Thursday, February 24, 2022

TRUTH MATTERS or Truth that matter!?

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

اظہار رائے: گھٹن جو دل کی رہی .... !

دنیا سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار رائے اُور معلومات کے آزادانہ پھیلا ؤمسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے۔ کسی موضوع پر مختلف شعبوں کے ماہرین اُور عوام کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی فیصلہ سازی ہو رہی ہے تاکہ طرزحکمرانی میں موجود خرابیاں دور کی جا سکیں لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ 1: ’سوشل میڈیا‘ صارفین ناکافی معلومات کی بنا پر خبریں اُور تبصرے تخلیق کرتے ہیں۔ 2: ’ناکافی معلومات‘ کو ’غلط معلومات‘ سمجھا جاتا ہے۔ 3: ’غلط معلومات‘ کو ’جعلی خبریں‘ کہا جاتا ہے اُور 4: اِن مبینہ جعلی خبروں کو روک تھام کے لئے قانون سازی جیسا انتہائی اقدام اپنی جگہ تنقید کی زد میں ہے۔ ”پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے المعروف پیکا)“ کسی پینڈورا باکس جیسا ہے کہ جس میں صرف اختلاف رائے ہی نہیں بلکہ رائے بھی زیرعتاب آ چکی ہے جس کے خلاف عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے اُور پیکا کے تحت ہر قسم کی تعزیری کاروائی یا گرفتاریوں پر پابندی عائد کی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عام آدمی کی مشکلات اُور توقعات یہ ہیں کہ حکومت اِس کے بنیادی مسائل جیسا کہ مہنگائی اُور بیروزگاری پر توجہ دے اُور معیشت و معاشرت کی فعالیت کے ساتھ کلیدی شعبوں کی بحالی کے لئے کوششیں کی جائیں لیکن ابلاغ سے متعلق امور سے چھیڑچھاڑ ناقابل یقین و ناقابلِ فہم ہے۔

 افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ ایسا پہلا مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی حکومت نے اختلاف رائے اُور رائے کو روکنے کی کوشش کی ہو اُور اِس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کے ادارے اِن سے جڑے نمائندے گھٹن‘ چھبن اُور تھکن محسوس کر رہے ہوں! ”گھٹن تو دل کی رہی قصر مرمریں میں بھی .... نہ روشنی سے ہوا کچھ‘ نہ کچھ ہوا سے ہوا (خالد حسن قادری)۔“

پاکستان میں آزادی اظہار سے متعلق جاری بحث و مباحثہ جو قانون سازی کے عمل سے لیکر سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرنے جیسی وسیع ہے‘ تو اِس کا مفید پہلو بھی ہے اُور وہ یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے اُور صحافی جہاں جہاں غلطی کر رہے ہیں اُور اِن کی غطلیوں یعنی ناکافی معلومات سے فرضی خبریں تخلیق ہو رہی ہیں یا ملک و شخصیات اُور اہم اداروں کا غلط تاثر اُبھر رہا ہے تو وقت ہے کہ ہر فریق اپنے گریبان میں جھانکے اُور اپنی اصلاح (خوداحتسابی) کے جذبے سے کرے۔ یہ بات ہر کوئی دل سے جانتا ہے کہ ”سب اچھا“ نہیں ہے۔ اگر طرزحکمرانی میں خامیاں ہیں تو اِس طرزحکمرانی کے قیام بھی حسب حال (حسب ضرورت کم خرچ بالانشین) نہیں۔ اُنیس سو اَسی کی دہائی میں جب معلومات اُور خبروں پر سرکاری ادارے نظر رکھتے تھے تو اُس سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے غیرملکی نشریاتی ادارے فعال ہوئے جن میں سرفہرست برطانوی نشریاتی ادارہ ’بی بی سی‘ تھا اُور سرشام ہی بی بی سی کی ریڈیو نشریات (میڈیم ویو) پر حاصل کرنے کی تگ و دو شروع ہو جاتی کیونکہ اُس وقت بہت کم لوگوں کے پاس اچھی قسم کے ٹرانسٹرز (شارٹ ویو ریڈیو) ہوا کرتے تھے۔ معلومات جمع کرنے سے اِن کی تقسیم تک کا وہ دور آج کے مقابلے نسبتاً کم پیچیدہ تھا کہ معلومات کسی ایک ذریعے سے آ رہی ہوتی تھیں جبکہ آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے ’سوشل میڈیا سیل‘ بنا رکھے ہیں اُور سوشل میڈیا رضاکاروں کے ساتھ سرعام ملاقاتیں بھی کی جاتی ہیں۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سوشل میڈیا سیلز (ٹیموں) کے قول و فعل کی ذمہ داری نہیں لیتیں لیکن اُن کی کارکردگی کی تائید و تعریف کرتی ہیں! سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ’سیربین‘ کے دور میں واپس جانے کی تیاری کر رہے ہیں؟ 

سوشل میڈیا کے دور میں معلومات کے ذرائع محدود نہیں رہے اُور یہی ایک بات فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہو گی کہ وہ جس قدر پابندیاں عائد کریں گے‘ یہ سلسلہ اُتنا ہی زیادہ پھیلتا چلا جائے گا اُور اِس سے اُٹھنے والی معلومات کی آندھی طوفان سائبیریا سے آنے والی ہواو¿ں کی طرح‘ غیرملکی ذرائع ابلاغ فائدہ اُٹھائیں گے اُور یہ پاکستان کے سیاسی موسموں پر اثرانداز ہوں گے‘ جو ایسی تبدیلیوں کا باعث ہوگا‘ جس کی فیصلہ ساز خواہش نہیں رکھتے اُور نہ ہی اِس کا درست اندازہ لگا رہے ہیں! کیا واٹس ایپ گروپوں اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر مواد کا تبادلہ (شیئرنگ) روکی جا سکتی ہے اُور بے لگام سوشل میڈیا صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کے سنجیدہ طبقات کے لئے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ سوشل میڈیا کی اصلاح اختلاف رائے پر پابندی سے نہیں بلکہ اختلاف رائے کی زیادہ بڑے پیمانے پر آزادی دینے سے ممکن ہے۔ یہ تصور سننے میں ناقابل ہضم و ناقابل عمل ہے لیکن اگر معلومات کا جواب معلومات سے دینے کے لئے فعال نظام اُور شعور اُجاگر کیا جائے تو ایسی بہت سی قباحتیں ہیں جن کی اصلاح ہو جائے گی کیونکہ وہ لاعلمی یا کم خواندگی کی وجہ سے ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کو نصاب ِتعلیم کا حصہ بناتے ہوئے اِس کی اخلاقی حدود و قیود اُور اثرات کے بارے اگر نوجوان نسل کو بتایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کورونا جرثومے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے اُور نسبتاً زیادہ مہلک اِس معلومات کا سیلاب اُنہی حاسدوں کو بہا کر لے جائے جو اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کے لئے نہ صرف قومی شخصیات اُور اہم قومی اداروں کی ساکھ بلکہ ملک کی سلامتی کے بھی درپے (دشمن) دکھائی دیتے ہیں۔ 

....

Clipping from Daily Aaj Feb 24th, 2022 Thursday


Friday, February 18, 2022

The Socio-Economic & Political Rights of Persons with Disabilities.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

خصوصی افراد : حقوق اُور استحقاق

چوبیس مئی دوہزاراٹھارہ: سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ”پرسنز ود ڈس ایبلٹیز بل 2018ئ“ نامی قانون منظور کیا جسے ’سات جون دوہزاراٹھارہ‘ سے سندھ بھر میں لاگو کر دیا گیا۔ مذکورہ قانون 13 دسمبر 2006ءکے روز اقوام متحدہ کے منظورکردہ ’افراد باہم معذور‘ کے حقوق سے متعلق خصوصی معاہدے‘ موتمر یا عہدوپیمان (کنوینشن) میں دیئے گئے اصولوں کی روشنی میں بنایا گیا اُور اِس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ریاست کسی بھی شخص بالخصوص معذور افراد سے امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ معذور افراد کو مراعات دی جائیں گی تاکہ وہ دیگر معاشرے کے دیگر طبقات کے مساوی‘ ہم پلہ اُور شانہ بشانہ قومی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا سکیں۔ (یہ قانون سندھ حکومت کی ویب سائٹ sind.gov.pk سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کیا جا سکتا ہے۔

دس جنوری دوہزاربیس: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شریں مزاری نے قومی اسمبلی میں مسودہ قانون بعنوان ”آئی سی ٹی رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبلٹی ایکٹ 2020ء“ جمع کروایا اُور فروری 2020ءمیں قومی اسمبلی نے 14 صفحات پر مشتمل اِس قانون کو منظور کر لیا جس کا بنیادی نکتہ پاکستان کے آئین میں مذکور معذور افراد کے انسانی حقوق کی ادائیگی اُور اِنہیں معاشرے میں باعزت مقام اُور یکساں تعلیم و تربیت اُور ترقی کے موقع فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ قانون اگرچہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود (اسلام آباد کپیٹل ٹریٹی) سے متعلق ہے لیکن چونکہ یہ پاکستان کے آئین کی مختلف شقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معذور افراد کے حقوق کی نشاندہی اُور ادائیگی کی غرض سے بنایا گیا ہے اِس لئے وفاق کی اکائیاں (چاروں صوبے‘ آزاد کشمیر اُور گلگت بلتستان) اگر چاہیں تو اِس سے رہنمائی لے سکتی ہے کیونکہ یہ 220 مربع کلومیٹر پر پھیلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد یا اِس کی قریب ’بارہ لاکھ‘ آبادی کے لئے مخصوص تو ہے لیکن اِس کی جامعیت و معنویت متقاضی ہے کہ اِس سے صوبائی حکومت بھی رہنمائی لیں اُور اِس آئینے میں اپنے ہاں معذور افراد کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ مذکورہ قانونی دستاویز قومی اسمبلی کی ویب سائٹ (na.gov.pk) سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قومی اسمبلی 1981ءمیں خصوصی افراد کی بہبود‘ اِن کے ملازمتی حقوق اُور اِن کی بحالی کے لئے حکومتی امداد کا قانون منظور کر چکی ہے جس کے تحت معذور افراد کے ’آئینی حقوق‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِن حقوق کی ادائیگی کا عہد کیا گیا۔

اکتیس اکتوبر دوہزاراکیس: صوبہ پنجاب کے وزیر برائے سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) اُور بیت المال سیّد یاور عباس بخاری نے ’معذور افراد‘ سے متعلق مسودہ قانون صوبائی اسمبلی میں جمع کروانے کا اعلان کیا‘ جس کا بنیادی نکتہ خصوصی افراد کے ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے انہیں سماجی‘ سیاسی اقتصادی طور پر بااختیار بنانا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں تھا کہ اِس سے قبل پنجاب میں خصوصی افراد سے متعلق قانون موجود نہیں تھا بلکہ 6 اپریل 2015ءکے روز پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے خصوصی افراد کو بااختیار بنانے اُور اِن کی بحالی سے متعلق ایک ترمیمی بل منظور اُور بعدازاں اِسے پورے صوبے پر لاگو کر دیا تھا۔ مذکورہ قانون پنجاب حکومت کی ویب سائٹ (punjablaws.gov.pk) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ )کی جا سکتی ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان میں معذور افراد کے حقوق سے متعلق صوبائی اُور وفاقی سطح پر قانون سازی ہر جمہوری و غیرجمہوری دور ِحکومت میں ہوتی رہی ہے بلکہ غیرجمہوری اُور آمرانہ ادوار کی خاص بات یہ ہے کہ اِس دوران قانون سازی کم لیکن معذور افراد کے حقوق کی عملاً ادائیگی بہرحال زیادہ دیکھنے میں آئی۔ حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت معذور افراد کے بارے میں نیا قانون لائی ہے تاہم 2021ءمیں پیش کردہ اِس قانون کو فوری لاگو کرنے کے لئے حکومت پر ’لاہور ہائی کورٹ‘ کا شدید دباؤ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے عوامی مفاد کی 2 درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے سماعت کے دوران صوبائی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ”دی پنجاب ایمپاورمنٹ آف پرسنز ود ڈیفرنٹ ایبلی ٹیز ایکٹ 2021ئ“ کو اِس کی روح کے مطابق لاگو کر کے عدالت کو مطلع کرے۔ یہ مقدمہ معذور خاتون وکیل ثناءخورشید اُور ’جوڈیشل ایکٹوازم پینل‘ نامی وکلاکی تحریک کے سربراہ اظہر صدیقی نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر رکھا ہے۔ سماعت کے دوران ایک مرحلے پر عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ ہر معاملے میں قانون سازی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ صوبائی حکومت سماجی بہبود‘ بیت المال اُور دیگر فلاحی حکومتی اداروں کے قواعد (رولز آف بزنس) میں تبدیل کر کے بھی معذور افراد کے حقوق کی ادائیگی کر سکتی ہے لیکن اگر نیت اُور ارادہ موجود ہو۔ 

سیاسی جماعتوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں اَفراد باہم معذور کے حقوق تسلیم کرتی ہے اُور برسراقتدار آنے کے بعد اِن حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کرتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ معذور افراد کے بارے اصلاحات قانون سازی اُور اِس قانون سازی کی روشنی میں قواعد سازی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنماؤں یا کلیدی فیصلہ سازوں پر مشتمل اسٹیئرنگ یا کور کمیٹی میں معذور افراد کی نمائندگی دکھائی نہیں دیتی اُور نہ ہی یہ سیاسی جماعتیں خصوصی افراد کو قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نمائندگی اُور سہارا دیتے ہیں۔ یقینا معذور افراد سے متعلق قانون سازی بھی اہم ہے لیکن یہ خصوصی افراد تعلیم و تربیت کے شعبے میں خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کی کوششوں سے یکساں نصاب ِتعلیم ملک بھر میں مرحلہ وار لاگو ہونے کے عمل کا آغاز ہوا ہے لیکن اِس مرحلے پر بھی ’افراد باہم معذور‘ کے لئے نصاب ِتعلیم و تربیت پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ خصوصی افراد کے حقوق کی ادائیگی کا ”آسان طریقہ“ یہ ہے کہ اِنہیں مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) میں شریک سفر کیا جائے اُور جس طرح مزدور کسان نوجوان خواتین اُور اقلیتوں کی سرپرستی کی گئی ہے اِسی طرح خصوصی افراد کے لئے کم سے کم ضلعی سطح پر ایک نشست مختص کی جائے کیونکہ یہ افراد دیگر لوگوں کی طرح ”رابطہ عوام مہم“ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اِن کی اکثریت مالی طور پر مستحکم بھی نہیں ہوتی اُور جس قدر بھی خودانحصار ہوں لیکن اِنہیں روزمرہ امور میں توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان کے کل 160 اضلاع ہیں۔ اگر قومی سطح پر ایک سو ساٹھ اضلاع سے افراد باہم معذور بطور بلدیاتی نمائندے ضلعی فیصلہ سازی میں شامل کئے جائیں تو اِس سے صوبائی اُور وفاقی سطح پر سماجی بہبود اُور بیت المال کے اداروں کا کام کاج نہایت ہی آسان ہو جائے گا اُور قومی سطح پر ’خصوصی افراد‘ کے حقوق کی ادائیگی ایسی مثالی صورت میں عملاً ممکن بھی ہو جائے گی‘ جس کا پاکستان نے عالمی برادری سے وعدہ کر رکھا ہے اُور اگر معذور افراد سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق کی ادائیگی بطور ترجیح کی جائے تو اِس اقدام سے اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی عالمی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی۔ 

....


Monday, February 7, 2022

Fading entertainment: Film, Cinema, Culture and Censorship

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

فلم و ڈرامہ : تفریح و ثقافت

اگست دوہزارتیرہ: محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا نے پشتو میں بنائی گئی 5 فلموں کی صوبے کے کسی بھی حصے میں نمائش نہ کرنے سے متعلق ایک ناقابل فہم پابندی کا اعلان کیا‘جبکہ پشتو کی سبھی فلموں میں کم و بیش ایک جیسا مواد ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ فلم کی کہانی (روداد) جو بھی ہو لیکن اِس میں ایک خاص تناسب سے تشدد‘ اسلحے کا استعمال‘ موسیقی‘ رقص‘ ذو معنی مزاحیہ جملے (ڈائیلاگ) اُور کردار چست کپڑوں کا استعمال فلم شائقین کے ذوق و شوق کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بہرحال پابندی کا شکار ہونے والی پانچ مجموعات میں زما اَرمان (میری خواہشات)‘ بھنگی لیلی (نشے کی لت)‘ لوفر (لااُبالی‘ کسول کردار)‘ شرط اُور قربانی نامی فلمیں شامل تھیں‘ جن میں ’زما ارمان‘ عیدالفطر کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی اُور اِس فلم نے آمدنی و مقبولیت کے لحاظ سے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مذکورہ پابندی ’موشن پکچرز ایکٹ 1979ئ‘ کی چوتھی شق کے مطابق عائد کی گئی لیکن مضحکہ خیز امر یہ تھا کہ دو سینما ہالوں میں ’زما اَرمان‘ نامی فلم کی کئی ہفتوں سے جاری نمائش کے بعد عائد کی گئی پابندی کے بعد فلم سینما ہال کے علاؤہ دیگر تشہیری ذرائع سے نمائش ہو رہی ہے جس میں ’یو ٹیوب (YouTube)‘ بھی شامل ہے جہاں اِس فلم کو 10 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ یہاں دو نکات لائق توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگرچہ سینما ہالز ختم ہو رہے اُور صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی سینما ہالوں کا ذکر اب تاریخ کی کتب میں ملتا ہے جیسا کہ جون 2019ءمیں صدر بازار کے معروف ’کپیٹل سینما‘ کی بلڈنگ مسمار کر دی گئی کیونکہ بیس برس تک کاروبار نہیں تھا۔ ذہن نشین رہے کہ صدر (چھاؤنی) کی حدود میں 3 سینما گھر ہوا کرتے تھے اُور اِن تینوں (کپیٹل سینما‘ فلک سیر سینما اُور پی اے ایف سینما) کو مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ایک کر کے ختم کر دیا گیا۔ فلک سیر سینما جون 2006ءمیں ختم کی گئی جہاں اب کثیرالمنزلہ شاپنگ پلازہ کھڑا ہے۔ اِس سینما ہال کو منہدم کرنے کے لئے عدالت سے رجوع بھی کیا گیا اُور عدالت نے فوری کاروائی کرتے ہوئے حکم امتناعی (سٹے آڈر) بھی جاری کیا تھا لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ 

سینما ہالوں کے مالکان کا شمار مالی و سیاسی طور پر بااثر افراد میں ہوتا ہے جن کے خلاف حکومتی اہلکار خاطرخواہ شدت کے ساتھ قوانین و قواعد کے مطابق کاروائی نہیں کرتے۔ حسب قانون کسی سینما ہال کی عمارت کو منہدم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک ایک کر کے پشاور کے معروف سینما ہال ختم کئے گئے اُور جو سینما ہال موجود ہیں اُن میں فلموں کی نمائش پر پابندیاں عائد کی گئیں تو اندیشہ ہے کہ اُن کی بھی راتوں رات ’اینٹ اینٹ‘ الگ کر دی جائے گی۔ کپیٹل سینما کو منہدم کرنے سے پانچ چھ ماہ قبل فلموں کی نمائش کے لئے بند کر دیا گیا تھا اُور اِس عمارت کی تعمیرومرمت سالہا سال سے روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے عمارت مخدوش ہوتی چلی گئی اُور بالآخر اِسے خطرناک قرار دیدیا گیا۔

 پشاور میں کبھی پندرہ سینما ہالز ہوا کرتے تھے جن میں سے صرف سات (ناز‘ ارشد‘ آئینہ‘ تصویر محل‘ پکچر ہاؤس اُور شمع) باقی ہیں جبکہ فردوش (شبستان)‘ فلک سیر‘ پلوشہ‘ ناولٹی‘ میٹرو‘ عشرت‘ صابرینہ‘ پی اے ایف اُور کپیٹل سینما کی عمارتیں تک باقی نہیں رہیں۔ فلم کی صورت پشاور تفریح کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہوا ہے تو اِس کی بنیادی وجوہات میں دہشت گردی‘ کاروباری مفادات‘ کورونا وبا اُور محکمہ ثقافت (حکومتی ادارے) کی عدم دلچسپی ہے۔ فلمیں کسی بھی زبان میں ہوں‘ اُن میں سرمایہ کاری کون کرے گا جبکہ سینما ہال ختم ہو رہے ہوں اُور فلموں کی تیاری اُور سنسربورڈ سے منظوری جیسے مراحل پر نہیں بلکہ اُن کی نمائش پر پابندیاں عائد کی جاتی ہوں!؟

یکم فروری دوہزاربائیس: خیبرپختونخوا کابینہ کے 64ویں اجلاس میں ’موشن پکچرز رولز 2021ئ‘ نامی قانون کی منظوری دی گئی جس کا اطلاق صوبائی سطح پر سینما ہالز یا دیگر میڈیا (سی ڈی یا ڈی وی ڈیز) کے علاؤہ سٹیج ڈراموں اُور شوز پر بھی یکساں ہوگا۔ مذکورہ غیرمعمولی کابینہ اجلاس میں اراکین اسمبلی کے علاؤہ صوبائی چیف سیکرٹری‘ ایڈیشنل چیف سیکرٹری‘ سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو اُور مختلف محکموں کے انتظامی سیکرٹریز بھی شریک تھے اُور اجلاس میں اِس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ”پختون ثقافت کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اِسے نقصان پہنچانے والی فلموں‘ سی ڈی ڈراموں اُور سٹیج شوز میں دکھائے جانے والے صرف زبان و ثقافت کے برخلاف ہی نہیں بلکہ اسلام اُور پاکستان کے دوست ممالک کے خلاف موضوعات یا اِس بارے مواد کی سختی سے جانچ پڑتال (سنسرشپ) کرنے کے بعد اِنہیں نمائش کی اجازت دی جائے۔ کابینہ اجلاس میں صرف یہی نہیں بلکہ درجن سے زائد دیگر فیصلے بھی کئے گئے جن میں حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم ماہانہ تنخواہوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے احکامات بھی شامل تھے۔ 

فیصلہ ساز جن پہلوؤں کو نظرانداز کر رہے ہیں اُس کا تعلق تین نوعیت کے ’زمینی حقائق‘ سے ہے۔

 پہلی حقیقت یہ ہے کہ پشتو فلمیں جس زبان و ثقافت کی ترجمانی یا عکاسی کرتی ہیں‘ وہ یقینا پختونوں کی اکثریت کی بودوباش (طرز زندگی) کا آئینہ دار (عکاس) نہیں لیکن نمائش سے قبل اِن فلموں کی سنسربورڈ سے منظوری لی جاتی ہے اُور چونکہ زیادہ تر فلمیں لاہور (صوبہ پنجاب) میں بنتی ہیں اِس لئے وہاں کے (غیرپختون) سنسر بورڈ سے اجازت نامہ لے لیا جاتا ہے۔ نئے قانون سے لازم ہوگا کہ خیبرپختونخوا میں نمائش کے لئے صوبائی مقامی سنسربورڈ سے منظوری لی جائے۔

دوسری حقیقت یہ ہے کہ پشتو فلموں کے تماش بین اُور اِن میں دکھائے جانے والے مناظر سے محظوظ ہونے والے بھی ایک خاص طبقے اُور سوچ سے تعلق رکھتے ہیں‘ جن کا پشتو زبان و ثقافت جیسے ثقیل و گہرے موضوع سے تعلق نہیں اُور اُن کے فلم صرف اُور صرف تفریح کا ذریعہ ہے جس کی گود میں وہ چند گھنٹے اپنی مشکلات و مسائل سے چھپ کر گزارتے ہیں اُور

یہ حقیقت اپنی جگہ لائق توجہ ہے‘ تفریح طبع کے لئے سینما ہال واحد ذریعہ نہیں رہے بلکہ کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اُور موبائل فونز کے ذریعے ’ویڈیو مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹس‘ جن میں ’یوٹیوب‘ سرفہرست ہے سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔

 فلموں یا سی ڈی ڈراموں میں سرمایہ کاری کرنے والے سینما ہالز اُور کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے تھے لیکن اب آمدنی کا ذریعہ ’آن لائن‘ وسائل بھی ہیں‘ جن میں ’یو ٹیوب‘ کی مونیٹائزیشن کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا نہایت ہی سادہ و آسان اُور منافع بخش عمل ہے۔

 ضرورت اِس امر کی ہے کہ

 1: فلموں اُور ڈراموں کو زبان و ثقافت کی ترجمانی کرنے کی بجائے ”تفریحی مواد“ کی نظر سے دیکھا جائے۔

2: فلموں ڈراموں سے متعلق سنسرشپ کے قوانین و قواعد ہر صوبے کے لئے الگ الگ بنانے کی بجائے قومی سطح پر وضع اُور لاگو کئے جائیں اُور

3: فلموں ڈراموں کے ذریعے اصلاحی کوششوں کے فروغ کے لئے اِس صنعت میں حکومتی مداخلت بصورت منصوبہ بندی اُور سرمایہ کاری ہونی چاہئے۔

ذہن نشین رہے کہ جمہوری اسلامی ایران کی فلمی صنعت کی مثال برائے مطالعہ و دلیل موجود ہے‘ جسے 1990ءکی دہائی (انقلاب اسلامی ایران کے بعد) چین کی مدد سے جدید تکنیکی وسائل سے لیس کیا گیا اُور آج ایران میں بنائی گئی فلمیں‘ ہر سال معروف عالمی اعزازات کے لئے منتخب کی جاتی ہیں اُور ایرانی سینما کئی ایسے اعزازات حاصل بھی کر چکا ہے۔سال 2012ءمیں اصغر فرہادی نامی پروڈیوسر کی عالمی فلم کا معتبر ’آسکر ایوارڈ‘ جیتا تھا جو کسی بھی ’میڈ اِن ایران‘ فلم کا یہ پہلا ’آسکر اعزاز‘ تھا۔

....

 

Clipping from Daily Aaj Peshawar Dated 7 Feb 2022 Monday