ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
اظہار رائے: گھٹن جو دل کی رہی .... !
دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار رائے اُور معلومات کے آزادانہ پھیلا ؤمسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے۔ کسی موضوع پر مختلف شعبوں کے ماہرین اُور عوام کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی فیصلہ سازی ہو رہی ہے تاکہ طرزحکمرانی میں موجود خرابیاں دور کی جا سکیں لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ 1: ’سوشل میڈیا‘ صارفین ناکافی معلومات کی بنا پر خبریں اُور تبصرے تخلیق کرتے ہیں۔ 2: ’ناکافی معلومات‘ کو ’غلط معلومات‘ سمجھا جاتا ہے۔ 3: ’غلط معلومات‘ کو ’جعلی خبریں‘ کہا جاتا ہے اُور 4: اِن مبینہ جعلی خبروں کو روک تھام کے لئے قانون سازی جیسا انتہائی اقدام اپنی جگہ تنقید کی زد میں ہے۔ ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے المعروف پیکا)“ کسی پینڈورا باکس جیسا ہے کہ جس میں صرف اختلاف رائے ہی نہیں بلکہ رائے بھی زیرعتاب آ چکی ہے جس کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے اُور پیکا کے تحت ہر قسم کی تعزیری کاروائی یا گرفتاریوں پر پابندی عائد کی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عام آدمی کی مشکلات اُور توقعات یہ ہیں کہ حکومت اِس کے بنیادی مسائل جیسا کہ مہنگائی اُور بیروزگاری پر توجہ دے اُور معیشت و معاشرت کی فعالیت کے ساتھ کلیدی شعبوں کی بحالی کے لئے کوششیں کی جائیں لیکن ابلاغ سے متعلق امور سے چھیڑچھاڑ ناقابل یقین و ناقابلِ فہم ہے۔
افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ایسا پہلا مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی حکومت نے اختلاف رائے اُور رائے کو روکنے کی کوشش کی ہو اُور اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے ادارے اِن سے جڑے نمائندے گھٹن‘ چھبن اُور تھکن محسوس کر رہے ہوں! ”گھٹن تو دل کی رہی قصر مرمریں میں بھی .... نہ روشنی سے ہوا کچھ‘ نہ کچھ ہوا سے ہوا (خالد حسن قادری)۔“
پاکستان میں آزادی اظہار سے متعلق جاری بحث و مباحثہ جو قانون سازی کے عمل سے لیکر سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرنے جیسی وسیع ہے‘ تو اِس کا مفید پہلو بھی ہے اُور وہ یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے اُور صحافی جہاں جہاں غلطی کر رہے ہیں اُور اِن کی غطلیوں یعنی ناکافی معلومات سے فرضی خبریں تخلیق ہو رہی ہیں یا ملک و شخصیات اُور اہم اداروں کا غلط تاثر اُبھر رہا ہے تو وقت ہے کہ ہر فریق اپنے گریبان میں جھانکے اُور اپنی اصلاح (خوداحتسابی) کے جذبے سے کرے۔ یہ بات ہر کوئی دل سے جانتا ہے کہ ”سب اچھا“ نہیں ہے۔ اگر طرزحکمرانی میں خامیاں ہیں تو اِس طرزحکمرانی کے قیام بھی حسب حال (حسب ضرورت کم خرچ بالانشین) نہیں۔ اُنیس سو اَسی کی دہائی میں جب معلومات اُور خبروں پر سرکاری ادارے نظر رکھتے تھے تو اُس سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے غیرملکی نشریاتی ادارے فعال ہوئے جن میں سرفہرست برطانوی نشریاتی ادارہ ’بی بی سی‘ تھا اُور سرشام ہی بی بی سی کی ریڈیو نشریات (میڈیم ویو) پر حاصل کرنے کی تگ و دو شروع ہو جاتی کیونکہ اُس وقت بہت کم لوگوں کے پاس اچھی قسم کے ٹرانسٹرز (شارٹ ویو ریڈیو) ہوا کرتے تھے۔ معلومات جمع کرنے سے اِن کی تقسیم تک کا وہ دور آج کے مقابلے نسبتاً کم پیچیدہ تھا کہ معلومات کسی ایک ذریعے سے آ رہی ہوتی تھیں جبکہ آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے ’سوشل میڈیا سیل‘ بنا رکھے ہیں اُور سوشل میڈیا رضاکاروں کے ساتھ سرعام ملاقاتیں بھی کی جاتی ہیں۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سوشل میڈیا سیلز (ٹیموں) کے قول و فعل کی ذمہ داری نہیں لیتیں لیکن اُن کی کارکردگی کی تائید و تعریف کرتی ہیں! سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ’سیربین‘ کے دور میں واپس جانے کی تیاری کر رہے ہیں؟
سوشل میڈیا کے دور میں معلومات کے ذرائع محدود نہیں رہے اُور یہی ایک بات فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہو گی کہ وہ جس قدر پابندیاں عائد کریں گے‘ یہ سلسلہ اُتنا ہی زیادہ پھیلتا چلا جائے گا اُور اِس سے اُٹھنے والی معلومات کی آندھی طوفان سائبیریا سے آنے والی ہواو¿ں کی طرح‘ غیرملکی ذرائع ابلاغ فائدہ اُٹھائیں گے اُور یہ پاکستان کے سیاسی موسموں پر اثرانداز ہوں گے‘ جو ایسی تبدیلیوں کا باعث ہوگا‘ جس کی فیصلہ ساز خواہش نہیں رکھتے اُور نہ ہی اِس کا درست اندازہ لگا رہے ہیں! کیا واٹس ایپ گروپوں اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر مواد کا تبادلہ (شیئرنگ) روکی جا سکتی ہے اُور بے لگام سوشل میڈیا صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کے سنجیدہ طبقات کے لئے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ سوشل میڈیا کی اصلاح اختلاف رائے پر پابندی سے نہیں بلکہ اختلاف رائے کی زیادہ بڑے پیمانے پر آزادی دینے سے ممکن ہے۔ یہ تصور سننے میں ناقابل ہضم و ناقابل عمل ہے لیکن اگر معلومات کا جواب معلومات سے دینے کے لئے فعال نظام اُور شعور اُجاگر کیا جائے تو ایسی بہت سی قباحتیں ہیں جن کی اصلاح ہو جائے گی کیونکہ وہ لاعلمی یا کم خواندگی کی وجہ سے ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کو نصاب ِتعلیم کا حصہ بناتے ہوئے اِس کی اخلاقی حدود و قیود اُور اثرات کے بارے اگر نوجوان نسل کو بتایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کورونا جرثومے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے اُور نسبتاً زیادہ مہلک اِس معلومات کا سیلاب اُنہی حاسدوں کو بہا کر لے جائے جو اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے نہ صرف قومی شخصیات اُور اہم قومی اداروں کی ساکھ بلکہ ملک کی سلامتی کے بھی درپے (دشمن) دکھائی دیتے ہیں۔
....
Clipping from Daily Aaj Feb 24th, 2022 Thursday |