ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
بروغل میلہ
خیبرپختونخوا کے معلوم سیاحتی مقامات میں شامل چند علاقے ایک ایسے بھی ہیں‘ جنہیں خاطرخواہ ترقی دیئے بغیر اگر منظم انداز میں سیاحوں کے لئے کھولا گیا اُور بڑی تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاحوں نے اِن علاقوں کا رخ کرنا شروع کیا تو سہولیات اُور نگرانی کے لئے درکار افرادی قوت کی کمی کے باعث فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ضلع چترال کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’وادی¿ بروغل (Broghil)‘ ایسی ہی ایک الگ دنیا کا نام ہے‘ جہاں ہر چیز کو اُس کی اصل حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاحت کی ترقی کے صوبائی ادارے ’خیبرپختونخوا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ‘ نے ’بروغل‘ میں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے (پانچ اُور چھ ستمبر) 2 روزہ میلے اُور اِس دوران مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے‘ جس میں بُزکشی کا قدیمی و روائتی کھیل بھی شامل ہے۔ اِس کھیل کا آغاز دسویں صدی کے اوائل میں ہوا جو مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول ترکی‘ چین اُور منگولیا میں مقبول رہا۔ جس میں دو ٹیمیں ایک ذبح شدہ دنبے کی ایک دوسرے کھینچا تانی کرکے اِسے زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے اُور فٹ بال کی طرح میدان میں مخالف ٹیم کی حد میں لیجانے کی کوشش کرتی ہیں اُور اِس میں نہ صرف کھلاڑی بلکہ گھوڑے کے طاقتور اُور مستعد ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’بزکشی‘ کے علاو¿ہ ’یاک پولو (Yak Polo)‘ وادی¿ بروغل کا خاص کھیل ہے‘ جس کے مقابلوں کا انعقاد بطور خاص دو روزہ میلے کے دوران کیا جائے گا۔ میلے کے شرکا کھلاڑیوں اُور منتظمین کے علاو¿ہ سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے خیمہ بستی کا قیام اُور آمدورفت کے لئے بڑی تعداد میں گاڑیوں کے استعمال سے دھواں اُور شور یہاں کے قدرتی ماحول کے لئے زہریلا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ چترال ہی کے شیندور علاقے میں ہونے والے سالانہ میلے کے موقع پر عموماً جو خرابیاں دیکھنے میں آتی ہیں‘ اُن کی اصلاح اُور اُن سے سبق نہیں سیکھا جاتا اُور اگر یہ روش (تسلسل) قائم رہتا ہے تو سیاحت کی ترقی کے نام پر قدرتی ماحول کی تباہی ہو گی جو فائدے سے بڑا نقصان ہے۔ اِس لئے فیصلہ سازوں کو مہربانی کرنا ہو گی کہ وہ ”اندھا دھند سیاحت“ کی بجائے ”ماحول دوست سیاحت“ متعارف کروائیں اُور اُن قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کروائیں جن کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن سیاحتی مقامات پر اُن کا ’خاطرخواہ احترام‘ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کی سرحد (واخان راہداری) سے متصل ’بروغل‘ چترال کے مرکزی شہر سے قریب ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اُور یہ چنتر نامی معروف برفانی تودے پر واقع ہے جبکہ اِس کے اردگرد کئی دیگر چھوٹے بڑے برفانی تودے بھی ہیں اُور صاف و شفاف پانی کی قدرتی جھیلیں سے دریائے چترال کو پانی ملتا ہے جو پورے ضلع کی جان ہے۔ سال 2010ءمیں جنگلات اُور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے ’بروغل نیشنل پارک‘ بنایا گیا تھا جہاں دور دراز علاقوں سے پرندے ہجرت کر کے آتے ہیں۔ یہ نیشنل پارک بھی مثالی حالت میں نہیں۔ بروغل میں تازہ پانی کی دو درجن سے زائد جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی اِس قدر ہے کہ قدرت کے اِن شاہکاروں کو دیکھتے ہوئے آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا کہ دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک اُور کسی ایک علاقے میں میٹھے پانی کی اِس قدر بڑی تعداد میں جھیلیں‘ برفانی تودے‘ جنگلی حیات اُور قدرتی ماحول ہوں اُور انہیں اِس قدر قریب اُور اصل حالت میں دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہیں سے شروع ہونے والے خدشات توجہ طلب ہیں‘ جن کا تعلق ”ماحول کے تحفظ‘ فضائی آلودگی‘ کوڑا کرکٹ اُور حیاتیاتی تنوع میں بگاڑ جیسے خطرات سے ہے۔
تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم (IUCN) نے سال 2001ءمیں خلائی سیارے سے لی گئی تصویر کی مدد سے 14 ہزار 800 مربع کلومیٹر پر پھیلے اُور رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال کے وسائل کا تناسب فہرست کیا تھا جس کے مطابق چترال میں زیرکاشت رقبہ 3 فیصد‘ جنگلات 4.7فیصد‘ وادیاں 62فیصد اُور پہاڑی سلسلے کل رقبے کے قریب پانچ فیصد ہیں جبکہ یہاں آبادی ایک فیصد سے کم حصے پر ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق چترال کے ایک فیصد رقبے سے بھی کم حصے پر زراعت ہوتی ہے اُور جنگلات کا رقبہ بھی خاطرخواہ زیادہ نہیں اُور اِن دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چترال کے دیہی علاقوں میں قریب 100فیصد اُور شہری علاقوں میں 94فیصد سے زائد ایندھن کے لئے لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں اُور جب تک جنگلات پر مقامی آبادی کے اِس انحصار کو کم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک تحفظ ماحول و جنگلات کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گے۔ قومی و صوبائی فیصلہ ساز اگر اپنی توجہ اعدادوشمار مرتب کرنے اُور خلائی سیاروں سے تصاویر کی بنیاد پر حکمت عملیاں (ترجیحات) طے کریں تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ کرہ¿ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے منفی اثرات دنیا کے ہر ملک پر مرتب ہو رہے ہیں اُور پاکستان میں وادی¿ چترال سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں بارشیں اُور برفباری کے اوقات بدل گئے ہیں۔ گرمی بڑھنے سے برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں لیکن ایسے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ ضلع چترال میں ماحولیاتی نقصانات کس قدر ہیں۔ صوبائی حکومت اگر جامعات کو تحقیق کی ذمہ داری سونپے تو اِس سے تعلیم و تحقیق دونوں اہداف کم خرچ میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ چترال کی آبادی میں بھی غیرمعمولی رفتار سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اُور چونکہ چترال ایک ایسے زمینی خطے پر واقع ہے جہاں زلزلے بہت آتے ہیں اُور اِن کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے اِس لئے ضرورت ہے کہ چترال میں مقامی مکانات اُور کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے لئے خصوصی مطالعہ اُور قواعد وضع کئے جائیں اُور سب سے زیادہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ زراعت کے لئے قابل استعمال زمین تعمیرات یا غیرزرعی مقاصد کے لئے استعمال نہ ہو۔ باردیگر درخواست ہے کہ اندھا دھند سیاحت کی بجائے پائیدار اُور ماحول دوست سیاحتی ترقی پر توجہات اُور وسائل مرکوز ہونے چاہیئں۔
....