ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
جنگلات: قومی اَثاثہ لٹ رہا ہے!
جنگلات: قومی اَثاثہ لٹ رہا ہے!
خانس پور‘ اَیویبہ ’ریالہ رینج‘ کے جنگلات کی غیرقانونی کٹائی کے جاری عمل کی جس قدر مذمت اور افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ صورتحال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ سے گلیات کے بالائی علاقوں کو جب کبھی بھی جانے کا اتفاق ہو یا دردمند دل رکھنے والے وہاں کے مقامی لوگوں سے ملاقات کی کوئی ترکیب بنے تو سب سے پہلا تذکرہ جنگلات کی کٹائی سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کا ہوتا ہے اور اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ’ایک ارب درخت‘ کے نام سے شجرکاری مہم کا اعلان کر رکھا ہے‘ جو جنگلات کے رقبے میں اضافے کے لئے ضروری تھا لیکن حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ شجرکاری مہم سے زیادہ اُن جنگلات کی حفاظت کی جائے جو پہلے سے موجود ہیں۔ ایک درخت کو بننے‘ پلنے‘ بڑھنے اُور قدآور ہونے میں عشرے لگتے ہیں لیکن اُسے آن کی آن میں زمین بوس کر دیا جاتا ہے! کیا اس سے زیادہ اور بڑا ظلم‘ اس سے زیادہ اور بڑا جرم کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟
ریالہ جنگلات کی رینج وہی مقام ہے جہاں ایویبہ کی چیئر لفٹ قائم ہے اور بہت سے قارئین اِس مقام کی خوبصورتی کے عینی شاہد ہوں گے لیکن محکمۂ جنگلات کی جانب سے اِس تفریحی مقامات کی سیر کے لئے آنے والوں کو نہ تو جنگلات کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُنہیں مذکورہ رینج کے جنگلات کے رقبے یا درختوں کی اہمیت کے بارے معلومات دی جاتی ہیں کیونکہ اگر عوام باشعور ہو جائیں اور انہیں جنگلات کی اہمیت و تفصیلات کا علم ہونے لگے تو پھر وہ سوال پوچھیں گے اور عین ممکن ہے کہ یہ سوالات شدت کے ساتھ اُن کے ہاتھوں کو متعلقہ حکام کے گریبانوں تک پہنچا دیں‘ جو جنگلات کی کٹائی کے ذریعے راتوں رات امیر ہو رہے ہیں! اَفسوس کا مقام ہے کہ جنگلات کی کٹائی میں ملوث مافیا مذکورہ ریالہ رینج میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ فعال ہے اور عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے پورے پورے پولنگ اسٹیشنوں پر حاکم بن جاتا ہے! شفاف انتخابات کا راگ الاپنے والوں کو اگر فرصت ملے تو کبھی جنگلات سے مالامال اِس خطے (ریالہ رینج) کا بھی دورہ کریں جس کے جنگلات کا رقبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سکڑ رہا ہے اُور اَگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اندیشہ ہے بعدازاں ’’پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!‘‘
اَیویبہ سے ریالہ اُور ریالہ سے ڈونگا گلی تک پھیلے ہوئے جنگل میں دیودار المعروف دیار (Cedar) اور بیاڑ نامی اقسام کے درخت آسمان سے باتیں کرتے ہیں‘ بادل اِن درختوں سے چھن چھن کر گزرتے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہی درخت تحفظ ماحول (انسانی و جنگلی حیات) کے ضامن ہیں‘ جس کے بارے میں ہمارے فیصلہ ساز لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ مصلحتوں کا شکار ہیں۔ خانس پور‘ ایویبہ ریالہ رینج سے حاصل ہونے والی لکڑی نہایت ہی قیمتی و نایاب ہے۔ دیار کی لکڑی جسے اعلیٰ معیار کے فرنیچر یا تعمیراتی کاموں اور تزئین و آرائش میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں ’دیار‘ کی فی فٹ قیمت تین ہزار روپے فٹ جبکہ سرکاری ریٹ پانچ ہزا رروپے فٹ بتایا جاتا ہے۔کوڑیوں کے مول فروخت ہونے والے اِس قومی اثاثے کے محافظ کہاں ہیں؟
ٹمبرمافیا کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ دیار کے درخت کو آری سے کاٹ کر زخمی کردیا جاتا ہے‘ یا اُس کے ایک حصے کو آگ لگا کر کمزور کر دیا جاتا ہے اور پھر چند ہفتوں کے انتظار کے بعد جب یہ درخت موسمی اثرات یا جڑیں شاخیں کٹنے کے باعث اپنے ہی بوجھ کی وجہ سے یا تو گر جاتا ہے یا پھر سوکھنے جیسے ہو جاتے ہیں‘ جب درخت کی لاغر حالت اُس کے صحت مند وجود پر حاوی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو ’ٹمبر مافیا‘ کے کارندے اسے پورے اطمینان کے ساتھ کاٹ لیتے ہیں! اگر سوال یہ ہے کہ ’’ٹمبرمافیا کون ہے اُور یہ گدھے کے سر پر سینگھ کی طرح کس طرح غائب ہو جاتا ہے؟‘‘ تو جب یہ سوال ریالہ کے سفید ریش رہائشی (حاضر) نمبردار اٹھاون سالہ گل طاسب کے سامنے رکھاگیا تو انہوں نے کہا کہ ’’مقامی بے روزگار نوجوانوں کے لئے آمدنی کا یہ آسان ذریعہ ہے۔ اہل علاقہ اِس بے قاعدگی اور درختوں کے کم ہوتے ہوئے حجم سے سخت نالاں ہیں لیکن جنگلات کی کٹائی کسی بھی صورت نہیں روکی جا سکتی کیونکہ مذکورہ گروہ ایسے وقت میں وارداتیں کرتے ہیں جبکہ آس پاس کوئی نہ ہوئی۔ یہ لکڑی گاؤں ملکوٹ کے راستے صوبہ پنجاب کو اسمگل کر دی جاتی ہے۔‘‘
صوبائی اسمبلی کے ’حلقہ پی کے 45‘ اور قومی اسمبلی کے حلقہ ’این اے 17‘ کی حدود جسے عرف عام میں ’’سرکل بکوٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے کل 8 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اُور یہ پورا حلقہ جنگلات اور سرسبزوشاداب وادیوں پر مشتمل ہے۔ اہل علاقہ کا مطالبہ کے متعلقہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں آواز اُٹھائیں۔ تحاریک پیش کی جائیں۔ محکمۂ جنگلات کی اعلیٰ انتظامیہ اور پولیس اِس بے قاعدگی کے بارے پوچھا جائے جو پورے معاملے سے الگ بلکہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کیا اس خاموشی کی قیمت محض سیاسی اثرورسوخ ہے یا مختلف ذرائع سے رشوت کارفرما ہے؟ اس سلسلے میں آزادانہ طور پر تحقیقات ہونی چاہیئں۔ آخر یہ بات کیونکر ممکن ہے کہ جنگلات میں آرأ مشینیں چھپا کر لگائی گئیں ہیں جہاں درختوں کی رات گئے تک کٹائی کی دلخراش آوازوں سے وادیاں گونجتی رہتی ہیں لیکن متعلقہ حکومتی اہلکاروں کو جنگل کاٹنے والوں کا سراغ نہیں ملتا اور وہ بھی اس کی زبانی مذمت و ملامت کرتے ’بے بس‘ دکھائی دیتے ہیں۔
اندھے اور بہرے بنے ہوئے سرکاری اہلکاروں کا کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ ’قومی احتساب بیورو‘ اربوں روپے مالیت کی لکڑی لوٹنے اور ماحولیاتی توازن کے بگاڑ کا سبب بننے والوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی کریں گے۔ جنگلات قومی دولت ہیں۔ یہ کسی ایک گاؤں‘ یونین کونسل یا صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقے کی ملکیت تک محدود نہیں۔ ہر شاخ‘ ہر ٹہنی‘ ہر پتے‘ اور ہر درخت کی حفاظت صرف اور صرف خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی استدعا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے مذکورہ بالائی علاقے (ریالہ رینج) میں جنگلات کی بے دریغ و غیرقانونی کٹائی کا اَزخود (سوموٹو) نوٹس لیں۔
Deforestation in upper KP, district Abbottabad is continue despite provincial govt claims of stopping illegal practices |