Wednesday, September 30, 2015

Sep2015: Deforestation in KP

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جنگلات: قومی اَثاثہ لٹ رہا ہے!

خانس پور‘ اَیویبہ ’ریالہ رینج‘ کے جنگلات کی غیرقانونی کٹائی کے جاری عمل کی جس قدر مذمت اور افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ صورتحال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ سے گلیات کے بالائی علاقوں کو جب کبھی بھی جانے کا اتفاق ہو یا دردمند دل رکھنے والے وہاں کے مقامی لوگوں سے ملاقات کی کوئی ترکیب بنے تو سب سے پہلا تذکرہ جنگلات کی کٹائی سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا ہوتا ہے اور اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’ایک ارب درخت‘ کے نام سے شجرکاری مہم کا اعلان کر رکھا ہے‘ جو جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لئے ضروری تھا لیکن حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ شجرکاری مہم سے زیادہ اُن جنگلات کی حفاظت کی جائے جو پہلے سے موجود ہیں۔ ایک درخت کو بننے‘ پلنے‘ بڑھنے اُور قدآور ہونے میں عشرے لگتے ہیں لیکن اُسے آن کی آن میں زمین بوس کر دیا جاتا ہے! کیا اس سے زیادہ اور بڑا ظلم‘ اس سے زیادہ اور بڑا جرم کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟

ریالہ جنگلات کی رینج وہی مقام ہے جہاں ایویبہ کی چیئر لفٹ قائم ہے اور بہت سے قارئین اِس مقام کی خوبصورتی کے عینی شاہد ہوں گے لیکن محکمۂ جنگلات کی جانب سے اِس تفریحی مقامات کی سیر کے لئے آنے والوں کو نہ تو جنگلات کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُنہیں مذکورہ رینج کے جنگلات کے رقبے یا درختوں کی اہمیت کے بارے معلومات دی جاتی ہیں کیونکہ اگر عوام باشعور ہو جائیں اور انہیں جنگلات کی اہمیت و تفصیلات کا علم ہونے لگے تو پھر وہ سوال پوچھیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ سوالات شدت کے ساتھ اُن کے ہاتھوں کو متعلقہ حکام کے گریبانوں تک پہنچا دیں‘ جو جنگلات کی کٹائی کے ذریعے راتوں رات امیر ہو رہے ہیں! اَفسوس کا مقام ہے کہ جنگلات کی کٹائی میں ملوث مافیا مذکورہ ریالہ رینج میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ فعال ہے اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے پورے پورے پولنگ اسٹیشنوں پر حاکم بن جاتا ہے! شفاف انتخابات کا راگ الاپنے والوں کو اگر فرصت ملے تو کبھی جنگلات سے مالامال اِس خطے (ریالہ رینج) کا بھی دورہ کریں جس کے جنگلات کا رقبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑ رہا ہے اُور اَگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اندیشہ ہے بعدازاں ’’پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!‘‘

اَیویبہ سے ریالہ اُور ریالہ سے ڈونگا گلی تک پھیلے ہوئے جنگل میں دیودار المعروف دیار (Cedar) اور بیاڑ نامی اقسام کے درخت آسمان سے باتیں کرتے ہیں‘ بادل اِن درختوں سے چھن چھن کر گزرتے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہی درخت تحفظ ماحول (انسانی و جنگلی حیات) کے ضامن ہیں‘ جس کے بارے میں ہمارے فیصلہ ساز لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ مصلحتوں کا شکار ہیں۔ خانس پور‘ ایویبہ ریالہ رینج سے حاصل ہونے والی لکڑی نہایت ہی قیمتی و نایاب ہے۔ دیار کی لکڑی جسے اعلیٰ معیار کے فرنیچر یا تعمیراتی کاموں اور تزئین و آرائش میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں ’دیار‘ کی فی فٹ قیمت تین ہزار روپے فٹ جبکہ سرکاری ریٹ پانچ ہزا رروپے فٹ بتایا جاتا ہے۔کوڑیوں کے مول فروخت ہونے والے اِس قومی اثاثے کے محافظ کہاں ہیں؟

ٹمبرمافیا کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ دیار کے درخت کو آری سے کاٹ کر زخمی کردیا جاتا ہے‘ یا اُس کے ایک حصے کو آگ لگا کر کمزور کر دیا جاتا ہے اور پھر چند ہفتوں کے انتظار کے بعد جب یہ درخت موسمی اثرات یا جڑیں شاخیں کٹنے کے باعث اپنے ہی بوجھ کی وجہ سے یا تو گر جاتا ہے یا پھر سوکھنے جیسے ہو جاتے ہیں‘ جب درخت کی لاغر حالت اُس کے صحت مند وجود پر حاوی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو ’ٹمبر مافیا‘ کے کارندے اسے پورے اطمینان کے ساتھ کاٹ لیتے ہیں! اگر سوال یہ ہے کہ ’’ٹمبرمافیا کون ہے اُور یہ گدھے کے سر پر سینگھ کی طرح کس طرح غائب ہو جاتا ہے؟‘‘ تو جب یہ سوال ریالہ کے سفید ریش رہائشی (حاضر) نمبردار اٹھاون سالہ گل طاسب کے سامنے رکھاگیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مقامی بے روزگار نوجوانوں کے لئے آمدنی کا یہ آسان ذریعہ ہے۔ اہل علاقہ اِس بے قاعدگی اور درختوں کے کم ہوتے ہوئے حجم سے سخت نالاں ہیں لیکن جنگلات کی کٹائی کسی بھی صورت نہیں روکی جا سکتی کیونکہ مذکورہ گروہ ایسے وقت میں وارداتیں کرتے ہیں جبکہ آس پاس کوئی نہ ہوئی۔ یہ لکڑی گاؤں ملکوٹ کے راستے صوبہ پنجاب کو اسمگل کر دی جاتی ہے۔‘‘

صوبائی اسمبلی کے ’حلقہ پی کے 45‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے 17‘ کی حدود جسے عرف عام میں ’’سرکل بکوٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کل 8 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اُور یہ پورا حلقہ جنگلات اور سرسبزوشاداب وادیوں پر مشتمل ہے۔ اہل علاقہ کا مطالبہ کے متعلقہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں آواز اُٹھائیں۔ تحاریک پیش کی جائیں۔ محکمۂ جنگلات کی اعلیٰ انتظامیہ اور پولیس اِس بے قاعدگی کے بارے پوچھا جائے جو پورے معاملے سے الگ بلکہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا اس خاموشی کی قیمت محض سیاسی اثرورسوخ ہے یا مختلف ذرائع سے رشوت کارفرما ہے؟ اس سلسلے میں آزادانہ طور پر تحقیقات ہونی چاہیئں۔ آخر یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ جنگلات میں آرأ مشینیں چھپا کر لگائی گئیں ہیں جہاں درختوں کی رات گئے تک کٹائی کی دلخراش آوازوں سے وادیاں گونجتی رہتی ہیں لیکن متعلقہ حکومتی اہلکاروں کو جنگل کاٹنے والوں کا سراغ نہیں ملتا اور وہ بھی اس کی زبانی مذمت و ملامت کرتے ’بے بس‘ دکھائی دیتے ہیں۔

اندھے اور بہرے بنے ہوئے سرکاری اہلکاروں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’قومی احتساب بیورو‘ اربوں روپے مالیت کی لکڑی لوٹنے اور ماحولیاتی توازن کے بگاڑ کا سبب بننے والوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کریں گے۔ جنگلات قومی دولت ہیں۔ یہ کسی ایک گاؤں‘ یونین کونسل یا صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقے کی ملکیت تک محدود نہیں۔ ہر شاخ‘ ہر ٹہنی‘ ہر پتے‘ اور ہر درخت کی حفاظت صرف اور صرف خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی استدعا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے مذکورہ بالائی علاقے (ریالہ رینج) میں جنگلات کی بے دریغ و غیرقانونی کٹائی کا اَزخود (سوموٹو) نوٹس لیں۔

Deforestation in upper KP, district Abbottabad is continue despite provincial govt claims of stopping illegal practices

Thursday, September 24, 2015

Sep2015: Cyber terrorism

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سائبر دہشت گردی
اَمریکہ سمیت مغربی ممالک کی جانب سے اَراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ سینیٹرز‘ جج صاحبان سمیت منصوبہ بندی جیسے فرائض و ذمہ داریاں ادا کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو پہلے سے طے شدہ ملاقاتوں کے لئے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ بیرون پاکستان مختلف شعبوں میں ہونے والی تحقیق‘ جمہوری نظام کے عملی اطلاق و ثمرات کا قریب سے مشاہدہ اُور ہم عصر قانون سازوں سے مسائل پر سیرحاصل تبادلۂ خیال کریں۔ یہ عمل کسی ایک پارلیمانی سال یا سیاسی دور کی حد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ملک کی منتخب سیاسی قیادت کی بلواسطہ و بلاواسطہ تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ سارا سال اور سال ہا سال جاری رہتا ہے۔ حال ہی میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل وفد دورۂ اَمریکہ مکمل کرکے وطن واپس پہچنا‘ تو اُس کا خیرمقدم اُور پندرہ روزہ دورے کے مشاہدات و تجربات پوچھنے کی بجائے خود کو ’تحقیقی صحافت کا علمبردار‘ کہنے والی ویب سائٹ پر یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ’’وفد کے ایک معزز رکن نے امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ آئین کے تحت دوہری شہریت والا کوئی بھی شخص رکن اسمبلی کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا!

خیبرپختونخوا اُور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کے بارے میں اِس قدر غیرذمہ دارانہ اور بناء تحقیق و تصدیق جاری ہونے والے بیان سے اُن کے حلقۂ انتخاب سمیت عزیزواقارب حتیٰ کہ اہل خانہ کو بھی شدید ذہنی صدمہ ہوا کیونکہ خبر میں درج حقائق سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ انتہاء درجے کا ملنسار‘ غریب پرور‘ سیاسی اثرورسوخ کا حامل اُور سماجی خدمات پر مبنی ماضی رکھنے والے کی جان و مال کو سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہیں اور وہ اِن حالات سے اِس حد تک دلبرداشتہ ہوچکا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہے‘ حالانکہ حقائق اِس کے برعکس ہیں۔ اِس قسم کی ’سنسنی خیز‘ غیرذمہ دار اُور نام نہاد صحافت‘ کرنے والوں کے خلاف مذکورہ رکن قومی اسمبلی نے ’تحریک استحقاق‘ جمع کرانے کے علاؤہ ’ہتک عزت‘ کے قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کیا صحافت کے لئے موجود ضابطۂ اخلاق یا صحافتی تنظیموں کی سطح پر وضع قواعد و ضوابط کا اطلاق اُن تمام ویب سائٹس یا سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سائبر سائٹس یا اکاونٹس) پر بھی ہوتاہے‘ جن کی اکثریت حقائق کو من گھڑت انداز میں توڑ موڑ کر پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں؟
الیکٹرانک (ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘ انٹرنیٹ) ہو یا پرنٹ (اشاعتی ادارے)‘ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات کی اپنی الگ الگ ویب سائٹس بھی ہیں تاہم جس طرح ٹیلی ویژن یا ریڈیو چینل اور اخبار شائع کرنے کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے‘ وہ پابندیاں ویب سائٹس کے اجرأ کے لئے نہیں۔ پاکستان میں صحافت کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن اِس آزادئ اظہار کا یہ مطلب و مقصد ہرگز نہیں لینا چاہئے کہ اِسے دوسروں کی کردار کشی یا مخالفت میں استعمال کیا جائے۔چونکہ مذکورہ رکن قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے رکن بھی ہیں‘ اِس لئے توقع ہے کہ ایسی نئی قانون سازی متعارف کرائی جائے گی جس میں 1: صحافت کرنے والی ویب سائٹس کے بھی اخبارات و نشریاتی اِداروں کی طرح اجازت نامہ (ڈیکلریشن) حاصل کرنا ضروری (مشروط) ہوگا۔ 2: ایسے جامع قواعد و ضوابط اُور ضابطۂ اخلاق تشکیل دیا جائے گا جس کی خلاف ورزی کرنے والی ویب سائٹس کو ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ جرمانہ کر سکے گی اور اگر وہ باوجود ’وارننگ (متنبہ کرنے بھی)‘ وہ باز نہ آئے تو ڈومین نیم (Domain Name) ایک خاص مدت کے لئے یا مستقل بنیادوں پر معطل کیا جا سکے گا۔ 3: تحقیقی صحافت چاہے اخبارات یا ٹیلی ویژن کے لئے ہو یا ویب سائٹس کے لئے اُس کا معیار بہتر بنانے اور کسی خبر کو متوازن (balance) بنانے کو لازم و ملزوم قرار دیا جائے۔4: ویب سائٹس کے ذریعے سیاسی و سماجی یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف گمراہ کن خیالات کو ’سائبر کرائمز‘ کے زمرے میں شمار کیا جائے اور اِس الگ قسم کی ’دہشت گردی‘ کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ 5: صحافتی (نیوز) ویب سائٹس‘ کے اَجرأ اُور سماجی رابطہ کاری کے لئے الگ نگران مقرر کئے جائیں‘ جنہیں ’پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)‘ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔6: سائبر پاکستان پریس فاؤنڈیشن اُور پریس کلبوں کی سطح پر ملک گیر بحث و مباحثہ (غوروخوض) کی نشستیں ہونی چاہئیں‘ تاکہ شکوک و شبہات نہ رہیں اور آئینی و صحافتی امور کے ماہرین (سینئر جرنلسٹس) مشترکہ طور پر لائحہ عمل مرتب کریں۔

سیاست ہو یا صحافت‘ عملی اظہار کے اِن دونوں اسلوب کے نتائج حد درجہ برداشت اُور بہرصورت ادب و آداب سے مشروط ہیں۔ سیاست و صحافت کی میزان کے ذریعے تعصبات و اِمتیازات میں اضافے کی بجائے انہیں ختم یا کم تو بہرحال کیا ہی جاسکتا ہے۔ استری کئے ہوئے اُجلے کپڑے زیب تن کرنے سے معطر تن بدن میں پیوست اُور خون میں دوڑنے والی غلاظت کا علاج ممکن نہیں۔ ہمیں فکروعمل کی اصلاح کرنا ہوگی۔ ایک دوسرے کے خلاف بدنیتی پر مبنی روئیوں سے رجوع کرنا ہوگا۔ سوچنا ہوگا کہ مخالفت برائے مخالفت‘ صحافت برائے سنسنی خیزی اور سیاست برائے انتشار نے ہمیں کتنا غیرمحفوظ اور تقسیم در تقسیم کر رکھا ہے اور اس کا فائدہ وہ غاصب قوتیں و حکمراں طبقات اُٹھا رہے ہیں‘ جو ذاتی مفادات کے محور سے بندھے ہوئے ہیں۔ اِن تمام منفی رجحانات نے جمہوریت و طرز حکمرانی کی ساکھ‘ آزادئ اِظہار کے اَسلوب اُور ہمارے ہاں صحافت کی اقدار و اخلاقیات کو مصنوعی اور بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔

 دُوسروں کو ذہنی اَذیت میں مبتلا کرکے تسکین محسوس کرنے والوں کو بھی دعوت فکر (حئ علی خیرالعمل) ہے کہ الفاظ بولنے اور لکھنے سے پہلے اُن کے منفی پہلوؤں اور اثرات پر غور کریں۔ جملوں کے نشتر چلانے سے قبل سوچنے کا ہنر اور سلیقہ شعاری میں پنہاں حکمت کے تقاضوں کا ادراک کیا جائے! الگ قسم کے اِنتہاء پسند‘ دہشت گرد‘ ستم گر اور کوششوں سے ستم شعار بننے سے تو کہیں زیادہ سہل ایک ایسا ’انسان‘ بننا ہے‘ جس کے ہاتھ‘ قلم اُور زبان (دست و دہن درازی) سے دوسروں کی جان و مال اُور عزت و ناموس محفوظ ہوں۔
CLIPPING: How cyber terrorism need to tackle by regulating News Websites. #ZarfeNigha #Sep25 #DailyAaj #Peshawar #Abbottabad 

Wednesday, September 23, 2015

Sep2015: Political criminals!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
چور دروازے‘ کھڑکیاں‘ روشندان!
کیا معاملات طے پا چکے ہیں؟ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن آصف علی زرداری کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کو مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے جن درجنوں مقدمات کا سامنا ہے اگر اُن کے ’شریک جرم‘ پر ہاتھ ڈالے بغیر ڈاکٹر عاصم کو پہلے مرحلے میں علیل اور دوسرے مرحلے میں ضمانت پر رہا کر دیا جاتا ہے‘ تو پاکستان کی اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی نہیں ہو گی۔ بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں خائن و بددیانتی کرنے والوں کے لئے قانون کے اطلاق اور انصاف تک رسائی کے مراحل میں ’چور دروازے‘ موجود ہیں جنہیں خود سیاست دانوں ہی نے قوانین بناتے ہوئے چھوڑا ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِن چور دروازوں‘ کھڑکیوں اُور روشندانوں کو ختم کرنے کے لئے آئین کی اصلاحات بلکہ تطہیر کی جائے بصورت دیگر چاہے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کتنا ہی جامع کیوں نہ ہوں اس کے ذریعے سیاست اور دہشت گردی و جرائم کے درمیان گہرے تعلق کو ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

بائیس ستمبر کے روز سابق مشیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کو اچانک دل کی تکلیف کے باعث نجی ہسپتال منتقل کیا گیا‘ جہاں انہیں مختصر وقت کے لئے اپنی بیوی سے ملنے کی اجازت بھی دی گئی۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل بھی ڈاکٹر عاصم طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے ہسپتال منتقل ہونے کی درخواست کر چکے ہیں لیکن اُن کے طبی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ تندرست ہیں! منگل کی سہ پہر ہسپتال منتقلی کے بعد سرکاری خرچ پر ڈاکٹرعاصم کا ایکو‘ اِی سی جی اُور سینے کے اَیکسرے کئے گئے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں جھوٹے بیماروں اور بالخصوص ’اعلیٰ و بالا شخصیات‘ کو ایسے امراض لاحق ہوتے ہیں‘ جن کا علاج سرکاری خرچ پر بیرون ملک سے کروایا جاتا ہے اور اگر اپنے ملک میں بھی علاج کیا جائے تو انہیں بہترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کیا ’قومی ادارہ برائے امراض قلب‘ سے رجوع کرنے والے کسی عام شخص کا علاج بھی اسی مستعدی‘ توجہ اور اِسی قدر نگہداشت کے ساتھ کیا جاتا؟

پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کھرب پتی بننے والے دس افراد میں شامل ڈاکٹر عاصم پر صرف یہ الزام نہیں کہ اُنہوں نے مشیر پیٹرولیم کے عہدے پر فائز عرصے کے دوران اپنے اختیارات کی وجہ سے ہزاروں ارب روپے کے مالی فوائد حاصل کئے یا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا بلکہ ’سندھ رینجرز‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’مالی بدعنوانی میں ملوث سیاسی کرداروں نے کراچی (شہر) سمیت سندھ کے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے ساتھ روابط قائم کر رکھے ہیں اور سیاست و جرائم کے درمیان تعلق کو ختم کرنے میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری ایک اہم پیشرفت ہے‘ جس پر پیپلزپارٹی کی قیادت کا آگ بگولہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ وہ پھندا جو ڈاکٹر عاصم کے سر پر تلوار کی صورت لٹک رہا ہے اُس کی گرفت پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری بھی محسوس کر رہے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ بوکھلاہٹ میں اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ قبائلی علاقوں (فاٹا) سے کراچی تک پورا ملک بند کروا دیں گے اور فوج کا نام لئے بغیر بطور اشارہ یہ بھی کہا کہ اُن کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘ لیکن یہ بیان داغنے کے بعد اُنہیں متحدہ عرب امارات منتقل ہونا پڑا۔ خود کو عوام کی پارٹی کہنے والی سیاسی جماعت کے کئی اراکین کو اُن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’زرداری صاحب کے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ فوج کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے اور نہ ہی وہ احتساب کے عمل سے خوفزدہ ہیں۔‘‘ حقیقت یہی ہے کہ اگرچہ احتساب کی گرفت میں صرف چند سیاسی کردار ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن بات کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہی تھی۔ جب سندھ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے جرائم میں ملوث کارکنوں (سیکٹر اراکین) پر ہاتھ ڈالا گیا اور متحدہ کے صدر دفتر (نائن زیرو) کی تلاشی کے دوران انتہائی مطلوب جرائم پیشہ افراد اور غیرملکی اسلحے کے انبار برآمد ہوئے‘ تو یہ عوامی دباؤ سامنے آیا تھا کہ کراچی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اور یہی وجہ تھی کہ چھبیس اگست کے روز گرفتاری اُور ستائیس اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے انہیں 90روز کے لئے ’رینجرز‘ کے حوالے کیا تاکہ اُن سے شریک جرم افراد کے بارے میں پوچھ گچھ ہو سکے۔ ابھی ڈاکٹرعاصم بمشکل ایک مہینہ بھی کاٹ نہیں پائے کہ اُنہیں بیماریاں لاحق ہونے لگی ہیں! جب قومی خزانہ لوٹ رہے تھے تو تندرست و توانا تھے۔ جب نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت اُور اُن کے قواعد میں نرمی کے عوض اربوں روپے بطور رشوت لے رہے تھے‘ اُس وقت اُنہیں کوئی بیماری لاحق نہیں تھی! رینجرز کے بقول ۔۔۔’’ڈاکٹر عاصم کراچی کے میٹھا رام ہسپتال کی ذیلی جیل میں زیرِ حراست تھے جہاں چوبیس گھنٹے ایک ڈاکٹر اور دو نرسیں اُن کی دیکھ بھال کرتے رہے لہٰذا اُنہیں کسی اضافی طبی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی تمام اراضی کے ماسٹر پلان اور ان اراضیوں پرتعمیرات کی قانونی حیثیت کی جانچ پڑتال جاری ہے اور کراچی میں ان کے ہسپتالوں کی تفصیلات بھی کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے طلب کر لی گئیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عاصم ایک پیچیدہ معمہ ہے‘ جسے حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اُن کی لالچ و حرص صرف انفرادی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ اِس سے حصہ داری پانے والوں کا احتساب بھی ہونا چاہئے۔ سال 2009ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر (قانون ساز ایوان بالا کے رکن) منتخب ہونے کے بعد اُنہیں سال 2012 ء میں ’’وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل‘‘ اُور ’’وزیراعظم کا مشیر برائے پیٹرولیم‘‘ جیسے اہم عہدوں پر فائز کیا گیا۔ 2012ء میں انہیں سینیٹ سے اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب سپرئم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمان کو نا اہل قرار دیا تھا کیونکہ وہ ’کینیڈا کی شہریت‘ بھی رکھتے ہیں! پیپلز پارٹی نے انہیں سال 2013ئکے عام انتخابات کے بعد صوبہ سندھ کے ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘‘ کا چیئرمین مقرر کیا اور جب اُنہیں گرفتار کیا گیا تو وہ اِسی ہائرایجوکیشن کمیشن کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے!

تصویر کا دوسرا‘ زیادہ بھیانک رُخ ملاحظہ کیجئے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت متحدہ عرب امارات منتقل ہو چکی ہے اور پارٹی و صوبائی کابینہ کے اجلاس بھی وہیں طلب کئے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ’متحدہ عرب امارات‘ کا ہی اِنتخاب کیوں کیا گیا؟ سندھ رینجرز کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق امریکہ حکومت کے خفیہ اِدارے ’سی آئی اے‘ کا دفتر متحدہ عرب امارات میں قائم ہے اُور پیپلزپارٹی اپنے امریکی تعلقات کے بل بوتے پر ڈاکٹر عاصم کا معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمینٹ کے سامنے اپنا احتجاجی دھرنا کسی صورت ختم کرنے سے انکار کردیا تو پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ایک سو پچاس سے زائد زندگیاں ختم کردی جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے اور تحریک انصاف کی قیادت کو مجبوراً 126دن جاری رہنے والے اجتجاجی دھرنے کو ختم کرنا پڑا۔ ڈاکٹرعاصم کی ایک کڑی سے پیپلزپارٹی کی شریک جرم قیادت‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور معروف کاروباری شخصیات کی بدعنوانیاں جڑی ہوئی ہیں! جنہوں نے قومی وسائل اور امن وامان کو جھکڑ رکھا ہے۔ رینجرز کے اعلیٰ عہدیدار کے لہجے میں تلخی امنڈ آئی جب اُنہوں نے کہا کہ ’’روپوش ملک دشمنوں سے چھٹکارہ حاصل کئے بناء چارہ نہیں رہا‘ چاہے (خدانخواستہ) اِس کی ’آرمی پبلک سکول پشاور‘ سے بھی زیادہ بڑی قیمت ہی کیوں نہ اَدا کرنی پڑے‘ یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ ایسے تمام چور دروازوں‘ کھڑکیوں اور روشندانوں کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا ہی پڑے گا۔ قومی وسائل کو لوٹنے اور قومی اِداروں کی تباہی اور اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت و اقتصادی مشکلات کا سبب بننے والے کسی رو رعائت یا آئینی حقوق یا انسانی ہمدردی کے مستحق نہیں ہونے چاہیئں
PPPP using America pressure to get release of Dr.Asim, arrested on corruption charges

Tuesday, September 22, 2015

Sep2015: Neglected secuirty!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بھولنے کی عادت!
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے روز پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے حملے سے اگر کوئی سبق (نتیجہ) اخذ کر لیا گیا ہوتا‘ تو بڈھ بیر میں اَہم دفاعی تنصیب پر حملہ نہ ہوتا یقیناًسکول حملہ صرف ہماری یادوں کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے اُور اُمید کی جاسکتی ہے کہ رواں ہفتے جبکہ پاکستان ائرفورس کے بیس کیمپ حملے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جارہا ہے اور اِس سلسلے میں اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے والے دہشت گردوں کے بارے میں ثبوت افغان حکومت کو ہاتھوں ہاتھ دیں گے تو کیا ہم افغان حکومت کو اتنا بااختیار اور زمینی حقائق سے لاعلم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے فراہم کردہ ثبوت دیکھ کر حیران ہو جائے گی اور فوری کاروائی کرتے ہوئے اُن تمام عسکریت پسندوں کا صفایا کردے گی جو کم و بیش دو ہزار دو سو پچاس کلومیٹر طویل پاک افغان سرحدی علاقے میں روپوش ہیں!

جن لوگوں کو افغانستان کے صدارتی محل جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہاں کی سب سے خاص بات ’مہمان نوازی‘ ہے۔ انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں‘ مشروبات سے تواضع اُور رکھ رکھاؤ میں افغانوں کا کوئی ثانی نہیں۔ پاکستان کا ایک اور وفد مہمان نوازی سے لطف اندوز تو ہوسکتا ہے لیکن بھارت نواز شمالی اتحاد کے کرداروں کی افغان فیصلہ سازی پر اثرورسوخ سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ شواہد قابل تردید ہوں یا ناقابل تردید اُنہیں افغان حکومت کے سپرد کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک تو وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے جس سے نمٹنا اُس کے بس کی بات دکھائی نہیں دے رہی اور دوسری بات یہ ہے کہ بڈھ بیر حملہ آور میں ایسے پانچ افراد کی نشاندہی بطور ’پاکستانی‘ ہوئی ہے جن کا تعلق خیبرایجنسی اور سوات سے ہے۔ اگر وزارت داخلہ یہ معلومات خفیہ رکھتی تو عین ممکن تھا کہ سارے کا سارا الزام افغانستان کے سر تھوپ دیا جاتا لیکن چونکہ ہمارے اپنے لوگ بھی اس میں ملوث پائے گئے ہیں‘ اِس لئے ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت کا جواب یہ ہو کہ پاکستان اپنی مرغیوں کی نگہبانی خود کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ تو دوسرے کے گھر جا کر انڈہ دیں گی اور نہ ہی اپنے ہی گھر میں برگ و بار کی دشمن ہوں گی! یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے کہ کسی حساس علاقے کی نگرانی کرنے والے مسلح‘ انتہائی تربیت یافتہ فوجی دستے‘ کانٹے دار تار‘ نگرانی کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے اُور چودہ فٹ کی اونچی دیوار اگر حملہ آوروں کا راستہ نہیں روک سکتی تو پھر ہمیں اُن اسباب و محرکات کو تلاش کرنا ہوگا جو دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں۔ صورتحال کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ بھی خارج از امکان نہ سمجھا جائے۔ آئے روز مشرق یا مغرب میں کسی ہمسایہ ملک کو موردالزام ٹھہرانے کی بجائے ’بڈھ بیر کیمپ‘ کی سیکورٹی کرنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ کوئی بھی حملہ آور چاہے وہ جتنا بھی ذہین یا تربیت یافتہ کیوں نہ ہو‘ وہ اس قدر بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی نہیں کرسکتا جب تک کہ اندر سے کوئی اُس کے ساتھ نہ ملا ہو۔ ایسے کئی واقعات میں فوج کے اپنے اہلکار بھی ملوث پائے گئے جن کے کورٹ مارشل کے بعد سزائیں بھی ہوئیں۔ دوسری اہم بات دہشت گردوں کو ملنے والے مالی وسائل ہیں جس کے لئے ’ہنڈی‘ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پشاور کے چوک یادگار کی ’ضرب صرافہ مارکیٹ‘ میں کھلے عام ہنڈی کا کاروبار ہوتا ہے اور یہ بات سوائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سبھی کو دکھائی دے رہی ہے۔ کرنسی ایکسچینج کے نام سے دس بڑے ڈیلرز ہی کی مثال لیں جن کے اثاثے اگر اربوں میں ہیں تو اُنہوں نے افغان جنگ کے آغاز سے اب تک اس قدر سرمایہ کیسے کمایا؟ وہ جنگ جس نے صرف افغانستان اور پاکستان ہی کو نہیں بلکہ پورے خطے کے امن و امان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے‘ اُس پر تیل ڈال کر بھڑکانے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے۔

خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی نے اکیس ستمبر کے روز جملہ اہم تنصیبات اور افراد کے حفاظتی انتظامات کا ازسرنو جائزہ لینے اور شہری و دیہی علاقوں میں فوج کی ہمراہ ’سرچ آپریشن‘ کرنے کے احکامات جاری کئے جو اپنی جگہ اہم فیصلہ ہے لیکن جب تک عسکریت پسندوں کو ملنے والے مالی وسائل (اکنامک لائف لائن) پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا‘ اِس داخلی محاذ پر کامیابی ممکن ہی نہیں۔ کیا ہمارے خفیہ ادارے اِس بات کی تحقیق نہیں کر سکتے کہ چند منٹوں میں ہنڈی کے ذریعے لاکھوں روپے وصول کرنے والے کون لوگ ہیں اور ایسے کرنسی ڈیلرز کی تعداد و کاروباری تعلقات کی نوعیت کیا ہے جو منٹوں میں کروڑوں روپوں کی ادائیگی کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟

حال ہی میں کراچی کے ایک پوش علاقے میں دہشت گردوں کا ایک ایسا سہولت شخص پکڑا گیا جو ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ کے پرآسائش مکان میں مقیم تھا‘ اُور کرائے سمیت اُس کے جملہ اخراجات کسی بھی طرح پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے کم نہیں تھے۔ اگر پشاور شہر اور صوبے کے دیگر پوش علاقوں میں رہنے والوں کے کوائف جمع کئے جائیں اور گھر گھر تلاشی لی جائے تو حیران کن نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ دہشتگردوں کی تلاش میں کچی بستیوں کی خاک چھاننے والوں کو اپنی حکمت عملی اُسی طرح تبدیل کرنا ہوگی‘ جس طرح عسکریت پسندوں نے حالات کی نزاکت اور سیکورٹی اداروں کے ظاہری غم و غصے کو بھانپ لیا ہے۔ علاؤہ ازیں ضرورت پولیس اور عوام کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کو ختم کرنا بھی ہے۔ معاشرے کی کسی بھی سطح پر لوگوں سے پوچھ لیں کہ کیا وہ کسی مشتبہ فرد یا واردات کے عینی شاہد ہونے کی صورت پولیس کو تفصیلات سے آگاہ کرنا پسند کریں گے تو اُن کا بلاتوقف فوری جواب انکار ہوگا۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب عشرت سینما روڈ (گل بہار) کے ایک رہائشی نے تھانہ گلبہار کے لینڈلائن نمبر پر مسلح گروہ کی نشاندہی کی تو پولیس اہلکاروں کی آمد سے مطلع حملہ آور واردات مکمل کرنے کے بعد پورے اطمینان سے فرار ہوئے‘ جس کے بعد پولیس کی درجنوں گاڑیاں اور مستعد اہلکار پہنچے۔ ایک معلوم واردات کے بارے میں صرف بیانات ہی مل سکے اور حسب توقع شواہد نامی کوئی سراغ نہیں لگا! سالہا سال سے تھانہ جات میں تعینات پولیس اہلکاروں کے اثاثہ جات کی چھان بین کون کرے گا؟ پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ بحال کرنے کے ساتھ ’کیمونٹی پولیسنگ‘ بھی درکار ہے جس میں عام آدمی اپنی آنکھیں کھلی رکھے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ کچھ غیرمعمولی دیکھے تو اس کی اطلاع کس پولیس سے کرے؟ دہشت گردی کے الگ الگ سماجی و تاریخی پس منظر اور اس کی آڑ میں جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ جہاں سیکورٹی اداروں کی وردیاں (یونیفارم) باآسانی دستیاب ہوں! جہاں انتہاء پسندی کو فروغ دینے والوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا شمار ہی ممکن نہ ہو اُور جس ملک کے سیکورٹی اِداروں کی یاداشت کمزور ہو‘ وہاں صرف کمزور طبقات ہی کی نہیں بلکہ ہر خاص و عام کی جان و مال‘ عزت و ناموس خطرات سے دوچار جبکہ ملک کی ساکھ یونہی داؤ پر لگی رہے گی!

Monday, September 21, 2015

Technology not in focus!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
نظرانداز ٹیکنالوجی!
پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں برق رفتار انٹرنیٹ بذریعہ موبائل فون تھری جی (3G) اُور فور جی (4G) کے متعارف ہونے سے صارفین کی تعداد ’ایک کروڑ پچاس لاکھ‘ سے تجاوز کر گئی ہے!‘‘ تاہم دیہی علاقوں میں ملک کی ستر فیصد آبادی کی اکثریت زراعت سے وابستہ معیشت و معاشرت رکھتی ہے جس میں ’انٹرنیٹ‘ کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ شہری علاقوں میں غریب و متوسط طبقات کا انٹرنیٹ سے استفادہ بھی واجبی ہے جبکہ طرز حکمرانی (گورننس) اُور درس و تدریس جیسے شعبوں میں انٹرنیٹ سے استفادہ عام کرنے کے وسیع امکانات سے تاحال خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ نوجوان نسل کی اکثریت کے لئے انٹرنیٹ صرف اور صرف تفریح کا ایک ایسا ’قابل اعتماد ذریعہ‘ ہے کہ جس پر مکمل بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انٹرنیٹ کی موجودگی میں ہر نئی فلم‘ گانا‘ پروگرام اور کرکٹ کی براہ راست نشریات دیکھی جا سکتی ہیں۔ واٹس ایپ‘ وائبر‘ فیس بک میسنجر یا فیس ٹائم کے ذریعے نہایت ہی رازداری سے کسی بھی خاص دلچسپی کے گروہ (گروپ) یا انفرادی حیثیت میں جانے انجانے ہم خیالوں سے تبادلۂ خیال ممکن ہے۔ انٹرنیٹ کے اِس پورے منظرنامے میں نوجوان نسل بالخصوص طلباء و طالبات کی رہنمائی کا سامان ہونا چاہئے تاکہ محض اچھے بُرے کی تمیز نہ ہو بلکہ انٹرنیٹ وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے تحقیق و تحریر کے موضوعات میں دلچسپی بڑھے لیکن ہمارے ہاں ٹیکنالوجی کا استعمال اتنا ہی محدود اُور نمودونمائشی پر مبنی نظر آتا ہے‘ جتنا کہ اس میں وسعت ہے۔

مقبول ترین سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر (twitter)‘ ہی کی مثال لیں جس کا سیاسی و غیرسیاسی پیغامات کی تشہیر کے لئے استعمال تیزی سے مقبول ہو رہا ہے لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ جعلی اکاونٹس کی بھرمار ہے جنہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید ہی پاکستان کی کوئی ایک بھی ایسی مشہور شخصیت ملے‘ جس کے نام سے جعلی اکاونٹ گردش میں نہ ہو۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ سردار رضا کے نام سے اکاونٹ کی تردید الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر مستقل چسپاں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ انٹرنیٹ اور بالخصوص سماجی رابطہ کاری کرنے والے اخلاقیات کو کم اہمیت دیتے ہیں اور اِس بے راہروی کا سبب رہنمائی کا فقدان ہے۔ اگرچہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو کروڑ سے زائد ٹوئٹر اکاونٹس ہیں‘ تاہم اِن میں فعال اور حقیقی اکاونٹس کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں۔ خوش آئند ہے کہ ’ٹوئٹر استعمال کرنے کی بجائے اِسے سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ‘ ہو رہا ہے اور اگر پروموشن کے علاؤہ بھی موبائل کمپنیاں ’ٹوئٹر‘ کے مفت استعمال کی ترغیب و تشہیر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ صارفین کی طرح پروگرامرز اور فیصلہ سازوں کی توجہ بھی اِس جانب مبذول ہو گی اور صحت و تعلیم جیسے کلیدی شعبوں میں اِس سے استفادہ کیا جانے لگے گا بالخصوص جہاں معلومات کی فوری ترسیل درکار ہو‘ وہاں ٹوئٹر کے ذریعے ٹریفک اور موسم کے بارے میں اعدادوشمار کی فوری تشہیر ممکن ہے‘ جبکہ ملکی و غیرملکی سیاحوں کو ہوائی جہاز‘ ریل گاڑی‘ دیگر سفری وسائل کے اُوقات یا اُن میں کسی وجہ تبدیلی سے متعلقہ افراد کو فوری آگاہ کرنے کا اِس سے بہترین‘ سہل اور صاف ستھرا ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹوئٹر کی طرز پر پاکستان کا اپنا تشہیری نیٹ ورک ہونا چاہئے‘ جیسا کہ کئی ممالک نے ٹوئٹر کا متبادل تلاش کر لیا ہے اور اِس سلسلے میں ’ٹاپ فائیو‘ متبادل ویب سائٹس بھی یکساں مقبول ہو رہی ہیں جو ٹوئٹر کے 140 الفاظ پر مشتمل پیغام کے مقابلے زیادہ تفصیل سے پیغام رسانی کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ اِن میں بالترتیب ٹمبلر ڈاٹ کام (tumblr.com)‘ پلرک ڈاٹ کام (plurk.com)‘ ایپ ڈاٹ نیٹ (app.net)‘ سوپ ڈاٹ آئی اُو (Soup.io)‘ اُور کیک (keek.com) شامل ہیں۔
http://www.socialbakers.com نامی ویب سائٹ کے مطابق ٹوئٹر کے نقشے پر پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول صارف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان (@ImranKhanPTI) ہیں جن کا ہر دیا ہوا پیغام 28 لاکھ 41 ہزار سے زائد ٹوئٹر صارفین تک پہنچتا ہے۔ دوسرے نمبر پر کرکٹ کھلاڑی وسیم اکرم (@wasimakramlive) ہیں جنہیں 16 لاکھ 83ہزار سے زائد اور تیسرے نمبر پر سیاسی تجزیہ کار مبشر لقمان (@mubasherlucman) ہیں جن کی آرأ جاننے کے لئے 16 لاکھ 14 ہزار سے زائد ٹوئٹر صارفین اُنہیں پسند (follow) کر رہے ہیں تاہم 20ستمبر 2015ء کو حاصل کردہ اعدادوشمار مستقل ہیں بلکہ اِن میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ ٹوئٹر استعمال کرنے والے ’ٹاپ ٹین‘ دیگر پاکستانیوں میں صحافی حامد میر(@HamidMirGeo)‘ تحریک انصاف کا آفیشل اکاونٹ(@PTIofficial)‘ وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز(@MaryamNSharif)‘ پاک فوج کے ترجمان عاصم باجوہ(@AsimBajwaISPR)‘ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر(@Asad_Umar)‘ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد (ShkhRasheed) اُور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف (@CMShehbaz) بالترتیب چوتھے سے دسویں نمبروں پر جگمگا رہے ہیں۔

کسی ٹوئٹر صارف کی ہفتہ وار سرگرمیوں کا اَندازہ اُس کے پیغامات یا تبصروں سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے لیکن اگر کسی صارف کے بارے میں یہ جاننا مقصود ہو کہ وہ گذشتہ ایک ہفتے میں چوبیس گھنٹے کے دوران ’ٹوئٹر‘ پر ہونے والی بحث میں کتنی دلچسپی سے حصہ لیتا رہا ہے تو اس کے لئے http://xefer.com نامی ویب سائٹ پر اُس صارف کا ٹوئٹر ہیڈنلر مثال کے طور پر @peshavar کا اندراج کریں تو آپ کے سامنے گراف کی صورت پوری صورتحال کا بیان آ جائے گا۔ اِس بلاقیمت سہولت کی بنیاد پر آپ کو یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی صارف دن کے کن کن اوقات میں ٹوئٹر استعمال کرتا ہے یا اُس کے رجحانات (ہیش ٹیگز) یا آرام اور کام کرنے کے اُوقات کیا ہیں وغیرہ۔ اُس نے کتنے ٹوئٹ پیغامات کو من و عن دوسروں تک پہنچایا‘ اِس عمل کو ٹوئٹر کی دنیا میں ’ری ٹویٹ‘ کرنا کہا جاتا ہے۔ اِنٹرنیٹ وسائل عام کرنے سے متعلق سوچتے ہوئے مستقبل کی ضروریات اور تقاضوں کو مدنظر رکھنا چاہئے‘ جب پوری دنیا جی ایس ایم (موبائل) نیٹ ورکس کی بجائے صرف اور صرف انٹرنیٹ استعمال کر رہی گی اور وہ دن زیادہ دور بھی نہیں رہا۔

Sunday, September 20, 2015

Sep2015: Muslims in the west

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ملتی جلتی کہانیاں
مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز روئیوں نے جدت پسند‘ تعلیم یافتہ‘ نسلی و لسانی تعصبات کے خلاف بظاہر آواز اُٹھانے اور انسانی حقوق جیسی اصطلاح کا غلط اطلاق و استعمال کرنے والے مغربی معاشرے کی آزادی‘ سوچ اور عمل کا پول کھول دیا ہے لیکن مشہور اخباروں کے کونوں کھدروں میں بھی ایسی خبریں کم ہی دکھائی دیں گئیں کہ کسی بس میں داخل ہو کر سفر سے متعلق سوال پوچھنے پر بس ڈرائیور نے مسلمان خاتون کے اسکارف (حجاب) پر طنز کیا اور اس کو کھینچنے کی کوشش کی۔ چند ماہ پہلے کوپن ہیگن کی ایک یہودی عبادت گاہ پر حملے کے بعد اس قسم کی سرگرمیوں میں کافی تیزی آئی ہے جب کسی راہگیر نے کسی مسلمان عورت کے سر سے اسکارف اتارنے کی کوشش کی ہو۔ ابھی چند دن پہلے مشہور امریکی برانڈ ایبرکومی میں اسکارف پہننے کی وجہ سے نوکری نہ ملنے والی خاتون کے مقدمہ جیتنے کی کہانی بھی دوستوں کی نظر سے گذری ہوگی۔ کچھ عرصہ پہلے ایک امریکی شہر میں مسجد کے سامنے اسلحہ بردار لوگوں نے پیغمبرِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرضی و طنزیہ انداز میں خاکے بنوانے کے مقابلے کا اہتمام کیا۔کچھ دن پہلے ہی ایک مسلمان جوڑے کو اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لئے اس کے دوست کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک بندوق بردار عورت نے ان کو وہاں سے بھاگ جانے کا کہا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کو لینے کے لئے آئے ہیں تو وہ بندوق بردار خاتون بندوق کی نوک پر ان کو اس گھر کے اندر لے کر گئی جہاں ان کا بیٹا موجود تھا۔ چند ماہ پہلے ہی ایک مسلمان خاتون کو یونائیٹڈ ائرلائن میں کھلا ہوا کوک کا کین دیا گیا تو انہوں نے بند کین طلب کیا جس پر ائر ہوسٹس نے مسلمان ہونے کے ناطے ان کو بند کین کو بطور اسلحہ استعمال کر لینے کے ڈر سے بند کین دینے سے انکار کر دیا۔ ٹھیک ان کے برابر میں بیٹھے مسافر کو بیئر (آب جو) کا بند کین دیا گیا جس پر مسلمان خاتون نے اعتراض کیا تو جہاز میں موجود ایک دو مسافروں نے مسلمانوں کے متعلق نفرت آمیز جملوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک مسلمان نوجوان جوڑا جو امریکہ ہی کے کسی شہر میں بستا تھا اور پارکنگ کے معمولی جھگڑے پر ان کو گولی مار دی گئی تھی۔تازہ ترین واقعہ سترہ اگست دوہزار پندرہ کو کوپن ہیگن میں پیش آیا ہے کہ جہاں ایک اسلامی مرکز (جس میں مسجد بھی شامل تھی) کو نامعلوم افراد نے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا لیکن اُسے ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کی گئی‘ تقریباً دو تین ماہ پہلے کوپن ہیگن میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کی گئی اور کئی قبروں کے کتبے اکھاڑ دیئے گئے۔ اگر اِس قسم کے واقعات پاکستان میں ہوئے ہوتے تو نجانے کتنے ہی صحافیوں کی لاٹری نکل آئی ہوتی۔ وہ راتوں رات امیر کبیر ہو چکے ہوتے! اگر آپ کو اِس بات پر یقین نہ آئے تو کسی خفیہ ادارے کے اہلکار سے رازداری میں پوچھیں کہ خیبرپختونخوا کے اُن 10بڑے صاحب جائیداد افراد کے نام بتائیں جن کی قسمت ’نائن الیون‘ کے بعد جاگ اُٹھی تو آپ کو ’این جی اوز‘ اُور امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج کے لئے اشیاء خوردونوش کی فراہمی یا آمدورفت میں معاونت کرنے والوں کے علاؤہ تین سرکردہ صحافیوں کے بھی نام دکھائی دیں گے۔ بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے‘ کون کون نہایا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کی افواج کو افغانستان پر حملے کا صرف ایک جواز ’نائن الیون‘ تھا لیکن ایسے درجنوں نہیں سینکڑوں جواز پشاور اُور قبائلی علاقوں سے آڈیو ویڈیو تصویری (دستاویزی) ثبوتوں کے ساتھ فراہم کئے گئے‘ جنہیں مغربی ذرائع ابلاغ میں خوب اُچھالا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج کے مغربی معاشرے کی عمومی سطح پر اگر مسلمانوں کو بالعموم دہشت گرد سمجھا جاتا ہے تو اِس جرم میں شریک ہمارے اپنے بھی ہیں‘ جنہوں نے الفاظ نہیں بلکہ اُن کی حرمت کو پائمال کیا!

مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت کو نقصان کسی ایک مغربی ملک کی حد تک محدود نہیں بلکہ اِس کا اثر کہیں کم تو کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے اور مذہب یا بظاہر حلیے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے واقعات میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اکسانے والے ’دہشت گرد‘ نہیں کہلائے جاتے بلکہ انہیں ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار قرار دے دیا جاتا ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس میں سوڈان سے تعلق رکھنے والے گھرانے کے فرد ’احمد محمد‘ نامی چودہ سالہ مسلمان بچے کو ’بم بنانے کی کوشش‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو سائنس پراجیکٹ کے لئے ایک کلاک (ڈیجیٹل گھڑیال) بنانے کی کوشش میں تھا اور وہ اپنی کوشش کی ستائش کے لئے اسے سکول لے آیا تھا۔ اس واقعے کے متعلق اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد نے سماجی رابطہ کاری کی مختلف ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور یہ عمل تادم تحریر جاری تھا۔ درحقیقت اس بچے کا نام ہی سکیورٹی اہلکاروں کے کان کھڑے کرنے کا سبب بنا۔ اگر یہی کام کسی غیر مسلم یا سفید فام امریکی بچے نے کیا ہوتا تو اس کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا۔ دوسری طرف اس واقعے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بعد میں اس قسم کے واقعات پر کفِ افسوس ملنے سے بہتر تھا کہ ایسا ہوا۔ انہوں نے سکول کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے اس قدر فرض شناسی کا ثبوت دیا اور یہ کہ اسلام کا نام مسلمانوں نے ہی خراب کر رکھا ہے وغیرہ وغیرہ! غور کیجئے کہ اِن سب واقعات میں کردار بدل رہے ہیں لیکن کہانی ملتی جلتی ہے۔ مسلمانوں سے ایسی کیا خطا ہوئی ہے کہ ایک دنیا ان کی دشمن بنی پھرتی ہے؟ صرف اتنی خطا ہے کہ گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے واقعے میں ملوث ہائی جیکرز کے نام اسلامی تھے؟ یا پھر یہ کہ چند ہزار افراد کا گروہ خود کو طالبان اور دولت اسلامیہ کہلوا کر بندوق کے زور پر دنیا بھر میں اسلام نافذ کرنا چاہتا ہے!؟

آخر یہ کیوں نہیں دیکھا جاتا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر خود مسلمان اور اسلامی ممالک ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اُور دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمان وہاں کی ترقی کے لئے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت کسی کی نظر سے کیوں نہیں گزرتی۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب اہل مغرب مسلمان بچوں کے بستے (سکول بیگز) کی تلاشی داخلی دروازوں پر لیا کریں گے یا پھر شاید اُنہیں الگ سکولوں تک محدود کر دیا جائے۔ وہ دنیا جو خود کو مہذب اور پر امن کہتی ہے، اپنے جیسے پرامن لوگوں سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہے؟ کیا ان سے مختلف رنگ اور مذہب رکھنے والے انسان نہیں؟ ذہین لیکن امریکی مسلمان بچے ’احمد محمد‘ کے ساتھ پیش آنے والے امتیازی سلوک کی چند بیمار ذہن افراد کے علاؤہ سب ہی نے مذہب‘ رنگ‘ نسل اور ملکوں کی قید سے بالاتر ہو کر حمایت کی ہے۔ فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ سے لے کر ہلری کلنٹن اور امریکی صدر باراک اوباما تک اس کی حمایت اور ستائش میں بول پڑے ہیں‘ جو خوش آئند و حوصلہ افزأ بات ہے لیکن آخر یہ واقعہ پیش ہی کیوں آیا‘ اور کیا یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا آخری واقعہ ثابت ہوگا؟

Sep2015: TRANSLATION: LNG

LNG
مائع گیس
قانونی صورتحال: 28مارچ 2002ء کو پاکستان کی ’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اُوگرا)‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ملک میں تیل و گیس کی فراہمی‘ لین دین اور قیمتوں کے تعین سے متعلق معاملات کو دیکھنا تھا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں مائع گیس (ایل این جی) کی فراہمی کا کاروبار تین مختلف اداروں کے کنٹرول میں ہے۔ ان میں ’پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس اُو)۔ سوئی سدرن گیس کمپنی اور پاکستان سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹیڈ شامل ہیں۔ اوگرہ نے اِن تینوں اداروں کو متنبہ کیا کہ وہ تیل و گیس کی قیمتوں‘ فروخت اور ایل این جی کے حوالے سے جو بھی کاروبار کر رہے ہیں چونکہ اُن کے کرنے کے لئے دستاویزی تقاضے پورے نہیں کئے گئے اِس لئے یہ قانون کی نظر میں ایک غیرقانونی کام ہو رہا ہے۔

31 اگست کے روز اُوگرا کی جانب سے ایک پی ایس اُو‘ سوئی سدرن اور سوئی نادرن کے نگرانوں کو ایک مکتوب ارسال کیا جاتا ہے جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جس قیمت پر اِن اداروں نے ایل این جی خریدی اُس سے متعلق حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 30 ارب روپے مالیت کی ایل این جی درآمد کی گئی لیکن اُس کی قیمت کے تعین سے متعلق اوگرا کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی دستاویزی تفصیلات فراہم کی گئیں کہ یہ 30ارب روپے کی مائع گیس کس نرخ پر فروخت کی جائے گی۔ آئینی طور پر ایسا کرنے کے لئے دستاویزی طور پر اوگرا کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

سوئی سدرن کے اثاثہ جات کی کل مالیت 18 ارب روپے ہے جبکہ اس پر قرضوں کا بوجھ 66 ارب روپے ہے اور یہ ادارہ برسوں پہلے ہی دیوالیہ ہو چکا ہے‘ جس کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی دوست اور اُن کے مشیر رہے ڈاکٹر عاصم حسین کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے۔ سوئی نادرن کی مالی صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں اور وہ دیوالہ ہونے کے قریب ہے۔ 17ستمبر کے روز ’پی ایس اُو‘ نے جو قرض وصول کرنے تھے اُن کی مالیت 232 ارب روپے تھے جس میں 17ارب روپے کا وہ گردشی قرضہ بھی شامل ہے جو ’ایل این جی‘ کی درآمد و سودوں میں گذشتہ 6 ماہ کے دوران تخلیق ہوا ہے۔ یہ بات ذہن نین رہے کہ سوئی سدرن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) زبیر صدیقی جنہوں نے ’ایل این جی ٹرمینل‘ کا معاہدہ کیا تھا‘ اِن دنوں مالی بدعنوانیوں کے جرم میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی زیرحراست ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایم ڈی سوئی نادرن عارف حمید نے ’ایل این جی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد اُنہیں جبراً عہدے سے مستعفی کر دیا گیا۔

پاکستان میں ’ایل این جی‘ کی فراہمی کے تین مراحل ہیں۔ ایک ایل این جی فراہم کرنے والے ہیں۔ دوسرا ایل این جی ذخیرہ کرنے والے اور تیسرا اس کی فروخت کرنے والے ہیں۔ پاکستانی ادارے نے قطر گیس سے ایل این جی خریدنے کا ایسا معاہدہ کیا جس میں اُسے یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 آئندہ پندرہ برس تک ادا کرنے پڑیں گے لیکن یہ معاہدہ کرنے سے قبل ’مائع گیس‘ کی خریداری کے ممکنہ خریداروں سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے والے نجی پیداواری اداروں کو اعتماد میں لیا گیا کہ وہ درآمد کی جانے والی ’ایل این جی‘ کو خرید سکیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صرف اور صرف اہم بات یہ تھی کہ قطر سے مائع گیس بھاری قیمت پر خریدی جائے۔ آگے اِس گیس کا کیا کرنا ہے اور اس کی فروخت کیسے ہوگی‘ اس بارے میں سوچ بچار نہیں کی گئی!

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بجلی کے پیداواری ادارے ایسی مائع گیس کبھی بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے جو فرنس آئل (متبادل ایندھن) کے قیمت سے کم از کم 20فیصد زیادہ مہنگی ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سوئی سدرن جو کہ دیوالیہ ہو چکی ہے اور سوئی نادرن کہ جس کی مالی حیثیت اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ وہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے یہ دونوں ادارے بھلا کمزور مالی حیثیت کے سبب کیسے آئندہ برس ہا برس تک یومیہ 2 لاکھ 72 ہزار 479 ڈالر ادا کرسکیں گے!

بھارت نے بھی مائع گیس درآمد کی جس کی فی ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ) قیمت 6.65 ڈالر ادا کی گئی جبکہ پاکستان نے درآمد کرنے والی ایل این جی کی قیمت فی ’ایم ایم بی ٹی یو (یونٹ)‘ 8.3080 ڈالر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے مہنگے داموں ایل این جی خریدی ہے تو اس کی فروخت ایک بڑا مسئلہ ہوگی۔

13مارچ 2015ء کے روز ’پورٹ قاسم بندرگاہ انتظامیہ‘ نے تحریری طور پر متعلقہ وزارت کو لکھا کہ ایل این جی کو کراچی کی بندرگاہ پر جہازوں سے حاصل کرنے کے لئے درکار وسائل موجود نہیں اور انہیں وسعت دینے کے لئے 20 کروڑ ڈالر کے ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہوگی لیکن یہاں صرف پیسہ ہی درکار نہیں بلکہ بہت سا وقت بھی درکار ہے! ایسا صرف فلمی دنیاؤں میں ہی ہوتا دیکھا گیا کہ غلط فیصلوں کے اچھے نتیجے برآمد ہوں۔ عملی زندگی میں ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ادارے اِس بات پر تلے ہیں کہ وہ مہنگے داموں مائع گیس خرید کر اُسے مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے تو یہ گیس خریدنے والے کہاں سے آئیں گے۔ کیا غلط فیصلوں کا بوجھ عوام کو منتقل کر دیا جائے گا؟

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:  شبیر حسین اِمام)

Saturday, September 19, 2015

Sep2015: Dispute Resolution & resolutions

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
متبادل جواز!
خیبرپختونخوا اور متصل قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف مختلف محاذوں پر جاری جنگ میں مقدمات کے حوالے سے پولیس اور عدالتوں پر پڑنے والے دباؤ کم کرنے اور حکومت پر عوامی اعتماد بحال رکھنے کی خاطر ’’مصالحتی کمیٹیوں‘‘ کا قیام عمل میں لایاگیا اور اِس نظام کے تحت مختلف اضلاع سے حوصلہ افزأ نتائج بھی سامنے آئے۔ پولیس تھانوں کی سطح پر بننے والی مصالحتی کمیٹیاں تنازعات کے حل میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں‘ جنہیں مزید فعال و بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اِس نظام میں دو فریقوں کی جانب سے پولیس یا کسی اور قانونی نظام کی شمولیت کے بغیر مصالحت پر اتفاق کرنے کے بعد ایک غیر جانبدار مصالحتی کمیٹی مقدمے کی سماعت کرتی ہے۔ یہ کمیٹیاں دہشت گردی‘ ملکی دفاع اور سلامتی کے مسائل کے علاؤہ دیگر ہر قسم کے تنازعات پر مصالحت کی کوششیں کرتی ہیں۔

سرکاری اَعدادوشمار کے مطابق اِن کمیٹیوں نے اب تک ہزاروں کی تعداد تنازعات حل کئے ہیں لیکن اُن کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی شرح حوصلہ اَفزأ نہیں کیونکہ جرائم پیشہ عناصر اُور مٹھی بھر مفاد پرستوں (قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں) کے درمیان گٹھ جوڑ کی وجہ سے انصاف تک رسائی کا یہ تیزرفتار نظام مشکوک بنایا جا رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ خیبرپختونخوا کے ’پولیس آرڈر سال 2002ء‘ کی 168-A شق میں ترمیم کی گئی جس کے بعد ہر ضلع میں تنازعات کے حل کے لئے تھانہ جات کی سطح پر بنائی جانے والی ’تصفیہ یا مصالحتی کمیٹیوں‘ کو قانونی حیثیت ملی اور اُن کے ناجائز ہونے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے والے ایک درخواست گزار کے مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے عدالت نے اِن کمیٹیوں کو کام جاری رکھنے کو ’آئینی‘ قرار دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’جرگہ‘ کی طرز پر کام کرنے والی مصالحتی کمیٹیاں کا دفاع بھی کرنا چاہئے جو تنازعات کے فوری حل کی واحد صورت نظر آتی ہیں لیکن جرائم پیشہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہیں چاہتا کہ فوری انصاف تک رسائی کا یہ عمل جاری و ساری رہے۔ مثال کے طور پر اگر جائیدادوں پر قبضہ کرنے والے گروہوں کے مقدمات عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو انہیں نمٹانے میں ایک دو سال نہیں بلکہ نسلوں کی نسلوں کو پیشیاں بھگتانا پڑتی ہیں۔ اگر تنازعات مقامی سطح پر ہی حل ہونے لگیں تو قبضہ مافیا اُور قانون دان کھائیں گے کیا اُور بچائیں گے کیا! سردست محترم قانون دان گاہگوں (بیچارے سادہ لوح افراد) کے مقابلے تھانہ کچہری کے ’رازونیاز‘ سے آگاہ ’پیشہ وروں‘ کے دست راست بنے ہوئے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو زیرالتوأ مقدمات کی تعداد ہزاروں میں نہ ہوتی! کسی معاملے کو سادہ و آسان یا پیچیدہ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کا ہنر سیکھنے کے لئے قانونی امور کے ماہرین سے رجوع کیا جاسکتا ہے جنہیں قانون میں موجود ہر سقم اور ہر اُس عدالتی فیصلے کا علم ہوتا ہے جسے خاص حالات میں بھاری بھرکم فیس ادا کرنے والے کے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی قانون دان کی مہارت یہی ہوتی ہے کہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کی مہارت رکھتا ہو! پھر اِس بات کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ایک وکیل اپنے گاہگ کو نچوڑنے کے بعد اُسے دوسرے وکیل کے حوالے کر دیتا ہے اور جواب میں اُسے ایک عدد نیا گاہگ مل جاتا ہے اور یوں دونوں کو زیادہ فیسیں ادا کرنے والے یعنی سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں ہاتھ آ جاتی ہیں۔

اگر حکومتیں کفر سے چل سکیں لیکن ناانصافیوں سے نہیں تو پھر اِس اہم ضرورت کو سمجھنا ہوگا کہ انصاف تک فراہمی کا طریقہ کار تیزرفتار ہونا چاہئے۔ اِس ضمن میں تجویز ہے کہ مقدمات دائر کرنے والوں کا ماضی بھی دیکھا جائے کہ وہ اُن کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ بھی دیکھا جائے کہ مختلف عدالتوں میں ایک جیسے مقدمات دائر کرنے والوں کا یہ پیشہ تو نہیں اور اگر وہ اپنے آبائی ضلع کے علاؤہ کسی دوسرے علاقے میں جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار کر رہے ہیں تو کہیں اِس کا تعلق اُس قبضہ مافیا سے نہیں جس کی پشت پناہی جرائم پیشہ عناصر کر رہے ہوتے ہیں؟ عدالت کے سامنے کسی مقدمے کے فریقین کی مالی حیثیت‘ پیشہ اور تعلقات کے بارے حقائق بھی پیش ہونے چاہیءں اور اس سلسلے میں خفیہ اداروں کی مدد لی جا سکتی ہے‘ جس کے لئے عدالت کے پاس اختیار موجود ہے اور وہ چاہے تو اِس سلسلے میں بیک وقت ایک سے زیادہ اداروں سے تحقیقات کروا سکتی ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ انصاف تک رسائی کا نظام جن برطانوی دور کے مرتب کردہ اصولوں کی بنیاد پر کھڑے ہیں‘ اُن میں شواہد کو توڑمروڑ کر پیش کرنا قطعی مشکل نہیں۔

پشاور ہائی کورٹ میں ایک جیسی چار درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے مصالحتی کمیٹیوں کے قیام کو جائز قرار دینا خوش آئند ہے تاہم مصالحتی کمیٹیوں کے اراکین کا چناؤ زیادہ شفاف بنانے سے اِس نظام کی فعالیت و ساکھ میں اضافہ ممکن ہے۔ صوبہ سندھ کی مثال موجود ہے جہاں سیاست اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان تعلق کو ختم کرنا دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں سے معاملہ کرنے سے بھی زیادہ مشکل ثابت ہوا اور ایک موقع پر سندھ رینجرز کو تسلیم کرنا پڑا کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے درمیان بھی تعلق موجود تھا‘ جن میں سے ایک اہداف کا تعین اور دوسرا اغوأ قتل یا عدالتوں میں مقدمات کے ذریعے فریقین کو الجھائے رکھتا تھا اور وہ مجبور ہو کر بھاری قیمت اَدا کرتے تھے کیا خیبرپختونخوا کی سطح پر جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی کرنے کے امکانات موجود نہیں؟

Friday, September 18, 2015

Sep2015: 1st session of District Assembly Abbottabad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اَبرآلود سحر!
’زندہ باد‘ اُور ’مردہ باد‘ کے نعروں میں ضلعی حکومت اَیبٹ آباد کا پہلا اِجلاس ’ہلہ گلہ‘ اُور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان ایک دوسرے کی مخالفت میں چیخ و پکار کی نذر ہوا۔ ’مچھلی منڈی‘ کے اِس منظر کو دیکھنے والوں سے مہمانوں کی گیلری بھی بھری ہوئی تھی جس پر الگ سے احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں نے ’واک آؤٹ‘ کیا کہ اُن کے لئے شایان شان نشست گاہوں کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایبٹ آباد کی ضلعی حکومت کے پہلے اجلاس کے انتظامات کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں تھے۔ سیکورٹی کے لئے تعینات پولیس اہلکاروں سے لیکر اسمبلی ہال کے چمکتے دمکتے فرش سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرنوں تک کچھ بھی اپنے وجود کو معنویت میں اضافے کا سبب نہیں تھا۔ ایک طرف احتجاج کرنے پر تلے ہوئے تحریک انصاف کے کارکن تھے جن کی اَیوان میں ’عددی برتری‘ اُنہی کے اپنے جماعتی ساتھیوں کے ’فارورڈ بلاک‘ کی وجہ سے اقلیت بن گئی اور اب اِس جمہوری حقیقت کو تسلیم کرنے اور آئینی راستے اختیار کرنے کی بجائے ’تحریک انصاف‘ سے تعلق رکھنے والوں نے احتجاج کی راہ اختیار کر لی۔ جواب در جواب کی صورت ضرورت شاطر معاملہ کرنے تھی کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے انتخابی قواعد کے مطابق معاملہ جو کہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے کے منطقی انجام کا انتظار کیا جاتا اُور سیاست کا مقابلہ سیاست کے ساتھ لیکن ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ کرنے میں حکمت پیش نظر رکھی جاتیکیونکہ جہاں جذبات غالب آ جاتے ہیں وہاں فیصلہ کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی اور اچھے خاصے معقول انسان سے بھی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں۔ جمہوریت کا حسن یا بدصورتی یہی ہے کہ اِس میں افراد کا گنتی کی جاتی ہے اور یہی گنتی عام انتخابات سے لیکر منتخب ایوانوں تک ’ہائی جیک‘ کرنے والے ’موقع پرستوں‘ کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ موروثی‘ نسلی اور لسانی سیاست کو فروغ دینے کے جرم ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی طور ملوث ہے اور چونکہ ’’شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے‘‘ کے سبب ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی کسی نہ کسی ایک فریق کی حمایت میں اپنے منصب و قلم کی حرمت کا خیال یا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔

 ’عوام کا وسیع تر مفاد‘ اگر کوئی قابل ذکر ترجیح ہے تو ہمیں بنیادی مسائل پر بات کرنی چاہئے جو کہ بلدیاتی حکومت (نومنتخب ضلعی نمائندوں) سے وابستہ اُمیدیں اور توقعات ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسئ آب کی اصلاح‘ کوڑاکرکٹ تلف کرنا‘ درس وتدریس کے وسائل میں اضافہ‘ امن و امان کی صورتحال میں بہتری‘ سیاحتی امکانات کی ترقی‘ سیاحوں کے لئے سہولیات‘ بطور صارف عام آدمی (ہم عوام) کے حقوق اور درپیش انواع و اقسام کے لاکھوں چھوٹے بڑے مسائل (جعلی ادویات کی بھرمار‘ ناقص المعیار اور حفظان صحت پر پورا نہ اُترنے والی اشیائے خوردونوش کی کھلے عام فروخت جیسے معمولات) توجہ چاہتے ہیں لیکن اگر ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کا نظام بھی صوبائی و وفاقی طرزحکمرانیوں کی طرح سیاسی مخالفت‘ اتحادیوں کو ساتھ رکھنے کی مصلحتوں اور عددی برتری کے لئے ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے کی حد تک محدود رہا‘ تو اِس بے فیض درخت سے نہ تو سایہ حاصل ہوسکے گا اُور نہ ہی پھل کی صورت کوئی معنوی فائدہ! کیا آنے والے دنوں میں عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے ایک چھت تلے‘ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے اپنی بہترین فہم و فراست اور وسائل کا استعمال کریں گے؟

جس اَنداز میں ایبٹ آباد میں ضلعی حکومت کی ابتدأ (بسم اللہ) ہوئی ہے اور جس طرح ضلعی اراکین نے 2 واضح گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کو غیرپارلیمانی القابات سے نوازہ ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں اُن کے گرمجوش تعلقات اُور ایک دوسرے سے تعاون کی بس اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ کیا یہ وہ سحر تھی‘ جس کے لئے دعائیں کی گئیں تھیں!؟ احتجاج کئے گئے!؟

پچاس لاکھ روپے کے خرچ سے ایبٹ آباد کی ضلعی اسمبلی اجلاس کی عمارت کو سجایا گیا تھا!؟ عدالتوں سے رجوع کیا گیا اور ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد جس سیاسی بصیرت کا مظاہرہ پہلے روز کیا گیا‘ اُسے دیکھ کر آنکھیں چھلک پڑیں! بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی تصویر اَیبٹ آباد کی ضلعی کونسل ہال میں آویزاں تھی‘ جن کی روح کو کتنی اَذیت ہوئی ہوگی۔ اَٹھارہ ستمبر کے روز صبح 10بجے طلب کیا گیا‘ اَجلاس 11 بجکر 22 منٹ پر قومی ترانے اُور بعداَزاں قرآن کریم کی سورۂ والناس کی تلاوت سے شروع کیا گیا۔

 ابتدائی اجلاس کے لئے قرآن کی آخری سورت کا انتخاب کیوں کیا گیا جس کا اُردو ترجمہ ایبٹ آباد کی ضلعی حکومت کے پہلے اجلاس کے تناظر میں بہت معنی خیز یہ ’’کہیے میں پناہ طلب کرتا ہو سارے انسانوں کے پروردگار سے‘ جو سب کا ’معبود و (حقیقی) حاکم‘ ہے (کوئی بھی ہو خواہ کتنا ہی بڑا سرکش‘ زور آور ہی کیوں نہ ہو‘ وہ اللہ کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں) اُن سب کے شر سے جو ’وسوسہ اندازی‘ کرنے والے ہیں‘ جو دلوں میں توہمات اور وسوسے پیدا کرتے ہیں (کہ تم شکست کھاؤ گے اور تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہو گا) یہ (شر انگیز) انسانوں میں سے بھی ہیں اُور ان کا تعلق جنات سے بھی ہے!‘‘

Thursday, September 17, 2015

Sep2015: Practical approach & agriculture sector

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زراعت: عمل کی دنیا!
کاشتکاروں کا اپنا نکتۂ نظر ہے جو سیاسی و انتخابی ترجیحات سے مطمئن نہیں اور یہ تاثر رکھتے ہیں کہ اُن کی قانون ساز اداروں اور فیصلہ سازی میں نمائندگی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں زراعت کو ترجیح دینے کے مطالبات الفاظ بدل بدل کر پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں کی جانب سے 341 ارب روپے کے ’زرعی ریلیف پیکج‘ کے ثمرات خیبرپختونخوا کے چھوٹے کاشتکاروں تک بھی پہنچنے چاہیءں اور ماضی کی طرح حکومت کی طرف سے رعائت کا فائدہ بڑے جاگیردار‘ سرمایہ دار اور وہ برائے نام بڑے کاشتکار نہ اُٹھا لیں‘ جو نہ تو آمدنی پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نہ ہی قدرتی آفات کی وجہ سے اُن کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی اراضیاں اجارے پر دے رکھی ہیں! قابل ذکر ہے کہ چار حصوں پر مشتمل ’زرعی ریلیف پیکج‘ میں زرعی شعبے کی مالی معاونت‘ پیداواری لاگت میں کمی‘ زرعی قرضوں کی فراہمی اور قرضوں کے حصول کو آسان بنانا شامل ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے پیدا کردہ روٹی روزگار‘ مہنگائی اور توانائی کی قلت کے گھمبیر مسائل سے عاجز آکر ہی نواز لیگ سے توقعات وابستہ کیں جو ہنوز پورا ہونا باقی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی فہم و فراست کو داد دیجئے جنہوں نے اپنے ہاں زرعی شعبے کو ترقی دینے کی بجائے بھارت کے ساتھ تجارت پر زیادہ توجہ نہیں تاکہ وہاں سے پیاز سبزی اور دیگر اجناس درآمد کی جائیں! ہمیں حکمرانوں سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی توقع نہیں لیکن کم از کم زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے غذائی خودکفالت جیسے بنیادی ہدف کے بارے میں سوچ بچار کرنی چاہئے۔

 خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع اور متصل قبائلی علاقوں میں تیلدار اجناس کاشت کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جن کے لئے صوبائی حکومت خصوصی مراعاتی پیکج کا اعلان کرکے زراعت و کاشتکار دوست ہونے کا عملی ثبوت دے سکتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ زرعی ملک ہونے کے ناطے ہماری معیشت کا چونکہ انحصار ہی زراعت کی ترقی پر ہے اس لئے حکومت سے توقع تھی کہ وہ کم از کم کسانوں اور زمینداروں کو سہولتیں اور ٹیکس چھوٹ دی جائے مگر تاجروں اور دیگر کاروباری طبقات کی طرح کسان بھی ’’ودہولڈنگ ٹیکس‘‘ جی ایس ٹی اور دیگر کئی ٹیکسوں کی زد میں ہیں جن کے لئے کرم کش زرعی ادویات اور کھاد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور نہری پانی کے ناپید ہونے کے باعث انہیں ٹیوب ویل کے ذریعے فصلوں کو سیراب کرنا پڑتا ہے تو بجلی اور ڈیزل کے نرخوں نے انہیں الگ سے بے حال کر رکھا ہے جبکہ بجلی کی یومیہ لوڈشیڈنگ الگ سے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کا کسان حکومتی مراعات اور سہولتوں سے مالامال آسودگی اور خوشحالی کی زندگی بسر کررہا ہے جنہیں بجلی کے نرخوں کے علاؤہ وہاں کھادوں اور کرم کش ادویات کے نرخوں میں بھی خصوصی رعایت حاصل ہے‘ نتیجتاً وہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں مگر ہمارا کسان حکومتی بے اعتنائی کا شکار ہو کر اب تک بے یارومددگار ہے جس کی گندم‘ کماد‘ مونجی کی پیداوار میں اضافے کے باوجود مارکیٹ میں ’’چوروں کے گز‘‘ کے حساب سے اسے اپنی اشیاء کی معمولی نرخوں پر بھی فروخت کے لئے بھی جان جوکھوں سے گزرنا پڑتا ہے!

بھارت کی پاکستان دشمنی قابل مذمت لیکن تصویر کا دوسرا رخ اُس کا طرز حکمرانی ہے جس میں آمدنی کے لحاظ سے غریب و متوسط طبقات کو غیرمعمولی ریلیف حاصل ہے۔ بھارت حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے قومی ٹیلی ویژن ’دور درشن‘ نے ’’کسان‘‘ کے نام سے ایک سیٹلائٹ چینل شروع کر رکھا ہے جو سارا سال چوبیس گھنٹے مختلف زبانوں ترجیحاً ہندی (اُردو) زبان میں کاشتکاروں کی رہنمائی‘ جدید زرعی اصول اور متعلقہ ٹیکنالوجی کے بارے میں باقاعدگی سے پروگرام نشر کرتا ہے۔ Free Dish کے نام سے یہ چینل مفت دیکھا جاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے نجی شعبے میں قائم ہونے والا زرعی سیٹلائٹ چینل بند کرنا پڑا۔ اخبارات کے زرعی ایڈیشن قابل بھی اشاعت نہیں رہے کیونکہ حکومتی سرپرستی نہیں ہے!

عوام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو ریلیف دینے اور ان کے مسائل حل کرنے کے معاملہ میں حکومت کی بے اعتنائی سے معاشرے میں بے چینی کی جو فضا طاری نظر آتی تھی‘ اس کے پیش نظر جمہوری نظام پر انگلیاں اٹھنے کے مواقع پیدا ہونا بھی فطری امر تھا تاہم اگر چھوٹے کسانوں تک ’زرعی ریلیف پیکج‘ کے ثمرات پہنچتے ہیں تو اس سے قومی معیشت بھی مستحکم ہو گی لیکن اگر اعلانات پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد ہو۔ اِس مرحلہ فکر پر اگر ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکج‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو رہنماؤں کو رہنمائی نہیں ملے گی۔ سب سے اہم ضرورت کرم کش ادویات کے نرخوں پر نظرثانی ہے‘ جو نہیں کی گئی۔ اسی طرح توانائی بحران حل کرنے کے بجلی و گیس کی درآمد سے فوری نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ زراعت اور زرعی شعبے سمیت توانائی کے بحران کا حل ’’کالاباغ ڈیم‘‘ جیسے کثیرالمقاصد بڑے آبی منصوبے میں ہے‘ جسے سردخانے سے نکلنے اور اُس پر جمی ہوئی سیاست کی گرد ہٹانے کی اشد بلکہ فوری ضرورت ہے! جس کے بناء کسی بھی قسم کے ’ریلیف پیکج‘ کی کوئی معنوی حیثیت نہیں ہوگی۔

Wednesday, September 16, 2015

Sept2015: Reforming education & hesitation!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بے بسی
خیبرپختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں نجی سکولوں سے معاملہ کرتے ہوئے حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ صوبائی حکومت کسی بھی نجی تعلیمی ادارے کو مجبور نہیں کر سکتی ہے کہ وہ ماہانہ کتنی ٹیوشن فیس وصول کرے اور اگر اس سلسلے میں زبردستی کی گئی تو اندیشہ ہے کہ نجی سکول ہڑتال کر دیں گے جبکہ نجی سکولوں کا یہ مؤقف ہے کہ ’’جو والدین تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے وہ اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں داخل کروائیں جو اُن کی مالی حیثیت کے مطابق ہوں!‘‘ پندرہ ستمبر کے روز خیبرپختونخوا حکومت کی نمائندگی کرنے والے صوبائی وزیر اور محکمۂ تعلیم کی اعلیٰ سطحی نمائندگی کے روبرو والدین نے تلخ و تند لہجے میں شکایات کے انبار لگا دیئے کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لیکن اِس پورے معاملے میں نہ صرف والدین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں بلکہ حکومت بھی نجی تعلیمی اِداروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ ایسی آئین سازی ہی موجود نہیں‘ جس کے ذریعے کسی بھی شعبے کے نجی مالکان کے منافع کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی گئی ہو!
والدین کو پہلی بار اِس تلخ حقیقت کا احساس ہوا ہے کہ اُن کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی کیا رہی اور کیا ہونی چاہئے۔ محض مطالبے یا ہمدردی کی بنیاد پر حکومت کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ نہیں دے سکتی بلکہ حقوق کا تحفظ صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ ’آئین اور قواعد و ضوابط‘ طے ہوں اور انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر محض لاگو کرنے میں دشواری پیش آ رہی ہو۔ ہمارے قانون ساز ایوانوں کے اراکین ’قانون سازی‘ سے زیادہ اپنے انتخابی حلقوں میں تعمیراتی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون سازی جیسی اہم ضرورت پس پشت ڈال دی جاتی ہے چونکہ نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ پہلی بار حسب ضرورت پوری شدت سے اُٹھایا گیا ہے‘ اُور اِس حوالے سے پورے ملک میں ایک اتفاق رائے بھی پایا جاتا ہے لیکن برسوں کا کام راتوں رات نہیں نمٹایا جاسکتا۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں باوجود خواہش بھی نہ تو تیزرفتار قانون سازی کرسکتی ہیں اور نہ ہی اُس کا فوری اطلاق ممکن ہوگا۔

صوبائی وزیرتعلیم اُور متعلقہ محکمۂ کے جن اعلیٰ حکام کے سامنے والدین فریاد کر رہے تھے اُن کی اکثریت خود بھی اور اُن کے اہل و عیال بھی نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں‘ جن کے لئے ہزاروں روپے ماہانہ فیسیں یا دیگر ضمنی اخراجات ادا کرنا قطعی کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک موقع پر تو یوں محسوس ہوا کہ والدین اور سرپرست جس دیوار سے ماتھا پھوڑ بیٹھے ہیں‘ اُس کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ فیسوں میں اضافے کے ’شریک جرم‘ وہ سبھی سرمایہ دار اُور فیصلہ ساز ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچوں کے ہمراہ محدود مالی وسائل رکھنے والے متوسط گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل نہ کریں! یہ فعل بالکل ہندو معاشرے میں پائے جانی والی اُس تفریق سے مماثلت رکھتا ہے جس سے نفرت کا اظہار کرنے کے لئے ہمارے بچوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ ’’آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان برصغیر اپنے ساتھ انسانی مساوات کا تصور بھی لائے جس کامفہوم یہ تھا کہ تمام انسان حضرت آدم اور اماں حوا کی اولاد ہیں جبکہ اُس وقت کے غالب رائج ہندو مذہب چار طبقات پرمشتمل تھا۔ برہمن‘ کشتری‘ ویش اُور شودر۔ ہندوؤں کا اعتقاد تھا کہ برہمنوں کو سب سے اونچا معاشرتی مقام حاصل ہے کیونکہ وہ برہما دیوتا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرے درجے پر کشتری ہیں جو برہما دیوتا کے بازوں سے پیدا ہوئے۔ تیسرے درجے پر ’ویش‘ اور چوتھے درجے پر شودر ہیں جو نچلے دھڑ سے تخلیق کئے گئے اُور اِن کا کام معاشرے کی خدمت کرنا ہے۔‘‘ برہمن اُور کشتری سیاسی حکمراں (راجے مہاراجے‘ فوجی سپاہی) جبکہ ’ویش‘ کھیتی باڑی (زراعت) اُور ’شودر‘ جوتے بنانے‘ صفائی گندگی وغیرہ اُٹھانے جیسے کام کرنے کے لئے مخصوص تھے اور کسی بھی ذات والے کو یہ اِختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی معاشرتی حیثیت (ذات) تبدیل کر سکیں۔ جو ’برہمن‘ پیدا ہوتا وہ تاحیات کے لئے برہمن اُور شودر کی ساری زندگی ’شودروں‘ جیسی ہی رہتی تھی۔ دعوت فکر ہے کہ فرصت کے کسی لمحے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے کہ ’’کیا ہمارے ہاں (استحصالی) نظام تعلیم قوم کو اِسی طرح کے چار طبقات میں تقسیم نہیں کرتا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش کہ (متوسط و) غریب (ویش اور شودر) ہمیشہ غریب ہی رہیں؟‘‘

یادش بخیر عوامی نیشنل پارٹی کے آخری دور حکومت میں نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے ایک قانون سازی اُس وقت کے وزیرتعلیم سردار حسین بابک کی زیرنگرانی تحریر کی گئی تھی لیکن اُسے اسمبلی میں پیش نہیں کیا جاسکا اور مذکورہ حکومت آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد جب دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں ووٹوں کی طلبگار ہوئی تو اُس کا حشر آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے! مئی دو ہزارتیرہ کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے ’یکساں نظام تعلیم‘ رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار کی قریب آدھی مدت مکمل ہونے کے باوجود بھی اِس وعدے پر تاحال عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آرہا جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے معاملات الگ سے قانون سازی کے ذریعے اصلاح چاہتے ہیں۔

 دانشمندی و انصاف کا تقاضہ تو بس یہی ہے کہ ’بے بسی کا مظاہرہ‘ کرنے کی بجائے حکمراں و اتحادی سیاسی جماعتیں آئندہ کے چناؤ (انجام) پر نظر رکھیں۔ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت جس طبقاتی اور استحصالی نظام تعلیم سے نجات چاہتی ہے‘ اُسے طول دینے کی کوشش یا حیلے بہانے کم اَزکم خیبرپختونخوا کی حد تک ہر اُس انقلابی کا سیاسی مستقبل تاریک کر سکتی ہے‘ جس کے قول و فعل سے تضاد جھلک رہا ہو!

Tuesday, September 15, 2015

Sep2015: Reforming education is yet so easy & possible!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیم: جائز و توانا مطالبات
نجی تعلیمی اِداروں کو حکومت کی کڑی نگرانی اور انہیں قواعد و ضوابط کا پابند بنانے کا مطالبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ’شدت‘ اختیار کرتا چلا جا رہا ہے‘ تاکہ زیرتعلیم بچوں کے والدین (کا بطور صارفین) اِستحصال ’کم سے کم‘ ہو۔ علاؤہ ازیں والدین اُور سرپرستوں کی جانب سے ماہانہ فیسیوں میں آئے روز اِضافے‘ ایک ہی سکول میں دو بہن بھائیوں (سبلنگز) کی صورت فیس میں نصف رعائت‘ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں و سہولیات کے معیار کی بہتری‘ سائنس کی تجزیہ گاہوں (لیبارٹریوں) اُور کتب خانوں (لائبریریوں) کا قیام‘ نجی تعلیمی اِداروں میں نظم و ضبط کی صورتحال بہتر بنانا‘ اخلاقی اَقدار کی تربیت‘ سکولوں کے حفاظتی انتظامات‘ والدین و اساتذہ کے درمیان رابطوں (پیرنٹس ٹیچرز کونسلوں) کی بحالی و فعالیت‘ اساتذہ کو حسب قابلیت و تجربہ تنخواہیں اُور مراعات کی ادائیگیوں سمیت کئی ایک ایسے مطالبات بھی ہیں‘ جن کا تعلق انتظامی خرابیوں یا نجی اداروں کے معاملات پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ہے۔ سب سے اہم و بنیادی بات یہ ہے کہ ’’پشاور سے کراچی تک نجی تعلیمی اِداروں اور والدین کے درمیان تعلق اور اِعتماد کا رشتہ ماضی کی طرح مضبوط نہیں رہا۔‘‘ غالب گمان یہی ہے کہ مذکورہ اِدارے والدین کو (فرمان تابع) پیسے دینے کی مشینیں (اَے ٹی اَیم) سمجھتے ہیں‘ جن کی مجبوریوں سے ہر طرح فائدہ اُٹھانا جائز ہے جبکہ نجی تعلیمی اِداروں کے نکتۂ نظر سے حقائق یہ ہیں کہ ’’مہنگائی کا سب سے زیادہ منفی اَثر (دیگر شعبۂ ہائے زندگی) کی طرح خدمات کی فراہمی اُور یوٹیلٹی بلز پر مرتب ہوا ہے‘ جس کا والدین حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِحساس نہیں کر رہے!

نجی تعلیمی اِداروں کے خلاف ملک گیر اِحتجاجی مظاہروں میں صرف والدین ہی نہیں بلکہ صف اوّل میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی شریک ہیں اور ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے پیش پیش ہونے کے ساتھ‘ سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شرکت نے تو جلتی پر تیل جیسا اثر کرتے ہوئے مطالبات کو ’’مزید توانا‘‘ کر دیا ہے۔ تیرہ ستمبر اسلام آباد‘ چودہ ستمبر لاہور‘ کراچی اور پشاور جبکہ پندرہ ستمبر کے روز بھی ملک کے مختلف حصوں میں اِحتجاج ہوئے۔ پشاور کی ضلعی اِنتظامیہ بھی اِس معاملے میں پیش پیش ہے‘ جس نے 14 ستمبر کو نجی اداروں کے مالکان اور والدین کے درمیان ایک پرہجوم اجلاس کے لئے نشترہال کا انتخاب کیا اور چونکہ میزبان (ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام) خود تاخیر سے تشریف لائے‘اِس لئے تعلیمی اداروں کے نمائندے ’واک آؤٹ‘ کر گئے! ایک متاثرہ والد کے بقول ’’برداشت کی بھی حد ہوتی ہے! ہمارے مسئلے کے حل میں متعلقہ ادارے ’خاطرخواہ سنجیدگی‘کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ میرا بیٹا جس سکول میں زیرتعلیم ہے وہاں ماہانہ فیس کے مساوی نصابی کتب و کاپیوں کے لئے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ طلبہ کو کتابیں گھر لیجانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے گم یا خراب ہو جائے تو اضافی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ یوں ایک ہی کتاب کئی سال تک فروخت (استعمال) کی جاتی ہے۔ فیس کے علاؤہ دیگر کئی مدوں میں پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ سکول کے کلینڈر‘ اخبار و میگزین کے لئے قیمت وصول کی جاتی ہے۔ بجلی کے جنریٹرز چلانے کے نام پر رقم وصول کی جاتی ہے لیکن شدید گرمی میں ائرکنڈیشن تو کیا پنکھے بھی نہیں چلائے جاتے۔ فلٹرشدہ پینے کا پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ ٹھنڈے پانی کی فراہمی نہیں کی جاتی۔ فی کلاس زیادہ بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ اساتذہ کو کم تنخواہیں دینے کی وجہ سے اُن کی دلچسپی اور ذمہ داریوں کا احساس برقرار نہیں رہتی۔ ماضی میں اساتذہ کو ایک بچہ مفت جبکہ دوسرے بچے کو آدھی فیس کے عوض تعلیم دلوانے کی سہولت دی جاتی تھی‘ یوں متوسط خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو کم تنخواہ پر اعتراض نہیں ہوتا تھا لیکن اساتذہ سے مراعات واپس لینے اور انہیں تنخواہوں کی مد میں کم معاوضہ اَدا کرنے سے تعلیمی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ یہ جدوجہد صرف خودغرضی پر مبنی نہیں بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اساتذہ کے ساتھ بھی انصاف کا سلوک ہو۔‘‘

ایک سیدھا سادا مسئلہ جسے قانون سازی اور قواعدوضوابط مقرر کرکے باآسانی حل کیا جاسکتا ہے اُور جس کے لئے خیبرپختونخوا حکومت ایک قانونی مسودہ تیار بھی کر چکی ہے تو کیا اَمر مانع ہے کہ مذکورہ مسودۂ قانون فائلوں میں دبا پڑا ہے اور ایک طرف والدین تو دوسری طرف نجی تعلیمی اِداروں کے مالکان مجرموں کی طرح عوام کی نظر میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں حالانکہ اگر نجی تعلیمی اِدارے نہ ہوتے تو کیا سرکاری تعلیمی ادارے اِس قابل تھے کہ اُن پر بھروسہ کیا جاتا یا اب کیا جائے؟ نجی تعلیمی اِدارے اگر اپنی خدمات کا خاطرخواہ معاوضہ (بطور منافع) چاہتے ہیں تو اس کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ ٹیکس چوری کر رہے ہیں تو بھی یہ عمومی مسئلہ ہے اور ہر سرمایہ دار اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس چوری کرتا ہے کیونکہ چوری‘ رشوت اُور بدعنوانی جیسی خباثتوں کا شمار ہمارے معاشرے میں بطور’عیب‘ نہیں کیا جاتا۔

 نجی اِداروں کا معائنہ کرکے اُنہیں فراہم کردہ سہولیات اُور اَساتذہ کی قابلیت کے مطابق درجات (کٹیگریز) میں باآسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ ماہانہ فیسوں کا تعین بھی سکولوں کے درجات کے مطابق ممکن ہے۔ جہاں تک تربیت یافتہ اُور تعلیم یافتہ ’ٹیچنگ سٹاف‘ کا معاملہ ہے تو اِس بات کا اطلاق بھی بذریعہ قانون ہی ممکن ہے۔ چند کمروں پر مشتمل چھوٹے بڑے گھروں میں سکول (بطور کاروبار) کھولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور تعلیم اگر ضرورت ہے تو اِسے مجبوری سمجھنے والوں کی حوصلہ شکنی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مقابلے کی فضا پیدا کی جائے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اِداروں میں درس و تدریس‘ نظم و ضبط و سہولیات کا معیار بہتر (بلند) کیا جائے تاکہ ذاتی مفاد کے زیراثر نجی تعلیمی اداروں کی اجارہ داری‘ من مانیاں اُور لن ترانیاں ختم کی جا سکیں۔

Monday, September 14, 2015

Sep2015: Out of reach health facilities

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
علاج معالجہ: بنیادی خامیاں!
انسداد پولیو کے خلاف جاری جدوجہد کے سلسلے میں ’قومی سطح پر‘ تین روزہ مہم کا آغاز چودہ ستمبر کے روز کرتے ہوئے متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ’’سال دو ہزار پندرہ کے دوران ملک بھر میں پولیو سے متاثرہ صرف 13 کیسیز سامنے آئے‘ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ پولیو وائرس کو شکست دینے کے سلسلے میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ سال 2014ء کے دوران 32 پولیو کیسیز سامنے آئے تھے لیکن سردست مسئلہ یہ نہیں کہ صرف ایک پولیو کا مرض ہی صحت کے شعبے میں پائے جانے والے نقائص کا بیان ہے بلکہ دیگر کئی ایسے امراض ہیں جو اگرچہ پولیو جتنے خطرناک نہیں لیکن اُن سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو منتقل ہونے کی شرح تشویشناک ہے۔ ایک مسئلہ شعبۂ صحت کے لئے مختص کئے جانے والے سرکاری وسائل کا بھی ہے کہ جس کا بڑا حصہ غیرترقیاتی امور کی نذر ہو رہا ہے! مثال کے طور پر خیبرپختونخوا میں سال 2007ء سے ’صحت کے بنیادی مراکز (بی ایچ یوز)‘ کے لئے مختص کئے جانے والے مالی وسائل اِس حد تک کم ہیں کہ اِن سے تعمیرومرمت کے کام نہیں کرائے جا سکتے۔ ایسی صورتحال میں صحت کے ہر بنیادی مرکز کے لئے سالانہ صرف 45 ہزار روپے کی رقم مختص کرنا کسی بھی طور پر کافی نہیں جبکہ 25 کروڑ روپے اِن مراکز کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی نذر ہو رہے ہوں۔ صحت کے بنیادی مراکز کی حالت زار اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ خود محکمانہ رپورٹ کی مطابق خیبرپختونخوا کے ’’200 بنیادی صحت کے مراکز انتہائی خراب حالت میں ہیں۔‘‘

خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی کل 784 سہولیات ہیں جن میں 100 ایسی ہیں جہاں بنیادی سہولیات میسر نہیں اور 200 ایسی ہیں جن کی خستہ حالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ یہ صورتحال پشاور‘ ہری پور‘ مانسہرہ‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ‘ ہنگو اور لکی مروت کے اضلاع میں زیادہ سنگین ہے۔ کیا یہ امر تشویشناک نہیں کہ سال 2007ء سے خیبرپختونخوا میں صحت کے بنیادی مراکز کی عمارتوں کی تعمیرومرمت کے لئے الگ سے مالی وسائل مختص نہیں کئے گئے!؟ اور جب صحت کے بنیادی مراکز میں سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو وہاں علاج معالجہ نہیں ہورہا تو اس کا بوجھ اضلاع اور صوبائی دارالحکومت کے مرکزی ہسپتالوں پر منتقل ہو جاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلعی و صوبائی ہیڈکواٹر علاج گاہوں میں معمولی نزلہ و زکام کے مریضوں کی قطاریں بھی لگی دکھائی دیتی ہیں۔ صحت کے موجودہ نظام سے متعلق عام آدمی کی شکایات و مشکلات دور کرنے کی واحد صورت ’علاج معالجے کے بنیادی مراکز‘ کی حالت زار بہتر بنانا ہے اور اس بارے میں ترقیاتی امور کے لئے مالی وسائل مختص کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرناہوگا۔

شعبۂ صحت کو لاحق اَمراض میں ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس‘ اَدویہ ساز اِداروں کے ساتھ شراکت داری کے سبب قائم اِجارہ داری‘ بھاری فیسیں‘ علاج کے لئے تجویز کئے جانے والے تجزئیات اورتجزیہ گاہوں کی سیاست‘ مہنگی و جعلی ادویات کی بھرمار‘ نیم حکیم معالجین‘ متبادل علاج کے نام پر جاری لوٹ مار کا سلسلہ بھی توجہ طلب ہے۔ ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر نجی طور پر صرف معائنہ کیا کرتے تھے لیکن اب تو باقاعدہ ہسپتال اور جراحت (سرجری) بھی نجی طور پر ہو رہی ہے۔

کیا گلی گلی قائم ایسے نجی ہسپتالوں اور تجزیہ گاہوں کو ’ریگولیٹ‘ کرنے والی اتھارٹی کا وجود کہیں دکھائی دیتا ہے؟ ایک وقت وہ بھی تھا جب عوام کی صحت داؤ پر لگانے اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد اپنے علم و تجربے کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کو ’گناۂ کبیرہ‘ سمجھتے تھے۔ راتوں رات امیر بننے والوں کو معاشرہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا لیکن یہ سماجی اقدار وقت گزرنے کے ساتھ غیراہم ہو چکی ہیں! اگر صحت سے متعلق حکومتی محکمے ’کوتاہی‘ کے مرتکب ہو رہے ہیں تو عام آدمی (ہم عوام) بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ سیاست میں سرمایہ کاری کرنے کی سوچ و عمل قابل مذمت ہیں تو عام انتخابات کے موقع پر اپنا ووٹ نسلی و لسانی بنیادوں اُور گروہی و قبائلی ترجیحات کی نذرکرنے والے بھی یکساں قصور وار ہیں۔

تبدیلی کے لئے حکومت کی طرف دیکھنا کافی نہیں بلکہ اس کے عملاً نفاذکے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر ایک کو اپنے زندہ ہونے اور ضروریات کا احساس دلانا ہوگا بصورت دیگر حالات جوں کے توں برقرار رہیں گے۔ علاج گاہیں صحت کے نام پر بیماریاں پھیلانے کا مؤجب رہیں گی اور علاج کے نام پر معالجین یونہی مار دھاڑ سے بھرپور ڈکیتیاں ’فرماتے‘ رہیں گے!

Sunday, September 13, 2015

Sep2015: Health is wealth, actually!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
جان ہے تو جہان!
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ہوٹلوں (میریٹ و اسلام آباد اِن) اُور نت نئے ذائقوں کے لئے مشہور بیکری (تہذیب) کے فن تعمیر‘ رکھ رکھاؤ‘ ظاہری خوبصورتی و صفائی سے مرعوب ہوئے بناء جب اِنتظامیہ نے اِن معروف دکانوں میں خوراک ذخیرہ رکھنے کے مقامات اُور بالخصوص کچن (کھانے پکانے کی جگہوں) کا معائنہ کیا تو ’اونچی دکان پھیکا پکوان‘ سے زیادہ ایسی حیران کن بے قاعدگیاں سامنے آئیں‘ جن کی کم از کم اِس قدر نامور کمرشل اِداروں سے توقع نہیں تھی اُور یہی سبب تھا کہ صرف واجبی جرمانہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کچن کو ’سربمہر (سیل)‘ کرتے ہوئے تنبیہ (وارننگ) جاری کر دی گئی لیکن اِنتظامیہ کے لئے یہ بات ’زیادہ حیرت کا باعث‘ ہے کہ ناقص المعیار اشیائے خوردونوش بنا سنوار‘ سجا سجا کر اُور نزاکت و مہارت سے پیش کرنے والوں کے گاہگوں میں کمی نہیں آئی بلکہ مذکورہ ہوٹلوں کی رونقیں جوں کی توں برقرار ہیں! کیا ہم اپنی اور دوسروں کی صحت سے اتنے لاتعلق ہوچکے ہیں کہ حقائق سامنے آنے کے باوجود بھی اپنی عادات ترک یا تبدیل کرنے کو تیار نہیں؟ لمحۂ فکریہ ہے کہ بڑے بڑے ہوٹلوں سے محض تفریح طبع کے لئے رجوع کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد خواتین (اُن بیگمات) کی بھی ہے‘ جن کے لئے ایسی آؤٹنگ اُن کے بلند معاشرتی مقام (اسٹیٹس سیمبل) کا عکاس ہے! دوسروں کی دیکھا دیکھی مصنوعی زندگی اور فیشن زدہ اَندھی تقلید میں اُلجھ کر وقت‘ پیسہ اُور صحت برباد کرنے والوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

اِسلام آباد میں متوسط طبقے بالخصوص ملازمت پیشہ یا سیروسیاحت کے لئے آنے والوں کی اوّلین ترجیح ’بلیو اِیریا‘ میں ’سیور فوڈز‘ کی دکان ہوتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنوں اُور اسلام آباد میں آئے روز ہونے والی اکثر سیاسی تقاریب میں اِسی ہوٹل کے چاول‘ شامی کباب اور چکن سے تواضع کی جاتی ہے لیکن جب اِنتظامیہ نے ’سیور فوڈز‘ کے تہہ خانے اور بالا خانے میں رکھے ہوئے یخ دانوں (فریزرز) کے ڈھکن کھولے تو پھپھوندی لگا گوشت‘ کباب اور ذبح کی گئی مرغیوں کے ٹکڑے (پیسیز) جنہیں دہی‘ بیسن اور مصالحے لگا کر سٹور کیا گیا تھا تاکہ زیادہ گاہگ آنے کی صورت میں انہیں جلداَزجلد تیار کرکے پیش کیا جاسکے! اُور یہ بات صرف ’سیور اِسلام آباد‘ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر معروف و غیرمعروف ہوٹلوں یا ریسٹورنٹس کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔
قبل ازیں عمومی تصور یہی تھا کہ ملک کے غریب و متوسط طبقات کی آبادیوں میں اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والے ہی حفظان صحت کے اَصولوں کا خیال نہیں رکھتے اُور صرف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ ہی کی صحت خطرات سے دوچار ہے لیکن اسلام آباد میں کھانے پینے کے انتہائی مہنگے اور فیشن ایبل مقامات پر فروخت ہونے والی اشیاء کا جو معیار سامنے آیا ہے‘ اُس سے کم اَز کم اَیک بات واضح ہو چکی ہے کہ ’پشاور سے کراچی تک‘ کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔

 ’ناجائز‘ منافع خوری اپنی جگہ لیکن صحت و صفائی کے مقررہ معیار اُور اِن سے متعلق قواعد و ضوابط پر عمل درآمد ممکن بنانے والے حکومتی اِداروں کی کارکردگی کھل کر سامنے آ گئی ہے اُور کوئی وجہ نہیں وسیع تر عوامی مفاد اور پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے ملاوٹ شدہ‘ غیر معیاری اُور خراب اشیائے خوردونوش بنانے والوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کاروائی کی جائے۔ اِس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اُور بھاری جرمانے عائد کرنے کے علاؤہ نگرانی کے عمل کو مغربی ممالک کی طرح ایک سے زیادہ اداروں کے حوالے کرنا ہوگا تاکہ ملی بھگت اور بدعنوانی کے امکانات کم کئے جا سکیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشرے میں اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کی مسلسل نگرانی کا عمل ہمارے ہاں کی طرح ’موسمی‘ وقتی یا جذباتی‘ نہیں ہوتا اور دوسرا وہاں کے ’کمرشل کچن ایریاز‘ میں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کرنا ایک لازمی ضرورت ہوتی ہے‘ جن کی لمحہ بہ لمحہ ریکارڈنگز محفوظ (سیو) ہو رہی ہوتی ہیں اُور اِنتظامیہ اچانک دوروں کے دوران اُن محفوظ شدہ ریکارڈنگز کا مشاہدہ کرنے کے علاؤہ کسی بے قاعدگی کی صورت اُن کا ریکارڈ بھی اپنے پاس بطور ثبوت رکھتی ہے۔ علاؤہ ازیں ہر ہوٹل یا دکان میں کھانے پکانے اور اشیاء کو ذخیرہ رکھنے کا ایک تربیت یافتہ نگران ملازم رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ جس کی جملہ ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے وہ کچن ایریا میں کام کرنے والے عملے کی صحت کا معائنہ باقاعدگی سے کروائے اور کسی بھی ایسے ملازم کو کچن میں کام کرنے کی اجازت نہ دے‘ جو نزلہ‘ زکام‘ کھانسی یا کسی سبب بخار میں مبتلا ہو۔ مغربی ممالک میں ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ چائے (کافی) خانہ یا سڑک کنارے برگر آئس کریم یا دیگر اشیاء فروخت کرنے کے خواہشمندوں کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ میونسپل اداروں سے اجازت نامہ (لائسینس) حاصل کریں‘ جس کے ساتھ صفائی کی صورتحال سے متعلق مرتب کی گئیں ہدایات کو حلفاً تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے اُور بناء اجازت نامہ حاصل کئے اشیائے خوردونوش فروخت کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!

پشاور کی مثال لیں‘ جہاں ضلعی انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود بھی اشیائے خوردونوش کا معیار و صفائی کا کم سے کم معیار حاصل ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ فٹ پاتھ تو کیا نکاسی آب کے نالے اور نالیوں کے کنارے‘ پاؤں کے بل بیٹھ کر کھانے پینے والوں کو نہ تو تعفن پریشان کرتا ہے اور نہ ہی گندگی و غلاظت کے مناظر نظر آتے ہیں! اگر ہر گلی کوچے اور ہر نکڑ پر کھانے پینے کے مراکز ہونا ضروری ہیں تو اُن کے لئے درجات مقرر کرکے صفائی و حفظان صحت کے کم سے کم معیار بھی مقرر ہونے چاہیءں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ پشاور میں ’فوڈ سٹریٹ‘ بنا کر جابجا سرراہے کھانے پینے کی دکانیں ایک ہی مقام پر جمع نہیں کی جاسکتیں؟

ضلعی انتظامیہ اِس سلسلے میں نئے اجازت ناموں (لائسینسوں) کا اجرأ کر سکتی ہے‘ جن کے ساتھ نرخنامہ‘ طے شدہ قواعد اور ہدایات پر عمل درآمد کا حلفیہ تحریری اقرار نامہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صوبائی حکومت ملاوٹ و ناقص المعیار اشیاء فروخت کرنے والوں کے لئے زیادہ سخت سزائیں متعارف کرا سکتی ہے اور اس سلسلے میں نئی قانون سازی ضروری ہے کیونکہ موجودہ قانون کے تحت اگر کسی کو جرمانہ ہو بھی جائے تو وہ دن کی سزا یا چند لاکھ روپے خرچ کرنے کے عوض پھر سے دکان سجا بلکہ بڑھا دیتا ہے! اصولی طور پر اس بات پر بھی عملدرآمد ہوناچاہئے کہ کسی ہوٹل میں استعمال ہونے والے گھی یا کوکنگ آئل کا نام کیا ہے اور نرخنامے کے ساتھ وہاں اشیائے خوردونوش میں استعمال ہونے والے اجزأ کی تفصیلات بھی آویزاں ہونی چاہیئں۔

خیبرپختونخوا کی سطح پر ہر ضلعی انتظامیہ کا ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ’پبلک ہیلتھ‘ یا مقررہ نرخنوں سے زائد قیمتیں وصول کرنے والوں سے متعلق شکایات درج کرانے کا نظام وضع کرے کیونکہ یہ معاملہ انسانی صحت سے متعلق ہے اور ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ’’جان ہے تو جہان ہے!‘‘
Unhygienic food and beverages are big concern for those prefer to hangouts

Saturday, September 12, 2015

National secuirty needs & international cooperation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
محتاط سیاست!
خوش آئند ہے کہ پاکستان اُور روس کے درمیان دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے‘ پاکستان روس سے ’ایم آئی 35ایم ہیلی کاپٹر‘ کے علاؤہ جدید رین (فورتھ جنریشن کے) ’سینحوئی ایس یو 35‘ لڑاکا جیٹ طیارے حاصل کرے گا۔ روس کے ساتھ دفاعی سازوسامان کی خرید و فروخت خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی اہم ہے۔ اس سے قبل روس کے ساتھ انسداد دہشت گردی اُور اقتصادی میدان میں بھی معاہدے ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے خارجہ پالیسی کو پہلے سے زیادہ لچکدار بناکر بھارت کی نیند اُڑا دی ہے۔ روس اس خطے میں ویٹو پاور کا حامل ملک ہے۔ 1980ء کی دہائی تک اس کا طوطی بولتا تھا‘ تب پاکستان نے اس کی طاقت کے سامنے بند باندھا اور ا س کی گرم چشموں تک رسائی ناممکن بنائی لیکن اب اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ روس کے دفاعی آلات آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ روس کی جانب سے جنگی سازو سامان کی فروخت کے معاہدوں کے علاؤہ پاکستان میں تعمیراتی کاموں کے منصوبوں میں دلچسپی تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کڑی ہے۔ پانچ دہائیوں کے بعد دوبارہ پاکستان کے تیل و گیس کے شعبے میں روس سرمایہ کاری اور گیس لائن کا جال بچھانے پر بھی غور کررہا ہے۔ یقینی طور پر اس سے دونوں ممالک کے تعلقات مستحکم ہوں گے۔ روسی نائب وزیر خارجہ نے تو کہہ دیا ہے کہ توقع ہے بھارت حسد نہیں کرے گا۔ بھارت کو حسد کرنا بھی نہیں چاہئے۔ عرب امارات کی بھارت میں سرمایہ کاری پر ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو بھارت کو بھی حسد سے گریز کرنا چاہئے۔ جنگی جہازوں کے ملنے کے بعد یقینی طور پر خطے میں طاقت کا توازن قائم ہوگا اور پاکستان کا دفاع مزید مضبوط ہوگا۔

گذشتہ چند برس میں بھارت اور مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کے درمیان عسکری شعبے میں بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ روس کو شکایت ہے کہ بھارت اُس سے دور ہوتا جا رہا ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب پاکستان کو روس کے قریب ہو کر فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ امریکہ پر بھروسہ ایک حد تک تو سودمند ہے اور پاکستان کو بھی بھارت کی طرح اپنے مفادات کے لئے یک سو ہونا پڑے گا۔ مثال کے طور پر بھارت روس کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس کی افواج کے پاس 70فیصد سے زیادہ اسلحہ روسی ساخت کا ہے لیکن سال 2011ء میں جب بھارتی فضائیہ کے لئے 126 جدید طیارے خریدنے کا 11ارب ڈالر کا ٹینڈر‘ روس کی بجائے فرانس کی ایک طیارہ ساز کمپنی کو دیا گیا تو روس کے لئے یہ ایک بڑا دھچکا تھا۔ اسی طرح 2012ء میں ایک ارب ڈالر مالیت کے بھاری بوجھ اٹھانے والے ہیلی کاپٹر خریدنے کا آرڈر‘ بھارت نے روس کی بجائے امریکہ کی بوئنگ کمپنی کو دے دیا تو روس نے اِس پر مزید ناراضگی کا اظہار کیا تاہم بھارت کی طرف سے ان اقدامات کا جواز بھی موجود ہے۔ بھارت اور روس کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات بلکہ مضبوط اتحاد سرد جنگ کے زمانے میں قائم ہوا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمہ ور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے اپنی اپنی خارجہ پالیسیوں کی سمتیں تبدیل کر لیں‘ اس طرح بھارت نے بھی بھی دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات ازسرنو قائم کرنے کی کوشیں کیں تاکہ روس پر اس کے انحصار کا خاتمہ ہو سکے۔

بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کے کئی ایسے اقدامات ہیں‘ جنہیں باریک بینی سے دیکھنا چاہئے۔ اُنہوں نے ملک کے دس ہزار دیہات کو بجلی فراہم کرنے کے لئے جس طرح کا ہدف مقرر کیا ہے اور ساتھ ہی بجلی کے محتاط استعمال کے لئے ملک گیر مہم چلا رہے ہیں‘ اُس سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اگر توانائی کے ’نندی پور منصوبے‘میں بدعنوانی کی بازگشت ایک ایسا المیہ ہے‘ جس کے منفی اثرات نیشنل ایکشن پلان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ موجودہ حکومت نے بجلی کا مسئلہ تین مہینے میں حل کرنے کا وعدہ کر کے عوام سے ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اڑھائی سال گزرنے کے باوجود قوم سے کئے وعدے کو پورا نہیں کئے جا سکے۔ نندی پور پراجیکٹ کا منصوبہ بائیس ارب روپے سے شروع ہوا لیکن اب تک اس منصوبے پر ایک سو بیس ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس منصوبے کے افتتاح کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن دو دن کے بعد یہ منصوبہ ٹھس ہو گیا تھا۔ یہ بات صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ خود وزیراعظم کو قوم سے خطاب میں واضح کرنی چاہئے کہ اٹھاون ارب روپے کے منصوبے پر اگر ایک سو بیس ارب روپے خرچ ہو جائیں تو اسے بد انتظامی اور بدعنوانی کا نام اگر نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ نواز لیگ تحریک انصاف کے کام کو آسان کر رہی ہے اور حزب اختلاف کے لئے عام انتخابات میں دھاندلی کے بعد ہاتھ آنے والا یہ ’نیا ایشو‘ خوب اُچھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے حقائق مزید الجھ گئے ہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ’قومی احتساب بیورو (نیب)‘ کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ مبینہ بدعنوانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اِس منصوبے میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو منظر عام پر لائیں۔

سابق حکومت اور موجودہ حکومت میں جن جن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایم ڈی پیپکو نے پندرہ ارب روپے کی بدعنوانی کے جو ثبوت دکھائے ہیں۔ ان کی روشنی میں ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اُور منصوبے میں ضائع ہونے والی قومی دولت کی پائی پائی کا حساب لیا جائے!

Friday, September 11, 2015

Sep2015: Intolerance and national secuirty situation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عدم برداشت
مقام افسوس ہے کہ ایسی کوئی ایک بھی سیاسی جماعت‘ تنظیم‘ نسلی‘ لسانی گروہ یا قبیلہ نہیں کہ جہاں روئیوں اُور اقدار کی مثالیں بیان کرتے ہوئے تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہو۔ نتیجہ روزمرہ معاشرت میں نظر آنے والی مثالیں ہیں کہ جہاں ہر دوسری بحث دھیمی آواز میں تبادلہ خیال سے شروع ہو کر تیز آواز میں چِلانے اور پھر لاتوں اور گھونسوں کا روپ دھار لیتی ہے! ہماری ہر بحث تشدد کی طرف کیوں چلی جاتی ہے؟ لوگ لڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی کسی کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے اور بات بڑھ جاتی ہے۔ کیا ہمارے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں یا ہمیں لگتا ہے کہ ہماری مؤثر ترین دلیل ہمارا گھونسہ ہے؟

جن معاشروں میں ’اختلاف رائے‘ کی گنجائش نہیں ہوتی‘ اُن کے ہاں تخلیقی خیالات و نظریات کی شاخیں سوکھی رہتی ہیں۔ پھل پھول لگنے کے لئے ’نئی کونپلوں‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اگر لڑائی میں ہاتھ کا اٹھ جانا انتہائی معمولی بات ہے بلکہ بہت سی چھوٹی باتوں پر بھی اسلحہ نکل آتا ہے اور بعد میں اپنی جھوٹی انا کی خاطر اس کا استعمال مزید خرابیوں کو جنم دیتا ہے۔ بچوں کو ہتھیاروں والے کھلونے خرید کر دینے والوں کا احساس نہیں کہ وہ کس جرم میں ملوث ہو رہے ہیں اور اپنا مستقبل ایک ایسی سوچ کے حوالے کر رہے ہیں جو ماردھار سے بھرپور ہوگا! سوچئے کہ مغربی معاشرے میں مار کٹائی کا کلچر کیوں عام نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت مار کٹائی کے ذریعے نہیں ہوتی‘ اوائل سے ہی بچوں کو دلائل سے قائل کیا جاتا ہے‘ بچوں کو سوال کرنے سے نہیں روکا جاتا اور نہ ہی ٹوکا جاتا ہے۔ بچوں پر والدین اور بھائی بہن تو کیا کسی بھی شخص کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی‘ اس لئے غصے اور ناراضگی کا اظہار صرف اور صرف باتوں سے کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اگر ہمیں کسی معاشرے میں الفاظ کی حقیقی قدر دکھائی دیتی ہے تو وہ مغربی معاشرہ ہے جہاں ’تھینک یو‘ اُور ’ایکسویز می‘ جیسے الفاظ محض رسمی نہیں بلکہ معنوی انداز میں بولے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بھی کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ بچوں کو درس و تدریس تربیت کے بہانے اُن کی ٹھکائی کرے۔ دس ستمبر کی شام جب ہمارے وزیرداخلہ ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عملدرآمد کا ذکر کر رہے تھے تو انہوں نے انتہاء پسندی کو فروغ دینے والے محرکات کا قلع قمع کرنے کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اگر ہمارے رویئے تبدیل نہیں ہوں گے‘ اگر ہم دلیل سے بات کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے تو حالات محض قوانین و قواعد کے زور سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ تجربے کی وہ کنگھی جو بال اجڑ جانے کے بعد ہاتھ میں آئے چہ معنی؟ عہد جوانی میں جب سبھی جھوم جھام کر چلتے ہیں تب یہ متانت کا ہنر ہاتھ کیوں نہیں آتا اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں تو لوگ ساری ساری عمر انسانی مزاج کی پہلی سیڑھی جسے مقابلے کا ماحول کہا جاتا ہے‘ اس سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔ اس درجے کی وضاحت کچھ ایسے کی جا سکتی ہے کہ آپ کسی چائے خانے میں کسی دوست سے کسی سیاسی یا سماجی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں‘ اتنے میں ایک شخص کسی ساتھ والی میز سے آپ کی دلیل کی مخالفت شروع کر دیتا ہے۔ کہتا ہے اجی چھوڑیئے آپ کو کیا پتہ‘ مجھے سب پتا ہے وغیرہ۔ ایسے لوگ بدلہ لینے اور دل میں کینہ رکھنے وغیرہ کی صلاحتیوں سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ کمال کے کارکن (حامی) ہوتے ہیں‘ آپ ان کی تعریف کر کے جس کام پر لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں‘ جب تک ان کی انا کا مساج ہوتا رہے، ان سے چوبیس گھنٹے کام لیا جاسکتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اکثر کارکن اس زمرے میں آتے ہیں۔ ان کی مخالفت کا مطلب کھلا دشمنی کا پیغام ہے! اس مقابلہ باز قسم کے انسانوں کی بستی میں کسی کا خون کھول جانا بڑی عام سی بات ہے‘ گھور کر دیکھ رہا تھا‘ کسی گلی سے گزر رہا تھا‘ کھانس کر گزرا‘ پیٹھ پھیر لی اور اس قماش کے دیگر دلائل سے کبھی بھی کہیں بھی کسی کا بھی گریبان پکڑا جا سکتا ہے۔ تھوڑے طاقتور ہوں تو مار پیٹ بھی کی جا سکتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ سب رویئے ہمارے معاشرے میں کیونکر آ گئے۔ مذہب کی بحثوں میں ایک دوسرے کو کافر بنا کر گردن مار دینے کے فتوے دینا بھی ہمارا ہی محبوب مشغلہ کیوں ہے؟ تھپڑوں کے بغیر ہم بچوں کو کیونکر سمجھا نہیں پاتے؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں حکم منوانے کا ’اوزار‘ ڈنڈا کیوں ہے اور مخالفین کو دھونس‘ دھمکیوں اور گھونسوں سے متاثر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ بچپن سے ہی سمجھانے اور سکھانے کے ان طریقوں کے ہوتے ہوئے ہم یہ سوال بھی کیسے کر سکتے ہیں کہ ہماری قوم پرتشدد کیوں ہے کیونکہ جواب کہیں پوشیدہ نہیں بلکہ ہمارے سامنے موجود ہے!

نیشنل ایکشن پلان کی تحت ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی ویژن چینلوں کو ایسے پروگرام اور ڈرامے پیش کرنے سے روکا جائے‘جس میں حقیقی دنیا کے جرائم کی ڈرامائی تشکیل کی جاتی ہے۔ وہ ایک جرم جو کسی دیہی علاقے کے کونے میں رونما ہوتا ہے اُسے پوری دنیا کے سامنے پیش کرکے پاکستانی معاشرے کی جس اَنداز میں خدمت کی جا رہی ہے‘ وہ ذلت آمیز بھی ہے اور سوہان روح بھی۔ سوچئے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں اور اصلاح کی اِبتدأ کہاں سے ہونی چاہئے!

Thursday, September 10, 2015

Sep2015: Grey shades of Governance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
طرزحکمرانی: ظاہری تقاضے
کسی دانا سے جب یہ پوچھا گیا کہ ’’آپ نے عقل کہاں سے حاصل کی؟‘‘ تو اُنہوں نے اپنے مشاہدے کا ذکر کیا۔ دوسروں کے وہ سبھی کام جن کے نتائج اچھے نہیں ہوتے‘ انہیں ترک اور جن تجربات کے نتائج حوصلہ افزأ تھے اُنہیں اختیار کرتا چلا گیا۔ فہم و فراست میں اضافے کے لئے ’مشاہدے کی صلاحیت‘ تیزدھار ہونی چاہئے۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے جب ’سی این جی‘ کی طاقت سے چلنے والی ایسی تمام مسافر گاڑیوں کو نوٹسیز جاری کئے جو بالخصوص تعلیمی اداروں سے منسلک تھیں اور طلباء و طالبات کی حفاظت کے پیش نظر ’سی این جی ایندھن‘ کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا حکمنامہ جاری کیا گیا تو خیبرپختونخوا حکومت کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اِس سلسلے میں جاری بے قاعدگی کا نوٹس لیتی اور تعلیمی اِداروں کے زیراستعمال ’ٹرانسپورٹ‘ کو محفوظ بنانے کے علاؤہ گنجائش سے زیادہ بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سوار کرنے کا فوری نوٹس لیا جاتا۔ اِنہی سطور میں اِس سے قبل بھی ’بچوں کو سکول لانے لیجانے والی زیراستعمال نجی گاڑیوں‘ کے حوالے سے گزارشات پیش کرتے ہوئے والدین سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ’باوجود دیکھنے اور سننے‘ کے خود کو لاتعلق بنائے ہوئے ہیں تو اِس تجاہل عارفانہ کی روش بھی ترک ہونی چاہئے۔

خوش خبری ہے کہ ضلع پشاور کے ٹریفک حکام کو (بالآخر) اِحساس ہوگیا ہے کہ ’’سکول بسیں‘ ویگنیں‘ سوزوکی وینز اور چھوٹی بڑی دیگر گاڑیوں کو نظم وضبط کا پابند ہونا چاہئے!‘‘ اِس سلسلے میں پشاور کے کم اَز کم 60 بڑے تعلیمی اِداروں کو ٹریفک پولیس کی جانب سے نرم لب و لہجے میں ہدایات ارسال کی گئیں ہیں جو آئندہ چند روز میں وصول ہونا بھی شروع ہو جائیں گی جن میں تحریر ملے گا کہ 1: سکول وینز کے ڈرائیور (ڈرائیونگ) لائسینس یافتہ ہونے چاہیءں۔ 2: سکول وینز کے اِنجن دھواں دھار ماحولیاتی آلودگی میں اِضافے کا سبب نہیں ہونے چاہیءں۔ 3: سکول وینز کو کھڑا (پارک) کرنے کے لئے مقررہ مقامات اور نجی ملکیت کی جگہیں ہونی چاہیءں اور چوتھا حکم یہ ہے کہ گنجائش سے زیادہ بچوں کو سکول وینز میں سوار نہ کیا جائے۔ ٹریفک پولیس کی جانب سے اگرچہ ’سی این جی ایندھن‘ کے استعمال کی جانب توجہ نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ہر گاڑی ایک چلتا پھرتا ’بم‘ جیسی ہے جس پر بچے ہر روز سوار ہوتے ہیں! خدا نہ کرے کسی حادثے کی صورت میں ناقابل تلافی جانی نقصان ہونے کا اندیشہ موجود ہے‘ اِس لئے ٹریفک حکام سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ’سی این جی سلینڈرز‘ کے استعمال کو نہ صرف تعلیمی اداروں کے لئے گاڑیوں میں ممنوع قرار دیں بلکہ جملہ پبلک ٹرانسپورٹ کو پابند کریں کہ اگر وہ کرائے پیٹرول اُور ڈیزل (ایندھن) کے فی لیٹر نرخوں کے مطابق وصول کرتے ہیں تو پھر ’سی این جی‘ استعمال نہیں کرسکتے۔ یہی حکمنامہ تین سواریوں والے آٹورکشاؤں اور چھ سواریوں والے چنگ چئی و دیگر چھوٹی سواریوں کے لئے بھی ہونا چاہئے۔ گنجان آباد‘ تنگ شاہراؤں والے شہر کے اندرونی علاقوں میں بڑی بسوں کے داخلے پر پابندی اور دس سے بارہ سواریوں کی گنجائش والی ’موڈیفائیڈ سوزوکی وینز‘ کا استعمال متعارف ہونا چاہئے۔ سکولوں کے لئے بارہ سے پندرہ سال سے پرانے ماڈل کی بسیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تاکہ پشاور میں فضائی آلودگی اُور شورکم سے کم کیا جا سکے۔

پشاور ٹریفک پولیس کے اعلیٰ اہلکار سے ہوئی بات چیت میں معلوم ہوا کہ حکام کو سب سے زیادہ تشویش فی گاڑی گنجائش سے زیادہ بچوں کو سوار کرنے کے بارے میں ہے۔ حالانکہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ و سنجیدہ ہے۔ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے بین الاضلاعی و بین الصوبائی کرائے ناموں کا اجرأ باقاعدگی سے کیا جاتا ہے جس پر عمل درآمد نہ ہونا ایک الگ موضوع ہے لیکن سکول وینز کے کرائے طے کرنے کے لئے کوئی اتھارٹی (سرکاری نگران ادارہ) موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیسوں کی مد میں من چاہے اضافے کے ساتھ بالخصوص نجی تعلیمی ادارے متوسط گھرانوں کی ہر اُس کمزوری کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں‘ جو خاطرخواہ مالی وسائل نہیں رکھتے یا جن کے پاس سرکاری گاڑیاں اور سرکاری اہلکار بطور ذاتی ڈرائیور نہیں ہوتے۔ مقام افسوس ہے کہ اگر ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ ٹریفک پولیس اُور نگران ایجوکیشن بورڈ ’جانوروں کی طرح انسانی بچوں کو ہانکتے ہوئے سکول لانے لیجانے کا نوٹس نہیں لیتے‘ تو اِس بارے میں ہائی کورٹ بھی خاموش ہے اور وہ ’مفاد عامہ‘ میں ’سوموٹو (ازخود) نوٹس‘ نہیں لے رہی۔ ایک سے بڑھ کر ایک معزز دانشور وکیل موجود ہے لیکن فرصت نہیں کہ ایک آدھ کیس ہی دائر کرکے ’ثواب دارین‘ حاصل کیا جائے! صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’’پشاور شہر کی حدود میں 20ایسے تعلیمی ادارے ہیں جن کی گاڑیوں سے بچے لٹک کر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں اور جس گاڑی میں دس بچوں کو بٹھانے کی گنجائش ہوتی ہے وہاں (دھرلے سے) بیس سے تیس بچوں کو سوار کرایا جاتا ہے۔‘‘ اِس سلسلے میں حکام کی توجہ ایک باریک نکتے کی جانب بھی مبذول کرانے کا یہی نادر موقع ہے۔ ڈرائیوروں کے ساتھ اگلی سیٹ پر بچوں (طلباء و طالبات‘ چاہے وہ کسی بھی عمر کی ہوں) کے بیٹھنے پر پابندی عائد ہونی چاہئے‘ اس کی کئی ایک اخلاقی وجوہات ہیں‘ اصولی طور پر ڈرائیور اور بچوں کے درمیان اس قدر قربت درست نہیں کہ وہ ایک معمول کے مطابق جڑ کر سفر کریں۔ دوسری بات سکولوں کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ نہ تو ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال کریں اور نہ ہی گاڑیوں میں ’ایف ایم ریڈیو‘ یا ’یو ایس بی‘ ایل سی ڈی‘ ڈی وی ڈی (ڈسپلے سکرین) سے من پسند موسیقی (فلمی ٹوٹوں یا رقص) سے محظوظ ہوں۔ سکول کی گاڑیوں میں ذومعنی اشعار‘ فلمی ستاروں کی تصاویر‘ اسٹیکرز اور ڈیکوریشن کے نام پر لگائے گئے درجنوں آئینے بھی ہٹائے جائیں تاکہ ڈرائیورز کی توجہ اُن کے اصل کام (ذمہ داری) پر مرکوز رہے۔

سکول وینز کا الگ رنگ‘ الگ کٹیگری کا لائسینس‘ ڈرائیوروں کی کسی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت‘ ڈرائیورز کے کوائف کی ڈیٹابیس‘ ہر گاڑی میں سی سی ٹی وی کیمرہ (جس میں گاڑی کی رفتار اور وقت خودکار انداز سے محفوظ ہو) اور ’جی پی ایس‘ آلہ کی تنصیب ضروری ہے تاکہ اگر کوئی سکول وین کسی ضلع کی مقررہ حدود اور مقررہ راستے کے علاؤہ کسی اُور طرف گامزن ہو تو متعلقہ حکام کو بروقت اطلاع ہوسکے۔ سکول وینز کے لئے ڈرائیور بننے والوں کی اپنے متعلقہ تھانے سے کلیئرنس ضروری قرار دی جائے تاکہ منشیات کے عادی یا نفسیاتی اُلجھنوں اور جرائم میں ملوث اَفراد اِس شعبے میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے شوق پورے نہ کریں۔ یہ صرف حساس نہیں بلکہ انتہائی حساس معاملہ ہے‘ بہتر طرز حکمرانی کلی طور پر پوشیدہ عمل نہیں بلکہ اِس کے کچھ ظاہری تقاضے بھی ہیں۔

درحقیقت یہ ذمہ داری خالصتاً ضلعی حکومت (بلدیاتی نمائندوں) پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدامات کریں اور اگر ’نجی تعلیمی اِداروں‘ کا قبلہ راتوں رات درست نہیں ہوسکتا تو کم از کم ماہانہ فیسیں مقرر کرنے کا فارمولہ اُور بچوں کی آمدورفت کے معاملات طے کرتے ہوئے والدین (بطور صارفین) کی راحت اور انہیں اِس بات کا لطیف احساس دلایا جائے کہ ’’فیصلہ ساز اپنے اہل و عیال کی طرح عام آدمی (ہم عوام) کے بچوں کی سہولت اُور حفاظت کے بارے میں بھی زیادہ نہیں تو یکساں فکرمند ضرور ہیں!‘‘

Wednesday, September 9, 2015

Sep2015: Lowcost democracy

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کم خرچ طرز حکمرانی!
خیبرپختونخوا میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے جاری دور حکومت کا موزانہ اگر ماضی کی دہائیوں سے بھی کیا جائے تو بلاشک و شبہ ’تھانہ و کچہری‘ کے مزاج (کلچر) میں بہتری آئی ہے لیکن یہ واجبی بہتری نہ تو نظام کی اصلاح کے حوالے سے ہے اور نہ ہی ’اَندھا دُھند اِختیارات‘ قابو میں لانے‘ پولیس فورس میں ایسا نظم وضبط متعارف کرانے کہ جس میں وہ اپنے اعلیٰ و ادنیٰ حکام کی طرح عام آدمی کو بھی عزت و تکریم سے نوازیں‘ آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت‘ مالی و تکنیکی وسائل اور تربیتی مواقعوں میں خاطرخواہ اضافہ‘ پولیس کی صفوں سے کالی بھیڑوں کی صفائی‘ ماضی و حال میں ناجائز ذرائع سے صاحبان ثروت بننے والے پولیس اہلکاروں کا احتساب (ہر پولیس اہلکار کے اثاثہ جات کی تفصیلات اکٹھا کرنا)‘ تھانہ جات میں ایک زمانے سے تعینات اہلکاروں کے جرائم منظم پیشہ عناصر سے روابط یا پھر پولیس کی ساکھ اِس حد تک بہتر بنا دی جائے کہ اِس سے متعلق عام آدمی کی رائے تبدیل ہو جائے۔ ضرورت بہت سے محاذوں پر بیک وقت کام کرنے کی تھی اُور ہے۔ حسب حال اِصلاحی ترجیحات کے تعین میں اعلیٰ حکام کی توجہ نمائشی اِقدامات پر ’زیادہ مرکوز‘ ہونے کے سبب اگرچہ بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے لیکن موقع ہے کہ ’مؤثر پولیسنگ‘ جیسے کثیرالجہتی ہدف کا تعین کرتے ہوئے اُس ایک شعبے کو فعال بنایا جائے‘ جو پولیس اِہلکاروں سے متعلق ’عوامی (عام آدمی کی) شکایات‘ کا ہے۔ عجب ہے کہ پولیس سمیت جملہ سرکاری محکموں سے شکایت صرف عام آدمی کو ہی رہتی ہے‘ خواص جانتے ہیں کہ اُنہیں کس ’چینل‘ کا استعمال کرنا ہے!

یادش بخیر پبلک سیٖٖٖفٹی کمیشن (Public Safety Commission) نامی ایک ادارہ ہوا کرتا تھا‘ جس کا کام تھا کہ اگر کسی پولیس اہلکار کی کارکردگی یا جانبداری کے بارے میں کسی شخص کو شکایت ہو‘ تو وہ اِس سے رجوع کرے لیکن گذشتہ بلدیاتی دور حکومت کے اِختتام (سال 2007ء) کے بعد سے یہ ادارہ ’غیرفعال‘ ہے۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا آغاز 31مئی 2013ء کے روز ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی پرویز خٹک کے بطور 16ویں وزیراعلیٰ حلف لینے سے ہوا۔ جس کے بعد کابینہ کی تشکیل اور دیگر انتظامی اَمور نمٹانے میں مزید کئی ہفتے لگ گئے تاہم امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کا ذکر سیاسی قیادت کے بیانات میں شروع دن ہی سے ملتا ہے۔ ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی سیاستدانوں نے اپنی مرضی کے صوبائی اور اضلاع میں پولیس سربراہ تعینات کئے‘ کیونکہ اہلیت کا کوئی دوسرا تصور ہی موجود نہیں! حکومت اور پولیس حکام کے درمیان ملاقاتیں کا سلسلہ بھی ماضی کی طرح روایتی رہا جو صرف صوبائی دارالحکومت پشاور کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اِس مرتبہ حکمراں جماعت کے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ ’بنی گالہ‘ (اسلام آباد) تک پھیل گیا۔ غوروخوض اُور مشاورت کے اِس عمل میں کیا جانے والا سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ پشاور پولیس کو ’انسداد پولیو مہمات‘ کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا لیکن جہاں تک عام آدمی کی توقعات تھیں یعنی محکمۂ پولیس کے کسی اہلکار کے بارے شکایات درج کرانے کی جو کمی تھی وہ جوں کی توں برقرار رہی۔ یاد رہے کہ محکمۂ پولیس کے قواعد ’پولیس آرڈر 2002ء‘ کے تحت ’’پبلک سیفٹی کمیشن‘‘ بنایا گیا تھا‘ جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اگر کسی شخص کو یہ محسوس ہو کہ پولیس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے تو وہ مذکورہ ادارے (کمیشن) سے رابطہ کرے گا۔ اِس مقصد کے لئے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں ایک ایک ’پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن‘ کا قیام عمل میں لانا تھا جس کے لئے الگ مالی وسائل (بجٹ) مختص کرنا بھی قواعد کے تحت ضروری قرار دیا گیا۔ اِس کمیشن کے اراکین کی اہلیت بھی طے کی گئی تھی کہ ایسا کوئی بھی شخص جو کسی سیاسی جماعت کا فعال رکن ہو یا گذشتہ چھ ماہ میں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہا ہو‘ وہ اِس کمیشن کا بطور ’رکن‘ حصہ نہیں بننے کا اہل نہیں ہوگا۔ الفاظ کی حد تو سب کچھ بہت ہی خوشگوار (مثالی) دکھائی دے رہا تھا لیکن بات قواعد تشکیل کرنے کی حد تک ہی محدود یا سمٹ کر رہ گئی اور فیصلوں کا وسعت کے ساتھ اطلاق یا اُن پر عمل درآمد نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کسی سیاسی حکومت کے دور میں کوئی ایک ایسا ادارہ بھلا کیسے کام کر سکتا ہے‘ جس کے اراکین لازماً غیرسیاسی ہوں؟ آخر ہمارے معاشرے میں ایسے پڑھے لکھے‘ دانشور فکر رکھنے والے فارغ البال کہاں سے میسر آئیں گے جن کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی بھی نہ ہو اُور انہیں ریٹائر ہونے کے بعد ملازمت کرکے اپنا گزراوقات بھی نہ کرنا پڑے؟ جب پولیس کے صوبائی سربراہ اور ضلعی سطح پر اِنتظامی نگرانوں سمیت تھانہ جات و چوکیوں کے نگران و محرر تک ’چنے‘ جاتے ہوں وہاں کسی اَیسے اِدارے کا وجود کیونکر عملاً ممکن ہوسکتا ہے‘ جو خالصتاً غیرسیاسی ہو؟ کیا سیاسی ہونا اتنی ہی بُری بات ہے کہ یہ ’’اچھے خاصے اہل‘‘ شخص کو ہی ’’نااہل‘‘ بنا دے؟ آخر ایسا کیوں نہیں لکھا گیا کہ ’’پبلک سیفٹی اور پولیس کمپلینٹ کمیشن‘‘ کے اراکین کا انتخاب صوبائی حکومت کی صوابدید پر ہوگا اور اگر مذکورہ کمیشن عوام کی خواہشات یا توقعات کے مطابق اپنا کردار غیرجانبداری اور اصولوں کے مطابق اَدا نہیں کرے گا‘ تو اس کی ذمہ دار کمیشن کے اراکین نہیں بلکہ صوبائی حکومت ہوگی!؟ اَفسوس کہ ہمارے ہاں جمہوریت کو ایک ایسا نظام سمجھا گیا ہے جس میں اختیارات تو افراد کی حد تک مرکوز رہیں لیکن ذمہ داریاں اس حد تک تقسیم کردی جائیں کہ عوام کو یہ بات معلوم ہی نہ ہو سکے کہ اُن کے مسائل و مشکلات کے لئے اَصل ذمہ دار کون ہے!

سال 2002ء میں بننے والے مذکورہ کمیشن کے سال 2007ء تک کے سفر میں ہزاروں ایسی عوامی شکایات کا اَزالہ ہوا‘ جو مقدمات (ایف آئی آرز) کے درج نہ ہونے‘ پولیس اہلکاروں کے بذات خود جرائم میں ملوث ہونے‘ اختیارات کے بیجا یا غلط استعمال اور کسی تنازعہ میں پولیس اہلکاروں کے جانبدار رویئے سے متعلق تھیں۔ قابل ذکر ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت نے مذکورہ کمیشن کو فعال کرنے کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں اور اس سلسلے میں اضلاع کی سطح پر جس نگران تنظیمیں تشکیل دینے کا تصور سوچا گیا ہے اُن میں تین تین قانون ساز ایوانوں اور ضلعی کونسل کے اراکین جبکہ تین (غیرسیاسی) اراکین کا تعلق عوام سے ہوگا۔ درون خانہ ہر ضلع کی سطح پر اِس 9رکنی کمیٹی کی تشکیل کے لئے فہرستیں مرتب کر لی گئیں اُور عمل درآمد کاآغاز وزیراعلیٰ کی منظوری سے ہونے کا انتظار ہے۔ یاد رہے کہ ’پبلک سیفٹی کمیشن‘ کے ضلعی چیئرمین کا عہدہ ’سیشن جج‘ کے مساوی ہوگا‘ جو ایک معزز و بااختیار مقام ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلعی کمیشن کی سربراہی کے لئے فہرستیں مرتب کرنے سے زیادہ اُن کی منظوری و تبدیلی کے لئے سیاست میں سرمایہ کاری کئے بیٹھے افراد اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دقیقیے تاخیر ہو رہی ہے!

آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ بہت سے سوالات ہیں مثلاً کسی ایک سرکاری محکمے (مثلاً پولیس) ہی کے متعلق شکایات کے بارے اِس قدر وسیع و عریض عہدوں کو جال بچھانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ پبلک سیٖفٹی کا یہی کام ضلعی یا تحصیل ناظمین کیوں نہیں کرسکتے‘ جنہیں الگ دفاتر‘ عملہ اور خطیر مالی وسائل و اختیارات حاصل ہیں؟ وزیراعلیٰ تک شکایات پہنچانے کے لئے ’کمپلینٹ سیل‘ کا مرتب شدہ ’آن لائن نظام‘ کیوں فعال نہیں کیا جاسکتا جہاں بذریعہ ڈاک‘ فون کال‘ فیکس‘ ای میل‘ ویب سائٹ یا حاضر ہو کر تحریری طور پر بمعہ ثبوتوں کسی بھی محکمے سے متعلق شکایات درج کرائی جا سکیں؟ کیا سرکاری مالی وسائل کا محتاط اِستعمال اُور کم خرچ‘ بالانشین طرزحکمرانی (مثالی جمہوریت) قائم نہیں کی جاسکتی؟
How to achieve effective policing in KP. Let the accountability first and listen the public complaints about polic