ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سال 2014ء: آگ‘ دھواں اُور پانی
سال 2014ء: آگ‘ دھواں اُور پانی
کسی گاؤں کا چوہدری تقریر شروع کرتے ہوئے بولا: ’’آج میری تقریر کا موضوع
ہے آگ‘ دھواں اور پانی۔‘‘ قریب ہی بیٹھا ایک سادہ لوح شخص دیہاتی بولا
’’چوہدری صاحب‘ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ آج آپ کو حقے پر تقریر کرنی
ہے!‘‘ اختتام پذیر ہوئے سال 2014ء کا خلاصہ ’آگ دھواں اور پانی‘ ہی ہے کہ
اِس عرصے کے دوران پاکستان نے آگ دیکھی‘ جس نے ہمارے ملک و معاشرے کی ہر
خوبی کو جلا کر خاکستر کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے دھواں دیکھا جو تشدد‘ دہشت
گردی‘ انتہاء پسندی‘ عدم برداشت اور نفرتوں کے دہکتے بھڑکتے آلاؤ سے اُٹھتا
رہا اور اِس دھویں نے نفرتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کو جنم دیا۔ ہم
نے پانی دیکھا جس سے آگ کی شدت اور دھویں کی جملہ کارستانیوں کو دھونے کی
کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم غربت دیکھی جس میں ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی اضافہ
ہوا‘ حتیٰ کہ ہم نے ’پینے کے لئے صاف پانی کی عدم دستیابی دیکھی‘ جس سے
پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی محروم ہے
دو ہزار چودہ پاکستان کو لاحق ’سیکورٹی کے داخلی چیلنجز‘ سے نمٹنے کی ذیل میں ’فیصلہ کن‘ عزم و ہمت کے مظاہرے کا سال ثابت ہوا۔ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیاں (’آپریشن ضرب عضب‘ اُور ’آپریشن خیبرون‘) کا آغاز‘ سزائے موت پانے والوں کے بلیک وارنٹس اور فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی قیادت کی تحفظات کے باوجود اتفاق رائے غیرمعمولی واقعات رہے۔ بھارت کے علاؤہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر فوج کی گرفت میں اضافہ دوہزارپندرہ میں بھی برقرار رہنے کی اُمید ہے۔ اُمید یہ بھی ہے کہ دو ہزارپندرہ کے دوران ’قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی آئینی و انتظامی حیثیت‘ بندوبستی علاقوں کے مساوی لانے کے حوالے سے پیشرفت ہوگی کیونکہ جب تک ہم قبائلی علاقوں کو اُن کے جائز حق سے محروم رکھیں گے‘ ان کا استعمال منفی سرگرمیوں کے لئے یونہی ہوتا رہے گا۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے ساتھ انتہاء پسندی کی جڑیں کاٹنے کے لئے بھی قبائلی علاقوں‘ سوچ اور اُن تمام امکانات کو ختم کرنا ضروری ہوچکا ہے‘ جس سے پاکستان و خطے کی سلامتی و بقاء کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر دفاعی و سیاسی قیادت نے ’دو ہزار چودہ‘ میں اہم فیصلے کئے اور ایسے ہی مزید سنجیدہ فیصلوں و عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
توانائی بحران حل کرنے کی کوششوں کے مقابلے وفاقی حکومت کی سال گذشتہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی جیسی نمائشی کوشش پر زیادہ توجہ رہی‘ جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری تو نہیں آئی لیکن قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ ضرور لگا! یہی سرمایہ اگر روزگار کے نئے مواقعوں کی تخلیق‘ زراعت کے شعبے کی ترقی‘ غذائی خودکفالت کے لئے سائنسی بنیادوں پر تحقیق و عمل اور زرعی سائنسدانوں و ماہرین کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے پر خرچ کیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ غذائی خودکفالت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹتے ہوئے ماحول کی بہتری جیسے اہداف کلی نہ سہی جزوی طور پر ہی حاصل کر لئے جاتے۔ صوبائی حکومت سے دست بستہ درخواست ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’تیلدار اجناس کی کاشت‘ کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ قبائلی اور جنوبی اضلاع کے ہزاروں ایکڑ رقبے پر زیتون اور سورج مکھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایسے زرعی ماہرین کی بھی کمی نہیں جو متعلقہ شعبوں میں بیرون ملک سے تعلیم یافتہ اور دردمندی و خلوص سے اپنے علم و تجربے کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ صوبائی سطح پر ’زرعی کانفرنس‘ کے اِنعقاد میں (غوروخوض) مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے تاکہ دو ہزار پندرہ سمیت خیبرپختونخوا کے بہتر مستقبل کے لئے خاطرخواہ منصوبہ بندی کی جاسکے لیکن اگر ہماری ترجیحات ہی غلط ہوں گی تو چاہے جتنی بھی دوڑ دھوپ کیوں نہ کر لی جائے‘ نتیجہ مسائل کی شدت اور درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت برآمد ہوگا۔ سال دو ہزار چودہ کو اشکبار آنکھوں سے الوداع کرتے ہوئے ہمیں پاکستان کو زیادہ محفوظ‘ یہاں کی معیشت و اقتصادی نظام کو زیادہ مضبوط اور دستیاب وسائل کا استعمال زیادہ دانشمندانہ انداز میں کرنا ہوگا۔ افریقی کہاوت ہے ’’اگر آپ ذاتی ترجیح اور سوچ کے تحت کسی مقام پر جلدازجلد پہنچنا چاہتے ہیں تو ’تیزرفتاری‘ کے لئے اکیلے ہی سفر پر روانہ ہو جائیں لیکن اگر آپ اجتماعی بہبود کے لئے معاشرے اور اپنے گردوپیش کی تبدیلی (اصلاح) کے خواہاں ہیں تو ایسا کرنے کے لئے آپ دوسروں کو ہمراہ کر لیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔