ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور: مسائل اُور جزوی حل!
دو شعبان المعظم (اٹھائیس اپریل) کی شام‘ ٹھنڈی ہواؤں اور بعدازاں بوندا باندی سے ہوئے خوشگوار موسم نے استقبال کیا لیکن خوشی و مسرت کی یہ گھڑیاں زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوسکیں اور موٹروے سے براستہ چغل پورہ پشاور شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہی ’گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ)‘ کے اطراف پر وہ باقی ماندہ ترقیاتی کام آنکھوں میں چھبنے لگا‘ جو شاہراہ (خیابان) کی توسیع کا حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن جب تک ’جی ٹی روڈ‘ کی ذیلی سڑکوں کی اونچائی کے برابر یا اُس سے بلند اور آبی گزرگاہوں کو شہر کے اطراف میں نالوں کی سطح کے تناسب سے مرتب نہیں کیا جائے گا‘ اُس وقت تک تارکول اور بجری کی جتنی پرتیں بھی ڈال دی جائیں‘ اُس سے چند ہفتوں کے لئے ’بلیک ٹاپنگ (خوبصورتی)‘ کے سوأ کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہی وہ عرصہ ہوتا ہے جب حکومت کی نیک نامی کے لئے تنخواہ دار تشہیرکار سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر ’تبدیلی آ گئی ہے!‘ کے نعروں کے ساتھ تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے جو منظرکشی کرتے ہیں‘ وہ چند ہفتوں بعد خودبخود تحلیل ہو جاتی ہے!
پشاور کا عمومی منظرنامہ یہ ہے کہ اُن علاقوں کی ظاہری ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے‘ جو ’جی ٹی روڈ‘ کے ساتھ ساتھ ہیں اور جن پر بیرون ملک یا بیرون شہر سے آئے سیاسی قائدین چند گھنٹوں کا سفر کرتے ہوئے ’عش عش کر اُٹھتے ہیں!‘ لیکن اگر ’جی ٹی روڈ‘ کے اطراف میں چغل پورہ سے لیکر سکندر ٹاؤن اور نشترآباد کی متصل گلی کوچوں کا رخ کیا جائے تو ’ترقی کا پول کھل جائے گا۔‘ بھروسہ‘ اُمید‘ سادگی اُور ثمر ملاحظہ کیجئے کہ مئی دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے موقع پر پشاور کے مرکزی بیشتر شہری علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون (NA-1) پر 3 لاکھ 20 ہزار 581 رجسٹرڈ ووٹرز نے 17 انتخابی اُمیدواروں کے مقابلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو 90ہزار 500 ووٹ دے کر کامیاب کیا لیکن اُنہوں نے نہ صرف ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لے کر یہ نشست ’عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)‘ کو بصدشکریہ واپس کر دی بلکہ پشاور کو اپنی ترجیحی فہرست بھی نکال دیا اور اگر یہ تاثر باطل ہوتا تو جتنی راتیں اور دن خان صاحب نے خیبرپختونخوا کے پرفضا مقام نتھیاگلی کی سرکاری رہائشگاہ اور سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے بسر کی ہیں‘ اُن کا ایک چوتھائی بھی پشاور کو نصیب نہیں ہوا۔ خان صاحب کو سوچنا چاہئے کہ اُنہوں نے اہل پشاور کے اعتماد کو کتنی ٹھیس پہنچائی ہے اور کس طرح اُس کے مفادات کو اپنی سیاسی ترجیحات کے آگے قربان کردیا ہے! خوداعتمادی کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اس قدر خوداعتمادی بھی نہیں ہونی چاہئے کہ انسان اپنے آپ پر ہی عاشق ہو جائے اور اُسے اپنی غلطیوں کا احساس تک نہ ہو!
پشاور کی سیروسیاحت یا کسی ضرورت کے لئے ’بہ امر مجبوری‘ یہاں آنے والوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ بالخصوص مقامی افراد (گزربسر کرنے والوں) کی طرح جنرل بس اسٹینڈ اور پشاور بس ٹرمینل سے ہوتے ہوئے گلبہار کی جانب ایک ’شارپ‘ موڑ کاٹتے ہوں گے‘ جہاں چند ہی سیکنڈ میں ٹوٹی ہوئی سڑک کے ٹکڑے (حصے)‘ تالاب کی صورت کھڑے بارش اور نکاسئ آب کی گندگی‘ انواع و اقسام کی وال چاکنگ اور ایک ایسی ’فٹ پاتھ‘ سے واسطہ پڑتا ہے‘ جس پر کھلے ’مین ہول‘ شکار کے اِنتظار میں منہ کھولے ایک قطار میں باآسانی شمار کئے جا سکتے ہیں! نشترآباد کا یہ حصہ گلبہار کو جی ٹی روڈ سے ملاتا ہے‘ جس پر دن رات ٹریفک کا مستقل دباؤ رہتا ہے اور چند قطرے بارش کی صورت بھی یہ پوری پٹی اِس حد تک زیرآب آ جاتی ہے کہ ’کریمی ہاؤس‘ سے ’کریمی مسجد‘ تک چند قدم پیدل چلنا ممکن نہیں رہتا۔ عرصہ بیس برس سے زائد نکاسئ آب کے اِس دیرینہ مسئلہ کی شدت میں اضافہ ’جی ٹی روڈ‘ کی کشادگی و توسیع کے سبب قرار دیا جاتا ہے کہ جب ’جی ٹی روڈ‘ بنانے والوں کو اس قدر جلدی تھی کہ عجلت میں اُنہوں نے گلبہار کی جانب سے آنے والے پانی کا راستہ ایک ایسی نالی کی صورت موڑ دیا‘ جس کی گنجائش روزمرہ بہاؤ کو جزوی طور پر سمونے کے لئے ہی ناکافی تھی کجا کہ اُس پر بارش یا بارشوں کے موسم میں کلی انحصار کیا جاتا۔
پشاور کی ترقی کا یہ پہلو نہایت ہی تکلیف دہ (بلکہ مسائل کی جڑ) ہے کہ فیصلہ سازوں نے ظاہری خوبصورت پر زیادہ اور ضروریات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی‘ جس سے قدرتی ماحول بھی متاثر ہو رہا ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے حصے میں اِس قسم کے خودغرض اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ تجربہ کار اُور بڑے بڑے انتظامی عہدوں پر فائز مراعات ہی مراعات پانے والے ’بدعنوان‘ پائے جاتے ہوں کہ جن کی کارکردگی ’چیچک زدہ سڑکیں‘ اُور دیگر ایسی تعمیرات ہیں‘ جو کسی ایک ہی صوبائی یا وفاقی (چند سالہ) حکومتی دور بمشکل کاٹ پاتی ہیں! جن اراکین قومی‘ صوبائی اُور سینیٹرز کی سفارش پر ترقیاتی کام مکمل ہوتے ہیں اور جن کے ناموں کی رنگ برنگی تختیاں (سرکاری خرچ سے) ترقیاتی منصوبوں پر آویزاں کی جاتی ہیں‘ نجانے کس قانون اُور مصلحت کے تحت اُنہوں نے بھی دن دیہاڑے ہونے والی اِس لوٹ مار پر خاموشی (تجاہل عارفانہ) اختیار کر رکھی ہے۔
اگر پاکستان میں احتساب اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے ادارے فعال ہوتے تو سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ سازوں کی اکثریت جیلوں میں ہوتی! کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ سرکاری وسائل سے اپنی اپنی جماعتی و سیاسی وابستگی کی نمائش کرسکتا کیونکہ ایسا کرنے والے اگر کسی ترقیاتی منصوبے کی تکمیل و معیار (پائیداری) کے لئے ذمہ دار نہیں تو پھر اُن سے ’ترقیاتی سفارش‘ کا حق بھی چھین لینا چاہئے اُور (اگر ہنسی ضبط ہو سکے لیکن مسکراہٹ کی گنجائش کے ساتھ یہ مطالبہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک اُور اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر پشاور میں ترقی کے نام پر جاری ’مار دھاڑ (وارداتوں)‘ کا نوٹس لیں جو ’نامکمل و ناپیدار‘ ہے اُور جس کی ساخت میں کم سے کم موجودہ آبادی کی ضروریات پورا کرنے کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔
اصولی طور پر‘ تو ترقی کا عمل آئندہ دس بیس یا پچاس برس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب ہونا چاہئے لیکن ہمارے ہاں ’وقتی مسائل‘ کے ’وقتی حل‘ بھی اگر عملاً ناکافی ثابت ہو رہے ہیں تو اِس ’طرزعمل‘ کے جاری رہنے کا ماسوائے اِس کے کوئی جواز نہیں لیکن یہ کہ ماضی کی طرح آج بھی عام انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے والے یقیناًگھاٹے (خسارے) میں نہیں!