ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عید شہید!
موسم گرما کی شدت اُور گرفت سے چند روزہ سکون کی تلاش میں خیبرپختونخوا سمیت ملک کے میدانی علاقوں سے پہاڑوں کا رخ کرنے والے ’’تہوار اُور تعطیلات‘‘ کے ہر ایک پل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ’سیاحتی سیزن‘ کا اِنتظار کرنے والے مقامی افراد کے لئے ہر سال ’اپریل سے اگست (چار ماہ عروج)‘ کا عرصہ‘ روزگار کا ذریعہ بھی ہے تاہم ’سیاحتی ترقی‘ منصوبہ بندی اُور سہولیات‘ کا موازنہ اَگر صوبہ پنجاب سے کیا جائے تو خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات پر قیام و طعام (اِنفراسٹکچر)‘ اِن مقامات تک رسائی کے راستے (روڈ نیٹ ورکس)‘ ذرائع آمدورفت (پبلک ٹرانسپورٹ) اُور رہنمائی کی سہولیات کے معیار میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں سے آئے ’مہمان سیاحوں‘ کے نکتۂ نظر سے بالائی خیبرپختونخوا (گلیات‘ کاغان‘ ناران‘ سوات تا کالام اُور چترال کی وادیوں) کا ’قدرتی (فطرتی) حسن اُور آب و ہوا‘ ملک کے دیگر صوبوں حتیٰ کہ یورپی ممالک سے بھی بہتر ہے تاہم ’سیاحت بطور صنعت‘ متعارف کرانے‘ نجی شعبے کے مدد سے بہتری کی گنجائش اُور تعمیروترقی کے لاتعداد اِمکانات کو ترقی دی جاسکتی ہے‘ جس کے لئے مالی وسائل سے زیادہ فیصلہ سازوں کے سنجیدہ روئیوں اُور مربوط ترقی کی جامع حکمت عملی وضع کرنے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین سمیت ہر مکتب فکر سے مشاورت ہونی چاہئے۔
فوری اِصلاحات کے لئے ’ملکی و غیرملکی سیاحوں کی رائے (فیڈبیک)‘ سب سے زیادہ کارآمد‘ قابل بھروسہ (مؤثر) ذریعہ ہوسکتا ہے‘ جس کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا)‘ اِینڈرائرڈ اُور دیگر سسٹمز پر چلنے والی اَیپ (سافٹ وئرز)‘ جی پی ایس نقشے‘ آئی وی آر (Interactive Voice Response) سے جڑے ٹول فری (toll-free) نمبر‘ لمحہ بہ لمحہ ٹریفک صورتحال‘ سیاحتی رہنمائی اُور موسمی معلومات کے لئے ’ایف ایم‘ ریڈیو نشریات متعارف کی جا سکتی ہیں جبکہ سیاحتی مقامات کے بارے میں ایسا ’تعارفی لٹریچر‘ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے کسی خاص علاقے میں جنگلات و جنگی حیات کی خوراک‘ ماحولیاتی تنوع میں اُن کی اہمیت‘ مزاج (حفاظتی اُور بقاء کے نکتۂ نظر سے پسندوناپسند)‘ عمومی کھانے پینے و دیگر عادات و خصوصیات کے بارے تفصیلات (رہنما اَصول) عام کی جا سکتی ہیں جس سے ماحول شناسی اُور ہم زمین جانداروں کے بارے میں معلومات ذہن نشین ہوتی چلی جائیں گی اُور سیاحت کا ’تفریحی عمل‘ زیادہ جامع (بامقصد) بن جائے گا۔ تصور کیجئے کہ سیروتفریح کے آنے والوں کو اگر باتوں باتوں‘ قصے کہانیوں‘ راستوں کی رہنمائی کرتے ہوئے درختوں‘ چرند پرند‘ جڑی بوٹیوں‘ موسمی درجۂ حرارت اور انہیں دیگر معلومات منتقل کی جائیں تو اِس (multi-tasking) میں مضائقہ ہی کیا ہے؟
سیاحوں کی رجسٹریشن‘ ہنگامی حالات میں علاج معالجے کی اِضافی (الگ سے) سہولیات کا بندوبست اُور گاڑیوں کے لئے گشتی ورکشاپیں بھی چند ایسی ضروریات ہیں‘ جن کی کمی اُن سبھی سیاحوں کو زیادہ شدت (بلکہ حیرت) سے محسوس ہوتی ہے‘ جو پہلی مرتبہ یا باقاعدگی سے ’سیاحتی سیزن‘ کے دوران ہر سال خیبرپختونخوا کا رُخ کرتے ہیں‘ جہاں گذشتہ چار سال سے ’تحریک اِنصاف‘ کی حکومت ہے لیکن حسب وعدہ ’نیا پاکستان (تبدیلی)‘ دِکھائی نہیں دے رہا! تو کیا ہم سب اَندھے ہو چکے ہیں یا سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز اِس زعم (خودفریبی) میں مبتلا ہیں کہ اِقتدار دائمی ہوتا ہے! ’’کر رہا تھا غم جہاں کا حساب۔۔۔آج تم یاد بے حساب آئے (فیض اَحمد فیضؔ )۔‘‘