Wednesday, October 12, 2016

Oct2016: The journey within!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سری لنکا: سفر در سفر!


قومیں چھلانگیں لگا کر نہیں بلکہ قدم قدم سفر کرتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل لالچ و حرص پر مبنی بدعنوان و امن دشمن رکاوٹوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہیں۔ سری لنکا ایسی ہی ایک عمدہ مثال ہے جس کے ہاں ’بدھ مت‘ کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں میں ’احترام انسانیت‘ اور ’انسانی جان کی حرمت‘ پر مبنی بنیادی تصورات کا خاکہ ’مضبوط عمل‘ سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ بدھ مت ایک مذہب اور فلسفہ ہے جس میں مختلف روایات‘ عقائد اور طرزعمل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اِن تعلیمات میں زیادہ تر ’’سدھارتا گوتم‘‘ سے منسوب ہیں‘ جنہوں نے مشکلات سے نجات حاصل کرنا‘ نروانہ کو حاصل کرنا اور جسم کو تکلیف و عملی زندگی کی مشکلات سے الگ رکھنے کے بارے سکھایا۔ بدھ مت کی اکثریت رکھنے والے ’سری لنکا‘ کا امن و امان کے چیلنجز سے نمٹنے میں ’بدھ مت کی تعلیمات‘ کا مرکزی کردار تھا اُور آج بھی ہے۔ ہر سال دس اکتوبر کے روز ’سری لنکا فوج‘ کا دن منایا جاتا ہے‘ رواں برس 67ویں سالگرہ کے موقع پر حسب سابق سادگی اختیار کی گئی۔ بتایا گیا کہ ’سری لنکا‘ کی دفاعی صلاحیت کے بارے ’نمودونمائش‘ کرنے کی بجائے ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی مختلف عبادت گاہوں میں دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ 

سری لنکا کی مذہبی رواداری اور آزادی ایسے روشن ابواب ہیں‘ جن پر نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے اُن ممالک کی بھی نظریں جمی ہوئیں ہیں‘ جنہیں پاکستان کی طرح دہشت گردی سے نمٹنے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں مل پا رہی۔ سری لنکا کی ’فوجی قوت‘ کا انتظامی ڈھانچہ سیاسی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا‘ لیکن قومی معاملات میں اِس کی سیاسی مداخلت بلاجواز نہیں تھی‘ کیونکہ بناء قیام امن کسی بھی حکمت عملی کی کامیابی کی گنجائش نہیں رہتی۔ سری لنکا فوج نے اپنے حجم اُور صلاحیت سے زیادہ بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اگر ہم سال دوہزار دس کے اَعدادوشمار پر بھروسہ کریں تو سری لنکا فوج کی افرادی قوت ’دو لاکھ حاضر سروس (کل وقتی)‘ اُور 20 سے 40 ہزار جز وقتی تربیت یافتہ ملازمین کے علاؤہ اٹھارہ ہزار ’نیشنل گارڈز‘ ہیں جنہوں نے مل کر 1983ء سے 2009ء تک ’خانہ جنگی‘ کا مقابلہ کیا۔ 25 سال‘ 9 ماہ‘ 3 ہفتے اور 4 دن کی خانہ جنگی کے بعد سری لنکا کی فوج نے ’تامل ٹائیگرز (لبریشن آف تامل ای لیم)‘ نامی مسلح دھڑے کو شکست دی جو اِس ’جزیرے‘ کے شمال اُور مغربی علاقوں میں مراکز بنائے ہوئے تھا اور غیرملکی مالی و تکنیکی اور حربی تعاون کے بل بوتے پر ملک گیر دہشت گرد کاروائیوں کے لئے ذمہ دار تھا۔ کم سے کم پچیس سال تک کی مسلسل لڑائی کے بعد اصلاحاتی دور (فیز) میں سری لنکا کے عوام‘ ماحول اور اِقتصادیات نے ’بڑی مشکلات‘ جھیلیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا کا ماضی جو بھی رہا ہو سردست سنہالیز (Sinhalese) اُور تامل (Tamil) کہلانے والے 2 سری لنکن اقوام نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ’’مل کر‘‘تعمیرنو اُور ’ایک نئے زیادہ خوشحال و ترقی یافتہ سری لنکا‘ کی تشکیل کریں گی۔


ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے تین ’نجی تعلیمی اداروں (ماڈرن ایج پبلک سکول اینڈ کالج‘ ماڈرن سکول سسٹم اُور مانسہرہ پبلک سکول)‘ سے تعلق رکھنے 8 طلباء و طالبات (ورشہ علی‘ خدیجہ ماہ رخ اعوان‘ طیبہ خان‘ حیدر سلطان‘ حبیب اللہ‘ قاضی میر عالم ضیاء‘ وجاہت شفقت اُور نعیم حماد) سمیت 4 اساتذہ پر مبنی وفد نے ’چار سے گیارہ اکتوبر‘ سری لنکا حکومت کی میزبانی و رہنمائی میں تین صوبوں کا دورہ کیا اور اپنی اپنی یاداشتوں میں یہ بات بھی محفوظ کی کہ سری لنکا میں تین بنیادی کام ’قومی عادت‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ 1: ایک تو کسی شخص کی سیاسی وابستگی کے بارے سوال نہیں کیا جاتا۔ 2: کسی بھی شخص کے مذہبی عقائد کے بارے نہ تو تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُس سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ 

قومی سطح پر عوام و خواص میں یہ عادت (خوبی) کسی بھی طرح معمولی نہیں کہ ایک دوسرے کی رنگ نسل پیشے مالی یا مذہبی حیثیت کے تعلق سے نہیں بلکہ انسان ہونے کے تعلق سے احترام کرتے ہیں۔ 3: جسمانی کمزوری یا عیب کی وجہ سے کسی کا بھی مذاق نہ اُڑایا جائے۔ درحقیقت انسان کی توہین اُس کے خالق و مالک پر اُنگلی اُٹھانا ہوتا ہے۔ 

اُمید ہے کہ سری لنکا کا دورہ کرنے والے ’طلباء و طالبات‘ اِن اصولوں کا اطلاق اپنی عملی زندگیوں میں کریں گے۔ پاکستان حکومت کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ غیرملکی دورہ کرنے کی مالی طور پر سکت نہ رکھنے والے اور بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں اور اساتذہ کو بھی ’یوتھ ایکسچینج پروگرامز‘ کا حصہ بنائیں۔ ’سری لنکا‘ سے بہت کچھ ایسا بھی بذریعہ براہ راست مشاہدہ بھی سیکھا جا سکتا ہے‘ جس سے ہمارے طلباء و طالبات شعور کی سیڑھی پر ایک منزل بلند ہوں۔ گیارہ اکتوبر کی شب ’بندرانائیکے انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ کولمبو سے لاہور (پاکستان) کے لئے پرواز سے چند گھنٹے قبل ہمیشہ مسکرانے والے ’سری لنکا‘ کے لئے نیک تمناؤں کے ساتھ دُعا (ayubowan) ہے کہ پاکستان کا یہ دوست ملک ہمیشہ مسکراتا رہے‘ پھلتا پھولتا اُور ترقی کے سفر در سفر میں آگے بڑھتے رہے۔




Friday, October 7, 2016

Oct2016: Graveyard for Christians

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قبرستان: ایک ضرورت!

مسیحی براداری سے تعلق رکھنے والے ایک قاری نے خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ ’مسیحی قبرستان‘ کی جانب سے مبذول کراتے ہوئے ایک سطر میں یہ قابل غور بات بھی لکھی کہ ’’اگرچہ اَقلیتوں میں مسیحی براداری کی اَکثریت غریب طبقات سے تعلق رکھتی ہے اور تعلیم کی وجہ سے سرکاری و نجی ملازمتوں میں مسیحی براداری کا تناسب بھی بڑھا ہے لیکن صوبائی حکومت اگر چاہے تو کم مالی وسائل رکھنے والے اقلیتی افراد کا معاشی و مالی سہارا (سپورٹ) بن کر ملک کے دیگر حصوں کے لئے روشن مثال قائم کر سکتی ہے۔‘‘ مختصر برقی مکتوب (اِی میل) کے لب و لہجے میں کہیں تلخی‘ کہیں شرینی اور کہیں محتاط رہنے کے باوجود گلے شکوے درج ہیں۔ مسیحی قبرستان الگ کیوں ہونے چاہیءں جبکہ مسیحی بھی اپنے مردوں کی مسلمانوں کی طرح تدفین کرتے ہیں اور بیرون ملک رہنے والوں کی قبریں کیا مسلم قبرستان میں ہوتی ہیں؟ 

قبرستانوں کا مذہبی تشخص کیا معنی رکھتا ہے اور کیا یہ برقرار رہنا چاہئے؟ قبرستانوں کے لئے اراضی اگر سرکاری وسائل سے خریدی جاتی ہے تو پھر اِس پر سب کا مساوی حق کیوں نہیں ہے؟ مسلم اور اقلیتی قبرستانوں کو اکھٹا بھی تو کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی قبرستان کا ایک حصہ چاردیواری یا واضح علامات کے ذریعے مسیحی برادری کے لئے مخصوص ہونے میں کیا امر مانع ہے۔ جہاں تک مسیحی یا اقلیتی برادری کی مالی سرپرستی (ماہانہ وظیفہ) مقرر کرنے کی بات ہے تو اِس میں ایک سے زیادہ ’سپورٹ پروگرام‘ موجود ہیں جو وفاقی و صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چلائے جاتے ہیں اور اِن میں اقلیتوں سے کوئی تعصب یا امتیاز نہیں برتا جاتا لیکن باوجود اِس کے اگر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ریاست کے پاس مالی وسائل کی بھی کمی نہیں تو وہ عوام کی بہبود اور بالخصوص ایک ایسی براداری کے اراکین کو بنیادی سہولیات و ضروریات کی فراہمی کے بعد ’’احسان‘‘ بھی تو کیا جا سکتا ہے جو مبینہ طور پر ’باوجود کوشش‘ بھی ایک مسلم اکثریتی معاشرے میں یکساں بنیادوں پر رہن سہن یا ملازمتی مواقع نہیں رکھتے۔



خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح پشاور کے گردونواح میں قبرستان کے لئے اراضی خرید کر مختص کرنا قطعی مشکل نہیں۔ اِس مقصد کے لئے حکومت کی ملکیتی اراضی کا کوئی خاص‘ الگ حصہ بھی مختص کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ کام منصوبہ بندی کے ذریعے کیا جائے تو مسیحی برادری کے لئے رہائشی بستی بھی بنائی جاسکتی ہے جہاں اُن کے مکانات اُور قرب و جوار میں متصل قبرستان‘ گرجا گھر اور دیگر ضروریات موجود ہوں۔ ایسی کسی بستی کی حفاظت بھی زیادہ آسان ہوگی اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پوری آزادی کے ساتھ وہاں اپنی عبادات و مذہبی رسومات ادا کرسکیں گے۔ جہاں تک پشاور کے موجودہ قبرستانوں کا احوال ہے تو تجاوزات کی وجہ سے قبرستان خود مسلمانوں کے لئے سکڑ گئے ہیں تو مسیحی براداری کو یہ گلہ نہیں کرنا چاہئے کہ اُن کے لئے قبرستان کی اَراضی کم پڑ گئی ہے بلکہ صورتحال تو یہ ہے کہ جہاں کبھی قبریں ہوا کرتی تھیں اب وہاں قطار در قطار مکانات بن گئے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہے کہ قبروں کی جگہ بننے والے مکانات میں رہنے والوں کو ’زندہ‘ شمار کیا جاتا ہے! 

قبرستانوں کی اراضی انتخابی سیاست کرنے والوں نے اپنے حامیوں میں تقسیم کی‘ منافع بھی کمایا اور اب ہر عام انتخاب میں ووٹ بھی اُنہی کے نام ہوتے ہیں! پشاور کے آباواجداد کی آخری آرامگاہوں کا نام و نشان مٹانے والے منتخب ہوکر اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے شاید سوچ بھی نہ رہے ہوں کہ اُنہوں نے کس قدر خسارے کا سودا کیا ہے۔ قبرستانوں میں گلیاں‘ نالیاں‘ ٹیوب ویل اور سرکاری سکول بنانے والوں کے ناموں کی تختیاں ’ملزمان کی نشاندہی‘ کرتی ہیں‘ اے کاش کہ پشاور کے رہنے والوں کو اِس کا احساس ہو جائے!



پشاور کی مسیحی براداری کی جانب سے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ ’’جب کبھی بھی کوئی نئی قبر کھودی جاتی ہے تو اُس مقام پر پہلے سے دفن رہے انسانی مردے کی ہڈیاں برآمد ہوتی ہیں۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ پشاور میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی ’30 ہزار‘ کے لگ بھگ ہے جن کے لئے 2قبرستان مخصوص ہیں۔ ایک گورا قبرستان چھاؤنی کی حدود میں شہر کے رہنے والوں کے لئے فاصلے پر ہے اور دوسرا قبرستان ’وزیرباغ‘ سے ملحقہ ہے جہاں قبروں کے لئے مزید گنجائش باقی نہیں رہی۔ 9 کنال پر پھیلے ’گورا قبرستان‘ اور 14 کنال رقبے پر ’وزیرباغ‘ کے مسیحی قبرستان کا عالم یہ ہے کہ ہر ایک قبر کم سے کم چار یا پانچ مرتبہ تدفین کے لئے استعمال ہو چکی ہے۔ 

مسیحی برادری کی اکثریت کا تعلق کم آمدنی والے طبقات سے ہے جو صاحب ثروت مسلمانوں کی طرح‘ اپنی مدد آپ کے تحت قبرستان کے لئے اراضی خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے اور انہوں نے یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گوش گزار بھی کی‘ جنہوں نے ’کمال مہارت‘ سے معاملہ ضلعی حکومت کو سونپتے ہوئے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن چونکہ ضلعی حکومت کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ کسی ایک اقلیت یا برادری کے لئے کروڑوں روپے کا ترقیاتی منصوبہ مکمل کر سکے‘ اِس لئے مرکز نگاہ صوبائی حکومت ہی ہے جس کی توجہ مبذول اگر نہیں ہوگی‘ تو اِس ضرورت کا پائیدار فوری اور ممکنہ حل ممکن نہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ سال دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کی تیاریوں میں غوروخوض کرتے ہوئے صوبائی حکومت مسیحی اقلیتی براداری کے جائز مطالبے پر کان دھرے گی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے لئے قبرستانوں کی مختص اراضی پر قبضہ کرنے والے اُس ’’سیاسی مافیا‘‘ سے بھی نمٹا جائے گا‘ جو سرکاری زمین کا استعمال کرتے ہوئے اندرون و مضافاتی پشاور کے انتخابی حلقوں میں اپنا اثرورسوخ (مقبولیت کے حلقے) بنائے ہوئے ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, October 6, 2016

Oct2016: Public Safety Commission

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس سیفٹی کمیشن

محکمۂ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اُن تمام قواعد و ضوابط کی ہر ایک شق پر بیک وقت اور بیک رفتار عمل درآمد کرنا ہوگا‘ جسے ’بلند و بانگ دعوؤں‘ میں انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ صرف تکنیکی الفاظ پر مبنی اچھے قوانین تخلیق کرنا ہی کمال نہیں یا ضرورت پوری نہیں کر سکتے جب تک کہ اِن پر عملاً عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اُور جرائم کے تیزی سے بدلتے ہوئے اَنداز کا مقابلہ کرنے کے لئے ’پولیس فورس‘ کتنی تیار اُور آمادہ ہے‘ اِس بات کو کھول کر بیان کرنے کی قطعی کوئی حاجت یا ضرورت نہیں کیونکہ تنقیدی اسلوب و بیان کی وجہ سے ’’صاحب (بہادر) ناراض بھی ہو سکتا ہے!‘‘

پولیس آرڈر 2002ء‘ کے تحت ہر ضلع میں ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ بنانا وقت کی ضرورت ہے اُور سب جانتے ہیں کہ یہ بات ’’پولیس آرڈر 2002ء‘‘ کا جز بھی ہے۔ اَب سوال یہ ہے کہ مذکورہ کمیشن کے لئے جن اَفراد کا انتخاب کرنا ہے تو اُن میں کیا خصوصیات ہونی چاہیءں کیونکہ قانون تو صرف عہدیداروں کا تعین کرتا ہے‘ اُس کے پاس ایسی کوئی کسوٹی نہیں جس پر نیت اور دل کی تہہ میں چھپی باتیں جانچنے کی اہلیت ہو؟ کیا ہم موقع پرستوں اور سیاست دانوں کے اردگرد منڈلانے والوں کو ہی موقع دیں گے‘ جیسا کہ دیگر صوبائی اداروں ساتھ ہوا‘ اور سوائے راکھ کچھ ہاتھ نہیں یا پھر دوران ملازمت اچھی ساکھ اور تعلیم یافتہ لوگوں کو انتخاب کیا جائے گا؟ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ’پبلک سیفٹی کمیشن‘ کو اُس کی ظاہری و باطنی (روح اور کارکردگی) کے لحاظ سے معنوی وجود جیسی حقیقت ہونا چاہئے۔ کمیشن کا اپنا الگ سیکرٹریٹ (مرکز) ضروری ہے‘ تاکہ جو کاروائی بھی ہو وہ باقاعدہ دستاویزی اور نظم و ضبط کی پابند رہے۔ 

کمیشن کی بنیادی ذمہ داری یہ ہو کہ ہر مہینے (بلاناغہ) میٹنگ (غوروخوض کی نشست) کرے جس میں ’ڈی پی اُو‘ سے متعلقہ ضلع کی لاء اینڈ آرڈر (جرائم نامہ)‘ محکمے کی کارکردگی بشمول جن مقدمات میں تفتیش جاری ہے اُن کی ’پراگریس رپورٹ (کارکردگی کی تفصیلات)‘ طلب کی جائے اور پھر اِس ’پراگریس رپورٹ (کارکردگی کے معیار پر مبنی تفصیلات)‘ پر غور کرنے کے بعد اصلاحات تجویز کی جائیں۔ کمیشن کے اراکین کی جانب سے اصلاحات بطور تجاویز مرتب کرنے کے عمل میں ذرائع ابلاغ اُور دیگر دانشور طبقات سے بھی رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ اِصلاحات پر اتفاق کرنے کے بعد پولیس نگران (کسی ضلع کے ’ڈی پی اُو‘) کو پابند ہونا چاہئے کہ وہ اِن اصلاحات کو عملی طور پر نافذ کرے گا جبکہ عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندے اِس پر نظر رکھ سکیں۔ علاؤہ ازیں ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ میں ایک ’’کمپلینٹ سیل (شکایت کے اِندارج کا مرکز)‘‘ بھی ہونا چاہئے جس سے عوام و خواص رجوع کر سکیں اُور پولیس کی کارکردگی یا دھونس دھاندلی‘ اختیارات کے غلط استعمال یا اِمتیازی برتاؤ سے متعلق اپنی شکایات یا تجاویز کا اندارج کرسکیں۔ تصور کیجئے کہ پولیس کی کارکردگی کا کوئی بھی معیار کس طرح مقرر یا اخذ کیا جاسکتا ہے جبکہ عوام کی شکایات اور رائے کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی گئی ہو!؟ 

پولیس کی کارکردگی پر ’کراس چیک (مستقل نظر رکھنا)‘ ضروری ہے۔ ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ کے پلیٹ فارم پر صرف پولیس کا محکمہ ہی نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ اور دیگر محکموں کہ جن کی عوام سے براہ راست رابطہ کاری (ڈیلنگ) رہتی ہے اُنہیں بھی کمیشن کے سامنے جوابدہ بنایا جائے تو بات بنے گی۔ اسی طرح ڈویژن کی سطح پر بھی پبلک سیفٹی کمیشن کے نمائندے ہونے چاہیءں‘ جن کے سامنے کمشنر‘ ڈی آئی جی اور دیگر ڈویژنل سطح کے اعلیٰ اہلکاروں کو جوابدہ ہونا چاہئے۔ 

صوبائی سطح پر ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ جیسی اتھارٹی (بااختیار ادارے) تہہ در تہہ احتساب کو عملاً ممکن بنا سکتے ہیں لیکن یہ ’’ہدف (گول)‘‘ تب ہی حاصل ہوگا جبکہ پبلک سیٖفٹی کمیشن کے لئے اہل اراکین کا انتخاب کیا جائے اُور اِسے کمشنر کی صوابدید پر چھوڑ کر رسمی خانہ پُری کرنے پر اکتفا (بھروسہ) نہ کیا جائے۔ کمیشن ایک آزاد ادارہ ہونا چاہئے۔ پولیس آرڈر کی من پسند شقوں پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اِس پوری دستاویز پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی بہرحال ضرورت ہے۔ پولیس اَفسروں کو پابند بنایا جا سکتا ہے کہ وہ متعلقہ اضلاع کی ڈسٹرکٹ (ضلعی) اسمبلیوں کو اپنی کارکردگی کے بارے باقاعدگی سے مطلع کریں۔ کسی متعلقہ ضلع کے ناظم کی بھی بطور خاص ’ذمہ داری‘ بنتی ہے کہ وہ خود تک پہنچنے والی پولیس سے متعلق عوامی شکایات یا اپنا مشاہدہ یا دیگر بلدیاتی منتخب اَراکین کی آراء سے وقتاً فوقتاً ضلعی پولیس سربراہ کو آگاہ کریں۔ 

کارکردگی پولیس کی ہو یا کسی دوسرے ادارے کی بہتری و اصلاح کے لئے ہر اِکائی کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں اَدا کرنے کے لئے ’خلوص نیت‘ سے عملی کوششیں کرنا ہوں گی اُور بجائے شاہی مزاج رکھنے والے افسران اعلیٰ سے اصلاح کی ’بلندوبالا توقعات‘ وابستہ کرنے‘ حسب قواعد اُن تمام اداروں کا قیام عملاً ممکن بنایا جاسکتا ہے‘ جس میں موجودہ انتظامی ڈھانچے کے برعکس ’کم سے کم اختیارات‘ اُور ’زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں‘ مقرر (متعین) کی جائیں۔ اداروں‘ افراد اُور نظام کی کارکردگی (آؤٹ پٹ) کا احتساب ہو کیونکہ بناء احتساب اور بناء جوابدہی کوئی بھی نظام (سسٹم) چاہے سماعتوں یا نمائشی مقاصد کے لئے کتنا ہی اچھا (جامع) دکھائی و سنائی دے‘ لیکن کافی نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Wednesday, October 5, 2016

Oct2016: Questioning the Sri Lanka Development!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سری لنکا: بولتے سوالات!

’دعا‘ اُور ’دوا کی تاثیر‘ سے متعلق جنوبی بھارت کے ایک جزیرہ پر بسنے والے ’سری لنکن‘ باشندوں کا ماننا ہے کہ ’’علاج کی صرف وہی تدبیر شفایابی کا باعث بنتی ہے‘ جس میں مریض کا اپنے ’طریقۂ علاج‘ اُور ’دوا‘ کے مؤثر ہونے پر یقین غیرمتزلزل ہو۔‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ’بے یقینی‘ میں ’دَوا‘ اور ’دُعا‘ دونوں اپنا اپنا اَثر کھو دیتے ہیں۔ ’سیلون‘ اور ’سراندیپ‘ کے ناموں سے معروف رہے ’سری لنکا‘ کی تہذیب دو ہزار سال پرانی ہے‘ جو بدھ مت‘ ہندو مت‘ اسلام اُور عیسائیوں کو ماننے والے چار بڑے مذہبی گروہوں کی سرزمین ہے لیکن یہاں کسی دین کا دوسرے سے تصادم دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ہی سڑک کے دائیں ہاتھ گرجا گھر اور بائیں ہاتھ (بلمقابل) بدھ مت کا مندر دیکھا گیا اور دونوں ہی میں عبادت کرنے والوں کی آمدورفت جاری تھی۔
سری لنکا ائرپورٹ پر امیگریشن کا عمل سیاحت یا کسی دوسرے مقصد سے آنے والے غیرملکی مسافروں کو خود سرانجام دینا پڑتا ہے لیکن برق رفتار طریقۂ کار کی بدولت یہ مرحلہ جلد ہی طے ہو جاتا ہے جس کے بعد سری لنکا میں داخل ہونے کی قانونی اجازت پانے والوں کے پاس ائرپورٹ سے باہر جانے کے 2 راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ پہلا راستہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے کا ہے کہ اگر کسی مسافر کے پاس ایسی برقی مصنوعات یا اشیاء ہیں کہ جن پر سری لنکا قانون کے مطابق درآمدی ٹیکس (کسٹم وغیرہ) ادا کرنا ضروری ہے تو اُس کے لئے کسٹم حکام نے الگ سے ’ایگزٹ پوائنٹ‘ بنا رکھا ہے جبکہ گرین چینل کے ذریعے بناء سامان کی جانچ پڑتال کئے ائرپورٹ سے باہر نکلا جاسکتا ہے اور ڈیوٹی پر موجود اہلکار کسی ایسے مسافر کی جامہ یا سامان کی تلاشی اُس وقت تک نہیں لیتے جب تک کہ اُس پر شک یا مخبری نہ ہو۔ 

بہرکیف ’پاکستان سری لنکا یوتھ ایکسچینج پروگرام‘ کے تحت 12 افراد پر مشتمل ’چوتھا دستہ‘ لاہور (علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ) سے کولمبو (بندرانائیکے انٹرنیشنل ائرپورٹ) پہنچا تو مقامی وقت کے مطابق صبح کے پونے پانچ بجے تھے لیکن ائرپورٹ پر ایک کے بعد دوسری فلائٹ اُتر رہی تھی اور مسافروں کی آمدورفت کے ہجوم سے ثابت تھا کہ سری لنکا کی معیشت و اقتصادی جس بہتری کی جانب گامزن ہے اُس کے ثمرات صرف قیادت تک محدود نہیں بلکہ اِس سے عام آدمی کی زندگی میں بھی بہتری آئی ہے اور اِس تبدیلی کو ہزارہ ڈویژن کے 3 تعلیمی اِداروں (ماڈرن ایج پبلک سکول‘ ماڈرن سکول سسٹم اُور مانسہرہ پبلک سکول) کے چنیدہ طلباء و طالبات (ہاجرہ سلطان‘ حبیب اللہ‘ وریشہ علی‘ خدیجہ مہ رخ‘ قاضی میرعالم‘ نعیم حماد‘ وجاہت شفقت‘ طبیبہ خان) اور اُن کی رہنمائی و تعارف کے لئے ہمراہ 4 اساتذہ نے بھی محسوس کیا جو چار سے بارہ اکتوبر تک سری لنکا کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں اور دیہی علاقوں کے مطالعاتی دورے میں تعلیمی نظام کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے علاؤہ نہ صرف سری لنکا کی ’یوتھ پالیسی‘ کے خدوخال کا جائزہ لیں گے بلکہ اپنے مشاہدے‘ مطالعے اور سوالات کے ذریعے سری لنکا کے ’ادارہ شماریات (statistics.gov.ik) کے اُس دعوے کی حقیقت کے بارے میں یقین کو پختہ کریں گے کہ سری لنکا میں شرح خواندگی بانوے (92.63) فیصد سے زیادہ ہے اور ستائیس فیصد سے زیادہ لوگ کمپیوٹر علوم کے بارے میں خواندگی رکھتے ہیں! کیا سری لنکا کی ’شرح خواندگی‘ میں اس قدر اضافہ اُس کے ہاں طرزحکمرانی (جمہوریت) کے مستحکم ہونے کا سبب بھی بنا ہے یا اعلیٰ سرکاری عہدوں سے لیکر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور وزارتوں پر سرمایہ دار قابض ہیں؟
سری لنکا کی سڑکوں پر ٹریفک کا منظم نظام دیکھنے کو ملتا ہے۔ 

چھوٹی بڑی نجی یا سرکاری گاڑیاں ہوں یا موٹرسائیکل یا آٹو رکشہ‘ دارلحکومت کولمبو کی گنجان آباد سڑکوں پر ہر کوئی ٹریفک قواعد کی پابندی کرتا دکھائی دیتا ہے جسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر کسی موٹرسائیکل پر دو افراد سوار ہوں تو دونوں نے ہیلمٹ پہن رکھے ہوں گے حتیٰ کہ اگر اُن کے ساتھ اُن کا بچہ بھی سوار ہوتو اُس نے بھی ایک چھوٹا سا ہیلمٹ پہن رکھا ہوگا۔ زیبرا کراسنگ‘ حد رفتار کے اعلانات اور ٹریفک کے خودکار سنگلز کے علاؤہ اکا دکا ٹریفک پولیس کے مستعد اہلکاروں کی اپنے کام سے کام رکھنے کی روش سے کولمبو کی سڑکوں کی تنگی کا احساس نہیں ہوگا۔ 

دارالحکومت کی بلندوبانگ عمارتوں‘ کارپٹ کی طرح صاف ستھری چمکدار شاہراہیں اور اُن کے اطراف میں رہنے والوں غریبوں کی بستوں کو پردے لگا کر چھپانے کی کوشش کی گئی ہے! 

سری لنکا کی تاریخ کا یہ تاریک اور سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والا پہلو یہی ہے کہ یہاں ترقی کی دور میں کسی لحاظ سے کمزور و ناتواں معاشرے کی اکائیوں کو ساتھ لیکر چلنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ غیرملکی درآمد شدہ مہنگی گاڑیاں ایک طرف لیکن پبلک ٹرانسپورٹ سے لٹکے ہوئے انسان اور دھنسی ہوئی آنکھوں سے بولتے سوالات ہر ایک صاحب شعور کو جھنجوڑ کر پوچھتے دکھائی دیئے کہ ۔۔۔ ’’سرکاری وسائل کی تقسیم میں عدل کب قائم ہوگا؟‘‘ نتیجہ تو بس یہی سمجھ آیا ہے کہ چاہے کہ بدھ مت ہو‘ ہندو یا مسلمان اور عیسائی‘ بات صرف سری لنکا کے اِن چار ادیان کے ماننے والوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ سرمایہ داروں کا جہاں کہیں بس چلتا ہے وہ غریبوں کو نچوڑنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان سے سری لنکا اُور سری لنکا سے آن کی آن میں پاکستان کا سفر کرنے کے بعد مزید کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں کر رہا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


GROUP PHOTO
 4th Youth Exchange Program participants visited the National YOUTH Service Council in Colombo on Oct 05, 2016

Oct2016: Constable-Voice for the rights!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس فورس: حق تلفی کا اَزالہ!

شاعر مصطفی زیدی کا کلام حسب حال ہے ’’کیسے سمجھاؤں کہ اُلفت ہی نہیں حاصل عمر: حاصل عمر اِس الفت کا مداوا بھی تو ہے۔۔۔ زندگی حسرت خس خانہ و برفاب سہی: کچھ ’دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا‘ بھی تو ہے!‘‘ دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا کرنے والی کانسٹیبل ’’رافیعہ قسیم بیگ‘‘ پشاور پولیس کا اِفتخار ہیں‘ جنہوں نے اپنی اعلیٰ تعلیم کو آڑے نہیں آنے دیا اور بجائے سفارش اہلیت کے بل بوتے پر بطور سپاہی ’پولیس فورس‘ میں ملازمت اختیار کی لیکن اُن کی خواہش اور کوشش ہے کہ پولیس کے ملازمتی ڈھانچے میں اصلاحات کی جائیں‘ پڑھے لکھے‘ ذہین اور قربانی و خدمت کے جذبے سے سرشار نوجوان لڑکے لڑکیوں کو پولیس فورس کا حصہ بنایا جائے اور انفرادی طور پر اُنہیں حسب تعلیم و قابلیت کم سے کم ’سترہ گریڈ‘ کے عہدے پر تعینات کیا جائے۔ 

یاد رہے کہ پولیس کا ملازمتی ڈھانچہ سپاہی (کانسٹیبل) سے شروع ہوتا ہے۔ جس کے بعد ہیڈ کانسٹیبل‘ اے ایس آئی‘ سب انسپکٹر‘ انسپکٹر‘ اے ایس پی / ڈی ایس پی‘ ایس پی‘ ایس ایس پی / اے آئی جی‘ ڈی آئی جی‘ ایڈیشنل آئی جی اور پھر انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے درجات طے کرنے والوں کے لئے ’تعلیم‘ کی اہمیت و ضرورت سے زیادہ تجربہ اور تعلقات کام آتے ہیں اور عجب یہ بھی ہے کہ پولیس کا ملازمتی ڈھانچہ کچھ اِس انداز میں مرتب کیا گیا ہے کہ اِس میں عمومی طور پر اعلیٰ حکام کو بھی ’’مداخلت‘‘ کا اختیار نہیں کہ وہ جب چاہیں کسی اہلکار کو اُس کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر‘ اُس کے حق کے مطابق محکمانہ ملازمتی ترقی دے سکیں۔ 


محترمہ رافیعہ حال ہی میں پانچ روزہ تربیتی کورس میں شرکت کے لئے ایبٹ آباد تشریف لائیں تو ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام کے موسم اُور قدرتی حسن سے مالا مال وادیوں کی تعریف کئے بناء نہ رہ سکیں! ایبٹ آباد اُنہیں جرائم میں ملوث کم عمر بچوں کے حقوق و تحفظ (چائلڈ پروٹیکشن) سے متعلق قوانین و قواعد کے بارے ایک تربیتی کورس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ کورس کے پچیس شرکاء میں رافیعہ کم عمر اور واحد خاتون تھیں تاہم اُن کے انتخاب کی بنیادی وجہ یہ (بدنیتی) تھی کہ ’’سہالہ میں پاسنگ آؤٹ کے لئے اُنہیں مدعو کیا گیا جہاں ’خوش شکل‘ خوش گفتار‘ ذہین (سمارٹ) اُور اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ رافیعہ کو خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنا تھی لیکن یہ بات اُن کی ایسی سینیئرز کو گوارہ نہیں تھی جو انگریزی میں اپنا نام لکھنے کے بھی قابل نہیں! اور تبھی یہ ترکیب نکالی گئی کہ رافیعہ کو تربیتی کورس کے بہانے ایبٹ آباد بھیج دیا جائے۔ بہرکیف اُس نے کورس نمایاں اعزاز کے ساتھ مکمل کیا اور چونکہ وہ اِن دنوں ’وکالت‘ کر بھی رہی ہے تو یہ اُس کے لئے مزید علم حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ وہ ایک ’فاسٹ لرنر‘ ہے‘ جس نے سرکاری تعلیمی اداروں سے استفادہ کیا۔ کبھی ٹیوشن نہیں لی اور نمایاں نمبروں کے ساتھ سال 2010ء میں پشاور یونیورسٹی سے ’انٹرنیشنل ریلیشنز (آئی آر)‘ میں ماسٹرز کرنے کے بعد سال 2014ء میں ’ایم اے‘ اکنامکس مکمل کیا۔ سپاہی رافیعہ اِن دنوں وکالت (ایل ایل بی) کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں! وہ 17دسمبر 2009ء کو بطور ’کانسٹیبل‘ پولیس فورس کا حصہ بنیں اُور سات برس بعد پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے عوض ’سپاہی‘ کے عہدے پر ہی برقرار ہیں! صرف پشاور پولیس ہی نہیں بلکہ رافیعہ ’خیبرپختونخوا‘ کی سطح پر فورس کے لئے وقتاً فوقتاً کارآمد ثابت ہوئی ہیں لیکن اُنہیں زیادہ تر بطور ’شو پیس (نمائش)‘ ہی کے لئے ’’اِستعمال‘‘ کیا جاتا رہا ہے۔ 

غیرملکی وفود کے سامنے فر فر (روانی سے) انگریزی زبان میں بات چیت کرنی ہو یا پولیس کی کارکردگی سے متعلق تلخ و شریں سوالات کے تحمل سے جوابات دینا ہوں‘ رافیعہ کی خوداعتمادی ہر جگہ مشکلات کا حل ثابت ہوئی لیکن اُس کی مشکلات کا کسی کو احساس نہیں۔ رافیعہ کا پولیس میں مستقبل کیا ہوگا اور کیا وہ حسب خواہش و اہلیت ’17گریڈ‘ کا عہدہ حاصل کر پائیں گی؟‘ یہ ایک مشکل سوال ضرور ہے لیکن جواب چاہتا ہے۔ یقیناًاگر حکام چاہیں تو اُنہیں ’پولیس کا معاون ترجمان(اسسٹنٹ پی آر اُو)‘ کے عہدے پر ترقی دی جاسکتی ہے جو سترہ گریڈ کا عہدہ ہے۔ ماضی میں اِس طرح کی مثالیں موجود ہیں جب ڈی ایس پی کے عہدے پر براہ راست بھرتی کی گئی اور اگر کوئی کام ایک مرتبہ ہو سکتا ہے تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں؟ اندرون پشاور کے علاقے ’سرد چاہ (ٹھنڈی کھوئی)‘ سے تعلق رکھنے والی رافیعہ (سن پیدائش 24 جنوری 1987ء) کو حسب تعلیم و قابلیت ’اہمیت و مقام‘ ملنا چاہئے جس کے لئے وہ پراُمید ہیں اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اِس سے مزید تعلیم یافتہ خواتین کو بھی ’پولیس فورس‘ جوائن کرنے کی ترغیب ملے گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اُور پولیس فورس کے صوبائی سربراہ سے توقعات ہیں کہ وہ محکمہ پولیس کے ’سافٹ امیج‘ اُبھارنے کے ساتھ ایک خاتون کو اُس کا (جائز) حق دلانے کے لئے ملازمتی قوانین و قواعد میں موجود گنجائش کھوج نکالیں گے۔ 

تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ’تھانہ کلچر‘ تبدیل کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ’’تعلیم یافتہ‘ روشن خیال اُور رافیعہ کی طرح فرض شناس‘‘ افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے جس سے پولیس فورس کا ’’عملی آؤٹ پٹ‘‘ مثالی و صنفی طور پر متوازن بنانے کے ساتھ‘ خوداحتسابی متعارف کرانے اور پولیس فورس کے بارے عمومی منفی تاثر زائل کرنے کے علاؤہ اِس اہم ادارے کی کارکردگی میں ’’نکھار‘‘ لایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, October 4, 2016

Oct2016: Remembering Muharram in different ways, why?

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم الحرام: مشترک اقدار!



امن و سلامتی سے ماخوذ ’دین‘ کے ماننے والوں کو کسی اضافی تمہید کے ذریعے انسانیت کے احترام کی ترغیب دلانا ’منطقی‘ نہیں لیکن اگر شعور دامن گیر رہے۔ 

’’اِسلام‘‘ کسی بھی عمومی صورت یا صورتحال میں‘ کسی بھی انسان کی زندگی اُور جان و مال کی حرمت کو باطل قرار نہیں دیتا اُور یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب کی ایک بڑی تعداد مشرف با اسلام ہو رہی اور اِسلام ہی دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ جاری بحث کا پہلا پڑاؤ ’’محرم الحرام سیکورٹی پلان‘‘ دوسری منزل ’’محرم الحرام اُور امن و امان‘‘ اور اِس تیسرے مرحلۂ فکر پر توجہات اُس بنیادی پیغام کی جانب مرکوز کرنی ہیں‘ جس کے بیان و رسائی کے لئے الگ الگ اظہار کے وسائل سے استفادہ ہو رہا ہے لیکن اگر کربلا کے ’مسلسل و جاری ذکر‘ کی اہمیت سمجھ لی گئی ہے تو اِس ’قدر مشترک‘ کے ذریعے توحید شناسی‘ قول و فعل کی اصلاح‘ اعمال کی تطہیر‘ ایک دوسرے کی جان ومال کا تحفظ‘ عبادات کا خلوص اُور خشوع حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ امن کا قیام بھی ممکن ہے لیکن اگر کربلا کے ذکر میں روحانی برکات و فیوض کے ساتھ عملی پیغام بھی تلاش کرنے کی مشق کر لی جائے۔



پشاور ایک گلدستے کی مانند ہے۔ جس میں ہر مذہب‘ فرقے یا مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے پھول پیوست ہیں۔ ’باہمی احترام و مثالی رواداری‘ پشاور کا مستند تعارف و حوالہ رہا ہے۔ یہاں کے درخشاں ماضی کا ایک باب وہ وقت بھی تھا جب دہشت گردی اور انتہاء پسندی تو بہت دور کی بات‘ معمولی جرائم تک رونما نہیں ہوتے تھے۔ گلی محلوں کو آہنی دروازے لگا کر بند نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک قسم کی چاہت اور اپناہیت عام ہوا کرتی تھی جس میں اجنبیت کا گزر تک نہ تھا لیکن پھر خطے پر جنگ مسلط ہوئی اور دو عالمی طاقتوں کے ٹکڑاؤ نے ’حق و باطل‘ کے واضح تصورات رکھنے والوں کو بھی روند ڈالا۔ 

کلاشنکوف کلچر کے ساتھ عدم برداشت آئی۔ اچھے اور بُرے دہشت گردوں کی اصطلاحات ایجاد ہوئیں‘ جس کے بعد دنیا نے ہماری تباہی اور تنزلی کا تماشا دیکھا۔ اگر اِس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر پاکستان کو کمزور کر رہا ہے تو پھر اصلاح و بہتری کی گنجائش یقیناًنکالی جاسکتی ہے۔



توجہات مرکوز رہیں کہ محرم الحرام 1438ء ہجری کا آغاز اسلامی کلینڈر کے اُس ’واقعۂ کربلا‘ سے بالخصوص منسوب ہو چکا ہے جو سن 61ہجری میں پیش آیا اُور آج بھی اِس کی یاد صرف اہل اسلام کے ہاں مسلکی اختلاف کے ساتھ الگ الگ طریقوں سے نہیں منائی جاتی بلکہ غیرمذہب بھی حق وباطل کے معرکے اور جذبۂ حریت بیدار رکھنے کے لئے اِس ذکر میں شریک ہوتے ہیں۔ 

پشاور میں محرم الحرام کے دوران صرف مجالس عزأ یا ماتمی جلوس ہی برآمد نہیں ہوتے اور نہ ہی اِمام بارگاہوں کی حد تک ’شہدائیکربلا‘ کی قربانیوں کے تذکرے محدود رکھے جاتے ہیں بلکہ اہلسنت والجماعت مسلک دیوبند کی ترجمانی کرنے والی ’انجمن تبلیغ قرآن و سنت‘ پشاور میں 2 سے 10محرم الحرام تک 9 اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے جن میں سے 8 اجتماعات مختلف جامع مساجد (بالترتیب شیخ آباد‘ اخون آباد‘ فردوس چوک‘ لاہوری گیٹ‘ چوک ناصر خان‘ قصہ خوانی‘ ہشتنگری اُور نمک منڈی) جبکہ دس محرم کے روز جلسۂ سیرت ’فاروق اعظمؒ چوک (اندرون کوہاٹی گیٹ)‘ منعقد کیا جاتا ہے۔ 

انجمن کے جنرل سیکرٹری مولانا حسین احمد مدنی کے بقول ’شہدائے اسلام کانفرنس‘ کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ سلسلہ 1952ء سے جاری ہے اور رواں برس (1438ہجری) ہونے والی 65ویں کانفرنس میں مقامی مقررین کے علاؤہ 6 مقررین اُوکاڑہ‘ ساہیوال‘ لاہور‘ ایبٹ آباد‘ راولپنڈی اور نوشہرہ سے مدعو کئے گئے ہیں۔ اِسی طرح شہدائے کربلا کی سیرت‘ واقعات اُور تناظر و محرکات پر روشنی پر ڈالنے کے لئے فقہ حنفی ہی سے تعلق رکھنے والے ’اہلسنت والجماعت (عرف عام میں فاضل بریلی کے مکتب تحقیق و تعلیم کے علمبرداروں)‘ کی نمائندہ تنظیم ’اِدارہ تبلیغ اِلاسلام‘ اَپنے قیام کے 68ویں برس 9 اجتماعات بالترتیب نوتھیہ‘ غلہ منڈی‘ سرکی‘ گنج‘ سبزی منڈی‘ ناصر خان اُور گھنٹہ گھر کے مقامات پر انعقاد کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے۔ ’اِدارۂ تبلیغ الاسلام‘ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری خواجہ غلام فاروق کے مطابق اس سال راولپنڈی‘ فیصل آباد‘ چنیوٹ اور سرگودھا سے 9 مقررین کو مدعو کیا گیا ہے۔ 

مجالس عزأ ہوں یا سیرت کے عام اجتماعات‘ سیکورٹی اداروں کے لئے اِن سے نمٹنا آسان نہیں کیونکہ بیرون پشاور سے آنے والے مقررین بسااوقات شعلہ بیانی یا روانی میں پشاور یا خیبرپختونخوا کے کشیدہ حالات کی نزاکتوں (باریکیوں) کا خیال نہیں رکھتے یا جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف منتظمین بعدازاں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں بلکہ پشاور پھر 1992ء کے مقام پر جا کھڑا ہوتا ہے۔ اِس صورتحال میں سیکورٹی اِداروں سے زیادہ اگر سیاسی قیادت فعالیت کا مظاہرہ کرے اور تمام فریقین کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ بیرون پشاور سے مقرر مدعو کرنے کی بجائے مقامی مقررین کی زبانی ہی ذوق کی تسکین کر لیا کریں تو پشاور کے ماضی و حال سے بخوبی آشنا مقامی مقررین کبھی بھی ایسی کوئی غیرمستند بات بحوالہ یا بناء حوالہ نہیں کریں گے یا دُہرائیں گے‘ جس سے کسی مسلک کی دل آزاری ہو۔ 

امن وامان کا قیام اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگا‘ جب تک مسالک کے درمیان ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا احترام عام نہیں ہو جاتا۔ اِس ہدف کے حصول‘ کے لئے دردمندی کا مظاہرہ اور پشاور سے محبت میں سرشار پرخلوص منظم و مسلسل کوششوں کی اَشد ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, October 3, 2016

Oct2016: Restoring Peace in Muharram. The Basic Issue.

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم الحرام اُور امن و امان!

بنیادی قضیہ کیا ہے؟ 

آخر سال کے دیگر مہینوں میں اِس قدر ’ہنگامی حالات‘ کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑتا؟ 

محرم سیکورٹی پلان کے تحت دو اکتوبر کو شائع ہوئی (گذشتہ) تحریر میں پولیس کی وضع کردہ اُس حکمت عملی کے خدوخال اُور عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے حفاظتی انتظامات کا سرسری جائزہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فیصلہ سازوں کے شاہانہ مزاج‘ تن آسانی اُور حالات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روش زیربحث لائی جائے۔ علاؤہ ازیں مختلف مکاتب فکر کو دعوت فکروعمل دی جائے کہ وہ خیبرپختونخوا کے طول وعرض اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر شعوری اور فکری رغبت و آمادگی کے ساتھ ایسی رضاکارانہ تحاریک (عمل) کا حصہ بنیں جس سے پشاور کا امن بحال ہو‘ بھائی چارہ عام ہو‘ انسانی خون کی حرمت و عزت بڑھے اور پھر اِس رواداری کے ثمرات صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیلتے چلے جائیں کیونکہ اگر ’امن و امان‘ بحال کرنے کی ذمہ داری صرف اُور صرف قانون نافذ کرنے والے (حکومتی) اداروں کو سونپ دی جاتی ہے تو اِس کا نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ ہرسال کی طرح اِس سال اور آئندہ بھی محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ اُن کی جان و مال اور مذہبی یا مسلکی جذبات و احساسات‘ رسومات اور عبادات کو سنگین قسم کے خطرات لاحق ہیں! جن کا سوائے اِس کے کوئی دوسرا حل نہیں کہ ’’تمام معمولات زندگی معطل کر دیئے جائیں!‘‘

محرم الحرام کا آغاز امن و امان کے لئے دعاؤں‘ نیک خواہشات اور سیکورٹی پلانز کی صورت ہوتا ہے‘ جس کی ضرورت سال 1992ء سے پیش آ رہی ہے جب یوم عاشور (دس محرم بوقت عصر) کوہاٹی گیٹ میں دو مسالک کے درمیان تصادم میں جانی ومالی نقصانات ہوئے اور اُس وقت کی ضلعی انتظامیہ اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے تباہی و بربادی اور خونریزی کا کھیل دیکھتے رہے۔ جس کے بعد سے سال کا کوئی بھی مہینہ یا موقع ہو‘ پشاور کی وہ روائتی مذہبی رواداری اور معمولات معمول پر نہ آسکے۔ اگر اُس وقت بناء کسی ’دستاویزی محرم سیکورٹی پلان‘ امن وامان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کو اپنے فرائض کی غفلت پر سزائیں دی جاتیں۔ کسی بھی فرقے کے انگلیوں پر شمار ہونے والے شرپسندوں کو انجام تک پہنچایا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عینی شاہدین‘ عوام کے خون اور پشاور کے امن سے رنگے ہاتھ توانا نہ ہوتے! 

بنیادی بات یہ ہے کہ اگر سال کے دیگر مہینوں میں کسی سیکورٹی پلان کی ضرورت پیش نہیں آتی تو پھر ایسا محرم ہی میں کیوں ہوتا ہے‘ جس کی حرمت کے سبھی قائل ہیں؟ اِس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے ماضی و حال کے سیاسی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی ہے جس کی کئی ایک مثالیں بطور خاص پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف (موجودہ صوبائی) حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ’پشاور‘ کئی لحاظ سے کم ترین ترجیح دکھائی دیتا ہے۔ 

ماضی میں محرم سے قبل روایت رہی ہے کہ وزرائے اعلیٰ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نمائندہ وفود کو طلب کرکے قانون نافذ کرنے والے ماتحت محکموں کو یہ پیغام دیتے کہ اُن کی کارکردگی پر نظر ہے اور اگر پولیس فورس نے مصلحت یا کسی بھی فرقے کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کیا تو ایسی کارکردگی (کوتاہی) کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن افسوس کہ ’انتخابی سیاست‘ جیسی ’ذاتی ترجیح‘ کی وجہ سے پشاور سے منتخب ہونے والی صوبائی اور قومی اسمبلی کی قیادت نے ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کر رکھا ہے اور وہ یا تو بظاہر انتہاء درجے کی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پھر ’پشاور‘ اُن کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں اُور یہاں سے منتخب ہو کر‘ یہاں کے وسائل سے اپنی ’شان و شوکت‘ میں اضافہ کرنے والوں کے لئے یہ بات ضروری ہی نہیں کہ وہ پشاور سے اپنا ’دلی تعلق‘ بھی جوڑیں۔ پشاور کو محبوب سمجھیں۔ 

جنوب مشرق ایشیاء کے اِس قدیم ترین‘ زندہ و تاریخی شہر کی رونقیں‘ مذہبی آزادی اُور ثقافتی و سماجی رونقیں بحال کرنے میں اپنا کلیدی و حسب ضرورت کردار ادا کریں۔ اس سال منتخب بلدیاتی نمائندوں بشمول پشاور و دیگر اضلاع میں ضلعی ناظمین کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین سے بہترین عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اُس امن کی بحالی بناء آرام سے نہیں بیٹھیں گے‘جس کا ایک جہان متمنی اور جس کا خلاصہ شہدائے کربلا کی سیرت و تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, October 2, 2016

Oct2016: Peace, Law & Order during Muharram

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم الحرام اُور امن و امان!


بنیادی قضیہ کیا ہے؟ 
آخر سال کے دیگر مہینوں میں اِس قدر ’ہنگامی حالات‘ کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑتا؟ 
محرم سیکورٹی پلان کے تحت دو اکتوبر کو شائع ہوئی (گذشتہ) تحریر میں پولیس کی وضع کردہ اُس حکمت عملی کے خدوخال اُور عام آدمی (ہم عوام) کے نکتۂ نظر سے حفاظتی انتظامات کا سرسری جائزہ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فیصلہ سازوں کے شاہانہ مزاج‘ تن آسانی اُور حالات کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روش زیربحث لائی جائے۔ علاؤہ ازیں مختلف مکاتب فکر کو دعوت فکروعمل دی جائے کہ وہ خیبرپختونخوا کے طول وعرض اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر شعوری اور فکری رغبت و آمادگی کے ساتھ ایسی رضاکارانہ تحاریک (عمل) کا حصہ بنیں جس سے پشاور کا امن بحال ہو‘ بھائی چارہ عام ہو‘ انسانی خون کی حرمت و عزت بڑھے اور پھر اِس رواداری کے ثمرات صوبے کے دیگر اضلاع تک پھیلتے چلے جائیں کیونکہ اگر ’امن و امان‘ بحال کرنے کی ذمہ داری صرف اُور صرف قانون نافذ کرنے والے (حکومتی) اداروں کو سونپ دی جاتی ہے تو اِس کا نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ ہرسال کی طرح اِس سال اور آئندہ بھی محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ اُن کی جان و مال اور مذہبی یا مسلکی جذبات و احساسات‘ رسومات اور عبادات کو سنگین قسم کے خطرات لاحق ہیں! جن کا سوائے اِس کے کوئی دوسرا حل نہیں کہ ’’تمام معمولات زندگی معطل کر دیئے جائیں!‘‘


محرم الحرام کا آغاز امن و امان کے لئے دعاؤں‘ نیک خواہشات اور سیکورٹی پلانز کی صورت ہوتا ہے‘ جس کی ضرورت سال 1992ء سے پیش آ رہی ہے جب یوم عاشور (دس محرم بوقت عصر) کوہاٹی گیٹ میں دو مسالک کے درمیان تصادم میں جانی ومالی نقصانات ہوئے اور اُس وقت کی ضلعی انتظامیہ اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار خاموش تماشائی بنے تباہی و بربادی اور خونریزی کا کھیل دیکھتے رہے۔ جس کے بعد سے سال کا کوئی بھی مہینہ یا موقع ہو‘ پشاور کی وہ روائتی مذہبی رواداری اور معمولات معمول پر نہ آسکے۔ اگر اُس وقت بناء کسی ’دستاویزی محرم سیکورٹی پلان‘ امن وامان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کو اپنے فرائض کی غفلت پر سزائیں دی جاتیں۔ 

کسی بھی فرقے کے انگلیوں پر شمار ہونے والے شرپسندوں کو انجام تک پہنچایا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عینی شاہدین‘ عوام کے خون اور پشاور کے امن سے رنگے ہاتھ توانا نہ ہوتے! 

بنیادی بات یہ ہے کہ اگر سال کے دیگر مہینوں میں کسی سیکورٹی پلان کی ضرورت پیش نہیں آتی تو پھر ایسا محرم ہی میں کیوں ہوتا ہے‘ جس کی حرمت کے سبھی قائل ہیں؟ اِس سوال کا جواب سمجھنے کے لئے ماضی و حال کے سیاسی فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی ہے جس کی کئی ایک مثالیں بطور خاص پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک انصاف (موجودہ صوبائی) حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ’پشاور‘ کئی لحاظ سے کم ترین ترجیح دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں محرم سے قبل روایت رہی ہے کہ وزرائے اعلیٰ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نمائندہ وفود کو طلب کرکے قانون نافذ کرنے والے ماتحت محکموں کو یہ پیغام دیتے کہ اُن کی کارکردگی پر نظر ہے اور اگر پولیس فورس نے مصلحت یا کسی بھی فرقے کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کیا تو ایسی کارکردگی (کوتاہی) کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن افسوس کہ ’انتخابی سیاست‘ جیسی ’ذاتی ترجیح‘ کی وجہ سے پشاور سے منتخب ہونے والی صوبائی اور قومی اسمبلی کی قیادت نے ’تجاہل عارفانہ‘ اختیار کر رکھا ہے اور وہ یا تو بظاہر انتہاء درجے کی جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پھر ’پشاور‘ اُن کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں اُور یہاں سے منتخب ہو کر‘ یہاں کے وسائل سے اپنی ’شان و شوکت‘ میں اضافہ کرنے والوں کے لئے یہ بات ضروری ہی نہیں کہ وہ پشاور سے اپنا ’دلی تعلق‘ بھی جوڑیں۔ 

پشاور کو محبوب سمجھیں۔ جنوب مشرق ایشیاء کے اِس قدیم ترین‘ زندہ و تاریخی شہر کی رونقیں‘ مذہبی آزادی اُور ثقافتی و سماجی رونقیں بحال کرنے میں اپنا کلیدی و حسب ضرورت کردار ادا کریں۔ اس سال منتخب بلدیاتی نمائندوں بشمول پشاور و دیگر اضلاع میں ضلعی ناظمین کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہترین سے بہترین عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اُس امن کی بحالی بناء آرام سے نہیں بیٹھیں گے‘جس کا ایک جہان متمنی اور جس کا خلاصہ شہدائے کربلا کی سیرت و تعلیمات کا نچوڑ بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Oct2016: Muharram Security Plan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محرم سیکورٹی پلان


صوبائی دارالحکومت پشاور کے لئے ’محرم الحرام‘ کے لئے حفاظتی اِنتظامات کا خاکہ (سیکورٹی پلان) حسب سابق تشکیل دینے کے بعد مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے فریقین کے نمائندہ وفود سے ملاقاتوں کا عمل‘ ذرائع ابلاغ میں تشہیر کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے‘ جس میں حسب سابق ’پرامن رہنے‘ اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات و رسومات کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی لیکن کیا یہ ساری محنت (تگ ودو) اُس وقت تک ناکافی رہے گی جب تک گذشتہ برس محرم الحرام کے تلخ تجربات (واقعات) کے ظاہری و پس پردہ محرکات پر غور نہیں کیا جاتا۔


پشاور میں کل 79 امام بارگاہیں ہیں اور محرم کے پہلے 10روز کے دوران اِن امام بارگاہوں کے علاؤہ دیگر درجنوں مقامات سے بھی 121 مختلف ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ ماتمی جلوس یا مجالس عزأ کے اجتماعات کے لئے چھوٹی یا بڑی کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاسکتی۔ دس فٹ کے کمرے میں چند افراد اگر ’فرش عزأ‘ بچھا کر بیٹھتے ہیں تو بھی سیکورٹی فراہم کرنے والوں کی ذمہ داری یکساں اہم رہتی ہے۔ گذشتہ برس جن 20 امام بارگاہوں کے 30 ماتمی جلوسوں کو ’حساس ترین (موسٹ سینسٹیو)‘ قرار دیا گیا تھا تو اِس مرتبہ خطرات میں نمایاں کمی آنی چاہئے تھی لیکن ماسوائے اسپیکر کے محتاط استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی کسی دوسرے شعبے میں نمایاں نہیں۔ پولیس حکام کو سمجھنا ہوگا کہ ’’واک چاکنگ‘‘ کا نیا اسلوب ’واٹس ایپ‘ فیس بک اُور ٹوئٹر‘ بن چکے ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے نشر ہو رہی ہیں اور محرم الحرام کے آغاز کی اِس گھڑی پر ’آن لائن منافرت پھیلانے والوں پر بھی گرفت ہونی چاہئے۔‘ 

ماضی میں کی گئیں وہ تمام تقاریر اور اشاعتوں کے اقتباسات اگر سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر زیرگردش ہیں تو اُنہیں روکنا (ڈیلیٹ کرنا) کس کی ذمہ داری ہے؟ ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی عشرہ محرم کے آخری دو یا تین دن موبائل فونز کی سروسیز معطل کر دی جائیں گی لیکن اگر ’غیررجسٹرڈ فون کنکشن‘ ختم کرنے سے متعلق ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہوتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ موبائل فون سروسیز بند کرنا پڑتیں‘ جس سے پورے پشاور میں معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ حسب سابق اِس مرتبہ بھی افغان مہاجرین کے پشاور میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کے لئے ’دفعہ 144‘ کا سہارا لیا گیا ہے لیکن جو (رجسٹرڈ و بڑی تعداد میں غیررجسٹرڈ) افغان مہاجرین پشاور شہر کی حدود میں بودوباش کرتے ہیں اُن سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ کم سے کم پشاور شہر کو ’افغان مہاجرین‘ اور ’ہر قسم کے غیرلائسینس شدہ اسلحہ‘ سے پاک کرنے کے لئے ’پولیس‘ کو جو بھی کردار اَدا کرنے چاہئے تھا وہ کیوں ادا نہیں کیا جاتا جبکہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں دس روز کے لئے کروڑوں روپے کے ’سیکورٹی پلان‘ کی ضرورت پڑی ہے اور اس سال بھی گلی گلی محلے محلے سات ہزار سے زائد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑے گا!

محرم الحرام کے پہلے عشرے اور بعدازاں 20صفر (چہلم امام حسین رضی اللہ عنہ تک) سے 8ربیع الاوّل تک ’ایام عزأ‘ کے دوران پشاور کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے جو دیگر اضلاع انتہائی حساس قرار دیئے جاتے ہیں اُن میں کوہاٹ‘ ہنگو اُور ڈیرہ اسماعیل خان کے 66 امام بارگاہیں‘ 174 ماتمی جلوس شامل ہیں لیکن اِس مرتبہ ضلع ہنگو حساس ترین اضلاع کی فہرست میں شامل نہیں تو پشاور و دیگر اضلاع کے لئے ایسا کیوں نہیں ہوا؟ یاد رہے کہ اِس سال بھی محرم کے پہلے دس روز کے دوران خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں مجموعی طور پر 429 ماتمی جلوس اور 940 مجالس کا انعقاد ہوگا۔ پشاور میں چھ سے دس محرم تک سیکورٹی پلان کے تحت وہ شاہراہیں اور راستے پورے دن کے لئے بند کر دیئے جاتے ہیں‘ جہاں شام یا رات گئے کوئی مذہبی اجتماع وقت مقررہ اور مقررہ راستوں پر منعقد ہونا ہوتا ہے۔

یومیہ مزدوری (دیہاڑی) کرنے والوں کے لئے محرم الحرام کے ایام کس قدر مشکلات بھرے ہوتے ہیں‘ فیصلہ سازوں کو اِس کا بھی دھیان رکھنا چاہئے! پشاور کو سال 1992ء سے پہلے کا امن و امان واپس دلانے کے لئے سب سے زیادہ توقعات ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ سے وابستہ ہیں‘ جو اپنے حصّے کی ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے سیکورٹی پلان کے نام جو انتظامات بھی کرتے ہیں‘ اُس سے عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات میں کمی کی بجائے ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔