Sunday, April 30, 2017

Apr2017: Development-Politics & Peshawar!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

پشاور: مسائل اُور جزوی حل!


دو شعبان المعظم (اٹھائیس اپریل) کی شام‘ ٹھنڈی ہواؤں اور بعدازاں بوندا باندی سے ہوئے خوشگوار موسم نے استقبال کیا لیکن خوشی و مسرت کی یہ گھڑیاں زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوسکیں اور موٹروے سے براستہ چغل پورہ پشاور شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی ’گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ)‘ کے اطراف پر وہ باقی ماندہ ترقیاتی کام آنکھوں میں چھبنے لگا‘ جو شاہراہ (خیابان) کی توسیع کا حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن جب تک ’جی ٹی روڈ‘ کی ذیلی سڑکوں کی اونچائی کے برابر یا اُس سے بلند اور آبی گزرگاہوں کو شہر کے اطراف میں نالوں کی سطح کے تناسب سے مرتب نہیں کیا جائے گا‘ اُس وقت تک تارکول اور بجری کی جتنی پرتیں بھی ڈال دی جائیں‘ اُس سے چند ہفتوں کے لئے ’بلیک ٹاپنگ (خوبصورتی)‘ کے سوأ کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہی وہ عرصہ ہوتا ہے جب حکومت کی نیک نامی کے لئے تنخواہ دار تشہیرکار سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر ’تبدیلی آ گئی ہے!‘ کے نعروں کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے جو منظرکشی کرتے ہیں‘ وہ چند ہفتوں بعد خودبخود تحلیل ہو جاتی ہے!

پشاور کا عمومی منظرنامہ یہ ہے کہ اُن علاقوں کی ظاہری ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے‘ جو ’جی ٹی روڈ‘ کے ساتھ ساتھ ہیں اور جن پر بیرون ملک یا بیرون شہر سے آئے سیاسی قائدین چند گھنٹوں کا سفر کرتے ہوئے ’عش عش کر اُٹھتے ہیں!‘ لیکن اگر ’جی ٹی روڈ‘ کے اطراف میں چغل پورہ سے لیکر سکندر ٹاؤن اور نشترآباد کی متصل گلی کوچوں کا رخ کیا جائے تو ’ترقی کا پول کھل جائے گا۔‘ بھروسہ‘ اُمید‘ سادگی اُور ثمر ملاحظہ کیجئے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر پشاور کے مرکزی بیشتر شہری علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون (NA-1) پر 3 لاکھ 20 ہزار 581 رجسٹرڈ ووٹرز نے 17 انتخابی اُمیدواروں کے مقابلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو 90ہزار 500 ووٹ دے کر کامیاب کیا لیکن اُنہوں نے نہ صرف ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لے کر یہ نشست ’عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)‘ کو بصدشکریہ واپس کر دی بلکہ پشاور کو اپنی ترجیحی فہرست بھی نکال دیا اور اگر یہ تاثر باطل ہوتا تو جتنی راتیں اور دن خان صاحب نے خیبرپختونخوا کے پرفضا مقام نتھیاگلی کی سرکاری رہائشگاہ اور سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے بسر کی ہیں‘ اُن کا ایک چوتھائی بھی پشاور کو نصیب نہیں ہوا۔ خان صاحب کو سوچنا چاہئے کہ اُنہوں نے اہل پشاور کے اعتماد کو کتنی ٹھیس پہنچائی ہے اور کس طرح اُس کے مفادات کو اپنی سیاسی ترجیحات کے آگے قربان کردیا ہے! خوداعتمادی کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اس قدر خوداعتمادی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ انسان اپنے آپ پر ہی عاشق ہو جائے اور اُسے اپنی غلطیوں کا احساس تک نہ ہو! 

پشاور کی سیروسیاحت یا کسی ضرورت کے لئے ’بہ امر مجبوری‘ یہاں آنے والوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ بالخصوص مقامی افراد (گزربسر کرنے والوں) کی طرح جنرل بس اسٹینڈ اور پشاور بس ٹرمینل سے ہوتے ہوئے گلبہار کی جانب ایک ’شارپ‘ موڑ کاٹتے ہوں گے‘ جہاں چند ہی سیکنڈ میں ٹوٹی ہوئی سڑک کے ٹکڑے (حصے)‘ تالاب کی صورت کھڑے بارش اور نکاسئ آب کی گندگی‘ انواع و اقسام کی وال چاکنگ اور ایک ایسی ’فٹ پاتھ‘ سے واسطہ پڑتا ہے‘ جس پر کھلے ’مین ہول‘ شکار کے اِنتظار میں منہ کھولے ایک قطار میں باآسانی شمار کئے جا سکتے ہیں! نشترآباد کا یہ حصہ گلبہار کو جی ٹی روڈ سے ملاتا ہے‘ جس پر دن رات ٹریفک کا مستقل دباؤ رہتا ہے اور چند قطرے بارش کی صورت بھی یہ پوری پٹی اِس حد تک زیرآب آ جاتی ہے کہ ’کریمی ہاؤس‘ سے ’کریمی مسجد‘ تک چند قدم پیدل چلنا ممکن نہیں رہتا۔ عرصہ بیس برس سے زائد نکاسئ آب کے اِس دیرینہ مسئلہ کی شدت میں اضافہ ’جی ٹی روڈ‘ کی کشادگی و توسیع کے سبب قرار دیا جاتا ہے کہ جب ’جی ٹی روڈ‘ بنانے والوں کو اس قدر جلدی تھی کہ عجلت میں اُنہوں نے گلبہار کی جانب سے آنے والے پانی کا راستہ ایک ایسی نالی کی صورت موڑ دیا‘ جس کی گنجائش روزمرہ بہاؤ کو جزوی طور پر سمونے کے لئے ہی ناکافی تھی کجا کہ اُس پر بارش یا بارشوں کے موسم میں کلی انحصار کیا جاتا۔ 

پشاور کی ترقی کا یہ پہلو نہایت ہی تکلیف دہ (بلکہ مسائل کی جڑ) ہے کہ فیصلہ سازوں نے ظاہری خوبصورت پر زیادہ اور ضروریات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی‘ جس سے قدرتی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے حصے میں اِس قسم کے خودغرض اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ تجربہ کار اُور بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر فائز مراعات ہی مراعات پانے والے ’بدعنوان‘ پائے جاتے ہوں کہ جن کی کارکردگی ’چیچک زدہ سڑکیں‘ اُور دیگر ایسی تعمیرات ہیں‘ جو کسی ایک ہی صوبائی یا وفاقی (چند سالہ) حکومتی دور بمشکل کاٹ پاتی ہیں! جن اراکین قومی‘ صوبائی اُور سینیٹرز کی سفارش پر ترقیاتی کام مکمل ہوتے ہیں اور جن کے ناموں کی رنگ برنگی تختیاں (سرکاری خرچ سے) ترقیاتی منصوبوں پر آویزاں کی جاتی ہیں‘ نجانے کس قانون اُور مصلحت کے تحت اُنہوں نے بھی دن دیہاڑے ہونے والی اِس لوٹ مار پر خاموشی (تجاہل عارفانہ) اختیار کر رکھی ہے۔ 

اگر پاکستان میں احتساب اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے ادارے فعال ہوتے تو سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اکثریت جیلوں میں ہوتی! کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ سرکاری وسائل سے اپنی اپنی جماعتی و سیاسی وابستگی کی نمائش کرسکتا کیونکہ ایسا کرنے والے اگر کسی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل و معیار (پائیداری) کے لئے ذمہ دار نہیں تو پھر اُن سے ’ترقیاتی سفارش‘ کا حق بھی چھین لینا چاہئے اُور (اگر ہنسی ضبط ہو سکے لیکن مسکراہٹ کی گنجائش کے ساتھ یہ مطالبہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اُور اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر پشاور میں ترقی کے نام پر جاری ’مار دھاڑ (وارداتوں)‘ کا نوٹس لیں جو ’نامکمل و ناپیدار‘ ہے اُور جس کی ساخت میں کم سے کم موجودہ آبادی کی ضروریات پورا کرنے کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ 

اصولی طور پر‘ تو ترقی کا عمل آئندہ دس بیس یا پچاس برس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں ’وقتی مسائل‘ کے ’وقتی حل‘ بھی اگر عملاً ناکافی ثابت ہو رہے ہیں تو اِس ’طرزعمل‘ کے جاری رہنے کا ماسوائے اِس کے کوئی جواز نہیں لیکن یہ کہ ماضی کی طرح آج بھی عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے یقیناًگھاٹے (خسارے) میں نہیں!

TRANSLATION: Loadshedding by Dr Farrukh Saleem

Loadshedding
لوڈشیڈنگ
تیئس اپریل: صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں 12 جبکہ شہری مراکز میں برقی رو (بجلی) کا تعطل (لوڈشیڈنگ) کم سے کم چھ گھنٹے رہا۔

پہلی حقیقت: حکومتی ادارے ’نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبوشن کمپنی کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق) پاکستان میں بجلی کی کل پیداواری صلاحیت 24ہزار 906 میگاواٹ ہے۔

دوسری حقیقت: تیئس اپریل کے روز جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے مختلف حصوں میں کم سے کم بارہ اور چھ چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت مجموعی طور پر 12ہزار 948 میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو رہی تھی۔

تیسری حقیقت: تیئس اپریل ہی کے روز بجلی کی چوری اور بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے کم و بیش 2 ہزار 948 میگاواٹ بجلی ضائع ہو رہی تھی اور صارفین تک کم وبیش 10ہزار میگاواٹ بجلی پہنچ پا رہی تھی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تیئس اپریل کے روز پاکستان حکومت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے صرف 50فیصد حصے ہی سے استفادہ کر پائی!

اعدادوشمار اور برسرزمین حقائق سے عیاں ہے کہ لوڈشیڈنگ کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ پیداواری صلاحیت سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھانے کے سبب مطلوبہ مقدار میں بجلی دستیاب نہیں! لوڈشیڈنگ ہونے کا ایک بنیادی سبب ’گردشی قرضہ‘ بھی ہے جس کا تعلق اُس بجلی کی مقدار سے ہے جو یا تو چوری ہو جاتی ہے یا پھر بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے اور یہ بجلی نجی پیداواری یونٹس سے خریدی تو جاتی ہے لیکن چونکہ صارفین اِس کی قیمت ادا نہیں کرتے اِس لئے یہ حکومت پر قرض کی صورت بوجھ بنتی جاتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کے اُس ترسیلی نظام کی خرابیاں دور نہیں کی جاتیں جس سے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ایک قیمتی جنس کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے؟ لوڈشیڈنگ کی دوسری وجہ بجلی کے صارفین سے واجبات کی وصولی ہے۔ اِس محاذ پر بھی انتظامی طور پر ناکامیوں کے سبب بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

بجلی پیدا کرنے والے ادارے ایک انتظامی تسلسل سے کام کرتے ہیں۔ وہ بجلی کے عوض اُس کی قیمت وصول کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب ادائیگیاں رک جاتی ہیں تو ’گردشی قرض‘ کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حکومتی اداروں کے انتظامی معاملات بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور جب واپڈا کا ادارہ مالی مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو وہ ایندھن فراہم کرنے والے ادارے ’پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ کو بروقت اور معمول کے مطابق تیل کی قیمت ادا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’پی ایس اُو‘ جو کہ تیل درآمد کرتا ہے وہ بیرون ملک ادائیگیاں نہیں کرپاتا اور بیرون ملک ادائیگیوں کا عدم توازن روکنے اور اندرون ملک مالی بوجھ مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے واپڈا کو تیل کی فراہمی روک دیتا ہے‘ جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح بجلی کے پیداواری نجی اداروں کو بھی جب اپنی تیار کردہ جنس (بجلی) کی پوری قیمت نہیں ملتی تو فراہمی یا تو روک دیتے ہیں یا حسب وصولی تناسب سے کم کر دیتے ہیں اور ’پی ایس اُو‘ کے واجبات کی ادائیگی روک لیتے ہیں۔ یہ معاملہ ہزاروں اربوں روپے کا ہے اور اسی وجہ سے بحران کا سبب بنتا ہے۔ سال 2008ء کے دوران ’گردشی قرض‘ 228 ارب روپے تھا جو سال 2013ء کے دوران 480 ارب روپے ہو گیا۔ جولائی 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 480 ارب روپے کا ’گردشی قرضہ‘ ادا کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت ’گردشی قرض‘ پیدا ہونے نہیں دیں گے۔ مارچ 2017ء میں بجلی پیدا کرنے والے نجلی اداروں (آئی پی پیز) کا گردشی قرض 414 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اگر تاریخ سے سبق سیکھا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ گردشی قرض چارسو ارب روپے جیسی نفسیاتی حد عبور کرتا اور ایک ایسی بحرانی صورتحال پیدا ہوتی جس سے دیہی علاقوں میں سولہ اور شہری علاقوں میں چھ چھ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لئے ’نوازلیگ‘ حکومت نے پیداواری صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کسی مرض کی غلط تشخیص اور غلط علاج سے توقعات وابستہ نہیں کر لینی چاہئیں کہ اِس سے مریض کو افاقہ ہوگا۔ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت مسئلہ نہیں بلکہ بجلی کی ترسیل‘ بجلی کی چوری‘ ضیاع اور صارفین سے واجبات کی وصولی جیسے شعبوں میں بدانتظامی کے سبب یہ بحران پیدا ہوا ہے۔

مارچ دوہزار سترہ میں بجلی کے 13نجی پیداواری اداروں کو اربوں روپے کے واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے اِن اداروں نے پیداوار کم کر دی۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اگر نجی ادارے بجلی کم بھی پیدا کریں یا نہ پیدا کریں تب بھی حکومت کو ایک خاص قیمت ’کیپسٹی چارجز‘ کی صورت ادا کرنا پڑتی ہے!

بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے نواز لیگ کی حکومت پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہی ہے جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے واجبات ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تو نئے بجلی گھروں کے لئے توانائی کی قیمت کہاں سے ادا ہوگی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی شخص کے پاس دو گاڑیاں ہوں لیکن ایندھن خریدنے کے لئے مالی وسائل نہ ہوں جس کا حل وہ یہ نکالے کہ تیسری گاڑی خرید لے!

تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تک جب پاکستان میں بجلی کی پیداوار یومیہ 13ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی تھی لیکن انتظامی خرابیوں کی وجہ سے صرف چار برس میں گردشی قرض 400ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ 7 ہزار 680 میگاواٹ پیداواری صلاحیت بڑھائی جائے جس پر 12.5 ارب روپے لاگت آئے گی۔ صاف لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بجلی کا واجب الادأ ’گردشی قرضہ‘ مزید بڑھے گا اور صورتحال مزید خراب ہوگی۔ جی ہاں آنے والے دنوں میں مریض کی حالت تشویشناک ہونے جا رہی ہے۔ حکومت نے بہرحال اور بادلنخواستہ ہی سہی لیکن گردشی قرضوں کے 414 ارب روپے ادا کرنے ہیں لیکن بجلی کے پیداواری شعبے کو آئندہ عام انتخابات کے قریب آنے کے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, April 29, 2017

Apr2017: CPEC & exclusivity!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انحصاریت
’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے سے ’خیبرپختونخوا کے اِقتصادی مفادات‘ بھی لاتعداد اُمیدوں اور خوابوں کی طرح وابستہ ہیں۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی وفد وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں رواں ماہ ’سولہ سے اٹھارہ اپریل‘ عوامی جمہوریہ چین دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس لوٹ آیا ہے اور ہر سرکاری دورے کی طرح اِس مرتبہ بھی ’کامیابی کا دعویٰ‘ کیا جارہا ہے‘ جس کی تصدیق آئندہ چند برس میں خودبخود سامنے آ جائے گی۔ خیبرپختونخوا کے وفد نے چین حکومت اور نجی اداروں کے ساتھ مجموعی طور پر 82 منصوبوں سے متعلق مفاہمت کی یاداشتوں (ایم اُو یوز) پر دستخط کئے‘ جن سے مجموعی طورپر ’دواِعشاریہ چار کھرب روپے‘ مالیت کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

ترقی کا ہر کام‘ اپنی ہر ذمہ داری ’سی پیک‘ سے منسلک کرنا کہاں کی سمجھ داری ہے اور یہ حکمت عملی خیبرپختونخوا کی ثقافت‘ رہن سہن اُور بول چال پر کس قدر مثبت اور منفی اثرات مرتب کرے گی‘ اِس بارے میں کوئی سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ سب کی نظریں چین کی آسمان سے باتیں کرتی ترقی پر مرکوز ہیں‘ جس کی بنیادیں ایک مخلص و ایماندار قیادت نے رکھی تھیں! کیا ہم کسی ایسی بند گلی کے آخری حصے تک آ پہنچے ہیں جہاں سے واپسی اور مزید سفر کی تدابیر سجھائی نہیں دے رہیں؟

کہیں چین چین کرتے ہم اپنی چال ہی سے تو ہاتھ نہیں دھو بیٹھیں گے؟ اُور اگر جان کی امان ہو تو فیصلہ سازوں سے سب سوالوں کا ایک ہی سوال پوچھنے کی جسارت کر لی جائے کہ کیا چین پر بڑھتی ہوئی ’اِنحصاریت (exclusivity)‘ کے علاؤہ ترقی ممکن ہی نہیں رہی؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا اِقتصادی تعاون ’روڈ شو‘ کا بنیادی مقصد اِس تاثر کو زائل کرنا تھا کہ صوبائی حکومت ’مغربی راہداری‘ کے مطالبے کی وجہ سے ’سی پیک مخالف‘ ہو چکی ہے جبکہ خود وزیراعلیٰ بارہا کہہ چکے تھے کہ ’خیبرپختونخوا‘ سی پیک کی ملکیت رکھتا ہے تو اِس سے دستبردار یا اِس کا مخالف کیسے ہو سکتا ہے؟ بہرحال ایک سرکاری دورہ ہوا‘ جس کا نام ’’خیبرپختونخوا اقتصادی تعاون ’روڈ شو‘‘ تھا اور اس کی سب سے خاص بات (اگر خبر اور خبریت کی تلاش مقصود ہو تو) یہ ہے کہ چین خیبرپختونخوا میں جو ’دو کھرب روپے‘ سے زائد مالیت کی سرمایہ کاری کرے گا‘ جو بطور قرض نہیں بلکہ خالص امداد ہوگی اور صوبائی یا وفاقی حکومت کے وسائل سے کچھ بھی خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔ کیا چین حکومت اور نجی اداروں کے پاس ’دوکھرب پاکستانی روپے سے زائد جیسی خطیر رقم یونہی پڑی ہوئی تھی‘ جسے وہ ہنستے مسکراتے خیبرپختونخوا میں بطور امداد (انسانی دوستی کے جذبے واحترام میں) خرچ کرنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے؟ یاد رہے کہ دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا لیکن اُس کی قیمت کوئی نہ کوئی ادا کر رہا ہوتا ہے!

مشاورت در مشاورت کے مراحل کب اور کہاں مکمل ہوئے اِس بارے تفصیلات دستیاب نہیں لیکن چین حکومت کی جانب سے ’خیبرپختونخوا میں سیاحت کی ترقی‘ اُور ’آثار قدیمہ سے متعلق علوم کے فروغ تحفظ‘ قدیم عمارتوں کے بحالی اور عجائب گھروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے بھی ’دو منصوبوں‘ کا انتخاب ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ہمراہ ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹر عبدالصمد بھی چین کے دورے پر تھے جنہوں نے اپنے محکمے کی جانب سے مذکورہ مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کئے۔ جن کی تفصیلات کے مطابق ’سی پیک‘ منصوبے سے منسلک راستوں پر ’20‘ ایسے تاریخی مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ جنہیں چین کے شمال مغربی صوبے ’شانسئی (Shaanx)‘ کی حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے مکمل کیا جائے گا۔ اِن بیس مقامات میں (گورگٹھڑی) پشاور‘ سوات‘ مردان‘ ہری پور‘ چترال اُور ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامات شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ چین کے ’شانسئی‘ صوبے ہی سے ’شاہراہ ریشم‘ کا آغاز ہوتا ہے اور پاکستان کے راستے برصغیر و مشرق وسطی کے ممالک تک چین کی تجارت کا یہ راستہ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ جو ماہرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’سی پیک‘ منصوبہ اپنی نوعیت کا منفرد‘ اچھوتا اور دوطرفہ اقتصادی تعاون کا پہلا ایسا منصوبہ (انوکھا تصور) ہے تو انہیں خطے کی اُس پانچ ہزار سال پرانی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے‘ جس میں اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کا ایک ایسا جال (نیٹ ورک) پھیلا ہوا تھا‘ جس میں صرف چین کے تاجر ہی نہیں بلکہ سیاح بھی یہاں کا دورہ کرنے آتے تھے اور پشاور سمیت خطے کے کئی ایسے ممالک ہیں‘ جن کی آج (معلوم و) مستند تاریخ کے حوالے (انحصار اِنہی) چینی سیاحوں کے قلم سے اخذ کردہ معلومات پر بنیاد کرتی ہیں۔ بہرحال ’شانسئی صوبہ‘ نہ صرف ’شاہراہ ریشم‘ کے آغاز کا نکتہ ہے بلکہ آثارقدیمہ کے لحاظ سے بھی چینی تاریخ و ثقافت کا مرکز ہے۔ جہاں چین کے بادشاہ ’قین شی ہواینگ (Qin Shi Huang)‘ کے فوجیوں کے ہزاروں کی تعداد میں ’مٹی کے مجسمے‘ نمائش کے لئے رکھے ہیں۔

صوبہ ’شانسئی‘ کے فنی و تکنیکی تعاون سے خیبرپختونخوا کے ’آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ‘ کی اَفرادی قوت کو تربیت بھی دی جائے گی‘ جنہیں عجائب گھروں کے انتظامات‘ نمائش کے طور طریقوں اُور جدید اسلوب سکھائے جائیں گے۔ اُمید ہے چین کے ہاں سے نصابی کتابی علم کے ہمراہ ’تعمیروترقی کا وہ بلند معیار‘ بھی ہمراہ آئے گا جو امانت و دیانت کے ساتھ فرائض کی انجام دہی میں یک سوئی پر مبنی ہے۔ کیا ہمارے ہاں کے سرکاری ملازمین کا موازنہ چین کی تعمیروترقی میں جڑے فرض شناسوں سے ممکن ہے‘ جنہیں ہمارے ہاں کی طرح مادر پدر آزادیاں اور ’فری اکنامی‘ جیسی سرمایہ دارانہ رعونت بھی حاصل نہیں! آج یا کل نتیجہ یہی اخذ ہوگا کہ قومیں تعمیرات سے نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی حیثیت میں فرض شناسی پر ارتقائی مراحل طے کرتی ہیں اور چین سے ترقی بطور امداد یا قرض طلب کرنے والوں کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کس طرح چین کے معاشرے نے زرعی‘ صنعتی پیداوار‘ معاشی‘ اقتصادی اور دفاع جیسے کلیدی شعبوں ہی میں مربوط ترقی نہیں کی بلکہ اُنہوں نے دنیا کو قومیت کا ایک ایسا نکھرا نکھرا (خودار) تصور بھی دیا ہے جس میں اپنی (مادری) زبان و ثقافت (بودوباش) کی اہمیت ترقی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے!

Friday, April 28, 2017

Apr2017: Economic Terrorism!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اقتصادی دہشت گرد: عمدہ حل!

پاکستان میں قوانین کا احترام نہ کرنے سے لیکر اُنہیں توڑ مروڑ کر اپنے حق میں استعمال کرنے جیسی مثالوں کا شمار ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ادائیگی کا بوجھ بھی صرف اُنہی طبقات پر مرکوز ہے‘ جو اپنی آمدن (ایٹ سورس) سے لیکر ہر چھوٹی بڑی خریداری پر سب سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود معاشرے کے سب سے زیادہ محروم وہی پاکستانی ہیں جو بروقت اور زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی صورت اپنا پیٹ کاٹ رہے ہیں۔ عجیب صورتحال ہیں جو لوگ بیرون ملک جا کر ٹریفک قواعد کا احترام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بیرون ملک پبلک مقامات پر تمباکو نوشی سے لیکر پبلک مقامات پر دوسروں کے حقوق (پرائیوسی) حتیٰ کہ صفائی کا خیال رکھنے والے جیسے ہی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں اُن کے معیار ہی بدل جاتے ہیں۔ سرکاری تنصیبات اُور اثاثوں کو خیال نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان کے بارے میں پڑھے لکھے‘ سرمایہ داروں کی اکثریت کے رویئے لمحۂ فکریہ ہیں! 

بیس کروڑ کی آبادی میں ایسے افراد کا شمار شاید انگلیوں پر بھی ممکن نہ ہو کہ جو ’’پاکستان کے (قومی) حقوق‘‘ ادا کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیں! اِس نتیجۂ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کی بے بسی و بے حسی ملاحظہ کیجئے کہ اپنی آمدنی سے متعلق غلط بیانی کے ذریعے ٹیکس چوری کرنے والے ’بااثر‘ دیدہ دلیروں سے ’حسب قواعد‘ نمٹنا گویا اِس کی ذمہ داری ہی نہ ہو۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ٹیکس نادہندگان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کی سفارش کی تو اِس کی مخالفت بھی کسی اُور نے نہیں بلکہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ’’ایسا کرنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘‘ عجیب صورتحال ہے کہ پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لئے بھی قانون سازی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے!

مسئلہ صرف حسب آمدنی ٹیکس کی خاطرخواہ وصولی ہی نہیں بلکہ وفاقی محکمہ خزانہ (ایف بی آر) میں مالی نظم و ضبط بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر ہم ’ایف بی آر‘ اِن لینڈ ریوینیو (قومی محصولات) کی آڈٹ رپورٹ برائے ’سال دوہزار تیرہ چودہ‘ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ رپورٹ میں 169ارب 74کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں ہیں جبکہ ’اِن لینڈ ریوینیو‘ سے متعلق چھبیس ارب سینتیس کروڑ روپے مالیت کے بائیس کیسز عدالتوں میں زیر التواء ہیں! 

’ایف بی آر‘ کے قانونی مشاورت (لیگل ڈیپارٹمنٹ) میں اگر اصلاحات کی ضرورت ہے تو یہ کام کون کرے گا؟ جب اربوں روپے کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکلأ کو ’بیس سے تیس ہزار روپے‘ ماہانہ دیئے جائیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور اسی کم ادائیگی کو جواز بناتے ہوئے ’ایف بی آر‘ ہر وکیل کو مقدمات کی پیروی کے لئے ماہانہ پینسٹھ ہزار روپے اَدا کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ زیر اِلتواء مقدمات سے متعلق ’پی اے سی‘ قانون سازی کروائے اُور زیر التوأ کیسز کی جلد پیروی کے لئے اٹارنی جنرل کے ذریعے عدلیہ سے رابطہ کیا جائے۔ ٹیکس نادہندگان اداروں کے مالکان اور افراد کے قومی شناختی کارڈ بلاک کرنا ایک ایسا ’’عمدہ حل‘‘ ہو سکتا ہے جس کا فوری نتیجہ برآمد ہوگا بلکہ بڑے پیمانے پر ٹیکس نادہندگان کے صرف قومی شناختی کارڈز ہی نہیں بلکہ پاسپورٹس بھی بلاک ہونے چاہیءں اور اگرچہ اس سے متعلق کوئی براہ راست قانون نہیں لیکن حسب آمدنی ٹیکس ادا نہ کرنے والوں ’معاشی و اقتصادی دہشت گردوں‘ شمار کرنا چاہئے اور ’نئے فنانس بل‘ میں یہ شق شامل کی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ٹیکس نادہندگان اور کیسز کی پیروی نہ کرنے والوں کے شناختی کارڈز بلاک کر نے کی سفارش کر دی ہے اور کسی بھی صورت فراڈ کرنے والوں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کرنا چاہئے۔

Thursday, April 27, 2017

Apr2017: Teaching & Teachers, the Self accountability concept!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

درس و تدریس: احتساب اُور خوداحتسابی!

خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ کا نفاذ ’دوہزار تیرہ‘ میں تحریک اِنصاف کی حکومت قائم ہونے کے ساتھ ہی ہوگیا تھا‘ جس کے تحت دعویٰ کیا گیا کہ صوبے کے ہر بچے کو جدید اُور معیاری تعلیم کی فراہمی ممکن بنا دی گئی ہے تو کیا ماضی میں محکمۂ تعلیم کی سرپرستی و نگرانی میں ’جدید اور معیاری تعلیم‘ فراہم نہیں ہو رہی تھی؟ پھر تین سال تک ’تعلیمی اَیمرجنسی‘ کے تحت جو اِصلاحات کی گئیں‘ اُن سے متعلق ’تین سالہ کارکردگی رپورٹ‘ ’’ستمبر2016ء‘ میں جاری کرتے ہوئے یاد دلایا گیا کہ ’’مالی سال (دوہزار سولہ سترہ) میں ’اِبتدائی و ثانوی تعلیم‘ کے لئے ’100 ارب روپے‘ مختص کئے گئے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں (حسب روایت) بہت سے ’اعدادوشمار‘ بھی شامل تھے جن کے مطابق 2013ء سے 2016ء کے دوران صوبے کے دور دراز اُور پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے لئے 1251 کیمونٹی سکول بنائے گئے۔ 2 ارب سے زائد تعلیمی وظائف اور ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے تحت 26کروڑ روپے کے سکالرشپ دیئے گئے لیکن اِس ’تین سالہ کارکردگی رپورٹ‘ کا دلچسپ حصہ ’’اساتذہ کی تربیت‘‘ سے متعلق تھا یعنی تین سال کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے قریب ’ایک لاکھ چوبیس ہزار‘ میں سے ’66 ہزار 905‘ اساتذہ کو درس و تدریس کی تربیت دی‘ جس پر 80کروڑ روپے خرچ ہوئے! 

تصور کیجئے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے نام پر سب کچھ (دستیاب) ہے جبکہ اگر محسوس ہونے والی کسی ایک چیز کی کمی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ ’’صرف اُور صرف‘‘ ایسے معلمین کی ہے جو معلم ہونے کے اہل ہوں! 

’اساتذہ بے تیغ سپاہی (چوبیس اپریل)‘ ذریعہ تعلیم اُور نتائج (پچیس اپریل)‘ بنیادی تعلیم: بنیادی خامی! (پچیس اپریل) کے تحت جو کچھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی‘ اُسے حکومتی و تعلیم کے نگران حلقوں نے پسند نہیں کیا تو اِس کی منطق سمجھ آتی ہے لیکن شعبۂ تعلیم میں اصلاحات کے نام پر مالی وسائل کا ضیاع اور خردبرد پر افسوس کا اظہار‘ سوچنا اور لکھنا بند کر دیا جائے‘ تو نہایت ہی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بنیادی وثانوی تعلیم کی ترقی کے لئے صوبائی حکومت کے جوانسال مشیر نجی اللہ خٹک کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاسکتی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کسی اُور کے لئے ’ذریعہ معاش‘ اور ’روزگار کا نادر موقع‘ تو ہو سکتی ہے لیکن کم سے کم ذرائع ابلاغ کو اِس سے دلدل سے الگ رہتے ہوئے رہنمائی کی ذمہ داری نبھاتے رہنی چاہئے۔ عین ممکن ہے الفاظ کی قدر نہ کی جائے‘ اُنہیں بکواس کہا جائے‘ لیکن سچ کی توہین باوجود کوشش بھی ممکن نہیں ہوگی!

اعتراف حقیقت ہے کہ ’ابتدائی (پرائمری) و ثانوی تعلیم‘ کے فروغ کی خواہش رکھنے والی ’خیبرپختونخوا حکومت‘ کے لئے درپیش چیلنجز کی ’قطعی کوئی کمی‘ نہیں تھی۔ فہرست مرتب کی جائے تو تین بڑی مشکلات میں پہلی رکاوٹ یہ تھی کہ بچوں کی تعداد اور آبادی کے تناسب سے پسماندہ علاقوں میں سکول موجود نہیں تھے‘ جہاں سکول تھے تو بنیادی ضروریات نہیں تھیں۔ اساتذہ حاضری تک کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے سرکاری اساتذہ بھی پائے گئے جنہوں نے اپنی جگہ چند گھنٹے حاضری کے لئے بے روزگاروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں! علاؤہ ازیں غربت و دیگر محرکات کی وجہ سے والدین کی ایک بڑی تعداد بچوں کو سکول نہ بھیجنے پر بضد تھی‘ جنہیں قائل کرنا سیاست دانوں (اصلاح کاروں) کے لئے باوجود خواہش و کوشش بھی مشکل نہ ہوا‘ اور جب ہر حربہ ناکام ثابت ہوا‘ تو بعدازاں قانون سازی کا سہارا بھی لیا گیا جو ہنوز کارگر ثابت نہیں ہوا کیونکہ قوانین پر عمل درآمد کرانے کا ’ٹریک ریکارڈ‘ زیادہ اچھا نہیں! اگر ہم خیبرپختونخوا کی موجودہ حکومت کے تین سال‘ گیارہ ماہ‘ پندرہ دنوں (مئی دوہزار تیرہ سے اپریل دوہزار سترہ) کی کارکردگی دیکھیں تو قوانین پر عمل درآمد کے لحاظ سے ہم آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں‘ تبدیلی کے ثمرات عملاً دیکھنے کے خواہشمند ہیں! اِس حد درجے مایوسی کا ثبوت خود حکومتی رپورٹ (Annual Status of Education Report ASER) میں بھی ملتا ہے جو دسمبر 2015ء کے آخری ہفتے جاری کی گئی اور جس میں کہا گیا تھا کہ ’’سال دوہزار تیرہ (خیبرپختونخوا حکومت کے پہلے سال) میں 13فیصد بچے سکولوں سے باہر تھے لیکن دوہزار چودہ کے اختتام پر یہ تعداد کم ہونے کی بجائے (’دو فیصد‘ بڑھ کر) 15فیصد ہو گئی!‘‘ تو کیا اِس میں بہتری آئی ہے یا صرف اعدادوشمار تبدیل کردیئے گئے ہیں!؟ 

سکولوں کی تعداد اُور تعلیمی اداروں سے باہر تعداد کے بعد تیسری مشکل اساتذہ تھے‘ جن کی اکثریت یا تو سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اپنی بنیادی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی یا پھر اُن کی ذمہ داریاں میں غیرمتعلقہ امور شامل کر دیئے گئے ہیں جبکہ باقی ماندہ ایسے بھی ہیں‘ کہ جن کے درس وتدریس کا طریقہ تعلیم وتربیت کے جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں! یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کسی معلم (ٹیچر) کی وہ عزت و تکریم (مقام) بھی دکھائی نہیں دیتا کہ جو عملاً ہونا چاہئے۔ ترقی یافتہ (معاشروں) مغربی ممالک میں کسی اُستاد اور بالخصوص سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ معلمین کا مقام دیکھنے لائق ہوتا ہے‘ جنہیں عمومی قوانین میں استثنی تک دیا جاتا ہے جیسا تقدس ہمارے ہاں صدر‘ وزیراعظم‘ گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو حاصل ہے۔ بہرحال اساتذہ کو اُن کے منصب و مقام سے آشنا کرنے اور تدریس کے جدید تصورات سے روشناس کرانے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت پہلے مالی سال سے چوتھے سال تک کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہے‘ لیکن (مایوس کن) صورتحال جوں کی توں (بدستور) برقرار ہے تو اِس سلسلے میں اساتذہ اور اُن کے ذمہ دار نگرانوں کو بھی ’خوداحتسابی‘ کے تحت اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ سرکاری خزانے سے ملنے والی تنخواہ اُور دیگر مراعات کے ’حقیقت میں‘ حقدار (بھی) ہیں؟ 

کیا استاد ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اپنی کارکردگی کا موازنہ دیگر سرکاری ملازمین سے کرتے ہوئے مطمئن ہو جائیں کہ اگر وہ کام نہیں کررہے تو دیگر سرکاری ملازمین نے ایسی کون سی کارکردگی کا مظاہرہ کر دیا ہے؟ معاشرے میں تبدیلی (ارتقاء) حکومتوں کی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی سے ممکن ہوسکتا ہے اور بس‘ اُس نظام سے جس میں خوداحتسابی کا عنصر شامل ہو‘ جس میں ہر سرکاری ملازم ’فرض آشنا‘ ہو اور اُس کے لئے دوسرے نہیں بلکہ وہ ’بذات خود‘ دوسروں کے لئے ’مثال‘ قرار پائے!

Wednesday, April 26, 2017

Apr2017: Primary education in KP, Lack of understanding!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بنیادی تعلیم: بنیادی خامی!
خیبرپختونخوا حکومت نے ’سرکاری پرائمری سکولوں‘ کو ’نجی اِداروں‘ کے ’برابر‘ لانے کے لئے ’اَنگریزی زبان‘ کو بطور ’ذریعۂ تعلیم‘ متعارف کرتے ہوئے جن زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا‘ وہی شرمندگیکا سبب بھی ہے اور ایک ایسی حکمت عملی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے جس پر صوبائی خزانے سے ’چالیس کروڑ‘ روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا۔ افسوس تو اِس بات کا بھی ہے کہ اِس قدر خطیر رقم خرچ کرنے والوں کو ’افسوس‘ بھی نہیں! ’اَنگریزی زبان‘ میں تدریس کی حکمت عملی بنانے والوں نے جب سرکاری سکولوں کے پرائمری اساتذہ کا تدریسی تجربہ‘ نتائج‘ تعلیمی قابلیت اور سالہا سال پر پھیلی ’تدریسی اہلیت‘ کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ پرائمری درجات میں زیرتعلیم طالبعلموں سے قبل اساتذہ کو انگریزی زبان سکھائی جائے اور اس مقصد کے لئے برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ سے ایک معاہدہ پر ’19 جولائی 2016ء‘ کے روز پشاور میں دستخط ہوئے‘ جس کے تحت ’پانچ سو‘ پرائمری اَساتذہ کو بطور ’ماسٹر ٹریننر‘ چار مضامین ’انگریزی‘ حساب‘ سائنس اُور معلومات عامہ (جنرل نالج)‘ کے مضامین سیکھ کر باقی ماندہ 80ہزار سے زائد اساتذہ کو تربیت دے کر یہ تربیت عمل رواں ماہ کے آخر (30 اپریل) تک مکمل ہونا تھی جو صرف اِس وجہ سے مکمل نہ ہوسکی کیونکہ سرکاری اداروں نے تربیت کاروں کو بروقت وسائل مہیا نہیں کئے۔ 

پرائمری سطح پر خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں انگریزی زبان متعارف کرانے کی حکمت عملی اُور ’برٹش کونسل‘ کے ذریعے تربیت و نگرانی سے متعلق قبل ازیں ’اساتذہ: بے تیغ سپاہی (چوبیس اپریل)‘ اُور ’ذریعہ تعلیم اُور نتائج (پچیس اپریل)‘ کے ذریعے مسلسل بیان کا اختتام اُس نکتۂ نظر پر ہو رہا ہے‘ جس میں ’حکمت عملی‘ کا دفاع کرنے والے ایک فیصلہ ساز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’پرائمری معیار تعلیم نجی تعلیمی اداروں کے مساوی کرنے کے لئے ’نیک نیتی‘ پر مبنی اقدام کیا گیا لیکن اُنہیں اندازہ نہیں کہ اِس نیک نیتی کی کتنی بھاری قیمت خیبرپختونخوا کو ادا کرنا پڑی ہے۔ 

اگر خیبرپختونخوا میں ’احتساب کمیشن‘ فعال ہوتا تو اب تک پرائمری کی سطح پر اَساتذہ کی تربیت در تربیت پر گذشتہ چار برس میں ہوئے اخراجات کا حساب کیا جاتا‘ تو دلچسپ حقائق میں وہ رنگارنگ تشہیری مہمات بھی سامنے آتیں‘ جن پر کروڑوں روپے اُڑا دیئے گئے۔ پرائمری و ثانوی تعلیم کی بہتری کے لئے دن رات سوچنے والوں کی دلچسپی کا جواز بھی موجود ہے اور حسن اتفاق ہے کہ خیبرپختونخوا کے پرائمری تعلیم سے متعلق فیصلہ سازوں اور مشیروں میں ’برٹش کونسل‘ کے سابق تنخواہ دار ملازمین شامل ہیں۔ جولائی دوہزار سولہ میں جب خیبرپختونخوا حکومت ’برٹش کونسل‘ سے اساتذہ کی تربیت کا معاہدہ کر رہی تھی‘ اُنہی دنوں کراچی میں ’برٹش کونسل لائبریری‘ کا پندرہ برس بعد دوبارہ آغاز کیا گیا جبکہ پشاور آج بھی ’برٹش کونسل لائبریری‘ سے محروم ہے جو نائن الیون دہشت گردی کے بعد بند کر دی گئی تھی۔ 

تصور کیجئے کہ ’برٹش کونسل‘ خیبرپختونخوا میں اپنی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے میں تو دلچسپی نہیں رکھتی لیکن امن و امان کی صورتحال میں بہتری پر اُسے اس قدر یقین ہے کہ ایک سال سے پرائمری اساتذہ کی تربیت اُس کی زیرنگرانی جاری ہے!

پرائمری سطح پر غیرمقامی زبان متعارف کرانے والے کسی ایک بھی ایسے ملک کی مثال نہیں دے سکتے جہاں بچوں کو کسی ایسی زبان میں تعلیم دی جاتی ہو جو اُس کے آس پاس نہ بولی جا رہی ہو! کیا بناء انگریزی زبان ’خواندگی‘ ممکن نہیں؟ تصور کیجئے ہمارے پاس ایسے اساتذہ کی ’فوج ظفر موج‘ موجود ہے جن کی اکثریت ’انگریزی زبان‘ میں کتابیں نہیں پڑھا سکتے لیکن وہ گریجویشن اور ماسٹرز کی اسناد پر تاحیات سرکاری خزانے سے مراعات پا رہے ہیں۔ 

فیصلہ سازوں کا کہنا ہے کہ ’’مارکیٹ کی طلب (ڈیمانڈ) مدنظر رکھتے ہوئے پرائمری سطح پر انگریزی متعارف کرائی گئی ہے کیونکہ اگر کسی بچے کو اچھی انگریزی نہیں آتی تو اُسے عملی زندگی میں ترقی کے مساوی مواقع نہیں ملتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب امیروں کے بچوں کو پرائمری کی سطح پر انگریزی پڑھائی جاتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا لیکن جب حکومت یہی سہولت سرکاری سکولوں میں متعارف کراتی ہے تو ہر طرف سے تنقید ہونا شروع ہو جاتی ہے!‘‘ پرائمری سطح پر ’انگریزی زبان میں تدریس‘ کا فیصلہ کرنے والوں نے کن ماہرین سے مشاورت کی‘ اور اُنہیں ’تنقید برائے تنقید‘ کی صورت کس دباؤ کا سامنا ہے‘ یہ تو واضح نہیں لیکن نتیجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا خزانے سے ’چالیس کروڑ روپے‘ ایک ایسے منصوبے کی نذر کر دیئے گئے ہیں‘ جس سے سوائے ’’نشستن‘ خوردن اور برخواستن‘ کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا!

Tuesday, April 25, 2017

Apr2017: Flaws in KP's primary education policy!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

ذریعہ تعلیم اُور نتائج!


سرکاری تعلیمی اداروں کے ’’500 ملازمین (پرائمری اساتذہ)‘‘ کو بذریعہ برطانوی ادارے ’برٹش کونسل‘ کے ذریعے درس و تدریس کے جدید تصورات سے متعلق تربیت کا اہتمام اپنی جگہ اہم لیکن جس حکمت عملی کے تحت اِن مرد و خواتین ’ماسٹر ٹریننرز‘ نے پچیس اضلاع میں اپنے ہم منصبوں کی تربیت کرنا تھی اور جو علم ’برطانوی‘ ماہرین تعلیم کے ذریعے پانچ سو اساتذہ کرام کو منتقل ہوا‘ اُس کی مزید تقسیم کا عمل رواں ماہ (اپریل دوہزارسترہ) کے آخر تک مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ اِس سلسلے میں گزارشات بعنوان ’اساتذہ: بے تیغ سپاہی‘ سپرد قلم کرنے کا مقصد کسی ایسے ملک کے نظام تعلیم اور درسی و تدریسی تجربات سے مرعوب ہونے کی بجائے اُن ٹھوس زمینی حقائق کا ادراک و اِصلاحاتی عمل مکمل کیا جائے‘ جس کی وجہ سے ’’علم‘ تعلیم اُور معلم‘‘ کا کردار (تصور) واضح اور نکھر جائے۔

خیبرپختونخوا کے 1 لاکھ 24 ہزار اساتذہ کے مسائل غور طلب ہیں‘ جن کے آٹھ مطالبات میں شامل ہے کہ 1: غیرمشروط ٹائم سکیل دیا جائے۔ 2: این ٹی ایس پر بھرتی ہونے والے اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔ 3: سکول ہیڈ پالیسی منظور نہیں۔ 4: تمام اساتذہ کو ’ٹیچنگ الاؤنس‘ دیا جائے۔ 5: ’آئی ایم یو‘ کا رویہ نامناسب ہے۔ 6: ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا مکمل آڈٹ کیا جائے۔ 7: ٹیچر سن کوٹہ بحال کیا جائے اور 8: تعطیلات کے دوران ’کنوینس الاؤنس‘ کی کٹوتی نہ کی جائے۔ اِن مطالبات کے حق میں ’’آل ٹیچرز کوآرڈینیشن کونسل ایک عرصے سے سراپا احتجاج ہے اور اگر اُن کے مطالبات جائز ہیں تو حل کیوں نہیں ہو رہے؟ اِس بارے میں ضلع پشاور سے ’پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن‘ (تنظیم) کے صدر عزیز اللہ خان خیبرپختونخوا میں طلوع ہونے والے ’تبدیلی کے سورج‘ کی کرنیں ’’مدھم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ چند روز قبل (بیس اپریل) خیبرپختونخوا کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کے نمائندوں نے احتجاجی دھرنا دیا اور اس موقع پر اسپیکر اسمبلی سے ملاقات میں اُن کے جملہ مطالبات حل کرنے کے لئے حکومت نے (دفاعی پوزیشن پر جاتے ہوئے) ’تیس اپریل‘کا اگرچہ وقت مانگا ہے لیکن اساتذہ زیادہ پراُمید نہیں! کیونکہ جب تک عملی طور پر اصلاحات نافذ نہیں ہوتیں اُس وقت تک زبانی کلامی باتوں اساتذہ کو اطمینان نہیں ہوگا۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جب تک پرائمری سطح پر نظام تعلیم ٹھیک نہیں ہوتا اُس وقت تک سرکاری سطح پر اعلیٰ درجات میں تعلیم کا معیار محتاج توجہ ہی رہے گا۔ 

ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ پرائمری اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کرنے والے جب ’چھٹی (ششم) کلاس‘ میں جاتے ہیں تو وہ اُردو زبان تک روانی سے نہیں بول سکتے۔ حال ہی میں حکومت نے پرائمری سطح کے بچوں کا امتحان لیا جو سرکاری سکول میں زیرتعلیم طلبہ تو کیا خود اساتذہ کی سمجھ سے بالاتر تھا اور اِس امتحان کا رزلٹ آنے بعد ہی بہتر تبصرہ کیا جا سکے گا۔

پرائمری سطح پر تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے انگریزی نہیں بلکہ ’مادری زبان‘ کو ذریعہ (میڈیم) بنانا ہوگا۔ برطانیہ سے انگریزی سیکھنے والوں کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا ’مفت مشورہ‘ موجود ہے کہ ’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔‘ کیا بناء انگریزی زبان تعلیمی ترقی ممکن نہیں؟ یہ سوال فیصلہ سازوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے! دوسری اَہم بات ’’تغیرپذیر نصاب‘‘ ہے‘ جس میں آئے روز تبدیلیاں کی جاتی ہیں اُور موجودہ حکومت نے تو نصاب تبدیل کرنے کا ریکارڈ ہی قائم کر دیا ہے۔ جو نصاب اساتذہ کو سمجھنے کے لئے تربیت اور وہ بھی جاری تعلیمی سال کے دوران تربیت درکار ہے تو پھر بچوں کو علم کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکے گا!پچیس سال سے ضلع پشاور کی مختلف سکولوں میں تدریسی ذمہ داریاں اَدا کرتے ہوئے 44سالہ عزیزاللہ خان کا کہنا ہے کہ ’’پرائمری سکولوں کے جملہ اساتذہ کو دیگر ہر قسم کی ڈیوٹیز سے الگ کیا جائے۔ 

تصور کیجئے کہ ’ماہ اپریل‘ میں ’نیا تعلیمی سال‘ شروع ہوتا ہے لیکن اپریل کے آخر تک مردم و خانہ شماری کا پہلا اور پچیس مئی تک دوسرا مرحلہ اختتام پذیر ہوگا جس کے لئے پرائمری اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔ سرکاری پرائمری سکولوں سے اچھے نتائج نتیجہ کیسے آئیں گے‘ جب اساتذہ کرام ’’دو ماہ مردم شماری‘ تین ماہ انسداد پولیو‘ مزید دو ماہ ’’ہاؤس ہولڈ سروے‘‘ اُور تین ماہ گرمی کی تعطیلات کریں گے تو صرف دو ماہ کے تدریسی عمل میں نتیجہ کیسے آ سکتا ہے؟ 

درحقیقت تعلیم کے فیصلہ ساز ’تعلیمی ترقی‘ نہیں چاہتے اُور اگر چاہتے تو اَساتذہ کی خدمات صرف اور صرف تدریس کی حد تک تک ہی محدود دکھائی دیتیں

Monday, April 24, 2017

Apr2017: Primary Teachers Training in KP fail to deliverer!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
اساتذہ: بے تیغ سپاہی!
خواندگی کی اہمیت سے بخوبی آگاہ‘ تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت ایسے ’’تعلیمی انقلاب‘‘ کے لئے کوشاں ہے جس میں سرکاری تعلیمی اِداروں کا معیار بلند ہو جبکہ ’تعلیم کے معیار‘ کا تعلق ’درس و تدریس‘ سے ہے‘ جسے عصری تقاضوں اُور جدید تحقیق سے ہم آہنگ کرنے کے لئے نہ صرف خطیر مالی وسائل مختص کئے گئے بلکہ ’برطانیہ‘ کے تعاون سے پرائمری سطح کے ’اساتذہ‘ کی تربیت پر مبنی ایک ایسی مرحلہ وار حکمت عملی تیار کی گئی جس سے خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع میں سرکاری پرائمری سکول کے اساتذہ بشمول خواتین کی تربیت شامل تھی۔ ناممکن تھا کہ 83ہزار پرائمری سطح کے اساتذہ کو بیک وقت تربیت دی جاسکتی‘ اِس لئے صوبائی حکومت نے ’برٹش کونسل (British Council)‘ کو 1500 اساتذہ (مردوخواتین) کی فہرست فراہم کی‘ جس میں سے ’500 اساتذہ‘ کے انتخاب کا اختیار ’برٹش کونسل‘ کو دیا گیا۔ اہل اساتذہ کے انتخاب کا یہ مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پایا اُور ’پچیس اضلاع‘ سے تعلق رکھنے والے ایسے پانچ سو اساتذہ کو چن لیا گیا‘ جنہیں بطور ’بنیادی تربیت کار (ماسٹر ٹرینر)‘ درس و تدریس کے جدید تصورات (جن میں بچوں کے نفسیاتی و اخلاقی اور تعلیم کے ساتھ تربیت کے پہلو بھی شامل تھے)‘ سے متعلق ٹیکنالوجی کی مدد سے تدریس میں ’ہائی ٹیک‘کا استعمال بھی سکھایا گیا اور یہ تربیتی عمل نہایت ہی خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہونے پر شرکاء میں اسناد و انعامات تقسیم ہوئے۔ اگلے مرحلے میں ’برٹش کونسل‘ سے تربیت یافتہ اساتذہ نے اپنے اپنے متعلقہ ضلع میں جا کر باقی ماندہ پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی تربیت کرنا تھی لیکن جس خوش اسلوبی سے ’پرائمری اساتذہ‘ کی تربیت کا یہ ’پہلا مرحلہ‘ مکمل ہوا‘ حسب توقع دوسرا مرحلہ خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع میں شروع نہ ہو سکا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ’ماسٹر ٹرینرز‘ کو تربیت دینے کے لئے مطلوبہ ’ہائی ٹیک‘ اشیاء‘ درکار مالی اور آمدورفت کے وسائل فراہم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے وہ ہدف جو رواں ماہ (اپریل دوہزارسترہ) کے اختتام تک مکمل ہونے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی‘ وہ حاصل نہ ہو سکا۔ بھلا کس طرح ممکن تھا کہ ’برٹش کونسل‘ سے بذریعہ ٹیکنالوجی (موبائل فون‘ ٹیبلٹس اُور ملٹی میڈیا سے جڑے کمپیوٹرز‘ سمارٹ بورڈز جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) و انٹرنیٹ پر منحصر آلات کے ذریعے) تربیت یافتہ اساتذہ (سپاہی) اپنے ذاتی وسائل سے ’’(بے تیغ) جہالت کے خلاف جہاد‘‘ کا حصہ بن جاتے؟

’برٹش کونسل‘ کی مہارت پر بھروسہ کرنے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ برطانیہ حکومت کا یہ ’84 سالہ‘ (بزرگ) ادارہ عالمی سطح پر ’تعلیم وثقافت‘ کے صرف اُنہی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے جن کا تعلق ’’انگریزی بول چال اور ڈھال‘‘ سے ہے۔ برطانیہ کی نظر میں جمہوریت‘ سیاست‘ انسانی حقوق‘ تعلیم‘ نظام تعلیم‘ تدریسی اخلاقیات‘ امتحانات کا مقصد‘ ذہانت اُور طلبہ کی درجہ بندی کا معیار کسی ’اسلامی جمہوریہ‘ سے کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ کہیں ہمارے فیصلہ ساز یہ تو ثابت نہیں کرنا چاہتے کہ ہم ’نام کے مسلمان ہیں‘ اور پاکستان ایک برائے نام ’اسلامی جمہوریہ‘ ہے جہاں نہ تو ’ماہرین تعلیم‘ کا وجود ہے اور نہ ہی خالص نصابی تعلیم پر بھروسہ اور اِس طریق کو ’جدید‘ قرار دینے والے مغربی معاشروں کو حاصل ہونے والی پیداوار (ثمرات) ہمارے لئے کارآمد (قابل قبول) ہو سکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا حکومت کے لئے فیصلہ سازی کرنے والوں کو سوچنا‘ سمجھنا اُور دردمندی (حب الوطنی) کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لئے دستیاب مالی وسائل اور توجہات مرکوز کرتے ہوئے ’’مقامی مسائل‘‘ کا ’’مقامی حل‘‘ تلاش کیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ غوروخوض (مشاورت) کرنے پر معلوم ہو کہ خیبرپختونخوا کے 25 اضلاع کے لئے ایک جیسی ’تعلیمی پالیسی‘ اُور ایک جیسے الفاظ پر مشتمل نصاب‘ درس و تدریس کا طریق‘ سرکاری سکولوں کے اُوقات‘ اساتذہ کی تربیت کا معیار و تعلیمی قابلیت و اہلیت الگ الگ (مختلف) ہونی چاہئے! 

’برٹش کونسل‘ کی تعلیمی‘ ثقافتی شعبوں اُور انگریزی زبان کے فروغ کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اِس ادارے نے صرف سال 2014-15ء کے دوران 10 کھرب‘ 93ارب‘ 78کروڑ‘ 54 لاکھ‘ 9 ہزار 560 پاکستانی روپے یعنی 97 کروڑ 73 لاکھ یوروز سے زیادہ منافع کمایا جس کی تفصیلات کا اندازہ رپورٹس کی صورت britishcouncil.org (ویب سائٹ) پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں کہ کس طرح پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک (کے فیصلہ سازوں کی مدد سے) ’برٹش کونسل‘ سمیت برطانوی و دیگر مغربی ادارے اپنی اپنی زبان و ثقافت کا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے فیصلہ سازی کے عمل پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 500 پرائمری سطح کے اساتذہ کی تربیت کے لئے 56 کروڑ 80 لاکھ روپے کی حکمت عملی وضع کی گئی جس کا 70فیصد (41کروڑ روپے سے زیادہ) خیبرپختونخوا حکومت ’برٹش کونسل‘ کو اَدا کئے اور باقی ماندہ تیس فیصد ’برٹش کونسل‘ نے اپنے ذمے لیا۔ 

واضح رہے کہ ’برٹش کونسل‘ نہ تو خیراتی اِدارہ ہے اور نہ ہی وہ اِس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے حسابات و اخراجات کی منظوری خیبرپختونخوا حکومت سے لے۔ چالیس کروڑ روپے سے زائد کی رقم صرف اور صرف 500 پرائمری اساتذہ کی تربیت پر خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا 8 لاکھ روپے فی معلم تربیت زیادہ نہیں؟ کیا صوبائی احتساب کمیشن پرائمری اساتذہ کی تربیت کی آڑ ہونے والی ممکنہ بے ضابطگیوں کا نوٹس لے گا؟ کون نہیں جانتا کہ ’برٹش کونسل‘ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ماہرین کی تعداد برطانوی باشندے یا چبا چبا کر انگریزی بولنے والے برطانوی حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ’وفادار‘ ہوتے ہیں جن کی بھاری تنخواہیں‘ پرکشش مراعات برطانیہ کے خزانے سے نہیں بلکہ جس ملک میں برٹش کونسل کی شاخیں ہوتی ہیں اُسی سے اَدا کی جاتی ہیں۔ تعجب خیز اَمر کیا ہے اگر ’برٹش کونسل‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی گرجا گھروں‘ عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت اور اُن خارجہ پالیسیوں کے سیاسی و فوجی اہداف پر بھی خرچ کی جاتی ہو‘ جو برطانیہ حکومت کے وہ توسیع پسندانہ عزائم سے تعلق رکھتے ہیں کہ ’’برطانوی راج میں سورج غروب نہ ہو!‘‘

سرکاری سرپرستی میں شعبۂ تعلیم کی بہتری بالخصوص خیبرپختونخوا میں ’پرائمری تعلیم‘ سے متعلق اگر اَب تک کی وضع کردہ جملہ (جامع قرار دی جانے والی) حکمت عملیوں کے خاطرخواہ (مطلوبہ) نتائج حاصل نہیں ہوئے تو اِس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ’خیبرپختونخوا کے زمینی حقائق کا اِدراک اُور سوچ بچار‘ کرتے ہوئے مقامی مسائل اور اُن کے مقامی حل پر توجہ نہیں دی گئی۔ جن معاشروں نے علم کی اہمیت کو تسلیم‘ اپنے آپ کو علم کے آگے تسلیم اور پھر اِس کے ثمرات حاصل کئے‘ کیا وہاں معلم یا تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی جیسے عہدوں پر فائز ہونا‘ ہمارے ہاں کی طرح (اتنا ہی) آسان ہوتاہے؟ 

تعلیم کے معیار بلند کرنے کے لئے کوئی بھی ’بیرونی حل‘ اُس وقت تک کارگر (نتیجہ خیز و کارآمد) ثابت نہیں ہو گا‘ جب تک بحیثیت مجموعی ’محکمۂ تعلیم‘ میں ’داخلی سطح‘ پر اصلاحات متعارف نہیں کی جاتیں۔ جب تک سرکاری تعلیمی اداروں سے وابستہ (مردوخواتین) اساتذہ اور اُن کے حاکم (انتظامی نگرانوں) کی کارکردگی کا احتساب عام نہیں ہوتا اُور جب تک ’سزا و جزأ‘ کے تصورات عملاً رائج نہیں ہوتے‘ اُس وقت تک سرکاری تعلیمی اِداروں کا تدریسی ماحول‘ نظم و ضبط اُور کارکردگی بصورت اِمتحانی نتائج بہتر ہونے کے بلند و بانگ اَعلانات (توقعات) ناکافی ہی رہیں گے۔

Sunday, April 23, 2017

Apr2017: Panama Case Verdict - The Fact sheet!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تاریخی فیصلہ: حقائق نامہ!
اَلفاظ کے ’ہیرپھیر‘ سے معنی و مفہوم بدل جاتے ہیں۔ ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ کی جانب سے ’تاریخی فیصلہ‘ صادر کرنے کی بجائے یہی ’بہتر‘ سمجھا گیا کہ وہ جو تاریخی ہو‘ وہی فیصلہ ہو! کیا پانچ ’اَذہان عالیہ‘ بشمول ’چیف جسٹس‘ کی فہم و بصیرت‘ یعنی ’پوسٹ پانامہ کیس ورڈکٹ‘ پاکستان مالی و اِنتظامی بدعنوانی سے زیادہ محفوظ و مامون ہو گیا ہے؟ اِس سوال سے جنم لینے والے ضمنی سوالات ایک ’حقائق نامے‘ کی صورت غوروخوض کے متاضی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کے موقع پر کفار سے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اِس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے تو سب نے کہا کہ ہم یقین کریں گے کیونکہ آپ ’صادق و امین‘ ہیں تو معلوم ہوا کہ قیادت کی پہلی شرط ’صداقت و امانت‘ ہے جس کے بغیر ’صداقت و امانت‘ قیادت (رہبری) ایک لفظ تو ہو سکتا ہے لیکن ہرگز ہرگز ’انقلابی تصور‘ نہیں۔

پہلی حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت بیرون ملک خفیہ طریقوں سے سرمایہ کاری کرنے والے کسی نہ کسی صورت حکمرانی یا فیصلہ سازی کے منصب پر فائز یا فائز رہے ہیں اور کوئی بھی عام آدمی (ہم عوام) نہیں بلکہ مراعات یافتہ خواص طبقے سے تعلق رکھنے والے اُن افراد کے مالی معاملات مشکوک ہیں‘ جنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا۔ جنہیں پاکستان نے قیادت‘ عزت‘ تکریم اور رہنمائی جیسے منصب دیئے۔ اَنگریزی زبان کا لفظ ’ٹریژن treason‘ (غداری) کا ماخذ ’ٹریژ‘ (خزانہ) ہے یعنی کسی ملک سے غداری ’ٹریژن‘ کا مرتکب وہ ہوتا ہے جو اُس کے مالی اَمور کو بطور ’صادق و امین‘ سرانجام نہیں دیتا۔ عام آدمی (ہم عوام) کی نظر میں ’اختلافی نوٹ‘ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ثابت ہو چکا ہے کہ ’’ہر ’اختلافی نوٹ‘ کے پیچھے ’قانون کے علم‘ سے زیادہ فلموں‘ ڈراموں‘ شاعری اُور دیگر ادبی تخلیقات کے مطالعے کا عمل دخل ہوتا ہے۔‘ پہلے کہا جاتا تھا کہ جج نہیں فیصلے بولتے ہیں‘ پھر کہا گیا کہ ججوں کو نہیں اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہئے اور اب عام آدمی (ہم عوام) چاہتے ہیں کہ ’ججوں کے فیصلوں میں قانون بھی نظر آنا چاہئے۔‘ 

دوسری حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کے ذریعے بیرون ملک اُور خفیہ ناموں سے سرمایہ کاری کے اِنکشافات کو پاکستان کے علاؤہ کسی دوسرے ملک کے سیاسی حکمرانوں اُور فیصلہ سازوں نے ’جھوٹ کا پلندہ‘ اُور ’مفروضہ‘ قرار نہیں دیا۔ 

تیسری حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت ’حقائق‘ منظرعام پر لانے والے صحافیوں کو ’اعزازات‘ سے نوازہ گیا لیکن پاکستان میں اُن کے ماضی و ادارہ جاتی وابستگیوں کے بارے سوالات اُٹھائے گئے۔ 

چوتھی حقیقت: پانامہ پیپرز نے ’ترقی یافتہ‘ اُور ’ترقی پذیر‘ ممالک کے فیصلہ سازوں کو ہلا کر رکھ دیا لیکن جب اِن حقائق کے بارے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں تحقیقات کی گئیں تو دستاویزی ثبوت ’’ناکافی‘‘ قرار پائے گئے۔ 

پانچویں حقیقت: پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ’پانامہ پیپرز‘ کے منظرعام پر آنے کے بعد ملوث کرداروں نے ’اخلاقی اقدار‘ کا ثبوت دیتے ہوئے ’قوم سے معافی‘ نہیں مانگی۔ 

چھٹی حقیقت: پاکستان ایسی اکلوتی مثال ہے جہاں ’پانامہ پیپرز‘ کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے برسرزمین حقائق اُور ناقابل تردید شواہد کی موجودگی کے علاؤہ قانون ساز قومی اسمبلی میں دیئے گئے وزیراعظم کے ’آن دی ریکارڈ‘ بیانات‘ اُن کے اہل خانہ کے ملکی و غیرملکی مختلف ٹیلی ویژن چینلز کو دیئے گئے انٹرویوز کو ’ناقابل بھروسہ‘ سمجھا۔ 

ساتویں حقیقت: دنیا کے کسی دوسرے ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ جہاں مشکوک ذرائع آمدنی کے بارے سوال کرنے کو ’’صرف ایک‘‘ سیاسی خاندان کے احتساب کی کوشش اور اِسے ’جمہوریت و پاکستان کی ترقی کے خلاف‘ سازش قرار دیا جاتا ہے۔ 

آٹھویں حقیقت: پانامہ مقدمے میں بیس اپریل کے روز ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ نے جو ’فیصلہ‘ دیا اُس سے صرف پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت ہی نہیں بلکہ اُن سبھی کرداروں نے سکھ کا سانس لیا ہے جن کے سروں پر ’نااہلی کی تلوار‘ لٹک رہی تھی! 

نویں حقیقت: ’پانامہ پیپرز‘ کی صورت انکشافات اُس پاکستان سے باہر (بیرون ملک) دولت (اثاثوں) کا عشرعشیر بھی نہیں جو ’پانامہ‘ کے علاؤہ کئی دیگر ممالک میں پاکستانی حکمرانوں نے ’’خفیہ ذرائع‘‘ سے بنا رکھی ہیں۔ 

دسویں حقیقت: بیرون ملک خفیہ بینک اکاونٹس اور جائیدادیں رکھنے والوں کا تعلق صرف ’پاکستان مسلم لیگ نواز‘ ہی سے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور جماعتی وابستگیاں بدل بدل کر حکمرانی کرنے والے سینکڑوں ایسے پاکستانیوں کے ناموں پر مشتمل فہرست (پلندے) ذرائع ابلاغ میں شائع یا زیربحث آ چکے ہیں‘ جن کی وضاحت اُور حقیقت کے بارے کیا الگ الگ آئینی سماعتوں کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا؟ 

گیارہویں حقیقت: خفیہ ذرائع سے بیرون ملک مالی و کاروباری مفادات رکھنے والوں کی ’’معلوم و نامعلوم تعداد‘‘ میں قطر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ برطانیہ‘ فرانس‘ اَمریکہ اُور جن یورپی (دوست) ممالک کے نام آتے ہیں‘ اُنہیں اجتماعی طور پر ناجائز قرار دیئے بناء (آئندہ) ایسی مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کے امکانات کم نہیں کئے جا سکیں گے۔ 

بارہویں حقیقت: ریاست کے چاروں ستونوں کو اپنی ذات میں ’قول و فعل کے تضادات‘ ختم کرنا ہوں اُور ایثار و قربانی کی عملی مثالیں بننا ہوگا کیونکہ اگر پاکستان کی ساکھ ایک ایسے ملک کی ہوتی ہے جہاں کھربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والوں کی پکڑ نہیں ہوتی‘ جہاں قانون نافذ کرنے والے ریاستی ادارے اداروں سمیت احتساب کا عمل اِس حد تک مفلوج (ناکارہ) ہو چکا ہے کہ ’صاحبان اختیار‘ کا احتساب نہیں کیا جاتا‘ جہاں ’سوچ اور فکروعمل کی(ترجیح) پاکستان‘ نہیں تو وہاں صنعتی و معاشی ترقی‘ بے روزگار اَفرادی قوت جیسی نعمت سے اِستفادہ‘ قدرتی وسائل‘ ترقی کے امکانات اور برآمدات میں اِضافے سمیت توانائی جیسے بحرانی مسئلے کا حل کیونکر ممکن ہو سکے گا؟ 

TRANSLATION: The judgment by Dr Farrukh Saleem

The judegment
تذکرہ ایک فیصلے کا
بیس اپریل کے روز ’سپرئم کورٹ آف پاکستان‘ نے ’پانامہ کیس‘ میں جو فیصلہ دیا اُس کا آغاز 1969ء میں لکھے گئے ناول ’دی گاڈ فادر‘ سے لئے ’قول زریں‘ سے لے کر ’بین السطور‘ بہت کچھ ایسا سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے جن کی روشنی میں پاکستان کی سیاست کے محور اور مقصود کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ’’ہر خوش قسمتی ہے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔‘‘ اِس جملے کے بعد فیصلے میں آگے چل کر لکھا گیا کہ ’’حیران کن اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ یہ پورا مقدمہ اِس ایک جملے ہی کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے!‘‘
سپرئم کورٹ فیصلے کا بہ نظرغائر جائزہ لینے سے کئی حقائق معلوم ہوتے ہیں جیسا کہ اِس فیصلے میں جن جن شخصیات کے نام کتنی بار آئے اُن میں لفظ ’نواز‘ 235مرتبہ‘ لفظ قطری شہزادے ’ثانی‘ کا نام 123 مرتبہ‘ لفظ ’حسین‘ 111 مرتبہ‘ لفظ ’حسن‘ 43مرتبہ اور لفظ ’مریم‘ 24مربتہ آیا ہے جس سے یہ ضمنی پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ مریم (وزیراعظم کی صاحبزادی) کا کردار فیصلہ سازوں کے ذہن میں شروع دن سے نہیں تھا لیکن فیصلہ سازوں پاکستان کے موجودہ وزیرخزانہ اور وزیراعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کو نہیں بھول سکے جن کا نام فیصلے میں 23مرتبہ‘ جبکہ دلچسپ امر ہے کہ ’سمدھی‘ کا لفظ 5 مرتبہ دہرایا گیا۔ اِسی طرح شہباز شریف بھی اُن کی یاداشت میں رہا جن کا نام فیصلے کی ضخیم دستاویز میں 14مقامات پر تحریر ملتا ہے۔
سپرئم کورٹ کے معزز فیصلہ سازوں کے ذہن پر جو پہلو حاوی تھا اُس کا عکس الفاظ کے چناؤ اور استعمال سے بخوبی واضح ہے جیسا کہ لفظ ’پراپرٹی (جائیداد)‘ کا لفظ 483 مرتبہ‘ لندن 333 مرتبہ‘ قطر 192مرتبہ‘ جدہ 109مرتبہ اُور پانامہ 60مرتبہ استعمال ہوا۔ اِسی طرح ’آف شور (بیرون ملک خفیہ ادارے)‘ کا اصطلاحی لفظ 96 مرتبہ استعمال پایا گیا۔ منی (سرمایہ) 195 مرتبہ‘ کرپشن (بدعنوانی) 107مرتبہ‘ لانڈرنگ 57 مرتبہ جبکہ فیصلہ سازوں کی نظریں اور توجہات ذرائع ابلاغ پر بھی رہیں جنہوں نے ’ٹیلی ویژن‘ کا لفظ 33 مرتبہ مختلف مقامات پر بحوالہ استعمال کیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ لفظ ’بوگس‘ پانچ مرتبہ‘ ہوا۔ جس مقام پر ’بوگس‘ کا لفظ پہلی مرتبہ استعمال ہوا اُس جملے میں کہا گیا کہ ’’میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ یا تو میرے سامنے جائیداد کی فروخت کا جو معاہدہ (دستاویزی ثبوت) پیش کیا گیا وہ ’بوگس‘ تھا یا پھر جناب طارق شفیع کی جانب سے جو متعلقہ حلف نامہ دیا گیا وہ جنوئن (اصل) نہیں ہے۔‘‘ قطری شہزادے کا ذکر بھی فیصلے میں ملتا ہے جن کے بارے میں ایک مقام پر لکھا ہے کہ ’’میری رائے میں‘ دستاویز بوگس ہے‘ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ہمیں اِس بات میں کوئی امر مانع (حیل و حجت) نہیں کہ ہم اِس دستاویز کو رد (ریجیکٹ) کردیں۔‘‘

سپرئم کورٹ کے فیصلے میں ’حدیبیہ(Hudaibiya)‘ کا ذکر بھی پانچ مرتبہ ملتا ہے‘ جس کی وجہ سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار یقیناًایک مشکل میں پڑ گئے ہیں کیونکہ اُن کا کوئی نہ کوئی تعلق اِس پورے معاملے سے بنتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے لئے ایک اچھی خبر ہے کہ اُن کی صاحبزادی مریم نواز اِس پورے مقدمے میں مجرم نامزد ہونے سے صاف بچ گئی ہیں لیکن پر قانونی و اخلاقی دباؤ بدستور موجود ہے۔ وہ تین جج صاحبان جنہوں نے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے جیسا نتیجہ پیش نہیں کیا لیکن اُنہوں نے ایسی مشکلات کے پہاڑ کھرے کر دیئے ہیں‘ جن سے نمٹنا‘ اُور خود کو ’بے قصور‘ ثابت کرنا وزیراعظم کے لئے آسان نہیں ہوگا۔
آئندہ 60دن میں‘ وزیراعظم کا مستقبل ’جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)‘ طے کرے گی اور اِس ’جے آئی ٹی‘ اصطلاح کا استعمال فیصلے میں 32مرتبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے اور اس کے ذریعے کسی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ذمہ داروں یا حقائق کا تعین کرنے کی تاریخ زیادہ روشن نہیں لیکن اِس کے باوجود اگر ساکھ کے باوجود ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دی گئی ہے تو اِس کا مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ اِس معاملے میں فوج کے ادارے کو بھی شامل کر لیا جائے اور اُن کی کارکردگی کے احتساب کا موقع بھی ہاتھ آئے۔ فیصلہ سازوں کے ذہن میں آرمی اور ملٹری جیسی اصطلاحات بھی گردش کر رہی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں اصطلاحات کا استعمال 16مرتبہ پڑھنے کو ملتا ہے۔

قانونی پیچیدگیاں اور باریکیاں اپنی جگہ‘ اگر ہم پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اُس ردعمل کو دیکھیں کہ انہوں نے پانامہ مقدمے کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کاماحول احتجاج سے گرما دیا ہے۔ اِس لمحۂ موجود میں وزیراعظم سیاسی طور پر تنہا دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ اُن کے واحد اتحادی مولانا فضل الرحمن ہی باقی بچے ہیں اور یہ صورتحال اُن 5 درجن تجربہ کار سیاستدانوں کے لئے مایوس کن ہے جو ایک معمول کے مطابق قومی اسمبلی کی اُن 148نشستوں پر تواتر سے کامیاب ہوتے رہتے ہیں جو صوبہ پنجاب کے اضلاع روالپنڈی اور رحیم یار خان پر مشتمل ہیں۔

تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہنے والے شخص کے سامنے تین محاذ کھلے ہیں جن پر اُسے اپنا دفاع کرنا ہے۔ پہلا محاذ ’جے آئی ٹی‘ ہے۔ دوسرا محاذ اُن کی سیاسی تنہائی کا ماحول ہے اور تیسرا محاذ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف اُن کی ناکامی ہے۔ جہاں تک اِن محاذوں پر کامیابی کا تعلق ہے تو ’جے آئی ٹی‘ کے ذریعے سرخروئی حاصل کرنے کی واحد صورت یہی ہے کہ کسی صورت اِس معاملے کو طول دیا جائے اور حکومتی اختیارات کے ذریعے ’جے آئی ٹی‘ کی تشکیل پر اثرانداز ہونے کے ساتھ اِس کے کام کرنے کے آغاز میں تاخیری حربے اختیار کئے جائیں۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

Saturday, April 22, 2017

Apr2017: Ethical side of the Panama Case verdict!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیاسی اخلاقیات!
پاکستان مزید سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مریم اورنگزیب کا قول سلیم ہے کہ ’’اگر اُور مگر ختم ہونا چاہئے۔‘‘ کاش کہ ایسا ہی ہوتا اور عدالتی فیصلے کے فوراً بعد سے رات گئے تک نہ تو مٹھائیاں تقسیم جاتی اور نہ مبارک بادوں کا تبادلہ کرنے والے تصاویر ’سوشل میڈیا‘ پر جاری کرتے۔ عدالتی فیصلے سے اپنے مطلب کے معانی اخذ کرنے اور سیاق و سباق پر غور کرنے والے ’غیرآئینی امور‘ کے ماہرین کے شکوک و شبہات اور تحفظات بدسور موجود ہیں۔ 20 اپریل کی طرح 21 اپریل کا دن بھی پاکستان پر بھاری رہا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جاری اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کو بات کرنے کا موقع نہ دیتے ہوئے اجلاس ختم کرنے کی روایت ’عدم برداشت‘ اور اختیارات کے غلط استعمال کی عکاس ہے۔ عدالتی فیصلہ وہی کا وہی رہنا تھا اگر تحریک انصاف کے سربراہ کو قومی اسمبلی سے خطاب کی اجازت دے دی جاتی اور برہمی پر مبنی ردعمل منطقی تھا کیونکہ عمران خان بہت کچھ ’’فلور آف دی ہاؤس (آن ریکارڈ)‘‘ کہنے کی خواہش رکھتے تھے اور یقیناًاُن کا مقصود یہی تھا کہ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر بھی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں‘ جو اُن سمیت پیپلزپارٹی کی جانب سے ’جلدبازی‘ میں اگر یہ اعلان پہلے ہی سامنے نہ آتا تو ’وفاقی حکومت‘ ہوشیار نہ ہوتی جو اتنی بھی سادہ نہیں کہ اپنے خلاف محاذ پر محاذ کھولنے دے جو پہلے ہی بیس اپریل کے ’عدالتی فیصلے اور حزب اختلاف کی جانب سے جوش خطابت میں ’کڑے تنقیدی حملوں‘ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔

پانامہ کیس میں تحریک اِنصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ’جماعت اِسلامی پاکستان‘ بھی خود کو ’سرخرو‘ سمجھ رہی ہے۔ گویا ایک ایسا عدالتی فیصلہ آیا ہے جس سے سب کی دلی مرادیں پوری ہو گئیں ہوں! جماعت کے مرکزی اَمیر (سربراہ) سراج الحق کا مؤقف اُور مطالبہ معمولی نہیں۔ کیا ہوا اگر وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین کو بولنے نہیں دیا کیونکہ اُسی قومی اسمبلی کے باہر ’یکے بعد دیگرے‘ سبھی جماعتوں کے رہنماؤں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے ’’دل کے پھپھولے‘‘ کھول کھول کر بیان کر دیئے۔ 

تاریخ تو بہرحال رقم ہو رہی ہے‘ بیس اپریل کا دن اتنا تاریخی (ناقابل فراموش) تھا‘ کہ اس کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اب ہر دن ’تاریخی‘ ثابت ہو رہا۔ ’جلدباز‘ فریقین غلطیوں پر غلطیاں کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ سپرئم کورٹ کے کہے کو سمجھا جائے کہ ’’وزیراعظم اور اُن کے اہل خانہ کے بیانات درست نہیں پائے گے۔ دو ججز نے کہا کہ وزیراعظم نااہل جبکہ باقی تین نے ایک عدد تفتیش کی ضرورت محسوس کی ہے تو یہ کس طرح حکمراں جماعت کی کامیابی ہو سکتی ہے!؟ جماعت اسلامی ایک عرصے سے کرپشن کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ ٹرین مارچ‘ سڑکوں سے ایوانوں تک جلسے جلوس اور احتجاج کے بعد عدالت کا دروازہ بھی کٹھکٹھانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کم سے کم اخلاقی طور پر ’پیپلزپارٹی‘ سے بلند ہیں اور مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے سدباب کے لئے قول و فعل کے تضاد کا شکار نہیں!

پانامہ کیس کا فیصلہ منزل نہیں لیکن کامیابی کی جانب پیش قدمی ہے۔ کیا سپرئم کورٹ کے دو جج صاحبان کا فیصلہ معمولی قرار دی جاسکتی ہے؟ 

ضرورت اِس امر کی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کا ایک ہی مطالبہ ہونا چاہئے کہ وزیراعظم اخلاقی طور پر استعفی دے اس لئے کہ اگر وہ بڑی کرسی پر موجود رہتے ہیں تو اس سے تفتیشی و تحقیقاتی عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ بقول سراج الحق ’’موجودہ اور سابق حکمرانوں نے اداروں کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ قوم کو اُن سے یہ توقع ہی نہیں کہ ایک کم گریڈ کا افسر اپنے سے اعلیٰ گریڈ کے افسر کا احتساب کرے گا‘ لہٰذا وزیراعظم ’نواز شریف‘ کی عزت اسی میں ہے کہ وہ استعفی دے کر ایک آزادانہ تفتیش کا ماحول فراہم کریں۔ جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے اراکین کون ہونے چاہیءں اِس پر بھی حزب اختلاف کا مؤقف صرف اور صرف اُس صورت تسلیم کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ متحد رہیں! کیونکہ ماضی میں بننے والی ایسی ہی کئی مشترکہ تفتیشی ٹیموں کی کارکردگی اور حاصل ہونے والے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے کی بجائے رائٹ کو دائیں کی بجائے صحیح (حق) اور لیٖفٹ بائیں کی بجائے غلط سمجھنے کے اصولوں پر سیاست ہونی چاہئے تاکہ ملک میں کم سے کم اُن اخلاق قدروں کو حکمرانی کا موقع مل سکے جن میں نمو (ارتقاء) کی طاقت چھپی ہوئی ہے۔ 

لوگوں کے دین اور مسلک جدا (الگ الگ) ہو سکتے ہیں لیکن اخلاق ایک ایسا اصول (معیار) ہے جو پوری دنیا کو جوڑ اور اِسی کی عدم موجودگی میں پیدا ہونے والی تفریق کی وجہ سے ممالک اور اقوام تقسیم (ٹکڑے) بھی سکتی ہیں! 

حق‘ عدل اور اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم اپنے عہدے سے علیحدہ رہیں۔ پارلیمینٹ میں اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ (نواز) کسی دوسرے رکن کو وزیراعظم نامزد کر سکتی ہے۔ جمہوریت رواں دواں رہ سکتی ہے اور جمہوریت کو رواں دواں ہی رہنا چاہئے! 

Friday, April 21, 2017

Apr21: Aftermath of the Panama Case verdict!


ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
منظر‘ پس منظر‘ پیش منظر!

بڑے کیس کی بڑی بھی گھڑی گزر گئی! 

پانامہ کیس میں ’سپرئم کورٹ‘ فیصلے سے ’پاکستان مسلم لیگ‘ کی جیت اور حکمراں جماعت کو حسب دعویٰ ’سرخرو‘ ملی ہے۔ اصولی طور پر پانامہ پیپرز کے بارے میں تفتیش پہلے اور اِس سلسلے میں سپرئم کورٹ سے بعد میں انصاف کا مطالبہ کیا جاتا تاکہ حقائق و شواہد کا جائزہ لینے کی یوں کمی محسوس نہ ہوتی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت سیاسی قائدین جلدبازی نہ کرتے اور ابتدأ میں کمیشن قائم کرنے کی جس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا اب اُسی کو تسلیم کرنے کے سوأ چارہ نہیں پا رہے تو آج صورتحال اور فیصلہ مختلف آ سکتا تھا لیکن حزب اختلاف نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ وقت اور حالات دونوں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے! سپرئم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آئندہ دو ماہ ’کریمنل انویسٹی گیشن‘ کی طرح تفتیش ہو گی۔ شواہد اکٹھے کئے جائیں گے جن کی بنیاد پر سپرئم کورٹ ہی حتمی فیصلہ سنائے گی‘ جس سے وابستہ اُمیدوں کی سانسیں چلتی رہنی چاہیئں۔ 

سپرئم کورٹ کے حکم پر جو افسران تفتیش کے لئے نامزد ہوں گے اگر وہ کمزوری دکھائیں اور چاہیں بھی تو حقائق کو چھپا نہیں سکیں گے یقیناًسپرئم کورٹ کا فیصلہ اُس نوعیت سے واضح نہیں جیسا کہ ہونا چاہئے تھا لیکن ملک کے وسیع تر مفاد اور سسٹم کو بچانے کے لئے ’مزید تفتیش اور تحقیقات‘ کی اجازت دیتے ہوئے وزیراعظم کو اگر ایک اُور موقع دیا گیا ہے تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ ملک کا نظام اور معاملات بھی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں جذبات کی عینک لگا کر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔

پانامہ کیس کے فیصلے کا لب لباب یہ ہے کہ پانچ جج صاحبان نے جو ایک بات مشترک طور پر کہی ہے اور جس پر اُن میں اختلاف رائے نہیں وہ یہ ہے کہ ’’وزیراعظم اُور اُن کے اہل خانہ کی جانب سے دیا جانے والا جواب تسلی بخش نہیں تھا‘‘ اِسی وجہ سے ’تفتیشی کمیشن‘ قائم کیا گیا تاکہ بادی النظر میں جو کام سپرئم کورٹ نہیں کر سکی اب وہی کام 2 خفیہ ادارے (آئی ایس آئی اور ایم آئی) پر مبنی تین رکنی ٹیم کرے گی جس کی قیادت وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کو سونپی گئی ہے جو وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ ہے اور جس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (اُنیس گریڈ عہدے والے آفیسر) کو تفتیش سونپ کر یہ نہیں سوچا گیا کہ اگر اُس سرکاری ملازم کی مدت ملازمت تیس سال سے کم ہوئی تو موصوف اِسی حکومت کے تعینات کردہ (احسان مند) ہوں گے! سوال (جواز) اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا بیس اپریل کا یہی وہ فیصلہ تھا جسے ’’بیس برس‘‘ یاد رکھنے کی قوم کو اُمید دلائی گئی تھی؟ 

سوال یہ بھی ہے کہ جب سپرئم کورٹ کے سامنے باوجود بار بار استفسار کے بھی شواہد (جوابات) پیش نہیں کئے گئے تو کس طرح اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ ایک ’ایڈیشنل ڈائریکٹر‘ کی صدارت میں جو ٹیم تشکیل ہو گی اُس کے سامنے وزیراعظم بمعہ اہل و عیال پیش بھی ہوں گے اور سچ بول کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی بھی مار دیں گے؟ گنتی پھر سے شروع ہو گئی ہے‘ قوم کو ایک اُور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والوں کو بہرصورت یقینی بنانا ہوگا کہ تفتیش کا عمل ’ساٹھ دن‘ ہی میں مکمل کیا جائے اور اگر وزیراعظم یا اُن کے اہل خانہ اچانک بیمار ہو بھی جائیں تو تفتیش کا عمل آئندہ عام انتخابات تک طول پکڑنے نہ پائے۔ 

تفتیش کا معیار بھی ہونا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ سیکورٹی خدشات کو جواز بنا کر مذکورہ ٹیم ’وزیراعظم ہاؤس‘ جا کر رسمی کاروائی (بیان ریکارڈ) کر کے ایک ایسی تفتیشی رپورٹ سپرئم کورٹ کے سامنے پیش کرے جس کی روشنی میں اختلافی نوٹ لکھنے والے دو جسٹس صاحبان بھی ایک دوسرے کا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں! 

بیس اپریل پاکستان کے اُن غریبوں (ہم عوام) کی توہین ہوئی ہے‘ جن کی جان و مال‘ جن کے نام پر لئے جانے والے قرضہ جات اور جن کے ادا ہونے ٹیکس کی کوئی وقعت نہیں! سچ تو یہ ہے کہ سچ تک رسائی کے لئے ہم عوام کو ابھی مزید کچھ دن‘ کچھ ہفتے‘ کچھ سال‘ کچھ دہائیاں اور شاید صدیوں انتظار کرنا پڑے گا۔عربی زبان کا محاورہ ہے کہ ’’انتظار موت سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔‘‘ 

Thursday, April 20, 2017

Apr2017: The judgement day!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

دائمی فیصلہ!


پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ’پانامہ انکشافات‘ سے متعلق مقدمے کا فیصلہ نہ صرف ’عہدساز‘ ثابت ہوگا بلکہ اِس سے ملک میں ’’طرز حکمرانی‘‘ کی سمت بھی متعین ہو جائے گی جیسا کہ پاکستان کی پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کا عدالتی فیصلہ اہم تھا‘ اور جس طرح آج بھی پاکستان ’4 اپریل 1979ء‘ کے اُس ایک دن کے حصار سے نہیں نکل سکا‘ جب 1973ء سے 1977ء تک ملک کے 10ویں وزیراعظم اور قبل ازیں 1971ء سے 1973ء تک ملک کے چوتھے صدر رہنے والے ایک مدبر سیاستدان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ 

بھٹو کا خون ایک ایسا داغ ثابت ہوا‘ جو باوجود کوشش بھی دھل نہ سکا اور اِسی ’آمرانہ اقدام‘ نے پاکستان کی سیاسی سوچ اور انتخابی عمل کو دو واضح حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ دنیا اِس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ’سیاست دان‘ ہونے کے معنوی اور اصطلاحی مفہوم پر ہرلحاظ سے پورا اُترتے تھے اور اُن کی سزائے موت کے بعد پاکستان کا طرز حکمرانی مالی وانتظامی بدعنوانیوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا‘ جس سے نکلنے یا اِس میں دھنسے رہنے کا انتخاب ’پانامہ مقدمے کے فیصلہ‘ سے ثابت ہوگا۔ قیام پاکستان کے بعد‘ ذوالفقار علی بھٹو کا بذریعہ عدالت قتل اور عدالت ہی دانش و بصیرت میں ’پانامہ کیس کے فیصلے‘ سے سمجھنا ہوگا کہ سپرئم کورٹ آئندہ حکمرانوں یا اُن کے اہل خانہ کو کتنی ہی کڑی سے کڑی سزا‘ اور نااہل قرار دے بھی دے تو اِس سے آسمان نہیں ٹوٹے گا‘ نہ پاکستان کو لوٹا ہوا سرمایہ واپس ملے گا‘ لیکن بدعنوانی کے ارتکاب میں ’خاص و عام‘ کا امتیاز ختم یا پھر ہمیشہ کے لئے برقرار رہے گا۔ 

ایک بات تو طے ہے کہ پانامہ مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد (post-panama) پاکستان بہرصورت تبدیل ہوگا کیونکہ سپرئم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر صرف کسی ایک شخص یا سیاسی جماعت کے ’سیاسی مستقبل‘ کا نہیں بلکہ یہ پاکستان کی قسمت کا ’ہمیشہ ہمیشہ کے لئے (دائمی) فیصلہ‘ ہونے جا رہا ہے۔ کیا ہمیں ایک ایسے طرز حکمرانی کی ضرورت ہے جس میں حکمران خاندانوں کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جب چاہیں اور جس طرح سے چاہیں ملکی قوانین و قواعد کو پائمال کریں؟ اداروں پر نااہل اور منظورنظر افراد مسلط کرنے کا اختیار حکمرانوں کو ملنا چاہئے؟ 

کیا عہدے اختیارات اور سرکاری وسائل سے ذاتی اثاثے میں اضافہ یا مشکوک ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کی غیرقانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقلی یا حسب آمدن ٹیکس کی اَدائیگی سے گریز اور کسی قومی اِدارے سے حلیفہ بیانات کے باوجود بھی اثاثے پوشیدہ رکھنے (دروغ گوئی) کا ارتکاب جائز سمجھا جائے؟ 

پانامہ کیس کے فیصلے پر صرف ایک خاندان ہی کا نہیں بلکہ اُن تمام پاکستانی خاندانوں کی ساکھ اُور مستقبل کے سیاسی و سماجی کردار کا بھی اِنحصار ہے‘ جن کی سانسیں ’’اپریل دوہزارسولہ‘‘ میں منظرعام پر آنے والے ’’ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ‘‘ سے زائد دستاویزات منظرعام پر آنے کے بعد سے اٹکی ہوئی ہیں! جن پاکستانیوں کا یہ خیال ہے کہ صرف ’پانامہ لیکس‘ کے ذریعے ماضی و حال کے حکمرانوں کے کرتوتوں کا بھانڈا پھوٹا ہے تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ ابھی تو متحدہ عرب امارات میں اثاثے اور سوئزرلینڈ کی بینکوں میں خفیہ طور پر اکاونٹس رکھنے والوں سے بھی نمٹنا باقی ہے لیکن یہ سب صرف اور صرف اُسی صورت ممکن ہوگا‘ جبکہ ’پانامہ مقدمے‘ کا فیصلہ کا آج (بیس اپریل) سنائے جانے کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن اِس فیصلے کو سیاسی مفادات کی عینک لگا کر (تنگ نظری سے) نہیں بلکہ وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔

رواں برس بائیس فروری سے محفوظ ہونے والا پانامہ کیس کا فیصلہ کسی سیاسی جماعت کی مخالفت یا مؤقف کو درست ثابت کرنے کا جواز نہیں بلکہ ایک نیا دن بن کر طلوع ہونا چاہئے۔ ایک مرتبہ پھر نظریں سپرئم کورٹ پر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی یاد آ رہی ہے یقیناًآج پاکستان کی اُس ساٹھ فیصد آبادی کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے‘ جن کے بنیادی حقوق ادا نہیں ہوئے۔ جنہیں انصاف نہیں ملا اُور جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں!

Wednesday, April 19, 2017

Apr2017: Peshawar need Quick response!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کے حقوق: جلد اَز جلد!
وحشت ہو یا نہ ہو لیکن پشاور کا نقشہ جس زوایئے سے بھی دیکھیں اُلٹا دکھائی دیتا ہے! تعمیروترقی کے نام پر ’’اعمال کی کہانی‘‘ کا سرنامہ کلام یہ ہے کہ ’’پشاور کا ماضی و حال ایک جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ آخر وہ تبدیلی کیوں نہیں آ رہی جس کا ہر عام انتخاب میں وعدہ کیا جاتا ہے جبکہ ہر دور حکومت میں‘ ہر ترقیاتی حکمت عملی میں اُور یعنی ہر مالی سال کے آغاز پر ’ترقیاتی کاموں‘ کے لئے وسائل باقاعدگی سے مختص اُور خرچ کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں؟ 

سبھی سوالات کا جواب ’سیاسی و انتخابی ترجیحات‘ ہیں جن کی وجہ سے فیصلہ ساز مصلحتوں کا شکار رہے ہیں۔ ترقیاتی عمل کے لئے ’ذمہ دار اِداروں‘ کے درمیان آپسی ’تعاون نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ’عدم مربوطیت‘ کے باعث نہ صرف قیمتی مالی وسائل ضائع ہوئے بلکہ کئی ایسے علاقے بھی ہیں‘ جہاں ترقی کے نام پر حکومتی اِداروں کی کارکردگی ’افتتاحی تختیاں‘ تک محدود دکھائی دیتی ہے! ’خواب سہانا (سترہ اَپریل)‘ اُور ’ترجیحات: پشاور کے مفادات (اَٹھارہ اپریل)‘ کے ذریعے پشاور میں ’ترقی کا جو منظرنامہ‘ پیش کیا گیا‘ اُس میں تحریک انصاف کی صوبائی و ضلعی حکومتوں نے تبدیلی (اصلاح) کے لئے جو قابل ذکر (ٹھوس) اقدامات کئے اُن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’پشاور ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘ کے تحت ترقیاتی امور سے متعلق جملہ 12 اِداروں کو باہم مربوط کر دیا گیا ہے اُور اُمید ہے کہ گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک ترقی کا جو خاکہ اور منصوبہ بنایا گیا وہ بروقت مکمل کر لیا جائے گا۔ چین سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ’’اِقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘‘ میں ’پشاور کو شامل‘ کرتے ہوئے جن پانچ منصوبوں کے لئے مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اُن میں پشاور کا رنگ روڈ مکمل کرنے کے لئے 12ارب روپے ‘ چمکنی کے مقام پر نئے جنرل بس اسٹینڈ کی تعمیر کے لئے 10ارب روپے‘ موجودہ جنرل بس اسٹینڈ میں ’سی پیک ٹاور‘ کے لئے 5 ارب روپے‘ ریگی ماڈل ٹاؤن شپ میں 22 ارب روپے کا ’’ہیلتھ سٹی‘‘ اُور کمرشل و ریزیڈینشل سنٹر کے لئے 11 ارب روپے‘ کی بیرونی سرمایہ کاری آئے گی اور مفاہمت کی دستاویزات پر دستخطوں کے بعد صوبائی حکومت اِن منصوبوں کے ’پی سی ون‘ تیار کرے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ گورگٹھڑی سے متعلق ایک ترقیاتی منصوبے پر چین سے سرمایہ کاری متوقع ہے!

تخیلات کی حد نہیں۔ ترقی کے امکانات اور ضروریات لامحدود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘ پشاور کی قسمت بدل سکتا ہے اگر اِس پر کام حسب حکمت عملی شروع اور اِسے ’دن رات‘ ایک کرکے مکمل کر لیا جائے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو کم سے کم اندرون پشاور سے تحریک انصاف کو انتخابی شکست نہیں دی جا سکے گی! لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ اور ضلعی ناظم نے آثار قدیمہ کے ماہر کو ’شہر کی ترقی‘ سونپی جبکہ اُن کا علم و تجربہ شہری ترقی سے متعلق نہیں ہے اور دوسری جانب اُسی ماہر آثار قدیمہ کو اپنے ساتھ چین کے دُورے پر لے گئے ہیں جبکہ ضرورت اِس امر کی تھی کہ گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک تعمیرات کے لئے تمام تر توانیاں‘ وسائل اور دستیاب وقت کا ہر منٹ مرکوز کر دیا جاتا۔ بہرکیف گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک ’450 میٹر‘ طویل سڑک کے دونوں اطراف 16 اضافی گلیوں کی تعمیر بھی منصوبے کے حصہ ہے جسے گذشتہ سال منظور کر لیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر اِس ترقیاتی کام شروع نہ ہوسکا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی سے مایوسی کی یہی وجہ رہی ہوگی کہ ’سول ورک‘ کا کام متعلقہ حکومتی ادارے کو دینے کی بجائے ایک ماہر آثار قدیمہ کو سونپ دیا گیا کہ چلو کوئی تو اِس کو انجام تک پہنچائے گا۔ حسب منصوبہ بندی رواں برس ماہ اگست کے بعد تعمیراتی کام (سول ورک) شروع ہو گا‘ جس کے ڈیزائن کی پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے اور اگر حالات معمول پر رہتے ہیں تو اُمید ہے کہ اگست میں شروع ہونے والا کام دسمبر کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ دسمبر 2016ء سے ’گورگٹھڑی‘ کی عمارت کو صرف خیبرپختونخوا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا پہلا ’آرکیالوجیکل پارک‘ قرار دیا جا چکا ہے لیکن اِس بارے شاید ہی اہل پشاور کو علم ہو کہ ’آرکیالوجیکل پارک‘ کیا ہوتا ہے؟ 

عام آدمی (ہم عوام) کی آثار قدیمہ سے متعلق علوم سے لاعلمی و اپنے ہی پشاور کے تاریخی تعمیراتی اثاثوں سے لاتعلقی نے بہت سے سرکاری محکموں کا کام آسان کر دیا ہے‘ جنہیں نمائشی بورڈ یا سنگ بنیاد و افتتاحی تختیاں آویزاں کرنے سے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ پشاور کے کم سے کم پانچ خاندان ایسے ہیں جنہوں یہاں کے مختلف انتخابی حلقوں سے بطور اُمیدوار حصہ لینے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ پشاور کو ترقی سے محروم رکھنا یا غیرپائیدار ترقی اُن کے لئے مستقبل میں کمائی کے کتنے دروازے کھول دے گی! گورگٹھڑی سے چوک یادگار تک جن گلیوں کو ترقیاتی حکمت عملی میں شامل کیا گیا ہے‘ اُن کے بارے مقامی افراد کو اعتماد میں لینے کے لئے ذرائع ابلاغ سے زیادہ کوئی دوسرا مؤثر پلیٹ فارم نہیں۔

گورگٹھڑی کے احاطے میں قائم شادی ہال اور دیگر پختہ تعمیرات کو ’تجاوزات‘ قرار دے کر مسمار کرنے کا حکم پشاور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد نہایت سوچ سمجھ کر دیا تھا۔ مذکورہ مقدمہ گرینز گروپ آف ہوٹلز اور میونسپل کارپوریشن پشاور کے درمیان 28 مارچ 2016ء کو عدالت کے روبرو پیش ہوا‘ جس پر فیصلہ یکم اپریل 2016ء کو آیا اور اِس فیصلے کی رو سے شادی ہال سمیت گورگٹھڑی کے احاطے میں کی جانے والی تمام تعمیرات کو مسمار کرنا تھا۔ اگر اُنیس صفحات پر مشتمل اِس عدالتی فیصلے پر کئی مضامین تحریر کئے جا سکتے ہیں کیونکہ اِس میں دیگر صوبوں کی مثالیں اور اُس جعل سازی کا بھی ذکر بطور حوالہ موجود ہے‘ جو تحریک انصاف سے قبل پشاور کی ضلعی اورصوبائی حکومتوں کے فیصلہ سازوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کیا۔ جو قارئین اِس عدالتی فیصلے کی دستاویز کا بذات خود تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں وہ بذریعہ برقی مکتوب (اِی میل) peshavar@gmail.com یا ٹوئٹر اکاونٹ @peshavar رابطہ کرکے اِس فیصلے کی ’پی ڈی ایف فائل‘ بلاقیمت حاصل کر سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود گورگٹھڑی کے احاطے میں مذکورہ شادی ہال اور دیگر پختہ تعمیرات (تجاوزات) مسمار نہیں کی جاسکیں؟ یہ سوال جب چین کے دورے پر گئے ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹرعبدالصمد سے بذریعہ ’واٹس ایپ‘ پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ ’’شادی ہال اور دیگر تعمیرات کا قبضہ اُنہیں حاصل ہوگیا ہے لیکن مذکورہ عمارت کو فوری طور پر نہیں لیکن بہرحال مسمار کیا جائے گا۔‘‘ 

ڈائریکٹر آرکیالوجی کو سمجھنا ہوگا کہ تحریک انصاف کی صوبائی و ضلعی حکومت کا دور کسی نعمت سے کم نہیں اور اگر انہوں نے موجودہ دور حکومت میں یہ کام نہ کیا تو آئندہ عام انتخابات کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں‘ عین ممکن ہے تحریک انصاف کو ماضی کی طرح پشاور شہر سے اکثریتی نشستیں حاصل نہ ہوں۔ ڈائریکٹر آرکیالوجی بخوبی جانتے ہیں کہ ایک وقت میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گورگٹھڑی کا دورہ کرنے کے خواہشمند تھے اور اِس سلسلے میں استقبالیہ کے انتظامات بھی مکمل کر لئے گئے تھے لیکن آخری لمحے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے عمران خان کو اپنے ہی حلقے کی ’’شان و شوکت‘‘ والی اِس خاص عمارت کے دورہ کرنے سے روک دیا۔ گورگٹھڑی کی اہمیت اور احساس ہر کسی کا نصیب نہیں۔ ضروری نہیں کہ پشاور میں رہنے والا ہر شخص اِس کی محبت سے سرشار ہو اُور یہ بھی لازم نہیں کہ پشاور شناسی یہاں آ کر آباد ہونے والوں کی رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہی ہو! لہٰذا تحریک انصاف کی صوبائی اور ضلعی حکومتوں سے ملنے والی توجہ‘ وسائل اور پشاور کے حقوق اَدا کرنے کی شدید خواہش جس قدر جلد بلکہ ’جلدازجلد‘ عملاً پوری کر دی جائے‘ اُتنا ہی بہتر اور پشاور کے حق میں مفید ہوگا۔

Tuesday, April 18, 2017

Apr2017: Peshawar & Developmental priority!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ترجیحات: پشاور کے مفادات!
چین کے سلسلۂ سلاطین ’ٹانگ ڈائنسٹی (Tang dynasty)‘ کا دور بادشاہت 618ء سے 907ء رہا اُور اِس دوران بدھ مت کے ماننے والے چینی مفکر‘ سیاح اُور مترجم ’’شان زانگ (Xuanzang)‘‘ نے پشاور سمیت برصغیر کے اُن مختلف علاقوں کا دورہ کیا‘ جہاں بدھ مت کی عبادت گاہیں قائم تھیں۔ ’شان زانگ (پیدائش 602ء۔ وفات: 664ء)‘ نے ساتویں صدی کے اوائل میں پشاور کا دورہ بھی کیا اُور یہاں بدھ مت کے مرکز کا ذکر کرتے ہوئے بطور خاص اُس عمارت کا ذکر کیا جہاں ’بدھ مت کے بانی گوتم بدھ‘ کے زیراستعمال و منسوب (مقدس) اشیاء جس عبادت گاہ (stupa) میں رکھی گئیں تھیں وہ مقام آج کے پشاور میں ’گورگٹھڑی (Gor Khatri)‘ کہلاتا ہے اُور یہی مقام بدھ مت کے ماننے والوں کے لئے سالانہ مذہبی تہوار کی جگہ بھی تھی جہاں آنے والے یاتری اپنے بال منڈوا کر مذہبی رسومات اَدا کیا کرتے تھے۔ 

پشاور صرف قدیم ترین تاریخی شہر ہی نہیں بلکہ قدیم ترین اور ایک ایسا ’زندہ تاریخی‘ شہر کا درجہ رکھتا ہے جو پورے جنوب مشرق ایشیاء میں ممتاز ہے اور پشاور ہی ’گندھارا تہذیب کا مرکز‘ رہا جس کا ذکر تاریخ کی ہر کتاب میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پشاور کا ذکر کئے بغیر برصغیر (پاک و ہند) اُور بدھ مت کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی تو غلط نہیں ہوگا لیکن کیا پشاور کی اِس قدیمی و تاریخی اہمیت اور بدھ مت کے مرکزی شہر ہونے جیسی ’مقدس حیثیت‘ کا کماحقہ اِحساس کیا گیا؟ جو دنیا بھر سے سیاحوں کے لئے کشش کا باعث بن سکتا ہے اور بالخصوص ’چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک)‘ جیسے کثیرالجہتی ترقیاتی منصوبے میں جہاں دیگر شعبوں کو ’ترقیاتی حکمت عملی‘ کا حصہ بنایا گیا ہے‘ وہیں بدھ مت (buddhism) کے ماننے والوں کے لئے پشاور کی ’مقدس حیثیت‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر خیبرپختونخوا میں ’’مذہبی سیاحت (religious tourism)‘‘ کے شعبے کو بھی توجہ دی جائے تو نہ صرف اِس شعبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں بلکہ پشاور سے عوامی جمہوریہ چین کی محبت و دلچسپی ’سی پیک‘ ترقیاتی منصوبے کے تصور و ارادے سے پہلے ہی سامنے آ چکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ’اُرومچی (Urumqi)‘ کو پشاور کا جڑواں شہر قرار دیا گیا اور پشاور صرف چین ہی کا نہیں بلکہ انڈونیشیا کے مکاسر (Makassar) اور یمن کے صنعاء (Sana'a) کا بھی ’’جڑواں شہر‘‘ قرار ہے لیکن اِس نسبت و تعلق کا پشاور اُور اہل پشاور (عام آدمی) کو کوئی قابل ذکر‘ وسیع البنیاد فائدہ نہیں ہوا تو اِس کے لئے عام آدمی (ہم عوام) نہیں بلکہ مختلف اَدوار کے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز ذمہ دار ہیں‘ جن کا دلی تعلق پشاور سے خاطرخواہ مضبوط نہیں رہا اور اشد ضرورت ہے کہ باہمی تعاون کے وسیع و عریض موجود اور نت نئے امکانات کی تلاش اور انہیں قابل عمل حکمت عملیوں میں ڈھالنے پر توجہ دی جائے۔ بطور خاص یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ ’دسمبر دوہزار تیرہ‘ میں ’اِٹلی‘ کے صوبہ ’نے پُلس (Naples)‘ کے علاقے ’اجے رولا (Agerola)‘ کو پشاور کو جڑواں شہر بنانے کی پیشکش کی گئی کیونکہ سکھ دور پشاور کے گورنر (اٹلی نژاد فوجی) جنرل ایویٹیبل (General Paolo Avitabile) کا تعلق اِسی شہر سے تھا‘ جسے اہل پشاور ’ابوطبیلہ‘ کہتے اور اُنہی کے دور میں قلعہ بالاحصار کی مضبوطی و بلندی‘ نکاسئ آب کے لئے شاہی کھٹہ کی تعمیر سمیت یہاں کے باغات کی خوبصورتی و سرسبزی میں اضافہ کیا گیا لیکن یہ سبھی احسانات اپنی جگہ توسیع اور انہی خطوط پر اگر آگے بڑھائے جاتے تو پشاور پاکستان کا ایسا واحد شہر ہوتا‘ جہاں ترقی یورپی ممالک کی طرز پر مثالی ہوتی۔ ماضی و حال کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور ترجیحات کا موازنہ کرتے ہوئے جو بنیادی نکتہ حاصل فکر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پشاور کی جس قدر ترقی رنجیت سنگھ (Ranjeet Singh) کے دور اُور بعدازاں برطانوی راج کے دوران ہوئی اُس کا تعلق اُور مقصد ’مستقبل کی ضروریات‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا جبکہ ہمارے ہاں ترقیاتی حکمت عملیوں کا محورومرکز اور سوچ ’’صرف اور صرف درپیش مسائل کا جز وقتی (ایڈہاک) حل (نمودونمائش)‘‘ ہوتا ہے اُور یہی سبب ہے کہ ماضی و حال کے کئی ایسے ترقیاتی منصوبے ہیں‘ جن کا آج نام و نشان بھی نہیں رہا۔ 

بہرحال ذکر’’پشاور کے مفادات‘‘ اور ترجیحات کا ہو رہا ہے کہ کس طرح بیرون ملک سرمایہ کاروں اور دلچسپی رکھنے والے دوست ممالک کی توجہ حاصل کرتے ہوئے ترقیاتی عمل میں اُن کی شراکت داری ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ چین‘ اِنڈونیشیا اُور یمن نے اپنے حصے کا کام کر دیا جبکہ اٹلی کے شہر ’اَجے رولا‘ کے میئر (mayor) کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو تحریری درخواست معروف برطانوی فلم ساز اُور تاریخ داں ’بوبی سنگھ بانسال (Boby Singh Bansal)‘ کے ذریعے دسمبر دوہزار تیرہ میں پہنچائی جا چکی ہے‘ جس پر تحریک انصاف کی صوبائی و مرکزی قیادت میں متوقع مشاورت ’قومی سطح پر اِصلاحات کے لئے اِحتجاجی سیاسی لائحہ عمل (جدوجہد)‘ کی نذر ہو گئی! 

پشاور کو نظرانداز کرنے کے یہی وہ قابل مذمت روئیے ہیں کہ ہرمرتبہ عام انتخابات کے موقع پر اہل پشاور کی توجہ اِس جانب مبذول کی جاتی ہے کہ وہ ’پشاور کے مفادات‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اِنتخابی اِتحاد تشکیل دیں‘ جو صوبائی اسمبلی کی گیارہ اور قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر ’پشاور کے نام پر‘ پشاور کے لئے ووٹ حاصل کریں اُور جن کے پیش نظر ’سب سے پہلے پشاور‘ رہے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر اُور قومی سیاست کے نام پر پنجاب و سندھ کی سیاسی جماعتوں نے جس قدر اِستحصال پشاور کا کیا ہے‘ شاید ہی ملک کا دوسرا کوئی بھی بڑا شہر اِس قدر محروم اُور مسائل سے دوچار ہو! کیا ہم پشاور میں شہری بنیادی سہولیات کے معیار کا موازنہ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد یا حتیٰ کہ فیصل آباد اُور ملتان سے کر سکتے ہیں؟

مذہبی مناسبت رکھنے والے مقدس مقامات کو بطور ’سیاحتی کشش‘ استعمال کرنے کا نظریہ (تصور) نیا نہیں بلکہ عالمی مثالیں تو اپنی جگہ لیکن صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی دلچسپی دیکھتے ہوئے ’عالمی بینک‘ نے سکھ مذہب کی پانچ عبادت گاہوں کے لئے مالی امداد دینے کا اعلان کیا اُور یہ اُمید ظاہر کی کہ ’مذہبی سیاحت‘ سے صوبہ پنجاب کو جو سالانہ پچاس لاکھ ڈالر آمدنی ہو رہی ہے‘ اگر بدھ مت کے مقدس مقامات کی توسیع و مرمت اور سیاحوں کے لئے خصوصی سہولیات و مراعات کی فراہمی ممکن بنائی جائے تو یہ سالانہ منافع 30 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے! روئیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ 

نکتۂ نظر وسیع کرنا ہوگا۔ حال سے زیادہ مستقبل کی تہہ دار ضروریات اور تقاضوں کا ادراک ذاتی و نسلی لسانی مفادات کی قربانی چاہتا ہے۔ بار بار (متواتر) یاد دہانی کے باوجود بھی اَگر ’پشاور ایک ترجیح‘ اُور ’پشاور ہی ترجیح‘ قرار نہیں پائے گی‘ اُس وقت تک پشاور پر حکومت کرنے والوں کے نام اُور چہرے تو بدلتے رہیں گے لیکن پشاور کی قسمت نہیں بدلے گی‘ جو پارلیمانی اِداروں میں نمائندگی سے لیکر معاشرتی و سماجی سطح پر تنازعات کے حل اُورترقیاتی ترجیحات کے تعین کے لئے ’وسیع البنیاد اتفاق و اتحاد‘ کی متقاضی ہے۔

Monday, April 17, 2017

Apr2017: Development in Hurry!

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام

خواب سہانا!



اکتیس مئی دوہزار تیرہ: ’خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی‘ کے اراکین صوبے کے ’بائیسویں وزیراعلی‘ کے لئے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے پرویز خٹک کو اکثریت رائے یعنی 84 ووٹوں سے منتخب کیا جبکہ اُن کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے حمایت یافتہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) کے نامزد اُمیدوار مولانا لطف الرحمن 37 اراکین کی حمایت حاصل کر سکے اور یوں ایک روز قبل اسپیکر کے عہدے پر فائز ہونے والے اسد قیصر کے لئے اپنے ہی ’ہم جماعت‘ کی بطور ’وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ کامیابی کے اعلان سے ایک ایسا دور شروع ہوا‘ جس میں صوبائی حکومت سے انقلابی و جنونی تبدیلیوں اور اصلاحات کی توقعات آسمان سے باتیں کر رہی تھیں بالخصوص پشاور سے صوبائی اسمبلی کی 11 نشستوں پر کامیاب ہونے والوں کے سامنے ترقی سے محروم ایک ایسا شہر تھا‘ جس کے وسائل پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب پینے کے صاف پانی کی قلت‘ نکاسئ آب کا اَبتر نظام اُور کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) ٹھکانے لگانے جیسے تین بنیادی کام بحرانوں کی صورت منتظر تھے اور یہ مسائل آج بھی حل نہیں ہوسکے تو ذمہ دار کون ہے؟

 پندرہ اپریل دوہزار سترہ: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے نام سے ’کثیرالجہتی‘ ترقیاتی منصوبے کی منظوری دی‘ جس کے تحت اندرون شہر ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ سڑکیں کشادہ کرنے کے ساتھ تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ’ٹف ٹائلز‘ سے فٹ پاتھ بنائے جائیں گے۔ بجلی‘ ٹیلی فون کی تاریں‘ نکاسئ آب سمیت تمام یوٹیلیز زمین دوز بنائی جائیں گی۔ قدیمی تاریخی عمارتوں کی تعمیرومرمت‘ بحالی اُور آرائش کی جائے گی۔ اِس منصوبے میں شہری ترقی اور تعمیرات کے 12 محکمے ’آرکیالوجی (آثارقدیمہ)‘ کی معاونت کریں گے اور اِس پورے منصوبے کی نگرانی ضلع ناظم اُور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کمیٹیاں کریں گی۔ پہلے مرحلے میں گورگٹھڑی (تحصیل) سے بازار کلاں‘ مینا بازار‘ گھنٹہ گھر تا چوک یادگار تک کھدائی کر کے دن رات کام کیا جائے گا تاکہ ’’تین مہینے (کی ریکارڈ مدت)‘‘ میں یہ کام مکمل کر لئے جائیں۔

’’پشاور ہیرٹیج ٹریل ڈویلپمنٹ پراجیکٹ‘‘ میں محکمۂ آثار قدیمہ کو شامل کرنا خوش آئند ہے لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر (سربراہ) بننے سے ڈاکٹر عبدالصمد ’گورگٹھڑی (تحصیل)‘ کی عمارت کسی بھی قسم تجارتی یا ایسی صنعتی و کاروباری سرگرمی کے لئے استعمال کے سب سے بڑے مخالف (ایڈوکیٹ) تھے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ’آف دی ریکارڈ‘ ایسی تکنیکی (تفصیلی) معلومات فراہم کیا کرتے تھے‘ جس سے اُس وقت کے ڈائریکٹر آرکیالوجی‘ صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت‘ وفاقی حکومت اُور ضلعی حکومت کو ’گورگٹھڑی‘ کی تاریخی اہمیت کا احساس ہو۔ آثار قدیمہ کے قواعدوضوابط کی روشنی میں ’’گورگٹھڑی کے درودیوار میں چاہے وہ مغلیہ عہد کی تعمیرات ہوں یا ڈھائی ہزار سال قبل سے تعلق رکھتے ہوں‘ اُن میں ایک کیل بھی نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ یہ ایک عالمی اثاثہ ہے اور اِسے ’پاکستان کا پہلا آرکیالوجیکل پارک‘ بنایا جانا چاہئے۔ وہ سبھی تحاریک نجانے کیوں ختم ہو گئیں اور آج ’محکمۂ آثار قدیمہ‘ گورگٹھڑی کے ایک حصے میں مغلیہ عہد کی اُس سرائے کو ’آرٹیزن ویلیج‘ بنانا چاہتا ہے جس منصوبے میں سنگین نوعیت کی مالی بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور اگر وزیراعلیٰ سمیت پشاور سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے غیرمقامی اراکین صوبائی اسمبلی فرصت کے کسی لمحے ماضی میں ہوئی محکمہ ثقافت و سیاحت کی کارستانیوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ کس طرح افسرشاہی اور اُن کے ہم منصبوں نے ’پشاور کے وسائل‘ کی لوٹ مار کی اور بجائے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ اور ملوث کرداروں کو بے نقاب کرکے سزا دینے ایک ایسا منصوبہ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جو کسی بھی صورت ’گورگٹھڑی‘ کے مفاد میں نہیں اور اِس سلسلے میں رہنمائی کے لئے پشاور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔

وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ جس کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کا صوبائی اسمبلی سے انتخاب (اکتیس مئی دو ہزار تیرہ) سے ’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے اعلان (پندرہ اپریل دوہزار سترہ) تک موجودہ صوبائی حکومت کے ’’تین سال‘ دس ماہ اُور پندرہ دن‘‘ قطعی معمولی عرصہ نہیں۔ اَگر اِن ’’1415 ایام‘‘ کی قدروقیمت کا احساس کر لیا گیا ہوتا تو آج پشاور کی یہ حالت نہ ہوتی۔ چودہ سو پندرہ دنوں میں سے اگر تمام سرکاری اور ہفتہ وار تعطیلات منہا بھی کر لی جائیں تو بھی 960 دن (ورکنگ ڈیز) میں بہت کچھ ایسا ممکن بنایا جا سکتا تھا‘ جس سے پشاور کو اُس کا شاندار ماضی جیسی صاف ستھری‘ معطر آب و ہوا نہ سہی لیکن کم سے کم ایک ایسا ’جدید شہر‘ ضرور بنایا جا سکتا تھا‘ جس کی پاکستان میں مثال نہ ملتی!

’’پشاور ہیرٹیج ٹریل‘‘ کے ذریعے پشاور کی ترقی کا ’سہانا خواب‘ ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ 

تاریخ و ثقافت اُور آثار قدیمہ کی حفاظت اور اِن کی شان و شوکت بحال کرنے کے لئے ’پائیدار و متوازی ترقی‘ کے جو ’’نئے اہداف‘‘ (بلندبانگ دعوے) مقرر (ارشاد) کئے گئے ہیں‘ اُن کی کامیابی کے لئے ڈھیروں دعاؤں اور تمناؤں کے ساتھ‘ تحریک انصاف کی مرکزی و صوبائی قیادت سے دست بستہ عرض ہے کہ آئندہ عام انتخابات اگر اپنے مقررہ وقت پر ہوئے اور پانامہ پیپرز سے متعلق سپرئم کورٹ کا فیصلہ قبل ازوقت عام انتخابات کا مؤجب نہ بنا تو اُن کے پاس (صوبائی حکومت کی) کارکردگی دکھانے کے لئے صرف اور صرف 390 دن باقی ہیں اور اِن 9360 گھنٹوں کے ہر پل کا اگر درست (مؤثر) استعمال کر لیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ’پشاور‘ سے صوبائی اسمبلی کی گیارہ نشستیں آئندہ بھی تحریک انصاف ہی کے حصے میں آئیں گی بصورت دیگر پانچ سالہ آئینی مدت (کم و بیش 1825 دن) کے اختتام اور نئے انتخابی نتائج کے بعد ہاتھ ملنے اور ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کے سوأ کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا‘ 

بلاشک و شبہ بہت سا وقت قومی سیاست‘ داخلی اختلافات اور حسب روایت اختیارات اور سرکاری وسائل سے محظوظ ہونے میں ضائع کر دیا گیا لیکن دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ باقی ماندہ دنوں (مہلت) کے ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد دورانیئے پر مبنی ہر ایک منٹ سے کماحقہ استفادہ کیا جائے‘ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی!