ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سری لنکا: سفر در سفر!
قومیں چھلانگیں لگا کر نہیں بلکہ قدم قدم سفر کرتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل لالچ و حرص پر مبنی بدعنوان و امن دشمن رکاوٹوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہیں۔ سری لنکا ایسی ہی ایک عمدہ مثال ہے جس کے ہاں ’بدھ مت‘ کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں میں ’احترام انسانیت‘ اور ’انسانی جان کی حرمت‘ پر مبنی بنیادی تصورات کا خاکہ ’مضبوط عمل‘ سے جڑا دکھائی دیتا ہے۔ یاد رہے کہ بدھ مت ایک مذہب اور فلسفہ ہے جس میں مختلف روایات‘ عقائد اور طرزعمل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اِن تعلیمات میں زیادہ تر ’’سدھارتا گوتم‘‘ سے منسوب ہیں‘ جنہوں نے مشکلات سے نجات حاصل کرنا‘ نروانہ کو حاصل کرنا اور جسم کو تکلیف و عملی زندگی کی مشکلات سے الگ رکھنے کے بارے سکھایا۔ بدھ مت کی اکثریت رکھنے والے ’سری لنکا‘ کا امن و امان کے چیلنجز سے نمٹنے میں ’بدھ مت کی تعلیمات‘ کا مرکزی کردار تھا اُور آج بھی ہے۔ ہر سال دس اکتوبر کے روز ’سری لنکا فوج‘ کا دن منایا جاتا ہے‘ رواں برس 67ویں سالگرہ کے موقع پر حسب سابق سادگی اختیار کی گئی۔ بتایا گیا کہ ’سری لنکا‘ کی دفاعی صلاحیت کے بارے ’نمودونمائش‘ کرنے کی بجائے ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی مختلف عبادت گاہوں میں دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔
سری لنکا کی مذہبی رواداری اور آزادی ایسے روشن ابواب ہیں‘ جن پر نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے اُن ممالک کی بھی نظریں جمی ہوئیں ہیں‘ جنہیں پاکستان کی طرح دہشت گردی سے نمٹنے میں خاطرخواہ کامیابی نہیں مل پا رہی۔ سری لنکا کی ’فوجی قوت‘ کا انتظامی ڈھانچہ سیاسی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکا‘ لیکن قومی معاملات میں اِس کی سیاسی مداخلت بلاجواز نہیں تھی‘ کیونکہ بناء قیام امن کسی بھی حکمت عملی کی کامیابی کی گنجائش نہیں رہتی۔ سری لنکا فوج نے اپنے حجم اُور صلاحیت سے زیادہ بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اگر ہم سال دوہزار دس کے اَعدادوشمار پر بھروسہ کریں تو سری لنکا فوج کی افرادی قوت ’دو لاکھ حاضر سروس (کل وقتی)‘ اُور 20 سے 40 ہزار جز وقتی تربیت یافتہ ملازمین کے علاؤہ اٹھارہ ہزار ’نیشنل گارڈز‘ ہیں جنہوں نے مل کر 1983ء سے 2009ء تک ’خانہ جنگی‘ کا مقابلہ کیا۔ 25 سال‘ 9 ماہ‘ 3 ہفتے اور 4 دن کی خانہ جنگی کے بعد سری لنکا کی فوج نے ’تامل ٹائیگرز (لبریشن آف تامل ای لیم)‘ نامی مسلح دھڑے کو شکست دی جو اِس ’جزیرے‘ کے شمال اُور مغربی علاقوں میں مراکز بنائے ہوئے تھا اور غیرملکی مالی و تکنیکی اور حربی تعاون کے بل بوتے پر ملک گیر دہشت گرد کاروائیوں کے لئے ذمہ دار تھا۔ کم سے کم پچیس سال تک کی مسلسل لڑائی کے بعد اصلاحاتی دور (فیز) میں سری لنکا کے عوام‘ ماحول اور اِقتصادیات نے ’بڑی مشکلات‘ جھیلیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا کا ماضی جو بھی رہا ہو سردست سنہالیز (Sinhalese) اُور تامل (Tamil) کہلانے والے 2 سری لنکن اقوام نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ’’مل کر‘‘تعمیرنو اُور ’ایک نئے زیادہ خوشحال و ترقی یافتہ سری لنکا‘ کی تشکیل کریں گی۔
ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے تین ’نجی تعلیمی اداروں (ماڈرن ایج پبلک سکول اینڈ کالج‘ ماڈرن سکول سسٹم اُور مانسہرہ پبلک سکول)‘ سے تعلق رکھنے 8 طلباء و طالبات (ورشہ علی‘ خدیجہ ماہ رخ اعوان‘ طیبہ خان‘ حیدر سلطان‘ حبیب اللہ‘ قاضی میر عالم ضیاء‘ وجاہت شفقت اُور نعیم حماد) سمیت 4 اساتذہ پر مبنی وفد نے ’چار سے گیارہ اکتوبر‘ سری لنکا حکومت کی میزبانی و رہنمائی میں تین صوبوں کا دورہ کیا اور اپنی اپنی یاداشتوں میں یہ بات بھی محفوظ کی کہ سری لنکا میں تین بنیادی کام ’قومی عادت‘ کا درجہ رکھتے ہیں۔ 1: ایک تو کسی شخص کی سیاسی وابستگی کے بارے سوال نہیں کیا جاتا۔ 2: کسی بھی شخص کے مذہبی عقائد کے بارے نہ تو تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُس سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
قومی سطح پر عوام و خواص میں یہ عادت (خوبی) کسی بھی طرح معمولی نہیں کہ ایک دوسرے کی رنگ نسل پیشے مالی یا مذہبی حیثیت کے تعلق سے نہیں بلکہ انسان ہونے کے تعلق سے احترام کرتے ہیں۔ 3: جسمانی کمزوری یا عیب کی وجہ سے کسی کا بھی مذاق نہ اُڑایا جائے۔ درحقیقت انسان کی توہین اُس کے خالق و مالک پر اُنگلی اُٹھانا ہوتا ہے۔
اُمید ہے کہ سری لنکا کا دورہ کرنے والے ’طلباء و طالبات‘ اِن اصولوں کا اطلاق اپنی عملی زندگیوں میں کریں گے۔ پاکستان حکومت کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ وہ غیرملکی دورہ کرنے کی مالی طور پر سکت نہ رکھنے والے اور بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں اور اساتذہ کو بھی ’یوتھ ایکسچینج پروگرامز‘ کا حصہ بنائیں۔ ’سری لنکا‘ سے بہت کچھ ایسا بھی بذریعہ براہ راست مشاہدہ بھی سیکھا جا سکتا ہے‘ جس سے ہمارے طلباء و طالبات شعور کی سیڑھی پر ایک منزل بلند ہوں۔ گیارہ اکتوبر کی شب ’بندرانائیکے انٹرنیشنل ائرپورٹ‘ کولمبو سے لاہور (پاکستان) کے لئے پرواز سے چند گھنٹے قبل ہمیشہ مسکرانے والے ’سری لنکا‘ کے لئے نیک تمناؤں کے ساتھ دُعا (ayubowan) ہے کہ پاکستان کا یہ دوست ملک ہمیشہ مسکراتا رہے‘ پھلتا پھولتا اُور ترقی کے سفر در سفر میں آگے بڑھتے رہے۔