Wednesday, December 31, 2014

Dec2014: Yearender


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سال 2014ء: آگ‘ دھواں اُور پانی
کسی گاؤں کا چوہدری تقریر شروع کرتے ہوئے بولا: ’’آج میری تقریر کا موضوع ہے آگ‘ دھواں اور پانی۔‘‘ قریب ہی بیٹھا ایک سادہ لوح شخص دیہاتی بولا ’’چوہدری صاحب‘ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ آج آپ کو حقے پر تقریر کرنی ہے!‘‘ اختتام پذیر ہوئے سال 2014ء کا خلاصہ ’آگ دھواں اور پانی‘ ہی ہے کہ اِس عرصے کے دوران پاکستان نے آگ دیکھی‘ جس نے ہمارے ملک و معاشرے کی ہر خوبی کو جلا کر خاکستر کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے دھواں دیکھا جو تشدد‘ دہشت گردی‘ انتہاء پسندی‘ عدم برداشت اور نفرتوں کے دہکتے بھڑکتے آلاؤ سے اُٹھتا رہا اور اِس دھویں نے نفرتوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کو جنم دیا۔ ہم نے پانی دیکھا جس سے آگ کی شدت اور دھویں کی جملہ کارستانیوں کو دھونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم غربت دیکھی جس میں ہرسال کی طرح اِس مرتبہ بھی اضافہ ہوا‘ حتیٰ کہ ہم نے ’پینے کے لئے صاف پانی کی عدم دستیابی دیکھی‘ جس سے پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی محروم ہے

سال دو ہزار چودہ میں پاکستان عالمی ذرائع ابلاغ پر چھایا رہا اور وجہ سیاسی و قومی تاریخ کے دو ایسے بڑے واقعات تھے جنہوں نے صرف قوم ہی کو نہیں بلکہ باضمیر اور انسانیت دوست معاشروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا (چودہ اگست سے قریباً سوا چار ماہ) ایک سو چھبیس دن جاری رہنے کے بعد سولہ دسمبر کے ’سانحہ پشاور‘ کی وجہ سے ختم کر دیا گیا جبکہ پاکستان عوامی تحریک جس نے چودہ اگست ہی کے روز تحریک انصاف سے الگ ’انقلاب مارچ‘ کے نام سے انصاف و قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا لیکن دو قدم آگے بڑھنے کے بعد ایک قدم پیچھے ہٹ گئی لیکن اِن دونوں جماعتوں نے سال دو ہزار چودہ کو خاص معنویت عطا کی اور پاکستان میں پہلی مرتبہ سیاسی حقوق سے متعلق شعور اُجاگر ہوا۔ اِس سے قبل پاکستان کی جملہ سیاسی تحاریک کسی نہ کسی کی حکومت گرانے یا فوجی مداخلت کے لئے شروع کی جاتی رہی ہیں لیکن ’اچھے طرز حکمرانی‘ اور ’دھاندلی سے پاک عام انتخابات‘ کے لئے جس انداز میں روائتی اور مقبول سیاست کی کتاب میں نئے ابواب کا اضافہ کیا گیا‘ اس سے مستقبل کی سیاست کے خدوخال بڑی حد تک واضح ہو گئے ہیں یقیناًآج کے بعد عام انتخابات میں دھاندلی کرنا آسان نہیں ہوگا۔ نئے سال میں نیا چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب بھی ہوا‘ جنہوں نے دو ہزار چودہ کے اختتام سے دو روز قبل اپنے پہلے ہی اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق انتظامات و امور کا جائزہ لیا۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ دو ہزار پندرہ بلدیاتی انتخابات کا سال ثابت ہوگا‘ جس کے بغیر نہ تو جمہوریت مستحکم ہوگی اور نہ ہی موجودہ نظام سے جڑی عام آدمی کی توقعات پوری ہوں گی۔ سولہ دسمبر کا دن‘ آرمی پبلک سکول پر حملہ‘ ڈیڑھ سو سے زائد ہلاکتیں‘ پشاور کی گلی گلی سے اُٹھنے والے جنازے اور پورے ملک کی سوگوار فضاء‘ شاید ہماری خوشیاں کبھی بھی پہلے جیسی نہ رہیں۔ شاید سولہ دسمبر کے بعد ہم زندہ رہ جانے والے کے دکھ‘ اپنے پیاروں کی حفاظت سے متعلق خدشات کبھی کم نہ ہوں‘ جو زخم پشاور اور پاکستان کو لگا ہے وہ ہمارے ساتھ دفن ہو کر بھی رستا رہے گا!

دو ہزار چودہ پاکستان کو لاحق ’سیکورٹی کے داخلی چیلنجز‘ سے نمٹنے کی ذیل میں ’فیصلہ کن‘ عزم و ہمت کے مظاہرے کا سال ثابت ہوا۔ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیاں (’آپریشن ضرب عضب‘ اُور ’آپریشن خیبرون‘) کا آغاز‘ سزائے موت پانے والوں کے بلیک وارنٹس اور فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی قیادت کی تحفظات کے باوجود اتفاق رائے غیرمعمولی واقعات رہے۔ بھارت کے علاؤہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پر فوج کی گرفت میں اضافہ دوہزارپندرہ میں بھی برقرار رہنے کی اُمید ہے۔ اُمید یہ بھی ہے کہ دو ہزارپندرہ کے دوران ’قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کی آئینی و انتظامی حیثیت‘ بندوبستی علاقوں کے مساوی لانے کے حوالے سے پیشرفت ہوگی کیونکہ جب تک ہم قبائلی علاقوں کو اُن کے جائز حق سے محروم رکھیں گے‘ ان کا استعمال منفی سرگرمیوں کے لئے یونہی ہوتا رہے گا۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے ساتھ انتہاء پسندی کی جڑیں کاٹنے کے لئے بھی قبائلی علاقوں‘ سوچ اور اُن تمام امکانات کو ختم کرنا ضروری ہوچکا ہے‘ جس سے پاکستان و خطے کی سلامتی و بقاء کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر دفاعی و سیاسی قیادت نے ’دو ہزار چودہ‘ میں اہم فیصلے کئے اور ایسے ہی مزید سنجیدہ فیصلوں و عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

توانائی بحران حل کرنے کی کوششوں کے مقابلے وفاقی حکومت کی سال گذشتہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی جیسی نمائشی کوشش پر زیادہ توجہ رہی‘ جس سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری تو نہیں آئی لیکن قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ ضرور لگا! یہی سرمایہ اگر روزگار کے نئے مواقعوں کی تخلیق‘ زراعت کے شعبے کی ترقی‘ غذائی خودکفالت کے لئے سائنسی بنیادوں پر تحقیق و عمل اور زرعی سائنسدانوں و ماہرین کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے پر خرچ کیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ غذائی خودکفالت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹتے ہوئے ماحول کی بہتری جیسے اہداف کلی نہ سہی جزوی طور پر ہی حاصل کر لئے جاتے۔ صوبائی حکومت سے دست بستہ درخواست ہے کہ خیبرپختونخوا میں ’تیلدار اجناس کی کاشت‘ کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ قبائلی اور جنوبی اضلاع کے ہزاروں ایکڑ رقبے پر زیتون اور سورج مکھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایسے زرعی ماہرین کی بھی کمی نہیں جو متعلقہ شعبوں میں بیرون ملک سے تعلیم یافتہ اور دردمندی و خلوص سے اپنے علم و تجربے کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ صوبائی سطح پر ’زرعی کانفرنس‘ کے اِنعقاد میں (غوروخوض) مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے تاکہ دو ہزار پندرہ سمیت خیبرپختونخوا کے بہتر مستقبل کے لئے خاطرخواہ منصوبہ بندی کی جاسکے لیکن اگر ہماری ترجیحات ہی غلط ہوں گی تو چاہے جتنی بھی دوڑ دھوپ کیوں نہ کر لی جائے‘ نتیجہ مسائل کی شدت اور درپیش بحرانوں میں اضافے کی صورت برآمد ہوگا۔ سال دو ہزار چودہ کو اشکبار آنکھوں سے الوداع کرتے ہوئے ہمیں پاکستان کو زیادہ محفوظ‘ یہاں کی معیشت و اقتصادی نظام کو زیادہ مضبوط اور دستیاب وسائل کا استعمال زیادہ دانشمندانہ انداز میں کرنا ہوگا۔ افریقی کہاوت ہے ’’اگر آپ ذاتی ترجیح اور سوچ کے تحت کسی مقام پر جلدازجلد پہنچنا چاہتے ہیں تو ’تیزرفتاری‘ کے لئے اکیلے ہی سفر پر روانہ ہو جائیں لیکن اگر آپ اجتماعی بہبود کے لئے معاشرے اور اپنے گردوپیش کی تبدیلی (اصلاح) کے خواہاں ہیں تو ایسا کرنے کے لئے آپ دوسروں کو ہمراہ کر لیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, December 30, 2014

Dec2014: Effective Policing & Technology

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مؤثر پولیسنگ: ناگزیر اقدامات
’کرشماتی جلدبازی‘ کو اِس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی ریل گاڑی کا انجن کراچی جبکہ مسافر بوگیاں پشاور کے ریلوے اسٹیشن پر ہی کھڑی رہ جائیں۔ خیبرپختونخوا پولیس جہاں تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی پر تمام تر توجہات اور توانائیاں مرکوز کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف منظم جرائم پیشہ گروہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور پشاور کے ایک معروف تجارتی مرکز کے درجنوں دکانداروں کو ایک ہی دن میں ’بھتے کی پرچیاں‘ تقسیم ہوئیں ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ’’لاکھوں کا تقاضا کرنے یا جانی و مالی نقصانات کی دھمکیاں‘ جن کاغذ کے ٹکڑوں پر تحریر تھیں اُنہیں ماضی کی طرح بذریعہ ڈاک اِرسال نہیں کیا گیا بلکہ دیدہ دلیری سے ایک ’نامعلوم شخص‘ بناء منہ چھپائے‘ بناء کسی خوف و خطرے‘ بازار کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پرچیاں بانٹنے کے بعد ’پراسرار انداز‘ میں ’’غائب‘‘ ہو گیا۔ عجب ہے کہ جب پہلے دکاندار کو پرچی تھمائی گئی ہو گی اور وہ قاصد دوسری تیسری اور کم از کم پچاس میٹر لمبے اور پرہجوم بازار میں راستہ بناتے بناتے آخری دکان تک پہنچا ہوگا تو عین ممکن تھا کہ اُسے پکڑ (دھر) لیا جاتا اور اُسی کی نشاندہی پر بھتہ خوروں کے پورے گروہ تک رسائی ممکن ہو جاتی۔ یاد رہے کہ مذکورہ بازار کے قریب ہی قلعہ بالا حصار اور خان رازق شہید (تھانہ کابلی) پولیس چوکی جیسی حساس تنصیبات جبکہ جی ٹی روڈ سے داخلے کے مقام پر پولیس کا ناکہ بھی ہمہ وقت موجود رہتا ہے‘ جہاں پولیس اہلکار ہوں یا نہ ہوں! علاؤہ ازیں خوردنی اجناس کی اِس تھوک و پرچون منڈی سے چونکہ مال و اسباب صوبے کے دیگر اضلاع کو ترسیل ہوتی ہے اور یہاں اجناس کے ذخائر سے بھرے گودام بھی ہیں‘ اِس لئے پولیس کے موٹرسائیکل سوار گشتی دستے یہاں پر موجود مالیاتی اداروں‘ کرنسی ایکسچینجیز اور بینکوں کے اردگرد منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاؤہ ازیں جس مارکیٹ میں بھتے کی پرچیاں بانٹی گئیں اُس کی پشت سرکاری سکول سے لگتی ہے‘ جو اپنی جگہ الگ نوعیت کا خطرہ ہے یقیناًسکول کی ہی زمین پر دکانیں تعمیر کی گئیں ہوں گی اور ایسا ایک وقت میں پھلتے پھولتے پشاور کی ضرورت رہی ہو گی لیکن جس انداز میں‘ حالیہ چند برس کے دوران پشاور شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے‘ اُسے مدنظر رکھتے ہوئے جملہ تھوک و پرچون کی منڈیاں اور اجناس کے گودام پشاور سے باہر منتقل ہونے چاہیءں کیونکہ مال برداری کے لئے استعمال ہونے والی گھوڑا و جانورگاڑیوں‘ چھوٹے بڑے ٹرک اور ٹریلروں کی آمدورفت سے ٹریفک کی روانی متاثر رہتی ہے۔ اشرف روڈ‘ رام پورہ گیٹ اور پیپل منڈی سے تھوک کا کاروبار شہر سے باہر کسی ایسے باسہولت مقام پر منتقل ہونا چاہئے‘ جسے نہ صرف چاردیواری سے محفوظ کیا گیا ہو بلکہ وہاں پارکنگ اور دور دراز علاقوں سے آنے والے خریداروں کے قیام و طعام کی سہولیات بھی میسر ہوں۔ اس قسم کا بندوبست و غیرمعمولی انتظام کی توقع صرف اور صرف ’پاکستان تحریک انصاف‘ کی موجودہ صوبائی حکومت ہی سے کی جا سکتی ہے جس کی قیادت ماضی کی دیگر جماعتوں کے مقابلے سیاسی و ذاتی مفادات کو سب سے کم ترجیح دیتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی کسی بھی سیاسی دور حکومت سے موازنہ کرلیجئے موجودہ صوبائی کابینہ میں متوسط آمدنی والے طبقات کی اِس قدر نمائندگی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی ’تحریک انصاف‘ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ پشاور شہر کی حدود سے اجناس کی ’تھوک و پرچون منڈیوں اُور گوداموں‘ کی منتقلی سے سیکورٹی خدشات بھی کم ہو جائیں گے۔ ہرسال خصوصی ایام کے موقع پر تجارتی مراکز بند کرانے کے معمول سے شہر کی تھوک کاروباری سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی اور دور دراز علاقوں سے آنے والوں کو بھی کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ بالخصوص ماہ محرم اور ماہ ربیع الاوّل کے مواقعوں پر جب پشاور شہر کے سبھی داخلی اور خارجی راستوں کو بند (سیل) کر دیا جاتا ہے تو اس سے تھوک کا کام کرنے والے تاجر و دکاندارسب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ان سے وابستہ یومیہ اُجرت پانے والے ملازمین بھی روزگار کے کئی کئی روز تک نہ ہونے سے الگ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سیکورٹی خدشات کا حل اپنی جگہ لیکن پشاور کے رہائشی علاقوں سے تجارتی سرگرمیاں الگ کرنے اور منڈیوں و گوداموں کو بیرون شہر منتقل کرنا ’خوش آئند‘ ثابت ہوگا۔

خوش آئند اُور قابل ذکر و صدشکر امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ’ٹیکنالوجی‘ سے خائف نہیں اُور یہی وجہ ہے کہ سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے لئے انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ بطور حکمت عملی کیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں سماجی رابطہ کاری کے چند وسائل فیس بک (Facebook)‘ واٹس ایپ (What\'s App) سکائپ (Skype)‘ اُور ’وائبر (Viber)‘ کے ذریعے پولیس سے رابطہ کاری ممکن بنانے کے لئے موبائل فون میں استعمال ہونے والا ایک سافٹ وئر (Application) تخلیق کرایا گہا ہے جو ’اِینڈرائرڈ (Android)‘ فونز پر کام کرے گا‘ یہ سہولت تمام تعلیمی اداروں کے منتظمین کو دی جائے گی‘ جو کسی ہنگامی صورتحال میں صرف ایک ’بٹن‘ دبا کر ’آن کی آن میں‘ ضلعی پولیس کے کنٹرول روم‘ قریب ترین پولیس اسٹیشنوں اور خیبرپختونخوا پولیس کے پشاور میں قائم مرکزی دفاتر کو آگاہ کرسکیں گے۔ یہ سافٹ وئر خودکار انداز میں ’ایس ایم ایس پیغام‘ اور فون کال کے ذریعے جملہ پولیس اہلکاروں کو کسی ہنگامی صورتحال کے بارے میں مطلع کرے گا‘ جس میں ’گلوبل پوزیشننگ سیٹلائیٹ (GPS)‘ کے کوآرڈینیٹس (six figures) بھی شامل ہوں گے تاکہ زمینی یا فضائی مدد کے لئے پہنچنے والوں کو مقام کی تلاش میں دقت نہ ہو۔

خیبرپختونخوا پولیس سربراہ ناصر خان درانی جس انداز سے ’پولیس فورس‘ میں نئی روح ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُس پر بھروسہ کرتے ہوئے درخواست ہے کہ ’بھتہ خوری اور اَغوأ برائے تاوان‘ جیسی منظم وارداتیں کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں سے نمٹنے کے بھی ایک ایسی ہی سہولت متعارف کرائیں اور چاہیں تو اس کی ایک مناسب ماہانہ قیمت (فیس) بھی مقرر کردیں جو پشاور کی تاجر برادری بخوشی ادا کرے گی لیکن اِس بات کی ضمانت ہونی چاہئے کہ اگر کسی کو پولیس کی مدد درکار ہو‘ تو وہ گھنٹوں کی بجائے چند منٹوں میں پہنچ جائے۔ چونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے لہٰذا ہر عمر کے صارفین کے لئے دوستانہ (user friendly) سافٹ وئر تخلیق کیا جائے جس کے کم ازکم چھ حصے ہوں اور انہیں مختلف رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہو۔ جیسا کہ دہشت گردی (سرخ)‘ بھتہ خوری(سبز)‘ اغوأ(نیلا)‘ ڈکیتی(پیلا)‘ آتشزدگی (خاکی) اور عمومی جرائم (کالا)۔ تجرباتی طور پر پشاور کی سطح پر اِس سافٹ وئر کو متعارف کرایا جائے تو بعدازاں خامیاں (Debugging) کرنے کے بعد اِسے پورے صوبے میں پھیلا دیا جائے۔ دہشت گرد انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی ناک میں دم کئے ہوئے یقیناًخیبرپختونخوا پولیس کی ذہانت اُن کے سر میں درد کا مؤجب بنے گی اُور اہل پشاور اطمینان محسوس کریں گے کہ وہ جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گردوں کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے چوکس‘ مستعد اور محض ایک بٹن دبانے جیسی ’دوری‘ پر ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, December 29, 2014

Dec2014: Education Reforms

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِصلاح اَحوال: شعبۂ تعلیم
صوبائی حکومت کی جانب سے خیبرپختونخوا کے جملہ تعلیمی اداروں کی سرمائی تعطیلات میں اضافے سے والدین اور اساتذہ قدرے اطمینان محسوس کر رہے ہیں لیکن ’پندرہ جنوری‘ کے بعد کیا ہوگا‘ جبکہ میدانی علاقوں میں زیادہ تر سرکاری و نجی ادارے پھر سے معمول کے مطابق تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیں گے۔ اِنہی سطور کے ذریعے (انتہائی درمندی کے ساتھ) اَرباب اختیار تک مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں میں پائی جانے والی تشویش پہنچائی گئی تھی کہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں توسیع کی جائے لیکن یہ توسیع ’بامقصد‘ ہونی چاہئے یعنی ہر سکول کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا ’خصوصی سیکورٹی پلان‘ ترتیب و تشکیل دیا جائے جس میں والدین سے مشاورت بھی شامل ہو‘ کیونکہ والدین و سرپرست یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ماہانہ فیسوں اور دیگر اخراجات کے لئے رقومات کا تقاضا کرنے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی! والدین بالخصوص دانشور طبقات کی جانب سے فی زمانہ درس و تدریس کے معیار پر بھی سوال اُٹھائے گئے اور تقاضا کیا گیا کہ اِس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ’نجی و سرکاری سکولوں‘ کے معیار تعلیم‘ معیار تربیت‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لئے فراہم کردہ سہولیات اور اساتذہ کی اہلیت و کارکردگی سمیت کئی ایسے ضمنی موضوعات پر بات چیت کی جائے‘ جس پر عشروں سے بحث نہیں ہوئی تاکہ درس وتدریس سے وابستہ ہر کردار کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع مل سکے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے اغوأ کا مقدمہ نجی تعلیمی اداروں کے خلاف دائر کیا جائے‘ جنہوں نے مبینہ طور پر ’مٹھی گرم‘ ہونے کی وجہ سے بناء سہولیات‘ دو دو کمروں میں سکول قائم کرنے کی اجازت مرحمت فرما رکھی ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں دو قسم کے خطرات کا سامنا ہے‘ ایک خطرہ بندوق‘ گولی اور بارود سے ہے اور دوسرا خطرہ ناقص معیار تعلیم سے لاحق ہے‘ اُور دونوں ہی کا تعلق ’زندگی و موت‘ سے ہے۔

کیا ہمارا مستقبل ایسے ہاتھوں میں محفوظ ہوسکتا ہے جن کے پاس تعلیمی اسناد تو ہوں لیکن اُنہیں نصابی کتب کے چند اسباق سے زیادہ کچھ یاد نہ ہو اور نہ ہی وہ بطور فرد معاشرے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے خود پر عائد ذمہ داریوں و فرائض سے آگاہ ہوں؟ کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ سرکاری و نجی سکولوں میں ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہزاروں طالبعلموں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے؟

ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات تو موجود ہیں لیکن سکولوں میں نہ تو کھیل کے میدان ہیں اور نہ ہی دیگر متعلقہ سہولیات۔ فی کلاس تیس سے چالیس بچوں کی بجائے 60سے 80 اور اوسطا فی جماعت 45 طالبعلم کہاں کا انصاف ہے؟ بناء لیبارٹری (عملی تجربہ گاہ) سائنس کے مضامین بھلا کیسے پڑھائے جا سکتے ہیں؟ بناء لائبریری (کتب خانہ) سکول کا تصور کیا ہو سکتا ہے؟ ایک کمرے میں دو اور تین تین درجات کے بچوں کو بیک وقت تعلیم دینے سے درس وتدریس کا مقصد کہاں تک حاصل ہوسکتا ہے؟ پینے کے صاف (فلٹرشدہ) پانی اور بیت الخلأ سمیت وہ کون کون سی بنیادی سہولیات ہیں‘ جو ہر سکول میں لازماً ہونی چاہیءں اور فی طالبعلم اِن سہولیات کی مقدار کیا ہونی چاہئے؟ یعنی اگر کسی سکول میں 100بچے ہیں تو اُن کے لئے پینے کا کس قدر پانی‘ بیت الخلأ کے کتنے کمرے‘ کھیلنے کے لئے کتنی جگہ (رقبہ)‘ کتنے کلاس رومز اور اُن کی لمبائی چوڑائی (سائز)کیا ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے تمام تفصیلات قواعد میں درج ہیں‘ لیکن اُن پر عمل درآمد کرانے والے اپنے عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں احسن انداز سے پوری نہیں کرتے۔ نجی سکولوں کے قواعد میں تدریسی معیار کے لئے اساتذہ کی جس کم سے کم اہلیت کا ذکر کیا گیا ہے‘ اُس حوالے سے والدین سخت تشویش اور ذہنی دباؤکا شکار ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عام آدمی بالخصوص والدین و سرپرستوں کو معلوم ہی نہیں کہ نجی سکولوں کے لئے طے شدہ قواعد کیا ہیں؟ داخلے سے لیکر فی کلاس فیس کی شرح اور سکول انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کے درمیان اگر کوئی تناسب ہے تو وہ کیا ہے؟ بطور فیس ادا کرنے والے صارفین (طالب علموں کے والدین) کے حقوق کیا ہیں؟ اور اگر کوئی نجی یا سرکاری سکول انتظامیہ طے شدہ ضوابط پر عمل درآمد نہیں کر رہی تو اِیسی ’بے قاعدگی‘ کی اطلاع کسے‘ کہاں اور کس طرح دی جائے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے والدین کے کوائف حاصل کرنے کے بعد ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ یا ’محکمہ تعلیم‘ کی جانب سے انفرادی یا اجتماعی طورپر (بذریعہ ذرائع ابلاغ) والدین کی رہنمائی کی جائے؟ سکولوں میں اطلاعاتی تشہیر (نوٹس بورڈز) کے ذریعے ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ یا محکمۂ تعلیم کے دفاتر و ٹیلی فون نمبروں کے بارے میں والدین کو آگاہ کیاجائے؟ شہری علاقوں میں اِی میل اور ویب سائٹس جیسی سہولیات سے استفادہ کیا جائے؟ ہر سکول کے لئے لازم قرار دیا جائے کہ وہ والدین کی جانب سے ’فیڈ بیک(feedback)‘ داخل دفتر کرائے۔ محکمۂ تعلیم کی جانب سے ایک ایمرجنسی ٹیلی فون لائن کے ذریعے موبائل یا لینڈ لائن فون سے مفت (ٹول فری) کال کے ذریعے والدین‘ سرپرست یا کوئی بھی شخص کسی بے قاعدگی یا ہنگامی حالات کی اطلاع کر سکے؟ اگر نجی سکول کم تنخواہیں‘ ٹیکس چوری‘ اضافی ماہانہ فیسیں یا غیرضروری چارجز وصول کرکے والدین کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو کیا تعلیم کو ’کاروبار‘ بنانے والوں کا بلاامتیاز اِحتساب نہیں ہونا چاہئے؟ اگر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو حسب کاغذات (اکاونٹس میں درج) ماہانہ تنخواہیں نہیں دی جارہیں تو وہ اِس استحصال سے متعلقہ حکام کو کس طرح مطلع کریں؟ ایسے کتنے سکول ہیں جنہیں کلی یا جزوی طور پر غیرملکی امداد حاصل ہو رہی ہے‘ کیا اِس ملکی امداد کا مصرف درست انداز میں ہورہا ہے؟ کہیں یہ غیرملکی امداد کسی خاص نوعیت کی نصابی سرگرمی سے مشروط تو نہیں؟ ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ و ادنی ملازمین کے کوائف الگ سے مرتب ہونے چاہیءں‘ سرکاری ملازمین کے بچے لازمی طور پر سرکاری سکولوں ہی میں زیرتعلیم ہوں تبھی اِن سکولوں کا معیار بہتر ہوسکتا ہے۔ فی الوقت جن سرکاری ملازمین کے بچے نجی سکولوں میں زیرتعلیم ہیں اور انہیں ماہانہ ٹیوشن فیسیوں یا دیگر اخراجات میں ’خاص رعایت‘ یا ’بالکل مفت‘ تعلیم دی جا رہی ہے تو ایسے افراد کی الگ فہرست ہوں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کہیں اختیارات کے عوض سودے بازی تو نہیں کی گئی! یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ سرکاری ملازمین اپنی ماہانہ تنخواہوں کے تناسب سے کئی گنا زیادہ اگر اندرون و بیرون ملک بچوں کی تعلیم و قیام پر خرچ کر رہے ہیں تو اُن کے دیگر ذرائع آمدن کیا ہیں! یقیناًیہ وقت ’تعطیلات کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہوئے بہت سے اُدھورے کام پورے کرنے کا ہے۔‘ اگر درس و تدریس کے نظام کو دہشت گردوں سے خطرات لاحق ہیں تو اس سے کئی گنا زیادہ خطرہ اُس کاروباری سوچ سے بھی ہے‘ جس نے تعلیم و تربیت کے عمل سے ’روح کو الگ‘ کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری و دیہی علاقوں میں یکساں طور پر ٹیوشن سنٹروں کی رونقیں دیدنی ہیں۔ کیا آپ کسی ایسے نجی سکول کا نام جانتے ہیں جہاں کے اساتذہ طالبعلموں کو اِس طرح پڑھاتے ہوں کہ اُنہیں سکول سے واپسی پر مزید کئی گھنٹے ٹیوشن سنٹروں سے رجوع نہ کرنا پڑے؟ (یقیناًایسے باضمیر اَفراد کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہوں گے۔)

 اَفسوس صد افسوس کہ ایک طرف مالکان کی تجارتی سوچ ہے تو دوسری جانب اساتذہ کی ایک غیرمعمولی تعداد ’اَفراتفری کے اِس ماحول‘ سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ سولہ دسمبر کے شہید بچوں کی اَرواح کے لئے اِس سے بڑھ کر ’خراج و اظہار عقیدت‘ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ہاں ’نظام تعلیم‘ کی اِصلاح کرلیں!

Sunday, December 28, 2014

Dec2014: Feelings of Peshawar

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
لب لباب: محسوساتِ پشاور
سولہ دسمبر کے ’پشاور سانحے‘ کی ایک سے بڑھ کر ایک دلخراش حقیقت سامنے آ رہی ہے۔ صدر کے معروف تاجر خاندان کا سوگ تیرہویں دن میں داخل ہوچکا تھا لیکن غم کی کیفیت برقرار تھی۔ تعزیت کے لئے آنے والوں کاتانتا بندھا ہوا تھا۔ اہل پشاور (ہندکووان خاندانوں) کے ہاں مرحومین کے لئے چالیس روز تک ہر جمعرات (ہفتہ وار) خصوصی دعائیہ محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔ اِس عرصے میں (چہلم تک) خواتین ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ (پیر‘ بدھ اور ہفتہ) سوگوار اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتی ہیں۔ چہلم کے بعد ہر جمعرات کے روز آذان مغرب سے قبل فاتحہ اور ایصال ثواب کے لئے باقاعدگی سے قرآن خوانی‘ ذکر اذکار اور محافل میلاد کا انعقاد بھی پرملال ایام کا حصہ ہوتے ہیں تاہم یہ رسومات چند ایک خاندانوں تک ہی محدود رہ گئیں ہیں اور اِن پر عمل کرنے والے یا اِن کا قریب سے مشاہدہ کرنے والی شاید ہم آخری نسل ہوں!مادی ترجیحات کے زمانے میں تعزیت بذریعہ اِی میل‘ سکائپ‘ وائبر‘ واٹس ایپ‘ ایس ایم ایس یا انٹرنیٹ کے دیگر اسلوب (ٹیکنالوجی کے ذریعے) ہونے لگا ہے‘ یہ جدت دل سے نہ سہی لیکن بڑی حد تک قبول کر لی گئی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں خوشی اور غم کے مواقعوں پر پائی جانے والی ’اپنائیت‘ بھی رفتہ رفتہ معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم حقیقی زندگی کو مصنوعی انداز سے معنویت دینے کی کوشش میں اپنے وجود‘ اپنی ثقافت اور اپنے اجداد کی فہم و فراست سے مرتب کردہ روایات کو ایک ایک کر کے گنوا رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد (اور تخیل) ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھنا تھا۔

پشاور صدر کا معروف تاجر خاندان جس کرب سے گزر رہا ہے‘ اُسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ تین بھائیوں میں سے دو کے ہاں نرینہ اولاد ہوئی اور وہ دونوں ہم عمر چچازاد جوان بیٹے ’آرمی پبلک سکول‘ میں شہید کر دیئے گئے۔ ’’اتنا تو جانتا ہوں کہ اب تیری آرزو۔۔۔ بیکار کر رہا ہوں‘ اگر کر رہا ہوں میں!‘‘ وہ خاندان جس کی کوئی نرینہ اُولاد باقی نہیں رہی‘ وہاں آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ ہر آنے والے کا استقبال ہو رہا تھا۔ گھر سے متصل خالی پلاٹ میں شامیانہ لگایا گیا تھا‘ جس کی سرخ چھت سے منعکس ہو روشنی پورے ماحول پر سرخی مائل روشنی کو حاوی کئے ہوئے تھی۔ دائرے کی شکل میں کرسیاں اور درمیان میں انگھیٹی کے قریب میز پر قہوے کی پیالیاں سلیقے اور ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں۔ اہل پشاور کے ہاں مہمان نوازی کا خاص خیال حزن وملال میں بھی رکھا جاتا ہے‘ اشرافیہ و خواص ہی نہیں بلکہ متوسط طبقات کے ہاں بھی مہمانوں کی تواضع کرنا رکھ رکھاؤ اور ایک دوسرے کے لئے احترام کا پاکیزہ اظہار ہے۔ تعزیت کے لئے آنے والے دونوں ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ خوانی کرتے پھر چند منٹ خاموش بیٹھنے یا رسمی حال احوال دریافت کرنے کے بعد رخصت لیتے رہے۔ جو خود رخصت نہ لیتے اُنہیں اہل خانہ بھیگی آنکھوں سے درخواست کرتے کہ ’’آپ کی حاضری بصدشکریہ قبول ہے۔‘‘

اَٹھائیس دسمبر ہی کے دن نویں جماعت کے طالب علم اُس شہید کی ’پندرہویں سالگرہ‘ کا دن بھی سوگوار گزرا۔ بھائی بہنوں اور عزیزواقارب نے پہلے ہی سے تحائف خرید رکھے تھے! یونیورسٹی ٹاؤن کے مضافاتی علاقے راحت آباد کا رہائشی ’طوریالے خاندان‘ غم سے نڈھال ہے۔ ’آذان طوریالے‘ کے بڑے بھائی ’حسن‘ کے مطابق ’’اِس سال ہم نے آذان کی سالگرہ مختلف انداز میں منانے کا فیصلہ کیا تھا اور تیاریوں سے اُسے بے خبر بھی رکھا تاکہ اچانک پارٹی (سرپرائز) کی صورت اُسے حیران کرسکیں۔ آذان کی بہن امان سہیل اِس ذکر پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی کہ ’’ہم نے سالگرہ کا کیک‘ موم بتیاں اور رنگارنگ تقریب کے لئے کیا کچھ سوچ رکھا تھا۔‘‘ آذان کو گھڑی اور خوشبوئیات (پرفیومز) جمع کرنے کا شوق تھا اور اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں نے باہمی مشاورت سے ہفتوں پہلے ہی خریداری کر رکھی تھی! حسن اپنے بھائی کی سالگرہ والے دن اتنا ہی اُداس دکھائی دیا‘ جتنا کہ اُسے خوش ہونا چاہئے تھا!

آذان ایک سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ وہ ہم نصابی سرگرمیوں میں خاص دلچسپی لیتا اُور پڑھائی کے ساتھ کھیل کود میں بھی پہلی کلاس ہی سے پوزیشن ہولڈر تھا۔ اُس کے کمرے کا وہ کونا بطور یادگار عزیزوں کودکھایا جاتا ہے جہاں درجنوں ٹرافیاں اور میڈلز رکھے ہوئے ہیں۔ درازقد‘ چست‘ چوڑی چھاتی اور بڑی آنکھوں والے روشن چہرے پر بکھری مسکراہٹ والی تصاویر‘ چند کتابیں اور زیراستعمال دیگر چیزیں بھی قریبی الماری میں تبرکات کی طرح رکھ دی گئیں تھیں‘ جہاں شاید وہ ہمیشہ اسی حالت پڑی رہیں‘ اور اہل خانہ کو آذان کی آس پاس موجودگی کا جواز بنی رہیں!

دو سوگوار خاندانوں کے ساتھ چند گھنٹے بسر کرنے اور آج کے دن ’’پشاور کو محسوس‘‘ کرنے کا لب لباب یہ نہیں کہ ’’پھولوں کا شہر صرف مغموم و سوگوار ہے‘‘ بلکہ ’’پشاور ایک عظیم قربانی کے نتیجے میں جاگ اُٹھا ہے۔‘‘ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ کیا بطور صحافی آپ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ’پاکستانیوں کی اکثریت دہشت گردی سے بیزار ہے؟ کیا آپ ہمارے حکمرانوں تک یہ بات پہنچا سکتے ہیں کہ اُن کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عام لوگوں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا آپ ہماری فوجی قیادت کے گوش گزار کر سکتے ہیں کہ ہمیں امن چاہئے اور پاکستان کے نظریاتی و جغرافیائی کے دشمنوں سے کسی بھی صورت رعائت نہیں ہونی چاہئے؟‘ اہل پشاور شکرگزار دکھائی دے رہیں جنہیں قربانیوں پر فخر ہے۔ جنہیں نظر آ رہا ہے کہ اُن کے بچوں کے لہو سے ایک نئی تاریخ‘ ایک نئے پاکستان کا مستقبل رقم ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن ’مشکل کشاؤں‘ کو اصل سبب یعنی ’انتہاء پسندی‘ پر بھی نگاہ کرنی ہوگیجس کا نتیجہ باطل نظریات کے تحت بعدازاں مسلح جدوجہد کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ قومی سلامتی کے لئے داخلی استحکام اور محاذ در محاذ جدوجہد کرنے میں اُن سیاسی کرداروں کو بھی ’بے نقاب‘ کرنے اور کیفرکردار تک پہنچایا جائے جن کے ذاتی و سیاسی مفادات کے سبب غربت و جہالت بڑھی۔

عام آدمی کا مطالبہ ہے کہ ’’قومی سلامتی کی حکمت عملی‘‘ میں اِس بات کو شامل کیا جائے کہ ’’اصل غدار‘‘ وہ ہے جو مالی و انتظامی اَمور میں خیانت و بددیانتی میں ملوث ہے۔ جس نے سیاست کو پیشہ اور اختیارات کو تعصب و امتیازات اور اقرباء پروری کے لئے استعمال کیا‘ جس نے پاکستان کے آئین کی توہین کی‘ جس نے حلفیہ عہد کرکے بھی جھوٹ بولا۔ جس نے قانون کو جوتے کی نوک اور انصاف تک رسائی کے عمل کو بے معنی بناکر رکھ دیا۔ کیا وہ سبھی کردار رعائت کے مستحق ہیں جنہوں نے ٹیکس چوری اور آمدنی کے مشکوک ذرائع سے بیرون ملک اثاثے بنائے؟ دوغلی شخصیات اور دوغلی شہریت حاصل کرنے بے ضمیروں سے نجات حاصل کی جائے۔ پاکستان کے مالی وسائل پر اپنی نسلیں بیرون ملک پروان چڑھانے والوں سے بھی معاملہ کیا جائے۔ ہمیں ایسے خودغرض‘ لالچی اور نام نہاد رہنماؤں‘ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں جن کی حرص و طمع نے جنت النظیر پاکستان کو مثل جہنم بلکہ اِس سے بھی بدتر بنادیا ہے!

Saturday, December 27, 2014

Dec2014: Adopted measures

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حالات کا تقاضا :بہ امر مجبوری ضرورت
’صبر اُور حوصلہ رکھئے‘ جیسی تلقین سماعتوں پر چاہے جتنی بھی خوشگوار محسوس ہو لیکن ان الفاظ کے بوجھ سے پشاور کے بڑے بڑے قدآوروں کی کمریں جھکی نظر آئی ہیں۔ بظاہر آسان دکھائی دینے والے اعمال معنوی و عملی اعتبار سے کس قدر گراں ہو سکتے ہیں‘ اس تلخ حقیقت کا ادراک ’سولہ دسمبر کے پشاور سانحے‘ میں اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں اُٹھانے والوں سے زیادہ کسے ہو سکتا ہے‘ جن کی آنکھوں میں خون آلود چہرے سمائے ہوئے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ’آرمی پبلک سکول پر ہوئے حملے کی یاد میں پھول‘ موم بتیوں‘ یاد آوری کے پیغامات‘ کارڈز‘ پلیکارڈز اور شہدأ کی چھوٹی بڑی تصاویر سے مزین ’یادگار‘ ازخود ترتیب پا گئی ہے جہاں فاتحہ خوانی کرنے والے باوجود کوشش بھی خود پر ضبط نہیں رکھ پاتے۔ گذشتہ بارہ برس کے دوران (نائن الیون کے بعد سے) یوں تو پشاور نے کئی دکھ دیکھے لیکن سولہ دسمبر کا سانحہ دہشت گردی کے دیگر سبھی واقعات پر بھاری ثابت ہوا ہے۔ ورسک روڈ پر ’دیوار گریہ‘ کے سامنے کھڑے ہو کر دل کی اُداسی اور ’ماحول پر طاری سناٹے‘ کی ہیبت رُلا دیتی ہے! بقول ریختہ: ’’اُداسی کا سبب میں کیا بتاؤں۔۔۔گلی کوچوں میں سناٹا بہت ہے!‘‘یہ وہی ’مقتل‘ ہے جہاں بچوں کی چیخ و پکار سے درودیوار لرز اُٹھے تھے۔ جن بچوں کو ذبح کیا گیا‘ اُن کے ہم جماعتوں نے بے بسی سے اپنا گلہ کٹنے کا انتظار کیا ہوگا لیکن جبکہ آئندہ چند روز میں پشاور کے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق تدریسی عمل کا آغاز کرنے والے ہیں تو کیا اِس درجے کے حفاظتی انتظامات کر لئے گئے ہیں‘ جس پر والدین کو اطمینان ہو‘ اُور اِس بات کو سوفیصد یقینی بنا لیا گیا ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ جیسا حملہ سانحہ (خدانخواستہ) دوبارہ رونما نہیں ہوگا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تمام تر توجہ پشاور کے بڑے اور معروف تعلیمی اِداروں پر مرکوز ہو اور سرکاری سکولوں کی حفاظت دھیان ہی میں نہ ہو؟

سانحہ پشاور نے مقامی و غیرمقامی باسیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ اہل پشاور کے ہاں اِس درجے ہمدردی کا اظہار کبھی دیکھنے میں نہیںآیا‘ اور یہی وجہ ہے کہ ہرخاص و عام صوبائی دارالحکومت کی حفاظتی حکمت عملی کے ’بظاہر خدوخال‘ دیکھتے ہوئے تشویش اور غیریقینی صورتحال میں مبتلا ہے۔ مثال کے طور پر ورسک روڈ اور اس کے اطراف میں وال چاکنگ کی گئی ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی‘ تو اُسے گولی مار دی جائے گی!‘‘ اُردو اور پشتو زبانوں میں اِس تحریر سے دہشت گرد یقیناًمرعوب نہیں ہوں گے کیونکہ خود کو ’فدائی‘ کہنے والوں کو اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے میں بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حملہ آور خودکش ہوتے ہیں اور انہیں محض ’وال چاکنگ‘ سے مرعوب یا روکا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ’وال چاکنگ‘ سے اہل پشاور کو یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں!‘‘
آرمی پبلک سکول کی دیواروں کو بلند کیا جارہا ہے لیکن یہی کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ جب ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ کیا گیا تب اُس کی دیواریں اس قدر بلند نہ تھیں کہ انہیں عبور کرنے والوں کو زیادہ دقت ہوتی اور نہ ہی زنگ آلودہ آہنی کانٹے دار تاریں اِس حالت میں تھیں کہ وہ حملہ آوروں کو روک سکتیں۔ جس تعلیمی ادارے کو سولہ دسمبر سے تین ماہ قبل ہی ممکنہ حملے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہو‘ وہاں اختیار کی جانے والی ناقص حفاظتی تدابیر‘ درحقیقت مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے لیکن افسوس کہ اِس حوالے سے زیادہ بات نہیں کی جارہی۔ لاکھوں روپے ماہانہ منافع کمانے والے تعلیمی اِدارے اپنی حفاظت کے لئے کتنے مالی وسائل مختص کرتے ہیں‘ یا اُنہیں اپنی آمدنی کا کس قدر حصہ حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر خرچ کرنا چاہئے‘ اِس حوالے سے بھی غوروخوض نہیں ہورہا۔ چونکہ شعبہ تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے‘ اِس لئے اجارے پر حاصل کردہ سرکاری زمینوں پر قائم کئی ایک فوجی و غیر فوجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے یا بچانے کی فکر میں رہتی ہے۔ ایک ایساسکول جس میں ایک ہزار سے زائد بچے‘ تدریسی و دیگر معاون عملہ موجود رہتا ہو‘ وہاں چند افراد پر مبنی سیکورٹی‘ حفاظتی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آرمی پبلک سکول کے ہر بچے سے حفاظتی انتظامات (سیکورٹی چارجز)کے نام پر ماہانہ 120 روپے وصول باقاعدگی سے وصول کئے جاتے ہیں‘ اگر ایک ہزار بچوں میں سے 900 بچوں کی اوسط سے بھی حساب لگایا جائے تو ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زائد کی رقم کسی بھی طرح معمولی نہیں ہوتی۔ اگر ’آرمی پبلک سکول‘ کی سیکورٹی پر سالانہ 12 لاکھ روپے خرچ کئے جاتے‘ تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ حملہ آور عقبی حصے سے داخل ہو کر آن کی آن میں پورے سکول پر قبضہ کرلیتے! موشن سنسرز (motion sensors) سکول کی دیوار پھلانگنے کی صورت نہ صرف آلارم بجا دیتے بلکہ متعلقہ تھانے‘ سکول انتظامیہ اور قریب ہی کورہیڈ کواٹر کو بھی خودکار نظام کے ذریعے انفرادی طور پر مطلع کردیا جاتا۔ اگر روائتی آہنی کانٹے دار تاروں کی بجائے ’نان لیتھل (barbwire) تاریں‘ بچھائی گئیں ہوتیں تو دیوار پھلانگنے کے اِمکان کو سوفیصد کم کیا جاسکتا تھا اور ایسا اب بھی ممکن ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے تعلیمی اِداروں یا حساس تنصیبات کے سیکورٹی پلان میں جب تک ٹیکنالوجی پر بھروسہ شامل نہیں کیا جائے گا‘ نیت‘ ارادوں‘ بیانات اور چند منظور نظر افراد کو ملازمتیں سونپنے سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئے گی۔ جن والدین کے بچے یا تدریسی عملہ ’آرمی پبلک سکول‘ یا اس جیسے دیگر حساس و ممکنہ نشانے پر اِداروں سے وابستہ ہیں اُن کی تشویش منطقی اور دل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ورسک روڈ پشاور پر کئی ایک دیگر نجی سکول بھی ایسے ہیں جہاں زیرتعلیم بچوں کی تعداد آرمی پبلک سکول سے کہیں گنا زیادہ ہے‘ ایسے تمام بلکہ جملہ تعلیمی اِداروں (بشمول سرکاری سکولوں) کے حفاظتی انتظامات پر نظرثانی حالات کا تقاضا اور بہ امر مجبوری ضرورت ہے۔ موسم سرما کی قبل ازوقت تعطیلات میں چند روز کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے لیکن پشاور کے تعلیمی ادارے اُس وقت تک نہ کھولے جائیں جب تک عمارت اور بچوں کی آمدروفت والی گاڑیوں کی حفاظت کے تسلی بخش انتظامات مکمل نہیں کر لئے جاتے۔
توقع یہ بھی ہے کہ ’فوج کے نام پر قائم ہونے والے اِدارے ’منافع‘ کی بجائے معیار تعلیم کی بہتری اور حفاظتی اِنتظامات کے لحاظ سے دیگر ہم عصروں سے ممتاز ہونے چاہیں۔‘

نجی اِداروں کے سیکورٹی گارڈز کی خدمات سے استفادہ کرنے کی بجائے حاضر سروس فوجیوں کو سیکورٹی ذمہ داریاں سونپنے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ علاؤہ ازیں تدریسی عمل فعال کرنے سے قبل ہرسکول کی سطح پر انتظامیہ و اساتذہ کے درمیان (پیرنٹس ٹیچرز) میٹنگ (برسبیل تذکرہ ملاقات) ہونی چاہئے اور سیکورٹی کے حوالے سے والدین کے مؤقف اور تشویش کو سنجیدگی سے سنا جائے۔ فوج کی زیرنگرانی تعلیمی اداروں میں والدین بالخصوص ’سول‘ افراد سے جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اُسے دیکھ کر ’اِیسٹ انڈیا کمپنی‘ کی یاد آتی ہے‘ جب انگریز بہادر ’’کتوں (dogs) اور انڈین (indians) کی آوازوں پر زیادہ کان نہیں دھرا کرتے تھے!‘‘

Friday, December 26, 2014

Dec2014: Defencive measures

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دفاع کے تقاضے!
سیکورٹی خدشات اور دہشت گرد کارروائیوں کے امکانات و اندیشے اپنی جگہ موجود لیکن اِس پوری صورتحال کو ’ضبط‘ میں کرنے کی کوششیں جس مستعدی اور منظم انداز میں ’سولہ دسمبر‘ (آرمی پبلک سکول پر حملے) کے بعد سے ہو رہی ہیں‘ اگر قانون نافذ کرنے والے اِداروں کا ’طرز عمل‘ شروع دن سے ایسا ہی ہوتا تو شاید یہ تحفظات بصورت اعتراضات سننے کو نہ ملتے کہ طاقت کا استعمال کسی ایک تنظیم یا گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف ہو رہا ہے! یہ ایک باریک نکتہ اور سوچ کا نازک مرحلہ ہے جو درحقیقت آگ سے کھیلنے جیسا خطرناک عمل ہے کہ اگر سیکورٹی کے لئے خطرہ بننے والے مشتبہ افراد کے حامی یہ سوچ پھیلاتے ہیں کہ صرف اُنہیں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں تو اس سے ’خانہ جنگی‘ پھیلنے کا امکان ہے لہٰذاقانون نافذ کرنے والے اِداروں کو اِس سازش اور سر اُٹھانے والے انتشاری عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

سیکورٹی کی اَبتر صورتحال معمول پر لانے کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ اُنہیں احکامات اور ضوابط کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر ’بے بسی‘ کی کیفیت وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں کسی ضلع میں اعلیٰ و ادنیٰ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی میں وہاں کی منتخب سیاسی قیادت کا ہاتھ رہا ہو۔ ’احسان کا بدلہ احسان‘ ہو تو سکتا ہے لیکن وہاں نہیں جہاں ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہو! اِس لئے مشتبہ افراد کی سرپرستی کرنے والے جملہ سہولت کاروں اور عسکریت پسندی کی حمایت کرنے والے طبقات تک بھی یہ واضح پیغام پہنچنا ضروری ہے کہ آج کے بعد کسی بھی معتبر و نامعتبر ذات کا اثرورسوخ‘ حوالہ اور علم و دانش اجتماعی مفادات اور ریاست کے ’تابع فرمان‘ تصور ہوگا۔ چونکہ ملک کی سیاسی و دفاعی قیادت نے اصولی طورپر فیصلہ کر لیا ہے کہ آج کے بعد کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے قانون کے مطابق یکساں سلوک کیا جائے گا تو اِس پر اعتراض کرنے والوں کو سوچ سمجھ اور ناپ تول کر تحفظات کا اظہار کرنا ہوگا کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

پشاور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے چوبیس سے چھبیس دسمبر کے درمیان مختلف کارروائیوں میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا ہے‘ جن کے روابط بین الاضلاعی گروہوں سے بھی تھے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور ذرائع کے مطابق ’تفتیشی عمل میں مزید انکشافات کی توقع ہے۔‘ لیکن مسئلہ عوام کے اعتماد کا ہے جو اِس پورے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے کیونکہ ماضی میں پولیس کی کارکردگی ایسی مثالی جو نہیں رہی۔

پولیس کے اعلیٰ حکام سے سوال ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کا عام آدمی (ہم عوام) یقین رکھے کہ جملہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی ہوگی یا پولیس ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ کی تفریق کرتے ہوئے صرف اُن ’جرائم پیشہ گروہوں‘ کے خلاف کارروائی کرتی ہے جس سے متعلقہ تھانے یا حکام شناسائی نہیں رکھتے۔ یہ منفی تاثر اور درحقیقت ’وردی پر داغ‘ صفائی چاہتا ہے جس کے لئے دھلائی یعنی عملی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

اَفغان مہاجرین کی وطن واپسی کے مراحل اتنے آسان نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ مالی لحاظ سے کمزور افغان مہاجرین کو باآسانی شناخت بھی کیا جاسکتا ہے اور اُن کے ٹھکانے بھی کچی بستیوں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں قائم ہیں لیکن اُن اَفغانوں کا کیا ہوگا‘ جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں؟ جن کی تین نسلیں بودوباش‘ زبان و ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ہم جیسی ہی ہیں؟ جن کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ہماری معیشت میں سینکڑوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری رکھتے ہیں۔ کیا ایسے سرمایہ دار افغانوں کے لئے ایک ’الگ (خصوصی) ویزہ پالیسی‘ تشکیل دے کر اُنہیں ’ایوان ہائے صنعت و تجارت‘ کے ذریعے مشروط قیام‘ جائیدادیں‘ گاڑیاں اور بینک اکاونٹس رکھنے کی اِجازت ہونی چاہئے لیکن اُن کی شہریت افغان ہی رہے اور اُن کا تشخص بھی عارضی شہریت رکھنے والوں جیسا ہی رہنا چاہئے؟ ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں مسلمان ممالک نے باوجود ’مسلکی اپنائیت‘ کے افغان مہاجرین کو اپنے شہروں سے الگ خیمہ بستیوں کے اردگرد‘ آہنی خاردار تاروں کے اندر معاشرت کرنے تک محدود رکھا۔ وجہ یہی تھی کہ اُنہیں اپنے ملک کا استحکام اور مفاد عزیز تھا لیکن ہمارے ہاں مہاجرین کو کھلی چھوٹ دی گئی اور اب جبکہ وہ ہر شہر و دیہی علاقے میں پائے جاتے ہیں تو اُنہیں نکال باہر کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی نہ تو مکمل طور پر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی اور نہ ہی اس سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے کیونکہ منظم جرائم‘ انتہاء پسندی یا عسکریت پسندی سے تعلق رکھنے والے بے سروسامان نہیں ہوتے۔ اندیشہ ہے کہ عام افغانوں کے لئے پاکستان میں زندگی بسر کرنا مشکل بنانے سے وہ ساکھ جاتی رہے گی جسے بنانے میں ہمیں چالیس برس سے زائد کا عرصہ لگا‘ وہ مہمان نوازی جسے ایثار کے ساتھ نبھانے میں ہم نے ملک کی سلامتی تک داؤ پر لگا دی‘ وہ سب نیکیاں اور کارخیر غرقاب ہو جائیں گی! اَفغان مہاجرین ہم سے خوش نہیں۔ اُن کے چہرے مرجھائے اور اُن کے بچے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم نے افغانوں کے وطن داخلے اور اُن کی آباد کاری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پہلے ادا کی ہوتیں تو اِس قدر بے یقینی کی فضاء میں ’ہنگامہ برپا‘ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اب اِس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ ہم عشروں سے مقیم اپنے مہمانوں‘ اپنے بھائیوں کو گلے لگا کر ’الوداع‘ کہیں اور اُنہیں خواہشات کے ساتھ سلامتی و خندہ پیشانی سے رخصت کریں۔ اُن کے سامنے اپنی مجبوریاں بیان کریں۔

محبت اور سچائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہتھیاروں کے ساتھ ہمیں یہ طاقت بھی آزمانا ہوگی کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

Thursday, December 25, 2014

Dec2014: National strategy & action

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی لائحہ عمل اور عمل
پاکستان کے کلیدی فیصلے ’اسلام آباد‘ سے ’راولپنڈی‘ منتقل ہوچکے ہیں‘ اِس ’نیم جمہوری طرز حکمرانی‘ سے خیر کے پہلو نکلنے کی قوئ اُمید رکھنے والے سایہ دار شجر کی تلاش میں ہیں‘ جہاں انہیں دکھ کی دھوپ سے نجات مل سکے جہاں بیٹھ کر اُن کے زخم مندمل ہوسکیں۔ سولہ دسمبر کے روز پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ کا سانحہ کسی بھی صورت معمولی واقعہ نہیں تھا‘ جسے دہشت گردی کی آئے روز ہونے والی دیگر وارداتوں کے ساتھ شمار کرتے ہوئے بھلا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چوبیس دسمبر کے دن کم و بیش بارہ گھنٹے کے باہمی مشاورتی اجلاس کے بعد ملک کی سیاسی قیادت جس اٹھارہ نکاتی نتیجے پر پہنچی‘ اُس ’قومی لائحہ عمل‘ پر اگر ’عمل‘ ہو جاتا ہے تو اِس سے آئندہ نہ صرف پشاور جیسے واقعات کے رونما نہ ہونے کی ضمانت مل جائے گی بلکہ عالمی سطح پاکستان کی ساکھ بھی بہتر ہوگی اور امن و امان کی عمومی صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ داخلی سلامتی کے لئے ’خطرات‘ بھی بتدریج ختم ہوتے چلے جائیں گے۔ وزیراعظم نے چوبیس دسمبر کی رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان بدل چکا ہے۔ سانحۂ پشاور نے پوری قوم کو غمزدہ اور ہلاکر رکھ دیا ہے۔ لہو کا حساب دینا ہوگا اور جلد دینا ہوگا۔ہم دہشت گردی کی فکر اور سوچ کا بھی خاتمہ کریں گے۔ قومی سیاسی رہنماؤں کا ’’متفقہ جامع ایکشن پلان‘‘ پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے تحت فوج کی قیادت میں عرصہ دو سال کے لئے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی ’خصوصی عدالتیں‘ قائم کی جائیں گی۔‘‘

کیا سیاست دان واجب الادأ ذمہ داریوں و فرائض کا بوجھ فوج پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ (خدانخواستہ) کسی دیگر بڑے سانحے (جس کی وہ خود ہی پیشنگوئی کر چکے ہیں) کے لئے اُنہیں موردالزام نہ ٹھہرایا جاسکے؟ کیا وجہ ہے کہ قومی سلامتی کو لاحق ہر خطرے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں جیسی حیثیت دینے کے لئے پہلے سے مرتب اصلاحات پر غور نہیں کیا جاتا؟ پاک افغان سرحد پر آزادانہ آمدورفت روکنے اور سرحد پار ٹھکانوں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا؟

دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والوں کے مقدمات کا فوری فیصلہ کرنے کے لئے جن عدالتوں کے قیام پر ’سیاسی قیادت نے اتفاق‘ کیا ہے ماہرین کے مطابق اس سے ’’خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لیکن اگر آئین کے آرٹیکل 245کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوج طلب کرلیتی ہیں تو یہ ’زیادہ مفید‘ اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ درحقیقت مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کو آنسو رُلانے والوں کو فوری طور پر سزائیں نہیں ملتیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’’افرادی قابلیت و تکنیکی صلاحیت اور پیشہ ورانہ تربیت ومہارت‘‘ اِس قدر نہیں کہ وہ دہشت گردی جیسے پیچیدہ اساسی‘ نظریاتی‘ فکری و عملی تحریک کا قلع قمع کر سکے۔

 امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مثال لیں جنہوں نے ’نائن الیون‘ واقعات کے بعد اپنا عدالتی نظام یا ملک فوج کے حوالے نہیں کیا بلکہ سخت گیر قسم کی نئی قانون سازی کی گئی‘ دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل اس کی منصوبہ بندی یا اسے عملی جامہ پہنانے والوں کو انجام تک پہنچانے کے عمل میں ’سرمایہ کاری‘ کی گئی اور سب سے بڑھ کر وفاقی سطح پر خفیہ ادارے کی صلاحیت و کردار میں اضافہ کیاگیا۔ امریکہ میں دہشت گردی کچلنے کے لئے صرف سخت قوانین ہی نہیں بنائے گئے بلکہ اُن قوانین پر بلاامتیاز سختی سے عمل درآمد کیا گیا حتیٰ کہ خود حکومتی اہلکاروں اور سیاسی قیادت کی نجی زندگیاں تک ٹٹول لی گئیں۔ ہمارے ہاں پوری توجہ‘ پوری سوچ اور پورے کا پورا ’زور‘ اِس بات پر ہے کہ جانی ومالی نقصانات کا مؤجب بننے والوں سے ’تیزرفتار معاملہ‘ ہونا چاہئے!

کیا ہم غاروں میں ہونے والی منصوبہ بندی سے غافل رہنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم شہروں میں سہولت کار بن کر حساس دفاعی و دیگر اہداف کے بارے میں معلومات جمع کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے سے خائف ہیں؟ کیا ہم دہشت گردوں کو سفری اور قیام وطعام کی سہولیات فراہم کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم نے خود پر اِس درجے کا ’تجاہل عارفانہ‘ طاری کر رکھا ہے کہ جیسے ہمیں ’سبب‘ مسبب اور علت‘ کے بارے میں واقعی کچھ علم ہی نہیں؟

صوبائی وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی کے بقول ’’خیبرپختونخوا کی مختلف جیلوں میں 193سزائے موت کے منتظر ہیں۔‘‘ محکمہ داخلہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں یہ تعداد صرف ایک قیدی کے فرق سے کم ہے تاہم اِن قیدیوں میں 10 ایسے ہیں جنہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے سزائے موت دے رکھی ہے لیکن اُن کے ’بلیک وارنٹس‘ تاحال جاری نہیں ہوئے کیونکہ اِن سزائے موت پانے والوں نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ’رحم‘ کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت سزائیں پانے والوں سے ’رحم کی درخواست اور آخری ملاقات‘ کرنے کا حق واپس لے لیا جائے‘ جنہوں نے پوری قوم کو رلایا‘ اُن کو نشان عبرت بنانے اور لاوارث دفن کرنا ہوگا کیونکہ فیصلہ چاہے تیزرفتار طریق سے ہو یا روائتی (سست رفتار) عدالت کرے‘ اصل مسئلہ تو سزا پر ’عمل درآمد‘ کا ہے۔ فوجی عدالتیں بھی اگر سزائیں دیں‘ جنہیں قانون کے مطابق سپرئم کورٹ میں ’نظرثانی‘ کے لئے پیش کردیا جائے پھر رحم کی درخواست دائر کرنے کا مرحلہ ہو اور یوں مجرم کی بجائے سزا ملنے کا معاملہ لٹکا رہے تو بات نہیں بنے گی۔ پشاور کی سنٹرل جیل میں سات‘ ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل میں چار‘ ہری پوری کی سنٹرل جیل میں ایک سو چالیس‘ بنوں کی سنٹرل جیل میں سولہ‘ تیمرگڑھ سنٹرل جیل (ملاکنڈ) میں چوبیس اور مانسہرہ کی سینٹرل جیل میں ایک قیدی ’موت کی سزا‘ پا چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 22 جیلیں ہیں جن میں چار سنٹرل جیل‘ دس ڈسٹرکٹ جیل‘ آٹھ سب جیل اور جوڈیشل لاک اپس ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے سزائے موت پانے والے سب سے زیادہ قیدی ’ہری پور سنٹرل جیل‘ میں ہیں لیکن وہاں ’پھانسی گھاٹ‘ نہیں! جن جیلوں میں سزائے موت پانے والوں کو رکھا گیا ہے‘ اُن کی حفاظت کے لئے غیرمعمولی اخراجات الگ سے برداشت کرنا پڑتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے تمام قیدیوں کو کسی ایک جیل میں اکٹھا‘ الگ اور غیراعلانیہ طور پر رکھا جائے؟ قانونی تقاضے و مراحل بھی نظرثانی چاہتے ہیں‘ کسی ملزم کو جب عدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو وہ ہائی کورٹ اور بعدازاں سپرئم کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور اگر سپرئم کورٹ بھی سزا برقرار رکھے تو مجرم صدر پاکستان کے نام ’رحم کی درخواست‘ کے ذریعے اُس وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک صدر پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہ آئے۔

سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت سے سزائے موت پانے والے (والوں) کو فوراً پھانسی نہیں دی جاسکتی! اگرچہ موجودہ صورتحال میں اِس بات کے اِمکانات کم ہیں کہ صدر پاکستان سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں کو عمرقید سے تبدیل کر دیں لیکن ’ایوان صدر‘ کو کسی واضح فیصلے پر پہنچنے میں نجانے مزید کتنا وقت لگے گا؟ دہشت گردی سے نجات کی راہ میں حائل آئینی تقاضے اُور رکاوٹیں (سپیڈبریکرز) عبور کرنے میں ’عملی تیزرفتاری‘ نجانے کب دیکھنے کو ملے گی؟

Wednesday, December 24, 2014

Dec2014: Remembering love-ones

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پیاروں کی یاد!
ایک ماں کا حوصلہ دیکھئے کہ ’’میں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کا دفن کیا ہے‘ روح کو نہیں۔‘‘ ایک باپ کی اُمید دیکھئے کہ ’’میرے لخت جگر کا خون کرنے والوں سے نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘‘ ایک بہن چاہتی ہے کہ ’’اُس کے بھائی کی طرح کسی کا بھی اِیسا انجام نہ ہو۔‘‘ ایک بھائی کی خواہش ہے کہ اُس کے گھرانے کی ’’قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے۔‘‘ جہاں درس و تدریس سے وابستہ افراد پہلے سے زیادہ پرعزم دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ ’’علم کے نور سے ظلمت کے اندھیروں کو مٹانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔‘‘ جہاں گلی محلے اور عزیزواقارب کے لئے یہ ساعتیں ذاتی غم جیسی ہوں‘ جہاں کے رہنے والوں کو شہید ہونے والے ہر بچے میں اپنے لخت جگر کے خدوخال دکھائی دیتے ہوں۔ یہی جذبات و احساسات اور تشویش ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کی اکثریت میں بھی پائی جاتی ہے جو ’خاطرخواہ اقدامات و انتظامات‘ کی صورت ایک ایسی جامع حفاظتی حکمت عملی کا نفاذ چاہتے ہیں جس کے بعد ’’سانحہ پشاور جیسے واقعات پھر سے نہ دُہرائے جا سکیں۔‘‘ سولہ دسمبر سے ’آرمی پبلک سکول‘ کے طالب علموں کے جنازوں کو کندھا دینے والے ’اہل پشاور‘ کے حوصلے پست دکھائی نہیں دے رہے‘ وہ خود کو کمزور نہیں بلکہ متحد اور پہلے سے زیادہ توانا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ جس محاذ پر انہیں ’حالات‘ نے لاکھڑا کیا گیا ہے‘ اُن کا مقابلہ کرنے میں وہ نہ تو مصلحتوں کا شکار ہیں اور نہ ہی مزید کسی قربانی سے دریغ کی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک ہی ہفتے میں ایک سو پچاس سے زائد قبریں کھودنے والے بھی خود پر تھکان غالب نہیں آنے دے رہے‘ کیونکہ جہاں مقصد اور جذبہ عظیم ہو وہاں موت اجسام کے لئے زندگی بن جاتی ہے۔ تیئس دسمبر کی شام ’محمد ابرار‘ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں میں اُن بچوں کے والدین اور عزیزواقارب بھی شریک ہوئے‘ جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے ہی روز شہید ہو گئے تھے۔ محمد ابرار چند روز تک ’کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ)‘ میں زیرعلاج رہا اور منگل (تئیس دسمبر) کی شام شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کے بعد سپردخاک کر دیا گیا! ’’تھی جس سے روشنی‘ وہ دیا بھی نہیں رہا: اب دل کو ’اعتبارِ ہوا‘ بھی نہیں رہا ۔۔۔ تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے: تو کھو گیا تو‘ اپنا پتہ بھی نہیں رہا۔‘‘ (اِعتبارساجد)۔
پیاروں کی یاد میں دُکھ کا اِظہار کرنے والوں کا اسلوب کہیں آنسو‘ آہیں اور سسکیاں ہیں تو کہیں الفاظ کے ذریعے دلی جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم چونکہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ’درسگاہوں میں بچوں کو نصاب کی کتب سے زیادہ جانب علم مائل نہیں کیا جاتا۔‘ مثال کے طور پر کتب بینی اور ڈائری (اپنی مصروفیات‘ سوچ یا گردوپیش ہونے والے واقعات کے حوالے سے یاداشتیں) لکھنے کی عملی طور پر ترغیب نہیں دی جاتی۔ ’بزم ادب‘کے نام سے سوسائٹیاں فعال نہیں کی جاتیں جن کی بدولت طلباء وطالبات میں اپنی ذات‘ سوچ اور محسوسات کو بیان کرنے کا سلیقہ و اسلوب آ جاتا ہے۔ شاید اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ ہمارے والدین کی اکثریت بچوں کو ڈاکٹر و انجنیئر (سائنسی علوم کا ماہر) بنانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے علم و ہنر خصوصاً فنون لطیفہ سے اُن کا تعلق ماہ وسال (عمر) کے بڑھنے کے ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم بچوں کے خیالات اور اُن کے محسوسات جاننے سے خوفزدہ نہیں تو یقیناًاِس گھڑی ہمیں اپنے بچوں کو باقاعدگی سے ’ڈائری‘ لکھنے کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے میں شہید ہونے والے ایک طالب علم اَرحم کے بڑے بھائی ’شہیرکی ڈائری‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجئے‘ جس کے جملوں سے ٹپکنے والی سنجیدگی اور بیان کی تہہ میں چھپا دکھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ’’میرے پیارے ارحم‘ اُس دن جب تم سکول جارہے تھے تو مجھے تمہارے چہرے پر پھیلی شناسا مسکراہٹ یاد ہے‘ تم ہر صبح کا خیرمقدم اِسی طرح ہشاش طبیعت سے کیا کرتے تھے۔ میں تمہاری اُس مسکراہٹ کو بہت یاد (miss) کرتا ہوں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اُس دن (سولہ دسمبر) کی صبح جب تم ہمارے ساتھ گاڑی میں سکول جا رہے تھے۔ سفر کے دوران ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے تم میرے ساتھ نوک جوک کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے جب ابو نے گاڑی سکول کے سامنے روکی اور تم حسب معمول مستعدی (تیزی) سے اپنا بستہ (سکول بیگ) اُٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ تم توانائی سے بھرپور تھے۔ تم ہمیشہ دوسروں سے اچھا برتاؤ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ تمہیں ہم سب کی تاریخ پیدائش یاد ہوتی اور ہمیں ’برتھ ڈے‘ کی یاددہانی کے ساتھ ایک دن قبل ہی تحفہ دے کر مسرور و حیران کر دیا کرتے تھے۔ ہم سب بھی تمہیں یکساں چاہتے تھے۔ امی کہہ رہی تھیں کہ اُس آخری رات (سولہ دسمبر) سے قبل جب ہم سب سو گئے تو تم نے دبے پاؤں آ کر ہمیں دیکھا تھا۔ اُو میرے چھوٹے بھائی! تمہیں جو ویڈیو گیمز (141video games) پسند تھیں‘ آج میں وہی بار بار کھیل رہا ہو! میں تمہارے سکول کی اُس کلاس (جماعت) میں بھی گیا‘ جہاں تم پڑھتے تھے۔ وہاں خالی کرسیاں اور بستے (بیگ) پڑے ہوئے تھے۔ سکول انتظامیہ نے ہر بیگ پر اُس کے بچے کا نام (tag) لکھ کر لگا رکھا تھا۔ تمہاری ٹیچر رو پڑی جب اُس نے مجھے تمہارا نشست اور بیگ دکھایا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ تم اگلی قطار میں اُن کے بالکل سامنے والی نشست پر بیٹھا کرتے تھے۔ ارحم‘ وہ تم سے واقعی میں بہت پیار کرتی تھی۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کیونکہ اگرچہ وہ بہت رو چکی تھی لیکن غم سے نڈھال اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں تمہارے ذکر پر پھر سے جاری ہو گئیں تھیں۔ ارحم! تم سے ہر کوئی پیار کرتا تھا کیونکہ تم بھی سب سے پیار کرتے تھے۔ میں جانتا ہوں‘ تم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہو اور بہت خوش بھی ہو۔ میں ہر روز نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں میرے خواب میں آنے اور مجھ سے باتیں کرنے کی صرف ایک بار ہی اجازت عطا فرمائیں۔ صرف ایک ہی مرتبہ‘ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے بات کر لو۔ اگرچہ ہم سب جانتے ہیں کہ تم ٹھیک ہو لیکن امی‘ ابو اور ہم سب چاہتے ہیں کہ تم سے ایک مرتبہ بات ہو جائے۔ اچھا‘ تم جہاں بھی ہو‘ وہاں اپنے دوستوں کا خیال رکھنا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ جنت کا ماحول کتنا خوشگوار اور معطر ہوگا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ تمہاری روشنی سے وہاں کا آسمان کتنا منور ہو گا۔ اپنا خیال رکھنا اَرحم (take care Arham) اور برائے مہربانی (please) مجھ سے خواب میں ایک مرتبہ ضرور ملنا۔ پلیز ایک مرتبہ۔ تم ایسا کرنے کی ایک مرتبہ کوشش تو کر ہی سکتے ہو؟ ہمیشہ کے لئے تمہارا بھائی‘ شہیر۔ ہاں یاد آیا‘ (PS): ’’تم نے انٹرنیٹ پر جو ویڈیو گیم ڈاؤن لوڈ (download) کرنے کے لئے لگائی تھی‘ وہ مکمل ڈاؤن لوڈ ہو چکی ہے!‘‘

Tuesday, December 23, 2014

Dec2014: Security necessities

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیکورٹی خدشات: الگ الگ تقاضے
پوری قوم ایک ’مشترکہ غم‘ سے گزر رہی ہے۔ سولہ دسمبر کے روز پشاور کے ایک سکول پر حملے نے سیاسی وغیرسیاسی اور دفاعی ہی نہیں بلکہ اِجتماعی ’قومی ترجیحات‘ کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ سارے مسائل ضمنی ہو گئے ہیں۔ توانائی سمیت دیگر بحرانوں سے توجہ ہٹ گئی ہے اور یک زبان مطالبہ ہے کہ ’پاکستان کی سلامتی کو لاحق داخلی خطرات سے مستقل بنیادوں پر نمٹا جائے۔‘ اس سلسلے میں ’’قومی سطح پر ’مشترکہ و متفقہ لائحہ عمل‘ کا اعلان ہونے والا ہے‘ جس سے ایسے عملی اقدامات کی توقع رکھنے والے چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو ’تحفظ‘ جبکہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کا احساس ہو۔‘‘ ماضی کی طرح اب صرف دلاسہ دینے سے کام نہیں چلے گا اُور یہ بات ارباب اختیار نے بھی سمجھ لی ہے کہ اُنہیں ذاتی و سیاسی مفادات و ترجیحات بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کو ’مسلط عذاب‘ سے نجات دلانا ہوگی۔ آخر دنیا کے کس ملک کی ایک سے زیادہ سرحدیں ہیں؟ ہماری ایک سرحد افغانستان سے ہے۔ دوسری سرحد افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں کے درمیان اور تیسری سرحد قبائلی و بندوبستی علاقوں کے درمیان ہے!

صوبائی دارالحکومت پشاور تین اطراف سے قبائلی و نیم علاقوں میں ’پھنسا‘ ہوا ہے‘ اِس کے علاؤہ ’رنگ روڈ و چارسدہ روڈ‘ کے کئی علاقے ’نوگو ایریاز‘ بن چکے ہیں جہاں کے لئے ’امن لشکر‘ ترتیب دیئے گئے۔ ’کیمونٹی پولیسنگ‘ کا تجربہ ہوا لیکن صورتحال جوں کی توں کشیدہ اور پولیس کے بس میں نہیں۔ سولہ دسمبر سانحے کے بعد صوبائی کابینہ کے غیرمعمولی اجلاس نے خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ کو اختیار دیا کہ اگر وہ ضروری سمجھتے ہیں تو پانچ سے چھ سو جوانوں پر مشتمل خصوصی دستہ تشکیل دیں جو مخصوص اہداف کے خلاف ’چھاپہ مار کارروائیاں‘ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ اِس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ ’’فوج کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ کمانڈوز (اِسپیشل سروسیز گروپ ’اَیس اَیس جی)‘‘ کی خدمات حاصل کی جائیں جنہیں پچاس پچاس اَفراد کے دستے میں تقسیم کرکے ’سرچ اَینڈ کلیئر مشنز‘ سونپنے سے بہتر نتائج حاصل ہونے کے روشن اِمکانات ہیں۔ اِن خصوصی دستوں کو یہ اِختیار (مینڈیٹ) بھی حاصل ہونا چاہئے کہ ’’وہ بندوبستی و قبائلی علاقوں میں یکساں کارروائیاں کر سکیں۔‘‘ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ نے جس طرح اِجتماعی اَنداز میں اَپنی ذمہ داری کا اِحساس کرتے ہوئے ’اَمن وامان کی صورتحال‘ پر غوروخوض اور مشاورت کی ہے‘ بالکل اِسی طرح کی دردمندی کا مظاہرہ منتخب اَراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں کرنا ہوگا۔

سول سوسائٹی کے جملہ اَراکین بشمول علاقائی ذرائع ابلاغ کو مشاورتی عمل میں شریک کر کے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں درپیش مختلف نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک ضلع میں امن وامان کی صورتحال دوسرے ضلع جیسی نہیں اور نہ ہی کسی ایک علاقے میں امن وامان کے حوالے سے ضروریات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ الگ الگ تقاضوں کے لئے الگ الگ حکمت عملیاں اِختیار کئے بناء چارہ نہیں۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو ’بلاوجہ اور بلاضرورت ایسی بیان بازی‘ سے گریز کرنا چاہئے‘ جس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اُور اُن کی خالی نگاہیں اور اُنگلیاں صوبے سے مرکز یا مرکز سے صوبے کی جانب اُٹھ رہی ہیں۔

 بائیس دسمبر کو تحریک انصاف کے سربراہ پشاور پہنچے‘ انتہائی کم سیکورٹی میں سفر کیا اور ’آرمی پبلک سکول‘ سے تعلق رکھنے والے غم زدہ خاندانوں سے ملاقات کے بعد تین مطالبات دہرائے ’’وفاقی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے خیبرپختونخوا کو خصوصی مالی وسائل دے۔ فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) اہلکار واپس کئے جائیں اُور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے سہولیات جبکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست کیا جائے کیونکہ اندیشہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت وہ دہشت گردی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘ اِن مطالبات کے حوالے سے وفاقی حکومت کی وضاحت آچکی ہے۔ پہلی بات تو ’ایف سی‘ سے متعلق ہے جس کی کل پانچ سو پلاٹون میں سے دو سو ساٹھ خیبرپختونخوا کے پاس جبکہ ایک سو سینتیس ملک گیر سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور 80پلاٹون کی خدمات اہم تنصیبات و شخصیات کی حفاظت کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسری بات خصوصی مالی وسائل کی ہے تو وفاقی حکومت اعلان کر چکی ہے کہ خیبرپختونخوا کو 26ارب روپے دیئے جائیں گے جبکہ وفاقی خزانے سے نقل مکانی کرنے والوں کو سہولیات کی فراہمی پر اب تک 30ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں!

اُنیس دسمبر کو ہوئے خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ ’افغان مہاجرین کی وطن واپسی‘ کے حوالے سے تجویز پر کسی نے مخالفت نہیں کی بلکہ اراکین کی ایک تعداد تو ایسی بھی تھی‘جس نے خیبرپختونخوا کے وسائل پر افغان مہاجرین کا بوجھ فوری طورپر کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاہم بعدازمشاورت‘ غوروخوض اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اِختیار کرتے ہوئے ’ایک ماہ‘ کی مہلت دی گئی۔ صوبائی وزیراطلاعات مشتاق اَحمد غنی کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت اُن سبھی معاہدوں کی پابند ہے جو وفاقی حکومت نے کر رکھے ہیں اور اگر کسی عالمی معاہدے کے تحت افغان مہاجرین کی ’فوری وطن واپسی‘ ممکن نہیں تو خیبرپختونخوا مہاجرین کی نقل و حرکت شہروں یا مقامی آبادیوں سے الگ خیمہ بستیوں تک محدود کر سکتی ہے۔‘‘

خوش آئند ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کابینہ اِس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں‘ جس کی بنیاد پر اُنہوں نے بینک کھاتے (اَکاونٹس) کھول رکھے ہیں اُور کاروبار و جائیدادوں کے مالک ہیں۔ پشاور میں گھروں و جائیداد کے کرائے اور قیمتوں کی آسمان سے باتیں کرنے کی ایک وجہ اَفغان مہاجرین اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہیں‘ جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں۔ اَلمیہ ہے کہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی آمدنی‘ جمع پونجی کی حقیقت اور اِس تناسب سے اَدا کئے گئے‘ ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرے۔ مضحکہ خیز ہے کہ ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بندوبستی علاقوں میں جائیدادیں خریدنے اور اپنے کاروبار پھیلانے کی کھلی چھوٹ ہے‘ یہ کھلی چھوٹ دینے والے کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی مٹھیاں گرم کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں ہوں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ مشکوک قومی شناختی کارڈوں کی اَزسرنو جانچ اور اُن تصدیقی مراحل کی سائنسی و طبی طریقوں سے پڑتال کی جائے۔ پاکستان کی ’قومی شناخت برائے فروخت‘ بنانے والوں کا بھی کڑا و لازمی اِحتساب ہونا چاہئے‘ جن کی لالچ و حرص نے ملک کو داخلی خطرات سے دوچار کر دیا ہے!

Monday, December 22, 2014

Dec2014: Not sufficient security measures

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حفاظتی انتظامات: نمائش ہی نمائش!
خیبرپختونخوا پولیس کو نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ گھر گھر جاکر رہائش پذیر خاندانوں کی تصدیق کرے اور جہاں کہیں بھی جائیداد کرائے یا کسی معاہدے کے تحت مالک کے زیراستعمال نہ ہو‘ تو ایسے تمام یونٹس کے کوائف مرتب کئے جاسکیں۔ درحقیقت تصدیق کا یہ پورا عمل ’خیبرپختونخوا کے ایک قانون کی اطلاقی شکل‘ ہے جسے منظور کرنے کا سہرا ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے سرجاتا ہے۔ ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے اور شہری و دیہی علاقوں میں روپوش ہونے والے سماج دشمن عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں اور ٹھکانے تلاش کرنے اور جائیداد کے مالکان کو کرائے داروں کے کوائف متعلقہ تھانہ جات میں جمع کرانے کی ہدایات ماضی میں بھی کئی مرتبہ دی جا چکی ہیں لیکن اس قانون پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ اگر کسی کرائے والی جائیداد کے استعمال اور حیثیت کے بارے میں متعلقہ تھانے کو کوائف فراہم نہیں کئے جاتے تو یہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ناقابل ضمانت جرم ہے لیکن کیا دہشت گرد اتنے غریب ہو چکے ہیں کہ اُن کی اکثریت کرائے کے گھروں ہی میں مقیم ہوگی۔ اگر قانون سازی کے ذریعے حکومت نے ایک بے قاعدگی ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو اس سے دوسری بلکہ زیادہ حساس و خطرناک نوعیت کی بے قاعدگی کی جانب دھیان نہیں دیا جارہا اور وہ یہ ہے کہ ’’جائیداد کے خریدار اِسے اپنے نام منتقل (رجسٹری) نہیں کرتے اور مختار ناموں پر جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔‘‘ اِس قانونی رعائت کا فائدہ دو قسم کے طبقات اُٹھا رہے ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں اور وہ جائیدادیں خرید تو رہے ہیں لیکن انہیں اپنے نام منتقل نہیں کرتے بلکہ جائیداد کسی نہ کسی مالک کے نام پر ہی رہتی ہے اور وہ صرف مختار نامے پر دستخط کروا کر قبضہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اِس قسم کا کاروبار کرنے والے ’عام لوگ‘ نہیں بلکہ تھانے اور کچہری کے معاملات سے آگاہ ہونے کے ساتھ اُن کے پاس ایسے افراد کے گروہ بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف کمزور لوگوں کی جائیدادیں قبضہ کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتے اور ایسی جائیدادیں قبضہ کرنے کے بعد اُونے پونے داموں خرید لیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کو بذریعہ قانون سازی توجہ دینا ہوگی کہ جائیداد کا ’مختار نامہ‘ صرف اور صرف ایک ماہ (چار ہفتوں) ہی کے لئے کارآمد ہو۔ شہری و دیہی علاقوں میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے والے ’سہولت کاروں‘ کی جانب سے تاحال توجہ نہیں دی جارہی جو قانون کی ناک کے نیچے نظروں سے اُوجھل ہیں۔

جائیدادوں کے کوائف جمع کرنے کے لئے اختیار کردہ طریقہ کار انتہائی غیرسنجیدہ اور غیرسائنسی ہے۔ پولیس کی ٹیمیں کسی محلے‘ کالونی یا علاقے میں جا کر گھر گھر دستک دیتی ہیں اور چونکہ یہ کام اُن اوقات میں کیا جاتا ہے جبکہ گھر کے مرد کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں گھر پر نہیں ہوتے اِس لئے خواتین سے نام اور موبائل نمبر پوچھ کر ’خانہ پُری‘ کر لی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں google map جیسی مفت سہولت اور gps جیسے آلات کا استعمال کیا جائے تو نہ صرف ’خانہ شماری‘ زیادہ پرمعنی اورجامع ہو سکے گی بلکہ کسی علاقے میں بننے والے نئے مکانات یا چاردیواریوں سے متعلق بھی سال بہ سال رپورٹ بنانا ممکن ہوگی۔ اس کے علاؤہ متعلقہ تھانہ ہر گھر‘ دکان‘ ہوٹل‘ فلیٹ‘ پلازے‘ مارکیٹ یا کسی بھی چاردیواری (یونٹ) کو الگ شناختی نمبر دے سکے گا اور اگر سروے کرنے والا پولیس عملہ تبدیل بھی ہو جائے تو نئے آنے والوں کو ماضی میں کئے گئے سروے کو سمجھنا آسان ہوگا۔ ٹیکنالوجی کو اختیار کئے بناء چارہ نہیں اور المیہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز ٹیکنالوجی کے استعمال سے خائف رہتے ہیں۔

گھر گھر کوائف جمع کرنے کی مہم کے دوران موبائل فون سموں کی جانچ پڑتال بھی ممکن ہے جبکہ بائیومیٹرکس کے ذریعے خاندان کے سربراہ اور دیگر اراکین کے انگوٹھوں کے نشانات بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اِس عمل سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جنہوں نے ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ حاصل نہیں کررکھے اور اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر اُنہوں کون کون سی دیگر دستاویزات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ علاؤہ ازیں اگر جعلی دستاویزات پر افغان مہاجرین نے شناختی کارڈز حاصل کر بھی رکھے ہیں‘ تو ان کے کوائف کی ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سے تصدیق کرائی جا سکتی ہے یعنی ایک تیر سے دوشکار ممکن ہیں۔

موبائل فون کے ذریعے ہر ایک شناختی کارڈ پر جاری ہونے والے فون کنکشنز کی تعداد‘ نمبروں اور دیگر کوائف کی تصدیق کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس کے لئے ٹیکنالوجی کے اپنانے اور اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اَفغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے ساتھ بہت سا ایسا الیکٹرانک سازوسامان مارکیٹ میں دستیاب ہے‘ جو حساس نوعیت کے ہیں اور دہشت گرد وارداتوں کی منصوبہ بندی میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ ’فون سگنلز منقطع (جام)‘ کرنے کے آلات‘ اَندھیرے یا کم روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی دوربینیں‘ فوجی مقاصد کے لئے تیار کی گئیں GPS ڈیوائسیز‘ وی ایچ ایف اور جی ایس ایم فریکونسی پر کام کرنے والے وائرلیس آلات‘ گیس ماسک‘ بلٹ پروف جیکٹس اور فوجی وردیاں وغیرہ۔ ایسی بہت سی دیگر چیزیں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن کا ذکر یہاں نہیں کیا جارہا لیکن اُن کی کھلے عام فروخت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کرنے والے آلات کی کھلے عام فروخت اور گھر بیٹھے ایسی مصنوعات چند ہزار روپے کے عوض خریداری اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے عزم تو کر رکھا ہے لیکن عملی طور پر جذباتی و نمائشی اقدامات سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔

Sunday, December 21, 2014

Dec2014: Cell phones and security

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیکورٹی خدشات: موبائل فون
خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی کے بقول صوبائی کابینہ (مراد حکومت) نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’غیرقانونی موبائل فون کنکشنز بالخصوص افغانستان سے جاری کردہ موبائل فون سموں (SIMs) کے پاکستان میں استعمال (roaming) پر فوری پابندی عائد کی جائے۔‘‘ یہ مطالبہ اُن ایک درجن سے زائد مطالبات کا حصہ ہے جو سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پشاور پر ہوئے حملے کے بعد سرکاری طور پر سرکار ہی سے کئے گئے۔ صوبائی کابینہ کے غیرمعمولی اور ہنگامی اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر غوروخوض کے دوران ’افغان فون سموں‘ کی طرح ’افغان مہاجرین‘ کی وطن واپسی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا‘ بقول وزیراطلاعات ’’خیبرپختونخوا کے وسائل پر پندرہ لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ مزید برداشت کرنے کا جواز باقی نہیں رہا کیونکہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زائد افراد بھی خیبرپختونخوا ہی میں قیام پذیر ہیں۔ ہم مطالبہ کر چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں کی الگ آئینی حیثیت ختم کرکے اسے یا تو بندوبستی علاقوں کا حصہ بنایا جائے یا پھر اِسے الگ صوبہ بنا دیا جائے کیونکہ قبائلی علاقوں سے متصل بندوبستی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی جملہ کوششیں اُس وقت تک ادھوری ثابت ہوں گی‘ جب تک قبائلی علاقوں کا الگ حیثیت سے وجود باقی رکھا جائے گا۔‘‘

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو ورثے میں ملنے والے کئی ایک مسائل ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی شدت دوسرے سے زیادہ ہے۔ یوں تو قبائلی علاقے وفاقی حکومت کی براہ راست نگرانی میں آتے ہیں لیکن جہاں تک نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی ضروریات کا تعلق ہے تو یہ ذمہ داری غیراعلانیہ طور پر صوبائی حکومت پر ڈال دی گئی ہے۔ وفاق کے پاس قبائلی علاقوں کے لئے الگ سے مالی وسائل ہوتے ہیں‘ جنہیں صوبائی حکومت کو منتقل نہ کرنے کے باعث خیبرپختونخوا کے خزانے پر بوجھ اب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ صوبے میں ترقی کا عمل سست رفتار ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مالی وسائل دیگر ترجیحات کی نذر ہو رہے ہیں لیکن اس پورے منظرنامے میں سب سے اہم بات ’امن و امان‘ کی غیریقینی صورتحال کو معمول پر لانے کی ہے‘ جس کے لئے جملہ خطرات بشمول ’افغان سم‘ اور ’افغان مہاجرین‘ سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔

پشاور کے ایک تعلیمی ادارے پر حملہ کرنے والوں نے مجموعی طورپر گیارہ موبائل فون سمز اِستعمال کیں‘ جن میں سے ایک ’سم‘ ایسی بھی تھی جو میلوں دور رہنے والی خاتون کے نام جاری (رجسٹر) کی گئی تھی‘قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’کمال مستعدی‘ سے خاتون اور اُس کے اہل خانہ کو شامل تفتیش تو کرلیا ہے لیکن ’انجان ناموں‘ پر موبائل فون کنکشن جاری کرنے کے ’دھندے‘ پر تاحال ہاتھ نہیں ڈالا۔ کیا دہشت گرد بیوقوف ہیں جو اپنے اصل ناموں اور کوائف سے موبائل فون کنکشن حاصل کرنے کے بعد اُنہی موبائل کنکشنوں کا استعمال ایسی وارداتوں کے لئے کریں‘ جن کی سنگینی کا اُنہیں بخوبی اندازہ ہے! جس ملک میں موبائل فون کمپنیوں کو محض اپنے منافع میں غرض ہو‘ جہاں ملٹی نیشنل (غیرملکی) موبائل فون کمپنیوں کے لئے قواعد و ضوابط اور انہیں پاکستان کے داخلی قوانین کا پابند بنانے کے لئے ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی‘ نامی ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے باوجود جملہ قواعد وضوابط اور قوانین پر عمل درآمد کرنے کی عملی مثالیں نہ پائی جائیں‘ جہاں عدالت کے احکامات خاطر میں نہ لائے جائیں‘ جہاں قوانین میں موجود گنجائش اور رعائت کا فائدہ اُٹھانے کے لئے بھاری فیسوں کے عوض وکلاء کی خدمات سے استفادہ کرنے کی روایت موجود ہو‘ جہاں کے سیاسی و افسرشاہی کرداروں میں یہ رجحان پایا جائے کہ وہ (اِجتماعی طور پر) معاشرے کے لئے خطرات بننے والے محرکات کو محض ذاتی مفاد کے لئے نظراَنداز کردیں‘ جہاں غلط کوائف پر ’موبائل کنکشن‘ حاصل کرنا ’ناممکن‘ نہ رہا ہو‘ جہاں ’بائیو میٹرکس (انگوٹھے کے ذریعے) تصدیق کا نظام تو لازمی قرار دیا جا چکا ہولیکن ہر موبائل فون کنکشن کی ’ازسرنو تصدیق‘ کرانے کو ضروری نہ سمجھا جائے‘ جہاں تعلیمی اِدارے تو ہفتوں اور مہینوں بند کئے جا سکتے ہوں لیکن سیکورٹی کے لئے (یکساں طور پر زیادہ بڑے خطرے یعنی) موبائل فون کے کنکشنوں کو ایک دن کے لئے بھی بند کرنے اور ہر کنکشن کی ’اَزسرنو تصدیق و اجرأ‘ جیسی تجویز کو ناقابل عمل نہ سمجھا جائے وہاں رسمی اِقدامات و انتظامات سے دہشت گردی جیسی منظم و پیچیدہ فکری‘ نظریاتی اور عملی تحریک کو شکست دینا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

پہلا منظرنامہ: پشاور کے ’تبلیغی مرکز‘ میں بم دھماکہ ہوا لیکن عمارت کے ایک حصے میں ’jammers‘ نصب ہونے کی وجہ سے دو عدد بم نہ پھٹ سکے۔ جب بم ناکارہ بنانے والے دستے نے بارودی مواد کو الیکٹرانک نظام سے الگ کیا تو معلوم ہوا کہ دو بموں پر 4 موبائل سمیں نصب تھیں اور نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جو ایک دھماکہ ہوا‘ اُس میں بھی موبائل سم ہی استعمال کی گئی ہو گی۔ یہ چاروں سمیں فعال (active) تھیں اور جعلی ناموں پر رجسٹرڈ پائی گئیں!

دوسرا منظرنامہ: 
پاکستان کے ایک موبائل نمبر سے کینیڈا کے صدر کو دھمکی آمیز فون کال کے بارے میں بھی تحقیقات سے یہی علم ہوا کہ وہ جعلی نام پر رجسٹرڈ تھی۔ تیسرا منظرنامہ: سولہ دسمبر کے سکول حملے سے کم و بیش ڈیڑھ برس قبل ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے اِن غیرقانونی موبائل کنکشنوں کے بارے ’ازخودنوٹس (سوموٹو)‘ لیا تھا لیکن اٹھارہ ماہ میں دو چیف جسٹس بدل گئے اور سماعت خاطرخواہ منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر جاری ہے! چوتھا منظرنامہ: جہاں ہر جرم میں ’غیرقانونی موبائل فون کنکشن‘ استعمال ہو رہا ہو‘ جہاں کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے مرتب کردہ اعدادوشمار یہ کہہ رہے ہوں کہ سات ہزار بم دھماکوں میں چار ہزار سے زائد دھماکے موبائل فون کنکشنوں کے ذریعے کئے گئے ہوں‘ وہاں یہ طرز عمل‘ یہ ’تجاہل عارفانہ‘ تعمیری نہیں بلکہ تخریبی سوچ کا عکاس ہے۔ کاش حب الوطنی کی تلقین اور اسے آئینی طورپر لازمی قرار دینے والے اپنے قول و فعل اور موبائل فون کمپنیوں کی حرص و طمع کا جائزہ لیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں موبائل فون‘ جائیداد اور گاڑیوں کی اپنے نام منتقلی کی بجائے دوسروں کے ناموں پر رجسٹرڈ کرکے استعمال کرنے کے (آئینی) امکانات موجود ہیں؟ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں ’مختار نامہ‘ کے ذریعے جائیداد و گاڑی کی ملکیت رکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا وقت دیا جائے اور اگر وہ اِس عرصے میں جائیداد یا گاڑی اپنے نام منتقل نہ کریں تو مختارنامہ ازخود منسوخ قرار دے دیا جائے۔ غیرقانونی ذرائع سے مالی وسائل حاصل کرنے والے جائیداد مختار ناموں کے ذریعے اپنی ملکیت میں رکھتے ہیں اور مختار ناموں ہی کے ذریعے خریدوفروخت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ لامتناہی مدت تک مختارنامہ رکھنے کی قانونی اجازت موجود ہے۔ کیا اِس قانونی رعائت اور ’جائز‘ بے قاعدگی کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے؟

Saturday, December 20, 2014

Dec2014: Wakeup call

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بیداری بہ طرز اَفراتفری!
محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کی جانب سے وضاحت سامنے آئی ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ پر ممکنہ دہشت گردی کے حملے سے متعلق موصول ہونے والی خفیہ اِداروں کی اِطلاعات پر مذکورہ سکول سمیت سبھی تعلیمی اِداروں کو غیرمعمولی حفاظتی انتظامات کرنے سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کی حفاظت کس طرح ممکن بنائی جاسکتی ہے جبکہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور سینکڑوں کی تعداد میں نجی گاڑیوں کی ہر روز آمدورفت ہوتی ہو؟ ایسے سکول بھی ہیں جن کے اندر ہاسٹلز (رہائشگاہوں) میں طلباء وطالبات کل وقتی طور پر مقیم رہتے ہیں جبکہ مقامی بچے (ڈے بوڈرز) درسگاہوں کے مقررہ اُوقات میں سہولیات سے الگ استفادہ کرتے ہیں اور اِس قدر پرہجوم ماحول میں ہر آنے جانے والے پر نظر رکھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ابھی سائنس نے اس حد تک ترقی نہیں کی اور ایسے الیکٹرانک آلات ایجاد نہیں ہوئے‘ جو ’انسانی نیت‘ بھانپ سکیں‘ اِس لئے ہر کس و ناکس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے بناء چارہ نہیں۔

کیا ہمارے اَرباب اِختیار جاگ اُٹھے ہیں یا اَفراتفری کا شکار ہیں؟ نیا حکمنامہ سامنے آیا ہے کہ اب کے بعد‘ کسی بھی درجے کا سکول کھولنے کے لئے ضلعی انتظامیہ سے ’اِجازت نامہ (این اُو سی)‘ حاصل کرنے کو لازمی قرار دیاگیا ہے لیکن اگر یہی کام متعلقہ بورڈز کی سطح پر ’ایجوکیشن ریگولیٹری اِتھارٹی‘ کے سپرد کر دیا جاتا‘ جو پہلے ہی اُن کے دائرہ اختیار میں ہے اور قواعد کی رو سے اِس ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ ہی کو یہ کام کرنا چاہئے۔ قابل افسوس ہے کہ ہمارے ہاں سکول پہلے قائم ہوتا ہے اور اجازت نامہ بعد میں حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور ہی میں ایسے درجنوں سکول ہیں جن کے پاس اجازت نامے نہیں لیکن وہ گلی گلی فعال ہیں۔ کسی سکول کے قیام کے لئے کم از کم کمروں کی شرط اور دیگر ضروری بنیادی سہولیات کے ساتھ تدریسی عملے کی تنخواہوں اور تعلیمی قابلیت سے متعلق قواعد بھی عملی اطلاق چاہتے ہیں۔ عمومی رویہ یہی ہے کہ شہر کے کم آمدنی والے علاقوں میں قائم سکول چند ہزار روپے کے عوض خواتین معلمات کی خدمات حاصل کرکے دکانیں کھولے بیٹھے ہیں اور ایسے غیرمعیاری تعلیمی اداروں نے تو اپنی ایک عدد یونین بھی بنا رکھی ہے! سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے۔ تعلیمی ادارے ’مشرومز‘ کی طرح ’خودرو جھاڑیوں‘ جیسے ہیں‘ جن پر پھل پھولوں سے زیادہ خار دکھائی دے رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کے سانحے کے بعد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ گلی گلی اور محلے محلے فعال نجی تعلیمی اداروں کو کم سے کم معیار تعلیم اور حفاظتی انتظامات سے متعلق قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کیونکہ معاملہ ایک طرف ہمارے مستقبل کا ہے تو دوسری جانب قیمتی انسانی جانیں کاروباری ذہنیت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ سب سے پہلے تو ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو فعال کرنے یا بااختیار‘ خودمختار یا اہلیت کی بنیادوں پر اَزسرنو مرتب کیا جائے۔ سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ عملی طور پر نجانے کب ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں میں باہمی تعاون اور انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرنا میں نجانے کیا مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں‘ تاکہ دہشت گردی کے کسی ممکنہ خطرے‘ اندیشے یا حفظ ماتقدم کے طورپر ’بچاؤکی تدبیر‘ کی جاسکے۔ ضلعی اِنتظامیہ کو ’اِیجوکیشن ریگولیٹری اَتھارٹی‘ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور بجائے خود اِس معاملے میں ٹانگ اَڑانے اور ایک الگ حکومتی محکمے کے دائرہ اِختیار میں گھسنے سے الگ تدبیر اِختیار کرنی چاہئے تاکہ ’’گھی سیدھی اُنگلی‘‘ ہی سے نکل آئے۔ تیسری بات سرکاری تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے حوالے سے ہے۔

نجی اِدارے تو اپنے وسائل بھی رکھتے ہیں اور اُن کے مالکان میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے بیمے کرانے کی سوچ بھی پائی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بچے چونکہ نجی تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے ہیں‘ اِس لئے سارا زور اُن سکولوں پر ہے‘ جہاں پہلے ہی چاردیواریوں کے اندر جھانکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیا کسی نے جی ٹی روڈ کنارے یا قبرستانوں میں قائم تعلیمی اداروں کے بارے میں سوچا ہے‘ جہاں ایک ایک جماعت میں ایک سے زیادہ کلاسیں لگی ہوتی ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت سرکاری سکولوں میں ابھی تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بیت الخلأ جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو بھلا کیونکر وہاں سی سی ٹی وی کیمرے‘ خاردار تاروں کی تنصیب اُور محافظوں کی تعیناتی ممکن ہو سکتی ہے۔ جس صوبے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد آبادی کے تناسب سے کم ہو‘ وہاں ہر سرکاری سکول کی حفاظت عملاً ممکن نہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ اگر دہشت گرد کسی تعلیمی اِدارے یا سرکاری دفتر کو نشانہ بنانا چاہیں تو ایسا کرنے میں عجلت یا جلدبازی سے کام نہیں لیتے۔ یہ بات راز نہیں کہ عسکریت پسندی میں استعمال ہونے والے مالی وسائل یا تو منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے یا براہ راست بھتے کی صورت حاصل ہوتے ہیں اور اِس پورے عمل کے لئے قبائلی سرزمین استعمال ہوتی ہے۔ یہ گھڑی نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں کو اپنی اپنی حفاظت پر نظرثانی کرنے کی تلقین کرنے کی آڑ میں خفیہ اطلاعات کے نیٹ ورک کو مزید فعال کرنے کی ہے۔

غاروں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والوں سے زیادہ اُن کرداروں کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ جو چھوٹے بڑے شہروں اور قریبی دیہی علاقوں میں ’’سہولت کار‘‘بنے ہوئے ہیں‘ دہشت گردوں کی رہنمائی اور اُنہیں معلومات فراہم کرنے والے ’نیٹ ورک‘ ہماری ناک کے نیچے قائم ہیں۔ جب تک ہم ’نوگوایریاز (قبائلی و نیم قبائلی علاقے)‘ ختم نہیں کرتے‘ تب تک سیکورٹی کے حوالے سے یونہی سوچ کا ہر زاویہ‘ ہر احتیاط اور ہر تدبیر ناکام ثابت ہوتی رہے گی اور ہم یونہی پیاروں کی اموات اور اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہیں گے!

Friday, December 19, 2014

Dec2014: Unity with aim

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بامقصد یک جہتی
خیبرپختونخوا کی مسیحی برادری کا یہ جذبۂ واجب الاحترام ہے کہ اُنہوں نے اپنی عید (کرسمس) کے تہوار کی جملہ تقریبات منسوخ کرتے ہوئے نئے سال کی آمد کو اِس مرتبہ سادگی سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سانحۂ پشاور کی یاد میں ہر دل مغموم ہے۔ بدقسمت پشاور کی اس سے بڑی خوش قسمتی اُور کیا ہوگی کہ آج کی تاریخ میں ہر مذہب‘ قوم‘ قبیلے اور زبان سے تعلق رکھنے والوں کے دل ’پشاور کے ساتھ دھڑک‘ رہے ہیں۔ ہر آنکھ پشاور کے ساتھ پرنم ہے اور ہر دل پشاور کے ساتھ رو رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ’مسیحی برادری‘ کے مغموم نوجوان‘ بچے‘ بزرگ اور خواتین ایبٹ آباد کے مرکزی گرجا گھر میں جمع ہوئے۔ دعائیہ تقریب ہوئی‘ آنسوؤں‘سسکیوں اور آہوں میں آرمی پبلک سکول کے اُن بچوں‘ اساتذہ اور عملے کا ذکر کیا گیا‘ جنہیں سولہ دسمبر کی صبح بے رحمی سے قتل کرنے والے شقی القب حملہ آوروں نے بربریت کی انتہاء کر دی۔ حقیقت یہی ہے کہ پشاور کی ایک درسگاہ میں ہونے والی ایک سو پچاس ہلاکتوں میں ہر شخص کو اپنا اہل خانہ کی صورتیں دکھائی دے رہی ہیں‘ جس کی وجہ سے صبر نہیں آ رہا۔ تسلی کے الفاظ تاثیر کھو چکے ہیں اور ضبط کی ہزارہا کوشش کے باوجود بھی آنسو رُک نہیں پا رہے۔ ’’مائیں دروازے کو تکتی ہیں مگر اَب بچے۔۔۔سیدھے سکول سے جنت کو چلے جاتے ہیں!‘‘ سانحۂ پشاور صرف قوم کے ضمیر کو ہی نہیں جھنجوڑنے بلکہ فوجی و سیاسی قیادت کے جگانے کا باعث بھی بنا ہے۔ ایک طرف پوری قوم یک جان و یک قالب ہے تو دوسری جانب قیام پاکستان جیسا جوش و جذبہ اور ’بامقصد قومی و سیاسی یک جہتی‘ سے تعمیری پہلوؤں اُبھر کر سامنے آنے کے آثار نمایاں ہیں‘ الغرض ہر کس و ناکس کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ ’پاکستان کی سلامتی و استحکام کو لاحق اُن تمام داخلی خطرات سے پہلے نمٹا جائے۔‘‘
سانحۂ پشاور کی ’سنگینی‘ سے کسی کو انکار نہیں لیکن جس انداز میں الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے ادارے (بالخصوص نجی ٹیلی ویژن) اِس ’موقع‘ سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ افسوسناک ہے۔ وہ دلخراش مناظر جنہیں سولہ دسمبر کو دیکھنے کی سکت نہیں تھی‘ اُنہیں اُنیس دسمبر تک بار بار دکھائے جانے کی وجہ سے لاشعوری طور پر پوری قوم کو ایک مسلسل کرب کی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ ایک سیدھے سادے دہشت گردی کے واقعے کو غم زدہ گانوں اور موسیقی کے ساتھ نکھارنے اور اسے پرکشش بنا کر پیش کرنے میں ہر نیوز چینل دوسرے سے ایک قدم آگے ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نیوز ٹیلی ویژن جیسی حساس ملازمت کرنے والوں کے لئے کم سے کم کوئی تعلیمی قابلیت ہی شرط ہوتی۔ اُن کا اعصابی اور ذہنی طاقت و ذہانت کا امتحان ہوتا۔ صحافیانہ اقدار تو دور کی بات بطور انسان پیشہ ورانہ ذمہ داریاں‘ فرائض‘ حساسیت اور بالخصوص اچانک کسی سانحے کی صورت ’ردعمل‘ کیا ہونا چاہئے یہ ایک الگ موضوع ہے‘ جس پر جتنا غوروخوض اور بحث درکار ہے‘ اُس کے لئے ہمارے پاس بدقسمتی سے وقت نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے پیچھے سائے کی طرح لگے دکھائی دیتے ہیں جبکہ صحافیوں کی تنظیمیں اُور پریس کلب اپنی اپنی حیثیت میں اُن مالی وسائل کو ہضم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘ جو اُنہیں حکومتی و غیرحکومتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی تربیت کے لئے جب بیرون امداد آتی ہے تو اس سے بھی نام نہاد ’سینئر پیشہ ور‘ اور ’تجربہ کار معلم‘ ہی مستفید ہوتے ہیں۔ حرص کے ایک لامتناہی سلسلے اور سوچ ہی کا شاخسانہ ہے کہ ’’ذرائع ابلاغ کے ہاں نہ تو تعمیری تنقید ملتی ہے اور نہ ہی وہ ’خبرنگاری کی ذمہ داری خالصتاً اَدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ چال کی عمدہ مثالیں قائم کرتے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے پیشے و مقصد سے کتنا انصاف کر رہے ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خود سے پوچھنا ہوگا کہ اگر اموات اُن کے اپنے عزیزوں کی ہوتیں تو کیا وہ اُن کا بھی اسی قسم کا تماشا و تشہیر کرتے؟ کیا وہ اپنی ماؤں بہنوں اور غم سے نڈھال بیٹیوں کے ننگے سروں کی پوری دنیا میں نمائش کرنا پسند کرتے؟ اگر ایک ظلم حملہ آوروں نے کیا تو شریک جرم قاتل وہ بھی ہیں جو خبر سے خبر کا آخری قطرہ کشید رہے ہیں۔ ’’قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں: اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے!‘‘
آخر یہ حق کسی بھی ٹیلی ویژن یا کیمرہ مین (فوٹوجرنلسٹس) کو کس نے دیا ہے کہ وہ کسی سانحے کا شکار ہونے والے متاثرین کے آنسوؤں اور فرط جذبات میں چیخ و پکار کو اپنی سوچ کے مطابق جب تک چاہے استعمال کرے؟ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قواعد وضوابط میں ’حساس نوعیت‘ کے اُن سوالات کو شامل نصاب کیوں نہیں کیا جاتا جن کا تعلق ذہنی و فکری افراتفری پھیلانے سے ہے؟ مادرپدر آزادی دینے کا مقصد سوائے انتشار پھیلانے کے کیا کچھ اُور بھی ہے؟ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ غیرملکی ہم عصر اداروں سے سنجیدگی کیوں نہیں سیکھتے‘ جن کا لب و لہجہ زبان و بیان بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہماری سوچ ہمارے عمل اور اَلفاظ کی طرح واضح نہیں۔ ایک طرف ’گھوڑے اور گھاس‘ نے دوستی کر رکھی ہے اور دوسری طرف محض مالی مفاد (ratings) کے لئے پوری قوم کو ’ذہنی مریض‘ بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اَخبارات میں شائع ہونے والے ہر لفظ کی طرح ’الیکٹرانک میڈیا‘ کا ہر منٹ و سیکنڈ کہیں نہ کہیں اَثر کر رہا ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اُن بیرون ملک پاکستانیوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جنہیں ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ تو دکھایا جاتا ہے لیکن ذرائع ابلاغ اُن کے حل تجویز کرنے یا قومی مفاہمت کے لئے ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ المیہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینل دائیں اور بائیں بازو کے دھڑوں میں تقسیم ہیں اور یہ تقسیم اِس قدر واضح ہے کہ اب تو کسی جماعت کا نکتۂ نظر معلوم کرنے کے لئے مخصوص چینلوں کو دیکھا جاتا ہے۔ اِس قسم کی چھاپ ایک وقت تک انفرادی حیثیت میں صحافیوں تک محدود تھی اور اب بھی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا نے تو صحافتی بددیانتی کی ایک ایسی تاریخ رقم کرنا شروع کر رکھی ہے جس سے ہمیں پاکستان کا صحافتی ماضی ’درخشاں‘ دکھائی دینے لگا ہے۔

Thursday, December 18, 2014

Dec2014: Decisive moments

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فیصلے کی گھڑی
سولہ دسمبر کے دن طلوع ہونے والا سورج غروب نہیں ہورہا۔ وہ ایک دن بہت طویل ہو چکا ہے! دکھ کی ساعتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اور پھول جیسے بچوں کے جنازوں کو کندھا دینے والوں پر گزرنے والی قیامت صغریٰ کی شدت کم نہیں ہورہی۔ انصاف کے متلاشیوں کی نظریں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر لگی ہوئی ہیں جو اپنے فرض سے غافل نہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ ’ناصر درانی نے آرمی پبلک سکول پر حملے کو انسانی تاریخ سب سے زیادہ شرمناک اور اندوہناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بچوں کا خون ہم پر قرض ہے اور اس قرض کو لازمی ادا کریں گے۔‘‘

پولیس سربراہ جس غم و غصے اور دکھ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں‘ اُس میں وہ تنہا نہیں۔ کراچی سے پشاور تک ہرباضمیر و دردمند انسان بلاتفریق رنگ و مذہب ’پشاور کے ساتھ اظہار یک جہتی‘ کر رہا ہے۔ عیسائی برادری کی جانب سے کرسمس تقریبات کے سلسلے میں روائتی جشن اور میلے ملتوی کرنے کا اعلان اپنی جگہ اہم اور اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کی لڑی میں سبھی مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا قومی سطح پر پائے جانے والے اِس ’اتفاق رائے‘ کو غنیمت جانتے ہوئے وہ مشکل فیصلے ہو پائیں گے‘ جنہیں کرنے کے لئے ملک کی سیاسی قیادت پر پہلی مرتبہ عوام کی جانب سے انتہائی کا دباؤ دیکھا جا رہا ہے؟

سردست سوال یہ ہے کہ ’’پشاور سانحے کے پس منظر میں کیا حکومت کو پھانسی کی سزا پر عائد پابندی اُٹھانے کا فیصلہ درست اقدام ہے؟‘‘ اِس حوالے سے ملک گیر سطح پر کئے گئے سروے کے نتائج حیرت انگیز طور پر واضح ہیں۔ 97.28فیصد نے ’ہاں‘ جبکہ 2.72فیصد پاکستانیوں نے ’نہیں‘ میں جواب دیا ہے لیکن پھانسیوں پر عائد پابندی اُٹھانے کا معاملہ اِس قدر آسان نہیں جتنا کہ عمومی طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی ہٹائے جانے کے بعد سات ہزار 135 قیدیوں کو سزائے موت دینے کی راہ ہموار ہو جائے گی تاہم قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ دہشت گردوں اور فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کے علاؤہ دیگر پر یہ نیا حکمنامہ اثر انداز نہیں ہو گا۔

بیرسٹر ظفر اللہ خان کی جانب سے سپرئم کورٹ میں دائر درخواست پر یہ اعدادوشمار وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں جمع کرائے تھے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ سزائے موت کے منتظر وہ قیدی جو اٹھارہ سال کی سزا کاٹ چکے ہیں لہٰذا اُن سب کو رہا کر دیا جائے۔ تاہم آزاد اداروں کے اعدادوشمار حکومتی اعدادوشمار سے مختلف ہیں جہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 6 ہزار 424‘ سندھ میں 355‘ خیبر پختونخوا میں 183‘ بلوچستان میں 79اور گلگت بلتستان میں 15سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔

صوبہ پنجاب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو لاہور ہائی کورٹ میں سزائے موت کی دائر چار ہزار 981 درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پندرہ‘ سپرئم کورٹ میں 893جبکہ اسی طرح کی تین درخواستیں جنرل ہیڈکوارٹرز میں بھی التوأ کا شکار ہیں۔ اسی طرح صدر کے پاس بھی 463 سزائے موت کے مجرم قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جبکہ 69کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کی اعلیٰ عدلیہ ہائی کورٹ میں 266درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پانچ‘ سپرئم کورٹ میں 48جبکہ جی ایچ کیو میں تین درخواستیں جبکہ گورنر سندھ کے پاس بھی ستائیس قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جن میں سے چھ کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ’ایک سو دو‘ درخواستیں توجہ کی منتظر ہیں ان میں سے 49 سپرئم کورٹ جبکہ 29گورنر کو رحم کی اپیل کے ساتھ بھیجی گئی ہیں جبکہ تین مقدمات میں مجرموں کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں 29‘ وفاقی شرعی عدالت میں ایک اور سپرئم کورٹ اکتالیس درخواستیں ہیں جن میں سے 13 رحم کی اپیل کے ساتھ گورنر کو بھیجی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سزائے موت پر پابندی پیپلزپارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں لگائی گئی۔ سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کرنے والے بیرسٹر ظفراللہ خان کا خیال ہے کہ حکومت نے محدود پیمانے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ اسی لیے کیا تاکہ یورپی یونین میں جی ایس پی اسٹیٹس کو یقینی بنایا جا سکے۔تاہم دہشت گردی کے الزامات میں سزا پانے والے 170 قیدیوں کو اس کے باوجود بھی پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔
سزائے موت پر عمل درآمد کی راہ میں اگر آئینی رکاوٹیں حائل ہیں اور اس سلسلے میں غوروخوض جاری ہے تو یقیناًاس کا کوئی نہ کوئی حل بھی نکل ہی آئے گا لیکن سردست سوال پر تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اگر چند ایسے اقدامات بھی کر لئے جائیں جن سے پھلتی پھولتی انتہاء پسندی اور اسے جائز سمجھنے والوں سے معاملہ کر لیا جائے تو اس سے بڑی حد تک حالات پر قابو پانے کے ساتھ عوام کو تسلی و تشفی دلائی جا سکتی ہے۔

قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور انہیں بندوبستی علاقوں کے مساوی لانے کے لئے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ تحریری طور پر وفاقی و صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو آگاہ کر چکے ہیں۔ یقیناًاُن کا مکتوب فائلوں میں کہیں دبا پڑا ہوگا‘ گردوغبار سے اٹے ایسی بہت سی سفارشات پر بھی غوروخوض کرنے کی یہی موزوں گھڑی ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے!

Wednesday, December 17, 2014

Dec2014: 9-11 of Pakistan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاکستان کا نائن الیون!
کون جانتا تھا کہ ورسک روڈ پشاور کے ایک تعلیمی اِدارے پر دہشت گرد حملے سے پوری قوم یوں متحد اور یک زبان ہوکر ’شدت پسندوں‘ سے اظہار بیزاری کرنے اُٹھ کھڑی ہوگی۔ کراچی سے پشاور تک آنسوؤں سے غائبانہ غسل دینے والے نکل کھڑے ہوں گے۔ گھر گھر اور شہر شہر دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ کس کے وہم و گمان میں تھا کہ گذشتہ چار ماہ سے سیاسی اختلافات رکھنے والے سراپا احتجاج رہنما بھی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے یقیناً’سولہ دسمبر‘ کی صبح پشاور میں رونما ہونے والے سانحے نے پوری قوم کو سوگوار‘ مغموم اور یک جان کر چھوڑا ہے۔ ملک کی سیاسی و فوجی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے جملہ ادارے بھی عسکریت پسندی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لئے پہلے کبھی بھی اتنے پرعزم اور یک سو دکھائی نہیں دیئے تو اِس موقع کو غنیمت جان کر کیوں نہ ایسے فیصلے کر لئے جائیں جس سے آنے والی نسلیں ہماری غلطیوں کو درگزر کرتے ہوئے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی ذہانت اور وسائل کا استعمال ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے کیا تھا۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ اگر ہم نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ تاریخ میں ’سولہ دسمبر‘ کے دن پیش آئے واقعات پھر کبھی دُہرانے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا‘ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہر خاص و عام دہشت گردوں کے عتاب سے محفوظ رہے‘ تو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن (سربراہ) آصف علی زرداری کے دور صدارت (2008ء سے 2013ء) میں معطل کی جانے والی ’پھانسی کی سزاؤں‘ پر فی الفور عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔

اَلمیہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ناقابل ضمانت اور ناقابل معافی اور کافی قوانین موجود ہیں‘ الگ سے عدالتیں موجود ہیں لیکن گرفتار اور اعتراف جرم کرنے والے دہشت گردوں کو ’موت کی سزا‘ نہیں دی جاتی یا پھر پھانسی کی سزا کا حکم تو دے دیا جاتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا ہوتا۔ وزیراعظم نے سترہ دسمبر کے دن ڈھلنے سے قبل اعلان کیا ہے کہ ’سزائے موت کے قانون کو فعال کیا جائے گا لیکن قوم کو اس پر عملدرآمد کا انتظار رہے گا۔ عجب ہے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کے دل عوام کے دکھ سے مغموم بھی تھے اور بیک وقت ظلم و بربریت کی انتہاء کرنے والوں کے لئے بھی اپنے دلوں میں نرم گوشہ بھی رکھتے تھے۔

ذاتی حفاظت‘ ذاتی مفادات اور اپنی ذات کے گرد گھومنے والی ترجیحات رکھنے والی قیادت کے فیصلوں کا شاخسانہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اُنیس سو اسی کی دہائی سے رقم ہونے والی اِس داستان کا اگرچہ ہر باب خونیں اور ہر سطر دل ہلا دینے والی ہے لیکن جس انداز میں قوم نے ’سولہ دسمبر‘ کا دُکھ محسوس کیا ہے‘ یقیناًیہ پاکستان کے لئے ’نائن الیون‘ جیسے دہشت گرد حملے کی مثل ہے‘جس کے بعد امریکہ نے نہ صرف اپنے دوستوں اور دشمنوں کی الگ الگ فہرستیں مرتب کیں بلکہ قومی سلامتی کے لئے داخلی معاملات بھی ازسرنوتشکیل دیئے‘ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد کیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ دہشت گردوں کو اُن کے آبائی مقامات تک محدود ہونے میں کامیاب اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے میں بڑی حد تک کامران ہو چکا ہے۔

 آج کے امریکہ میں کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے یعنی قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی تو آخر ایسا کرنے سے ہمیں کس نے روک رکھا ہے؟ آج کے امریکہ میں ٹیکس چوری اور غیرقانونی‘ مشکوک یا نامعلوم ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی یا اثاثہ جات رکھنے والوں سے کسی قسم کی رعائت نہیں برتی جاتی تو آخر ایسا ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ آج کے امریکہ میں انتہاء پسندی کی طرف راغب کرنے والوں کوکھلی چھوٹ نہیں تو آخر ایسا ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ آج کے امریکہ میں تین قسم کا نصاب تعلیم اور درس وتدریس کے عمل پر طبقات کی اِجارہ داری نہیں تو آخر ہمیں کیوں فکری وذہنی طور پر محکوم بنا دیا گیا ہے؟ آج کے امریکہ میں شخصی انسانی آزادی تو بہت ہے لیکن جہاں بات قومی سلامتی کی ہو‘ وہاں بڑے سے بڑے حکومتی عہدیدار سے بھی رعایت نہیں کی جاتی تو آخر ہمارے ہاں قانون و انصاف سب کے لئے یکساں کیوں نہیں؟ سوچئے‘ کیا سولہ دسمبر کا دن پاکستان کے لئے بھی ’نائن الیون‘ جیسا ’فیصلہ کن‘ ثابت ہوگا؟ کیا ہماری فوجی و سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں کو دُہرانے کی بجائے مستقبل کو ایسا محفوظ بنانے پر توجہ دے گی‘ جس سے کسی ہمسائے یا دُور دراز ملک کو خطرہ نہ ہو؟

مسئلہ درست سمت میں پہلا قدم اُٹھانے کا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سولہ دسمبر کی شام جس انداز میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’پشاور کے سکول میں قتل ہونے والے ہر ایک بچے کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب لیا جائے گا‘‘ تو اِس سے غم زدہ قوم کو بڑا حوصلہ ملا ہے اور اُمید ہو چلی ہے کہ سیاسی قیادت روائتی انداز میں مل بیٹھنے کی بجائے بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی آبیاری کرنے والی سوچ‘ نظریات‘ عقائد‘ تعلیمات اور ان کے پرچار کرنے والوں سے غیرلچکدار انداز میں سخت گیر معاملہ کرے گی۔

 حکومت شدت پسندوں کی طرح جرائم پیشہ منظم گروہوں کے زیرانتظام قبائلی و نیم علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے گی۔ دہشت گرد وارداتوں کے لئے دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے سے قبل ہمیں اپنے گھر (ملک) کی ’(داخلی) حفاظت‘ پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مزید قوانین‘ مذمتی قراردادوں‘ دکھ‘ اظہار افسوس‘ آہوں اُور آنسوؤں کی نہیں بلکہ کمال درجے کی بداخلاقی اور سنگ دلی سے اُن ’ننگ اِنسانیت کرداروں‘ سے دو دو ہاتھ کرنے کی ضرورت ہے‘ جن کے سینوں میں دل نہیں دھڑک رہے‘ جو کسی درجے کی ہمدردی اور سلوک کے نہیں‘ بلکہ صرف اور صرف (قرارواقعی) ’سزا‘ کے مستحق ہیں۔

Tuesday, December 16, 2014

Dec2014: Attack on APS

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کی خیر!
سوگواری سی سوگواری ہے۔ مصائب نے جس طرح ہمارے ہاں گھر کر رکھا ہے‘ اِس سے نجات کے لئے چند ایسے عملی اقدامات ناگزیر حد تک ضروری ہوگئے ہیں جو بھلے ہی بھلے معلوم نہ ہوں لیکن آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے سخت فیصلوں کی گھڑی میں خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا وقت آ چکا ہے۔
ورسک روڈ پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے شہری علاقوں میں حساس نوعیت کی تنصیبات محفوظ نہیں۔ دور دراز‘ دیہی و مضافاتی علاقوں کی بات تو ہے ہی الگ لیکن اگر صوبائی دارالحکومت پشاور کے دل اور چھاؤنی جیسی محفوظ حدود کے قریب دہشت گرد حملہ کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں تو اس قسم کا واقعہ کسی دوسرے مقام پر زیادہ شدت سے پیش آ سکتا ہے۔ پشاور میں سولہ دسمبر کی صبح سے دن ڈھلے تک دہشت گردوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد اور ہدف تھا کہ وہ پاک فوج کے اہل خانہ کو غم و تکلیف میں مبتلا کر سکیں تاکہ ’ضرب عضب‘ اور ’خیبر ون‘ نامی فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ پاک فوج کے جوان اپنے اہل خانہ کے غم میں ہلکان ہو کر اُس کارروائی سے ہاتھ روک لیں‘ جو صرف پاکستان ہی کی حفاظت کی جدوجہد نہیں بلکہ عالم اسلام کے قلعہ اور جوہری صلاحیت رکھنے والے دنیا کے پہلے اسلامی ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے یقیناًبزدل دشمن کی تاک اور اہداف سے ایک اُور زخم لگا ہے لیکن اِس سے نہ تو افواج پاکستان اور نہ ہی اہل پشاور کے حوصلے پست ہوں گے۔ (انشاء اللہ)۔

دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو شکست دینے کے لئے انتہاء پسند نظریات کے پرچار کو روکنا ضروری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول بندوبستی علاقوں کی طرح نہیں کیا جاسکتا؟ قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ یا خیبرپختونخوا میں ضم کرکے وہاں بندوبستی علاقوں کی طرح قانون وانصاف کا نظام فعال نہیں کیا جاسکتا؟ آخر ہمارے ہاتھ کس مصلحت نے روک رکھے ہیں کہ ہم اپنے ہی وجود کے لئے خطرہ بننے والے محرکات کا ادراک کرنے سے بھی خود کو قاصر و معذور پاتے ہیں! انگریز بہادر نے اپنے ’راج‘ کو برقرار رکھنے کے لئے اگر قبائلی علاقوں کی تخلیق کی تھی تو اُسے گئے کامل ستاسٹھ برس چار ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم اپنے ہی ملک سے امتیازی قوانین کا خاتمہ نہیں کر پا رہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ذاتی و گروہی مفادات کو ملک کے وسیع ترمفاد پر قربان کیا جائے۔ افسرشاہی‘ سیاسی حکمراں طبقے اور چند گنتی کے نام نہاد رہنماؤں (ملک برادری) نے اپنی بقاء اور مفاد کے لئے جس بدنیتی سے قبائلی علاقوں کی الگ حیثیت کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے‘اس میں تبدیلی کے سوأ ظلم و جبر میں تبدیلی و بہتری کا رتی بھر امکان باقی نہیں رہا۔

انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ اِس کا پرچار کرنے اور اسلامی تعلیمات کی آڑ میں اس کی تشہیر کرنے کے جملہ وسائل پر پابندی عائد کی جائے۔ سعودی عرب کی طرح وفاقی حکومت کا ادارہ ہر مسجد کے لئے یکساں موضوعات پر خطبات جمعہ جاری کرے۔ مذہب اور مقدس آیات و احادیث کے استعمال کی کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی جماعت کو اجازت نہ ہو۔ مدارس ہوں یا سکول و کالج درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے خواندگی کی شرط‘ قابلیت اور غیرسیاسی ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرکے اپنی بات کہہ سکتا ہے لیکن سیاسی نظریات رکھنے والوں کو مذہب کے استعمال اور مذہب کی آڑ میں شکار کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔

سکول کالج جامعات اور مدارس کے ساتھ مسجد ومنبر‘ سیاسی وغیرسیاسی اجتماعات میں مذہب کے استعمال اور نظریات کا پرچار کرنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ اگر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ رویت ہلال کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ رمضان و عید کے تہوار شروع کئے جائیں تو آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ سعودی عرب ہی کی طرز پر مذہب کے سیاسی استعمال کی کسی کو اجازت نہ دی جائے؟

انتہاء پسندی کو شکست فاش دینے کے لئے حساس نوعیت کے اِن موضوعات بارے کلام کئے بناء چارہ نہیں رہا۔ پشاور کے غم میں دنیا کا ہر صاحب دل شریک ہے۔ اہل پشاور دعاگو ہیں کہ اُنہیں ایسے مزید دکھ نہ ملیں۔ ’’میری جاں‘ میرے پشاور‘ میرے گلزار کی خیر!‘‘

پورا منظرنامہ دھندلا ہے۔ ہر آنکھ رو رہی ہے۔ ہر دل تڑپ رہا ہے۔ پشاور کو لگنے والے اِس تازہ زخم کا مداواہ شاید کبھی ممکن ہی نہ ہو۔ سولہ دسمبر کی صبح ورسک روڈ پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے دہشت گرد حملے اور سہ پہر چار بجکر پچاس منٹ تک 130 افراد کی ہلاکتیں‘ ایک سو تیس سے زائد زخمیوں پر کروڑوں دل خون کے آنسو رو رہے ہیں! اِس لمحے ہر خاص و عام اُس انتہاء پسندی سے نجات چاہتا ہے‘ جس میں معصوم اور بے قصور بچوں کے قتل تک کو جائز سمجھا جاتا ہے یقیناًہم ایک ایسی مسلط کردہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے قریب آ چکے ہیں‘ جس میں دشمن بزدلانہ وار کرنے پر اُتر آیا ہے‘ یہ وقت قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کے مظاہرے اور یک زبان ہو کر ’دہشت گردی و انتہاء پسندی‘ سے اظہار بیزاری کا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھول جیسے نازک و معصوم اور بے قصور بچوں کی ارواح کے درجات بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کے لواحقین کو صبر جمیل و اجر عظیم عطافرمائے۔

اللہ تعالیٰ پاکستان کے دشمنوں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے عزائم خاک میں ملائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ظالم کی مذمت کرنے کا حوصلہ‘ توفیق اور جرأت عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ اللہ تعالیٰ ماضی میں اختیار کی جانے والی غیردانشمندانہ حکمت عملیوں پر کف افسوس ملنے اور اصلاح احوال کرنے کی فکر عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ملک کے دفاع کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں کے حوصلے بلند اور ان کی مشکلات و خطرات کم کرے۔

Monday, December 15, 2014

Dec2014: Effective policing & wishes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس: نیک خواہشات کافی نہیں!
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ’اَمن و امان‘ کی صورتحال معمول پر لانے اور ’قانون کی بالادستی‘ بہرصورت قائم کرنے کے لئے ’مؤثرپولیسنگ‘ جیسے اہداف کا تعین کرنے کے بعد ’محکمہ پولیس‘ کو اَنواع و اقسام کی ذمہ داریاں سپرد تو کر دی گئی ہیں لیکن حساس مقامات‘ اہم شخصیت‘ تعلیمی اداروں‘ صحت کے مراکز‘ صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں کے اردگرد حفاظتی حصار‘ بارود اور نصب شدہ بموں کو ناکارہ بنانے‘ گلی گلی اور سڑک سڑک گشت‘ مسلح نگرانی‘ تھانہ جات کو فعالیت‘ ٹریفک کے بہاؤ کو سلجھانے‘ عمومی جرائم کے مرتکب افراد اور منظم جرائم کا ارتکاب کرنے والے گروہوں پر گرفت الغرض پیچیدہ نوعیت کے فرائض منصبی اور سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داریاں پولیس کو سونپ دی گئیں ہیں لیکن محکمۂ پولیس کی خاطرخواہ توسیع اور اِس فورس کو زمان و مکان کے مطابق مضبوط و توانا نہیں بنایا جا رہا یعنی پشاور کی آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت میں اضافہ اور مختلف قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لئے درکار تکنیکی و حربی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔

پشاور میں پولیس کی کارکردگی پر اُٹھائے جانے والے سوالات کا تسلی سے جواب دیتے ہوئے ایک انتظامی نگران نے ’پولیس رولز 1939ء‘ کا حوالہ دیا‘ جسے اگر کسوٹی مان لیا جائے تو پشاور پولیس کی موجودہ نفری میں کم از کم 11 ہزار افراد کا اضافہ کرنا پڑے گا! یاد رہے کہ ’پولیس رولز 1939ء‘ کی شق (سیکشن 2.2) کے مطابق ہر 450 افراد ( کی آبادی) کے لئے 1 پولیس اہلکار ہونا چاہئے۔ 1998ء کی مردم شمار کے مطابق پشاور کی 38 لاکھ تھی جس میں پندرہ سال سے زائد عرصے کے دوران کم از کم 15 لاکھ نفوس کا اِضافہ ہو چکا ہے اُور اگر شورش زدہ قبائلی علاقوں اور افغان مہاجرین کے علاؤہ پشاور میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہاں کی آبادی کسی بھی صورت 67 لاکھ سے زیادہ اور 70 لاکھ کے لگ بھگ ہو گی۔ اِس قدر آبادی کے تناسب پشاور پولیس کی موجودہ نفری ہر لحاظ سے کم یعنی (اَفرادی قوت) صرف 6 ہزار ہے‘جس میں کانسٹیبلز‘ ہیڈ کانسٹیلبز‘ اے ایس آئیز‘ ایس آئیز‘ اِنسپکٹرز‘ ڈی ایس پیز اُور ایس پیز شامل ہیں۔ اب اِن چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو بسا اوقات چوبیس گھنٹے بھی ڈیوٹی کرنی پڑ جاتی ہے اور عمومی حالات میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی تو کہیں نہیں گئی۔ اِس قدر طویل اور اعصاب شکن ڈیوٹی مسلسل کرنے والوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ آپ کو مسکراتے ہوئے بھی ملیں۔ وہ مستعد بھی ہوں اور اُنہیں پشاوریوں سے زیادہ پشاور کو لاحق خطرات کے بارے میں تشویش ہو تو حقیقت کی دنیا میں ایسی توقعات رکھنا خودفریبی کہلاتی ہے!

پشاور پولیس کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اِس فورس کو ’دہشت گردی اور عسکریت پسندی جیسے جرائم سے نمٹنے کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا۔‘ وہ سبھی جرائم جن کا تعلق خصوصی نظریات اور اُن کے پرچار سے ہوتا ہے اور معاشرے کو تہہ در تہہ کچھ اِس انداز سے متاثر کرتے ہیں کہ نفرتوں کے اثاثے نئی نسل کو منتقل ہوتے رہیں تو ایسی سوچ‘ فکر اور تقلید کا مقابلہ عمومی تربیت و سلیقے اور طرز عمل سے نہیں کی جاسکتی۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کی اور وہاں سے عسکریت پسندوں نے جان بچانے کے لئے پاکستان کے قبائلی و بندوبستی علاقوں کا رخ کیا تو یہی وہ وقت تھا جب ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے تحت ملنے والی امداد سے پشاور پولیس کی افرادی قوت اور تکنیکی شعبوں کی معاونت کرتے ہوئے استعداد میں اضافہ کیا جاتا۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے الگ شعبہ بنایا جاتا اور پاکستان کی سرزمین خود پاکستان اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنے والوں کا مقابلہ نظریاتی محاذ پر بھی کرتے ہوئے‘ اُنہیں پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا موقع نہ دیا جاتا‘ لیکن بدقسمتی سے ترجیحات کا تعین کرنے میں دانستہ بھول کی گئی۔ بدقسمتی یہ بھی رہی کہ ماضی میں خیبرپختونخوا پولیس کی قیادت کرنے والوں نے اسلحہ و دیگر سازوسامان کی خریداری میں امانت و دیانت کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اگرچہ قومی احتساب بیورو اِس سلسلے میں ملزموں پر گرفت رکھے ہوئے ہے لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اُس وقت کے سیاسی کردار آج بھی آزاد ہیں۔ قوانین کے اطلاق میں مجبوریاں اور حائل مصلحتیں اور اِداروں میں سیاسی مداخلت کے ثمرات سب کے سامنے ہیں!

محکمۂ پولیس پشاور کے اِنتظامی نگرانوں کو کریدا جائے تو وہ زیادہ سہولیات یا مراعات نہیں چاہتے بلکہ معصومانہ خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں موٹروے پولیس ہی کی طرح مراعات دی جائیں۔ جن کی گاڑیاں ہر ایک لاکھ کلومیٹر فاصلہ طے کرنے پر تبدیل کر دی جاتی ہیں‘ جنہیں گشت کے لئے جدید گاڑیاں دی جاتی ہیں۔ جنہیں آرام کرنے کے لئے باسہولت‘ صاف ستھرے ریسٹ ہاؤسیز کی سہولیات میسر ہیں۔ جنہیں کھانے پینے کی اشیاء موٹروے پر قیام و طعام کے مراکز سے خریدنے پر ’ساٹھ فیصد‘ رعائت ملتی جبکہ اُن کی تنخواہیں و مراعات محکمۂ پولیس کے مقابلے زیادہ بہتر ہیں۔

کیا پشاور کی سڑکوں پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک اہلکاروں کو ’ریسٹ ہاؤسیز‘ میسر ہیں؟ دھوپ‘ بارش‘ سردی گرمی‘ آندھی طوفان اور گردوغبار میں ڈیوٹی دینے والوں کو کسی قسم کا خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے؟ بم (بارودی مواد کی کھوج اور اُسے) ناکارہ بنانے والوں کو جان پر کھیلنے کے عوض کیا ملتا ہے؟ خلاصۂ کلام وہ عمومی تاثر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی نسبت پشاور پولیس پر زیادہ مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں لیکن اِن کی کارکردگی مثالی نہیں‘ یہ فورس منظم نہیں‘ یہ فورس وانتظامی طورپر بدعنوان ہے وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ ماہانہ تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے‘ جس کی وجہ سے باوجود ضرورت و خواہش‘ اِس فورس کی پیشہ ورانہ تربیت و استعداد بڑھانے یا وسائل میں اضافہ نہیں ہو پاتا۔

پشاور کے کئی ایک تھانے‘ چوکیاں اور چیک پوسٹیں ایسی ہیں‘ جن کی چھتیں بوسیدہ اُور فرش اُکھڑے ہوئے ہیں یا جہاں بنیادی سہولیات کا معیار قابل ذکر نہیں۔ جہاں طبعی عمر پوری کرنے والی چارپائیوں پر کم اَزکم بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اَدا کرنے والے جب آرام فرما ہوتے ہیں‘ تو شاید پشاور کے بہت سے لوگ اُن بستروں‘ اُن سیم زدہ کمروں اُور اُن تاریک چھتوں تلے بخوشی آرام کرنا کبھی نہیں چاہیں گے!‘‘

Sunday, December 14, 2014

Dec2014: Fun in defeat

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شکست کے مزے!
ماہ دسمبر کا نصف سفر طے ہونا ابھی باقی ہے کہ سال دوہزار چودہ میں پولیو مرض کے پھیلنے سے متعلق تشویشناک حقائق بصورت اعدادوشمار سامنے آئے ہیں‘ چودہ دسمبر کے روز پولیو وائرس سے متاثرہ مزید چار بچوں کے سامنے آنے کے بعد ’وزیراعظم (انسداد) پولیو سیل‘ کا کہنا ہے کہ ’’رواں سال پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 280 ہوچکی ہے۔ سوات میں 13ماہ کے بچے ریحان‘ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں عیدگل اور خیبر ایجنسی میں دو بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔رواں برس قبائلی علاقوں میں پولیو کے 172‘ خیبر پختونخوا میں 61‘ سندھ میں 27‘ بلوچستان میں 17اور پنجاب میں تین کیسز سامنے آئے۔ یاد رہے کہ سال 2005ء کے دوران پاکستان میں کل 28 پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ اِن میں کمی ہوتے ہوتے اچانک 2011ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کا تعداد 19‘ سال 2012ء میں 52 اُورسال 2013ء میں 72 پولیو کیسز کا اندراج ہوا۔ خود سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ہرسال ہزاروں بچے پولیو سے بچاؤ کی ادویات لینے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور بعض اوقات خاندان کے افراد کی جانب سے انکار ہوتا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ رواں سال پاکستان میں دنیا کے سب سے زیادہ ’پولیو کیسیز‘ سامنے آچکے ہیں جبکہ جنگ زدہ افغانستان میں24‘ نائیجیریا میں 6‘ صومالیہ میں 5‘ عراق میں 2‘ کیمرون میں 5‘ شام اور کینیا میں ایک ایک پولیو سے متاثرہ کیس سامنے آیا ہے۔

پاکستان کے لئے نیک خواہشات اور عالمی سطح پر بچوں کو تمام عمر اپاہج و معذور بنا دینے والی پولیو بیماری کو شکست دینے کے خواہشمند مالی و تکنیکی امداد فراہم کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لے رہے۔ محکمہ صحت کے کئی ایک ایسے ملازمین جو اپنے محکمے سے ایک اور پولیو پروگرام سے ہر ماہ دوسری تنخواہ اور مراعات باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔ غیرملکی دوروں پر جانے اور سرکاری خرچ پر تواضع طبع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے‘ اُن کے استری کئے ہوئے اُجلے ملبوسات اور چہروں پر اطمینان اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ انہیں اِس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ برسرزمین حقائق تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غریب و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے بچے پولیو کا شکار ہوتے ہیں اور آئندہ بھی صرف یہی بچے متاثر ہوتے رہیں گے وہ خام خیالی کا شکار اور خطرات سے کھیل رہے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ اُن کے اپنے گھر یا خاندان میں یہی خفیہ طریقے سے وار کرنے میں ماہر بیماری ٹھکانہ کر لے۔ لہٰذا منہ سے گھنٹوں انگریزی کے پھول اگلنے والوں کو اپنی کارکردگی کا خود ہی احتساب کرنا ہوگا اور انسداد پولیو کی مہمات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ پاکستان کو پوری دنیا میں پولیو کا مرکز بنانا قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم بات ہے۔ جوہری صلاحیت‘ ناقابل تسخیر دفاع‘ ذہین ترین افرادی قوت‘ نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل افرادی قوت‘ ترقی کے لئے بہترین جغرافیائی محل وقوع‘ معدنی وسائل‘ زرخیز مٹی اور موسمی تنوع لیکن عالمی سفر کرنے والوں پر پابندی کہ وہ انسداد پولیو کی ادویات نوش فرما کر عزم سفر ہوں اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر پولیو کو شکست نہ دی گئی تو پاکستان پر مستقل سفری پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے‘ جس کا نقصان اُس طبقے کو سب سے زیادہ ہوگا جو محنت مزدوری کے لئے بیرون ملک جاتا ہے۔

امن و امان کی غیریقینی صورتحال کو جس انداز میں ’انسداد پولیو‘ کی ذیل میں ناکامی سے جوڑا جاتا ہے‘ اُسی کو بنیاد بنا کر قبائلی علاقوں کی الگ و امتیازی حیثیت تبدیل کرنے کا یہی بہترین وقت اور موقع ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ قبائلی و نیم قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ ہیں تو پھر وہاں یکساں قوانین اور انتظامی ڈھانچہ کیوں نافذالعمل نہیں یا نہیں ہوسکتا؟ اعدادوشمار کے مطابق پولیو وائرس صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ ملک کے وسطی بندوبستی علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے اور اِس کی ایک بنیادی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار ہے کیونکہ ایک خاص طبقہ مانع پولیو ادویات کے بارے میں گمراہ کن نظریات پھیلاتا ہے۔ اِنتہاء پسندی پھیلانے والے ایسے عناصر سے نمٹنے کا یہی بہترین وقت اُور موقع ہے کہ اُن سے فیصلہ کن دو دو ہاتھ کر لئے جائیں۔

پولیو کو شکست دینے ہی میں پاکستان کی بھلائی ہے تو یہ اِس جاری جنگ میں ’شکست کے مزے‘ لوٹنے کی بجائے فتح کا ذائقہ چکھنے کی ہمت‘ نیت اور عملی اِقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی براہ راست زیرنگرانی اِنسداد پولیو کی کوششوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرنے کا یہی بہترین وقت اُور موقع ہے۔