Thursday, June 29, 2017

June2017: Tourism on Eid


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
عید شہید!

موسم گرما کی شدت اُور گرفت سے چند روزہ سکون کی تلاش میں خیبرپختونخوا سمیت ملک کے میدانی علاقوں سے پہاڑوں کا رخ کرنے والے ’’تہوار اُور تعطیلات‘‘ کے ہر ایک پل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ’سیاحتی سیزن‘ کا اِنتظار کرنے والے مقامی افراد کے لئے ہر سال ’اپریل سے اگست (چار ماہ عروج)‘ کا عرصہ‘ روزگار کا ذریعہ بھی ہے تاہم ’سیاحتی ترقی‘ منصوبہ بندی اُور سہولیات‘ کا موازنہ اَگر صوبہ پنجاب سے کیا جائے تو خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات پر قیام و طعام (اِنفراسٹکچر)‘ اِن مقامات تک رسائی کے راستے (روڈ نیٹ ورکس)‘ ذرائع آمدورفت (پبلک ٹرانسپورٹ) اُور رہنمائی کی سہولیات کے معیار میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں سے آئے ’مہمان سیاحوں‘ کے نکتۂ نظر سے بالائی خیبرپختونخوا (گلیات‘ کاغان‘ ناران‘ سوات تا کالام اُور چترال کی وادیوں) کا ’قدرتی (فطرتی) حسن اُور آب و ہوا‘ ملک کے دیگر صوبوں حتیٰ کہ یورپی ممالک سے بھی بہتر ہے تاہم ’سیاحت بطور صنعت‘ متعارف کرانے‘ نجی شعبے کے مدد سے بہتری کی گنجائش اُور تعمیروترقی کے لاتعداد اِمکانات کو ترقی دی جاسکتی ہے‘ جس کے لئے مالی وسائل سے زیادہ فیصلہ سازوں کے سنجیدہ روئیوں اُور مربوط ترقی کی جامع حکمت عملی وضع کرنے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین سمیت ہر مکتب فکر سے مشاورت ہونی چاہئے۔ 

فوری اِصلاحات کے لئے ’ملکی و غیرملکی سیاحوں کی رائے (فیڈبیک)‘ سب سے زیادہ کارآمد‘ قابل بھروسہ (مؤثر) ذریعہ ہوسکتا ہے‘ جس کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا)‘ اِینڈرائرڈ اُور دیگر سسٹمز پر چلنے والی اَیپ (سافٹ وئرز)‘ جی پی ایس نقشے‘ آئی وی آر (Interactive Voice Response) سے جڑے ٹول فری (toll-free) نمبر‘ لمحہ بہ لمحہ ٹریفک صورتحال‘ سیاحتی رہنمائی اُور موسمی معلومات کے لئے ’ایف ایم‘ ریڈیو نشریات متعارف کی جا سکتی ہیں جبکہ سیاحتی مقامات کے بارے میں ایسا ’تعارفی لٹریچر‘ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے کسی خاص علاقے میں جنگلات و جنگی حیات کی خوراک‘ ماحولیاتی تنوع میں اُن کی اہمیت‘ مزاج (حفاظتی اُور بقاء کے نکتۂ نظر سے پسندوناپسند)‘ عمومی کھانے پینے و دیگر عادات و خصوصیات کے بارے تفصیلات (رہنما اَصول) عام کی جا سکتی ہیں جس سے ماحول شناسی اُور ہم زمین جانداروں کے بارے میں معلومات ذہن نشین ہوتی چلی جائیں گی اُور سیاحت کا ’تفریحی عمل‘ زیادہ جامع (بامقصد) بن جائے گا۔ تصور کیجئے کہ سیروتفریح کے آنے والوں کو اگر باتوں باتوں‘ قصے کہانیوں‘ راستوں کی رہنمائی کرتے ہوئے درختوں‘ چرند پرند‘ جڑی بوٹیوں‘ موسمی درجۂ حرارت اور انہیں دیگر معلومات منتقل کی جائیں تو اِس (multi-tasking) میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ 

سیاحوں کی رجسٹریشن‘ ہنگامی حالات میں علاج معالجے کی اِضافی (الگ سے) سہولیات کا بندوبست اُور گاڑیوں کے لئے گشتی ورکشاپیں بھی چند ایسی ضروریات ہیں‘ جن کی کمی اُن سبھی سیاحوں کو زیادہ شدت (بلکہ حیرت) سے محسوس ہوتی ہے‘ جو پہلی مرتبہ یا باقاعدگی سے ’سیاحتی سیزن‘ کے دوران ہر سال خیبرپختونخوا کا رُخ کرتے ہیں‘ جہاں گذشتہ چار سال سے ’تحریک اِنصاف‘ کی حکومت ہے لیکن حسب وعدہ ’نیا پاکستان (تبدیلی)‘ دِکھائی نہیں دے رہا! تو کیا ہم سب اَندھے ہو چکے ہیں یا سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز اِس زعم (خودفریبی) میں مبتلا ہیں کہ اِقتدار دائمی ہوتا ہے! ’’کر رہا تھا غم جہاں کا حساب۔۔۔آج تم یاد بے حساب آئے (فیض اَحمد فیضؔ )۔‘‘

Sunday, June 25, 2017

June2017: Commercialization Policy of KP need a revision!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گلیات: حسن اِنتخاب!
وقت گویا رُک سا گیا ہے۔ ایک جیسے اقدامات سے متعلق بیانات بطور ’یاد دہانی‘ حرج (مضائقہ) نہیں لیکن برسرزمین حقائق میں تبدیلی کے اہداف حقیقی اُور قابل عمل ہونے چاہیءں۔ یادش بخیر ’’سولہ اکتوبر دوہزار پندرہ‘‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ایک ایسی ویب سائٹ (website) کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے کوئی بھی پاکستانی خیبرپختونخوا کی ملکیت ’ریسٹ ہاؤسیز‘ میں قیام و طعام کر سکے گا۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا جس میں ’عوام و خواص‘ کے درمیان فرق ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُن ’نوگو ایریاز‘ کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے گئے‘ جن پر صرف اور صرف ’صاحبان اقتدار واختیار‘ قابض چلے آ رہے تھے۔ اِس سلسلے میں منعقدہ تقریب حافظے میں محفوظ ہے جب نتھیاگلی کے ’ریٹریٹ ہاؤس‘ میں صوبائی حکومت کے وہ سبھی مرکزی کردار اور تحریک انصاف کے مرکزی قائدین بہ نفس نفیس موجود تھے جو نتھیاگلی آنے (وزٹ) کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! اِس ماشاء اللہ تقریب میں 15عدد ریسٹ ہاؤسیز کو ’ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا‘ کے حوالے کرنے کا باضابطہ اعلان کیاگیا تھا۔ اِس پیشرفت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھر سے نتھیاگلی کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ رواں ہفتے (تیئس جون دوہزار سترہ) خیبرپختونخوا کی ’کمرشلائزیشن پالیسی‘ کے تحت ’پہلے مرحلے میں‘ ضلع ایبٹ آباد کے پرفضا بالائی علاقوں (گلیات) کے ’پندرہ ریسٹ ہاؤسیز‘ کو ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)‘ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ یہ پندرہ ’ریسٹ ہاؤسیز‘ 13 صوبائی محکموں کے رحم و کرم پر رہے‘ جہاں قیام پاکستان سے ’اَفسرشاہی (اَعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) اُور اُن کے اہل و عیال‘ گرمیوں کا موسم ٹھاٹھ باٹھ سے گزارتے۔ صرف ایک مثال سے اِس پورے منظرنامے کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ نتھیاگلی میں ’16 کنال رقبے‘ پر پولیس ریسٹ ہاؤس میں کل 6کمرے (تین ڈیلکس اور تین ڈبل بیڈ رومز) ہیں۔ برطانوی راج کے دوران تعمیر کئے گئے اِس ریسٹ ہاؤس کا نام ’روکنگھم ہاؤس (Rockingham House)‘ تھا‘ جسے قیام پاکستان (1947ء) کے بعد تبدیل کرکے ’آئی جی پی ہاؤس‘ اُور بعداَزاں ’پولیس ریسٹ ہاؤس‘ کہا جانے لگا۔ یاد رہے کہ نتھیاگلی میں ایک کنال اراضی کی قیمت تین سے چار کروڑ روپے ہے اور تعمیراتی اخراجات الگ سے میدانی علاقوں کے مقابلے ہزار گنا زیادہ آتے ہیں۔

حسن اِنتخاب نے دلچسپ صورتحال کو جنم دیا ہے۔ تحریک اِنصاف کی مرکزی قیادت اُور موجودہ خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومت کی ’نظرکرم‘ گویا ’گلیات‘ پر ٹک (رُک) گئی ہے! یہ بات اب تو خبر بھی نہیں رہی کہ چیئرمین عمران خان اُور مرکزی قائدین نے ’نتھیاگلی‘ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں‘ جہاں پارٹی میں شمولیت کرنے والی سیاسی شخصیات کو بھی مدعو اور دعوتوں کا اہتمام ایک معمول بن چکا ہے لیکن نہ تو حکمرانوں کے معمولات بدلے ہیں اور نہ ہی گلیات کے حالات! جہاں کے مقامی افراد کے لئے ماضی و حال تبدیل نہیں ہوا۔ سرکاری وسائل سے اگر کبھی ’’جنگل میں منگل‘‘ افسرشاہی کے دم کرم سے ہوا کرتا تھا تو اَب خوشگوار موسم میں ’اِنجوائے (enjoy)‘ کرنے والے سیاست دان ہیں۔ گلیات کے رہنے والے اِس خدشے کا برملا اِظہار کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ’کمرشل ائزیشن‘ کے نام اُن قیمتی اثاثوں کو اُونے پونے داموں فروخت کردے گی اور اِس مرتبہ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین دیگر مختلف ناموں سے ’ریسٹ ہاؤسیز‘ کے مالک بن جائیں گے! خاکم بدہن ایسی تبدیلی نہ سنی نہ کہیں دیکھی! نتھیاگلی اُور ملحقہ علاقوں میں تجاوزات کے خلاف مہمات پر مقامی افراد کا اِحتجاج جاری ہے جبکہ صوبائی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سیر کے لئے آنے والوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے گلیات کو تجاوزات سے پاک کیا جائے گا۔ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ ایبٹ آباد سے نتھیاگلی تجاوزات کا شمار ممکن نہیں لیکن نتھیاگلی سے صوبہ پنجاب کی حدود‘ خیرا گلی تک ترقی کا عمل اور حکومتی اداروں کی توجہ دیدنی ہے۔ ایبٹ آباد میں تجاوزات اور سڑکوں کی حالت نتھیاگلی کے سوفیصد برعکس ہے۔ اگر سیاحت کی ترقی ہی مطلوب و مقصود ہوتی تو تعمیروترقی‘ تجاوزات کا خاتمہ اور سیاحوں کے لئے رہنمائی و سہولیات کی فراہمی چار مرحلوں میں پائیدار و مربوط کی جا سکتی تھی۔ رابطہ شاہراہیں اور بائی پاس بنائے جا سکتے تھے۔ پہلا مرحلہ ہری پور سے حویلیاں‘ دوسرے مرحلے میں ایبٹ آباد تیسرے مرحلے میں ایبٹ آباد سے گلیات اور چوتھے مرحلے میں گلیات بشمول سرکل بکوٹ (پی کے پینتالیس) پر توجہ دی جاتی جس سے سیاحت کا فروغ بھی ہوتا اور روزگار کے نئے مواقعوں کی وجہ سے مقامی افراد کی زندگیاں بھی آسان ہوتیں۔ گلیات کی ’جنت نظیر وادیوں‘ میں رہنے والے رابطہ شاہراؤں کی خستہ حالی‘ علاج معالجے‘ تعلیم‘ پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات اور پائیدار روزگار سے محروم ہیں۔ قومی اسمبلی کے دو اُور صوبائی اسمبلی کے دو اِنتخابی حلقوں میں تقسیم ’بالائی ضلع ایبٹ آباد‘ پر تیس سال تک ماضی کے حکمرانوں نے یہاں کے رہنے والوں کو محروم اور محکوم بھی رکھا۔ گلیات سے سیاسی تعصبات کا خاتمہ اُور تعمیروترقی کے عمل میں مقامی بلدیاتی نمائندوں کی مشاورت بھی شامل ہونی چاہئے۔

حکومتی ’ریسٹ ہاؤسیز‘ کی نجکاری (کمرشل ائزیشن) ’سونے کے اَنڈے دینے والی مرغی ذبح‘ کرنے کے مترداف عمل ہوگا۔ دنیا میں کہیں بھی سیاحتی مقامات صرف اُور صرف سرمایہ دار‘ بااثر اُور سیاسی شخصیات کی آسائش و سکون کے مراکز نہیں ہوتے بلکہ حکومت متوسط طبقات کے لئے بھی معیاری تفریح کے مواقع اور اِمکانات ذہن میں رکھتی ہے۔ کیا کوئی ایسی مثال موجود ہے جس میں خیبرپختونخوا میں موسم گرم کی شدت والے میدانی علاقوں سے سرکاری سکولوں کے بچوں کو چند ہفتے گلیات کی سیر کرائی جائے؟ پشاور یونیورسٹی کے ’باڑہ گلی کیمپس‘ پر مستقل بنیادوں پر اساتذہ و انتظامیہ ڈیرے ڈالے رہتی ہے‘ جہاں طلباء و طالبات کو چند روز کے لئے مدعو کرنے جیسی ’سخاوت (فراخدالی)‘ کے مظاہرے پر لاکھوں روپے خرچ کرنا ایک ایسا معمول (بدعت حسنہ اور بدعنوانی) ہے‘ (تعجب ہے کہ) اِس جانب صوبائی حکومت تاحال متوجہ نہیں ہوئی۔ گلیات میں ’عیاشی کے اڈے‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مقامی اَفراد خاموش تماشائی بنے وہ سب کچھ ’سہتے‘ ہیں جو نہ تو علاقے اُور نہ ہی اسلامی روایات (تعلیمات) کا حصہ ہیں! گلیات کی خوبصورتی اُور موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے تشریف لانے والوں کو تصور بھی نہیں ہوتا کہ اِن علاقوں میں مقامی اَفراد بھی رہتے ہیں‘ جن کے ہاں بیماری‘ ماتم‘ سوگ یا غم کا ماحول بھی ہوسکتا ہے۔ بلند آواز میں موسیقی‘ سرعام رقص و سرور کی محفلیں یا کھانے پینے کی اَشیاء کے خالی ڈبے‘ گندگی (کوڑاکرکٹ) پھیلانے سے گلیات کی مقامی اَفراد اُور جنگی حیات کے ’معمولات زندگی‘ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ سیاحت کا شوق کرنے والوں کے لئے رہنما اصول‘ شعور‘ رہنمائی‘ پردے اور حدودوقیود کی پابندی و اِحترام کے حوالے سے بھی ضروریات کا اِدراک و اِحساس ہونا چاہئے۔

Saturday, June 24, 2017

June2017: Why protecting the-environment with laws, not just enough!?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مشن: پاک سرزمین!
خیبرپختونخوا حکومت کی ’خلوص نیت‘ سے کوشش رہی ہے کہ غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی مصنوعات بالخصوص اُن کم قیمت ’شاپنگ بیگز‘ پر عائد پابندی کا ’سوفیصدی‘ اطلاق عملاً ممکن بنایا جائے‘ جن کی وجہ سے نہ صرف قدرتی ماحول کو خطرات لاحق ہیں بلکہ ایسی ’مضر پلاسٹک‘ سے بنی اَشیاء کے روزمرہ و عمومی استعمال کی وجہ سے ’اِنسانوں اُور دیگر ہم زمین جانداروں کی صحت‘ بھی مستقل خطرے سے دوچار ہے لیکن صوبائی فیصلہ سازوں کا یہ عزم‘ حتیٰ کہ قانون سازی جیسی ضرورت پوری کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہونے کے اسباب توجہ طلب ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پابندی کے اطلاق کے باوجود بھی مارکیٹ میں کھلے عام ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے بنی اشیاء فروخت ہو رہی ہیں بالخصوص دور دراز اضلاع میں صورتحال زیادہ سنگین ہے‘ جہاں کمزور انتظامی نظام کی بدولت قدرتی ماحول (آب و ہوا) کی تباہی کے اِن بنیادی محرکات کی بذریعہ حکم (قوانین اور قواعد) حوصلہ شکنی ممکن نہیں۔ مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت ہونے والے ’سیاہ رنگت والے اُور دیگر غیرمعیاری پلاسٹک سے بنائے گئے شاپنگ بیگز‘ کی بھرمار دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ایک تو معاشرے کی ہر خصوصی و عمومی سطح پر شعور کی کمی ہے کہ صارفین ازخود غیرمعیاری شاپنگ بیگز کا استعمال ترک کر دیں جیسا کہ مغربی ممالک میں ہوا ہے اور دوسرا قانون نافذ کرنے والوں اِداروں اُور ضلعی انتظامیہ کی دیگر مصروفیات (ترجیحات) میں اِنہیں اِس بات کا خیال (دھیان) ہی نہیں رہتا کہ کس طرح ایک ’زہر‘ نہایت ہی خاموشی سے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر رہا ہے اُور اگر ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے اشیاء کی تیاری‘ فروخت اور استعمال کے جاری سلسلے کو اِس مرحلے پر نہ روکا گیا‘ تو اِس سے قدرتی ماحول پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔

آنے والے دنوں میں موسمیاتی تبدیلیاں زیادہ تیزی سے ظہور پذیر ہوں گی۔ بارشوں میں کمی اور اِن کی طوفانی شدت میں اضافہ ہوگا جبکہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے اور دریاؤں‘ ندی نالوں میں طغیانی کے باعث زمین کے کٹاؤ جیسے انتہاء کے منفی اسباب ظاہر ہوں گے‘ جو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا جیسی زراعت پر منحصر معیشت و معاشرت کے لئے ’اچھی خبر‘ نہیں۔

کسی تحریک کی کامیابی کے لئے ’عزم‘ کا مسلسل رہنا بھی ضروری ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی اشیاء کے خلاف ’نئے عزم‘ سے کاروائی کے لئے ’ایک مرتبہ پھر‘ ایسی ہر قسم کی پلاسٹک سے مصنوعات (اشیاء) کی درآمد‘ تیاری اور خریدوفروخت پر ’پابندی عائد کر دی ہے‘ جنہیں اگر زمین میں دفن کیا جائے تو وہ اَزخود (قدرتی طور پر) زائل (تحلیل) نہ ہوں۔ کیمیائی مادوں سے بنی ہوئی ایسے non-biodegradable مادوں (خام مال) کی درآمد اور اِن سے مختلف اشیاء کی تیاری پر نئی پابندیوں کی منظوری کا اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) ’21 جون‘ کو جاری کیا گیا ہے جسے ’’خیبرپختونخوا پروہیبی ٹیشن آف نان بائیوڈیگریڈایبل پلاسٹک پراڈکٹس اینڈ ریگولیشنز آف آکزو بائیوڈگریڈایبل پلاسٹک پراڈکٹس رولز 2017ء‘‘ جیسی طویل و پیچیدہ اصطلاحی نام دیا گیا ہے۔

سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو قانون اور قواعد سازی کرتے ہوئے ’عام فہم مفہوم‘ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ عام آدمی (ہم عوام) کی قانون سازی میں دلچسپی کا معیار بڑھایا جا سکے اور اُن جملہ اہداف کا حصول عملاً یقینی بنایا جا سکے جو ائرکنڈیشن کمروں اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر وضع کئے جانے والے اعدادوشمار کی حد تک تو بہت ہی خوبصورت ہیں لیکن ان کا برسرزمین حقائق سے تعلق نہیں۔ قوانین اور پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے روائتی طورطریقوں کی اصلاح کرنا ہوگی جیسا کہ ’ہوائی فائرنگ‘ پر پابندی کا سوفیصد ہدف تاحال حاصل نہیں ہوسکا اور یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’بناء اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے‘ فیصلہ کیا ہے کہ ’ہوائی فائرنگ کے خلاف عوامی شعور میں اضافے کے لئے مسجد و منبر سے مدد لی جائے۔

علماء دین اور مساجد کے وعظین اِس سلسلے میں قرآن و حدیث مبارکہ کی روشنی میں عوام الناس کی رہنمائی کریں کہ کس طرح یہ بات بھی ’فرائض‘ ہی میں شامل ہے کہ نہ صرف اردگرد کے قدرتی ماحول کا خیال رکھا جائے بلکہ ایسی اشیاء کا استعمال بھی ترک کردیا جائے‘ جو ماحول کی تباہی (زوال پذیری) کا سبب بن رہی ہیں اور اِن میں سب سے نمایاں ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے بنی ہوئی اشیاء ہیں۔

ہوائی فائرنگ جیسے ’بے لذت گناہ‘ کے بارے میں عوامی شعور کی سطح ایک درجے بلند کرنے کی حکمت عملی کا اطلاق اگر ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ کی اَشیاء پر بھی کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ غیرمعیاری پلاسٹک سے بنی اشیاء کی مانگ میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔ فیصلہ سازوں کے لئے دوسرا محاذ ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ سے مختلف مصنوعات (اشیاء) تیار کرنے والی وہ صنعتیں اور فروخت کے مراکز ہیں‘ جہاں پابندی کا اطلاق ہونے سے قبل بڑی مقدار میں ایسی ’پلاسٹک‘ موجود ہے‘ جسے ممنوع تو قرار دے دیا گیا ہے لیکن حکومت کے پاس نہ تو اِن کی مقدار (حجم) کے بارے میں اعدادوشمار ہیں اور نہ ہی ایسے ذخیروں کو قبضے میں لیا گیا ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ’مضر ماحول پلاسٹک کے ذخیروں‘ کو بھی تلف کیا جائے کیونکہ جب تک چوری چھپے غیرمعیاری پلاسٹک سے روزمرہ استعمال کی کم قیمت مصنوعات کی تیاری کا عمل جاری رہے گا‘ اُس وقت تک صرف قانون سازی اور حکمنامے کارآمد (کارگر) ثابت نہیں ہوں گے۔

تجویز ہے کہ اِس سلسلے میں صنعتکاروں کو بذریعہ مذاکرات (بات چیت) اعتماد میں لیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب تک خام مال اور گوداموں میں پڑی ہوئی اشیاء فروخت ہو کر ختم نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک ایسی کسی بھی پابندی کے (خاطرخواہ اثرات) ثمرات ظاہر نہیں ہوں گے۔

عوامی سطح پر کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے استعمال کرنے کی ترغیبی مہمات شروع کی جا سکتی ہیں جن میں عام آدمی (ہم عوام) کو ماحول دوست ’طرز زندگی‘ کے اصول اور اُن طور طریقوں کی یاد دہانی کرائی جائے جو کبھی ہمارے معاشرے کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔ ہر گھر میں دودھ‘ دہی‘ روٹی‘ سبزی یا دیگر روزمرہ ضروریات لانے کے لئے کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے یا برتن استعمال کئے جاتے تھے‘ جن کی جگہ رفتہ رفتہ ’پلاسٹک شاپنگ بیگز‘ نے لے لی۔ یاد رہے کہ شفاف پلاسٹک کے علاؤہ دھندلی یا کالی رنگت والی پلاسٹک کی اشیاء بالخصوص ماحول و انسان دوست نہیں۔

صوبائی حکومت کو ’غیرمعیاری پلاسٹک‘ کے بارے میں جہاں ’عوامی شعور‘ میں اضافہ کرنے کے لئے مسجد و منبر‘ نصاب تعلیم‘ ذرائع ابلاغ اور مہمات جیسے حربوں سے کام لینا چاہئے وہیں صنعتکاروں‘ تاجروں اُور دکانداروں کو بھی ’مشن پاک سرزمین‘ کا حصہ بناتے ہوئے اُس ’جدوجہد (جہاد)‘ میں عملاً شریک کرنا چاہئے‘ جس کا تعلق (دارومدار) کرۂ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی حیات و بقاء (حال و مستقبل) سے ہے!

Friday, June 23, 2017

July2017: The Quds Day!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
یوم جہانی قدس!
عالم اِسلام کے طول و عرض میں ہر سال ’ماہ رمضان‘ کا آخری جمعۃ المبارک ’’یوم القدس‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اِظہار یک جہتی‘ فلسطینیوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت اور عرب سرزمین کے ایک حصے پر اِسرائیل کے غاصبانہ قبضے‘ اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اُور جنگی جرائم کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا ہے لیکن یہ دن محض احتجاج کی حد تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اُس نظریاتی تحریک کا تسلسل بن گیا ہے جو 1979ء کے انقلاب جمہوری اسلامی ایران سے ہویدا ہوا۔ جن ناقدین کو ’اِیران کے اسلامی انقلاب‘ میں ’پوشیدہ توانائی‘ سمجھ نہیں آ رہی وہ اگر ’یوم القدس‘ ہی کا بغور جائزہ لیں‘ تو جان لیں گے کہ کس اَنداز میں مسلمانوں کا اتحاد انہیں ’دنیا کی سپرپاور‘ کے طور پر پھر سے عروج عطا کر سکتا ہے! 

مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والے اِنہیں فروعی اور مسلکی اختلافات میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں لیکن ’یوم القدس‘ نے اِس سازش کو بھی بے نقاب کیا ہے اور آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہر رنگ و نسل اور مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بالخصوص ’یوم القدس‘ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اِس مناسبت سے منعقد ہونے والے اجتماعات میں دیگر مذاہب کے ماننے والے ’انسان اور امن دوستوں‘ کی شرکت اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا کی فلاح و بہبود جیسا منصب عظیم (امامت) صرف اور صرف اسلام ہی کے دیئے گئے ’نظام حیات‘ سے ممکن ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’قدس‘ کی مناسبت سے ’خصوصی دن‘ کا آغاز اسرائیل حکومت نے ’مئی 1968ء‘ سے اپنی کامیابیوں کا جشن منانے کی صورت کیا تھا‘ جسے ’یوم یروشلیم (Yom Yerushalayim)‘ کا نام دیا گیا اُور اِسی دن کو مختلف اَنداز میں متعارف کراتے ہوئے ’اِیران کے اسلامی اِنقلاب (اَلفجر)‘ کی روح رواں‘ آیت اللہ سیّد روح اللہ الموسوی الخمینی المعروف اِمام خمینیؒ (وفات: 3 جون 1989ء) نے مسلمانوں کو ’تحریک فکروعمل‘ سے روشناس کرایا کہ کس طرح اِسرائیل اُور اِس کی پشت پناہی کرنے والے صیہونی ممالک سازشیں کر رہے ہیں۔ 

’یوم القدس‘ کا دنیا پیغام شعور کے ساتھ بڑھتا چلا گیا اور آج ایک دنیا نہ صرف امام خمینیؒ کی سیاسی بصیرت اور روحانی مرتبے کی معترف ہو چکی ہے بلکہ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل کا ناپاک وجود صرف عرب سرزمین اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک ہی کے لئے نہیں بلکہ عالم اسلام کے مقدس ترین شہروں مکۃ المکرمہ اُور مدینۃ المنورہ کے علاؤہ جوہری صلاحیت رکھنے والا واحد اسلامی ملک پاکستان کے خلاف بھی اسرائیلی عزائم ایک ایسا خطرہ ہیں‘ جن سے نمٹنے کے لئے مسلمانوں میں اِتحاد و اتفاق ضروری ہے۔

سترہ اگست 1979ء کو پہلی مرتبہ امام خمینیؒ نے ’’عالمی یوم القدس‘‘ منانے کا اعلان کر کے صہیونیت کو لرزہ بر اندام کر دیا۔ وہ صہیونیت جس نے فلسطین پر ناحق قبضہ جما کر تل آبیب کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دیا اور اس شہر میں ساکن فلسطینیوں کو نکال کر جلا وطن اور بے گھر کر دیا۔وہ صہیونیت جس نے نہ صرف فلسطینیوں سے ان کا وطن چھینا بلکہ ہزاروں کی زندگیاں چھینیں‘ بچوں سے ماں باپ کا سایہ چھینا‘ ماؤں کی گودیاں خالی کیں‘ جوانوں سے جوانیاں چھیں لیں‘ والدین سے اولادیں چھینیں‘ ہزاروں خواتین کو بیوہ کیا اور آخر کار مسلمانوں کا ’’قبلہ اوّل‘‘ بھی چھین لیا۔ صہیونیت صرف فلسطین پر قبضہ جمانے کی کوشش ہی نہیں بلکہ نیل سے فرات تک اپنی سلطنت پھیلانے کا خواب دیکھ رہی ہے لیکن ’اکیس اگست 1979ء کو امام خمینیؒ نے ’مسلم اُمہ‘ کے خلاف یہ پیغام جاری کیا کہ ۔۔۔ ’’میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا نام دے کر تمام عالم اسلام کو دعوت دیتا ہوں کہ غاصب صہیونیت کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اگر ساری دنیا کے مسلمان صرف ایک ایک بالٹی پانی کی اسرائیل پر انڈھیل دیں گے تو اسرائیل غرق میں جائے گا‘ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ تمام مسلمانانِ عالم اور اسلامی ممالک سے مطالبہ ہے کہ وہ غاصب اسرائیل اور اس کے حامیوں کے بڑھتے ہاتھوں کو روکنے کے لئے آپس میں متحد ہو جائیں اور میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو جو ’’قدر‘‘ کے ایام میں سے ہے اور فلسطینی عوام کی تقدیر بھی معین کرسکتا ہے‘ یوم القدس کے طور پر انتخاب کریں اور سب مل کر فلسطینی مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں عالمی یکجہتی کا اعلان کریں۔ خداوند عالم سے مسلمانوں کی اہل کفر پر کامیابی کے لئے دعاگو ہوں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ اِس سادہ پیغام سے آج ’عالم استکبار‘ کی نیندیں حرام ہیں اُور ’یوم قدس‘ احیائے اسلام کا دن ثابت ہو رہا ہے‘ اس دن کے ذریعے اسلام کو دوبارہ حیات و توانائی مل رہی ہے اور اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ اور مستضعفین کا مستکبرین سے مقابلے کا موقع ثابت ہو رہا ہے۔
 Protests on the eve of Quds Day in Pakistan & across Muslim world is one of the objective of Iranian Revolution to unite the Muslim Ummah

Thursday, June 22, 2017

July2017: Unhealthy trends in health sector reforms!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بگڑا منظر: شعوری کوششیں!
تحریک اِنصاف کے چیئرمین عمران خان کی مداخلت نہ ہوتی تو ’’خیبرپختونخوا حکومت کسی بھی صورت اِحتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے اُن تمام مسائل کا حل تلاش کرنے پر رضامند نہ ہوتی‘ جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں ’علاج معالجے کا نظام‘ متاثر ہو رہا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت ملنے کے بعد ’ینگ ڈاکٹروں‘ نے اپنی احتجاجی تحریک مؤخر کر دی ہے۔ جمہوریت کا حسن ’اختلاف رائے‘ ہوتا ہے اور اس میں حکمران بولنے سے زیادہ سننے اور مسئلے مسائل حل کرنے میں اپنی ’اَنا‘ کی قربانی پیش کرتے ہیں! رعایا کی بات سن کر اُن کے تحفظات دور کئے جائیں تو اسے ’ہار ماننا (گھٹنے ٹیک دینا)‘ قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ ریاست کی شفقت و عنایات اور سزأ و جزأ کے درمیان توازن کی وجہ سے ایک ایسا مربوط نظام تشکیل پاتا ہے جس میں عام آدمی (ہم عوام) کے لئے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ڈپٹی سیکرٹری صحت اَیڈمن زبیر اَحمد کی جانب سے تحریر کئے گئے ’مذاکراتی دعوت نامے‘ کا متن نہایت ہی دلچسپ ہے کہ ’’وزیرصحت کی جانب سے آپ کے گوش گزار کیا جاتا ہے کہ حکومت ’ینگ ڈاکٹرز‘ کے مسائل کو عوامی مفاد میں حل کرنے اور مختلف سطح پر جاری احتجاج ختم کرنے کے لئے بات چیت (ڈائیلاگ) کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبائی سطح پر علاج معالجے کا نظام فعال رہ سکے۔‘‘ حکومت کی جانب سے ’ینگ ڈاکٹرز‘ کو اپنے حتمی مطالبات تحریری طور پر داخل دفتر کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے یقیناًاِس تدبیر کا مقصد یہی ہوگا کہ ڈاکٹروں کے نمائندے مذاکراتی عمل کے دوران کسی نئے مطالبے کا اضافہ نہ کر سکیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ’ینگ ڈاکٹر‘ کی احتجاجی تحریک کے درپردہ سیاسی مقاصد بھی ہیں اور کچھ ’سینئر ڈاکٹرز‘ نے اپنی لوٹ مار اور عہدوں کے ناجائز استعمال پر ’ضرب‘ لگنے کے بعد انتقاماً ’ینگ ڈاکٹرز‘ کو حکومت کے خلاف استعمال بھی کیا ہے۔ ’ینگ ڈاکٹرز‘ اگر احتجاج کی بجائے دانشمندی کا ثبوت دیتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ اُن کے مسائل جن میں بیشتر کا تعلق انتظامی ڈھانچے سے ہے بتدریج حل ہوتے چلے جاتے۔ ’’کوششیں مجھ کو منانے کی بھلے ہوں کامیاب۔۔۔ مٹتے مٹتے بھی میں‘ مٹنے کا مزہ لے جاؤں گا (کمار وشواس)۔‘‘ ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کا ایک سبب صوبائی فیصلہ سازوں کا شاہانہ مزاج بھی ہے کہ وہ خود کو ’عقل کل‘ اور مشاورت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اگر ’ینگ ڈاکٹر‘ احتجاج پر مجبور ہوئے تو اِس ہڑتال کی نوبت آنے اور متعدد علامتی ہڑتالوں کا نوٹس پہلے ہی کیوں نہیں لیا گیا؟

’ینگ ڈاکٹرز‘ کے بنیادی مطالبات میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں جس میں کچھ نہ کچھ مصلحت کی گنجائش پیدا نہ کی جاسکتی ہو جیسا کہ سرکاری ہسپتالوں کی ’پوسٹ گریجویٹ‘ حیثیت کی بحالی‘ ٹرینی میڈیکل آفیسرز کے لئے انڈومنٹ فنڈ کی تشکیل‘ ڈاکٹروں کے لئے سیکورٹی‘ ٹائم سکیل کے مطابق محکمانہ ترقیاں‘ ڈاکٹروں کے لئے رہائشی سہولیات میں اضافہ‘ اور دوران ڈیوٹی یا ملازمت فوت ہونے والے ڈاکٹروں کے لواحقین کے لئے معاوضے (مالی معاونت) کا مطالبہ کسی بھی صورت ناجائز نہیں۔

’ینگ ڈاکٹروں‘ اگر ہسپتالوں میں دستیاب علاج معالجے کی سہولیات میں اضافے‘ ادویات کی کمی‘ اپنے سینئر ڈاکٹروں اور انتظامی عہدوں پر فائز کرداروں کی بدعنوانیوں کے بارے تحقیقات اور کارکردگی کے احتساب کو بھی مطالبات کا حصہ بنا لیں تو اِس سے اُنہیں عوام کی نظروں میں ’ہیرو‘ بننے کا ’اخلاقی جواز‘ بھی ہاتھ آ جائے گا اور اگرچہ حق تو یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہیں ہوگا لیکن کم سے کم ’ینگ ڈاکٹرز‘ اپنے ضمیر کی عدالت میں تو سرخرو ہو ہی جائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری ’ینگ ڈاکٹروں‘کی ہڑتال کے دوران قریب ستر فیصد مطالبات حکومت پہلے ہی حل کرنے کی یقین دہانی کروا چکی ہے لیکن جیسا کہ پہلے اشارتاً کہا گیا کہ ’ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال‘ کے کچھ سیاسی اہداف بھی ہیں تو جب ’ینگ ڈاکٹرز‘ اور حکومت کے درمیان امور طے پا رہے تھے تو اچانک پشاور کے ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ (ہسپتال) میں چند ینگ ڈاکٹر پرتشدد احتجاج پر اُتر آئے اور قانون نافذ کرنے والوں نے اُن کے خلاف طاقت کا استعمال کر ڈالا! جس سے احتجاجی تحریک پھر سے ’جاگ اُٹھی۔‘ کیا مسئلہ اتنا سادہ ہے کہ ڈاکٹر مذاکرات کا حصہ بن کر چند گھنٹوں میں اِسے حل کر لیں گے؟ 

’ینگ ڈاکٹروں‘ کو اِس بات پر بھی اعتراض ہے کہ خیبرپختونخوا میں محکمۂ صحت کے تمام فیصلے ’ڈاکٹر نوشیروان برکی‘ کو سونپ دیئے گئے ہیں اور جب تک تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے مقرر کردہ اِس منظور نظر ’ڈاکٹر برکی‘ کا فیصلہ سازی میں حتمی کردار موجود رہے گا‘ اُس وقت تک ینگ ڈاکٹرز کے بقول نہ تو اُن کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں کے مالی و انتظامی معاملات (معمولات) میں بہتری آئے گی! یقیناًتحریک انصاف کے چیئرمین اپنے بارے میں اِس قوی لیکن ’منفی تاثر‘ کو زائل کرنے کا یہ نادر موقع ضائع نہیں کریں گے کہ وہ صوبائی معاملات میں بیجا مداخلت کر رہے ہیں اُور جس اہلیت (میرٹ) پر مبنی ’نئے پاکستان‘ کا تصور اُن کی جانب سے اکثر پیش کیا جاتا ہے‘ اُس کا عملی اطلاق و مظاہرہ (نکتۂ آغاز) ’خیبرپختونخوا‘ میں دیکھا جا سکتا ہے! ’’شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں۔۔۔ وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے! (شاہد ذکی)۔‘‘ 

Wednesday, June 21, 2017

July2017: Education as business and stacks of lawmakers!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
تعلیمی کاروبار!
عرصہ ہوا ’موبائل فون‘ کے کسی مختصر پیغام (شارٹ میسج سروس‘ اَیس اَیم اَیس) کے ذریعے کوئی ’قابل ذکر معلومات‘ ہاتھ آئی ہو۔ اکثر پیغامات بے معنی اور گھسے پٹے لطیفوں یا صبح سے شب بخیر تک نیک تمناؤں اور دعاؤں پر مبنی ہوتے ہیں اور یہی مصرف ’واٹس ایپ‘ و دیگر موبائل میسنجنگ رابطوں کا بھی ہے جہاں گروپوں کی بھرمار میں مقصدیت نجانے کب فوت ہوئی اور دفن کے مقام کا تو کسی کو علم (احساس) بھی نہیں! 

اُنیس جون کی شام یکے بعد دیگرے دو ’ایس ایم ایس‘ پیغامات کے ذریعے معلوم ہوا کہ امتحانی بورڈ میں سرکاری سکولوں کے طلباء و طالبات نے (اچانک) ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بیس نمایاں پوزیشنوں میں اپنا نام درج کروایا ہے۔ سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم نصاب کی حد تک محدود اور درس و تدریس کے عمل میں طلباء و طالبات کی دلچسپی‘ رجحانات‘ قابلیت اور ذہنی سطح کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے یہ ادارے نجی سکولوں سے پیچھے چلے آ رہے تھے اور اِس بات کا حوالہ دیتے ہوئے صوبائی وزارت تعلیم کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے صحافیوں کو فخریہ طور پر خبر دی گئی کہ ’’حضرات نوٹ فرما لیں کہ تحریک انصاف کی تعلیمی پالیسی کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘ 

دوسرا ’ایس ایم ایس‘ پیغام بھی محکمۂ تعلیم ہی سے متعلق تھا‘ جس میں صوبائی حکومت کی جانب سے ’یکساں نظام تعلیم‘ رائج کرنے کے لئے ’نصاب پر نظرثانی‘ کے فیصلے اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا ثانوی و بنیادی تعلیم کے محکمے (ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کی کارکردگی کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ فیصلہ سازوں نے سمجھ لیا ہے کہ جب تک تدریس کے عمل اور نصاب کی کتب کو جدید اصولوں کے قالب میں ڈھالا نہیں جاتا اُس وقت تک سرکاری تعلیمی اِداروں کی ’کارکردگی و معیار‘بصورت امتحانی نتائج بہتر نہیں ہوں گے لیکن کہیں یہ مشکل درپیش نہ آ جائے کہ نصاب کے الفاظ تبدیل کرنے کے بعد اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے اور یوں ’برٹش کونسل‘ کی پھر سے لاٹری نکل آئے! تعلیم کے نام پر ’بہتی گنگا میں نہانے‘ والے آخری مالی سال کی صورت ملنے والے موقع کو غنیمت سمجھ رہے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت نے ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی اور مالی وانتظامی امور کا احتساب نہیں کیا‘ بالکل اِسی طرح کی ’صلۂ رحمی‘ کا مظاہرہ آنے والے حکمران بھی کریں گے! محکمۂ تعلیم کی جانب سے آنے والی یہ وضاحت اپنی جگہ اہم ہے کہ پانچویں جماعت تک نصاب تعلیم پر نظرثانی کے عمل میں اسباق تبدیل نہیں کئے جا رہے بلکہ ماہرین تعلیم کے مشورے سے الفاظ کے انتخاب میں اِس بات کا بطور خاص جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ’بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق نہایت ہی سلیس انداز اختیار کیا جائے۔‘

نتائج پر مبنی درس و تدریس اور بنیادی وثانوی درجات پر تمام کی تمام تر مالی وسائل مرکوز کرنا (جھونکنا) کافی نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ سرکاری جامعات کی جانب بھی مبذول ہونی چاہئے کیونکہ آئندہ مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) کے بجٹ میں سرکاری یونیورسٹیز کی بجائے کالجوں کی بہتری پر زیادہ توجہ دی گئی ہے! اگر ہم آئندہ مالی سال کی ترقیاتی حکمت عملی (اِینول ڈویلپمنٹ پروگرام) کا جائزہ لیں تو چھ ارب (6.320 بلین) روپے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں پینسٹھ منصوبوں کے لئے مختص کی گئی ہے جس میں سے 3ارب (3.996بلین) روپے جاری جبکہ 2 ارب (2.323بلین) روپے سے زائد ستائیس نئے منصوبے شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے پندرہ فیصد اضافہ اپنی جگہ لیکن اس کی تقسیم غیرمنصفانہ ہے کیونکہ نئے ترقیاتی منصوبوں میں سرکاری کالجز میں سہولیات کی فراہمی بنیادی نکتہ ہے۔ سرکاری جامعات کی سطح پر اہم فیصلہ یہ سامنے آیا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی اُور شرینگل یونیورسٹی چترال کو ضم کر کے مکمل (یونٹ) ’چترال یونیورسٹی‘ تخلیق و تشکیل دے دی جائے۔ سالانہ ترقیاتی حکمت عملی میں اگر یکساں توجہ جامعات کو نہیں دی جائے گی تو اِس سے سرکاری سرپرستی میں اعلیٰ تعلیمی ادارے خدمات کا معیار اور مقدار نہیں بڑھا پائیں گے اور لاٹری نجی اداروں کی نکل آئے گی جو پہلے ہی من مانی فیسیوں کے عوض تعلیم نہیں بلکہ ’امتحانی نتائج‘ فروخت (کاروبار) کر رہے ہیں! 

خیبرپختونخوا میں ’تعلیم اُور کاروبار‘ کو الگ الگ کئے بناء محض مالی وسائل مختص و خرچ کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ نجی اِداروں کو دی جانے والی غیرتحریری کھلی چھوٹ کا محرک حسن اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ قانون ساز صوبائی اسمبلی کے اراکین اور صوبائی کابینہ میں ایسے کردار موجود ہیں‘ جن کے ذاتی و کاروباری مفادات ’تعلیمی کاروبار‘ ہی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کو امتحانی کارکردگی کی کسوٹی پر ایک درجہ بلند کرتے ہوئے معیار تعلیم اور نظم وضبط مثالی بنا دیا جاتا ہے تو اِس سے نجی اِدارے ٹھپ ہو جائیں گے! وارے نیارے تو بس سانسیں چلنے (حیات) اور آمدنی کے وسائل قائم و دائم رہنے سے ہیں!

Tuesday, June 20, 2017

July2017: Toothless Education Regulatory Authority in KP, not the practical solution!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دیوانے کا خواب!

اُور جب کھیل سے پہلے ہی ہار مان لی گئی۔ خیبرپختونخوا میں نجی تعلیمی اِداروں سے متعلق ’قانون سازی‘ 23 مئی کے روز کی گئی‘ تاہم ابھی یہ قانون پوری طرح لاگو بھی نہیں ہو پایا تھا کہ ’16 جون‘ (بجٹ پر غوروخوض کے جاری اجلاس کے دوران ہلاگلہ میں) صوبائی اسمبلی نے مذکورہ قانون میں متعدد ترامیم منظور کر لیں‘ جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اب صوبائی حکومت کسی بھی ایسے نجی سکول کو جزوی یا مکمل طور پر بند یا سربمہر نہیں کر سکے گی‘ جو صوبائی حکومت کے مقررہ کم سے کم معیار پر پورا نہیں اُترے گا۔ اِس ترمیم سے قبل قانون کے تحت متعلقہ حکام کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی نجی سکول ضروریات و سہولیات کے مقررہ پیمانے (معیار) پر پورا نہیں اُترتا تو اُس کا اجازت نامہ منسوخ کرتے ہوئے اُسے بند کیا جا سکتا تھا لیکن اِس شق کو تبدیل کرتے ہوئے قانون میں متبادل کے طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ خلاف ورزی کے مرتکب تعلیمی ادارے کے خلاف ’تعزیری کاروائی (Punitive action)‘ کی جائے گی! اِس لمحۂ فکر پر ’دو امور‘ لائق توجہ ہیں۔ نجی تعلیمی اِدارے ’مادرپدر آزاد‘ ہیں‘ جن پر حکومت یا سرکاری قواعد و ضوابط کا خوف طاری نہیں اُور یہ خالصتاً کاروباری اَصولوں پر فعال ہیں۔ اگر سرکاری سکولوں میں نظم وضبط اُور معیار تعلیم بلند ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ سرمایہ داروں کی یوں شعبۂ تعلیم پر ’اجارہ داری‘ قائم ہوتی اور وہ اپنی اِس اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لئے عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرتے! جمہوریت اور قانون سازی کے عمل ہی کو یرغمال بنا لیا جاتا۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی نجی تعلیمی ادارے کے خلاف ’حکومتی تعزیری کاروائی‘ کی کوئی ایک ’عملی مثال‘ بھی موجود ہوتی تو نئی قانون سازی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے ’خیبرپختونخوا پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ 2017ء‘ کا شمار اُن ’اچھے (مثالی) قوانین‘ میں ہو سکتا تھا‘ جن کا مقصد اجتماعی بہبود اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہوتا لیکن صوبائی قانون ساز اسمبلی کی یہ ’شرمناک کارکردگی‘ تاریخ کا حصہ رہے گی کہ پہلے قانون منظور کیا گیا اور پھر اُسے لاگو کرنے سے قبل ہی ’غیرمؤثر‘ کر دیا گیا یعنی قانون کے دانت نکال دیئے گئے جس سے بجا طور یہ تاثر عام ہوا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین ’نجی تعلیمی اداروں کے مفادات کے محافظ‘ بن کر سوچ رہے ہیں اُور اِنہیں ’نجی تعلیمی اداروں کی دن دیہاڑے کھلم کھلا لوٹ مار‘ دکھائی نہیں دے رہی!


ترمیم کے ذریعے خیبرپختونخوا کے نجی تعلیمی اِداروں کو اِس پابندی سے بھی آزاد کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ رشتہ دار بچوں کو ’ٹیوشن فیس‘ میں ’پچیس فیصد‘ رعائت دیں گے۔ ترمیم کے ذریعے ’رشتہ دار (Kinship)‘ کی بجائے یہ رعائت صرف بہن بھائیوں (Siblings) کی حد تک محدود کر دی گئی ہے۔ اَگر قانون سازی عام آدمی (ہم عوام) کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہوتی اور آنکھوں میں دھول جھونکنا ہی مقصود نہ ہوتا تو ’ٹیوشن فیس‘ میں (حاتم طائی) رعائت پچیس کی بجائے پچاس فیصد مقرر کی جاتی۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ پچیس فیصد رعائت صرف ’ٹیوشن فیس‘ کی مد میں دی گئی ہے اور نجی تعلیمی اداروں کو اِس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ 1: وہ ٹیوشن فیس مقرر کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ 2: ٹیوشن فیس سے دیگر اخراجات کسی بھی صورت زیادہ نہیں ہوں گے۔ 3: سردست اگر کوئی نجی سکول ٹیوشن فیس میں رعائت نہیں دیتا تو اُس کے خلاف کاروائی صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے شکایت درج کی جائے۔ دانستہ طور پر ایسا کوئی بھی طریقۂ کار (میکانزم) قانون میں درج ہی نہیں کیا گیا جس کے تحت ’نجی اِداروں‘ کے انتظامی امور کی شفاف طریقے سے نگرانی ہو سکے بالخصوص نجی تعلیمی ادارے صرف مجبور والدین ہی کا نہیں بلکہ اَساتذہ (بالخصوص خواتین ٹیچرز) کا بھی اِستحصال کرتے ہیں اُور بھاری ٹیوشن فیسیں و مختلف ناموں سے دیگر وصولیاں کرنے کے باوجود ٹیچنگ و نان ٹیچنگ عملے کے نہ تو ملازمتی اوقات کار و حالات کار باسہولت ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو ’’ملازمتی تحفظ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ نجی اداروں میں اساتذہ سے غلاموں اور لونڈیوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور بیروزگاری کے خوف سے اُن کے پاس سوائے یہ غیرقانونی بدسلوکی برادشت کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا! آخر یہ بات کیوں ممکن نہیں بنائی جا سکتی کہ کوئی بھی نجی سکول ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف کی خدمات اور انہیں ملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ بناء حکومتی منظوری (ریگولیٹری) نہیں کر سکے گا اُور کسی بھی صورت جز وقتی (عارضی) ملازمت کی آڑ میں ’ٹیچنگ و نان ٹیچنگ سٹاف (عملے)‘ کا اِستحصال کرنے کی غیرتحریری اجازت نہیں دی جائے گا؟ اِصلاح اَحوال (تبدیلی) و اِرتقاء قوانین بنانے سے نہیں بلکہ قوانین و قواعد پر اِن کی روح کے مطابق بلاامتیاز ’عمل درآمد‘ سے ہوتا ہے۔ اب تو موجودہ حکومت کی آئینی مدت کا صرف ایک سال ہی باقی بچا ہے صوبائی سطح پر ’مفادات سے متصادم‘ قانون کب منظور ہوگا؟ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایسے معروف و معلوم کردار موجود ہیں جن کے ذاتی و کاروباری مفادات ’نجی تعلیمی اِداروں‘ سے وابستہ ہیں اور یہ کسی ’دیوانے کا خواب‘ ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اُمید و یقین رکھے کہ ماضی کی طرح تبدیلی کے داعی موجودہ حکمران عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا محافظ بن کر سوچیں گے۔ 


ذرا سوچئے: یقین نہیں آ رہا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت کے خلاف ایک بڑے مقابلے کو جس مہارت سے اپنے نام کیا گیا‘ اُس پر اظہار مسرت‘ مبارک بادوں کا تبادلہ‘ ہوائی فائرنگ اُور شکرانہ اپنی جگہ فطری ردعمل ہیں لیکن کامیابی ٹھوس بنیادوں پر منطق اُور جواز چاہتی ہے۔ کیا ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ’قابل بھروسہ‘ اور حقیقت میں فخریہ ہے؟ کیا پاکستان کی کرکٹ ٹیم مستقبل کے عالمی مقابلوں میں بھی ’پاک بھارت فائنل میچ‘ جیسے ’کھیل کا مظاہرہ (معیار برقرار)‘ رکھ پائے گی؟ کرکٹ کے منتظم ادارے ’پاکستان کرکٹ بورڈ‘ میں اعلیٰ عہدوں پر سیاسی بھرتیوں (منظورنظر افراد کو نوازنے کی پالیسی) کا خاتمہ کب ہوگا؟

Monday, June 19, 2017

June2017: Security of VVIPs challenged, costing us too much!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خیر کی توقعات؟
خیبرپختونخوا میں اَمن و امان کی صورتحال میں غیرمعمولی بہتر (تبدیلی) کا دعویٰ کرنے والوں کا عمل ’’قول وفعل میں تضادات کا مجموعہ‘‘ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ’اہم شخصیات (وی آئی پیز اُور وی وی آئی پیز) کی ذاتی حفاظت کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد یوں تعینات نہ ہوتی۔ اِس بیک وقت تشویشناک‘ مضحکہ خیز اور خودغرضی پر مبنی طرز عمل کی جانب توجہ دلاتے ہوئے معروف وکیل ’محمد خورشید خان‘ نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے تاکہ صوبائی حکومت اور بالخصوص محکمۂ داخلہ‘ پولیس اُور قانون نافذ کرنے والے اِداروں کے دیگر فیصلہ سازوں سے جواب طلبی کی جاسکے کہ آخر کیا جواز (ضرورت) ہے کہ ’خیبرپختونخوا میں قریب ’پانچ ہزار پانچ سو‘ پولیس اہلکار صرف اور صرف گنتی کے اہم شخصیات کے حوالے کر دیئے گئے ہیں جو اُن کی سیکورٹی کے نام پر شخصی ملازم (غلام) بنے ہوئے ہیں جو اپنے آقاؤں کی جان و مال کے محافظ بناتے اجتماعی عوامی مفادات کی قربانی دے دی گئی ہے۔‘‘

منطقی مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں کی بھرتیوں اُور تعیناتیوں کا ’اَصل (مرکزی و بنیادی) مقصد‘ عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت اور قانون نافذ کرنا ہوتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد سے غیرضروری اِستفادے سے نہ صرف اِس اہم فورس کے اہلکار ایک بے معنی کام (ایکسرسائز) میں مصروف (کا حصہ) ہیں اُور دوسرا سرکاری خزانے سے اَدا ہونے والی تنخواہوں اُور مراعات کے عوض بااثر سیاسی و غیرسیاسی شخصیات کو اہم قرار دیتے ہوئے اِس قدر بیجا مصرف کہاں کا انصاف ہے؟ اپنی نوعیت کے اِس انوکھے مقدمے کے پیش ہوتے ہی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اُور جسٹس عبدالشکور پر مبنی عدالت نے متعلقہ فریقین (بوساطت چیف سیکرٹری صوبائی حکومت) کو طلب کرلیا کہ وہ ڈویژنل بینچ (عدالت) کے روبرو حاضر ہو کر اپنا مؤقف (جواز) پیش کریں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ’اہم شخصیات‘ کو کسی بھی وجہ سے ’حفاظت (سیکورٹی)‘ کی ضرورت ہے تو چونکہ اِن اہم شخصیات کا تعلق معاشرے کے غریب غرباء سے نہیں اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہمارے اردگرد کوئی ایک بھی ’اہم شخص (وی وی آئی پی)‘ ایسا نہیں جس کی (معلوم) مالی حیثیت مشکوک نہ ہو۔ عوام کے دکھ درد کا رونا رونے اور مگرمچھ کے آنسو (ٹسوے) بہانے والوں کی مہارت ملاحظہ کیجئے کہ کس طرح نہایت خاموشی و رازداری سے ایک دوسرے کو نوازتے ہیں! اِن صاحبان ثروت کے اردگرد درجنوں کی تعداد میں اُن کے ذاتی ملازمین منڈلاتے تابع فرمان رہتے ہیں تو ایسی صورت میں ’اضافی سیکورٹی‘ کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟ اُور اگر ضرورت ہے تو پھر ’وی وی آئی پیز‘ کو اپنے ہی مالی وسائل سے اِس کا بندوبست کرنا چاہئے۔

لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ اگر فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کرداروں نے ’وی وی آئی پیز‘ کا تشخص برقرار رکھنا ہی ہے تو پھر ایک الگ سیکورٹی فورس کیوں تشکیل نہیں دی جاتی جو صرف اُور صرف اِن ’نام نہاد (خودساختہ)‘ وی وی آئی پیز کے لئے مخصوص ہو۔

عوام کے نام پر بھرتی کئے جانے والے پولیس اہلکاروں اور قومی وسائل کی بندربانٹ کسی بھی صورت ’امانت و دیانت‘ کے اصولوں (کسوٹی) پر پورا نہیں اُترتی۔ اِسی مقدمے کی ذیل میں اگر ’پشاور ہائی کورٹ‘ یہ جواب بھی طلب کرے کہ صوبائی وسائل سے کن کن اور جن جن اراکین قومی اسمبلی کو ’سیکورٹی‘ فراہم کی جا رہی ہے اور شخصی سیکورٹی کے علاؤہ وہ کون کون سے ’وی وی آئی پیز‘ ہیں کہ جن کی رہائشگاہوں پر مستقل پولیس اہلکار تعینات ہیں تو مزید دلچسپ حقائق اور حیران کن اعدادوشمار سامنے آئیں گے۔ تحریک انصاف نے مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ماضی کی روائتی سیاسی جماعتوں کی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی لیکن عرصہ چار سال (مئی دوہزار تیرہ سے جون دوہزار سترہ تک) ایسا کچھ بھی عملاً دیکھنے کو نہیں ملا!

کوئی یقین کرے یا نہ کرے لیکن تحریک انصاف کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ چار سال میں جادوئی طور پر ’خیبرپختونخوا پولیس کو غیرسیاسی‘ کر دیا گیا ہے لیکن عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے تبدیلی صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود ہے وگرنہ تھانہ کلچر اور پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں کا مزاج و کارکردگی ’جوں کی توں‘ برقرار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ چار سال کا وقت ضائع کر دیا گیا جس دوران پولیس کی صفوں (بھیس) میں کالی بھیڑوں کا صفایا سزا و جزأ کے ذریعے ممکن تھا اور اگر اختیارات و خودمختاری کے ساتھ‘ محکمانہ سطح پر احتساب بھی متعارف کرا دیا جاتا کہ ہر پولیس اہلکار کی مجموعی تنخواہوں اور برسرزمین مالی حیثیت (اثاثوں) کے بارے چھان بین کا عمل شروع ہوتا تو کیا ہی بات ہوتی!

کھلی حقیقت ہے کہ اضلاع میں دہائیوں سے تعینات پولیس اہلکاروں نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے کاروباری و ذاتی مفادات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور یہ ’پیٹی بند‘ اتنے ’طاقتور و متحد‘ ہیں کہ عام آدمی اُن کے سامنے آج بھی بے بس و لاچار دکھائی دیتا ہے!

ترجیحات اور خیر اندیشی ملاحظہ کیجئے کہ صوبائی دارالحکومت کے لئے پولیس اہلکاروں کی کل تعداد 6 ہزار 200 ہے جن میں سے 1 ہزار 529 اہم شخصیات کے حوالے ہیں! عجیب منطق ہے کہ اِسی ضلع پشاور میں صرف 25 ’وی وی آئی پیز‘ کے ہمراہ 178 پولیس اہلکار ’شاہانہ مزاج‘ کی تسکین کا سامان ہیں جبکہ ایک ہزار پانچ اہلکار اہم شخصیات کی رہائشگاہوں یا حکومتی دفاتر پر الگ سے تعینات ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ پشاور کے لئے 6200 پولیس اہلکاروں میں سے صرف 3 ہزار ہی باقی بچتے ہیں جن کے کندھوں پر ذمہ داری ہے کہ قریب ستر لاکھ کی آبادی کے شہر کو ہرقسم کے داخلی و خارجی خطرات سے محفوظ رکھیں!

پشاور میں حسب آبادی تھانہ جات اور پولیس اہلکاروں کی افرادی تعداد کون بڑھائے گا؟ اعدادوشمار چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیس کے وسائل و افرادی قوت سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا۔ ملاکنڈ میں 271‘ مردان میں 172‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں 52‘ ایبٹ آباد میں 59‘ کوہاٹ میں 38‘ ہنگو میں 10‘ لوئر دیر میں 101 اور کرک میں 9 پولیس اہلکاروں کا کام صرف اور صرف ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت ہے! علاؤہ اَزیں ڈھیروں ڈھیر ’اہم شخصیات‘ کی حفاظت کرنے والے ہزاروں پولیس اہلکار اِس بات کو ’اِستحقاق‘ سمجھتے ہیں کہ وہ ’خانصاحب بہادروں‘ کی آمدورفت کے موقع پر سڑکیں بند کر دیں‘ جس سے عام آدمی (ہم عوام) کے لئے غیرمعمولی مشکلات پیدا ہوتی ہیں! کیا ’پشاور ہائی کورٹ‘ ایک ایسی گھتی سلجھا پائے گی‘ جس کا بنیادی تعلق ’احساس اور ضمیر‘ سے ہے اور اِن جیسے بہت سے لطیف محسوسات کی نجانے کب سے موت ہو چکی ہے!

Sunday, June 18, 2017

TRANSLATION: Power Play by Dr Farrukh Saleem

Power play
سیاست‘ کھیل اور سیاست!
پاکستان کی تاریخ کا اہم (گھمسان کا) ’مقابلہ (میچ)‘ ہو رہا ہے جس کا حصہ سیاسی ٹیم کے کھلاڑیوں میں مسلم لیگ (نواز)‘ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی جبکہ غیرسیاسی ٹیم میں سپرئم کورٹ آف پاکستان اُور پاک فوج کا ادارہ (جی ایچ کیو) ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں! سردست صورتحال یہ ہے کہ نواز لیگ مشکل میں پھنسی ہوئی ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ رونما نہیں ہو رہا کہ مسلم لیگ کو ’غیرمساعد حالات‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو بلکہ اِس سے قبل 1997ء میں جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو ’توہین عدالت‘ کے حوالے سے ایک پیشی کا سامنا تھا‘ جب 2014 ء میں تحریک انصاف نے پارلیمینٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا تھا‘ یا پھر 2016-17ء میں جب ’ڈان لیکس‘ کی صورت انکشافات سامنے آئے تھے اور رواں مشکل بیرون ملک اثاثہ جات‘ مشکوک آمدنی اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے جاری ’پانامہ کیس‘ کی سماعت ہے‘ جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ ’نواز لیگ‘ اِس مشکل صورتحال سے خود کو کس طرح بچا پاتی ہے!
ملک میں جاری اِس سیاسی کھیل کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ قریب چالیس برس قبل آئین پاکستان تخلیق کرتے ہوئے ’ریاست‘ کے اختیارات کو تین اداروں پر مشتمل ایک نظام میں تقسیم کر دیا گیا۔ قانون ساز اِدارے‘ عدلیہ اُور اَیگزیکٹوز (نوکرشاہی)۔ اگر ہم گزشتہ چھتیس برس کے دوران ریاست کے اِن تینوں ستونوں (اکائیوں) کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ افسرشاہی نے اختیارات اپنے پاس مرکوز کر لئے ہیں اور نوکرشاہی (سرکاری ملازمین) چاہے یونیفارم پہنے ہوں یا نہ ہوں سیاسی حکمرانوں کے تابع سمجھے جا رہے ہیں جنہوں نے زیادہ سے زیادہ اختیارات پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اُور سمجھتی ہے کہ عدلیہ اور افسرشاہی اُن کے ماتحت ادارے ہیں۔

ماضی میں جھانکتے ہیں‘ جب 1997ء میں سپرئم کورٹ آف پاکستان ’توہین عدالت‘ کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہا تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم8 نواز شریف کو طلب کیا گیا جنہوں نے عدلیہ پر فتح پائی کیونکہ اُس وقت پیپلزپارٹی اور فوج کا اِدارہ سپرئم کورٹ کی مدد و حمایت کے لئے آگے نہیں آئے اور ’نواز لیگ‘ باآسانی سپرئم کورٹ کو اندرونی طور پر تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئی!

سال دوہزار چودہ میں تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنے کا مقابلہ بھی نوازلیگ اِس لئے کامیابی سے کر پائی کیونکہ دیگر ریاستی کردار اُس کی حمایت کر رہے تھے اور اگر ہم ’جی ایچ کیو‘ کی بات کریں تو وہ اس نے اپنے آپ کو اِس معاملے معاملے سے بظاہر لاتعلق رکھا۔ اِس دھرنے کے دوران ’نوازلیگ‘ داخلی طور پر متحد رہی۔

سال 2016-17ء میں ڈان لیکس منظرعام پر آئیں۔ یہ کھیل (میچ) نواز لیگ اور فوج کے ادارے (جی ایچ کیو) کے درمیان تھا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اِس صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں لیکن نوازلیگ مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور ’جی ایچ کیو‘ اپنے اصولی مؤقف سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔

پاناما کیس کا کھیل شروع ہوا تو اِس مرتبہ عدلیہ کا سامنا کرنے والی ’نواز لیگ‘ کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس مرتبہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لئے سپرئم کورٹ کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ کسی حد تک واضح ہے لیکن کیا اِس موقع پر ’جی ایچ کیو‘ بھی سپرئم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اِس بات کے امکانات معدوم ہیں کہ جی ایچ کیو ’نواز لیگ‘ کے ساتھ کھڑی ہو۔

سیاسی حالات تبدیل ہیں۔ پانامہ کیس بھی تحریک انصاف کے دھرنے سے مختلف ہے اور چاہے یہ بات تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن نواز لیگ سیاسی طور پر تنہا ہے اور داخلی سطح پر اِس کی صفوں میں انتشار اور دراڑیں دکھائی دیتی ہیں۔

پاکستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ ماضی سے بڑی حد تک مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’نواز لیگ‘ کو نتائج بھی ماضی کے مقابلے مختلف جھیلنے پڑیں گے۔ سردست ’نواز لیگ‘ کی مرکزی قیادت ’شریف خاندان‘ کو مشکل درپیش ہے کہ وہ ’سپرئم کورٹ‘کو کس طرح اطمینان دلائیں اور پانامہ کیس سے سرخرو قرار پائیں لیکن اگر وہ ایسا نہ کرپائے تو اِس مرتبہ وزیراعظم نوازشریف کے لئے اپنے عہدے‘ ساکھ اور پارٹی بچانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کھیل ’خطرناک دور (ریڈ زون)‘ میں داخل ہو چکا ہے۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیر حسین امام)

Friday, June 16, 2017

June2017; Exposed corruption with incamera (hidden) investigation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لطیف لطائف!
تصویر کا پہلا رخ یہ ہے کہ ’’وزیراعظم ’مشترکہ تحقیقاتی کمیشن (جے آئی ٹی)‘ کے سامنے پیش ہوئے اور عملاً دکھا دیا کہ وہ اِداروں کا کس حد تک احترام کرتے ہیں۔‘‘ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کے پاس ’جے آئی ٹی‘ کے روبرو پیش ہو کر اُن الزامات کا دفاع کرنے کے سوأ کیا کوئی دوسری ایسی صورت تھی‘ جو اُنہیں مالی بدعنوانی کے الزامات سے نجات دلا سکے؟

اقتدار کی طاقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی جماعتوں کی ہمیشہ سے کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دور حکومت کے دوران ہی ہر قسم کی آئینی و ادارہ جاتی مقدمات و تحقیقات سے گلوخلاصی کروا لیں۔ اصولی اور اخلاقی طور پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم ’جے آئی ٹی‘ کے سامنے پیش ہونے سے قبل مستعفی ہو جاتے تاکہ اُن کے سیاسی مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ہی نہ ملتا کہ وہ تحقیقات پر اَثرانداز ہو رہے ہیں۔ کیا وزیراعظم کسی دوسرے ملک کی عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں جس سے پاکستان کے وقار پر حرف آیا ہے یا وہ اپنے ہی ملک (ماتحت) ادارے کی طلبی پر ’حاضر جناب‘ ہو کر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو آئین و قانون سے کوئی بالاتر نہیں؟ ’جے آئی ٹی‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پیش کردہ ناموں کو سپرئم کورٹ نے منظور کرکے پاناما لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کو حتمی شکل دی تھی اور اس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن (اکیس گریڈ کے) واجد ضیاء سربراہی کر رہے ہیں جن کا تعلق ’’پولیس سروس‘‘ سے ہے۔ آپ دو مرتبہ خفیہ ادارے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) اور موٹروے پولیس میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ واجد ضیاء ایف آئی اے کے اکنامک کرائم ونگ سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں‘ اگرچہ ان کا پولیس جیسے ادارے میں تجربہ محدود ہے لیکن وہ حج اسکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سیاستدانوں سے نمٹنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اِن کے علاؤہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں ملٹری انٹلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈئر کامران خورشید‘ انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈئر نعمان سعید‘ قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ بیس کے افسر عرفان نعیم منگی‘ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔ عامر عزیز بھی اکیس گریڈ کے سرکاری افسر ہیں جو نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے مینجنگ ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد گذشتہ سات برس سے بینکنگ سے الگ ہیں۔ این آئی بی ایف‘ بینکنگ اور فنانس کے پیشہ ور افراد کا تربیتی ادارہ ہے‘ جو بینکاری کے اصول‘ عملی مظاہرے اور اس سے ملحقہ موضوعات کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ عامر عزیز سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔ بلال رسول سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات ہیں جو اس وقت ایس ای سی پی سیکرٹریٹ کے میڈیا کارپوریٹ کمیونیکیشن اور ٹرانسلیشن ڈیپارٹمینٹ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے انیس سو ترانوے میں کارپوریٹ لاء اتھارٹی میں شمولیت اختیار کی‘ جہاں انہوں نے اپیلیٹ بینچ کے رجسٹرار اور سیکرٹری کمیشن کے طور پر خدمات سرانجام دیں آپ اردو کے علاؤہ انگریزی‘ پنجابی اور عربی زبانیں روانی سے بول سکتے ہیں۔ جے آئی ٹی کا رکن عرفان نعیم منگی کا تعلق اُس قومی احتساب بیورو (نیب) سے ہے‘ جس کے بارے میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپرئم کورٹ نے کہا تھا کہ یہ ادارہ عملاً دفن ہو چکا ہے! عرفان منگی بیس گریڈ کے سرکاری افسر ہیں جو اس وقت کوئٹہ میں بطور ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان تعینات ہیں۔ نعیم منگیکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُنہیں ’’وائٹ کالر جرائم‘‘ کی تہہ تک پہنچنے کی مہارت حاصل ہے لیکن اب تک اُنہوں نے اپنی اِس مہارت سے کتنے ’وائٹ کالر مجرموں‘ کو کیفرکردار تک پہنچایا‘ یہ بیان تفصیل کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں! جے آئی ٹی کا رکن بننے کا قرعہ فال ریٹائرڈ بریگیڈئر محمد نعمان سعید کے نام بھی نکلا‘ جو آئی ایس آئی کے کسی ایک اندرونی سیکیورٹی ونگ کے ڈائریکٹر ہیں‘ آپ دوہزار سولہ میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’جے آئی ٹی‘ کے اِن سبھی اراکین نے تحریری طور پر ’سپرئم کورٹ‘ کو آگاہ کیا ہے کہ اُنہیں‘ اُن کے اہل خانہ (بال بچوں) اور اُن کی ملازمتوں کو خطرہ درپیش ہے! 

پاکستان کی تاریخ میں اگر ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ کسی تحقیقاتی کمیٹی کے مشکوک ذرائع آمدنی کی وضاحت اُور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے طریقۂ کار کے دستاویزی ثبوت دینے کے لئے پیش ہو رہے ہیں تو یہ بات بھی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے کہ ملک کے سب سے مضبوط سمجھے جانے والے خفیہ ادارے جس کی دھاک پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اُس کے اہلکاروں کو کسی ’گاڈ فادر‘ سے خطرات لاحق ہیں! اگر حکمراں خاندان نے دستاویزی ثبوت دینے ہوتے تو وہ پہلے ہی سپرئم کورٹ کے طلب کرنے پر پیش کر دیتے‘ جو زیادہ بااختیار‘ باوقار اور حسب حیثیت سپرئم فورم ہے۔ یوں کسی ملک کے حکمران کی بیس‘ اکیس گریڈ کے (ماتحتوں کے سامنے پیش ہوکر شہ سرخیوں کا حصہ بننے سے ایک اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں اور مالی بدعنوانیاں کیا نیک شگون قرار دیا جاسکتا ہے! 

نجانے یہ امر ’قومی مشغلہ‘ کیسے بن گیا ہے کہ ہم اپنا اور دوسروں کا ’قیمتی وقت‘ ضائع کرنے سے لطف پاتے ہیں!؟

Thursday, June 15, 2017

June2017: Hurdles & drive of the Rapid Bus Project for Peshawar!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
ڈبوتی کشتی!
پاکستان تحریک اِنصاف کی قیادت میں ’خیبرپختونخوا‘ کی موجودہ حکومت کے چار سال یہ یقین دلانے میں گزار دیئے کہ ’پشاور کو تیزرفتار ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سروس (بس ریپیڈ ٹرانزٹ)‘ دی جائے گی‘ اور آخری (پانچویں) مالی سال کے آغاز پر ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبے میں تاخیر کی بنیادی وجہ (قصوروار) وفاقی حکومت کو قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ اِس عوامی منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ 

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خصوصی مشیر برائے ’امورِ ٹرانسپورٹ‘ شاہ محمد وزیر چاہتے ہیں کہ اُن کا یقین کرتے ہوئے مان لیا جائے کہ ’’مذکورہ منصوبے کے لئے وفاقی حکومت سے دو سال قبل ریلوے کی اراضی لیز پر دینے کی درخواست کی گئی تھی جسے مسترد کرتے ہوئے معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جہاں عرصہ دو سال سے زیرالتوأ اِس درخواست کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا!‘‘ اگر ہمارے مشیر و معاونین ’لابنگ‘ کے ذریعے وفاقی حکومت کو قائل نہیں کرسکتے تو ایسے کردار کس مرض کی دوا ہیں؟ 

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کس بنیاد پر یہ تصور بھی کر سکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی وفاقی حکومت ایک ایسے ماحول میں خاطرخواہ دردمندی (صلۂ رحمی) کا مظاہرہ کرے گی جبکہ اُسے ’پانامہ کیس‘ میں نااہلی کے قریب اور بند گلی میں دھکیلنے والوں میں پیش پیش اُور سب سے زیادہ سرگرم تحریک انصاف ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وفاق کی جانب سے خیبرپختونخوا بالخصوص پشاور کو اِس بات کی سزا دی جارہی کہ اِس نے مئی دوہزارتیرہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہی کیوں!؟ یاد رہے کہ پشاور سے خیبرپختونخوا اسمبلی کی گیارہ نشستوں میں سے دس اور قومی اسمبلی کی اکثریتی نشستوں پر تحریک انصاف نے انتخابی کامیابیاں حاصل کی تھیں اُور ماضی جیسی مقبولیت نہ سہی لیکن ’تحریک اِنصاف‘ کا ووٹ بینک ہر اِنتخابی حلقے میں مدمقابل کسی بھی سیاسی جماعت کو ’ٹف ٹائم‘ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اَگر شروع دن سے ’سیاسی پختگی (معاملہ فہمی)‘ بصیرت و دانشمندی سے کام لیا جاتا اُور مقامی قیادت (کارکنوں) پر اِعتماد کرتے ہوئے ’تحریک اِنصاف کی تنظیمیں‘ مضبوط کی جاتیں تو ایک ایسی صورتحال یقیناًپیش نہ آتی جس میں وفاق خیبرپختونخوا حکومت اور خیبرپختونخوا کے رہنے والوں کو دو الگ الگ اکائیوں کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہوتے ہیں! وزیراعظم سمیت وفاقی حکومت کے ہر کردار کو اپنے کردار کا تعین کرنا ہوگا کہ وہ ’وفاق پاکستان‘ کی علامت ہیں اور محض سیاسی وجوہات و مخالفت کی بناء پر کسی ایک صوبے کے رہنے والوں کو یوں ترقی سے محروم نہیں رکھ سکتے! جبکہ یہ طرزعمل آئین کی عملی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہے۔

پشاور کے ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے ریلوے کی اراضی نہ دینے کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت پشاور سے طورخم (افغانستان سرحد) تک ریلوے لائن کو دو رویہ کرنا چاہتی ہے اور اِس توسیعی منصوبے کی وجہ سے ریلوے کی اراضی اجارے (لیز) پر نہیں دے سکتی جبکہ برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ پشاور سے طورخم ریل پٹڑی (ریلوے لائن) کی بطور معمول دیکھ بھال تک نہیں کی جاتی اور خیبرایجنسی کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں سے گزرنے والی پٹڑی کئی مقامات پر ہوا میں معلق دکھائی دیتی ہے! جہاں ریلوے کا ’سنگل ٹریک‘ ہی موجود نہیں وہاں ’ڈبل ٹریک‘ کی باتیں کرنا ایک ایسے مفروضے کو پیش کرنے جیسا ہے جو کسی بھی صورت ایک ایسے ادارے کے لئے عملاً قابل عمل نہیں جو مالی بحران سے دوچار ہواور جس کے پاس ملازمین کی ماہانہ تنخواہیں اَدا کرنے کے لئے بھی مالی وسائل نہ ہوں! اگر وفاقی حکومت ریلوے اور پی آئی اے کو ’بیل آؤٹ پیکجز‘ نہ دے تو یہ ادارے کب کے دیوالیہ (ختم) ہو چکے ہوتے! وفاق کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ سیاسی بدنیتی پر مبنی اُن کے فیصلے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے لئے اراضی نہ دینے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے عوام میں ’نواز لیگ‘ کے بارے کوئی ’فقیدالمثال‘ تاثر پیدا نہیں ہو رہا جو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے وسائل پر صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمران کس طرح مسلط ہیں اور یہ بات چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے احساس محرومی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ کیا آئندہ عام انتخابات میں ’نواز لیگ‘ کو خیبرپختونخوا سے حمایت کی قطعی کوئی ضرورت نہیں؟

جاننے کے باوجود بھی نہایت ہی بیدردی سے وقت ضائع کیا گیا اُور اب پشاور کے لئے تیزرفتار بس سروس منصوبہ ’تحریک انصاف‘ کی مجبوری بن گئی ہے‘ جس کے پاس ’پشاور‘ کے سامنے اپنی کارکردگی رکھنے کی دوسری کوئی بھی صورت (کارکردگی) باقی نہیں رہی! یاد رہے کہ ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کی تعمیر پرلاگت کا کل تخمینہ ’49 ارب (49.346بلین) روپے‘ لگایا گیا ہے جس کے لئے 41 ارب (41.86بلین) روپے ’ایشیائی ترقیاتی بینک‘ سے پچیس سال کی آسان اقساط (سافٹ لون) کی صورت حاصل ہوں گے۔ صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ پشاور کا ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سستا ایسا منصوبہ ہوگا جس کا موازنہ اگر لاہور (صوبہ پنجاب کے درالحکومت) سے کیا جائے تو اسی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے پر فی کلومیٹر لاگت ’82 فیصد‘ کم آئے گی! شفافیت شرط ہے۔ ترقی کے عمل سے متعلق ادارہ جاتی حکمت عملی ہو‘ سیاسی بیان بازی ہو یا پھر اعدادوشمار پر مبنی تفصیلات‘ ہر مرحلہ ’شکوک و شبہات‘ سے بالاتر ہونا چاہئے۔ پشاور کے لئے بس منصوبے پر کل لاگت کے تخمینے سے متعلق کئی قسم کے دعوے اور اعدادوشمار پر مبنی دستاویزات زیرگردش ہیں اور اگر صوبائی حکومت کی بجٹ دستاویز کو حتمی تسلیم کرتے ہوئے یقین کیا جائے تو رواں برس (دوہزار سترہ) میں اِس منصوبے پر کام کا آغاز ہو جانا چاہئے جس کی تکمیل کے لئے چھ سے آٹھ ماہ درکار ہوں گے یعنی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ (کا پھل) ایک ایسے وقت میں (پک کر) تیار ہو جائے جب ’عام انتخابات‘ سر پر ہوں گے! اُمید کی جاسکتی ہے کہ دوہزار پندرہ سے منصوبے کی حکمت عملی (فزیبلٹی) تیار کرنے کے بعد رواں برس مرحلہ وار ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا وفاق کے روئیوں پر نہیں بلکہ ووٹ (اپنی حمایت) کارکردگی کی بنیاد پر دے گا۔ تحریک انصاف تسلی بخش جواب دے کہ آئندہ عام انتخابات میں کیوں نہ ’نواز لیگ‘ یا اُن کے اتحادیوں کو ووٹ دیا جائے‘ جو کم سے کم خیبرپختونخوا اُور بالخصوص پشاور کے مسائل و مشکلات میں کمی کرنے کی ٰزیادہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے! 
’’اب نزع کا عالم ہے مجھ پر‘ تم اپنی محبت واپس لو۔۔۔ 
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں! (اُستاد قمر جلالوی)‘‘

June2017: Zarf e Nigha Published by GHB Peshawar!

پشاور ۔۔۔ پریس ریلیز ۔۔۔15 جون 2017ء

زندہ قومیں اپنی تاریخ و ثقافت اُور اقدار کی محافظ ہوتی ہیں ’پشاور شناسی‘ نصاب کا حصہ قرار دیا جائے: محمد ضیاء الدین
رُوزنامہ آج ’پشاور کے مفادات‘ کا محافظ بن کر غیرجانبدارانہ صحافتی ذمہ داریوں اُور دِلی وابستگی کا حق اَدا کر رہا ہے
صحافی ’شبیر حسین اِمامؔ ‘ کے کالموں کا مجموعہ تغیرپذیر پشاور کے سیاسی‘ سماجی‘ تاریخی اور ثقافتی پہلوؤں سے متعلق ہیں

روزنامہ آج کے اِدارتی صفحات پر شائع ہونے والے پشاور سے متعلق کالموں کا مجموعہ ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ نے کتابی شکل میں شائع کر دیا ہے۔ ’ژرف نگاہ‘ کے نام سے ’سال دوہزار بارہ‘ کے دوران تحریر کئے گئے کالموں میں پشاور کے تغیرپذیر سیاسی ‘ تاریخی‘ سماجی اور ثقافتی مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ 

گندھارا ہندکو بورڈ کے جنرل سیکرٹری محمد ضیاء الدین نے ’حالات حاضرہ‘ پر مبنی اِن تحریروں کو ’پشاور شناسی‘ کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’زندہ قومیں اپنی تاریخ و ثقافت اُور اَقدار کی حفاظت اور اِس پر فخر کرتی ہیں۔‘‘ انہوں نے روزنامہ آج اور صحافی شبیر حسین اِمامؔ کی جانب سے ’پشاور‘ کی اہمیت اور یہاں کے برسرزمین حقائق کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنے کی کاوشوں کو فقیدالمثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ضرورت اِس امر کی ہے کہ گندھارا تہذیب کے مرکز اور جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین‘ زندہ تاریخی شہر پشاور سے متعلق مضامین کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔‘‘چارسو تیس سے زائد صفحات پر مشتمل ’’ژرف نگاہ‘‘ میں مجموعی طور پر 165 موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو سال دوہزاربارہ کے دوران ادارتی صفحے پر شائع ہوئے۔ یاد رہے کہ ’’گندھارا ہندکو بورڈ‘‘ عرصہ 20برس سے خطے کی تاریخ و ثقافت اُجاگر کرنے کے لئے مختلف زبانوں میں علمی ادبی اور تحقیقی موضوعات پر کتابیں شائع کر رہا ہے‘ اور اِس سلسلے میں اب تک 150کتابیں شائع ہو چکی ہیں‘ جن میں قرآن مجید فرقان حمید کا ہندکو زبان میں ’منظوم ترجمہ‘ بھی شامل ہے‘ تاہم ’’ژرف نگاہ‘‘ صحافتی کالموں کا ایسا پہلا نثری مجموعہ ہے۔ 

گندھارا ہندکو بورڈ اس سے قبل اپنے بانی چیئرمین ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے کالموں کا منظوم ترجمہ بنام ’’منظوم فکر ظہور‘‘ شائع کر چکی ہے اور اُن کالموں کا انتخاب بھی ’روزنامہ آج‘ ہی کے ادارتی صفحات سے کیا گیا تھا۔ 

محمد ضیاء الدین نے ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کی خدمات کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبائی حکومت نے ’ہندکو بورڈ‘ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اِسے ’گندھارا ہندکو اکیڈمی‘ جیسی اہم ذمہ داری سونپی ہے‘ جسے عرصہ 2 برس سے خوش اسلوبی کے ساتھ اَدا کیا جا رہا ہے۔‘‘ اُنہوں نے اِس اُمید کا اِظہار بھی کیا کہ ’’قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے دیگر صاحبان علم و فن بھی پشاور سے اپنی دلی و جذباتی وابستگی کے اظہار کی جانب متوجہ ہوں گے اور اپنا قیمتی وقت‘ وسائل اور صلاحیتیں پشاور کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کی ترغیب کے لئے وقف کر دیں گے۔‘‘ انہوں نے اِس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ ’’پشاور شناسی‘ عام کرنے کے لئے انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں متعارف کرانے میں ’ژرف نگاہ‘ نکتۂ آغاز اُور تحریک ثابت ہوگی۔‘‘ گندھارا ہندکو بورڈ کی ویب سائٹ سے ’’ژرف نگاہ‘‘ ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Title: Zarf e Nigha Published by Ghandhara Hindko Board (Academy) Peshawar

Collections of columns on Peshawar published.
Clipping of the Press Release from Daily Aaj Peshawar Page 2 of June 16, 2017 Friday

Page 2 of Daily Aaj Peshawar on June 16, 2017 Friday

Wednesday, June 14, 2017

June2017: Houses of Bollywood legends in Peshawar need attention!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گھر گھر کی کہانی!
شناخت کبھی بھی یک قطبی نہیں ہوتی بلکہ اِس کے کئی پہلو اور حوالے ہوتے ہیں جن میں ہر ایک دوسرے سے معتبر اور یکساں اہم ہوتا ہے۔ اِس تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصور کیجئے کہ جہاں گلی کوچوں اُور گھروں کی تاریخی حیثیت ایک مسلمہ (جانی مانی) حقیقت ہو‘ اُس ’معلوم نگر‘ کے بارے میں سوچتے ہوئے ہم عشاق کے دلوں میں ’پشاور‘ کے سوأ بھلا اُور کہاں کا تصور اُبھر سکتا ہے۔ گنجان بھی اور آباد بھی‘ پُرپیچ راستے‘ پرامن‘ پرسکون اور بساطوں سے مزین ٹھنڈی گلیاں دیگر کس شہر کا تعارف ہو سکتی ہیں بالخصوص ’محلہ خداداد‘ میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار کسی ایسے مسیحا کا منتظر ہے جو اِسے نئی زندگی عطا کرے۔ دلیپ کمار کا یہ آبائی گھر‘ جسے محفوظ رکھنے اور اِس تاریخی ورثے کی حفاظت سے جڑی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ایک سے زائد صوبائی حکومتی ادارے عملاً ناکام ثابت ہوئے ہیں ایک ایسا موضوع ہے‘ جس کو مختلف زاوئیوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اِس گھر میں ’دلیپ کمار‘ کا بچپن بسر ہوا‘ جو قطعی معمولی حوالہ نہیں اور یہی دکھ ہے کہ اِس خستہ حال مکان کی عمارت جو اپنی موت آپ مر رہی ہے تو اِسے بچانے کا یہی آخری (نادر) موقع ہے!

دلیپ کمار کا گھر کئی دہائیوں سے کسی کے زیراستعمال نہیں اور اِس کی خستہ حالی کا یہی ’بنیادی سبب‘ ہے کہ اِس گھر کی دیکھ بھال اور تعمیرومرمت عرصہ دراز سے نہیں ہو سکی ہے۔ لکڑی‘ مٹی اور پختہ اینٹوں سے بنا ڈھانچہ موسمی اثرات کو مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا! غیرمقامی اہل علاقہ کی اکثریت کے لئے یہ مقام ’گندگی پھینکنے کی جگہ‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ جنہوں نے اِس کے ایک حصے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دیئے ہیں! وجہ یہ ہے کہ جن مقامی افراد کو اِس گھر کی اہمیت کا علم تھا وہ یا تو وفات پا چکے ہیں یا پھر کسی سبب اندرون پشاور سے کوچ کر گئے ہیں اور نئی نسل تو بالخصوص پشاور کے تاریخی اثاثوں کی اہمیت و شناخت آشنا نہیں! اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آج ’گھر گھر کی یعنی ہر گھر کی کہانی‘ یہی ہے کہ وہ ’پشاور آشنا‘ نہیں۔ جب پشاور اور اِس کی اہمیت کو چار چاند لگانے والے اثاثوں کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کرنے کا کوئی وسیلہ اور ذریعہ ہی موجود نہیں تو اُس دن کو قریب دیکھا جا سکتا ہے جب پشاور کے گلی کوچوں کے ’قدیمی نام‘ بھی تبدیل ہوتے چلے جائیں گے یا پھر (خدانخواستہ) اِن کی وجہ تسمیہ کسی کو یاد تک نہیں رہے گی!

سال اُنیس سو بائیس‘ دلیپ کمار ’محلہ خداداد‘ کے مذکورہ مکان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اِس مکان کا تذکرہ اپنی آب بیتی (کتاب) میں بھی تفصیلاً کیا ہے‘ جس کا اُردو ترجمہ ’روزنامہ آج‘ کے ہفتہ وار ’سنڈے میگزین‘ میں قسط وار شائع کیا گیا جو یقیناًقارئین کی ایک تعداد کے حافظوں میں محفوظ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ’دلیپ کمار‘ کون تھا‘ کیا تھا اور اُس کے آبائی گھر (جنم بھومی) کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اِسے محفوظ ہونا چاہئے؟ قیام پاکستان (برصغیر پاک و ہند کی تقسیم) سے قبل یوسف خان نامی جادوئی شخصیت کا مالک خوبرو نوجوان‘ ملازمت کی تلاش میں اتفاقیہ طور پر فلمی دنیا جا پہنچا‘ اُور اِس کے بعد ملنے والے اِس موقع کو اُس نے حقیر نہیں سمجھا اور نہ ہی پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ فلم انڈسٹری کے اُن دنوں تقاضوں کی وجہ سے اُس نے فرضی فلمی نام ’دلیپ کمار‘ اپنایا اور خوب شہرت پائی۔ شاید اِس زوایئے سے بہت کم لوگوں نے سوچا ہو کہ جس ’دلیپ کمار‘ کی فن اداکاری کا ایک جہان معترف ہے اُنہوں نے ’قصہ خوانی بازار‘ سے ملحقہ ایک ایسے محلے میں آنکھ کھولی جہاں سماج اور معاشرے کے مضبوط خاندانی نظام پر گہرے اثرات ہوا کرتے تھے۔ دلیپ کمار نے اداکاری کی تعلیم و تربیت کسی ادارے سے حاصل نہیں کی بلکہ یہ اُن کی وہ خداداد صلاحیت تھی جو محلہ خداداد سے لیکر ’بالی ووڈ‘ تک عروج کی داستان ہے اور حکومت پاکستان نے اُن کی فلمی خدمات و نایاب شخصیت کا اعتراف کرتے ہوئے 1998ء میں اُنہیں اعلیٰ ترین ’سویلین اعزاز‘ نشان امتیاز‘ سے بھی نوازہ۔

دلیپ کمار کی پشاور میں پیدائش‘ یہاں بودوباش اور اِس شہر سے دلی تعلق کا اندازہ اُن کی آپ بیتی (کتاب) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے‘ جس کے لئے تجویز ہے کہ ’گندھارا ہندکو بورڈ (اکیڈمی)‘ اِس کتاب کا ہندکو اُردو ترجمہ شائع کرے اور اگر کوشش کی جائے کہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کے بچے کچے ملبے کو ایک نئی زندگی عطا کریں کیونکہ اب موسمی اثرات نے عمارت کو اِس حد تک خستہ حال کر دیا ہے کہ اِس کی بحالی اور ازسرنوتعمیر کے سوأ چارہ نہیں رہا۔ بیس برس سے ’’ہندکو دی ترقی دا عزم‘‘ لئے ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کی علمی ادبی اور ہندکووانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں خدمات (کوششیں) کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جنہیں ’دلیپ کمار‘ کے گھر کو ’مرکزی دفتر‘ بنانے کے لئے تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان سے ملاقات کرنی چاہئے کہ بنی گالہ کا حکم ٹالا نہیں جاتا۔ ’گندھارا ہندکو بورڈ‘ کی زیرنگرانی نہ صرف مذکورہ مکان کی اراضی کی قسمت کا ہمیشہ کے لئے فیصلہ ہو جائے گا بلکہ اِس کا زیادہ بہتر‘ مفید اور کارآمد استعمال بھی ہو سکیگا‘ جس پر دلیپ کمار کے اہل خانہ بھی فخر کریں گے۔ 

ہندکو زبان کے کسی معتبر و معزز ادارے کے لئے شہر کے دل میں مرکز ہونے کی کمی پوری ہونے کے ساتھ‘ علمی ادبی و دیگر تقاریب میں مقامی افراد کی زیادہ بڑی تعداد میں شرکت ممکن ہو گی اور پھر دلیپ کمار کی یادآوری‘ اُن کی ہندکو زبان سے محبت و نسبت کا یہ عملی اظہار تادیر زندہ و تابندہ بھی رہے گا۔

ذہن نشین رہے کہ سال دوہزار چودہ میں خیبرپختونخوا کے محکمۂ آثار قدیمہ نے ایک اعلامیہ (نوٹیفیکیشن) جاری کیا تھا جس میں ’آثار قدیمہ سے متعلق وفاقی حکومت کے ایک مجریہ 1975ء (Antiquities Act)‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ’دلیپ کمار‘ کے مکان کو ’قومی ورثہ (National Heritage)‘ قرار دیا گیا جس کا فوری ردعمل یہ دیکھنے میں آیا کہ مالک مکان (اراضی) نے اِس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع (حکم امتناعی حاصل) کر لیا اور یہ مقدمہ ایک آئینی رکاوٹ بن گیا‘ جو آج بھی کسی نہ کسی طور موجود ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’’خیبرپختونخوا انٹی کوئٹیز ایکٹ 2016ء (KP Antiquities Act)‘‘ کے تحت مذکورہ مکان کو ازسرنو تعمیر کیا جا سکتا ہے لیکن پشاور کے تاریخی و (مبینہ) قومی ورثے کے بارے میں اس قدر دردمندی سے سوچ بچار کرنے والوں کو ابھی فرصت نہیں! پشاور میں صرف دلیپ کمار ہی نہیں بلکہ بھارتی فلمی دنیا کے دیگر نامور کرداروں راج کپور اور شاہ رخ خان کے آبائی مکانات (یا اُن کے آثار) بھی موجود ہیں‘ جن کی جلدازجلد بحالی اور اِن کے حسب اہمیت استفادے کی سبیل ہونی چاہئے۔ 

بنیادی طور پر ’دلیپ کمار‘ کے آبائی گھر کی ’آثار قدیمہ‘ کے نکتۂ نظر سے کوئی خاص حیثیت نہیں لیکن یہ ایک نادر موقع (جواز) ہو سکتا ہے کہ اِس مکان کی ثقافتی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور کے اُس طرزتعمیر کو ’بطور نمونہ ہی سہی‘ لیکن پھر سے بحال (زندہ) کر دیا جائے‘ جو یہاں وہاں کی دیکھا دیکھی کی جانے والی تعمیرات (جدت پسندی کے عمل) میں کہیں گم ہو چکا ہے!
 The house of Dilip Kumar (Yusuf Khan) in Peshawar need restoration

Monday, June 12, 2017

POETRY: Remembering Peshawar!

دِل پشاور!

نگر وفا کا‘ گلاب‘ خوشبو‘ چمن پشاور!
نصاب عشق و سرور‘ مستی‘ وطن پشاور

سکوں کی منزل‘ قرارگاہے یقین و اِیماں
دل و نظر میں ہے نور صورت‘ عدن پشاور

جہاں مقدر نے لکھ دیا ہے‘ ہر اِک سفر کا تمام ہونا
اَزل سے تابہ اَبد پڑاؤ‘ جوار و منزل‘ صحن پشاور!

ہر اِک حوالے سے محترم ہے‘ جو محتشم ہے
گماں‘ تخیل‘ زباں‘ بیاں ہے‘ دہن پشاور

ہیں جن کی مرہون رونقیں سب‘ رہیں سلامت یہ اِستعارے
شمار چہرے‘ خمار آنکھیں‘ سرور‘ لہریں‘ سمن پشاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- بیادِ پشاور۔۔۔اَز شبیرحسین اِمام
- سولہ رمضان المبارک1438ہجری
- بمطابق 12 جون 2017ء

Sunday, June 11, 2017

June2017: Development scenario and budget after the budgets!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاق و سباق: بالائے طاق!
خیبرپختونخوا کے لئے ’مالی سال دوہزار سترہ اٹھارہ‘ کے دوران آمدن واخراجات کا میزانیہ (بجٹ) پیش کرتے ہوئے ہر شعبے کے لئے اضافی مالی وسائل مختص کرنے کو بڑھا چڑھا کر (سیاق و سباق سے ہٹ کر) پیش کیا گیا ہے جس نے اِس سوال کی گنجائش پیدا کر دی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے لیکر ترقیاتی عمل کے لئے درکار (مزید) مالی وسائل (آمدنی) کہاں سے آئے گی؟ 

عام آدمی کے لئے شاید بجٹ کے اعدادوشمار سمجھنا آسان نہ ہو اور اِسی ’ناخواندگی‘ کا فائدہ ہر حکومت کی طرح موجودہ صوبائی حکومت بھی دل کھول کر اُٹھا رہی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت دوہزار اٹھارہ میں مکمل ہونے والی ہے اور وقت مقررہ یا قبل اَز مدت ’عام اِنتخابات‘ کے انعقاد کی صورتوں میں موجودہ بجٹ ہی ’ترجیحات کا خلاصہ‘ اور ’آخری کارکردگی‘ ثابت ہوگی۔ کیا صوبائی حکومت اِن اعدادوشمار کو یکسر مسترد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے کہ اختتام پذیر ہونے جا رہے مالی سال میں آمدنی کے جس قدر اہداف مقرر کئے گئے تھے وہ حاصل نہیں ہو سکے! مثال کے طور پر گذشتہ مالی سال (دوہزارسولہ سترہ) کے لئے صوبائی حکومت نے آمدنی کا ہدف 49.5 ارب روپے مقرر کیا تھا لیکن دس ماہ کے دوران (مئی دوہزارسترہ تک) صرف 20.9 اَرب اکٹھا کئے جا سکے! اِسی طرح آئندہ مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے لئے ٹیکس اور بناء ٹیکس ذرائع سے متوقع آمدنی 45.2 ارب روپے بیان کی گئی ہے جسے حاصل کرنا ممکن نہیں لیکن اگر صوبائی حکومت آمدنی سے متعلق اپنے ہی مقرر کردہ اہداف حاصل کر بھی لیتی ہے تو یہ رقم صوبائی بجٹ کے تناسب سے صرف 7.4فیصد ہی ہوگی۔ 

مالی سال دوہزارسولہ سترہ اور سترہ اٹھارہ کی بجٹ دستاویزات کا موازنہ کرنے سے باآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف آنے والی صوبائی حکومت کے لئے مالی ذمہ داریوں کا انبار لگا رہی ہے یعنی اگر آئندہ صوبائی حکومت تحریک انصاف کے (چھوڑے ہوئے) اَدھورے کام مکمل کرتی ہے اور اِس دوران کوئی بھی نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کرتی تو اُسے کم وبیش ’4 چار سال 5ماہ‘ صرف اُن ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے لئے درکار ہوں گے‘ جن کی منصوبہ بندی اور اِس کے لئے مالی وسائل مختص کرنے والوں نے اُس مدت کو زیادہ اہمیت نہیں دی‘ جس پر اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کی زندگی میں بہتری کا آغاز ہوگا۔ 

کیا یہ ممکن ہوگا کہ تحریک انصاف کے علاؤہ اگر کوئی دوسری جماعت خیبرپختونخوا میں آئندہ حکومت بنائے اور وہ اپنے انتخابی منشور و ترجیحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے تمام تر مالی وسائل صرف اور صرف تحریک انصاف کی وضع کردہ ترقیاتی حکمت عملی پر خرچ کر دے؟ خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل پہلے سے زیادہ مشکوک اور ماضی سے زیادہ ’ناپائیدار‘ دکھائی دے رہا ہے‘ جو تضاد سے بھرے اعدادوشمار اور برسرزمین حقائق سے عیاں ہے اور باوجود کوشش بھی اِس مالی نظم وضبط اور ترقیاتی حکمت عملی کا دفاع ممکن نہیں‘ جس میں صوبائی خزانے سے ’ہم جماعت‘ اراکین قومی اسمبلی کو مالی وسائل فراہم کئے جا رہے ہوں! اگر ماضی کی حکمرانوں نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا (بے دریغ) استعمال کرتے ہوئے ایسی (ناگوار) مثالیں چھوڑی ہیں‘ جن کا تعلق جماعتی‘ سیاسی‘ انتخابی یا پھر ذاتی ترجیحات سے تھا تو ’تبدیلی کی علمبردار‘ ایک تحریک کو قطعی طور پر یہ بات زیب نہیں دیتی تھی کہ وہ اُس دلدلی زمین پر پاؤں رکھتی‘ جس میں سوائے دھنستے چلے جانے کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔

عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے بجٹ دستاویز کے ہر صفحے اور ہر سطر کے ذریعے مالی نظم و ضبط یا ترقی کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ زمینی حقائق میں فوری تبدیلی (بہتری) کا مؤجب نہیں بنے گا‘ تاوقتیکہ تحریک انصاف کے ہاتھ کوئی ’کرامت (جادو)‘ آجائے کیونکہ چار سالہ مالی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات ناممکن حد تک دشوار دکھائی دے رہی ہے کہ ترقی کے جو اہداف چار سال کے عرصے میں حاصل نہیں ہوسکے وہ یک بیک آئندہ مالی سال (دوہزارسترہ اٹھارہ) کے دوران حاصل کر لئے جائیں گے! 

یاد رہے کہ صوبائی حکومت یہ دعویٰ بھی رکھتی ہے کہ اُسے محصولات (ٹیکسوں) سے 22.3 اور بناء ٹیکس آمدنی کے ذریعے 22.9 ارب روپے حاصل ہوں گے اور بناء ٹیکس لگائے جس آمدنی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ’حکومتی اثاثوں‘ کی نجکاری ہے‘ جو کوئی نیا تصور (آئیڈیا) نہیں بلکہ یہ حکمت عملی (خواب) اِس سے قبل بھی پیش کیا جا چکا ہے بالخصوص خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں (بشمول ہزارہ ڈویژن) میں سیاحتی مقامات کو ترقی دینے اور نئے سیاحتی مقامات بنانے کے ذریعے صوبائی آمدنی میں اضافہ ہونے کی نوید سنائی گئی لیکن جو اہداف (کام) چار سال میں مکمل تو کیا شروع بھی نہ ہو سکا‘ وہ محض کسی ایک مالی سال میں کس طرح مکمل کر لیا جائے گا؟ 

اِس مرحلۂ فکر پر جنگلات کی ترقی اُور شجرکاری مہمات سے برسرزمین حقائق میں تبدیلی کا بطور خاص ذکر ضروری ہے‘ جس کا احتساب کرتے ہوئے اگر چیئرمین عمران خان اُن تمام کرداروں کے ذاتی اثاثوں اور رہن سہن میں تبدیلی کی چھان بین (احتساب) کریں تو حقیقت آشکارہ ہو جائے کہ ’ایک ارب درختوں پر مبنی شجرکاری مہم‘ کی بدولت ترقی کس قدر محدود اور متعلقہ فیصلہ سازوں کی ذاتی زندگیوں (رہن سہن) میں تبدیلی کا مظہر ثابت ہوئی ہے! 

خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کے بعد سے جس قدر ترقی اور تبدیلی تحریک انصاف کے وزیروں مشیروں اور اُن کے آگے پیچھے ہاتھ باندھے ’فوج ظفر موج‘ کی زندگیوں میں آئی ہے‘ اُس جیسی ’’آشنا مثالیں‘‘ دیگر سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا بھی (مذمتی) بیان ہے۔ خودفریبی کی انتہاء ہے کہ خیبرپختونخوا کے مالی نظم وضبط کا ایک پہلو ایسا بھی ہے‘ جسے روشن اُور مثالی قرار دیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب گذشتہ مالی سال (دوہزارسولہ سترہ) کا اختتام ہو رہا تھا تو صوبائی خزانے میں 11.8 ارب روپے تھے اور اِس مرتبہ نئے مالی سال (دوہزار سترہ اٹھارہ) میں داخل ہوتے وقت صوبائی خزانے میں 24.8 ارب روپے ’ذخیرہ‘ ہیں! کیا صوبائی حکومت کا کام ’بچت‘ کرنا تھا یا (مینڈیٹ تھا کہ) دستیاب مالی وسائل کا استعمال کرکے وہ ’باسہولت بہتری (تبدیلی)‘ لائی جائے‘ ایک ایسی ’فقیدالمثال تبدیلی‘ جس کی خیبرپختونخوا آج بھی راہ دیکھ رہا ہے!

TRANSLATION: Venezuela’s debt by Dr. Farrukh Saleem

Venezuela's dept
وینزویلا: قرض کی وباء!
سال دوہزار سات سے دوہزار چودہ تک عوامی جمہوریہ چین نے ’وینزویلا‘ کو 63 ارب ڈالر قرض دیا۔ ایک دہائی قبل وینزویلا میں تیل و گیس کے قومی ادارے (Venezuela'a Petroleos de Venezuela PDVSA) نے چین کے قومی تیل و گیس کے ادارے (China National Petroleum Corporation CNPC) کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت قرض کی ادائیگی بصورت تیل (جنس) کی فراہمی پر اتفاق کیا گیا۔ معاہدے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وینزویلا نے چین سے جتنا قرض لیا ہے اُس کی ادائیگی تیل اور اس کی فراہمی کی صورت کی جائے گی۔ دس برس تک چین کو تیل فراہم کیا جاتا رہا‘ جس کا اختتام 2014ء میں ہوا۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق ’’دوہزار سات سے دوہزار چودہ کے درمیان وینزویلا کی جانب سے چین کو فراہم کئے جانے والے خام تیل کی قیمت 100 ڈالر فی بیرل کے آس پاس رہی اور یہ سودا (معاہدہ) دونوں ممالک ہی کے لئے سودمند رہا لیکن جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 30ڈالر فی بیرل کی سطح تک کم ہو گئی جیسا کہ جنوری 2016ء میں ہوا تب سے پیدا ہونے والے فرق کو ختم کرنے کے لئے وینزویلا کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر ایک بیرل کی خریداری پر دو بیرل اصل معاہدے کی رو سے ادا کرے گا۔‘‘ برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’’جنوری 2017ء میں وینزویلا کے تیل وگیس کا ادارہ 10ملین بیرل تیل صاف کرنے جیسے ہدف کو حاصل نہ کرسکا جس کی وجہ سے قریب دس ماہ تک تیل کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ اِس عرصے کے دوران چین کو فراہم کیا جانیو الا 32لاکھ بیرل خام تیل بھی فراہم نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے قومی آمدنی کم ہوئی اور وینزویلا میں مہنگائی کی شرح تین عددی (ہندسوں) میں جا پہنچی۔ ملک میں اشیائے خوردونوش کی کمی ماضی میں ’سوویت یونین‘ کے دور تک جا پہنچی۔ تجارتی خبروں اور تجزئیوں کا معروف ٹیلی ویژن چینل ’سی این بی سی‘ کے مطابق ’’وینزویلا کے پاس اس قدر تیل کا ذخیرہ نہیں رہا کہ وہ اِس کے ذریعے قرض کی ادائیگی کر سکے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک چاہتا ہے کہ وہ وینزویلا سے جس قدر خام تیل قرض کی ادائیگی کی مد میں لے سکتاہے بٹور لے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ وینزویلا میں تیل کی پیداوار مطلوبہ مقدار کے مطابق کافی نہیں۔

فارن پالیسی میگزین کے مطابق ’’وینزویلا نے اقتصادی ترقی کی پائیداری‘ ضرورت اور قرض ادا کرنے کی اپنی مالی حیثیت کو مدنظر رکھے بغیر چین سے قرض لیا جو درحقیقت چین کی ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا وہ دنیا بھر میں استعمال کر رہا ہے۔ خاطرخواہ وسائل نہ ہونے یا قومی وسائل کے حجم سے زیادہ قرض لینے کی وجہ سے ان قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ بالخصوص وینزویلا کی صورتحال میں جب خام تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم ہوئی تو وینزویلا کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیاں اور تیل و گیس کشید کرنے والے آلات کی مرمت و تبدیلی کے لئے مالی وسائل کم پڑ گئے‘ جس سے حکومت کو اِس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ عوام اُس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ وینزویلا کی مشکلات میں پھنسی حکومت چین کی کئی لحاظ سے مقروض ہے اور اس کی قومی ترقی چین سے لئے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے!‘‘

قرضوں کی عالمی حکمت عملی اور ’نت نئے اِمکانات‘ کے بارے تجزیہ کار کیون ڈیلے (Kevin Daly) کے بقول ’’وینزویلا حکومت کو امور مملکت چلانے میں مشکلات درپیش ہیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کا جاری سلسلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف اداروں بشمول فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے۔‘‘ وینزویلا کے سابق منصوبہ بندی کے وزیر ’ریکارڈو ہویسمین (Ricardo Hausmann) جو آجکل ہارورڈ یونیورسٹی میں معلم (پروفیسر) ہیں کا کہنا ہے کہ وینزویلا بھوک کی گرداب میں پھنس گیا ہے اور وہ اب لامحالہ ’اَشیائے خوردونوش‘ درآمد کرنے کی بجائے بیرونی قرضہ جات کی اصل رقم اور اس پر سود کی ادائیگی پر تمام مالی وسائل خرچ کرنے پر مجبور ہے۔‘‘ الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق ’’وینزویلا کے دارالحکومت کاراکس (Caracas) کی سڑکوں پر احتجاج ہر دن کا معمول بن گئے ہیں اور یہ احتجاج اکثر پرتشدد بھی ہوجاتے ہیں۔ وینزویلا ایک ایسے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے جس میں اشیائے ضروریہ و خوردونوش کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی کمی ہو گئی ہے!‘‘

لب لباب یہ ہے کہ وینزویلا اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے سے خود کو بچانے کی کوشش میں ڈبوتا جا رہا ہے۔ فارن پالیسی میگزین کے بقول ’اقتصادی تباہی کے دہانے پر پہنچنے میں وینزویلا چین کی مالی معاونت سے پہنچا ہے!‘ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین امام)

Saturday, June 10, 2017

June2017: Budget & Education - Financial Resources not just enough!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
کارکردگی: حاوی حقائق!
برسرزمین حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ ’انسانی وسائل کی ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی‘ جیسی ترجیحات سرفہرست رکھی جائیں۔ خیبرپختونخوا کے بجٹ برائے مالی سال دوہزار سترہ اٹھارہ سے وابستہ توقعات بھلا کیسے پوری ہو سکتی ہیں جبکہ اُن جملہ امور کا خاتمہ نہیں کیا گیا‘ جن کے باعث گذشتہ مالی سالوں کے دوران مختص وسائل ضائع ہوتے رہے ہیں۔ ’سفررائیگاں‘ کے عنوان سے ’نو جون‘ کو ’نئے مالی سال اُور بلدیاتی نظام‘ کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا‘ تاکہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو اُن کا یہ انتخابی وعدہ یاد دلایا جا سکے کہ ۔۔۔ ’’قانون ساز اَراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے جائیں گے اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام کو مضبوط بنایا جائے گا۔‘‘ لیکن اگر ایسا عملاً نہیں ہو پا رہا تو فکروعمل کی اصلاح ضروری ہے۔

مالی سال دوہزارسترہ اٹھارہ کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے ’شعبۂ تعلیم‘ کے لئے 136 ارب روپے مختص کئے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے ’’پندرہ فیصد‘‘ زیادہ ہیں! قابل ذکر ہے کہ صوبے کی مجموعی ترقیاتی حکمت عملی (اے ڈی پی) کا حجم 208ارب روپے میں سے 9.77 فیصد (بیس اعشاریہ بتیس ارب روپے) پرائمری اور ہائر ایجوکیشن میں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کئے گئے ہیں! 

سرکاری تعلیمی اداروں کے لئے مالی وسائل مختص کرنے میں ’بہادری (فراخدلی) کا مظاہرہ‘ کرنے میں موجودہ صوبائی حکومت کا جواب نہیں لیکن کیا اب تک کے تجربات سے ثابت نہیں ہوا کہ محض مالی وسائل پانی کی طرح بہانے ہی سے بہتری نہیں لائی جا سکتی؟ تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ جن تین مدوں میں خرچ ہو رہا ہے اُن کا تعلق غیرترقیاتی اخراجات سے ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں و مراعات اور دیگر اخراجات مختص مالی وسائل کے قریب نوے فیصد کو چھو رہے ہیں! پرائمری (بنیادی) تعلیم کے شعبے میں اساتذہ کی بذریعہ برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ پندرہ روزہ تربیت پر ایک ارب روپے سے زائد رقم خرچ کرنا اور تربیتی عمل مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے آنے والے وقت میں ایک ایسا ’اسکینڈل‘ ثابت ہوگا‘ جس میں بڑے بڑے نام ’ملوث پائے جائیں گے۔‘ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی تعلیمی پالیسی اور مختص مالی وسائل سے یا تو براہ راست ’برٹش کونسل‘ یا پھر ’برٹس کونسل‘ سے وابستہ رہے ملازمین کو زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے خیبرپختونخوا کے تعلیمی ڈھانچے کی بہتری کے لئے جس قدر ذیلی شعبے تخلیق کئے اُن میں حیرت انگیز طور پر برٹش کونسل سے سابق اور حاضر سروس ملازمین کی خدمات بھاری تنخواہوں اور مراعات کے عوض حاصل کی گئیں۔ حتیٰ کہ تشہیری مہمات کو ڈیزائن (تخلیق) کرنے پر کروڑوں روپے خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی قرار دی جاسکتی ہے!؟ سوال یہ ہے کہ ماضی میں اساتذہ کی تربیت پر ایک ارب سے زائد خرچ کرنے سے کیا نتائج حاصل ہوئے اور نئے مالی سال میں 30 کروڑ (300ملین) روپے مزید مختص کرنے سے کیا بہتری آئے گی؟ دوسروں پر تنقید اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی بیانات جاری کرنے سے ایک ’سیاسی ضرورت‘ تو ’بخوبی پوری‘ ہو رہی ہے لیکن اگر خیبرپختونخوا کے سیاسی فیصلہ ساز کبھی اپنے آپ سے بھی باتیں کریں تو اُن کے علم میں اضافہ ہوگا۔

سیاسی تجزیہ کار ’محمود جان بابر‘ سے اگر یہ نتیجۂ خیال مستعار لیا جائے کہ ’’تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی قیادت نے چیئرمین عمران خان کو ’اَندھیرے میں رکھتے ہوئے‘ ترقی اور تبدیلی کا جو نقشہ اُن کے سامنے پیش کیا ہے‘ وہ سوفیصد حقائق پر مبنی نہیں اور تبدیلی کی گنجائش موجود ہونے کے باوجود اگر بہتری کے لئے عملی کوشش کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو پا رہے تو ’’طرزحکمرانی کی اصلاح‘ اِحتساب اُور تبدیلی‘‘ کے نام پر برسراِقتدار آنے والوں کو اپنے طرزفکروعمل پر غور کرنا چاہئے کہ ’حائل رکاوٹیں‘ کیا ہیں اور اُن سے چھٹکارہ پانے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جانی چاہیءں لیکن جو ایک بنیادی سوال نہیں اُٹھایا جا رہا وہ یہ ہے کہ ’’کیا چیئرمین عمران خان کی خیبرپختونخوا کے امور میں دلچسپی اُسی درجے (مقام بلند) پر فائز ہے جو مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے (حیران کن) نتائج کے وقت تھی؟‘‘ 

تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا سے بناء ’ہیوی ویٹ (ایلیکٹ ایبلز)‘ مئی دوہزارتیرہ کا انتخابی معرکہ اپنے نام کیا لیکن کیا آئندہ بھی ایسا کر پائے گی جبکہ تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ اور کارکنوں کے آپسی اختلافات و تعلقات (بداعتمادی) کم ترین درجے پر ہے!؟ 

صوبائی حکومت کی کارکردگی اور سیاسی معاملہ فہمی‘ بصیرت اور قدکاٹھ اپنی جگہ لیکن خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی ’’تعلیم‘ صحت اُور بلدیاتی نظام‘‘ کا قبلہ بطور ترجیح درست کئے بناء ہر سال زیادہ سے زیادہ‘ بلکہ اور بھی زیادہ مالی وسائل سے کام لینا اُس وقت تک ’کارگر ثابت نہیں ہو گا‘ جب تک تعریف و توصیف کی ماہر ’افسرشاہی‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے دھوکے (سراب) سے بچا نہیں جاتا‘ جب تک خود کو ’عقل کل‘ سمجھنے کی بجائے مشاورتی عمل کو وسعت نہیں دی جاتی‘ اور جب تک بلدیاتی نظام کو مضبوط و توانا نہیں کیا جاتا کیونکہ مسائل اور دستیاب وسائل (جمع پونجی) کا اِدارک رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کردار ’نمائشی اقدامات‘ سے گریز کئے بناء ترقی کو پائیدار و معیاری نہیں بنایا جا سکے گا! 

تندوتلخ سہی لیکن حقیقت پر حقیقت (حاوی) ہی رہے گی کہ ’’خوش رنگ اقتدار کے ساتھ جڑی ذمہ داریوں کا ذائقہ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے!‘‘