ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ سپرئم کورٹ آف پاکستان (عدالت عظمیٰ) کی جانب سے واضح احکامات ہیں کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہونے چاہیءں یعنی آبادی کے تناسب سے نئی حلقہ بندیاں لیکن کیا ایسا ہو پائے گا جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے تحفظات پر دلیل سے بات کرنے کو تیار ہی نہیں! دوسری بڑی رکاوٹ انتخابی اصلاحات کا قانون (بل) ہے جس پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ کر اختلافی نکتۂ نظر رکھتی ہیں بلکہ پیپلزپارٹی کی تو کوشش ہے کہ وہ اِس قانون کی منظوری میں حصہ دار صرف اُسی صورت بنے جب کہ اُسے آئندہ سیاسی حکومت بنانے میں غیرمشروط تعاون کی یقین دہانی کرائی جائے اور مسلم لیگ نواز اِنہی انتخابی اصلاحات کے ذریعے صادق و امین پر مبنی آئین کی دو شقوں (تشریحات) باسٹھ و تریسٹھ میں تاحیات نااہلی کی شرط کا دورانیہ (سزا کی مدت) کم کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہے تاکہ نوازشریف کو دوبارہ قانون ساز ایوان اور حکومت میں لایا جا سکے! 

عام اِنتخابات کو ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے سیاسی مفادات کی عینک لگا کر دیکھ رہی ہیں اور تجربہ کار سیاسی جماعتیں رازداری سے درپردہ بھی ایسا بہت کچھ کر رہی ہیں‘ جن کی تفصیلات کے بارے میں عام آدمی (ہم عوام) کی معلومات یا تو بہت کم (سرسری ہیں) یا وہ اِسے ایک آئینی اور پیچیدہ تکنیکی مسئلہ سمجھ کر خود کو الگ رکھے ہوئے ہیں۔ چوبیس گھنٹے بول بول کر توانائی پانے والے نجی ذرائع ابلاغ بھی اگر کسی ایک موضوع پر سب سے کم روشنی ڈالتے ہیں تو وہ ہے ’انتخابی اصلاحات‘ جسے ’اندھیرے‘ میں رکھنے کے محرکات وہی ہیں‘ جو اَٹھارہویں آئینی ترمیم کی پیچھے چھپی ’’نیک نیتی‘‘ تھی اور جس میں ’الیکشن کمیشن‘ کے ادارے کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مقام افسوس ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کو قانون ساز اداروں کی کارکردگی اور حقیقت کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب قوانین سے عملاً واسطہ پڑتا ہے۔ انتخابی عمل میں اصلاحات کا مطالبہ (تقاضا) ’تحریک انصاف‘ نے مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات سے پہلے اور فوراً بعد عوام کی عدالت میں دائر کر رکھا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا موجودہ ’انتخابی اصلاحات کا قانون‘ تحریک انصاف کے اصولی مؤقف کا نتیجہ ہے تو غلط نہیں ہوگا لیکن اِس میں تحریک انصاف کی تمام تجاویز کو شامل کرکے ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ مجوزہ مسودہ قانون (بل) اب ایوان بالا (سینیٹ) کے سامنے زیرغور ہے جہاں ایک پارلیمانی (ذیلی) کمیٹی برائے قانون و انصاف‘ اِس کا جائزہ لے رہی ہے اور اُمید ہے کہ مجوزہ اصلاحات میں موجود بہتری کی گنجائش کو ’ملک و قوم کا اجتماعی مفاد‘ مدنظر رکھتے ہوئے پورا کیا جائے گا لیکن ’وقت کی پابندی‘ اہم ہے کیونکہ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے پہلے ہی یہ عندیہ دے دیا گیا ہے کہ ’’اگر ایوان بالا (سینیٹ دن رات کام کرکے) انتخابی اصلاحات کی فوری منظوری نہیں دیتی تو مئی دوہزار تیرہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہی آئندہ عام انتخابات کا انعقاد کرانے کے بغیر کوئی صورت نہیں رہے گی! انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے سینیٹ تک تو جا پہنچا ہے لیکن اگر سینیٹ اِس کی کسی ایک بھی شق میں تبدیلی کرتی ہے اور اِسے من و عن منظور نہیں کرتی تو یہ قانون واپس ’قومی اسمبلی ایوان‘ میں منظوری کے لئے پیش ہوگا‘ جس کی بناء مطالعہ اور غوروخوض کوئی بھی سیاسی جماعت منظوری دینا پسند نہیں کرے گی اور ایسا ہونے میں مزید کتنا وقت لگے گا جبکہ وقت پہلے ہی کم اور مقابلہ سخت ہے!؟

اندرون ملک کی طرح بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے انتخابی اصلاحات کی جامعیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجوزہ قانون پر تعلیمی اداروں سے لیکر علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ تک ہر سطح پر مباحثے (ڈائیلاگ)‘ دھاندلی کے امکانات ختم کرنے کے لئے بائیومیٹرک و انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال اور انتخابی عمل میں ماضی کی غلطیوں سے حاصل اسباق کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ عام انتخابات وقت مقررہ پر نہیں ہوں گے‘ اِس کی دو بنیادی وجوہات میں شامل ہے کہ مردم شماری نتائج اور انتخابی اصلاحات پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان ’’بناء مزید تاخیر (وقت ضائع کئے بغیر)‘‘ اتفاق رائے پیدا ہو‘ جو موجودہ حالات میں نہایت ہی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دے رہا ہے اورپاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی بہت ہی کم مثالیں ملتی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے قومی اہمیت کے کسی مسئلے پر اپنے مفادات کی قربانی دی ہو۔ بنیادی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کوئی ایک سیاسی جماعت بھی اِس موقع پر عام انتخابات کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ 

تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں کارکردگی کا ثمر ابھی تیار نہیں اور صاف گو چیئرمین تو اِس بات پر شکر کا اظہار تک کرچکے ہیں کہ اُنہیں دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں محدود پیمانے پر کامیابی ملی۔ دوسری طرف نواز لیگ چاہتی ہے کہ وہ پانامہ کیس فیصلے کی روشنی میں ’نیب مقدمات‘ سے نمٹنے کے بعد عام انتخابات میں حصہ لے اور اُس کی کوشش ہے کہ عدالتوں سے سرخرو قرار پائے۔ پیپلزپارٹی ڈاکٹرعاصم اُور ایان علی کے مستقبل بارے زیادہ فکرمند ہے جنہوں نے اِحتساب عدالت سے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی بریت کے فیصلے کو اپنی کامیابی تو قرار دیا ہے لیکن ہرکس و ناکس کو معلوم ہے کہ اِن دنوں عدالت عظمیٰ کا مزاج برہم ہے اُور اِنصاف اگر پیپلزپارٹی کی قیادت کے قریب سے بھی گزرا‘ تو نوازشریف کی طرح وہ تاحیات نااہلی جیسی ذلت آمیز سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ ملک کی سبھی بڑی اور ’’پریشان حال سیاسی جماعتیں‘‘ قطعی طور پر ایک ایسے وقت اور ایک ایسے ماحول میں انتخابی مہم جوئی کرنا پسند نہیں کریں گی اور نہ ہی کسی ایسے انتخابی تجربے (عمل) سے گزرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار (آمادہ) ہیں جبکہ عدالت عظمی کے ابرآلود تیور (مزاج) روز روشن کی طرح کھلی حقیقت ہے۔ 

’’منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا: ہوئی معزولئ اَنداز و اَدا میرے بعد ۔۔۔ 
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ : کس کے گھر جائے گا‘ سیلاب بلا میرے بعد! (میرزا اَسداللہ خان غالبؔ )۔