Thursday, March 12, 2020

Apna Peshawar - Couplet (Qata)

۔۔۔ اپنا پشاور ۔۔۔

سوئے منزل جو رواں ہے، وہ سفر اپنا ہے
شہر گل پوش کا ہر عہد و دہر اپنا ہے
نظم و ضبط ضروری ہے، ضروری ہے بہت
عالم کہتا ہے پشاور جسے، گھر اپنا ہے

بارہ مارچ دو ہزار بیس عیسوی
سولہ رجب المرجب چودہ سو اکتالیس ہجری

Son of soil: Serving Peshawar with best of the abilities!

ژرف نگاہ
پشاور: ضمیر کی آواز!
غور طلب ہے کہ قصور و فتور کبھی بھی صوبائی و بلدیاتی‘ منتخب‘ غیرمنتخب اُور چنیدہ فیصلہ سازوں کی نیت کا نہیں رہا اُور نہ ہی فیصلہ سازی کے مراحل میں کوتاہی ہوئی بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک جامع حکمت عملی دفتری کام کاج (ریکارڈ) کا حصہ ہے جبکہ پشاور کے ظاہری مسائل کے پوشیدہ پہلو یہ ہیں کہ یہاں عزم اِرادوں‘ اِرادے حوصلوں‘ حوصلے مصلحتوں اُور مصلحت ترجیحات پر غالب آتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہری حسن اُور شہری زندگی کے لئے بدنمائی کا سبب بننے والے تین بنیادی محرکات (تجاوزات‘ دیواروں پر لکھائی جسے عرف عام میں وال چاکنگ کا کہا جاتا ہے اُور آویزاں کئے گئے سیاسی و غیرسیاسی تشہیری مواد) سے شہر کو پاک کرنے کی جملہ کوششیں کہیں نہ کہیں دم توڑتی رہی ہیں جبکہ (تاریخ گواہ ہے کہ) بھرپور جوش و جذبے (ذرائع ابلاغ کی وساطت سے مشتہر بلندبانگ دعوو ¿ں کے ساتھ) پشاور کی ظاہری خوبصورتی بحال کرنے کی حسب حال ضروری کوششیں منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ادھوری چھوڑنے کی روایت بھی نئی نہیں۔
پشاور کا دن کب آئے گا؟
وہ دن جب شہری ترقی کے لئے کام کرنے والے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے ماضی کی کوششوں (کامیابیوں و ناکامیوں) سے حاصل (اخذ) نتائج کو مدنظر رکھیں گے۔ جب اداروں کے سالانہ مالیاتی امور ہی کا نہیں بلکہ اِن کی کارکردگی کا بھی اِحتساب ہو گا۔ تجاوزات‘ وال چاکنگ اُور سیاسی و غیرسیاسی تشہیری مواد سے پشاور کو پاک کرنے کے لئے ماضی و حال کی کوششوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ اِن مہمات کے نگرانوں کی اکثریت کا خمیر و ضمیر پشاور کی مٹی سے نہیں اُٹھا اُور یہ بات الگ موضوع ہے کہ پشاور کی محبت بھی ہر کسی کا نصیب بھی نہیں ہوتی۔ این سعادت بزور بازو نیست کے مصداق درجنوں مثالیں موجود ہیں جب اپنوں اُور اغیار (دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والوں) نے اپنے سیاسی اثرورسوخ اُور تعلقات کی بناءپر پشاور کی بلدیاتی یا سیاسی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لی لیکن اِن میں سے اکثر کے لئے پشاور صرف اُور صرف ’ملازمتی موقع‘ تھا‘ جس سے ہر ممکن اُور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا گیا اُور ذاتی اُور وقتی مفادات پر پشاور کی محبت غالب نہ آ سکی۔ فیصلہ سازوں نے اپنے ملازمتی عرصے کے ابتدائی چند ہفتے اہل پشاور جبکہ باقی سالہا سال حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں گزارے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ فصیل شہر‘ سولہ دروازے اُور پشاور کا فن تعمیر‘ حتیٰ کہ بذریعہ قانون محفوظ (protected) قرار دیئے گئے آثار قدیمہ کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے جو ایک ایک کر کے اپنا وجود کھو رہے ہیں اُور دردمندی و گہرائی سے دیکھا جائے تو پشاور کو پہنچنے والے یہی ناقابل تلافی نقصانات ہیں کہ یہ شہر صرف ماضی ہی نہیں بلکہ حال کی ہر ایک خوبی کو ایک ایک کر کے گنواتا رہا۔
حسن ظن یا حسن اِتفاق نہیں کہ پشاور ہر دور میں توجہ کا مرکز رہتا ہے بلکہ پشاور کی مرکزی حیثیت اِس قدر ہے کہ اِسے دیکھ کر خیبرپختونخوا میں طرزحکمرانی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 92 یونین کونسلوں پر مشتمل پشاور 4 ٹاو نز (بلدیاتی علاقوں) میں تقسیم ہے‘ جس کے اندرون شہر کے علاقوں پر مشتمل ’ٹاو ن ون‘ کی اِنتظامیہ 4 فروری سے خصوصی مہم چلا رہی ہے۔ چار فروری ہی کے دن ’پشاور کے سپوت‘ ریاض اعوان کی بطور ’ٹاو ن آفیسر ریگولیشنز (TOR)‘ تعیناتی ہوئی۔ آپ خیبرپختونخوا کے مختلف ٹاو ¿ن میونسپل اتھارٹیز کے نگران (ایڈمنسٹریٹر) رہنے کے بعد جب اپنے آبائی شہر واپس تعینات ہوئے تو یہ کسی بھی طور معمولی بات نہیں تھی اُور حسب توقع وہ اپنے شہر کی خدمت کا حق ادا کر رہے ہیں جنہیں ’چاچا یونس ثانی‘ قرار دینا چاہئے۔ ریاض اعوان کی بطور ’ٹی اُو آر‘ پشاور تعیناتی (چار فروری) کے دن شام ہونے سے پہلے تجاوزات‘ وال چاکنگ اُور تشہیری مواد کی صفائی کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اگلے دن (پانچ فروری) ’یوم کشمیر‘ کے سلسلے میں دیگر سرکاری مصروفیات غالب رہیں لیکن پانچ فروری بوقت عصر سے جاری مہم کے دوران گیارہ مارچ تک (ایک ماہ سات دن) کے دوران ہر قسم کے سیاسی و غیرسیاسی دباو ¿ حتیٰ کہ ہفتہ وار تعطیلات کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اُور یہی ماضی و حال کی بظاہر ایک جیسی مہمات کے یکسر مختلف نتائج برآمد ہونے کا باعث امر ہے کہ تجاوزات‘ وال چاکنگ اُور تشہیری مواد جیسے انبار سے پاک و صاف (نکھرا نکھرا ستھرا) پشاور ظاہر ہو رہا ہے۔ ٹاو ¿ن ون اہلکاروں میں پشاور کی خدمت اُور محبت کی نئی روح پھونکنے والے ایک جواں ہمت شخص کی توفیقات میں اضافے اُور صحت و سلامتی کی دعاو ¿ں کے ساتھ اُمید ہے کہ ریاض اعوان اہل پشاور کی نہیں بلکہ اپنے خمیر و ضمیر کی توقعات پر پورا اُتریں گے۔
............