Sunday, August 23, 2020

broghil

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

بروغل میلہ

خیبرپختونخوا کے معلوم سیاحتی مقامات میں شامل چند علاقے ایک ایسے بھی ہیں‘ جنہیں خاطرخواہ ترقی دیئے بغیر اگر منظم انداز میں سیاحوں کے لئے کھولا گیا اُور بڑی تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاحوں نے اِن علاقوں کا رخ کرنا شروع کیا تو سہولیات اُور نگرانی کے لئے درکار افرادی قوت کی کمی کے باعث فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ضلع چترال کے بالائی علاقوں پر مشتمل ’وادی¿ بروغل (Broghil)‘ ایسی ہی ایک الگ دنیا کا نام ہے‘ جہاں ہر چیز کو اُس کی اصل حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاحت کی ترقی کے صوبائی ادارے ’خیبرپختونخوا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ‘ نے ’بروغل‘ میں آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے (پانچ اُور چھ ستمبر) 2 روزہ میلے اُور اِس دوران مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے‘ جس میں بُزکشی کا قدیمی و روائتی کھیل بھی شامل ہے۔ اِس کھیل کا آغاز دسویں صدی کے اوائل میں ہوا جو مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول ترکی‘ چین اُور منگولیا میں مقبول رہا۔ جس میں دو ٹیمیں ایک ذبح شدہ دنبے کی ایک دوسرے کھینچا تانی کرکے اِسے زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے اُور فٹ بال کی طرح میدان میں مخالف ٹیم کی حد میں لیجانے کی کوشش کرتی ہیں اُور اِس میں نہ صرف کھلاڑی بلکہ گھوڑے کے طاقتور اُور مستعد ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’بزکشی‘ کے علاو¿ہ ’یاک پولو (Yak Polo)‘ وادی¿ بروغل کا خاص کھیل ہے‘ جس کے مقابلوں کا انعقاد بطور خاص دو روزہ میلے کے دوران کیا جائے گا۔ میلے کے شرکا کھلاڑیوں اُور منتظمین کے علاو¿ہ سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے خیمہ بستی کا قیام اُور آمدورفت کے لئے بڑی تعداد میں گاڑیوں کے استعمال سے دھواں اُور شور یہاں کے قدرتی ماحول کے لئے زہریلا ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ چترال ہی کے شیندور علاقے میں ہونے والے سالانہ میلے کے موقع پر عموماً جو خرابیاں دیکھنے میں آتی ہیں‘ اُن کی اصلاح اُور اُن سے سبق نہیں سیکھا جاتا اُور اگر یہ روش (تسلسل) قائم رہتا ہے تو سیاحت کی ترقی کے نام پر قدرتی ماحول کی تباہی ہو گی جو فائدے سے بڑا نقصان ہے۔ اِس لئے فیصلہ سازوں کو مہربانی کرنا ہو گی کہ وہ ”اندھا دھند سیاحت“ کی بجائے ”ماحول دوست سیاحت“ متعارف کروائیں اُور اُن قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کروائیں جن کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن سیاحتی مقامات پر اُن کا ’خاطرخواہ احترام‘ دیکھنے میں نہیں آتا۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کی سرحد (واخان راہداری) سے متصل ’بروغل‘ چترال کے مرکزی شہر سے قریب ڈھائی سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اُور یہ چنتر نامی معروف برفانی تودے پر واقع ہے جبکہ اِس کے اردگرد کئی دیگر چھوٹے بڑے برفانی تودے بھی ہیں اُور صاف و شفاف پانی کی قدرتی جھیلیں سے دریائے چترال کو پانی ملتا ہے جو پورے ضلع کی جان ہے۔ سال 2010ءمیں جنگلات اُور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے ’بروغل نیشنل پارک‘ بنایا گیا تھا جہاں دور دراز علاقوں سے پرندے ہجرت کر کے آتے ہیں۔ یہ نیشنل پارک بھی مثالی حالت میں نہیں۔ بروغل میں تازہ پانی کی دو درجن سے زائد جھیلیں ہیں جن کی خوبصورتی اِس قدر ہے کہ قدرت کے اِن شاہکاروں کو دیکھتے ہوئے آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا کہ دنیا کے شاید ہی کسی دوسرے ملک اُور کسی ایک علاقے میں میٹھے پانی کی اِس قدر بڑی تعداد میں جھیلیں‘ برفانی تودے‘ جنگلی حیات اُور قدرتی ماحول ہوں اُور انہیں اِس قدر قریب اُور اصل حالت میں دیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ یہیں سے شروع ہونے والے خدشات توجہ طلب ہیں‘ جن کا تعلق ”ماحول کے تحفظ‘ فضائی آلودگی‘ کوڑا کرکٹ اُور حیاتیاتی تنوع میں بگاڑ جیسے خطرات سے ہے۔

تحفظ ماحول کی عالمی تنظیم (IUCN) نے سال 2001ءمیں خلائی سیارے سے لی گئی تصویر کی مدد سے 14 ہزار 800 مربع کلومیٹر پر پھیلے اُور رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال کے وسائل کا تناسب فہرست کیا تھا جس کے مطابق چترال میں زیرکاشت رقبہ 3 فیصد‘ جنگلات 4.7فیصد‘ وادیاں 62فیصد اُور پہاڑی سلسلے کل رقبے کے قریب پانچ فیصد ہیں جبکہ یہاں آبادی ایک فیصد سے کم حصے پر ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق چترال کے ایک فیصد رقبے سے بھی کم حصے پر زراعت ہوتی ہے اُور جنگلات کا رقبہ بھی خاطرخواہ زیادہ نہیں اُور اِن دونوں شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چترال کے دیہی علاقوں میں قریب 100فیصد اُور شہری علاقوں میں 94فیصد سے زائد ایندھن کے لئے لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں اُور جب تک جنگلات پر مقامی آبادی کے اِس انحصار کو کم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک تحفظ ماحول و جنگلات کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گے۔ قومی و صوبائی فیصلہ ساز اگر اپنی توجہ اعدادوشمار مرتب کرنے اُور خلائی سیاروں سے تصاویر کی بنیاد پر حکمت عملیاں (ترجیحات) طے کریں تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ کرہ¿ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے منفی اثرات دنیا کے ہر ملک پر مرتب ہو رہے ہیں اُور پاکستان میں وادی¿ چترال سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے۔ یہاں بارشیں اُور برفباری کے اوقات بدل گئے ہیں۔ گرمی بڑھنے سے برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں لیکن ایسے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ ضلع چترال میں ماحولیاتی نقصانات کس قدر ہیں۔ صوبائی حکومت اگر جامعات کو تحقیق کی ذمہ داری سونپے تو اِس سے تعلیم و تحقیق دونوں اہداف کم خرچ میں حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ چترال کی آبادی میں بھی غیرمعمولی رفتار سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اُور چونکہ چترال ایک ایسے زمینی خطے پر واقع ہے جہاں زلزلے بہت آتے ہیں اُور اِن کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے اِس لئے ضرورت ہے کہ چترال میں مقامی مکانات اُور کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے لئے خصوصی مطالعہ اُور قواعد وضع کئے جائیں اُور سب سے زیادہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ زراعت کے لئے قابل استعمال زمین تعمیرات یا غیرزرعی مقاصد کے لئے استعمال نہ ہو۔ باردیگر درخواست ہے کہ اندھا دھند سیاحت کی بجائے پائیدار اُور ماحول دوست سیاحتی ترقی پر توجہات اُور وسائل مرکوز ہونے چاہیئں۔

....


Wednesday, August 19, 2020

TRANSLATION: Let’s make Pakistan by Aimal Wali Khan

 Let's make Pakistan

قومی تعمیروترقی 

پاکستان کے قیام کو 73 برس گزر چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم ابھی تک اِسی بحث اُور ضرورت سے آگے نہیں بڑھ سکے کہ ”قومی تعمیروترقی ہونی چاہئے۔“ دوسرا اَفسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم برداشت عروج پر رہی ہے اُور اِس کا نشانہ بالخصوص ’عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)‘ رہی ہے جسے ایک ٹولہ شروع دن سے غدار قرار دینے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ تاریخ کی درستگی کے لئے عرض ہے کہ پاکستان کی تعمیروترقی کا تصور باچا خان نے پہلے قانون ساز ایوان سے اپنے خطاب میں دیا تھا اُور اُن کی جانب سے سبھی جماعتوں کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کی گئی تھی لیکن اِس پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے اُس وقت کے فیصلہ سازوں نے نہتے پختونوں پر ’بابڑا‘ کے مقام پر گولیاں برسائیں اُور یوں خدائی خدمتگار کہلانے والے سینکڑوں محب وطن پاکستانیوں کا خون بہایا گیا۔ مذکورہ سانحے کے بعد باچا خان اُور ولی خان کو عرصہ 6 برس تک زیرحراست رکھا گیا۔ باچا خان قید رہے اُور کئی برس قید میں رہنے کے بعد رہا بھی کر دیئے گئے لیکن اُن پر ملک سے غداری جیسا الزام ثابت نہ کیا جا سکا۔ بعدازاں ولی خان پر مقدمہ چلایا گیا کیونکہ وہ ’پاکستان کو ایک ایسے وقت میں بچانا چاہتے تھے‘ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تھا اُور پھر ولی خان نے بطور قانون ساز اُور حزب اختلاف کے رہنما پاکستان کا آئین بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن ریاست کی سوچ اُور عمل میں تبدیلی نہیں آئی اُور نہ صرف ولی خان بلکہ اِن کے صاحبزادے اسفندیار ولی خان کو بھی ایک ہی وقت میں قید کر دیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس قسم کی مثال شاید ہی کوئی دوسری ملے کہ جب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی تین نسلیں سیاسی قیدی بنا کر رکھی گئی ہوں۔ پختون قوم کے حقوق کی حفاظت کرنے والے رہنماو¿ں نے جرات اُور بہادری کے ساتھ مظالم و مشکلات کا سامنا کیا اُور ہر مرحلے پر استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اُنہوں نے اپنی قوم پرست سیاست کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اُور نہ ہی اپنے اصولی مو¿قف سے کبھی دستبردار ہوئے۔

سقوط ڈھاکہ 1971ءمیں پیش آیا۔ اُس وقت کوئی سیاسی رہنما یہ جرا¿ت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) جاتا اُور وہاں جا کر سیاسی بات چیت کرتا لیکن یہ ولی خان ہی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اُور وہاں کی قیادت سے بات چیت کی تاکہ کسی صورت پاکستان کو متحد کیا جا سکے۔ اُن کی کوشش رہی کہ پاکستان کے ایک حصے کا سقوط نہ ہو لیکن ولی خان کی کوششوں کو غلط تناظر میں سمجھا گیا اُور اُن پر ملک سے غداری اُور غیرملکی قوتوں کے آلہ¿ کار (ایجنٹ) ہونے جیسا الزام لگایا گیا۔ اُن کی کردار کشی کی گئی اُور اُنہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ 1973ءمیں جب پاکستان کے آئین کا ایک مجوزہ مسودہ تیار کیا گیا تو اُس وقت ولی خان قائد حزب اختلاف تھے۔ اگر وہ نہ چاہتے تو پاکستان کا آئین کبھی بھی منظور نہ ہوسکتا جبکہ حزب اختلاف کا کردار انتہائی ذمہ داری اُور حب الوطنی سے ادا کرتے ہوئے اُنہوں نے اِس بات کو عملاً ممکن بنایا کہ پاکستان کا آئین بنا کسی رکن کی مخالفت متفقہ طور پر منظور ہوا کیونکہ وہ پاکستان میں سیاسی استحکام چاہتے تھے۔ ولی خان کے اِس مثبت و ذمہ دارانہ آئینی کردار ادا کرنے پر اُنہیں پختون قوم سے تعلق رکھنے والے چند طبقات نے طعنے بھی دیئے لیکن وہ پاکستان کے لئے ہر الزام برداشت کرتے چلے گئے۔

عوامی نیشنل پارٹی کا ماضی و حال شفاف اُور حب الوطنی سے بھرپور ہے۔ خان عبدالولی خان کی طرح اُن کے خلف رشید اسفندیار ولی خان نے بھی اپنے آباواجداد کے نقش قدم پر چلنے کو ترجیح دی اُور نامساعد حالات کے باوجود بھی پاکستان کے سیاسی استحکام اُور ترقی کے عمل میں شانہ بشانہ شریک رہے۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جب 1990ءکی دہائی میں ریاست نے دہشت گردی اُور انتہاءپسندی کو بڑھاوا دیا تب اسفندیار ولی خان ایسے واحد رہنما تھے جنہوں نے قانون ساز ایوان سے اپنے خطاب میں ریاست کی مذکورہ حکمت عملیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اُور انتہاءپسندی اُور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے سے متعلق ریاستی پالیسی پر تنقید کی لیکن بدقسمتی سے اُن کی تنقید میں چھپے تعمیری پہلووں کو نظرانداز کر دیا گیا اُور اُن کے الفاظ کو سنجیدگی سے نہیں سنا لیکن اگر ایسا کیا جاتا تو پاکستان انتہاءپسندی اُور دہشت گردی کی دلدل میں دھنستا نہ چلا جاتا۔ ریاستی پالیسی صرف وقتی ہی نہیں بلکہ مستقبل کا بھی تعین کرتی ہیں اُور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی مواقع دیکھنے میں آئے جب ریاست کے غلط فیصلوں کے منفی اثرات مستقبل پر پڑے۔ 

نائن الیون کے نام سے معروف دہشت گرد حملے کے دکھ اُور غم سے نڈھال امریکہ نے عالمی سطح پر نئے اتحاد تشکیل دیئے۔ تب پاکستان کی افغانستان کے بارے میں قومی حکمت عملی (خارجہ پالیسی) میں بھی اچانک تبدیلی آئی اُور یہ تبدیلی اِس قدر غیرمعمولی تھی کہ اِسے 180 ڈگری (مکمل طور پر اُلٹ) پالیسی کہا جا سکتا ہے اُور امریکہ کی دنیا پر مسلط کی جانے والی جنگ میں پاکستان (بنا سوچے سمجھے اُور قومی سیاسی مشاورت کے بنا) صف اول کا اتحادی بن گیا۔ ایک مو¿قف یہ ہے کہ اگر اُس وقت پاکستان میں سیاسی حکومت ہوتی اُور جمہوری ادارے فعال ہوتے تو دہشت گردی کی عالمی جنگ کا حصہ بننے سے متعلق پاکستان کے قومی فیصلے مختلف ہوتے اُور 2001ء سے 2008ء کے درمیان پاکستان نے جو بھاری قیمت ادا کی‘ اُس سے بچا جا سکتا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت اُور کارکن ملک میں پھیلی انتہاءپسندی اُور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے لیکن انہوں نے دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ شکست تسلیم نہیں کی بلکہ قربانیوں کی طویل تاریخ اپنے خون سے رقم کرتے چلے گئے اُور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’اے این پی‘ ایک طرف انتہاءپسندی اُور دہشت گردی کے نشانے پر تھی اُور اِس کا مختلف محاذوںپر مقابلہ کر رہی تھی تو دوسری طرف ’اے این پی‘ کی قیادت اپنے صوبے اُور پختون قوم کے حقوق کا تحفظ کرنے جیسی ذمہ داری کو بھی پیش نظر رکھے ہوئے تھی اُور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ انتہاءپسندی اُور دہشت گردی کے خلاف اگر کسی واحد سیاسی جماعت نے ایک لمبے عرصے سے جدوجہد کی ہے تو وہ ’اے این پی‘ کے علاوہ کوئی دوسری جماعت نہیں۔ جس کے قائدین نے اپنی مٹی اُور اپنے ملک کو نہیں چھوڑا بلکہ ہر مشکل کا جوانمردی سے مقابلہ کیا‘ سرخرو ہوئے اُور فاتح ہیں۔

آج ہمیں پرامن پاکستان چاہئے جس کے لئے ضروری ہے کہ قومی فیصلہ سازی اُور حکمت عملیوں میں غیرریاستی اداروںکے کردار (عمل دخل) کی گنجائش نہ ہو۔ پاکستان کو جنگ کی بجائے تعلیم‘ صحت‘ عوام کی بہبود اُور وفاق کی اکائیوں (صوبوں) کے حقوق ادا کرنے میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ وقت ہے کہ پاکستان کے قیام (تحریک آزادی) میں حصہ لینے والے رہنماوں کے کردار اُور خدمات کا بنا تعصب اظہار اُور اُنہیں تسلیم کرتے ہوئے اِسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان کا ’خانوادہ سیاست‘ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی قومی تعمیروترقی کے لئے اپنا غیرمشروط تعاون پیش کرتا ہے۔ آیئے پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ آئیے مل کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں۔ 

مضمون نگار ’عوامی نیشنل پارٹی‘کے صدر اُور خدائی خدمتگار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے پوتے ہیں۔ 

بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایمل ولی خان۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام

Wednesday, August 5, 2020

Tale of occupied Tube-Well. WONDERFUL Peshawar!

مقبوضہ ٹیوب ویل

واٹر اِینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (اَلمعروف واسا) کی خدمات میں ”صاف پانی کی فراہمی“ وہ بنیادی کام ہے‘ جس کی اِہمیت و طلب موسم گرما میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ’واسا‘ کے زیرانتظام پشاور کی مختلف یونین کونسلوں میں فراہم کیا جانے والا پانی معیاری (صاف) اُور مقدار میں کافی ہو اُور اِس بات کی ضمانت بھی نہیں دی جاتی کہ کسی علاقے (یونین کونسل) کے صارفین کو فراہم کیا جانے والا پانی وہاں کے ہر گھر (ہر صارف) تک پہنچ بھی رہا ہے جبکہ پانی پہنچے یا نہ پہنچے لیکن ’پانی کا بل (Water Bill)‘ باقاعدگی سے وصول ہو جاتا ہے۔ وقت ہے کہ اخبارات میں شائع کروائی جانے والی کارکردگی پر اکتفا اُور مذکورہ سرکاری اِدارے کی خدمات کا دائرہ ہر دن وسیع کرنے کے ساتھ اُن صارفین کا اِعتماد حاصل کرنے کے بارے میں بھی سوچا جائے‘ جنہیں واسا کے ذریعے ملنے والا پانی اِس کے معیار اُور مقدار بارے شکایات و تحفظات ہیں اُور اِنہی آرا کی روشنی میں ’واسا کارکردگی کا اِحتساب‘ ہونا چاہئے۔

پشاور کی یونین کونسل نمبر 1‘ سیٹھی ٹاون (پہاڑی پورہ)‘ بلدیاتی بندوبست کے لحاظ سے ”ٹاون ون“کا حصہ اُور اُن ’چنیدہ‘ علاقوں میں شامل ہے‘ جہاں کے رہنے والوں کو کمال مہربانی سے (بطور احسان) ”شہریوں“ میں تو شمار کیا جاتا ہے لیکن اُنہیں شہریوں جیسی جملہ سہولیات میسر نہیں اُور نہ ہی واسا کے زیرانتظام تمام صارفین اُور تمام یونین کونسلوں (علاقوں) کو ایک نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیٹھی ٹاون کے ایک حصے کو پانی کی فراہمی کے سلسلے (نیٹ ورک) سے جوڑا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پانی کی فراہمی کا یہ بندوبست ’واسا‘ کی تخلیق سے پہلے کا تھا‘ جس کی حسب ضرورت اصلاح نہیں کی گئی۔ سیٹھی ٹاون کی غالب سٹریٹ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ’آبنوش صارفین‘ کو ماہ رمضان المبارک سے پانی کی قلت کا سامنا ہے اُور اِس بات کی فریاد (شکایت) کرتے کرتے عید الفطر اُور عید الاضحی جیسے تہوار بھی فریاد کرتے گزر گئے لیکن پانی کے بل باقاعدگی سے وصول کرنے والوں کے ضمیر پر کسی بھی قسم کا بوجھ نہیں! پانی کے بل پر شکایات درج کرانے کے نمبروں پر ٹیلی فون کالز‘ متعلقہ ٹیوب ویل‘ واسا   زونل دفتر اُور قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین سے رجوع (رابطہ) کرنے کا بھی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا کہ پانی کی فراہمی بحال ہو سکے۔ 

آخر کب تک ٹیوب ویلوں سے پانی کی تقسیم جیسے معاملے میں بھی سیاسی مداخلت ہوتی رہے گی؟ 
اہل علاقہ کے بقول بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں ٹیوب ویل کسی سرکاری زمین یا سرکاری کنٹرول والی جگہ پر نصب کرنے کی بجائے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والی ایک مقامی شخصیت (ملک سجاد) کے حجرے کی چاردیواری کے اندر‘ عام شاہراہ سے دور جگہ کا انتخاب کیا گیا‘ جہاں تک رسائی اُور مذکورہ حجرے میں داخلے کے حقوق محفوظ تھے۔ مذکورہ سیاسی و سماجی اُور مالی طور پر بااثر شخصیت نے ٹیوب ویل نصب ہونے کے بعد اپنے حجرے کے ایک حصے میں ’سوئمنگ پول‘ بنا کر کاروبار شروع کر دیا اُور یوں سرکاری بجلی‘ مشینری اُور ٹیوب ویل پر تعینات سرکاری عملے کی خدمات سے ’کمرشل سوئمنگ پول‘ بھرنے لگا۔ موسم گرما میں دور دراز سے لوگ تازہ پانی کے اِس سوئمنگ پول میں نہانے کے لئے آنے لگے یوں ”مقامی سیاحت“ میں ایک خوشگوار تفریح کا اضافہ ہوا‘ جو سراسر ’بدنیتی اُور بدعنوانی پر مبنی اقدام‘ اُور متعلقہ بلدیاتی ادارے کے اہلکاروں کی ملی بھگت کا مظہر تھا۔ ٹیوب ویل کا وہ پانی جو اہل علاقہ کو فراہم ہونا تھا وہ ایک ’نجی کمرشل سوئمنگ پول‘ کے لئے مختص کر دیا گیا اُور جب اہل علاقہ کی شکایات ذرائع ابلاغ کے ذریعے زیادہ ہوئیں تو پائپ لائن بچھا کر مذکورہ ٹیوب ویل سے آس پاس کے چند محلوں کو پانی فراہم کیا گیا لیکن اہل علاقہ کو پانی فراہم کرنا کبھی بھی ترجیح نہیں تھی۔ حسب سابق و معمول موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ہزاروں لیٹر پانی سوئمنگ پول کو دیا جانے لگا جس کی وجہ سے پہلے پانی کی قلت اُور بعدازاں مکمل بندش کر دی گئی۔

سیٹھی ٹاون کے جملہ رہائشی‘ حسین چوک سے غالب سٹریٹ اُور رنگ روڈ (چغل پورہ) تک کسی نہ کسی صورت پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ کہیں سرکاری پائپ لائنیں مکمل خشک ہیں تو کہیں چند گھنٹوں کے لئے پانی فراہم کر کے صارفین کے منہ کر دیئے گئے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سیٹھی ٹاون میں زیرزمین پانی کی مقدار اِس حد تک کم ہو چکی ہے کہ گھروں میں موجود بورنگ کارآمد نہیں رہیں۔ پشاور کی اِس نسبتاً جدید رہائشی بستی میں تعمیر ہونے والے ہر مکان کے لئے زیرزمین پانی کے ذخیرے سے اِستفادہ ہوتا تھا لیکن ’پانی کی سطح‘ آبادی بڑھنے کے ساتھ کم ہوتی چلی گئی اُور اب سارے کا سارا انحصار ’واسا‘ کے فراہم کردہ پانی کے نیٹ ورک پر ہو چکا ہے‘ جو اپنی جگہ قابل بھروسہ نہیں۔ 

سیٹھی ٹاون سے تعلق رکھنے والے ’پانی کے صارفین‘ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے درخواست کی ہے کہ وہ اُن کے علاقے میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری پانی کی شدید ترین قلت کا نوٹس لیں اُور مقبوضہ سرکاری ٹیوب ویل کو سیاسی جماعت کے چنگل سے واگزار کرانے کے علاوہ اُن تمام بلدیاتی اُور واسا اِہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیں جو سرکاری ٹیوب ویل کے نجی استعمال و استفادے پر خاموش ہیں اُور یہ خاموشی بلاوجہ نہیں ہو سکتی! 

وقت ہے کہ پشاور کی جن یونین کونسلوں میں ’واسا‘ خدمات کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے وہاں کے صارفین کی آرا جاننے کے لئے کسی آزاد ذریعے سے سروے کیا جائے۔ ’واسا‘ کے لئے نئے سربراہ کی تعیناتی اپنی جگہ ایک الگ ضرورت ہے کیونکہ موجودہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے سربراہ دیگر اہم محکموں (پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اُور میٹرو بس بی آر ٹی) کے بھی منتظم اعلیٰ ہیں اُور کسی ایک شخص کے لئے عملاً ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ باوجود خواہش و کوشش بھی بیک وقت تین محکموں کے اَمور نمٹاتے ہوئے اپنے عہدے سے جڑی ذمہ داریوں کی انجام دہی (کماحقہ) خوش اسلوبی سے کر سکے۔ 

سیٹھی ٹاون سمیت پشاور کے جن علاقوں میں صارفین کو حسب وعدہ پانی فراہم نہیں کیا جا رہا‘ اُن سے وصول شدہ گزشتہ کئی ماہ کے یوٹیلٹی بلز یا تو واپس ہونے چاہیئں یا پھر اُن بلوں کو آئندہ مہینوں میں (تاوقتیکہ) ایڈجسٹ کیا جائے‘ جب پانی کی فراہمی بحال ہو کیونکہ یہ بات مبنی بر انصاف نہیں کہ صارفین کو پانی تو نہ ملے لیکن آبنوشی کے ماہانہ بلوں کی باقاعدگی سے موصولی اُور وصولی کا عمل جاری رہے۔
....