Six questions
چھ سوالات
پہلی حقیقت: مئی 2018ء میں پاکستانی کرنسی کے مقابلے فی امریکی ڈالر کی قدر 115 روپے تھی۔ مئی 2019ء میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہوئی اُور یہ ’157 روپے (29 جون کے روز 163روپے)‘ تک جا پہنچا‘ جو روپے کی قدر میں ’35 فیصد‘ کمی ہے۔
دوسری حقیقت: مئی 2018ء پاکستانی برآمدات کا مجموعی حجم 2.139 ارب ڈالر تھا جو مئی2019ءمیں کم ہو کر 2.102 ارب ڈالر رہ گیا اُور یہ کمی 1.7فیصد بنتی ہے۔ جب ہم مئی (دوہزاراٹھارہ) سے مئی (دوہزاراُنیس) کا جائزہ لیتے ہیں تو پاکستانی روپے کی قدر میں 35فیصد اُور برآمدات میں 1.7فیصد کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پہلا سوال: اگر ہم پاکستانی روپے کی قدر مزید کم کر کے اِسے 200 روپے فی ڈالر تک نیچے لے آئیں تو کیا اِس سے پاکستانی برآمدات میں اِضافہ ہوگا؟
تیسری حقیقت: جون 2018‘ کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ (KIBOR) 8.35 فیصد تھا‘ جو ایک سال کے دوران 13.60 رہا۔
چوتھی حقیقت: بجٹ 2018-19ءمیں قرضوں کی ادائیگی کے لئے 1.6 کھرب روپے مختص کئے گئے جو 2019-20ءکے بجٹ میں 2.9 کھرب جیسی بلند سطح تک جا پہنچے یعنی ملک کو ٹیکسوں سے وصول ہونے والی آمدنی کا قریب 50 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے گا۔
دوسرا سوال: کیا پاکستان کو اپنے سود کی شرح 20 فیصد تک بلند کر دینا چاہئے تاکہ جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے کر لے؟
تیسرا سوال: جب شرح سود بڑھتی ہے تو حکومت کو قرضوں کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کرنا ہوتے ہیں؟
چوتھا سوال: اگر پاکستان میں شرح سود 20فیصد تک بڑھا دی گئی تو کیا ہماری صنعتیں فعال رہ پائیں گی؟
پانچویں حقیقت: پاکستان میں گذشتہ برس بجلی کی قیمت 11 سینٹ (cent) فی یونٹ تھی‘ جو خطے میں بجلی کی بلند ترین قیمت تھی۔ تب بھارت میں 9 سینٹ‘ چین میں 8.3 سینٹ‘ بنگلہ دیش میں 3.7 سینٹ اُور ویتنام میں 7سینٹ تھی۔ پانچواں سوال: پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں کتنا اضافہ ہو تو یہ صنعتوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگی اُور وہ اپنی پیداوار کی قیمتوں کا عالمی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پائیں گی؟
پہلا واقعہ:
موٹر گاڑیاں ٹھیک کرنے والے ایک مکینک (ہنرمند) نے مجھے بتایا کہ وہ پہلے معمول کے مطابق ہر روز پانچ سے سات گاڑیاں مرمت کرتا تھا۔ اب بمشکل دو گاڑیاں بھی تمام دن نہیں آتیں۔ مذکورہ مکینک کے پاس پانچ افراد ملازمت کرتے ہیں‘ جن میں سے تین کو اُس نے ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ اُس کی دکان سے متصل ایک اُور مکینک نے اپنی دکان ہی ختم کر دی کیونکہ وہ ماہانہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات (مالی ذمہ داریاں) ادا نہیں کر پاتا تھا۔
دوسرا واقعہ:
کاروباری سرگرمیاں اِس حد تک ماند پڑ گئی ہیں کہ لاہور کے بڑے شاپنگ مالز میں دکانداروں کی کثیر تعداد گزشتہ کئی ماہ سے کرایہ ادا نہیں کر پا رہی لیکن اِن شاپنگ مالز کے مالکان اپنی دکانیں خالی نہیں کروا رہے۔
تیسرا واقعہ:
میرے ایک دور پار کے رشتہ دار جو گزشتہ 30 برس سے پائپ بنانے کی فیکٹری چلا رہے تھے اُنہوں نے 500 ملازمین کو فارغ کر کے فیکٹری بند کر دی کیونکہ اُنہیں ٹیکس کا محکمہ ایسا کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
اقتصادیات کے اصولوں میں شامل ہے کہ ٹیکس وہاں وصول ہونا چاہئے جہاں اقتصادی سرگرمی ہو۔ اگر کسی ملک میں اقتصادی سرگرمی ختم کر دی جائے تو وہاں ٹیکس وصولی بھی خودبخود کم ہوتی چلی جائے گی۔ کیا یہ اقتصادی واقعی اِس حد تک پیچیدہ ہے کہ اِسے سمجھا نہ جا سکے؟
حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکسوں کی بجائے اقتصادی ترقی اُور زیادہ سے زیادہ اقتصادی ترقی پر توجہ دے!
چھٹی حقیقت: پاکستان حکومت کے موجودہ اخراجات سال 2008ءمیں 1.5 کھرب روپے تھے جو 10 برس میں بڑھ کر قریب 7.2 کھرب روپے ہو گئے ہیں۔
چھٹا سوال: کیا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ایسا ہے جہاں کے حکمرانوں کے اخراجات 10 برس میں 500فیصد بڑھے ہوں؟
سب سے بڑی حقیقت:
تمام پاکستانی ٹیکس چور نہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت اپنی مالی حیثیت سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہی ہے۔ یہ پاکستانی ہی ہیں جو ہر سال قومی خزانہ بھرتے ہیں اور یہ پاکستانی رہنما ہی ہیں جو ہر سال قومی خزانہ خالی کرتے ہیں! پاکستان میں طرزحکمرانی کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے بلکہ حکومت کے ضرورت سے زیادہ اخراجات ہیں! حکمرانوں سے درخواست ہے کہ وہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرکے اقتصادی سرگرمیوں کا خاتمہ نہ کریں۔ اقتصادی ترقی کا ہدف‘ ٹیکس اُور مزید ٹیکس لاگو کرنے سے کبھی بھی اُور کسی بھی صورت حاصل نہیں ہو گا!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)