Sunday, June 30, 2019

Six questions by Dr. Farrukh Saleem

Six questions
چھ سوالات

پہلی حقیقت: مئی 2018ء میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے فی امریکی ڈالر کی قدر 115 روپے تھی۔ مئی 2019ء میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی اُور یہ ’157 روپے (29 جون کے روز 163روپے)‘ تک جا پہنچا‘ جو روپے کی قدر میں ’35 فیصد‘ کمی ہے۔ 

دوسری حقیقت: مئی 2018ء پاکستانی برآمدات کا مجموعی حجم 2.139 ارب ڈالر تھا جو مئی2019ءمیں کم ہو کر 2.102 ارب ڈالر رہ گیا اُور یہ کمی 1.7فیصد بنتی ہے۔ جب ہم مئی (دوہزاراٹھارہ) سے مئی (دوہزاراُنیس) کا جائزہ لیتے ہیں تو پاکستانی روپے کی قدر میں 35فیصد اُور برآمدات میں 1.7فیصد کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 

پہلا سوال: اگر ہم پاکستانی روپے کی قدر مزید کم کر کے اِسے 200 روپے فی ڈالر تک نیچے لے آئیں تو کیا اِس سے پاکستانی برآمدات میں اِضافہ ہوگا؟

تیسری حقیقت: جون 2018‘ کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ (KIBOR) 8.35 فیصد تھا‘ جو ایک سال کے دوران 13.60 رہا۔ 

چوتھی حقیقت: بجٹ 2018-19ءمیں قرضوں کی ادائیگی کے لئے 1.6 کھرب روپے مختص کئے گئے جو 2019-20ءکے بجٹ میں 2.9 کھرب جیسی بلند سطح تک جا پہنچے یعنی ملک کو ٹیکسوں سے وصول ہونے والی آمدنی کا قریب 50 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے گا۔

دوسرا سوال: کیا پاکستان کو اپنے سود کی شرح 20 فیصد تک بلند کر دینا چاہئے تاکہ جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے کر لے؟ 

تیسرا سوال: جب شرح سود بڑھتی ہے تو حکومت کو قرضوں کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کرنا ہوتے ہیں؟ 

چوتھا سوال: اگر پاکستان میں شرح سود 20فیصد تک بڑھا دی گئی تو کیا ہماری صنعتیں فعال رہ پائیں گی؟

پانچویں حقیقت: پاکستان میں گذشتہ برس بجلی کی قیمت 11 سینٹ (cent) فی یونٹ تھی‘ جو خطے میں بجلی کی بلند ترین قیمت تھی۔ تب بھارت میں 9 سینٹ‘ چین میں 8.3 سینٹ‘ بنگلہ دیش میں 3.7 سینٹ اُور ویتنام میں 7سینٹ تھی۔ پانچواں سوال: پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کتنا اضافہ ہو تو یہ صنعتوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگی اُور وہ اپنی پیداوار کی قیمتوں کا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پائیں گی؟

پہلا واقعہ: 
موٹر گاڑیاں ٹھیک کرنے والے ایک مکینک (ہنرمند) نے مجھے بتایا کہ وہ پہلے معمول کے مطابق ہر روز پانچ سے سات گاڑیاں مرمت کرتا تھا۔ اب بمشکل دو گاڑیاں بھی تمام دن نہیں آتیں۔ مذکورہ مکینک کے پاس پانچ افراد ملازمت کرتے ہیں‘ جن میں سے تین کو اُس نے ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ اُس کی دکان سے متصل ایک اُور مکینک نے اپنی دکان ہی ختم کر دی کیونکہ وہ ماہانہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات (مالی ذمہ داریاں) ادا نہیں کر پاتا تھا۔

دوسرا واقعہ: 
کاروباری سرگرمیاں اِس حد تک ماند پڑ گئی ہیں کہ لاہور کے بڑے شاپنگ مالز میں دکانداروں کی کثیر تعداد گزشتہ کئی ماہ سے کرایہ ادا نہیں کر پا رہی لیکن اِن شاپنگ مالز کے مالکان اپنی دکانیں خالی نہیں کروا رہے۔

تیسرا واقعہ: 
میرے ایک دور پار کے رشتہ دار جو گزشتہ 30 برس سے پائپ بنانے کی فیکٹری چلا رہے تھے اُنہوں نے 500 ملازمین کو فارغ کر کے فیکٹری بند کر دی کیونکہ اُنہیں ٹیکس کا محکمہ ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
اقتصادیات کے اصولوں میں شامل ہے کہ ٹیکس وہاں وصول ہونا چاہئے جہاں اقتصادی سرگرمی ہو۔ اگر کسی ملک میں اقتصادی سرگرمی ختم کر دی جائے تو وہاں ٹیکس وصولی بھی خودبخود کم ہوتی چلی جائے گی۔ کیا یہ اقتصادی واقعی اِس حد تک پیچیدہ ہے کہ اِسے سمجھا نہ جا سکے؟ 

حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکسوں کی بجائے اقتصادی ترقی اُور زیادہ سے زیادہ اقتصادی ترقی پر توجہ دے!

چھٹی حقیقت: پاکستان حکومت کے موجودہ اخراجات سال 2008ءمیں 1.5 کھرب روپے تھے جو 10 برس میں بڑھ کر قریب 7.2 کھرب روپے ہو گئے ہیں۔

چھٹا سوال: کیا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ایسا ہے جہاں کے حکمرانوں کے اخراجات 10 برس میں 500فیصد بڑھے ہوں؟

سب سے بڑی حقیقت: 
تمام پاکستانی ٹیکس چور نہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت اپنی مالی حیثیت سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہی ہے۔ یہ پاکستانی ہی ہیں جو ہر سال قومی خزانہ بھرتے ہیں اور یہ پاکستانی رہنما ہی ہیں جو ہر سال قومی خزانہ خالی کرتے ہیں! پاکستان میں طرزحکمرانی کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے بلکہ حکومت کے ضرورت سے زیادہ اخراجات ہیں! حکمرانوں سے درخواست ہے کہ وہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اقتصادی سرگرمیوں کا خاتمہ نہ کریں۔ اقتصادی ترقی کا ہدف‘ ٹیکس اُور مزید ٹیکس لاگو کرنے سے کبھی بھی اُور کسی بھی صورت حاصل نہیں ہو گا!

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Monday, June 17, 2019

June-2019: Time to speak & stand up for Peshawar!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پراسرار خاموشی!؟

’ماضی‘ اُور ’یاد ماضی‘ کو عذاب نہ سمجھنے والے اگر ’اپنے آباواجداد کی نشانیوں‘ باقی ماندہ فن تعمیر کے
 نمونوں اُور اقدار و روایات‘ کے اَمین بن کر ”زندہ“ رہنا چاہتے ہیں تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟ ماضی کو ’حال اُور مستقبل‘ سے جوڑ کر بہتری اُور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت کا تحفظ چاہنے والے کسی بھی طرح سطحی فکروعمل کے مالک نہیں اُور نہ ہی اِن کی ”بے لوث جدوجہد“ کو معمولی سمجھنا چاہئے۔ کسی معاشرے میں ایسے ’بیدار‘ افراد کی تعداد ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے‘ جو شعوری طور پر دوسروں کی رہنمائی کرنے میں عقل و منطق پر مبنی مثبت سوچ کے موتی (خیرات) بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

پشاور کو محبوب بنائے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دردمندوں پر مشتمل ”ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ نامی غیرسرکاری تنظیم (Pressure Group) کسی نعمت سے کم نہیں لیکن افسوس کہ عوام کے منتخب اراکین اسمبلی‘ بلدیاتی نمائندے اُور سرکاری اہلکار خاطرخواہ تعاون نہیں کر رہے‘ جس کی ایک مثال مذکورہ کونسل کی جانب سے ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) کو لکھے گئے 2 خطوط ہیں‘ جنہیں ارسال کئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن (حسب توقع) ’اسسٹنٹ ڈائریکٹر پراپرٹی‘ اُور ’ڈسٹرکٹ ناظم‘ کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پہلا خط ’چودہ مئی‘ اُور دوسرا خط ’پندرہ مئی‘ کو بذریعہ ’پوسٹ آفس‘ رجسٹرڈ میل ارسال کیا گیا‘ جن کی رسیدیں (اَسناد) بھی موجود ہیں۔ اِن خطوط کو ’بائی پوسٹ‘ اِرسال کرنے کے بعد ’ہیٹریج ڈیفنس کونسل‘ کے عہدیدار فرداً فرداً سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے متعلقہ دفاتر سے کئی مرتبہ بہ نفس نفیس رجوع بھی کر چکے ہیں لیکن ہر طرف ’ہو کا عالم‘ اُور ’پراسرار خاموشی‘ چھائی ہوئی ہے‘ جس سے اگر یہ مطلب اَخذ کیا جائے تو کیا غلط ہوگا کہ .... ”پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کی خرید و فروخت‘ اُنہیں نقصان پہنچانے اُور تجاوزات کی صورت پشاور کے وسائل سے ذاتی استفادہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی سیاسی و غیر سیاسی‘ منتخب و غیرمنتخب فیصلہ سازوں پر مشتمل ایک طبقہ کر رہا ہے!“ یہی سبب ہے کہ ’پشاور کا درد‘ اگر آج ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا اُور پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے ’اثاثوں کی حفاظت‘ اَخباری بیانات میں اِظہار تشویش و پریشانی سے زیادہ نہیں ملتی‘ تو یہ طرزعمل بہرحال تبدیل (پشاور کے حق میں اصلاح) ہونا چاہئے!

”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ بنام ’اَسسٹنٹ ڈائریکٹر (پراپرٹی) سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو لکھے گئے خط بعنوان ”2000ءسے 2019ءتک فصیل شہر کے بارے میں معلومات زیردفعہ 3 معلومات تک رسائی“ میں ”9 سوالات“ پوچھے گئے۔ اِن سوالات میں 1: مذکورہ عرصے میں (پشاور کی) فصیل شہر کو کتنی مرتبہ مسمار کیا گیا؟ 2: سٹی ڈسٹرکٹ حکومت نے اِس قانون شکنی کے مرتکب ملزمان کے خلاف کتنی مرتبہ قانونی کاروائی کی گئی؟ 3: کتنے مقدمات قائم ہوئے‘ عدالتی کاروائیاں ہوئیں؟ 4: فصیل شہر کو کلی یا جزوی طور پر نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ ’ضلعی حکومت‘ نے کیا معاملہ کیا اُور کتنے مقدمات دائر کرنے کے بعد ختم کئے گئے؟ 5: مذکورہ اُنیس برسوں میں فصیل شہر کو نقصان پہنچانے والے کتنے ملزموں کو سزائیں ہوئیں؟ 6: کتنے مقدمات اب بھی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں؟ 7: صوبائی حکومت اُور ضلعی حکومت ’فصیل شہر‘ و دیگر تاریخی مقامات کی حفاظت کے لئے سالانہ کتنے مالی وسائل (گرانٹ) مختص کرتی ہے۔ 8: خیبرپختونخوا کے آثار قدیمہ سے متعلق قانون (Antiquities Act 2016) کے تحت ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ کی ذمہ داریاں (فرائض) کیا ہیں اُور 9: مذکورہ عرصے (سال دوہزار سے دوہزار اُنیس تک) فصیل شہر کا نشان مٹا کر کتنی کمرشل جائیدادیں بنائی گئیں اُور اِس رجحان کے خلاف ’ضلعی حکومت‘ نے کیا اقدامات کئے؟ اصولی طور پر ایسا ہی ایک مکتوب خیبرپختونخوا کے ’محکمہ ¿ آثار قدیمہ‘ کے سربراہ بالخصوص پشاور شہر سے متعلق آثار قدیمہ کے نگران کو بھی ارسال کیا جانا چاہئے تھا‘ جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے عہدے (اختیارات)‘ تنخواہیں اُور مراعات اِسی لئے باقاعدگی سے دی جاتی ہیں تاکہ وہ ’قانون شکنوں کے نہیں‘ بلکہ عوامی (پشاور کے) مفادات کا تحفظ کریں!

دوسرا خط ”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ بنام ضلع ناظم (پشاور) بعنوان ”تصدیق شدہ جملہ دستاویزات برائے منظوری تعمیراتی نقشہ جات مسماة نسیم آفتاب زوجہ نور حضرت“ سولہ مئی (دوہزار اُنیس) کو ’پوسٹ آفس‘ کی ’رجسٹرڈ میل‘ ہی کے ذریعے ارسال کیا گیا لیکن ضلع پشاور کے ناظم یا اُن کے دفتر سے اِس کا تحریری یا زبانی کلامی جواب بھی تاحال موصول نہیں ہوا۔ درخواست گزار تنظیم کی جانب سے مدعا نہایت ہی سادہ ہے کہ ”(گذشتہ چند ہفتوں کے دوران) بیرون کوہاٹی گیٹ‘ کے مقام پر ’فصیل شہر‘ کے جس ٹکڑے کو منہدم (شکار) کیا گیا اُس سے ملحقہ تعمیراتی کام کا نقشہ ’ضلعی حکومت‘ کی منظوری سے جاری ہوا۔ مذکورہ قطعہ ¿ اراضی (پلاٹ) ’مسماة نسیم آفتاب زوجہ نور حضرت سکنہ چرچ روڈ پشاور‘ کی ذاتی ملکیت ہے‘ جس کی جملہ دستاویزات اُور نقشے کی تصدیق شدہ نقول (کاپیاں) (ہیریٹیج کونسل کو) فراہم کی جائیں تاکہ فصیل شہر کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں تیزی لائی جا سکے“۔

مقصد و ہدف (مطلوب) یہاں بھی نہایت ہی واضح ہے کہ اگر پشاور کے آثار قدیمہ کی اہمیت خاطر میں نہ لانے والے (بے قدرے) قانون شکنوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو آثار قدیمہ سے جڑی نشانیاں ایک ایک کر کے (ہماری دیکھتے ہی دیکھتے) ختم ہوتی چلی جائیں گی اُور پھر پچھتائے کیا ہوگا‘ جبکہ چڑیاں کھیت چگ گئی ہوں گی! یہاں بھی ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِسی قسم کی خط و کتابت کے ذریعے خیبرپختونخوا کے محکمہ آثار قدیمہ کو جگایا (جھنجھوڑا) جائے اُور کیا مضائقہ ہے کہ اگر پشاور سے منتخب ہونے والے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ ضلعی حکومت اُور سینیٹرز سمیت بالخصوص حزب اختلاف کے اراکین کو بھی اِس جانب متوجہ کیا جائے۔ اگر مالی وسائل دستیاب ہوں تو ”پشاور ہیریٹیج ڈیفنس کونسل“ کے پلیٹ فارم سے ”تحفظ پشاور کانفرنس“ کے لئے ’کل جماعتی نشست (بیٹھک)‘ طلب کرنے سے بھی ’پشاور شناسی اُور یہاں کے آثار‘ حقوق و اثاثوں‘ سے جڑے پیچیدہ مسائل‘ بشمول متعلقہ حکومتی اِداروں کی کارکردگی اُور حسب شان و ضرورت اِقدامات کو زیادہ بڑے پیمانے پر اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔
...


Sunday, June 16, 2019

TRANSLATION: Happy chemicals by Dr. Farrukh Saleem

Happy chemicals
خوشی: طبی و کیمیائی وجوہات!
ضروری نہیں کہ ہر شخص کے لئے ’خوشی‘ کا مطلب و مفہوم ایک جیسا ہو۔ سائنسی و طبی اِصطلاحات (علوم) کی روشنی میں اگر خوشی کا جائزہ لیا جائے تو اِس کے پس پردہ ’4 کیمیائی مادے‘ ہوتے ہیں جنہیں ڈوپامین (Dopamine)‘ اِینڈروفینز (Endrophins)‘ اُوکسٹوسین (Oxytocin) اُور سیروٹونین (Serotonin) کہا جاتا ہے اُور جب انسانی دماغ اِن کیمیائی مادوں کو خارج کرتا ہے یا اِن میں ردوبدل آتا ہے تو اِس سے خوشی (پرمسرت) جذبات حاصل ہوتے ہیں۔ یہی 4 کیمیائی مادے 
اِنسانی زندگی میں خوشی (کے جذبات) لاتے ہیں۔

مذکورہ چاروں کیمیائی مادوں کے انسانی دماغ میں الگ الگ کام ہیں اُور اِن میں تغیر کی وجہ سے پیدا ہونے والے جذبات سے ’خوشی‘ کا احساس دیگر اُجاگر ہوتا ہے۔ ڈوپامین کے زیادہ ہونے سے اِحساس تحفظ‘ مسرت اُور توجہ بڑھتی ہے۔ ڈوپامین کے انسانی دماغ میں بڑھنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہم چینی اور کیفین (caffeine) والی اشیاءکا کم استعمال کریں۔

اینڈورفینز کے ذریعے درد سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک قدرتی طور پر پایا جانا والا کیمیائی مادہ ہے‘ جس میں اِضافے کی وجہ سے کوئی بھی اِنسان زیادہ جسمانی مشقت کر سکتا ہے اُور جب کوئی فرد زیادہ کام کی وجہ سے بھی تھکاوٹ کا شکار نہ ہو تو اُس کے جسم میں اینڈروفینز کی مقدر قدرتی طور پر نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ اگر اینڈروفینز کی مقدار کم ہو تو ایسا شخص ذہنی پریشانی (dipression) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اینڈروفینز ایسے دیگر کیمیائی مادے بھی جاری کرتے ہیں‘ جن سے ذہنی آسودگی حاصل ہو۔ امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ جس کا صدر دفتر میری لینڈ (Maryland) میں ہے نے انسانی جسم میں اینڈروفینز کی مقدار بڑھانے میں مدد کا ایک پروگرام شروع کیا۔ اینڈروفینز میں اضافے کے کئی دیگر اسباب بھی ہیں جیسا کہ نماز پڑھنا‘ ڈارک رنگ کی چاکلیٹ کھانا‘ مرچ مصالحوں والی غذائیں‘ کوئی مزاحیہ پروگرام یا فلم دیکھنا‘ حسب ذوق کتابیں پڑھنا اور سماجی رابطہ کاری کے وسائل جیسا کہ واٹس ایپ استعمال کرتے ہوئے دوستوں رشتہ داروں سے اچھے پیغامات کا تبادلہ کرنا۔ انسان ایک سماجی جانور ہے جسے دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ تنہائی کا احساس اِس کے مزاج کا حصہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص خود کو تنہا محسوس کر رہا ہوتا ہے تو درحقیقت وہ اپنے ذہن میں ہونے والے کیمیائی مادوں کے زیراثر ہوتا ہے۔

اوکسیٹوسین (Oxytocin) کو پیار کا ہارمون (کیمیائی مادہ) بھی کہا جاتا ہے۔ اِس کے ذریعے کوئی بھی انسان اپنے گردوپیش میں دوسروں سے جڑا رہتا ہے اُور اِسی کی بنیاد پر وہ رشتے اور رشتے داریاں نبھاتا ہے۔ اِسی کیمیائی مادے کی وجہ سے وہ دوسروں پر بھروسہ اُور اعتماد بھی کرتا ہے۔ اگر آپ کے لئے یہ بات تعجب خیز ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور تعلق کو گہرا کیسے رکھتے ہیں تو اِس کی بنیادی وجہ ’اوکسیٹوسین‘ نامی کیمیائی مادہ ہی ہے۔ جب آپ کسی من پسند شخص سے گلے ملتے ہیں تو یہی ’اوکسیٹوسین‘ نامی کیمیائی مادہ خارج ہوتا ہے۔ ہنسنے اُور خوش رہنے سے بھی ’اوکسیٹوسین‘ زیادہ مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ اِسی طرح من پسند موسیقی سننے اُور گہری سانسیں لینے سے بھی انسانی جسم میں ’اوکسیٹوسین‘ کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کو تحفہ ملے اُور اِس سے اُسے خوشی حاصل ہو تو انسانی دماغ میں اِس عمل کے ذریعے ’اوکسیٹوسین‘ کا اخراج اُس کے اعصاب پر موجود بوجھ میں کمی لاتا ہے۔

سیروٹونین (Serotonin) ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جو تفکرات نہ کرنے اور خوش رہنے کی جانب مائل کرتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اِنسانی معمولات میں سکون اور پسند کی وجہ سے بھی سیروٹونین کا مادہ زیادہ خارج ہوتا ہے تاہم ایک تحقیق سے بھی معلوم ہوا ہے کہ سیروٹونین ہی کی کم مقدار اعصابی تناو ¿ اُور بے خوابی کا سبب بنتی ہے۔ جب کسی شخص کا اِس بات کا احساس ہو کہ وہ اہم ہے تو اُس کے ذہن میں سیروٹونین کی مقدار بڑھ جاتی ہے اُور اُس کا نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔ قدرتی طور پر میٹھے آلو‘ سیب‘ گاجر اُور بلو بیریز یا ہائی ’کاربوہائیڈریٹز (carbohydrates)‘ سے سیروٹونین کی مقدار ذہن میں بڑھ جاتی ہے۔

زندگی کو پرمسرت بنانے کا تعلق کیمیائی مادوں سے ہے اُور اِس مختصر تعارف سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہم اپنے کھانے پینے کی عادات اور دیگر معمولات کو قدرتی اجزاءسے تقویت و سہارا دیں۔ اگر ہم دوسروں کو معاف کریں اور اُن کے ساتھ اخلاق کے ساتھ پیش آئیں تو اِس سے نہ صرف ہمارا دماغ خوش رہنے والے کیمیائی مادے خارج کرے گا بلکہ اِس سے دوسروں کی زندگیاں بھی خوشیوں سے بھر جائیں گی۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, June 9, 2019

TRANSLATION: Dear prime minister by Dr. Farrukh Saleem

Dear prime minister
بنام ’وزیر اعظم‘

جناب عالیٰ‘ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ آپ پاکستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہیں‘ جس نے ’انسداد بدعنوانی‘ اُور ’غربت کے خاتمے‘ کو اپنی ذاتی و سیاسی ترجیحات کا محور و مرکز بنا رکھا ہے اُور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو ہر قسم کی بدعنوانی اُور ہر قسم کی غربت و پسماندگی سے نجات کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے جنہوں نے حالیہ عام انتخابات (جولائی 2018ئ) میں تحریک انصاف کو ملک کے چاروں صوبوں میں منتخب کیا اُور اِس وقت تحریک انصاف ملک کی واحد قومی سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد آپ کے اقدامات اُور حکمت عملیاں عوام میں خاطرخواہ مقبول نہیں رہیں!

اقتدار کے ساتھ جڑے چند حقائق آپ کے پیش نظر رہنے چاہیئں کہ صاحبان اقتدار کو خوشامدی اور مفاد پرست ٹولے گھیر لیتے ہیں‘ جن کی اپنی ترجیحات اور اہداف ہوتے ہیں اُور وہ ذاتی مفادات کے لئے حکمرانوں کو گمراہ کرنے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ یہی تاثر ’تحریک انصاف‘ سے تعلق رکھنے والے جملہ حکمرانوں بشمول وزارت عظمیٰ جیسے منصب سے متعلق بھی ہے کہ اِنہیں برسرزمین حالات کی جو تصویر دکھائی جاتی ہے‘ وہ گمراہ کن حد تک غلط ہے۔

جناب عالی‘ ہر پاکستانی مرد و عورت اُور بچہ سالانہ اوسطاً ”13 ہزار روپے“ مختلف ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتا ہے‘ جن میں سیلز ٹیکس‘ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ڈیوٹیاں اُور کسٹم ڈیوٹی شامل ہے لیکن آمدنی کے لحاظ سے کم حیثیت رکھنے والوں پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی بجائے ہر سال بڑھ رہا ہے اُور شنید ہے کہ آنے والے بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتے ہوئے ’1.4 کھرب روپے‘ مالیت کے اضافی ٹیکس وصول کئے جائیں گے۔ اِس اضافے سے ہر پاکستانی خاندان کو سالانہ اوسطاً ”47 ہزار روپے“ اَدا کرنا پڑیں گے۔ آپ کو یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہر ایک فیصد ٹیکس بڑھانے سے ملک کی اقتصادی ترقی 1.68فیصد کم ہو جاتی ہے۔ یہ بات ایک حالیہ تحقیق میں سامنے آئی ہے جس کا عنوان ہے ”An empirical analysis of Pakistan“ اُور اِسے شہزاد احمد‘ مقبول سیال اُور ناصر احمد نے ’پاکستان جرنل آف اپلائیڈ اکنامکس‘ کے شمارے (Vol.28 No.1 Summer 2018) کے لئے تحریر کیا تھا۔ اگر ٹیکسوں کی بڑھائی گئی تو اِس سے فی کس آمدنی میں مستقلاً کمی واقع ہوگی اُور یہ بات ایک اُور تحقیق سے ثابت کی گئی جو احتشام الحق اُور نعیم اکرم نے پیش کی ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کی بجائے پیداوار میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ زیادہ پیداوار سے زیادہ ٹیکس حاصل ہوں۔ اگر بناءپیداوار میں اضافے ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی رہے گی تو عوام یہ ٹیکس کہاں سے اَدا کریں گے جو پہلے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں گے اُور جن کے پاس روزگار نہیں ہوگا تو وہ بنیادی ضرورت کی اشیائے ضروریہ مہنگے داموں خریدنے کی سکت کہاں سے لائیں گے اُور کب تک اِس حال میں گزربسر کر سکیں گے۔ جناب وزیراعظم صاحب‘ اگر آپ کو اِس بات پر یقین نہ ہو تو جنوبی افریقہ کی مثال برائے مطالعہ موجود ہے‘ جہاں ٹیکس عائد کرنے کے سبب اقتصادی نشوونما متاثر ہوئی۔ دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھنا عقلمندوں کی نشانی ہوتا ہے۔

جناب عالیٰ‘ ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت ٹیکسوں کی بجائے ایسا مالیاتی ماحول فراہم کرتی ہیں‘ جن میں کاروباری سرگرمیاں نشوونما پائیں۔ عوام کی آمدن بڑھے لیکن پاکستان میں اِس کے برعکس (اُلٹ) صورتحال ہے کہ ایک طرف پیداوار کم ہونے کی وجہ سے آمدنی کم ہے اُور دوسری طرف حکومت کے عائد ٹیکسوں کی شرح میں ہر سال اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
جناب عالیٰ‘ پاکستان میں صنعتوں اُور کاروبار پر عائد (کارپوریٹ) ٹیکس کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے‘ جو دنیا کی تیسری بلند شرح بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کی اِس لحاظ سے مثال نہیں ملتی کہ یہ دنیا کو باور کرواتے ہیں کہ اُن کے ہم وطن ٹیکس چور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ’مالی امداد‘ اُور ’قرض‘ دینے والوں کی خواہش پر کیا جاتا ہے اُور اگر پاکستان کے زمینی حقائق یعنی عوام کی غربت اور پیداواری کمی کو خاطر میں نہ لایا گیا تو ٹیکس وصولی میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔

جناب عالیٰ‘ پاکستان مالیاتی بحران کا شکار ہے لیکن اِس بحران سے کا حل ٹیکسوں کی شرح میں ”اِضافہ در اِضافہ“ نہیں۔ حکومت کو اپنی آمدن میں اضافے کے لئے دو ہی طریقے اِختیار کرنا پڑتے ہیں‘ ایک تو ٹیکسوں میں اِضافہ کرے اُور دوسرا اپنے اَخراجات میں کمی لائے۔ گزشتہ 37 برس میں دنیا کے 21 ممالک نے مالیاتی اصلاحات کیں اُور اپنی آمدنی میں 85فیصد کمی پر قابو پانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اُنہوں نے اپنے اخراجات میں غیرمعمولی کمی کے ذریعے مالیاتی اصلاحات جیسے اہداف حاصل کئے۔ جناب عالیٰ‘ پاکستان حکومت کا مسئلہ ٹیکسوں کی کم شرح نہیں بلکہ حکومتی آمدن کے مقابلے حد سے زیادہ (غیرترقیاتی) اخراجات ہیں۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

Sunday, June 2, 2019

TRANSLATION: A weaponised space by Dr Farrukh Saleem

A weaponised space
مسلط جنگ: پرخطر محاذ!

دنیا میں ’انٹرنیٹ‘ سے استفادہ کرنے والے صارفین کی تعداد ’4.5 ارب‘ ہے جن میں 10 صارف فی سکینڈ کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا تیزی سے مقبول ہونے کے ساتھ سماجی و انفرادی روئیوں پر اثرانداز ہو رہا ہے اُور عمومی سطح دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے برداشت ختم ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا کیا ہے؟ یہ اظہار کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو بناءکسی بڑی لاگت‘ بناءکسی نگرانی اُور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اثر کرنے والا ہتھیار ہے۔ ریاستی اور غیرریاستی عناصر سوشل میڈیا کا استعمال مختلف اہداف کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرتے ہیں‘ جن میں فرضی معلومات‘ جھوٹ پر مبنی اطلاعات اُور افواہیں پھیلانا بھی شامل ہے۔

پاکستان پر جنگ مسلط ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے‘ جس کے آغاز کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا اُور نہ ہی اِس کے لئے باقاعدہ فوج کشی کی گئی ہے۔ اِس جنگ میں عوام کے نکتہ ¿ نظر اُور اُن کے نظریات و روئیوں پر اثرانداز ہوا جا رہا ہے۔ اِس جنگ کی کوئی سرحد اور جغرافیائی علاقہ (حدود) بھی معین نہیں جبکہ اِس جنگ میں ریاستی و غیرریاستی عناصر جسمانی طور پر حصہ لینے کی بجائے ’سوشل میڈیا آلات‘ کے ذریعے وار (حملہ) اُور جوابی وار (دفاع) کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان پر حملہ آور ہونے والوں نے کیا ہے‘ جس کے ذریعے اقدار‘ عقائد‘ تاثرات‘ جذبات‘ تحریکی خیالات‘ دلائل اُور روئیے نشانے پر ہیں اُور اِس کے ذریعے وہ سبھی اہداف‘ ایک ایک کر کے‘ حاصل کئے جا رہے ہیں جو کسی ملک پر باقاعدہ فوج کشی کی صورت میں پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا پہلا وار ’دانستہ طور پر‘ غلط خبریں پھیلانا ہوتا ہے اُور ایسی افواہیں بھی جن کے ذریعے عوام میں مایوسی پھیلے۔ اُنہیں اپنا اُور ریاست کا مستقبل تاریک نظر آنے لگے۔ اُن میں مایوسی اور نااُمیدی جیسے جذبات پیدا ہوں اُور وہ بہتری کے لئے کوشش یا اصلاحات کے لئے حکومتی اقدامات کا اعتبار نہ کریں۔ اِس طرح معاشرے میں نفرت‘ بداعتمادی اور انتشار پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کے ایک مقبول ذریعے ’ٹوئیٹر (twitter)‘ کی بات کریں تو اِس کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں فرضی ناموں سے صارفین کے اکاو ¿نٹس کی مدد سے ’گمراہ کن حقائق اُور اعدادوشمار‘ پر مبنی اطلاعات کو اِس قدر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے کہ جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ ہر طرف سے ’غلط اطلاعات و معلومات‘ کے بم برسائے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی صارف درست خبر‘ ایک ’نئے موضوع (Hashtag)‘ سے جاری کرتا ہے تو اُس ’ہیش ٹیگ‘ کو استعمال کرتے ہوئے یلغار کر دی جاتی ہے‘ جس سے اصل بات‘ موضوع اور حقائق دب کر رہ جاتے ہیں یا کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ اِس قسم کی کاروائیاں خودکار انداز میں کمپیوٹر پروگراموں کے ذریعے سے بھی کئے جاتے ہیں‘ جنہیں ’بوٹس (bots)‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’بوٹس‘ کسی اِنسان کی طرح سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اُور جب اِن کو دیئے گئے عنوانات یا موضوعات سے متعلق کوئی صارف کچھ لکھتا ہے‘ تو اُس کے ٹوئیٹر پیغام کو دیگر صارفین تک پہنچنے نہ دینے کے لئے اُس پر ہونے والی بحث کو کسی دوسری سمت میں موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی تکنیکی قسم کی چال ہے‘ اُور سوشل میڈیا کے بارے میں عمومی یا سطحی معلومات رکھنے والے صارف کی سمجھ میں یہ بات (طریقہ واردات) باآسانی نہیں آتی!

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ”سوشل میڈیا وسائل“ سے استفادہ کرتی ہے‘ جن میں معروف سائٹس ’فیس بک (facebook)‘ ٹوئیٹر (Twitter)‘ یو ٹیوب (You Tube)‘ اُور انسٹا گرام (Instagram)‘ شامل ہیں اُور انہی کے ذریعے دل کا حال (خبروں یا معلومات) کا دنیا سے تبادلہ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت کو اُس جنگ کے بارے میں قطعی کوئی اندازہ ہی نہیں جو مسلط ہے‘ اُور جس میں صارفین کی ’آن لائن سرگرمیوں‘ پر بھی نظر رکھی جاتی ہے‘ تاکہ اُنہیں ’ہدف (ٹارگٹ)‘ بنایا جا سکے۔ القصہ مختصر سوشل میڈیا ایک ایسا غیر فوجی جنگی ہتھیار ہے جس سے جنگی مقاصد
و اہداف حاصل کئے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا ’تباہ کن‘ اُور ’باعث ہلاکت‘ اثرات رکھتا ہے۔ اِس میں اِنسانوں کے خیالات اُور اُن کے عقائد و نظریات کو تبدیل یا الجھایا جا رہا ہے اُور عجیب (زیادہ پریشان کن) بات یہ ہے کہ جن سوشل میڈیا صارفین پر جنگ مسلط ہے‘ اُنہیں اِس بات کا احساس بھی نہیں۔ ہدف صرف ایک ہے کہ پاکستان کو کمزور بنایا جائے۔ پاکستان کی دفاعی صلاحیت‘ سیاسی حکمرانوں اُور ریاست کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔

پاکستان کو کمزور اُور ناتواں یا ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے‘ جو (خدانخواستہ) ناکام ہونے جا رہی ہے اُور جس کا کوئی (روشن) مستقبل نہیں! سوشل میڈیا وسائل سے استفادہ کرنے والوں کو اِن حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی ’آن لائن سرگرمیوں‘ میں پہلے سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی شرانگیزیاں توجہ طلب ہیں۔ ہر اطلاع اور ہر خبر درست نہیں ہوتی بالکل اِسی طرح سوشل میڈیا پر زیرگردش (وائرل اُور مقبول عام) ہر تصور اُور تصویر بھی حقائق کے برخلاف ’دروغ گوئی یا جعل سازی‘ کا مجموعہ ہو سکتی ہے! 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین اِمام)