ژرف ِ نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: ہوائی مہمان
افغانستان کی قسمت کب بدلے گی‘ اِس کے وسائل اُور افراد کے استحصال کا دور کب ختم ہوگا؟
تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ غیرملکی فوجی و غیرفوجی اُور اِن کی مدد و معاونت کرنے والے افغانوں کے انخلاکا عمل ’کابل ائرپورٹ دھماکے (چھبیس اگست)‘ کے بعد زیادہ تیزی سے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ طالبان کے کابل میں داخل ہونے (پندرہ اگست) سے قبل افغانستان سے غیرملکیوں کے انخلا¿ کے لئے 31 اگست کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جو ’گیارہ ستمبر حملوں (نائن الیون)‘ کا ایک اُور سال مکمل ہونے سے قبل خاص علامتی و نفسیاتی حد تھی لیکن پندرہ اگست واقعات کے تناظر میں جبکہ طالبان جنگجوو¿ں نے غیرمعمولی اُور غیرمتوقع تیزی سے پیشرفت کرتے ہوئے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھال لیا ہے اُور اِن کی آمد کو بنیاد بنا کر پھیلائے جانے والے خوف و ہراس کا خمیازہ اب امریکہ اُور اِس کے اتحادیوں کو خود ہی بھگتنا پڑ رہا ہے!
افغانستان سے امریکہ اُور اِس کے اتحادی فوجی و غیرفوجیوں کا انخلامکمل کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں حساس تنصیبات بالخصوص غیرملکیوں پر مزید حملوں کے امکانات ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ہوائی اُڑانوں کی حکمت ِعملی وضع کی گئی ہے اُور اِس مرتبہ بھی پہلا انتخاب (نزدیک ترین و محفوظ ترین مقام) ”پشاور“ ہی ٹھہرا ہے جہاں کابل ائرپورٹ سے لائے جانے والے غیرملکیوں اُور افغان مہاجرین کو عارضی طور پر ٹھہرانے کے انتظامات کئے گئے ہیں اُور مبینہ طور پر اِن ’ہوائی مہمانوں‘ کو بعدازاں اپنی اپنی منزل پر پہنچا دیا جائے گا لیکن یہ کہانی کا ایک رخ ہے‘ جو امریکی بیان کر رہے ہیں اُور چاہتے ہیں کہ پاکستان من و عن تسلیم کر لے۔ کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کابل ائرپورٹ پر افراتفری کے باعث یہ بات ممکن نہیں رہی کہ وہاں سے فوجی طیاروں میں سینکڑوں کی تعداد میں انسانوں کی بھیڑ بکریوں کی صورت سوار کرتے وقت ہر مسافر کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اگرچہ خاموشی ہے لیکن بہرحال افغانستان سے انسانی اسمگلنگ ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اُور چند ایک ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ جن میں دہشت گرد بھیس بدل کر امریکہ اُور برطانیہ جا پہنچے‘ جنہیں بعدازاں واپس بھیجنا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہنگامی انخلا¿ کے عمل میں امریکہ پہنچنے والے افغانوں کو نہ صرف ہوائی اڈوں پر ہی رکھ کر اُن کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ کئی ایک ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں امریکہ پہنچنے والوں افغانوں کو جہازوں سے اُس وقت تک اُترنے بھی نہیں دیا گیا جب تک اُن کی شناخت دستاویزی طور پر ثابت نہیں ہو پائی۔ اُن امریکہ ہوائی اڈوں پر جہاں افغان پہنچ رہے ہیں وہاں اُنہیں عوام سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اُور نہ ہی اُن تک عوام کی جانب سے عطیہ کیا جانے والا سازوسامان پہنچایا جا رہا ہے‘ جو الگ موضوع ہے اُور مغربی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے عرب‘ روس اُور چین کا میڈیا اِسے خوب اچھال رہا ہے۔ فی الوقت اَمریکی و اِتحادی ممالک نے یہ حکمت ِعملی اختیار کر رکھی ہے کہ وہ کابل سے اُٹھائے جانے والے مسافروں کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے سے قبل کسی دوسرے ملک میں مقیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک تو اُن کے شناختی کوائف کی جانچ پڑتال ہو سکے اُور دوسرا اُنہیں کورونا وبا لاحق ہونے کی صورت میں مرض کی علامات ظاہر ہو سکیں۔ یہ حفظ ماتقدم کے طور کیا جانے والا اقدام امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اُور دیگر یورپی ممالک کی ایک مجبوری کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایک مرتبہ وہاں پہنچنے والے بعدازاں وہاں کے قوانین کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواست کر بیٹھتے ہیں اُور جنہیں بعدازاں بیدخل کرنا ممکن نہیں ہوتا اُور یوں حکومت ایک نئی مشکل میں پھنس جاتی ہے۔ امریکہ اُور مغربی ممالک کی دوسری مشکل یہ ہے کہ افغانستان میں کورونا وبا کی شرح بلند ہے لیکن وہاں جانچ (ٹیسٹنگ) کا نظام خاطرخواہ وسیع (موجود) نہیں۔ لوگوں کو دوسروں سے الگ تھلگ (قرنطین) رکھنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر طرف (غیرضروری) افراتفری کا ماحول ہے اُور اِس ماحول کو بنانے میں بھی امریکہ اُور اِس کے اتحادی مغربی ممالک ہی کی کارستانیاں شامل ہیں جنہوں نے خاص ضرورت کے تحت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ افغانوں کی اکثریت طالبان کے دور حکومت کو اپنے لئے موت سمجھتے ہیں اُور اِس طرح دباو¿ ڈال کر امریکہ اُور اِس کے اتحادی ممالک طالبان سے اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں جو مستقبل کی افغان حکومت میں شامل کرداروں سے متعلق ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اُس کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو نئی افغان حکومت میں شامل ہونا چاہئے لیکن وہ ایسے نام فی الوقت (فوری) ظاہر نہیں کر رہا اُور نہ ہی کسی کی حمایت کر رہا ہے لیکن وہ سبھی افغان کردار معلوم ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی اُور امریکی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رکھی ہے اُور طالبان کے اب تک کے بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ایسی ’مشکوک وفاداریاں‘ رکھنے والے کرداروں کو حکمرانی میں شریک ِسفر نہیں کریں گے۔
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے افغانستان سے آنے والے قریب 10ہزار ’ہوائی مہمانوں‘ کو عارضی طور پر ٹھہرانے کے لئے 10مختلف ہوٹلوں کا انتخاب کیا ہے۔ اِس ’عارضی سکونت (ٹرانزٹ اسٹے)‘ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کی حالت میں اِن مسافروں کو کچھ دن قرنطین (الگ تھلگ) رکھا جائے اُور یہ کورونا وبا کے کسی نئے جرثومے کے ساتھ امریکہ یا یورپ نہ پہنچ جائیں جو پہلے ہی پابندیوں سے گزر رہا ہے بلکہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے ایک خاص عرصے تک یہ پشاور ہی میں رہیں اُور اِس کے بعد بھی صحت مند رہنے کی صورت اُنہیں اگلی منزل کے لئے روانہ کر دیا جائے۔ ایسے عارضی (ہوائی) مسافر پشاور کے لئے کتنا خطرہ ہیں اُور اِن کی آمد و قیام پشاور کے لئے کتنی مفید ہوگی‘ اِس بارے میں فی الوقت صوبائی فیصلہ ساز زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے اُور نہ ہی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ قومی سطح پر اِس قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار عوام کے سیاسی نمائندوں کو نہ ہونے کے برابر حاصل ہوتا ہے۔ اب تک ہوئے فیصلوں کے مطابق عام افغانوں کو دوران پور میں قائم کورونا سنٹر لیجایا جائے گا جبکہ سفارتی و دیگر غیرملکیوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرایا جائے گا۔ گھنٹوں کے نوٹس پر دی جانے والی اِس اطلاع پر کیا جانے والا بندوبست اپنی جگہ لیکن جن 10ہزار ہوائی مسافروں کی آمد کی بات کی جا رہی ہے‘ اُن کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اُور یہ بھی ممکن ہے کہ عام افغانوں کو دوران پور پہنچا کر اُنہیں وہاں سے نکالا ہی نہ جائے اُور اُنہیں امداد کے وعدوں کے ساتھ پاکستان کے سپرد کر دیا جائے جو پہلے ہی دس سے پندرہ لاکھ رجسٹرڈ اُور اِس سے دوگنا زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہوئے عاجز آ چکا ہے۔ افغان مسئلے کے لئے پاکستان ذمہ دار نہیں بلکہ جن ممالک نے گزشتہ بیس برس کے دوران افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی اُنہیں چاہئے کہ وہ جلدبازی میں اکتیس اگست تک انخلا مکمل کرنے کی بجائے اِسے طول آئندہ چند ماہ یا کم سے کم چند ہفتوں تک طول دیں اُور پورے اطمینان سے یہ عمل مکمل کریں کیونکہ دوسری کسی بھی صورت میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ پشاور میں ٹھہرائے جانے والے افغان مہمانوں میں مقامی افغان شامل ہونے کی کوشش کریں اُور اِس طرح یہ پورا عمل مشکوک قرار د ے کر کابل ائرپورٹ سے پشاور ائرپورٹ اُور دوران پور پہنچنے والے افغان ہمیشہ کے لئے پاکستان ہی کی ذمہ داری ٹھہرائی جائے‘ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ خیبرپختونخوا کے وسائل پر نیا (مالی) بوجھ ہونے کے علاؤہ داخلی حفاظتی انتظامات کے لئے بھی سنجیدہ نوعیت کا خطرہ ہو گا۔
....
Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 29 August 2021 Sunday 20th Muharram ul Harram 1443 Hijri |