Sunday, August 29, 2021

Base camp Peshawar!

 ژرف ِ نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: ہوائی مہمان

افغانستان کی قسمت کب بدلے گی‘ اِس کے وسائل اُور افراد کے استحصال کا دور کب ختم ہوگا؟

تازہ ترین پیشرفت یہ ہے کہ غیرملکی فوجی و غیرفوجی اُور اِن کی مدد و معاونت کرنے والے افغانوں کے انخلاکا عمل ’کابل ائرپورٹ دھماکے (چھبیس اگست)‘ کے بعد زیادہ تیزی سے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ طالبان کے کابل میں داخل ہونے (پندرہ اگست) سے قبل افغانستان سے غیرملکیوں کے انخلا¿ کے لئے 31 اگست کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جو ’گیارہ ستمبر حملوں (نائن الیون)‘ کا ایک اُور سال مکمل ہونے سے قبل خاص علامتی و نفسیاتی حد تھی لیکن پندرہ اگست واقعات کے تناظر میں جبکہ طالبان جنگجوو¿ں نے غیرمعمولی اُور غیرمتوقع تیزی سے پیشرفت کرتے ہوئے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھال لیا ہے اُور اِن کی آمد کو بنیاد بنا کر پھیلائے جانے والے خوف و ہراس کا خمیازہ اب امریکہ اُور اِس کے اتحادیوں کو خود ہی بھگتنا پڑ رہا ہے!

افغانستان سے امریکہ اُور اِس کے اتحادی فوجی و غیرفوجیوں کا انخلامکمل کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں حساس تنصیبات بالخصوص غیرملکیوں پر مزید حملوں کے امکانات ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ہوائی اُڑانوں کی حکمت ِعملی وضع کی گئی ہے اُور اِس مرتبہ بھی پہلا انتخاب (نزدیک ترین و محفوظ ترین مقام) ”پشاور“ ہی ٹھہرا ہے جہاں کابل ائرپورٹ سے لائے جانے والے غیرملکیوں اُور افغان مہاجرین کو عارضی طور پر ٹھہرانے کے انتظامات کئے گئے ہیں اُور مبینہ طور پر اِن ’ہوائی مہمانوں‘ کو بعدازاں اپنی اپنی منزل پر پہنچا دیا جائے گا لیکن یہ کہانی کا ایک رخ ہے‘ جو امریکی بیان کر رہے ہیں اُور چاہتے ہیں کہ پاکستان من و عن تسلیم کر لے۔ کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کابل ائرپورٹ پر افراتفری کے باعث یہ بات ممکن نہیں رہی کہ وہاں سے فوجی طیاروں میں سینکڑوں کی تعداد میں انسانوں کی بھیڑ بکریوں کی صورت سوار کرتے وقت ہر مسافر کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جا سکے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اگرچہ خاموشی ہے لیکن بہرحال افغانستان سے انسانی اسمگلنگ ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اُور چند ایک ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ جن میں دہشت گرد بھیس بدل کر امریکہ اُور برطانیہ جا پہنچے‘ جنہیں بعدازاں واپس بھیجنا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہنگامی انخلا¿ کے عمل میں امریکہ پہنچنے والے افغانوں کو نہ صرف ہوائی اڈوں پر ہی رکھ کر اُن کے کوائف کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ کئی ایک ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں امریکہ پہنچنے والوں افغانوں کو جہازوں سے اُس وقت تک اُترنے بھی نہیں دیا گیا جب تک اُن کی شناخت دستاویزی طور پر ثابت نہیں ہو پائی۔ اُن امریکہ ہوائی اڈوں پر جہاں افغان پہنچ رہے ہیں وہاں اُنہیں عوام سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اُور نہ ہی اُن تک عوام کی جانب سے عطیہ کیا جانے والا سازوسامان پہنچایا جا رہا ہے‘ جو الگ موضوع ہے اُور مغربی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے عرب‘ روس اُور چین کا میڈیا اِسے خوب اچھال رہا ہے۔ فی الوقت اَمریکی و اِتحادی ممالک نے یہ حکمت ِعملی اختیار کر رکھی ہے کہ وہ کابل سے اُٹھائے جانے والے مسافروں کو اپنی سرزمین پر قدم رکھنے سے قبل کسی دوسرے ملک میں مقیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک تو اُن کے شناختی کوائف کی جانچ پڑتال ہو سکے اُور دوسرا اُنہیں کورونا وبا لاحق ہونے کی صورت میں مرض کی علامات ظاہر ہو سکیں۔ یہ حفظ ماتقدم کے طور کیا جانے والا اقدام امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اُور دیگر یورپی ممالک کی ایک مجبوری کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ ایک مرتبہ وہاں پہنچنے والے بعدازاں وہاں کے قوانین کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواست کر بیٹھتے ہیں اُور جنہیں بعدازاں بیدخل کرنا ممکن نہیں ہوتا اُور یوں حکومت ایک نئی مشکل میں پھنس جاتی ہے۔ امریکہ اُور مغربی ممالک کی دوسری مشکل یہ ہے کہ افغانستان میں کورونا وبا کی شرح بلند ہے لیکن وہاں جانچ (ٹیسٹنگ) کا نظام خاطرخواہ وسیع (موجود) نہیں۔ لوگوں کو دوسروں سے الگ تھلگ (قرنطین) رکھنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر طرف (غیرضروری) افراتفری کا ماحول ہے اُور اِس ماحول کو بنانے میں بھی امریکہ اُور اِس کے اتحادی مغربی ممالک ہی کی کارستانیاں شامل ہیں جنہوں نے خاص ضرورت کے تحت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ افغانوں کی اکثریت طالبان کے دور حکومت کو اپنے لئے موت سمجھتے ہیں اُور اِس طرح دباو¿ ڈال کر امریکہ اُور اِس کے اتحادی ممالک طالبان سے اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں جو مستقبل کی افغان حکومت میں شامل کرداروں سے متعلق ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اُس کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کو نئی افغان حکومت میں شامل ہونا چاہئے لیکن وہ ایسے نام فی الوقت (فوری) ظاہر نہیں کر رہا اُور نہ ہی کسی کی حمایت کر رہا ہے لیکن وہ سبھی افغان کردار معلوم ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی اُور امریکی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رکھی ہے اُور طالبان کے اب تک کے بیانات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت ایسی ’مشکوک وفاداریاں‘ رکھنے والے کرداروں کو حکمرانی میں شریک ِسفر نہیں کریں گے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے افغانستان سے آنے والے قریب 10ہزار ’ہوائی مہمانوں‘ کو عارضی طور پر ٹھہرانے کے لئے 10مختلف ہوٹلوں کا انتخاب کیا ہے۔ اِس ’عارضی سکونت (ٹرانزٹ اسٹے)‘ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کی حالت میں اِن مسافروں کو کچھ دن قرنطین (الگ تھلگ) رکھا جائے اُور یہ کورونا وبا کے کسی نئے جرثومے کے ساتھ امریکہ یا یورپ نہ پہنچ جائیں جو پہلے ہی پابندیوں سے گزر رہا ہے بلکہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے ایک خاص عرصے تک یہ پشاور ہی میں رہیں اُور اِس کے بعد بھی صحت مند رہنے کی صورت اُنہیں اگلی منزل کے لئے روانہ کر دیا جائے۔ ایسے عارضی (ہوائی) مسافر پشاور کے لئے کتنا خطرہ ہیں اُور اِن کی آمد و قیام پشاور کے لئے کتنی مفید ہوگی‘ اِس بارے میں فی الوقت صوبائی فیصلہ ساز زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے اُور نہ ہی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ قومی سطح پر اِس قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار عوام کے سیاسی نمائندوں کو نہ ہونے کے برابر حاصل ہوتا ہے۔ اب تک ہوئے فیصلوں کے مطابق عام افغانوں کو دوران پور میں قائم کورونا سنٹر لیجایا جائے گا جبکہ سفارتی و دیگر غیرملکیوں کو ہوٹلوں میں ٹھہرایا جائے گا۔ گھنٹوں کے نوٹس پر دی جانے والی اِس اطلاع پر کیا جانے والا بندوبست اپنی جگہ لیکن جن 10ہزار ہوائی مسافروں کی آمد کی بات کی جا رہی ہے‘ اُن کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اُور یہ بھی ممکن ہے کہ عام افغانوں کو دوران پور پہنچا کر اُنہیں وہاں سے نکالا ہی نہ جائے اُور اُنہیں امداد کے وعدوں کے ساتھ پاکستان کے سپرد کر دیا جائے جو پہلے ہی دس سے پندرہ لاکھ رجسٹرڈ اُور اِس سے دوگنا زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے ہوئے عاجز آ چکا ہے۔ افغان مسئلے کے لئے پاکستان ذمہ دار نہیں بلکہ جن ممالک نے گزشتہ بیس برس کے دوران افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی اُنہیں چاہئے کہ وہ جلدبازی میں اکتیس اگست تک انخلا مکمل کرنے کی بجائے اِسے طول آئندہ چند ماہ یا کم سے کم چند ہفتوں تک طول دیں اُور پورے اطمینان سے یہ عمل مکمل کریں کیونکہ دوسری کسی بھی صورت میں دہشت گرد حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اندیشہ یہ بھی ہے کہ پشاور میں ٹھہرائے جانے والے افغان مہمانوں میں مقامی افغان شامل ہونے کی کوشش کریں اُور اِس طرح یہ پورا عمل مشکوک قرار د ے کر کابل ائرپورٹ سے پشاور ائرپورٹ اُور دوران پور پہنچنے والے افغان ہمیشہ کے لئے پاکستان ہی کی ذمہ داری ٹھہرائی جائے‘ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ خیبرپختونخوا کے وسائل پر نیا (مالی) بوجھ ہونے کے علاؤہ داخلی حفاظتی انتظامات کے لئے بھی سنجیدہ نوعیت کا خطرہ ہو گا۔

....

Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 29 August 2021 Sunday 20th Muharram ul Harram 1443 Hijri




Freedom Questioned!

 تحریک .... آل یاسین

آزادیءاظہار و بیاں

ملک بھر کے ایوان  ہائے صحافت (پریس کلب) اُور ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کی نمائندہ تنظیموں (یونین آف جرنلسٹس) نے ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے نام سے مجوزہ قانون مسترد کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صحافیوں اُور صحافتی اداروں کے درمیان اِس سے قبل ایسا اتفاق بہت ہی کم دیکھنے میں آیا ہے کہ جب اتنی بہت ساری دانشور تنظیمیں ایک دوسرے کی رائے سے متفق ہوئی ہوں اُور اِنہوں نے آپسی اختلافات بالائے طاق رکھے ہوں۔ درحقیقت صحافیوں کو جس ایک بات پر سوچنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اِن کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آپسی اختلافات کی وجہ سے بہت سارے ایسے امور ہیں‘ جو مسائل اُور بحرانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اُور اَکثر غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں‘ جن سے پاکستان کے بارے میں یہ ’منفی تاثر‘ اُبھرتا ہے کہ جیسے یہاں ’آزادی صحافت‘ نہ ہو حالانکہ جس قدر اظہار کی آزادی پاکستان میں ہے شاید ہی دنیا کے کسی بھی نظریاتی ملک میں ہو کہ یہاں صحافی ہونے کے لئے متعلقہ شعبے کی تعلیم کا ہونا تک ضروری نہیں! تعجب خیز ہے کہ جو صحافتی علوم و نظریات سے متعلق خاطرخواہ تعلیم یافتہ نہیں‘ اُنہوں نے صحافت سے متعلق فیصلہ سازی کو تابع فرمان بنا رکھا ہے اُور ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ مادر پدر آزاد صحافت کے مقابلے اگر ذمہ دار صحافت فروغ پاتی ہے تو اِس سے بہت سارے صحافت کی آڑ میں ہونے والی سیاست ختم ہو جائے گی بالخصوص وہ کردار کیا کریں گے جنہیں سیاستی و ریاستی صحافت کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں آتا؟ ”کروں گا کیا جو ’محبت‘ میں ہو گیا ناکام .... مجھے تو اُور کوئی کام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)۔“

اختلاف موجود ہے۔ صحافیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے قیام کو ضروری سمجھتی ہے اُور اِس سلسلے میں وفاقی حکومت کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے مجوزہ ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کو خطرہ نہیں بلکہ ملکی حالات کے مطابق ضروری سمجھتی ہے۔ اِس سلسلے میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“کی حمایت میں جن صحافیوں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں‘ اُنہوں نے مذکورہ مجوزہ قانون کی حمایت کا یقین دلایا ہے لیکن قومی سطح پر صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ”پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)“ کا کہنا ہے ”چند صحافیوں کی رائے کو ملک بھر کے صحافیوں کا مو¿قف نہیں سمجھنا چاہئے۔“ ذہن نشین رہے کہ ’پی ایف یو جے‘ کے نام سے پاکستان میں کم سے کم 5 تنظیمیں فعال ہیں اُور اِن سبھی تنظیموں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ صحافیوں کی ترجمان اُور سب سے زیادہ صحافیوں کی رکنیت رکھنے والی تنظیمیں ہیں اُور اِن میں شامل ’پی ایف یو جے‘ مجوزہ قانون آزادی اظہار رائے کو دبانے کے مترادف قرار دیتی ہے۔ 

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پروفیشنل گروپ) کے نام سے حال ہی میں بنائی گئی تنظیم کے منتخب صدر مظہر اقبال نے وفاقی وزیراطلاعات سے ملاقات کی تھی۔ مظہراقبال کے بقول ان کی تنظیم کے حال ہی میں انتخابات ہوئے‘ جس میں انہیں بطور صدر منتخب کیا گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہوا کہ ’پی ایف یو جے پروفیشنل‘ کے انتخابات ملک کے کس پریس کلب میں ہوئے‘ البتہ اُن کی حلف برداری کی تقریب رواں برس ہی نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں منعقد ہوئی تھی۔ دوسری طرف نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی جانب سے وضاحت آئی ہے کہ پریس کلب میں ’پی ایف یو جے پروفیشنل‘ کی حلف برداری کی باقاعدہ تقریب منعقد نہیں ہوئی البتہ یہ ممکن ہے کہ ’نیشنل پریس کلب‘ میں کسی جگہ مل بیٹھ کر پانچ دس لوگوں نے ایک دوسرے سے حلف لے لیا ہو۔“

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ 13 ’یونین آف جرنلسٹس‘ کے نمائندوں پر مشتمل ہے جس کے اراکین کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ اسلام آباد اور راول پنڈی کے علاؤہ سکھر‘ رحیم یار خان‘ گوجرانوالہ‘ ایبٹ آباد‘ بہاولپور اُور علاقائی سطح پر موجود ہیں۔ ’پی ایف یو جے‘ کے انتخاب کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں یونین آف جرنلسٹس کے انتخابات ہوتے ہیں جس کے ساتھ یونین کے نمائندوں جنہیں ’ڈیلیگیٹس‘ کہا جاتا ہے کا انتخاب ہوتا ہے اُور یوں صوبائی اُور علاقائی سطح پر فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہ مراحل اعلانیہ (پورے اہتمام سے) سرانجام پاتے ہیں اُور انتخابات سے تین ماہ قبل فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل بنائی جاتی ہے‘ جو انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنے کے ساتھ انتخابی کمیٹی بھی تشکیل دیتی ہے جو آئندہ انتخابی مراحل کی نگرانی کرتی ہے۔ پی ایف یو جے کے عہدیداروں کے ہر دو سال کے بعد انتخابات ہوتے ہیں اور آخری انتخابات کراچی میں ہوئے تھے۔ 'پی ایف یو جے 'کا صحافیوں کی ’حقیقی نمائندہ تنظیم‘ ہونے کے بارے میں اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیم (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان )کے علاؤہ پاکستان بار کونسل اور سپرئم کورٹ بار ایسوسی ایشن بھی اِن کی حیثیت تسلیم کرتی ہیں اور صرف صحافی ہی نہیں بلکہ دیگر تنظیمیں بھی مجوزہ میڈیا اتھارٹی کے قیام کی مخالف ہیں۔

ذہن نشین رہے کہ صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ ٹیلی ویژن چینلز (براڈکاسٹ ایسوسی ایشن) اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان نے بھی مجوزہ قانون کو مسترد کر رکھا ہے اور اس قانون کے خلاف اعلانات شائع کئے ہیں کیونکہ یہ قانون مبینہ طور پر ’بولنے کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔‘ مجوزہ قانون کے مندرجات میں صحافتی تنظیموں کو جن شقوں پر اعتراض ہے ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام اختیارات اس اتھارٹی میں شامل گیارہ افراد کے پاس ہوں گے اور اس اتھارٹی کا چیئرمین گریڈ اکیس یا بائیس کا سرکاری افسر ہوگا جس کا انتخاب صدر مملکت کریں گے جبکہ اس اتھارٹی میں ہر صوبے کا ایک ایک نمائندہ ہوگا جس کا انتخاب بھی صدر وفاقی حکومت کی سفارشات کی روشنی میں کریں گے۔ اس کے علاؤہ کمیٹی میں سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اطلاعات بھی شامل ہوں گے۔ کمیٹی کو حکومت کی طرف سے جو ذمہ داری (ٹاسک) دیا جائے گا وہ اس کو پورا کرنے کی پابند ہوگی جبکہ یہ کمیٹی جو ٹربیونل بنائے گی وہ اکیس روز میں فیصلہ سنانے کا پابند ہوگا اور یہ جو بھی فیصلہ کرے گا اس پر اعتراض کی صورت عدالت عظمی (سپرئم کورٹ)سے رجوع کیا جا سکے گا۔ روایت ہے کہ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت قانون ساز ایوانوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہیں‘ جس کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا لیکن صحافتی تنظیموں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اِس موقع پر مجوزہ ”پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کے خلاف احتجاج کریں گے۔

....


Thursday, August 26, 2021

Tale of gradens!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: .... جاری ہے سفر

شاید یہ مغلیہ عہد (16ویں اُور 17ویں صدی) میں بنائے جانے والے باغات تھے‘ جن کی وجہ سے پشاور کو ’پھولوں کا شہر‘ اُور چند تاریخی حوالوں میں ’ست رنگی شہر (رینبو سٹی)‘ کہا گیا اُور یہ بات زیادہ پرانی یا نرالی بھی نہیں کہ جب پشاور کے پھل پھول‘ سبزی‘ یہاں کا دنداسہ‘ جڑی بوٹیاں اُور زرعی سوغات کی دھوم دنیا میں ہوتی تھی جو اپنے معیار کی وجہ سے بھی پہچانی جاتی تھیں اُور یوں پشاور ایک ”brand-name“ ہوا کرتا تھا‘ جس کا ذکر بطور استعارہ نغمیہ شاعری بھی ملتا ہے۔ پشاور کے کاروباری معمولات کا حصہ ہوا کرتا تھا کہ سڑک کنارے ٹوکروں کی صورت (بڑی مقدار) میں پھول فروخت کئے جاتے تھے اُور اہل شہر کی ایک تعداد کا دن کے اختتام پر پھولوں کے گجرے و ہار ساتھ لیجانا نہیں بھولتے تھے۔ یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں کہ پشاور کے گلاب اِس قدر خوشبودار ہوتے کہ اِنہیں مٹی کے گھروں میں ڈال دیا جاتا اُور سارا دن ’عرق ِگلاب‘ کے مزے لئے جاتے۔ اگرچہ بہت سی روایات نہیں رہیں لیکن چند ایک رواج آج بھی باقی ہیں جن میں خوشی و غم کے مواقعوں پر پھولوں کے ہار اُور اُوڑھنیاں استعمال کی جاتی ہیں تاہم اِن کی قیمتیں عام آدمی کی قوت ِخرید سے زیادہ ہیں کیونکہ پھولوں کی طلب (مانگ) زیادہ اُور مقامی پیداوار کم ہے۔ پشاور کی باعث ِکشش خوبیاں ایک ایک کر کے کھو رہی ہیں۔ حالیہ چند برس میں ’بڑا نقصان‘ یہ ہوا ہے کہ پشاور کی فضا جو کبھی پھولوں کی خوشبو سے معطر ہوا کرتی تھی اُور پشاور کے آب و ہوا کی یہ خوبی بھی دم توڑ گئی ہے کہ یہاں کا پانی زود ہضم ہوا کرتا تھا اُور اب صورتحال یہ ہے کہ پشاور میں ’صاف پانی‘ ملنا ممکن نہیں رہا اُور اندرون شہر رہنے والوں کے ہاں بوتلوں میں بند پانی استعمال ہوتے دیکھا گیا ہے۔ نقصان سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اِس خسارے کا فیصلہ سازوں کو رتی بھر بھی احساس نہیں ورنہ پشاور کی پہلی ضرورت تو پینے کا صاف پانی ہے؟

تاریخ میں چرچا بھی بہت ہے اُور پشاور کے نام بھی بہت ہیں جن میں سے ایک سنسکرت لفظ ’پرشاپورا یا پرشپورہ‘ بھی ہے‘ جس کے معنی ’پھولوں کے دیس‘ کے بنتے ہیں۔ تاریخ کے سینے میں تذکرہ محفوظ ہے کہ جب مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر (1505ئ) درہ¿ خیبر کے راستے فتوحات کرتا ہوا پشاور پہنچا اُور چند برس یہاں قیام کے دوران اُس نے مقامی افراد کی اکثریت کے معمولات پر غور کیا جن کی اکثریت زراعت پیشہ تھی اُور یہ پشاور شہر کی فصیل سے باہر کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے تو اُس نے یہاں کی زرخیز مٹی اُور موافق موسم کی موجودگی کو بھانپ لیا اُور یہی وجہ تھی کہ اُس وقت کے بہترین سے بہترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے شاہکار ’شاہی باغ‘ اُور ’وزیر باغ‘ تعمیر کئے گئے‘ جن کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں اُور صرف مغل ہی نہیں بلکہ اِن کے بعد برطانوی راج کے دوران بھی پشاور کے باغات میں کمپنی باغ اُور کنگھم پارک (جناح پارک) کا اضافہ ہوا لیکن افسوس کہ یہ سبھی (برائے نام) باغات اپنے حسن اُور افادیت کھو چکے ہیں اُور یہی سبب ہے کہ پشاور کی آب و ہوا کی خصوصیات بھی اپنا توازن برقرار رکھ پائی ہیں۔ 

سال 2016ءمیں پہلی مرتبہ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے پشاور کو دنیا کو دوسرا ”آلودہ ترین“ شہر قرار دیا تھا اُور تب سے آج تک وقت جمود طاری اُور پشاور کی آب و ہوا کو بہتر بنانے کی نمائشی کوششیں جاری ہیں جن کے خاطرخواہ نتائج اِس لئے بھی برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ پشاور میں زراعت اُور پشاور کے باغات کو اُن کی اصل شکل میں بحال نہیں کیا جا سکا۔ حکومت نے زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والی اراضی پر رہائشی بستیاں بنانے پر اگرچہ پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہ عمل جاری و ساری ہے۔ پشاور میں ہر قسم کی گاڑیوں سے پیدا ہونے والے دھویں اُور گردوغبار میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ شمار ممکن نہیں کہ پشاور میں ماحول دشمن گاڑیوں کی کل تعداد کتنی ہے البتہ ایسی گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہے جن سے زہریلا دھواں اُگلتا نظر آتا ہے اُور یہ صرف ایک ظاہری علامت ہے جبکہ پشاور کے اطراف میں اینٹوں کے بھٹے‘ صنعتوں سے خارج ہونے والا دھواں‘ کیمیائی مادوں کی وجہ سے زیرزمین پانی بھی آلودہ ہو رہا ہے! پشاور پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہر دن پشاور میں قریب 7 لاکھ گاڑیوں داخل یا خارج ہوتی ہیں۔ 35 ہزار رجسٹرڈ 2 سٹروک گاڑیاں اُور آٹو رکشہ فضائی و صوتی آلودگیوں کا الگ سے باعث ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں جب برطانیہ کی جامعہ (یونیورسٹی آف کیمبرج) سے وابستہ پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر آصف خان نے خیبرپختونخوا کی فضا میں پائی جانے والی مضر گیسیوں کے بارے ایک تحقیق کی جس سے معلوم ہوا کہ فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ گاڑیاں (موٹریں‘ بسیں اُور ٹرک) ہیں۔ مذکورہ تحقیق ’پاکستان فورسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ کے لئے کی گئی تھی جس میں فضائی آلودگی کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں کی درجہ بندی کی گئی اُور اِن میں پشاور سرفہرست جبکہ مردان‘ ڈیرہ اسماعیل خان اُور ایبٹ آباد بالترتیب دوسرے تیسرے اُور چوتھے نمبر پر تھے۔

وزیرباغ اٹھارہویں صدی میں درانی راج کی یادگار ہے جسے 1810ءمیں سردار فتح محمد خان بارکزئی المعروف وزیر نے تعمیر کروایا تھا اُور اُنہی کے نام نامی سے ’وزیرباغ‘ مشہور ہوگیا۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ماضی میں پشاور کے حملہ آور اُور اِسے فتح کرنے والے یہاں آ کر باغات بناتے تھے۔ مسافروں کے ٹھہرنے کے لئے سرائے (عارضی قیام گاہیں) بنائی جاتی تھیں۔ کنویں‘ نہر اُور حوض بنائے جاتے تھے حتیٰ کہ پشاور کے سب سے بڑے نکاسی¿ آب کا منصوبہ (شاہی کٹھہ) بھی کسی مقامی اُور قومی رہنما کی ’پشاور سے دلی محبت‘ کا اظہار نہیں۔ ’احیائے پشاور‘ کے تحت سال2020ءمیں شاہی باغ کی خوبصورتی و بحالی کے لئے صوبائی حکومت نے 10 کروڑ روپے جیسی خطیر رقم مختص کی لیکن مذکورہ ترقیاتی کام انتہائی سست روی سے جاری ہے جبکہ اہل علاقہ (عینی شاہدین) کا دعویٰ ہے کہ وزیرباغ کی خوبصورتی اُور بحالی کے نام پر قدیمی درخت کاٹ دیئے گئے ہیں۔ تحریک اِنصاف کے دور میں ہونے والی بے قاعدگیاں (ترقیاتی کام کی سست روی اُور درختوں کی کٹائی) پہلی مرتبہ رونما نہیں ہو رہے بلکہ ماضی میں ایک موقع پر وزیرباغ میں اِس قدر بڑی تعداد میں درخت کاٹے گئے کہ پورا اِسے ”گنجا باغ“ کہا جانے لگا اُور جب ذرائع ابلاغ نے واویلا کیا تو راتوں رات درختوں کے نمونے لگائے گئے‘ جنہوں نے ابھی پورا قد کاٹھ نکالا بھی نہیں تھا کہ اُنہیں بھی کاٹ ڈالا گیا ہے۔ حال ہی میں شروع ہوئی مون سون شجرکاری کے دوران وزیرباغ کا انتخاب کیا گیا ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے تاہم کسی درخت کو لگانے اُور اِس کے اپنے وزن پر کھڑا ہونے (پلنے بڑھنے) میں سالہا سال کی حفاظت درکار ہوتی ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ صرف درخت لگانے سے ماحولیاتی (فضائی) آلودگی کم یا ختم نہیں ہوگی بلکہ درختوں کے ساتھ ماحولیاتی تنوع (ایکوسسٹم) کو بھی بحال ہونے کے لئے گنجائش (space) اُور توجہ (وقت) دینا ہوگا۔ وزیرباغ کی اراضی تین اطراف میں تجاوز کر کے قبضہ کی گئی ہے‘ جس میں ٹاو¿ن ون کے دفاتر‘ سکول‘ ٹیوب ویل‘ جنازہ گاہ‘ نجی رہائش گاہیں اُور سرکاری تعلیمی ادارہ قائم ہیں۔ ’احیائے پشاور‘ کے تحت ترقیاتی عمل اپنی جگہ اہم لیکن وزیرباغ کو تجاوزات سے پاک کرنے پر بھی غور ہونا چاہئے اُور اِس کے اصل رقبے کو بحال (واگزار) کرانے کے احکامات بھی صادر ہونے چاہیئں۔ پشاور نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا کہ جس کی اُسے اتنی بڑی (بھاری) سزا دی جائے۔ صوبائی و ضلعی فیصلہ سازوں سے درخواست ہے کہ پشاور کے اثاثوں میں شامل جملہ باغات بالخصوص وزیر باغ کی صرف خوبصورتی و بحالی ہی نہیں بلکہ اِن کی اصل حالت یعنی رقبے اُور تعمیراتی خوبیوں سے مزین شکل و صورت کو بھی بحال ہونا چاہئے۔ عین نوازش ہوگی۔
ذات سے شہر کی تلاش‘ سفر جاری ہے 
 جیسے ہو جرم کی پاداش‘ سفر جاری ہے

....






Sunday, August 22, 2021

Forgotten gates of Peshawar

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی: مغوی دروازہ

شاعر منظور ہاشمی نے کہا تھا کہ ”اُمید و یاس کی رُت آتی جاتی رہتی ہے .... مگر ’یقین کا موسم‘ نہیں بدلتا ہے۔“ یقین کا یہی دورانیہ ’پشاور شناسی‘ کے ابواب میں تقسیم ہے اُور اِس کا ایک باب ’فصیل ِشہر پناہ‘ اُور اِس میں قائم ’سولہ دروازے‘ ہیں جن کی اہمیت کا اعتراف ہر حکومت کرتی ہے لیکن اِن کی بحالی و حفاظت کا فریضہ خاطرخواہ توجہ سے سرانجام نہیں پا رہا۔ توجہ طلب ہے کہ جب تک ’پشاور ڈسٹرکٹ اتھارٹی‘ قائم کرکے شہری سہولیات و خدمات اُور شہر کی توسیع سے متعلق امور کو مربوط نہیں کر دیا جاتا اُور اِسی بندوبست کے تحت قدیمی آثار و تعمیرات کی حفاظت و بحالی کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اُس وقت تک ’احیائے پشاور‘ کے عنوان یا مقصد سے کی جانے والی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد سیاحت اُور آثار قدیمہ کے محکمے بھی صوبائی حکومت کے زیرسایہ آ چکے ہیں لیکن اِن اداروں کو نہ تو خاطرخواہ افرادی و مالی وسائل حاصل ہیں اُور نہ ہی حکومتی اداروں کی فیصلہ سازی کو مربوط و مشروط کیا جا سکا ہے تاکہ وسائل کی بچت ہوں اُور حسب ضرورت‘ ترقیاتی کاموں کی پائیداری سے لیکر اِن کے نمائشی پہلوؤں کا جائزہ لینے پر بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل ہوں۔

’فصیل ِشہر کی بحالی‘ کے لئے جاری ’تازہ دم کوششوں‘ میں ضلعی فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ پشاور کے اُن دروازوں کو بھی دوبارہ تعمیر کیا جائے جو اگرچہ فی الوقت اپنا وجود کھو چکے ہیں لیکن اُن کا نام و نشان (تذکرہ) کتابوں اُور یاداشتوں میں محفوظ ہے۔ اِس طرح کی ایک کوشش سال 2012ءمیں بھی دیکھنے میں آئی تھی جب وزارت ِبلدیات کی مداخلت سے شہر کے 8 دروازوں (سرکی‘ کوہاٹی‘ یکہ توت‘ گنج‘ ہشت نگری‘ کابلی‘ ڈبگری اُور بیرسکو گیٹ) کو تعمیر کرنے میں نہ صرف غیرضروری عجلت کا مظاہرہ کیا گیا بلکہ اِس منصوبے پر اُٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات بھی صیغہ راز میں رکھی گئیں اُور آج تک اہل پشاور کو معلوم نہیں ہو سکا کہ جن آٹھ دروازوں کو تعمیر کیا گیا اُن پر کل کتنی لاگت آئے تھی تاہم ’آف دی ریکارڈ‘ فراہم کی جانے والی معلومات کے مطابق ’آٹھ دروازوں‘ پر اُٹھنے والے اخراجات سے آٹھ مکانات تعمیر ہو سکتے تھے! بہرحال پشاور کے ترقیاتی امور میں ہونے والی ظاہری مالی بدعنوانیاں کی جھلک ہر حکومتی منصوبے میں ’ناپائیداری کی صورت‘ دیکھی جا سکتی ہے کہ کچھ منصوبے پہلی تو کچھ دوسری اُور آئندہ چند بارشوں کے پانی کیساتھ بہہ جاتے ہیں۔ 

ایک دفعہ کا ذکر ہے جب پشاور شہر فصیل کے اندر ہوتا تھا اُور اِس میں آمدروفت کے لئے سولہ دروازے ہوتے تھے۔ اِن میں 2 دروازے (سرد چاہ گیٹ اُور آسیہ گیٹ) آج بھی اپنی اصل شکل و صورت لیکن خستہ حالت میں موجود ہیں اُور اصولاً باقی ماندہ دروازوں اُور فصیل شہر کے ٹکڑوں کا فن تعمیر مدنظر رکھتے ہوئے نئی تعمیرات ہونی چاہیئں تھیں اُور یہ کام بالکل اُسی طرح محکمہ¿ آثار قدیمہ کی زیرنگرانی ہونا چاہئے تھا جس طرح گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری کی تعمیر‘ اُور سیٹھی ہاو¿س و گورگٹھڑی کی بحالی کے لئے متعلقہ محکمے (آثار قدیمہ) کے علم و دانش‘ تجربے اُور تربیت یافتہ افرادی قوت سے اِستفادہ کیا گیا لیکن راتوں رات (جلد اَز جلد) تعمیرات کی دھن میں گلی کوچوں کی فرش بندی کے اصول پر کرتے ہوئے ’روائتی طرز ِتعمیر‘ کا خیال نہیں رکھا گیا جو اِن دروازوں کی شان و اٹھان تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے مذکورہ آٹھ دروازوں کی تعمیرات پر وزیربلدیات اُور ناظمین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں اُور اِن دروازوں کو آج تک سیاسی و غیرسیاسی اعلانات کی تشہیر کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حیرت و تشویش کا مقام یہ بھی ہے کہ پشاور میں 2 غیرقانونی کام کرنے کی کھلم کھلا چھوٹ ہے۔ ایک تجاوزات اُور دوسرا پشاور کے تاریخی اثاثوں سے من چاہا استفادہ۔ پشاور سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ بلدیاتی اِداروں کی مجموعی کارکردگی کا خلاصہ یہ ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی‘ صفائی اُور گندگی اُٹھانے کے لئے ایک الگ محکمہ ’واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی جس کے غیرترقیاتی (اِنتظامی) اخراجات کا بوجھ بھی پشاور ہی کے کندھوں پر ہے۔ صوبائی حکومت اگر واقعی پشاور سے بھلائی کرنا چاہتی ہے تو ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے غیرترقیاتی اخراجات جن میں اہلکاروں کو حاصل مراعات‘ گاڑیاں‘ ایندھن‘ دفتروں کے کرائے‘ بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلز کم کرنے پر توجہ دے۔ ڈبلیو ایس ایس پی کے دفاتر جہاں کرائے کی عمارتوں میں ہیں‘ اُنہیں سرکاری دفاتر میں ضم کرنے اُور بلدیاتی اداروں کے زیراستعمال گاڑیوں کو ’ٹرانسپورٹ‘ کے مرکزی دفتر کی زیرنگرانی کرنے سے وسائل کی غیرمعمولی بچت ممکن ہے۔

پشاور کے 8 دروازے اَنوکھے طرز ِتعمیر جبکہ 2 دروازے قدیمی تعمیرات کا نمونہ اُور باقی ماندہ 6 دروازوں (ریتی گیٹ‘ رام داس گیٹ‘ آسامائی گیٹ‘ رام پورہ گیٹ‘ کچہری گیٹ اُور باجوڑی گیٹ) کی اَزسرنو تعمیر پر سوچ بچار کے جاری عمل کو ماضی سے مربوط و مسلسل ہونا چاہئے۔ اطلاعات ہیں کہ ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پشاور) نے مذکورہ 8 دروازوں کی تعمیر کے لئے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ خصوصی ترقی کے لئے خصوصی مالی وسائل فراہم کئے جائیں اُور آئندہ تین ماہ (دوہزاراکیس کے اِختتام تک) ’فصیل شہر بحالی‘ نامی حکمت ِعملی کے تحت دروازوں کی گنتی پوری کر دی جائے لیکن پشاور کی جو کمی (نقصان) ہو چکا ہے وہ شاید کبھی بھی پورا نہیں ہو سکے گا کیونکہ فصیل شہر کا صرف 10 فیصد یا اِس سے بھی کم حصہ بچا ہے۔ صوبائی اُور بلدیاتی فصیلہ سازوں کو یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ جہاں فصیل شہر کا نام و نشان تک نہ رہا ہو‘ وہاں دروازوں کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ اُور جہاں تک بات ”فصیل ِشہر پناہ“ میں دروازوں کی ہے تو یہ دیوقامت دروازے لکڑی سے بنے ہوتے تھے جن میں سے ایک آج بھی سابق ناظم کے حجرے میں نصب ہے چونکہ وہ دروازہ پشاور کی ملکیت ہے اُور اِس پر کسی بھی شخص کا حق نہیں اِس لئے صوبائی حکومت مذکورہ لکڑی سے بنا ہوا ”مغوی دروازہ“ واگزار کروائے اُور اُسے گورگٹھڑی کے اندر قائم ’سٹی میوزیم (پشاور شہر کے عجائب گھر)‘ میں رکھے تاکہ آنے والی نسلیں جن دروازوں کے تذکرے سے بذریعہ کتاب و مضامین آشنا ہیں‘ اُس کے عملی نمونے کو اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ سکیں اُور یہی آگہی ’پشاور شناسی‘ کے اُس مرحلے کو آسان کر سکتی ہے‘ جس کا تعلق شہری زندگی سے جڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہے کہ نئی نسل کو شہر کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اِس کے اثاثہ جات کی حفاظت اُور یہاں کی معیشت و معاشرت میں ’پشاور کے حقوق‘ کا خیال رکھنے پر ذہنی و نفسیاتی طور پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ ’تحریک ِپشاور‘ کی ضرورت ہے‘ جو احیائے پشاور سے لیکر بقائے پشاور تک کے پہلووں (ضرورتوں) کا کماحقہ احاطہ کرے۔

....

Editorial Page of Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 22 August 2021 (Sunday)




Thursday, August 12, 2021

Muharram Security: All we need is love!

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

پشاور کہانی : پیار کی سوغات چاہئے!

محرم الحرام کے لئے تشکیل دیئے گئے خصوصی حفاظتی انتظامات (سیکورٹی پلان) کے تحت پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے یکم محرم الحرام (10 اگست) سے ’دفعہ 144‘ نافذ کر رکھی ہے جو سوئم امام اُور ممکنہ طور پر اِس کے بعد بیس صفرالمظفر (چہلم ِامام) تک جاری رہے گی۔ مذکورہ خصوصی قانون کے اطلاق کے پہلے ہی روز خلاف ورزی کرنے والے 609 افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی ہے‘ جس سے اندازہ    لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور کی اکثریت اِن خصوصی اقدامات و انتظامات سے ناواقف ہے بصورت دیگر کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی کہ اِس قدر بڑی تعداد میں کوئی قانون کی خلاف ورزی کیوں کرے گا۔ پشاور کی تاریخ میں شاید اِس سے قبل کبھی بھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا ہوگا کہ ایک دن میں 600 سے زائد افراد کے خلاف ’دفعہ 144‘ کے تحت کاروائیاں کی گئی ہوں۔ سب سے زیادہ جرمانے گاڑیوں کے سیاہ شیشوں کی وجہ سے کئے گئے ہیں لیکن پشاور میں گاڑیوں کے شیشے سیاہ کرنے والے مراکز پر پابندی نہیں! اِسی طرح وال چاکنگ پر پابندی ہے لیکن وال چاکنگ کرنے والوں کی خدمات کسی بھی وقت حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے مختلف نوعیت کی کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے محرم الحرام کے دوران موٹرسائیکل کی ڈبل سواری‘ گاڑیوں کے سیاہ شیشے اُور اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد کی ہے جبکہ اصولاً اگر یہ جرائم ہیں تو اِن پر صرف محرم الحرام کے دوران ہی نہیں بلکہ سال کے دیگر ایام میں بھی پابندی کیوں عائد ہونی چاہئے؟

پشاور کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم کب چلائی جائے گی جبکہ یہاں ہوائی فائرنگ کی خلاف ورزی کرنے کے واقعات تواتر سے رونما ہوتے ہیں!؟

محرم الحرام اُور دیگر گیارہ مہینوں کے حفاظتی انتظامات یکساں سخت ہونے چاہیئں اُور خیبرپختونخوا کے سبھی اضلاع میں پولیس اہلکاروں بالخصوص داخلی و خارجی راستوں کے ناکوں پر کھڑے جوانوں کو ’بلٹ پروف جیکٹس اُور ہیلمٹ‘ لازم بطور یونیفارم پہننا چاہئے‘ صرف محرم کی خصوصیت اُور مخصوصیت ہی کافی نہیں کیونکہ افغانستان کی صورتحال غیریقینی ہونے کی وجہ سے پشاور میں سیکورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں۔ حالیہ چند ہفتوں اُور مہینوں کے دوران پولیس کے گشتی اہلکاروں اُور ناکوں پر حملوں کے واقعات سے عیاں ہے کہ رواں برس (1443ہجری) محرم الحرام آسان نہیں جس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سنگین سیکورٹی چیلنجز درپیش ہیں۔

پشاور کا محرم اُور عزاداری خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں سے مختلف‘ قدیمی اُور روائتی ہے۔ یہاں وقت کی رفتار رکی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ سینکڑوں برس سے جاری یہ ’اظہار ِعقیدت و پرسہ داری‘ ایک ہی ڈگر اُور ایک ہی معمول پر چل رہے ہیں‘ جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ خانوادہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت رکھنے والے اپنی اپنی دنیاؤں میں رہتے ہیں اُور ایک دوسرے کے عقائد کو واجب الاحترام سمجھتے ہوئے حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہی پشاور کا مزاج رہا ہے اُور یہی پشاور کا خاصہ بھی ہے‘ جسے نظر لگ چکی ہے اُور اِس نظر کو توڑنے (نظر ماتے) کی ضرورت ہے۔

تاریخی طور پر پشاور میں 10محرم الحرام کی مناسبت سے ذوالجناح کا پہلا جلوس 1890ءمیں نکالا گیا جو برطانوی حکومت سے حاصل کردہ خصوصی اجازت کے تحت تھا۔ یوں پشاور میں عزاداری بصورت جلوس برآمدگی کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہوا۔ 1890ءمیں ایک ایرانی سفارتکار نے یہاں فارسی زبان کی مجالس متعارف کروائی تھیں اُور ابتدا سے آج تک فارسی مجالس نہ صرف عشرے بلکہ اِس کے بعد چہلم امام تک خمسہ اُور ہفتہ وار شب بیداریوں میں پڑھی جاتی ہیں۔ پشاور کا محرم کثیرالسانی ہے۔ یہاں فارسی کے علاؤہ‘ اُردو‘ ہندکو‘ سرائیکی‘ پنجابی‘ کشمیری اُور پشتو زبانوں میں مجالس کا انعقاد ہوتا ہے اُور اِن کے لئے الگ الگ امام بارگاہیں (مقامات) مخصوص ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور سے ذوالجناح کا پہلا جلوس ’امام بارگاہ سیّد عالم شاہ‘ سے برآمد ہوا تھا جو آج تک باقاعدگی سے جاری ہے اُور یوم عاشور (10محرم الحرام) صبح 9 بجے سے بوقت مغرب (دن ڈھلے) تک پشاور میں14 جلوس مختلف امام بارگاہوں سے نکالے جاتے ہیں جو اپنے روائتی راستوں سے گزرتے ہوئے جن مقامات پر اختتام پذیر ہوتے ہیں وہاں شام غریباں کی محافل برپا ہوتی ہیں جو دیر رات تک جاری رہتی ہیں۔ علا ؤہ ازیں شام غریباں کے جلوس بھی برآمد ہوتے ہیں‘ جن کے اپنے روائتی لیکن مختصر راستے ہیں۔ یوم عاشور سے قبل 9ویں محرم کی شب نکالے جانے والے جلوس تمام رات سفر کرتے ہوئے آذان فجر پر اختتام پذیر ہوتے ہیں اُور مذکورہ جلوسوں کی راہداریاں چونکہ مختلف ہوتی ہیں اِس لئے ہر جلوس کے آگے پیچھے اُور دائیں بائیں راستوں پر پولیس اہلکار نظر رکھتے ہیں۔ پشاور میں محرم الحرام کے پہلے عشرے کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس میں ہونے والی جملہ عزاداری رات گئے شروع اُور تمام رات جاری رہنے کے بعد دن کے آغاز پر ختم ہوتی ہے‘ جن کے شرکا کی آمدورفت کے باعث اندرون شہر کی گلی کوچوں میں بھی سیکورٹی اہلکار تعینات کرنا پڑتے ہیں اُور حفاظتی انتظامات کا سب سے مشکل ترین اُور مہنگا ترین حصہ ہے‘ جسے محفوظ و آسان بنانے کے لئے ضلعی اِنتظامیہ ’دفعہ 144‘ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات دیتی ہے لیکن اگر دفعہ 144 نافذ نہ بھی ہو‘ تب بھی نقص امن کے جملہ محرکات جیسا کہ نفرت انگیز و آمیز تحاریر و تقاریر‘ مسالک کی دل آزاری‘ وال چاکنگ‘ اسلحے کی نمائش‘ ہوائی فائرنگ اُور گاڑیوں کے کالے شیشوں پر پابندی ہونی چاہئے۔

محرم الحرام کے آغاز پر ’دفعہ 144‘ نافذ ہونے کا علم ہر خاص و عام کو نہیں ہوتا اُور یہی وجہ ہے کہ غیردانستہ خلاف ورزی ہو جاتی ہے جسے درگزر کرنا چاہئے کیونکہ موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی غیرمتعلقہ علاقوں میں بھی نافذ کر دی جاتی ہے کہ جہاں محرم الحرام کی مناسبت سے کوئی تقریب یا جلوس نہیں ہوتا۔ ضلعی انتظامیہ اُور ٹریفک پولیس اہلکاروں کو کاہلی اُور سستی پر مبنی اِس لائحہ عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی‘ جس میں پورے پشاور کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ صوبائی و ضلعی اُور بلدیاتی فیصلہ سازوں کو حفاظتی اقدامات و انتظامات کے نتائج سے بھی سبق سیکھنا چاہئے کہ جس کی وجہ سے نفرت ختم ہونے کی بجائے یہ بذریعہ ’دفعہ 144‘ نفرت بڑھ رہی ہے۔ پشاور میں مختلف مسالک کے درمیان معاشرت و تعلقات کی تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے تاراج سکون کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بھائی چارے اُور مذہبی رواداری پھر سے عام کرنے کی ضرورت ہے‘ جسے سخت گیر حفاظتی انتظامات نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تجویز ہے کہ عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے بھی دیکھا اُور سوچا جائے کہ اسلامی سال کے پہلے مہینے (محرم الحرام) کا آغاز خوف و ہراس اُور دہشت سے نہیں بلکہ یگانگت و محبت اُور عقیدت کے اظہار سے کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ”امن و امان پیار کی سوغات چاہئے .... خوابوں کو نیند‘ نیند کو بھی رات چاہئے (سبین یونس)۔“

....





Wednesday, August 4, 2021

Pollution - the most important issue.

پشاور کہانی : اہم مسئلہ 

صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی حصوں میں فضائی آلودگی اِس درجہ (خطرناک سطح تک) بڑھ چکی ہے کہ اب وہاں سانس لینا ’آ بلا گلے لگ‘ کی صورت بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ آب و ہوا کی بہتری کے لئے کئے جانے والے جملہ اقدامات اُور حکمت ِعملیوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے‘ جن میں سرفہرست ’بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ (BRT)‘ منصوبے کے ثمرات بھی ہیں‘ جس کے فعال ہونے سے اُمید تھی کہ پشاور میں فضائی آلودگی کی شرح کم ہوگی۔ مذکورہ فضائی آلودگی کو زیادہ تیزی سے کم کرنے کے لئے اضافی طور پر 67 کروڑ (670ملین) روپے بھی مختص کئے گئے تاکہ پشاور میں چلنے والی پرانی بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ) ختم کر کے ’میٹرو بس (بی آر ٹی)‘ پر آمدورفت کا انحصار بڑھایا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ جب ہم ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی زیرنگرانی چلنے والا ٹرانسپورٹ کا نظام لیکن پشاور سے کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کا مطلب نجی اداروں کے زیرکنٹرول چلنے والا ٹرانسپورٹ کا نظام لیا جاتا ہے‘ جسے ”پبلک“ کہنا اُور سمجھنا غلط فہمی ہے اُور اِس کا بھی ازالہ ہونا چاہئے۔ 

فیصلہ سازی کے مراحل پر غوروخوض اُور ترقیاتی امور کے حوالے سے تکنیکی طور پر ترجیحات کا تعین کرنے والے پشاور کے مفادات بارے کتنا سوچتے ہیں اُور کتنے فکرمند پائے جاتے ہیں‘ اِسے چند حقائق کی روشنی میں باآسانی سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ جن سیاسی فیصلہ سازوں کے پاس ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ (حکومتی نگرانی میں بسیں چلانے) کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے لیکن وہی فیصلہ ساز نجی ٹرانسپورٹرز سے پرانی بسیں خریدنے کے لئے فراخدلی سے مالی وسائل مختص کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کی مبینہ پبلک ٹرانسپورٹ کو فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا‘ جس کے بعد ’بی آر ٹی‘ کے جواز میں ایک نکتے کا اضافہ ہوا۔ پرانی بسیں خریدنا اُور اُنہیں ناکارہ بنانے کے عمل میں حکومت اُور ٹرانسپورٹرز یکساں فائدہ اُٹھا رہے ہیں اُور دونوں فریقین کے لئے یہ صورتحال کامیابی (win-win-situtaion) ہے۔ ٹرانسپورٹ کے نجی مالکان کون ہیں اُور اِن کے فیصلہ سازوں سے کاروباری مفادات کیا ہیں‘ یہ حقیقت اگر کھول کر بھی بیان کی جائے تب بھی اہل پشاور کے لئے تعجب خیز نہیں ہوگی کہ صوبائی قانون ساز اسمبلی میں موجود کئی اراکین کے کاروباری مفادات ’مبینہ پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے ہوئے ہیں!

پشاور میٹرو بس (بی آر ٹی) کو بنانے سے متعلق جو ’ماحولیاتی جائزہ (انوائرمینٹل اَسسمنٹ)‘ کی گئی تھی اُس میں بطور خاص اِس نکتے کو اُجاگر کیا گیا کہ ’بی آر ٹی‘ کے فعال ہونے سے پشاور کی ہوا میں موجود کاربن کی سطح کم ہو گی کیونکہ ڈیزل اُور دیگر ایندھن سے چلنے والی عمومی پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ متبادل ایندھن استعمال کرنے والی ’ہائبرڈ بسیں‘ لے لیں گی۔ اعدادوشمار پیش کئے گئے کہ پشاور کے مختلف پبلک ٹرانسپورٹ روٹس (راہداریوں) پر 618 پرانی بسیں چلتی ہیں‘ جنہیں ٹرانس پشاور (TransPeshawar) نامی کمپنی کے قیام سے بتدریج ختم کیا جائے گا جس سے نہ صرف فضائی آلودگی بلکہ پشاور کے مختلف روٹس پر ٹریفک کا دباو¿ بھی کم ہوگا لیکن برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے مختلف روٹس پر ٹریفک کا دباو¿ اُور فضائی آلودگی بدستور (جوں کی توں) موجود ہے۔ بی آر ٹی کے ساتھ وہ پرانی بسیں بھی چل رہی ہیں جنہیں ماحولیاتی آلودگی کا باعث قرار دیتے ہوئے ’بی آر ٹی‘ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اُور صرف وہ مسافر بسیں ہی مسئلہ نہیں جنہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ پشاور کے کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے پرانی بسیں رنگ روغن کر کے اُنہیں ’سکولز وینز‘ بنا رکھا ہے اُور یہ بسیں دھواں اُگلتی صبح سے شام تک اندرون شہر کے اُن حصوں سے بھی گزرتی ہیں جہاں بڑی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

پشاور میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اِس لئے ’اہم (سنجیدہ) مسئلہ‘ ہے کیونکہ ماضی میں ہوئی بارش کے بعد‘ پھولوں کے اِس شہر میں فضائی آلودگی کی سطح میں غیرمعمولی کمی آیا کرتی تھی لیکن حالیہ تجزئیات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارش کے بعد بھی پشاور کے کئی حصوں میں فضائی آلودگی کی سطح ’خطرناک حد سے زیادہ یعنی بلند رہتی ہے۔‘ شہر کے وہ حصے جو فضائی آلودگی سے براہ¿ راست متاثر ہو رہے ہیں اُن میں سرفہرست ’چوک یادگار‘ گھنٹہ گھر تا بازار کلاں‘ گھنٹہ گھر تا ہشت نگری گیٹ‘ چوک یادگار تا کابلی دروازہ اُور چوک یادگار تک اشرف روڈ شامل ہیں۔ اِن سبھی علاقوں کا مسئلہ یہ ہے کہ شہر کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہاں کے کاروباری مراکز‘ منڈیاں اُور بازاروں کا بوجھ آمدورفت کے وسائل پر منتقل ہو گیا ہے اُور صوبائی حکومت اگر پشاور شہر اُور اِس کے مضافاتی علاقوں میں فضائی آلودگی کی سطح کم کرتے ہوئے اِسے معمول پر لانا چاہتی ہے تو اِسے اندرون شہر قائم تمام منڈیوں شہر کی حدود سے باہر‘ رنگ روڈ کے پار منتقل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ’پیپل منڈی‘ شہر کے وسط میں واقع ہے‘ جس کے لئے سازوسامان کی ترسیل اندرون ملک سے بذریعہ ٹرک ہوتی ہے۔ ٹرک اڈے (حاجی کیمپ) سے سازوسامان چھوٹی بڑی مال گاڑیوں پر لاد کر پیپل منڈی منتقل کیا جاتا ہے جہاں سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے لئے یہی مال دوبارہ ٹرک اڈے کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ یہی صورتحال رام پورہ گیٹ سے ہشت نگری تک پھیلی آٹے‘ دالوں‘ گھی‘ خوردنی تیل‘ مصالحہ جات اُور دیگر اجناس کی منڈی کا بھی ہے کہ پہلے اِن کے لئے اندرون شہر مال کی آمد ہوتی ہے اُور پھر اِن کی بیرون پشاور اُنہی راستوں سے گزرتے ہوئے ترسیل کی جاتی ہے جن سے ہو کر یہ پشاور شہر پہنچے تھے۔

پشاور میٹرو ’بی آر ٹی‘ کے فعال ہونے کے بعد سے حکومت نے 618 پرانی بسوں میں سے 146 بسیں (فی بس 10 لاکھ سے 14 لاکھ روپے) کے عوض خریدیں اُور چاہتی ہے کہ باقی ماندہ بسیں بھی جلد خرید کر مسافروں کا سارا بوجھ ’بی آر ٹی‘ پر منتقل کر دیا جائے۔ کیا نجی ٹرانسپورٹ مالکان اپنی وہ بسیں فروخت کرنا چاہیں گے جو فی الوقت کارآمد ہیں؟ کیا ’میٹرو بسوں‘ کی تعداد اِس قدر ہے کہ وہ پشاور کے سو فیصد پبلک ٹرانسپورٹ مسافروں کا بوجھ اُٹھا سکیں؟ اِس مرحلہ¿ فکر پر ”ہر حکومتی فیصلہ سازی کے ناکام ہونے کی وجہ“ بھی جان لیجئے جو کہ آبادی سے متعلق غلط اعدادوشمار ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی بھی چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبے سے متعلق حکمت ِعملی وضع کی جاتی ہے تو اِس موقع پر پشاور کی آبادی سے متعلق جو اعدادوشمار مدنظر رکھے جاتے ہیں اُن میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ سال 2017ءکی مردم شماری کے مطابق ضلع پشاور (92 یونین کونسلوں) کی کل آبادی 42 لاکھ 69 ہزار 079 افراد پر مشتمل ہے جن بیس لاکھ شہری علاقوں کی آبادی ہے اُور خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں کی آبادی میں سالانہ 2.96فیصد جبکہ دیہی علاقوں کی آبادی میں سالانہ 2.87فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے 10 بڑے شہروں میں کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ روال پنڈی اُور گوجرانوالہ کے بعد پشاور چھٹے نمبر پر ہے اُور ضلع پشاور شہر کی آبادی جو کہ 1998ءکی مردم شماری میں 9 لاکھ 82 ہزار 816 تھی 2017ءکی مردم شماری میں بڑھ کر 19 لاکھ 70 ہزار 42 ہو چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2017ءکی مردم شماری میں پشاور ڈویژن (ضلع چارسدہ‘ ضلع نوشہرہ‘ ضلع خیبر‘ ضلع مہمند اُور ضلع پشاور) کی کل آبادی 74 لاکھ 3 ہزار 817 نفوس پر مشتمل دکھائی گئی اُس سے کئی گنا زیادہ (مقامی وغیرمقامی) آبادی پشاور شہر اُور اِس کے مضافاتی علاقوں میں آباد ہے! متعدد تجربات کی ناکامی سے حاصل ہونے والے نتائج مدنظر رکھتے ہوئے لب لباب (خلاصہ کلام) یہ ہے کہ جہاں منصوبہ بندی کے لئے دستیاب اعدادوشمار درست نہیں ہوں گے وہاں حکمت ِعملیوں کے خاطرخواہ نتائج (اہداف) بھی حاصل ہونا ممکن نہیں۔

....


Tuesday, August 3, 2021

Muharram ul Harram & Security Concerns

محرم الحرام‘ تیاریاں‘ انتظامات اُور خدشات
 اسلامی سال کے پہلے مہینے ’محرم الحرام‘ کا آغاز 9 یا 10 اگست سے ہو رہا ہے جبکہ یوم عاشور (10محرم الحرام) اٹھارہ یا اُنیس اگست اُور چہلم اِمام 27 یا 28 ستمبر روائتی مذہبی جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں اُور انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر محرم الحرام کے آغاز سے 8 ربیع الاوّل تک کا عرصہ بطور ’ایام ِعزا (سوگ)‘ منایا جاتا ہے اُور اِن ’ایام ِعزا‘ کے دوران عبادت گاہوں (اِمامیہ مساجد و امام بارگاہوں) کی سیّاہ پوشی کی جاتی ہے۔ کامل ”2 مہینے 8 دن“ پر مشتمل اِن ایام ِعزا کے حوالے سے ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہری سہولیات فراہم کرنے والے اداروں اُور محکمہ¿ صحت کو شریک کرتے ہوئے ضلعی حفاظتی اقدامات (سیکورٹی پلانز) تشکیل دیئے ہیں‘ جن پر ’عدم اِطمینان‘ کا اظہار کرتے ہوئے امامیہ جرگہ خیبرپختونخوا نے پشاور سمیت حساس علاقوں میں سیکورٹی انتظامات سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عزاداریسیّد الشہدا  کے ذریعے تمام مسالک اُور جملہ مسلم و غیر مسلم مکاتب ِفکر کے درمیان جس ہم آہنگی کا قیام اُور فروغ ہونا چاہئے‘ اُس کی اہمیت و ضرورت تو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے لیکن اِس سلسلے میں اِنفرادی و اجتماعی حیثیت سے ’ذمہ داری‘ اُور ’احساس ِ ذمہ داری‘ عام نہیں۔

محرم الحرام کی آمد سے قبل اخبارات میں ضلعی اِنتظامیہ اُور پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ تصاویر شائع کروانے والے مانوس چہرے نمودار ہوتے ہیں۔ امن کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں لیکن پشاور میں بالخصوص اُور خیبرپختونخوا میں بالعموم وہ امن بحال نہیں ہو رہا جو12 جولائی 1992ء(یوم عاشور) کے موقع پر ’سانحہ¿ کوہاٹی گیٹ‘ کے بعد سے متاثر ہے اُور جس کی برسی و غم صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے وہ گھرانے بھی مناتے ہیں‘ جن کے پیارے مذہب کی بنیاد پر پائی جانے والی نفرت کا نشانہ بنے تھے۔ مذکورہ سانحے میں 10 افراد قتل جبکہ درجنوں زخمی ہوئے اُور اِس سانحے کے بعد پیدا ہوئی کشیدگی اپنی جگہ جبکہ املاک پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا‘ جو پشاور کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

محرم الحرام کی مناسبت سے حفاظتی انتظامات پر سرکاری خزانے سے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن مثالی صورت میں امن و امان کو بحال نہیں کیا جاتا جس کے بعد خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہی پیش نہ آئے جیسا کہ مقامی اُور غیرمقامی کی تمیز نہ کرتے ہوئے بازاروں اُور راستوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کرنا اُور موبائل فونز کی سروسیز معطل رکھنے جیسے انتظامات ناقابل فہم ہیں۔ 1992ءسے قبل میں صرف افغان مہاجرین اُور مقامی و غیرمقامی (دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے) متنازعہ علمائے کرام کے داخلے پر پابندی عائد کی جاتی تھی لیکن سوشل میڈیا اُور انٹرنیٹ کے ذریعے نفرت انگیز تقاریر پھیل جاتی ہیں اُور یہ پابندی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ کورونا وبا کے ظاہر ہونے کے بعد سے رواں برس دوسری مرتبہ محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات منعقد ہوں گے جن میں مساجد و امام بارگاہوں کی چاردیواریوں کے اندر اُور کھلے مقامات پر ”کربلا شناسی“ عام کرنے کے لئے ذکر و فکر کی محافل منعقد ہوں گی جنہیں اِس سال کورونا قواعد (SOPs) کی روشنی میں منعقد کرنا پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکا ہے کیونکہ نئی قسم (ڈیلٹا وائرس) کی موجودگی اُور وفاقی و خیبرپختونخوا حکومتوں کی جانب سے نئے حفاظتی انتظامات (2 اگست) جاری کئے گئے ہیں جن میں اگرچہ محرم الحرام کا ذکر نہیں لیکن چونکہ محرم الحرام کی مناسبت سے تقاریب کا آغاز ہفتے دس دن میں ہونے والا ہے‘ اِس لئے کسی الگ ہدایت نامہ کی ضرورت نہیں اُور کسی بھی مسلک کی نمائندگی کرنے والوں کو طلب کر کے اُن سے اِس بات کا تحریری عہدنامہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے ہاں ہونے والے اجتماعات میں ’کورونا ایس اُو پیز‘ کو یقینی بنائیں گے اُور اگر زبانی کلامی یا تحریری یقین دہانی کے باوجود گزشتہ برس کی طرح اِس سال بھی ’کورونا ایس او پیز‘ پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا تو ایسی صورت میں ضلعی اِنتظامیہ اُور پولیس کے اَعلیٰ حکام پر اُن کرداروں کی حقیقت عیاں ہو جانی چاہئے جن کے لئے محرم الحرام اُن کی ذاتی تشہیری سرگرمیوں (معمولات) کا نادر موقع ہوتا ہے۔ کسی اُور مرحلہ فکر پر بیان کیا جائے گا کہ اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی (قیام و عمل) کا ذکر کس طرح ہدایت‘ اخلاقیات پر مبنی معاشرت اُور سب سے بڑھ کر اِنسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہیں لیکن اِس لمحہ فکریہ پر صرف اِسی جانب توجہ دلانی ہے کہ اگر ’درحسینؓ پہ ملتے ہیں ہر مزاج کے لوگ .... یہ دوستی کا وسیلہ ہے دشمنی کا نہیں“ اُور اگر اِس حقیقت کو بھی سمجھ لیا گیا ہے کہ ”اِنسان کو بیدار تو ہو لینے دو .... ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ“ تو پھر اختلاف کی گنجائش کہاں اُور کیوں رہ جاتی ہے!؟

علامہ ڈاکٹر سیّد کلب حسین صادق نقوی (وفات نومبر دوہزاربیس) نے ایک خاص نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ ”اگر منبر سدھر جائے تو معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا۔“ مگر مشکل تو یہی ہے کہ منبر و محراب کی ذمہ داریوں کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا جا رہا اُور ”تو برائے وصل کردن آمدی .... نے برائے فصل کردن آمدی (ترجمہ) تو جوڑ (پیار) پیدا کرنے کے لئے (دنیا) میں آیا ہے ناکہ توڑ (اختلافات) پیدا کرنے کے لئے۔“ جیسی صورتحال درپیش ہے۔ اس لئے محرم الحرام کے دوران حالات و تعلقات معمول پر لانے اُور فاصلے و اختلافات ختم کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ اسلامی جمہوریہ میں امن دوست معاشرے کا چہرہ اُبھرے۔ اِس موقع پر تمام تر ذمہ داری علمائے کرام ہی نہیں بنتی بلکہ ہر کس و ناکس کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تقاریر کے ایسے ٹکڑے (clips) کا  تبادلہ (share)  نہ کرے‘ جن میں فروعی باتوں کو علمی بحث کی بجائے شدت و یک طرفہ زوایئے سے بیان (پیش) کیا جاتا ہے اُور اِس سے مذہبی منافرت پھیلتی ہے۔ مذہبی تعلیمات پر عمل سے لیکر مذہبی عقائد اُور مراسم کی ادائیگی تک ہر لفظ اُور ہر اقدام احتیاط پر مبنی ہونا چاہئے جس سے دوریاں ایجاد نہ ہوں اور فاصلے قربت سے بدل جائیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
....

Monday, August 2, 2021

CORE ISSUE: Environmental degradation

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

ماحولیاتی آلودگی اُور تجزئیات

خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف کے پہلے دور ِحکومت (2013ءسے 2018ئ) کے دوران صوبے کی ’ماحولیاتی صورتحال اُور درپیش چیلنجز‘ پر مبنی 340 صفحات پر مشتمل جائزہ رپورٹ جاری کی گئی‘ جس کے تحت خیبرپختونخوا کی آب و ہوا کا مطالعہ پانچ اعشارئیوں (پیرامیٹرز) کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا جن میں ہوا‘ پینے کے پانی‘ زمین کے اُوپر دستیاب پانی کا معیار‘ مٹی کی زرخیزی اُور صوتی (noise) آلودگیوں کے حوالے سے الگ الگ معلومات و کوائف اکٹھا کئے گئے لیکن فیصلہ سازی میں اِن سے خاطرخواہ رہنمائی نہیں لی گئی۔ مذکورہ جامع کوشش تحفظ ماحول کے ادارے ”انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے)“ نے 7 ڈویژنز (پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ہزارہ‘ مالاکنڈ اُور بنوں) کے صدر مقامات (مرکزی شہروں) سے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی صورت کی اُور اِس دوران (14 ہزار 825 ٹیسٹوں) سے متعلق تھے اُور انہیں جمع کرنے میں مذکورہ ادارے (اِی پی اے) کا تجربہ 3 دہائیوں سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ ماحولیاتی تجزئیات کا یہ سلسلہ ہر چند برس بعد کسی ایک جائزہ رپورٹ کے لئے نہیں بلکہ سال کے دیگر مہینوں میں کوائف جمع کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اُور عوامی شکایات ملنے کی صورت بھی کسی خاص علاقے میں ماحولیاتی تجزئیات کئے جاتے ہیں۔ سال2017ءمیں جاری کئے گئے ماحولیاتی جائزے کا خلاصہ یہ ہے کہ 1: خیبرپختونخوا کے کسی بھی ڈویژن میں ہوا کا معیار تسلی بخش نہیں اُور اِس میں آلودگیاں پائی جاتی ہیں جس کا بنیادی محرک موٹرگاڑیاں ہیں اُور تجویز کیا گیا کہ اگر گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے ایسی سڑکیں بنائی جائیں جن پر آمدورفت بنا رکے جاری رہے تو موٹر اُور دیگر گاڑیوں سے اخراج ہونے والے دھویں میں کمی آئے گی۔ 2: تشویشناک صورتحال پینے کے پانی سے متعلق بھی سامنے آئی‘ جو کئی ڈویژنز میں تسلی بخش پائی گئی لیکن خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پینے کے پانی کے غیرمعیاری ہونے کا یہ پہلو سامنے آیا کہ کوئی بھی ڈویژن ایسا نہیں تھا جہاں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والے پانی میں بیکٹریائی آلودگی موجود نہ ہو اُور یہی وجہ بتائی گئی کہ خیبرپختونخوا میں پیٹ کے امراض کی شرح زیادہ ہے اُور اِس کا حل یہ بتایا گیا کہ عوام کو فراہم کئے جانے والے پانی کے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کیا جائے۔ 3: سطح زمین پر موجود پانی کو آلودہ کرنے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے نکاسی¿ آب کے منصوبوں کو صاف پانی سے الگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اُور یہ نکتہ بطور خاص اُن شہری و دیہی علاقوں میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے جہاں آبپاشی اُور نکاسی¿ آب کے نظام ایک ہو چکے ہیں جیسا کہ پشاور کی حدود سے گزرنے والی نہروں کو دیکھا جا سکتا ہے کہ اُن سے نکاسی¿ آب کے لئے استفادہ اِس قدر عام ہے کہ اِس پر ’عدالت ِعالیہ‘ کو نوٹس لینا پڑا لیکن تاحال نہریں جو کہ آبپاشی کے لئے بھی استعمال ہو رہی ہیں لیکن اُن میں صنعتی و گھریلو کیمیائی مادے کھلے عام بہائے جاتے ہیں۔4: خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز (طول و عرض) میں جہاں کہیں بھی مٹی کے نمونے حاصل کئے گئے اُن کے تجزئیات سے معلوم ہوا کہ یہاں کی مٹی زرخیز ہے۔ تصور کریں کہ اگرچہ ماحولیاتی تجزئیات کے دیگر چاروں اعشاریئے (پیرامیٹرز) آلودگیوں سے بھرپور ہیں لیکن خیبرپختونخوا کی زرخیز مٹی اپنی جگہ موجود ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اِس کی خاطرخواہ قدر نہیں کی جارہی اُور آج بھی سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو جہاں کہیں موقع ملتا ہے یہ زراعت کے مقابلے صنعتوں (کارخانوں) کو زیادہ مراعات دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ خیبرپختونخوا کا چھوٹا کاشتکار‘ مزدور اُور کسان غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اُور صورتحال اِس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب زراعت منافع بخش محنت بھی نہیں رہی۔ 5: خیبرپختونخوا کے سات ڈویژنز میں صوتی آلودگی (Noise Pollution) عالمی سطح پر برداشت کی کم سے کم حد کے انتہائی قریب ہے جو تسلی بخش نہیں۔ اِس سلسلے میں تجویز کیا گیا صوتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے ہارن‘ پریشر ہارن‘ صنعتوں میں ساو¿نڈ پروفنگ اُور شاہراو¿ں کے اطراف میں بالخصوص شجرکاری میں اضافہ کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے ماحول پر ’اِی پی اے‘ کے علاو¿ہ 9 دیگر حکومتی ادارے بھی نظر رکھتے ہیں اِن میں محکمہ¿ انہار (ایریگیشن)‘ زراعت (ایگری کلچر)‘ موسمیات (میٹرولوجیکل)‘ شماریات (اسٹیٹسٹکس)‘ تعلیم (ایجوکیشن)‘ صحت عامہ (پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ)‘ جنگلات (فارسٹ)‘ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) اُور مچھلیوں کی افزائش کا ادارہ (فشریز) شامل ہیں۔

پشاور میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ¿ صحت (ڈبلیو ایچ اُو) کے مقررکردہ پیمانے سے تین گنا زیادہ ہونے کی وجہ غیرمنظم و منصوبہ بندی کے بغیر آباد کاری‘ پشاور کے وسائل پر آبادی‘ نقل مکانی کرنے والوں کا بڑھتا ہوا بوجھ اُور یہاں پیدا ہونے والا یومیہ 2 ہزار 750 ٹن (27 لاکھ 50 ہزار کلوگرام) کوڑا کرکٹ ہے جس میں سے یومیہ 2200 ٹن کوڑا کرکٹ اُٹھایا جا رہا ہے جبکہ یومیہ 550 ٹن کوڑاکرکٹ باقی رہ جاتا ہے۔ علاو¿ہ ازیں (اندازہ ہے کہ) 10 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ پشاور کے گلی کوچوں کا مستقل جز بن گیا ہے اُور یہ گندگی کے ڈھیر پشاور کی شہری و دیہی آبادی کے لئے مستقل خطرہ ہیں۔ کسی شہر یا مقام پر فضائی آلودگی اگر مقررہ حد سے زیادہ ہو جائے تو وہاں سانس لینا ’اِنسانی صحت‘ کے لئے خطرناک قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اِس سے سرطان (کینسر) اُور امراض ِقلب جیسی بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ اِسی طرح اگر پینے کا پانی آلودہ ہو تو اِس سے نظام ہضم اُور گردے متاثر ہو سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پشاور کی 92 میں سے 43 یونین کونسلوں میں کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی بنیادی ذمہ داری ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز (ڈبلیو ایس ایس پی)‘ نامی ادارے کی ہے جس کی یومیہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے کی صلاحیت ایک ہزار ٹن ہے جبکہ کینٹ بورڈ (چھاو¿نی انتظامیہ) کی حدود سے 400 ٹن‘ ڈبلیو ایس ایس پی کے علاوہ پشاور کے چاروں ٹاو¿نز کے زیرانتظام باقی ماندہ یونین کونسلوں میں 1350ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہے لیکن کوڑا کرکٹ یکجا کرنے اُور اِسے تلف کرنے کی مجموعی (زیادہ سے زیادہ) صلاحیت 2 ہزار ٹن ہے۔ حکومتی اداروں کا ماننا ہے کہ 200 ٹن (2 لاکھ کلوگرام) کوڑا کرکٹ کباڑی اُٹھا لیجاتے ہیں اُور یوں یومیہ پانچ لاکھ کلوگرام کوڑا کرکٹ نہیں اُٹھایا جاتا جس کی اکثریت نالے نالیوں میں بہا دی جاتی ہے۔ اِس بے قاعدگی کے باعث پشاور شہر سے نکاسی¿ آب کا نظام کوڑا کرکٹ سے بھر گیا ہے اُور یوں پشاور سے 2 ملی میٹر (0.07 انچ) سے زیادہ ہونے والی بارش کے پانی کی مکمل نکاسی نہیں ہوتی اُور پورا شہر ڈوب جاتا ہے۔ حکومتی اداروں کے اشتراک ِعمل سے مرتب ہونے والے جامع تجزئیات ہوں یا اعدادوشمار‘ پشاور کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ منصوبہ بندی کے مراحل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی وجہ سے‘ پشاور کی آب و ہوا اُور سطح زمین نہ صرف آلودہ ہیں بلکہ ماحول کو تباہ کرنے والی اِس آلودگی میں ہر دن اِضافہ ہو رہا ہے۔

....


Sunday, August 1, 2021

Tale of Peshawar: Facing rain!

پشاور کہانی: خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے!؟

برسات کے جاری دورانیئے (جولائی تا ستمبر) کے دوران اب تک ہوئی بارشوں نے اہل پشاور کی پریشانی و مشکلات میں اضافہ کیا ہے اُور آنے والے دنوں کے بارے میں تشویش کا اظہار ہو رہا ہے۔ اِس منظرنامے کا موازنہ اگر ماضی سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں اندرون شہر کے علاقوں (کوہاٹی گیٹ‘ قصہ خوانی‘ پیپل منڈی‘ بازازاں‘ سبزی منڈی‘ ریتی بازار اُور اشرف روڈ تا شاہی باغ) پانی کی نکاسی بذریعہ شاہی کھٹہ ہو جاتی تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ شاہی کھٹے کے کھلے ہوئے چند حصوں جیسا کہ کوہاٹی گیٹ سے براستہ پشت قصہ خوانی تک اُور سبزی و منڈی سے ریتی بازار تک بارش کا پانی شاہی کٹھے سے اُبل آتا ہے کیونکہ پچاس برس سے تجاوزات‘ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اُور مٹی و ریت کے تہہ میں جمع ہونے کی وجہ سے شاہی کٹھے سے نکاس ہونے والے پانی کی گنجائش کم ہو گئی ہے اُور اگر معمولی بارش سے بھی پشاور شہر میں جھل تھل ایک ہو جاتے ہیں تو اِس بات پر تعجب کا اظہار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پشاور کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں نے شاہی کٹھے پر تجاوزات قائم کرنے کی اجازت دے کر اپنے پاو¿ں پر خود کلہاڑی ماری ہے! توجہ طلب ہے کہ تجاوزات عموماً نجی طور پر قائم کی جاتی ہیں لیکن شاہی کٹھے پر چند تجاوزات سرکاری خرچ سے بنائی گئی ہیں اُور اِن کی تعمیر میں نہ صرف پشاور شہر کے لئے بلدیاتی ترقیاتی مالی وسائل بلکہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے فنڈز بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن جب شاہی کٹھے پر قائم تجاوزات کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو ضلعی‘ بلدیاتی‘ صوبائی اُور وفاقی حکومتوں کے پاس 2 سے 3 ارب روپے نہیں‘ تاکہ پشاور سے نکاسی¿ آب کا مسئلہ کم سے کم آئندہ پچاس برس تک کے لئے حل کر لیا جائے۔

مون سون (جولائی تا ستمبر) یا دیگر مہینوں میں بارشوں سے غریب آباد‘ زریاب کالونی‘ زرگرآباد‘ نوتھیہ پھاٹک‘ گڑ منڈی اُور سبزی منڈی و ملحقہ علاقوں کا زیرآب آنا معمول بن چکا ہے لیکن اِس مسئلے کا حل جانتے ہوئے بھی مستقل بنیادوں پر نہیں کیا جا رہا۔ شاہی کٹھے کی کل لمبائی 10 کلومیٹر ہے جس کی مرکزی راہداری (حصے) اُور اِس میں آ کر گرنے والی نالیوں کی صفائی کے لئے نہ تو درکار خصوصی آلات (مشینری) دستیاب ہے اُور نہ ہی شاہی کٹھہ میں پانی کی روانی برقرار رکھنے کے ’صفائی عملہ‘ بھرتی کیا گیا ہے۔ تعجب خیز ہے کہ اِس دس کلومیٹر طویل نکاسی¿ آب کے انتہائی اہم وسیلے کا صرف ’5 فیصد‘ یا اِس سے کم حصہ کھلا ہے‘ جہاں سے اِس کی صفائی ممکن ہے۔ شاہی کٹھے کو بنائے 100 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اُور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ (پیدائش 1780ءوفات 1839ئ) کے دور پشاور میں بطور گورنر تعینات اطالوی فوجی جنرل پاو¿لو مارٹینو ایوٹیبل (پیدائش 1791ئ۔ وفات 1850ئ) نے نہ صرف ’شاہی کٹھہ (نکاسی¿ آب کا مرکزی نظام)‘ تعمیر کروایا تھا بلکہ اُنہوں نے پشاور کے گلی کوچوں میں راستے بھی تخلیق کئے‘ اُور یہ دونوں تعمیراتی شاہکار جہاں پشاور کا حسن و کشش ہیں وہیں پشاور کی آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی ضروریات بھی پوری کر رہے ہیں۔ پشاور سے جنرل ایوٹیبل المعروف ابوطبیلہ کی دلی محبت کو اہل پشاور نے اُس وقت بھی خراج تحسین پیش کیا تھا اُور آج بھی اُن کا تذکرہ بطور فاتح حکمران نہیں بلکہ پشاور کے تعمیروترقی میں حصہ داری کے عنوان سے کیا جاتا ہے۔ پشاور سے متعلق موجودہ فیصلہ سازوں کو جنرل ایوٹیبل کے کم سے کم 2 کارہائے نمایاں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ایک تو شاہی کٹھے کی کشش ثقل کی بنیاد پر تعمیر ہے اُور دوسرا اُنہوں نے فصیل شہر کے اندر پشاور کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک نئی فصیل شہر بھی تعمیر کروائی تھی تاکہ پشاور کے دو الگ الگ حصوں میں رہنے والی آبادی کی مختلف ضروریات کو پورا کیا جا سکے اُور پشاور میں شہری سہولیات کا دائرہ کار بڑھانے میں بھی آسانی رہے۔ جنرل ایوٹیبل نے پشاور کی توسیع کی بنیاد بھی رکھی تھی اُور اُن کے بنائے ہوئے شہری نقشے (ٹاو¿ن پلاننگ) کو دیکھتے ہوئے اگر پشاور کی موجودہ توسیع و ترقی کا جامع خاکہ تیار کیا جائے تو اِس سے موجودہ مسائل جو بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں کے حال کرنے میں آسانی رہے گی۔ صوبائی حکومت نے ’احیائے پشاور‘ کے نام سے حکمت عملی وضع کی ہے جس کی ذیل میں ڈیڑھ برس کے دوران ہوئی پیشرفت خاصی اہم ہے اُور اِس میں سینکڑوں کی تعداد میں ترقیاتی امور کی نشاندہی ہو چکی ہے لیکن اصل ضرورت تو کاغذوں میں لکھی اُور اجلاسوں میں بیان کئے گئے تصورات اُور خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی ہے۔ جنرل ایویٹیبل غیرمقامی تھا وہ چند برس پشاور میں مقیم رہا اُور وہ قرض بھی ادا کر گیا‘ جو اُس کے ذمے واجب بھی نہیں تھے لیکن ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کو اپنے حال اُور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے پشاور کے بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ اگر پشاور سے نکاسی¿ آب کی مقدار و معیار میں اضافہ نہیں کیا جاتا تو اِس سے پشاور بار بار ڈوبتا رہے گا اُور دوسری ضرورت پشاور کی توسیع میں ’ٹاو¿ن پلاننگ‘ کی ہے کہ کوئی ایک بھی رہائشی بستی ایسی نہیں بنائی جا سکی جس میں پشاور کے روائتی فن تعمیر اُور گلی کوچوں کا رنگ نمایاں ہو۔ جہاں نکاسی¿ آب کا نظام شاہی کٹھے کی طرز پر اِس قدر وسیع ہو کہ سینکڑوں برس تک استعمال کے باوجود بھی فعال رہے اُور جہاں سہولیات کی فراہمی کا نظام اِس قدر سوچا سمجھا ہو کہ محلے کوچے اُور گلیاں معرض وجود میں آئیں جن سے سماج ایک دوسرے سے جڑ کر رہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اُور خوشی غم میں اہل محلہ مل جل کر حصہ لیں جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے مضافات میں جس قدر بھی نئی آبادیاں بنائی گئی ہیں‘ وہاں کے رہنے والوں کو دیوار کے ساتھ جڑے گھر کی چاردیواری کی خبر نہیں ہوتی۔ پشاور سے تعلق کا رشتہ جو کبھی غیرمقامی بھی قائم کر لیا کرتے تھے‘ آج پشاور کے وسائل پر پلنے والے بھی ’محبت کی وہ حرارت‘ محسوس نہیں کر رہے جو پشاور کی پراسرار مقناطیسی کشش اُور خاصہ ہے۔ القصہ مختصر پشاور اجنبیوں سے بھر گیا ہے اُور اجنبیت کے اِس ماحول میں منصوبہ بندی کرنے والے بھی شامل ہیں جن کے ذہانت و توجہ سے مسائل میں کمی کی بجائے بحرانوں کی صورت ہر دن اُور ہر بارش در بارش اضافہ ہو رہا ہے! ”تعلق ہے نہ اب ترک تعلق .... خدا جانے یہ کیسی دشمنی ہے (کامل بہزاد)۔“

....